القرآن : اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّه ۭ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ [الزمر:٩]
ترجمہ: بھلا ایک شخص جو بندگی میں لگا ہوا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدے کرتا ہوا اور کھڑا ہوا، خطرہ رکھتا ہے آخرت کا اور امید رکھتا ہے اپنے رب کی مہربانی کی, تو کہہ کوئی برابر ہوتے ہیں علم (سمجھ) والے اور بے علم (سمجھ) , سوچتے وہی ہیں جن کو عقل ہے.
فرمانبردار اور نافرمان برابر نہیں ہو سکتے:
یعنی جو بندہ رات کی نیند اور آرام چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں لگا۔ کبھی اس کے سامنے دست بستہ کھڑا رہا، کبھی سجدہ میں گرا۔ ایک طرف آخرت کا خوف اس کے دل کو بیقرار کئے ہوئے ہے اور دوسری طرف اللہ کی رحمت نے ڈھارس بندھا رکھی ہے۔ کیا یہ سعید بندہ اور وہ بدبخت انسان جس کا ذکر اوپر ہوا کہ مصیبت کے وقت خدا کو پکارتا ہے اور جہاں مصیبت کی گھڑی ٹلی خدا کو چھوڑ بیٹھا، دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ایسا ہوتا تو یوں کہو کہ ایک عالم اور جاہل یا سمجھدار اور بیوقوف میں کچھ فرق نہ رہا۔ مگر اس بات کو بھی وہ ہی سوچتے سمجھتے ہیں جن کو اللہ نے عقل دی ہے۔
1 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، أَوِ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارَ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب النَّفَقَاتِ » بَاب فَضْلِ النَّفَقَةِ عَلَى الْأَهْلِ ... رقم الحديث: 4959]
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیواؤں اور مسکین کے لئے محنت اور مزدوری کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا یا رات کو عبادت کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔
Narrated Abu Huraira:
The Prophet said, "The one who looks after a widow or a poor person is like a Mujahid (warrior) who fights for Allah's Cause, or like him who performs prayers all the night and fasts all the day."
تخريج الحديث
2 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي الْإِسْكَنْدَرَانِيَّ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ الْمُطَّلِبِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ " .
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (کامل) مومن خوش خلقی کے سبب وہ درجہ و مرتبہ حاصل کرتا ہے جو (عبادت و ذکر الٰہی کے لئے) شب بیداری کرنے والے اور ہمیشہ دن میں روزہ رکھنے والے کو ملتا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح :
یہاں نفل نماز روزہ مراد ہے، اس لیے بعض نادانوں کا اپنے خود ساختہ اخلاق کو فرض نماز و روزہ سے غافل رہنے اور ترک کرنے کا سبب بنانا بلکل خلاف شریعت اور نفس پرستی پر مبنی ہے. اخلاقی تعلیم دینے ہی نبی کو بھیجا گیا کیونکہ قرآن میں الله نے فرمایا : بیشک نماز بے حیائی (بد اخلاقی) اور برائی سے روکتی ہے[29:45] کیونکہ اس میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور الله کا کلام تقویٰ کا سبب ہے[2:63] اور روزہ فرض اس لئے کیا گیا تاکہ تم تقویٰ حاصل ہو[2:183]
حضرت سہیل فرماتے ہیں کہ خوش خلقی کا سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کیا جائے انتقام لینے سے گریز کیا جائے اور یہ کہ نہ صرف ظالم کے ظلم سے درگزر کیا جائے بلکہ اس کے حق میں مغفرت و بخشش کی دعا کی جائے اور اس کے تئیں رحم و شفقت کو اختیار کیا جائے۔
تشریح :
یہاں نفل نماز روزہ مراد ہے، اس لیے بعض نادانوں کا اپنے خود ساختہ اخلاق کو فرض نماز و روزہ سے غافل رہنے اور ترک کرنے کا سبب بنانا بلکل خلاف شریعت اور نفس پرستی پر مبنی ہے. اخلاقی تعلیم دینے ہی نبی کو بھیجا گیا کیونکہ قرآن میں الله نے فرمایا : بیشک نماز بے حیائی (بد اخلاقی) اور برائی سے روکتی ہے[29:45] کیونکہ اس میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور الله کا کلام تقویٰ کا سبب ہے[2:63] اور روزہ فرض اس لئے کیا گیا تاکہ تم تقویٰ حاصل ہو[2:183]
حضرت سہیل فرماتے ہیں کہ خوش خلقی کا سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کیا جائے انتقام لینے سے گریز کیا جائے اور یہ کہ نہ صرف ظالم کے ظلم سے درگزر کیا جائے بلکہ اس کے حق میں مغفرت و بخشش کی دعا کی جائے اور اس کے تئیں رحم و شفقت کو اختیار کیا جائے۔
تخريج الحديث
|
|
3 - حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ ؟ " قَالُوا : بَلَى ، قَالَ : " صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ ، وَيُرْوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " هِيَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ " .[جامع الترمذي » كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ ... » بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ ... رقم الحديث: 2446]
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو روزے نماز اور صدقے سے افضل ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپس میں محبت اور میل جول اس لئے کہ آپس کا بغض تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپس کی پھوٹ مونڈ دیتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سر کو مونڈ دیتی ہے بلکہ یہ تو دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (یعنی انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے)
Sayyidina Abu Darda (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, "Shall I not inform you of the most excellent degree of fasting and salah and sadaqah”? They said, “Certainly.”He said, “Peace with each other, for, discord with each other is that which shaves."[Ahmed 27578]
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ والصدقہ میں حرف واؤ جمع کے لئے ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ صلح صفائی کرانا ان سب عبادات سے افضل ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ حرف واؤ مفہوم کے اعتبار سے او کے معنی میں ہو اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ صلح صفائی کرانا ان عبادتوں سے افضل ہے حدیث کا جو مقصد ہے یعنی آپس میں دشمنی رکھنے والوں کے درمیان صلح کرانے کی ترغیب دلانا اس کے پیش نظر پہلا قول زیادہ بہتر ہے۔
ملا علی قاری نے بعض حضرات کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حدیث میں صلح کرانے کو جو روزہ، صدقہ اور نماز سے افضل کہا گیا ہے تو یہاں فرض روزہ یا فرض صدقہ یا فرض نماز مراد نہیں ہے بلکہ نوافل مراد ہیں ۔ اس کے بعد ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ میرا کہنا یہ ہے کہ ویسے تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقی معنی مراد کیا ہے لیکن اگر وہ فریقوں کے درمیان پائی جانے والے دشمنی و عداوت کی نوعیت یہ ہو کہ اس کے نتیجہ میں لوگوں کی خون ریزی مال و اسباب کی غارت گری اور عزت و ناموس کی بے حرمتی کا ہونا یقینی ہو تو قیاس کہتا ہے کہ ایسی عداوت و دشمنی کو خمت کرانا اور دونوں فریقوں کے درمیان صلح کرنا مذکورہ فرض عبادات سے بھی افضل ہے کیونکہ اول تو یہ عبادات ایسا عمل ہیں جو کسی وقت چھوٹ جائیں تو ان کی قضا ہو سکتی ہے جب کہ اس عداوت دشمنی کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والی جانیں تباہ برباد ہونے والے مال اسباب اور بے حرمت ہونے والی عزتیں و ناموس کی مکافات ممکن نہیں دوسرے یہ کہ ان عبادات کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور مذکورہ ہلاکت و تباہی کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور اس میں شبہ نہیں ہے کہ بعض اعتبار سے پروردگار کے نزدیک حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد کی اہمیت ہے لہذا اس حقیقت کی بناء پر یہ کہنا زیادہ صحیح ہو سکتا ہے کہ یہ جنس عمل کو ان عبادات پر جزوی فضیلت بہر حال حاصل ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے البشر خیر من الملک والرجل خیر من المراۃ۔ یعنی انسان فرشتہ سے بہتر ہے اور مرد عورت سے بہتر ہے۔
" ذات البین کے معنی ہیں وہ احوال جن میں لوگ باہمی طور پر مبتلا ہوں جیسے بغض و عداوت اور جنگ و جدل وغیرہ اور اصلاح کے معنی ہیں ان احوال کو درست کرنا اس اعتبار سے اصلاح ذات البین کا معنی یہ ہوگا کہ کچھ لوگ آپس میں برے حالات کا شکار ہوں مثلا وہ ایک دوسرے کے بغض عناد میں مبتلا ہو کر اور آپس میں لڑائی جھگڑے میں پھنس کر اپنے آپ کو فتنہ و فساد میں ڈالے ہوئے ہوں تو ان کے بغض و عناد کو باہمی محبت و الفت میں بدلا جائے ان کو فتنہ و فساد سے نکال کر صلح کی طرف لایا جائے اس کے برخلاف ، فساد ذات البین ہے یعنی فساد و نفاق پیدا کرنا، جس کو لفظ حالقہ سے تعبیر کیا گیا ہے حالقہ اصل میں حلق سے ہے جس کے معنی ہیں بال مونڈنا اور حالقہ بال مونڈنے والی کو کہتے ہیں یہاں اس لفظ سے مراد تباہ برباد کرنا اور جڑ سے اکھاڑنا ہے مطلب یہ ہے کہ فساد ذات البین یعنی لوگوں کے درمیان افتراق و انتشار کے فتنہ کا بیج بونا ایک ایسی خصلت ہے جو دین کو تباہ و برباد کر دیتی ہے اور ثواب کے حصول کو بالکل ختم کر دیتی ہے۔ اور ثواب کے حصول کو بالکل ختم کر دیتی ہے جیسا کہ استرا بالوں کو جڑ سے صاف کر دیتا ہے بہر حال اس ارشاد گرامی کا مقصد لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے اور فتنہ و فساد کو مٹانے کی ترغیب دلانا اور لوگوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے سے متنفر کرنا ہے۔
تخريج الحديث
|
No comments:
Post a Comment