وعنه قال : سئل رسول الله صلى الله عليه و سلم : أي العمل أفضل ؟ قال : " إيمان بالله ورسوله " قيل : ثم ماذا ؟ قال : " الجهاد في سبيل الله " . قيل : ثم ماذا ؟ قال : " حج مبرور "
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 1043
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر کون سا عمل ؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پوچھا گیا کہ پھر کون سا، فرمایا حج مقبول۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
افضل اعمال کے سلسلے میں سب سے بہتر عمل کون سا ہے ۔ مختلف احادیث منقول ہیں کسی حدیث میں کسی عمل کو افضل فرمایا گیا ہے اور کسی میں کسی کو، ان سب میں مطابقت و موافقت یوں پیدا کی جاتی ہے کہ یہ اختلاف بیان سائلین کے اقوال، حیثیات اور مقامات کے فرق و تفاوت کی بناء پر ہے، اس حدیث کو تفصیل کے ساتھ کتاب الصلوۃ میں بھی ایک موقع پر بیان کیا جا چکا ہے۔
************************
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " خير الدعاء دعاء يوم عرفة وخير ما قلت أنا والنبيون من قبلي : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير " . رواه الترمذي وروى مالك عن طلحة بن عبيد الله إلى قوله : " لا شريك له "
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 1143
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی ہے (خواہ وہ میدان عرفات میں مانگی جائے یا کسی بھی جگہ ) اور ان کلمات میں کہ جو میں نے یا مجھ سے پہلے کے نبیوں نے بطور دعا پڑھے ہیں سب سے بہتر یہ کلمات ہیں لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل چیز قدیر ۔ اللہ کے سوa کوئی معبود نہیں جو یکتا و تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے، نیز مالک نے اس روایت کو طلحہ بن عبیداللہ سے الفاظ لا شریک لہ تک نقل کیا ہے۔
************************
حدثنا مسدد حدثنا عبد الواحد حدثنا حبيب بن أبي عمرة قال حدثتنا عائشة بنت طلحة عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها قالت قلت يا رسول الله ألا نغزو ونجاهد معکم فقال لکن أحسن الجهاد وأجمله الحج حج مبرور فقالت عائشة فلا أدع الحج بعد إذ سمعت هذا من رسول الله صلی الله عليه وسلم
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1460 - حج کا بیان : حج مقبول کی فضیلت کا بیان]
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بن طلحہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتی ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم لوگ آپ کے ساتھ غزوہ یا جہاد نہ کریں ؟ تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے سب سے بہتر اور عمدہ جہاد حج مقبول ہے حضرت عائشہ کہتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سننے کے بعد میں حج کو کبھی نہ چھوڑوں گی۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1786 - عمرہ کا بیان : عورتوں کے حج کرنے کا بیان اور مجھ سے احمد بن محمد نے بیان کیا کہ مجھ سے ابراہیم، انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے ان کے دادا سے روایت کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری حج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو حج کرنے کی اجازت دی اور ان کے ساتھ عثمان بن عفان اور عبدالرحمن کو بھیجا۔]
Narrated Aisha (mother of the faithful believers):
I said, "O Allah's Apostle! Shouldn't we participate in Holy battles and Jihad along with you?" He replied, "The best and the most superior Jihad (for women) is Hajj which is accepted by Allah." 'Aisha added: Ever since I heard that from Allah's Apostle I have determined not to miss Hajj.
************************
حدثنا ا بن سلام أخبرنا الفزاري عن حميد عن أنس رضي الله عنه قال بلغ عبد الله بن سلام مقدم رسول الله صلی الله عليه وسلم المدينة فأتاه فقال إني سائلک عن ثلاث لا يعلمهن إلا نبي قال ما أول أشراط الساعة وما أول طعام يأکله أهل الجنة ومن أي شيئ ينزع الولد إلی أبيه ومن أي شيئ ينزع إلی أخواله فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم خبرني بهن آنفا جبريل قال فقال عبد الله ذاک عدو اليهود من الملائکة فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أما أول أشراط الساعة فنار تحشر الناس من المشرق إلی المغرب وأما أول طعام يأکله أهل الجنة فزيادة کبد حوت وأما الشبه في الولد فإن الرجل إذا غشي المرأة فسبقها ماؤه کان الشبه له وإذا سبق ماؤها کان الشبه لها قال أشهد أنک رسول الله ثم قال يا رسول الله إن اليهود قوم بهت إن علموا بإسلامي قبل أن تسألهم بهتوني عندک فجائت اليهود ودخل عبد الله البيت فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أي رجل فيکم عبد الله بن سلام قالوا أعلمنا وابن أعلمنا وأخبرنا وابن أخيرنا فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أفرأيتم إن أسلم عبد الله قالوا أعاذه الله من ذلک فخرج عبد الله إليهم فقال أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله فقالوا شرنا وابن شرنا ووقعوا فيه
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 584 (3193) - انبیاء علیہم السلام کا بیان : فرمان الٰہی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں دنیا میں (اپنا) ایک خلیفہ بنانے والا ہوں کا بیان ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا لما علیھا حافظ یعنی مگر اس کا حفاظت کرنے والا ہے فی کبد کے معنی سخت پیدائش ریاشا کے معنی مال دوسرے لوگوں نے کہا ہے ریاش اور ریش ایک ہی ہیں یعنی ظاہری لباس ماتمنون کے معنی ہیں کہ تم منی عورتوں کے رحم میں ڈالتے ہو اور مجاہد نے کہا کہ آیت کریمہ بے شک وہ اس کے واپس کر دینے پر قادر ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ نطفہ کو پھر احلیل ذکر میں واپس کر دے جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہے وہ جفت ہے آسمان بھی جفت ہے اور یکتا تو اللہ تعالیٰ ہے فی احسن تقویم کے معنی ہیں عمدہ پیدائش میں اسفل سافلین سے مومن مستثنیٰ ہے خسرو کے معنی گمراہی پھر اس سے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مستثنیٰ کیا لازب کے معنی چپکنے والی ننشئکم یعنی جس صورت میں ہم چاہیں پیدا کر دیں نسبح بحمدک یعنی تیری عظمت بیان کرتے ہیں ابوالعالیہ نے کہا کہ فتلقی آدم من ربہ کلمات میں کلمات سے مراد ربنا ظلمنا انفسنا ہے فازلھما کے معنی ہیں کہ انہیں بہکا دیا یتسنہ کے معنی خراب ہو جاتا ہے اسن کے معنی متغیر مسنون کے معنی بھی متغیر حماء حماۃ کی جمع ہے سڑی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں یخصفان یعنی جنت کے پتوں کو جوڑنے لگے یعنی ایک پتہ کو دوسرے پتہ پر جوڑنے لگے سواتھما یعنی ان کی شرمگاہیں متاع الی حین یہاں حین سے مراد قیامت کے دن تک ہے اہل عرب کے نزدیک حین کے معنی ایک ساعت سے لے کر لا تعداد وقت کے آتے ہیں قبیلہ کے معنی اس کی وہ جماعت جس سے وہ خود ہے۔]
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن سلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ایسی باتیں معلوم کرنا چاہتا ہوں جن کا علم نبی کے علاوہ کسی اور کو نہیں قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے؟ اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا کیا ہوگا؟ اور کس وجہ سے بچہ اپنے باپ یا ننہال کے مشابہ ہوتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام نے مجھے ابھی یہ باتیں بتائی ہیں عبداللہ نے کہا کہ یہ تو تمام فرشتوں میں یہودیوں کے دشمن ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کی سب سے پہلی علامت وہ آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور اہل جنت کے کھانے کے لئے سب سے پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی کی نوک ہوگی رہی بچہ کی مشابہت، مرد جب اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے اور اسے پہلے انزال ہوجاتا ہے تو بچہ اس کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر عورت کو پہلے انزال ہو جاتا ہے تو بچہ اس کی صورت پر ہوتا ہے عبداللہ بن سلام نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے رسول ہیں پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی بہت ہی بہتان توڑنے والی قوم ہے (اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میری بابت ان سے پوچھنے سے پہلے میرے اسلام لانے سے واقف ہو گئے) تو مجھ پر بہتان لگائیں گے پھر یہودی آئے اور عبداللہ گھر میں چھپ گئے تو رسول اللہ نے ان سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام تم میں کیسے آدمی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے سب سے بڑے عالم اور بڑے عالم کے بیٹے ہیں اور ہم میں سب سے بہتر اور بہتر آدمی کے بیٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا بتاؤ تو سہی اگر عبداللہ اسلام لے آئیں (تو کیا تم بھی اسلام لے آؤ گے) انہوں نے کہا اللہ انہیں اس سے بچائے فورا وہ ان کے سامنے آگئے اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوائی کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو وہ کہنے لگے کہ یہ ہم میں سب سے بدتر اور بدتر آدمی کے بیٹے ہیں۔
Narrated Anas:
When 'Abdullah bin Salam heard the arrival of the Prophet at Medina, he came to him and said, "I am going to ask you about three things which nobody knows except a prophet: What is the first portent of the Hour? What will be the first meal taken by the people of Paradise? Why does a child resemble its father, and why does it resemble its maternal uncle" Allah's Apostle said, "Gabriel has just now told me of their answers." 'Abdullah said, "He (i.e. Gabriel), from amongst all the angels, is the enemy of the Jews." Allah's Apostle said, "The first portent of the Hour will be a fire that will bring together the people from the east to the west; the first meal of the people of Paradise will be Extra-lobe (caudate lobe) of fish-liver. As for the resemblance of the child to its parents: If a man has sexual intercourse with his wife and gets discharge first, the child will resemble the father, and if the woman gets discharge first, the child will resemble her." On that 'Abdullah bin Salam said, "I testify that you are the Apostle of Allah." 'Abdullah bin Salam further said, "O Allah's Apostle! The Jews are liars, and if they should come to know about my conversion to Islam before you ask them (about me), they would tell a lie about me." The Jews came to Allah's Apostle and 'Abdullah went inside the house. Allah's Apostle asked (the Jews), "What kind of man is 'Abdullah bin Salam amongst you?" They replied, "He is the most learned person amongst us, and the best amongst us, and the son of the best amongst us." Allah's Apostle said, "What do you think if he embraces Islam (will you do as he does)?" The Jews said, "May Allah save him from it." Then 'Abdullah bin Salam came out in front of them saying, "I testify that None has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is the Apostle of Allah." Thereupon they said, "He is the evilest among us, and the son of the evilest amongst us," and continued talking badly of him.
************************
حدثني أحمد ابن أبي رجائ حدثنا النضر عن هشام قال أخبرني أبي قال سمعت عبد الله بن جعفر قال سمعت عليا رضي الله عنه يقول سمعت النبي صلی الله عليه وسلم يقول خير نسائها مريم ابنة عمران وخير نسائها خديجة
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 694 (3303) - انبیاء علیہم السلام کا بیان : آیت کریمہ کا بیان اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا اور تمہیں پاک کیا اور دنیا جہاں کی عورتوں پر تمہیں برگزیدہ کیا اے مریم اپنے رب کی عبادت کرو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی ہم تم پر وحی بھیجتے ہیں اور آپ اس وقت ان کے پاس نہیں تھے جب وہ اپنے قلموں کو ( بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ کون مریم کا کفیل ہو اور آپ اس وقت ان کے پاس نہیں تھے جب وہ (اسی کفالت کے سلسلہ میں) جھگڑا کر رہے تھے کہا جاتا ہے یکفل یعنی ملاتا ہے کفلھا یعنی اسے ملایا یہ بغیر تشدید کے ہے اور کفالت دیون سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔]
احمد بن ابورجاء نضر ہشام ان کے والد عبداللہ بن جعفر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ (اگلی) امت میں سب سے بہتر مریم بنت عمران ہیں اور (اس) امت میں سب سے بہتر خدیجہ ہیں۔
Narrated 'Ali:
I heard the Prophet saying, "Mary, the daughter of 'Imran, was the best among the women (of the world of her time) and Khadija is the best amongst the women. (of this nation)."
************************
حدثنا إسماعيل قال حدثني أخي عن سليمان عن شريک بن عبد الله بن أبي نمر سمعت أنس بن مالک يحدثنا عن ليلة أسري بالنبي صلی الله عليه وسلم من مسجد الکعبة جائه ثلاثة نفر قبل أن يوحی إليه وهو نائم في مسجد الحرام فقال أولهم أيهم هو فقال أوسطهم هو خيرهم وقال آخرهم خذوا خيرهم فکانت تلک فلم يرهم حتی جائوا ليلة أخری فيما يری قلبه والنبي صلی الله عليه وسلم نائمة عيناه ولا ينام قلبه وکذلک الأنبيائ تنام أعينهم ولا تنام قلوبهم فتولاه جبريل ثم عرج به إلی السمائ
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 824 (3433) حدیث متواتر - انبیاء علیہم السلام کا بیان : نیند کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں سوجاتی اور دل بیدار رہتا تھا سعید بن میناء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس حدیث کو بیان کیا ہے]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے ہم سے رات کی کیفیت بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کعبہ سے معراج ہوئی وحی نازل ہونے سے پیشتر تین شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں سو رہے تھے تو ان تین شخصوں میں سے ایک نے کہا کہ وہ کون شخص ہیں دوسرے نے کہا جو درمیان میں ہیں وہی سب سے بہتر ہیں اور تیسرے نے کہا جو ان سب میں بہتر ہو۔ اسی کو لو پس اتنی ہی باتیں ہوئی تھیں کہ وہ غائب ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو نہیں دیکھا پھر دوسری رات کو وہ آئے اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب جاگ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری آنکھیں سو جاتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب نہیں سوتا تھا تمام انبیاء کا یہی حال ہے کہ ان کی آنکھیں سوجاتی ہیں اور ان کے قلب نہیں سوتے پھر جبرائیل علیہ السلام نے پورا انتظام و اہتمام اپنے ذمہ لیا اس کے بعد وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمان کی طرف چڑھا لے گئے۔
Narrated Sharik bin 'Abdullah bin Abi Namr:
I heard Anas bin Malik telling us about the night when the Prophet was made to travel from the Ka'ba Mosque. Three persons (i.e. angels) came to the Prophet before he was divinely inspired was an Aspostle), while he was sleeping in Al Masjid-ul-Haram. The first (of the three angels) said, "Which of them is he?" The second said, "He is the best of them." That was all that happened then, and he did not see them till they came at another night and he perceived their presence with his heart, for the eyes of the Prophet were closed when he was asleep, but his heart was not asleep (not unconscious). This is characteristic of all the prophets: Their eyes sleep but their hearts do not sleep. Then Gabriel took charge of the Prophet and ascended along with him to the Heaven.
************************
حدثنا إسحاق حدثنا النضر أخبرنا شعبة عن أبي جمرة سمعت زهدم بن مضرب سمعت عمران بن حصين رضي الله عنهما يقول قال رسول الله صلی الله عليه وسلم خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم قال عمران فلا أدري أذکر بعد قرنه قرنين أو ثلاثا ثم إن بعدکم قوما يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يؤتمنون وينذرون ولا يفون ويظهر فيهم السمن
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 897 (3506) حدیث متواتر ]
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد متصل ہوں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد متصل ہوں گے عمران بیان کرتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قرن کے بعد دو مرتبہ قرن فرمایا تھا یا تین مرتبہ۔ پھر ارشاد فرمایا تمہارے بعد کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بغیر طلب و خواہش کے گواہی دیں گے۔ وہ خیانت کریں گے اور امین نہ بنائے جائیں گے۔ وہ نذر مانیں گے اور اپنی نذر کو پورا نہ کریں گے اور یہ لوگ بہت فربہ ہوں گے۔
Narrated Imran bin Husain:
"Allah's Apostle said, 'The best of my followers are those living in my generation (i.e. my contemporaries). and then those who will follow the latter" 'Imran added, "I do not remember whether he mentioned two or three generations after his generation, then the Prophet added, 'There will come after you, people who will bear witness without being asked to do so, and will be treacherous and untrustworthy, and they will vow and never fulfill their vows, and fatness will appear among them."
************************
حدثنا محمد بن کثير أخبرنا سفيان حدثنا جامع بن أبي راشد حدثنا أبو يعلی عن محمد بن الحنفية قال قلت لأبي أي الناس خير بعد رسول الله صلی الله عليه وسلم قال أبو بکر قلت ثم من قال ثم عمر وخشيت أن يقول عثمان قلت ثم أنت قال ما أنا إلا رجل من المسلمين
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 915 (3524) حدیث موقوف - انبیاء علیہم السلام کا بیان]
محمد، سفیان، ابویعلی، حضرت محمد بن حنفیه سے روایت کرتے ہیں انهوں نے کہا میں نے اپنے والد (حضرت علی) سے دریافت کیا که رسول الله صلی الله علیه وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟ انهوں نے فرمایا: ابوبکر، محمد بن حنفیه بیان کرتے ہیں پھر میں نے کہا ان کے بعد کون ہے؟ فرمایا عمر تو میں ڈر گیا که اب کی مرتبه وه عثمان کا نام لیں گے، تو میں نے اس لئے کہا، تو پھر آپ؟ آپ نے فرمایا میں تو مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں ۔
Narrated Muhammad bin Al-Hanafiya:
I asked my father ('Ali bin Abi Talib), "Who are the best people after Allah's Apostle ?" He said, "Abu Bakr." I asked, "Who then?" He said, "Then 'Umar. " I was afraid he would say "Uthman, so I said, "Then you?" He said, "I am only an ordinary person.
************************
حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة قال سمعت قتادة عن أنس بن مالک عن أبي أسيد رضي الله عنه قال قال النبي صلی الله عليه وسلم خير دور الأنصار بنو النجار ثم بنو عبد الأشهل ثم بنو الحارث بن خزرج ثم بنو ساعدة وفي کل دور الأنصار خير فقال سعد ما أری النبي صلی الله عليه وسلم إلا قد فضل علينا فقيل قد فضلکم علی کثير وقال عبد الصمد حدثنا شعبة حدثنا قتادة سمعت أنسا قال أبو أسيد عن النبي صلی الله عليه وسلم بهذا وقال سعد بن عبادة
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1025 (3634) - انبیاء علیہم السلام کا بیان : انصار کے گھرانوں کی فضیلت کا بیان]
محمد بن بشار غندر شعبہ قتادہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابواسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین انصاری گھرانہ بنی نجار کا ہے پھر بنی عبدالاشہل پھر بنی حارث بن خزرج اور بنی ساعدہ کا ہے اور ویسے تو ہر انصاری گھرانہ میں بہتری ہے تو سعد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اوروں کو) ہم پر ترجیح دی ہے تو انہیں جواب دیا کہ تمہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہتوں پر فضیلت دی ہے عبدالصمد شعبہ قتادہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت ابواسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی حدیث بیان کرتے ہیں (البتہ) انہوں نے (سعد کی جگہ) سعد بن عبادہ کہا ہے۔
Narrated Abu Usaid:
The Prophet said, "The best of the Ansar's families (homes) are those of Banu An-Najjar and then (those of) Banu 'Abdul Ash-hal, then (those of) Banu Al-Harith bin Al-Khazraj and then (those of) Banu Sa'ida; nevertheless, there is good in all the families (houses) of the Ansar." On this, Sad (bin Ubada) said, "I see that the Prophet has preferred some people to us." Somebody said (to him), "No, but he has given you superiority to many."
************************
حدثنا عمر بن حفص حدثنا أبي حدثنا الأعمش حدثنا أبو صالح قال حدثني أبو هريرة رضي الله عنه قال قال النبي صلی الله عليه وسلم أفضل الصدقة ما ترک غنی واليد العليا خير من اليد السفلی
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 334 (5184) - خرچ کرنے کا بیان : اہل وعیال کو خرچ دینا واجب ہے]
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہتر صدقہ وہ ہے کہ صدقہ دینے والے کی مالداری قائم رہے اور اوپر والا نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے اور اپنے رشتہ داروں سے ابتدا کرو
Narrated Al-'Amash: Narrated Abu Huraira:
"The Prophet said, 'The best alms is that which is given when one is rich, and a giving hand is better than a taking one, and you should start first to support your dependents.' A wife says, 'You should either provide me with food or divorce me.' A slave says, 'Give me food and enjoy my service." A son says, "Give me food; to whom do you leave me?" The people said, "O Abu Huraira! Did you hear that from Allah's Apostle ?" He said, "No, it is from my own self."
************************
حدثني محمد بن أبي بکر حدثنا معتمر عن عبيد الله عن سعيد بن أبي سعيد عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلی الله عليه وسلم کان يحتجر حصيرا بالليل فيصلي عليه ويبسطه بالنهار فيجلس عليه فجعل الناس يثوبون إلی النبي صلی الله عليه وسلم فيصلون بصلاته حتی کثروا فأقبل فقال يا أيها الناس خذوا من الأعمال ما تطيقون فإن الله لا يمل حتی تملوا وإن أحب الأعمال إلی الله ما دام وإن قل
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 826 (5676) - لباس کا بیان : بوریا وغیرہ پر بیٹھنے کا بیان]
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ رات کو بورئیے کا حجرہ بنا لیتے اور نماز پڑھتے، اور دن کو اسے پھیلادیتے اور اس پر بیٹھتے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہونے لگے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے لگے، یہاں تک کہ جب ان کی تعداد بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے، اور فرمایا اے لوگو! وہ اعمال اختیار کرو جن کی تمہیں طاقت ہو اس لئے کہ اللہ نہیں اکتاتا جب تک کہ تم نہ اکتاؤ، اور اللہ کے نزدیک سب سے بہتر عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ کم ہو۔
Narrated 'Aisha:
The Prophet used to construct a loom with a Hasir at night m order to pray therein, and during the day he used to spread it out and sit on it. The people started coming to the Prophet at night to offer the prayer behind him When their number increased, the Prophet faced them and said. O people! Do only those good deeds which you can do, for Allah does not get tired (of giving reward) till you get tired, and the best deeds to Allah are the incessant ones though they were few
************************
حدثنا عمر بن حفص حدثنا أبي حدثنا الأعمش قال حدثني شقيق عن مسروق قال کنا جلوسا مع عبد الله بن عمرو يحدثنا إذ قال لم يکن رسول الله صلی الله عليه وسلم فاحشا ولا متفحشا وإنه کان يقول إن خيارکم أحاسنکم أخلاقا
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 993 (5843) حدیث متواتر - ادب کا بیان : حسن خلق اور سخاوت کا بیان اور یہ کہ بخل مکروہ ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں معمول سے زیادہ سخی ہوجاتے، حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ جب ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی میں جاؤ اور آپ کی باتیں سنو، جب وہ لوٹا تو اس نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا]
عمرو بن حفص، اعمش، شقیق، مسروق کہتے ہیں کہ ہم لوگ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ انہوں نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ نہ تو فحش گوئی کی عادت تھی اور نہ قصدا فحش کلامی فرماتے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے بہتر ہو۔
Narrated Masruq:
************************
عَنْ جَاِبرٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ طُوْلُ الْقُنُوْتِ عَنْ جَاِبرٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ طُوْلُ الْقُنُوْتِ
حضرت جابر راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بہتر نماز وہ ہے جس میں قیام طویل (لمبا) ہو۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں طویل قیام کرنا یعنی زیادہ دیر تک کھڑے رہنا اور لمبی سورتیں پڑھنا افضل اور اعلیٰ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے مشقت و محنت زیادہ ہوتی ہے اور جذبہ خدمت اور اطاعت کا اظہار ہوتا ہے جو عبادت کی روح ہے۔
نماز میں قیام افضل ہے یا سجود؟ : علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ نماز میں آیا قیام افضل ہے یاسجود؟ چنانچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ نماز میں سجود افضل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ قیام افضل ہے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قیام میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور سجدے میں تسبیح پڑھی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن تسبیح سے افضل ہے۔ حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے۔
************************
وَعَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ ابْنِ غَنَمٍ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ قَالَ قَبْلَ اَنْ یَنْصَرِفَ وَ یَثْنِیْ رِجْلَیْہِ مِنْ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ وَ الصُّبْحِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہ، الْحَمْدُ بِیَدِہٖ الْخَیْرِ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ عَلَی کُلِّ شَیْیءٍ قَدِیْرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ کُتِبَ لَہُ بِکُلِّ وَاحِدَۃٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَمُحِیَتْ عَنْہُ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ وَرُفِعَ لَہ، عَشْرُ دَرَجَاتٍ وَکَانَتْ لَہُ حِرْزًا مِنْ کُلِّ مَکْرُوْہٍ وَحِرْزًا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ وَلَمْ یَحِلَّ لِذَنْبٍ اَنْ یُدْرِکَہُ اِلَّا الشِّرْکَ وَکَانَ مِنْ اَفْضَلِ النَّاسِ عَمَلًا اِلَّا رَجُلًا یَفْضُلُہُ یَقُوْلُ اَفْضَلَ مِمَّا قَالَ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَرَوَی التِّرْمِذِیُّ نَحْوَہُ عَنْ اَبِی ذَرٍّا اِلٰی قَوْلِہٖ اِلَّا الشِّرْکُ وَلَمْ یَذْکُرْ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ وَلَا بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَ قَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ غَرِیْبٌ۔
مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 941
" اور حضرت عبدالرحمن ابن غنم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے " جو آدمی فجر اور مغرب کے بعد (نماز کی) جگہ سے اٹھنے سے پیشتر اور پاؤں موڑنے سے پہلے (یعنی جس طرح التحیات کے لئے بیٹھنا ہے اس ہیئت کے ساتھ) ان کلمات کو پڑھے لَا اِلٰہَ اِلَّا ا وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہ، لَہ الْمُلْکُ وَ لَہ الْحَمْدُ بِیَدِہ الْخَیْرِ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ عَلَی کُلِّ شَیْیءٍ قَدِیْرٌ " اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے واسطے تمام تعریفیں ہیں اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے، وہی (جسے چاہتا ہے) زندہ رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے) موت دے دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے تو اس کے لئے ہر ایک بار کے بدلہ میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اس کے (مرتبے کے) دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں اور یہ کلمات اس کے لئے ہر بری چیز اور شیطان مردود سے امان کا باعث بن جاتے ہیں (یعنی نہ تو اس پر کسی دینی دنیاوی آفت و بلا کا اثر ہوتا ہے اور نہ مردود شیطان اس پر حاوی ہوتا ہے۔ اور شرک کے علاوہ کوئی گناہ (توفیق استغفار اور رحمت پروردگار کی وجہ سے) اسے ہلاکت میں نہیں ڈالتا (یعنی اگر شرک میں مبتلا ہو جائے گا تو پھر اس عظیم عمل کی وجہ سے بھی بخشش نہیں ہوگی ) اور وہ آدمی عمل کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے بہتر ہوگا سوائے اس آدمی کے جو اس سے زیادہ افضل عمل کرے گا یعنی (یہ اس آدمی سے تو افضل نہیں ہو سکتا جس نے یہ کلمات) اس سے زیادہ کہے ہوں۔" (مسند احمد بن حنبل) اس روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف الا الشرک تک نقل کی ہے نیز ان کی روایت میں صلوۃ المغرب اور بیدہ الخیر کے الفاظ بھی منقول نہیں ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
************************
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خِیَارُکُمْ اَلْیَنَکُمْ مَنَا کِبَ فِی الصَّلَاۃِ۔ (رواہ ابوداؤد)
مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 1066
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جن کے کندھے نماز میں بہت نرم رہیں۔" (ابوداؤد)
تشریح
نماز میں نرم کندھے کی توضیح و فائدے میں علماء نے بہت کچھ لکھا ہے اس کے کئی معنی ہیں چنانچہ اس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ " اگر کوئی آدمی جماعت میں اس طرح کھڑا ہو کہ صف برابر نہ ہوئی ہو اور پیچھے سے آکر کوئی آدمی اس کا کندھا پکڑ کے اسے سیدھا کھڑا ہو جانے کے لئے کہے تو وہ ضدوہٹ دھرمی اور تکبر نہ کرے بلکہ اس آدمی کا کہنا مان لے اور سیدھا کھڑا ہو کر صف برابر کر لے۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی آدمی صف میں آکر کھڑا ہونا چاہیے اور جبکہ صف میں جگہ بھی ہو تو اسے منع نہ کرے صف میں کھڑا ہو جانے دے۔ اس کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ " کندھوں کو نرم رکھنا " نماز میں خشوع و خضوع اور سکون و قار کے لئے کنایہ ہے ۔ یعنی نماز میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے جو نہایت خاطر جمعی حضوری قلب اور اطمینان و وقار کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔
************************
وعن أبي سعيد الخدري قال : إن أناسا من الأنصار سألوا رسول الله صلى الله عليه و سلم فأعطاهم ثم سألوه فأعطاهم حتى نفد ما عنده . فقال : " ما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يتصبر يصبره الله وما أعطي أحد عطاء هو خير وأوسع من الصبر "
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 341
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن انصار میں سے چند لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عطا فرما دیا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب بھی دے دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی مال ہو گا میں تم سے بچا کر اس کا ذخیر نہیں کروں گا اور یاد رکھو کہ جو شخص لوگوں سے سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بری باتوں سے بچاتا ہے اور اسے لوگوں کا محتاج نہیں کرتا اس طرح اس کی خود داری کو باقی رکھتا ہے، نیز جو شخص انتہائی معمولی چیز پر بھی قناعت کرتا ہے اور کسی سے سوال نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے قناعت آسان کر دیتا ہے اور جو شخص بے پروائی ظاہر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے پرواہ بنا دیتا ہے یعنی جو شخص دوسروں کے مال و زر سے بے پرواہ ہوتا ہے اور ہاتھ پھیلانے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور جو شخص صبر کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا فرماتا ہے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے صبر کی توفیق طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے صبر آسان کر دیتا ہے اور یاد رکھو کہ صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی دوسری چیز عطا نہیں کی گئی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام عطا و بخشش میں صبر سب سے بہتر عطاء ہے۔ (بخاری ومسلم)
************************
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم وأفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل " . رواه مسلم
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 550
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا رمضان کے روزے کے بعد بہترین روزے اللہ کے مہینے کے کہ وہ ماہ محرم ہے کہ روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز ہے۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ماہ محرم میں نفل روزے رکھنے بڑی فضیلت اور سعادت کی بات ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہاں ماہ محرم سے مراد یوم عاشورہ ہے جس کے روزے کی بہت زیادہ فضیلت منقول ہے اور اس کی تائید اس کے بعد آنے والی حدیث سے بھی ہوتی ہے بعض حفاظ حدیث فرماتے ہیں کہ رجب کے مہینہ میں روزے کے بارہ میں احادیث منقول ہیں ان میں سے اکثر موضوع اور دوسروں کی اختراع ہیں۔
اس حدیث میں ماہ محرم کی نسبت اللہ رب العزت کی طرف کی گئی ہے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ نسبت تخصیص کی بناء پر نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہو کہ صرف محرم ہی اللہ کا مہینہ ہے بلکہ چونکہ تمام مہینے اللہ ہی کے ہیں اس لئے اس موقع پر بطور خاص اللہ کی طرف محرم کے مہینہ کی نسبت اس ماہ مبارک کے شرف و فضیلت کے اظہار کے طور پر ہے۔
حدیث کے دوسرے جزء سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ رات کی نماز (یعنی نماز تہجد) سنت مؤ کدہ نمازوں سے افضل ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اس لئے کہا جائے گا کہ یہاں پوری عبادت اس طرح ہے فرض نماز اور اس کی سنت مؤ کدہ نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز ہے یا پھر اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ اس اعتبار سے تو نماز تہجد ، سنت مؤ کدہ نماز سے افضل ہے کہ تہجد کی نماز میں مشقت و محنت زیادہ ہوتی ہے نیز یہ کہ نماز تہجد ریاء و نمائش سے پاک اور محفوظ ہوتی ہے اور سنت مؤ کدہ نمازیں اس اعتبار سے افضل ہیں کہ ان کو پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے نیز یہ کہ وہ فرض نماز کے تابع ہوتی ہیں۔ آخر میں اتنی بات بھی ملحوظ رہے کہ وتر بھی فرض نماز کے حکم میں داخل ہے۔
************************
وعن طاووس مرسلا قال : سئل النبي صلى الله عليه و سلم : أي الناس أحسن صوتا للقرآن ؟ وأحسن قراءة ؟ قال : " من إذا سمعته يقرأ أرأيت أنه يخشى الله " . قال طاووس : وكان طلق كذلك . رواه الدارمي
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 726
حضرت طاؤس بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قرآن پڑھنے کے سلسلہ میں از روئے آواز کون شخص سب سے بہتر ہے اور پڑھنے میں بھی (یعنی از روئے ترتیلی و ادائیگی) الفاظ کون شخص سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ شخص کہ جس کو تم پڑھتے ہوئے سنو تو تمہارا گمان ہو کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے۔ حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ حضرت طلق میں یہی بات تھی کہ قرآن پڑھتے تو محسوس ہوتا کہ خشیت الٰہی ان پر غالب ہے۔ (دارمی)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم پڑھ رہا ہو اور اس کے پڑھنے سے تمہارے دل پر اثر ہو رہا ہو یا یہ کہ شخص کے بارہ میں یہ ظاہر ہو کہ وہ قرآن کریم پڑھتے وقت اللہ سے ڈر رہا ہے مثلا اس کے چہرہ کا رنگ خوف الٰہی سے متغیر ہو رہا ہو وہ زیادہ رو رہا ہو تو سمجھو کہ قرآن پڑھنے والوں میں اپنی آواز اور اپنی قرأت کے موثر ہونے کے اعتبار سے سب سے بہتر وہی ہے۔
حضرت طلق ایک جلیل القدر تابعی ہیں جب وہ قرآن کریم پڑھتے تھے تو خوف الٰہی ان پر طاری رہتا تھا۔ ان کے بارہ میں مولف مشکوۃ نے لکھا ہے کہ وہ صحابی ہیں ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
************************
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " سلوا الله من فضله فإن الله يحب أن يسأل وأفضل العبادة انتظار الفرج " . رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 759
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا جائے اور عبادت (یعنی دعا) کی سب سے بہتر چیز کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔
تشریح
کشادگی کا انتظار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دعا مانگنے والا غیر اللہ سے شکوہ و شکایت اور مایوسی کا اظہار کئے بغیر اس بات کا امیدوار رہے کہ وہ جس بلاء و غم کے دور ہونے کی دعا مانگ رہا ہے وہ انشاء اللہ ضرور دور ہو گا قبولیت دعا میں بظاہر چاہے کتنی ہی تاخیر ہو مگر وہ امید و آس کا دامن ہرگز نہ چھوڑے اور کسی بھی مرحلہ پر اللہ کی ذات اور اس کے فضل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مایوس نہ ہو۔ گویا یہ اشارہ ہے صبر کی طرف کہ صبر کی طاقت نہ صرف یہ کہ انسان کی قوت ارادی میں زبردست اضافہ کا سبب بنتی ہے بلکہ اللہ کی ذات پر مکمل اعتماد و یقین اور بھروسہ کی اسپرٹ پید اکرتی ہے اور ویسے بھی اس میں کوئی شک نہیں کہ صبر کی جزاء اور اس کا انعام بے حد و بے حساب ہے۔
************************
عن سمرة بن جندب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أفضل الكلام أربع : سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر "
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 824
حضرت سمرہ بن جندب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انسان کے کلام میں سب سے بہتر کلام چار ہیں اور وہ یہ ہیں۔ سبحان اللہ (اللہ پاک ہے) الحمدللہ (تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں) لاالہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) اللہ اکبر (اللہ بہت بڑا ہے) ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کلام چار ہیں (١) سبحان اللہ (٢) الحمدللہ (٣ لاالہ الا اللہ (٤) اللہ اکبر۔ ان میں سے کسی بھی کلمہ سے شروع کرنا تمہارے لئے نقصان دہ نہیں ہے۔ (مسلم)
تشریح
سب سے بہتر کلام چار ہیں۔ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے بعد انسان کے کلام میں یہ چار کلمے سب سے افضل ہیں یہ وضاحت اور ترجمہ میں انسان کی قید اس لئے ہے کہ چوتھا کلمہ یعنی اللہ اکبر قرآن کریم میں نہیں ہے اور یہ ایک ظاہر بات ہے کہ جو چیز قرآن میں نہیں ہے وہ اس چیز سے افضل نہیں جو قرآن میں ہے لیکن اور ایک حدیث میں اس طرح ہے افضل الکلام بعد القرآن وہی من القرا ان ۔ یعنی یہ کلمے مجموعہ قرآن کے بعد افضل کلمے ہیں اور یہ کلمے بھی قرآن ہی کے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام سے انسانی کلام کے ساتھ اللہ بھی مراد ہے یعنی یہ چار کلمے اللہ تعالیٰ کے تمام کلام میں افضل ترین کلمے ہیں اس صورت میں کہا جائے گا کہ ان میں سے اول الذکر تین کلمے تو بعینہ قرآن میں موجود ہیں اور چوتھا کلمہ اگرچہ بعینہ قرآن میں نہیں ہے لیکن اس آیت (وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا) 17۔ الاسراء : 111) میں بالمعنی یقینا موجود ہے۔
اس موقع پر یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ یہ چاروں کلمے اگرچہ افضل ہیں لیکن احادیث سے جو ذکر کسی حال یا کسی وقت سے متلعق ثابت ہے اس حالت یا اس وقت میں اس ذکر میں مشغول ہونا تسبیح وغیرہ سے افضل ہے۔
دوسری روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ان چاروں کلموں کو پڑھتے وقت مذکورہ ترتیب ضروری نہیں ہے چاہے کوئی پہلے سبحان اللہ کہے اور چاہے کوئی پہلے الحمد للہ کہے یا لاالہ الا اللہ یا اللہ اکبر کہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم طیبی نے کہا ہے کہ چاروں کلمات کو مذکورہ ترتیب کے ساتھ پڑھنا عزیمت یعنی اولیٰ ہے اور بغیر ترتیب کے پڑھنا رخصت یعنی جائز ہے۔
************************
وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أفضل الذكر : لا إله إلا الله وأفضل الدعاء : الحمد لله " . رواه الترمذي وابن ماجه
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 836
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے بہتر ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور سب سے بہتر دعا الحمدللہ ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
لا الہ الا اللہ سب سے افضل اس لئے ہے کہ اسلام وایمان کے سارے وجود کی بنیاد ہی اس پر ہے اس کے بغیر نہ ایمان صحیح ہوتا ہے اور نہ اس کے بغیر کوئی مسلمان بنتا ہے۔
بعض محققین فرماتے ہیں کہ تمام اذکار میں یہ کلمہ سب سے افضل اس وجہ سے ہے کہ ذاکر کے باطن کو برے اوصاف سے کہ جو انسان کے باطن کے معبود ہوتے ہیں ۔ پاک اور صاف کرنے میں اس کلمہ کو بڑی عجیب وعظیم تاثیر حاصل ہے ارشاد ربانی ہے آیت (افرأت من اتخذ الھہ ہواہ) کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفسانی کو اپنا معبود قرار دیا ہے۔
لہٰذا جب ذکر لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو لا الہ کے ذریعے تو تمام معبودوں کی نفی ہوتی ہے اور لاالہ کے ذریعہ صرف ایک معبود حقیقی یعنی اللہ کا اقرار ہوتا ہے اور پھر جب زبان سے یہ کلمہ ادا ہوتا ہے تو اس کی تاثیر ظاہری زبان سے دل کی گہرائیوں کی رجوع کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زبان سے تمام باطل معبودوں کی نفی اور ایک حقیقی معبود کا اقرار یقین واعتقاد کا درجہ حاصل کر لیتا ہے جو اس کے قلب وباطن کو روشن ومنور کر کے تمام برے وباطنی اوصاف کو صاف کر دیتا ہے اور آخرکار یہی تاثیر اس کے ظاہری اعضاء پر غالب آ جاتی ہے کہ اس کے ظاہری اعضاء سے وہی اعمال وافعال صادر ہوتے ہیں جو اس اقرار واعتقاد کا عین تقاضہ عین منشاء ہوتے ہیں۔ الحمد للہ کو دعا اس لئے فرمایا گیا ہے کہ کریم کی تعریف دعا وسوال کے زمرہ میں ہی آتی ہے اور اس کو افضل اس وجہ سے بتایا گیا ہے کہ منعم حقیقی یعنی اللہ کی حمد شکر کے معنیٰ میں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ شکر نعمت وبرکت میں زیادتی کا موجب ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : آیت (لئن شکرتم لازیدنکم) ۔ اور اگر تم شکر کرو گے تو میں زیادہ نعمت دوں گا۔
************************
وعن أنس أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله أي الدعاء أفضل ؟ قال : " سل ربك العافية والمعافاة في الدنيا والآخرة " ثم أتاه في اليوم الثاني فقال : يا رسول الله أي الدعاء أفضل ؟ فقال له مثل ذلك ثم أتاه في اليوم الثالث فقال له مثل ذلك قال : " فإذا أعطيت العافية والمعافاة في الدنيا والآخرة فقد أفلحت " . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي : هذا حديث حسن غريب إسنادا
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 1021
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کون سی دعا سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے رب سے عافیت (یعنی دین و بدن کی سلامتی اور دنیا آخرت میں معافات مانگو) معافات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں تمہیں لوگوں سے اور لوگوں کو تم سے عافیت و حفاظت میں رکھے۔ وہ شخص پھر دوسرے دن آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کون سی دعا سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وہی فرمایا جو (پہلے دن کہا تھا، پھر وہ شخص تیسرے دن آیا) اور اس نے وہی پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو وہی جواب دیا اور فرمایا کہ اگر تمہیں عافیت اور دنیا و آخرت میں معافات عطا کر دی جائے تو تم نجات پا گئے اور تم نے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث باعتبار سند کے غریب ہے۔
************************
عن عائشة قالت : قال النبي صلى الله عليه و سلم : " إن أطيب ما أكلتم من كسبكم وإن أولادكم من كسبكم " . رواه الترمذي والنسائي وابن ماجه . وفي رواية أبي داود والدارمي : " إن أطيب ما أكل الرجل من كسبه وإن ولده من كسبه "
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 13
اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ تم کھاتے ہو اس میں سب سے بہتر وہ چیز ہے جو تمہیں کمائی سے حاصل ہوئی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہے ( ترمذی نسائی ابن اجہ)
تشریح :
اولاد کو کمائی اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ وہ ماں باپ کے آپس کے نکاح کے نتیجہ ہی میں پیدا ہوتی ہے گویا اس ارشاد کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ماں باپ اگر خود کمانے کے قابل نہ ہوں تو ان کے لئے اپنی اولاد کی کمائی کھانا جائز ہے ہاں اگر ماں باپ اپنے دست وبازو کی محنت سے اپنے رزق کی راہیں خود بنا سکتے ہوں تو پھر ان کے لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اولاد پر بار بنیں البتہ اولاد کی خوشنودی و مرضی اگر یہی ہو کہ ماں اس کی کمائی کھائیں تو پھر بہرصورت اولاد کی کمائی کھانا جائز ہوگا چنانچہ حنفی علماء کا یہی قول ہے۔
علامہ طیبی کہتے ہیں کہ اگر والدین محتاج ہوں تو ان کی ضور رت زندگی کی کفالت لڑکے پر واجب ہے لیکن حضرت امام شافعی کے مسلک میں اس وجوب کی شرط یہ ہے وہ کمانے سے معذور بھی ہوں جب کہ دوسرے علماء کے ہاں یہ شرط نہیں ہے۔
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده : أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : إن لي مالا وإن والدي يحتاج إلى مالي قال : " أنت ومالك لوالدك إن أولادكم من أطيب كسبكم كلوا من كسب أولادكم " . رواه أبو داود وابن ماجه
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 547
حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں مالدار ہوں اور میرا باپ میرے مال کا محتاج ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے باپ کے لئے ہیں کیونکہ تمہاری اولاد تمہاری سب سے بہتر کمائی ہے لہذا اپنی اولاد کی کمائی کھاؤ ( ابوداؤد نسائی ابن ماجہ)
تشریح :
تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے باپ کے لئے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم پر اپنے باپ کی خدمت واطاعت واجب ہے اسی طرح تم پر بھی واجب ہے کہ اپنا مال اپنے باپ پر خرچ کرو اور اس کی ضروریات زندگی پوری کرو نیز تمہارے باپ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ تمہارے مال میں تصرف کرے۔
گویا اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ باپ کا نفقہ بیٹے پر واجب ہوتا ہے اس حدیث کے ضمن میں یہ مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ چرا لے یا اس کی لونڈی سے جماع کر لے تو بسبب شبہ ملکیت اس پر حد شرعی سزا جاری نہیں ہوتی۔
تمہاری اولاد تمہاری سب سے بہتر کمائی ہے کا مطلب یہ ہے کہ انسان محنت ومشقت کر کے جو کچھ کماتا ہے اس میں سب سے حلال اور افضل کمائی اس کی اولاد ہوتی ہے لہذا اولاد جو کچھ کمائے وہ باپ کے لئے حلال ہے اور وہ باپ کے حق میں اپنی کمائی کے مثل ہے اولاد کو باپ کی کمائی اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ دراصل اولاد باپ کے ذریعہ اور اس کی سعی وفعل کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہے۔
************************
وعن رافع بن خديج قال : قيل : يا رسول الله أي الكسب أطيب ؟ قال : " عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور " . رواه أحمد
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 25
حضرت رافع بن خدیج راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا گیا کہ کونسا کسب پاکیزہ یعنی افضل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر وہ تجارت جو مقبول یعنی شرعی اصول وقواعد کے مطابق ہو (احمد)
تشریح :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ سب سے بہتر تو وہ کسب وپیشہ ہے جس میں انسان کو اپنے ہاتھوں سے محنت کرنی پڑتی ہو جیسے زراعت اور کتابت وغیرہ اور اگر کوئی شخص ہاتھوں کی محنت والا کسب اختیار نہ کر سکے تو پھر ایسی تجارت کے ذریعے اپنی حلال روزی پیدا کرے جس میں دیانت وامانت کی روح بہرصورت کار فرما رہے کیونکہ ایسی تجارت بھی ایک پاک وحلال کسب ہے۔
************************
عن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشهداء " . رواه الترمذي والدارقطني . 2797 [ 8 ] ( ضعيف )
ورواه ابن ماجه عن ابن عمر . وقال الترمذي : هذا حديث غريب
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 37
حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قول وفعل میں نہایت سچائی اور نہایت دیانتداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا شخص نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا (ترمذی دارمی دارقطنی اور ابن ماجہ نے یہ روایت حضرت ابن عمر سے نقل کی ہے نیز ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح :
کاروباری سے مراد وہ شخص ہے جو تجارتی کاروبار اور اجارہ داری کرتا ہو اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سب سے بہتر کاروبار کپڑے کی تجارت ہے اس کے بعد عطاری ہے۔
ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ جو کاروباری شخص سچائی دیانت داری اور امانت کے اوصاف سے متصف ہوگا گویا اس کی زندگی تمام صفات کمالیہ سے مزین ہو گی جس کا تنیجہ یہ ہوگا کہ وہ یا تو میدان حشر میں نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا کہ جس طرح وہاں کی ہولنا کیوں کے وقت یہ تینوں طبقے رحمت الٰہی کے سایہ میں ہوں گے اسی طرح وہ شخص بھی رحمت الٰہی کی خاص پناہ میں ہوگا یا یہ کہ اسے جنت میں ان کی رفاقت کا شرف حاصل ہوگا چنانچہ اسے انبیاء کی رفاقت تو ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے حاصل ہوگی صدیقوں کا ساتھ ان کی صفت خاص یعنی صدق کی موافقت کی وجہ سے ہوگا اور شہیدوں کی رفاقت کی سعادت اسے اس لئے نصیب ہوگی کہ شہداء اس شخص کے وصف صدق وامانت کی شہادت دینگے۔
************************
وعن ابن عباس : أن نفرا من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم مروا بماء فبهم لديغ أو سليم فعرض لهم رجل من أهل الماء فقال : هل فيكم من راق ؟ إن في الماء لديغا أو سليما فانطلق رجل منهم فقرا بفاتحة الكتاب على شاء فبرئ فجاء بالشاء إلى أصحابه فكرهوا ذلك وقالوا : أخذت على كتاب الله أجرا حتى قدموا المدينة فقالوا : يا رسول الله أخذ على كتاب الله أجرا . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله " . رواه البخاري وفي رواية : " أصبتم اقسموا واضربوا لي معكم سهما "
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت ایک ایسے گاؤں سے گزری جس میں کسی شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس رکھا تھا چنانچہ اس بستی کا ایک شخص ان صحابہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں میں کوئی شخص جھاڑ پھونک کرنیوالا بھی ہے کیونکہ ہماری بستی میں ایک شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس لیا ہے ؟ (اگر ایسا کوئی شخص ہے تو وہ میرے ساتھ چل کر اس شخص پر دم کر دے) چنانچہ ان میں سے ایک صحابی تشریف لے گئے اور انہوں نے بکریوں کے عوض سورت فاتحہ پڑھی۔ یعنی انہوں نے کہا کہ میں اس شخص پر اس شرط کے ساتھ جھاڑ پھونک کروں گا کہ میں اس کے عوض اتنی بکریاں لوں گا اسے بستی والوں نے منظور کر لیا لہذا ان صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا کیونکہ منقول ہے کہ (فاتحۃ الکتاب شفاء من السم) یعنی سورت فاتحہ زہر کے لئے شفاء ہے لہذا وہ شخص اچھا ہو گیا پھر جب وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو ان ساتھیوں نے اس کو ناپسند کیا اور کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے یہاں تک وہ سب صحابہ مدینہ پہنچے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں صحابی نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن چیزوں کی اجرت لیتے ہو ان میں سب سے بہتر کتاب اللہ ہے ( بخاری)
ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے اچھا کیا ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگاؤ۔
تشریح :
لفظ (سلیم) اور لفظ (لدیغ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی سانپ کا ڈسا ہوا چنانچہ روایت کے الفاظ (لدیغ) أو (سلیم) میں او سلیم راوی کے لفظی شک کو ظاہر کرتا ہے یعنی راوی نے یہ دونوں لفظ نقل کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ مجھے یہ صحیح یاد نہیں ہے کہ اس موقع پر لفظ لدیغ کہا گیا تھا یا لفظ سلیم اور علامہ طیبی یہ کہتے ہیں کہ اکثر وبیشتر لفظ لدیغ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جسے بچھو کاٹ لے اور سلم کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جسے سانپ ڈس لے اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس موقع پر راوی کو معنی کے اعتبار سے شک ہوا ہے کہ یا تو وہ شخص بچھو کا کاٹا ہوا تھا یا سانپ کا ڈسا ہوا تھا ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ جن صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا وہ حضرت ابوسعید خدری تھے اور صحابہ کی وہ جماعت تیس نفوس پر مشتمل تھی اسی اعتبار سے سورت فاتحہ پڑھنے والے صحابی نے تیس بکریاں لی تھیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بکریوں میں اپنا حصہ لگانے کے لئے اس واسطے فرمایا تا کہ وہ صحابہ خوش بھی ہوں اور یہ بھی جان لیں کہ سروۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عوض حاصل ہونیوالی بکریاں بلا شک وشبہ حلال ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیتوں اور ذکر اللہ کے ذریعے جھاڑ پھونک کرنا اور اس کی اجرت لینا جائز ہے چنانچہ عامل روحانیات یعنی قرآن کریم کی آیتوں اور دیگر منقول دعا وعملیات کے ذریعے علاج کرنیوالے اپنے عمل یعنی تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک کی جو اجرت لیتے ہیں اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ تلاوت قرآن کی اجرت لینا جائز ہے کیونکہ ان دونوں میں فرق ہے اور وہ یہ کہ تلاوت قرآن ایک عبادت ہے اور عبادت کی قیمت لینا قطعًا جائز نہیں ہے اور کسی مریض و دکھی شخص پر قرآن پڑھ کر دم کرنا اور اس کی برکت سے شفاء حاصل ہو جانا عبادت نہیں ہے لہذا اس کی اجرت لینا جائز ہے۔
اس سے ثابت ہو گیا کہ مصحف یعنی قرآن کریم کو کتابی صورت میں بیچنا اس کو خریدنا اجرت پر اس کی کتابت کرنا اور دین کی دوسری کتابوں کو مزدوری پر لکھنا جائز ہے۔ اسی طرح متاخرین یعنی بعد کے علماء نے قرآن کریم کی تعلیم کو بھی اس پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم قرآن کی اجرت لینا جائز ہے جب کہ متقدمین یعنی پہلے زمانے کے علماء جیسے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ وغیرہ نے تعلیم قرآن کی اجرت لینے کو حرام کہا ہے۔
************************
وعن أبي أمامة عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه يقول : " ما استفاد المؤمن بعد تقوى الله خيرا له من زوجة صالحة إن أمرها أطاعته وإن نظر إليها سرته وإن أقسم عليه أبرته وإن غاب عنها نصحته في نفسها وماله " . روى ابن ماجه الأحاديث الثلاثة
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 317
اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن اللہ تعالیٰ کے تقوی کے بعد جو سب سے بہتر چیز اپنے لئے منتخب کرتا ہے وہ نیک بخت و خوب صورت بیوی ایسی بیوی کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر شوہر اس کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اس کی تعمیل کرتی ہے جب وہ اس کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اپنے حسن اور پاکیزگی اور اپنی خوشی سلیقگی وپاک سیرتی سے) اس کا دل خوش کرتی ہے جب وہ اس کو قسم دیتا ہے تو اس قسم کو پورا کرتی ہے اور جب اس کا خاوند موجود نہیں ہوتا تو وہ اپنے نفس کی بارے میں یہ خیرخواہی کرتی ہے کہ اس کو ضائع وخراب ہونے سے بچاتی ہے اور اس میں کوئی خیانت نہیں کرتی) مذکورہ بالا تینوں حدیثیں ابن ماجہ نے نقل کی ہیں۔
تشریح :
اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کو اور ممنوعات سے بچنے کو تقوی کہتے ہیں لہذا ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نیک وصالح بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور ممنوعات سے اجتناب کے بعد اپنی دینی اور دنیاوی بھلائی کے لئے جو سب سے بہتر چیز پسند کرتا ہے وہ نیک بخت وخوب صورت بیوی ہے۔
وہ اس کی تعمیل کرتی ہے، کا تعلق ان چیزوں سے ہے جو گناہ ومعصیت کا باعث نہیں ہوتیں یعنی وہ اپنے شوہر کی انہیں باتوں اور انہی احکام کی تعمیل کرتی ہے جو شریعت کے خلاف اور اللہ کی ناراضگی کا باعث نہیں ہوتے، یہ قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ شریعت کا یہ حکم ہے کہ مخلوق یعنی کسی شخص کا کوئی بھی ایسا حکم تعمیل نہ کرنا چاہئے جو خالق یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے متعلق ہو۔ وہ اس کی قسم کو پورا کرتی ہے، کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش ومرضی پر اپنے شوہر کی خواہش ومرضی کو مقدم رکھتی ہے مثلا جب اس کا شوہر اس کو کسی ایسے کام کے کرنے کی قسم دیتا ہے جو اس کی خواہش کے خلاف ہوتا ہے تو وہ اپنی خواہش کو چھوڑ کر وہ اپنے شوہر کی قسم و مرضی کے مطابق وہی کام کرتی ہے یا جب اس کا شوہر اس کو کسی ایسے کام کے نہ کرنیکی قسم دیتا ہے جو اس کی خواہش کے مطابق ہے تو وہ اپنی خواہش کی پرواہ کئے بغیر اپنے شوہر کی قسم ومرضی کی مطابق اس کام کو ترک کر دیتی ہے ۔
************************
وعن أبي ذر قال : سألت النبي صلى الله عليه و سلم : أي العمل أفضل ؟ قال : " إيمان بالله وجهاد في سبيله " قال : قلت : فأي الرقاب أفضل ؟ قال : " أغلاها ثمنا وأنفسها عند أهلها " . قلت : فإن لم أفعل ؟ قال : " تعين صانعا أو تصنع لأخرق " . قلت : فإن لم أفعل ؟ قال : " تدع الناس من الشر فإنها صدقة تصدق بها على نفسك "
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 570
اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا عمل بہتر ہے ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا " ابوذر کہتے ہیں کہ پھر میں نے عرض کیا " کونسا بردہ آزاد کرنا بہتر ہے ؟ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو گراں قیمت ہو اور اپنے مالک کو بہت پیارا ہو " میں نے عرض کیا کہ " اگر ایسا نہ کر سکوں ؟ ( یعنی از راہ کسل نہیں بلکہ از راہ عجز و عدم استطاعت ایسا غلام آزاد نہ کر سکوں ؟ ) " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کام کرنے والے کی مدد کرو یا جو شخص کسی چیز کو بنانا نہ جانتا ہو اس کی وہ چیز بنا دو " میں نے عرض کیا " اگر میں یہ ( بھی ) نہ کر سکوں ( تو کیا کروں ؟ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرو یاد رکھو یہ ایک اچھی خصلت ہے جس کے ذریعہ تم اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرتے ہو ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
ایمان کا بہتر ہونا تو بالکل بدیہی بات ہے کہ خیر و بھلائی کی بنیاد ہی ایمان ہے ، اگر ایمان کی روشنی موجود نہ ہو تو پھر کوئی بھی عمل مقبول نہیں ہوتا خواہ وہ کتنا ہی اہم ہو اور کتنا ہی افضل کیوں نہ ہو ! اور جہاد اس اعتبار سے بہتر عمل ہے کہ وہ دین کی تقویت اور مسلمانوں کی برتری و عظمت اور غلبہ کا باعث ہوتا ہے ۔
جہاں تک نماز روزہ کا تعلق ہے وہ تو دوسری حیثیات اور دوسری وجوہ کی بناء پر ( ایک دوسرے ) عمل سے برتر اور بہتر ہیں لہٰذا یہاں جہاد کو نماز و روزہ پر فوقیت دینا مراد نہیں ہے ۔ یا پھر یہ کہ اس موقع پر " جہاد " سے مراد مطلق " مشقت برداشت کرنا " ہے جس کا تعلق جہاد سے بھی ہے اور دوسری طاعات و عبادات سے بھی ، چنانچہ مامورات پر عمل کرنے اور منہیات سے بچنے کی نفسانی مشقت اور ریاضت کو " جہاد اکبر " فرمایا گیا ہے اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ سب سے بہتر عمل ، ایمان لانا اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے حدیث (قل اٰمنت باللہ ثم استقم) کام کرنے والے کی مدد کرو میں " کام سے " مراد ہر وہ چیز ہے جو انسان کے معاش کا ذریعہ ہو خواہ وہ صنعت و کاریگری ہو یا تجارت ہو ۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی پیشہ و کسب میں لگا ہوا ہو اور اس کا وہ پیشہ و کسب اس کی اور اس کے اہل و عیال کی ضروریات کو پورا نہ کرتا ہو وہ شخص اپنے ضعف و مجبوری کی وجہ سے اس کسب و پیشہ کو پوری طرح انجام نہ دے سکتا ہو تو تم اس شخص کی مدد کرو ! اسی طرح " جو شخص کسی چیز کو بنانا نہ جانتا ہو الخ " کا مطلب بھی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے پیشے کے کام کو نہ کر سکتا ہو تو تم اس کا کام کر دو تاکہ وہ تمہارے سہارے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کر سکے ۔
" لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرو " کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو برے کام میں مبتلا نہ کرو کسی کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے ایذاء نہ پہنچاؤ اور نہ کسی کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچاؤ کیونکہ لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرنا بھی خیر و بھلائی ہے خصوصًا ایسی صورت میں جب کہ برائی ( یعنی کسی کو ایذاء ونقصان ) پہنچانے پر قدرت بھی حاصل ہو ۔
مراز خیر تو امید نیست شرمرساں
اس موقع پر عبارت کے ظاہری اسلوب کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں فرماتے کہ " یہ ایک اچھی خصلت ہے جس کے ذریعہ تم لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہو " لیکن چونکہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا درحقیقت اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرنا ہے بایں طور کے اس بھلائی کے مختلف فوائد اسے حاصل ہوتے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ " جس کے ذریعہ تم اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرتے ہو ۔ "
************************
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن أفضل عباد الله عند الله منزلة يوم القيامة إمام عادل رفيق وإن شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة إمام جائر خرق "
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 850
اور حضرت عمر ابن خطاب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بندوں میں بلند مرتبہ کے اعتبار سے سب سے بہتر جو شخص ہوگا وہ عادل رفيق ہے اور قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں مرتبہ کے اعتبار سے سب سے بدتر جو شخص ہوگا وہ ظالم اور سختی کرنے والا حاکم ہے ۔
************************
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من آمن بالله ورسوله وأقام الصلاة وصام رمضان كان حقا على الله أن يدخله الجنة جاهد في سهل الله أو جلس في أرضه التي ولد فيها " . قالوا : أفلا نبشر الناس ؟ قال : " إن في الجنة مائة درجة أعدها الله للمجاهدين في سبيل الله ما بين الدرجتين كما بين السماء والأرض فإذا سألتم الله فاسألوه الفردوس فإنه أوسط الجنة وأعلى الجنة وفوقه عرش الرحمن ومنه تفجر أنهار الجنة " . رواه البخاري
(2/362)
3788 - [ 2 ] ( متفق عليه )
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " مثل المجاهد في سبيل الله كمثل الصائم القائم القانت بآيات الله لا يفتر من صيام ولا صلاة حتى يرجع المجاهد في سبيل الله "
(2/362)
3789 - [ 3 ] ( متفق عليه )
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " انتدب الله لمن خرج في سبيله لا يخرجه إلا إيمان بي وتصديق برسلي أن أرجعه بما نال من أجر وغنيمة أو أدخله الجنة "
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 910
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں بھیجی (یعنی شریعت پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر (ازراہ فضل و کرم بحسب اپنے وعدے کے ) واجب ہے کہ وہ اس شخص کو جنت میں داخل کرے خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے (اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور خواہ ہجرت کرے ) اور خواہ اپنے وطن وگھر میں جہاں پیدا ہوا بیٹھا رہے (یعنی نہ جہاد کرے اور نہ ہجرت کرے ) " صحابہ " نے سن کر ') عرض کیا کہ " کیا لوگوں کو ہم یہ خوشخبری نہ سنا دیں ؟" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (لیکن جہاد کرنے والے کی یہ فضیلت بھی سن لو کہ ) جنت میں سو درجے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے تیار کیا ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور ان کے دو درجوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے ۔ لہٰذا جب تم اللہ سے (جہاد پر درجہ عالی) مانگو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ (فردوس ) اوسط جنت ہے (یعنی جنت کے تمام درجات میں سب سے بہتر و افضل ہے ) اور سب سے بلند جنت ہے اور اس کے اوپر عرش ہے (گویا وہ عرش الہٰی کے سایہ میں ہے ) اور وہیں سے جنت کی نہریں بہتی ہیں (یعنی چار چیزیں جنت کی اصل ہیں جیسے پانی ، دودھ ، شراب اور شہد وہ جنت الفردوس ہی سے جاری ہوتی ہیں ۔" (بخاری )
تشریح :
اس حدیث میں نماز اور روزے کا تو ذکر کیا گیا ہے لیکن حج اور زکوۃ کا ذکر نہیں ہے اس کی وجہ اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ یہ دو عبادتیں یعنی نماز اور روزہ دیگر عبادتوں کی نسبت اپنی امتیازی اور برتری شان رکھتی ہیں دوسرے یہ کہ ان دونوں عبادات کا تعلق ہر مسلمان سے ہے کہ وہ سب ہی مسلمانوں پر واجب ہیں جب کہ حج اور زکوۃ ایسی عبادتیں ہیں جو ہر مسلمان پر واجب نہیں ہیں بلکہ اسی مسلمان پر واجب ہیں جو مالدار صاحب استطاعت ہو ۔
خواہ اپنے گھر و وطن میں بیٹھا رہے ۔" اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث فتح مکہ کے دن ارشاد فرمائی تھی کیونکہ فتح مکہ کے دن سے پہلے ہجرت ہر مؤمن پر فرض تھی ۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ روزہ رکھنے والا (نماز اور طاعت وعبادات میں ) منہمک رہنے والا اور اللہ کی آیتوں یعنی قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا جو روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے (یعنی عبادات میں منہمک رہنے ) سے کبھی نہیں تھکتا، یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا اپنے گھر واپس آجائے ۔ " (بخاری ، ومسلم )
تشریح :
جب مجاہد اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے گھر سے نکلتا ہے اور پھر جہاد کر کے گھر واپس آتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس دوران میں وہ ہمہ وقت جہاد میں مصروف نہیں رہتا بلکہ اس کے اوقات کا کچھ حصہ جہاد میں گزرتا ہے کہ جن میں وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور سوتا لیٹتا بھی ہے اور ایسے ہی دوسرے کاموں میں بھی وقت گذارتا ہے مگر اس کے باوجود اس کو یہ درجہ عطا کیا گیا ہے کہ گویا وہ کبھی بھی اور کسی وقت بھی عبادت سے خالی نہیں رہتا ۔ چنانچہ ہر حرکت وسکون پر اور ہر عیش وآرام پر اس کے نامہ اعمال میں ثواب ہی لکھا جاتا ہے ۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے نکلا اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہو گیا ، اس کو (جہاد کے لئے ) مجھ پر اس کے ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کے علاوہ اور کسی نے نہیں نکالا ( یعنی اس کا جہاد میں جانا دکھاوے سنانے کے لئے یا دنیا میں کسی طلب وخواہش کے پیش نظر نہیں بلکہ وہ محض میری رضا وخوشنودی طلب کرنے کے لئے نکلا ہے ) تو میں اس کو (یا تو بغیر غنیمت کے محض ) آخرت کے اجر وثواب کے ساتھ یا مال غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا اور یا (اگر شہید ہو گیا تو ) میں اس کو (بغیر حساب وعذاب کے سب سے پہلے جنت میں جانے والوں کے ساتھ جنت میں داخل کروں گا (یا اس کی موت کے بعد ہی قیامت کے دن سے بھی پہلے جنت میں داخل کروں گا جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو بلکہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ۔" ( بخاری ومسلم)
************************
عن أبي قتادة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قام فيهم فذكر لهم أن الجهاد في سبيل الله والإيمان بالله أفضل الأعمال فقام رجل فقال : يا رسول الله أرأيت إن قتلت في سبيل الله يكفر عني خطاياي ؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم إن قتلت في سبيل الله وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر " . ثم قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كيف قلت ؟ " فقال : أرأيت إن قتلت في سبيل الله أيكفر عني خطاياي ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر إلا الدين فإن جبريل قال لي ذلك " . رواه مسلم
(2/366)
3806 - [ 20 ] ( صحيح )
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " القتل في سبيل الله يكفر كل شيء إلا الدين " . رواه مسلم
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 926 (40304) - جہاد کا بیان : جہاد ، حقوق العباد کے علاوہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے
اور ابوقتادہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اور (اس خطبہ میں ان کو آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے بہتر اعمال ہیں ۔" (یہ سن کر ) ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! مجھے یہ بتایئے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ہاں " بشرطیکہ تم اللہ کی راہ میں اس حال میں مارے گئے کہ تم (سختیوں پر ) صبر کرنے والے ہو، ثواب کے طالب ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہیں ہو بلکہ دشمن کے مقابلے پر جمے رہنے والے ہو ۔" پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ " تم نے کیا کہا تھا ؟ اس نے عرض کیا کہ " مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں ! بشرطیکہ تم صبر کرنے والے ہو ، ثواب کے طالب ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہ ہو بلکہ دشمن کے مقابلے میں جمنے والے ہو مگر دین (یعنی وہ قرض معاف نہیں ہوگا جس کی ادائیگی کی نیت ہی نہ ہو ') اور مجھ سے جبرائیل علیہ السلام نے یہی فرمایا ہے ۔" (مسلم )
تشریح :
ایمان کا سب سے بہتر عمل ہونا تو ظاہر ہی ہے اس لئے کسی توضیح وتشریح کی ضرورت نہیں ہے ۔ رہی بات تو اس عمل (یعنی جہاد) کو اس اعتبار سے سب سے بہتر عمل فرمایا گیا ہے کہ تمام نیک اعمال میں یہی ایک عمل ایسا ہے جس کے ذریعہ اعلاء کلمۃ اللہ (اللہ کے دین کو سربلند کرنے ) کا فریضہ سر انجام پاتا ہے ، اللہ کے باغیوں اور دین کے دشمنوں کی بیخ کنی ہوتی ہے ، جان ومال کی قربانی پیش کی جاتی ہے اور مختلف قسم کی تکلیفیں مشقتیں اور پریشانیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں گویا یہ اعمال اللہ کے حضور میں اور اس کی راہ میں بندے کے جذبہ عبودیت اور بندگی اور کمال ایثار وقربانی کا سب سے بڑا مظہر ہوتا ہے اور جو دوسری احادیث میں نماز کو سب سے بہتر عمل فرمایا گیا ہے تو وہ اس اعتبار سے ہے کہ نماز ہی ایک ایسا عمل ہے جس میں مداومت وہمیشگی ہے اور جو ایک عمل ہونے کے باوجود عبادات کثیرہ پر مشتمل ہے ۔
" مگر دین " کے بارے میں علامہ تورپشتی لکھتے ہیں کہ یہاں " دین " سے مراد " مسلمانوں کے حقوق " ہیں لہٰذا اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جہاد سے حقوق العباد کے علاوہ تمام گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں ۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" اللہ کی راہ (یعنی جہاد میں ) مارا جانا دین (حقوق العباد ) کے علاوہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے " (مسلم )
تشریح :
علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ بحری جہاز (پانی میں لڑی جانے والی جنگ ) کے شہداء اس حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی ان کے ذمے جو حقوق العباد ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دیتا ہے ۔
************************
وعن عبد الله بن حبشي : أن النبي صلى الله عليه و سلم سئل أي الأعمال أفضل ؟ قال : " طول القيام " قيل : فأي الصدقة أفضل ؟ قال : " جهد المقل " قيل : فأي الهجرة أفضل ؟ قال : " من هجر ما حرم الله عليه " قيل : فأي الجهاد أفضل ؟ قال : " من جاهد المشركين بماله ونفسه " . قيل : فأي القتل أشرف ؟ قال : " من أهريق دمه وعقر جواده " . رواه أبو داود
وفي رواية للنسائي : أن النبي صلى الله عليه و سلم سئل : أي الأعمال أفضل ؟ قال : " إيمان لا شك فيه وجهاد لا غلول فيه وحجة مبرورة " . قيل : فأي الصلاة أفضل ؟ قال : " طول القنوت " . ثم اتفقا في الباقي
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 947 (40325) افضل مجاہد اور افضل شہید
اور حضرت عبداللہ ابن حبشی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ نماز کے اعمال (ارکان ') میں سے کونسا عمل (رکن ) افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طویل قیام کرنا پوچھا گیا کون سا صدقہ افضل ہے فرمایا مفلس ومحتاج اپنے فقر وافلاس کے باوجود محنت ومشقت کر کے نکالے پوچھا گیا کون سی ہجرت بہتر ہے فرمایا اس شخص کی ہجرت میں جو اس چیز کو چھوڑ دے جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے یعنی اگرچہ ہجرت کے معنی دارالکفر کو چھوڑ کر دار السلام میں چلے جانا ہیں لیکن حرام چیزوں کو چھوڑ کر حلال چیزوں کو اختیار کرنا بھی ہجرت ہی کہلاتا ہے بلکہ یہی ہجرت بہتر ہے پوچھا گیا کون سا جہاد بہتر ہے فرمایا اس شخص کا جہاد (جو اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ مشرکین سے جہاد کرے پوچھا گیا جہاد میں کونا سا مارا جانا بہتر ہے یعنی کون سا شہید افضل ہے فرمایا اس شخص کا مارا جانا جس کا خون بہایا جائے اور جس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹی جائیں یعنی وہ شہید افضل ہے جو خود بھی مارا جائے اور اس کا گھوڑا بھی مارا جائے ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں یوں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اعمال میں کون سا عمل افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ایمان جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہ ہو ۔ وہ جہاد جس میں حاصل شدہ مال غنیمت کے بارے میں کسی طرح کی خیانت نہ کی گئی ہو اور حج مقبول پھر پوچھا گیا کہ نماز میں کون سی چیز افضل ہے ؟ فرمایا قیام کو طویل کرنا اس کے بعد حدیث کے الفاظ ابوداؤد ونسائی نے یکساں نقل کئے ہیں ۔"
تشریح :
جو اپنے جان اور مال کے ذریعہ الخ کا مطلب یہ ہے کہ وہی جہاد افضل ہے جس میں مجاہد نے اپنا مال واسباب اور اپنا روپیہ پیسہ بھی اپنے اور دوسرے مجاہدین کی ضروریات جہاد میں صرف کیا ہو اور میدان جنگ میں اپنی جان کو بھی پیش کیا ہو یہاں تک کہ زخمی ہوا اور مارا گیا
افضل اعمال کے سلسلے میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ احادیث میں افضل اعمال کے تعین وبیان کے سلسلے میں مختلف ارشاد منقول ہیں کہیں عمل کو افضل فرمایا گیا ہے اور کہیں کسی عمل کو اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے افضل عمل کے بارے میں کئے جانے والے سوالات کے جوابات سائل کی حیثیت اور اس کے احوال کے مناسب ارشاد فرمائے چنانچہ جس سائل میں تکبر ودرشتی کے آثار دیکھے اس کو جواب دیا کہ سب سے بہتر عمل تواضع و نرم خوئی ہے جیسے سلام کو ظاہر کرنا اور نرم کرنا جس سے سائل میں بخل اور خست کے آثار پائے اس سے فرمایا کہ سب سے بہتر عمل سخاوت ہے جیسے محتاجوں اور فقیروں کو کھانا کھلانا وغیرہ اسی طرح جس سائل میں عبادت کے معاملے میں سستی کے آثار پائے اس کو جواب دیا کہ سب سے بہتر عمل تہجد کی نماز ہے غرضیکہ جس سائل کو جس حالت میں پایا اس کا جواب اسی کے مناسب حال دیا ، اس اعتبار اعمال کی افضلیت کی مراد گویا درحقیقت سائل کے حق میں ہے کہ مثلا جس سائل میں بخل وخست کی خصلتیں تھیں اس کے حق میں سب سے بہتر عمل سخاوت ہی تھا یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جس موقع پر جس عمل کو سب سے بہتر عمل فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ عمل افضل اعمال میں سے ایک افضل عمل ہے ۔
************************
وعن سلمة بن الأكوع قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم بظهره مع رباح غلام رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا معه فلما أصبحنا إذا عبد الرحمن الفزاري قد أغار على ظهر رسول الله صلى الله عليه و سلم فقمت على أكمة فاستقبلت المدينة فناديت ثلاثا يا صباحاه ثم خرجت في آثار القوم أرميهم بالنبل وأرتجز وأقول :
أنا ابن الأكوع واليوم يوم الرضع
فما زلت أرميهم وأعقر بهم حتى ما خلق الله من بعير من ظهر رسول الله صلى الله عليه و سلم إلا خلفته وراء ظهري ثم اتبعتهم أرميهم حتى ألقوا أكثر من ثلاثين بردة وثلاثين رمحا يستخفون ولا يطرحون شيئا إلا جعلت عليه آراما من الحجارة يعرفها رسول الله صلى الله عليه و سلم وأصحابه حتى رأيت فوارس رسول الله صلى الله عليه و سلم ولحق أبو قتادة فارس رسول الله صلى الله عليه و سلم بعبد الرحمن فقتله قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " خير فرساننا اليوم أبو قتادة وخير رجالتنا سلمة " . قال : ثم أعطاني رسول الله صلى الله عليه و سلم سهمين : سهم الفارس وسهم الراجل فجمعهما إلي جميعا ثم أردفني رسول الله صلى الله عليه و سلم وراءه على العضباء راجعين إلى المدينة . رواه مسلم
(2/407)
3990 - [ 6 ] ( متفق عليه )
وعن ابن عمر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان ينفل بعض من يبعث من السرايا لأنفسهم خاصة سوى قسمة عامة الجيش
(2/407)
3991 - [ 7 ] ( متفق عليه )
وعنه قال : نفلنا رسول الله صلى الله عليه و سلم نفلا سوى نصيبنا من الخمس فأصابني شارف والشارف : المسن الكبير
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 1091 (40469) - مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان : مخصوص طور پر بعض مجا ہدوں کو ان کے حصے سے زائد دیا جا سکتا ہے
اور حضرت سلمہ ابن اکوع کہتے ہیں کہ ( مسلمانوں اور کفار قریش کے درمیان معاہدہ ہو جانے کے بعد حدیبیہ سے واپسی کے دوران راستہ میں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ، سواری کے اونٹ رباح کے ساتھ ، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے ، آگے روانہ کر دئیے میں بھی رباح کے ساتھ ہو لیا ، ( ہم دونوں نے رات میں ایک جگہ قیام کیا اور) جب صبح ہوئی تو ہمیں معلوم ہوا کہ عبدالرحمن فزاری نے ( جو مسلمانوں کا ایک مشہور دشمن اور کافر تھا ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر چھاپہ مارا اور ان کو ہنکا کر لے گیا ، میں ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور مدین کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ یا صباحاہ ( یعنی خبردار ! دشمن آ پہنچا ) کا نعرہ بلند کیا اور تیر پر تیر پھینکتا ہوا اس قوم یعنی عبدالرحمن اور اس کے ساتھیوں کے نشانات قدم پر ( یعنی ان کے پیچھے ) چل پڑا اس وقت میری زبان پر ( بلند آواز میں ) رجز یعنی رزمیہ شعر تھے ، میں نے کہا تھا (انا ابن الاکوع والیوم یوم الرضع) یعنی ( اے دین کے دشمنو ! کان کھول کر سن لو ) میں اکوع کا بیٹا ہوں ، آج کا دن برے لوگوں ( یعنی تم دشمنان دین ) کے ہلاک ہونے کا دن ہے ! میں اسی طرح برابر تیر مارتا اور ان کی سواریوں کی کونچیں کاٹتا ( آ گے بڑھتا ) رہا یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں میں سے اللہ کا پیدا کیا ہوا ایسا کوئی اونٹ باقی نہیں بچا جس کو میں نے اپنے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو ، میں تیر برساتا ہوا ان کا تعاقب جاری رکھے ہوئے تھا یہاں تک کہ انہوں نے ہلکا ہو جانے کے خیال سے اپنی تیس سے زیادہ چادریں اور تیس کپڑے پھینک دئیے ( یعنی وہ بھاگتے ہوئے اپنی چادریں اور کپڑے بھی پھینکتے جا رہے تھے تاکہ جسم ہلکا ہو جانے کی وجہ سے بھاگنے میں آسانی ہو ) اور وہ جس چیز کو بھی پھینکتے تھے میں اس پر نشان کے طور پر پتھر رکھ دیتا تھا تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء ( اگر پیچھے سے آئیں تو ) اس کو پہچان لیں یہاں تک میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں کو ( آتے دیکھا اور پھر ( یہ دیکھا کہ ) حضرت ابوقتادہ نے جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سوار کہا جاتا تھا ، عبدالرحمن کو جا لیا ( جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو ہنکا لے جانا چاہا تھا ) اور اس کو قتل کر دیا ۔ پھر ( اس ہنگامہ کے ختم ہونے کے بعد ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " آج ہمارے سواروں میں سب سے بہتر سوار ابوقتادہ ہیں اور پیادوں میں سب سے بہتر پیادہ سلمہ ابن اکوع ہیں ۔" اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( جب ان کافروں سے ہاتھ لگے ہوئے مال کو ہمارے درمیان تقسیم فرمایا تو ) مجھ کو دو حصے دئیے ( ایک حصہ سوار کا ( کہ وہ بحسب اختلاف مسلک دو حصے ہیں یا تین حصے ) اور ایک حصہ پیادہ کا ، دونوں حصے اکٹھا کر کے مجھے عطا فرمائے اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی عضباء پر مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔" ( مسلم )
تشریح :
" رضع " دراصل راضع کی جمع ہے جیسے ارکع کی جمع رکع ہے !راضع پاجی اور کمینہ شخص کو کہتے ہیں آرام ( پہلے الف کے مد کے ساتھ ) ارم کی جمع ہے جیسے عنب کی جمع اعناب ہے ! ارم اس پھتر کو کہتے ہیں جو منگل ومیدان میں راستہ یا کسی دفینہ کے نشان و علامت کے طور پر نصب کیا گیا ہو ۔ اہل عرب کی یہ عادت تھی جب وہ راستہ میں کوئی چیز پاتے اور اس کو اپنے ساتھ نہ لے جا سکتے تو اس پر بطور نشان کو یا پتھر رکھ دینے یا پتھروں کا ڈھیر کر کے اس کے نیچے اس کو چھپا دیتے اور پھر آ کر اسی نشان سے وہ چیز نکال کر لے جاتے ۔
حضرت سلمہ اگرچہ پیادہ تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پیادہ کا حصہ دینے کے ساتھ سوار کا حصہ بھی دیا کیونکہ یہ سارا معرکہ ایک طرح سے انہی کی جدوجہد سے سر ہوا گویا وہ اس غزوے کے ایک بڑے منتظم بھی تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ امام وقت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مال غنیمت میں سے کسی ایسے مجاہد کو اس کے حصے سے زیادہ دے دے ۔ جس نے جہاد میں بہت زیادہ محنت و جدوجہد کی ہو تاکہ لوگ جہاد میں زیادہ سے زیادہ محنت و جدوجہد کرنے کی طرف راغب ہوں
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کو جہاد کے لئے بھیجتے تھے ان میں سے بعض لوگوں کے لئے عام لشکر والوں کی بہ نسبت مخصوص طور پر کچھ زیادہ حصہ لگا دیا کرتے تھے۔" (بخاری ومسلم)
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کی تقسیم کے وقت بعض مجاہدوں کو ان کے مقررہ حصوں سے کچھ زیادہ دے دیا کرتے تھے تا کہ انہیں دشمنوں کے مقابلہ پر لڑنے کی ترغیب ہو ۔
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو خمس مال میں سے ہمارے مقررہ حصوں کے علاوہ بھی کچھ زیادہ مرحمت فرمایا چنانچہ میرے حصے میں ایک شارف آئی اور شارف اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو بوڑھی اور بڑی ہو ۔"
(بخاری ومسلم )
************************
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " إزرة المؤمن إلى أنصاف ساقيه لا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين ما أسفل من ذلك ففي النار " قال ذلك ثلاث مرات " ولا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر إزاره بطرا " . رواه أبو داود وابن ماجه
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 262
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " ایک مؤمن کے تہبند و پائجامہ کی سب سے بہتر صورت تو یہ ہے کہ وہ آدھی پنڈلیوں تک ہو اور آدھی پنڈلیوں سے ٹخنوں تک (کے درمیان ) ہونے میں ( بھی) کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس (ٹخنے ) سے نیچے جو حصہ (لٹکا ہوا ) ہو گا وہ دوزخ کی آگ میں لے جائے گا ۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار فرمائے ۔ اور (پھر فرمایا کہ ) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو (رحمت و عنایت کی نظر سے ) نہیں دیکھے گا جو غرور و تکبر سے اپنے تہبند و پائجامہ کو (ٹخنوں سے) نیچے لٹکائے گا ۔" (ابوداؤد ، ترمذی )'۔
************************
وعن أبي ذر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أحسن ما غير به الشيب الحناء والكتم . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 380
اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جن چیزوں کے ذریعہ بڑھاپے یعنی بالوں کی سفیدی کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ان میں سب سے بہتر مہندی اور وسمہ ہے ۔" (ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی )
تشریح
" کتم " اور بعض حضرات کے قول کے مطابق کتم ایک گھاس کا نام ہے جو وسمہ کے ساتھ ملا کر بالوں پر خضاب کرنے کے کام میں لائی جاتی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کتم اصل میں وسمہ ہی کو کہتے ہیں
بہرحال حدیث کے مفہوم کے بارے میں یہ سوال ہوتا ہے کہ آیا یہ مراد ہے کہ مہندی اور وسمہ دونوں کو ملا کر خضاب کیا جائے یا مراد ہے کہ صرف مہندی یا صرف وسمہ کا خضاب کیا جائے؟ چنانچہ نہایہ کے قول کے مطابق بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں صرف کتم، یا صرف مہندی کا خضاب کرنا مراد ہے کیونکہ اگر کتم کو مہندی کے ساتھ ملایا جائے تو اس سے خضاب، سیاہ ہو جاتا ہے اور صحیح روایات میں سیاہ خضاب کی ممانعت مذکور ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہ اصل میں ۔" بالحناء والکتم " ہے (یعنی حرف واؤ کے بجائے او ہے ) جس کا مطلب ہے کہ خضاب کرنے والے کو اختیار ہے کہ چاہئے مہندی کا خضاب کرے اور چاہئے کتم کا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت متعدد طریق و اسانید سے منقول ہے اور سب نے بالحناء والکتم ہی نقل کیا ہے اگرچہ اس سے مذکورہ مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ کیونکہ حرف " و "مفہوم کے اعتبار سے حرف او کے معنی میں ہو سکتا ہے ۔ بعض حواشی میں یہ لکھا ہے کہ صرف مہندی کا خضاب سرخ رنگ کا ہوتا ہے اور صرف کتم کا خضاب سبز رنگ کا ہوتا ہے ۔
بعض حضرات کے قول سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خالص کتم کا خضاب سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور اگر کتم کو مہندی کے ساتھ ملا کر خضاب کیا جائے تو سرخ مائل بہ سیاہی رنگت پیدا ہو جاتی ہے اس صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ حدیث میں کتم اور مہندی دونوں کا مرکب خضاب مراد ہے تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہو گا، چنانچہ آگے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ایک روایت آ رہی ہے (نمبر ٣٦) اس سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے ملاعلی قاری نے یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کتم اور مہندی کے مرکب خضاب کی مختلف نوعیت ہوتی ہے اگر کتم کا جزء غالب ہو یا کتم اور مہندی دونوں برابر ہوں تو خضاب سیاہ ہوتا ہے اور اگر مہندی کا حصہ غالب ہو تو خضاب سرخ ہوتا ہے ۔
************************
وعن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أمثل ما تداويتم به الحجامة والقسط البحري . ( متفق عليه )
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 452 (41048) - طب کا بیان : جذامی کا ذکر
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جن چیزوں کو تم دوا علاج کے طور پر اختیار کرتے ہو ان میں بہترین چیز سینگی کھچوانا اور بحری قسط کا استعمال کرنا ہے ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح
" قسط " ایک جڑ کا نام ہے جس کو " کوٹ " بھی کہتے ہیں اور دوا کے کام میں آتی ہے اطباء نے اس کے بہت فوائد لکھے ہیں مثلا نفاس والی عورتیں اس کی دھونی لیں تو رکا ہوا فاسد خون جیسے حیض اور پیشاب جاری ہو جاتا ہے ۔ یہ مسموم جراثیم کو دور کرتی ہے ۔ دماغ کو قوت بخشتی ہے اعضاء رئیسہ باہ اور جگر کو طاقتور بناتی ہے اور قوت مردی میں تحریک پیدا کر دیتی ہے ۔ ریاح کو تحلیل کرتی ہے ، دماغی بیماریوں جیسے فالج لقوہ ، اور رعشہ کے لئے مفید ہے ۔ پیٹ کے کیڑے باہر نکالتی ہے ۔چوتھے دن کے بخار کے لئے بھی فائدہ مند ہے اس کا لیپ کرنے سے چھائیاں اور چھیپ جاتی رہتی ہے، زکام کی حالت میں اس کی دھونی لینا ایک بہترین علاج ہے اس کی دھونی سے سحر و وبا کے اثرات بھی جاتے رہتے ہیں غرض کہ طب کے کتابوں میں اس کے بہت زیادہ فوائد لکھے ہیں اسی لئے اس کو" سب سے بہتر دوا " فرمایا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ " قسط " دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو قسط بحری جس کا رنگ سفید ہوتا ہے اور دوسری کو قسط ہندی کہا جاتا ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے دونوں کی خاصیت گرم و خشک ہے لیکن بحری قسط ہندی قسط سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ اس میں گرمی کم ہوتی ہے ۔
************************
وعن عبد الله بن عمرو أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الإسلام خير ؟ قال تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 563 (41097) - آداب کا بیان۔ : افضل اعمال
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم سے دریافت کیا کہ اہل اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے آپ نے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر شناسا وناشناسا کو سلام کرنا۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
اور دو اوصاف کی تخصیص، سائل کے حال کے مناسبت سے ہے لہذا مختلف اوقات میں مختلف اعمال کو افضل فرمانا کہ کسی موقع پر کسی عمل کو افضل فرمایا اور کسی موقع پر کسی کو، سائل کے احوال کے اختلاف و تفاوت پر مبنی ہوتا تھا دریافت کرنے والا جس مزاج و احوال کا آدمی ہوتا تھا اور اس کا رجحان جس نیک خصلت کی ضد کی طرف ہوتا اس کے سامنے اسی نیک خصلت کو افضل قرار دیا جاتا تھا مثلا کسی شخص نے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ اور آپ جانتے تھے کہ اس شخص کے مزاج میں بخل ہے تو اس سے فرماتے کہ کھانا کھلانا، سب سے بہتر ہے لہذا یہاں جس شخص نے سوال کیا تھا آپ نے اس کے احوال کے مناسبت سے اس سے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر آشنا و ناآشنا کو سلام کرنا بہتر عمل ہے۔
لفظ" تقری" (تا کے پیش کے ساتھ) اقراء سے مشتق ہے اور اس کے معنی پڑھوانے کے ہیں یہ لفظ تاء کے زبر کے ساتھ منقول ہے جو" قرأت" سے مشتق ہے اور جس کے معنی پڑھنے کے ہیں اگر موخر الذکر صورت میں مفہوم زیادہ بہتر طور پر واضح نہیں ہوتا لہذا اس کی توجہیہ یہ کی جائے گی کہ سلام کرنے والا چونکہ مسلم علیہ (جس کو سلام کیا گیا ہے) کے جواب دینے کے باعث ہوتا ہے اس لئے گوایا وہ اس کی زبان سے وہ کلمہ پڑھواتا ہے جس کا تعلق سلام اور اس کے جواب سے ہے۔
اس حدیث یہ بات واضح ہوئی کہ سلام کا تعلق شناسائی کے حقوق سے نہیں ہے بلکہ یہ ان حقوق میں سے ہے جو اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں عائد کئے ہیں اس طرح مریض کی عیادت اور اس جیسے دوسرے امور بھی اسلامی حقوق و واجبات سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے واضح ہوگا۔
************************
وعن عبد الله بن عمرو أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الإسلام خير ؟ قال تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 563
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم سے دریافت کیا کہ اہل اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے آپ نے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر شناسا وناشناسا کو سلام کرنا۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
اور دو اوصاف کی تخصیص، سائل کے حال کے مناسبت سے ہے لہذا مختلف اوقات میں مختلف اعمال کو افضل فرمانا کہ کسی موقع پر کسی عمل کو افضل فرمایا اور کسی موقع پر کسی کو، سائل کے احوال کے اختلاف و تفاوت پر مبنی ہوتا تھا دریافت کرنے والا جس مزاج و احوال کا آدمی ہوتا تھا اور اس کا رجحان جس نیک خصلت کی ضد کی طرف ہوتا اس کے سامنے اسی نیک خصلت کو افضل قرار دیا جاتا تھا مثلا کسی شخص نے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ اور آپ جانتے تھے کہ اس شخص کے مزاج میں بخل ہے تو اس سے فرماتے کہ کھانا کھلانا، سب سے بہتر ہے لہذا یہاں جس شخص نے سوال کیا تھا آپ نے اس کے احوال کے مناسبت سے اس سے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر آشنا و ناآشنا کو سلام کرنا بہتر عمل ہے۔
لفظ" تقری" (تا کے پیش کے ساتھ) اقراء سے مشتق ہے اور اس کے معنی پڑھوانے کے ہیں یہ لفظ تاء کے زبر کے ساتھ منقول ہے جو" قرأت" سے مشتق ہے اور جس کے معنی پڑھنے کے ہیں اگر موخر الذکر صورت میں مفہوم زیادہ بہتر طور پر واضح نہیں ہوتا لہذا اس کی توجہیہ یہ کی جائے گی کہ سلام کرنے والا چونکہ مسلم علیہ (جس کو سلام کیا گیا ہے) کے جواب دینے کے باعث ہوتا ہے اس لئے گوایا وہ اس کی زبان سے وہ کلمہ پڑھواتا ہے جس کا تعلق سلام اور اس کے جواب سے ہے۔
اس حدیث یہ بات واضح ہوئی کہ سلام کا تعلق شناسائی کے حقوق سے نہیں ہے بلکہ یہ ان حقوق میں سے ہے جو اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں عائد کئے ہیں اس طرح مریض کی عیادت اور اس جیسے دوسرے امور بھی اسلامی حقوق و واجبات سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے واضح ہوگا۔
************************
عن أبي هريرة قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الناس أكرم ؟ فقال أكرمهم عند الله أتقاهم . قالوا ليس عن هذا نسألك . قال فأكرم الناس يوسف نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله . قالوا ليس عن هذا نسألك . قال فممن معادن العرب تسألوني ؟ قالوا نعم . قال فخياركم في الجاهلية خياركم في الإسلام إذا فقهوا . متفق عليه
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 827 (41361) - آداب کا بیان۔ : خاندانی وذاتی شرافت کا حسن ، علم دین سے ہے
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ کون شخص زیادہ معزز و مکرم ہے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار و متقی ہے یعنی اگر تمہارے سوال کا مطلب یہ ہے کہ خاندانی عظمت باپ دادا کی بڑائی اور اپنے فضائل و اچھی عادات سے قطع نظر ذاتی بزرگی و کرامت کیا چیز تو ہے جان لو کہ وہ تقوی ہے لہذا جو شخص لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے وہی سب سے زیادہ معزز و مکرم ہے خواہ وہ اپنے حسب و نسب، خاندانی عظمت و جاہت اور اپنے اوصاف و خصائل کے اعتبار سے کم تر ہو یا برتر، صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مطلب یہ نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ذاتی بزرگی و کرامت کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تو اس اعتبار سے انسانوں میں سب سے زیادہ شریف و بزرگ حضرت یوسف ہیں جو اللہ کے نبی (حضرت یعقوب کے بیٹے، اللہ کے (حضرت اسحق کے پوتے اور اللہ کے دوست حضرت ابراہیم کے پڑپوتے ہیں یعنی حضرت یوسف میں کئی طرح کی شرافت و بزرگیاں جمع ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان تین پشتوں میں نبوت رہی ہے ان کے پردادا کو خلیل اللہ کا لقب ملا ہے کہ اللہ نے ان کو خالص دوست قرار دیا ہے پھر وہ علم دانائی، حسن وجمال ، عفو و کرم اخلاق و احسان ، عدل و انصاف اور دینی دنیاوی سرداری و حکمرانی کے اوصاف سے بھی متصف تھے لہذا اس اعتبار سے وہ انسانوں میں سب سے زیادہ بزرک و شریف انسان تھے، صحابہ نے عرض کیا کہ آپ سے ہمارے سوال کا یہ مطلب نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم عربوں کی خاندانی شرافت اور ذات و حسب کی اعلی خصوصیات کے اعتبار سے پوچھ رہے ہو؟ کہ اہل عرب جو اپنے اور باپ دادا کے کارناموں ذاتی بزرگی و عزت اور اس طرح کے اور دوسرے اوصاف کے ذریعہ ایک دوسرے سے کے سامنے اظہار فخر کرتے ہیں اور اپنی بزرگی و برائی کا دعوی کرتے ہیں نیز وہ اپنے میں ایک دوسرے کی عزت و شرافت کا معیار تقوی اور نسب کے بجائے مذکورہ اوصاف وخصوصیات کو قرار دیتے ہیں تو ان میں واقعتا سب سے زیادہ معزز و مکرم کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں ہمارے سوال کا مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو سنو! تم میں سے جو لوگ زمانہ جاہلیت میں سب سے بہتر تھے وہی اسلام میں سب سے بہتر ہیں جبکہ وہ فقیہ ہوں (یعنی تم میں سے جو لوگ زمانہ جاہلیت میں اپنی خاندانی شرافت شریف النفسی بہادری، سرداری اور عمدہ اخلاق و عادات کے اعتبار سے سب سے پسندیدہ اور سب سے بہتر شمار کیتے جاتے تھے اسلام کے زمانہ میں بھی وہی لوگ سب سے زیادہ پسندیدہ اور سب سے بہتر ہیں بشرطیکہ وہ اسلامی احکام و شرائع کے سمجھنے والے اور دین کا علم حاصل کرنے والے ہوں۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
ا نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری جواب کا مطلب یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں جن لوگوں کی ذات اور شخصیت کی وجہ سے ان کو سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا وہ لوگ اپنی انہی خصوصیات کی بنا پر زمانہ اسلام میں بھی معزز و مکرم قرار دیئے جائیں گے بشرطیکہ انہوں نے ایمان و اسلام قبول کر کے دین کا علم اور شریعت کے احکام ومسائل حاصل کئے ہوں فرق یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان پر کفر کا سایہ معصیت کی تاریکی اور جہل کا غبار چھایا ہوا تھا اور خواہش نفس کے دام فریب میں مبتلا تھے اور اس اعتبار سے ان کی ذاتی شرافت و صفات کی کوئی حثییت نہیں تھی مگر اب ایمان و اسلام کی پاکیزگی اور عبادات و علم دین کے نور نے ان کی ذات و شخصیت کو نکھار دیا ہے ان کی زندگی کو روشن کر دیا ہے اور ان کو حق کا تابعدار بنا دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ معاون سے مراد وہ لوگوں کی اپنی ذات و شخصیات ہیں جو عمدہ و صفات و اعلی خصوصیات سے متصف ہوں جیسا کہ کتاب میں یہ روایت نقل کی جا چکی ہے کہ الناس معادن کمعادن الذھب والفضۃ الخ۔ ۔ یعنی لوگوں کی بھی کانیں ہوتی ہیں جیسے سونے اور چاندی کی کانیں، پس جو خاندان و افراد اپنی اعلی خصوصیات کے اعتبار سے زمانہ جاہلیت میں سب سے بہتر شمار کئے جاتے تھے اسلام کے زمانہ میں بھی وہی سب سے بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم حاصل کریں۔
************************
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے تئیں سردار کہلانے سے انکار:
وعن مطرف بن عبد الله الشخير قال قال أبي انطلقت في وفد بني عامر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلنا أنت سيدنا . فقال السيد الله فقلنا وأفضلنا فضلا وأعظمنا طولا . فقال قولوا قولكم أو بعض قولكم ولا يستجرينكم الشيطان . رواه أحمد وأبو داود
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 830 (41364) - آداب کا بیان۔ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے تئیں سردار کہلانے سے انکار
" اور حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ بنو عامر کا جو وفد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس میں بھی شریک تھا چنانچہ جب ہم آپ کی خدمت میں پہنچے تو ہم نے عرض کیا کہ آپ ہمارے سردار ہیں آپ نے فرمایا سردار تو اللہ ہے ہم نے عرض کیا آپ بھلائی و بہتری کے اعتبار سے ہم میں سب سے بہتر ہیں اور بخشش کے اعتبار سے ہم میں سے بزرگ و برتر ہیں آپ نے فرمایا ہاں اس طرح کہو بلکہ اس سے بھی کم درجہ کے الفاظ استعمال کرو یعنی میری تعریف ومدح میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لو اور ان صفات کو میری طرف منسوب نہ کرو جو صرف اللہ کی ذات سے مخصوص ہیں تم نے آخر میں جو بات کہی ہے زیادہ سے زیادہ اسی حد تک میری تعریف کر سکتے ہو بلکہ میرے تئیں اس سے بھی ہلکے درجہ کی تعریف کرو تو زیادہ بہتر ہے اور دیکھو شیطان تم کو اپنا وکیل نہ بنائے۔ (ابوداؤد)
تشریح
لفظ " جری " کے معنی وکیل کے ہیں جو اپنے موکل کا جاری مجری یعنی قائم مقام ہوتا ہے لہذا لا یستجرینکم الشیطن کا مطلب یہ ہے کہ تم میری تعریف ایسے الفاظ اور ایسے انداز میں نہ کرو جس سے یہ معلوم ہوا کہ شیطان لعین نے تمہیں اپنا وکیل و قائم مقام بنا لیا ہے اور تم اس کی وکالت کے طور پر بلاتامل جو چاہتے ہو کہتے چلے جا رہے ہو چنانچہ وہ لوگ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں جو ذات رسالت کی منقبت و تعریف میں حد سے زیادہ تجاوز کرتے ہیں اور نبی کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ گویا بندے کو اللہ کا درجہ دیدیتے ہیں جیسے مروج مولود کے قصائد نقلیہ میں ایسے الفاظ و بیان اختیار کئے جاتے ہیں کہ جن سے پروردگار کی شان میں بڑی بے ادبی ہوتی ہے۔ بعض روایات میں اس" یستجرینکم" میں یاء کی بجائے ہمزہ ہے اس صورت میں یہ لفظ جری کے بجائے جوات سے ہوگا اور معنی یہ ہوں گے کہ شیطان تم کو میری تعریف میں اس طرح اور بے باک نہ بنا دے کہ غلط سلط اور خلاف حقیقت جو کچھ کہنا چاہو بے جھجک کہنے لگو۔
" سردار تو بس اللہ ہے" سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ وہ ذات جو کہ مخلوق کے تمام امور کی حقیقی مالک ہے اور وہ ذات کہ ہر ایک پر فرمانبروائی و حکمرانی کی سزاوار ہے اور جس کے دست قدرت میں تمام تر نظم وتصرف ہے صرف اللہ کی ذات ہے نہ کہ کوئی اور شخص۔علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس جماعت کی طرف سے اپنے آپ کو سردار کہے جانے کی ممانعت کرنا اس سبب سے نہیں تھا کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں سرداری وسیادت کو ثابت کیا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں بلکہ آپ کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لفظ سید سردار کے ذریعہ اس انداز مخاطب کیا تھا کہ جس طرح کسی قوم قبیلہ کے سردار کو مخاطب کیا جاتا ہے حالانکہ ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ آپ کو لفظ نبی یا رسول اللہ کے ذریعہ مخاطب کرتے جو بشریت کا سب سے اعلی مرتبہ ہے۔
************************
رومیوں سے جنگ اور دجال کے قتل کی پیشگوئی
وعن أم مالك البهزية قالت ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنة فقربها . قلت يا رسول الله من خير الناس فيها ؟ قال رجل في ماشيته يؤدي حقها ويعبد ربه ورجل آخذ برأس فرأسه يخيف العدو ويخوفونه . رواه الترمذي .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1332 (41894)
حضرت ام مالک بہزیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ ایک دن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ کا ذکر فرمایا اور اس کو قریب تر کیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس فتنے کے زمانے میں سب سے بہتر کون شخص ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس زمانے میں سب سے بہتر شخص وہ ہوگا جو اپنے مویشیون کی دیکھ بھال اور ان کے گھاس چارے کے انتظام میں مصروف رہے ان کا حق ادا کرے یعنی ان پر جو زکوۃ اور شرعی ٹیکس وغیرہ واجب ہو، اس کو ادا کرے اور اپنے رب کی بندگی میں مشغول رہے اور وہ شخص بھی سب سے بہتر ہوگا جو اپنے گھوڑے کا سر یعنی اپنے گھوڑے کی پشت پر سوار اس کی باگ پکڑے کھڑا ہو اور دشمنان دین کو خوف زدہ کرتا ہو اور دشمن اس کو ڈراتے ہوں۔ (ترمذی)
تشریح
بہزیہ (ب کے زبر اور ہ کے جزم کے ساتھ ) ابن امرء القیس کی طرف منسوب ہے، حضرت ام مالک ایک صحابیہ ہیں اور حجازیہ کہلائی جاتی ہیں۔
" اور اس کو قریب تر کیا " کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس فتنہ کا ذکر فرمایا تو اس بات سے باخبر کیا کہ وہ فتنہ بالکل قریب ہے اور سامنے آنے والا ہے۔ اور طیبی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فتنہ کو بہت تفصیل و وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا اور چونکہ یہ ایک عام اسلوب ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے سامنے کسی چیز کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے اور اس کی خصوصیات وعلامات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ واضح کرتا ہے تو گویا وہ اس چیز کو مخاطب کے ذہن یا مشاہدہ کے قریب تر کر دیتا ہے، چنانچہ وہ مخاطب اس چیز کو نہ صرف اپنے ذہن وخیال میں جاگزیں پاتا ہے بلکہ وہ خارج میں بھی ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ چیز اپنی شکل وصورت کے ساتھ اس کے بالکل قریب موجود ہے۔
" جو شخص اپنے مویشیوں میں رہے" کا مطلب یہ ہے کہ اس فتنہ کے زمانے میں جب کہ مسلمانوں کے باہمی قتل وقتال اور محاذ آرائی کا بازار گرم ہو جائے گا ، فلاح یاب شخص وہی ہوگا جو فتنوں کی باتوں سے لاتعلق ، اور دنیا والوں سے بیگانہ رہ کر اور گوشہ عافیت اختیار کر کے بس اپنے جائز کاروبار میں مشغول اور اپنے معاملات کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوگا، اس پر اس کے کاروبار اور معاملات کے تئیں شریعت کے جو حقوق عائد ہوتے ہوں ان کو ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے گا اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ اور اس کی عبادت میں منہمک رہے گا۔ یہ ارشاد گرامی گویا قرآن کریم کی ان آیات (ففروا الی اللہ ، وتبتل الیہ تبتیلا۔ اور والیہ یرجع الامر کلہ فاعبدہ وتوکل علیہ وما ربک بغافل عما تعملون) کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔
" جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہو الخ" کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اس فتنہ وفساد میں الجھنے اور آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے ، اپنی طاقت وتوانائی ان لوگوں کے خلاف استعمال کرنے کی طرف متوجہ ہو جو دین اسلام کے اصل دشمن ومخالف ہیں اور ان سے نبرد آزمائی میں لگ جائے یہ چیز نہ صرف یہ کہ دین وملت کی اصل خدمت ہونے کی وجہ سے اجر و ثواب کا مستحق بنائے گی بلکہ اس فتنہ سے بچانے کا بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوگی۔
************************
امام مہدی کے ظہور کے پیشگوئی:
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تقوم الساعة حتى ينزل الروم بالأعماق أو بدابق فيخرج إليهم جيش من المدينة من خيار أهل الأرض يومئذ فإذا تصافوا قالت الروم خلوا بيننا وبين الذين سبوا منا نقاتلهم فيقول المسلمون لا والله لا نخلي بينكم وبين إخواننا فيقاتلونهم فينهزم ثلث لا يتوب الله عليهم أبدا ويقتل ثلثهم أفضل الشهداء عند الله ويفتتح الثلث لا يفتنون أبدا فيفتتحون قسطنطينية فبينا هم يقتسمون الغنائم قد علقوا سيوفهم بالزيتون إذ صاح فيهم الشيطان إن المسيح قد خلفكم في أهليكم فيخرجون وذلك باطل فإذا جاؤوا الشام خرج فبينا هم يعدون للقتال يسوون الصفوف إذ أقيمت الصلاة فينزل عيسى بن مريم فأمهم فإذا رآه عدو الله ذاب كما يذوب الملح في الماء فلو تركه لانذاب حتى يهلك ولكن يقتله الله بيده فيريهم دمه في حربته
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1360 (41930)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ رومی اعماق یا دابق میں آ نہ دھمکیں گے اور پھر مدینہ والوں کا ایک لشکر ان کے مقابلے کے لئے نکلے گا جس میں اس دن یعنی اس وقت کے روئے زمین کے سب سے بہتر لوگ شال ہوں گے جب لڑائی کے لئے صف بندی ہوگی تو رومی یہ کہیں گے کہ ہمارے ان لوگوں کے درمیان کہ جو ہمارے لوگوں کو قید کر کے لائے ہیں، جگہ خالی کر دو تاکہ ہم ان سے لڑیں (یعنی جن مسلمانوں نے اس سے پہلے ہمارے خلاف جہاد کیا اور ہمارے کچھ لوگوں کو قیدی بنا کر لے آئے ان مسلمانوں کو ہمارے مقابلہ پر لاؤ کیونکہ ہم تم سب مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہتے بلکہ بدلہ اتارنے کے لئے صرف ان ہی مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔ گویا رومی یہ بات اس لئے کہیں تاکہ مسلمان ان کی باتوں میں آ کر اپنی اجتماعیت کھو دیں اور باہمی تفریق کا شکار ہو جائیں) لیکن مسلمان ان کو جواب دیں گے کہ واللہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہم تمہارے اور اپنے ان مسلمان بھائیوں کے درمیان جگہ خالی نہیں کر سکتے یعنی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ان مسلمان بھائیوں کو تو تمہارے مقابلہ پر لڑنے کے لئے آگے کر دیں اور خود ایک طرف ہو جائیں، اگر لڑیں تو ہم سب لڑیں گے اور ایک ساتھ لڑیں گے چنانچہ سارے مسلمان رومیوں سے لڑنا شروع کر دیں گے اور جب گھمسان کا رن پڑے گا تو ان مسلمانوں میں سے ایک تہائی مسلمان بیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے، جن کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اور ایک تہائی مسلمان جام شہادت نوش کریں گے، جو یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین شہید قرار پائیں گے۔ اور باقی ایک تہائی مسلمان فتح یاب ہوں گے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مدد ونصرت کے ذریعے رومیوں کے مقابلے پر کامیابی عطا فرمائے گا اور ان کے ہاتھوں رومیوں کے شہروں کو فتح کرائے گا ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کبھی فتنہ میں نہیں ڈالے گا۔
پھر مسلمان قسطنطنیہ کو فتح کر لیں گے (یعنی اس شہر کو کافروں کے قبضہ سے لے لیں گے) اور اس کے بعد اس وقت جب کہ وہ مسلمان مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف ہوں گے اور اپنی تلوار کو زیتون کے درختوں پر لٹکائے ہوئے ہوں گے اچانک شیطان ان کے درمیان یہ بات پھونک دے گا کہ مسلمانو! تم یہاں مصروف ہو جب کہ تمہاری عدم موجودگی میں مسیح دجال تمہارے گھروں میں پہنچ گیا ہے ۔ اسلامی لشکر کے لوگ یہ سنتے ہی قسطنطنیہ سے نکل کھڑے ہوں گے لیکن شیطان کی یہ خبر سراسر جھوٹی ثابت ہوگی، البتہ جب مسلمان شام پہنچیں گے تو پھر دجال ظاہر ہوگا مسلمان اس سے لڑنے کی تیاری کریں گے اور صف بندی میں مشغول ہوں گے کہ نماز کا وقت آ جائے گا اور مؤذن تکبیر کہنے کے لئے کھڑا ہو چکا ہوگا۔ اتنے میں حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے منارے پر اتریں گے پھر قدس آئیں گے اور مسلمانوں کی امات کریں گے۔ پھر اللہ کا وہ دشمن یعنی دجال جو اس وقت مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہوگا جب حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھے گا تو اس طرح گھلنا شروع ہو جائے گا جس طرح نمک پانی میں گھلنے لگتا ہے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام اس کو اس حالت میں چھوڑ دیں اور قتل نہ کریں تو وہ سارا گھل جائے گا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کئے بغیر خود مر جائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت ومرضی چونکہ یہ ہوگی کہ اس کی موت حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں واقع ہو اس لئے اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل کروائے گا ، پھر حضرت عیسی علیہ السلام مسلمانوں کو یا کافروں کو اور یا سب کو دجال کا خون اپنے نیزے کے ذریعے دکھائے گا یعنی حضرت عیسی علیہ السلام جس نیزے سے دجال کو قتل کریں گے اور جو اس کے خون سے آلودہ ہوگا اس کو لوگوں کو دکھائیں گے کہ دیکھو میں نے اس دشمن اللہ کا کام تمام کر دیا ہے۔ (مسلم)
تشریح
" اعماق' ' اطراف مدینہ میں ایک جگہ کا نام تھا اسی طرح " وابق" مدینہ کے ایک بازار کا نام تھا ۔ لیکن ایک قول جو زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ اس حدیث میں مدینہ سے مراد شہر حلب ہے جو ملک شام میں واقع ہے اور اعماق و وابق حلب و انطاکیہ کے درمیان دو مقامات کے نام ہیں، چنانچہ کتاب ازہار میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مدینہ سے مراد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد لینا صحیح نہیں ہے کیونکہ حدیث میں جس زمانہ کے واقعہ کے بارے میں پیش گوئی فرمائی گئی ہے اس وقت مدینہ منورہ کسی طرح بھی تخریب کاری یا کسی اسلام دشمن حملہ سے بالکل محفوظ ومامن ہوگا بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ مدینہ سے مراد شہر دمشق ہے۔
" جن کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا " سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ان لوگوں کی موت کفر کی حالت میں ہوگی اور وہ کبھی بھی عذاب سے نجات نہیں پائیں گے۔
" ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کبھی فتنہ میں نہیں ڈالے گا " کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان اپنے جس ایمانی استقلال وعزیمت اور اسلامی شجاعت وبہادری کا ثبوت دیں گے اس کا انعام ان کو یہ ملے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو کبھی بھی کسی آفت وبلا میں نہیں ڈالے گا اور نہ جان وخون کی کسی آزمائش سے دوچار کرے گا۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو کبھی بھی عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا پس یہ اس بات کی بشارت ہے کہ ان لوگوں کا خاتمہ بخیر ہوگا۔
" قسطنطنیہ" کے بارے میں زیادہ مشہور اور صحیح قول یہ ہے کہ اصل میں یہ لفظ " قسطنطینہ" ہے لیکن بعض حضرات نے قسطنطینیہ کو زیادہ صحیح کہا ہے چنانچہ مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں یہ لفظ اسی طرح ہے اور بعض نسخوں میں یہ لفظ اس طرح منقول ہے کہ آخری حرف ی پر تشدید نہیں ہے، بہرحال اردو میں یہ لفظ " قسطنطنیہ" لکھا پڑھا جاتا ہے۔
قسطنطنیہ تاریخ کا ایک مشہور شہر ہے جو اپنے زمانہ میں رومیوں کا دارالسلطنت تھا اور ان کے سب سے بڑے شہروں میں ایک بڑا شہر مانا جاتا تھا ، یہ شہر قسطنطین بادشاہ کی طرف منسوب ہے جس نے اس کو ٣٣٠ء میں بسایا اور رومی سلطنت کا پایہ تخت قرار پایا ۔ اب اس شہر کو جو آبنائے فاسفورس کے کنارے واقع ہے استنبول کہا جاتا ہے اور ترکی کی مملکت میں شامل ہے ترمذی نے وضاحت کی ہے کہ یہ شہر صحابہ کے زمانہ میں فتح ہو گیا تھا اور تاریخی روایات کے مطابق دوسری مرتبہ یہ شہر ١٤٥٣ء میں عثمانی ترکوں کے ذریعے فتح ہوا اور اب تک اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے لیکن اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پھر آخری زمانہ میں جب کہ قیامت قریب ہوگی ، مسلمان اس کو فتح کر لیں گے اور اسی زمانہ میں کانے دجال کا ظہور ہوگا۔
فاذا جاء الشام (جب مسلمان شام پہنچیں گے) میں " شام" سے مراد " قدس" ہے جس کو " بیت المقدس" کہا جاتا ہے چنانچہ بعض روایتوں میں اس کی تصریح بھی ہے اور اس وقت بیت المقدس ملک شام ہی کی حدود میں تھا اب یہ فلسطین میں ہے جو ایک مستقل ملک ہے۔
" اور مسلمانوں کی امامت کریں گے" کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نماز تیار ہوگی اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام تمام مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے اور ان مسلمانوں میں حضرت امام مہدی بھی ہوں گے۔ لیکن ایک روایت میں یہ ہے کہ اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام امامت کرنے کے لئے حضرت امام مہدی کو آگے بڑھائیں گے اور ان سے فرمائیں گے کہ اس نماز کی اقامت چونکہ تمہاری امامت کے لئے کہی گئی ہے اس لئے تم ہی نماز پڑھاؤ اس بات سے حضرت عیسی علیہ السلام کا مقصود اس طرف اشارہ کرنا بھی ہوگا کہ اب مسلمانوں کے امیر وامام چونکہ تم ہو اس لئے مجھے بھی تمہاری اتباع کرنا چاہئے ، نہ کہ تم میری اتباع کرو گے، میں مستقل طور پر امام وامیر بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ میرا آنا صرف تمہاری مدد ومعاونت اور تمہاری تائید وتوثیق کے لئے ہے۔ چنانچہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ اس نماز کی امامت فرمائیں گے ۔ لیکن اس کے بعد نماز کی امامت برابر حضرت عیسی علیہ السلام فرمائیں گے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ فامہم (اور مسلمانوں کی امامت کریں گے) تو یہ تغلیبا ارشاد فرمایا گیا ہے یعنی بعد میں چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام ہی مسلمانوں کو نماز پڑھایا کریں گے ، پس اس اعتبار سے اس وقت کی نماز کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی امامت کریں گے۔ یا یہ کہ امامت کریں گے" کے مجازی معنی مراد ہیں ۔ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اس وقت مسلمانوں کے امام حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے کہیں گے۔
************************
قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر :
وعن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رأيتني الليلة عند الكعبة فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم قد رجلها فهي تقطر ماء متكأ على عواتق رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا ؟ فقالوا هذا المسيح بن مريم قال ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى كأن عينة عنبة طافية كأشبه من رأيت من الناس بابن قطن واضعا يديه على منكبي رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا ؟ فقالوا هذا المسيح الدجال . متفق عليه . وفي رواية قال في الدجال رجل أحمر جسيم جعد الرأس أعور عين اليمنى أقرب الناس به شبها ابن قطن .
وذكر حديث أبي هريرة لا تقوم الساعة حتى تطلع الشمس من مغربها في باب الملاحم .
وسنذكر حديث ابن عمر قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس في باب قصة ابن الصياد إن شاء الله تعالى .
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 50 (41959)
" اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نے آج کی رات اپنے آپ کو (خواب میں یا کشف کی حالت میں ) کعبہ کے پاس دیکھا، وہاں مجھ کو ایک ایسا گندم گوں شخص نظر آیا جو کسی ایسے آدمی کی طرح تھا جس کو تم گندمی رنگ کا سب سے بہتر اور خوبصورت دیکھتے ہو ، اس کے ( سر پر ) بہت بال تھے جو کاندھوں تک لٹکے ہوئے تھے اور بالوں کے اعتبار سے بھی وہ کسی ایسے شخص کے مشابہ تھا جس کو تم اس قسم کے بال رکھنے والوں میں سے سب سے خوبصورت دیکھتے ہو، اس کے بالوں میں کنگھی کی گئی تھے اور بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے وہ شخص دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ! میں نے ( اس شخص کو دیکھ کر طواف کرنے والوں سے ) پوچھا کہ یہ کون ہے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں ! اسی کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اچانک میری نظر سے ایک شخص گزرا جس کے بال گھونگریالے اور بہت کھڑے تھے ، وہ داہنی آنکھ سے کانا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس کی آنکھ انگور کا پھولا ہوا دانہ یا بے نور ہے ، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے وہ ابن قطن کے بہت مشابہ تھا ، وہ شخص بھی دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ، میں نے اس کے بارے میں بھی پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ یہ مسیح دجال ہے " بخاری ومسلم ) ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ " وہ ایک شخص ہے جس کی آنکھیں سرخ ہیں ، سر کے بال گھونگریالے ہیں ، داہنی آنکھ سے کانا ہے ، مشابہت کے اعتبار سے لوگوں میں ابن قطن اس کے بہت قریب ہے ۔ "
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث لا تقوم الساعۃ حتی تطلع الشمس من غربہا الخ باب الملاحم میں نقل کی جا چکی ہے نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت قام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الناس ۔۔ الخ۔ کو انشاء اللہ ہم ابن صیاد کے قصہ کے باب میں نقل کریں گے ۔
تشریح
" بالوں سے پانی ٹپک رہے تھے ۔ " میں پانی سے مراد یا تو وہ پانی ہے جو نہانے کے بعد بالوں میں لگا رہتا ہے اور کنگھی کرنے کے بعد بالوں سے ٹپکنے لگتا ہے اور وہ پانی بھی مراد ہو سکتا ہے جس میں کنگھی کو بھگو کر بال سنوراتے ہیں ، یا پانی کے قطرے ٹپکنے سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انتہائی پاکیزگی ولطافت اور ترو تازگی کو کنایۃ بیان کرنا ہے ۔
" جیسے اس کی آنکھ انگور کا پھولا ہوا دانا ہے ۔ " کے بارے میں قاضی عیاض نے یہ لکھا ہے کہ دجال کی داہنی آنکھ تو بالکل سلپٹ یعنی ہموار ہوگی ( کہ اس جگہ آنکھ کا نام ونشان بھی نہیں ہوگا ) اور بائیں آنکھ موجود تو ہوگی لیکن اس میں بھی پھولا ہوا ٹینٹ ہوگا ۔
" ابن قطن " سے مراد عبد العزی ابن قطن یہودی ہے جس کے بارے میں پیچھے بیان ہو چکا ہے !لفظ کا شبہ " میں کاف زائد ہے جو اظہار مبالغہ کے لئے استعمال ہوا ہے ! دجال کو ابن قطن کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ شاید ابن قطن کا جسمانی حلیہ کچھ اس طرح کا رہا ہوگا جیسا کہ دجال کا ہوگا یا اس اعتبار سے تشبیہ دی گئی ہے کہ اس کی آنکھ بھی ٹینٹ یعنی پھلی تھی ۔
دجال جن دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے طواف کرتا نظر آیا تھا بظاہر ان سے مراد وہ دو شخص ہیں جو اس (دجال ) کے رفیق ومددگار ہوں گے جیسا کہ ان دو شخصوں سے مراد کہ جن کے کاندھے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہاتھ رکھے ہوئے طواف کرتے ہوئے نظر آئے تھے ، وہ دو شخص ہیں جو حق کے راستہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معین ومددگار ہوں گے اور شاید وہ دونوں حضرات خضر علیہ السلام اور حضرت مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں ! اس موقع پر اشکال واقع ہوتا ہے کہ دجال کافر ہے ، اس کو طواف کی حالت میں دکھایا جانا کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کا جواب علماء کرام نے یہ دیا ہے کہ مذکورہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاشفات میں سے ہے، جس کا تعلق خواب سے ہے اور اس کی تعبیر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خواب میں گویا یہ دیکھایا گیا کہ ایک وہ دن آئے گا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دین اور مرکز دین کے اردگرد رہیں گے تاکہ دین کو قائم کریں اور فتنہ و فساد سے اس کی حفاظت کریں اور دجال بھی دین اور مرکز دین پر منڈلاتا پھرے گا تاکہ گھات لگا کر دین کو نقصان پہنچائے اور فتنہ وفساد پھیلانے میں کامیاب ہو جائے بعض حضرات نے ایک جواب یہ دیا ہے کہ مکہ مکرمہ پر اسلام کا غلبہ ہونے اور مشرکوں کو مسجد حرام کے قریب جانے کی مخالفت نافذ ہونے سے پہلے بہر حال کافر ومشرک بھی خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے، پس اگر دجال بھی طواف کرتا ہو تو اس میں اشکال کی بات کیا ہے ایک یہ بات بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مکاشفہ یا خواب سے ، موجودات کی دنیا میں کسی کافر کا طواف کرنا ہرگز لازم نہیں آتا ، جب کہ کفار اور مشرکین کے لئے خانہ کعبہ کے طواف کی ممانعت کا تعلق موجودات کی اس دنیا سے ہے ۔
************************
حساب کتاب کا خوف:
عن عائشة قالت جاء رجل فقعد بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إن لي مملوكين يكذبونني ويخونونني ويعصونني وأشتمهم وأضربهم فكيف أنا منهم ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم القيامة يحسب ما خانوك وعصوك وكذبوك وعقابك إياهم فإن كان عقابك إياهم بقدر ذنوبهم كان كفافا لا لك ولا عليك وإن كان عقابك إياهم دون ذنبهم كان فضلا لك وإن كان عقابك إياهم فوق ذنوبهم اقتص لهم منك الفضل فتنحى الرجل وجعل يهتف ويبكي فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم أما تقرأ قول الله تعالى ( ونضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئا وإن كان مثقال حبة من خردل أتينا بها وكفى بنا حاسبين )
فقال الرجل يا رسول الله ما أجد لي ولهؤلاء شيئا خيرا من مفارقتهم أشهدك أنهم كلهم أحرار . رواه الترمذي .
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 134 (4204)
" ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آکر بیٹھ گیا اور عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں ، چنانچہ میں ( از راہ تادیب وتنبیہ ) ان کو برا بھلا کہتا ہوں اور ان کو مارتا ہوں تو ان کی وجہ سے قیامت کے دن ( اللہ تعالیٰ کے ہاں ) میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا ( یعنی کیا مجھے ان کو برا بھلا کہنے ڈانٹنے ڈپٹنے اور مارنے پیٹنے کا حساب دینا ہوگا اور ان چیزوں کی وجہ سے میرا مواخذہ ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا ) اور ہر شخص کے ایک ایک عمل اور ایک ایک چیز کی پوچھ گچھ ہوگی ) تو غلاموں نے تمہارے مال میں جو خیانت کی ہوگی ، تمہاری جو نافرمانی کی ہوگی اور تمہارے ساتھ جو جھوٹ بولا ہوگا ، ان سب کا حساب ہوگا ، اسی طرح تم نے ان کو جو کچھ سزا دی ہوگی اس کا بھی حساب ہوگا پس اگر تمہاری دی ہوئی سزا ( رائج ضابطہ اخلاق وقانون اور عام عادت معمول کے مطابق ) ان کے جرائم کے بقدر ثابت ہوئی تو تمہارا برابر سرابر رہے گا کہ نہ تمہیں کوئی ثواب ملے گا اور نہ تم پر کئی عذاب ہوگا کیونکہ اس صورت میں کہا جائے گا کہ تم نے ان کے ساتھ حالات کے مطابق اور مباح معاملہ کیا ہے جس پر تم کسی مواخذہ وعذاب کے مستوجب نہیں ہوگے ) اور تم نے ان کو سزا دی ہوگی وہ اگر ان کے جرائم سے کم ثابت ہوگی تو وہ تمہارا زائد حق ہوگا ( یعنی تمہارا ان کو ان کے جرائم سے کم سزا دینا ان پر تمہارے لئے ایک ایسے حق کو واجب کر دے کہ اگر تم چاہو گے تو اس کے عوض تمہیں انعام دیا جائے گا ورنہ نہیں ) اور تمہاری دی ہوئی سرزا ان کے جرائم سے زیادہ ہوگی تو پھر ان کے لئے تم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا ( یعنی اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرے گا کہ تم نے چونکہ اپنے ان غلاموں کو ان کے جرائم سے زیادہ سزا دی تھی جس کا تمہیں کوئی حق نہیں تھا لہذا اب تم اپنے ان غلاموں کو اس زیادتی کا بدلہ دو) وہ شخص ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر ) الگ جا بیٹھا اور رونے چلانے لگا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد کو مؤ کد اور ثابت کرنے کے لئے ) فرمایا کہ کیا تم ( قرآن کریم میں ) اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھتے ہو کہ : ونضح الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیأ وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین ۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " اور قیامت کے دن ہم عدل وانصاف کی میزان کھڑی کریں گے ( جس کے ذریعہ سب کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن کیا جائے گا ) پس کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا ( یعنی جس کا بھی حق ہوگا وہ اس کو یقینًا دلوایا جائے گا اور اگر ( کسی کا ) عمل رائی کے دانہ کے برابر ہوگا تو ( اس سے صرف نظر نہیں کی جائے گا بلکہ ) ہم اس کو (بھی وہاں ) حاضر کریں گے اور ہم حساب لینے ولے کافی ہیں ( یعنی ہمارے وزن اور حساب کے بعد حساب کتاب کی اور کسی مرافعہ کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ہم سے بڑھ کر عدل وانصاف کرنے والا اور کوئی نہیں ہے اور اس وقت ہمارا فیصلہ بالکل آخری فیصلہ ہوگا جس پر کسی کو شک وشبہ کرنے کی ہم گنجائش ہی نہیں چھوڑیں گے ) " اس شخص نے ( یہ سن کر ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے اور ان غلاموں کے حق میں ان کی جدائی سے بہتر اور کوئی بات نہیں جانتا ( یعنی اس صورت میں میرا خیال ہے کہ قیامت کے دن کے محاسبہ ومواخذاہ سے بچنے اور وہاں کی جواب دہی سے محفوظ رہنے کی خاطر میرے اور میرے ان غلاموں دونوں کے حق میں سب سے بہتر بات یہی ہے کہ وہ مجھ سے الگ ہو جائیں بایں طور کہ میں ان کو آزادی دے دوں ) لہٰذا میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ وہ سب غلام آزاد ہیں ۔ " ( ترمذی)
تشریح :
" میرے پاس غلام ہیں " کے بارے میں احتمال ہے کہ اس شخص کے پاس غلام اور باندی ، دونوں ہوں گے پس یہاں صرف " غلام کا ذکر تغلیبا ہے ۔ ط
کان کفافا ( تو تمہارا معاملہ برابر رہے گا اصل میں " کفاف " اس چیز کو کہتے ہیں جو ضرورت وحاجت کے بقدر ہو، پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے ان غلاموں کو ان کے جرائم کے برابر سزا دی ہوگی تو تمہارا اور ان غلاموں کا معاملہ برابر سرابر رہے گا کہ قیامت کے دن نہ تو ان غلاموں پر تمہارا کوئی حق واجب ہوگا اور نہ تمارے اوپر ان غلاموں کا کوئی حق آئے گا ۔
کان فضلا لک ( تو وہ تمہارا زائد حق ہوگا ) فضل اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب حق سے زیاد ہو ! پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا ان غلاموں کو ان جرائم سے کم سزا دینا قیامت کے دن تمہارے حق میں ایک ایسی خوبی بن جائے گا کہ اگر تم چاہو گے تو تمہیں اس کا اجر وانعام ملے گا لیکن واضح رہے کہ " اجروانعام سے مراد حسن ثواب ، قربت ونزدیکی اور درجہ ومرتبہ کی بلندی ہے نہ کہ نفس فعل کی جزاء کیونکہ بعض خوبی یا یوں کہہ لیجئے کہ بعض سچا عمل اجروثواب کے حسن واضافہ اور درجہ ومرتبہ کی بلندی کے اعتبار سے تو مفید ہوتا ہے مگر نفس فعل کے اعتبار سے کسی الگ اجر وثواب کو واجب نہیں کرتا کہ عمل اختیار کرنے والا خواہ طالب ہو یا نہ ہو " اس کو بہر صورت اجروثواب ملے ، پس اس شخص کا اپنے غلاموں کو ان کے جرائم سے کم سزا دینا بھی اسی درجہ کی خوبی ہوگی کہ اگر وہ چاہے گا تو اس کی اس خوبی کو اس کے اجروثواب میں حسن واضافہ اور اس کے مرتبہ ودرجہ کی بلندی کا سبب بنا دیا جائے گا اور اگر وہ نہیں چاہے گا تو پھر اس کے نامہ اعمال میں اس خوبی کا کوئی الگ ثواب نہیں لکھا جائے گا ۔
اس حدیث کے ذریعہ مالک وغلام اور آقاوخادم کے باہمی تعلق اور ان کے درمیان معاملات کی نزاکت کا اچھی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو لوگ اپنے غلام اپنے خادم اور اپنے نوکروں کے ساتھ جانوروں کا ساسلوک کرتے ہیں ، ان کو چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی معمولی خطاؤں پر جس طرح بڑی بڑی سزائیں دیتے ہیں اور ان کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کو سخت جسمانی اور روحانی اذیت وتکلیف پہنچاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے حق میں کانٹے بوتے ہیں ، انہیں یاد رکھنا چائے کہ وہ دن یقینا آنے والا ہے جب احکم الحاکمین کی بارگاہ میں انہیں اپنے غلاموں اپنے نوکرچاکر اور اپنے خادموں کے تعلق سے اپنے ایک ایک فعل وعمل ، ایک ایک برتاؤ ، اور ایک ایک زیادتی کی جواب دہی کرنی پڑے گی اور سخت حساب ومواخذہ سے دوچار ہونا پڑے گا ۔
رہی ان صحابی کی بات جنہوں نے یہ حدیث سن کر ، قرآن کی آیت سن کر اپنے حق میں یہی بہتر جانا کہ وہ اتنا بڑا دنیاوی نقصان برداشت کرکے اپنے غلاموں کو آزاد کردیں ، تو ان کا تقوی ، ان کا کمال احتیاط ، اور خوف اللہ سے ان کے دل کا معمور ہونا پوری طرح ظاہر ہوتا ہے ، اور یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ کمال عبدیت یہی ہے کہ انسان اس چیز کے سائے سے بھی اجتناب کرے جو کسی بھی درجہ میں مولیٰ کی ناراضگی اور آخرت کے نقصان کا خدشہ وواہمہ رکھتی ہو ۔
************************
جنت اور اہل جنت کے حالات کا بیان :
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :
موضع سوط في الجنة خير من الدنيا وما فيها " . متفق عليه
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 180 (42089)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جنت میں ایک کوڑے کے برابر بھی جگہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہے ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
سفر کا قاعدہ ہوتا تھا کہ جب سوار کسی جگہ اترنا چاہتا تو اپنا کوڑا وہاں ڈال دیتا تاکہ دوسرا شخص وہاں نہ اترے اور وہ جگہ اس کے ٹھہرنے کے لئے مخصوص ہو جائے پس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جنت کی اتنی تھوڑی سی جگہ اور وہاں کا چھوٹا سا مکان بھی کہ جہاں مسافر سفر میں ٹھہرتا ہے اس پوری دنیا اور یہاں کی تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی اور زیادہ اچھا ہے کیونکہ جنت اور جنت کی تمام نعمتیں ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں جب کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں فنا ہو جانے والی ہیں ۔
************************
ایک نبی کو دوسرے نبی کے مقابلہ پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ممانعت :
وعنه قال : استب رجل من المسلمين ورجل من اليهود . فقال المسلم : والذي اصطفى محمدا على العالمين . فقال اليهودي : والذي اصطفى موسى على العالمين . فرفع المسلم يده عند ذلك فلطم وجه اليهودي فذهب اليهودي إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأخبره بما كان من أمره وأمر المسلم فدعا النبي صلى الله عليه و سلم المسلم فسأله عن ذلك فأخبره فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " لا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأصعق معهم فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري كان فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان فيمن استثنى الله . " . وفي رواية : " فلا أدري أحوسب بصعقة يوم الطور أو بعث قبلي ؟ ولا أقول : إن أحدا أفضل من يونس بن متى "
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 273 (42182)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کسی موقع پر ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان بدکلامی ہوئی، مسلمان نے کہا اللہ کی قسم جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو سارے جہان کے لوگوں میں سے بہتر قرار دیا، اس کے جواب میں یہودی نے یہ کہا کہ اس اللہ کی قسم جس نے موسی علیہ السلام کو جہاں کے لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا اس پر مسلمان نے (طیش میں آکر) یہودی پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے گال پر طمانچہ مارا یہودی (شکایت لے کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا اور اس مسلمان کا پورا واقعہ رکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو طلب فرمایا اور اس سے صورت حال کی تحقیق کی ، اس نے (یہودی کے بیان کردہ واقعہ کی تردید نہیں کی بلکہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوں کی توں ساری بات بتادی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (فریقین کے بیانات سن کر ) فرمایا : مجھ کو موسی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو اس لئے کہ قیامت کے دن (صور پھونکے جانے پر) جب سب لوگ بیہوش ہو کر گر پڑیں گے تو ان کے ساتھ میں بھی بیہوش ہو کر گر جاؤں گا پھر سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص میں ہوں گا ، لیکن (جب میں ہوش میں آؤں گا تو ) دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ موسی بیہوش ہوجانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے اور ان کی بیہوشی مجھ سے پہلے ختم ہوچکی ہوگی یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا ۔ (اور بیہوش ہو کر گر پڑنے والے لوگوں میں شامل ہی نہیں ہوں گے ) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ طور پر موسی علیہ السلام کی بیہوشی کو (قیامت کے دن کی ) اس بیہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا یا یہ ہوگا کہ (بیہوش ہو کر گرپڑنے والوں میں وہ بھی شامل ہوں گے مگر) وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آجائیں گے ۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے افضل ہے ۔"
اور حضرت ابن سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر ) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو" ( بخاری ومسلم) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ۔" تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو۔
تشریح :
قرآن کریم میں حضرت موسی علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انی اصطفیتک علی الناس (یعنی اے موسی (علیہ السلام ) میں نے تمہیں تمام لوگوں میں سب سے بہتروافضل قرار دیا ہے ) تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو ان کے زمانہ کے تمام لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا تھا ، لیکن اس یہودی نے حضرت موسی علیہ السلام کو برگزیدگی اور افضلیت کے اس مفہوم کو مطلق رکھا اور یہ دعوی کیا کہ حضرت موسی علیہ السلام ہر زمانہ کے تمام لوگوں سے افضل اور سب سے بہتر ہیں ، اور اس طرح اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برگزیدگی اور افضلیت کا انکار کیا، اسی وجہ سے اس کے مخالف مسلمان کو طیش آگیا اور انہوں نے اس کے طمانچہ رسید کردیا۔ یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو یہ فرمایا ہے کہ ۔
ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ ط
" اور (جب قیامت کے دن) صور میں پھونک ماری جائے گی توتمام آسمان اور زمین والے بیہوش ہوجائیں گے علاوہ ان کے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیہوش کرنا چاہے گا (جسے فرشتے )۔"
تو یہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح فرشتوں پر بیہوشی طاری ہوگی اس طرح اللہ تعالیٰ حضرت موسی علیہ السلام کو بھی بہوش ہونے سے مستثنیٰ کردے گا ! بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں صورتیں ذکر فرما کریہ واضح کیا دونوں ہی صورتوں میں حضرت موسی علیہ السلام کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ، اگر یہ ہوگا کہ تمام لوگوں کی طرح حضرت موسی علیہ السلام بھی بیہوش ہوجائیں گے ، تو میرا ہوش میں آنے کے بعد ان کو اس طرح دیکھنا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں ، یہ ثابت کرے گا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آگئے تھے، اس صورت میں مجھ پر ان کی فضیلت بالکل ظاہری بات ہے ، اور اگر یہ ہوگا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بیہوش ہوجانے والو میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ سرے سے بیہوش ہی نہیں ہوں گے حالانکہ مجھ پر بیہوشی طاری ہوجائے گی ، تو یہ صورت بھی ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے والی ہے ، اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس معاملہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو مجھ پر فضیلت حاصل ہے تو پھر مجھ کو ان پر فضیلت دینے کے کیا معنی ہیں لیکن اس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسرنفسی پر محمول کرنا چاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہ انکسار حضرت موسی علیہ السلام کی فضیلت کو اس طرح ظاہر فرمایا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حضرت موسی علیہ السلام ہی کو جو شرف حاصل ہوگا وہ زیادہ سے زیادہ جزوی فضیلت کی نوعیت رکھتا ہے جو اس بات کے منافی نہیں کہ کلی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے ۔ ایک بات یہ بھی کہی جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے جو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی علیہ السلام سے افضل نہیں ہیں تو یہ اس وقت کا ارشاد ہے جب کہ وہ وحی نازل نہیں ہوئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ایک سے افضل واشرف ہونا مذکور ہے ، اس وحی کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کسی شک وشبہ کے بغیر ثابت ہوچکی ہے " میں نہیں کہہ سکتا کہ کوہ طور پر بیہوش ہو کر گرپڑنا ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ اس جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام نے کوہ طور پر حق تعالیٰ کی ذات کے دیدار کی خواہش کی تو بارگاہ رب العزت سے جواب ملا کہ موسی (علیہ السلام ) تم مشاہدہ ذات کی تاب نہ لاسکو گے اچھا دیکھو ہم اپنی ذات کی تجلی کا ظہور اس پہاڑ پر کریں گے اگر یہ تجلی کو برداشت کرلے تو پھر تم اپنی خواہش ظاہر کرنا اس کے بعد طور پر حضرت حق کی تجلی نے ظہور کیا تو پہاڑ کا وہ حصہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور حضرت موسی علیہ السلام بھی اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بیہوش ہوگئے اور گر پڑے ۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ طور پر حضرت موسی علیہ السلام کی اس بیہوشی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اگر حضرت موسی علیہ السلام قیامت کے دن اس موقع پر بیہوش ہو کر گرپڑنے سے محفوظ ومستثنیٰ رکھے جائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ اس استثنا کی وجہ ان کی کوہ طور کی بیہوشی ہو جس کو قیامت کی اس بیہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا واضح رہے کہ یہاں جس صعقہ ( یعنی قیامت کے دن بیہوش ہوجانے کا ذکر ہے اس سے وہ صعقہ مراد نہیں ہے جو" موت وہلاکت " کے معنی میں ہے اور جس کا ظہور ابتداء قیامت میں صور پھونکے جانے کے بعد ہوگا کیونکہ اس صعقہ کے وقت ، کہ جب پہلا صور پھونکے جانے کے بعد تمام عالم زیروزبر ہوجائے گا اور ہر متنفس کی موت وہلاکت واقع ہوگی ، بھلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسی علیہ السلام کہاں موجود ہوں گے کہ ان پر صعقہ طاری ہوگا ، پھر یہ کہ اس صعقہ کے بعد بعث (یعنی دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا ) ہوگا نہ کہ افاقت (یعنی بیہوشی کا زائل ہونا ) اور یہ بات بھی متفقہ طور پر مسلم ہے کہ اس صعقہ کے بعد (میدان حشر میں ) سب سے پہلے اٹھنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں گے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ فلاادری کان فیمن صعق الخمود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس صعقہ کا ذکر فرمایا ہے اس سے وہ صعقہ مراد ہے جو بعث کے بعد میدان حشر میں میں پیش آئے گا کہ سب لوگ بیہوش ہو کر گرپڑیں گے اور اس کے بعد جب سب لوگ افاقہ پائیں گے یعنی ہوش میں آئیں گے تو سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آئے گا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھیں گے کہ حضرت موسی علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو حضرت موسی علیہ السلام بیہوش ہونے والوں میں شامل ہی نہیں ہونگے یا وہ بھی بیہوش ہوئے ہوں گے تو پھر ان کی بیہوشی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے زائل ہوچکی ہوگی ۔ بہرحال اس ارشاد گرامی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ " مجھے موسی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو " تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ انبیاء کے درمیان شرف وفضیلت کے اعتبار سے کوئی فرق مراتب نہیں اور یہ کہ حضرت موسی علیہ السلام یا کسی بھی نبی کے مقابلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل نہ کہا جائے بلکہ اس ارشاد کا اصل مقصد یہ ہدایت دینا ہے کہ کسی نبی کو خواہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات کیوں نہ ہوں ، کسی دوسرے نبی کے مقابلہ پر اس طرح اور اس انداز میں افضل واشرف نہ کہو کہ اس (مفضول ) نبی کی تحقیر وتوہین ہویا یہ ظاہر ہو کہ ایک نبی کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اور دوسرے نبی کو مرتبہ سے گرایا جارہا ہے کیونکہ اس طرح کا اظہارفضیلت نہ صرف یہ کہ انبیاء کی عظمت اور ان کے احترام کے خلاف ہے ، بلکہ مختلف نبیوں کے ماننے والوں کے درمیان باہمی خصومت وعداوت کا سبب بھی ہم ۔ یا مذکورہ ارشاد گرامی کی مراد یہ کہ کسی نبی کے مقابلہ پر فضل وشرف کے تمام انواع کے ساتھ اس طرح فضیلت دینے کی ممانعت مراد ہے کیونکہ نفس نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں اور ہر نبی یکساں حیثیت رکھتا ہے ۔
اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس ابن متی سے افضل ہے ۔ لفظ" متی" حضرت یونس علیہ السلام کے باپ کا نام تھا، جیساکہ قاموس میں مذکور ہے ، لیکن جامع الاصول میں یہ ہے کہ متی ان کی ماں کا نام تھا۔ حضرت یونس علیہ السلام کے خاص طور پر ذکر کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اولوالعزی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ یہ کیا کہ جب ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کو ایذاء پہنچائی تو وہ بے صبری کی وجہ اور غصہ کے مارے قوم کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور کشتی میں جابیٹھے ۔ لہٰذا ان کا یہ طرز عمل لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرسکتا تھا کہ ان کے مقابلہ پر کسی نبی کو فضیلت دینا موزوں ہے اور یہ کہنا غیر مناسب بات نہیں ہے کہ حضرت یونس کے مقابلہ پر فلاں نبی زیادہ افضل ہم لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد کے ذریعہ اپنی امت کے لوگوں کو اس گمان سے بھی باز رکھا اور واضح کیا کہ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی ذات پر طعن اور ان کی تحقیر کے مرادف ہے ۔
" تم کسی نبی کو کسی نبی پر فوقیت نہ دو۔ " کا مطلب یہ ہے کہ یوں نہ کہو کہ فلاں نبی کے مقابلہ پر فلاں نبی افضل ہے ۔ اور یہی مطلب اس ارشاد کا ہے کہ تم اللہ کے نبیوں میں کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو ۔" اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے اس ممانعت سے یا تو یہ مراد ہے کہ نفس نبوت کے اعتبار سے کسی نبی کو کسی نبی کے مقابلہ پر فضیلت نہ دو کیونکہ اصل مرتبہ نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں ، یایہ مراد ہے کہ نبی کو کسی نبی کے مقابلہ میں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو اور کسی نبی کی افضلیت کو اس انداز میں بیان نہ کرو کہ دوسرے نبیوں کی تحقیر وتوہین لازم آئے کیونکہ یہ چیز (یعنی کسی نبی کی تحقیر وتوہین کامرتکب ہونا ) کفر ہے اور یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کو ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ، اس وحی کے نزول کے بعد یہ ممانعت ختم ہوگئی اور یہ بات ثابت قرار پائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی نبی کے مقابلہ پر افضل واشرف کہنا درست ہے۔
لاتفضلوابین انبیاء اللہ لفظ " تفضلوا " مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں ضاء ہی کے ساتھ منقول ہے لیکن ایک نسخہ میں یہ لفظ صاد کے ساتھ (لاتفصلوا ) منقول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ " تم اللہ کے نبیوں کے درمیان کوئی فرق وامتیاز نہ کرو " اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہ ارشاد قرآن کریم کی اس آیت سے ماخوذ ہے (لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ) 3۔ ال عمران : 84)
************************
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسلی ونسبی فضیلت :
وعن العباس أنه جاء إلى النبي صلى الله عليه و سلم فكأنه سمع شيئا فقام النبي صلى الله عليه و سلم على المنبر فقال : " من أنا ؟ " فقالوا : أنت رسول الله . فقال : " أنا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب إن الله خلق الخلق فجعلني في خيرهم ثم جعلهم فرقتين فجعلني في خير فرقة ثم جعلهم قبائل فجعلني في خيرهم قبيلة ثم جعله بيوتا فجعلني في خيرهم بيتا فأنا خيرهم نفسا وخيرهم بيتا " . رواه الترمذي
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 319
اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک دن ) کفار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہرزہ سرائی کرتے سنا تو (افسوس اور غصہ میں بھرے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے ( اور بتایا کہ کفار یہ بکو اس کررہے ہیں کہ اگر اللہ میاں کو مکہ ہی کے کسی شخص کو اپنا نبی اور رسول بنانا تھا تو اس شہر کے بڑے بڑے صاحب دولت وثروت اور اونچے درجے کے سرداروں کو چھوڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیوں کرتا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (نے یہ سنا تو واضح کرنے کے لئے نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت وعزت کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کیا ہے اور مرتبہ نبوت پر فائز ہونے کے لئے دوسروں کے مقابلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت واہمیت کیا ہے ) منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو ، میں کون ہوں ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں میں اللہ کا رسول ہوں ، لیکن میری نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت کیا ہے ، اس کو جاننے کے لئے سنو) میں عبداللہ بن عبد المطلب کا بیٹا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں اور عبد المطلب وہ ہستی ہیں جو عرب میں نہایت بزرگ ومعزز ، بڑے شریف وپاکباز اور انتہائی مشہور ومعروف تھے ) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق (جن وانسان ) کو پیدا کیا تو مجھے اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق (نوع انسانی ) میں پیدا کیا پھر اس بہترین مخلوق (نوع انسانی ) کے اللہ تعالیٰ نے دو طبقے کئے (ایک عرب دوسراعجم ) اور مجھے ان دونوں طبقوں میں سے بہترین طبقہ (عرب ) میں پیدا کیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین طبقہ (عرب ) کو قبائل درقبائل کیا (یعنی اس طبقہ کو مختلف قبیلوں اور قوموں میں تقسیم کیا ) اور مجھے ان قبائل میں سے بہترین قبیلہ (قریش ) میں پیدا کیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین قبیلہ (قریش ) کے مختلف گھرانے بنائے اور مجھے ان گھرانوں میں سے بہترین گھرانے (بنوہاشم ) میں پیدا کیا ، پس میں ان (تمام نوع انسانی اور تمام اہل عرب ) میں ذات وحسب کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر واعلی ہوں اور خاندان وگھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے اونچا ہوں (ترمذی)
تشریح :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت وفضیلت کا اظہار کر کے گویا یہ واضح کیا کہ اللہ کا آخری نبی بننے اور اللہ کی آخری کتاب پانے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت الہٰی اس کا لحاظ رکھتی تھی کہ مرتبہ نبوت ورسالت پر فائز ہونے والی ہستی حسب اور خاندان کے اعتبار سے بلند درجہ اور عالی حیثیت ہو لیکن انبیاء کی ذات کے لئے حسب ونسب کی عظمت وبرتری کا لازم ہونا کوئی بنیادی چیز نہیں ہے ، اس کا تعلق محض ان لوگوں کے خلاف اتمام حجت سے ہے جو حسب ونسب کی بڑائی اور خاندانی وجاہت کوزیادہ اہمیت دیتے ہیں ، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جاہل اور بیوقوف کفار کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ کی آخری کتاب قران کو نازل کیا جانا تھا اور نبوت ورسالت قائم کی جانی تھی تو اس کے لئے عرب کے بڑے سرداروں میں سے کسی کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا !ور جہاں تک نفس نبوت کا تعلق ہے وہ خود اتنا بڑا شرف ہے جس کے سامنے کسی کی بھی بڑی سے بڑی وجاہت اور عظمت بے حیثیت چیز ہے ، اس کا حصول نہ حسب ونسب کی عظمت وبلندی پر موقوف ہے اور نہ کسی اور سبب وذریعہ پر بلکہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے جس کو چاہا اس شرف ومرتبہ کے لئے منتخب فرمایا قرآن کریم میں ارشاد ہے
اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ :
اس کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کے لئے کس کو منتخب کرے ایک اور موقع پر فرمایا ۔
و اللہ یختص برحمتہ من یشاء و اللہ ذو الفضل العظیم ۔
اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت (عنایت ) کے ساتھ جس کو منظور ہوتا ہے مخصوص فرما لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل (کرنے ) والے ہیں ۔
وکان فضل اللہ علیک عظیما ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو (اپنی کتاب اور علم ونبوت عطا کر کے ) بڑے فضل سے نوازا۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت حضرت آدم علیہ السلام کے وجود پذیر ہونے سے بھی پہلے تجویز ہوگئی تھی :
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس وقت نامزد ہوئے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس وقت جب کہ آدم علیہ السلام روح اور بدن کے درمیان تھے (ترمذی)
تشریح :
مطلب یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مرتبہ نبوت ورسالت کے لئے اس وقت نامزد بھی ہوچکی تھی ۔ جب کہ حضرت آدم علیہ السلام کی روح ان کے پیکر خاکی سے متعلق بھی نہیں ہوئی تھی اور ان کا پتلا زمین پر بے جان پڑا تھا ۔ یہ جملہ دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت حضرت آدم علیہ السلام کے وجود میں آنے سے بھی پہلے متعین ومقرر ہوچکی تھی ۔
************************
************************
حدثني سعيد بن يحيی بن سعيد الأموي قال حدثني أبي حدثنا أبو بردة بن عبد الله بن أبي بردة بن أبي موسی عن أبي بردة عن أبي موسی قال قلت يا رسول الله أي الإسلام أفضل قال من سلم المسلمون من لسانه ويده
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 165 حدیث متواتر (7471) - ایمان کا بیان : اسلام کی فضیلت اور اس بات کے بیان میں کہ اسلام میں کونسے کام افضل ہیں؟]
ابوموسیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کس شخص کا اسلام سب سے بہتر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
It is narrated on the authority of Abu Musa Ash'ari: I asked the Messenger of Allah which (attribute) of Islam is more excellent. Upon this he remarked: One in which the Muslims are safe, protected from the tongue and hand of (other Muslims). Ibrahim b. Sa'id al-Jauhari has narrated this hadith with the same words in addition to these. The Messenger of Allah (may peace and blessings be upon him) was asked as to who amongst the Muslims is better, and the rest of the hadith was narrated like this.
************************
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة وشجاع بن مخلد واللفظ لأبي بکر قالا حدثنا حسين وهو ابن علي الجعفي عن زادة عن السدي عن عبد الله البهي عن عاشة قالت سأل رجل النبي صلی الله عليه وسلم أي الناس خير قال القرن الذي أنا فيه ثم الثاني ثم الثالث
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ لوگوں میں سے سب سے بہترین لوگ کون سے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس زمانے کے لوگ کہ جس میں میں ہوں پھر دوسرے زمانے کے لوگ پھر تیسرے زمانے کے لوگ۔
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1977 حدیث متواتر (13774) - فضائل کا بیان : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، پھر تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے فضلیت کے بیان میں]
'A'isha reported that a person asked Allah's Apostle (may peace be upon him) as to who amongst the people were the best. He said: Of the generation to which I belong, then of the second generation (generation adjacent to my generation), then of the third generation (generation adjacent to the second generation).
تشریح :
گواہی قسم سے پہلے اور قسم گواہی سے پہلے ہوگی ۔" سے گواہی وقسم میں عجلت پسندی وزیادتی کو بطور کنایہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ عجلت میں وزیادتی کی وجہ سے گواہی دینے اور قسم کھانے میں اس قدر لاپرواہ ہوگا کہ کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائے گا اور کبھی پہلے گواہی دے گا اور پھر قسم کھائے گا ۔
مظہر نے کہا ہے یہ جملہ گواہی وقسم میں تیز روی وعجلت پسندی کی تمثیل کے طور پر ہے یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں اتنی تیزی اور پھرتی دکھایا کرے گا کہ نہ تو اس کو دین کی کوئی پرواہ ہوگی اور نہ وہ ان چیزوں میں کوئی پرواہ کرے گا ۔ یہاں تک کہ اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ پہلے قسم کھائے یا پہلے گواہی دے ۔ یا یہ کہ اس کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا کہ اس نے پہلے قسم کھائی ہے یا پہلے گواہی دی ہے ۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی دراصل جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم کے عام ہو جانے کی خبر دینے کے طور پر ہے کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں لوگ گواہی دینے کو پیشہ بنا لیں گے اور جھوٹی قسم کھانا ان کا تکیہ کلام بن جائے گا ۔ جیسا کہ آجکل عام طور پر رواج ہے کہ پیشہ ور گواہ عدالتوں میں جھوٹی گواہی دیتے پھرتے ہیں اور ان کو اس بات کا ذرہ پھر احساس نہیں ہوتا کہ وہ چند روپوں کی خاطر عدالت میں جھوٹی قسم کھا کر اور جھوٹی گواہی دے کر اپنی آخرت کو کس طرح برباد کر رہے ہیں ۔
اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص کبھی تو قسم کے ذریعہ اپنی گواہی کو ترویج دے گا یعنی یوں کہے گا کہ " اللہ کی قسم !میں سچا گواہ ہوں ۔" اور کبھی گواہی کے ذریعہ اپنی قسم کو ترویج دے گا یعنی اعلان کرتا پھرے گا کہ " لوگ میری قسم کے سچے ہونے پر گواہ رہیں ۔
************************
حدثنا زهير بن حرب ومحمد بن المثنی قالا حدثنا عفان بن مسلم حدثنا حماد وهو ابن سلمة عن سعيد الجريري بهذا الإسناد عن عمر بن الخطاب قال إني سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول إن خير التابعين رجل يقال له أويس وله والدة وکان به بياض فمروه فليستغفر لکم
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1990 (13787) - فضائل کا بیان : حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل کے بیان میں]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ تابعین میں سے سب سے بہترین وہ آدمی ہوگا جسے اویس کہا جائے گا اس کی ایک والدہ ہوگی اور اس کے جسم پر سفیدی کا ایک نشان ہوگا تو تمہیں چاہئے کہ اس سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا۔
'Umar b. Khattab reported: I heard Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: Worthy amongst the successors would be a person who would be called Uwais. He would have his mother (living with him) and he would have (a small) sign of leprosy. Ask him to beg pardon for you (from Allah).
************************
حدثنا محمد بن الصباح البزاز حدثنا خالد وإسمعيل بن زکريا عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها وخير صفوف النسا آخرها وشرها أولها
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 675 (15534) - نماز کا بیان : عورتوں کی صف]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مردوں کے لئے سب سے بہتر صف پہلی صف ہے اور سب سے بری صف ان کی صف آخری صف ہے (کیونکہ وہ عورتوں کی صف سے متصل ہوتی ہے) اور عورتوں کے لئے بہتر صف ان کی آخری صف ہے اور بری صف ان کی پہلی صف ہے (کیونکہ وہ مردوں کے قریب ہے)
************************
حدثنا إبراهيم بن موسی قال أخبرنا إسرايل ح و حدثنا مسدد حدثنا عيسی وهذا حديث مسدد وهو أتم عن الأوزاعي عن حسان بن عطية عن أبي کبشة السلولي قال سمعت عبد الله بن عمرو يقول قال رسول الله صلی الله عليه وسلم أربعون خصلة أعلاهن منيحة العنز ما يعمل رجل بخصلة منها رجا ثوابها وتصديق موعودها إلا أدخله الله بها الجنة قال أبو داود في حديث مسدد قال حسان فعددنا ما دون منيحة العنز من رد السلام وتشميت العاطس وإماطة الأذی عن الطريق ونحوه فما استطعنا أن نبلغ خمسة عشر خصلة
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1679 (16538) - کتاب الزکوٰة : کسی کو کوئی چیز عاریةً دینا باعث اجر ہے]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چالیس خصلتیں ہیں جن میں سب سے بہتر خصلت بکری کا مستعار دینا ہے (دودھ پینے کے لئے ) جو شخص ان خصلتوں میں سے کسی کو ثواب کی امید رکھ کر اور اس کے وعدہ کو سچا جان کر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی علیہ کہ مسدد کی حدیث میں حسان کا بیان ہے کہ ہم نے ان خصلتوں کو شمار کیا مثلاًسلام اور چھینک کا جواب دینا راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا، وغیرہ تو ہم پندرہ خصلتوں تک نہ پہنچ سکے۔
************************
حدثنا أحمد بن الفرات يعني أبا مسعود الرازي ومحمد بن عبد الله المخرمي وهذا لفظه قالا حدثنا شبابة عن ورقا عن عمرو بن دينار عن عکرمة عن ابن عباس قال کانوا يحجون ولا يتزودون قال أبو مسعود کان أهل اليمن أو ناس من أهل اليمن يحجون ولا يتزودون ويقولون نحن المتوکلون فأنزل الله سبحانه وتزودوا فإن خير الزاد التقوی الآية
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1726 (16585) - مناسک حج کا بیان : حج میں تجارت کرنا]
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ بعض لوگ حج کرتے تھے مگر سفر خرچ ساتھ نہ رکھتے تھے ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یمن کے لوگ حج کرتے تھے اور سامان سفر ساتھ نہ رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم تو توکل کرنے والے ہیں تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی سامان سفر ساتھ لو اور سب سے بہتر سامان سفر پرہیزگاری ہے۔
************************
حدثنا عبد الواحد بن غياث حدثنا حماد حدثنا محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة أن أبا هند حجم النبي صلی الله عليه وسلم في اليافوخ فقال النبي صلی الله عليه وسلم يا بني بياضة أنکحوا أبا هند وأنکحوا إليه وقال وإن کان في شي مما تداوون به خير فالحجامة
[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 337 (16955) - نکاح کا بیان : کفائت (کفو) کا بیان]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابوہند نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر میں پچھنے لگائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے بنی بیاضہ ابوہند سے نکاح کرو اور اس کے پاس (اپنی بیٹیوں کا) پیغام نکاح بھیجو نیز فرمایا جتنی دوائیں تم کرتے ہو اس میں سے سب سے بہتر پچھنے لگوانا ہے۔
Narrated AbuHurayrah:
AbuHind cupped the Prophet (peace_be_upon_him) in the middle of his head. The Prophet (peace_be_upon_him) said: Banu Bayadah, marry AbuHind (to your daughter), and ask him to marry (his daughter) to you. He said: The best thing by which you treat yourself is cupping.
************************
حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا جرير عن مغيرة عن الشعبي عن جابر عن النبي صلی الله عليه وسلم قال إن أحسن ما دخل الرجل علی أهله إذا قدم من سفر أول الليل
[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1011 (17629) - جہاد کا بیان : رات میں اچانک سفر سے گھر واپس نہ آئے]
حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سفر سے گھر میں آنے کا سب سے بہتر وقت سر شام آنا ہے۔
Narrated Jabir ibn Abdullah:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: The best time for a man to go in to his family on return from a journey is at the beginning of the night.
************************
حدثنا مسلم بن إبراهيم حدثنا المستمر بن الريان عن أبي نضرة عن أبي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم أطيب طيبکم المسک
[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1390 (18008) - جنازوں کا بیان : میت کو مشک لگانا]
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمہاری خوشبوؤں میں سب سے بہتر مشک ہے۔
************************
حدثنا أحمد بن يونس حدثنا زهير حدثنا عبد الله بن عثمان بن خثيم عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم البسوا من ثيابکم البياض فإنها من خير ثيابکم وکفنوا فيها موتاکم وإن خير أکحالکم الإثمد يجلو البصر وينبت الشعر
[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 488 (18723) - طب کا بیان : سرمہ لگانے کا بیان]
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے کپڑوں میں سے سفید پہنا کرو کیونکہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہتر ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو اور بیشک تمہارے سرموں میں سب سے بہتر سرمہ اثمد ہے جو نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے۔
Narrated Abdullah ibn Abbas:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Wear your white garments, for they are among your best garments, and shroud your dead in them. Among the best types of collyrium you use is antimony (ithmid): it clears the vision and makes the hair sprout.
************************
حدثنا زياد بن أيوب حدثنا عبد الله بن إدريس عن مختار بن فلفل يذکر عن أنس قال قال رجل لرسول الله صلی الله عليه وسلم يا خير البرية فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم ذاک إبراهيم
[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1269 (19504) - سنت کا بیان : انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا بیان]
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا اے تمام مخلوقات کے سب سے بہتر شخص تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو ابراہیم تھے (یہ کمال تواضع اور انکساری ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حالانکہ آپ خیرالاولین والآخرین ہیں۔)
************************
أخبرنا قتيبة قال حدثنا بکر يعني ابن مضر عن ابن الهاد عن محمد بن إبراهيم عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن أبي هريرة قال أتيت الطور فوجدت ثم کعبا فمکثت أنا وهو يوما أحدثه عن رسول الله صلی الله عليه وسلم ويحدثني عن التوراة فقلت له قال رسول الله صلی الله عليه وسلم خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه أهبط وفيه تيب عليه وفيه قبض وفيه تقوم الساعة ما علی الأرض من دابة إلا وهي تصبح يوم الجمعة مصيخة حتی تطلع الشمس شفقا من الساعة إلا ابن آدم وفيه ساعة لا يصادفها مؤمن وهو في الصلاة يسأل الله فيها شيا إلا أعطاه إياه فقال کعب ذلک يوم في کل سنة فقلت بل هي في کل جمعة فقرأ کعب التوراة ثم قال صدق رسول الله صلی الله عليه وسلم هو في کل جمعة فخرجت فلقيت بصرة بن أبي بصرة الغفاري فقال من أين جت قلت من الطور قال لو لقيتک من قبل أن تأتيه لم تأته قلت له ولم قال إني سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا تعمل المطي إلا إلی ثلاثة مساجد المسجد الحرام ومسجدي ومسجد بيت المقدس فلقيت عبد الله بن سلام فقلت لو رأيتني خرجت إلی الطور فلقيت کعبا فمکثت أنا وهو يوما أحدثه عن رسول الله صلی الله عليه وسلم ويحدثني عن التوراة فقلت له قال رسول الله صلی الله عليه وسلم خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه أهبط وفيه تيب عليه وفيه قبض وفيه تقوم الساعة ما علی الأرض من دابة إلا وهي تصبح يوم الجمعة مصيخة حتی تطلع الشمس شفقا من الساعة إلا ابن آدم وفيه ساعة لا يصادفها عبد مؤمن وهو في الصلاة يسأل الله شيا إلا أعطاه إياه قال کعب ذلک يوم في کل سنة فقال عبد الله بن سلام کذب کعب قلت ثم قرأ کعب فقال صدق رسول الله صلی الله عليه وسلم هو في کل جمعة فقال عبد الله صدق کعب إني لأعلم تلک الساعة فقلت يا أخي حدثني بها قال هي آخر ساعة من يوم الجمعة قبل أن تغيب الشمس فقلت أليس قد سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا يصادفها مؤمن وهو في الصلاة وليست تلک الساعة صلاة قال أليس قد سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول من صلی وجلس ينتظر الصلاة لم يزل في صلاته حتی تأتيه الصلاة التي تلاقيها قلت بلی قال فهو کذلک
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1435 (21532) - جمعہ کا بیان : بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان]
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب میں کوہ طور پر گیا تو میری ملاقات کعب بن احبار سے ہوگئی۔ ہم دونوں ایک دن اکٹھے رہے۔ میں انہیں رسول کریم کی احادیث سناتا اور وہ مجھے تورات کی احادیث بیان کرتے رہے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا طلوع آفتاب ہونے والے دنوں میں سب سے اچھا دن جمعہ کا ہے۔ اسی دن آدم کی پیدائش ہوئی اسی دن (آدم) جنت سے نکالے گئے اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی اسی دن ان کی وفات ہوئی اور یہی دن روز قیامت ہوگا۔ کوئی جانور ایسا نہیں جو جمعہ کے دن سورج طلوع ہونے تک قیامت کے خوف کی وجہ سے کان نہ لگائے رہے۔ اسی دن ایک گھڑی ایسی بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس گھڑی نماز پڑھنے کے بعد رب ذوالجلال والا کرام سے کچھ طلب کرتا ہے تو رب قدوس اسے ضرور وہ چیز عطا فرماتے ہیں۔ کعب کہنے لگے ایسا دن تو سال میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ میں نے کہا نہیں! ہر جمعہ کو ایسی ساعت آتی ہے۔ چنانچہ کعب نے تورات پڑھی اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا یہ ساعت ہر جمعہ کو آتی ہے۔ پھر میں وہاں سے چلا تو بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ (ابوہریرہ) کہاں سے آرہے ہو؟ میں نے کہا کوہ طور سے۔ فرمایا اگر میری ملاقات آپ سے وہاں جانے سے پہلے ہوجاتی تو آپ ہرگز وہاں نہ جاتے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تین مسجدوں کے علاوہ کسی زیارت کیلئے سفر نہ کیا جائے۔ مسجد حرام مسجد نبوی اور مسجد بیت المقدس۔ پھر اس کے بعد میری ملاقات عبداللہ بن سلام سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا میں آج کوہ طور پر گیا تھا وہاں میری کعب سے ملاقات ہوئی میں نے ایک دن ان کے ساتھ گزارہ میں ان سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کرتا تھا اور وہ تورات کی روایات بیان کرتے رہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سورج طلوع ہونے والے دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ کا ہے اسی دن آدم کی پیدائش ہوئی اسی دن وہ جنت سے نکالے گئے اسی دن ان کی توبہ کو اللہ جل جلالہ نے شرف قبولیت بخشا۔ اسی دن ان کی وفات ہوئی اور قیامت بھی جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی اور انسان کے علاوہ کوئی جانور ایسا نہیں ہے جو جمعہ کے دن آفتاب طلوع ہونے تک قیامت کے ڈر کی وجہ سے اسی طرف متوجہ نہ رہے۔ (اور میں نے یہ بھی کہا کہ) اس میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان شخص اس میں نماز ادا کرے اور اللہ جل جلالہ سے کوئی چیز طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور وہ چیز عطا کرتے ہیں ۔ کعب کہنے لگے وہ دن تو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ آتا ہے۔ عبداللہ بن سلام کہنے لگے کعب جھوٹ بولتے ہیں ۔ میں نے کہا اس کے بعد کعب نے (توریت کو) پڑھ کر دیکھا تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ کہا ہے یقینا ایسی گھڑی ہر جمعہ کو آتی ہے۔ اس پر عبداللہ فرمانے لگے۔ کعب نے سچ کہا اور مجھے اس ساعت کا علم ہے۔ میں نے کہا میرے بھائی پھر مجھے آگاہ کرو۔ انہوں نے کہا غروب آفتاب سے پہلے جمعہ کی آخری گھڑی ہے۔ میں نے کہا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ جو شخص اس ساعت کو نماز میں پائے۔ لیکن اس وقت تو نماز ہی ادا نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کیا تم نے یہ فرمان نہیں سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے ایک نماز ادا کی اور دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھا رہا تو گویا وہ حالت نماز میں ہی ہے۔ میں نے کہا کیوں نہیں ۔ کہا تو پھر یہ بھی اسی طرح ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah said: “Abu Al-Qasim said: ‘On Friday there is an hour when, if a Muslim slave stands in prayer and asks Allah for something at that time, He will give it to him.” He was reducing it: lessening it.
تشریح
حدیث کے الفاظ حین تصبح حتی طلع الشمس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت چونکہ جمعے کے روز طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کے درمیانی عرصہ میں ہی قائم ہوگی اس لئے چوپائے ہر جمعے کے روز اس عرصہ میں قیامت کے قائم ہونے کے منتظر رہتے ہیں۔ لہٰذا اس پورے وقت میں جب حیوان قیامت کا خیال رکھتے ہیں اور اس سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ تو انسانوں کو بطریق اولیٰ یہ چاہیے کہ وہ جمعے کے روز دن بھر اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر میں مشغول رہیں اور اس چیز سے جو پیش آنے والی ہے (یعنی قیامت سے ) ڈرتے رہیںَ
یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اعجاز شان کی غمازی کر رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امی ہونے کے باوجود اس عظیم الشان چیز کی خبر دی جو یہود میں توراۃ کے ایک بڑے عالم سے بھی پوشیدہ تھی حالانکہ توراۃ میں اس کا ذکر موجود تھا۔ گویا توراۃ کا عالم توراۃ میں ذکر کی گئی چیز سے بے خبر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو امی تھے اس سے پوری طرح باخبر درحقیقت یہ بڑا زبردست معجزہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بظاہر تو امی تھے مگر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں علم و معرفت کا بحر بیکراں موجزن کر رکھتا تھا۔
کعب احبار یہودیوں میں ایک بڑے پائے کے عالم اور بہت دانشمند مانے جاتے تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو پایا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے تھے بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے ۔ حضرت عبداللہ ابن سلام بھی یہودیوں کے بڑے عالم تھے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے ہی میں اسلام لا کر صحابیت کے شرف عظیم سے مشرف ہوگئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔
حدیث کے پہلے جملے کے ذریعے بطور مبالغہ جمعے کے دن کی فضیلت ظاہر کرنا مقصود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام دنوں میں سب سے زیادہ افضل دن جمعہ ہے کیونکہ ایسا کوئی بھی دن نہیں ہے جس میں آفتاب طلوع نہ ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہونے کی وجہ سے جمعہ کے دن کی فضیلت تو ظاہر ہے لیکن بہشت سے نکلنے کا دن ہونے کی وجہ سے جمعہ کی فضیلت اس لئے ہے کہ دراصل حضرت آدم علیہ السلام کا جنت سے نکل کر زمین پر آنا انبیاء اور اولیاء کی پیدائش کا سبب اور ان کی مقدس زندگیوں سے بے شمار احسانات کے ظہور کا باعث ہوا۔ ایسے ہی حضرت آدم علیہ السلام کی موت بارگاہ رب العزت میں ان کی حاضری کا سبب ہوئی اسی طرح قیامت کا قائم ہونا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے جس میں پرہیز گاروں اور نیکو کاروں سے اللہ تعالیٰ کے کئے گئے وعدے ظاہر ہوں گے۔
" قیامت قائم ہونے" سے مراد یا تو پہلا صور ہے کہ جس کی آواز سے زمین و آسمان فنا ہو جائیں گے اور پوری دنیا موت کی آغوش میں پہنچ جائے گی یا دوسرا صور بھی مراد لیا جا سکتا ہے جو تمام مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنے اور انہیں احکم الحاکمین کی بارگاہ میں حساب کے لئے پیش کرنے کے واسطے پھونکا جائے گا۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ تمام دنوں میں سے عرفہ کا دن افضل ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ جمعہ کا روز افضل ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے مفہوم ہوتا ہے لیکن یہ اختلاف و تضاد اس صورت میں ہے جب کہ مطلقاً یہ کہا جائے کہ دنوں میں سب سے افضل دن عرفہ ہے یا اسی طرح کہا جائے کہ جمعے کا دن سب سے افضل دن ہے اور اگر دونوں اقوال کا مفہوم اس طرح لیا جائے کہ جو حضرات عرفہ کی افضلیت کے قائل ہیں ان کی مراد یہ ہے کہ سال میں سب سے افضل دن عرفہ ہے اور جو حضرات فرماتے ہیں کہ جمعہ سب سے افضل دن ہے ان کی مراد یہ ہے کہ ہفتے کے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ ہے۔
اس طرح نہ صرف یہ کہ دونوں اقوال میں کسی تطبیق اور تاویل کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ دونوں اقوال اپنی اپنی جگہ صحیح اور قابل قبول ہوں گے ہاں اگر حسن اتفاق سے عرفہ (یعنی ذی الحجہ کی نویں تاریخ) جمعے کے روز ہو جائے تو نور علی نور کہ یہ دن مطلقاً تمام دنوں میں سب سے زیادہ افضل ہوگا اور اس دن کیا جائے والا عمل تمام اعمال میں افضل ہوگا۔ یہی وجہ سے کہ خوش قسمتی سے اگر حج جمعے کے روز ہوتا ہے تو اس کو حج اکبر کہتے ہیں ۔ کیونکہ جو حج جمعے کے دن ہوتا ہے وہ فضیلت و مرتبے کے اعتبار سے جمعے کے علاوہ دوسرے ایام میں ادا ہونے والے ستر حجوں پر بھاری ہوتا ہے۔
جمعہ کی فضیلت و عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابن مسیب کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ نفل حج سے زیادہ محبوب ہے۔
جامع صغیر میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت مرفوعاً منقول ہے کہ 'جمعہ حج المساکین ہے۔"
************************
أخبرنا إبراهيم بن الحسن قال حدثنا حجاج بن محمد قال حدثني شعبة عن زياد بن فياض قال سمعت أبا عياض قال قال عبد الله بن عمرو قال لي رسول الله صلی الله عليه وسلم صم من الشهر يوما ولک أجر ما بقي قلت إني أطيق أکثر من ذلک قال فصم يومين ولک أجر ما بقي قلت إني أطيق أکثر من ذلک قال فصم ثلاثة أيام ولک أجر ما بقي قلت إني أطيق أکثر من ذلک قال صم أربعة أيام ولک أجر ما بقي قلت إني أطيق أکثر من ذلک فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم أفضل الصوم صوم داود کان يصوم يوما ويفطر يوما
[سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 314 (22506) - روزوں سے متعلقہ احادیث : ہر ماہ چار روزے رکھنا]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تم ہرماہ میں تم ایک روزہ رکھا کرو اور تم کو باقی دنوں کا اجر ملے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم دو روز روزہ رکھ لو اور تم کو باقی ایام کے روزے کا اجر مل جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر ماہ تین روز روزہ رکھ لو اور تم کو باقی دنوں کے روزوں کا اجر ملے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم چار روز روزے رکھ لو اور تم کو باقی دنوں کے روزوں کا ثواب مل جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمام روزوں میں سب سے بہتر حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے وہ ایک روز روزہ رکھتے تھے اور ایک روز افطار فرماتے (یعنی روزہ چھوڑتے)
‘Abdullah bin ‘Amr said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said to me: ‘Fast one day of the month and you will have the reward of what is left.’ I said: ‘I am able to do more than that.’ He said: ‘Fast two days and you will have the reward of what is left.’ I said: ‘I am able to do more than that.’ He said: ‘Fast three days and you will have the reward of what is left.’ I said: ‘I am able to do more than that.’ He said: ‘Fast four days and you will have the reward of what is left.’ I said: ‘I am able to do more than that.’ The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘The best fasting is the fast of Dawftd; he used to fast one day and not the next.” (Sahih)
************************
أخبرنا محمود بن خالد قال حدثنا الوليد قال حدثنا أبو عمرو عن يحيی عن محمد بن إبراهيم بن الحارث أخبرني أبو عبد الله أن ابن عابس الجهني أخبره أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال له يا ابن عابس ألا أدلک أو قال ألا أخبرک بأفضل ما يتعوذ به المتعوذون قال بلی يا رسول الله قال قل أعوذ برب الفلق و قل أعوذ برب الناس هاتين السورتين
[سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 1741 (25545) - کتاب الاستعاذة]
ابن عابس جہنی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا اے عابس! کیا میں تجھ کو نہ بتلاؤں سب سے بہتر پناہ کہ جس سے پناہ مانگتے ہیں پناہ مانگنے والے۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں بتائیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔
It was narrated from ‘Uqbah that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم recited them in the ubh prayer. (Sahih)
************************
أخبرنا عتبة بن عبد الله قال أنبأنا ابن المبارک عن سفيان عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر بن عبد الله قال کان رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول في خطبته يحمد الله ويثني عليه بما هو أهله ثم يقول من يهده الله فلا مضل له ومن يضلله فلا هادي له إن أصدق الحديث کتاب الله وأحسن الهدي هدي محمد وشر الأمور محدثاتها وکل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة وکل ضلالة في النار ثم يقول بعثت أنا والساعة کهاتين وکان إذا ذکر الساعة احمرت وجنتاه وعلا صوته واشتد غضبه کأنه نذير جيش يقول صبحکم مساکم ثم قال من ترک مالا فلأهله ومن ترک دينا أو ضياعا فإلي أو علي وأنا أولی بالمؤمنين
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1583 حدیث متواتر (21680) - عیدین سے متعلقہ احادیث کی کتاب : خطبہ کیسے پڑھا جائے؟]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جیسے کہ اس کا حق ہے۔ پھر فرماتے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ یقین رکھو سب سے سچی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور ہر نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔ پھر فرماتے میں اور قیامت اتنی قریب ہیں جتنی یہ دو انگلیاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قیامت کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک سرخ ہوجاتے آواز بلند ہوجاتی اور غصہ تیز ہوجاتا جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی لشکر کو ڈرا رہے ہوں کہ صبح یا شام کے وقت تم لوگوں کو لشکر لوٹ لے گا۔ جو شخص مال چھوڑ کر مرے گا وہ اس کے ورثاء کا ہے اور جو شخص قرض یا بچے چھوڑ کر مرے گا اس کا قرض اور بچوں کی پرورش کا میں ذمہ دار ہوں کیونکہ کہ میں مسلمانوں کا ولی ہوں۔
It was narrated from Hasan that Ibn ‘Abbas gave a Khutbah in Al-Basrah and said: “Pay the Zakah of your fasting.” The people started looking at one another. He said: “Whoever there is here from the people of AlMadinah, get up and teach your brothers, for they do not know that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم enjoined Sadaqat Al-Fitr on the young and the old, the free and the slave, the male and the female; half a Sa’ of wheat or a Sa’ of dried dates or barley.”
************************
أخبرنا أحمد بن عمرو قال أنبأنا ابن وهب قال أخبرني معاوية بن صالح عن ابن الحارث وهو العلا عن القاسم مولی معاوية عن عقبة بن عامر قال کنت أقود برسول الله صلی الله عليه وسلم في السفر فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم يا عقبة ألا أعلمک خير سورتين قرتا فعلمني قل أعوذ برب الفلق و قل أعوذ برب الناس فلم يرني سررت بهما جدا فلما نزل لصلاة الصبح صلی بهما صلاة الصبح للناس فلما فرغ رسول الله صلی الله عليه وسلم من الصلاة التفت إلي فقال يا عقبة کيف رأيت
[سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 1745 (25549) - کتاب الاستعاذة ]
عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کا جانور کھینچ رہا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عقبہ! کیا میں تم کو سب سے بہتر سورتیں جو پڑھی گئی ہیں وہ دو سورتیں سکھلاؤں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو قل اعوذبرب الفلق اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ سکھلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملاحظہ فرمایا میں زیادہ خوش نہیں ہوا جس وقت صبح کی نماز کے لئے آپ اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں یہی سورتیں تلاوت فرمائیں۔ جس وقت نماز سے فراغت ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری جانب دیکھا اور فرمایا اے عقبہ تم کیا سمجھے؟
It was narrated that ‘Uqbah bin ‘Amir said: “I came to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم while he was riding, and I put my hand on his foot and said: ‘Teach me Sarah Hud, teach me Sarah Yusuf. He said: ‘You will never recite anything more precious before Allah, the Mighty and Sublime, than: ‘Say: I seek refuge with (Allah) the Lord of the daybreak).” (Sahih)
************************
حدثنا علي بن محمد حدثنا وکيع حدثنا شعبة عن عمرو بن مرة عن عبد الله بن سلمة قال سمعت عليا يقول خير الناس بعد رسول الله صلی الله عليه وسلم أبو بکر وخير الناس بعد أبي بکر عمر
[سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 106 (30199) حدیث موقوف - سنت کی پیروی کا بیان : اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کے بارے میں ۔]
حضرت علی کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب سے بہتر عمر ہیں ۔
It was narrated that Abdullâh bin Salimah said: “I heard ‘Ali say: ‘The best of people after the Messenger of Allah is Abu Bakr, and the best of people after Abu Bakr is ‘Umar.’”(Sahih)
************************
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو أسامة عن عمر بن حمزة عن سالم أن شاعرا مدح بلال بن عبد الله فقال بلال بن عبد الله خير بلال فقال ابن عمر کذبت لا بل بلال رسول الله خير بلال
[سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 152 (30245) حدیث موقوف - سنت کی پیروی کا بیان : اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کے بارے میں ۔]
سالم سے مروی ہے کہ ایک شاعر نے بلال بن عبداللہ کی تعریف کی اور کہا کہ بلال بن عبداللہ سب بلالوں سے بہتر ہے، عبداللہ بن عمر نے فرمایا تو نے غلط کہا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلال سب سے بہتر ہیں ۔
************************
حدثنا محمد بن رمح أنبأنا الليث بن سعد عن يزيد بن أبي حبيب عن أبي الخير عن عبد الله بن عمرو أن رجلا سأل رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أي الإسلام خير قال تطعم الطعام وتقرأ السلام علی من عرفت ومن لم تعرف
[سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 134 (33351) - کھانوں کے ابواب : کھانا کھلانے کی فضیلت]
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اسلام (میں) کونسا (عمل) سب سے بہتر (پسندیدہ) ہے؟ فرمایا تو کھانا کھلائے اور سلام کہے جان پہچان والے کو اور انجان کو۔
It was narrated from 'Abdullah bin ‘Amr that a man asked the Messenger of Allah "O Messenger of Allah, which (aspect) of Islam is the best?" He said: "Offering food (to the needy) and greeting with Salam those whom you know and those whom you do not know."
************************
حدثنا محمد بن الصباح أنبأنا عبد الله بن رجا المکي عن ابن خثيم عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم خير ثيابکم البياض فالبسوها وکفنوا فيها موتاکم
[سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 446 (33663) - لباس کا بیان : سفید کپڑے]
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے کپڑوں میں سب سے بہتر سفید کپڑے ہیں اس لئے انہی کو پہنا کر اور انہی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔
It was narrated from Ibn Abbas that the Messenger of Allah said: "The best of your garments are the white ones, so wear them and shroud your dead m them." (Hasan)
************************
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ , حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ , عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ , عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ , وَأَرْضَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ , وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ , وَخَيْرٍ لَكُمْ مِنْ إِعْطَاءِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ , وَمِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ , فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ , وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ " , قَالُوا : وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " ذِكْرُ اللَّهِ " , وقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : مَا عَمِلَ امْرُؤٌ بِعَمَلٍ , أَنْجَى لَهُ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ .
[سنن ابن ماجه » كِتَاب الْأَدَبِ » بَاب فَضْلِ الذِّكْرِ ... رقم الحديث: 3788]
حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں تمہارا سب سے بہتر عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے زیادہ تمہارے مالک کی رضا کا باعث ہو اور سب سے زیادہ تمہارے درجات بلند کرنے والا ہے اور تمہارے لئے سونا چاندی خرچ (صدقہ) کرنے سے بھی بہتر ہے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تم دشمن کا سامنا کرو تو اس کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں (اور تمہیں شہید کریں)۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ایسا عمل کونسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی یاد اور معاذ بن جبل نے فرمایا کہ انسان کوئی ایسا عمل نہیں کرتا جو یاد الٰہی سے بھی زیادہ عذاب الٰہی سے نجات کا باعث ہو۔
It was narrated from Abu Darda' that the Prophet(saw) said: "Shall I not tell you of the best of your deeds, the most pleasing to your Sovereign, those that raise you most in status, and that are better than your giving gold and silver, or meeting you enemy (in battle) and you strike their necks and they strike your necks?" They said: "What is that, 0 Messenger of Allah?" He said: "Remembering Allah (Dhikr)." (Hasan)
تخريج الحديث
الشواهد
|
|
************************
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا أبو معاوية عن حجاج عن عطية عن أبي سعيد الخدري عن النبي صلی الله عليه وسلم قال لشبر في الجنة خير من الأرض وما عليها الدنيا وما فيها
[سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1210 (34427) - زہد کا بیان : جنت کا بیان]
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک بالشت برابر جنت میں ساری دنیا سے اور جو اس میں ہے اس سب سے بہتر ہے۔
It was narrated from Abu Sa'eed Al-Khudri that the Prophet P.B.U.H said. "A hand span in Paradise is better than the earth and everything on it."
************************
أخبرنا يوسف بن موسى أخبرنا أبو عامر حدثنا قرة بن خالد عن عون بن عبد الله قال قال عبد الله نعم المجلس مجلس ينشر فيه الحكمة وترجى فيه الرحمة
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 289 (43191) حدیث موقوف - مقدمہ دارمی : جو شخص غلطی میں مبتلا ہونے کےخوف سے فتوی دینے سے بچے]
عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیںسب سے بہترین محفل وہ ہے جس میں حکمت کو پھیلایا جائے اور رحمت کی امید رکھی جائے۔
************************
أخبرنا عبيد الله بن موسى عن عثمان بن الأسود عن عطا قال قال موسى يا رب أي عبادك أحكم قال الذي يحكم للناس كما يحكم لنفسه قال يا رب أي عبادك أغنى قال أرضاهم بما قسمت له قال يا رب أي عبادك أخشى لك قال أعلمهم بي
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 365 (43267) حدیث مقطوع - مقدمہ دارمی : جو شخص غیر اللہ کے لئے علم حاصل کرے اسکی توبیخ۔]
عطاء بیان کرتے ہیں حضرت موسی نے عرض کی اے میرے پروردگار تیرا کون سا بندہ سب سے بہتر فیصلہ کرتا ہے۔ اللہ نے ارشاد فرمایا جو لوگوں کے لئے وہی فیصلہ کرتا ہے جو اپنے لئے فیصلہ کرتا ہے۔ حضرت موسی نے دریافت کیا اے میرے پروردگار تیرا کون سا بندہ سب سے زیادہ غنی ہے اللہ نے جواب دیا میں نے اس کو عطاء کیا ہے وہ سب سے زیادہ اس سے راضی ہو حضرت موسی نے دریافت کیا اے میرے اللہ تیرا کون سابندہ تجھ سے زیادہ ڈرتا ہے تو اللہ نے جواب دیا جو میرے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔
************************
أخبرنا نعيم بن حماد حدثنا بقية عن الأحوص بن حكيم عن أبيه قال سأل رجل النبي صلى الله عليه وسلم عن الشر فقال لا تسألوني عن الشر واسألوني عن الخير يقولها ثلاثا ثم قال ألا إن شر الشر شرار العلما وإن خير الخير خيار العلما
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 372 (43274) - مقدمہ دارمی : جو شخص غیر اللہ کے لئے علم حاصل کرے اسکی توبیخ۔]
احوص بن حکیم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے برائی کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا مجھ سے برائی کے بارے میں سوال نہ کرو مجھ سے بھلائی کے بارے میں سوال کرو یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی اس کے بعد آپ نے فرمایا برے لوگوں میں سب سے زیادہ برے برے علماء ہیں اور بہتر لوگوں میں سب سے بہتر بہتر علماء ہیں۔
تشریح :
صحابی کے سوال کا مقصد یا تو نفسِ برائی کے بارے میں دریافت کرنا تھا جیسا کہ ترجمہ سے معلوم ہوا یا وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ بد ترین آدمی کون ہےَ اور جواب کو دیکھتے ہوئے یہی مقصد زیادہ واضح ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوال سے منع فرمایا: اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سراپاءِ رحمت اور سراپاءِ خیر ہے اس لئے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محض بدی اور برائی کا سوال کیا جاتا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برائی اور بھلائی دونوں کے بارے میں جواب دے کر اسی طرف اشارہ فرمایا۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ علماء کی ذات چونکہ عوام کے اندر ایک معیار اور نمونہ ہوتی ہے اور لوگ ان کے تابع و معتقد ہوتے ہیں لہٰذا عالم کی ہر صفت اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے اثرات تک بھی پہنچتے ہیں، عالم اگر نیک اخلاق و عادات اور اچھے خصائل کا ہوتا ہے تو اس کے ماننے والے اور اس کی اتباع کرنے والے بھی نیک اخلاق و عادات کے مالک ہوتے ہیں اور خدانخواستہ بد اخلاق، بد کردار ہو جائے تو پھر اس کے جراثیم دوسرے تک پہنچتے ہیں اور اس کے ماننے والے بھی اسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔
************************
أخبرنا أبو المغيرة حدثنا الأوزاعي عن حسان قال ما ازداد عبد بالله علما إلا ازداد الناس منه قربا من رحمة الله
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 389 (43291) حدیث مقطوع - مقدمہ دارمی :
جو شخص غیر اللہ کے لئے علم حاصل کرے اسکی توبیخ۔ ]
حضرت حسان ارشاد فرماتے ہیں اللہ کے بارے میں بندے کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے اللہ کی رحمت کی وجہ سے لوگ اس کے زیادہ قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حسان بیان کرتے ہیں جس بندے کے علم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اس کی میانہ روی میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کو جو ہار پہناتا ہے اس میں سب سے بہتر سکینت ہے۔
************************
حدثنا محمد بن يوسف حدثنا سفيان عن منصور والأعمش عن سالم بن أبي الجعد عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم استقيموا ولن تحصوا واعلموا أن خير أعمالكم الصلاة وقال الآخر إن من خير أعمالكم الصلاة ولن يحافظ على الوضو إلا مؤمن
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 653 (43555) - پاکی کا بیان : وضو کے بارے میں حدیث]
حضرت ثوبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں سیدھے رہو، حالانکہ تم لوگ مکمل طور پر سیدھے نہیں رہ سکتے، یہ جان لو کہ تمہارا سب سے بہتر عمل نماز پڑھنا ہے ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں تمہارے بہترین اعمال نماز پڑھنا بھی شامل ہے۔ اور حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں صرف مومن وضو کی حفاظت کرتا ہے۔
حدثنا يحيى بن بشر حدثنا الوليد بن مسلم حدثنا ابن ثوبان قال حدثني حسان بن عطية أن أبا كبشة السلولي حدثه أنه سمع ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم سددوا وقاربوا وخير أعمالكم الصلاة ولن يحافظ على الوضو إلا مؤمن
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 654 (43556) - پاکی کا بیان : وضو کے بارے میں حدیث]
حضرت ثوبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں درست راستہ اختیار کرو ایک دوسرے کے قریب رہو تمہارا سب سے بہتر عمل نماز پڑھنا ہے اور صرف مومن ہی وضو کی حفاظت کرسکتا ہے۔
************************
أخبرنا محمد بن كثير عن الأوزاعي عن إسحق بن عبد الله بن أبي طلحة عن أنس قال دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم أم سليم وعنده أم سلمة فقالت المرأة ترى في منامها ما يرى الرجل فقالت أم سلمة تربت يداك يا أم سليم فضحت النسا فقال النبي صلى الله عليه وسلم منتصرا لأم سليم بل أنت تربت يداك إن خيركن التي تسأل عما يعنيها إذا رأت الما فلتغتسل قالت أم سلمة وللنسا ما قال نعم فأنى يشبههن الولد إنما هن شقاق الرجال
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 757 (43659)- پاکی کا بیان :عورت کا مردوں کی مانند خواب دیکھنا۔]
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں سیدہ ام سلیم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اس وقت ام سلمہ بھی آپ کے پاس موجود تھیں ام سلیم نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر کوئی عورت ویسا ہی خواب دیکھے جو مرد دیکھتے ہیں تو کیا حکم ہے ام سلمہ نے کہا تمہارا ستیا ناس ہو تم نے عورتوں کو شرمندہ کردیا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم کی حمایت کرتے ہوئے فرمایا بلکہ تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں سب سے بہتر عورت وہ ہے جوضروری مسائل کے بارے میں دریافت کرے۔ پھر آپ نے ام سلیم سے فرمایا اگر عورت کو منی نظر آجائے تو اسے غسل کرلینا چاہیے سیدہ ام سلمہ نے عرض کی کیا خواتین کی بھی منی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ورنہ بچہ ان سے مشابہہ کیسے ہوسکتا ہے وہ بھی اس بارے میں مردوں کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔
************************
أخبرنا مكي بن إبراهيم حدثنا عبد الله بن سعيد بن أبي هند عن أبي النضر عن بسر بن سعيد عن زيد بن ثابت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عليكم بالصلاة في بيوتكم فإن خير صلاة المر في بيته إلا الجماعة
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1331 (44233) - نماز کا بیان : نوافل کہاں ادا کرنا افضل ہے]
حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے تم گھر پر بھی نماز پڑھا کرو باجماعت نماز پڑھنے کے علاوہ انسان کی سب سے بہترین نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں ادا کرے۔
************************
أخبرنا عبد الله بن صالح حدثني الليث حدثني هشام عن عروة عن أبي هريرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول خير الصدقة ما تصدق به عن ظهر غنى وليبدأ أحدكم بمن يعول
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1592 (44494) - زکوة کا بیان : کس شخص کے لئے صدقہ کرنا کب مستحب ہوتا ہے ]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جو خوشحالی کے عالم میں دیا جائے۔ آدمی اس شخص سے کرنا چاہیے جو اس کے زیر کفالت ہو۔
************************
حدثنا عبد الله بن صالح حدثني الليث عن هشام عن عثمان بن عروة عن عروة عن عاشة قالت لقد كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم عند إحرامه بأطيب ما أجده
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1734 (44636) - حج کا بیان۔ : احرام باندھتے وقت خوشبو لگانا]
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواحرام باندھنے کے وقت اپنے پاس موجود سب سے بہترین خوشبو لگاتی تھی۔
************************
أخبرنا يعلى حدثنا الأعمش عن عمارة عن عبد الرحمن بن يزيد قال قال عبد الله كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم شباب ليس لنا شي فقال يا معشر الشباب من استطاع منكم الباة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإن الصوم له وجا
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 29 (44973) 44973جس شخص کے پاس گنجائش ہو اسے شادی کرلینی چاہیے۔]
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہا کرتے تھے ہم جوان تھے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا آپ نے ارشاد فرمایا اے نوجوانوں کے گروہ تم میں سے جو شخص شادی کرسکتا ہواسے شادی کرلینی چاہیے کیونکہ یہ نگاہوں کو جھکانے کے لئے اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے سب سے بہتر ہے اور جس شخص کے پاس شادی کی گنجائش نہ ہو اسے روزے رکھنے چاہیں کیونکہ روزہ وجاء ہے۔
************************
أخبرنا عاصم بن علي حدثنا ابن أبي ذب عن سعيد بن خالد عن إسمعيل بن عبد الرحمن بن أبي ذب عن عطا بن يسار عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج عليهم وهم جلوس فقال ألا أخبركم بخير الناس منزلة قلنا بلى قال رجل ممسك برأس فرسه أو قال فرس في سبيل الله حتى يموت أو يقتل قال فأخبركم بالذي يليه فقلنا نعم يا رسول الله قال امرؤ معتزل في شعب يقيم الصلاة ويؤتي الزكاة ويعتزل شرور الناس قال فأخبركم بشر الناس منزلة فقلنا نعم يا رسول الله قال الذي يسأل بالله ولا يعطي به
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 246 (45190) - جہاد کا بیان : سب سے افضل شخص وہ ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کا سر پکڑ کر (جہاد کے لئے نکلے)]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے پاس تشریف لائے وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں بتاؤں لوگوں کی قدرومنزلت کے اعتبار سے سب سے بہتر شخص کون ہے؟ ہم نے عرض کی جی ہاں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑ لے (راوی کو شک ہے یا شاید یہ الفاظ ہیں کہ اپنے گھوڑے کو اللہ کی راہ میں پکڑ لے) یہاں تک کہ وہ فوت ہوجائے یا شہید کر دیا جائے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں بتاؤں جو اس سے بعد کا مرتبہ رکھتا ہے؟ ہم نے عرض کی جی یا رسول اللہ فرمایا وہ شخص جو کسی الگ تھلگ کسی گھاٹی پر رہے نماز ادا کرے زکوۃ ادا کرے لوگوں کے شر سے محفوظ رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں قدرومنزلت کے اعتبار سے سب سے بدتر شخص کے بارے میں بتاؤں؟ ہم نے عرض کی جی یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا وہ شخص جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا جائے اور وہ اسے کچھ نہ دے۔
************************
حدثنا عبد الله بن يزيد حدثنا حيوة وابن لهيعة قالا حدثنا شرحبيل بن شريك أنه سمع أبا عبد الرحمن الحبلي يحدث عن عبد الله بن عمرو بن العاص عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال خير الأصحاب عند الله خيرهم لصاحبه وخير الجيران عند الله خيرهم لجاره
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 288 (45232) - سیر کا بیان : سفر کے ساتھیوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنا۔]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بن عاص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں اللہ کے نزدیک سب سے بہترین ساتھی وہ شخص ہے جو اپنے ساتھی کے لئے سب سے زیادہ بہتر ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لئے سب سے بہتر ہو۔
************************
أخبرنا عبد الله بن صالح حدثني الليث حدثني عقيل عن ابن شهاب أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن أن عبد الله بن عدي بن حمرا الزهري قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على راحلته واقفا بالحزورة يقول والله إنك لخير أرض الله وأحب أرض الله إلى الله ولولا أني أخرجت منك ما خرجت
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 356 (45300) - سیر کا بیان : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کامکہ سے نکالاجانا]
عبداللہ بن عدی بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا تھا جب آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور حزورہ (نامی جگہ پر کھڑے ہوئے) یہ فرما رہے تھے اے مکہ اللہ کی قسم اللہ کی زمین میں تو سب سے بہترین جگہ ہے اور اللہ کے نزدیک اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ ہے اگر مجھے تجھ سے زبردستی نکالا نہ گیا ہوتا تو میں نہ نکلتا۔
تشریح
" حزورہ " مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی جگہ کھڑے ہو کر مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے مذکورہ بالا جملے ارشاد فرمائے۔
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مؤمن کی شان کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اس شہر مقدس میں اپنے قیام کو ایک عظیم سعادت تصور کرتے ہوئے مکہ کی اقامت کو اس وقت تک ترک نہ کرے جب تک وہ اس پر حقیقۃً یا حکما (یعنی دینی و دنیاوی ضرورت کے تحت) مجبور نہ ہو اسی لئے کہا گیا ہے کہ مکہ میں داخل ہونا سعادت اور وہاں سے نکلنا شقاوت ہے۔
درمختار میں لھا ہے کہ مکہ اور مدینہ کی مجاورت (یعنی ان دونون شہروں میں مستقل طور پر رہنا) اس شخص کے لئے مکروہ نہیں ہے جس کو اپنے نفس پر قابو حاصل ہو۔ گویا جس شخص کو یہ یقین ہو کہ مجھ سے گناہ سرزد نہیں ہوں گے تو وہ ان شہروں میں اقامت حاصل کرے مگر جس شخص کو یہ یقین حاصل نہ ہو وہ اقامت اختیار نہ کرے۔
************************
أخبرنا الحكم بن المبارك عن مالك قراة عن زيد بن أسلم عن عطا بن يسار عن أبي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال استسلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بكرا فجات إبل من إبل الصدقة قال أبو رافع فأمرني أن أقضي الرجل بكره فقلت لم أجد في الإبل إلا جملا خيارا رباعيا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطه إياه فإن خير الناس أحسنهم قضا قال عبد الله هذا يقوي قول من يقول الحيوان بالحيوان
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 410 (45354) - خرید وفروخت کا بیان : جانور کو بطور قرض حاصل کرنے کی ممانعت]
حضرت ابورافع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام کا فرمان نقل کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ قرض کے طور پر کسی سے عوض لیا۔ جب صدقے کے اونٹ آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہدایت کی کہ میں اس شخص کو ایسا ہی اونٹ قرض کے طور پر ادا کروں میں نے عرض کی یا رسول اللہ مجھے ویسا ہی اونٹ تو نہیں ملا البتہ ایک اونٹ زیادہ ہی بہتر اور عمدہ ہے اور اس کی عمر چھ برس ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہی اسے ادا کردو کیونکہ سب سے بہتر وہی ہے جو بہتر طریقے سے قرض ادا کرے۔ امام دارمی فرماتے ہیں اس حدیث کے ذریعے ان لوگوں کے موقف کی تائید ہوتی ہے جن کے نزدیک جانور کے عوض میں جانور فروخت کیا جا سکتا ہے۔
************************
حدثنا مسلم بن إبراهيم حدثنا علي بن مسعدة الباهلي حدثنا قتادة عن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل بني آدم خطا وخير الخطاين التوابون
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 569 (45513) - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان : توبہ کا بیان]
حضرت انس بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمام اولاد آدم گناہ گارہے اور سب سے بہتر گناہ گاروہ ہے جوزیادہ توبہ کرتا ہو۔
************************
حدثنا الحجاج بن منهال حدثنا شعبة أخبرني علقمة بن مرثد قال سمعت سعد بن عبيدة عن أبي عبد الرحمن السلمي عن عثمان عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن خيركم من علم القرآن أو تعلمه قال أقرأ أبو عبد الرحمن في إمرة عثمان حتى كان الحجاج قال ذاك أقعدني مقعدي هذا
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1162 (46106) - فضائل قرآن کا بیان : تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کی تعلیم حاصل کرے اور اس کا علم دے]
ابوعبدالرحمن سلمی بیان کرتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں تم میں سے سب سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کی تعلیم دے اور اس کا علم حاصل کرے۔ راوی بیان کرتے ہیں ابوعبدالرحمن نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت سے لے کر حجاج کے زمانہ حکومت تک قرآن کی تعلیم دی وہ فرماتے ہیں اسی حدیث نے مجھے اس کام کو جاری رکھنے پر مجبور کیا۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن سیکھے جیسا کہ سیکھنے کا حق ہے اور پھر دوسروں کو سکھائے تو وہ سب سے بہتر ہے کیونکہ جس طرح قرآن اور اس کے علوم دنیا کی تمام کتابوں اور علوم سے افضل اور اعلیٰ و ارفع ہیں اسی طرح قرآنی علوم کو جاننے والا بھی دنیا کے افراد میں سب سے ممتاز اور کسی بھی علم کے جاننے والے سے افضل اور اعلیٰ ہے۔
سیکھے کا حق، سے مراد یہ ہے کہ قرآنی علوم میں غور و فکر کرے اور اس کے احکام و معنی اور اس کے حقائق و دقائق کو پوری توجہ اور ذہنی و قلبی بیداری کے ساتھ سیکھے۔
************************
حدثنا القاسم بن سلام أبو عبيد قال حدثني عبيد الله الأشجعي حدثني مسعر حدثني جابر قبل أن يقع فيما وقع فيه عن الشعبي قال قال عبد الله نعم كنز الصعلوك سورة آل عمران يقوم بها في آخر الليل
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1222 (46166) حدیث موقوف - فضائل قرآن کا بیان : سورت آل عمران کی فضیلت]
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں غریب آدمی کے لئے سب سے بہترین خزانہ سورت آل عمران ہے جسے وہ رات کے آخری حصے میں پڑھتا ہے۔
************************
عن زيد بن خالد الجهني أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال ألا أخبرکم بخير الشهدا الذي يأتي بشهادته قبل أن يسألها أو يخبر بشهادته قبل أن يسألها
[موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1307 (36136) - کتاب حکموں کی : گواہیوں کا بیان]
زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ خبر دوں میں تم کو سب سے بہتر گواہ کی جو گواہی دیتا ہے قبل اس کے کہ پوچھا جائے اس سے ۔
Yahya related to me from Malik from Abdullah ibn Abi Bakr ibn Muhammad ibn Amr ibn Hazm from his father from Abdullah ibn Amr ibn Uthman from Abu Amra al-Ansari from Zayd ibn Khalid al-Juhani that the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, said, "Shall I not tell you who is the best of witnesses? The one who brings his testimony before he is asked for it, or tells his testimony before he is asked for it."
******************************************
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سجدہ کرتے ہوئے بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے پس سجود میں کثرت کے ساتھ دعا کیا کرو۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1078 (8384) نماز کا بیان : رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟]
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کا سب سے زیادہ محبوب اور اس کے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والا عادل حکمران ہوگا اور سب سے زیادہ قابل نفرت اور سب سے دور بیٹھنے والا ظالم حکمران ہوگا.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1353 (27224) فیصلوں کا بیان : عادل امام]
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کے آخری حصے میں بندہ اپنے رب سے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے اگر تم اس وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہو سکو تو ایسا کرلیا کرو۔[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1536 (29640) دعاؤں کا بیان : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق]
یعنی اس بات کی کوشش کرو تم بھی ان خوش نصیب مسلمانوں میں شمار کئے جاؤ جو اس وقت اپنے پروردگار کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور سعادت میں خوش بختی کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر پروردگار کی رضا و خوشنودی کو اپنے قریب تر پاتے ہیں.
تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کا آخر حصہ بایں طور افضل و اشرف ہے کہ وہ اپنے دامن میں پروردگار کی رحمتوں اور اس کی عنایتوں کے خزانے سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ، اب یہ قسمت اور مقدروالوں کی بات ہے کہ کون اس خزانے سے مستفید ہوتا ہے اور کون محروم رہ جاتا ہے ۔ چنانچہ جن کی طبیعت سعادت مند ہوتی ہے وہ رات کے اس حصے میں اٹھ کر رحمت الٰہی کے خزانے سے اپنے دامن کو بھرتے ہیں اور جو حرماں نصیب ہوتے ہیں وہ شیطان کی لوریاں کھا کھا کر نہ صرف اپنے دل و دماغ اور جسم کو نیند کے حوالے کئے ہوتے ہیں بلکہ ان کی سعادت اور ان کی خوش بختی بھی غفلت و سستی کی نذر ہو جاتی ہے۔ بہر حال پروردگار کا اپنے بندے سے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رضا و خوشنودی بندے سے قریب تر ہوتی ہے اور اس کی رحمتوں کا سایہ بندے کے اوپر ہوتا ہے۔ آخری نصف رات سے رات کا وہ حصہ مراد ہے جس کی ابتداء ثلث آخر (یعنی آخری تہائی) سے ہوتی ہے اور وہی وقت تہجد کی نماز کے لئے اٹھنے کا ہوتا ہے۔ حضرت عمرو بن عنبسہ جنہیں لسان نبوت سے حدیث میں مذکورہ سعادت حاصل کرنے کے لئے فرمایا جا رہا ہے حضرت حق جل مجدہ کی درگاہ کبریائی کے ایک مجذوب اور دربا رسالت ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک مقرب اور زی شان خادم تھے ان کی بہت زیادہ عظمت اور فضیلت ہے۔ ابتداء ظہور نبوت میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کفر و شرک سے اکڑی ہوئی ہوئی گردنوں کو خدائے واحد کے حضور میں جھکانے کی سعی میں مصروف تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کی ابتداء ہو چکی تھی تو حضرت عمرو بن عنبسہ اپنے وطن میں تھے یکایک ان کے دل میں نور تو حید ضوفشاں ہوا اور شرک و بت پرستی کی کراہیت و نفرت نے بے چین کر دیا، جب ہی سنا کہ ایک آدمی مکہ میں پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو تو حید کی طرف بلاتا ہے اور بتوں کی عبادت سے منع کرتا ہے، یہ سنتے ہی قلب مضطر نے فوراً ہی مکہ پہنچنے پر مجبور کر دیا ، انہوں نے مکہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ، رسول اللہ (فداہ روحی) اس زمانے میں کفار کی شدید مخالفت اور دشمنان دین کی بے پناہ سختیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے دشمنوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اللہ کے دین کی تبلیغ اور اس کی عبادت میں مصروف تھے، حضرت عمرو بن عنبسہ نے لوگوں سے پوچھا کہ " تم میں کون آدمی پیدا ہوا ہے جو تمہاری روش اور تمہارے راستے سے ہٹ کر دوسرے دین کی طرف دنیا کو بلاتا ہے " ؟ لوگوں نے کہا ہے کہ " ہاں ایک دیوانہ ہے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل و دانش پر دونوں جہان قربان) جس نے اپنے باپ دادا کا طریقہ اور راستہ چھوڑ دیا ہے اور ایک نئی رسم نکالی ہے۔ دیوانہ کنی ہر دوجہانش بخشی دیوانہ تو ہر دوجہاں راچہ کند انہوں نے پوچھا کہ " اچھا وہ کہاں ملیں گے " ؟ لوگوں نے کہا کہ " وہ آدمی آدھی رات کو باہر نکالتا ہے اور اس خانہ کعبہ کے اردگرد گھومتا ہے۔" حضرت عمرو بن عنبسہ آدھی رات کے وقت حرم شریف میں آئے اور کعبۃ اللہ کے پردہ مبارک میں چھپ کر کھڑے ہوئے اچانک دیکھا کہ ایک آدمی ظلمتوں کے پردوں کو چیرتا ہوا نور کی ایک دنیا اپنے جلوؤں میں لئے نمودار ہوا۔ اس آدمی کی سراپا کشش، آدمییت اور نورانی چہرے و جسم کا یہ عالم کہ مہر و ماہ اس کے سامنے شرمندہ اور دنیا کے تمام لوگ اس کے پاک آستانے کی خاک ( صلی اللہ علیہ وسلم) عمرو فوراً پردہ سے نکل کر باہر آئے اور نمودار ہونے والے آدمی کو سلام کیا اور پوچھا کہ " آپ کون ہیں اور آپ کا دین کیا ہے۔؟" انہوں نے فرمایا کہ " میں اللہ کا رسول ہوں ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور میرا دین لا الہ الا اللہ ہے " یہ خوشی سے جھوم اٹھے اور فورا بولے کہ " میں بھی اس دین کو پسند کرتا ہوں" چنانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جبھی ایمان لائے ، اس طرح حضرت عمرو بن عنبسہ تیسرے یا چوتھے مسلمان ہیں یعنی ان سے پہلے صرف دو یا تین آدمی ہی اسلام کی دولت سے مشرف ہو چکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت کیا اور فرمایا کہ میرے " پروردگار نے مجھ سے ایک وعدہ کیا ہے۔ جب وہ وعدہ پورا ہوگا تو میرے پاس آنا " چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو عمرو بن عنبسہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل کی اور نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو درجہء کمال پر پہنچا دیا۔[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 1204 (37773) نماز کا بیان : نماز تہجد پڑھنے والوں کی خوش بختی]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کردہ احادیث میں سے ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میں اللہ کی کتاب میں مومینن کو تمام لوگوں میں سے زیادہ قریب ہوں تم میں سے جو قرض یا بچے چھوڑ جائے تو مجھے اطلاع دو میں اس کا ولی ہوں اور تم میں سے جو مال چھوڑ جائے تو اس کے مال کے ساتھ اس کے ورثا کو ترجیح دی جائے ان میں سے جو بھی ہو۔
[صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1667 (11460) فرائض کا بیان : جو مال چھوڑ جائے وہ اس کے ورثاء کہ لئے ہونے کہ بیان میں]
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ عزوجل کے اس فرمان (ااُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِ يْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ) 17۔ الاسراء : 57) یہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے وسیلہ کہ کون ان میں سے زیادہ قریب ہے (سورۂ بنی اسرائیل) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جنوں کی ایک جماعت مسلمان ہوگئی (یہ وہ جن تھے کہ جن کی پوجا کی جاتی تھی، ان کےمسلمان ہونے کے بعد بھی) لوگ ان کی پوجا کرتے رہے حالانکہ جنوں کی یہ جماعت مسلمان ہوگئی تھی (یہ آیت کریمہ ان کے بارے میں نازل ہوئی)۔
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 3053 (14850) تفسیر کا بیان : اللہ تعالیٰ کے اس فرمان یہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے وسیلہ]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر بندھا ہوا تھا اس مرض کی وجہ سے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو ارشاد فرمایا اے اللہ میں نے (حکم الہٰی) پہنچا دیا تین مرتبہ یہ جملے ارشاد فرمائے۔ پھر فرمایا کہ اے لوگو! پیغمبری کی خوش خبری میں سے کوئی بات باقی نہیں رہی ہو مگر سچا خواب کہ جس کو بندہ دیکھے (یعنی نبوت کے بعد سچے خواب باقی رہ جائیں گے) اور یاد رکھو کہ مجھ کو رکوع اور سجدہ میں قرآن کریم پڑھنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے تو جس وقت تم لوگ رکوع کرو تو تم اپنے پروردگار کی عظمت بیان کرو اور جس وقت تم لوگ سجدہ کرو تو تم کوشش کرو دعا کے کرنے میں۔ اس لئے کہ سجدہ کرنے کی حالت میں دعا کا قبول ہونا زیادہ قریب ہے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1125 (21222) نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث : سجدہ کے دوران کو شش سے دعا کرنا]
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کے نبیوں میں سے دوست ہوتے ہیں۔ میرے دوست میرے والد اور میرے رب کے دوست (ابراہیم علیہ السلام) ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 3۔ آل عمران : 68) ۔ (ترجمہ۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی تابعداری کی اور یہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو اس پر ایمان لائے اور اللہ مؤمنوں کے دوست ہیں)
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 930 (29034) قرآن کی تفسیر کا بیان : سورت آل عمران کے متعلق]
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ہمیں وہ شخص بتایئے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے لوگوں کی نسبت چال چلن میں زیادہ قریب تھا تاکہ ہم اس سے علم حاصل کریں اور احادیث سنیں۔ انہوں نے فرمایا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہی ہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پوشیدہ خانگی حالات سے بھی واقف ہوتے تھے جن کا ہمیں علم تک نہ ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھوٹ سے محفوظ صحابہ کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان سب میں ام عبد کے بیٹے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے علاوہ کوئی اللہ تعالیٰ سے اتنا قریب نہیں جتنے وہ ہیں۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1778 (29882) مناقب کا بیان : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مناقب]
حضرت عباس عمی بیان کرتے ہیں مجھے یہ پتا چلا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت داؤد اپنی دعا میں یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ تو پاک ہے تو میرا پروردگار ہے تو عرش کے اوپر بزرگ وبرتر ہے آسمانوں اور زمین کے اندر موجود ہر چیز میں تو نے اپنی خشیت رکھ دی ہے تیری مخلوق میں سے قدرومنزلت کے اعتبار سے تیرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو تجھ سے سب سے زیادہ ڈرتا ہو جو شخص تجھ سے نہیں ڈرتا اسے کوئی بھی علم نہیں ہے اور جو تیرے حکم کی پیروی نہیں کرتا اس میں کوئی دانائی نہیں ہے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 340 (43242) مقدمہ دارمی : علم اور عالم کی فضیلت]
حضرت حسان ارشاد فرماتے ہیں اللہ کے بارے میں بندے کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے اللہ کی رحمت کی وجہ سے لوگ اس کے زیادہ قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حسان بیان کرتے ہیں جس بندے کے علم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اس کی میانہ روی میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کو جو ہار پہناتا ہے اس میں سب سے بہتر سکینت ہے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 389 (43291) مقدمہ دارمی : جو شخص غیر اللہ کے لئے علم حاصل کرے اسکی توبیخ۔]
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 701 (40079)
اور حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس ابن مالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " عنقریب میری امت میں اختلاف وافتراق پیدا ہوگا ایک فرقہ جو باتیں تو اچھی کرے گا مگر اس کا عمل برا ہوگا اس فرقہ کے لوگ قرآن کریم پڑھیں گے لیکن ان کا وہ پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا یعنی قبول نہیں ہوگا اور وہ لوگ دین یعنی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اور وہ دین کی طرف اس وقت تک نہیں لوٹیں گے جب تک کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے اور وہ لوگ آدمیوں اور جانوروں میں سب سے بدترین ہوں گے ۔خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو ان لوگوں کو قتل کر دے یا وہ لوگ اس کو قتل کر دیں ۔ یعنی جو شخص ان لوگوں کے فتنہ اور ان کی گمراہی کا سر کچلنے کے لئے ان کا مقابلہ کرے یہاں تک کہ یا تو وہ ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار دے یا وہ ان لوگوں سے حق کے لئے لڑتا ہوا خود قتل ہو جائے تو دونوں صورتوں میں اس کے لئے حق تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی سعادتوں کی خوشخبری ہے کہ پہلی صورت میں تو وہ غازی کا لقب پائے گا اور دوسری صورت میں شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل کرے گا وہ بظاہر تو انسانوں کو کتاب اللہ کی دعوت دیں گے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کی احادیث کو ترک کرنے پر اکسائیں گے حالانکہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تفسیر و تشریح ہیں کہ احادیث کے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ناممکن ہے وہ لوگ کسی معاملہ میں ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں یعنی وہ کسی بات میں مسلمان شمار نہیں ہوں گے جو شخص ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتارے گا وہ اپنی جماعت میں اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوگا صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! ان لوگوں کی پہنچان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا " سرمنڈانا ۔" (ابو داؤد ) تشریح : میری امت میں اختلاف وافتراق پیدا ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو آپس میں اختلاف وافتراق کو ہوا دیں گے اور اپنی اغراض کے لئے امت کے اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ! یہ جملہ : ایک فرقہ باتیں تو اچھی کرے گا ماقبل کے جملہ کی وضاحت اور بیان ہے یعنی امت میں جو لوگ اختلاف وافراق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ان کی ایک خاص علامت یہ ہوگی کہ وہ باتیں تو بڑی اچھی اچھی کریں گے لیکن ان کا عمل بہت ہی برا ہوگا ان کی زبان سے تو یہ ظاہر ہوگا کہ پوری امت میں یہی لوگ ہیں جو دین کے شیدائی ہے ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اطاعت گزار ہیں اور مسلمانوں کے بھی خواہ ہیں لیکن ان کے عمل وکردار کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنی اغراض کے لئے مسلم دشمن طاقتوں کا آلہ کار اپنے نفس کے غلام اپنی خواہشات کے بندے اور مال وجاہ کے حرص میں مبتلا ہوں گے اور ان کا مقصد اتحاد امت کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہوگا ۔ یہ جملہ (یقرؤون القران) اس فرقہ کے لوگ قرآن پڑھیں گے یا تو استیناف یعنی ایک الگ جملہ ہے جو ماقبل کی عبارت کی توضیح وبیان ہے یا شاطبی کے مسلک کے مطابق بدل ہے یا پھر اس سے نفس اختلاف کی وضاحت مراد ہے کہ عنقریب میری امت کے لوگوں میں اختلاف و افتراق پیدا ہو جائے گا اور دو فرقوں میں تقسیم ہوجائیں گے ان میں سے ایک فرقہ حق پر ہوگا اور ایک فرقہ باطل پر ہوگا طیبی کہتے ہیں کہ اس تاویل کی تائید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے جو اسی باب کی پہلی فصل میں نقل ہو چکا ہے کہ حدیث (تکون امتی فرقتین فتخرج من بینہما مارقۃ یلی فتلہم اولاہم بالحق) اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ قوم مابعد کے جملہ کا موصوف ہے اور ایک کی خبر جملہ (یقرؤوں القران) ہے اور اس جملہ کا مقصد ان دونوں فرقوں میں سے ایک فرقہ کی (جو باطل ہے ') نشان دہی کرنا ہے جب کہ دوسرے فرقہ کے ذکر کو اس لئے چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ خود بخود مفہوم ہو جاتا ہے ۔ حدیث (لا یجاوز تراقیہم) ان کا پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ لوگ بنیادی طور پر گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور محض آلہ کار کے طور پر قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہوگا اور نہ ان کے دوسرے اعضاء حرکت وعمل اثر ان کا مخارج حروف اور ان کی آوازوں سے آگے نہیں جائے گا جس کی وجہ سے قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہوگا اور نہ ان دوسرے اعضاء حرکت وعمل اثر پذیر ہوں گے چنانچہ قرآن کریم کی جن باتوں پر یقین واعتقاد کرنا لازم ہے ان پر وہ اعتقاد ویقین نہیں رکھیں گے اور قرآن کریم کی جن باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے وہ ان پر عمل نہیں کریں گے ۔ یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قرأت کو اس دنیا سے اوپر نہیں اٹھائے گا یعنی اس کو قبول نہیں کرے گا گویا ان کی قرأت ان کے حلقوم سے آگے نہیں بڑھے گی ۔ حدیث (حتی یرتد السہم علی فوقہ) جب کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے یہ تعلیق بالمحال ہے یعنی جس طرح تیر کا اپنے سوفار اپنی چٹکی کی جگہ واپس آنا محال ہے اسی طرح ان لوگوں کا دین کی طرف آنا بھی محال ہے گویا یہ جملہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (حتی یلج الجمل فی سم الخیاط) کی مانند ہے اور اس جملے کا منشاء اس بات کو تاکید اور شدت کے ساتھ بیان کرنا ہے کیونکہ وہ لوگ سخت قسم کی جہالت اور گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور یہ غلط گمان ان کے قلب ودماغ میں بیٹھ چکا ہوگا کہ ہم حق اور ہدایت پر ہیں اس لئے ان کا دین کے دائرہ میں لوٹ آنا ناممکن ہوگا ۔ " سرمنڈانا " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات شائد اس لئے فرمائی کہ اس زمانہ میں عرب میں سرمنڈانے کا رواج نہیں تھا ، بلکہ اکثر لوگ سروں پر بال رکھا کرتے تھے ، اس ارشاد کا مقصد سرمنڈانے کی برائی یا تحقیر کرنا نہیں ہے کیونکہ سرمنڈانا تو اللہ کے شعار اور اس کی طاعت میں سے ایک عمل ہے اور ان لوگوں کی عادات میں سے ہے جو اللہ کے نیک وصالح بندے ہیں ۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تحلیق سے مراد سرمنڈانا نہیں ہے بلکہ لوگوں کو " حلقہ در حلقہ بٹھانا " مراد ہے جو ان لوگوں کی طرف سے محض نمائش اور تکلف کے طور پر ہوگا۔
حضرت سعید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور مجلس (یعنی مرتبہ ) کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب جو شخص ہوگا وہ عادل امام وحاکم ہے اور قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ نفرت کا مستحق اور سب سے زیادہ عذاب کا سزاوار ! اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ۔ اللہ سے سب سے زیادہ دور جو شخص ہوگا وہ ظالم امام وحاکم ہے ۔"
[مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 836 (40214) امارت وقضا کا بیان : امام عادل کی فضیلت]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سجدہ کرتے ہوئے بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے پس سجود میں کثرت کے ساتھ دعا کیا کرو۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1078 (8384) نماز کا بیان : رکوع اور سجود میں کیا کہے ؟]
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کا سب سے زیادہ محبوب اور اس کے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والا عادل حکمران ہوگا اور سب سے زیادہ قابل نفرت اور سب سے دور بیٹھنے والا ظالم حکمران ہوگا.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1353 (27224) فیصلوں کا بیان : عادل امام]
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کے آخری حصے میں بندہ اپنے رب سے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے اگر تم اس وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہو سکو تو ایسا کرلیا کرو۔[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1536 (29640) دعاؤں کا بیان : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق]
یعنی اس بات کی کوشش کرو تم بھی ان خوش نصیب مسلمانوں میں شمار کئے جاؤ جو اس وقت اپنے پروردگار کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور سعادت میں خوش بختی کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر پروردگار کی رضا و خوشنودی کو اپنے قریب تر پاتے ہیں.
تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کا آخر حصہ بایں طور افضل و اشرف ہے کہ وہ اپنے دامن میں پروردگار کی رحمتوں اور اس کی عنایتوں کے خزانے سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ، اب یہ قسمت اور مقدروالوں کی بات ہے کہ کون اس خزانے سے مستفید ہوتا ہے اور کون محروم رہ جاتا ہے ۔ چنانچہ جن کی طبیعت سعادت مند ہوتی ہے وہ رات کے اس حصے میں اٹھ کر رحمت الٰہی کے خزانے سے اپنے دامن کو بھرتے ہیں اور جو حرماں نصیب ہوتے ہیں وہ شیطان کی لوریاں کھا کھا کر نہ صرف اپنے دل و دماغ اور جسم کو نیند کے حوالے کئے ہوتے ہیں بلکہ ان کی سعادت اور ان کی خوش بختی بھی غفلت و سستی کی نذر ہو جاتی ہے۔ بہر حال پروردگار کا اپنے بندے سے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رضا و خوشنودی بندے سے قریب تر ہوتی ہے اور اس کی رحمتوں کا سایہ بندے کے اوپر ہوتا ہے۔ آخری نصف رات سے رات کا وہ حصہ مراد ہے جس کی ابتداء ثلث آخر (یعنی آخری تہائی) سے ہوتی ہے اور وہی وقت تہجد کی نماز کے لئے اٹھنے کا ہوتا ہے۔ حضرت عمرو بن عنبسہ جنہیں لسان نبوت سے حدیث میں مذکورہ سعادت حاصل کرنے کے لئے فرمایا جا رہا ہے حضرت حق جل مجدہ کی درگاہ کبریائی کے ایک مجذوب اور دربا رسالت ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک مقرب اور زی شان خادم تھے ان کی بہت زیادہ عظمت اور فضیلت ہے۔ ابتداء ظہور نبوت میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کفر و شرک سے اکڑی ہوئی ہوئی گردنوں کو خدائے واحد کے حضور میں جھکانے کی سعی میں مصروف تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کی ابتداء ہو چکی تھی تو حضرت عمرو بن عنبسہ اپنے وطن میں تھے یکایک ان کے دل میں نور تو حید ضوفشاں ہوا اور شرک و بت پرستی کی کراہیت و نفرت نے بے چین کر دیا، جب ہی سنا کہ ایک آدمی مکہ میں پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو تو حید کی طرف بلاتا ہے اور بتوں کی عبادت سے منع کرتا ہے، یہ سنتے ہی قلب مضطر نے فوراً ہی مکہ پہنچنے پر مجبور کر دیا ، انہوں نے مکہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ، رسول اللہ (فداہ روحی) اس زمانے میں کفار کی شدید مخالفت اور دشمنان دین کی بے پناہ سختیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے دشمنوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اللہ کے دین کی تبلیغ اور اس کی عبادت میں مصروف تھے، حضرت عمرو بن عنبسہ نے لوگوں سے پوچھا کہ " تم میں کون آدمی پیدا ہوا ہے جو تمہاری روش اور تمہارے راستے سے ہٹ کر دوسرے دین کی طرف دنیا کو بلاتا ہے " ؟ لوگوں نے کہا ہے کہ " ہاں ایک دیوانہ ہے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل و دانش پر دونوں جہان قربان) جس نے اپنے باپ دادا کا طریقہ اور راستہ چھوڑ دیا ہے اور ایک نئی رسم نکالی ہے۔ دیوانہ کنی ہر دوجہانش بخشی دیوانہ تو ہر دوجہاں راچہ کند انہوں نے پوچھا کہ " اچھا وہ کہاں ملیں گے " ؟ لوگوں نے کہا کہ " وہ آدمی آدھی رات کو باہر نکالتا ہے اور اس خانہ کعبہ کے اردگرد گھومتا ہے۔" حضرت عمرو بن عنبسہ آدھی رات کے وقت حرم شریف میں آئے اور کعبۃ اللہ کے پردہ مبارک میں چھپ کر کھڑے ہوئے اچانک دیکھا کہ ایک آدمی ظلمتوں کے پردوں کو چیرتا ہوا نور کی ایک دنیا اپنے جلوؤں میں لئے نمودار ہوا۔ اس آدمی کی سراپا کشش، آدمییت اور نورانی چہرے و جسم کا یہ عالم کہ مہر و ماہ اس کے سامنے شرمندہ اور دنیا کے تمام لوگ اس کے پاک آستانے کی خاک ( صلی اللہ علیہ وسلم) عمرو فوراً پردہ سے نکل کر باہر آئے اور نمودار ہونے والے آدمی کو سلام کیا اور پوچھا کہ " آپ کون ہیں اور آپ کا دین کیا ہے۔؟" انہوں نے فرمایا کہ " میں اللہ کا رسول ہوں ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور میرا دین لا الہ الا اللہ ہے " یہ خوشی سے جھوم اٹھے اور فورا بولے کہ " میں بھی اس دین کو پسند کرتا ہوں" چنانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جبھی ایمان لائے ، اس طرح حضرت عمرو بن عنبسہ تیسرے یا چوتھے مسلمان ہیں یعنی ان سے پہلے صرف دو یا تین آدمی ہی اسلام کی دولت سے مشرف ہو چکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت کیا اور فرمایا کہ میرے " پروردگار نے مجھ سے ایک وعدہ کیا ہے۔ جب وہ وعدہ پورا ہوگا تو میرے پاس آنا " چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو عمرو بن عنبسہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل کی اور نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو درجہء کمال پر پہنچا دیا۔[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 1204 (37773) نماز کا بیان : نماز تہجد پڑھنے والوں کی خوش بختی]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کردہ احادیث میں سے ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میں اللہ کی کتاب میں مومینن کو تمام لوگوں میں سے زیادہ قریب ہوں تم میں سے جو قرض یا بچے چھوڑ جائے تو مجھے اطلاع دو میں اس کا ولی ہوں اور تم میں سے جو مال چھوڑ جائے تو اس کے مال کے ساتھ اس کے ورثا کو ترجیح دی جائے ان میں سے جو بھی ہو۔
[صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1667 (11460) فرائض کا بیان : جو مال چھوڑ جائے وہ اس کے ورثاء کہ لئے ہونے کہ بیان میں]
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ عزوجل کے اس فرمان (ااُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِ يْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ) 17۔ الاسراء : 57) یہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے وسیلہ کہ کون ان میں سے زیادہ قریب ہے (سورۂ بنی اسرائیل) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جنوں کی ایک جماعت مسلمان ہوگئی (یہ وہ جن تھے کہ جن کی پوجا کی جاتی تھی، ان کےمسلمان ہونے کے بعد بھی) لوگ ان کی پوجا کرتے رہے حالانکہ جنوں کی یہ جماعت مسلمان ہوگئی تھی (یہ آیت کریمہ ان کے بارے میں نازل ہوئی)۔
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 3053 (14850) تفسیر کا بیان : اللہ تعالیٰ کے اس فرمان یہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں تلاش کرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے وسیلہ]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر بندھا ہوا تھا اس مرض کی وجہ سے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو ارشاد فرمایا اے اللہ میں نے (حکم الہٰی) پہنچا دیا تین مرتبہ یہ جملے ارشاد فرمائے۔ پھر فرمایا کہ اے لوگو! پیغمبری کی خوش خبری میں سے کوئی بات باقی نہیں رہی ہو مگر سچا خواب کہ جس کو بندہ دیکھے (یعنی نبوت کے بعد سچے خواب باقی رہ جائیں گے) اور یاد رکھو کہ مجھ کو رکوع اور سجدہ میں قرآن کریم پڑھنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے تو جس وقت تم لوگ رکوع کرو تو تم اپنے پروردگار کی عظمت بیان کرو اور جس وقت تم لوگ سجدہ کرو تو تم کوشش کرو دعا کے کرنے میں۔ اس لئے کہ سجدہ کرنے کی حالت میں دعا کا قبول ہونا زیادہ قریب ہے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1125 (21222) نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث : سجدہ کے دوران کو شش سے دعا کرنا]
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کے نبیوں میں سے دوست ہوتے ہیں۔ میرے دوست میرے والد اور میرے رب کے دوست (ابراہیم علیہ السلام) ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 3۔ آل عمران : 68) ۔ (ترجمہ۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی تابعداری کی اور یہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو اس پر ایمان لائے اور اللہ مؤمنوں کے دوست ہیں)
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 930 (29034) قرآن کی تفسیر کا بیان : سورت آل عمران کے متعلق]
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ہمیں وہ شخص بتایئے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے لوگوں کی نسبت چال چلن میں زیادہ قریب تھا تاکہ ہم اس سے علم حاصل کریں اور احادیث سنیں۔ انہوں نے فرمایا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہی ہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پوشیدہ خانگی حالات سے بھی واقف ہوتے تھے جن کا ہمیں علم تک نہ ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھوٹ سے محفوظ صحابہ کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان سب میں ام عبد کے بیٹے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے علاوہ کوئی اللہ تعالیٰ سے اتنا قریب نہیں جتنے وہ ہیں۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1778 (29882) مناقب کا بیان : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مناقب]
حضرت عباس عمی بیان کرتے ہیں مجھے یہ پتا چلا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت داؤد اپنی دعا میں یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ تو پاک ہے تو میرا پروردگار ہے تو عرش کے اوپر بزرگ وبرتر ہے آسمانوں اور زمین کے اندر موجود ہر چیز میں تو نے اپنی خشیت رکھ دی ہے تیری مخلوق میں سے قدرومنزلت کے اعتبار سے تیرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو تجھ سے سب سے زیادہ ڈرتا ہو جو شخص تجھ سے نہیں ڈرتا اسے کوئی بھی علم نہیں ہے اور جو تیرے حکم کی پیروی نہیں کرتا اس میں کوئی دانائی نہیں ہے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 340 (43242) مقدمہ دارمی : علم اور عالم کی فضیلت]
حضرت حسان ارشاد فرماتے ہیں اللہ کے بارے میں بندے کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے اللہ کی رحمت کی وجہ سے لوگ اس کے زیادہ قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حسان بیان کرتے ہیں جس بندے کے علم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اس کی میانہ روی میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کو جو ہار پہناتا ہے اس میں سب سے بہتر سکینت ہے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 389 (43291) مقدمہ دارمی : جو شخص غیر اللہ کے لئے علم حاصل کرے اسکی توبیخ۔]
مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 701 (40079)
اور حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس ابن مالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " عنقریب میری امت میں اختلاف وافتراق پیدا ہوگا ایک فرقہ جو باتیں تو اچھی کرے گا مگر اس کا عمل برا ہوگا اس فرقہ کے لوگ قرآن کریم پڑھیں گے لیکن ان کا وہ پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا یعنی قبول نہیں ہوگا اور وہ لوگ دین یعنی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اور وہ دین کی طرف اس وقت تک نہیں لوٹیں گے جب تک کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے اور وہ لوگ آدمیوں اور جانوروں میں سب سے بدترین ہوں گے ۔خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو ان لوگوں کو قتل کر دے یا وہ لوگ اس کو قتل کر دیں ۔ یعنی جو شخص ان لوگوں کے فتنہ اور ان کی گمراہی کا سر کچلنے کے لئے ان کا مقابلہ کرے یہاں تک کہ یا تو وہ ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار دے یا وہ ان لوگوں سے حق کے لئے لڑتا ہوا خود قتل ہو جائے تو دونوں صورتوں میں اس کے لئے حق تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی سعادتوں کی خوشخبری ہے کہ پہلی صورت میں تو وہ غازی کا لقب پائے گا اور دوسری صورت میں شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل کرے گا وہ بظاہر تو انسانوں کو کتاب اللہ کی دعوت دیں گے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کی احادیث کو ترک کرنے پر اکسائیں گے حالانکہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تفسیر و تشریح ہیں کہ احادیث کے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ناممکن ہے وہ لوگ کسی معاملہ میں ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں یعنی وہ کسی بات میں مسلمان شمار نہیں ہوں گے جو شخص ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتارے گا وہ اپنی جماعت میں اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوگا صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! ان لوگوں کی پہنچان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا " سرمنڈانا ۔" (ابو داؤد ) تشریح : میری امت میں اختلاف وافتراق پیدا ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو آپس میں اختلاف وافتراق کو ہوا دیں گے اور اپنی اغراض کے لئے امت کے اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ! یہ جملہ : ایک فرقہ باتیں تو اچھی کرے گا ماقبل کے جملہ کی وضاحت اور بیان ہے یعنی امت میں جو لوگ اختلاف وافراق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ان کی ایک خاص علامت یہ ہوگی کہ وہ باتیں تو بڑی اچھی اچھی کریں گے لیکن ان کا عمل بہت ہی برا ہوگا ان کی زبان سے تو یہ ظاہر ہوگا کہ پوری امت میں یہی لوگ ہیں جو دین کے شیدائی ہے ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اطاعت گزار ہیں اور مسلمانوں کے بھی خواہ ہیں لیکن ان کے عمل وکردار کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنی اغراض کے لئے مسلم دشمن طاقتوں کا آلہ کار اپنے نفس کے غلام اپنی خواہشات کے بندے اور مال وجاہ کے حرص میں مبتلا ہوں گے اور ان کا مقصد اتحاد امت کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہوگا ۔ یہ جملہ (یقرؤون القران) اس فرقہ کے لوگ قرآن پڑھیں گے یا تو استیناف یعنی ایک الگ جملہ ہے جو ماقبل کی عبارت کی توضیح وبیان ہے یا شاطبی کے مسلک کے مطابق بدل ہے یا پھر اس سے نفس اختلاف کی وضاحت مراد ہے کہ عنقریب میری امت کے لوگوں میں اختلاف و افتراق پیدا ہو جائے گا اور دو فرقوں میں تقسیم ہوجائیں گے ان میں سے ایک فرقہ حق پر ہوگا اور ایک فرقہ باطل پر ہوگا طیبی کہتے ہیں کہ اس تاویل کی تائید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے جو اسی باب کی پہلی فصل میں نقل ہو چکا ہے کہ حدیث (تکون امتی فرقتین فتخرج من بینہما مارقۃ یلی فتلہم اولاہم بالحق) اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ قوم مابعد کے جملہ کا موصوف ہے اور ایک کی خبر جملہ (یقرؤوں القران) ہے اور اس جملہ کا مقصد ان دونوں فرقوں میں سے ایک فرقہ کی (جو باطل ہے ') نشان دہی کرنا ہے جب کہ دوسرے فرقہ کے ذکر کو اس لئے چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ خود بخود مفہوم ہو جاتا ہے ۔ حدیث (لا یجاوز تراقیہم) ان کا پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ لوگ بنیادی طور پر گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور محض آلہ کار کے طور پر قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہوگا اور نہ ان کے دوسرے اعضاء حرکت وعمل اثر ان کا مخارج حروف اور ان کی آوازوں سے آگے نہیں جائے گا جس کی وجہ سے قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہوگا اور نہ ان دوسرے اعضاء حرکت وعمل اثر پذیر ہوں گے چنانچہ قرآن کریم کی جن باتوں پر یقین واعتقاد کرنا لازم ہے ان پر وہ اعتقاد ویقین نہیں رکھیں گے اور قرآن کریم کی جن باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے وہ ان پر عمل نہیں کریں گے ۔ یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قرأت کو اس دنیا سے اوپر نہیں اٹھائے گا یعنی اس کو قبول نہیں کرے گا گویا ان کی قرأت ان کے حلقوم سے آگے نہیں بڑھے گی ۔ حدیث (حتی یرتد السہم علی فوقہ) جب کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے یہ تعلیق بالمحال ہے یعنی جس طرح تیر کا اپنے سوفار اپنی چٹکی کی جگہ واپس آنا محال ہے اسی طرح ان لوگوں کا دین کی طرف آنا بھی محال ہے گویا یہ جملہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (حتی یلج الجمل فی سم الخیاط) کی مانند ہے اور اس جملے کا منشاء اس بات کو تاکید اور شدت کے ساتھ بیان کرنا ہے کیونکہ وہ لوگ سخت قسم کی جہالت اور گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور یہ غلط گمان ان کے قلب ودماغ میں بیٹھ چکا ہوگا کہ ہم حق اور ہدایت پر ہیں اس لئے ان کا دین کے دائرہ میں لوٹ آنا ناممکن ہوگا ۔ " سرمنڈانا " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات شائد اس لئے فرمائی کہ اس زمانہ میں عرب میں سرمنڈانے کا رواج نہیں تھا ، بلکہ اکثر لوگ سروں پر بال رکھا کرتے تھے ، اس ارشاد کا مقصد سرمنڈانے کی برائی یا تحقیر کرنا نہیں ہے کیونکہ سرمنڈانا تو اللہ کے شعار اور اس کی طاعت میں سے ایک عمل ہے اور ان لوگوں کی عادات میں سے ہے جو اللہ کے نیک وصالح بندے ہیں ۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تحلیق سے مراد سرمنڈانا نہیں ہے بلکہ لوگوں کو " حلقہ در حلقہ بٹھانا " مراد ہے جو ان لوگوں کی طرف سے محض نمائش اور تکلف کے طور پر ہوگا۔
حضرت سعید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور مجلس (یعنی مرتبہ ) کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب جو شخص ہوگا وہ عادل امام وحاکم ہے اور قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ نفرت کا مستحق اور سب سے زیادہ عذاب کا سزاوار ! اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ۔ اللہ سے سب سے زیادہ دور جو شخص ہوگا وہ ظالم امام وحاکم ہے ۔"
[مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 836 (40214) امارت وقضا کا بیان : امام عادل کی فضیلت]
No comments:
Post a Comment