مرتد کے (نیک) اعمال ضایع ، دنیا کے بھی اور آخرت کے بھی
يَسـَٔلونَكَ عَنِ الشَّهرِ الحَرامِ قِتالٍ فيهِ ۖ قُل قِتالٌ فيهِ كَبيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبيلِ اللَّهِ وَكُفرٌ بِهِ وَالمَسجِدِ الحَرامِ وَإِخراجُ أَهلِهِ مِنهُ أَكبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالفِتنَةُ أَكبَرُ مِنَ القَتلِ ۗ وَلا يَزالونَ يُقٰتِلونَكُم حَتّىٰ يَرُدّوكُم عَن دينِكُم إِنِ استَطٰعوا ۚ وَمَن يَرتَدِد مِنكُم عَن دينِهِ فَيَمُت وَهُوَ كافِرٌ فَأُولٰئِكَ حَبِطَت أَعمٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ ۖ وَأُولٰئِكَ أَصحٰبُ النّارِ ۖ هُم فيها خٰلِدونَ {البقرة:217} |
(اے محمدﷺ) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں
لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (1) کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے (2) اور
خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے)
سے (بند کرنا)۔ اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) خدا کے
نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے۔ (3) اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔(4) اور
یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین
سے پھیر دیں۔(5) اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر
ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور
یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں
گے(6)
|
تفسیر : ١) شہر حرام میں قتال کی ممانعت: حضرت فخر عالم ﷺ نے اپنی ایک جماعت کافروں کے مقابلہ کو بھیجی انہوں نے کافروں کو مارا اور مال لوٹ لائے مسلمان تو جانتے تھے کہ وہ اخیر دن جمادی الثانی کا ہے اور وہ رجب کا غرہ تھا جو کہ اشہر حرم میں داخل ہے کافروں نے اس پر بہت طعن کیا کہ محمد ﷺ نے حرام مہینہ کو بھی حلال کر دیا اور اپنے لوگوں کو حرام مہینہ میں لوٹ مار کی اجازت دے دی مسلمانوں نے حاضر ہو کر آپ ﷺ سے پوچھا کہ ہم سے شبہ میں یہ کام ہوا اس کا کیا حکم ہے تب یہ آیت اتری۔
٢) یعنی شہر حرام میں قتال کرنا بیشک گناہ کی بات ہے لیکن حضرات صحابہ نے تو اپنے علم کے موافق جمادی الثانی میں جہاد کیا تھا شہر حرم یعنی رجب میں نہیں کیا اس لئے مستحق عفو ہیں ان پر الزام لگانا بےانصافی ہے۔
٣) یعنی لوگوں کو اسلام لانے سے روکنا اور خود دین اسلام کو تسلیم نہ کرنا اور زیارت بیت اللہ سے لوگوں کو روکنا اور مکہ کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا یہ باتیں شہر حرام میں مقاتلہ کرنے سے بھی زیادہ گناہ ہیں اور کفار برابر یہ حرکات کرتے تھے خلاصہ یہ کہ شہر حرام میں بلاوجہ اور ناحق لڑنا بیشک اشد گناہ ہے مگر جو لوگ کہ حرم میں بھی کفر پھیلائیں اور بڑے بڑے فساد کریں اور اشہر حرم میں بھی مسلمانوں کے ستانے میں قصور نہ کریں ان سے لڑنا منع نہیں علاوہ ازیں جب مشرکین ایسے امور شنیعہ میں سرگرم ہیں تو ایک تھوڑے قصور پر مسلمانوں کی نسبت طعن کرنا جو ان سے بوجہ لاعلمی صادر ہوا بڑی شرم کی بات ہے۔
٤) فتنہ انگیزی قتل سے بڑا جرم ہے:
یعنی دین میں فتنہ اور فساد ڈالنا کہ لوگ دین حق کو قبول نہ کریں اس قتل سے بدرجہا مذموم ہے جو مسلمانوں سے شہر حرام میں واقع ہوا مشرکین کی عادت تھی کہ دین اسلام کی باتوں میں طرح طرح سے خدشات کیا کرتے تھے تاکہ لوگ شبہ میں پڑ جائیں اور اسلام کو قبول نہ کریں چنانچہ اسی قصہ میں کہ مسلمانوں سے شہر حرام میں بوجہ لاعلمی قتل واقعہ ہوا اس پر مشرکین نے جو زبان درازی کی تو اس سے مقصود یہی تھا کہ لوگ قبول اسلام سے متنفر ہو جائیں تو خلاصہ یہ ہوا کہ مسلمانوں سے جو قتل صادر ہوا اس پر مشرکین کا طعن کرنا اس وجہ سے کہ لوگ دین حق سے بچل جائیں قتل مذکور سے بدرجہا مذموم و شنیع ہے۔
٥) یعنی جب تک تم دین حق پر قائم رہو گے یہ مشرکین کسی حالت اور کسی موقع پر بھی تمہارے مقاتلہ اور مخالفت میں کمی نہیں کریں گے حرم مکہ اور شہر حرام ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ عمرہ حدیبیہ میں پیش آیا نہ حرم مکہ کی حرمت کی اور نہ شہر حرام کی بلاوجہ محض عناد سے مارنے مرنے کو مستعد ہو گئے اور مسلمانوں کے مکہ میں جانے اور عمرہ کرنے کے روادار نہ ہوئے پھر ایسے معاندین کے طعن تشنیع کی کیا پروا کی جائے اور ان سے مقاتلہ کرنے میں شہر حرم کی وجہ سے کیوں رکا جائے۔
٦) مرتد کے اعمال ضایع : یعنی دین اسلام سے پھر جانا اور اسی حالت پر اخیر تک قائم رہنا ایسی سخت بلا ہے کہ عمر بھر کے نیک کام ان کے ضائع ہو جاتے ہیں کہ کسی بھلائی کے مستحق نہیں رہتے دنیا میں نہ ان کی جان و مال محفوظ رہے نہ نکاح قائم رہے نہ ان کو میراث ملے نہ آخرت میں ثواب ملے اور نہ کبھی جنت سے نجات نصیب ہو ہاں اگر پھر اسلام قبول کر لے تو صرف اس اسلام کے بعد کے اعمال حسنہ کی جزا پوری ملے گی۔
کفار اور انصاف کا حکم دینے والے "انبیاء" کے قاتلوں (بنی اسرائیل) کے دنیا اور آخرت کے (نیک) اعمال برباد
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّ یَقۡتُلُوۡنَ الَّذِیۡنَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡقِسۡطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ {۲۱} أُولٰئِكَ الَّذينَ حَبِطَت أَعمٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ وَما لَهُم مِن نٰصِرينَ {آل عمران:22} |
جو لوگ انکار کرتے ہیں اللہ کے حکموں کا اور قتل کرتے ہیں پیغمبروں کو ناحق اور قتل کرتے ہیں ان کو جو حکم کرتے ہیں انصاف کرنے کا لوگوں میں سے سو خوشخبری سنا دے انکو عذاب دردناک کی. یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت
دونوں میں برباد ہیں اور ان کا کوئی مددگار نہیں
(ہوگا). تفسیر : بنی اسرائیل کے جرائم اور سزا: حدیث میں ہے کہ "بنی اسرائیل" نے ایک دن میں تینتالیس نبی اور ایک سو ستر یا ایک سو بارہ صالحین کو شہید کیا یہاں نصاریٰ نجران اور دوسرے کفار کو سنایا جارہا ہے کہ احکام الہٰی سے منکر ہو کر انبیاء اور انصاف پسند ناصحین سے مقابلہ کرنا اور پرلے درجے کی شقاوت و سنگدلی سے ان کے خون میں ہاتھ رنگنا معمولی چیز نہیں۔ ایسے لوگ سخت دردناک عذاب کے مستحق اور دونوں جہان کی کامیابی سے محروم ہیں۔ ان کی محنت برباد اور ان کی کوششیں اکارت ہوں گی اور دنیا و آخرت میں جب سزا ملے گی تو کوئی بچانے والا اور مددکرنے والا نہ ملے گا۔ مرتد کے (نیک) اعمال ضایع |
اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۖ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم ۖ وَالمُحصَنٰتُ مِنَ المُؤمِنٰتِ وَالمُحصَنٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَهُنَّ مُحصِنينَ غَيرَ مُسٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ ۗ وَمَن يَكفُر بِالإيمٰنِ فَقَد حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخٰسِرينَ {المائدة:5} |
آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی
گئیں (١) اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے(٢) اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے(٣) اور
پاک دامن مومن عورتیں (٤) اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) (٥) جبکہ ان کا مہر
دے دو۔(٦) اور ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی
کرنی (٧) اور جو شخص ایمان سے منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہوگئے اور وہ آخرت میں نقصان
پانے والوں میں ہوگا(٨). تفسیر : ١) یعنی جیسے آج دین کامل تم کو دیا گیا، دنیا کی تمام پاکیزہ نعمتیں بھی تمہارے لئے دائمی طور پر حلال کر دی گئیں جو کبھی منسوخ نہ ہونگی۔ ٢) اہل کتاب کا کھانا حلال ہے: یہاں طعام (کھانے) سے مراد "ذبیحہ" ہے یعنی کوئی یہودی یا نصرانی (بشرطیکہ اسلام سے مرتد ہو کر یہودی یا نصرانی نہ بنا ہو) اگر حلال جانور ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام نہ لے تو اس کا کھانا مسلمان کو حلال ہے مرتد کے احکام جداگانہ ہیں۔ ٣) اس مقام پر اس کا ذکر بطور مجازات و مکافات کے استطرادًا فرما دیا۔ یعنی احادیث میں جو آیا ہے لَا یَاْ کُلُ طَعَامَکَ اِلاَّ تَقِیٌّ (تیرا کھانا نہ کھائے مگر پرہیزگار) اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر پرہیزگاروں کے لئے تمہارا کھانا حرام ہے۔ جب مسلمان کے لئے کافر کتابی کے ذبیحہ کی اجازت ہو گئ تو ایک مواحد مسلم کا ذبیحہ اور کھانا دوسروں کے لئے کیوں حرام ہو گا۔ ٤) "پاکدامن" کی قید شاید ترغیب کے لئے ہو۔ یعنی ایک مسلمان کو چاہئے کہ نکاح کرتے وقت پہلی نظر عورت کی عفت اور پاکدامنی پر ڈالے یہ مطلب نہیں کہ پاکدامن کے سوا کسی اور سے نکاح صحیح نہیں ہو گا۔ ٥) اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی حلت : اہل کتاب کو ایک مخصوص حکم کے ساتھ دوسرا مخصوص حکم بھی بیان فرما دیا۔ یعنی یہ کہ کتابی عورت سے نکاح کرنا شریعت میں جائز ہے۔ مشرکہ سے اجازت نہیں۔ وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ (بقرہ: ۲۲۱) مگر یہ یاد رہے کہ ہمارے زمانہ کے "نصاریٰ" عمومًا برائے نام نصاریٰ ہیں ان میں بکثرت وہ ہیں جو نہ کسی کتاب آسمانی کے قائل ہیں نہ مذہب کے نہ خدا کے ان پر اہل کتاب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ لہذا ان کے ذبیحہ اور نساء کا حکم اہل کتاب کا سا نہ ہو گا۔ نیز یہ ملحوظ رہے کہ کسی چیز کے حلال ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں فی حد ذاتہ کوئی وجہ تحریم کی نہیں۔ لیکن اگر خارجی اثرات و حالات ایسے ہوں کہ اس حلال سے منتفع ہونے میں بہت سے حرام کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے بلکہ کفر میں مبتلا ہونے کا احتمال ہو تو ایسے حلال سےانتفاع کی اجازت نہیں دی جائے گی موجودہ زمانے میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ کھانا پینا، بےضرورت اختلاط کرنا، ان کی عورتوں کے جال میں پھنسنا یہ چیزیں جو خطرناک نتائج پیدا کر تی ہیں وہ مخفی نہیں۔ لہذا بدی اور بد دینی کے اسباب و ذرائع سےاجتناب ہی کرنا چاہئے۔ ٦) یعنی قید نکاح میں لانے کو ۔ گویا اس طرف اشارہ ہو گیا کہ نکاح بظاہر قید ہے لیکن یہ قید ان آزادیوں او ر ہوس رانیوں سے بہتر ہے جن کی طلب میں انسان نما بہائم سلسلہ ازدواج ہی کو معدوم کر دینا چاہتے ہیں۔ ٧) جس طرح پہلے عورت کی پاکدامنی کا ذکر کیا تھا یہاں مرد کو پاکباز اور عفیف رہنے کی ہدایت فرما دی: الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ (نور۔۲۶) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی نظر میں نکاح کی غرض گوہر عصمت کو محفوظ اور مقصد تزویج کو پورا کرنا ہے۔ شہوت رانی اور ہوا پرستی مقصود نہیں۔ ٨) جن کتابی عورتوں سے نکاح کی اجازت ہوئی ۔ اس کا فائدہ یہ ہونا چاہئے کہ مومن قانت کی حقانیت عورت کے دل میں گھر کر جائے نہ یہ کہ کتابیات پر مفتوں ہو کر الٹا اپنی متاع ایمانی ہی کو گنوا بیٹھے اور "خسرالدنیا والآ خرۃ" کا مصداق ہو کر رہ جائے۔ چونکہ کافر عورت سے نکاح کرنے میں اس فتنہ کا قوی احتمال ہو سکتا ہے ۔ اس لئے وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُہٗ کی تہدید نہایت ہی بر محل ہے۔ یہ میرا خیال ہے۔ باقی حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ "اہل کتاب کو کفار سے دو حکم میں مخصوص کیا یہ فقط دنیا میں ہے اور آخرت میں ہر کافر خراب ہے اگر عمل نیک بھی کرے تو قبول نہیں"۔ منافقین کے اعمال برباد |
وَيَقولُ الَّذينَ ءامَنوا أَهٰؤُلاءِ الَّذينَ أَقسَموا بِاللَّهِ جَهدَ أَيمٰنِهِم ۙ إِنَّهُم لَمَعَكُم ۚ حَبِطَت أَعمٰلُهُم فَأَصبَحوا خٰسِرينَ {المائدة:53} |
اور اس (وقت) مسلمان (تعجب سے) کہیں گے کہ
کیا یہ وہی ہیں جو خدا کی سخت سخت قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ان
کےعمل اکارت گئے اور وہ خسارے میں پڑ گئے. تفسیر : قرآن مجید میں الله نے اسی طرح منافقین کا حال فرمایا : اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿المنافقون:۲﴾ ترجمہ : انہوں نے رکھا ہے اپنی قسموں کو ڈھال بنا کر (١) پھر روکتے ہیں اللہ کی راہ سے یہ لوگ برے کام ہیں جو کر رہے ہیں.(٢)؛ ١) منافقین کی جھوٹی قسمیں: یعنی جھوٹی قسمیں کھالیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور مجاہدین اسلام کے ہاتھوں سے اپنی جان و مال محفوظ رکھنے کے لئے ان ہی قسموں کی آڑ پکڑتے ہیں۔ جہاں کوئی بات قابل گرفت ان سے سرزد ہوئی اور مسلمانوں کی طرف سے مواخذہ کا خوف ہوا۔ فوراً جھوٹی قسمیں کھا کر بری ہوگئے۔ ٢) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں: یعنی اسلام اور مسلمانوں کی نسبت طعن و تشنیع اور عیب جوئی کر کے دوسروں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور لوگ ان کو بظاہر مسلمان دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں، تو ان کی جھوٹی قسموں کا ضرر فساد ان ہی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ دوسروں تک متعدی ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر برا کام اورکیا ہوگا (لیکن ایک شخص جب تک بظاہر ضروریات دین کا اقرار کرتا ہے خواہ جھوٹ اور فریب ہی سے کیوں نہ ہو، اسلام اس کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ الله کی آیات اور آخرت میں اس سے ملاقات کے منکر کے اعمال برباد |
وَالَّذينَ كَذَّبوا بِـٔايٰتِنا وَلِقاءِ الءاخِرَةِ حَبِطَت أَعمٰلُهُم ۚ هَل يُجزَونَ إِلّا ما كانوا يَعمَلونَ {الأعراف:147} |
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کے
آنے کو جھٹلایا ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو
بدلہ ملے گا تفسیر : یعنی احکام الہٰیہ پر چلنے کی توفیق نہ ہوگی۔ اور جو کچھ کام اپنی عقل سے کریں گے وہ خدا کے یہاں قبول نہ ہوگا۔ جیسا کریں گے ویسا بھگتیں گے۔ باقی ان کی بےجان اور مردہ نیکیوں کا جو بدلہ ملنا ہوگا دنیا میں مل رہے گا۔ مشرکین کے اعمال ضایع |
ما كانَ لِلمُشرِكينَ أَن يَعمُروا مَسٰجِدَ اللَّهِ شٰهِدينَ عَلىٰ أَنفُسِهِم بِالكُفرِ ۚ أُولٰئِكَ حَبِطَت أَعمٰلُهُم وَفِى النّارِ هُم خٰلِدونَ {التوبة:17} |
مشرکوں کی زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو
آباد کریں جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کے سب اعمال
بےکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے منافقین کے اعمال برباد |
كَالَّذينَ مِن قَبلِكُم كانوا أَشَدَّ مِنكُم قُوَّةً وَأَكثَرَ أَموٰلًا وَأَولٰدًا فَاستَمتَعوا بِخَلٰقِهِم فَاستَمتَعتُم بِخَلٰقِكُم كَمَا استَمتَعَ الَّذينَ مِن قَبلِكُم بِخَلٰقِهِم وَخُضتُم كَالَّذى خاضوا ۚ أُولٰئِكَ حَبِطَت أَعمٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ ۖ وَأُولٰئِكَ هُمُ الخٰسِرونَ {التوبة:69} |
(تم منافق لوگ) ان لوگوں کی طرح ہو، جو تم
سے پہلے ہوچکے ہیں۔ وہ تم سے بہت زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ تھے
تو وہ اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے(١) سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ
اٹھا چکے ہیں اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھالیا(٢) اور جس طرح وہ باطل میں
ڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت
میں ضائع ہوگئے۔ اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں(٣)؛
|
تفسیر : ١) اللہ نے منافقین کو بھلا دیا: یعنی دنیوی لذائذ کا جو حصہ ان کے لئے مقدر تھا اس سے فائدہ اٹھا گئے اور آخری انجام کا خیال نہ کیا۔ ٢) یعنی تم بھی ان کی طرح آخری انجام کے تصور سے غافل ہو کر دنیا کی متاع فانی سے جتنا مقدر ہے حصہ پا ر ہے ہو اور ساری چال ڈھال انہی کی سی رکھتے ہو تو سمجھ لو جو حشر ان کا ہوا وہ ہی تمہارا بھی ہو سکتا ہے ان کے پاس مال و اولاد اور جسمانی قوتیں تم سے زائد تھیں پھر انتقام الہٰی کی گرفت سے نہ بچ سکے تو تم کو کاہے پر بھروسہ ہے جو خدائی سزا سے اس قدر بے فکر ہو بیٹھے ہو۔ ٣) یعنی کوئی دنیوی و آخروی برکت و کرامت انہیں نصیب نہ ہوئی۔ باقی دنیوی لذائذ کو جو حصہ بظاہر ملا ۔ وہ فی الحقیقت ان کے حق میں استدراج اور عذاب تھا جیسا کہ دو رکوع پہلے فَلَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ الخ کے فوائد میں گذر چکا اور اس سے پیشتر بھی کئ مواقع میں لکھا جا چکا ہے۔ کفار کے سارے اعمال برباد مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ ﴿۱۵﴾ أُولٰئِكَ الَّذينَ لَيسَ لَهُم فِى الءاخِرَةِ إِلَّا النّارُ ۖ وَحَبِطَ ما صَنَعوا فيها وَبٰطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ {هود:16} |
جو کوئی چاہے دنیا کی زندگانی اور اسکی زینت بھگتا دیں گے ہم انکو ان کے عمل دنیا میں اور انکو اس میں کچھ نقصان نہیں. یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش
(جہنم) کے سوا کوئی چیز نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کئے سب برباد اور جو کچھ
وہ کرتے رہے، سب ضائع
تفسیر : ١) کفار کی نیکیوں کی جزا دنیا میں: یعنی ایسے واضح ثبوت کے بعد جو شخص قرآن پر ایمان لاتا ، یا اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر نہیں چلتا بلکہ دنیا کی چند روزہ زندگی اور فانی ٹیپ ٹاپ ہی کو قبلہ مقصود ٹھہرا کر عملی جدو دجہد کرتا ہے۔ اگر بظاہر کوئی نیک کام مثلاً خیرات وغیرہ کرتا ہے تو اس سے بھی آخرت کی بہتری اور خدا کی خوشنودی مقصود نہیں ہوتی محض دنیوی فوائد کا حاصل کر لینا پیش نظر ہوتا ہے۔ ایسےلوگوں کی بابت خواہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین یا منافقین یا دنیا پرست ریاکار مسلمان۔ بتلا دیا کہ دنیا ہی میں ان کا بھگتان کر دیا جائے گا۔ جو اعمال اور کوششیں وہ حصول دنیا کے لئے کریں گے ان کے کم و کیف کو ملحوظ رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ اپنےعلم و حکمت سے جس قدر مناسب جانے گا اور دینا چاہے گا ۔ یہیں عطا فرما دے گا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر جو خیرات وغیرہ کے کام کرے اس کی یہ فانی اور صوری حسنات جو روح ایمان سے یکسر خالی ہیں ، دنیا میں رائیگاں نہیں جاتیں ان کےبدلہ میں خدا تعالیٰ تندرستی ، مال ، اولاد ، عزت و حکومت وغیرہ دے کر سب کھاتہ بے باق کر دیتا ہے۔ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں کوئی چیز اس کےکام آنے والی نہیں۔ جس کافر کے لئے جس درجہ کی سزا تجویز ہو چکی ہے وہ کبھی اس سے ٹلنے یا کم ہونے والی نہیں۔ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعَاجِلَۃَ عَجَّلۡنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلٰىہَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا (بنی اسرائیل۔۱۸) ریاکار اور دنیا پرست عالم ، متصدق اور مجاہد کے حق میں جو وعید آئی ہے ۔ اس کا حاصل بھی یہ ہی ہے کہ ان سے محشر میں کہا جائے گا کہ جس غرض کے لئے تو نے علم سکھلایا ، یا صدقہ و جہاد کیا وہ دنیا میں حاصل ہو چکی ، اب ہمارے پاس تیرے لئےکچھ نہیں۔ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اسے جہنم میں لے جاؤ۔ (اعادتا اللہ منہا)
٢) یعنی ان اعمال پر دوزخ کے سوا اور کسی چیز کے مستحق نہیں۔ کفار ابدی طور پر اور ریاکار مسلمان محدود مدت کے لئے۔ ہاں خدا تعالیٰ بعض مومنین کو محض اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے ، وہ الگ بات ہے۔
٣) یعنی دنیا میں جو کام دنیوی اغراض کے لئے کئے تھے ، آخرت میں پہنچ کر ظاہر ہو گا کہ وہ سب برباد ہوئے اور ریاکاری یا دنیا پرستی کے سلسلہ میں بظاہر جو نیکیاں کمائی تھیں ، سب یوں ہی خراب گئیں ، یہاں کوئی کام نہ آئی۔
الله کی آیات اور آخرت میں ملاقات کا انکار کرنے والے کافروں کے اعمال برباد |
أُولٰئِكَ الَّذينَ كَفَروا بِـٔايٰتِ رَبِّهِم وَلِقائِهِ فَحَبِطَت أَعمٰلُهُم فَلا نُقيمُ لَهُم يَومَ القِيٰمَةِ وَزنًا {الكهف:105} |
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی
آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ہم قیامت
کے دن ان کے لئے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے تفسیر : ١) سب سے زیادہ گھاٹے والے طالبین دنیا: یعنی نہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو مانا ، نہ خیال کیا کہ کبھی اس کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ٢) کفار کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا: کافر کی حسنات مردہ ہیں ، اس ابدی زندگی میں کسی کام کی نہیں ۔ اب محض کفریات و سیئات رہ گئیں۔ سو ایک پلہ کیا تلے تولنا تو موازنہ کے لئے تھا۔ موازنہ متقابل چیزوں میں ہوتا ہے یہاں سیئات کے بالمقابل حسنہ کا وجود ہی نہیں ۔ پھر تولنے کا کیا مطلب۔ منافقین کے اعمال برباد |
أَشِحَّةً عَلَيكُم ۖ فَإِذا جاءَ الخَوفُ رَأَيتَهُم يَنظُرونَ إِلَيكَ تَدورُ أَعيُنُهُم كَالَّذى يُغشىٰ عَلَيهِ مِنَ المَوتِ ۖ فَإِذا ذَهَبَ الخَوفُ سَلَقوكُم بِأَلسِنَةٍ حِدادٍ أَشِحَّةً عَلَى الخَيرِ ۚ أُولٰئِكَ لَم يُؤمِنوا فَأَحبَطَ اللَّهُ أَعمٰلَهُم ۚ وَكانَ ذٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرًا {الأحزاب:19} |
(یہ اس لئے کہ) تمہارے بارے میں بخل کرتے
ہیں۔(١) پھر جب ڈر (کا وقت) آئے تو تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور)
اُن کی آنکھیں (اسی طرح) پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آرہی ہو۔ پھر جب خوف
جاتا رہے تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں اور مال میں بخل
کریں۔(٢) یہ لوگ (حقیقت میں) ایمان لائے ہی نہ تھے تو خدا نے ان کے اعمال برباد کر
دیئے۔ اور یہ خدا کو آسان تھا۔(٣) تفسیر : ١) منافقین کی منافقت: یعنی مسلمانوں کا ساتھ دینے سے دریغ رکھتے ہیں اور ہر قسم کی ہمدردی و بہی خواہی سے بخل ہے ہاں غنیمت کا موقع آئے تو حرص کے مارے چاہیں کہ کسی کو کچھ نہ ملے سارا مال ہم ہی سمیٹ کر لیجائیں اسی احتمال پر لڑائی میں قدرے شرکت بھی کر لیتے ہیں۔ ٢) منافقین کی لفاظی: یعنی آڑے وقت رفاقت سے جی چراتے ہیں، ڈر کے مارے جان نکلتی ہے اور فتح کے بعد آ کر باتیں بناتے اور سب سے زیادہ مردانگی جتاتے ہیں اور مال غنیمت پر مارے حرص کے گر پڑتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق طعن و تشنیع سے زبان درازی کرتے ہیں۔ ٣) بے ایمان کا عمل: یعنی جب اللہ و رسول پر ایمان نہیں تو کوئی عمل مقبول نہیں ہو سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔ جہاں حبط اعمال کا ذکر ہے تو فرمایا کہ یہ اللہ پر آسان ہے ۔ یعنی بظاہر اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت کو دیکھتے ہوئے تعجب ہوتا ہے اور یہ بات بھاری معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی کی محنت کو ضائع کر دے۔ لیکن اس لئے بھاری نہیں رہتی کہ خود عمل ہی کے اندر ایسی خرابی چھپی ہوتی ہے جو کسی طرح اس کو درست نہیں ہونے دیتی۔ جیسے بے ایمان کا عمل کہ ایمان شرط اور روح ہے ہر عمل کی، بدون اس کے عمل مردہ ہے پھر قبول کس طرح ہو۔ کافر کتنی ہی محنت کرے سب اکارت ہے۔ مشرکوں کے اعمال برباد |
وَلَقَد أوحِىَ إِلَيكَ وَإِلَى الَّذينَ مِن قَبلِكَ لَئِن أَشرَكتَ لَيَحبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكونَنَّ مِنَ الخٰسِرينَ {الزمر:65} |
اور (اے محمدﷺ) تمہاری طرف اور ان
(پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے۔ کہ اگر تم نے شرک
کیا تو تمہارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم زیاں کاروں میں ہوجاؤ
گے کفار کے اعمال برباد |
وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَتَعۡسًا لَّہُمۡ وَ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۸﴾ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم كَرِهوا ما أَنزَلَ اللَّهُ فَأَحبَطَ أَعمٰلَهُم {محمد:9} |
اور جو کافر ہیں انکے لئے ہلاکت ہے۔ اور اللہ انکے اعمال کو برباد کر دے گا۔ یہ اس لئے کہ خدا نے جو چیز نازل فرمائی
انہوں نے اس کو ناپسند کیا تو خدا نے بھی ان کے اعمال اکارت
کردیئے تفسیر : منکرین کی بد حالی: یعنی جب انہوں نے اللہ کی باتوں کو ناپسند کیا تو اللہ انکے کام کیوں پسند کرے گا اور جو چیز خدا کو ناپسند ہو وہ محض اکارت ہے۔ |
منافقین کے اعمال برباد
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿۲۴﴾ اِنَّ الَّذِیۡنَ ارۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدَی ۙ الشَّیۡطٰنُ سَوَّلَ لَہُمۡ ؕ وَ اَمۡلٰی لَہُمۡ ﴿۲۵﴾ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ کَرِہُوۡا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ بَعۡضِ الۡاَمۡرِ ۚۖ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِسۡرَارَہُمۡ ﴿۲۶﴾ فَکَیۡفَ اِذَا تَوَفَّتۡہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ ﴿۲۷﴾ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعوا ما أَسخَطَ اللَّهَ وَكَرِهوا رِضوٰنَهُ فَأَحبَطَ أَعمٰلَهُم ﴿۲۸﴾ اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ اَنۡ لَّنۡ یُّخۡرِجَ اللّٰہُ اَضۡغَانَہُمۡ ﴿۲۹﴾ وَ لَوۡ نَشَآءُ لَاَرَیۡنٰکَہُمۡ فَلَعَرَفۡتَہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ؕ وَ لَتَعۡرِفَنَّہُمۡ فِیۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اَعۡمَالَکُمۡ ﴿۳۰﴾ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ ۙ وَ نَبۡلُوَا۠ اَخۡبَارَکُمۡ ﴿۳۱﴾ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدٰی ۙ لَنۡ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیُحۡبِطُ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۳۲﴾ {محمد:24-32}؛ |
بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا انکے دلوں پر قفل پڑے ہیں۔(١) جو لوگ راہ ہدایت ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ پھیر گئے شیطان نے یہ کام انکو اچھا کرکے دکھایا اور انہیں لمبی عمر کا وعدہ دیا۔(٢) یہ اس لئے کہ جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب سے بیزار ہیں یہ ان سے کہتے ہیں کہ بعض کاموں میں ہم تمہاری بات بھی مانیں گے اور اللہ انکے پوشیدہ مشوروں سے واقف ہے۔(٣) تو اس وقت ان کا کیسا حال ہوگا جب فرشتے انکی جان نکالیں گے اور انکے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے جائیں گے۔(٤) یہ اس لئے کہ جس چیز سے خدا ناخوش ہے یہ اس
کے پیچھے چلے اور اس کی خوشنودی کو اچھا نہ سمجھے تو اُس نے بھی ان کے عملوں کو
برباد کردیا۔(٥) کیا وہ لوگ جنکے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ اللہ انکے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا؟(٦) اور اگر ہم چاہتے تو وہ لوگ تم کو دکھا بھی دیتے اور تم انکو ان کے چہروں ہی سے پہچان لیتے۔ اور تم انہیں انکے انداز گفتگو ہی سے پہچان لوگے(٧) اور اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔(٨) اور ہم تم لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں جہاد کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں انکو معلوم کریں(٩) اور تمہارے حالات جانچ لیں۔(١٠) جن لوگوں کو سیدھا رستہ معلوم ہوگیا اور پھر بھی انہوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا اور پیغمبر کی مخالفت کی وہ اللہ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے اور اللہ ان کا سب کیا کرایا اکارت کردے گا۔ (١١) تفسیر : ١) قرآن میں غور نہیں کرتے: یعنی منافق قرآن میں غور نہیں کرتے یا انکی شرارتوں کی بدولت دلوں پر قفل پڑ گئے ہیں کہ نصیحت کے اندر جانے کا راستہ ہی نہیں رہا۔ اگر قرآن کے سمجھنے کی توفیق ملتی تو با آسانی سمجھ لیتے کہ جہاد میں کس قدر دنیوی و اخروی فوائد ہیں۔ ٢) منافقین کو شیطان کا دھوکہ: یعنی منافقین اسلام کا اقرار کرنے اور اسکی سچائی ظاہر ہو چکنے کے بعد وقت آنے پر اپنے قول و قرار سے پھرے جاتے ہیں۔ اور جہاد میں شرکت نہیں کرتے۔ شیطان نے انکو یہ بات سمجھا دی ہے کہ لڑائی میں نہ جائیں گے تو دیر تک زندہ رہیں گے۔ خواہ مخواہ جا کر مرنے سے کیا فائدہ۔ اور نہ معلوم کیا کچھ سمجھاتا اور دور دراز کے لمبے چوڑے وعدے دیتا ہے۔ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا (النساء۔۱۲۰)۔ ٣) منافقوں نے یہود وغیرہ سے کہا کہ گو ہم ظاہر میں مسلمان ہو گئے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ ہو کر تم سے نہ لڑیں گے۔ بلکہ موقع ملا تو تمکو مدد دیں گے اور اس قسم کے کاموں میں تمہای بات مانیں گے۔ ٤) یعنی اس وقت موت سے کیونکر بچیں گے۔ بیشک اس وقت نفاق کا مزہ چکھیں گے۔ ٥) یعنی اللہ کی خوشنودی کا راستہ پسند نہ کیا۔ اسی راہ پر چلے جس سے وہ ناراض ہوتا تھا۔ اس لئے موت کے وقت یہ بھیانک سماں دیکھنا پڑا۔ اور اللہ نے ان کے کفر و طغیان کی بدولت سب عمل بیکار کر دیے۔ کسی عمل نے انکو دوسری زندگی میں فائدہ نہ پہنچایا۔ ٦) منافقین کی کینہ پروری ظاہر کی جائیگی: یعنی منافقین اپنے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جو حاسدانہ عداوتیں اور کینے رکھتے ہیں، کیا یہ خیال ہے کہ وہ دلوں میں پنہاں ہی رہیں گے؟ اللہ انکو طشت از بام نہ کرے گا؟ اور مسلمان انکے مکر و فریب پر مطلع نہ ہوں گے؟ ہر گز نہیں۔ ان کا خبث باطن ضرور ظاہر ہو کر رہے گا اور ایسے امتحان کی بھٹی میں ڈالے جائیں گے جہاں کھوٹا کھرا بالکل الگ ہو جائے گا۔ ٧) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کی پہچان: یعنی اللہ چاہے تو تمام منافقین کو باشخاصہم معین کر کے آپ کو دکھلا دے اور نام بنام مطلع کر دے کہ مجمع میں فلاں فلاں آدمی منافق ہیں۔ مگر اسکی حکمت بالفعل اس دو ٹوک اظہار کو مقتضی نہیں۔ ویسے اللہ نے آپ کو اعلٰی درجہ کا نور فراست دیا ہے کہ ان کے چہرے بشرے سے آپ پہچان لیتے ہیں اور آگے چل کر ان لوگوں کے طرز گفتگو سے آپ کو مزید شناخت ہو جائے گی۔ کیونکہ منافق اور مخلص کی بات کا ڈھنگ الگ الگ ہوتا ہے۔ جو زور ، شوکت، پختگی اور خلوص کا رنگ مخلص کی باتوں میں جھلکتا ہے، منافق کتنی ہی کوشش کرے اپنے کلام میں پیدا نہیں کر سکتا۔ (تنبیہ) مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے فَلَعَرَفْتَہُمْ کو لَوۡ نَشَآءُ کے نیچے نہیں رکھا۔ عامّہ مفسرین اسکو لَوۡ نَشَآءُ کے تحت میں رکھ کر لَاَرَیۡنٰکَہُمۡ پر متفرع کرتے ہیں یعنی اگر ہم چاہیں تو تجھ کو دکھلا دیں وہ لوگ، پھر تو انکو پہچان جائے صورت دیکھ کر۔ احقر کے خیال میں مترجم رحمہ اللہ کی تفسیر زیادہ لطیف ہے۔ واللہ اعلم۔ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے بہت سےمنافقین کو نام بنام پکارا اور اپنی مجلس سے اٹھا دیا۔ ممکن ہے کہ وہ شناخت لَحۡنِ الۡقَوۡلِ اور سِیْما وغیرہ سے حاصل ہوئی ہو۔ یا آیۂ ہذا کے بعد حق تعالٰی نے آپکو بعض منافقین کے اسماء پر تفصیل و تعیین کے ساتھ مطلع فرما دیا ہو۔ واللہ اعلم۔ ٨) یعنی بندوں سے کوئی بات چھپی رہے، ممکن ہے۔ مگر اللہ کے علم میں تمہارے سب کام ہیں خواہ کھل کر کرو یا چھپا کر۔ ٩) جہاد امتحان کیلئے ہے: یعنی جہاد وغیرہ کے احکام سے آزمائش مقصود ہے۔ اسی سخت آزمائش میں کھلتا ہے کہ کون لوگ اللہ کے راستہ میں لڑنے والے اور شدید ترین امتحانات میں ثابت قدم رہنے والے ہیں اور کون ایسے نہیں۔ ١٠) یعنی ہر ایک کے ایمان اور اطاعت و انقیاد کا وزن معلوم ہو جائے اور سب کے اندرونی احوال کی خبریں عملًا محقق ہو جائیں (تنبیہ) حَتّٰی نَعْلَمَ الخ سے جو شبہ حدوثِ علم کا ہوتا ہے اس کا مفصل جواب "پارہ سیقول" کے شروع میں اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ یَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ الخ کے حواشی میں ملاحظہ کیا جائے۔ ١١) یعنی اپنا ہی نقصان کرتے ہیں، اللہ کا کیا نقصان ہے۔ نہ اسکے دین اور پیغمبر کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ وہ قدرت والا انکے سارے منصوبے غلط اور تمام کام اکارت کر دے گا اور سب کوششیں خاک میں ملا دے گا۔ |
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَرفَعوا أَصوٰتَكُم فَوقَ صَوتِ النَّبِىِّ وَلا تَجهَروا لَهُ بِالقَولِ كَجَهرِ بَعضِكُم لِبَعضٍ أَن تَحبَطَ أَعمٰلُكُم وَأَنتُم لا تَشعُرونَ {الحجرات:2} |
اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز
سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے
روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو تفسیر : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے آداب: یعنی حضورﷺ کی مجلس میں شور نہ کرو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بے تکلف چہک کر یا تڑخ کر بات کرتے ہو، حضور ﷺ کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنا خلاف ادب ہے۔ آپ سےخطاب کرو تو نرم آواز سے تعظیم و احترام کے لہجہ میں ادب و شائستگی کے ساتھ۔ دیکھو ایک مہذب بیٹا اپنے باپ سے، لائق شاگرد استاد سے، مخلص مرید پیر و مرشد سے اور ایک سپاہی اپنے افسر سے کس طرح بات کرتا ہے۔ پیغمبر کا مرتبہ تو ان سب سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ سےگفتگو کرتے وقت پوری احتیاط رکھنی چاہئے۔ مبادا بے ادبی ہو جائے اور آپ کو تکدر پیش آئے۔ تو حضور ﷺ کی ناخوشی کے بعد مسلمان کا ٹھکانا کہاں ہے۔ ایسی صورت میں تمام اعمال ضائع ہونے اور ساری محنت اکارت جانے کا اندیشہ ہے۔ (تنبیہ) بزرگان دین کے آداب: حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضور ﷺ کی احادیث سننے اور پڑھنے کے وقت بھی یہ ہی ادب چاہئے اور قبر شریف کے پاس حاضر ہو وہاں بھی ان آداب کو ملحوظ رکھے۔ نیز آپ کے خلفاء، علمائے ربانیین اور اولوالامر کے ساتھ درجہ بدرجہ اسی ادب سے پیش آنا چاہئے۔ تا جماعتی نظام قائم رہے۔ فرق مراتب نہ کرنے سے بہت مفاسد اور فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے۔
(جمع و ترتیب : عزیر میمن)
جو فرض نماز چھوڑدے اس کے اعمال برباد حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَنَا عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْمُنْقِرِيُّ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، وَالْحَسَنِ أَنَّهُمَا كَانَا جَالِسَيْنِ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : " مَنْ تَرَكَ الْعَصْرَ حَتَّى تَفُوتَهُ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ " ، قَالَ : وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً حَتَّى تَفُوتَهُ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ " . السنن الصغير للبيهقي - الصفحة أو الرقم: 1/326 ، كشف اللثام - الصفحة أو الرقم: 2/25
حضرت ابو درداء (عويمر بن مالك) سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص بلا کسی عذر کے فرض نماز چھوڑ دے حتیٰ کہ وہ فوت (قضا) ہوجاۓ ، تو اس کے اعمال ضایع ہوگئے (مطلب یہ ہے کہ اس کے دوسرے نیک عمل کا اجر بھی نہیں ملے گا)۔
اس شخص کا گناہ جو نماز عصر چھوڑ دے حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ قَالَ : كُنَّا مَعَ بُرَيْدَةَ (عامر بن الحصيب) فِي غَزْوَةٍ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ ، فَقَالَ : بَكِّرُوا بِصَلَاةِ الْعَصْرِ ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ " . [صحيح البخاري » كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ » بَاب مَنْ تَرَكَ الْعَصْرَ ... رقم الحديث: 522] |
ابوملیح روایت کرتے ہیں کہ ہم کسی غزوہ میں ابر کے دن بریدہ (عامر بن الحصيب) کے ہمراہ تھے، تو انہوں نے کہا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے، تو اس کے اعمال بے کار ہوگئے (مطلب یہ ہے کہ اس کے دوسرے نیک عمل کا اجر بھی نہیں ملے گا)۔
بعض احادیث میں ان الفاظ سے مروی ہے
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ , قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ الْمِنْقَرِيُّ , عَنْ الْحَسَنِ , وأبي قلابة , أنهما كانا جالسين , فقال أبو قلابة : قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ (عويمر بن مالك) , قالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ مُتَعَمِّدًا حَتَّى تَفُوتَهُ , فَقَدْ أُحْبِطَ عَمَلُهُ " .[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ » مِنْ حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ عُوَيْمِرٍ ... رقم الحديث: 26841]
حضرت ابو درداء (عويمر بن مالك) سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے جان بوجھ کر حتیٰ کہ اسے فوت (قضا) کردے ، تو اس کے اعمال بے کار ہوگئے.
It was narrated that Abu Qilabah said: “Abu Al-Malih narrated to me: ‘We were with Buraidah on a cloudy day and he said: “Pray early, for the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘Whoever abandons Salat Al-’Asr, his good deeds will perish.”
تخريج الحديث
|
(جمع و ترتیب : عزیر میمن)
کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید کرنے کی ممانعت
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُعْتَمِرِ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ جُنْدَبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَ : " أَنَّ رَجُلًا ، قَالَ : وَاللَّهِ لَا يَغْفِرُ اللَّهُ لِفُلَانٍ ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى ، قَالَ : مَنْ ذَا الَّذِي يَتَأَلَّى عَلَيَّ أَنْ لَا أَغْفِرَ لِفُلَانٍ ، فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِفُلَانٍ ، وَأَحْبَطْتُ عَمَلَكَ " أَوْ كَمَا قَالَ .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْبِرِّ ، وَالصِّلَةِ ، وَالْآدَابِ » بَاب النَّهْيِ عَنْ تَقْنِيطِ الْإِنْسَانِ مِنْ رَحْمَةِ ... رقم الحديث: 4759]
حضرت جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم اللہ فلاں آدمی کی مغفرت نہیں فرمائے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کون آدمی ہے جو میرے بارے میں قسم کھاتا ہے کہ میں فلاں آدمی کی مغفرت نہیں کروں گا۔(وہ سن لے) میں نے فلاں کو معاف کر دیا اور میں نے تیرے اعمال ضائع کر دئے یا جیسا کہ فرمایا۔
|
تشریح
کوئی شخص بہت زیادہ گناہ کرتا تھا اس کے بارہ میں ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشے گا اس نے یہ بات از راہ تکبر اس کو بہت گنہگار اور اپنے کو اس سے اچھا جان کر کہی ۔ جیسا کہ بعض جاہل صوفیاء گنہگاروں کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے حالانکہ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع اور عام ہے اس کے گنہگار بندوں کو بھی اس کے دامن میں پناہ ملتی ہے اور وہی ان کو بخشتا ہے ۔
حاصل یہ کہ اس قسم کے کھانے والے نے اس کے نہ بخشے جانے کا جو یقین کیا تھا اس پر عتاب ہوا بایں طور کہ اس کی قسم کو جھوٹا کیا گیا اور اس شخص کو بخش دیا گیا ۔ لہٰذا کسی بھی شخص کے بارہ میں قطعی طور پر یہ کہنا کہ وہ جنتی ہے ! یا دوزخی ہے جائز نہیں ہے ہاں قرآن وحدیث نے وضاحت کے ساتھ جن لوگوں کو جنتی و دوزخی کہا ہے ان کو قطعی طور پر جنتی یا دوزخی کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
(جمع و ترتیب : عزیر میمن)
ریا کاری اور شہرت پسندی کی نیت
[جامع الترمذي » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ ... رقم الحديث: 2317]
تخريج الحديث
(جمع و ترتیب : عزیر میمن)
من شكَّ في إيمانِه فقد حبِط عملُه وهو في الآخرةِ من الخاسرينَ
الراوي: سلمة بن الأكوع المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1802
خلاصة حكم المحدث: صحيح
الراوي: أبو الدرداء المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 479
خلاصة حكم المحدث: صحيح
الراوي: سلمة بن الأكوع المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1802
خلاصة حكم المحدث: صحيح
الراوي: أبو الدرداء المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 479
خلاصة حكم المحدث: صحيح
الراوي: أنس بن مالك المحدث: ابن حبان - المصدر: المجروحين - الصفحة أو الرقم: 2/198
خلاصة حكم المحدث: [فيه] غنيم بن سالم يروي عن أنس بن مالك العجائب لا يعجبني الرواية عنه فكيف الاحتجاج به
خلاصة حكم المحدث: [فيه] غنيم بن سالم يروي عن أنس بن مالك العجائب لا يعجبني الرواية عنه فكيف الاحتجاج به
- من راءَى بعملهِ ساعةً , حبِطَ عملُهُ الَّذي كان قبلَهُ .
الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/226
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
الراوي: خزيمة بن معمر الأنصاري المحدث: ابن كثير - المصدر: جامع المسانيد والسنن - الصفحة أو الرقم: 2850
خلاصة حكم المحدث: في إسناده اضطراب
خلاصة حكم المحدث: في إسناده اضطراب
الراوي: ابنة ثابت بن قيس بن شماس المحدث: البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 3/418
خلاصة حكم المحدث: له شاهد
خلاصة حكم المحدث: ضعيف
الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: الألباني - المصدر: إرواء الغليل - الصفحة أو الرقم: 255
خلاصة حكم المحدث: ضعيف بهذا التمام
خلاصة حكم المحدث: ضعيف بهذا التمام
- مَن لم يحمَدِ اللَّهَ علَى ما عمَلَ من عملٍ صالحٍ ، وحمِدَ نفسَهُ ؛ قلَّ شكرُهُ وحبِطَ عملُهُ ، ومن زعَم أنَّ اللهَ جعلَ للعبادِ مِن الأمرِ شيئًا ؛ فقَد كفَرَ بما أنزلَ اللهُ على أنبيائِهِ ؛ لقولِهِ : أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
الراوي: سعد بن عبيدة المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3704 - خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
No comments:
Post a Comment