يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗٓ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ۡ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ [سورۃ المائدة:54]
اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن کو وہ دوست رکھے گا اور جسے وہ دوست رکھیں گے اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔
O you who believe, if anyone from you turns back from his Faith, then Allah will bring a people whom He loves and who love Him, humble toward the believers, hard on the disbelievers, who fight in the way of Allah and are not afraid of the reproach of any critic. That is a grace of Allah. He confers it on whom He wills. Allah is All-Embracing, All-Knowing.
Tafsir al-Jalalayn: O you who believe, whoever of you apostatises (read either yartadid, with separation [of the two dāl letters], or yartadd, with assimilation [of one of the dāl letters with the other]), turns back, from his religion, to disbelief — this is a notification of what God knew would happen, for some of them apostatised upon the death of the Prophet (s) — God will assuredly bring, in their place, a people whom He loves and who love Him: the Prophet (s) said, ‘They are people like him’, and he pointed to Abū Mūsā al-Ash‘arī, as reported by al-Hākim [al-Naysābūrī] in his Sahīh; humble, sympathetic, towards believers, stern, severe, towards disbelievers, struggling in the way of God, and fearing not the reproach of any reproacher, therein, in the way that the hypocrites fear the reproach of the disbelievers. That, description mentioned, is God’s bounty; He gives it to whom He will; and God is Embracing, of abundant bounty, Knowing, of those who deserve it.
قوت اسلام اور مرتدین
تفسیر ابن کثیر (٧٧٤ ھہ) :
اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہو جائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا ، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا ، جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے (وان تتلوا) اور آیت میں ہے (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ) 4۔ النسآء:133) اور جگہ فرمایا (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ) 35۔ فاطر:16) ، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے جو بیان ہوا۔ ارتداد کہتے ہیں ، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھر جانے کو ۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں یہ آیت سرداران قریش کے بارے میں اتری ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں "خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے پھر گئے تھے ، ان کا حکم اس آیت میں ہے۔ جس قوم کو ان کے بدلے لانے کا وعدے دے رہا ہے وہ اہل قادسیہ ہیں یا قوم سبا ہے۔ یا اہل یمن ہیں جو کندہ اور سکون بیلہ کے ہیں"۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کر کے فرمایا وہ اس کی قوم ہے۔ اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ "یہ اپنے دوستوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے ، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے ، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں"۔ جیسے فرمایا آیت ( اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ) 48۔ الفتح:29) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں میں ہے کہ آپ خندہ مزاج بھی تھے اور قتال بھی یعنی دوستوں کے سامنے ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے مقابلہ میں سخت اور جنگجو ، سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں ، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں ، نہ تھکتے ہیں ، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے ہیں ، نہ کسی کی مروت میں آتے ہیں ، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں ، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے میں بھلائی کا حکم کرنے میں اور برائیوں سے روکنے میں مشغول رہتے ہیں ۔ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں "مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا ہے۔ مسکینوں سے محبت رکھنے ، ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے اور دنیوی امور میں اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو دیکھنے اور اپنے سے بڑھے ہوؤں کو نہ دیکھنے ، صلہ رحمی کرتے رہنے ، گو دوسرے نہ کرتے ہوں اور کسی سے کچھ بھی نہ مانگنے ، حق بات بیان کرنے کا گو وہ سب کو کڑوی لگے اور دین کے معاملات میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے کا اور بہ کثرت لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے کا ، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے"۔ (مسند احمد) ایک روایت میں ہے "میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ مرتبہ بیعت کی ہے اور سات باتوں کی آپ نے مجھے یاد دہانی کی ہے اور سات مرتبہ اپنے اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں کسی بدگو کی بدگوئی کی مطلق پرواہ نہیں کرتا۔ مجھے بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا مجھ سے جنت کے بدلے میں بیعت کرے گا ؟ میں نے منظور کر کے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے شرط کی کہ کسی سے کچھ بھی نہ مانگنا۔ میں نے کہا بہت اچھا ، فرمایا اگرچہ کوڑا بھی ہو ۔ یعنی اگر وہ گڑ پڑے تو خود سواری سے اتر کر لے لینا" (مسند احمد) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "لوگوں کی ہیبت میں آکر حق گوئی سے نہ رکنا ، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کر سکتا ہے ، نہ رزق کو دور کر سکتا ہے"۔ ملاحظہ ہو امام احمد کی مسند۔ "فرماتے ہیں خلاف شرع امر دیکھ کر ، سن کر اپنے تئیں کمزور جان کر ، خاموش نہ ہو جانا۔ ورنہ اللہ کے ہاں اس کی باز پرس ہوگی ، اس وقت انسان جواب دے گا کہ میں لوگوں کے ڈر سے چپکا ہو گیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے گا ، میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے ڈرتا"۔ (مسند احمد) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی کرے گا کہ تو نے لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے دیکھ کر اس سے روکا کیوں نہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے جواب سمجھائے گا اور یہ کہہ گا پروردگار میں نے تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے ڈرا (ابن ماجہ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے "مومن کو نہ چاہئے کہ اپنے تئیں ذلت میں ڈالے صحابہ نے پوچھا ، یہ کس طرح؟ فرمایا ان بلاؤں کو اپنے اوپر لے لے ، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو ۔ پھر فرمایا اللہ کا فضل ہے جے چاہے دے۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں ، اسی کی طرف سے ان کی توفیق ہوتی ہے ، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے اور وہ کامل علم والا ہے ، خوب جانتا ہے کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمہارے دوست کفار نہیں بلکہ حقیقتاً تمہیں اللہ سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے دوستیاں رکھنی چاہئیں ۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے پورے پابند ہوں ، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے اور صرف اللہ کا حق ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو اللہ کے ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے" اور آخری جملہ جو ہے اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہو گیا ہے کہ یہ (یؤتون الزکوۃ) سے حال واقع یعنی رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اگر اسے مان لیا جائے تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہو جائے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں ، ان وہمیوں نے یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نماز کے رکوع میں تھے جو ایک سائل آ گیا تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اسے دے دی ، (والذین امنوا) سے مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور حضرت علی ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی یہ تفسیر کی ہے لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں ، رجال ایک کے بھی ثقہ اور ثابت نہیں ، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے اور صحیح نہیں ۔ ٹھیک رہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہ سب آیتیں حضرت عبادہ بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے رسول اور با ایمان لوگوں کی دوستی رکھے وہ اللہ کے لشکر میں داخل ہے اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے۔ جیسے فرمان باری ہے آیت (كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ) 58۔ المجادلہ:21) ، یعنی اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی غالب رہیں گے اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والا کبھی پسند نہ آئے گا چاہے وہ باپ بیٹے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگوں میں سے ہی کیوں نہ ہو ، یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی تائید کی ہے ، انہیں اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا ، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، رب ان سے راضی ہے ، یہ اللہ سے خوش ہیں ، یہی اللہ کے لشکر ہیں اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے۔ پس جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہو جائے ، وہ دنیا میں فاتح ہے اور آخرت میں فلاح پانے والا ہے۔ اسی لئے اس آیت کو بھی اس جملے پر ختم کیا۔
***************************************
الله کی راہ میں خرچ کرنے والے محسنین
وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ٻوَاَحْسِنُوْا ڔ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ [البقرہ : ١٩٥]
اور الله کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک الله نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے.
الَّذينَ يُنفِقونَ فِى السَّرّاءِ وَالضَّرّاءِ وَالكٰظِمينَ الغَيظَ وَالعافينَ عَنِ النّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ المُحسِنينَ [آل عمران:134] |
جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتےہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور الله نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے |
حق جہاد کیا ہے؟
تفسیر ابن کثیر (٧٧٤ ھہ) :
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے (بخاری) اور بزرگوں نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی بیان فرمایا ہے، حضرت ابو عمران فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ایک نے قسطنطنیہ کی جنگ میں کفار کے لشکر پر دلیرانہ حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتا ہوا ان میں گھس گیا تو بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ دیکھو یہ اپنے ہاتھوں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اس آیت کا صحیح مطلب ہم جانتے ہیں سنو! یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اٹھائی آپ کے ساتھ جنگ وجہاد میں شریک رہے آپ کی مدد پر تلے رہے یہاں تک کہ اسلام غالب ہوا اور مسلمان غالب آگئے تو ہم انصاریوں نے ایک مرتبہ جمع ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کے ساتھ ہمیں مشرف فرمایا ہم آپ کی خدمت میں لگے رہے آپ کی ہمرکابی میں جہاد کرتے رہے اب بحمد اللہ اسلام پھیل گیا مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا لڑائی ختم ہو گئی ان دنوں میں نہ ہم نے اپنی اولاد کی خبر گیری کی نہ مال کی دیکھ بھال کی نہ کھیتیوں اور باغوں کا کچھ خیال کیا اب ہمیں چاہئے کہ اپنے خانگی معاملات کی طرف توجہ کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، پس جہاد کو چھوڑ کر بال بچوں اور بیوپار تجارت میں مشغول ہو جانا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے (ابوداود ، ترمذی، نسائی وغیرہ) ایک اور روایت میں ہے کہ قسطنطنیہ کی لڑائی کے وقت مصریوں کے سردار حضرت عقبہ بن عامر تھے اور شامیوں کے سردار یزید بن فضالہ بن عبید تھے، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں اکیلا تنہا دشمن کی صف میں گھس جاؤں اور وہاں گھر جاؤں اور قتل کر دیا جاؤں تو کیا اس آیت کے مطابق میں اپنی جان کو آپ ہی ہلاک کرنے والا بنوں گا ؟ آپ نے جواب دیا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے آیت (فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ) 4۔ النسآء:84) اے نبی اللہ کی راہ میں لڑتا رہ تو اپنی جان کا ہی مالک ہے اسی کو تکلیف دے یہ آیت تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رک جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے (ابن مردویہ وغیرہ) ترمذی کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اور ازدشنوہ کے قبیلہ کا ایک آدمی جرات کر کے دشمنوں میں گھس گیا ان کی صفیں چیرتا پھاڑتا اندر چلا گیا لوگوں نے اسے برا جانا اور حضرت عمرو بن عاص کے پاس یہ شکایت کی چنانچہ حضرت عمرو نے انہیں بلا لیا اور فرمایا قرآن میں ہے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لڑائی میں اس طرح کی بہادری کرنا اپنی جان کو بربادی میں ڈالنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا ہلاکت میں پڑنا ہے، حضرت ضحاک بن ابو جبیرہ فرماتے ہیں کہ انصار اپنے مال اللہ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرتے رہتے تھے لیکن ایک سال قحط سالی کے موقع پر انہوں نے وہ خرچ روک لیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی ، حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں اس سے مراد بخل کرنا ہے، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ گنہگار کا رحمت باری سے ناامید ہو جانا یہ ہلاک ہونا ہے اور حضرات مفسرین بھی فرماتے ہیں کہ گناہ ہو جائیں پھر بخشش سے ناامید ہو کر گناہوں میں مشغول ہو جانا اپنے ہاتھوں پر آپ ہلاک ہونا ہے، تہلکۃ سے مراد اللہ کا عذاب بھی بیان کیا گیا ہے، قرطبی وغیرہ سے روایت ہے کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جاتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ خرچ نہیں لے جاتے تھے اب یا تو وہ بھوکوں مریں یا ان کا بوجھ دوسروں پر پڑے تو ان سے اس آیت میں فرمایا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اسے اس کی راہ کے کاموں میں لگاؤ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو کہ بھوک پیاس سے یا پیدل چل چل کر مر جاؤ۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کو جن کے پاس کچھ ہے حکم ہو رہا ہے کہ تم احسان کرو تاکہ اللہ تمہیں دوست رکھے نیکی کے ہر کام میں خرچ کیا کرو بالخصوص جہاد کے موقعہ پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکو یہ دراصل خود تمہاری ہلاکت ہے، پس احسان اعلیٰ درجہ کی اطاعت ہے جس کا یہاں حکم ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بیان ہو رہا ہے کہ احسان کرنے والے اللہ کے دوست ہیں ۔
***************************************
القرآن : وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡمَحِیۡضِ ؕ قُلۡ ہُوَ اَذًی ۙ فَاعۡتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الۡمَحِیۡضِ ۙ وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ ۚ فَاِذَا تَطَہَّرۡنَ فَاۡتُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ ﴿البقرہ:۲۲۲﴾
اور تجھ سے پوچھتے ہیں حکم حیض کا کہدے وہ گندگی ہے سو تم الگ رہو عورتوں سے حیض کے وقت [۳۶۰] اور نزدیک نہ ہو ان کے جب تک پاک نہ ہوویں [۳۶۱] پھر جب خوب پاک ہو جاویں تو جاؤ ان کے پاس جہاں سے حکم دیا تم کو اللہ نے [۳۶۲] بیشک اللہ کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے [۳۶۳]
[۳۶۰] حیض کے احکام:
حیض کہتے ہیں اس خون کو جو عورتوں کی عادت ہے اس حالت میں مجامعت کرنا نماز روزہ سب حرام ہیں اور خلاف عادت جو خون آئے وہ بیماری ہے اس میں مجامعت نماز روزہ سب درست ہیں اس کا حال ایسا ہے جیسا زخم یا فصد سے خون نکلنے کا یہود اور مجوس حالت حیض میں عورت کے ساتھ کھانے اور ایک گھر میں رہنے کو بھی جائز نہ سمجھتے تھے اور نصاریٰ مجامعت سے بھی پرہیز نہ کرتے تھے آپ ﷺ سے پوچھا گیا تو اس پر یہ آیت اتری آپ ﷺ نے اس پر صاف فرما دیا کہ مجامعت اس حالت میں حرام ہے ان کے ساتھ کھانا پینا رہنا سہنا سب درست ہیں یہود کا افراط اور نصاریٰ کی تفریط دونوں مردود ہو گئیں۔
[۳۶۱] پاک ہونے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر حیض اپنی پوری مدت یعنی دس دن تک موقوف ہوا ہو تو اسی وقت سے مجامعت درست ہے اور اگر دس دن سے پہلے ختم ہو گیا مثلًا چھ روز کے بعد اور عورت کی عادت بھی چھ روز کی تھی تو مجامعت خون کے موقوف ہوتے ہی درست نہیں بلکہ جب عورت غسل کر لے یا نماز کا وقت ختم ہو جائے اس کے بعد مجامعت درست ہو گی اور اگر عورت کی عادت سات یا آٹھ دن کی تھی تو ان دنوں کے پورا کرنے کے بعد مجامعت درست ہو گی۔
[۳۶۲] مجامعت کے احکام:
جس موقع سے مجامعت کی اجازت دی ہے یعنی آگے کی راہ سے کہ جہاں سے بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ دوسرا موقع یعنی لواطت حرام ہے۔
[۳۶۳] یعنی جو توبہ کرتے ہیں گناہ سے جو ان سے اتفاقیہ صادر ہوا مثلًا حالت حیض میں وطی کا مرتکب ہوا اور ناپاکی یعنی گناہوں اور وطی حالت حیض میں اور وطی موقع نجس سے احتراز کرتے ہیں۔
توبہ ایک طرح سے باطنی وضو ہے ، جو دل کو گناہوں کی سیاہی سے طہارت کا تقویٰ حاصل کرنے کا پہلا اور بنیادی عمل ہے. توبہ سے تقویٰ کا حصول ایسے ہی ہے جیسے بے وضو ہونے پر وضو کرکے طہارت (تقویٰ) میں رہنا. تو کون ہے جو گناہوں سے طہارت (تقویٰ) کے ٹوٹنے پر فوراً توبہ کا وضو کرکے طہارت (تقویٰ) حاصل کرکے الله کا محبوب بنے؟؟؟
***************************************
وفا کرنے والے متقین
بَلٰي مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ [آل عمران :٧٦]
ہاں جو شخص اپنے اقرار کو پورا کرے اور (الله سے) ڈرے تو الله ڈرنے والوں کو دوست رکھتا ہے.
یعنی خیانت وبدعہدی میں گناہ کیوں نہیں، جبکہ خدا تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے کہ جو کوئی خدا کے اور بندوں کے جائز عہد پورے کرے اور خدا سے ڈر کر تقویٰ کی راہ چلے یعنی فاسد خیالات مذموم اعمال اور پست اخلاق سے پرہیز کرے، اسی سے خدا محبت کرتا ہے۔ اس میں امانتداری کی خصلت بھی آگئی۔
***************************************
آزمائش میں دین پر جمے (ڈٹے) رہنے والے
وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَهٗ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ ۚ فَمَا وَهَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ [آل عمران :١٤٦]
اور بہت سے نبی ہوئے ہیں جن کے ساتھ ہو کر اکثر اہل اللہ (خدا کے دشمنوں سے) لڑے ہیں تو جو مصیبتیں ان پر راہ اللہ میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ (کافروں سے) دبے اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے
یعنی تم سے پہلے بہت اللہ والوں نے نبیوں کے ساتھ ہو کر کفار سے جنگ کی ہے۔ جس میں بہت تکلیفیں اور سختیاں اٹھائیں لیکن ان شدائد و مصائب سے نہ ان کے ارادوں میں سُستی ہوئی، نہ ہمت ہارے، نہ کمزوری دکھائی، نہ دشمن کے سامنے دبے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ثابت قدم رہنے والوں سے خاص محبت کرتا ہے۔ یہ ان مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی اور غیرت دلائی جنہوں نے اُحد میں کمزوری دکھلائی تھی۔ حتیٰ کہ بعض نے یہ کہدیا تھا کہ کسی کو بیچ میں ڈال کر ابو سفیان سے امن حاصل کر لیا جائے مطلب یہ ہے کہ جب پہلی امتوں کے حق پرستوں نے مصائب و شدائد میں اس قدر صبر و استقلال کا ثبوت دیا اس امت کو (جو خیرالامم ہے) ان سے بڑھ کر صبر و استقامت کا ثبوت دینا چاہیے۔
***************************************
فیصلہ میں انصاف کا حکم
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ۭ فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا ۭوَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ۭاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ [المائدة:٤٢]
(یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال کھانیوالے ہیں ۔ اگر یہ تمہارے پاس (کوئی مقدمہ فیصل کرانے کو) آئیں تو تم ان میں فیصلہ کر دینا یا اعراض کرنا اگر تم ان سے اعراض کرو گے تو وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اگر فیصلہ کرنا چاہو تو انصاف کا فیصلہ کرنا کہ الله انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
یعنی خیانت وبدعہدی میں گناہ کیوں نہیں، جبکہ خدا تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے کہ جو کوئی خدا کے اور بندوں کے جائز عہد پورے کرے اور خدا سے ڈر کر تقویٰ کی راہ چلے یعنی فاسد خیالات مذموم اعمال اور پست اخلاق سے پرہیز کرے، اسی سے خدا محبت کرتا ہے۔ اس میں امانتداری کی خصلت بھی آگئی۔
***************************************
زبانی دعووں کی مذمت
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ [الصف : ٤]
بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔
بندہ کو لاف زنی اور دعوے کی بات سے ڈرنا چاہیے کہ پیچھے مشکل پڑتی ہے۔ زبان سے ایک بات کہہ دینا آسان ہے، لیکن اس کا نباہنا آسان نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس شخص سے سخت ناراض اور بیزار ہوتا ہے جو زبان سے کہے بہت کچھ اور کرے کچھ نہیں ۔ روایات میں ہے کہ ایک جگہ مسلمان جمع تھے، کہنے لگے ہم کو اگر معلوم ہو جائے کہ کون سا کام اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے تو وہ ہی اختیار کریں ۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ یعنی دیکھو! سنبھل کر کہو، لو ہم بتلائے دیتے ہیں، کہ اللہ کو سب سے زیادہ ان لوگوں سے محبت ہے جو اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں کے مقابلہ پر ایک آہنی دیوار کی طرح ڈٹ جاتے ہیں اور میدان جنگ میں اس شان سے صف آرائی کرتے ہیں کہ گویا وہ سب مل کر ایک مضبوط دیوار ہیں جس میں سیسہ پلا دیا گیا ہے، اور جس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں پڑ سکتا۔ اب اس معیار پر اپنے کو پرکھ لو ۔ بیشک تم میں بہت ایسے ہیں جو اس معیار پر کامل و اکمل اتر چکے ہیں مگر بعض مواقع ایسے بھی نکلیں گے جہاں بعضوں کے زبانی دعووں کی ان کے عمل نے تکذیب کی ہے آخر جنگ احد میں وہ بنیان مرصوص کہاں قائم رہی۔ اور جس وقت حکم قتال اترا تو یقینا بعض نے یہ بھی کہا۔ (رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ) 4۔ النسآء:77) بہرحال زبان سے زیادہ دعوے مت کرو بلکہ خدا کی راہ میں قربانی پیش کرو جس سے اعلیٰ کامیابی نصیب ہو ۔ موسیٰ کی قوم کو نہیں دیکھتے کہ زبان سے تعلّی و تفاخر کی باتیں بہت بڑھ چڑھ کر بناتے تھے لیکن عمل کے میدان میں صفر تھا۔ جہاں کوئی موقع کام کا آیا فوراً پھسل گئے اور نہایت تکلیف دہ باتیں کرنے لگے۔ نتیجہ جو کچھ ہو اس کو آگے بیان فرماتے ہیں ۔
إِنَّ
الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجعَلُ لَهُمُ الرَّحمٰنُ وُدًّا
{19:96}
|
اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے خدا ان کی
محبت (مخلوقات کے دل میں) پیدا کردے گا
|
مقبول مومنین کی علامات:یعنی
ان کو اپنی محبت دے گا ، یا خود ان سے محبت کرے گا، یا خلق کے دل میں ان کی محبت
ڈالے گا احادیث میں ہے کہ جب حق تعالیٰ کسی بندہ کو محبوب رکھتا ہے تو اول جبریل
کو آگاہ کرتا ہے کہ میں فلاں بندہ سےمحبت کرتا ہوں تو بھی کر ، وہ آسمانوں میں
اس کا اعلان کرتے ہیں ۔ آسمانوں سے اترتی ہوئی اس کی محبت زمین پر پہنچ جاتی ہے
اور زمین والوں میں اس بندہ کو حسن قبول حاصل ہوتا ہے ۔ یعنی بے تعلق لوگ جن کا
کوئی خاص نفع و ضرر اس کی ذات سے وابستہ نہ ہو ، اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ لیکن
اس قسم کے حسن قبول کی ابتداء مومنین صالحین اور خدا پرست لوگوں سے ہوتی ہے ان
کے قلوب میں اول اس کی محبت ڈالی جاتی ہے بعدہٗ قبول عام حاصل ہو جاتا ہے۔ ورنہ
ابتداءً محض طبقہ عوام میں حسن قبول حاصل ہونا او ربعد میں بعض خدا پرست صالحین
کا بھی کسی غلط فہمی وغیرہ سے اس کی طرف جھکنا، مقبولیت عندا للہ کی دلیل نہیں ۔
خوب سمجھ لو (تنبیہ) یہ آیت مکی ہے اور مکہ میں جن مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا گیا
تھا ، تھوڑے دنوں بعد ایسی طرح پورا ہوا کہ دنیا حیرت زدہ ہو گئ۔ حق تعالیٰ نے
انکی وہ محبت و الفت اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کر دی جس کی نظیر ملنی مشکل
ہے۔
|
1 - (حديث قدسي) وَحَدَّثَنِي ، عَنْ وَحَدَّثَنِي ، عَنْ مَالِك ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ الْعَبْدَ قَالَ لِجِبْرِيلَ : " قَدْ أَحْبَبْتُ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ " فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ، ثُمَّ يُنَادِي فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَبَّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ . وَإِذَا أَبْغَضَ اللَّهُ الْعَبْدَ ، قَالَ مَالِك : لَا أَحْسِبُهُ ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ : فِي الْبُغْضِ مِثْلَ ذَلِكَ .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو پکارتا ہے جبرائیل کو اور یہ فرماتا ہے کہ بے شک اللہ نے فلانے کو دوست رکھا ہے سو تو بھی اس کو دوست رکھ تو جبرائیل اس سے محبت رکھتا ہے پھر پکار دیتا ہے جبرائیل آسمان والوں میں یعنی فرشتوں میں کہ بے شک اللہ نے فلانے کو دوست رکھا ہے سو تم بھی اس کو دوست رکھو تو آسمان والے اس سے محبت رکھتے ہیں پھر اس محبوب بندے کی زمین میں قبولیت اتاری جاتی ہے یعنی زمین کے نیک لوگ اس کو مقبول جانتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں اور جب اللہ کسی بندہ سے ناراض وغصہ ہوتا ہے ۔ (تو بھی اسی طرح کرتا ہے یعنی اس کا الٹ)
[موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1641 - کتاب مختلف بابوں کے بیان میں : خدا کے واسطے دوستی رکھنے والوں کا بیان]
Yahya related to me from Malik from Suhayl ibn Abi Salih from his father from Abu Hurayra that the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, said, "If Allah loves a slave, he says to Jibril, 'I love so-and-so, so love him,' so Jibril loves him and then calls out to the people of heaven, 'Allah loves so-and-so, so love him,' and the people of heaven love him, and then acceptance is placed in the Earth for him." When Allah is angry with a slave, Malik said, "I consider that he says the like of that about His anger."
تخريج الحديث
الشواهد
|
|
****************************************
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اسے دنیا سے اس طرح روکتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے روکتا ہے یعنی مرض استسقاء وغیرہ میں۔
Sayyidina Qatadah ibn Numan reported that Allah’s Messenger said, “When Allah loves a slave, He protects him from the world just as one of you protects his patient from water.”
تخريج الحديث
|
الشواهد
|
|
****************************************
3 - (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَخْلَاقَكُمْ ، كَمَا قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَرْزَاقَكُمْ ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُعْطِي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ وَمَنْ لَا يُحِبُّ ، وَلَا يُعْطِي الدِّينَ إِلَّا لِمَنْ أَحَبَّ ، فَمَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ الدِّينَ ، فَقَدْ أَحَبَّهُ ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَا يُسْلِمُ عَبْدٌ حَتَّى يَسْلَمَ قَلْبُهُ وَلِسَانُهُ ، وَلَا يُؤْمِنُ حَتَّى يَأْمَنَ جَارُهُ بَوَائِقَهُ " ، قَالُوا وَمَا بَوَائِقُهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ؟ قَالَ : " غَشْمُهُ وَظُلْمُهُ ، وَلَا يَكْسِبُ عَبْدٌ مَالًا مِنْ حَرَامٍ ، فَيُنْفِقَ مِنْهُ فَيُبَارَكَ لَهُ فِيهِ ، وَلَا يَتَصَدَّقُ بِهِ فَيُقْبَلَ مِنْهُ ، وَلَا يَتْرُكُ خَلْفَ ظَهْرِهِ إِلَّا كَانَ زَادَهُ إِلَى النَّارِ ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ ، وَلَكِنْ يَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ ، إِنَّ الْخَبِيثَ لَا يَمْحُو الْخَبِيث " .
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے تمہارے درمیان جس طرح تمہارے رزق تقسیم فرمائے ہیں، اسی طرح اخلاق بھی تقسیم فرمائے ہیں، اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دے دیتے ہیں جس سے محبت کرتے ہیں اور اسے بھی جس سے محبت نہیں کرتے، لیکن دین اسی کو دیتے ہیں جس سے محبت کرتے ہیں اس لئے جس شخص کو اللہ نے دین عطاء فرمایا ہو، وہ سمجھ لے کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل اور زبان دونوں مسلمان نہ ہو جائیں اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے پڑوسی اس کے " بوائق" سے محفوظ و مامون نہ ہوں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ " بوائق" سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا: ظلم و زیادتی، اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو حرام مال کمائے اور اس میں سے خرچ کرے پھر اس میں برکت بھی ہو جائے یا وہ صدقہ خیرات کرے تو وہ قبول بھی ہوجائے اور وہ اپنے پیچھے جو کچھ بھی چھوڑ کر جائے گا اس سے جہنم کی آگ میں مزید اضافہ ہوگا، اللہ تعالیٰ گناہ کو گناہ سے نہیں مٹاتا، وہ تو گناہ کو اچھائی اور نیکی سے مٹاتا ہے، گندگی سے گندگی نہیں دور ہوتی۔
[مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 1750 (49759) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرویات]
تخريج الحديث
|
الشواهد
|
****************************************
4 - (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ ، فَمَنْ صَبَرَ ، فَلَهُ الصَّبْرُ ، وَمَنْ جَزِعَ ، فَلَهُ الْجَزَعُ " .
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کرتا ہے پھر جو شخص صبر کرتا ہے اسے صبر ملتا ہے اور جو شخص جزع فزع کرتا ہے اس کے لئے جزع فزع ہے۔
[مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3591 (68790) حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کی مرویات]
تخريج الحديث
|
5 - (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ ، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ (حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا دَرَّاجٌ ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ) ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ الْعَبْدَ أَثْنَى عَلَيْهِ مِنَ الْخَيْرِ سَبْعَةَ أَضْعَافٍ لَمْ يَعْمَلْهَا ، وَإِذَا أَبْغَضَ اللَّهُ الْعَبْدَ أَثْنَى عَلَيْهِ مِنَ الشَّرِّ سَبْعَةَ أَضْعَافٍ لَمْ يَعْمَلْهَا " .
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کی طرف خیر کے سات ایسے کام پھیر دیتا ہے جو اس نے پہلے نہیں کئے ہوتے، اور جب کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے تو شر کے سات کام اس کی طرف پھیر دیتا ہے، جو اس نے پہلے نہیں کئے ہوتے۔
تخريج الحديث
|
No comments:
Post a Comment