Monday 10 March 2014

طب و صحت


العِلْمُ عِلمانِ علْمُ الأبدانِ وعلْمُ الأديانِ.
ترجمہ : علم (نافع) دو ہیں : جسم و بدن کا علم اور دینوں کا علم.
[كِتَابُ إحْيَاءِ الْمَوَاتِ وَالْإِقْطَاعِ , وَالْحِمَى ... » رقم الحديث: 20]
[المحدث: الصغاني المصدر: الدر الملتقط - الصفحة أو الرقم: 44 ، المصدر: موضوعات الصغاني - الصفحة أو الرقم: 38
المحدث: ملا علي قاري المصدر: الأسرار المرفوعة - الصفحة أو الرقم: 247 ،
المحدث: القاوقجي المصدر: اللؤلؤ المرصوع - الصفحة أو الرقم: 122 ، 
یہ قول نبوی ہونا صحیح ثابت نہیں ، لیکن یہ قول امام شافعیؒ کا ہونا ثابت ہے:
(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ ، ثنا أَبُو تُرَابٍ مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ الطُّوسِيُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ الرَّبِيعَ بْنَ سُلَيْمَانَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ ، يَقُولُ : " الْعِلْمُ عِلْمَانِ : عِلْمُ الأَبْدَانِ ، وَعِلْمُ الأَدْيَانِ " .
[رَفْعُ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْمَنْكِبَيْنِ » رَفْعُ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْمَنْكِبَيْنِ ... رقم الحديث: 13868]
[حلية الأولياء لأبي نعيم » الإِمَامُ الشَّافِعِيُّ ... رقم الحديث: 13868]


لہذا اس کا مضمون صحیح و مقبول ہونا حدیث رسول سے بھی معلوم ہوتا ہے:


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا.
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حکمت کی بات مؤمن کی کھوئی ہوئی چیز ہے لہذا اسے جہاں بھی پائے وہی اس کا مستحق ہے۔
[جامع الترمذي » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفِقْهِ عَلَى الْعِبَادَةِ ... رقم الحديث: 2630]
المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 6462 ، خلاصة حكم المحدث: حسن
المحدث: ابن القيم المصدر: مفتاح دار السعادة - الصفحة أو الرقم: 1/283 ، خلاصة حكم المحدث: له شواهد
المحدث: السفاريني الحنبلي المصدر: شرح كتاب الشهاب - الصفحة أو الرقم: 54 ، خلاصة حكم المحدث: له شواهد


تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الكلمة الحكمة ضالة المؤمن فحيث وجدها فهو أحق بهاعبد الرحمن بن صخرجامع الترمذي26302687محمد بن عيسى الترمذي256
2الكلمة الحكمة ضالة المؤمن حيثما وجدها فهو أحق بهاعبد الرحمن بن صخرسنن ابن ماجه41674169ابن ماجة القزويني275
3الكلمة الحكيمة ضالة الحكيم حيث ما وجدها فهو أحق بهاعبد الرحمن بن صخرالمدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي305412البيهقي458
4كلمة الحكمة ضالة كل حكيم وإذا وجدها فهو أحق بهاعبد الرحمن بن صخرمسند الشهاب5152الشهاب القضاعي454
5الحكمة ضالة المؤمن حيثما وجدها فهو أحق بهاعبد الرحمن بن صخركتاب العلم33---أبو طاهر السلفي576


الشواهد
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الحكمة ضالة المؤمن حيثما وجدها أخذهاعامر بن الحصيبمسند الروياني342023محمد بن هارون الروياني307
2الحكمة ضالة المؤمن أين وجدها أخذهاعامر بن الحصيبأحاديث منتقاة من مشيخة أبي بكر الأنصاري44---محمد بن عبد الباقي بن محمد الأنصاري535
3الكلمة الحكمة ضالة المؤمن حيث وجدها فهو أحق بهاعامر بن الحصيبكتاب العلم35---أبو طاهر السلفي576

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1كلمة الحكمة ضالة المؤمن حيث وجدها فهو أحق بهاعلي بن أبي طالبتاريخ دمشق لابن عساكر5897155 : 192ابن عساكر الدمشقي571
2الحكمة ضالة المؤمن حيث وجدها فهو أحق بهاعلي بن أبي طالبتاريخ دمشق لابن عساكر5897255 : 192ابن عساكر الدمشقي571
3الحكمة ضالة المؤمن حيث وجدها فهو أحق بهاعلي بن أبي طالبالتدوين في أخبار قزوين للرافعي1523---عبد الكريم الرافعي623



رأسُ الحِكمةِ مَخافةُ اللَّهِ تعالى
ترجمہ : حکمت کی بنیاد الله تعالیٰ کا خوف ہے.
[الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم:4361 خلاصة حكم المحدث: صحيح]
الراوي: عقبة بن عامر المحدث: العراقي المصدر: تخريج الإحياء - الصفحة أو الرقم: 4/198 خلاصة حكم المحدث: لا يصح
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1رأس الحكمة مخافة اللهعبد الله بن مسعودشعب الإيمان للبيهقي714740البيهقي458
2رأس الحكمة مخافة اللهعبد الله بن مسعودبحر الفوائد المسمى بمعاني الأخيار للكلاباذي283281محمد بن إسحاق الكلاباذي384


الرفقُ رأسُ الحكمةِ
ترجمہ : نرمی حکمت کی بنیاد ہے.
[الراوي: جرير بن عبدالله المحدث: السفاريني الحنبلي المصدر: شرح كتاب الشهاب -الصفحة أو الرقم: 53 خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن]
الراوي: جرير بن عبدالله المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم:4529 خلاصة حكم المحدث: ضعيف
تخريج الحديث

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الرفق رأس الحكمةجرير بن عبد اللهمسند الشهاب5051الشهاب القضاعي454
2الرفق رأس الحكمةجرير بن عبد اللهمكارم الأخلاق للخرائطي650676محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي327




متوازن غذا اور صحت کا باہمی تعلق
صحت کے لیے اچھی غذا بہت اہم ہے، لیکن غذا ایسی ہونی چاہیے جو صحت کے لیے مفید ہو، ایسی چیزوں کے استعمال سے احتراز کرنا چاہیے جو صحت اور تن درستی کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اس طرح جو چیزیں اچھی لگیں اور جن کی خواہش اور طلب طبیعت میں پائی جائے، وہی غذا میں شامل ہونی چاہیے۔ غیر مرغوب اور ناپسندیدہ غذا کو طبیعت قبول نہیں کرتی اور اس سے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے جب کھانا آتا تو اس کے بارے میں دریافت کرتے۔ اگر مزاج مناسب ہوتا تو استعمال کرتے، ورنہ استعمال نہیں فرماتے تھے۔ حضرت خالد بن ولید  فرماتے ہیں: ”وکان قل ما یقدم یدہ لطعام حتی یحدث بہ وسمي لہ“ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنا ہاتھ کسی کھانے کی طرف کم ہی بڑھاتے تھے جب تک کہ اس کے بارے میں گفتگو نہ کی جائے اور بتادیا نہ جائے۔ چناں چہ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے بھنا ہوا گوشت آیا۔ جب بتایا گیا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کھایا۔ حضرت خالد بن ولید  نے پوچھا کہ کیا یہ حرام ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حرام نہیں۔ ہمارے علاقے میں نہیں ہوتا اس لیے کراہت ہورہی ہے۔

حلال کو حرام نہ کرلیا جائے
ذوق اور مزاج کی اہمیت ہے۔ اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، لیکن جو چیزیں حلال اور طیب ہیں ان سے خواہ مخواہ اجتناب صحیح نہیں۔ عملاً حلال کو حرام اور مباح کو ممنوع قرار دے لینا مزاج شریعت کے خلاف ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: ”إن من الطعام طعاما أتحرج منہ“ کھانوں میں ایک کھانا ایسا ہے کہ اس کے کھانے میں مجھے تکلف اور حرج محسوس ہوتا ہے۔ آپصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لایتخلجن في نفسک شيء ضارعت منہ النصرانیة“ تمہارے دل میں ایسی کوئی چیز کھٹک اور تردد پیدا نہ کرے کہ اس کی وجہ سے تم نصرانیت سے مشابہت اختیار کرلو۔(ابوداؤد)

جن غذاؤں کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرادیا ہے ان کے علاوہ سب ہی غذائیں حلال ہیں۔ ان کے جواز میں شک و تردد اور ان کے استعمال میں بلاوجہ تکلف اور تامل رہبانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس معاملہ میں شریعت کا اصول حضرت عبداللہ بن عباس  اس طرح بیان فرماتے ہیں: اہل جاہلیت بعض چیزیں (بغیر کسی کراہت کے) کھاتے اور بعض چیزوں کا کھانا ان کو ناپسند تھا۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو بعثت سے نوازا، اپنی کتاب نازل فرمائی، حلال کو حلال کیا اور حرام کو حرام ٹھہرایا۔ اس نے جس چیز کو حلال قرار دیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کہا وہ حرام ہے اور جس چیز کا ذکر نہیں کیا اس سے اس نے درگذر کیا(اس کے کھانے پر مواخذہ نہ ہوگا)۔ (ابوداؤد)

غذائیں ایک دوسرے کی معاون ہوں
کھانے میں ایک سے زیادہ چیزیں ہوں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس بات کا خیال فرماتے تھے کہ وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے کی معاون ہوں اور ان کا ایک ساتھ استعمال نقصان دہ نہ ہو۔ ام الموٴمنین حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کھجور کے ساتھ ککڑی کھاتے اور فرماتے کہ کھجور کی حدت کو ہم ککڑی کی ٹھنڈک سے توڑتے ہیں۔ (ابوداؤد)

اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کھجور کے ساتھ مکھن استعمال فرماتے تھے۔ (ابوداؤد) یہ دونوں چیزیں بھی اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے کی معاون ہیں۔ کھجور کی خشکی مکھن سے دور ہوتی ہے۔

گندگی کھانے والے جانور نہ کھائے جائیں
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ غذا صاف ستھری اور گندگی و آلائش کے اثرات سے بالکل پاک ہو۔ اس مقصد کی خاطر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان حلال جانوروں کا بھی گوشت کھانے اور دودھ پینے سے منع فرمایا ہے جو گندگی کھانے کے عادی ہیں، اس لیے کہ اس کے اثرات دودھ اور گوشت میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر  فرماتے ہیں: ”نہٰی رسول اللہ    صلی الله علیہ وسلم عن أکل جلالة و ألبانہا․“ (ابوداؤد) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے گندگی کھانے والے جانور کے کھانے اور اس کا دودھ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔

اس سلسلہ کی بعض اور روایات بھی موجود ہیں، علامہ خطابی  فرماتے ہیں کہ گندگی کھانے والے جانوروں کا گوشت کھانے سے ممانعت کے پیچھے پاکی، صفائی اور نظافت کا تصور ہے، اس لیے کہ گندگی جس جانور کی غذا ہوگی، اس کے گوشت میں بھی بدبو پائی جائے گی۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ گندگی اس کی زیادہ تر غذا ہو، لیکن اگر گھاس اور دانہ کے ساتھ گندگی بھی کھالے تو اسے جلالة (گندگی کھانے والا جانور) نہیں کہا جائے گا؛ جیسے مرغی حیوان ہے، بسااوقات گندگی کھالیتی ہے، لیکن یہ اس کی عام غذا نہیں، اس لیے اس کا کھانا مکروہ نہیں ہے۔(معالم السنن)

کھانے میں صفائی کا خیال رکھا جائے
کھانے میں صاف ستھری چیزیں استعمال کرنی چاہیے۔ گندی غذا بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ حضرت انس  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ پرانی کھجوریں پیش کی گئیں۔ آپصلی الله علیہ وسلم نے (انہیں کھانے سے پہلے) باریک کیڑے ان میں ڈھونڈ کر نکالے (اور انہیں صاف کیا)۔ (ابوداؤد)

حضرت عبداللہ بن ابی طلحہ  بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے پرانی کھجوریں لائی جاتیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان میں جو کیڑے ہوتے تھے، انہیں خوب اچھی طرح نکال لیتے تھے۔ (ابوداؤد)

کھانے پینے سے متعلق اسلام کے زریں اصول اور اسوہٴ حسنہ حفظان صحت کا موٴثر ذریعہ اور فلاح آخرت کا ضامن ہے۔
(ماہنامہ الحق نومبر 1993ء)

نیند، راحت بدن و روح
نیند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس سے بدن اور روح کو راحت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ اسلام اس نعمت سے استفادہ کرنے کی خصوصاً رات کے وقت تلقین کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اسی اللہ نے تمہارے لیے رات بنائی ہے، تاکہ اس میں سکون پاؤ“۔ (سورہ یونس:67) اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے“۔ ﴿و من آیاتہ منامکم باللیل و النھار﴾(الروم:23) سورہ فرقان میں ارشاد ہے: ”اور اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس اور نیند کو سکون کا باعث بنایا“۔ (الفرقان:47)

حضرت عبداللہ بن عمرو  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور سوجایا کرو کہ تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے“۔ (مسلم )

بچوں کی صحت میں بھی حلال غذا اور نیند و راحت کا بہت دخل ہے، ورنہ بچے بہت سے لاعلاج امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

اگر آج بھی متوازن اور سادہ غذا کا استعمال اپنی روزمرہ کی زندگی میں کیا جائے ،مغربی امپورٹڈ غذاؤں اور فاسٹ فوڈز سمیت کیمیکل سے بننے والی اشیاء سے گریز کیا جائے تو بہت سے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بروقت علاج ومعالجے سے بھی بڑے امراض سے خلاصی ممکن ہے۔ لیکن اسلامی تعلیمات کا بغور جائزہ لیا جائے تو پبلک ہیلتھ کی پالیسی انتہائی موثر ہے۔ یعنی مرض شروع ہونے سے پہلے ایسی احتیاطی تدابیر متوازن غذا ،صفائی ستھرائی وغیرہ کا لحاظ رکھنا جس کی وجہ سے وبا پھوٹنے یا مرض عام ہونے کا اندیشہ ہی پیدا نہ ہو ، متوازن غذا صفائی وغیرہ یہ سب وہ عناصر ہیں جس کی وجہ سے ہم سینکڑوں امراض کا خاتمہ اس کا اثر شروع کرنے سے پہلے کرسکتے ہیں۔




حِجَامہ علاج بھی… سنّت بھی
ڈاکٹر شایان احمد، کراچی




طب نبوی کیا ہے ؟
طب نبوی چار چیزوں کا مجموعہ ہے۔
1..… وہ غذائیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مختلف امراض کے علاج کے لیے تجویز فرمائیں۔
2..…وہ دوائیں یعنی جڑی بوٹیاں جو آپ صلی الله علیہ وسلم سے بطور علاج ثابت ہیں۔
3..… حجامہ یعنی فاسد خون نکلوانے کا عمل۔
4..… وہ دعائیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے وقتاً فوقتاً مختلف جسمانی وروحانی امراض کے علاج کے لیے تلقین فرمائیں۔

معراج کی رات حضور صلی الله علیہ وسلم کو فرشتوں کے ہر گروہ نے عرض کیا کہ آپ اپنی امت کو حجامہ سے علاج کا حکم فرمائیں۔ (ترمذی)

حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:” ان امثل ماتداویتم بہ الحجامة“․
ترجمہ:” سب سے بہترین دوا جس سے تم علاج کرو وہ حجامہ لگوانا ہے۔“ ( بخاری:5797)

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات سے جس طرح ہمیں دین کے احکام ملے ہیں، اسی طرح طب میں بھی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ہماری مکمل راہ نمائی فرمائی ہے۔ موجودہ دور میں مغربیت کی یلغار کی وجہ سے جہاں اور شعبوں میں مسلمانوں نے غیروں کی روش اختیار کی وہاں طب کاانتہائی اہم شعبہ بھی متاثر ہوا اور ہم علاج کے سلسلہ میں بھی مغربیت کی تقلید کی وجہ سے اپنا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع کرنے کے باوجود حقیقی شفا سے محروم رہتے ہیں۔

حجامہ ایک سنت علاج ہے، جس میں مختلف مقامات پر کٹ لگا کر جلد کی پہلی جھلی سے فاسد خون نکال کر کھانسی سے لے کر کینسر تک تقریباً تمام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے، جسم میں فاسد مادوں کے جمع ہونے کی وجوہات میں دھواں، پانی، مشروبات میں موجود زہریلے کیمیائی مادے، مکانات کے قریب فیکٹریوں کا فضلہ ، تمباکو والی اشیا، بازاری کھانے ، ذہنی دباؤ، غصہ، گھبراہٹ وغیرہ ہیں۔ ان فاسد مادوں کی وجہ سے قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے او رانسان مختلف امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔

حدیث نبوی کے مطابق”حجامہ“ مردوں عورتوں کی 70 سے زائد بیماریوں کا موثر علاج ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس سچے فرمانِ عالی شان کے مطابق قدیم وجدید امراض مثلاً بلڈپریشر، اٹھرا، شوگر، درد گردہ، موٹاپا، قبض، ٹینشن، خرابی خون، فالج، لقوہ، جوڑوں کا درد ، ہمہ قسم درد، بے اولادی، مائیگرین، بواسیر، دمہ، لیکوریا، الرجی، خارش ، مرگی، امراض معدہ، ہیپاٹائٹس، کینسر، ٹی بی وغیرہ جیسے موذی اور خطرناک امراض میں مبتلا ہزاروں مریض اس مبارک طریقہ علاج سے بحمد الله! شفایاب ہو چکے ہیں ۔ مردانہ اور زنانہ پوشیدہ امراض کے لیے بھی یہ بے حد مفید ہے ۔ صحت مند لوگ بھی اتباع سنت کی نیت سے حجامہ لگواسکتے ہیں، کیوں کہ اس میں سو شہیدوں کے ثواب کے علاوہ بیماریوں سے روک بھی ہے اور اس سے طبیعت میں نشاط اور چستی بھی پیدا ہو جاتی ہے ۔ یہ علاج ایسے فوری اثر کرتا ہے جیسے پھوڑے میں سے پیپ نکلتے ہی راحت ملتی ہے ۔ ہر قسم کی بیماریوں کو جڑ سے نکال باہر کرتا ہے ، چین کا یہ قومی علاج ہے ، عرب ممالک اور دنیا کے کئی ممالک میں اس علاج کا رواج اور اہتمام ہے ۔

حجامہ کے دوران طبیب کو ایسے غیر معمولی نتائج کا سامنا ہو گا کہ وہ بے اختیار کہہ اٹھے گا کہ کرنے والی ذات صرف الله تعالیٰ کی ہے ۔ غرض کئی سالہ تجربات کی روشنی میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ پر حق الیقین ہے کہ ” بہترین علاج جو تم کرتے ہو وہ حجامہ ہے“۔

٭.. ایک معمر بزرگ کا حجامہ اس حالت میں کرنے کا موقع ملا کہ موٹر سائیکل کے حادثے میں ان کی یادداشت بالکل ختم ہو چکی تھی او ران کو پاگل پن کے دورے پڑتے تھے، پہلے حجامہ کے بعد پاگل پن کے دورے بالکل ختم ہو گئے او ردوسرے حجامہ کے آخر میں ان کی یادداشت ایسی واپس آئی کہ وہ کئی سالوں پہلے کے واقعات بھی سنا رہے تھے۔

٭.. ایک صاحب شدید عرق النساء کے درد میں کلینک آئے۔ ڈاکٹروں نے انہیں فوری طور پر آپریشن کے لیے کہا تھا اور وہ ہسپتال میں آپریشن کی فیس بھی جمع کروا چکے تھے ۔ بندے نے ان کا حجامہ کرنا شروع کیا۔ جہاں جہاں حجامہ کرتا جاتا درد ختم ہوتا جاتا۔ جب وہ اٹھے تو اپنے پیروں پر چل کر واپس گئے۔ ایک دو اور وزٹ کے بعد وہ بالکل ایسے درست ہو گئے جیسے کبھی تکلیف ہوئی نہ ہو ۔

حجامہ میں احتیاط
جسمانی امراض کے لیے حجامہ بھی دیگر علاجوں کی طرح ایک علاج ہے، جس میں معالج کو مکمل مہارت کے ساتھ ساتھ غذائے نبوی اور دوائے نبوی کی معلومات ہونی چاہیے، انگلینڈ میں پاکستان کی طرح حجامہ بہت عام ہوتا جارہا ہے۔ لیکن صرف کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کو حجامہ کرنے کا اختیار ہے، جب کہ ہمارے ہاں چوکیدار اور ڈرائیور قسم کے لوگ بھی حجامہ کرکے نوٹ چھاپ رہے ہیں ۔ اس لیے حجامہ کرانے سے قبل تسلی ضرور کر لی جائے کہ ڈاکٹر قابل ہو اور حفظان صحت کے تمام اصول وہاں لاگوہوں۔ اگر حجامہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کروایا جائے تو کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ دراصل حجامہ ایک صحت مند انسان کے لیے ہے، تاکہ اسے کوئی مرض نہ ہو ۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اسے Preventive Therapy کے طور پر متعارف کرایا۔ اس لیے حضور صلی الله علیہ وسلم سے سال میں متعدد مرتبہ بغیر کسی مرض کے حجامہ ثابت ہے ۔ حتی کہ جادو جیسی موذی بیماری کی وجہ سے بھی علاج بالحجامہ اپنایا۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ ہر مہینے حجامہ کرواتے تھے۔ اسی طرح بہت سے صحابہ رضی الله عنہم جب محسوس کر لیتے کہ ان کو حجامہ کی ضرورت ہے تو فوراًً حجامہ کروالیتے۔

حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک پر پچھنا( حجامہ) لگوایا۔ ( بخاری ،ج2، ص:849)

اس وقت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک میں شدید درد تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم احرام باندھے ہوئے تھے اور روزے کی حالت سے تھے، ان سب قیود کے باوجود حضور صلی الله علیہ وسلم نے سر درد کے علاج میں حجامہ ہی کو پسند فرمایا۔

حضرت جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ران مبارک کے بلائی حصہ کی ہڈی میں درد کی بنا پر پچھنے (حجامہ) لگوایا۔ (ابوداؤد، ج2، ص:184)

متعدد صحابہ کرام رضی الله عنہم کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دردِ شقیقہ… یعنی آدھے سر کے درد … جیسے میں حجامہ لگوانے کا مشورہ دیا… جو شخص بھی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے درد کی شکایت کرتا… حضور صلی الله علیہ وسلم اس کو حجامہ لگوانے کا حکم فرماتے۔

سوال یہ ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے دردوں کے علاج میں حجامہ ہی کو کیوں پسند فرمایا؟ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے آپ صلی الله علیہ وسلم کا علم، علم وحی ہے اور یقینی ہے اور دوسرے تمام علوم ظنی ہیں ، یعنی یا تو مشاہدے پر ہیں یا تجرباتی ہیں ۔ آج ایک تجربہ ہوا… کل دوسرے تجربے نے پہلے کی جڑ کاٹ دی۔

آج سے چودہ سو سال پہلے طبیب اعظم صلی الله علیہ وسلم طب نبوی کے حوالے سے جو فرماکر اور عملی طور پر اپنا کر دنیا سے تشریف لے گئے … آج میڈیکل سائنس ان چیزوں کو ثابت کر رہی ہے ۔ چناں چہ جب عرب ممالک سے ترقی کرتا ہوا ” حجامہ “ دنیا کے ترقی یافتہ غیر مسلم ممالک میں پہنچا تو طب کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ میڈیکل سائنس اپنی ترقی اور Celluler level تک ریسرچ کے باوجود دردوں کے علاج میں Painkiller ( درد کم کرنے والی گولی) یا آخری درجے میں Steroid تجویز کرتی ہے جو گردوں اور جگر کے لیے انتہائی مہلک ہے …، اس سے آگے کوئی شافی دوا جس سے درد ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے، اس سلسلہ میں میڈیکل سائنس کوئی شافی دوا، تجویز کرنے میں ناکام تھی … یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ درد کے مادہ ، یعنی Pain toxins کوجسم سے باہر کیسے نکالا جائے جب مغربی ممالک میں حجامہ روشناس ہوا، ان کی عقلیں ٹھکانوں پر آگئیں کہ کیسے اتنے سادہ سے علاج سے، جس میں کپ یا گلاس کے ذریعے سک Suck یعنی کھچاؤبنا کر جب باریک کٹ لگائے جاتے ہیں تو سارا درد کا مادہ باہر آجاتا ہے او رمریض چاہے عرق النساء کا ہو یا درد شقیقہ کا… چاہے جوڑوں کا درد ہو یا پٹھوں کا اسے فوری شفا ملتی ہے … چناں چہ کئی غیر مسلم ممالک، مثلاً چین ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، امریکا وغیرہ میں ماہرین طب اور عام افراد دردوں کو دور کرنے کے لیے بہت تیزی سے حجامہ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں ، بندہ کیوں کہ برطانیہ کی International Cupping Society کا ممبر ہے، اس لیے ان کی طرف سے آئے دن E-mail کا سلسلہ جاری رہتا ہے، بندہ کے اندازے کے مطابق ہر 100 دن میں برطانیہ میں ایک نیا کپنگ سینٹرCupping Center یعنی مرکز الحجامہ کا افتتاح ہوتا ہے۔

ایک عرصہ کے تجربات کی روشنی میں دردوں میں حجامہ کے ذریعے علاج کروانے والے مریضوں کو چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
1... فوری درد یعنی Acate Pain کے کیسز (Cases) میں تین سے چار دفعہ او رپرانے دردوں یعنی Chronic Pain میں سات سے بارہ دفعہ میں عمومی طور پر مکمل شفا ہو جاتی ہے۔
2... حجامہ سے دو دن قبل تمام درد کم کرنے والی گولیوں کا استعمال ترک کر دیں ۔
3... کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ پہلے حجامہ کے بعد درد بجائے کم ہونے کے بڑھ جاتا ہے، اس میں پریشان نہ ہوں، بلکہ مستقل مزاجی سے حجامہ کرواتے رہیں۔
4... پرانے دردوں میں شروع کے ایک دو Sessions میں درد بالکل غائب ہو جاتا ہے، جس سے مریض یہ تصور کر لیتا ہے کہ اب وہ بالکل ٹھیک ہو گیا، لیکن چند دن بعد وہ درد دوبارہ عود کر آتا ہے ، جس سے مریض مایوس ہو جاتا ہے ۔ الله تعالیٰ کے بعد طبیب پر بھروسہ کرتے ہوئے پابندی سے حجامہ کرواتے رہیے، ان شاء الله شفائے کاملہ نصیب ہو گی ۔
5... حجامہ سے درد کا مادہ نکل جاتا ہے لیکن دوبارہ وہ نہ بنے اس کے لیے بتائے ہوئے پرہیز پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہے ، حق تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے، یہ سنت علاج کروایا جائے تو ان شاء الله یقینی شفا کے ساتھ ساتھ ثواب بھی حاصل ہوگا۔

آئیے! ہم بھی یہ عہد کریں کہ غیروں کاطریقہ علاج چھوڑ کر اپنے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے مبارک ارشادات ( جو کہ دنیائے طب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ) کو اپنائیں گے، تاکہ علاج کے ساتھ ثواب بھی ملے اور جسمانی آرام کے ساتھ ساتھ روحانی سکون بھی حاصل ہو ۔




علم طب میں مسلمانوں کی خدمات
مفتی امانت علی قاسمی




مسلمانوں نے علم طب کو اسی طرح ترقی اور عروج بخشا ہے جس طرح انہوں نے دیگر علوم کو بام عروج تک پہنچایا ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں بڑے بڑے طبیب موجود تھے، جو لوگوں کو طب کی تعلیم دیتے تھے،حارث بن کلدہ ثقفی عرب کے بڑے طبیبوں میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے فارس کے علاقے جندی شاپور میں طب کی تعلیم حاصل کی تھی،کئی صحابہ کو آپ نے حارث بن کلدہ سے علاج ومعالجہ کا مشورہ دیا تھا،انہوں نے آپ کے دست حق پر اسلام قبول کرلیا تھا، ضماد بن ثعلبہ الازدی مشہور صحابی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد اپنے معالج ہونے کا تذکرہ بھی کیا تھا، خود آپ صلی الله علیہ وسلم روحانی طبیب ہونے کے ساتھ جسمانی طبیب بھی تھے،آپ صلی الله علیہ وسلم کے طبی ارشادات بڑی اہمیت کے حامل ہیں،آپ صلی الله علیہ وسلم سے نظری اور عملی دونوں طرح کے علاج مروی ہیں، احادیث اور سیرت کی کتابوں میں باقاعدہ ”کتاب الطب“ موجود ہے، طب نبوی کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں، جس میں مفردات اور مرکبات سے علاج کی تفصیل موجود ہے، علامہ ابن القیم (751-691ء) کی ”الطب النبوی“ اورجلال الدین سیوطی کی”الطب النبوی للسیوطی“ اس سلسلے میں بصیرت افروزہے۔

اسلام میں طب کی اہمیت کا ا ندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظام حکومت کے ابتدائی عہد میں، جب کہ اسلامی حکومت کا کوئی محکمہ اور دفتر نہیں تھا، مسجد نبوی کے صحن میں ایک شفا خانہ موجود تھا اور ایک انصاری خاتون حضرت رفیدہ اس شفاخانہ کی نگراں تھیں، جو بلا عوض خدمت کیا کرتی تھیں، غزوہٴ خندق کے موقعہ پر حضرت سعد بن معاذ زخمی ہوئے تو آپ نے فرمایا، اس کو رفیدہ کے خیمہ میں پہنچا دو، حضرت رفیدہ کے تذکرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں عورتیں بھی فن طب میں خاص مہارت رکھتی تھیں۔ (علوم وفنون عہد عباسی میں ص:108، العلوم العربیہ ص: 302) تاریخ الاسلام للذہبی میں حضرت عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ ”میں نے حضرت عائشہ سے بڑا طب میں کوئی عالم نہیں دیکھا“مختلف کتب حدیث میں ہے کہ حضرات صحابیات جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔

جوں جوں علم کی روشنی بڑھتی اور پھیلتی گئی تمام بڑے بڑے اسلامی مرکزوں میں طبی مدارس اور ہسپتال قائم ہوتے چلے گئے، تقی الدین مقریزی نے لکھا ہے کہ باضابطہ سب سے پہلا شفا خانہ اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے بنایا تھا، جس میں بالخصوص نابیناوٴں اور جذامیوں کا علاج ہوتا تھا اور اطباء کو معقول وظیفہ دیا جاتا تھا۔ (تاریخ بیمارستان فی الاسلام ص: 10)عباسی دور حکومت میں بغداد، دمشق اور قاہرہ میں بڑے بڑے ہسپتال بنائے گئے، اس وقت اہلِ مغرب کی ناواقفیت کا یہ عالم تھا کہ وہ پاگلوں کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑتے اور مارتے تھے، جب کہ اہل عرب اپنے ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کا باقاعدہ علاج کرتے تھے۔رفتہ رفتہ سینکڑوں طبی کتابیں بھی منظر عام پر آتی چلی گئیں، خلیفہ متوکل کے درباری طبیب علی الطبری نے یونان وہند کے ماخذوں کی مدد سے 850ء میں ایک طبی رسالہ قلمبند کیا، اسی صدی میں ایک دوسرے مصنف احمد الطبری نے سب سے پہلی مرتبہ خارشی کیڑے کی تفصیل پیش کی، مسلمانوں کی بعض طبی تصنیفات کا لاطینی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، انہی کتابوں کی مدد سے یورپ نے طبی دنیا میں ترقی کے مراحل طے کیے، اس سلسلہ میں جوستاف لوبون کا کہنا ہے کہ ”عرب موٴلفین کی کتابیں یورپ کی یونیورسٹیوں میں پانچ سو سال تک مطالعہ وتحقیق کا واحد مرجع تھیں۔“ (عربوں کے علمی کارنامے ص:72)

طب سے مسلمانوں کی گہری وابستگی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اموی دور کے آغاز ہی میں جب ترجمہ نگاری کا رواج ہوا اور مختلف علوم وفنون کی کتابوں میں یونانی،عبرانی،سریانی، سنسکرت زبانوں سے عربی قالب میں ڈھالی گئیں تو طب اور فلسفہ کی سب سے زیادہ کتابیں ترجمہ کرائی گئیں، عباسی دور بالخصوص مامون کے عہد میں بے شمار یونانی کتابوں نے عربی کا لباس زیب تن کیا، اس طرح مسلمانوں کی طب سے دلچسپی بڑھنے لگی، آج جویونانی اطباء کی کتابوں میں ان کے اقوال اور ان کے تجربات موجود ہیں وہ سب مسلمانوں کے رہین منت ہیں کہ مسلمانوں نے اس کو عربی جامہ پہنا کر اور اس میں اضافہ وترمیم کر کے اسے زندہ جاوید بنادیا، ورنہ حکمائے یونان کے فلسفے اور طبی کارنامے دفتر گم گشتہ ہوچکے ہوتے،دولت امویہ اور عباسیہ میں بالخصوص بقراط اور جالینوس جیسے یونانی اطباء کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے۔

اسلامی دنیا میں طب کا باقاعدہ آغاز ابو بکر محمد بن زکریا رازی(953-854ء) سے ہوتا ہے، اس نے تمام طبی کتابیں پڑھیں اوراپنے والد کے ساتھ ایک ہسپتال میں طب کا عملی تجربہ بھی کیا، کہتے ہیں کہ اپنی تحریروں اور نوشتوں کی ضخامت میں وہ جالینوس سے بھی سبقت لے گیا تھا،اس نے دو سو سے زائد کتابیں لکھیں، جس میں نصف کتابیں طب پر ہیں، ایڈورڈ۔ جی۔براوٴن نے ان کے متعلق یہ رائے ظاہر کی ہے کہ :

”وہ مسلم اطباء میں سب سے زیادہ عظیم المرتبت گذرا ہے اور اس کا شمار سب سے زیادہ سیر حاصل لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔“ (عربیین میڈیسن، ص: 44،بحوالہ مسلمانوں کے افکار ،ص: 73)

رازی کو تجرباتی طب کا بانی قرار دیا جاتا ہے، وہ اپنے تجربات حیوانات پر کرتا تھا اور اس کے نتائج کو بڑی توجہ سے ایک دفتر میں لکھ لیا کرتا تھا، اس نے سب سے پہلے چیچک اور خسرہ کی علامتیں بیان کیں، رازی بالاتفاق مسلمان اطباء میں قرون وسطیٰ کے عظیم ترین معالج تھے۔

رازی (925-864ء)کے بعد مشہور مسلم اطباء میں ابن سینا (370ھ /980ء- 428ھ/1037ء) کا شمار ہوتا ہے، یہ” الشیخ الرئیس“کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے سب سے پہلے دماغ کی جھلی میں ہونے والی سوزش کا صحیح ترین نظریہ پیش کیا، نیز ذات الجنب، گردہ اور مثانہ کی پتھری کی علامتیں بتائیں، دنیا کے تمام طبی کالجز اور یونیورسٹیوں میں سترہویں صدی تک ان کی کتابوں کی تعلیم ضروری تھی، ان کی کتابوں کے ترجمے لاطینی، عبرانی، روسی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں ہوئے، ابن سینا پہلا مسلم طبیب ہے جس نے نفسیات کو علم طب میں داخل کیا اور یہ واضح کیا کہ انسان کی نفسیاتی کیفیات کا اثر اس کے معدہ پر پڑتا ہے۔

ابن الہیثم(1031-959ء) نے بصریات پر زبردست کام کیا ہے، وہ امراض چشم کا سب سے بڑا طبیب مانا گیا ہے، ابن الہیثم کی علم بصارت پر خدمات کو بنیاد پر بنا کر اہل مغرب نے علم بصارت کو ترقی کی راہ پر گام زن کیا، انہوں نے بتایا کہ آنکھ کا بیرونی حصہ دبیز پردے پر مشتمل ہوتا ہے، جسے صلبیہ کہا جاتا ہے ،اس کے سامنے کا حصہ صاف شفاف ہوتا ہے، اسے قرنیہ کہتے ہیں، روشنی کی کرنیں اسی حصہ سے اندر داخل ہوتی ہیں، علم بصارت کے موضوع پر ابن الہیثم کی مشہور تصنیف ”کتاب المناظر“ایک بڑا کارنامہ ہے، سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے آنکھ اور روشنی سے متعلق بیشتر معلومات اسی کتاب سے حاصل کی ہیں۔

تجرباتی طب کی دنیا میں ایک اہم نام ابو مروان عبد الملک بن عبد العلاء زہر (1162-1091ء) کا ہے ،جسے ابن زہر کے نام سے یاد کیاجاتا ہے، انہوں نے ابن رشد کی فرمائش پر ”التیسیر فی المداوات والتدبیر“ لکھی، جس میں ان بیماریوں اور علاج کا تذکرہ کیا، جس کے بارے میں پہلے کچھ نہیں لکھا گیا تھا، ابن زہر کی اس کتاب کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے اور صدیوں تک لوگ اس سے استفادہ کرتے رہے، ابن رشد نے ا سے جالینوس کے بعد سب سے بڑا طبیب کہا ہے۔ (مسلمان اور سائنس 293)

ابن رشد (1198-1126ء)نے بھی طب کی دنیا میں بڑا تحقیقی کام کیا ہے، ان کی مایہ ناز کتاب ”الکلیات فی الطب“ طبی تحقیقات ومعلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہے، یہ کتاب کئی سو سال تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں ٹکسٹ بک کے طور پڑھائی جاتی رہی، ابن رشد نے چیچک کے مرض پر بھر پور تحقیق کی اور دنیا کو اس مرض سے نجات کا طریقہ بتایا اور بصریات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آنکھ کی پتلی کس طرح کام کرتی ہے۔

علی بن عیسیٰ(864ء) نے امراض چشم پر تحقیق کی، اس موضوع پر ان کی مشہور کتاب ”تذکرہ“ہے، جس میں انہوں نے آنکھوں کے ایک سو تیس امراض اور ایک سو سینتالیس دواوٴں کا تذکرہ کیا ہے، یہ کتاب یورپ میں اٹھارہویں صدی تک مستند ماخذ کی حیثیت سے مقبول رہی۔

ابو القاسم عمار موصلی(1005ء) نے بھی آنکھوں کی بیماریوں اور ان کے علاج پر بے مثل کام کیا ہے، ان کی تصنیف ”الکتاب المنتخب فی علاج العین“ امراض چشم پر بیش قیمت تحریر ہے، اس میں انہوں نے آنکھوں کی بیماری اور اس کے علاج پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے موتیا بند کے آپریشن کا ذکر کیا ہے۔

ابن خطیب (1374-1313ء)نے طاعون کے بارے میں ثابت کیا ہے کہ یہ متعدی مرض ہے، جو مریض کے ملبوسات، ظروف اور زیورات سے دوسرے لوگوں تک پہنچتا ہے، بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خوردبین کی ایجاد سے پہلے مسلم اطباء امراض کے تعدیہ کا سراغ لگا چکے تھے اور یقینی طور پر تعدیہ کے قائل تھے، اسپین کے ابن خطیب نے اس سے آگے بڑھ کر اپنی تحقیق پیش کی کہ طاعون کے مرض سے تعلق رکھنے والا شخص فوراً طاعون کا شکار ہوجاتا ہے۔(مسلمان اور سائنس ص:298)

مسلم اطباء نے طب کے دوسرے میدانوں کی طرح سرجری اور آپریشن کے باب میں بھی گراں قدر کارنامہ انجام دیا ہے، زکریا رازی کی کتاب ”المنصوری“ میں سرجری پر سیر حاصل بحث موجود ہے، اسی طرح ان کی دو اہم تصنیف ”کتاب العمل بالحدید“اور ”مقالة فی الحضی فی الکلی والمثانة“ اس باب میں اہمیت کی حامل ہے، یہ پہلا طبیب ہے جس نے مرہم میں رصاص کے مرکبات کا استعمال کیا، اسی طرح اس سلسلے میں اولیت کا سہرہ اسی کے سر جاتا ہے کہ اس نے جانوروں کی آنتوں سے بنے دھاگوں کو زخم کے سینے میں استعمال کیا، باوجود کہ رازی نے سرجری اور اس کے متعلقات پر تفصیل سے لکھا ہے؛ لیکن اس نے اپنے کیے ہوئے سرجری آپریشنوں کے بارے میں وافر معلومات مہیا نہیں کی ہیں۔

زہراوی(1013-936ء) نے اپنے تجربات کی روشنی میں سرجری کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں، زہراوی اس سلسلے میں سب آگے ہیں کہ انہوں نے آپریشن کے ذریعہ علاج کو فروغ دیا، زہراوی نے طب اور آپریشن کے سلسلے میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں، جس میں سب سے اہم ”التصریف‘ ہے، علی بن عباس نے بھی سرجری پر بھر پور روشنی ڈالی ہے، اس سرجن نے سب سے پہلے مرقاة(لہو روک آلہ) کا استعمال کیا، یہ ایک ایسا آلہ ہے جس کو سرجری کے وقت خون بہنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ابن سینا نے بھی ”القانون“ میں سرجری کے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا ہے۔(عربوں کے علمی کارنامے، ص: 78)

علم ادویہ کے سلسلہ میں بھی مسلمان اطباء نے تحقیقاتی کارنامہ انجام دیا ہے، انہوں نے کافور، صندل، دارچینی اور قرنفل وغیرہ جڑی بوٹیوں کے خواص اور تاثیر معلوم کیے اور انہیں اپنی قرابادین میں شامل کیا، انہوں نے سب سے پہلے دواسازی کی دکانیں اور گشتی بیمار خانے قائم کئے، قید خانوں کا روزانہ طبی معائنہ کرنا اور طبی امتحانات منعقد کرنے کے طریقے سب سے پہلے عربوں نے ہی رائج کیے، چوں کہ مسلمان اعلیٰ درجہ کے ملاح تھے، اس لیے جہاز رانی کے ذریعہ انہیں مختلف ممالک میں پہنچ کر نئی نئی جڑی بوٹیوں کے دریافت کا موقع ملا، چناں چہ انہوں نے طبی دنیا کو ایسی جڑی بوٹیوں سے متعارف کرایا جن سے یونان کے اطباء ناواقف تھے، مسلمان اطباء نے طبی دنیا کو”الکحل“ سے روشناس کرایا، انہوں نے قدیم علم کیمیا کے نظریات پر تنقید کی، اس کے فرسودہ تصورات کو غلط قرار دیا اور جدید علم کیمیا کی بنیاد رکھی، جس کی ابتدا ابو اسحاق یعقوب الکندی نے کی اور جابر بن حیان نے علم کیمیا اور دواسازی کے فن کو بام عروج تک پہنچا دیا، اسی علم کیمیا کی مدد سے انہوں نے نئی نئی داوئیں تیار کیں اور نئے نئے مرکبات دریافت کئے، جابر نے داوٴوں کو قلمانے کا طریقہ ایجاد کیا اور بہت سی دواوٴوں کو قلما کر انہیں نہایت موٴثر اور مفید بنایا، انہوں نے بالوں کو کالا کرنے کے لیے خضاب تیار کیا، جو آج تک استعمال کیا جاتا ہے۔ (سو عظیم مسلم سائنسداں ص:163)

مسلمان اطباء نے یونانی، ایرانی اور قدیم مصری طب سے استفادہ کے ساتھ ہندوستانی طب سے بھی استفادہ کیا، سنسکرت کی بے شمار کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں، خصوصاً مامون رشید کے دور میں ہندوستانی طب پر غور وخوض اور نقد وجرح کے بعد ہندوستانی طب کی مفید معلومات کو عربی طب میں شامل کیا گیا، چناں چہ زکریا رازی، بو علی سینا، علی بن عباس، علی بن سہل الطبری کی کتابوں میں ہمیں بہت سی مفید ہندوستانی طبی معلومات ملتی ہیں۔

یہ تمام باتیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ مسلمانوں نے تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ علم کے مختلف میدانوں میں فاتحانہ کردار ادا کیا ہے اور علم طب کے ارتقاء میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے، انہوں نے خالص علمی اور تجرباتی مطالعہ اور تحقیق کی بدولت جدید طب اور اس سے متعلق تمام علوم پر گہری چھاپ چھوڑی ہے، بلا شبہ اس میدان میں انہیں ہادی اورراہ بر کا مقام حاصل ہے، اس لیے یہ کہنا مبالغہ سے خالی ہے کہ مسلمانوں کے طبی کارنامے نہ ہوتے تو علم طب ترقی کی موجودہ منزل تک ہر گز نہ پہنچ پاتا۔



بیماریاں اور ان کے فوائد:
جب کسی پر معمولی بیماری یا پریشانی آتی ہے تو مریض او راس کے اقارب مزاج شریعت کے خلاف انتہائی نامعقول باتیں کرنے لگتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ”یا الله! تو دیکھ رہا ہے تیرا بندہ کتنی تکلیف میں ہے ، تو کیوں اس سے اس پریشانی کو زائل نہیں کرتا؟“۔ اور کوئی پریشانی کے عالم میں یہ کہہ بیٹھتا ہے ”یا الله! یا تو اس کو شفا دے دے یا اس کو اپنے پاس بلالے“

کوئی لاعلاج مرض لاحق ہونے کی صورت میں مریض بسا اوقات انتہائی بے صبرا اورالله کی رحمت سے ناامید ہو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شیطان کی کارستانی ہے کہ انسان کو ماضی میں کیے ہوئے گناہ اس قدر یاد دلاتا ہے کہ وہ ناامیدی کو گلے لگا لیتا ہے ، حالاں کہ اگر وہ نمازوں کی پابندی کرتا رہے ، بقیہ تمام فرائض ادا کرتا رہے اور صدق دل سے توبہ کرے اور شرک سے اپنے آپ کو بچائے تو الله کی ذات سے قوی امید ہے کہ الله اس کے ساتھ رحم والا معاملہ فرمائیں گے او راسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ: ”میری امّت میں سے جو بھی اس حال میں مرا کہ اس نے الله کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ حضرت ابو ذر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اے الله کے رسول! اگرچہ زنا کرے یا چوری کرے تب بھی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگرچہ زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔“

اور صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی مرے اسے چاہیے کہ وہ الله کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو ۔ “اور حدیث قدسی ہے کہ ” میں اپنے بندے سے اس کے گمان جیسا معاملہ کرتا ہوں پس جیسا چاہے وہ مجھ سے گمان رکھے۔“ او رایک مومن او رمسلمان بندے کو چاہیے کہ وہ تکالیف پر صبر کرے ، چاہیے وہ کتنی ہی سخت ہوں۔ کیوں کہ الله رب العزت نے قرآن مجید میں تنگی اور پریشانی کے بعد راحت کا وعدہ فرمایا، چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے : ﴿فإن مع العسریسرا﴾․

حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ”رسول پاک صلی الله علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس تشریف لائے او روہ موت کے بہت قریب تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہو؟ تو اس نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! الله کی رحمت کی امید کرتا ہوں اوراپنے گناہوں سے خوف کھاتا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی شخص جس کے دل میں یہ دو باتیں جمع ہو جائیں تو الله پاک اس کی امید کو پورا فرماتے ہیں اور اس کو خوف سے بخشتے ہیں“۔

لہٰذا اس حدیث کی رو سے الله کی ذات پر یقین رکھنا چاہیے او راس کے فیصلے پر راضی ہونا چاہیے ، کیا پتہ موت کس وقت آجائے تو اگر صبر وشکر کیا اور الله پاک نے شفا دے دی تو صبر وشکر کا ثواب ملے گا او راگر فانی دنیا سے رحلت ہو گئی تو الله کی رحمت متوجہ ہو گی آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ” مومن کا تحفہ موت ہے ۔“ (طبرانی)

یہ تو بات ہو گئی بیماری پر صبر کی اور الله کی رحمت سے ناامید نہ ہونے کی، اب میں آپ حضرات کی خدمت میں بیماری کے روحانی فوائد اور اس کی حکمتیں پیش کرتا ہوں، لیکن اس سے پہلے ایک تمہیدی بات عرض کرتا ہوں۔

الله تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر چیز میں نعمت کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے، یہ بات الگ ہے کہ بسا اوقات نعمت کا یہ عنصر خود اس شخص پر اثر انداز ہوتا ہے اورکبھی کسی دوسرے کے لیے کار فرما ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ الله تعالیٰ کا کفار کو درد ناک عذاب دینا بھی نعمت ہے، لیکن ظاہر ہے کہ کفار نہیں بلکہ باسیان جنت کے حق میں یہ نعمت ہے ۔ کیوں کہ اگر الله تعالیٰ عذاب کو پیدا نہ فرماتے تو جنت کے مزے لوٹنے والے جنتی ان نعمتوں، سہولتوں او رراحتوں کا ادراک نہ کر پاتے جو ان کو حاصل ہیں، عربی کا ایک مشہور قاعدہ ہے کہ ”تعرف الأشیاء بأضدادھا“ کسی بھی چیز کی معرفت اس کی ضد سے ہوا کرتی ہے ۔

آئیے ! اسی نکتے سے آگے بڑھتے ہیں۔ الله تعالیٰ نے نعمتوں کے مقابلے میں کچھ ایسی چیزیں بھی پیدا کی ہیں کہ اگر ان کا سامنا ہو جائے تو نعمت کی قدر ہوتی ہے۔ ان چیزوں کو ہم مختلف نام دے سکتے ہیں ۔ پریشانی آئے تو اچھے وقت کی قدر آتی ہے ، فقر کے بعد فراوانی، ذلت کے بعد عزت، غم کے بعد خوشی ، نفرت کے بعد محبت، جہالت کے بعد علم ، دن کے بعد رات، رات کے بعد دن، سردی کے بعد گرمی ، گرمی کے بعد سردی، مشغولیت کے بعد فراغت، بڑھاپے کے بعد جوانی اور اسی طرح بیماری کے بعد صحت کی قدر آجاتی ہے۔

یہیں اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ایمان اور حسنِ اخلاق کے علاوہ ہر نعمت کسی کے لیے وبال اور کسی کے لیے واقعی نعمت ہوتی ہے ، جیسا کہ کسی بھی چیز کے بارے میں علم وآگہی حاصل ہونا، نعمت ہے، مثال کے طور پر اگر کسی کے بارے میں یہ پتہ چل جائے کہ اس نے کسی سے قرض لیا اور واپس نہ کیا، تو لوگ اس شخص کو قرض دینے کے معاملے میں محتاط ہو جائیں گے تو یہ علم لوگوں کے حق میں تو نعمت ہوا، لیکن اگر مقروض کو پتہ چل جائے کہ وہ قرض ادانہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کی نظر سے گر گیا ہے ۔ تو اب دو صورتیں ہیں یا تو وہ اپنے معاملہ کو درست کرے گا یا بات دل پہ لگالے گا اور غم وپریشانی کا شکار ہو گا پہلی صورت میں علم اس کے لیے نعمت اور دوسری میں وبال بن جائے گا۔

بالکل اسی طرح مرض مریض کے لیے اس وقت نعمت بن جاتا ہے جب وہ صبر وشکر کرتا ہے اور شفا کے بعد صحت کی قدر اور الله رب العزت کی دی ہوئی اس نعمت کا شکر ادا کرتا ہے۔

فوائد
الله رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ﴿وما أصابکم من مصیبة…﴾(الشوریٰ:30)

کہ” جوبھی مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال ہی کی بدولت ہوتی ہے اور الله پاک کتنی ہی باتیں تو معاف فرما دیتے ہیں۔“ اسی لیے کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کہتا پھرے کہکہاں سے یہ مصیبت آٹپکی؟ بلکہ یہ اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے، جو دنیا میں اس کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے اور اگر ہم اس بات کو سمجھیں کہ دنیا کی مصیبتیں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں تو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہو گی کہ اس کے اندر ہمارے لیے خوش خبری بھی ہے اور ڈراوا بھی۔ ڈراوا بایں طور کہ انسان پریشانیوں کا سامنا کرکے خوف زدہ رہتا ہے اور خوش خبری بایں وجہ ہے کہ امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” مومن کو جو بھی بیماری یا غم یا پریشانی یا کوئی بھی تکلیف پہنچے، حتی کہ کوئی کانٹا چبھ جائے تو الله اس کے بدلے اس کے گناہ معاف فرماتے ہیں ۔“ اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا: کہ” مصیبت مستقل بندہ مومن کے ساتھ او راس کے گھر میں ، اس کے مال میں اس کی اولاد میں رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ الله تعالیٰ سے اس حال میں جا ملتا ہے کہ اس پہ کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔“

لہٰذا اگر کسی کے گناہ بہت زیادہ ہوں تو الله تعالیٰ اسے مصیبت میں گرفتار کر دیتے ہیں، جو اس کے گناہوں کے ازالہ کا سبب بن جاتا ہے اور دنیا کی تلخی آخرت کی تلخی سے بہتر ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ اگر دنیا میں مصیبتیں نہ ہوتیں تو ہم قیامت میں خالی ہاتھ پہنچتے۔

مریض کو اس کے مرض کی بدولت آخرت میں جو لذت اور مسرت عطا کی جائے گی وہ دنیا کی فانی، وقتی لذتوں سے کئی لاکھ گنا زیادہ ہے،کیوں کہ دنیا کی تلخی وتنگی آخرت کی راحت وفراوانی کومستلزم ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ” دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے او رکافر کے لیے جنت ۔“ او رامام ترمذی نے حضرت جابر رضی الله عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ :( قیامت کے دن جب لوگ ان لوگوں کے صبر وثواب کو دیکھیں گے کہ جو دنیا میں مصیبتوں، بیماریوں میں پھنسے رہے تو وہ یہ تمنا کریں گے کہ اے کاش! دنیا میں ہماری جلدوں کو قینچوں کے ساتھ کاٹ دیا جاتا۔

مریض کو الله تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہو جاتا ہے ۔ حدیث قدسی ہے:” اے آدم کے بیٹے! میرا فلاں بندہ بیمار ہو گیا تھا اور تونے اس کی تیمارداری نہ کی ، اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔“ (مسلم عن ابی ھریرہ)

مرض کے ذریعے آدمی کے صبر کا پتہ چلتا ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ آزمائش نہ ہوتی تو صبر کی فضیلت ظاہر نہ ہوتی ، اگر صبر کیا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیں او راگر صبر نہ کر سکا تو سب کچھ گنوادیا۔ تو الله تعالیٰ بیماری کے ذریعے بندہ کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔ اب یا تو وہ سونا نکلتا ہے یا پھر کھوٹا… حضرت انس رضی الله عنہ سے مرفوعاً منقول ہے کہ ” اجروثواب کی زیادتی تکالیف برداشت کرنے کے بقدر ہوتی ہے اورالله تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو آزمائش میں مبتلا فرما دیتے ہیں تو جو اس پر راضی ہو جاتا ہے اس کے لیے الله کی رضا ہے او رجو ناراض اس کے لیے الله کی ناراضگی ہے۔“

اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ الله رب العزت جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اس کے غموں کو زیادہ فرما دیتے ہیں او رجب کسی سے ناراضگی فرماتے ہیں تو اس کی دنیاوی آرائشوں وراحتوں کو وسیع تر فرمادیتے ہیں، خاص کر جب آدمی کا دین ضائع ہو جائے، نہ نماز کی کچھ فکر ہو ، نہ بقیہ فرائض کی ادائیگی کا کچھ ہوش اور حرام لذات میں ایسے پڑ جائے کہ حلال چیزوں سے بھی اجنبیت محسوس ہونے لگے۔

اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ بندہ مومن جب الله رب العزت کے فیصلے پر صبر وشکر کرتا ہے تو اس کو صابرین میں شمار کیا جاتا ہے، امام مسلم رحمہ الله نے حضرت صہیب رضی الله عنہ سے روایت نقل فرمائی ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر کام میں خیر ہے اور یہ ہر کسی کے لیے نہیں، صرف مومن کے لیے ہے کہ اگر اسے خوشی ملے تو الله کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کو اجر ملتا ہے او راگر پریشانی لاحق ہو تو وہ صبر کرتا ہے، تب بھی اُسے اجر ملتا ہے ، پس الله تعالیٰ کے ہر فیصلے میں مسلمان کے لیے بھلائی ہے ۔“ یا الله! ہمیں ان لوگوں میں سے بنا کہ جب ان کو نعمت ملے تو وہ شکر کرتے ہیں او رجب پریشانی کا سامنا ہو تو صبر کرتے ہیں اورجب ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اپنے رب سے معافی مانگتے ہیں۔

مرض کے فوائد میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مریض پر الله تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوتا ہے او روہ اس طرح کہ جب اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو خوف اسے گھیر لیتا ہے او رپھر یہی بیماری اور خوف اسے الله رب العزت کی توحید کی طرف مائل کر دیتا ہے اور وہ بزبان حال یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے مولیٰ! سب اطباء نے اپنی طبابت او رحکمت آزمائی اور وہ ناکام ہو گئے، اب کوئی ہے تو بس تو ہی ہے ، تیرے سوا مجھے کوئی شفا دینے والا نہیں۔ اس طرح مریض کا دل الله رب العزت کے ساتھ رابطہ میں رہتا ہے اور وہ ہر وقت پورے خلوص کے ساتھ اپنے خالق حقیقی اور پرورش کرنے والی ذات کو یاد کرتا ہے۔

علما فرماتے ہیں کہ جب بندہ الله تعالیٰ سے نہ مانگے تو الله پاک ناراض ہوتے ہیں ( اور یہ مضمون حدیث کا بھی ہے ) اور بندہپر پریشانی نازل فرماتے ہیں، تاکہ وہ الله کی طرف متوجہ ہو او راسی سے دعا مانگے تو الله تعالی ٰاس پر انعامات کی بارش فرماتے ہیں۔ تاکہ وہ الله کا شکر ادا کرے۔

اور الله تعالیٰ نے سورہ فصلت کی آیت نمبر51 میں کیا خوب انسان کا حال بیان فرمایا کہ جب اِنس پر الله کی نعمتیں ہوتی ہیں تو الله تعالیٰ سے اعراض کرتا رہتا ہے او رجب اسے پریشانی لاحق ہوتی ہے۔تو بس لمبی لمبی دعائیں شروع کر دیتا ہے( پھر اس کو مسجد بھی اچھی لگتی ہے۔ داڑھی والے مولوی حضرات بھی اس کی آنکھ میں جچتے ہیں اور پگڑی اور شلوار قمیض میں ملبوس علما بھی اس کی نظر کو بھاتے ہیں)لہٰذا اس بیماری کی برکات ہوتی ہیں کہ جس نے کبھی مسجد کا رُخ نہ کیا ہو وہ بیماری کے بعد پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرتا نظر آتا ہے اور صبر وشکر، توکل وعاجزی، خشوع وخضوع، حلاوتِ ایمان سے بھرا بھرا دکھائی دیتا ہے۔ جو کہ اس کے ایمان میں زیادتی کا موجب ہوتا ہے۔

اور جو اس بیماری کے اندر بھی الله رب العزت کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ جعلی پیروں کے مشرکانہ تعویذات وٹوٹکوں پر اعتماد کرتا رہے او رکبھی کسی نجومی کو جاکر ہاتھ دکھائے تو، اس سے بدنصیب شخص اور کون ہو گا؟ ہاں! اگر کوئی باشرع عامل، شرعی حدود کی رعایت کرکے، تعویذ اور کا عمل کرتا ہو تو اس کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں، مگر تعویذ وغیرہ لے کر عقیدہ یہ ہی رہے کہ مؤثر حقیقی الله کی ذات ہے، تعویذبذات خود مؤثر نہیں۔

بیماری کے ذریعہ الله رب العزت انسان کے دل کو تکبر وعجب اور فخر جیسی مہلک بیماریوں سے نجات عطا فرماتے ہیں، کیوں کہ اگر یہ روحانی بیماریاں انسان کے ساتھ مستقل رہیں تو سرکشی ونافرمانی جیسی دوسری بیماریاں اس کے اندر جنم لیتی ہیں اور انسان اپنی ابتدا وانتہا کو بھول جاتا ہے او رجوانی کی طاقت یا بڑھاپے کی جو شیلی صحت اس کو خود اعتمادی دیتی ہیں اور وہ اپنے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کرتا۔ پھر جب الله رب العزت کی طرف اس کے اوپر بیماریوں کی آزمائش ہوتی ہے تو اس کا نشہ، غرورو تکبر کا فور ہو جاتا ہے اور پھر اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس کے اپنے قبضہ میں نہ اس کا نفع ہے، نہ نقصان، نہ زندگی نہ موت، کبھی کسی چیز کو یاد کرتا ہے تو اس کے ادراک پر قادر نہیں ہوتا، کبھی چیز کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، لیکن جہالت اس کے دامن گیر رہتی ہے ۔ کبھی کسی ایسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کی ہلاکت کا سبب ہو اور کبھی ایسی چیز سے دور بھاگتا ہے جس میں اس کے لیے بھلائی ہو اور دن اور رات میں، کسی بھی وقت اس خطرہ سے محفوظ نہیں رہتا کہ الله تعالیٰ اپنی دی ہوئی نعمتوں میں سے دیکھنے اور سننے کی طاقت کو سلب فرمالیں، یا اس کی عقل میں فساد پیدا کر دیں ، یا اس سے اس کی محبوب دنیا چھین لیں اور وہ کچھ بھی نہ کر سکے، تو کیا اس سے زیادہ کوئی محتاج وذلیل ہے؟ نہیں ! تو پھر اسے تکبر وعجب کیسے زیب دے گا؟

بیماری اس بات کی علامت ہے کہ الله رب العزت بیمار کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے ہیں، بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ الله تعالیٰ جس سے بھلائی کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں اُسے کسی بیماری سے دو چار فرماتے ہیں۔ اس حدیث کے مفہوم مخالف کی تایید ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، جو کہ مسند احمد میں مذکور ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ” رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایک دیہاتی کے پاس سے ہوا۔ آپ کو اس کی صحت وجسم بھلا معلوم ہوا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا کہ تمہیں کبھی اُم ملدم محسوس ہوا؟ اسے نے پوچھا اُم ملدم کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا کہ بخار۔ اس دیہاتی نے پوچھا کہ بخار کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ایسی گرمی جو جلد اور ہڈیوں کے درمیان پیدا ہو جاتی ہے، تو اس دیہاتی نے جواب دیا کہ نہیں، مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی سر درد محسوس کیا؟ اس نے جواباً پوچھا کہ وہ کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ضربات تکون فی الصدعین والرّأس) وہ ضربیں ہیں جو سر اور دونوں کنپٹیوں کے درمیان پڑتی ہیں۔ دیہاتی نے جواب دیا کہ میں نے کبھی ایسا محسوس نہ کیا۔ جب وہ دیہاتی چلا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی دوزخی کو دیکھے وہ اس دیہاتی کو دیکھ لے۔“ اس لیے کسی نے کیا خوب کہا کہ ”کافر کا جسم صحیح اور دل بیمار ہوتا ہے او رمسلمان کا دل صحیح اور جسم بیمار ہوتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بیماری کا آنا بھی خیر ہے۔

بندہ مومن جب حالتِ صحت میں الله تعالیٰ کو یاد کرتا ہو او راس کی نافرمانی سے بچتا ہو تو جب وہ بیمار ہوتا ہے تو الله پاک فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ ”یہ بندہ صحت میں جو جو نیک کام کیا کرتا تھا ان کاثواب ہر دن اور رات کے اعتبار سے اس کے نامہٴ اعمال میں لکھتے رہو، چاہے وہ بے ہوش ہو یا اس کی عقل جاتی رہے ۔“ یہ مضمون مسند احمد کی روایت کا ہے،جسے عبدالله بن عمرو نے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرمایا ہے اس کے علاوہ دوسری احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے اس کے گناہ ایسے معاف ہوتے ہیں جیسے موسم خزاں میں درختوں سے پتیجھڑتے ہیں ۔ الله اکبر

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ الله رب العزت اپنے کسی خاص بندے کو اپنے ہاں ایک اعلیٰ او رخصوصی مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں ،لیکن وہ قلتِ اعمال یا کسی اور سبب سے اس مقام پہ نہیں ہوتا، تو الله رب العزت اسے کسی بیماری میں مبتلا فرما دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے، ابن حبان نے اس مضمون کی حامل حدیث کو روایت فرمایا ہے او راس میں فما یزال یبتلیہ بما یکرہ کے الفاظ ہیں اور اس ابتلا سے مراد بیماری اور دوسری کوئی آزمائش بھی ہو سکتی ہے۔
[عبدالرحمن بن یحییٰ ، ترجمہ مع اضافات: مبشر جاوید]



آپریشن سے متعلق جدید مسائل



(۱) شریعت اسلامیہ نے علم طب سیکھنے ،سکھانے، اور اس کے اطلاق کونہ صرف مباح بلکہ مصالح عظیمہ ومنافع جلیلہ یعنی صحت کی حفاظت، اور امراض کے ضرر سے بدن کو بچانے کی بناء پر فرض کفایہ قرار دیا ہے ۔ (احکام الجراحة الطبیة،ص:۷۷)

(۲) اعضاء انسانی کی چیر پھاڑ کرنا ناجائز و حرام ہے، البتہ بوقت ضرورت علماء کرام نے میڈیکل سرجری (آپریشن ) کرنے کی اجازت دی ہے ۔(ص:۸۴)

مسئلہ: میڈیکل سرجری بسا اوقا ت مریض کی موت وہلاکت، یا کسی عضو کے تلف ہونے کا سبب بن جاتی ہے، اسلئے فقہاء کرام نے اس کی مشروعیت وجواز کیلئے آٹھ شرطیں بیان کی ہیں، (۱) سرجری مشروع وجائز ہو، (۲) مریض سرجری کا محتا ج ہو، (۳) مریض اس کی اجازت دے، (۴) سرجن اور اس کے اعوان واہلکار وں میں اہلیت کاملہ موجود ہو ، (۵) سرجن کو سرجری کے کامیابی کا غالب گمان ہو، (۶) سرجری کا ایسا متبادل نہ پائے جو ضرر میں اس سے خفیف ہو، (۷) سرجری پر مصلحت مرتب ہو، (۸) سرجری کی وجہ سے ایسا ضرر لاحق نہ ہو جو موجودہ بیماری کے ضرر سے بڑا ہو۔

مسئلہ: اگر تجربہ کار سرجن کو میڈیکل سرجری کی وجہ سے مریض کے ہلاک ہونے کا غالب گمان ہو تو اس وقت میڈیکل سرجری حرام ہوگی ۔(۱۰۲)

مسئلہ: اگر مریض میں اہلیت اذن نہ ہو، تو اسکے ولی کی اجازت کافی ہے۔ (ص:۱۰۹)

مسئلہ: سرجن میں اہلیت کاملہ کیلئے دو شرطیں ہیں: (۱) وہ مطلوبہ سرجری میں علم و بصیرت رکھتا ہو، (۲) اس کی تطبیق اور بہترین طریقے سے اسے پورا کرنے پر قادر ہو۔ (ص: ۱۱۲)

مسئلہ: سرجن میں اہلیت کاملہ ہونے کے باوجود وہ آپریشن میں کامیاب نہ ہو، اور آپریشن سے مریض کو ضرر لاحق ہوجائے، یا وہ مرض دوسرے اعضاء کی طرف سرایت کرجائے تو سرجن ضامن نہیں ہوگا۔ (ص: ۱۱۳)

مسئلہ: اگر سرجری پر مرتب ہونے والا ضرر موجودہ مرض کے ضرر سے بڑھ کر ہو، تو ایسی سرجری کرنا، وکرانا دونوں حرام ہیں، کیوں کہ قاعدہ فقہیہ : ”الضرر لایزال إلا بمثلہ “ کہ ضرر کو ضرر سے زائل نہیں کیا جاتا ۔(ص: ۱۲۴)

مسئلہ: اگر سرجری پر مرتب ہونے والا ضرر موجودہ مرض کے ضرر سے کم ہو تو ایسی سرجری کرنا وکرانا دونوں جائز ہیں، اسلئے کہ قاعدہ ہے: ”إذا تعارض مفسدتان روعی أعظمہا ضرراً بإرتکاب أخفہما“ ، کہ جب دو ضرر جمع ہوجائیں تو ان دونوں میں سے أخف کو اختیار کرلیا جائے گا۔ (ص: ۱۲۴)

سرجری (آپریشن )کی قسمیں باعتبار حلت وحرمت

مسئلہ: چھ قسم کی سرجری جائز ہے، اور بسااوقات سرجری کرنا لازم وضروری بھی ہوتا ہے:

(۱) عمل جراحی (Operation) بربنائے علاج : وہ آپریشن جو بغرض علاج کے کیا جائے۔

(۲) عمل جراحی برائے تشخیص امراض : (Surgical Diagnosis) وہ سرجری جو تشخیص مرض کیلئے کی جائے۔

 (۳) عمل جراحی برائے ولادت: (Surgical Accouchement)

وہ سرجری جو بوقت ولادت ، حاملہ ، اور جنین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو ہلاکت سے بچانے کے خاطر کی جائے۔

 (۴)    عملِ جراحی برائے ختنہ: (Surgical Phimosiectomy) ختنہ کرنا۔

 (۵)    جراحتِ دماغ صغیرہ برائے عمل (پریکٹیکل) : (Small Brain Practical Operation)

وہ سرجری جو لاشوں پر بطور پریکٹکل کی جاتی ہے ۔

(۶) جراحی حسن وزیبائش (Cosmetic Surgery) بربنائے ضرورت وحاجت: وہ سرجری جو بوقت حاجت اعضاء سے ضرر کو دور کرنے کیلئے کی جاتی ہے، اور نتیجةً اس سے حسن حاصل ہوتا ہے۔

میڈیکل سرجری (Medical Surgery)کی قسموں کا بیان مع تعریفات واحکام

(الف) عمل جراحی (Esseulial Surgery) بربنائے علاج و ضرورتِ شدیدہ: مریض کی حالت بر بنائے مرض اتنی خستہ ہو چکی ہو کہ اگر سرجری نہ کی جائے تو اسی مرض میں مریض کی موت واقع ہوجائے تو اس مرض کو دور کرنے اور اپنی جان کی حفاظت کیلئے سرجری کرنا فرض ولازم ہے، اس طرح کی سرجری کو الجراحة العلاجیة الضروریة کہا جاتا ہے ۔ (ص: ۱۳۳/۱۳۴)

(ب) عمل جراحی (Esseulial Surgery) بربنائے علاج وضرورتِ خفیفہ : وہ بیماری جس میں مریض کی موت وہلاکت کا خوف ہو، یا اس مرض کی شدت میں اضافہ کا خوف ہو، تو ایسے بیماری کو ختم کرنے کیلئے جو سرجری کی جاتی ہے اس کو ” الجراحة العلاجیة الحاجیة “ کہتے ہیں۔

اس سرجری کی دو قسم ہے:

(۱) ایسی بیماری جس کی وجہ سے مریض کو سخت ضرر پہونچتا ہو، خواہ وہ ضرر دائمی ہو یا وقتی ہو۔ ایسی بیماری ، جس سے فی الحال اس کا کوئی ضرر نہ ہو، لیکن مستقبل میں ضرر کا خوف ہو، اور اس خوف کا حدوث متوقع ہو، شک اور وہم کے درجہ میں نہ ہو، بایں طور کہ اگر سرجری نہ کیجائے تو یہ مرض اس کے کسی عوض کو لاحق ہو کر اس عضو کی منفعت کو بالکلیہ ختم کردے ۔(ص: ۱۴۰/۱۴۴)
ایسے مریض کیلئے ان حالتوں میں سرجری کے جواز پر علماء کا اتفاق ہے ۔

(ج) جراحات صغری برائے علاج ومعالجہ :(Minor Surgery) ایسی بیماری کا آپریشن کرنا جو نہ ضرورت کے درجے کو پہونچے اورنہ حاجت کے، بایں طور کہ وہ مرض انسان کو نہ موت تک پہونچا سکتا ہو اور نہ اس میں موت کا خوف ہو، لیکن اس مرض کو یونہی چھوڑے رکھنا تکلیف وپریشانی کا سبب بن سکتا ہو، اور یہ تکلیف وپریشانی متوقع ہو، جیسے ناک میں زائد گوشت کا بڑھ جانا ، اگر اس زائد گوشت کو نہ نکالا جائے تو یہ بڑھ کر تکلیف ومشقت کا سبب بن سکتا ہے، اسلئے آپریشن کی یہ صورت شرعاً جائز ہے ۔(ص:۱۴۸/۱۴۹)

(۲) عمل جراحی برائے تشخیص امراض : (Surgical Diagnosis) ایسی سرجری جس سے مرض کی تشخیص کی جاتی ہے، شرعاً یہ سرجری جائز ہے، لیکن اگر مرض کی تشخیص کیلئے کوئی آسان متبادل شکل موجود ہو، جیسے سونو گرافی وغیرہ تو پھر اس صورت کو اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ (ص: ۱۵۱/۱۵۳)

(۳) عمل جراحی برائے ولادت (Surgical Accouchement): وہ سرجری جس میں بذریعہ آپریشن بچے کو اس کے ماں کے پیٹ سے نکالا جاتا ہے، خواہ وہ کامل الخلقت ہو، یا ناقص الخلقت ہو، اس سرجری کی دو حالتیں ہیں :

(۱) حالت ضروریہ: یہ وہ حالت ہے جس میں بچہ یا حاملہ دونوں کی یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی جان خطرے میں ہو، اس حالت میں سرجری کرنا جائز ہے ، جیسے حاملہ کی وفات کے بعد اگر جنین زندہ ہو تو اس حالت میں بذریعہ آپریشن بچہ کا نکالنا جائز ہے ۔

(۲) حالت حاجیہ: یہ وہ حالت ہے کہ طبعی طور پر بچے کی ولادت متعذر ہو نے کی وجہ سے بطریق سرجری بچے کو نکال لیا جاتا ہے، اس طرح نہ کرنے کی صورت میں بچے یا حاملہ کی ہلاکت کا خوف ہوتا ہے ، اس حالت کا حکم ڈاکٹر (آپریشنر) کی تقدیر رائے پر موقوف ہے، اگر ڈاکٹر کو عورت کے ولادت طبعی کی مشقت برداشت نہ کرنے ، یا پھر بچے کو ضرر لاحق ہونے کا گمان غالب ہو، تو اس صورت میں بچے کو بذریعہ سرجری نکالنا جائز ہے، اور اگر ڈاکٹر کا غالب گمان اس کے برعکس ہو تو سرجری کرنا جائز نہیں ہے ۔(ص: ۱۵۸)

(۴) عملِ جراحی برائے ختنہ (Surgical Phimosiectomy): وہ سرجری جس میں مرد کے عضوِ خاص کی اس چمڑی کو جو حشفہ کو چھپائے ہوتی ہے، اور عورت کے فرج کے اعلی حصہ کے ادنی جز کو کاٹا جاتا ہے ، احناف کے نزدیک ختنہ کرنا مسنون ہے۔ (ص: ۱۵۹)

اس لئے سرجری کی یہ صورت نہ صرف جائز بلکہ مسنون ہے ۔

(۵) جراحی تشریح الأعضاء(Surgical Anatomy): وہ سرجری جو فن طب میں نظری وعملی اعتبار سے مہارت حاصل کرنے کیلئے مردہ لاشوں پر بطور پریکٹیکل کی جاتی ہے ، اس سرجری کے جواز وعدم جواز میں علماء کا اختلاف ہے ۔

قول اول: علم طب سیکھنے کی غرض سے مردہ لاشوں کی چیر پھاڑ کرنا جائز ہے اس کے قائلین: (۱) ہیئة کبار العلماء بالمملکة العربیة السعودیة، (۲) مجمع الفقہ الإسلامی بمکة المکرمة ، (۳) لجنة الإفتاء بالمملکة الأردنیة الہاشمیة ، (۴) لجنة الإفتاء بالأزہر بمصر۔

قول ثانی: بغرض تعلیم مردہ لاشوں کی چیر پھاڑ کرنا جائز نہیں ہے، اور اس کے قائلین بھی علماء کی ایک جماعت ہے، جیسے: شیخ محمد بخیث المطیعی، والشیخ محمد برہان الدین السنبلی۔

نوٹ: یہی رجحان علماء دیوبند کا ہے، کہ انسان کی لاش کی چیر پھاڑ کرنا جائز نہیں ہے، اس کی تفصیل دیکھیئے:(منتخبات نظام الفتاوی:۱/۴۱۲، فتاوی محمودیہ: ۱۸/۳۴۳، جدید مسائل کا حل: ۹۹، احسن الفتاوی)

مسئلہ: لاش کی خریدو فروخت کرنا جائز نہیں ہے، خواہ لاش مسلمان کی ہو یا کافر کی ہو، اس لئے کہ صحت بیع کیلئے مبیع کا بائع کی ملک میں ہونا ، یا بائع کا اس مبیع میں وکیل ہونا شرط ہے، اور یہاں لاش نہ بائع کی ملک ہوتی ہے، اور نہ بائع اس کے مالک کی جانب سے وکیل ہوتا ہے، اسلئے شرعاً لاش کی بیع وشراء جائز نہیں ہے۔ (ص: ۱۸۰)

حیلہ: صاحب” احکام الجراحة الطبیة “ نے لاش حاصل کرنے کا ایک جائز طریقہ ذکر کیا ہے، کہ لاش لینے والا لاش دینے والے سے عقد اجارہ کرلے، اور لاش کی قیمت کو لاش دینے والے کی محنت ، تلاش اور نقل وحرکت کی اجرت قرار دے ۔(ص: ۱۸۰)

مسئلہ: جنائی پوسٹ مارٹم، (تحقیق جرائم کیلئے کیا جانے ولا پوسٹ مارٹم )اور وہ پوسٹ مارٹم جو اسبابِ موت کو معلوم کرنے کیلئے کیا جاتا ہے، اس خوف سے کہ اس کی موت کا سبب کوئی وبائی مرض ہو، تو اس مرض کو معلوم کرکے دوسرں کے صحت کی حفاظت کی جائے، پوسٹ مارٹم کی ان دونوں قسموں کے بارے میں مملکت سعودیہ عربیہ کے علماء عظام نے ان کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔(ص: ۱۸۱)

(۶) جراحة التجمیل الحاجیة: جب انسان کے کسی عوض میں کوئی نقصان پیدا ہو ، یاکوئی عضو تلف ہوجائے، یا مسخ ہوجائے، تو اس کی درستگی کیلئے سرجری کرانا جراحة التجمیل الحاجیة کہلاتا ہے۔

اس کی دو قسم ہے:     (۱) ضروری    (۲) اختیاری

(۲)     ضروری: ان عیوب کی سرجری کرانا جو انسان کیلئے باعثِ ضرر ہو، خواہ وہ عیوب پیدائشی ہوں ، جیسے: اوپر کے ہونٹوں کا پھٹاہوا ہونا، اور ہاتھ ، پیر کی انگلیوں کا ملا ہوا ہونا، یا وہ عیوب بعد میں پیدا ہونے والے ہوں، جیسے: آگ میں جلنے کی وجہ سے جلد کا خراب ہونا، اور ہتھیلی کی انگلیوں کا مل جانا، یہ عیوب ضررحسی ومعنوی دونوں کو شامل ہیں، اور ضرر موجب ترخیص ہے، لہٰذا یہ بمنزلہٴ حاجت کے ہے، اور حاجت کبھی بمنزلہٴ ضرورت ہوتی ہے، بربنائے قاعدہ فقہیہ : ”الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامة کانت أو خاصة “، لہٰذا ان عیوب کو دور کرنے کیلئے سرجری کرنا جائز ہے۔

سرجری کی اقسام باعتبار حرمت

باعتبار حرمت کے سرجری کی تین قسمیں ہیں:

 (۱) عملیہٴ خوش وضعی، عملیہٴ خوشنمائی (Shapely Surgery)

(۲) عملیہٴ تبدیلیٴ جنس (Sex Changing Surgery)

(۳) عملیہٴ حفظ ما تقدم ”عملیہ تحفظی“ (Bullet Proof Surgery)

عملیہ خوش وضعی، عملیہٴ خوشنمائی (Shapely Surgery) : وہ سرجری جو اعضاء کی خوبصورتی ، یا بڑھاپے کو زائل کرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔

اس جراحت کی دو قسم ہے:

(۱) عملیہٴ جراحی برائے شکل سازی (Shape Making Surgery ): شکل وصورت بدلنے والی سرجری، جیسے : تغییر کرکے آنکھ کو خوبصورت بنانا،ٹھوڑی کو خوبصورت بنانا۔

 (۲) عملیہٴ شباب آور، عملیہ تشبیب ،عملیہ شباب ساز(Young Making Surgery): وہ سرجری جو بڑھاپے کے آثار چھپانے کیلئے کی جاتی ہے ۔

اس قسم میں سرجری کیلئے نہ کوئی ضرورت ہوتی ہے، اور نہ کوئی حاجت ہوتی ہے، بلکہ محض تغییر فی خلق اللہ ہوتا ہے، اور اپنی خواہش وشہوت کو پورا کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح کی سرجری کرنا غیر مشروع وناجائز ہے۔ (ص: ۱۹۱/ ۱۹۳)

عملیہٴ تبدیلیٴ جنس (Sex Changing Surgery) وہ سرجری جس میں مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنایا جاتا ہے، اور یہ عمل بہت سے محرمات پر مشتمل ہے، مثلاً: تشبہ من جنس غیرہ، اور غیر کے سامنے بلا ضرورت اپنے ستر کو کھولنا، اور ان کی حرمت قرآن وحدیث سے صراحةً ثابت ہے، ان وجوہات کی بناء پر فقہاء نے اس سرجری کو حرام قرار دیا ہے ۔

عملیہٴ حفظ ما تقدم ”عملیہ تحفظی“ (Bullet Proof Surgery): ایسی بیماری کی سرجری کرنا جس میں مستقبل میں ضرر لاحق ہونے کا احتمال ہو، اس کی دو قسمیں ہیں:

(۱)     احتمال، غلبہٴ ظن کے درجہ کا ہوتو اس کا حکم گزرچکا ہے۔

(۲)     احتمال، محض وہم اور شک کی حد تک ہو، جیسے: صحت وتندرستی کی حالت میں محض مستقبل میں ضرر کا خوف کرتے ہوئے اپنڈیکس کا آپریشن کرنا، حرام ہے، اس لئے کہ حکم شرعی یقین پر دائر ہوتا ہے، شک اور وہم پر نہیں
۔

مسئلہ: ایکسرے کے ذریعہ سے طبی جانچ کرانا بہت ساری خرابیوں پر مشتمل ہے، مثلاً: جلد کے خراب ہونے کا خطرہ ہے، اور بعض کتابوں میں اسے کینسر اور دیگر امراض کے پیدا ہونے کا سبب بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود بوقت حاجت جب کہ تشخیص مرض کا کوئی متبادل موجود نہ ہو، تو شریعت نے ایکسرے نکالنے کی اجازت دی ہے، جیسے: پیٹ، تلی اور پتے وغیرہ کے امراض میں۔

تشخیص کے احکام

مسئلہ: تشخیص وہ فن یا وہ راستہ ہے، جس سے مرض کی نوعیت کا جاننا آسان ہوتا ہے، تشخیص کی یہ تعریف دوباتوں پر مشتمل ہے، (۱) تشخیص طب کا ایک فن ہے، (۲)تشخیص کا مقصد مرض کو پہچاننا ، اور یہ دونوں چیزیں بڑی اہم ہیں، اس فن کو حاصل کرنے کیلئے اس کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی صحبت اختیار کرنا ضروری ہے، اس فن کو سیکھے بغیر مرض کی تشخیص کرنا جائز نہیں ہے۔(ص: ۲۳۲،۲۳۳)

مسئلہ: تشخیص سے حاصل ہونے والے علم کی چار صورتیں ہیں:

(۱) مرض کا یقین ہو، تو اس یقین کے مطابق اس مرض کا جو بھی علاج ہو کرنا درست ہوگا ، اگرچہ سرجری ہو ۔

(۲) مرض کا ظن غالب ہو، اس صورت میں ظن غالب کا اعتبار ہوگا، شک کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا، اور علاج کرنا جائز ہوگا، اگرچہ سرجری ہو۔

(۳) مرض کا شک ہو ، اس صورت میں توقف کرے، اگر مریض یا ڈاکٹر شک والی تشخیص کو بنیاد بنا کر سرجری کرنا چاہے تو جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ شک والا پہلو ختم ہوکر کسی جہت کا غالب گمان ہوجائے ۔

(۴) مرض کا وہم ہو، اس صورت میں بھی طبیب اور مریض کیلئے مرض موہوم کا آپریشن سے علاج کرنے کی اجازت نہیں ہے، اسلئے کہ اس صورت میں غالب گمان بیماری کا نہ ہونا ہے، اور اعتبار غالب گمان کا ہوتاہے ۔(ص: ۲۳۵/۲۴۰)

مسئلہ: سرجری کے مباح ہونے کیلئے اذن شرع واذن مریض یا ولی، دونوں کا ہونا ضروری ہے، اذن شرع سے مراد اس سرجری کا محرمات میں سے نہ ہونا ۔ (ص: ۲۴۰)

مسئلہ: میڈیکل سرجری کیلئے اجازت دینے کی دو قسمیں ہیں:

(۱) اذن مطلق: وہ یہ ہے کہ مریض ڈاکٹر سے کہے کہ آپ جو بھی مرض پائیں اس کا جس طرح علاج کرسکتے ہیں،میری جانب سے اس کی اجازت، کسی ایک مرض کی سرجری کے ساتھ مقید نہ کرے ۔

(۲) اذن مقید: وہ یہ ہے کہ مریض ڈاکٹر کو کسی خاص مرض کے سرجری کی اجازت دے، اجازت کی دونوں قسمیں شرعاً معتبر ہیں ۔(ص: ۲۴۲)

مسئلہ: مریض کی اجازت قبول کرنے کیلئے اس میں دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:(ا) اہلیت (۲) ابتداء اذن پر مریض کا قادر ہونا ۔ (ص: ۲۴۴)

مسئلہ: اگر مریض کے اندر یہ دو شرطیں پائی جائیں تو اس کے اولیاء کی اجازت قابل قبول نہیں ہوگی ۔ (ص: ۲۴۵)

مسئلہ: ولایت علی الغیر اس وقت معتبر ہے جبکہ وہ غیر اپنے مصالح کو پورا کرنے سے عاجز ہو ۔ (ص: ۲۴۶)

مسئلہ: مریض پر ولایت کا اعتبار اسی وقت ہوگا جبکہ مریض میں اہلیت اذن نہ ہو۔ (ص: ۲۴۶)

مسئلہ: اذن میں اولیاء کی ترتیب وہی ہوگی جو عصبیت میں ہوتی ہیں ۔(ص: ۲۴۸)

مسئلہ: اگر اولیاء میں ولی اقرب موجود ہو تو ولی ابعد کی اجازت کا اعتبار نہیں ہوگا ۔ (ص: ۲۴۹)

مسئلہ: آذن (یعنی اجازت دینے والا) عاقل، بالغ ہو ۔ (ص: ۲۵۰)

مسئلہ: بچے، مجنون، اور نشے میں چور شخص کی اجازت قابلِ قبول نہیں ہوگی ۔ (ص: ۲۵۰)
اجازت قبول کرنے کی چھ شرطیں ہیں:

(۱)     اجازت صاحب حق کی جانب سے ہو، اور وہ مریض یا اس کا ولی ہے ۔

 (۲)    اجازت دینے والے میں اہلیت اذن متحقق ہو۔

 (۳)    اجازت دینے والا مختار ہو، اکراہاً اس سے اجازت نہ لی جائے ۔

(۴)     اس کی اجازت عمل جراحة یعنی سرجری ہی میں ہو، اگر وہ دواء وغیرہ سے علاج کی اجازت دے تو یہ اجازت سرجری کیلئے کافی نہیں ہے۔

 (۵)    اجازت کے الفاظ میں سرجری پر دلالت صراحةً ہو، یا اس کی قائم مقام ہو۔

 (۶)    ماذون بہ یعنی جس سرجری کی اجازت دی جارہی ہے وہ شرعاً جائز ہو، محرمہ میں سے نہ ہو، جیسے: تغییر جنس کی سرجری ۔ (ص: ۲۵۲، ۲۵۴)

مسئلہ: جب مریض میں اجازت کیلئے ذکر کردہ پوری شرائط پائی جاتی ہوں اور اس سے اجازت طلب کی جائے تو اجازت دینا مستحب ہے ۔ (ص:۲۵۶)

مسئلہ: اگر مریض کی ہلاکت کا ، یا اس کے کسی عضو کے تلف ہونے کا خوف ہو، اور اس سے آپریشن کیلئے اجازت طلب کیجائے، اور وہ اجازت نہ دے، اور اسی مرض کی وجہ سے مر جائے تو وہ اپنے آپ کو قتل کرنے والا شمار نہیں ہوگا، اسلئے کہ سرجری سے صحت کا ملنا قطعی نہیں ہے، بر خلاف مخمصہ کی حالت کے، کہ اس میں ترک طعام سے گنہگار ہوگا ۔ (ص: ۲۶۱)

مسئلہ: دو حالتوں میں ڈاکٹر کو مریض اور اس کے ولی کی اجازت کے بغیر سرجری کرنا جائز ہے، (۱) اگر بالفور سرجری نہ کیجائے تو مریض کی موت، یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ ہو، (۲) مریض کا مرض ، وبائی امراض میں سے ہو، کہ اس کے پورے سوسائٹی میں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ (ص: ۲۶۲)

(Anesthesia) عمل تخدیر یعنی بے ہوش کرنے کے احکام

مسئلہ: بے ہوش کرنا اصلاً حرام ہے، اسلئے اس میں وقتی طور پر عقل زائل ہوجاتی ہے، جیسے کہ افیون، گانجا، حشیش، شراب سے ہوتی ہے، دونوں میں علت ایک ہی ہے، تو حکم بھی ایک ہی ہوگا ۔ (ص: ۲۷۷)

مسئلہ: چند حالتوں میں بے ہوش کرنا جائز ہے، اس کی تین صورتیں ہیں: (۱) ضرروت، (۲) حاجت، (۳) ضرورت وحاجت سے کم ۔

ضرورت: مریض کی ایسی حالت ہو کہ بے ہوش کئے بغیر سرجری کرنا محال ہو، جیسے: ہارٹ کا آپریشن، یا اس جیسے خطرناک آپریشن کہ اگر مریض کو بے ہوش نہ کیا جائے تو دوران آپریشن یا آپریشن کے تھوڑی دیر بعد مریض کی موت کا خوف ہو، تو ایسی صورت میں بے ہوش کرنا جائز ہے ۔ (ص: ۲۸۴)

حاجت: مریض کی ایسی حالت ہو کہ بے ہوش کئے بغیر سرجری کرنا محال نہ ہو، اور نہ ہی اس میں موت وہلاکت کا خطرہ ہو، لیکن مشقت شدیدہ کا سامنا کرنا پڑے، تو اس حاجت کو بمنزلہٴ ضرورت قرار دے کر بے ہوش کرنا جائز ہے ۔

ضرورت وحاجت سے ادنیٰ درجہ: مریض کی ایسی حالت ہو کہ اس کو بیہوش کئے بغیر سرجری کرنا ممکن ہو، اس میں مشقت تو ہو، لیکن ایسی مشقت نہ ہو کہ اس پر صبر کرنا ممکن نہ ہو، تو اس صورت میں بھی مریض پر آسانی کا معاملہ کرتے ہوئے بے ہوش کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ (ص: ۲۸۵)

جراحتِ عملی کے احکام

مسئلہ: بدن کے کسی عوض کو کاٹنا حرام ہے، لیکن ضرورت وحاجت کے وقت اپنے آپ کو موت وہلاکت، یا مشقت سے بچانے کیلئے جائز ہے ۔ (ص: ۲۹۷)

بواسیر کو کاٹنے کی تین حالتیں ہیں:

(۱)     بواسیر کو کاٹنا حرام ہے، جب کہ اس کو کاٹنے سے ہلاکت کا اندیشہ ہو ۔

(۲)     اس کا کاٹنا مباح ہے: جب کہ اس کے چھوڑے رکھنے سے ہلاکت کا خوف ہو ۔

(۳)     اس کا کاٹنا مکروہ ہے: جب کہ کاٹنے کی صورت میں ہلاکت کا اندیشہ نہ ہو، اور نہ ہی رکھ چھوڑنے کی صورت میں ہلاکت کا اندیشہ ہو ۔ (ص:۳۰۲،۳۰۳)

زائد انگلیوں کو کاٹنے کی دو حالتیں ہیں:

مسئلہ: (۱) زائد انگلیوں کو رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو، تو اس وقت ان زائد انگلیوں کو کاٹنا جائز نہیں ہے، اسلئے کہ یہ تغییر فی خلق اللہ ہے، اور تغییر فی خلق اللہ حرام ہے ۔ (ص:۳۰۵)

مسئلہ: (۲) زائد انگلیوں کو رکھنے میں تکلیف ہو، اور اس تکلیف کو ختم کرنے کا کوئی دوسرا علاج نہ ہو، سوائے ان انگلیوں کو کاٹنے کے، تو اس صورت میں ضرورتاً ان زائد انگلیوں کو کاٹنا جائز ہے ۔ (ص: ۳۰۸)

ضرورت سے زائد عضو کو کاٹنے کا حکم

مسئلہ: انسان کے عضو کو کاٹنا اصلاً ناجائز وحرام ہے، اور ضرورتاً جائز ہے، تو اس پر واجب ہے کہ جتنی ضرورت ہو اسی پر اکتفاء کرے، زیادہ کاٹنا حرام ہے ۔ (ص:۳۱۱)

(ورم) سوجن کو جڑ سے ختم کرنے کا حکم

مسئلہ: ورم؛ اورام حمیدہ : گوشت یا رگوں میں گانٹھ کا پیدا ہونا، جس کا نمو غیر طبعی ہوتا ہے، یہ کسی آفت یا بیماری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس کی دو قسمیں ہیں:

(۱) ایسے ورم جو لا علاج نہ ہو ں (Good Swelling) کہلاتے ہیں، یہ وہ سوجن ہے جس کا نمو سست ہوتا ہے، اور اسکو باہر کا غلاف گھیرے ہوئے ہوتا ہے، یہ محدود ہوتی ہے، خون وغیرہ میں منتقل نہیں ہوتی ہے، اس سوجن میں سلامتی غالب ہوتی ہے، اسلئے اسکو جڑ سے نکالدینا جائز نہیں ہے،ان کو ہلکے پھلکے ورم یعنی اورام خفیفہ (Soft Swelling) بھی کہا جاتا ہے۔ (ص: ۲۱۴)

(۲) ایسے ورم جو لا علاج ہوتے ہیں، اورام خبیثہ : (No, Good Swelling) کہلاتے ہیں، یہ وہ سوجن و گانٹھ ہے کہ اس کا نمو تیزی سے ہوتا ہے، اور وہ جسم میں پھیل جاتی ہے، یہ دو مجموعے پر مشتمل ہے:

 (۱) کینسر، (۲) سلحات (Tumour) ،(گوشت میں پیدا ہونے والا ایک خطرناک ورم ہے) کینسر: جس کو ورم سرطان بھی کہا جاتا ہے، اس سوجن میں شدید خطرہ اورعظیم ضرر ہوتا ہے، کہ مریض کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، یہ سوجن خواہ جسم کے کسی متعین حصے میں ہو یا پورے جسم میں پھیل جائے اس کو نکالدینا جائز ہے۔ (ص: ۳۱۶)

مسئلہ: کسی بیماری کی وجہ سی جسم میں گوشت کا بڑھ جانا،اس زائد گوشت کو نکالدینا جسم پر موٴثر ہوتا ہے، اسلئے اس کو نکالنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر دواء وغیرہ سے علاج ممکن نہ ہو تو درء المفاسد کے قبیل سے اس کو نکالدینے کی اجازت ہے ۔ (ص: ۳۱۸)

بدن کو چیرنے کا حکم

مسئلہ: عمل جراحی کا ایک مرحلہ الشق ” یعنی بدن کو چیرنا ہے “ بدن کو چیرنا کبھی ضرورةً ہوتا ہے جس میں موت سے بچنا مقصود ہوتا ہے، جیسے حاملہ کے پیٹ کو زندہ یا مردہ بچے کو نکالنے کیلئے چیرنا، جبکہ سرجری نہ کرنے کی صورت میں ان دونوں میں سے کسی ایک، یا دونوں پر ہلاکت کا خوف ہو، اور کبھی بدن کو چیرنا حاجةً ہوتا ہے، جس میں ضرر لاحق، یا ضرر متوقع کا ازالہ کیا جاتا ہے، شق کی یہ دونوں صورتیں شرعاً جائز ہیں ۔

مسئلہ: انسان کے جسموں کی وہ پھٹن جو کسی آفت یا بیماری کی وجہ سے ہوجائے، اور علاجاً اس کو جوڑنا ضروری ہو تو شرعاً ان کو جوڑنا جائز ہے ۔ (ص: ۴۲۷)

مسئلہ: عورت کے پھٹے ہوئے پردہٴ بکارت کو جوڑنا مطلقاً جائز نہیں ہے ۔ (ص: ۴۳۲)

مسئلہ: سرجری کے بعد خون کے جریان کو بند کرنے کیلئے اگر اس عضو کو داغنے کی ضرورت ہو، تو اس عضو کو داغنا جائز ہے، اور ہر ایسی حالت جس میں طبیب داغنے کی ضرورت محسوس کرے تو داغنے کی اجازت ہے ۔ (ص: ۴۳۵)

اعضاء کی پیوند کاری

عضو کو منتقل کرنے اور پیوندکاری میں منقول منہ یعنی جس سے اس کا عضو لیا جارہا ہے، وہ یا تو انسان ہوگا یا حیوان ہوگا ۔

مسئلہ: اگر انسان ہے اور کافر ہے، تو اس کے عضو کو منتقل کرنا سعودی عربیہ کے بڑے علماء کے نزدیک جائز ہے، اور اس کے عضو سے مسلمان کے اعضاء کی پیوندکاری جائز ہے ۔

مسئلہ: گر منقول منہ مسلمان ہے، تو اس کے اعضاء کو منتقل کرناجائز نہیں ہے، خواہ وہ زندہ ہو، یا مردہ ہو، اجازت دے یا نہ دے، کسی بھی صورت میں مسلمان کے عضو کو منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔

مسئلہ: گر منقول منہ حیوان (جانور) ہو، اور پاک ہو، جیسے وہ جانور جن کو شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا ہو تو ان کے اعضاء کو انسانوں کی طرف منتقل کرنا شرعاً جائز ہے ۔

مسئلہ: ور اگر جانور پاک نہ ہو، تو اس کے اجزاء سے انتفاع، اور ان کوجسم انسانی منتقل کرنا جائز نہیں ہے، مگر بوقت ضرورت، جبکہ کوئی دوسرا پاک عضو نہ مل پائے جائز ہے ۔

الثقب (چھید کرنا، سوراخ کرنا)

مسئلہ: لثقب: چھید کرنا، سرجری کے مرحلوں میں سے ایک مرحلہ ہے، اصلاً ممنوع ہے، اسلئے کہ اس میں جسم کے ایک جزء کو تلف کرنا لازم آتا ہے، لیکن بوقت ضرورت فقہاء نے چھید کرنے کی اجازت دی ہے، جیسے کہ اگر بچے کی مقعد کا راستہ خلقی (پیدائشی ) طور پر بند ہو، تو اس کو کھولنا، اور اگر پیشاب کا راستہ بند ہو تو اس کو کھولنا ۔

مسئلہ: ملیہٴ تجمیل اذن (Ear beautifying Surgery) : عورتوں کی زیب وزینت کیلئے ان کے کانوں میں سوراخ کرنا تاکہ وہ بالیاں لٹکائیں جائز ہے ۔ (ص: ۴۰۷)

مسئلہ: رجری کے درمیان کاٹے ہوئے عضو کو اس کی جگہ پر لوٹانا جائز ہے، اسلئے کہ انسان کا مردار عضو بھی پاک ہے ۔

مسئلہ: حد اور قصاص میں کاٹے ہوئے عضو کو اس کی جگہ پر لوٹانا جائز نہیں ہے، اگرچہ صاحب حق اس کی اجازت دیدے، صحیح تر قول کے مطابق، کیوں کہ اگر اس کی اجازت دی جائے تو مقصدِ حد فوت ہوجائے گا ۔

مسئلہ: مصنوعی اعضاء کے ذریعے سے اعضاء کی پیوندکاری کرنا بوقت ضرورت وحاجت جائز ہے۔






http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2010/november/11-11-2010/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/images/2010/november/04-11-2010/magazine/magazine.jpg


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2010/october/28-10-2010/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2010/october/21-10-2010/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2010/october/14-10-2010/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2010/october/07-10-2010/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2010/september/30-09-2010/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2010/september/23-09-2010/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/december/24-12-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/december/17-12-2009/magazine/index.php



http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/december/10-12-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/december/03-12-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/november/26-11-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/november/19-11-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/november/12-11-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/november/05-11-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/october/29-10-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/october/22-10-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/october/15-10-2009/magazine/index.php


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/october/01-10-2009/magazine/index.php

http://www.dailyislam.pk/dailyislam/2009/september/24-09-2009/magazine/index.php
 http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/09-07-2009/e_multi_tib.html

http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/25-06-2009/e_multi_tib.html


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/18-06-2009/e_multi_tib.html


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/11-06-2009/e_multi_tib.html


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/04-06-2009/e_multi_tib.html


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/28-05-2009/e_multi_tib.html


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/21-05-2009/e_multi_tib.html


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/14-05-2009/e_multi_tib.html


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/07-05-2009/e_multi_tib.html


http://www.dailyislam.pk/dailyislam/archive/multimedia/tib/30-04-2009/e_multi_tib.html


No comments:

Post a Comment