إِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللہِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولٰئِکَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُکَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ(۷۷)
| ||||
إِنَّ
|
الَّذِينَ
|
يَشْتَرُوْنَ
|
بِعَهْدِ اللہِ
|
وَأَيْمَانِهِمْ
|
بیشک
|
جولوگ
|
خریدتے ہیں
|
اللہ کا اقرار
|
اوراپنی قسمیں
|
ثَمَنًا
|
قَلِيلًا
|
أُولٰئِکَ
|
لَا
|
خَلَاقَ
|
قیمت
|
تھوڑی
|
یہی لوگ
|
نہیں
|
کوئی حصہ
|
لَهُمْ
|
فِي الْاٰخِرَةِ
|
وَلَا يُکَلِّمُهُمُ
|
اللّٰهُ
| |
ان کے لئے
|
آخرت میں
|
اورنہ ان سے کلام کرےگا
|
اللہ
| |
وَلَا
|
يَنْظُرُ
|
إِلَيْهِمْ
|
يَوْمَ الْقِيَامَةِ
|
وَلَا
|
اورنہ
|
نظر کرےگا
|
ان کی طرف
|
قیامت کےدن
|
اورنہ
|
يُزَكِّيْهِمْ
|
وَلَهُمْ
|
عَذَابٌ
|
أَلِيْمٌ
| |
انہیں پاک کرےگا
|
اوران کے لئے
|
عذاب
|
دردناک
| |
بےشک جو لوگ اللہ کے اقرار اور اپنی قسموں سے حاصل کرتے ہیں تھوڑی قیمت، یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور نہ اللہ ان سے کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرے گا قیامت کے دن اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے(۷۷)
|
اللہ کے عہد پر معاوضہ لینے والے:
القرآن : جو لوگ مول لیتے ہیں اللہ کے قرار پر اور اپنی قسموں پر تھوڑا سا مول، ان کا کچھ حصہ نہیں آخرت میں اور نہ بات کرے گا ان سے اللہ اور نہ نگاہ کرے گا انکی طرف قیامت کے دن اور نہ پاک کرے گا ان کو اور انکے واسطے عذاب ہے دردناک.[ال عمران:77]
تشريح : یعنی جو لوگ دنیا کی متاع قلیل لے کر خدا کے عہد اور آپس کی قسموں کو توڑ ڈالتے ہیں، نہ باہمی معاملات درست رکھتے ہیں۔ نہ خدا سے جو قول و قرار کیا تھا اس پر قائم رہتے ہیں۔ بلکہ مال و جاہ کی حرص میں احکام شرعیہ کو بدلتے اور کتب سماویہ میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔ ان کا انجام آگے مذکور ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یہ یہود میں صفت تھی کہ اللہ نے ان سے اقرار لیا تھا اور قسمیں دی تھیں کہ ہر نبی کے مددگار رہیو۔ پھر غرض دنیا کے واسطے پھر گئے اور جو کوئی جھوٹی قسم کھائے دنیا لینے کے واسطے اس کا یہ ہی حال ہے۔"
اس قسم کی آیت سورۂ "بقرہ" کے اکیسویں رکوع میں گذر چکی، وہاں کے فوائد میں الفاظ کی تشریح دیکھ لی جائے۔
تفسیر مدنی صغیر:- اور اتنا اور اس قدر دردناک و ہولناک عذاب کہ اس جہاں میں اس کا تصور اور احاطہ و ادراک بھی کسی کیلئے ممکن نہیں، سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کے عہد اور اس کی قسموں کے بدلے میں دنیا ءِ دُوں کا حقیر اور گھٹیا مال اپنانا۔ اور حق فروشی کے جرم کا ارتکاب کرنا، کتنا ہولناک اور کس قدر سنگین جرم ہے۔ کہ ایسے لوگوں کے بارے میں صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ نہ ان کیلئے آخرت میں کوئی حصہ ہوگا۔ نہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے روز نظر رحمت فرمائے گا اور نہ ہی وہ ان کو پاک کریگا۔ اور ان کیلئے بڑا ہی دردناک عذاب ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے، اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اٰمین ثم اٰمین۔
تفسیر مدنی کبیر:-
159 تقویٰ وپرہیزگاری ذریعہ نجات وسرفرازی :
سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بے شک اللہ محبت رکھتا ہے متقی اور پرہیزگار لوگوں سے ۔ سو اللہ تعالیٰ کے محبوب متقی و پرہیزگار لوگ ہی ہیں ۔ سو جس نے اپنے عہد کو نبھایا اور تقوی کو اپنایا وہ اللہ کا محبوب بن گیا۔ اور جو اللہ کا محبوب بن گیا تو اس کو اور کیا چاہیئے۔ اور اس سے بڑھ کر کامیاب اور فائز المرام اور کون ہو سکتا ہے؟ پس ہمیشہ تقویٰ و پرہیزگاری کی دولت ہی کو اپنانے بڑھانے اور اس کو محفوظ رکھنے کی فکر و کوشش میں رہنا چاہیئے - وباللہ التوفیق - سو اپنے عہد و پیمان کی ادائیگی و پاسداری اور تقویٰ و پرہیزگاری کا التزام و پابندی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ اس میں انسان جتنا بھی پختہ ہو گا اور جس قدر آگے بڑھے گا اسی قدر راہ حق و ہدایت اور دولت فوز و فلاح سے بہرہ مند و سرفراز ہو گا - وِبِاللّٰہ التَّوْفِیْق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وَعَلٰی مَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وَھُوَا لْہَادِی اِلٰی سَوَاء السَّبِیْل -
160 اصل چیز نور حق وہدایت ہی ہے :
سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اصل چیز نور حق و ہدایت ہی ہے۔ اور حق کے مقابلے میں دنیا ساری بھی ہیچ ہے اور حق فروشی - والعیاذ باللہ - بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے۔ کیونکہ حق فروشی کے مقابلے میں تو دنیا ساری کی دولت بھی ہیچ ہے۔ پھر ان چند ٹکوں کا کہنا ہی کیا جو کوئی قسمت کا مارا حق کے بدلے میں اپنائے - وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہ الْعَظِیْم-ِکہ حق کی جس نعمت ِعظمیٰ سے ایسے لوگوں نے اپنے آپ کو محروم کیا، اس کے مقابلے میں دنیا ساری کی سب دولتیں مل کر بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتیں (محاسن التاویل للامام العلامہ القاسمی الشامی رحمہ اللہ) ۔ سو اصل دولت حق اور ہدایت کی دولت ہی ہے، جو انسان کو انسان بناتی اور اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور و سرفراز کرتی ہے۔ ورنہ انسان ایک حیوان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ بدترین مخلوق " شَرّْ الْبَرِیَّۃ " بن کر رہ جاتا ہے - والعیاذ باللہ العظیم - سو حق و ہدایت کی دولت سب سے بڑی دولت ہے - اللہ ہمیشہ راہ حق پر مستقیم اور ثابت قدم رکھے - آمین ثم آمین ۔
161 حق فروشوں کے لیے بڑا ہی دردناک عذاب - والعیاذ باللہ :
سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حق فروشوں اور عہد شکنی کرنے والوں کیلئے بڑا دردناک عذاب ہے : سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حق فروشی ، عہد شکنی اور خیانت کس قدر سنگین اور ہولناک جرم ہے کہ جو سزا اس کی یہاں بیان ہوئی ہے وہ زنا، چوری، اور قتل وغیرہ جیسے سنگین جرائم میں سے بھی کسی کے بارے میں بیان نہیں ہوئی - والعیاذ باللہ العظیم - مگر افسوس کہ اس کے باوجود یہ بیماری آج مسلم معاشرے میں بھی پائی جاتی ہے اور زور و شور سے پائی جاتی ہے۔ اور کتنے ہی اچھے اچھے دیندار قسم کے لوگ ہیں جو اس بیماری کے جراثیم سے آلودہ ہیں اور ان کو اس کا احساس ہی نہیں کہ عہد شکنی اور خیانت کے اس جرم کے باعث وہ اپنا کس قدر نقصان کرتے ہیں - والعیاذ باللہ العظیم - اور " عہد اللہ " کا عموم ہر اس عہد کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے نام پاک کے واسطے سے انسان پر عائد ہوتا ہے جس میں وہ عہد بھی آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں سے عالم ارواح میں لیا تھا اور جس کو عہد الست کہا جاتا ہے۔ اور وہ عہد بھی جو انسان اقرار ایمان کے ذریعے اپنے اوپر عائد کرتا ہے اور خداوند قدوس کی وہ کتاب و شریعت بھی جس کو اس نے اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے نازل فرمایا ہے۔ اور ایمان سے مراد وہ عام عہد و پیمان ہیں جن پر عام اجتماعی اور تمدنی زندگی کی اساس و بنیاد قائم ہوتی ہے اور جن سے معاشرتی زندگی اور باہمی معاملات میں اعتماد اور حسن ظن کی فضا قائم ہوتی ہے۔ یہود بے بہبود نے طرح طرح کے حیلوں حوالوں سے ان سے متعلق ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو گویا بالکل فارغ کر دیا تھا - والعیاذ باللہ العظیم -
تفسیر ابن کثیر:- جھوٹی قسم کھانے والے یعنی جو اہل کتاب اللہ کے عہد کا پاس نہیں کرتے نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں نہ آپ کی صفتوں کا ذکر لوگوں سے کرتے ہیں نہ آپ کے متعلق بیان کرتے ہیں اور اسی طرح جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور ان بدکاریوں سے وہ اس ذلیل اور فانی دنیا کا فائدہ حاصل کرتے ہیں ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں نہ ان سے اللہ تعالیٰ کوئی پیار محبت کی بات کرے گا نہ ان پر رحمت کی نظر ڈالے گا نہ انہیں ان کے گناہوں سے پاک صاف کرے گا بلکہ انہیں جہنم میں داخل کرنے کا حکم دے گا اور وہاں وہ دردناک سزائیں بھگتتے رہیں گے، اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں بھی ہیں جن میں سے کچھ یہاں بھی ہم بیان کرتے ہیں (١) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن سے تو نہ اللہ جل شانہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت سے دیکھے گا، اور نہ انہیں پاک کرے گا، حضرت ابو ذر نے یہ سن کر کہا یہ کون لوگ ہیں یا رسول اللہ یہ تو بڑے گھاٹے اور نقصان میں پڑے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا پھر جواب دیا کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا، جھوٹی قسم سے اپنا سودا بیچنے والا، دے کر احسان جتانے والا، مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے (٢) مسند احمد میں ہے ابو احمس فرماتے ہیں میں حضرت ابو ذر سے ملا اور ان سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان فرماتے ہیں تو فرمایا سنو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ تو بول نہیں سکتا جبکہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن لیا ہو تو کہئے وہ حدیث کیا ہے؟ جواب دیا یہ کہ تین قسم کے لوگوں کو اللہ ذوالکرم دوست رکھتا ہے اور تین قسم کے لوگوں کو دشمن تو فرمانے لگے ہاں یہ حدیث میں نے بیان کی ہے اور میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی بھی ہے میں نے پوچھا کس کس کو دوست رکھتا ہے فرمایا ایک تو وہ جو مردانگی سے دشمنان اللہ سبحانہ کے مقابلے میں میدان جہاد میں کھڑا ہو جائے یا تو اپنا سینہ چھلنی کروا لے یا فتح کر کے لوٹے، دوسرا وہ شخص جو کسی قافلے کے ساتھ سفر میں ہے بہت رات گئے تک قافلہ چلتا رہا جب تھک کر چور ہوگئے پڑاؤ ڈالا تو سب سو گئے اور یہ جاگتا رہا اور نماز میں مشغول رہا یہاں تک کہ کوچ کے وقت سب کو جگا دیا۔ تیسرا وہ شخص جس کا پڑوسی اسے ایذاء پہنچاتا ہو اور وہ اس پر صبر و ضبط کرے یہاں تک کہ موت یا سفر ان دونوں میں جدائی کرے، میں نے کہا اور وہ تین کون ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہے فرمایا بہت قسمیں کھانے والا تاجر، اور تکبر کرنے والا فقیر اور وہ بخیل جس سے کبھی احسان ہو گیا ہو تو جتانے بیٹھے، یہ حدیث اس سند سے غریب ہے (٣) مسند احمد میں ہے کندہ قبیلے کے ایک شخص امروالقیس بن عامر کا جھگڑا ایک حضرمی شخص سے زمین کے بارے میں تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ حضرمی اپنا ثبوت پیش کرے اس کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا تو آپ نے فرمایا اب کندی قسم کھا لے تو حضرمی کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کی قسم پر ہی فیصلہ ٹھہرا تو رب کعبہ کی قسم یہ میری زمین لے جائے گا آپ نے فرمایا جو شخص جھوٹی قسم سے کسی کا مال اپنا کرلے گا تو جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا اللہ اس سے ناخوش ہو گا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو امروالقیس نے کہا یا رسول اللہ اگر تو کوئی چھوڑ دے تو اسے اجر کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنت تو کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ رہئے کہ میں نے وہ ساری زمین اس کے نام چھوڑی، یہ حدیث نسائی میں بھی ہے (٤) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص جھوٹی قسم کھائے تاکہ اس سے کسی مسلمان کا مال چھین لے تو اللہ جل جلالہ سے جب ملے گا تو اللہ عزوجل اس پر سخت غضبناک ہو گا، حضرت اشعث فرماتے ہیں اللہ کی قسم میرے ہی بارے میں یہ ہے ایک یہودی اور میری شرکت میں ایک زمین تھی اس نے میرے حصہ کی زمین کا انکار کر دیا میں اسے خدمت نبوی میں لایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تیرے پاس کچھ ثبوت ہے میں نے کہا نہیں آپ نے یہودی سے فرمایا تو قسم کھالے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو قسم کھا لے گا اور میرا مال لے جائے گا پس اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔ (٥) مسند احمد میں ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کسی مرد مسلم کا مال بغیر حق کے لے لے وہ اللہ ذوالجلال سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا، وہیں حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے آئے اور فرمانے لگے ابو عبدالرحمن آپ کوئی سی حدیث بیان کرتے ہیں؟ ہم نے دوہرا دی تو فرمایا یہ حدیث میرے ہی بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے، میرا اپنے چچا کے لڑکے سے ایک کنوئیں کے بارے میں جھگڑا تھا جو اس کے قبضے میں تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ہم اپنا مقدمہ لے گئے تو آپ نے فرمایا تو اپنی دلیل اور ثبوت لا کہ یہ کنواں تیرا ہے ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا میں نے کہا یا حضرت میرے پاس تو کوئی دلیل نہیں اور اگر اس قسم پر معاملہ رہا تو یہ تو میرا کنواں لے جائے گا میرا مقابل تو فاجر شخص ہے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بھی بیان فرمائی اور اس آیت کی بھی تلاوت کی (٦) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا، پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں؟ فرمایا اپنے ماں باپ سے بیزار ہونے والے اور ان سے بےرغبتی کرنے والی لڑکی اور اپنی اولاد سے بیزار اور الگ ہونے والا باپ اور وہ شخص کہ جس پر کسی قوم کا احسان ہے وہ اس سے انکار کر جائے اور آنکھیں پھیر لے اور ان سے یکسوئی کرے (٧) ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنا سودا بازار میں رکھا اور قسم کھائی کہ وہ اتنا بھاؤ دیا جاتا تھا تاکہ کوئی مسلمان اس میں پھنس جائے، پس یہ آیت نازل ہوئی، صحیح بخاری میں بھی یہ روایت مروی ہے۔ (٨) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین شخصوں سے جناب باری تقدس و تعالیٰ قیامت والے دن بات نہ کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دکھ درد کے عذاب ہیں ایک وہ جس کے پاس بچا ہوا پانی ہے پھر وہ کسی مسافر کو نہیں دیتا دوسرا وہ جو عصر کے بعد جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرتا ہے تیسرا وہ بادشاہ مسلمان سے بیعت کرتا ہے اس کے بعد اگر وہ اسے مال دے تو پوری کرتا ہے اگر نہیں دیتا تو نہیں کرتا ہے یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔
====================================
1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں کی طرف نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، اول وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زائد پانی راستہ میں ہو اور اس کو مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت صرف دنیا کی خاطر کی کہ اگر اس کو کوئی دنیوی چیز دیتا ہے تو راضی ہے اور نہ دے تو ناراض ہو جاتا ہے، تیسرے وہ شخص کہ اپنا سامان عصر کے بعد لے کر کھڑا ہو اور کہے کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے اس کی قیمت اتنی اتنی مل رہی تھی، (لیکن میں نے نہیں دیا) اور کوئی شخص اس کو سچا بھی سمجھے پھر یہ آیت پڑھی۔ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَ مَنًا قَلِيْلًا ) 3۔ العمران : 77)
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2257 (2257) مساقات کا بیان : اس شخص کے گناہ کا بیان جو مسافروں کو پانی نہ دے]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے اور نہ ہی انہیں پاک و صاف کریں گے اور ابومعاویہ فرماتے ہیں کہ اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور مفلس تکبر کرنے والا۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 296 (7602)- ایمان کا بیان : ازار بند (شلوار، پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے بیچے لٹکانے اور عطیہ دے کر احسان جتلانے اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والوں کی سخت حرمت اور ان تین آدمیوں کے بیان میں کہ جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان کو پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا ۔]
تشریح: قیامت کے دن سے میدان حشر کا وقت مراد ہے جب اللہ کے فضل و عدل، غضب و ناراضگی اور رضا کا ظہور ہوگا اور جنتیوں و دوزخیوں کے بارے میں فیصلہ صادر کئے جائیں گے۔ " ولا یزکیھم " کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمہ میں بیان کئے گئے ہیں جب کہ اللہ میدان حشر میں اپنی تمام مخلوق کے سامنے اپنے مومن اور نیکوکار بندوں کی تعریف و ستائش کرے گا تو اس وقت ان تین طرح کے آدمیوں کو اس تعریف و ستائش سے خارج کر دیا جائے گا اور ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تینوں طرح کے آدمیوں کو اپنے عفو و درگزر کے ذریعہ اپنے گناہوں کی نجاست سے پاک و صاف نہیں کرے گا۔ لھم عذاب الیم۔ کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ جملہ دوسری روایت کا تتمہ ہے یا اس کا تعلق اصل حدیث سے ہے اور یہ دوسرا احتمال زیادہ قوی اور قابل اعتماد ہے حاصل یہ ہے کہ مذکورہ باتیں دراصل اللہ کے غضب و کبر اور اس کی ناراضگی سے کنایہ ہیں، چنانچہ جو کوئی کسی شخص سے ناراض و خفا ہوتا ہے تو وہ نہ صرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے نہ اس سے کلام کرتا ہے اور نہ اس کی تعریف کرتا ہے بلکہ اس کو سزا و تنگی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ حدیث میں جن تین برائیوں کے مرتکبین کے بارے میں وعید بیان فرمائی گئی ہے وہ ہر حال میں مذموم اور مستوجب عذاب ہیں خواہ ان برائیوں کا مرتکب کسی درجہ کا کسی حثییت کا اور کسی عمر کا آدمی ہو لیکن یہاں ان برائیوں کے تعلق سے جن تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے اعتبار سے ان برائیوں کی سنگینی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے، مثلا زنا ایک بہت برا فعل ہے اور جب یہ فعل جو ان کے حق میں بھی بہت بڑا گناہ ہے جو طبعی طور پر معذور بھی ہوتا ہے تو ایک بڈھے کے حق میں یہ فعل کہیں زیادہ برا ہوگا کہ کیونکہ نہ تو وہ طبعی طور پر اس کی احتیاج رکھتا ہے کہ اور نہ اس کی طبیعت پر جنسی خواہش اور قوت مروی کا وہ غلبہ ہوتا ہے جو بسا اوقات عقل و شعور سے بیگانہ اور خوف الٰہی سے غافل کر دیتا ہے لہذا جو بڈھا زنا کا مرتکب ہوتا ہے وہ گویا اپنی نہایت بے حیائی اور خبث طبیعیت پر دلالت کرتا ہے اسی طرح جھوٹ بولنا ہر شخص کے حق میں برا ہے لیکن بادشادہ کے حق میں بہت ہی برا ہے کیونکہ اس پر ملک کے انتظام رعایا کے مصالح و مفاد کی رعایت اور مخلوق اللہ کے معاملات کی نگہداشت کی ذمہ داری ہوتی ہے اس کا ایک ادنیٰ سا حکم پورے ملک کے نظم و نسق پر اثر انداز ہوتا ہے اگر وہ جھوٹ بولے تو اس کی اس برائی کی وجہ سے پورا ملک اور ملک کے تمام لوگ مختلف قسم کی برائیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں ، علاوہ ازیں جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں وہ عام طور پر اس برائی کا ارتکاب اپنے کسی فائدہ کے حصول یا کسی نقصان کے دفعیہ کے لئے کرتے ہیں جب کہ ایک بادشاہ حاکم یہ مقصد بغیر جھوٹ بولے بھی حاصل کرنے پر قادر ہوتا ہے، لہذا اس کا جھوٹ بولنا نہ صرف بالکل بے فائدہ بلکہ نہایت مذموم ہوگا اسی پر تکبر کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے جو چیزیں عام طور پر انسان کو غرور و تکبر میں مبتلا کرتی ہیں جیسے مال و دولت اور جاہ اقتدار وغیرہ اور اگر کسی شخص میں پائی جائیں اور وہ ان چیزوں کی وجہ سے تکبر کرے تو اگرچہ اس شخص کو بھی برا کہیں گے مگر اس کا تکبر کرنا ایک طرح سے سمجھ میں آنے والی بات ہوگی اس کے برخلاف اگر کوئی فقیر و مفلس تکبر کرے کہ جو نہ تو مال و دولت رکھتا ہے اور نہ جاہ و اقتدار وغیرہ کا مالک ہے تو اس کا یہ فعل نہایت ہی برا ہوگا اور اس کے بارے میں اس کے علاوہ کیا کہا جائے گا کہ وہ خبث باطن اور طبیعت کی کمینگی میں مبتلا ہے۔ بعض حضرات نے عائل مستکبر میں لفظ عائل سے مفلس کے بجائے عیال دار مراد لیا ہے کہ یعنی جو لوگ بال بچے دار ہوں اور اپنی خستہ حالت کی وجہ سے اپنے متعلقین کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے پر قادر ہوں لیکن اس کے باوجود از راہ تکبر صدقہ و زکوۃ مال قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے ہوں لوگوں کی تواضع و امداد کو ٹھکراتے ہوں اور اسی طرح وہ اپنے اہل و عیال کی ضرورت کو پورا کرنے سے بے پرواہ ہو کر گویا ان کو تکلیف و ہلاکت میں مبتلا کرتے ہوں تو ایسے لوگ حدیث میں مذکورہ وعید کا مورد ہیں واضح رہے کہ اللہ کی ذات پر توکل و اعتماد اور غیرت و خود داری کے تحت اپنی حالت کو چھپانا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرم و حیاء کرنا تو ایک الگ چیز ہے لیکن سخت احتیاج و اضطرار کے باجود کبر و نخوت اختیار کرنا اور از راہ تکبر لوگوں کا احسان قبول نہ کرنا ایک ایسا فعل ہے جس کو نہایت مذموم قرار دیا گیا ہے۔ شیخ زان " کے بارے میں بھی بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں شیخ سے مراد محصن شادی شدہ شخص بھی ہو سکتا ہے خواہ وہ بوڑھا یا جوان جیسا کہ اس منسوخ التلاوت" الشیخ والشیخۃ اذا زنیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں شیخ سے مراد شادی شدہ مرد ہے چنانچہ ایسے شخص کے حق میں زنا کا زیادہ ہونا شرعا بھی اور عرفا بھی بالکل ظاہر بات ہے اسی لئے ایسے شخص کو سنگسار کرنا واجب ہے اسی طرح ملک کذاب کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں ملک سے مراد غنی و مالدار شخص بھی ہو سکتا ہے چنانچہ کسی مفلس یا قلاش شخص کا جھوٹ بولنا تو ایک درجہ میں سمجھ آنے والی بات ہے کیونکہ وہ اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کی وجہ سے بسا اوقات اپنی کسی سخت غرض اور شدید دنیاوی ضرورت کی وجہ سے جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب کہ غنی و مالدار شخص اپنے مال و زر کی وجہ سے ایسی کوئی احتیاج نہیں رکھتا اور وہ جھوٹ بولے بغیر بھی اپنی غرض پوری کر سکتا ہے لہذا جھوٹ بولنا اس کے حق میں زیادہ برا ہے ۔عائل مستکبر کے بارے میں بھی ایک قول یہ ہے کہ یہاں عائل یعنی مفلس سے مراد وہ شخص ہے جو فقراء و مساکین کے ساتھ تکبر کرے فقراء و مسکین کے ساتھ تکبر کرنا سخت برا ہے جب کہ مغرور کے ساتھ تکبر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اس جملہ کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں مفلس سے مراد وہ شخص ہے جو کسب و کمائی اور محنت و مشقت کر کے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے پر قادر ہو مگر اس کے باوجود از راہ رعونت کوئی کسب و کمائی محنت مزروری کرنے کو کسر شان سمجھتا ہو جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اچھے خاصے اور ہٹے کٹے لوگ کام کاج کرنے اور محنت و مزدوری کرنے میں اپنی ذلت سمجھتے ہیں خواہ ان کو اور ان کے متعلقین کو فاقوں کی اذیت ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑتی ہو یا ناروا طور پر دوسرے لوگوں کے کاندھوں کا بار ہی کیوں نہ ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کا یہ طریقہ یقینا تکبر کے ہم معنی ہیں اور یہ تکبر مالداروں کے تکبر سے زیادہ کہیں برا ہے کیونکہ اس کی بنیاد رعونت و نخوت بیجا شان دکھانے خواہ مخواہ کے لئے اپنے اور اپنے متعلقین کو تکلیف و ہلاکت میں مبتلا کرنے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ناجائز طور پر مال حاصل کرنے پر ہے خصوصا ایسی صورت میں اس کی تکبر کی برائی اور کہیں بڑھ جاتی ہیں ، جبکہ ایسا کوئی شخص اپنے دست و بازو کے ذریعہ اپنا اور اپنے متعلقین کا رزق حاصل کرنے کے بجائے دین کا لبادہ اوڑھ لے اور اپنی وضع قطع دین داروں اور بزرگوں کی سی بنا کر اپاہج کی طرح بیٹھ جائے اور سادہ لوح مسلمانوں پر اپنی مصنوعی بزرگی کا سکہ جما کر ان کے کاندھوں کا بار رہنا ہے۔
[مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1033(41567)]
2) إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى مَنْ يَجُرُّ إِزَارَهُ بَطَرًا
اللہ اس آدمی کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا کہ جو اپنی ازار کو متکبرانہ انداز میں نیچے لٹکاتا ہے۔
تشریح: غرور و تکبر کی قید سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص غرور و تکبر کے بغیر اپنے پائجامے یا تہبند کو ٹخنوں سے لٹکائے تو یہ حرام نہیں، تاہم مکروہ تنزیہی یہ بھی ہے ۔ اور کسی عذر کے سبب جیسے سردی یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے پائجامہ و تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے ۔[مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 246 (40780)]
کیونکہ بلا ارادہ تکبر کے بھی لٹکانا پسند نہیں کیا گیا:
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا نہ انہیں گناہوں سے پاک وصاف کرے گا (معاف کرے گا) اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار یہ فرمایا: حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ لوگ تو سخت نقصان اور خسارے میں ہوں گے یہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا اور دے کر احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والا۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 293(7599)]
تخريج الحديث
3) إِنَّ اللَّهَ لا يَنْظُرُ إِلَى رَجُلٍ يَأْتِي الْمَرْأَةَ فِي دُبُرِهَا
اللہ تعالیٰ اس مرد کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتے جو اپنی بیوی سے پیچھے کی راہ سے صحبت کرے۔
تخريج الحديث
|
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDelete