ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے راستے میں چل رہے تھے آپ ﷺ ایک پہاڑ پر سے گزرے جسے جمدان کہا جاتا تھا آپ ﷺ نے فرمایا: چلتے رہو یہ جمدان ہے مفردون آگے بڑھ گئے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! مفردون کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے والے مرد و عورتیں۔
تخريج الحديث
ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کس کا درجہ سب سے افضل ہوگا؟ آپ نے فرمایا: کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والوں کا ۔ ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے سے بھی افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر غازی اپنی تلوار سے کفار اور مشرکین کو قتل کرے یہاں تک کہ اس کی تلوار ٹوٹ جائے اور خون آلود ہو جائے تب بھی اللہ کا ذکر کرنے والوں کا درجہ اس (غازی) سے افضل ہے۔
تخريج الحديث
|
ترجمہ:
حضرت ابوسعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رات میں بیدار ہو اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو ان کا نام کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والوں کی فہرست میں لکھ دیا جائے گا۔
[سنن أبي داود » كِتَابُ الْوِتْرِ » بَاب الْحَثِّ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ ... رقم الحديث: 1241]
تخريج الحديث
|
ترجمہ:
حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کثرت سے کہا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے! حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہے: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا مَنْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ (یعنی ضرر ونقصان کو (دفع کرنے کی) قوت اور نفع حاصل کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی قدرت کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات اسی (کی ورضا ورحمت کی توجہ ) پر منحصر ہے) تو اللہ تعالیٰ اس سے ضرر و نقصان کی ستر قسمیں دور کر دیتا جس میں ادنی قسم فقر (محتاجگی) ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سماعت ثابت نہیں ہے۔
تخريج الحديث
|
تشریح
ارشاد گرامی " جنت کا خزانہ" کا مطلب یہ ہے کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ جنت کا ایک ذخیرہ ہے جس سے کہ اس کو پڑھنے والا اس دن (یعنی قیامت کے دن) نفع وفائدہ حاصل کرے گا جس دن نہ دنیا کا کوئی خزانہ مال کا کام آئے گا اور نہ اولاد اور دوسرے عزیز واقا رب نفع پہنچائیں گے۔
فقر (محتاجگی) سے مراد دل کا فقر اور قلب کی تنگی ہے جس کے متعلق ایک حدیث یوں ہے فرمایا کہ کاد الفقر ان یکون کفرا ۔ فقر کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے ۔
لہٰذا جو شخص ان کلمات کو پڑھتا ہے تو اس کی برکت سے دل کی محتاجگی دور ہوتی ہے کیونکہ جب وہ ان کلمات کو زبان سے ادا کرتا ہے اور پھر ان کلمات کے معنی ومفہوم کا تصور کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ یقین واعتماد پیدا ہوا جاتا ہے کہ ہر امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت کے زیر اثر ہے کسی کو نفع وفائدہ آرام و راحت دنیا میں بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور کسی کو تکلیف ومصیب اور ضرر ونقصان میں مبتلا کر دینا بھی اسی کی طرف سے ہے پس وہ شخص بلاء ومصیبت پر صبر کرتا ہے، نعمت و راحت پر شکر کرتا ہے اپنے تمام امور اللہ ہی کی طرف سونپ دیتا ہے اور اس طرح قضا وقدر الٰہی پر راضی ہو کر حق تعالیٰ کا محبوب بندہ اور دوست بن جاتا ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنی ایک سیاحت کے دوران جن صاحب کی رفاقت و صحبت مجھے حاصل رہی انہوں نے مجھے نیکی وبھلائی کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ خوب اچھی طرح جان لو! اعمال نیک کے لئے اقوال وکلمات میں تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ کے برابر کوئی قول وکلمہ اور افعال میں اللہ کی طرف جھکنے اور اس کے فضل کی راہ کو اختیار کرنے کے برابر کوئی فعل ممد و معاون نہیں۔
آیت (ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم) جس شخص نے اللہ کی راہ دکھائی ہوئی کو اختیار کیا تو بلاشبہ اسے مضبوط راہ کی ہدایت بخشی ہوگی۔
امام ترمذی کے قول کے مطابق اگرچہ اس حدیث کی سند متصل نہیں اور اس طرح یہ حدیث منقطع ہے لیکن اس حدیث کو حضرت موسیٰ کی یہ روایت صحیح ثابت کرتی ہے جو صحاح ستہ میں بطریق مرفوع منقول ہے کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ فانہا کنز من کنوز الجنۃ ۔ اسی طرح حدیث کی توثیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت مرفوع سے بھی ہوتی ہے جسے نسائی اور بزاز نے نقل کیا ہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ اور اس میں لا منجا من اللہ الا الیہ کنز من کنوز الجنۃ بھی ہے لہٰذا حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث اگرچہ اسناد کے اعتبار سے منقطع ہے مگر مفہوم ومعنی کے اعتبار سے قابل اعتماد ہے ۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، تُوبُوا إِلَى اللَّهِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا ، وَبَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ قَبْلَ أَنْ تُشْغَلُوا ، وَصِلُوا الَّذِي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ بِكَثْرَةِ ذِكْرِكُمْ لَهُ ، وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ ، تُرْزَقُوا وَتُنْصَرُوا وَتُجْبَرُوا ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْكُمُ الْجُمُعَةَ فِي مَقَامِي هَذَا ، فِي يَوْمِي هَذَا ، فِي شَهْرِي هَذَا ، مِنْ عَامِي هَذَا ، إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ، فَمَنْ تَرَكَهَا فِي حَيَاتِي أَوْ بَعْدِي وَلَهُ إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرٌ ، اسْتِخْفَافًا بِهَا أَوْ جُحُودًا لَهَا ، فَلَا جَمَعَ اللَّهُ لَهُ شَمْلَهُ ، وَلَا بَارَكَ لَهُ فِي أَمْرِهِ ، أَلَا وَلَا صَلَاةَ لَهُ ، وَلَا زَكَاةَ لَهُ ، وَلَا حَجَّ لَهُ ، وَلَا صَوْمَ لَهُ ، وَلَا بِرَّ لَهُ ، حَتَّى يَتُوبَ ، فَمَنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ ، أَلَا لَا تَؤُمَّنَّ امْرَأَةٌ رَجُلًا ، وَلَا يَؤُمَّن أَعْرَابِيٌّ مُهَاجِرًا ، وَلَا يَؤُمَّ فَاجِرٌ مُؤْمِنًا ، إِلَّا أَنْ يَقْهَرَهُ بِسُلْطَانٍ يَخَافُ سَيْفَهُ وَسَوْطَهُ " .
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو ! موت سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور مشغولیت سے قبل اعمال صالح کی طرف سبقت کرو اور اپنے اور اپنے ربّ کے درمیان تعلق قائم کرلو اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرکے پوشیدہ اور ظاہراً صدقہ دے کر اس کی وجہ سے تہمیں رزق دیا جائے گا اور تمہاری مدد کی جائے اور تمہارے نقصان کی تلافی ہوگی اور یہ جان لو جو اللہ تعالیٰ نے میری اس جگہ اس دن اس سال کے اس ماہ میں قیامت تک کے لئے جمعہ فرض فرما دیا۔ لہذا جس نے بھی میری زندگی میں یا میرے بعد جمعہ چھوڑ دیا جبکہ اس کا کوئی عادل یا ظالم امام بھی ہو جمعہ کو ہلکا سمجھتے ہوئے یا اس کا منکر ہونے کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ اس کے پھیلاؤ اور افراتفری میں کبھی جمعیت کو کبھی مجمتع نہ فرمائیں اور نہ اس کے کام میں برکت دیں اور خوب غور سے سنو نہ اس کی نماز ہوگی نہ زکوۃ نہ حج نہ روزہ نہ ہی کوئی اور نیکی حتیٰ کہ تائب ہو جائے اور جو تائب ہو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرما لیتے ہیں غور سے سنو کوئی عورت کسی مرد کی امام نہیں بن سکتی اور نہ دیہات والا مہاجر کا امام بنے اور نہ فاسق (دیندار) مؤمن کا امام بنے الاّ کہ وہ مؤمن پر غلبہ حاصل کر لے اور مومن کو اس فاسق کے کوڑے یا تلوار کا خوف ہو۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: « كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ. قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَاكَ تُكْثِرُ مِنْ قَوْلِ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ. فَقَالَ: خَبَّرَنِي رَبِّي أَنِّي سَأَرَى عَلَامَةً فِي أُمَّتِي فَإِذَا رَأَيْتُهَا أَكْثَرْتُ مِنْ قَوْلِ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فَقَدْ رَأَيْتُهَا {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ} فَتْحُ مَكَّةَ، {وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا * فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا }.»
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کثرت کے ساتھ ( سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ) فرماتے تھے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں آپ ﷺ کو دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ کثرت کے ساتھ ( سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ) پڑھتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ عنقریب میں اپنی امت میں ایک علامت دیکھوں گا جب میں اس نشانی کو دیکھوں تو میں ( سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ) کی کثرت کروں تو تحقیق میں نے اس علامت کو دیکھ لیا ہے (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (فَتْحُ مَکَّةَ ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا) جب اللہ کی مدد آگئی اور مکہ فتح ہوگیا اور لوگوں کو تو دیکھے گا اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں گے تو اللہ کی تسبیح بیان کر اس کی تعریف کے ساتھ اور اس سے بخشش مانگ بیشک وہ رجوع فرمانے والا ہے۔
[مسند أحمد:24065+25508، صحيح مسلم:484(1088)، صحيح ابن حبان:6411]
حضرت ابن عمرؓ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ كَمَا يَصْدَأُ الْحَدِيدُ»
یاد رکھو یہ دل زنگ پکڑتے ہیں جیسا کہ پانی پہنچنے سے لوہا زنگ پکڑتا ہے۔
عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! اس کی جلا کا کیا ذریعہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
«ذِكْرُ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ»
موت کو کثرت یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت۔
[مسند الشهاب القضاعي:1178، شعب الإيمان-البيهقي:2014، جامع الأحاديث-السيوطي:8669]
تشریح
مطلب یہ ہے کہ گناہ و مصیبت کے صدور اور نیکیوں میں غفلت کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو جاتا ہے لہٰذا دل کے جلا کا ذریعہ بتایا گیا ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہنے سے دل کو جلا یعنی صفائی حاصل ہو جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ :" أَكْثِرُوا تِلَاوَةَ الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ ، قَالُوا : هَذِهِ الْمَصَاحِفُ تُرْفَعُ ، فَكَيْفَ بِمَا فِي صُدُورِ الرِّجَالِ ؟ قَالَ : يُسْرَى عَلَيْهِ لَيْلًا فَيُصْبِحُونَ مِنْهُ فُقَرَاءَ ، وَيَنْسَوْنَ قَوْلَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَيَقَعُونَ فِي قَوْلِ الْجَاهِلِيَّةِ وَأَشْعَارِهِمْ ، وَذَلِكَ حِينَ يَقَعُ عَلَيْهِمْ الْقَوْلُ " .
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں قرآن کی کثرت سے تلاوت کیا کرو اس سے پہلے کہ اسے اٹھالیا جائے لوگوں نے دریافت کیا ان مصاحف کو اٹھا لیا جائے گا لیکن جو انسانوں کے سینوں میں ہے اس کا کیا ہوگا؟ تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ایک رات ایسی آئی گی کہ لوگوں کو قرآن کا علم ہوگا لیکن اگلے دن انہیں اس کا علم نہیں ہوگا۔ وہ لاالہ اللہ پڑھنا بھی بھول چکے ہوں گے اور زمانہ جاہلیت کی باتوں اور اشعار میں مبتلا ہوجائیں گے یہ وہ وقت ہوگا جب قیامت آجائے گی۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
" (دنیا کی) لذتوں کو کھو دینے والی چیز کو ، کہ جو موت ہے کثرت سے یاد کرو" ۔
[جامع الترمذي » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ الْمَوْتِ ... رقم الحديث: 2307]
[حديث أبى هريرة: أخرجه مسند أحمد:7925 ، سنن الترمذى:2307 وقال: حسن غريب. سنن النسائى:1824 ، سنن ابن ماجه:4258) ، صحیح ابن حبان:2992 ، شعب الإيمان للبيهقى:10559.
[جامع الترمذي » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ الْمَوْتِ ... رقم الحديث: 2307]
[حديث أبى هريرة: أخرجه مسند أحمد:7925 ، سنن الترمذى:2307 وقال: حسن غريب. سنن النسائى:1824 ، سنن ابن ماجه:4258) ، صحیح ابن حبان:2992 ، شعب الإيمان للبيهقى:10559.
تخريج الحديث
|
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مصلی پر تشریف لائے تو کچھ لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم لذتوں کو ختم کرنے والی چیز کو یاد کرتے تو تمہیں اس بات کی فرصت نہ ملتی جو میں دیکھ رہا ہوں لہذا لذتوں کو قطع کرنے والی موت کو زیادہ یاد کرو کوئی قبر ایسی نہیں جو روزانہ اس طرح نہ پکارتی ہو کہ غربت کا گھر ہوں میں تنہائی کا گھر ہوں میں مٹی کا گھر ہوں اور میں کیڑوں کا گھر ہوں پھر جب اس میں کوئی مومن بندہ دفن کیا جاتا ہے تو وہ اسے ( مَرْحَبًا وَأَهْلًا) کہہ کر خوش آمدید کہتی ہے پھر کہتی ہے کہ میری پیٹھ پر جو لوگ چلتے ہیں تو مجھ ان سب میں محبوب تھا اب تجھے میرے سپرد کر دیا گیا ہے تو اب تو میرے حسن سلوک دیکھے گا پھر وہ اس کے لئے حدنگاہ تک کشادہ ہو جاتی ہے اور اس کے لئے جنت کا درواز کھول دیا جاتا ہے اور جب گنہگار یا کافر آدمی دفن کیا جاتا ہے قبر اسے خوش آمدید نہیں کہتی بلکہ (لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا) کہتی ہے پھر کہتی ہے کہ میری پیٹھ پر چلنے والوں میں تم سب سے زیادہ مغبوض شخص تھے آج جب تمہیں میرے سپرد کیا گیا ہے تو تم میری بدسلوکی بھی دیکھو گے پھر وہ اسے اس زور سے بھنچتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیاں ایک دوسری میں داخل کر کے دکھائیں پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد اس پر ستر اژدھے مقرر کر دئیے جاتے ہیں اگر ان میں سے ایک زمین پر ایک مرتبہ پھونک مار دے تو اس پر کبھی کوئی چیز نہ اگے پھر وہ اسے کاٹتے ہیں اور نوچتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اسے حساب و کتاب کے لئے اٹھایا جائے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے
تخريج الحديث
|
|
تشریح
صحیح یہی ہے کہ لفظ " ہاذم" ذال کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں قطع کرنے والا، چنانچہ جن لوگوں نے دال کے ساتھ یعنی لفظ " ہادم" بمعنی ڈھالنے والا جو نقل کیا ہے صحیح نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ اس بارہ میں کسی راوی سے چوک ہو گئی ہو۔
بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنا چاہئے کیونکہ موت کو یاد کرنے سے غفلت جو نیک اعمال کے راستہ میں رکاوٹ بنتی ہے دور ہوتی ہے، موت کی یاد دنیا (کے برے کاموں ) کی مشغولیت سے باز رکھتی ہے اور موت کو یاد کرنے والا طاعات و عبادات کی طرف متوجہ رہتا ہے جو توشہ آخرت ہے۔
نسائی نے اس روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں۔ فَإِنَّهُ لا يَكُونُ فِي كَثِيرٍ إِلا قَلَّلَهُ , وَلا فِي قَلِيلٍ إِلا كَثَّرَهُ (ترجمہ) جب مال کی زیادتی میں موت یاد آتی ہے تو وہ مال کو کم کر دیتی ہے (یعنی موت یاد آ جانے کی وجہ سے مال کی طرف کوئی رغبت نہیں رہتی اور مال کو فانی سمجھنے لگتا ہے اس لئے اس وقت زیادہ مال بھی نظروں میں حقیر ہو جانے کی وجہ سے کم ہی محسوس ہوتا ہے) اور جب مال کی کمی میں موت یاد آ جاتی ہے تو وہ مال کو زیادہ کر دیتی ہے (یعنی جب موت یاد آتی ہے تو دنیا کو فانی سمجھ کر کم مال پر قناعت کرتا ہے اس لئے تھوڑا مال بھی زیادہ معلوم ہونے لگتا ہے۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا:
کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو دور کر دے اور جس کے سبب (جنت میں) تمہارے درجات کو بلند کرے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا " ہاں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشقّت کے وقت (یعنی بیماری یا سخت جاڑے میں) وضو کو پورا کرنا، مسجد کی طرف (گھر سے دور ہونے کی وجہ سے ) کثرت سے قدموں کا رکھنا اور (ایک) نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا پس یہ رباط ہے۔
[صحيح مسلم » كِتَابُ الطَّهَارَةِ » بَابُ فَضْلِ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ ... رقم الحديث: 251]
تخريج الحديث
|
ترجمہ:
حضرت ابن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں خواب دیکھتے تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی تعبیر بتا دیتے جو اللہ تعالیٰ چاہتا، اس وقت میں کم عمر نوجوان تھا اور میں نکاح سے پہلے مسجد ہی میں رہتا تھا، میں اپنے آپ سے کہتا کہ اگر تجھ میں کوئی خوبی ہوتی تو تو بھی اسی طرح خواب دیکھتا، جس طرح یہ لوگ خواب دیکھتے ہیں جب میں رات کو لیٹا تو میں نے کہا یا اللہ اگر تو مجھ میں بھلائی دیکھتا ہے تو مجھے بھی خواب دکھلا، میں اسی حال میں تھا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے ان میں سے ہر ایک پاس لوہے کا ایک ہتھوڑا تھا اور یہ مجھے جہنم کی طرف لے چلے میں ان دونوں کے درمیان اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ میں تیری جہنم سے پناہ مانگتا ہوں، پھر مجھے دکھلایا گیا کہ مجھ سے ایک فرشتہ ملا اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک ہتھوڑا تھا اس نے کہا کہ تو خوف نہ کر تو اچھا آدمی ہے اگر تو کثرت سے نماز پڑھے، اور وہ لوگ مجھے لے چلے یہاں تک کہ جہنم کے کنارے کھڑا کردیا وہ کنویں کی شکل تھی، اور کنویں کی طرح اس کے بھی دو منڈھیر تھے اور اس کے ہردو منڈھیرے کے درمیان ایک فرشتہ لوہے کا ہتھوڑا لئے ہوئے کھڑا تھا اور میں نے دوزخ کے اندر بہت سے لوگوں کو زنجیر سے الٹے لٹکے ہوئے دیکھا میں نے اس میں قریش کے چند آدمیوں کو پہچان لیا پھر وہ فرشتے مجھے دائیں طرف سے لے کر واپس لوٹے میں نے یہ خواب حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا اور حفصہ نے رسول اللہ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ عبداللہ ایک مرد صالح ہے اور نافع کا بیان ہے کہ وہ اس کے بعد برابر کثرت سے نماز پڑھنے لگے۔
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُرَبِيعَةَ بْنَ كَعْبٍ الْأَسْلَمِيَّ ، يَقُولُ : كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آتِيهِ بِوَضُوئِهِ وَبِحَاجَتِهِ ، فَقَالَ : " سَلْنِي " فَقُلْتُ : مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ ، قَالَ : " أَوَ غَيْرَ ذَلِكَ ؟ " قُلْتُ : هُوَ ذَاكَ ، قَالَ : " فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ " .
ترجمہ:
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہا کرتا تھا اور میں آپ ﷺ کے وضو اور ضروریات کے لئے پانی لاتا تھا ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھ سے مانگ کیا مانگنا ہے؟ میں نے کہا کہ میں جنت میں آپ ﷺ کا ساتھ مانگتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے علاوہ اور کچھ، میں نے کہا: مجھے بس یہی چاہیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اپنے لئے کثرت سے سجدے کر کے میری مدد کر۔
تشریح
ربیعہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات پیش کرنے پر معمور تھے ۔ اس لئے ان کی اس خدمت اور جذبہ اطاعت و فرمانبردای کے صلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم دین و دنیا کی جو بھی بھلائی چاہتے ہو مانگ لو۔ ظاہر ہے کہ ایک وفادار خادم اور جاں قربان کرنے والا غلام اس سے بڑی اور کیا تمنا رکھ سکتا ہے کہ اس کا وہ آقا جس کی خدمت نے اس کو دین و دنیا کی عظیم سعادتوں سے نواز رکھا ہے جنت میں بھی اسے ان کی رفاقت کی سعادت حاصل ہوجائے چنانچہ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! میری سب سے بڑی تمنا اور سب سے بڑی خواہش تو بس یہی ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس دنیا میں اپنے قدموں میں جگہ دے رکھی ہے اسی طرح جنت کی پر سعادت فضا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا شرف حاصل ہو جائے، پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ یہ اس کے علاوہ کچھ اور مانگ لیں مگر جب دیکھا کہ انہیں اپنی اس خواہش پر اصرار ہے تو فرمایا کہ " اس عظیم مرتبے اور اس بڑی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے تم کثرت سجود کے ذریعے اپنی ذات سے میری مدد کرو۔ یعنی اگر تمہارا یہی اصرار ہے اور تم اسی خواہش کی تکمیل چاہتے ہو تو پھر آؤ تم کو میں ایک ایسا راستہ بتا دیتا ہوں جو تمہاری منزل مقصود تک جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا اپنا تو کام یہ ہونا چاہئے کہ نماز پڑھتے رہو اور بارگاہ الٰہی میں کثرت سے سجدے کر کے اپنی عجز و بے چارگی کا اظہار کیا کرو اور سجدہ میں دعا کرتے رہا کرو، ادھر میں بھی تمہارے لئے دعا کرتا ہوں اور حصول مقصد اور تمہاری اس خواہش کی تکمیل کے لئے کوشش کرتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ میں تمہیں جو بتاؤں یعنی جو حکم دوں اس پر پورا پورا عمل کرتے رہو کہ راہ سعادت حاصل ہونے کی تدیبر یہی ہے اور انشاء اللہ اس کے بعد تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے۔
فتح قفل ارچہ کلید است اے عزیز
جنبش از دست تو می خواہند نیز
یعنی : عزیز من! قفل اگرچہ کنجی ہی سے کھلتا ہے لیکن تمہارے ہاتھ کی حرکت بھی تو ضروری ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی خدمت کرنا اور ان کی رضا اور خوشنودی کو پوری کرنا در حقیقت فضیلت و سعادت کے حصول کا ذریعہ ہے خاص طور پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کو مد نظر رکھنا تو دین و دنیا کی سب سے بڑی سعادت و بھلائی ہے۔
اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ بھی ہے کہ طالب صادق کو چاہئے کہ اس کا مطلوب صرف آخرت کی نعمتیں ہوں کہ جن کو دوام و بقاء حاصل ہے دنیا کی لذتوں کی طرف التفات نہ کرے کہ جو فانی اور ختم ہو جانے والی ہیں۔ لیکن شرط یہ بھی ہے کہ بندگی میں اپنی طرف سے کوئی قصور نہ ہو کیونکہ محض آرزو اور تمنا ہی منزل مقصود تک نہیں پہنچاتی بلکہ اس میں اپنی طرف سے کوشش وسعی کو بھی دخل ہوتا ہے جیسا کہ بڑوں نے کہا ہے کہ " کسی تمنا اور آرزو کے ہوتے ہوئے کوشش وسعی نہ کرنا بلکہ بیکار بیٹھنا ٹھنڈے لوہے کو کوٹنا ہے۔
کارکن کار بگزرار گفتار
کاندریں راہ کار دار دکار
یعنی عمل کرو زبانی جمع خرچ سے بچو، کیونکہ اس راستے میں تو صرف عمل ہی عمل ہے۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بندے کا اللہ سے قریب ترین ہونا اس وقت شمار ہوتا ہے جب کہ وہ سجدہ میں ہو اس لئے تم (سجدے میں) بہت کثرت سے دعا کیا کرو۔
تشریح
یوں تو اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر حال میں اپنے بندوں سے نزدیک رہتا ہے مگر سب سے زیادہ نزدیک اس وقت ہوتا ہے جب بندہ سجدہ میں ہوتا ہے یعنی سجدے کی حالت میں اللہ بندہ سے راضی ہوتا ہے اور دعا قبول کرتا ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ سجدہ میں کثرت سے دعا مانگنی چاہئے تاکہ وہ قبولیت کے درجے کو پہنچے۔
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، قَالَ : سَأَلَ قَتَادَةُأَنَسًا : أَيُّ دَعْوَةٍ كَانَ يَدْعُو بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرُ ؟ قَالَ : " كَانَ أَكْثَرُ دَعْوَةٍ يَدْعُو بِهَا : اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ " . وَزَادَ زِيَادٌ : وَكَانَ أَنَسٌ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ بِدَعْوَةٍ دَعَا بِهَا ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ بِدُعَاءٍ دَعَا بِهَا فِيهَا .[سنن أبي داود » كِتَابُ الْوِتْرِ » بَاب فِي الِاسْتِغْفَارِ ... رقم الحديث: 1301]
حضرت عبدالعزیز بن صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے کون سی دعا مانگا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ دعا پرھتے تھے اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ زیاد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دعا کا ارادہ فرماتے تو یہی دعا کرتے اور اگر کوئی اور دعا کرنا چاہتے تو اس دعا کو بھی اسی میں شامل فرماتے۔
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1515 (16374) - استغفار کا بیان]
تشریح:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے یہ دعا اس لئے پڑھا کرتے تھے کہ یہ ایک جامع دعا ہے جس میں دین و دنیا کے تمام مقاصد آ جاتے ہیں پھر یہ کہ یہ دعا قرآن کریم میں نازل کی گئی ہے۔
طالب صادق اگر حضور مناجات کے وقت خلوت میں بیٹھ کر باطن کی صفائی کے ساتھ دنیا و آخرت کے حسنات کے ہر ہر گوشے کا
تصور کر کے یہ دعا پڑھے تو وہ دیکھے گا کہ کیا کچھ ذوق و جمعیت ، سکون و اطمینان اور نورانیت و سعادت حاصل ہوتی ہے۔
رکوع و سجدے میں کثرت سے مانگنے کی دعا:
ترجمہ:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے رکوع و سجود میں یہ دعا بہت کثرت سے پڑھتے تھے۔ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي۔ (اے اللہ تو پاک ہے، اے ہمارے پروردگار ! میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں، اے اللہ تو میرے گناہ بخش دے۔)
[صحيح البخاري » كِتَابُ الْأَذَانِ » بَابُ التَّسْبِيحِ وَالدُّعَاءِ فِي السُّجُودِ ... رقم الحديث: 817]
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ قرآن میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا: فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ کُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿سورۃ الحجر:۹۸﴾ یعنی "سو تو یاد کر خوبیاں اپنے رب کی اور ہو سجدہ کرنے والوں سے" اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کے لئے رکوع و سجود میں اپنے پروردگار کی تسبیح و تعریف کرتے اور اس سے مغفرت مانگتے تھے کیونکہ خشوع و خضوع کے تمام مواقع و احوال میں رکوع و سجود ہی افضل ترین مواقع و محل ہیں۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود کے علاوہ بھی اس دعا کا ورد کرتے تھے چنانچہ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ سورت اذاجاء کہ جس میں یہ آیت مذکور ہے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر عمر میں یہی ذکر تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات سے پہلے یہ کلمات کثرت سے فرمایا کرتے تھے (سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَيْکَ) سیدہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کلمات کیا ہیں جن کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ نے ان کو کہنا شروع کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے لئے میری امت میں ایک علامت مقرر کی گئی ہے۔جب میں اس علامت کو دیکھتا ہوں تو یہ کلمات پڑھتا ہوں۔إِذَا جَائَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ إِلَی آخِرِ السُّورَةِ(یعنی اس سورت پر عمل کرتا ہوں) کہ "جب اللہ کی مدد آگئی اور مکہ فتح ہوگیا اور لوگوں کو تو دیکھے گا اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں گے تو اللہ کی تسبیح بیان کر اس کی تعریف کے ساتھ اور اس سے بخشش مانگ بے شک وہ رجوع فرمانے والا ہے"۔
کن باتوں سے پناہ کثرت سے مانگنی چاہیے:
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلَاةِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ : مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيذُ مِنَ الْمَغْرَمِ ، فَقَالَ : إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَكَذَبَ وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ ".
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں، اور مسیح الدجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں، اور تجھ سے زندگی اور موت کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے گناہ اور قرض سے پناہ مانگتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک کہنے والے نے کہا کہ(اے اللہ کے رسول!) آپ قرض سے بہت کثرت سے پناہ مانگتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی قرض دار ہو جاتا ہے تو جھوٹ بھی بولتا ہے اور وعدہ خلافی بھی کرتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمِصْرِيُّ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ : " يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ ، وَأَكْثِرْنَ الِاسْتِغْفَارَ ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ جَزْلَةٌ : وَمَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ ؟ قَالَ : تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ ، قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ ؟ قَالَ : " أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ ، فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ ، فَهَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ ، وَتَمْكُثُ اللَّيَالِي ، مَا تُصَلِّي ، وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ ، فَهَذَا نُقْصَانُ الدِّينِ " .
ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اے عورتوں کے گروہ! صدقہ کرتی رہا کرو اور کثرت سے استغفار کرتی رہا کرو، کیونکہ میں نے دوزخ والوں میں سے زیادہ تر عورتوں کو دیکھا ہے۔ ان عورتوں میں سے ایک عقلمند عورت نے عرض کیا کہ ہمارے کثرت سے دوزخ میں جانے کی وجہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لعنت کثرت سے کرتی ہو اور اپنے خاوند کی نا شکری کرتی ہو میں نے تم عورتوں سے بڑھ کر عقل اور دین میں کمزور اور سمجھدار مردوں کی عقلوں پر غالب آنے والی نہیں دیکھیں۔ اس عقلمند عورت نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! عقل اور دین کا نقصان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: عقل کی کمی تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے یہ عقل کے اعتبار سے کمی ہے اور دین کی کمی یہ ہے کہ ماہواری کے دنوں میں نہ تم نماز پڑھ سکتی ہو اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہو یہ دین میں کمی ہے۔
[صحيح مسلم » كِتَاب الإِيمَانِ » بَاب بَيَانِ نُقْصَانِ الإِيمَانِ بِنَقْصِ الطَّاعَاتِ ... رقم الحديث: 117]
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن مجلس نبوی میں کسی شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں عورت کا زیادہ نماز، روزے اور کثرت صدقہ و خیرات کی وجہ سے بڑا چرچا ہے (یعنی لوگ کہتے ہیں کہ وہ عورت بہت زیادہ عبادت کرتی ہے اور کثرت سے صدقہ و خیرات کرتی رہتی ہے) لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ وہ دوزخ میں جائے گی۔ یعنی وہ عورت چونکہ اپنی زبان اور گالم گلوچ کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے اس لئے وہ شوزخ میں ڈالی جائے گی اور باوجودیکہ نماز روزہ اور صدقہ و خیرات افضل ترین عبادات میں سے ہیں لیکن اس کی یہ عبادتیں بھی اس کے گناہ کا کفارہ نہیں ہوں گی)۔ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! فلاں عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم روزے رکھتی ہے بہت کم صدقہ دیتی ہے اور بہت کم نماز پڑھتی ہے اور حقیقت میں اس کا صدقہ و خیرات قروط کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعہ اپنے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: وہ عورت جنت جائے گی۔
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 9675]
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 9675]
تشریح
انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اصل میں دین کا مدار جس چیز پر ہے وہ اکتساب فرائض اور اجتناب معاصی ہے یعنی انسان کی اخروی فلاح نجات محض اس بات پر منحصر ہے کہ وہ دینی فرائض و واجبات پر عمل کرے اور گناہ و معصیت سے پرہیز کرے اور گناہ و معصیت خواہ ترک فرائض و واجبات کی صورت میں ہوں یا بد عملیوں کی شکل میں اس بات سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں کہ فضول یعنی نفلی عبادات و طاعات کو اختیار کیا جائے اور اصول یعنی واجبات کو ضائع کیا جائے جیسا کہ اکثر علماء اور صلحاء اس کمزوروی میں مبتلا ہیں چنانچہ علماء تو ان چیزوں کو ترک کرتے ہیں جن پر عمل کرنا واجب ہے اور صلحاء اس علم کو حاصل نہیں کرتے جس کو حاصل کرنا واجب ہے گویا دونوں طبقے ترک واجب کی معصیت کے مرتکب ہیں البتہ وہ مشائخ اور صوفیاء جو علم و عمل دونوں کے حامل ہوتے ہیں وہ واجبات پر عمل کرنے کو جو درجہ دیتے ہیں وہی ترک واجب کی معصیت سے اجتناب کو بھی دیتے ہیں بلکہ ایک طرح سے ان کے نزدیک اجتناب کی اہمیت مقدم ہے اور وہ حکمائے طب کے اصول کو اختیار کرتے ہیں کہ تحلیہ پر تخلیہ مقدم ہے لہذا جس طرح اطباء مریض کو پرہیز پہلے کراتے ہیں اور دواء بعد میں دیتے ہیں اس طرح وہ مشائخ و صوفیا بھی سالکیں طریقیت کے لئے پہلی منزل توبہ قرار دیتے ہیں اور حقیقت بھی ہے کہ جس طرح مریض مضر چیزوں سے پرہیز نہ کرے تو لاکھ دوائیں بھی اس کے لئے بے فائدہ ہیں اسی طرح کوئی مسلمان گناہ معصیت سے اجتناب نہ کرے اور ترک واجبات سے دامن نہ بچائے تو لاکھ عبادات کرے اور نوافل و ادوار میں مشغول ہو اس کو خاص فائدہ نہیں ہوگا چنانچہ کلمہ تو حید میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پہلے نفی ہے پھر اثبات اور یہ کہ صفات ثبوتیہ پر صفات سلبیہ مقدم ہیں کیونکہ صفات ثبوتیہ کا حصول تو لازم آتا ہے لیکن ثبوتیہ سے صفات سے سلبیہ کا حصول لازم نہیں آتا۔
عَنْأَوْسِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ " ، قَالَ : فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ ، قَالَ : يَقُولُونَ : بَلِيتَ ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ " .
ترجمہ:
حضرت اوس بن اوسؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بہتر دنوں میں سے ایک جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن ان کا انتقال ہوا، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اس دن سب لوگ بیہوش ہوں گے، اس لئے اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول ﷺ! ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا جب کہ (وفات کے بعد) آپ کا جسم (اولوں کی طرح) گل کر مٹی ہوجائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام قرار دیدیا ہے (یعنی زمین باقی تمام لوگوں کی طرح انبیاء کے اجسام کو نہیں کھاتی اور وہ محفوظ رہتے ہیں۔
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا" قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: "وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ"، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ۔
ترجمہ:
حضرت ابودرداء راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجو کیونکہ جمعے کا دن مشہود (یعنی حاضر کیا گیا ہے) اس دن ملائکہ حاضر ہوتے ہیں اور جو آدمی بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کا درود میرے سامنے (بذریعہ مکاشفہ یا بذریعہ ملائکہ) پیش کیا جاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہوتا ہے۔ ابودرداء کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر ) عرض کیا کہ مرنے کے بعد بھی درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجسام کا کھانا حرام کیا ہے چنانچہ اللہ کے نبی (اپنی اپنی قبر میں بالکل دنیا کی حقیقی زندگی کی طرح) زندہ ہیں اور رزق دئیے جاتے ہیں۔
[سنن ابن ماجه:1637]
تشریح
یہ حدیث حضرت عبداللہ ابن عباس کی تفسیر کی تائید کرتی ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ میں (وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ Ą وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ Ǽ ) 85۔ البروج : 2) میں مشھود سے مراد جمعے کا دن ہے جب کہ پہلے گزرنے والی حدیث نمبر ٨ حضرت علی المرتضیٰ کی تفسیر کی موید ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ شاہد سے مراد جمعے کا دن ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ اگرچہ یہاں بھی " مشہود" سے یوم جمعہ مراد لینا بایں اعتبار کہ اسی دن ملائکہ حاضر ہوتے ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ کی تفیسر کے منافی نہیں ہے تاہم یہ احتمال بھی قوی تر ہے کہ حدیث کے الفاظ میں " فَاِنَّہ کی ضمیر جمعے کی طرف نہیں بلکہ کثرت درود کی طرف راجع ہے جو کہ لفظ " اکثروا " سے مفہوم ہوتا ہے اس طرح حدیث کے معنی یہ ہوں گے جمعے کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجو کیونکہ کثرت درود مشہودہ (یعنی فرشتوں کے حاضر ہونے کا سبب ) ہے۔
عُرِضَتْ صَلٰوتُہ کا مطلب یہ ہے کہ یوں تو ہمیشہ ہی جب مجھ پر کوئی آدمی درود بھیجتا ہے تو اس کا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے مگر جمعہ کا دن چونکہ سب سے افضل دن ہے اس لئے جمعہ کے دن بھیجاجانے والا درود بطریق اولیٰ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے اگرچہ درود بھیجنے کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو چنانچہ حَتَّی یَفْرُغَ فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ جب تک درود پڑھنے والا خود ہی فارغ نہ ہو جائے یا درود پڑھنا ترک نہ کر دے اس وقت تک پوری مدت کے درود برابر میرے سامنے پیش کئے جاتے رہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت ابودرداء یہ سمجھے کہ شاید یہ حکم ظاہری حالت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی ہی سے متعلق ہے چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں جب سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین پر انبیاء کے اجسام کھانا حرام ہے یعنی جس طرح دوسرے مردوں کے جسم قبر میں فنا ہو جاتے ہیں۔ اس طرح انبیاء کے جسم قبر میں فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنی اصلی حالت میں موجود رہتے ہیں اس لئے انبیاء کے لئے فنا حالت یعنی دنیا کی ظاہری زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح وہ یہاں ہیں اسی طرح وہاں ہیں اسی لئے کہا گیا ہے۔
اَوْلِیَا ءَ اللہ لَا یَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارْاِلَی دَارٍ۔
" اللہ کے دوست اور حقیقی بندے مرتے نہیں وہ تو صرف ایک مکان سے دوسرے مکان کو منتقل ہو جاتے ہیں۔"
لہذا جس طرح یہاں دنیا کی زندگی میں میرے سامنے درود پیش کئے جاتے ہیں اسی طرح میری قبر میں بھی میرے سامنے درود پیش کئے جاتے رہیں گے۔
حدیث کے آخری الفاظ حتی یرزق کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کو اپنی اپنی قبروں میں حق تعالیٰ کی طرف سے معنوی رزق دیا جاتا ہے اور " رزق" سے اگر رزق حسی مراد لیا جائے تو یہ حقیقت کے منافی نہیں ہوگا بلکہ صحیح ہی ہوگا۔ کیونکہ جب شہداء کی ارواح کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جنت کے میوے کھاتی ہیں تو انبیاء شہداء سے بھی اشرف و اعلیٰ ہیں اس لئے ان کے لئے بھی یہ بات بطریق اولیٰ ثابت ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی قبروں میں رزق حسی دئیے جاتے ہوں۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً "قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ، وَرُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ : " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا وَكَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ " .
ترجہ:
عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ نزدیک وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر کثرت سے درود بھیجتے ہیں۔ امام ابوعیسیٰ ترمذیؒ کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے نبی ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود بھیجتے ہیں اور اس کے حصے میں دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ , فَقَالَ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللَّهَ ، اذْكُرُوا اللَّهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ " ، قَالَ أُبَيٌّ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي ؟ فَقَالَ : " مَا شِئْتَ " ، قَالَ : قُلْتُ : الرُّبُعَ ؟ قَالَ : " مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " , قُلْتُ : النِّصْفَ ؟ قَالَ : " مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " , قَالَ : قُلْتُ : فَالثُّلُثَيْنِ ؟ قَالَ : " مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " , قُلْتُ : أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا , قَالَ : " إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ .
ترجمہ:
حضرت ابی ابن کعبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ پر کثرت سے درود بھیجتا ہوں (یعنی کثرت سے درود بھیجنا چاہتا ہوں اب آپ بتلا دیجئے کہ ) اپنے لئے دعا کے واسطے جو وقت میں نے مقرر کیا ہے اس میں سے کتنا وقت آپ ﷺ پر درود بھیجنے کے لئے مخصوص کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس قدر تمہارا جی چاہے! میں نے عرض کیا: کیا چوتھائی (وقت مقرر کردوں)" ؟ فرمایا: جتنا تمہارا جی چاہے اور اگر زیادہ مقرر کرو تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: تو پھر دو تہائی مقرر کروں" ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس قدر تمہارا جی چاہے اور اگر زیادہ مقرر کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: اچھا تو پھر میں اپنی دعا کا سارا وقت ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درود کے واسطے مقرر کئے دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہیں کفایت کرے گا، تمہارے دین و دنیا کے مقاصد کو پورا کرے گا۔ اور تمہارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
[جامع الترمذي » كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ ... » بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ ... رقم الحديث: 2394]
تشریح:
اجعل لک من صلوتی میں لفظ " صلوٰۃ" سے مراد دعا ہے ۔ حضرت ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ درود بھیجوں ۔ چونکہ میں نے اپنے اوقات میں سے ایک خاص وقت کو اس لئے مقرر کر رکھا ہے کہ میں اس وقت اپنے نفس کے لئے دعا کیا کرتا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ اسی وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کروں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مقرر فرما دیجئے کہ اس وقت کا کتنا حصہ میں درود بھیجنے پر صرف کروں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس درخواست پر درود بھیجنے کے لئے اس وقت کا کوئی حصہ مقرر نہیں فرمایا بلکہ اسے ان کے اختیار پر چھوڑ دیا اور فرمادیا کہ تم تو خود ہی جانتے ہو کہ درود بھیجنے کی کتنی فضیلت ہے اور اس کے کیا فضائل و برکات ہیں اس مقدس کام کے لئے تمہاری سعادت جتنا وقت چاہئے مقرر کر لو، تاہم یہ سمجھ لو کہ تم اس کام کے لئے جتنا زیادہ سے زیادہ وقت دو گے اسی قدر تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔ چنانچہ جب انہوں نے اپنے اس پورے وقت کو درود بھیجنے پر صرف کرنے کا اظہار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار اطمینان و خوشنودی فرمایا اور فرمایا کہ تم نے ایک مستقل وقت کو اس مقدس عمل کے لئے متعین کر کے درحقیقت دنیا اور آخرت کی بھلائی اور مقاصد کو حاصل کر لیا ہے کیونکہ جب بندہ اپنی طلب اور رغبت کو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور محبوب چیز میں خرچ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو اپنی خواہشات اور اپنے مطالب پر مقدم رکھتا تو خداوند اقدس اس کے تمام امور و مہمات میں اس کا مددگار و حامی ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام دنیوی و دینی مقاصد پورے ہو جاتے ہیں من کان اللہ کان اللہ لہ یعنی جو اللہ تعالیٰ کا ہو کر رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ درود شریف کی یہ برکت و فضیلت ہے کہ جو آدمی اس کا ورد رکھے اور اسے اپنی زندگی کا ایک ضروری جزء بنالے تو اس کے لئے دین و دنیا دونوں جگہ آسانیاں اور سہولتیں فراہم ہو جاتی ہیں اور اس کے تمام مقاصد خیر پورے ہو جاتے ہیں۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " جب میرے شیخ بزرگوار حضرت عبد الوہاب متقی نے مجھے مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے رخصت فرمایا تو یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ جاؤ ! اور یاد رکھو کہ اس راہ میں اداء فرض کے بعد کوئی عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے مماثل نہیں ہے لہٰذا (ادائے فرض کے بعد) تم اپنے اوقات کو اسی مقدس مشغلے میں صرف کرنا اور کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہونا "
حضرت شیخ عبدالحق رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ " اس کے لئے کوئی عدد مقرر فرما دیا جائے (کہ میں اتنی تعداد میں درود پڑھ لیا کروں)" شیخ عبدالوہاب نے فرمایا " اس سلسلے میں کسی عدد کا تعین کرنا شرط نہیں ہے بلکہ درود شریف اتنی کثرت کے ساتھ پڑھنا کہ اس کے ساتھ رطب اللسان ہو جاؤ اور اسی کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ اور اسی میں مستغرق ہو جاؤ"
حصن حصین کے مصنف علام نے مفتاح میں لکھا ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بے شمار فوائد ہیں، اور دنیا اور آخرت میں اس کے لئے بے انتہا ثمرات مرتب ہوتے ہیں خصوصا تنگی و پریشانی، کسی خاص مہم ، فکرات اور مطلب برآوری کے سلسلہ میں اس کا بارہا تجربہ ہوا ہے چنانچہ خود میرا تجربہ ہے کہ میں اکثر خوف و ہلاکت کی جگہ گھر گیا اور مجھے وہاں سے اگر نجات ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے صدقہ میں۔
تخريج الحديث
|
نماز فجر میں سورہ یوسف کی تلاوت:
حضرت فرافصہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( فرافصہ مدینہ طیبہ کے رہنے والے اور مشہور تابعی ہیں۔ آپ قبیلہ بنی حنفیہ کی طرف نسبت کی وجہ سے حنفی کہے جاتے ہیں ) ابن عمیر حنفی (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے سورت یوسف، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (سن سن کر) یاد کی ہے کیونکہ وہ اس سورت کو فجر کی نماز میں کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 826 (37395)]
تشریح
اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ علماء تو نمازوں میں کسی خاص متعین سورت پر مداوت کرنے کو مکروہ لکھتے ہیں تاکہ قرآن کی بقیہ سورتوں کا ترک کرنا لازم نہ آئے حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ معمول اس کے منافی ہے تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ علماء جو مکروہ لکھتے ہیں اس سے ان کی مراد تمام نمازوں میں کسی متعین سورت پر مداومت کرنا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو معمول ثابت ہے وہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ تو صرف فجر کی نماز ہی میں سورت یوسف بہت کثرت سے پڑھتے تھے تمام نمازوں میں نہیں۔
بعض علماء نے سورت یوسف کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ سورت یوسف کے پڑھنے پر مداومت کرنا شہادت کی سعادت حاصل ہونے کا سبب ہے جس کا واضح ثبوت خود حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی ہے کہ آپ شہید ہوئے۔
عَنْعَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّهَا قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يُفْطِرُ ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يَصُومُ ، وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ ، إِلَّا رَمَضَانَ ، وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا ، فِي شَعْبَانَ " .
ترجمہ:
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے رکھتے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺ افطار نہیں کریں گے اور آپ ﷺ افطار کرتے تو ہم کہتے کہ آپ ﷺ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رمضان کے مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ میں پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شعبان کے مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ میں اتنی کثرت سے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
عَنْ جَابِرِ ، قَالَ : كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ، فَقَالَ : " أَكْثِرُوا مِنَ النِّعَالِ فَإِنَّ الرَّجُلَ لَا يَزَالُ رَاكِبًا مَا انْتَعَلَ " .
ترجمہ:
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ کسی سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے آپ نے فرمایا کہ: جوتا بہت کثرت سے پہنو اس لئے کہ آدمی ہمیشہ سوار رہتا ہے جب تک کہ جوتا پہنے ہوئے ہو۔
ترجمہ:
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر مبارک پر کثرت سے تیل استعمال کرتے تھے، کثرت سے داڑھی میں کنگھی کرتے تھے اور اکثر سر مبارک پر ایک کپڑا رکھتے تھے جو ایسا نظر آتا جیسے تیلی کا کپڑا ہو ۔
[الشمائل المحمدية للترمذي » بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرَجُّلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى ... رقم الحديث: 32]
تشریح:
" کثرت سے کنگھی کرتے تھے " یہ بات اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رواز نہکنگھی سے منع فرمایا ہے، کیوں کہ اول تو یہ ممانعت، نہی تحریمی کے طور پر نہیں ہے بلکہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے دوسرے " کثرت سے کنگھی کرنے " سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ کنگھی کرتے تھے کہ " کثرت " کا اطلاق اس چیز پر بھی ہوتا ہے کہ کسی کام کو اس ضرورت کے وقت انجام دیا جائے، گویا جس عمل کی جس وقت ضرورت ہو اس وقت اس کو کرنا بھی " کثرت " کے حکم میں شامل ہوتا ہے، جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو داڑھی میں کنگھی کرنا سنت ہے لیکن جو لوگ ہر وضو کے بعد کنگھی کرتے ہیں اس کی سنت صحیحہ میں کوئی بنیاد نہیں ہے ۔
" قناع " سے مراد وہ کپڑا ہے جو آپ بالوں کو تیل لگانے کے بعد سر پر اس مقصد سے ڈال لیا کرتے تھے کہ عمامہ میلا اور چکنا نہ ہو، چنانچہ وہ کپڑا تیل لگنے کی وجہ سے چونکہ بہت تیل آلود ہو جاتا تھا اس لئے اس کو تیلی کے کپڑے سے تشبیہ دی گئی ہے ورنہ یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ وہ کپڑا بہت گندہ رہتا تھا یا آپ کے سارے کپڑے تیلی کے کپڑوں کی طرح رہتے تھے، کیونکہ یہ مراد اس نظافت و پاکیزگی اور صفائی و ستھرائی سے بہت بعید ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کا جز تھی، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفید کپڑے کو بہت پسند فرماتے تھے ۔
عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِئٍ الْعَنْسِيِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : " كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ ، فَقَالَ قَائِلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ ؟ قَالَ : هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ ، ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي وَلَيْسَ مِنِّي وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ ثُمَّ فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً فَإِذَا قِيلَ : انْقَضَتْ تَمَادَتْ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ فَإِذَا كَانَ ذَاكُمْ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ مِنْ يَوْمِهِ أَوْ مِنْ غَدِهِ " .
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فتنوں کا ذکر کیا اور بہت کثرت سے ان کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ فتنہ احلاس کا ذکر کیا، تو ایک کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! فتنہ احلاس کیا ہے؟ فرمایا: بھاگنا اور جنگ ہے پھر اس کے بعد سراء کا فتنہ ہے، جس کا دھواں ایک ایسے آدمی کے پیر کے نیچے سے نکلے گا جو میرے گھر والوں میں سے ہوگا وہ یہ گمان کرے گا وہ مجھ سے ہے لیکن مجھ سے نہیں ہوگا اور بیشک میرے ولی دوست تو وہی ہیں جو متقی ہیں پھر لوگ ایک شخص پر اعتماد کریں جیسے کہ سرین، پسلی کے اوپر یعنی ایک کجی والے شخص پر اتفاق کریں گے پھر دہیماء کا فتنہ ہوگا اور اس میں امت میں کسی کو نہیں چھوڑے گا مگر یہ کہ اسے ایک طمانچہ مارے گا جب لوگ کہیں گے کہ فتنہ ختم ہوگیا تو وہ اور بڑھے گا اس میں آدمی صبح کو مومن ہوگا تو شام کو کافر ہوگا یہاں تک کہ لوگ دو خیموں کی طرف ہوجائیں ایک ایمان کا خیمہ جس میں نفاق نہیں ہوگا اور دوسرا نفاق کا خیمہ جس میں ایمان نہیں ہوگا پس اگر تم اس وقت ہو تو اس دن یا اس سے اگلے دن دجال کا انتظار کرو۔
حضرت ابوغالب (تابعی ) کہتے ہیں کہ حضرت ابوامامہ (صحابی) نے (ایک دن ) دمشق کی شاہراہ پر (خوارج کے ) سر پڑے ہوئے دیکھے یا وہ سولی پر لٹکے ہوئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ دوزخ کے کتے ہیں اور آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہیں اور بہترین مقتول وہ ہے جس کو انہوں نے قتل کیا ہو ۔ اور پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی ۔ اس قیامت کے دن کہ بہت سے منہ سفید منور ہوں گے اور بہت سے منہ سیاہ ہوں گے ابوغالب نے حضرت ابوامامہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ؟ ابوامامہ نے فرمایا اگر میں نے یہ بات ایک بار دو بار تین بار یہاں تک کہ انہوں نے سات بار گنا نہ سنی ہوتی تو تمہارے سامنے بیان نہ کرتا یعنی اگر میں اس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی کثرت سے بار بار نہ سنتا تو میں تمہارے سامنے بیان نہ کرتا ۔ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ۔"
تشریح : حضرت ابوامامہ نے جو آیت پڑھی وہ پوری یوں ہے ۔
(یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ فاما الذین اسودت وجوہہم اکفرتم بعد ایمانکم فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون ۔) (ال عمران ٣ : ١٠٦)
اس دن کو بہت سے منہ سفید (منور ) ہوں گے اور بہت سے منہ کالے ہوں گے پس جن کے منہ کالے ہونگے ان سے کہا جائے گا کہ تم ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہوگئے تھے ؟ تو تم نے جو کچھ کفر کیا ہے اس کے بدلے میں عذاب چکھو ۔"
حدیث میں جن لوگوں کے سروں کا ذکر ہے ان کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ وہ مرتد تھے ، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بدعتی تھے ، جب کہ حضرت ابوامامہ سے منقول ہے کہ وہ خوارج تھے ۔
ترجمہ:
حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسی عورت سے نکاح کرو جو اپنے خاوند سے محبت کرنیوالی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو کیونکہ دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا ( ابوداؤد نسائی)
خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
امام ابو داود نے کہا : جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت (خاموشی اختیار) کروں تو وہ احتجاج (حجت و دلیل ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے.[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢ ، كتاب الزكوة ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦]
تخريج الحديث
|
تشریح :
منکوحہ عورت میں مذکورہ بالا دو صفتوں کو ساتھ ساتھ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں بچے تو بہت پیدا ہوتے ہوں مگر وہ اپنے خاوند سے محبت کم کرتی ہو تو اس صورت میں خاوند کو اس کی طرف رغبت کم ہو گی اور اگر کوئی عورت خاوند سے محبت تو بہت کرے مگر اس کے یہاں بچے زیادہ نہ ہوں تو اس صورت میں مطلوب حاصل نہیں ہوگا، اور مطلوب امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت سے جو ظاہر ہے کہ زیادہ بچے ہونے کی صورت میں ممکن ہے اگر مسلمان عورتوں کے ہاں زیادہ بچے ہوں گے تو امت میں کثرت ہوگی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ اور مطلوب ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نکاح سے پہلے یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سی عورت اپنی آئندہ زندگی میں ان اوصاف کی حامل ثابت ہو سکتی ہے تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ کسی خاندان وکنبہ کا عام مشاہدہ اس کی کسی عورت کے لئے ان صفتوں کا معیار بن سکتا ہے چنانچہ ان اکثر لڑکیوں میں یہ صفتیں موجود ہو سکتی ہیں جن کے خاندان وقرابت داروں میں ان صفتوں کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے عام طور پر چونکہ اقرباء کے طبعی اوصاف ایک دوسرے میں سرایت کئے ہوتے ہیں اور عادت ومزاج میں کسی خاندان و کنبہ کا ہر فرد ایک دوسرے کے ساتھ یکسانیت رکھتا ہے اس لئے کسی خاندان کی لڑکی کے بارے میں اس کے خاندان کے عام مشاہدہ کے پیش نظر ان اوصاف کا اندازہ لگا لینا کوئی مشکل نہیں ہے ۔
بہرکیف اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شوہر سے بہت زیادہ محبت کرنیوالی اور بچے پیدا کرنیوالی عورت سے نکاح کرنا مستحب ہے نیز یہ کہ زیادہ بچے ہونا بہتر اور پسندیدہ ہے کیونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یعنی امت کی زیادتی و کثرت کا فخر حاصل ہوتا ہے ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں نکاح کرنے سے مراد یہ تعلیم دینا ہے کہ تمہاری جن بیویوں میں یہ اوصاف موجود ہوں ان کے ساتھ زوجیت کے تعلق کو ہمیشہ قائم رکھو اور اس بات کی کوشش کرو کہ آپس میں کبھی کوئی تفرقہ اور جدائی نہ ہو۔
تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر !
موضوع کا تعارف
خاندانی منصوبہ بندی یا خاندان کی فلاح و بہبود کا مطلب یوں بیان کیا جاتا ہے کہ وسائل اور اخراجات کی اس طرح تنظیم کرنا کہ خاندان کے ہر رکن کو اس کے حقوق ملیں تاکہ وہ اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے سایہ میں ارتقاء کی منازل طے کرے، گویا کہ خاندانی منصوبہ بندی وسائل اور مصارف کے درمیان توازن قائم کرنے کی سرگرمی کا نام ہے۔ اگر خاندانی منصوبہ بندی کا یہ مفہوم درست ہو تو اسے ملکی سیاست و مصلحت کا حصہ کہا جانا چاہیے، مگر امر واقعہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی یا خاندان کی فلاح و بہبود یا بہبود آبادی کا خوشنما وسیع عنوان ”ضبط ولادت “کے ذیلی عنوان میں جاکر سمٹ جا تا ہے ۔
چنانچہ مذکورہ عناوین کے تحت کوئی بھی پروگرام کسی بھی نیک و بد عنوان سے شروع کیا جائے، اس کا اختتام موانع حمل کی تدابیر و طریق کار پر ہوگا، اور پورا زور اس بات پر نظر آئے گا کہ معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کے لئے آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح میں اس حصے تک کمی لانا ہے کہ وسائل کی قدر آبادی کی شرح سے زیادہ رہے، جس کی واحد صورت یہ ہے کہ آبادی پر مضبوط رکاوٹ باندھی جائے اور والدین کم سے کم بچے پیدا کریں ، اب اس سلسلے میں اہم سوال میاں بیوی کے طبعی جذبات اور ضروریات کا بھی ہے تو اس کے لئے کئی تدابیر اور طریقے متعارف کر وائے جاتے ہیں، یہی دراصل خاندانی منصوبہ بندی کا ہدف ہے ، گویا خاندانی منصوبہ بندی ایسا تکون ہے جو۱:․․ تحدید نسل ( آبادی کا محدود ہونا) ،۲:․․․ضبط ولادت ( بچوں کی پیدائش میں وقف، بندش) ۳:․․․ اور ان دونوں کا بنیادی محرک( فقر و فاقہ ، معاشی بدحالی سے بچنے اور خوشحال ترقی یافتہ زندگی کی خاطر تحدید نسل اور ضبط ولا دت کے فلسفے کو اپنانا اور اجاگر کرنا) نتیجہ کے لحاظ سے خاندانی منصوبہ بندی کا ” بنیادی محرک“ مقدمہ اولیٰ ہے، آبادی کا کنٹرول مقدمہ ثانیہ ہے اور ضبط ولادت ( برتھ کنٹرول) ان دونوں کا لازمہ یا نتیجہ ہے۔
” خاندانی فلاح و بہبود“ کی سرگرمیوں کا محور چونکہ ضبط ولادت ہے ،اس لیے ہماری گفتگو کا محور بھی” ضبط ولا دت“ ہی رہے گا، البتہ منطقی استدلال کے تحت نتیجے سے قبل دونوں مقدموں کا مختصر جائزہ لینا بھی مناسب ہے، تاکہ عقل پرست طبقہ جان سکے کہ ” ضبط ولادت “کا موضوع اسلامی ہے یا نہیں؟
اس موضوع کی خدمت میں اگر اسلام کی روح پائی جاتی ہے تو دینی عناوین کے تحت اس موضوع کی خدمت کرنے والے اہل علم حضرات ، تبلیغ دین کا فرض نبہارہے ہیں ،ان کی کوششیں قابل ستائش ہونی چاہئیں، اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر ایک تو ان اہل علم کو اپنے کردار پر نظر ثانی کر نی چاہیے ،دوسرے یہ کہ ان کی علمی کاوشیں اس تاویل و تحریف کے زمرے میں شمار ہو سکتی ہیں جن سے امت مسلمہ کو آگاہ کرنا علماء ربانیین کے فرائض میں شامل ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کا تاریخی و و اقعاتی پس منظر!
فقر و فاقہ ، معاشی بدحالی سے نجات یا بچاوٴ کے لئے اور خوشحال ترقی یافتہ زندگی گزارنے کی خاطر آبادی کو کم کرنے ،غذائی مواد واجناس اور آبادی کی رفتار میں تناسب قائم رکھنے کا نظریہ کب ،کیسے اور کیوں رواج پذیر ہو ا؟ فقہی پہلووٴں سے قبل اس کا جائزہ لیتے ہیں، چنانچہ آج سے تقریبا تین سو سال قبل ۱۷۹۸ء میں ٹامس رابرٹ مالتھس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا، جسے یہ غم دامن گیر تھا کہ جس رفتار سے انگلستان کی آبادی بڑھ رہی ہے، اگر آبادی کی یہی رفتار رہی تو آئندہ کچھ عرصہ میں آبادی کی شرح، غذائی پیداوار کی قدر کے مقابلے میں تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ نظریہ درحقیقت انتہائی نامعقول اور محض وہم تھا، اس لیے مالتھس کے ہم وطن اور ہم عصر دانشوروں نے اسے پذیرائی نہ بخشی ،بلکہ خود مالتھس نے اپنے نظریہ کو قابلِ ترمیم جانتے ہوئے ۱۸۰۳ء کو اپنے تحریری مقالے میں کچھ ترمیمات کیں۔ ۱۸۳۲ء کو اس نظریہ کے لازمہ اور نتیجہ ( مانع حمل) کی معقولیت و اہمیت سمجھانے کے لئے ایک امریکی فلاسفر ” چارلس کنولٹن “نے ایک پمفلٹ لکھ کر مشتہر کرنے کی کو شش کی، جسے اس کے معاشرے نے فحش اور ناشائستہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، بلکہ حکومتی کا رندے ضبط بھی کر لیا کرتے تھے، چنانچہ ۱۸۷۷ء میں اس قسم کے پمفلٹس بیچنے پر مقدمہ بھی چلا یا گیا ، مگر ہر دور میں اس نظریئے کو کہیں نہ کہیں سہارا ملتا رہا ، اسی اثناء میں ۱۸۷۸ء میں اس نظریہ کو ہالینڈ میں ایک کلینک قائم کرنے کی کامیابی حاصل ہوئی، پھر اس طرز کا ایک کلینک ۱۹۲۱ء کو لندن میں قائم ہوا۔
اسی طرح ۱۹۱۹ء میں” مارگریٹ سینگر“ نامی خاتون نے بروکلن ( امریکہ) میں اس نوعیت کا کلینک کھولا تو اسے پولیس نے بند کردیا ، مسز سینگر کو قید کردیا گیا ، مگر وہ دنیا کی سب سے پہلی تنظیم ”برتھ کنٹرول لیگ“ بنانے میں کامیاب ہو گئی، یوں رفتہ رفتہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور پابندیوں کا سلسلہ بھی بتدریج نرم ہوتا گیا اور مانع حمل تدابیر نے مستقل مشغلہ کی حیثیت اختیار کر لی۔ اور بلاخر ۱۹۳۶ء میں موانع حمل تدابیر ہر قسم کی پابندیوں سے مغرب کے ہاں قانوناً و مذہباً آزاد ہو گئیں، بلکہ آگے چل کر اس آزادی کو دسمبر ۱۹۶۷ء میں باقاعدہ بین الاقوامی موضوع کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں زیر بحث لا یا گیا اور ایک اسٹیٹ منٹ پالیسی طے کی گئی، اس موقع پر دنیا کے تقریبا ۱۲۶ ارکان نے شرکت کی، ۳۰ نے برتھ کنٹرول پالیسی پر دستخط کئے، جن میں دیگر چند اسلامی ممالک کے علاوہ پاکستان بھی شامل تھا (مستفاد ،از تفسیر ماجدی، از دریا آبادی ، نظرة الاسلام الی تنظیم النسل ، مدکتور، فقہی مضامین ، ڈاکٹر عبد الواحد صاحب ، فقہی مباحث ، قاسمی، ضبط ولادت۔)
پاکستان میں اس نظریہ کی آبیاری
سوئے اتفاق سے یہ پاکستان کے لئے وہ بد قسمت ایام تھے، جن میں” ادارہ تحقیقات اسلامی “ کے زیر عنوان ملحدین کی ایک جماعت اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کی خدمت انجام دے رہی تھی، چنانچہ اس جماعت نے بھی اس موضوع (برتھ کنٹرول) کی خوب خوب خدمت کی اور مغرب کی نمک حلالی کا بھر پور حق ادا کیا اور اس موضوع پر انہوں نے اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے ایسے شرعی دلائل و حوالے بھی برآمد کر ڈالے ،جن کے ذریعہ اسلامی جمہویہ پاکستان کے دین دار معاشرہ کو مالتھس اور سینگر کا نظریہ عین اسلام باور کرانے میں مدد مل سکے، ” ادارہ تحقیقات اسلامی“ کی الحادی ٹیم یوں تو خود بھی تحریفات اور تاویلات باطلہ میں ماہرانہ اختصاص کی حامل تھی، اسے کسی اور سے تعاون کی قطعاً ضرورت نہ تھی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بالعموم مغرب کا فکری و عملی طوفان جب بھی اسلامی دنیا کی طرف امڈ تا ہے تو وہ” مصر“ سے اسلامی سر ٹیفکیٹ ساتھ لیکر آتا ہے، ” ادارہٴ تحریفات اسلام“ کی خوش قسمتی اور اہل اسلام کی بد قسمتی سے ضبط ولادت کے موضوع پر مصر کے ایک دکتور ۱۹۶۵ء میں اس موضوع کی بہت بڑی خدمت کرکے فارغ ہو چکے تھے ، جنہوں نے اس صیہونی نظریئے کو اس قدر زور دار طریقے سے ”اسلامی نظریہ“ باور کرانے کی کو شش کی کہ ادارہ تحقیقات والوں کی ضرورت بھی بتمام و کمال پوری ہو ئی، انہیں نئے اجتہادات کی زحمت سے مستغنی کردیا ” دکتور سلام مدکور مصری“ نے ضبط ولادت کے نظریئے کو اسلام کے ایک اہم جزء کی حیثیت سے سمجھانے کے لئے جتنی ممکنہ نصوص ہو سکتی تھی ان سے استشراقی اوزاروں کے ساتھ ایسے دلائل گھڑے ہیں کہ بعد والے تمام مجوزین کے لئے اب تک توشہٴ فساد بنا ہوا ہے۔ اپنے فکری پیروکاروں پر دکتور موصوف نے مزید کرم یہ بھی فرما رکھا ہے کہ تحدید نسل، ضبط ولادت اور آبادی پر رکاوٹ کی نفی کرنیو الی نصوص میں زبر دست تاویلیں بھی کردی ہیں
میرے خیال میں جو آدمی ، تحدید نسل کے صیہونی نظریہ کو اسلامی کہنے کے لئے بضد ہو ، دین اسلام میں تحریف کی حدود سے گھبراتا نہ ہو اور دین میں مداہنت اس کے ہاں معمولی چیز ہو وہ دکتور سلام مدکور کے استنبطات اور اس کی تاویلات کو لیکر ضبط ولادت ( تحدید نسل) کے فکر و عمل کو ” اسلامی“ کہہ سکتا ہے۔
ایک مسلمان کے لئے تفصیل میں جائے بغیر جس قدر شواہد کی ضرورت ہے، وہ ملاحظہ ہوں۔
۱:․․․ افرادی قوت اور عددی کثرت ، اللہ تعالیٰ کے ان احسانات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص جتلائے ہیں، سورہٴ اعراف میں ارشادہے:
” وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ کُنۡتُمۡ قَلِیۡلًا فَکَثَّرَکُمۡ… الآیة۔ (الاعراف:۸۶)
ترجمہ:․․․”اوریادکروجب تم تھوڑے تھے،پھر تمہیں بڑھادیا“
۲:․․․ ذخیرہٴ احادیث میں ایسی لا تعداد نصوص موجود ہیں ، جن میں واضح طور پر یہ مضمون موجود ہے کہ افرادی قوت میں اضافہ ، مردم شماری میں کثرت ،زیادہ اولاد کی پیدائش اورخواہش ،اسلام کا بنیادی تقاضا ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقاضے کو کبھی ترغیب کی صورت میں، کبھی دعاء کی صورت میں اور کبھی صریح تاکید کی صورت میں بیان فرمایا ہے ، اس موضوع پر چندا حادیث ملاحظہ ہوں۔
۱:۔” عن ام سلیم انہا قالت: یارسول الله! خادمک انس ادع الله لہ، فقال:اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُہ، قال انس : فو الله مالی لکثیر، وان ولدی وولد ولدی یتعادون علی نحو المائة الیوم۔“ ( مسلم:۲/۲۹۸)
۱:۔” عن ام سلیم انہا قالت: یارسول الله! خادمک انس ادع الله لہ، فقال:اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُہ، قال انس : فو الله مالی لکثیر، وان ولدی وولد ولدی یتعادون علی نحو المائة الیوم۔“ ( مسلم:۲/۲۹۸)
ترجمہ:…”حضرت ام سلیم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ اپنے خادم حضرت انس کے لئے دعا فرمادیں، آپ انے فرمایا: اللہ اس کے مال واولاد کو زیادہ کرے اور برکت دے اس میں جو ا س کو دیا ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں :اللہ کی قسم میرا مال بھی بہت ہے اور میری اولاد اور اولاد کی اولاد آج سو سے بڑھ کر ہیں“۔
۲:۔”۔ تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ ، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ…“( ابو داوٴد : ۱/۵)
ترجمہ:…” محبت کرنے والی ،زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو،میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا “۔
۳:۔”وعن عیاض بن غنم قال: قال لی رسول الله صلی الله علیہ وسلم ذات یوم : یاعیاض! لا تَزَّوَّجَنَّ عَجُوزًا ، وَلا عَاقِرًا ، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ ۔“( مستدرک حاکم: ۴/۳۳۹ ،ط: دار المعرفة)
ترجمہ:۔”حضرت عیاض بن غنم سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ا نے مجھ سے فرمایا: اے عیاض! عمر رسیدہ اور بانجھ عورت سے ہرگز نکاح نہ کرنا، کیونکہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا“۔
۴:۔” إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ , وَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ , فَلَا تَقَتِّلُنَّ بَعْدِي ۔“(سنن ابن ماجہ: ص: ۲۸۳ )
ترجمہ:…”حوض پر میں تمہارا پیش رو ہوں گا اور میں تمہارے ذریعہ دیگر امتوں پر فخر کروں گا ،پس میرے بعد قتل وقتال ہرگز نہ کرنا“۔
۵:”۔وإنی مکاثر بکم الامم اوالناس فَلَا تُسَوِّدُوا وَجْهِي۔“ ( شرح مشکل الاثار: ۱/۳۳)
ترجمہ:…”میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا ،تم ہرگز مجھے رسوا نہ کرنا“۔
[سنن ابن ماجه » كِتَاب الْمَنَاسِكِ » بَاب الْخُطْبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ ... رقم الحديث: 3056] صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 2499
۶:۔”وإنی مکاثر بکم الامم، لا تسودن وجہی۔“ (الآحاد المثانی: ۵/۳۵۱)
ترجمہ:…”میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا، تم ہرگز مجھے رسوا نہ کرنا“۔
۷:۔” عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسَلَّمَ : " دَعُوا الْحَسْنَاءَ الْعَاقِرَ ، وتَزَوَّجُوا السَّوْدَاءَ الْوَلُودَ ، فَإِنِّي أُكَاثِرُ بِكُمُ الأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، حَتَّى السِّقْطِ يَظَلُّ مُحْبَنْطِيًا ، أَيْ مُتَغَضِّبًا ، فَيُقَالُ لَهُ : ادْخُلِ الْجَنَّةَ ، فَيَقُولُ : حَتَّى يَدْخُلَ أَبَوَايَ ، فَيُقَالُ : ادْخُلْ أَنْتَ وأَبَوَاكَ " .“ (مصنف عبد الرزاق:۶/۱۶۰)
[مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ النِّكَاحِ » بَابُ نِكَاحِ الأَبْكَارِ والْمَرْأَةِ الْعَقِيمِ ... رقم الحديث: 10097]
[مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ النِّكَاحِ » بَابُ نِكَاحِ الأَبْكَارِ والْمَرْأَةِ الْعَقِيمِ ... رقم الحديث: 10097]
خلاصة حكم المحدث: مرسل صحيح
ترجمہ:۔”محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا :خوبصورت بانجھ عورت کو چھوڑدو اور کالی زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو، میں تمہاری کثرت کے ذریعہ قیامت کے دن اور امتوں پر فخر کروں گا، یہانتک کہ … اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا ،وہ کہے گا: میں اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوں گا جب تک میرے والدین کو بھی جنت میں داخل نہ کیا جائے، پس کہا جائے گا تم اپنے والدین کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ “۔
۸:۔” أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسَلَّمَ ، فَقَالَ : ابْنَةُ عَمٍّ لِي ذَاتَ مِيسِمٍ ومَالٍ ، وهِيَ عَاقِرٌ ، أَفَأَتَزَوَّجُهَا ؟ فَنَهَاهُ عَنْهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا ، ثُمَّ قَالَ : لامْرَأَةٌ سَوْدَاءُ ولُودٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهَا ، أَمَّا عَلِمْتَ أَنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ ۔“ ( مصنف عبد الرزاق: ۶/۱۶۱)
[مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ النِّكَاحِ » بَابُ نِكَاحِ الأَبْكَارِ والْمَرْأَةِ الْعَقِيمِ ... رقم الحديث: 10098]
[مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ النِّكَاحِ » بَابُ نِكَاحِ الأَبْكَارِ والْمَرْأَةِ الْعَقِيمِ ... رقم الحديث: 10098]
ترجمہ:۔”ایک آدمی حضور ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میرے چچا کی بیٹی مالدار عورت ہے اور وہ بانجھ ہے، کیا میں اس سے نکاح کرلوں؟ آپ ا نے اس شخص کو اس نکاح سے منع کیا ،دو یا تین بار فرمایا: کالی زیادہ بچے جننے والی عورت مجھے اس سے زیادہ پسند ہے، کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہاری کثرت پر دیگر امتوں کے مقابلے میں فخر کروں گا“۔
۹:۔” أَنْ تَنْكِحَ سَوْدَاءَ ولُودًا ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَنْكِحَهَا حَسْنَاءَ جَمْلاءَ لا تَلِدُ " . ( مصنف ابن ابی شیبہ : ۶/۱۶۱)
ترجمہ::۔”حضور ا نے ارشاد فرمایا: کہ تم کالے رنگ والی زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو ،یہ بہتر ہے اس سے کہ تم خوبصورت حسین وجمیل بانجھ عورت سے نکاح کرو“۔
۱۰:۔” سَوْدَاءُ وَلُودٌ خَيْرٌ مِنْ حَسْنَاءَ لا تَلِدُ ، إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ حَتَّى بِالسِّقْطِ۔“ (المعجم الکبیر، معاویة بن حکم السلمی:۱۹/۴۱۶) [المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الْمِيمِ » مَنِ اسْمُهُ مُعَاوِيَةَ » مُعَاوِيَةُ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ ... رقم الحديث: 16376]
ترجمہ:۔”کالے رنگ کی زیادہ بچے جننے والی عورت بہتر ہے خوبصورت بانجھ عورت سے، میں تمہاری کثرت کے ذریعہ دیگر امتوں کے مقابلے میں فخر کروں گا، یہانتک کہ گرا ہوا لوتھڑا بھی کثرت میں شمار ہوگا“۔
اس مضمون کی بے شمار حدیثیں کتب حدیث میں موجود ہیں، بطور نمونہ یہ چند احادیث ان اہل اسلام کے لئے نقل کی جارہی ہیں جو حدیث کو حجت مانتے ہیں اور صریح حدیثوں کے مقابلے میں کٹ حجیتوں کو دین و ایمان کے منافی خیال کرتے ہوں، ورنہ ایک نظریہ قائم کرکے اس کے تحت دلائل جمع کرنے اور اس کے معارض دلائل کو رد کردینے والوں کا تا قیامت کوئی علاج نہیں، کیونکہ ایسے لوگوں کے لئے تا قیامت امہال و انظار کا فیصلہٴ خدا وندی صادر ہوچکا ہے۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے اگر کوئی شخص ” خاندانی منصوبہ بندی“ کے حوالے سے شریعت کا واضح موقف جاننا چاہے اور مزاجِ نبوت اپنانا چاہے تو اس کے لئے درج بالا صریح روایات کافی ہیں ، ایک بادی النظر شخص بھی ان روایتوں سے مندرجہ ذیل فوائد اخذ کر سکتاہے:
۱… مسلم آبادی کی کثرت اور بڑھوتری ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آرزو اور تمنا تھی۔
۲… حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کی کثرت اور بہتات کے لیے خصوصی ترغیبات دی ہیں۔
۳… افرد امت اور کثرت اولاد کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی دعائیں ارشاد فرمائی ہیں۔
۴… امت کی کثرت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باعثِ فخر اور قلت ( محدود ہونے )کو باعثِ شرمندگی ٹھہرایا ہے۔
۵… کثرت میں ناتمام لوتھڑا( گراہوا حمل) بھی شمار ہوگا۔
۶… حسن و جمال اور مال و متاع جیسے کمالات کی بجائے حضور صلی الله علیہ وسلم نے کثرت ولادت اور تولیدی صلاحیت کو باعثِ کمال اور لائقِ نکاح قرار دیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ جو اہل علم” عزل“ کی رخصتوں کے سہارے مروجہ خاندانی منصوبہ بندی / ضبطِ ولادت کا جواز بتانے کے لیے مختلف دلائل پیش کرتے ہیں، کیا وہ مسلمانوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ:
۱… کیا مروجہ خاندانی منصوبہ بندی کے جواز کے لیے اس درجہ کی کوئی ایک روایت بھی موجود ہے، جس میں یہ صراحت ہو کہ آبادی کم رکھنا اور بچوں کی تعداد ہر گز نہ بڑھانا؟
۲… خاندانی منصوبہ بندی کی نفی کرنے والی روایات جس قدر صریح اور واضح ہیں ،کیاا س کو ثابت کرنے والی روایات بھی اس قدر صریح اور واضح ہیں؟
۳… کیا پورے ذخیرہٴ حدیث میں کوئی ایک ایسی روایت پائی جاتی ہے جس میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہو کہ زیادہ بچے پیدا کروگے تو فقر وفاقہ اور تنگدستی کا شکار ہو جاوٴگے؟
۴… کیا کوئی ایک ایسی ( ضعیف ہی سہی) روایت مجوزین بتا سکتے ہیں جس میں ارشاد ہو کہ اپنی آبادی کو کم رکھنا ،ورنہ قیامت میں مجھے شرمساری کا سامنا ہو سکتا ہے؟
۵… مجوزین حضرات کوئی ایک ضعیف یا موضوع روایت بھی دکھا سکتے ہیں جس میں یہ فرمایا گیا ہو کہ شادی کے لیے ایسی عورتوں کا انتخاب کرنا جن میں بچے جننے کی صلاحیت نہ ہو یا ہو تو بالکل کم ہو؟
اگر خاندانی منصوبہ بندی کو جواز فراہم کرنے والے ان سوالوں کا جواب نفی میں دیں اور یقینا جواب نفی میں ہی ہوگا تو ان سے خیر خواہانہ گزارش ہے کہ ان کا طرز عمل شریعت اسلامیہ سے متصادم جارہا ہے، ان کی کاوشیں مزاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معارضہ کررہی ہیں،لہذا اگر مجوزین خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع کو دین کا مسئلہ سمجھ کر اس کا جواز ثابت کرنے کے لیے کو شاں ہیں اور اپنی نیتوں میں مخلص ہیں تو انہیں اپنے موٴقف پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہیے، ہاں! اگر کوئی مسلم دانشور مالتھس کے نظریے کی فقہی تخریج کو اسلامی خدمت کہنے پر مصر ہو تو اس کا معاملہ الگ ہے،۔یہ نظریہ کسی غلط فہمی پر مبنی نہیں ہے، جو دلائل اور براہین سے تبدیل ہو سکے ،بلکہ یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قائم ہوا ہے، جو کسی دلیل اور حجت کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے اس کی تاویل و تردیدکو اپنی ذ مہ داری سمجھ کر بجالانے کے لیے کمر بستہ ہے ۔ یہ سلسلہ گذشتہ نصف صدی سے اسلامی دنیا میں قائم ہے،اس اکھاڑے میں پہلے صرف تجدد پسند طبقہ شریک تھا، اب مختلف عناوین کے تحت متدین علماء کرام کو بھی شریکِ موضوع بنایا جارہا ہے۔علماء کرام نیک مقاصد کے تحت ایسی مجالس میں شریک ہو ئے ہیں اور اہل مجالس ان کی شرکت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اگر خاندانی منصوبہ بندی کو جواز فراہم کرنے والے ان سوالوں کا جواب نفی میں دیں اور یقینا جواب نفی میں ہی ہوگا تو ان سے خیر خواہانہ گزارش ہے کہ ان کا طرز عمل شریعت اسلامیہ سے متصادم جارہا ہے، ان کی کاوشیں مزاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معارضہ کررہی ہیں،لہذا اگر مجوزین خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع کو دین کا مسئلہ سمجھ کر اس کا جواز ثابت کرنے کے لیے کو شاں ہیں اور اپنی نیتوں میں مخلص ہیں تو انہیں اپنے موٴقف پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہیے، ہاں! اگر کوئی مسلم دانشور مالتھس کے نظریے کی فقہی تخریج کو اسلامی خدمت کہنے پر مصر ہو تو اس کا معاملہ الگ ہے،۔یہ نظریہ کسی غلط فہمی پر مبنی نہیں ہے، جو دلائل اور براہین سے تبدیل ہو سکے ،بلکہ یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قائم ہوا ہے، جو کسی دلیل اور حجت کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے اس کی تاویل و تردیدکو اپنی ذ مہ داری سمجھ کر بجالانے کے لیے کمر بستہ ہے ۔ یہ سلسلہ گذشتہ نصف صدی سے اسلامی دنیا میں قائم ہے،اس اکھاڑے میں پہلے صرف تجدد پسند طبقہ شریک تھا، اب مختلف عناوین کے تحت متدین علماء کرام کو بھی شریکِ موضوع بنایا جارہا ہے۔علماء کرام نیک مقاصد کے تحت ایسی مجالس میں شریک ہو ئے ہیں اور اہل مجالس ان کی شرکت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ضبط ولادت اور اسلامی نقطہٴ نظر
”تحدید نسل“ کا شریعت اسلامیہ کی روشنی میں جائزہ لینے کے بعد اب ضبط ولادت سے متعلق اسلامی نقطہ ٴ نظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ضبطِ ولادت یا منعِ حمل کا موضوع اس معنی کر فقہی موضوع کہلاتا ہے کہ اس کے لیے جو بنیاد بتائی جاتی ہیں، اس بنیاد پر فقہاء کرام نے حسبِ موقع کلام کیا ہے، وہ ”بنیاد“ ”عزل“ ہے ( بیوی یا باندی سے اس طور پر شہوت پوری کرنا کہ مادہ منویہ کا اخراج محل میں نہ ہو) اس مسئلے پر حدیث وفقہ کی ہر کتاب میں تقریباً بحث موجود ہے، کہیں گنجائش کا بیان ہے اور کہیں ممانعت و نکیر کو وضاحت و صراحت کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے ،اس موضوع پر مفصل بحث ابن قیم رحمہ اللہ کی زاد المعاد اور امام غزالی رحمہ اللہ کی احیاء العلوم میں آداب المعاشرہ کے تحت مذکور ہے، مفصل بحث کے چند مندرجات کو خاندانی منصوبہ بندی کا حامی طبقہ اپنی حمایت میں زور و شور سے پیش کرتا ہے۔
حالانکہ ان پر لازم تھا کہ وہ دونوں پہلووٴں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں بھی مزاجِ نبوی کا ادب بجالاتے اور امام غزالی رحمة اللہ کے فلسفی نقطہٴ نگاہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ۔اہل علم جانتے ہیں کہ احکام شریعت کی عقلی حکمتوں و مصلحتوں سے بحث کرنا، احکام شریعت کے دینی و روحانی ثمرات کے ساتھ مادی فوائد سمجھانے کے لئے امام غزالی رحمة اللہ کا خاص طریقہ کار ہے، ایک ادنیٰ درجہ کا طالب علم بھی اگر امام غزالی رحمة اللہ یا دیگر اسلامی فلاسفروں کی اس موضوع پر گفتگو کا جائزہ لے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ یہ بزرگ یہ سمجھا نا چاہتے ہیں کہ” عزل“ کی ناپسندیدگی کے باوجود گنجائش کے بیان میں کیا حکمت ہے؟ اسباب ووجوہ کیا ہیں؟ دوسرے یہ کہ گنجائش اور رخصت کے لیے کیا کیا شرائط ہونی چاہئیں؟۔
غور فرمائیے کہ ” عزل“ کے جواز کے لئے حکمت کا بیان اور شرائط کا التزام خود اس بات کی دلیل ہے کہ” عزل“ کا مسئلہ اتنا عام الوقوع یا مطلق الجواز نہیں ہے، جتنا اسے سمجھا اور باورکرایا جارہا ہے، مگر جن لوگوں نے اسے ہر حال میں جائز ثابت کرنا ہے اور اس پر عمل کو کارِ ثوب باور کرانا ہے، انہیں کسی عبارت میں عزل کے ساتھ بس لفظِ ”جائز“ کے علاوہ کچھ دیکھنا ،سوچنا اور پڑھنا ہی نہیں ہے، یہ نفسیاتی مسئلہ ہے فقہی نہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کے علم برداروں کے شرعی مشیر ”نس بندی“ کو منصوبہ بندی باور کرانے کے لیے عام طور پر ان احادیث مبارکہ کو پیش کرتے ہیں جن سے بظاہر ”عزل“ کا جواز ثابت ہو تا ہے، حالانکہ صحیح دینی رائے قائم کرنے کے لیے ان روایتوں کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے جن میں عزل کی ناپسندیدگی کا تذکرہ ہے، نیز یہ بات بھی انتہائی غور طلب تھی کہ آیا عزل کا مسئلہ شریعت کے تعبدی امور میں سے ہے یا میاں بیوی کے مخصوص تعلق کے ضمن میں محض انفرادی اور خانگی مسئلہ ہے؟
اس لیے ذیل میں اس مضمون کی دونوں طرح کی چند روایتیں نقل کرنے کے بعد اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں، چنانچہ عزل کے جواز پر پیش کی جانی والی مشہور روایت یہ ہے:
۱:۔” قال عمر : واخبرنی عطاء انہ سمع جابرا رضی الله عنہ یقول: کنا نعزل والقرآن ینزل۔“
۲:۔ ”وفی روایة: کنا نعزل علی عہد رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فبلغ ذلک النبی صلی الله علیہ وسلم فلم ینہنا۔“
۳:۔ ”وفی روایة: عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ أنہ قال: نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یعزل عن الحرة إلا باذنہا۔“
۲:۔ ”وفی روایة: کنا نعزل علی عہد رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فبلغ ذلک النبی صلی الله علیہ وسلم فلم ینہنا۔“
۳:۔ ”وفی روایة: عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ أنہ قال: نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یعزل عن الحرة إلا باذنہا۔“
۴:۔ دوسری طرف حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت ہے، جو غزوہٴ بنی مصطلق کے موقع پر واردہوئی تھی کہ انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے یوں ارشاد فرمایا:”ما علیکم ان لا تفعلوا ، ما من نسمة کائنة الی یوم القیٰمة الا وھی کائنة۔“
یعنی اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں، کیونکہ جو جان قیامت تک پیداہونی والی ہے ،وہ ضرور ہو کر رہے گی۔
۵… ایک اور روایت حضرت جذامة بنت وہب کی ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:”
ذلک الوأد الخفی، وھی اذا الموٴودة سئلت۔
یعنی ” عزل “ خفیہ طریقے سے اولاد کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے ،جو آیت قرآنی ”إذاالموٴودة سئلت“ کے زمرے میں آتا ہے۔
۶… حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے یوں بھی روایت ہے:
”اصبنا سبیا فکنا نعزل فسألنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم فقال: أوإنکم تفعلون؟ قالہا ثلاثا ، ما من نسمة کائنة الی یوم القیٰمة الا ھی کائنة۔“
یعنی جب حضور صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ نے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اظہار تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ: کیا تم لوگ ایسا کرتے ہو؟یا جس نفس کو بھی تا روز قیامت پیدا ہونا ہے ،وہ بہرحال پیدا ہوکر رہے گی۔
۷… حضرت اسماء بنت یزید رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کویہ کہتے ہوئے سنا ہی:
”لا تقتلوا أولادکم سراً، فان الخیل یدرک الفارس۔فیدعثرہ عن فرسہ “ (أبو داؤد)
۸…حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:
”إنی أعزل عن امرأتی فقال لہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لم تفعل ذلک ؟ فقال الرجل: أشفق علی ولدہا ، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لو کان ذلک ضاراً اضر فارس والروم ۔“ ( مشکوٰة المصابیح، ص: ۲۷۶، )
۹:۔” عن أسامة بن زید قال : جاء رجل إلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم فقال: إنی أعزل عن امرأتی شفقة علی ولدہا، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لا، ان کان ذلک فلا ، ما ضر ذلک فارس ولا الروم (مسلم)
۱۰:۔” عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ ، أنہ قال: نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یعزل عن الحرة إلا باذنہا (مسند احمد) وکذا عن ابن عباس قال: نہی عن عزل الحرة إلا بإذنہا ( عبد الرزاق والبیہقی)
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ میں واضح طور پر یہ بیان موجود ہے کہ”عزل“ کے جواز کے ساتھ ساتھ ممانعت اور قباحت و شناعت کا بیان بھی مذکور ہے، البتہ یہ فرق صاف عیاں ہے کہ اجازت کا بیان مخصوص، مشروط ومقید ہے، اور کراہت و ناپسندیدگی کا بیان عموم و اطلاق سے با وصف ہے۔
ممانعت کی روایتوں میں یہ بھی صراحت پائی جارہی ہے کہ اگر عزل کے پیچھے متوقع خدشات و توہمات کارفرما ہوں تو پھر درست نہیں ہے
تیسرا یہ کہ خود ”جواز“والی روایتوں سے واضح طور پر ثابت ہو تا ہے کہ ”عزل“ میاں بیوی کا انفرادی ، ذاتی اور صوابدیدی معاملہ ہے، اسے ادارتی و ریاستی مداخلت سے محفوظ اور دور رکھنا چاہیے، جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سے آپ کی ناگواری اور ناپسندیدگی عیاں ہے، مگر کلی طور پر ممانعت نہیں فرمائی، بلکہ کبھی یوں فرمایا کہ: اگر ایسا نہ کرو تو تمہیں کیا نقصان ہوگا۔ کبھی یوں فرمایا کہ: آزاد عورت کی رضامندی سے ایسا کرسکتے ہو اور خود سب سے بڑا مستدل” کنا نعزل والقرآن ینزل“ اس بات کا بیان ہے ” عزل “ قانونی و دستوری مداخلت سے آزاد رہا ہے۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہاے کہ ” عزل“ کے جواز پر جن روایتوں سے استدلال کیا جاتا ہے ،ان روایتوں سے جہاں” عزل“ کی گنجائش معلوم ہو تی ہے، اس سے زیادہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ میاں بیوی کے اس انفرادی صوابدیدی عمل میں ریاستی ، قانونی یا ادارتی دخل اندازی کا کوئی جواز نہیں، یعنی اس مسئلے کو تنظیم ، ادارہ یا ریاست کی سطح پر اٹھانا بالکل درست نہیں ہے۔
چوتھا یہ کہ جواز بتانے کے لئے جو الفاظ و تعبیرات استعمال ہوئے، وہ ناپسندیدگی سے خالی نہیں ۔ اس کے مقابلے میں ممانعت والی روایتوں میں بیان حکم کے لیے زیادہ سخت الفاظ استعمال کے لیے گئے ہیں مثلا ” وادخفی“ ( خفیہ طور پر زندہ درگوری)، یہ ڈانٹ کہ نہ کریں۔ اور” قتل بالسر“(یعنی خفیہ طورپر قتل کرنا)، تو ہم پرستی کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کے ازالے کے لیے” عار“ دلانے کے لیے کافروں کی مثالیں دینا وغیرہ وغیرہ۔
اس حقیقت حال کی روشنی میں ”عزل“ کے مجوزین کے مطلق استدلال ، طرز استدلال اور یکطرفہ روش تو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ البتہ اس مسئلے سے متعلق جہاں تک ابحاث کے علمی پہلو کا تعلق ہے، وہ نہ تو زیادہ طویل ہے، نہ اتنا پیچیدہ اور گنجلک ہے ،جسے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ڈھیروں خزانے خرچ ہوں اور ضخیم ،ضخیم مقالے لکھے جائیں۔
دوسری طرف جب ان ( منع والی ) احادیث کو رخصت و اجازت والی حدیثوں کے ساتھ جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں تو یہی رائے سامنے آتی ہے کہ ممانعت کراہت تنزیہی پر محمول اور اجازت کا محور و محمل یہ ہے کہ عزل بس حرام نہیں ہے، اجازت کا یہ معنی نہیں ہے کہ کراہت ہی ختم ہوگئی، ( نووی علی مسلم :۱/۴۶۴)
بنا بریں صحیح نقطہٴ نظر یہی معلوم ہو تا ہے کہ ” عزل “ نہ تو بالکل حرام ہے اورنہ بلا کراہت جائز ہے ، جہاں جن صورتوں میں کراہت کے ساتھ جائز ہے وہ شریعت کا لازمی تعبدی حکم ہر گز نہیں،جسے بلا روک ٹوک بے حجابانہ اختیار کیا جائے، اسے پیشہ اور مشن بنایا جائے اور سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کی مستقل مصروفیت میں دیا جائے، بلکہ یہ میاں بیوی کا باہمی انفرادی، نجی اور بند کمرے کا صوابدیدی معاملہ ہے، وہ ان کے ذاتی حالات کے تناظر میں زیادہ سے زیادہ مباح عمل ہے۔
اور مباحات کا ضابطہ امام شاطبی رحمة اللہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ ” ھوتابع للأغراض “ اگرمباح اعمال کا محرک صحیح غرض ہو تو صحیح ہے اور اگر مباح اعمال میں غرض فاسد کی تحریک شامل ہو یا عام معمول کے مطابق مباح عمل کسی ممنوع کام کے لیے وسیلہ بنتا ہے تو ایسے مباح کو ممنوع کا م کا وسیلہ ہونے کی بنا پر اختیار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (الموافقات:۱/۱۷۶)
لہٰذا یہ کہنے کی مطلق گنجائش ہے کہ اگر عزل کی رخصتوں کی بنیاد پر منع حمل کی احتیاطی تدابیر میاں بیوی ذاتی عوارض کے تحت کریں تو مباح ہے اور اگر خاندانی منصوبہ بندی کے مغربی مشن کی تکمیل کے لیے کریں تو غرض فاسد کی وجہ سے ناجائز ہے۔واللہ اعلم
مجموعہ خاندانی فلاح و بہبود سے متعلق چند غور طلب اور قابل اصلاح امور !
۱… خاندان کی فلاح و بہبود کا یہ مطلب لینا کہ ” خاندان کے ہر رکن کو اس کے حقوق ملیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کر سکے، کئی پہلووٴں پر مشتمل ایک وسیع اور پھیلے ہوئے موضوع کو ایک ہی رخ سے موضوع بحث بنا نے کی وجہ سے محل نظر ہے، ہونا تو یہی چاہے تھا کہ اس ہمہ جہتی موضوع کے ہر ہر پہلو کو لے کر اس کے تمام عوامل و نتائج سے بحث ہو تی کہ خاندان کی فلاح و بہبود کا مقصد مکمل حاصل ہو سکے۔
تو ملحوظ رہے کہ وسائل و اخراجات کی تنظیم و تقسیم کا تعلق اصل” معاشیات “ سے ہے ، خاندان کی فلاح و بہبود کے موضوع سے کسی گونا تعلق ہونے کی وجہ سے اس پر ضمنی طور پر تو بحث ہو، لیکن اسی کو خاندان کی فلاح و بہبود کا اصل مطلب قرار دیکر بنیاد بنانا غور طلب امر ہے۔
۲…” بغل اور زیر ناف بال“ کے عنوان کے تحت صرف اتنا ذکر کرنا کافی تھا کہ یہ بھی صفائی وستھرائی کے فطری امور میں سے ہیں ،غیر ضروری تفصیلات ،علتوں ، حکمتوں اور صفائی کے قدیم و جدید طریقے ذکر کرنے کی بجائے اتنی بات لکھ دیناکافی تھا جس سے بغل اور زیر ناف بالوں کی صفائی و ستھرائی کا ضروری ہونا معلوم ہوجائے۔ کیونکہ یہ مجموعہ نو مسلموں کے لئے ترتیب نہیں دیا گیا کہ جن کو ہر چیز تفصیل سے سمجھانی پڑے ، بلکہ یہ ایک ایسے مسلم معاشرے کے لئے ہے، جس میں صفائی کا ضرورت مند ہر مسلمان صفائی کے طریقے کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔
۳… ” ختنہ کروانا“ کے زیر عنوان ختنہ کروانے والے کے لئے مرد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، حالانکہ مسلمانوں میں عموما بچپن ہی میں ختنہ کرنے کا رواج پایا جاتا ہے، اکاد کا واقعات کے علاوہ ختنہ کرنے کے لئے بچپن سے بڑھ کر بالغ ہونے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔،لہٰذا ” مرد“ کی تعبیر بدل کر ”بچے “ کی تعبیر استعمال کرنی چاہیے۔
۴… انسانی صحت اور جسمانی قوت کی تباہی اور لا علاج امراض پیدا ہونے کے جہاں اور اسباب ہیں، وہیں ایک بڑا اور مہلک سبب جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مرض” ایڈز“ ہے، جس کی تباہ کاریوں سے مسلم معاشرے کو تحفظ دینا خاندانی فلاح و بہبود کے مقاصد کی برآری میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اس لئے خاندانی فلاح و بہبود کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کے بظاہر خوش نما لیکن درحقیقت مسلم سوسائٹی کے لئے تباہ کن نعرے لگانے کی بجائے اس طرف اصل توجہ ہو نی چاہیئے کہ خاندانی نظام کی چولیں ہلادینے والے امر یعنی” جنسی بے راہ روی“ کی روک تھام کیسے ممکن ہو ، اس کے لئے کیا اسباب اختیار کئے جائیں اور کن وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔
لیکن افسوس کامقام یہ ہے کہ ہمارے ملک میں” جنسی بے راہ روی“ کے بڑھتے ہوئے اس سیلاب کے سامنے بندباندھنا توکجا، الٹا اسے حدود آرڈیننس کے ترمیمی بلوں کے ذریعے تحفظ دے دیا گیا ہے، جنسی بے راہ روی، ناجائز اولاد پیدا کرنے کی مذمت اور اس کے انسداد کی بجائے خاندانی فلاح و بہبود کے لئے خاندانی منصوبہ بندی اور غربت کے خاتمے کے لئے صرف جائز اولاد کی روک تھام کرنے کوہی اولین ترجیح دی جارہی ہے ،جو کسی طرح بھی اسلامی مزاج و مذاق سے میل نہیں کھاتی ،بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ سراسر خاندان کی اسلامی فلاح و بہبود کے منافی ہے۔
خاندانی فلاح و بہبود کا تصور اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ معاشرتی اور خاندانی نظام کو جنسی آزادی اور شہوانی خواہشات پورا کرنے کے ناجائز اور غیر اسلامی طریقوں سے بالکل پاک نہ کر دیا جائے اور اسلام نے نکاح کی شکل میں مسلم معاشرے و خاندان کی بقاء کا ضامن ، عزت و عصمت کے تحفظ اور عفت و پاکدامنی حاصل کرنے کا جو بہترین راستہ بتلایا ہے، صرف وہی اختیار نہ کر لیا جائے۔لہٰذا اسلامی نظریاتی کونسل اپنے قیام کے مقاصد کو پورا کرتے ہوئے اس طرف خصوصی اور بھر پور توجہ دے، تاکہ خاندانی بہبود آبادی کا پروگرام اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ ترقی پذیر ہو کر پایہ تکمیل کو پہنچے۔
۵… قرآن کریم، احادیث اور دیگر تفسیری و تشریحی عبارتوں کے ذکر کرتے وقت ان کے اعراب یعنی زیر زبر پیش وغیرہ کو ٹھیک ٹھیک لگانے کا اہتمام ضروری ہے، چنانچہ” بچوں پر سختی “ کے عنوان کے تحت جو حدیث ذکر کی گئی ہے ،اس میں لفظ”مرّوا“ (تشدید کے ساتھ) ذکر گیا ہے۔ جبکہ صحیح ” مروا“ (بلا تشدید)ہے۔
۶… اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا دارالا سباب ہے ،جس میں پیش آمدہ ہر واقعے اور حادثے کا کوئی نہ کوئی سبب اور پس منظر ضرور ہو تا ہے، جیسا کہ مجموعہ ہٰذا میں اسلامی ممالک کودر پیش غربت کے خوفناک مسئلے کا سبب معاشی عوامل کے نظر انداز کرنے کو بتلایا گیا ہے ،لیکن اس کی تلافی اور حل کے لئے صرف اس بات پر ہی زور دینا کہ مسلمان” تنظیم نسل“ کے لئے بچوں کی افزائش میں کمی کریں، تاکہ مسلم ممالک کو درپیش غربت کا خاتمہ ہوسکے، درست نہیں ، بلکہ اس کے حل کے لئے غربت کے انفرادی، معاشرتی ، اجتماعی او رملکی اسباب کی نشاندہی کرنی چاہیے، خلفاء راشدین علیہم الرضوان، اسلامی تاریخ کے عادل وانصاف پسند امراء و سلاطین کے حالات اور ان کے قائم کردہ تقسیم دولت کے نظام کا مطالعہ کرکے تجاویز مرتب کی جائیں، سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی طبقاتی تقسیم کو ختم کیا جائے اور زکوة ،عشر ، خراج بیت المال وغیرہ اسلامی اصطلاحات کو امانت و دیانت کے ساتھ جاری کرنے کا منصوبہ بنا لیا جائے تو غربت کا یہ عفریت یقینا قابو میں آسکتا ہے۔
” آیات رزق“ سے علماء اسلام نے جو کچھ سمجھا اور لکھا ہے ، دیگر آیات و احادیث اور سلف صالحین ہی کی تشریحات کی روشنی میں لکھا ہے کہ فقرو فاقے کے خوف سے افزائش نسل میں کمی کرنے کی بجائے ان کی معاشی کفالت کا بندو بست کرنا چاہیے، چنانچہ التحریر والتنویر میں علامہ طاہر بن عاشور لکھتے ہیں:
۷… ” شادی کی عمر بلوغ یارشد“ کے زیر عنوان شادی کی عمر کے لئے” بلوغت“ کی بجائے” رشد“ کو معیار قرار دیکر اس کی حکمتوں اور علتوں سے جو بحث کی گئی ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں رواج یہی ہے کہ والدین اپنی اولاد کی شادی ایسی عمر میں کراتے ہیں جب وہ اپنے نفع ونقصان کو سمجھنے اور شادی کے معاملات نمٹانے کے قابل ہو چکے ہو تے ہیں۔ لیکن بچپن میں یا بالغ ہونے کے فوراً بعد شادی کرنے کا اگر کہیں رواج بھی ہو تو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہونے کی بناء پر یہ بھی جائز ہے، اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کا نکاح ان کے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے چھ سال کی عمر میں حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کردیا تھا، حضرت قدامہ بن مظعون رضی الله عنہ نے حضرت زبیر رضی الله عنہ کی بیٹی سے اسی دن نکاح کر لیا تھا، جس دن وہ پیدا ہوئی تھیں۔( علی القاری، مرقاة :۶/۲۹۴، کتاب النکاح، باب الولی ، الفصل الاول، ط: رشیدیہ کوئٹہ)
اسی طرح رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی چچا زاد بہن امامہ بنت حمزہ رضی الله عنہما کا نکاح بچپن ہی میں عمر بن ابی سلمہ سے کیا تھا،( ابن الہمام/ فتح القدیر:۱/۲۷۶ ، کتاب النکاح ، باب الاولیا والاکفاء، ط: دار الفکر)
اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کل ہر لڑکے اور لڑکی کے برابر کا جوڑ ملنا خاصا مشکل ہے، اس لئے اگر بچپن میں یا بالغ ہونے کے بعد برابری کا جوڑ ملنے پر ان کی شادی کرادی جائے تو اس سے ان کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہونگے اور خاندانی فلاح و بہبود کا مقصد بھی حاصل ہو سکے گا۔ لہٰذا صرف یہ عذر پیش کرکے کہ” شادی صرف جنسی تسکین کے لئے نہیں“ بلوغت یا بچپن میں شادی کرنے کی بجائے سن رشد کو معیار اور ضابطہ بنالینے سے دین اسلام کے احکام کو معطل کرنے اورشرعی گنجائشوں کو قانون کے خول میں بند کرنے کا ارتکاب لازم آرہا ہے۔ اس لئے جائز احکام کو جائز ہی رہنے دیا جائے، اپنی طرف سے معیار اور ضابطے بنا کر احکام کی آزادی کو ختم نہ کیا جائے۔
۸… ” منع حمل کے مصنوعی ذرائع“ :۔ خاندانی بہبود آبادی اور خاندان کے نظم و تنظیم کے تحت اس موضوع کو غیر معمولی تفصیل سے ذکر کرنے سے یہ بات بادی النظر میں سمجھی جا سکتی ہے کہ خاندان کی تنظیم کا اساسی اور بنیادی ستون اسی کو قرار دیا جا رہا ہے، اور مسلمانوں کو افزائش نسل میں کمی اور بچوں کی شرح پیدائش پر کنٹرول کرنے کے لئے منع حمل کے ذرائع استعمال کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ خاندانی تنظیم کے لئے اس پہلو سے ہٹ کردیگر پہلو بھی ہیں ،جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔
دوسری بات یہ ہے کہ عزل وغیرہ کے ذریعے منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا کوئی قانونی یا شرعی امر نہیں بلکہ یہ نجی سطح پر میاں بیوی کا انفرادی عمل ہے، جس کی اجازت مخصوص حالات و اعذار اور جزوی مواقع میں بلاکراہت دی گئی ہے، جیسا کہ اس کی مثالیں ص: ۶۵ پر مفتی رشید احمد صاحب اور مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہا الله کے فتاویٰ میں موجود ہیں۔ضرورت کی بناء پر منع حمل کی تدابیر اختیار کرنے سے کسی عالم و مفتی نے منع نہیں کیا، لیکن ان ” خاص حالات و اعذار“ سے صرف نظر کرکے عزل اور منع حمل کی دیگر تدابیر کو علی الاطلاق بالکل ہی جائز قرار دینا ور اس کو فقہی مسالک کا متفقہ فیصلہ بتانا محل نظر ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ عام حالات میں معاشی تنگی، متوقع بیماریوں اورغیر یقینی جسمانی کمزوریوں کی بنا پر مانع حمل ذرائع اختیار کرنے کا مشورہ دینا اور اس کو قانونی شکل دینے کی سعی پیہم کرنا اسلام کی دیگر واضح تعلیمات کے بھی خلاف ہے، کیونکہ اسلام میں جہاں چار سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت ہے، وہیں اولاد کی کثرت کو ہادی عالم صلی الله علیہ وسلم نے قیامت کے دن اپنے لئے دیگر امتوں پر باعث افتخار بتایا ہے، اور شادی کے لئے ایسی عورتوں کے انتخاب کی ترغیب دی ہے جو بکثرت بچے جننے والیاں ہوں۔ لہٰذا ان واضح اور ٹھوس تعلیمات پر عمل کرنا ایمانی تقاضا ہے اور یہی مسلمان کے ضمیر کی آواز ہے۔
تو ملحوظ رہے کہ وسائل و اخراجات کی تنظیم و تقسیم کا تعلق اصل” معاشیات “ سے ہے ، خاندان کی فلاح و بہبود کے موضوع سے کسی گونا تعلق ہونے کی وجہ سے اس پر ضمنی طور پر تو بحث ہو، لیکن اسی کو خاندان کی فلاح و بہبود کا اصل مطلب قرار دیکر بنیاد بنانا غور طلب امر ہے۔
۲…” بغل اور زیر ناف بال“ کے عنوان کے تحت صرف اتنا ذکر کرنا کافی تھا کہ یہ بھی صفائی وستھرائی کے فطری امور میں سے ہیں ،غیر ضروری تفصیلات ،علتوں ، حکمتوں اور صفائی کے قدیم و جدید طریقے ذکر کرنے کی بجائے اتنی بات لکھ دیناکافی تھا جس سے بغل اور زیر ناف بالوں کی صفائی و ستھرائی کا ضروری ہونا معلوم ہوجائے۔ کیونکہ یہ مجموعہ نو مسلموں کے لئے ترتیب نہیں دیا گیا کہ جن کو ہر چیز تفصیل سے سمجھانی پڑے ، بلکہ یہ ایک ایسے مسلم معاشرے کے لئے ہے، جس میں صفائی کا ضرورت مند ہر مسلمان صفائی کے طریقے کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔
۳… ” ختنہ کروانا“ کے زیر عنوان ختنہ کروانے والے کے لئے مرد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، حالانکہ مسلمانوں میں عموما بچپن ہی میں ختنہ کرنے کا رواج پایا جاتا ہے، اکاد کا واقعات کے علاوہ ختنہ کرنے کے لئے بچپن سے بڑھ کر بالغ ہونے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔،لہٰذا ” مرد“ کی تعبیر بدل کر ”بچے “ کی تعبیر استعمال کرنی چاہیے۔
۴… انسانی صحت اور جسمانی قوت کی تباہی اور لا علاج امراض پیدا ہونے کے جہاں اور اسباب ہیں، وہیں ایک بڑا اور مہلک سبب جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مرض” ایڈز“ ہے، جس کی تباہ کاریوں سے مسلم معاشرے کو تحفظ دینا خاندانی فلاح و بہبود کے مقاصد کی برآری میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اس لئے خاندانی فلاح و بہبود کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کے بظاہر خوش نما لیکن درحقیقت مسلم سوسائٹی کے لئے تباہ کن نعرے لگانے کی بجائے اس طرف اصل توجہ ہو نی چاہیئے کہ خاندانی نظام کی چولیں ہلادینے والے امر یعنی” جنسی بے راہ روی“ کی روک تھام کیسے ممکن ہو ، اس کے لئے کیا اسباب اختیار کئے جائیں اور کن وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔
لیکن افسوس کامقام یہ ہے کہ ہمارے ملک میں” جنسی بے راہ روی“ کے بڑھتے ہوئے اس سیلاب کے سامنے بندباندھنا توکجا، الٹا اسے حدود آرڈیننس کے ترمیمی بلوں کے ذریعے تحفظ دے دیا گیا ہے، جنسی بے راہ روی، ناجائز اولاد پیدا کرنے کی مذمت اور اس کے انسداد کی بجائے خاندانی فلاح و بہبود کے لئے خاندانی منصوبہ بندی اور غربت کے خاتمے کے لئے صرف جائز اولاد کی روک تھام کرنے کوہی اولین ترجیح دی جارہی ہے ،جو کسی طرح بھی اسلامی مزاج و مذاق سے میل نہیں کھاتی ،بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ سراسر خاندان کی اسلامی فلاح و بہبود کے منافی ہے۔
خاندانی فلاح و بہبود کا تصور اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ معاشرتی اور خاندانی نظام کو جنسی آزادی اور شہوانی خواہشات پورا کرنے کے ناجائز اور غیر اسلامی طریقوں سے بالکل پاک نہ کر دیا جائے اور اسلام نے نکاح کی شکل میں مسلم معاشرے و خاندان کی بقاء کا ضامن ، عزت و عصمت کے تحفظ اور عفت و پاکدامنی حاصل کرنے کا جو بہترین راستہ بتلایا ہے، صرف وہی اختیار نہ کر لیا جائے۔لہٰذا اسلامی نظریاتی کونسل اپنے قیام کے مقاصد کو پورا کرتے ہوئے اس طرف خصوصی اور بھر پور توجہ دے، تاکہ خاندانی بہبود آبادی کا پروگرام اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ ترقی پذیر ہو کر پایہ تکمیل کو پہنچے۔
۵… قرآن کریم، احادیث اور دیگر تفسیری و تشریحی عبارتوں کے ذکر کرتے وقت ان کے اعراب یعنی زیر زبر پیش وغیرہ کو ٹھیک ٹھیک لگانے کا اہتمام ضروری ہے، چنانچہ” بچوں پر سختی “ کے عنوان کے تحت جو حدیث ذکر کی گئی ہے ،اس میں لفظ”مرّوا“ (تشدید کے ساتھ) ذکر گیا ہے۔ جبکہ صحیح ” مروا“ (بلا تشدید)ہے۔
۶… اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا دارالا سباب ہے ،جس میں پیش آمدہ ہر واقعے اور حادثے کا کوئی نہ کوئی سبب اور پس منظر ضرور ہو تا ہے، جیسا کہ مجموعہ ہٰذا میں اسلامی ممالک کودر پیش غربت کے خوفناک مسئلے کا سبب معاشی عوامل کے نظر انداز کرنے کو بتلایا گیا ہے ،لیکن اس کی تلافی اور حل کے لئے صرف اس بات پر ہی زور دینا کہ مسلمان” تنظیم نسل“ کے لئے بچوں کی افزائش میں کمی کریں، تاکہ مسلم ممالک کو درپیش غربت کا خاتمہ ہوسکے، درست نہیں ، بلکہ اس کے حل کے لئے غربت کے انفرادی، معاشرتی ، اجتماعی او رملکی اسباب کی نشاندہی کرنی چاہیے، خلفاء راشدین علیہم الرضوان، اسلامی تاریخ کے عادل وانصاف پسند امراء و سلاطین کے حالات اور ان کے قائم کردہ تقسیم دولت کے نظام کا مطالعہ کرکے تجاویز مرتب کی جائیں، سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی طبقاتی تقسیم کو ختم کیا جائے اور زکوة ،عشر ، خراج بیت المال وغیرہ اسلامی اصطلاحات کو امانت و دیانت کے ساتھ جاری کرنے کا منصوبہ بنا لیا جائے تو غربت کا یہ عفریت یقینا قابو میں آسکتا ہے۔
” آیات رزق“ سے علماء اسلام نے جو کچھ سمجھا اور لکھا ہے ، دیگر آیات و احادیث اور سلف صالحین ہی کی تشریحات کی روشنی میں لکھا ہے کہ فقرو فاقے کے خوف سے افزائش نسل میں کمی کرنے کی بجائے ان کی معاشی کفالت کا بندو بست کرنا چاہیے، چنانچہ التحریر والتنویر میں علامہ طاہر بن عاشور لکھتے ہیں:
”وجملة ” نحن نرزقکم وایاہم“ معترضة، مستانفة، علة للنہی عن قتلہم ، ابطالا لمعذرتہم، لان الفقر قد جعلوہ عذرا لقتل الاولاد ومع کون الفقر لا یصلح ان یکون داعیا لقتل النفس فقد بین الله انہ لما خلق الاولاد فقد قدر رزقہم ،فمن الحماقة ان یظن الاب ان عجزہ عن رزقہم یخولہ قتلہم ، وکان الاجدر بہ ان یکتسب لہم ( ابن عاشور/ التحریر والتنویر/ الجزء الثامن ،ص:۱۵۹)
اس واضح اور صاف مفہوم و مطلب کو مجموعہٴ ہٰذا کے موٴلف کے صحیح نہ کہنے اور اپنی رائے کو اس کے مقابلے میں صحیح باور کرانے سے دراصل ان علماء دین کی ٹھوس علمی منزلت اور مقام و مرتبے پر شک کی چوٹ اور امت مسلمہ کی ان سے قلبی وابستگی اور ان پر ان کے پختہ اور مضبوط اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔۷… ” شادی کی عمر بلوغ یارشد“ کے زیر عنوان شادی کی عمر کے لئے” بلوغت“ کی بجائے” رشد“ کو معیار قرار دیکر اس کی حکمتوں اور علتوں سے جو بحث کی گئی ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں رواج یہی ہے کہ والدین اپنی اولاد کی شادی ایسی عمر میں کراتے ہیں جب وہ اپنے نفع ونقصان کو سمجھنے اور شادی کے معاملات نمٹانے کے قابل ہو چکے ہو تے ہیں۔ لیکن بچپن میں یا بالغ ہونے کے فوراً بعد شادی کرنے کا اگر کہیں رواج بھی ہو تو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہونے کی بناء پر یہ بھی جائز ہے، اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کا نکاح ان کے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے چھ سال کی عمر میں حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کردیا تھا، حضرت قدامہ بن مظعون رضی الله عنہ نے حضرت زبیر رضی الله عنہ کی بیٹی سے اسی دن نکاح کر لیا تھا، جس دن وہ پیدا ہوئی تھیں۔( علی القاری، مرقاة :۶/۲۹۴، کتاب النکاح، باب الولی ، الفصل الاول، ط: رشیدیہ کوئٹہ)
اسی طرح رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی چچا زاد بہن امامہ بنت حمزہ رضی الله عنہما کا نکاح بچپن ہی میں عمر بن ابی سلمہ سے کیا تھا،( ابن الہمام/ فتح القدیر:۱/۲۷۶ ، کتاب النکاح ، باب الاولیا والاکفاء، ط: دار الفکر)
اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کل ہر لڑکے اور لڑکی کے برابر کا جوڑ ملنا خاصا مشکل ہے، اس لئے اگر بچپن میں یا بالغ ہونے کے بعد برابری کا جوڑ ملنے پر ان کی شادی کرادی جائے تو اس سے ان کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہونگے اور خاندانی فلاح و بہبود کا مقصد بھی حاصل ہو سکے گا۔ لہٰذا صرف یہ عذر پیش کرکے کہ” شادی صرف جنسی تسکین کے لئے نہیں“ بلوغت یا بچپن میں شادی کرنے کی بجائے سن رشد کو معیار اور ضابطہ بنالینے سے دین اسلام کے احکام کو معطل کرنے اورشرعی گنجائشوں کو قانون کے خول میں بند کرنے کا ارتکاب لازم آرہا ہے۔ اس لئے جائز احکام کو جائز ہی رہنے دیا جائے، اپنی طرف سے معیار اور ضابطے بنا کر احکام کی آزادی کو ختم نہ کیا جائے۔
۸… ” منع حمل کے مصنوعی ذرائع“ :۔ خاندانی بہبود آبادی اور خاندان کے نظم و تنظیم کے تحت اس موضوع کو غیر معمولی تفصیل سے ذکر کرنے سے یہ بات بادی النظر میں سمجھی جا سکتی ہے کہ خاندان کی تنظیم کا اساسی اور بنیادی ستون اسی کو قرار دیا جا رہا ہے، اور مسلمانوں کو افزائش نسل میں کمی اور بچوں کی شرح پیدائش پر کنٹرول کرنے کے لئے منع حمل کے ذرائع استعمال کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ خاندانی تنظیم کے لئے اس پہلو سے ہٹ کردیگر پہلو بھی ہیں ،جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔
دوسری بات یہ ہے کہ عزل وغیرہ کے ذریعے منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا کوئی قانونی یا شرعی امر نہیں بلکہ یہ نجی سطح پر میاں بیوی کا انفرادی عمل ہے، جس کی اجازت مخصوص حالات و اعذار اور جزوی مواقع میں بلاکراہت دی گئی ہے، جیسا کہ اس کی مثالیں ص: ۶۵ پر مفتی رشید احمد صاحب اور مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہا الله کے فتاویٰ میں موجود ہیں۔ضرورت کی بناء پر منع حمل کی تدابیر اختیار کرنے سے کسی عالم و مفتی نے منع نہیں کیا، لیکن ان ” خاص حالات و اعذار“ سے صرف نظر کرکے عزل اور منع حمل کی دیگر تدابیر کو علی الاطلاق بالکل ہی جائز قرار دینا ور اس کو فقہی مسالک کا متفقہ فیصلہ بتانا محل نظر ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ عام حالات میں معاشی تنگی، متوقع بیماریوں اورغیر یقینی جسمانی کمزوریوں کی بنا پر مانع حمل ذرائع اختیار کرنے کا مشورہ دینا اور اس کو قانونی شکل دینے کی سعی پیہم کرنا اسلام کی دیگر واضح تعلیمات کے بھی خلاف ہے، کیونکہ اسلام میں جہاں چار سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت ہے، وہیں اولاد کی کثرت کو ہادی عالم صلی الله علیہ وسلم نے قیامت کے دن اپنے لئے دیگر امتوں پر باعث افتخار بتایا ہے، اور شادی کے لئے ایسی عورتوں کے انتخاب کی ترغیب دی ہے جو بکثرت بچے جننے والیاں ہوں۔ لہٰذا ان واضح اور ٹھوس تعلیمات پر عمل کرنا ایمانی تقاضا ہے اور یہی مسلمان کے ضمیر کی آواز ہے۔
======================================
(1) کثرت سے سوال نہ کیا کرو:
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ میں جس کام سے تمہیں روکتا ہوں تم اس سے رک جاؤ اور جس کام کے کرنے کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں تو تم اپنی استطاعت کے مطابق اس کام کو کرو کیونکہ تم سے پہلے وہ لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے نبیوں سے کثرت سے سوال اور اختلاف کرتے تھے۔
(2) وضو میں پانی کثرت سے استعمال نہ کیا کرو:
ابن عباس نے فرمایا کہ میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں ٹھہرا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو اٹھ کھڑے ہوئے، قضاء حاجت کے لئے آئے، پھر اپنا چہرہ انور اور اپنے مبارک ہاتھوں کو دھویا پھر سو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور مشکیزہ کی طرف آکر اس کا منہ کھولا پھر وضو فرمایا دو وضوؤں کے درمیان والا وضو یعنی کثرت سے پانی نہیں گرایا اور وضو پورا فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی پھر میں بھی اٹھا اور انگڑائی لی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیفیت کو دیکھنے کے لئے بیدار تھا تو میں نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر اپنی دائیں طرف لے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیرہ رکعت نماز پڑھائی پھر لیٹ کر سو گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خر اٹے لینے لگے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوتے تو خر اٹے لیا کرتے تھے پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کے لئے بیدار فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا کی اے اللہ میرا دل روشن فرما اور میری آنکھیں روشن فرما اور میرے کانوں میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نو اور میرے لئے نور کو بڑا فرما، راوی کریب نے کہا کہ سات الفاظ اور فرمائے جو کہ میرے تابوت (دل) میں ہیں میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بعض اولاد سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے ان الفاظ کا ذکر کیا اور وہ الفاظ یہ ہیں میرے پٹھے اور میرے گوشت اور میرے خون اور میرے بال اور میری کھال میں نور فرما دے اور دو (اور) چیزوں کا ذکر فرمایا۔
No comments:
Post a Comment