Friday 4 October 2013

کن لوگوں کے سب (نیک) اعمال ضائع و برباد ہوگئے اور ہونگے

عربی لفظ ((حَبِطَ)) کی معنی ہے : بیکار و باطل ہونا ، خراب ہونا ، برباد ہونا . [المنجد : ١٣٤]

مرتد کے (نیک) اعمال ضایع ، دنیا کے بھی اور آخرت کے بھی
يَسـَٔلونَكَ عَنِ الشَّهرِ الحَرامِ قِتالٍ فيهِ ۖ قُل قِتالٌ فيهِ كَبيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبيلِ اللَّهِ وَكُفرٌ بِهِ وَالمَسجِدِ الحَرامِ وَإِخراجُ أَهلِهِ مِنهُ أَكبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالفِتنَةُ أَكبَرُ مِنَ القَتلِ ۗ وَلا يَزالونَ يُقٰتِلونَكُم حَتّىٰ يَرُدّوكُم عَن دينِكُم إِنِ استَطٰعوا ۚ وَمَن يَرتَدِد مِنكُم عَن دينِهِ فَيَمُت وَهُوَ كافِرٌ فَأُولٰئِكَ حَبِطَت أَعمٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ ۖ وَأُولٰئِكَ أَصحٰبُ النّارِ ۖ هُم فيها خٰلِدونَ {البقرة:217}
(اے محمدﷺ) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (1) کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے (2) اور خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند کرنا)۔ اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) خدا کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے۔ (3) اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔(4) اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں۔(5) اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے(6) 

تفسیر : ١) شہر حرام میں قتال کی ممانعت: حضرت فخر عالم ﷺ نے اپنی ایک جماعت کافروں کے مقابلہ کو بھیجی انہوں نے کافروں کو مارا اور مال لوٹ لائے مسلمان تو جانتے تھے کہ وہ اخیر دن جمادی الثانی کا ہے اور وہ رجب کا غرہ تھا جو کہ اشہر حرم میں داخل ہے کافروں نے اس پر بہت طعن کیا کہ محمد ﷺ نے حرام مہینہ کو بھی حلال کر دیا اور اپنے لوگوں کو حرام مہینہ میں لوٹ مار کی اجازت دے دی مسلمانوں نے حاضر ہو کر آپ ﷺ سے پوچھا کہ ہم سے شبہ میں یہ کام ہوا اس کا کیا حکم ہے تب یہ آیت اتری۔
٢) یعنی شہر حرام میں قتال کرنا بیشک گناہ کی بات ہے لیکن حضرات صحابہ نے تو اپنے علم کے موافق جمادی الثانی میں جہاد کیا تھا شہر حرم یعنی رجب میں نہیں کیا اس لئے مستحق عفو ہیں ان پر الزام لگانا بےانصافی ہے۔
٣) یعنی لوگوں کو اسلام لانے سے روکنا اور خود دین اسلام کو تسلیم نہ کرنا اور زیارت بیت اللہ سے لوگوں کو روکنا اور مکہ کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا یہ باتیں شہر حرام میں مقاتلہ کرنے سے بھی زیادہ گناہ ہیں اور کفار برابر یہ حرکات کرتے تھے خلاصہ یہ کہ شہر حرام میں بلاوجہ اور ناحق لڑنا بیشک اشد گناہ ہے مگر جو لوگ کہ حرم میں بھی کفر پھیلائیں اور بڑے بڑے فساد کریں اور اشہر حرم میں بھی مسلمانوں کے ستانے میں قصور نہ کریں ان سے لڑنا منع نہیں علاوہ ازیں جب مشرکین ایسے امور شنیعہ میں سرگرم ہیں تو ایک تھوڑے قصور پر مسلمانوں کی نسبت طعن کرنا جو ان سے بوجہ لاعلمی صادر ہوا بڑی شرم کی بات ہے۔
٤) فتنہ انگیزی قتل سے بڑا جرم ہے:
یعنی دین میں فتنہ اور فساد ڈالنا کہ لوگ دین حق کو قبول نہ کریں اس قتل سے بدرجہا مذموم ہے جو مسلمانوں سے شہر حرام میں واقع ہوا مشرکین کی عادت تھی کہ دین اسلام کی باتوں میں طرح طرح سے خدشات کیا کرتے تھے تاکہ لوگ شبہ میں پڑ جائیں اور اسلام کو قبول نہ کریں چنانچہ اسی قصہ میں کہ مسلمانوں سے شہر حرام میں بوجہ لاعلمی قتل واقعہ ہوا اس پر مشرکین نے جو زبان درازی کی تو اس سے مقصود یہی تھا کہ لوگ قبول اسلام سے متنفر ہو جائیں تو خلاصہ یہ ہوا کہ مسلمانوں سے جو قتل صادر ہوا اس پر مشرکین کا طعن کرنا اس وجہ سے کہ لوگ دین حق سے بچل جائیں قتل مذکور سے بدرجہا مذموم و شنیع ہے۔
٥) یعنی جب تک تم دین حق پر قائم رہو گے یہ مشرکین کسی حالت اور کسی موقع پر بھی تمہارے مقاتلہ اور مخالفت میں کمی نہیں کریں گے حرم مکہ اور شہر حرام ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ عمرہ حدیبیہ میں پیش آیا نہ حرم مکہ کی حرمت کی اور نہ شہر حرام کی بلاوجہ محض عناد سے مارنے مرنے کو مستعد ہو گئے اور مسلمانوں کے مکہ میں جانے اور عمرہ کرنے کے روادار نہ ہوئے پھر ایسے معاندین کے طعن تشنیع کی کیا پروا کی جائے اور ان سے مقاتلہ کرنے میں شہر حرم کی وجہ سے کیوں رکا جائے۔
٦) مرتد کے اعمال ضایع : یعنی دین اسلام سے پھر جانا اور اسی حالت پر اخیر تک قائم رہنا ایسی سخت بلا ہے کہ عمر بھر کے نیک کام ان کے ضائع ہو جاتے ہیں کہ کسی بھلائی کے مستحق نہیں رہتے دنیا میں نہ ان کی جان و مال محفوظ رہے نہ نکاح قائم رہے نہ ان کو میراث ملے نہ آخرت میں ثواب ملے اور نہ کبھی جنت سے نجات نصیب ہو ہاں اگر پھر اسلام قبول کر لے تو صرف اس اسلام کے بعد کے اعمال حسنہ کی جزا پوری ملے گی۔


کفار اور انصاف کا حکم دینے والے "انبیاء" کے قاتلوں (بنی اسرائیل) کے دنیا اور آخرت کے (نیک) اعمال برباد

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّ یَقۡتُلُوۡنَ الَّذِیۡنَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡقِسۡطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ {۲۱} أُولٰئِكَ الَّذينَ حَبِطَت أَعمٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ وَما لَهُم مِن نٰصِرينَ {آل عمران:22} 
جو لوگ انکار کرتے ہیں اللہ کے حکموں کا اور قتل کرتے ہیں پیغمبروں کو ناحق اور قتل کرتے ہیں ان کو جو حکم کرتے ہیں انصاف کرنے کا لوگوں میں سے سو خوشخبری سنا دے انکو عذاب دردناک کی. یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہیں اور ان کا کوئی مددگار نہیں (ہوگا).

تفسیر : بنی اسرائیل کے جرائم اور سزا: حدیث میں ہے کہ "بنی اسرائیل" نے ایک دن میں تینتالیس نبی اور ایک سو ستر یا ایک سو بارہ صالحین کو شہید کیا یہاں نصاریٰ نجران اور دوسرے کفار کو سنایا جارہا ہے کہ احکام الہٰی سے منکر ہو کر انبیاء اور انصاف پسند ناصحین سے مقابلہ کرنا اور پرلے درجے کی شقاوت و سنگدلی سے ان کے خون میں ہاتھ رنگنا معمولی چیز نہیں۔ ایسے لوگ سخت دردناک عذاب کے مستحق اور دونوں جہان کی کامیابی سے محروم ہیں۔ ان کی محنت برباد اور ان کی کوششیں اکارت ہوں گی اور دنیا و آخرت میں جب سزا ملے گی تو کوئی بچانے والا اور مددکرنے والا نہ ملے گا۔


مرتد کے (نیک) اعمال ضایع
اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۖ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم ۖ وَالمُحصَنٰتُ مِنَ المُؤمِنٰتِ وَالمُحصَنٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَهُنَّ مُحصِنينَ غَيرَ مُسٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ ۗ وَمَن يَكفُر بِالإيمٰنِ فَقَد حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخٰسِرينَ {المائدة:5}
آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں (١) اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے(٢) اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے(٣) اور پاک دامن مومن عورتیں (٤) اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) (٥) جبکہ ان کا مہر دے دو۔(٦) اور ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی (٧) اور جو شخص ایمان سے منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہوگئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا(٨).

تفسیر : ١) یعنی جیسے آج دین کامل تم کو دیا گیا، دنیا کی تمام پاکیزہ نعمتیں بھی تمہارے لئے دائمی طور پر حلال کر دی گئیں جو کبھی منسوخ نہ ہونگی۔
٢) اہل کتاب کا کھانا حلال ہے: یہاں طعام (کھانے) سے مراد "ذبیحہ" ہے یعنی کوئی یہودی یا نصرانی (بشرطیکہ اسلام سے مرتد ہو کر یہودی یا نصرانی نہ بنا ہو) اگر حلال جانور ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام نہ لے تو اس کا کھانا مسلمان کو حلال ہے مرتد کے احکام جداگانہ ہیں۔
٣) اس مقام پر اس کا ذکر بطور مجازات و مکافات کے استطرادًا فرما دیا۔ یعنی احادیث میں جو آیا ہے لَا یَاْ کُلُ طَعَامَکَ اِلاَّ تَقِیٌّ (تیرا کھانا نہ کھائے مگر پرہیزگار) اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر پرہیزگاروں کے لئے تمہارا کھانا حرام ہے۔ جب مسلمان کے لئے کافر کتابی کے ذبیحہ کی اجازت ہو گئ تو ایک مواحد مسلم کا ذبیحہ اور کھانا دوسروں کے لئے کیوں حرام ہو گا۔
٤) "پاکدامن" کی قید شاید ترغیب کے لئے ہو۔ یعنی ایک مسلمان کو چاہئے کہ نکاح کرتے وقت پہلی نظر عورت کی عفت اور پاکدامنی پر ڈالے یہ مطلب نہیں کہ پاکدامن کے سوا کسی اور سے نکاح صحیح نہیں ہو گا۔
٥) اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی حلت : اہل کتاب کو ایک مخصوص حکم کے ساتھ دوسرا مخصوص حکم بھی بیان فرما دیا۔ یعنی یہ کہ کتابی عورت سے نکاح کرنا شریعت میں جائز ہے۔ مشرکہ سے اجازت نہیں۔ وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ (بقرہ: ۲۲۱) مگر یہ یاد رہے کہ ہمارے زمانہ کے "نصاریٰ" عمومًا برائے نام نصاریٰ ہیں ان میں بکثرت وہ ہیں جو نہ کسی کتاب آسمانی کے قائل ہیں نہ مذہب کے نہ خدا کے ان پر اہل کتاب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ لہذا ان کے ذبیحہ اور نساء کا حکم اہل کتاب کا سا نہ ہو گا۔ نیز یہ ملحوظ رہے کہ کسی چیز کے حلال ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں فی حد ذاتہ کوئی وجہ تحریم کی نہیں۔ لیکن اگر خارجی اثرات و حالات ایسے ہوں کہ اس حلال سے منتفع ہونے میں بہت سے حرام کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے بلکہ کفر میں مبتلا ہونے کا احتمال ہو تو ایسے حلال سےانتفاع کی اجازت نہیں دی جائے گی موجودہ زمانے میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ کھانا پینا، بےضرورت اختلاط کرنا، ان کی عورتوں کے جال میں پھنسنا یہ چیزیں جو خطرناک نتائج پیدا کر تی ہیں وہ مخفی نہیں۔ لہذا بدی اور بد دینی کے اسباب و ذرائع سےاجتناب ہی کرنا چاہئے۔
٦) یعنی قید نکاح میں لانے کو ۔ گویا اس طرف اشارہ ہو گیا کہ نکاح بظاہر قید ہے لیکن یہ قید ان آزادیوں او ر ہوس رانیوں سے بہتر ہے جن کی طلب میں انسان نما بہائم سلسلہ ازدواج ہی کو معدوم کر دینا چاہتے ہیں۔
٧) جس طرح پہلے عورت کی پاکدامنی کا ذکر کیا تھا یہاں مرد کو پاکباز اور عفیف رہنے کی ہدایت فرما دی: الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ (نور۔۲۶) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی نظر میں نکاح کی غرض گوہر عصمت کو محفوظ اور مقصد تزویج کو پورا کرنا ہے۔ شہوت رانی اور ہوا پرستی مقصود نہیں۔

٨) جن کتابی عورتوں سے نکاح کی اجازت ہوئی ۔ اس کا فائدہ یہ ہونا چاہئے کہ مومن قانت کی حقانیت عورت کے دل میں گھر کر جائے نہ یہ کہ کتابیات پر مفتوں ہو کر الٹا اپنی متاع ایمانی ہی کو گنوا بیٹھے اور "خسرالدنیا والآ خرۃ" کا مصداق ہو کر رہ جائے۔ چونکہ کافر عورت سے نکاح کرنے میں اس فتنہ کا قوی احتمال ہو سکتا ہے ۔ اس لئے وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُہٗ کی تہدید نہایت ہی بر محل ہے۔ یہ میرا خیال ہے۔ باقی حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ "اہل کتاب کو کفار سے دو حکم میں مخصوص کیا یہ فقط دنیا میں ہے اور آخرت میں ہر کافر خراب ہے اگر عمل نیک بھی کرے تو قبول نہیں"۔

منافقین کے اعمال برباد
وَيَقولُ الَّذينَ ءامَنوا أَهٰؤُلاءِ الَّذينَ أَقسَموا بِاللَّهِ جَهدَ أَيمٰنِهِم ۙ إِنَّهُم لَمَعَكُم ۚ حَبِطَت أَعمٰلُهُم فَأَصبَحوا خٰسِرينَ {المائدة:53} 
اور اس (وقت) مسلمان (تعجب سے) کہیں گے کہ کیا یہ وہی ہیں جو خدا کی سخت سخت قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ان کےعمل اکارت گئے اور وہ خسارے میں پڑ گئے.

تفسیر : قرآن مجید میں الله نے اسی طرح منافقین کا حال فرمایا : اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿المنافقون:۲﴾ ترجمہ : انہوں نے رکھا ہے اپنی قسموں کو ڈھال بنا کر (١) پھر روکتے ہیں اللہ کی راہ سے یہ لوگ برے کام ہیں جو کر رہے ہیں.(٢)؛
١) منافقین کی جھوٹی قسمیں: یعنی جھوٹی قسمیں کھالیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور مجاہدین اسلام کے ہاتھوں سے اپنی جان و مال محفوظ رکھنے کے لئے ان ہی قسموں کی آڑ پکڑتے ہیں۔ جہاں کوئی بات قابل گرفت ان سے سرزد ہوئی اور مسلمانوں کی طرف سے مواخذہ کا خوف ہوا۔ فوراً جھوٹی قسمیں کھا کر بری ہوگئے۔
٢) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں: یعنی اسلام اور مسلمانوں کی نسبت طعن و تشنیع اور عیب جوئی کر کے دوسروں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور لوگ ان کو بظاہر مسلمان دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں، تو ان کی جھوٹی قسموں کا ضرر فساد ان ہی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ دوسروں تک متعدی ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر برا کام اورکیا ہوگا (لیکن ایک شخص جب تک بظاہر ضروریات دین کا اقرار کرتا ہے خواہ جھوٹ اور فریب ہی سے کیوں نہ ہو، اسلام اس کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔

الله کی آیات اور آخرت میں اس سے ملاقات کے منکر کے اعمال برباد
وَالَّذينَ كَذَّبوا بِـٔايٰتِنا وَلِقاءِ الءاخِرَةِ حَبِطَت أَعمٰلُهُم ۚ هَل يُجزَونَ إِلّا ما كانوا يَعمَلونَ {الأعراف:147}
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کے آنے کو جھٹلایا ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا

تفسیر : یعنی احکام الہٰیہ پر چلنے کی توفیق نہ ہوگی۔ اور جو کچھ کام اپنی عقل سے کریں گے وہ خدا کے یہاں قبول نہ ہوگا۔ جیسا کریں گے ویسا بھگتیں گے۔ باقی ان کی بےجان اور مردہ نیکیوں کا جو بدلہ ملنا ہوگا دنیا میں مل رہے گا۔

مشرکین کے اعمال ضایع
ما كانَ لِلمُشرِكينَ أَن يَعمُروا مَسٰجِدَ اللَّهِ شٰهِدينَ عَلىٰ أَنفُسِهِم بِالكُفرِ ۚ أُولٰئِكَ حَبِطَت أَعمٰلُهُم وَفِى النّارِ هُم خٰلِدونَ {التوبة:17} 
مشرکوں کی زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کے سب اعمال بےکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے


منافقین کے اعمال برباد
كَالَّذينَ مِن قَبلِكُم كانوا أَشَدَّ مِنكُم قُوَّةً وَأَكثَرَ أَموٰلًا وَأَولٰدًا فَاستَمتَعوا بِخَلٰقِهِم فَاستَمتَعتُم بِخَلٰقِكُم كَمَا استَمتَعَ الَّذينَ مِن قَبلِكُم بِخَلٰقِهِم وَخُضتُم كَالَّذى خاضوا ۚ أُولٰئِكَ حَبِطَت أَعمٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ ۖ وَأُولٰئِكَ هُمُ الخٰسِرونَ {التوبة:69} 
(تم منافق لوگ) ان لوگوں کی طرح ہو، جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں۔ وہ تم سے بہت زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ تھے تو وہ اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے(١) سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھا چکے ہیں اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھالیا(٢) اور جس طرح وہ باطل میں ڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے۔ اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں(٣)؛

تفسیر : ١) اللہ نے منافقین کو بھلا دیا: یعنی دنیوی لذائذ کا جو حصہ ان کے لئے مقدر تھا اس سے فائدہ اٹھا گئے اور آخری انجام کا خیال نہ کیا۔
٢) یعنی تم بھی ان کی طرح آخری انجام کے تصور سے غافل ہو کر دنیا کی متاع فانی سے جتنا مقدر ہے حصہ پا ر ہے ہو اور ساری چال ڈھال انہی کی سی رکھتے ہو تو سمجھ لو جو حشر ان کا ہوا وہ ہی تمہارا بھی ہو سکتا ہے ان کے پاس مال و اولاد اور جسمانی قوتیں تم سے زائد تھیں پھر انتقام الہٰی کی گرفت سے نہ بچ سکے تو تم کو کاہے پر بھروسہ ہے جو خدائی سزا سے اس قدر بے فکر ہو بیٹھے ہو۔

٣) یعنی کوئی دنیوی و آخروی برکت و کرامت انہیں نصیب نہ ہوئی۔ باقی دنیوی لذائذ کو جو حصہ بظاہر ملا ۔ وہ فی الحقیقت ان کے حق میں استدراج اور عذاب تھا جیسا کہ دو رکوع پہلے فَلَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ الخ کے فوائد میں گذر چکا اور اس سے پیشتر بھی کئ مواقع میں لکھا جا چکا ہے۔

کفار کے سارے اعمال برباد
مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ ﴿۱۵﴾ أُولٰئِكَ الَّذينَ لَيسَ لَهُم فِى الءاخِرَةِ إِلَّا النّارُ ۖ وَحَبِطَ ما صَنَعوا فيها وَبٰطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ {هود:16}
جو کوئی چاہے دنیا کی زندگانی اور اسکی زینت بھگتا دیں گے ہم انکو ان کے عمل دنیا میں اور انکو اس میں کچھ نقصان نہیں. یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا کوئی چیز نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کئے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع


تفسیر : ١) کفار کی نیکیوں کی جزا دنیا میں: یعنی ایسے واضح ثبوت کے بعد جو شخص قرآن پر ایمان لاتا ، یا اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر نہیں چلتا بلکہ دنیا کی چند روزہ زندگی اور فانی ٹیپ ٹاپ ہی کو قبلہ مقصود ٹھہرا کر عملی جدو دجہد کرتا ہے۔ اگر بظاہر کوئی نیک کام مثلاً خیرات وغیرہ کرتا ہے تو اس سے بھی آخرت کی بہتری اور خدا کی خوشنودی مقصود نہیں ہوتی محض دنیوی فوائد کا حاصل کر لینا پیش نظر ہوتا ہے۔ ایسےلوگوں کی بابت خواہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین یا منافقین یا دنیا پرست ریاکار مسلمان۔ بتلا دیا کہ دنیا ہی میں ان کا بھگتان کر دیا جائے گا۔ جو اعمال اور کوششیں وہ حصول دنیا کے لئے کریں گے ان کے کم و کیف کو ملحوظ رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ اپنےعلم و حکمت سے جس قدر مناسب جانے گا اور دینا چاہے گا ۔ یہیں عطا فرما دے گا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر جو خیرات وغیرہ کے کام کرے اس کی یہ فانی اور صوری حسنات جو روح ایمان سے یکسر خالی ہیں ، دنیا میں رائیگاں نہیں جاتیں ان کےبدلہ میں خدا تعالیٰ تندرستی ، مال ، اولاد ، عزت و حکومت وغیرہ دے کر سب کھاتہ بے باق کر دیتا ہے۔ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں کوئی چیز اس کےکام آنے والی نہیں۔ جس کافر کے لئے جس درجہ کی سزا تجویز ہو چکی ہے وہ کبھی اس سے ٹلنے یا کم ہونے والی نہیں۔ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعَاجِلَۃَ عَجَّلۡنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلٰىہَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا (بنی اسرائیل۔۱۸) ریاکار اور دنیا پرست عالم ، متصدق اور مجاہد کے حق میں جو وعید آئی ہے ۔ اس کا حاصل بھی یہ ہی ہے کہ ان سے محشر میں کہا جائے گا کہ جس غرض کے لئے تو نے علم سکھلایا ، یا صدقہ و جہاد کیا وہ دنیا میں حاصل ہو چکی ، اب ہمارے پاس تیرے لئےکچھ نہیں۔ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اسے جہنم میں لے جاؤ۔ (اعادتا اللہ منہا)
٢) یعنی ان اعمال پر دوزخ کے سوا اور کسی چیز کے مستحق نہیں۔ کفار ابدی طور پر اور ریاکار مسلمان محدود مدت کے لئے۔ ہاں خدا تعالیٰ بعض مومنین کو محض اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے ، وہ الگ بات ہے۔
٣) یعنی دنیا میں جو کام دنیوی اغراض کے لئے کئے تھے ، آخرت میں پہنچ کر ظاہر ہو گا کہ وہ سب برباد ہوئے اور ریاکاری یا دنیا پرستی کے سلسلہ میں بظاہر جو نیکیاں کمائی تھیں ، سب یوں ہی خراب گئیں ، یہاں کوئی کام نہ آئی۔

الله کی آیات اور آخرت میں ملاقات کا انکار کرنے والے کافروں کے اعمال برباد
أُولٰئِكَ الَّذينَ كَفَروا بِـٔايٰتِ رَبِّهِم وَلِقائِهِ فَحَبِطَت أَعمٰلُهُم فَلا نُقيمُ لَهُم يَومَ القِيٰمَةِ وَزنًا {الكهف:105}
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے

تفسیر : ١) سب سے زیادہ گھاٹے والے طالبین دنیا: یعنی نہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو مانا ، نہ خیال کیا کہ کبھی اس کے سامنے حاضر ہونا ہے۔

٢) کفار کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا: کافر کی حسنات مردہ ہیں ، اس ابدی زندگی میں کسی کام کی نہیں ۔ اب محض کفریات و سیئات رہ گئیں۔ سو ایک پلہ کیا تلے تولنا تو موازنہ کے لئے تھا۔ موازنہ متقابل چیزوں میں ہوتا ہے یہاں سیئات کے بالمقابل حسنہ کا وجود ہی نہیں ۔ پھر تولنے کا کیا مطلب۔

منافقین کے اعمال برباد
أَشِحَّةً عَلَيكُم ۖ فَإِذا جاءَ الخَوفُ رَأَيتَهُم يَنظُرونَ إِلَيكَ تَدورُ أَعيُنُهُم كَالَّذى يُغشىٰ عَلَيهِ مِنَ المَوتِ ۖ فَإِذا ذَهَبَ الخَوفُ سَلَقوكُم بِأَلسِنَةٍ حِدادٍ أَشِحَّةً عَلَى الخَيرِ ۚ أُولٰئِكَ لَم يُؤمِنوا فَأَحبَطَ اللَّهُ أَعمٰلَهُم ۚ وَكانَ ذٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرًا {الأحزاب:19} 
(یہ اس لئے کہ) تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں۔(١) پھر جب ڈر (کا وقت) آئے تو تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور) اُن کی آنکھیں (اسی طرح) پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آرہی ہو۔ پھر جب خوف جاتا رہے تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں اور مال میں بخل کریں۔(٢) یہ لوگ (حقیقت میں) ایمان لائے ہی نہ تھے تو خدا نے ان کے اعمال برباد کر دیئے۔ اور یہ خدا کو آسان تھا۔(٣)

تفسیر : ١) منافقین کی منافقت: یعنی مسلمانوں کا ساتھ دینے سے دریغ رکھتے ہیں اور ہر قسم کی ہمدردی و بہی خواہی سے بخل ہے ہاں غنیمت کا موقع آئے تو حرص کے مارے چاہیں کہ کسی کو کچھ نہ ملے سارا مال ہم ہی سمیٹ کر لیجائیں اسی احتمال پر لڑائی میں قدرے شرکت بھی کر لیتے ہیں۔
٢) منافقین کی لفاظی: یعنی آڑے وقت رفاقت سے جی چراتے ہیں، ڈر کے مارے جان نکلتی ہے اور فتح کے بعد آ کر باتیں بناتے اور سب سے زیادہ مردانگی جتاتے ہیں اور مال غنیمت پر مارے حرص کے گر پڑتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق طعن و تشنیع سے زبان درازی کرتے ہیں۔

٣) بے ایمان کا عمل: یعنی جب اللہ و رسول پر ایمان نہیں تو کوئی عمل مقبول نہیں ہو سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔ جہاں حبط اعمال کا ذکر ہے تو فرمایا کہ یہ اللہ پر آسان ہے ۔ یعنی بظاہر اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت کو دیکھتے ہوئے تعجب ہوتا ہے اور یہ بات بھاری معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی کی محنت کو ضائع کر دے۔ لیکن اس لئے بھاری نہیں رہتی کہ خود عمل ہی کے اندر ایسی خرابی چھپی ہوتی ہے جو کسی طرح اس کو درست نہیں ہونے دیتی۔ جیسے بے ایمان کا عمل کہ ایمان شرط اور روح ہے ہر عمل کی، بدون اس کے عمل مردہ ہے پھر قبول کس طرح ہو۔ کافر کتنی ہی محنت کرے سب اکارت ہے۔

مشرکوں کے اعمال برباد
وَلَقَد أوحِىَ إِلَيكَ وَإِلَى الَّذينَ مِن قَبلِكَ لَئِن أَشرَكتَ لَيَحبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكونَنَّ مِنَ الخٰسِرينَ {الزمر:65}
اور (اے محمدﷺ) تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے۔ کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم زیاں کاروں میں ہوجاؤ گے


کفار کے اعمال برباد
وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَتَعۡسًا لَّہُمۡ وَ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۸﴾ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم كَرِهوا ما أَنزَلَ اللَّهُ فَأَحبَطَ أَعمٰلَهُم {محمد:9}
اور جو کافر ہیں انکے لئے ہلاکت ہے۔ اور اللہ انکے اعمال کو برباد کر دے گا۔ یہ اس لئے کہ خدا نے جو چیز نازل فرمائی انہوں نے اس کو ناپسند کیا تو خدا نے بھی ان کے اعمال اکارت کردیئے

تفسیر : منکرین کی بد حالی: یعنی جب انہوں نے اللہ کی باتوں کو ناپسند کیا تو اللہ انکے کام کیوں پسند کرے گا اور جو چیز خدا کو ناپسند ہو وہ محض اکارت ہے۔


منافقین کے اعمال برباد
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿۲۴﴾ اِنَّ الَّذِیۡنَ ارۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدَی ۙ الشَّیۡطٰنُ سَوَّلَ لَہُمۡ ؕ وَ اَمۡلٰی لَہُمۡ ﴿۲۵﴾ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ کَرِہُوۡا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ بَعۡضِ الۡاَمۡرِ ۚۖ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِسۡرَارَہُمۡ ﴿۲۶﴾ فَکَیۡفَ اِذَا تَوَفَّتۡہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ ﴿۲۷﴾ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعوا ما أَسخَطَ اللَّهَ وَكَرِهوا رِضوٰنَهُ فَأَحبَطَ أَعمٰلَهُم ﴿۲۸﴾ اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ اَنۡ لَّنۡ یُّخۡرِجَ اللّٰہُ اَضۡغَانَہُمۡ ﴿۲۹﴾ وَ لَوۡ نَشَآءُ لَاَرَیۡنٰکَہُمۡ فَلَعَرَفۡتَہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ؕ وَ لَتَعۡرِفَنَّہُمۡ فِیۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اَعۡمَالَکُمۡ ﴿۳۰﴾ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ ۙ وَ نَبۡلُوَا۠ اَخۡبَارَکُمۡ ﴿۳۱﴾ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدٰی ۙ لَنۡ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیُحۡبِطُ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۳۲﴾  {محمد:24-32}؛ 
بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا انکے دلوں پر قفل پڑے ہیں۔(١) جو لوگ راہ ہدایت ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ پھیر گئے شیطان نے یہ کام انکو اچھا کرکے دکھایا اور انہیں لمبی عمر کا وعدہ دیا۔(٢) یہ اس لئے کہ جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب سے بیزار ہیں یہ ان سے کہتے ہیں کہ بعض کاموں میں ہم تمہاری بات بھی مانیں گے اور اللہ انکے پوشیدہ مشوروں سے واقف ہے۔(٣) تو اس وقت ان کا کیسا حال ہوگا جب فرشتے انکی جان نکالیں گے اور انکے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے جائیں گے۔(٤) یہ اس لئے کہ جس چیز سے خدا ناخوش ہے یہ اس کے پیچھے چلے اور اس کی خوشنودی کو اچھا نہ سمجھے تو اُس نے بھی ان کے عملوں کو برباد کردیا۔(٥) کیا وہ لوگ جنکے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ اللہ انکے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا؟(٦) اور اگر ہم چاہتے تو وہ لوگ تم کو دکھا بھی دیتے اور تم انکو ان کے چہروں ہی سے پہچان لیتے۔ اور تم انہیں انکے انداز گفتگو ہی سے پہچان لوگے(٧) اور اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔(٨) اور ہم تم لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں جہاد کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں انکو معلوم کریں(٩) اور تمہارے حالات جانچ لیں۔(١٠) جن لوگوں کو سیدھا رستہ معلوم ہوگیا اور پھر بھی انہوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا اور پیغمبر کی مخالفت کی وہ اللہ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے اور اللہ ان کا سب کیا کرایا اکارت کردے گا۔ (١١)

تفسیر : ١) قرآن میں غور نہیں کرتے: یعنی منافق قرآن میں غور نہیں کرتے یا انکی شرارتوں کی بدولت دلوں پر قفل پڑ گئے ہیں کہ نصیحت کے اندر جانے کا راستہ ہی نہیں رہا۔ اگر قرآن کے سمجھنے کی توفیق ملتی تو با آسانی سمجھ لیتے کہ جہاد میں کس قدر دنیوی و اخروی فوائد ہیں۔
٢) منافقین کو شیطان کا دھوکہ: یعنی منافقین اسلام کا اقرار کرنے اور اسکی سچائی ظاہر ہو چکنے کے بعد وقت آنے پر اپنے قول و قرار سے پھرے جاتے ہیں۔ اور جہاد میں شرکت نہیں کرتے۔ شیطان نے انکو یہ بات سمجھا دی ہے کہ لڑائی میں نہ جائیں گے تو دیر تک زندہ رہیں گے۔ خواہ مخواہ جا کر مرنے سے کیا فائدہ۔ اور نہ معلوم کیا کچھ سمجھاتا اور دور دراز کے لمبے چوڑے وعدے دیتا ہے۔ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا (النساء۔۱۲۰)۔
٣) منافقوں نے یہود وغیرہ سے کہا کہ گو ہم ظاہر میں مسلمان ہو گئے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ ہو کر تم سے نہ لڑیں گے۔ بلکہ موقع ملا تو تمکو مدد دیں گے اور اس قسم کے کاموں میں تمہای بات مانیں گے۔
٤) یعنی اس وقت موت سے کیونکر بچیں گے۔ بیشک اس وقت نفاق کا مزہ چکھیں گے۔
٥) یعنی اللہ کی خوشنودی کا راستہ پسند نہ کیا۔ اسی راہ پر چلے جس سے وہ ناراض ہوتا تھا۔ اس لئے موت کے وقت یہ بھیانک سماں دیکھنا پڑا۔ اور اللہ نے ان کے کفر و طغیان کی بدولت سب عمل بیکار کر دیے۔ کسی عمل نے انکو دوسری زندگی میں فائدہ نہ پہنچایا۔
٦) منافقین کی کینہ پروری ظاہر کی جائیگی: یعنی منافقین اپنے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جو حاسدانہ عداوتیں اور کینے رکھتے ہیں، کیا یہ خیال ہے کہ وہ دلوں میں پنہاں ہی رہیں گے؟ اللہ انکو طشت از بام نہ کرے گا؟ اور مسلمان انکے مکر و فریب پر مطلع نہ ہوں گے؟ ہر گز نہیں۔ ان کا خبث باطن ضرور ظاہر ہو کر رہے گا اور ایسے امتحان کی بھٹی میں ڈالے جائیں گے جہاں کھوٹا کھرا بالکل الگ ہو جائے گا۔
٧) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کی پہچان: یعنی اللہ چاہے تو تمام منافقین کو باشخاصہم معین کر کے آپ کو دکھلا دے اور نام بنام مطلع کر دے کہ مجمع میں فلاں فلاں آدمی منافق ہیں۔ مگر اسکی حکمت بالفعل اس دو ٹوک اظہار کو مقتضی نہیں۔ ویسے اللہ نے آپ کو اعلٰی درجہ کا نور فراست دیا ہے کہ ان کے چہرے بشرے سے آپ پہچان لیتے ہیں اور آگے چل کر ان لوگوں کے طرز گفتگو سے آپ کو مزید شناخت ہو جائے گی۔ کیونکہ منافق اور مخلص کی بات کا ڈھنگ الگ الگ ہوتا ہے۔ جو زور ، شوکت، پختگی اور خلوص کا رنگ مخلص کی باتوں میں جھلکتا ہے، منافق کتنی ہی کوشش کرے اپنے کلام میں پیدا نہیں کر سکتا۔ (تنبیہ) مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے فَلَعَرَفْتَہُمْ کو لَوۡ نَشَآءُ کے نیچے نہیں رکھا۔ عامّہ مفسرین اسکو لَوۡ نَشَآءُ کے تحت میں رکھ کر لَاَرَیۡنٰکَہُمۡ پر متفرع کرتے ہیں یعنی اگر ہم چاہیں تو تجھ کو دکھلا دیں وہ لوگ، پھر تو انکو پہچان جائے صورت دیکھ کر۔ احقر کے خیال میں مترجم رحمہ اللہ کی تفسیر زیادہ لطیف ہے۔ واللہ اعلم۔ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے بہت سےمنافقین کو نام بنام پکارا اور اپنی مجلس سے اٹھا دیا۔ ممکن ہے کہ وہ شناخت لَحۡنِ الۡقَوۡلِ اور سِیْما وغیرہ سے حاصل ہوئی ہو۔ یا آیۂ ہذا کے بعد حق تعالٰی نے آپکو بعض منافقین کے اسماء پر تفصیل و تعیین کے ساتھ مطلع فرما دیا ہو۔ واللہ اعلم۔
٨) یعنی بندوں سے کوئی بات چھپی رہے، ممکن ہے۔ مگر اللہ کے علم میں تمہارے سب کام ہیں خواہ کھل کر کرو یا چھپا کر۔
٩) جہاد امتحان کیلئے ہے: یعنی جہاد وغیرہ کے احکام سے آزمائش مقصود ہے۔ اسی سخت آزمائش میں کھلتا ہے کہ کون لوگ اللہ کے راستہ میں لڑنے والے اور شدید ترین امتحانات میں ثابت قدم رہنے والے ہیں اور کون ایسے نہیں۔
١٠) یعنی ہر ایک کے ایمان اور اطاعت و انقیاد کا وزن معلوم ہو جائے اور سب کے اندرونی احوال کی خبریں عملًا محقق ہو جائیں (تنبیہ) حَتّٰی نَعْلَمَ الخ سے جو شبہ حدوثِ علم کا ہوتا ہے اس کا مفصل جواب "پارہ سیقول" کے شروع میں اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ یَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ الخ کے حواشی میں ملاحظہ کیا جائے۔

١١) یعنی اپنا ہی نقصان کرتے ہیں، اللہ کا کیا نقصان ہے۔ نہ اسکے دین اور پیغمبر کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ وہ قدرت والا انکے سارے منصوبے غلط اور تمام کام اکارت کر دے گا اور سب کوششیں خاک میں ملا دے گا۔




يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَرفَعوا أَصوٰتَكُم فَوقَ صَوتِ النَّبِىِّ وَلا تَجهَروا لَهُ بِالقَولِ كَجَهرِ بَعضِكُم لِبَعضٍ أَن تَحبَطَ أَعمٰلُكُم وَأَنتُم لا تَشعُرونَ {الحجرات:2}
اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ 
بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو

تفسیر : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے آداب: یعنی حضورﷺ کی مجلس میں شور نہ کرو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بے تکلف چہک کر یا تڑخ کر بات کرتے ہو، حضور ﷺ کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنا خلاف ادب ہے۔ آپ سےخطاب کرو تو نرم آواز سے تعظیم و احترام کے لہجہ میں ادب و شائستگی کے ساتھ۔ دیکھو ایک مہذب بیٹا اپنے باپ سے، لائق شاگرد استاد سے، مخلص مرید پیر و مرشد سے اور ایک سپاہی اپنے افسر سے کس طرح بات کرتا ہے۔ پیغمبر کا مرتبہ تو ان سب سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ سےگفتگو کرتے وقت پوری احتیاط رکھنی چاہئے۔ مبادا بے ادبی ہو جائے اور آپ کو تکدر پیش آئے۔ تو حضور ﷺ کی ناخوشی کے بعد مسلمان کا ٹھکانا کہاں ہے۔ ایسی صورت میں تمام اعمال ضائع ہونے اور ساری محنت اکارت جانے کا اندیشہ ہے۔ (تنبیہ) بزرگان دین کے آداب: حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضور ﷺ کی احادیث سننے اور پڑھنے کے وقت بھی یہ ہی ادب چاہئے اور قبر شریف کے پاس حاضر ہو وہاں بھی ان آداب کو ملحوظ رکھے۔ نیز آپ کے خلفاء، علمائے ربانیین اور اولوالامر کے ساتھ درجہ بدرجہ اسی ادب سے پیش آنا چاہئے۔ تا جماعتی نظام قائم رہے۔ فرق مراتب نہ کرنے سے بہت مفاسد اور فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے۔
                    (جمع و ترتیب : عزیر میمن)
============================================
جو فرض نماز چھوڑدے اس کے اعمال برباد
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَنَا عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْمُنْقِرِيُّ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، وَالْحَسَنِ أَنَّهُمَا كَانَا جَالِسَيْنِ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : " مَنْ تَرَكَ الْعَصْرَ حَتَّى تَفُوتَهُ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ " ، قَالَ : وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً حَتَّى تَفُوتَهُ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ " .

السنن الصغير للبيهقي - الصفحة أو الرقم: 1/326 ، كشف اللثام الصفحة أو الرقم: 2/25
حضرت ابو درداء (عويمر بن مالك) سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص  بلا کسی عذر کے فرض نماز چھوڑ دے حتیٰ کہ وہ فوت (قضا) ہوجاۓ ، تو اس کے اعمال ضایع ہوگئے (مطلب یہ ہے کہ اس کے دوسرے نیک عمل کا اجر بھی نہیں ملے گا)۔

اس شخص کا گناہ جو نماز عصر چھوڑ دے

 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ قَالَ : كُنَّا مَعَ بُرَيْدَةَ (عامر بن الحصيب) فِي غَزْوَةٍ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ ، فَقَالَ : بَكِّرُوا بِصَلَاةِ الْعَصْرِ ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ » بَاب مَنْ تَرَكَ الْعَصْرَ ... رقم الحديث: 522]
ابوملیح روایت کرتے ہیں کہ ہم کسی غزوہ میں ابر کے دن بریدہ (عامر بن الحصيب) کے ہمراہ تھے، تو انہوں نے کہا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے، تو اس کے اعمال بے کار ہوگئے (مطلب یہ ہے کہ اس کے دوسرے نیک عمل کا اجر بھی نہیں ملے گا)۔
بعض احادیث میں ان الفاظ سے مروی ہے
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ , قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ الْمِنْقَرِيُّ , عَنْ الْحَسَنِ , وأبي قلابة , أنهما كانا جالسين , فقال أبو قلابة : قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ (عويمر بن مالك) , قالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ مُتَعَمِّدًا حَتَّى تَفُوتَهُ , فَقَدْ أُحْبِطَ عَمَلُهُ " .[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ » مِنْ حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ عُوَيْمِرٍ ... رقم الحديث: 26841]
حضرت ابو درداء (عويمر بن مالك) سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے جان بوجھ کر حتیٰ کہ اسے فوت (قضا) کردے ، تو اس کے اعمال بے کار ہوگئے.

It was narrated that Abu Qilabah said: “Abu Al-Malih narrated to me: ‘We were with Buraidah on a cloudy day and he said: “Pray early, for the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘Whoever abandons Salat Al-’Asr, his good deeds will perish.” 

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبصحيح البخاري522553محمد بن إسماعيل البخاري256
2من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبصحيح البخاري562594محمد بن إسماعيل البخاري256
3من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبسنن النسائى الصغرى470474النسائي303
4من فاتته صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبسنن ابن ماجه686694ابن ماجة القزويني275
5من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبمسند أحمد بن حنبل2235422447أحمد بن حنبل241
6من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبمسند أحمد بن حنبل2235622449أحمد بن حنبل241
7من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبمسند أحمد بن حنبل2242322516أحمد بن حنبل241
8من ترك صلاة العصر متعمدا أحبط الله عملهعامر بن الحصيبمسند أحمد بن حنبل2244222535أحمد بن حنبل241
9من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبمسند أحمد بن حنبل2244522538أحمد بن حنبل241
10من فاته صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبمسند أحمد بن حنبل2245222545أحمد بن حنبل241
11من ترك صلاة العصر أحبط عملهعامر بن الحصيبصحيح ابن خزيمة344336ابن خزيمة311
12من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبصحيح ابن حبان15001470أبو حاتم بن حبان354
13من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبالسنن الكبرى للنسائي361363النسائي303
14من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبالسنن الكبرى للبيهقي19031 : 444البيهقي458
15من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبالسنن الكبرى للبيهقي19041 : 444البيهقي458
16من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبموطأ عبد الله بن وهب294325عبد الله بن وهب بن مسلم197
17من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبمسند أبي داود الطيالسي842848أبو داود الطياليسي204
18من ترك العصر حبط عملهعامر بن الحصيبمسند الروياني1919محمد بن هارون الروياني307
19من فاته العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبمسند الروياني4847محمد بن هارون الروياني307
20من ترك الصلاة حبط عملهعامر بن الحصيبإتحاف المهرة2195---ابن حجر العسقلاني852
21من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبإتحاف المهرة2296---ابن حجر العسقلاني852
22من فاتته صلاة العصر فكأنما وتر أهله ومالهعامر بن الحصيبمسند أبي حنيفة لابن يعقوب808---عبد الله بن محمد بن يعقوب بن البخاري340
23من ترك صلاة العصر متعمدا أحبط الله عملهعامر بن الحصيبمصنف عبد الرزاق48625005عبد الرزاق الصنعاني211
24من فاتته صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبمصنف ابن أبي شيبة33623465ابن ابي شيبة235
25من فاتته صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبمصنف ابن أبي شيبة61376345ابن ابي شيبة235
26من ترك العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبمصنف ابن أبي شيبة2980730915ابن ابي شيبة235
27من ترك العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبمصنف ابن أبي شيبة2980830916ابن ابي شيبة235
28من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبمعجم الصحابة لابن قانع103119ابن قانع البغدادي351
29من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبجزء ابن عرفة1112الحسن بن عرفة العبدي257
30من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبفوائد منتقاة من حديث أبي شعيب الحراني29---أبو شعيب الحراني295
31من ترك الصلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبالجزء الأول والثاني من فوائد ابن بشران7777أبو الحسين بن بشران415
32بكروا بالصلاة في الغيم فإنه من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبفوائد ابن دحيم78---ابن دحيم352
33من فاتته صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبأمالي الجرجاني139---محمد بن إبراهيم بن جعفر الجرجاني330
34من يترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبموضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب13032 : 285الخطيب البغدادي463
35من ترك العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبالإيمان لابن أبي شيبة4548ابن ابي شيبة235
36من ترك الصلاة حبط عملهعامر بن الحصيبالإبانة الكبرى لابن بطة465466ابن بطة العكبري387
37من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبالإبانة الكبرى لابن بطة474475ابن بطة العكبري387
38من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبشعب الإيمان للبيهقي26022848البيهقي458
39من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبشرح السنة369369الحسين بن مسعود البغوي516
40من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبالأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر10261067محمد بن إبراهيم بن المنذر318
41من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبالتمهيد لابن عبد البر216514 : 124ابن عبد البر القرطبي463
42من فاتته العصر حبطعامر بن الحصيبجامع البيان عن تأويل آي القرآن50344 : 373ابن جرير الطبري310
43من فاتته صلاة العصر فكأنما وتر أهله ومالهعامر بن الحصيبجامع البيان عن تأويل آي القرآن50354 : 373ابن جرير الطبري310
44من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبمعالم التنزيل تفسير البغوي165164الحسين بن مسعود البغوي516
45من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبمعرفة الصحابة لأبي نعيم11801259أبو نعيم الأصبهاني430
46من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبتاريخ دمشق لابن عساكر3232732 : 176ابن عساكر الدمشقي571
47من ترك صلاة العصر حبط عملهعامر بن الحصيبذيل تاريخ بغداد لابن النجار458---ابن النجار643
48من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبتعظيم قدر الصلاة للمروزي799902محمد بن نصر المروزي294
49من ترك صلاة العصر فقد حبط عملهعامر بن الحصيبتعظيم قدر الصلاة للمروزي800905محمد بن نصر المروزي294

                         (جمع و ترتیب : عزیر میمن)
کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید کرنے کی ممانعت 

 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُعْتَمِرِ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ جُنْدَبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَ : " أَنَّ رَجُلًا ، قَالَ : وَاللَّهِ لَا يَغْفِرُ اللَّهُ لِفُلَانٍ ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى ، قَالَ : مَنْ ذَا الَّذِي يَتَأَلَّى عَلَيَّ أَنْ لَا أَغْفِرَ لِفُلَانٍ ، فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِفُلَانٍ ، وَأَحْبَطْتُ عَمَلَكَ " أَوْ كَمَا قَالَ .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْبِرِّ ، وَالصِّلَةِ ، وَالْآدَابِ » بَاب النَّهْيِ عَنْ تَقْنِيطِ الْإِنْسَانِ مِنْ رَحْمَةِ ... رقم الحديث: 4759]

حضرت جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم اللہ فلاں آدمی کی مغفرت نہیں فرمائے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کون آدمی ہے جو میرے بارے میں قسم کھاتا ہے کہ میں فلاں آدمی کی مغفرت نہیں کروں گا۔(وہ سن لے) میں نے فلاں کو معاف کر دیا اور میں نے تیرے اعمال ضائع کر دئے یا جیسا کہ فرمایا۔


 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهصحيح مسلم47592624مسلم بن الحجاج261
2غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهصحيح ابن حبان582813 : 19أبو حاتم بن حبان354
3غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهمسند أبي يعلى الموصلي15191529أبو يعلى الموصلي307
4غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهمسند الروياني962967محمد بن هارون الروياني307
5قال رجل والله لا يغفر الله لفلان فقال الله قد غفرت لفلان وأحبطت عملكعبد الله بن جعفرإتحاف المهرة3858---ابن حجر العسقلاني852
6غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهالمعجم الكبير للطبراني16561679سليمان بن أحمد الطبراني360
7غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهالمفاريد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي يعلى الموصلي3939أبو يعلى الموصلي307
8من ذا الذي يتألى علي أني لا أغفر لفلان قد غفرت لفلان وأحبطت عملهجندب بن عبد اللهالثالث من أحاديث محمد بن أيوب الرازي114---محمد بن أيوب بن يحيى الرازي294
9غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهشعب الإيمان للبيهقي61776312البيهقي458
10غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهشرح السنة41124188الحسين بن مسعود البغوي516
11غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهحلية الأولياء لأبي نعيم26332635أبو نعيم الأصبهاني430
12غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهحسن الظن بالله لابن أبي الدنيا4646ابن أبي الدنيا281
13غفرت لفلان وأحبطت عملكجندب بن عبد اللهالآداب للبيهقي274384البيهقي458


تشریح
 کوئی شخص بہت زیادہ گناہ کرتا تھا اس کے بارہ میں ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشے گا اس نے یہ بات از راہ تکبر اس کو بہت گنہگار اور اپنے کو اس سے اچھا جان کر کہی ۔ جیسا کہ بعض جاہل صوفیاء گنہگاروں کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے حالانکہ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع اور عام ہے اس کے گنہگار بندوں کو بھی اس کے دامن میں پناہ ملتی ہے اور وہی ان کو بخشتا ہے ۔ 

 حاصل یہ کہ اس قسم کے کھانے والے نے اس کے نہ بخشے جانے کا جو یقین کیا تھا اس پر عتاب ہوا بایں طور کہ اس کی قسم کو جھوٹا کیا گیا اور اس شخص کو بخش دیا گیا ۔ لہٰذا کسی بھی شخص کے بارہ میں قطعی طور پر یہ کہنا کہ وہ جنتی ہے ! یا دوزخی ہے جائز نہیں ہے ہاں قرآن وحدیث نے وضاحت کے ساتھ جن لوگوں کو جنتی و دوزخی کہا ہے ان کو قطعی طور پر جنتی یا دوزخی کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 


                         (جمع و ترتیب : عزیر میمن)


ریا کاری اور شہرت پسندی کی نیت

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ أَبُو عُثْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ , أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ حَدَّثَهُ ، أَنَّ شُفَيًّا الْأَصْبَحِيَّ حَدَّثَهُ ، أَنَّهُ دَخَلَ الْمَدِينَةَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَدِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ ، فَقَالَ : مَنْ هَذَا ؟ فَقَالُوا : أَبُو هُرَيْرَةَ ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ حَتَّى قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ يُحَدِّثُ النَّاسَ ، فَلَمَّا سَكَتَ وَخَلَا قُلْتُ لَهُ : أَنْشُدُكَ بِحَقٍّ وَبِحَقٍّ لَمَا حَدَّثْتَنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَلْتَهُ وَعَلِمْتَهُ ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَلْتُهُ وَعَلِمْتُهُ ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً فَمَكَثَ قَلِيلًا ، ثُمَّ أَفَاقَ , فَقَالَ : لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَى ، ثُمَّ أَفَاقَ فَمَسَحَ وَجْهَهُ , فَقَالَ : لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَا وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَى ، ثُمَّ أَفَاقَ وَمَسَحَ وَجْهَهُ , فَقَالَ : أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَهُ أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً شَدِيدَةً ، ثُمَّ مَالَ خَارًّا عَلَى وَجْهِهِ فَأَسْنَدْتُهُ عَلَيَّ طَوِيلًا ، ثُمَّ أَفَاقَ , فَقَالَ : " حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَنْزِلُ إِلَى الْعِبَادِ لِيَقْضِيَ بَيْنَهُمْ وَكُلُّ أُمَّةٍ جَاثِيَةٌ فَأَوَّلُ مَنْ يَدْعُو بِهِ رَجُلٌ جَمَعَ الْقُرْآنَ ، وَرَجُلٌ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَرَجُلٌ كَثِيرُ الْمَالِ ، فَيَقُولُ اللَّهُ لِلْقَارِئِ : أَلَمْ أُعَلِّمْكَ مَا أَنْزَلْتُ عَلَى رَسُولِي ؟ قَالَ : بَلَى يَا رَبِّ ، قَالَ : فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا عُلِّمْتَ ؟ قَالَ : كُنْتُ أَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ : كَذَبْتَ ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ : كَذَبْتَ ، وَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ : بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ : إِنَّ فُلَانًا قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ ، وَيُؤْتَى بِصَاحِبِ الْمَالِ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ : أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَيْكَ حَتَّى لَمْ أَدَعْكَ تَحْتَاجُ إِلَى أَحَدٍ ؟ قَالَ : بَلَى يَا رَبِّ ، قَالَ : فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا آتَيْتُكَ ؟ قَالَ : كُنْتُ أَصِلُ الرَّحِمَ وَأَتَصَدَّقُ ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ : كَذَبْتَ ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ : كَذَبْتَ ، وَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى : بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ : فُلَانٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ ، وَيُؤْتَى بِالَّذِي قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ : فِي مَاذَا قُتِلْتَ ؟ فَيَقُولُ : أُمِرْتُ بِالْجِهَادِ فِي سَبِيلِكَ فَقَاتَلْتُ حَتَّى قُتِلْتُ ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ : كَذَبْتَ ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ : كَذَبْتَ ، وَيَقُولُ اللَّهُ : بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ : فُلَانٌ جَرِيءٌ ، فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ ، ثُمَّ ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رُكْبَتِي ، فَقَالَ : يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أُولَئِكَ الثَّلَاثَةُ أَوَّلُ خَلْقِ اللَّهِ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " , وَقَالَ الْوَلِيدُ أَبُو عُثْمَانَ : فَأَخْبَرَنِي عُقْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ ، أَنَّ شُفَيًّا هُوَ الَّذِي دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَخْبَرَهُ بِهَذَا ، قَالَ أَبُو عُثْمَانَ ، وَحَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ ، أَنَّهُ كَانَ سَيَّافًا لِمُعَاوِيَةَ ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ فَأَخْبَرَهُ بِهَذَا ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : قَدْ فُعِلَ بِهَؤُلَاءِ هَذَا ، فَكَيْفَ بِمَنْ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ ثُمَّ بَكَى مُعَاوِيَةُ بُكَاءً شَدِيدًا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ هَالِكٌ ، وَقُلْنَا : قَدْ جَاءَنَا هَذَا الرَّجُلُ بِشَرٍّ ، ثُمَّ أَفَاقَ مُعَاوِيَةُ وَمَسَحَ عَنْ وَجْهِهِ ، وَقَالَ : صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ { 15 } أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ { 16 } سورة هود آية 15-16 , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ ... رقم الحديث: 2317]

حضرت شفیا اصبحی کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ لوگ ایک آدمی کے گرد جمع ہوئے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں کہا گیا ابوہریرہ میں بھی ان کے قریب ہوگیا یہاں تک کہ ان کے بالکل سامنے بیٹھ گیا وہ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اللہ کے واسطے ایک سوال کرتا ہوں کہ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا اور اچھی طرح سمجھا ہو فرمایا ضرور بیان کروں گا پھر چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے جب افاقہ ہوا تو فرمایا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے اسی گھر میں بیان کی تھی اس وقت میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں تھا اس کے بعد ابوہریرہ نے بہت زور سے چیخ ماری اور دوبارہ بے ہوش ہوگئے تیسری مرتبہ بھی اسی طرح ہوا اور منہ کے بل نیچے گرنے لگے تو میں نے انہیں سہارا دیا اور کافی دیر تک سہارا دئیے کھڑا رہا پھر انہیں ہوش آیا تو کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے نزول فرمائیں اس وقت ہر امت گھنٹوں کے بل گری پڑی ہوگی پس جنہیں سب سے پہلے بلایا جائے گا وہ تین شخص ہوں گے ایک حافظ قرآن دوسرا شہید اور تیسرا دولتمند شخص اللہ تعالیٰ قاری سے پوچھیں گے کیا میں نے تمہیں وہ کتاب نہیں سکھائی جو میں نے اپنے رسول پر نازل کی عرض کرے گا کیوں نہیں یا اللہ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تو نے اپنے حاصل کردہ علم کے مطابق عمل کیا وہ عرض کرے گا میں اسے دن اور رات پڑھا کرتا تھا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم جھوٹ بولتے ہو اسی طرح فرشتے بھی اسے جھوٹا کہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم اس لئے ایسا کرتے تھے کہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص قاری ہے چنانچہ وہ تو کہہ دیا گیا پھر مالدار آدمی کو پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کیا میں نے تمہیں مال میں اتنی وسعت نہ دی کہ تجھے کسی کا محتاج نہ رکھا وہ عرض کرے گا ہاں یا اللہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری دی ہوئی دولت سے کیا عمل کیا وہ کہے گا میں قرابت داروں سے صلہ رحمی کرتا اور خیرات کرتا تھا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے فرشتے بھی کہیں گے تو جھوٹا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو چاہتا تھا کہ کہا جائے فلاں بڑا سخی ہے سو ایسا کیا جا چکا پھر شہید کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو کس لئے قتل ہوا وہ کہے گا تو نے مجھے اپنے راستے میں جہاد کا حکم دیا پس میں نے لڑائی کی یہاں تک کہ میں شہید ہوتا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیری نیت یہ تھی کہ لوگ کہیں فلاں بڑا بہادر ہے پس یہ بات کہی گئی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے زانو پر مارتے ہوئے فرمایا اے ابوہریرہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے پہلے انہی تین آدمیوں سے جہنم کو بھڑکایا جائے گا ولید ابوعثمان مدائنی کہتے ہیں مجھے عقبہ نے بتایا کہ یہی شخص حضرت معاویہ کے پاس جلاد تھے کہتے ہیں حضرت امیر معاویہ کے پاس ایک آدمی آیا اور انہیں حضرت ابوہریرہ کی یہ حدیث بتائی تو حضرت معاویہ نے فرمایا تنیوں کا یہ حشر ہے تو باقی لوگوں کا کیا حال ہوگا پھر حضرت معاویہ اتنا روئے یہاں تک کہ ہم سوچنے لگے کہ وہ اب فوت ہو جائیں گے اور ہم نے کہا یہ آدمی ہمارے پاس شر لے کر آیا ہے پھر جب حضرت امیر معاویہ کو ہوش آیا تو آپ نے چہرہ پونچھا اور فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا پھر یہ آیت پڑھی ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ 15 اُولٰ ى ِكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) 11۔ہود : 15-16) جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی رونق چاہتا ہے ہم ایسے لوگوں کے اعمال کا بدلہ دنیا میں دید یتے ہیں اور اس میں کوئی کمی نہیں رکھتے یہ ایسے لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں دوزخ کے سوا کچھ نہیں پس جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا وہ ضائع ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہوگئے


تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1إذا كان يوم القيامة يقول الله للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان قارئ وقد قيل ذلكعبد الرحمن بن صخرخلق أفعال العباد للبخاري105335محمد بن إسماعيل البخاري256
2إذا كان يوم القيامة ينزل الله إلى العباد ليقضي بينهم وكل أمة جاثية فأول من يدعى رجل جمع القرآن فيقول الله عز وجل له عبدي ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي فيقول بلى يا رب فيقول ماذا عملت فيما علمتك فيقول يا رب كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذلك اذهب فليس لك اليوم عندنا شيء ثم يؤتى بصاحب المال فيقول الله عز وجل له عبدي ألم أنعم عليك ألم أفضل عليك ألم أوسع عليك أو نحوه فيقول بلى يا رب فيقول فماذا عملت فيما أتيتك فيقول يا رب كنت أصل الرحم وأتصدق وأفعل وأفعل فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذاك اذهب فليس لك اليوم عندنا شيء ويدعى المقتول فيقول الله له عبدي فيم قتلت فيقول يا رب فيك وفي سبيلك فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذاك اذهب فليس لك اليوم عندنا شيء قال أبو هريرة ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده على ركبتي ثم قال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرتهذيب الكمال للمزي187122:488يوسف المزي742
3أول من يدعو به رجل جمع القرآن رجل قتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله له بل أردت أن يقال إن فلانا قارئ فقد قيل ذاك ويؤتى بصاحب المال فيقول الله له ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما آتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله تعالى بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذاك ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله فيقول الله له في ماذا قتلت فيقول أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله تعالى له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذاك ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرجامع الترمذي23182382محمد بن عيسى الترمذي256
4أول من يدعى به رجل جمع القرآن رجل قتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله عز وجل للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم به فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذلك ويؤتى بصاحب المال فيقول الله له ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما آتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله له بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذلك ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله فيقال له بماذا قتلت فيقول أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة له كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذلك ثم ضرب رسول الله على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله يسعر بهم الله يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرالأهوال لابن أبي الدنيا185194ابن أبي الدنيا281
5أول من يدعى رجل جمع القرآن فيقول الله تعالى له عبدي ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي فيقول بلى يا رب فيقول ماذا عملت فيما علمتك فيقول يا رب كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذاك اذهب فليس لك اليوم عندنا شيء يؤتى بصاحب المال فيقول الله له عبدي ألم أنعم عليك ألم أفضل عليك ألم أوسع عليك فيقول بلى يا رب فيقول ماذا عملت فيما آتيتك فيقول يا رب كنت أصل الرحم وأتصدق وأفعل وأفعل فيقول الله كذبت وتقول له الملائكة كذبت بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذاك اذهب فليس لك عندنا اليوم شيء يدعى المقتول فيقول الله له عبدي فيم قتلت فيقول يا رب فيك وفي سبيلك فيقول الله تعالى كذبت وتقول له الملائكة كذبت بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذاك اذهب فليس لك اليوم عندنا شيء قال أبو هريرة ثم ضرب رسول الله يده على ركبتي ثم قال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرالزهد والرقائق لابن المبارك461469عبد الله بن المبارك180
6أول ما يدعو به رجل جمع القرآن رجل قتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال إن فلانا قارئ فقد قيل ذاك ويؤتى بصاحب المال فيقول الله له ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما أتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذاك ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله فيقول الله له في ماذا قتلت فيقول أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله تعالى له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذاك ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرالسنن الكبرى للنسائي1132911824النسائي303
7أول من يدعى به رجل جمع القرآن رجل قتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله له بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذلك ويؤتى بصاحب المال فيقول الله له ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما آتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله له بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذلك ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله فيقال له في ماذا قتلت فيقول أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله له بل أردت أن يقال فلان جريء وقد قيل ذلك ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرجامع البيان عن تأويل آي القرآن1662012 : 350ابن جرير الطبري310
8أول من يدعو به رجل جمع القرآن رجل يقتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم به أثناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان قارئيء فقد قيل ويؤتى بصاحب المال فيقول الله ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى قال فماذا عملت فيما آتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله كذبت وتقول الملائكة كذبت فيقول الله بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذاك ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله فيقال له فيم قتلت فيقول أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله عز وجل له بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذلك ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن خزيمة23182325ابن خزيمة311
9أول من يدعو به رجل جمع القرآن رجل يقتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذلك ويؤتى بصاحب المال فيقول الله له ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى يا رب قال فما عملت فيما آتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة له كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذلك ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله فيقول له في ماذا قتلت فيقول يا رب أمرت بالجهاد في سبيل الله فقاتلت حتى قتلت فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذلك ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرشرح السنة40624143الحسين بن مسعود البغوي516
10أول من يدعو به رجل جمع القرآن رجل يقتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله تبارك وتعالى للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي صلى الله عليه وسلم قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله تبارك وتعالى له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذاك ويؤتى بصاحب المال فيقول الله له ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما آتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة له كذبت ويقول الله بل إنما أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذاك ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله فيقال له في ماذا قتلت فيقول أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جرئ فقد قيل ذاك ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرصحيح ابن حبان413408أبو حاتم بن حبان354
11أول من يدعى رجل جمع القرآن رجل قاتل في سبيل الله سبحانه وتعالى رجل كثير المال فيقول الله عز وجل للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمتك قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله عز وجل له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله تعالى بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذلك ويؤتى بصاحب المال فيقال له ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى يا رب قال فما عملت فيما آتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله تعالى له كذبت وتقول الملائكة له كذبت ويقال بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذاك ويؤتى بالرجل الذي قتل في سبيل الله فيقال له فيما قتلت فيقول أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله عز وجل له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول له بل أردت أن يقال فلان جريء وقد قيل ذلك ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرحديث أبي الفضل الزهري654687الحسن بن علي الجوهري381
12أول الناس يدخل النار يوم القيامة ثلاثة نفر يؤتى بالرجل فيقول رب علمتني الكتاب فقرأته آناء الليل والنهار رجاء ثوابك فيقال كذبت إنما كنت تصلي ليقال قارئ مصل وقد قيل اذهبوا به إلى النار يؤتى بآخر فيقول رب رزقتني مالا فوصلت به الرحمعبد الرحمن بن صخرالمستدرك على الصحيحين24582:111الحاكم النيسابوري405
13أول من يدعو به رجل جمع القرآن رجل يقتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة له كذبت فيقول الله عز وجل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ويؤتى بصاحب المال فيقول ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى قال فماذا عملت فيما آتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذلك ويؤتى بالرجل الذي قتل في سبيل الله فيقال له فيم قتلت فيقول أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله كذبت وتقول الملائكة له كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذلك ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرالمستدرك على الصحيحين14551:418الحاكم النيسابوري405
14أول من يدعونه رجل جمع القرآن رجل قتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي فقال بلى يا رب قال فماذا عملت قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله تعالى بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذلك ويؤتى بصاحب المال فيقول الله له ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى يا رب قال فما عملت فيما آتيتك قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله تعالى بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذلك ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله فيقول الله له في ماذا قتلت فيقول يا رب أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله تعالى بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذلك ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرمعالم التنزيل تفسير البغوي180179الحسين بن مسعود البغوي516
15أول من يدعى رجل جمع القرآن فيقول الله عز وجل له عبدي ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي فيقول بلى يا رب فيقول ما عملت فيما علمتك فيقول يا رب كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذلك اذهب فليس لك اليوم عندنا شيء يؤتى بصاحب المال فيقول الله عز وجل له عبدي ألم أنعم عليك ألم أفضل عليك ألم أوسع عليك فيقول بلى يا رب فيقول فماذا عملت فيما آتيتك فيقول يا رب كنت أصل الرحم وأتصدق وأفعل وأفعل فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذاك فاذهب فليس لك اليوم عندنا شيء يدعى المقتول فيقول الله له عبدي فيم قتلت فيقول يا رب فيك وفي سبيلك فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ذاك اذهب فليس لك اليوم عندنا شيء قال أبو هريرة ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده على ركبتي ثم قال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر2045147 : 214ابن عساكر الدمشقي571
16أول من يدعو به رجل جمع القرآن رجل يقتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان قارئ فقد قيل ذاك ويؤتى بصاحب المال فيقول الله ألم أوسع عليك حتى لم أدعك تحتاج إلى أحد قال بلى يا رب قال فماذا عملت قال كنت أصل الرحم وأتصدق فيقول الله له كذبت وتقول الملائكة كذبت ويقول الله بل أردت أن يقال فلان جواد فقد قيل ذاك ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله فيقول الله فيماذا قتلت فيقول أمرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت فيقول الله كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله له بل أردت أن يقال فلان جريء فقد قيل ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده على ركبتي فقال يا أبا هريرة أولئك الثلاثة أول خلق تسعر بهم جهنم يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر2045247 : 215ابن عساكر الدمشقي571


                         (جمع و ترتیب : عزیر میمن)
من شكَّ في إيمانِه فقد حبِط عملُه وهو في الآخرةِ من الخاسرينَ
الراوي: سلمة بن الأكوع المحدث: مسلم المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1802
خلاصة حكم المحدث: صحيح
الراوي: أبو الدرداء المحدث: الألباني المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 479
خلاصة حكم المحدث: صحيح

الراوي: أنس بن مالك المحدث: ابن حبان المصدر: المجروحين - الصفحة أو الرقم: 2/198
خلاصة حكم المحدث: [فيه] غنيم بن سالم يروي عن أنس بن مالك العجائب لا يعجبني الرواية عنه فكيف الاحتجاج به


- من راءَى بعملهِ ساعةً , حبِطَ عملُهُ الَّذي كان قبلَهُ .
الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: المنذري المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/226
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]

- إذا قالتِ المرأةُ لزوجِها : ما رأيتُ منكَ خَيْرًا قَطُّ ، فقد حَبِطَ عَمَلُها
الراوي: خزيمة بن معمر الأنصاري المحدث: ابن كثير المصدر: جامع المسانيد والسنن - الصفحة أو الرقم: 2850
خلاصة حكم المحدث: في إسناده اضطراب
الراوي: ابنة ثابت بن قيس بن شماس المحدث: البوصيري المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 3/418
خلاصة حكم المحدث: له شاهد
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 779
خلاصة حكم المحدث: ضعيف
الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: الألباني المصدر: إرواء الغليل - الصفحة أو الرقم: 255
خلاصة حكم المحدث: ضعيف بهذا التمام

- مَن لم يحمَدِ اللَّهَ علَى ما عمَلَ من عملٍ صالحٍ ، وحمِدَ نفسَهُ ؛ قلَّ شكرُهُ وحبِطَ عملُهُ ، ومن زعَم أنَّ اللهَ جعلَ للعبادِ مِن الأمرِ شيئًا ؛ فقَد كفَرَ بما أنزلَ اللهُ على أنبيائِهِ ؛ لقولِهِ : أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
الراوي: سعد بن عبيدة المحدث: البخاري المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3704 - خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

No comments:

Post a Comment