Sunday 9 March 2014

کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے ... [القرآن:٤٥/٢]

خواہشات نفسانی اور ہدایات ربانی



﴿ومن اضل ممن اتبع ھواہُ بغیر ھدی من الله، ان الله لا یھدی القوم الظلمین﴾․(سورہ قصص:50)
ترجمہ: اور ایسے شخص سے زیادہ کون گم راہ ہو گا جو اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہو، بدون اس کے کہ منجانب الله کوئی دلیل ہو، الله تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کیا کرتا“۔

روحانی امراض سے بے فکری
یہ ایک آیت کا ٹکڑا ہے، جس میں حق تعالیٰ نے ہمارا ایک ایسا مرض ذکر کیا ہے جوقریب قریب اکثر طبائع میں عام ہے، ہاں! یہ ضرور ہے کہ اس کے مدارج (درجات) مختلف ہیں، جیسے کسی خاص قسم کا بخار ایک مرض مشترک ہے، مگر اس کے مدارج مختلف ہوتے ہیں، کسی کا بخار تیز ہے او رکسی کا ہلکا ہے، لیکن نفس بخار ایک جماعت میں مشترک ہے، پھر امراضِ جسمانی میں ہماری حالت یہ ہے کہ اگر کسی کو خفیف مرض ہو(چھوٹی بیماری) تو عقلاء کے نزدیک اس کی خفت کی طرف نظر نہیں کی جاتی اور یہ خیال نہیں کر لیا جاتا کہ یہ تو خفیف سا مرض ہے، اس کاعلاج نہ کیا جائے، بلکہ باوجود خفیف ہونے کے اس کے علاج سے بے فکری نہیں ہوتی اوراس کے حالی ضرر کے علاوہ اس کے مآلی شدید ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے(اس کے وقتی نقصان کے علاوہ اس کے ذریعہ بعد میں ہونے والے سخت نقصان کا بھی خیال کیا جاتا ہے) مگر امراضِ روحانی کے باب میں علاوہ اس کے کہ جسمانی امراض کی طرح اس کا اہتمام نہیں ایک مرض اور بھی ہے، وہ یہ کہ اس میں یہ تفتیش ہوتی ہے کہ یہ بڑا مرض ہے یا خفیف(چھوٹا)۔

چھوٹے بڑے گناہ کے بارے میں سوال
چناں چہ عموماً یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیوں صاحب! کیا یہ بڑا گناہ ہے یا چھوٹا؟ میں پوچھتا ہوں کہ اس سوال سے مقصود بجز اس کے او رکیا ہے کہ اگر بڑا گناہ ہو گا تو اس سے بچیں گے، ورنہ نہیں،مگر اس کی تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی شخص آپ کے پاس آکر یوں کہے بھائی! میں تمہارے چھپر میں آگ لگاؤں گا، مگر چھوٹی سی چنگاری رکھوں گا، بڑا سا انگارانہ رکھوں گا۔ تو اس کو سن کر ہر گز آپ کو بے فکری نہ ہو گی اور آپ اس سے یوں نہ کہیں گے کہ ہاں جی! چھوٹی سی چنگاری کا کیا مضائقہ ہے؟ رکھ بھی دو۔ بلکہ یہ سن کر معاً اس کی مزاحمت کرو گے ،روکو گے اور احتجاج کروگے کہ یہ آپ نے خوب کہی کہ بڑا انگارا نہ رکھوں گا، آپ نے یہ نہ سمجھا کہ چھوٹی چنگاری بھی بجھنے سے پہلے بڑی بن جاتی ہے، دوسرے چھوٹی چنگاری گو حساً چھوٹی ہے، مگر نوعیت تو مشترک ہی ہے، جو کام بڑا انگارا کرتا ہے وہی یہ کر سکتی ہے۔ ہاں! یہ فرق ضرور ہے کہ بڑا انگارا جلد کام کرتا ہے او رچھوٹی چنگاری ذرا دیر میں کام کرتی ہے، مگر دونوں کا اثر تو یکساں ہے، اس لیے یہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے چھوٹا ہونے سے کیا کچھ بے فکری ہو سکتی ہے؟ حالاں کہ دونوں میں فرق بھی ہے، مگر یہ فرق ظاہری مضرات(نقصان) میں معتدبہ شمار نہیں ہوتا مگر حیرت ہے کہ مضراتِ باطنی میں اس چھوٹے بڑے کے فرق کو معتبر او رمؤثر سمجھا جاتا ہے وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ مضرات باطنی کو لوگ مضرت ہی نہیں سمجھتے اگر مضرت سمجھتے تو گناہ کے چھوٹے اور بڑے ہونے کی تحقیق کیوں کی جاتی؟

چھوٹے بڑے گناہوں کی علمی تحقیق علماء کا کام ہے
البتہ تحقیق علمی کا مضائقہ نہیں، جس سے مقصود صرف فرق مراتب اور درجات عمل کا معلوم کرنا ہوتا ہے، مگر یہ حق صرف اہلِ علم کو ہے، عوام کو اس تحقیق کا حق نہیں نہ ان کو اس تحقیق سے کچھ فائدہ ہے۔ کیوں کہ جب ان کو اعمال مباحہ ومامور بہا(وہ اعمال جو جائز ہیں اور وہ اعمال جن کے کرنے کا حکم دیا گیا دونوں کے درجات میں ان کو فرق معلوم نہیں) کے درجات معلوم نہیں، نہ ان کے ذمہ لازم ہیں ، تو وہ گناہوں کے درجات معلوم کرکے کیا لیں گے؟ ان کی غرض اس سوال سے بجز اس کے کچھ نہیں کہ اگر بڑا گناہ ہو تو نہ کریں اورچھوٹا ہو تو اس کی جرات کر لیں، سو اس غرض سے یہ سوال سراسر ناجائز اورنہایت مضر سوال ہے۔

امراضِ ظاہری او رباطنی میں لوگوں کا طرزِ عمل
مگر دیکھا جاتا ہے کہ آج عموماً اس قسم کے سوالات علماء سے کیے جاتے ہیں، جو علامت ہے گناہوں کو ہلکا سمجھنے کی، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ امراض روحانی میں تو لوگوں کی یہ عادت ہو گئی ہے او رامراضِ جسمانی میں خفیف مرض کی بھی زیادہ فکر کرتے ہیں ان کو ہلکا نہیں سمجھتے مثلاً خفیف بخار میں(ہلکا سا بخار ہو جائے تو) یوں سمجھتے ہیں کہ بخار کا جسم میں رکا ہوا ہونا بہت برُا ہے۔ یہ جو تھوڑا بخار رہتا ہے، بعض اوقات تیز بخار سے بھی زیادہ فکر کی بات ہے۔ غرض امراضِ جسمانی میں قلیل وکثیر دونوں سے یکساں خطرہ اور خوف ہوتا ہے اس قاعدہ کا مقتضا تو یہ تھا کہ امراض روحانی میں بھی شدید او رخفیف معصیت سے، دونوں قسم کی معصیت سے، یکساں خوف ہوتا، مگر اس میں اس کے خلاف دیکھا جاتا ہے، وہ یہ کہ جو معصیت شدید ہوتی ہے اس کو تو معصیت سمجھتے ہیں، مثلاً زنا کو گناہ بھی سمجھتے ہیں، اس کوطبعایا عرفاً عیب بھی سمجھتے ہیں ۔ اس کا ارتکاب بھی اکثر مسلمان نہیں کرتے او راگر کبھی غلطی سے زنا سرزد ہو جائے تو بہت پریشان او رپشیمان ہوتے ہیں، بخلاف غیبت کے، اس کو خفیف سمجھا جاتا ہے اور خفیف سمجھ کر اس کا ارتکاب بھی کر لیا جاتا ہے۔

غیبت میں ابتلائے عام
حتی کہ علماء او رمشائخ بھی اس سے خالی نہیں۔ بلکہ عوام الناس تو اس کو برُا سمجھ کر کرتے ہیں او رہم کچھ تاویل کرکے اچھا سمجھ کرکرتے ہیں۔ نیز عوام الناس تو ان لوگوں کی غیبت کرتے ہیں جو اکثر ذنوب وعیوب میں مبتلا بھی ہیں گو ان کی غیبت بھی حلال نہیں اور ہم لوگ جو اہل علم او راہل ارشاد کہلاتے ہیں ہماری یہ کیفیت ہے کہ ہم غیبت کے لیے بھی علماء وصلحاء کو منتخب کرتے ہیں، اگر مولوی صاحب غیبت کریں گے تو کسی مولانا ہی کی کریں گے او رپیر صاحب غیبت کریں گے تو پیر صاحب ہی کی کریں گے۔ رہی یہ بات کہ ان کو عوام اور جہلا سے تعرض کیوں نہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ان کے مال وجاہ میں شریک نہیں ہیں اور اہلِ علم وصلحا ان کے مال وجاہ میں شریک ہیں، ان کا وہم یہ ہے کہ دوسرے علما ومشائخ ہمارے جاہ ومال میں شریک ہو جائیں گے تو ان کی وجہ سے ہماری جاہ و مال میں کمی آجائے گی، اس لیے ان کو غیبت کے لیے خاص کیا جاتا ہے ۔ غرض اس گناہ میں مشائخ تک بھی مبتلا ہیں او روجہ وہی ہے کہ اس کو خفیف سمجھا جاتا ہے۔

علما اورمشائخ کی غلط تاویل
بلکہ غضب یہ ہے کہ ایک گونہ عبادت قرار دی جاتی ہے۔ یعنی یوں کہا جاتا ہے کہ ہم دوسرے علما ومشائخ کی اس لیے غیبت کرتے ہیں او ران کے عیوب کو اس لیے ظاہر کرتے ہیں، تاکہ الله کے بندے ان کے اثر اور ضرر سے محفوظ رہیں وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ اس لیے لوگوں کو ان کے عیوب وفتن سے آگاہ کر دینا چاہیے۔

غرض یہ کہ ہم غیبت بھی کرتے ہیں، پھر اس کو عبادت قرار دے کر کرتے ہیں ۔ ہم لوگوں کی یہ حالت عوام سے بھی بدتر ہے۔ بہرحال اس کی بنیاد کیا ہے ۔ بنیاد وہی ہے کہ اس کو خفیف سمجھا جاتا ہے، اس لیے بے دھڑک اس کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔

گناہ کو ہلکا سمجھنا گناہِ کبیرہ ہے
او رمحققین نے دلائل سے ثابت کر دیا ہے کہ جس گناہ کو خفیف سمجھا جائے وہ گناہ کبیرہ سے بھی اشد ہے، کیوں کہ اس سے توبہ بھی نہیں کی جاتی۔ اس سے توبہ کی توفیق ہونا بھی مشکل ہے، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ایسا گناہ زیادہ قابل اہتمام ہے۔

غیبت کا گناہ زیادہ کیوں؟
اور عجب نہیں کہ یہی مبنیٰ ہو اس حدیث کا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”الغیبة اشد من الزنا“ کہ” غیبت زنا سے بھی اشد ہے“ حالاں کہ ظاہراً مفسدہ اور قبح زنا کا زیادہ ہے، مگر پھر بھی آپ غیبت کو اشد فرما رہے ہیں ۔اس میں بہت سے اسرار ہیں ،منجملہ ان کے ایک یہ نکتہ بھی ہو سکتا ہے زنا جو شخص کرتا ہے وہ اس کو بُرا بھی سمجھتا ہے اور غیبت کو اکثر حالات میں بُرا نہیں سمجھا جاتا اور ظاہر ہے کہ جس گناہ کے ساتھ استخفاف کیا جاوے وہ اس گناہ سے اشد ہے جس کے ساتھ استخفاف نہ کیا جاوے کیوں کہ اس سے توبہ کی توفیق نہیں ہوتی او راگر اس دلیل یعنی عدم توفیق توبہ سے بھی اس کی اشدیت کو مستنبط نہ کیا جاوے، تاہم قاعدہ شرعیہ یہی ہے کہ جس گناہ کو خفیف سمجھا جائے وہ شدید ہو جاتا ہے( یعنی تو بہ کی توفیق نہ ہونے سے بھی غیبت کی سختی کو نہ سمجھا جائے تو شرعی قاعدہ یہی ہے کہ جس گناہ کو ہلکا سمجھیں بڑا ہو جاتا ہے) خواہ وجہ اس کی کچھ ہی ہو، اس لیے بہت زیادہ ضروری تھا کہ اس سے بہت احتیاط کی جاتی، مگر ہم لوگوں کی یہ حالت ہے کہ تفاوت درجہ کی وجہ سے بعض گناہوں کو خفیف سمجھ کر بے دھڑک ان کا ارتکاب کر لیتے ہیں حالاں کہ مقتضائے عقل تو یہ تھا کہ جتنا خفیف مرض ہو تساہل کے خوف سے اس سے زیادہ احتراز ہوتا، جیساکہ امراض جسمانی میں کیا جاتا ہے، مگر یہاں ثقیل گناہ سے تو کچھ رکاوٹ ہوتی بھی ہے، مگر خفیف سے بالکل نہیں ۔ پس سمجھ لیجیے کہ درجہ کا تفاوت سبب جرأ ت ہونا چاہیے کہ یہ تو صغیرہ گناہ ہے اور یہ بات تو مکروہ ہے، اس کو کر لیا جاوے اور یہ کبیرہ ہے، اس کو نہ کرنا چاہیے۔

گناہ صغیرہ او رکبیرہ کی تحقیق کی وجہ
ہر چند کہ گناہوں میں درجہ کا تفاوت ہے، مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کی اجازت ہے اور اس کی اجازت نہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ جب درجہ متعین ہو جائے گا تو اس سے یہ معلوم ہو گا کہ کبیرہ کی سمیت شدید ہے۔ کبیرہ کا زہر زیادہ ہے۔ اس کا تدارک مہتم بالشان تدابیر سے ہونا چاہیے او را س کے لیے زیادہ اہتمام کی ضرورت ہے اور یہ معلوم ہو جائے کہ جو گناہ خفیف ہیں ان کی تدابیر آسان ہیں، اس وجہ سے تحقیق تفاوت درجہ کی، کی جاتی ہے، نہ اس وجہ سے کہ اس کو کیا جاوے اور اس کو نہ کیا جاوے۔

خلاصہ یہ ہے کہ منجملہ اور امراض کے، ہمارے اندر ایک یہ بھی مرض ہے کہ خفیف سمجھ کر بعض گناہوں سے بچنے کا اہتمام بالکل چھوڑ دیتے ہیں، اسی مرض کو حق تعالیٰ ایک خاص عنوان، جس سے اس مرض کا منشا بھی معلوم ہو جاوے گا ،اس جگہ بیان فرماتے ہیں۔

ہوائے نفسانی کے مرض کا منشا
چناں چہ وہ مضمون او راس کا منشا ترجمہ ہی سے معلوم ہو جائے گا سو ارشاد ہے:﴿ومن اضل ممن اتبع ھٰوہ بغیر ھدی من الله﴾ یعنی” کون زیادہ گم راہ ہے اس شخص سے جس نے اتباع کیا اپنی خواہش کا بدوں اس کے کہ اس کے متعلق الله تعالیٰ کی کوئی ہدایت یعنی دلیل شرعی ہو؟“ یعنی بغیر ہدایت او ردلیل شرعی کے اس نے اتباع کیا اپنی خواہش نفسانی کا۔

ترجمہ سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ حق تعالیٰ کس بات کی مذمت فرمارہے ہیں اور یہ ذرا توجہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ واقعی ہم لوگوں میں یہ مرض عام ہے یا نہیں ۔ سو حق تعالیٰ مذمت فرماتے ہیں خواہش نفسانی کی کہ جس چیز کو جی چاہا کر لیا اور ظاہر ہے کہ خواہش نفسانی کا جب ایسا اتباع ہو گا گناہ اس کی نگاہ میں ثقیل اور عظیم نہ ہو گا، بلکہ خفیف اور سرسری ہو گا۔ اس سے دونوں باتیں معلوم ہو گئیں، مرض بھی ،یعنی استخفاف معاصی اور اس کا منشا بھی، یعنی اتباع ہوی اور اس کا مرض عام ہونا جو جی میں آیا کر لیا۔ پس ہمارے یہاں مرجح محض اتباع ہوی ہے یعنی ہمارے نزدیک وجہ ترجیح صرف ہماری خواہش کا ہونا ہے چاہے وہ فعل ہو ۔دونوں میں مرجح یہی ہے او رکچھ نہیں اور مرجح کا اشتراط ظاہر ہے کیوں کہ یہ مسئلہ مسلمہ ہے کہ ( القدرة تتعلق بالضدین) یعنی” قدرت کا تعلق ضد ین کے ساتھ ہوتا ہے “۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ضد پر تو قدرت ہو دوسریٰ پر نہ ہو، مثلاً کوئی شخص نماز پڑھنے پر قادر ہے تو اس کے ترک پر بھی ضرور قادر ہو گا۔ افعال مقدورہ میں دونوں جانبوں یعنی فعل وترک پر قدرت ہوتی ہے ، کہ وہ افعال جن کا کرنا انسان کی قدرت میں ہو ان کے نہ کرنے پر بھی انسان قادر ہوتا ہے او رایک جانب کودوسری پر ترجیح کسی خاص وجہ سے دی جاتی ہے، غرض فعل ہو یا ترکِ فعل، ہر ایک کے لیے مرجح ہونا چاہیے، یعنی کوئی ایسا داعی ہونا چاہیے جس کی وجہ سے انسان اپنی قوتِ ارادیہ کو ایک جانب کی طرف پھیردے۔

افعال وترکِ افعال کا داعی کون؟

اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے افعال یا ترک میں وہ داعی کون ہے؟ عقلاً دو حال سے خالی نہیں یا داعی مذموم ہے اور وہ ہویٰ ہے یا داعی محمود ہے اور وہ ہدیٰ ہے ( اس کا سبب بُرا ہے جو کہ خواہش ہے یا اچھا جو کہ ہدایت ربانی ہے) یہی دونوں چیزیں اس آیت میں بھی مذکور ہیں او ردونوں کے لفظ ہم قافیہ بھی ہیں۔ پس داعی بننے کے قابل یہی دو چیزیں ہیں، مگر بندہ کی شان کہ اتباع ہویٰ کو مرجح بنا رکھا ہے ، وہ خواہشات کی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں پس اس آیت میں اسی بات کی مذمت کی ہے کہ ہویٰ پر ترجیح دی جاتی ہے، اب ہم لوگوں کو چاہیے کہ اپنی حالت کو ٹٹول کر دیکھیں کہ یہ بات ہمارے اندر ہے یا نہیں۔

کسی آیت کا کفار کی شان میں ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے
ہرچند یہ آیت بدلالت سباق وسیاق کفار کی شان میں ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ مناط مذمت کیا ہے اوربرائی کا سبب کیا ہے؟، سو ظاہر ہے کہ مناطِ مذمت وہ صفت ہے جو اس آیت میں مذکور ہے اس لیے جس میں بھی یہ صفت ہو گی وہ قابل مذمت ہو گا، وجہ اس کی یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو کسی کی ذات من حیث الذات سے نفرت نہیں ہے۔ اگر ذات سے بغض ہوتا تو حق تعالیٰ کفار کو ایمان کا مکلف نہ فرماتے، کیوں کہ اس حالت میں ایمان کا مکلف بنانا محض بے سود ہوتا۔ کیوں کہ اگر کوئی کافر ایمان لے آئے تو ذات تو وہی ہوتی ہے اوراگر ذات سے بُغض ہوتا تو ایمان لانے سے کوئی نفع نہ ہوتا او ر حق تعالیٰ کا اس کو مخاطب بہ ایمان بنانا ایک فعل عبث ہوتا اورحق تعالیٰ فعل عبث سے منزہ ہیں، بس ثابت ہو گیا کہ حق تعالیٰ کو کسی کی ذات سے بغض نہیں بلکہ جس سے بعض ہے اس کے افعال کی وجہ سے ہے خواہ افعال باطنی ہوں یا ظاہری، جب یہ بات ثابت ہو گئی تو اس آیت میں جو کفار کی مذمت ہے تو وہ کسی خاص فعل اور خصلت پر ہے، اس لیے جہاں وہ خصلت ہو گی وہاں مذمت بھی ہو گی، خواہ وہ خصلت مسلمان میں ہو یاکافر میں، اس لیے آیت کا کفار کی شان میں ہونا بے فکری کا سبب نہیں ہو سکتا۔

مسلمان بدرجہ اولیٰ مخاطب ہیں
بلکہ اگر غور کرکے دیکھا جائے تو مسلمان کو ایسی خصلت سے زیادہ نفرت ہونی چاہیے، کیوں کہ اکثر علما کے نزدیک کفار مکلف بالفروع نہیں ہیں، بلکہ محض ایمان کے مکلف ہیں،(کفار سے مطالبہ نماز ،روزہ و فروعی مسائل کا نہیں، ان سے مطالبہ تو ایمان لانے کا ہے اس لیے ان سے نماز روزہ کے ترک پر مواخذہ نہیں ہوگا، بلکہ ایمان نہ لانے پر پکڑ ہو گی۔اس واسطے احتمال ہے کہ کفار سے افعال فروع پر مواخذہ نہ کیا جائے او رمسلمان تو ہرحالت میں اصول وفروع سب کا مکلف ہے، تو جس فعل کو کفار کے بارے میں باوجود ان کے مکلف نہ ہونے کے مذموم کہا گیا ہے وہ مسلمان کے لیے، جو کہ مکلف ہیں بدرجہ اولی مذموم ہو گا، (مسلمانوں کے لیے تو ضرور بُرا ہو گا)، اس لیے مسلمانوں کو اس سے زیادہ نفرت ہونی چاہیے، اس کی ایسی مثال ہے جیسے چمار سے کوئی بے جا فعل سر زد ہو، (وہ کوئی بُرا کام کرے) اور اس پر کہا جائے کہ تو بڑا نالائق ہے کہ تونے ایسی نالائق حرکت کی تو کیا کوئی شریف آدمی اس کو سن کر بے فکر ہو سکتا ہے کہ یہ شریف کو تھوڑا ہی خطاب ہے، یہ تو چمار کو خطاب ہے او رکیا وہ اس حرکت کو اختیار کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں، بلکہ اس کے لیے تو یہ فعل زیادہ نازیبا ہوگا کہ چمار کی سی حرکت کرنے لگے ۔ اسی طرح یہاں سمجھ لیجیے کہ گو آیت میں خطاب کفار کو ہے، مگر مسلمان بدرجہ اولیٰ اس کے مخاطب ہیں مگر ہم نے تو ایک یہ بھی سستا سا نسخہ یاد کر لیا ہے کہ ایسی آیات کو سن کر یوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ آیت توکفار کے بارے میں ہے، مسلمانوں کے بارے میں تھوڑا ہی ہے۔ بہرحال جتنی آیتیں کفار کے حق میں ہیں ان میں مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے کہ جہاں وہ خصلت ہو گی وہاں مذمت بھی ہو گی اس لیے اُس سے بچنا مسلمانوں کو بھی ضروری، بلکہ زیادہ ضروری ہے، جیسا ابھی مذکور ہوا۔

مخاطب کوئی، مقصود کوئی
حق تعالیٰ نے جہاں کہیں کسی فعل پر کفار کی مذمت فرمائی ہے تو یہ مقصود نہیں کہ مسلمانوں کو ان افعال سے بے فکر کر دیا جائے، بلکہ ہم کو کفار کے واقعات سے سبق دینا مقصود ہے، چناں چہ ایک موقع پر ارشاد فرماتے ہیں ﴿لقد کان فی قصصھم عبرة لاولی الالباب﴾․(سورہٴ یوسف:111)

کہ” مذکورہ واقعات میں، جن میں کفار کے قصے بھی ہیں، عقل مندوں کے لیے عبرت ہے۔“ اور ظاہر ہے کہ عبرت جبھی ہو گی جب ہم ان سے سبق لیں۔ بعض اوقات کسی مصلحت سے ایک کو مخاطب بناتے ہیں اورمقصود خطاب سے دوسرا ہوتا ہے ،عارف رومی  کا قول ہے #
        خوشترآں باشد کہ سر دلبراں
        گفتہ آید درحدیث دیگراں

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ محبوب کی مجلس میں میرا ذکر دوسروں کے ذیل میں آتا۔

کسی کی پردہ پوشی کی وجہ سے خطاب دوسرے کو ہوتا ہے
اور بعض اوقات کسی کی شرافت کا لحاظ کرکے اس کی قدرووقعت محفوظ رکھنے کی غرض سے دوسرے کو خطاب کیا جاتا ہے، مگر اس کو بھی سنانا مقصود ہوتا ہے، پس ایسے خطاب کا مقتضا تو یہ تھا کہ ہم عاشق ہو جاتے اور سمجھتے کہ حق تعالیٰ کی کیا رحمت ہے کہ خطاب دوسرے کو ہو رہا ہے اور ہماری پردہ پوشی فرمارہے ہیں ۔ اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ ان افعال سے ہم کو ذرا بے فکری نہ ہوتی، بلکہ زیادہ نفرت ہو جاتی او را س لیے ہم ان افعال سے زیادہ رکتے، غرض ہم کو اپنی حالت میں غور کرنا ضروری ہو ااگر ہمار ی بھی وہی حالت ہے جو آیت میں کفار کی حالت مذکور ہے تو اس کا تدارک سخت ضروری ہے۔

اتباعِ ہویٰ میں مسلمانوں کا طرزِ عمل
پس غور کرنے کے لیے سمجھنا چاہیے کہ افعال اختیار یہ میں مرحج تین چیزیں ہوتی ہیں ایک اتباع ہویٰ محض( صرف خواہشات نفسانی کا اتباع کرنا) ایک اتباع ہدیٰ محض( صرف ہدایات ربانی کا اتباع کرنا) ایک اتباع ہدیٰ ممزوج باتباع ہویٰ، ( اتباع ہدایت ربانی لیکن اس میں آمیزش ہو اتباع ہویٰ کی) اب یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اوپر غالب کون سی چیز ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے اندر اتباع ہدیٰ ہے ہی نہیں۔ اتباع ہدیٰ ہے، مگر ممزوج ہے( ملی ہوئی ہے) اتباع ہویٰ کے ساتھ اور مسلمانوں میں غالب یہی صورت ہے اور کہیں کہیں اس میں اتباع ہویٰ بھی ہے، باقی خالص اتباع ہدیٰ تو بہت ہی کم ہے، کہیں صورت ہدیٰ کوہدیٰ حقیقی سمجھتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ غیر ہدیٰ ہی میں داخل ہے ۔ چناں چہ ہمارے بعض افعال میں محض سہولت وغصب کا اتباع ہے، مثلاً کسی نامحرم کے دیکھنے کو جی چاہا ،اس کو دیکھ لیا، کسی کا گانا سننے کو جی چاہا، اس کا گانا سن کر کبھی جی چاہا تو کسی کے حسن وجمال کاتصو رکرکے مزہ لینے لگے۔ اس سے بحث نہیں کہ ہم جائز کام کر رہے ہیں یاناجائز۔ حالاں کہ یہ سب صورتیں زنا میں داخل ہیں۔

زنا کی مختلف صورتیں
حدیث میں ہے:”العینان تزنیان، وزناھما النظر، والاذنان تزنیان، وزناھما الاستماع․․․․“ ( مسنداحمد:372/2)

”آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں، ان کا زنا دیکھنا ہے، کان بھی زنا کرتے ہیں، ان کا زنا سننا ہے “ چناں چہ اجنبی عورت کی آواز یا امرد کی آواز شہوت کے ساتھ سننا زنا میں داخل ہے، زبان بھی زنا کرتی ہے ، اس کا زنا نطق ہے ۔ غیر محرم سے بیہودہ باتیں کرنے کی اجازت نہیں، کیوں کہ نفس لذت حاصل کرنے کو ایسی باتیں کرتا ہے ۔ قلب بھی زنا کرتا ہے، اس کا زنا رغبت سے سوچنا او رخیال جمانا ہے، اسسے دل میں امنگ اور تصور پیدا ہوتا ہے ،اس کی شکل وصورت سوچ کر مزالیا جاتا ہے اس کو کوئی سمجھتا ہی نہیں کہ یہ بھی کوئی گناہ ہے، اگر کوئی بڑا ثقہ نیک آدمی ہوا تو بدنامی سے بچنے کے واسطے یا دین داری کی وجہ سے اگر کبھی بچاجاتا ہے اور احتیاط کی جاتی ہے تو آنکھ کے زنا سے تو احتیاط ہو جاتی ہے، مگر قلب کے زنا سے متقی بھی اکثر تحرز نہیں کرتے( نہیں بچتے)، اس کو تو معصیت(گناہ) ہی نہیں سمجھتے۔

دل کے افعال
عموماً یہ اعتقاد ہو رہا ہے کہ جو افعال دل کے متعلق ہیں وہ حلال ہیں ،ان میں گناہ ہی نہیں، کیوں کہ دل پر اختیار نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس میں آپ سے غلط فہمی ہوئی ہے، کیوں کہ افعال قلب کے مراتب بھی مختلف ہیں کہ بعض افعال اختیاری ہیں او ربعض غیر اختیاری تو جن افعال کے اختیاری ہونے کو عقل بتلا رہی ہے کہ اختیاری ہیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ اختیار میں نہیں، غلط ہے ۔ مثلاً ہم کو یہ اختیار ہے کہ کسی بات کو سوچیں اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ سوچیں۔ ہاں !بے سوچے خیال آجائے تو یہ غیر اختیاری ہے ،پس جو مرتبہ غیر اختیاری ہے ،اس پر بے شک مواخذہ نہیں، مگر تم تو اختیاری کو غیر اختیاری سمجھے ہوئے ہو یہی معنی ہیں اس آیت کے ﴿وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ الله﴾ ”اور جو باتیں تمہارے نفسوں میں ہیں ان کو اگر تم ظاہر کروگے یا پوشیدہ رکھو گے حق تعالیٰ تم سے حساب لیں گے “ (سورہٴ بقرہ:284)

مراد اس سے وہی خیالات ہیں جو قدرت واختیار میں ہوں، مثلاً یہ آپ کی وسعت میں ہے کہ ایک خطرہ قلب میں آئے اور آپ اس کو ہٹا کر دوسرے خیال میں میں لگ جائیں اب دوسری طرف توجہ کرنے کے بعد بھی اگر وہ پہلا خیال رہے یہ بے اختیاری ہے او رجو درجہ بے اختیاری ہے اس کے لیے حدیث میں ہے:”ان الله تجاوز عن امتی ما وسوست بہ صدورھا“․ ( السنن للنسائی:157/6) یہ ہے اس کی تفصیل ،باقی یہ سمجھنا کہ دل پر اختیار نہیں، بالکل غلط ہے اور اسی غلطی نے لوگوں کو رذائل قلب کے ازالہ سے مایوس کر دیا ہے۔



لوگوں کے ایک غلط گمان کا ازالہ
لوگوں کا یہ جو گمان ہے کہ شیخ کی توجہ سے گناہ کا تقاضا ہی بالکل جاتا رہتا ہے اسی بنا پران سے درخواست کی جاتی ہے کہ حضرت ایسی توجہ فرمائیے کہ ہم سے گناہ ہی نہ ہو ۔ یہ مہمل خیال ہے۔ غرض اس حقیقت کے نہ جاننے سے سالکین پریشان ہو جاتے ہیں ،اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ ہوا ئے نفس کے زائل ہو جانے کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس کا غلبہ جاتارہے، نہ یہ کہ بالکلیہ ازالہ ہو جائے۔

داعی کے بقا کی حکمت
او راس میں ( یعنی داعیہ کے باقی رہنے میں) حق تعالیٰ کی ایک بڑی حکمت ہے ۔ وہ یہ کہ اگر داعیہ کا بالکل ازالہ ہو جاتا تو انسان صبر کی صفت سے مثلاً محروم ہو جاتا۔ دیوار کا کوئی کمال نہیں کہ وہ زنا نہیں کرتی،کیوں کہ اس میں تو داعیہ ہی نہیں، کمال انسان کا ہے کہ داعیہ موجود ہے او رپھر بچتا ہے ۔ کمال یہ ہے کہ تقاضا ہو گناہ کا او رپھر بچے، تاکہ فضیلت حاصل ہو۔

تقاضائے ہویٰ پر ایک قصہ
تقاضا رہنے پر ایک قصہ یاد آیا، وہ یہ کہ ایک چور کسی شیخ سے بیعت ہوا اور چوری سے توبہ کی، مگر خانقاہ میں اس کے رہنے سے یہ آفت نازل ہوئی کہ لوگ صبح کے وقت دیکھتے کہ کسی کے جوتے اپنے موقع پر نہیں، یہاں کے وہاں ہیں اور وہاں کے یہاں ہیں، ہر روز یہی آفت نازل ہونے لگی ،لوگوں نے آپس میں کہا کہ یہ کون شخص ہے اس کی تحقیق کرنی چاہیے کہ کسی کے جوتے اپنے موقع پر نہیں ملتے ، آخر لوگوں نے پہرہ دیا، معلوم ہوا کہ یہی نئے مرید صاحب ہیں ،جو چوری سے تائب ہوئے ہیں۔ شیخ کو اطلاع کی، شیخ نے اس کو بلایا اور فرمایا بتلاؤ کہ یہ کیا قصہ ہے ؟ مرید نے عرض کیا کہ حضو ر!چاہے ماریے، چاہے چھوڑیے۔ میں نے آپ کے ہاتھ پر چوری سے توبہ کی تھی، ہیراپھیری سے تھوڑا ہی کی تھی۔ او راصل قصہ یہ ہے کہ جب اخیر رات ہوتی ہے تو میرے نفس میں حسب عادت سابقہ بڑا تقاضا پیدا ہوتا ہے چوری کرنے کا۔ اور نفس کہتا ہے کہ کہ آج چوری کر لے، پھر توبہ کر لینا۔ میں بہت سمجھاتا ہوں، مگر کسی طرح قابو میں نہیں آتا، اس میں بڑی دیر تک نفس سے مناظرہ ہوتا ہے، جب بہت ہی تقاضا ہوتا ہے، مجبو رہوکر یہ کرتا ہوں کہ لوگوں کے جوتوں کو لوٹ پلٹ اور اِدھر اُدھر کر دیتا ہوں۔ اس سے نفس کو کچھ چوری کا مزہ آجاتا ہے او رتقاضا دب جاتا ہے، اگر میں اس سے توبہ کر لوں گا تو پھر چوری کرنے لوگوں گا اورپہلی عادت کی طرف لوٹ جاؤں گا۔ اب آپ دیکھ لیجیے ، شیخ نے کہا اچھا بھائی !تم ایسا کر لیا کر واور خانقاہ والوں سے فرمایا کہ تم اس مصیبت کو ایک مسلمان کی خاطر گوارا کر لو ۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ شیخ کی اس تجویز پر یوں کہیں کہ شیخ نے اس بات کی کیوں کر اجازت دے دی؟ اس کو اجازت نہ دینی چاہیے تھی ۔ بات یہ ہے کہ یہ حضرات حکیم ہوتے ہیں، جانتے ہیں کہ بعض اوقات تقاضے کو بالکل روک دینے سے انسان پھر اصلی عادت پر چلا جاتا ہے، اس لیے بعض اوقات شیخ ایسی بات کی اجازت دے دیتا ہے، جس کی دلیل یہ قاعدہ فقہیہ ہے: ”من ابتلی ببلیتین فلیختراھونھما“․

حکایت
اس کی تائید میں ایک شخص کی حکایت سنی ہے کہ اس کا ایک گھوڑا تھا، بڑا عیبی کہ لید کرکے کھڑا ہو جاتا اور لوٹ کر لید کو سونگھنے لگتا، پھر آگے چلتا اور کسی طرح نہ مانتا۔ اتفاق سے ایک دن ایک سوار اس کا رفیق سفر ہوا، اس نے گھوڑے کی یہ عادت دیکھی تو اس نے اپنا گھوڑا پیچھے کیا۔ پس جب گھوڑا لید سونگھنے کو مڑتا دو چار کوڑے زور زور سے رسید کر تا۔ اسی طرح خوب رستہ قطع ہوا، گھوڑے والا بہت ممنون ہوا کہ آج خوب سفر قطع ہوا، آخر ایک موقع پر پہنچ کر وہاں سے دونوں کے راستے الگ ہوتے تھے، اس لیے وہ سوار الگ ہونے لگا۔ اس نے کہا خدا تیرا بھلا کرے! تو نے میرے گھوڑے کو درست کر دیا۔ مگر جب وہ سوار دور نکل گیا تو گھوڑا پیچھے کو لوٹا او رکئی کوس تک لوٹ کر گیا او رجہاں جہاں لید کی تھی سب کو سونگھا۔ اس طرح سے سارا دن آنے جانے میں گزر گیا۔ غرض بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت زیادہ سختی کرنے سے کام یابی نہیں ہوتی۔ زیادہ سختی کرنے سے ایک کام تھوڑے دونوں کو تو چھوڑ دیتے ہیں، پھر جتنا تقاضا جمع ہو رہا تھا سب کی ایک دم سے قضا کرتے ہیں، اس واسطے مشائخ کی نظر ہمیشہ اس حقیقت پر رہتی ہے کہ طالب کی تربیت کس طرح کرنی چاہیے۔

مشائخ کا انداز تربیت
اس لیے مشائخ کبھی تدریجاً تربیت کرتے ہیں، کہیں عجلت کرتے ہیں ،اس کا مداران کے اجتہاد او رذوق پر ہے ۔ طبیب بھی بعض دفعہ علاج میں تدریج کرتا ہے کہ منضجات پلاکر مسہل دیتا ہے او ربعض اوقات فوراً مسہل دے دیتا ہے، باقی اس کا موقع او رمحل کہ تدریج کہاں چاہیے او رعجلت کہاں؟ اس کو طبیب ہی سمجھتا ہے، اسی طرح یہاں بھی موقع اور محل کو شیخ ہی سمجھتا ہے، دوسرا کوئی اس معاملے میں اس کا شریک یا مزاحم نہیں ہو سکتا۔

غرض اخیر تک ضعیف سا داعیہ ضرور رہتا ہے، مگر وہ ایسا مضمحل ہوجاتا ہے کہ اگرتھوڑا سا بھی بچنے کا قصد کرے تو وہ داعیہ اس کو گناہ میں مبتلا نہیں کر سکتا ،یہ سب اصلاح کے سلسلہ میں مضمون بیان کیا گیا، حاصل یہ کہ اصلاحِ نفس کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ اتباع ہویٰ پر قرآن میں وعید ہے اور ہویٰ کا محل ہے نفس، اس لیے نفس کی اصلاح خاص طو رپر لازم ہے او راس ہویٰ کا ایک فرد تو شہوت ہے، جس کا کسی قدر بیان ہوچکا ہے۔

ہوائے نفسانی کی ایک قسم غصہ
اسی طرح ایک فرد اس کا غضب ہے ۔ اس میں بھی ہم ہویٰ کا اتباع کرتے ہیں، ہدیٰ کا اتباع نہیں کرتے، اس بارے میں ہماری حالت یہ ہے کہ غصہ کے وقت سوچتے ہی نہیں کہ اس معاملہ میں ہدیٰ او رشریعت کا حکم کیا ہے؟ فوراًغضب کے مقتضا پر عمل کر بیٹھتے ہیں۔حالاں کہ ہم کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں شریعت کے موافق ہے یا نہیں اس غضب میں بھی ایک ہویٰ ہے اور ایک ہدیٰ ہے، غصہ میں گالی دینے کو، مارنے کو، سب کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے، یہ ہویٰ ہے۔ مگر اس میں بھی شریعت کا ایک حکم ہے، وہ ہدیٰ ہے ۔ شریعت نے غصہ کی بھی حدود بتلائی ہیں ۔ پس جس کو غصہ جاری کرنے پر قدرت ہو، جیسے حاکم کو محکوم پر اور رئیس کو رعایا پر او رمیاں جی کو لڑکوں پر۔ شریعت میں ان سب کے لیے حدود ہیں، کیوں کہ بعض جگہ بے جا غصہ جاری کرنے سے ہلاکت ہو جاتی ہے ۔ ان کو غصہ میں ہوش نہیں رہتا کہ ہم کیا کررہے ہیں، یہ ہے اتباع ہویٰ۔ یہاں بھی ہدیٰ کو ترجیح دینی چاہیے اور شریعت پر عمل کرنا چاہیے ۔ سو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ جس بات پر غصہ آیا ہے وہ بات غصہ کی ہے یا نہیں ۔ اس میں قاعدہ شرعیہ سے کام لینے کی ضرورت ہے، مثلاً ایک شخص نے ہمارے عیوب بیان کیے یا کسی بیجا امر پر تنبیہ، کی ہم کو غصہ آگیا، کیوں کہ دوسرے کا نصیحت کرنا ہماری شان کے خلاف ہے تو ایسے موقع پر شریعت سے کام لینا چاہیے۔ مگر ہم اس میں بھی اتباع ہویٰ ہی کرتے ہیں۔

کانپور کا ایک دلچسپ قصہ
چناں چہ کانپور کا ایک قصہ ہے کہ ایک سب انسپکٹر صاحب نے مسجد میں نماز پڑھی، جس میں رکوع وسجود وتعدیل ارکان ٹھیک طور سے نہیں کیا تھا، ایک غریب شخص بھی وہاں موجود تھے، انہوں نے ان سے کہا کہ آپ نماز پھر پڑھیے، آپ کی نماز نہیں ہوئی۔ وہ ان پر بہت خفا ہوئے اور بُرا بھلا کہا۔ انہوں نے کہا کہ آپ چاہے مجھے مارلیں۔ مگر مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ خراب نماز پڑھنے سے آپ مستحق عذاب ہوں۔ میں آپ سے پڑھوا کر چھوڑوں گا، اس شوروغل میں کچھ لوگ جمع ہو گئے اور سب انسپکٹر سے کہا کہ بھلے مانس! یہ تو آپ کے فائدہ کو کہہ رہے ہیں ،دوبارہ پڑھ لینے میں آپ کا کیا حرج ہے؟ غرض انہوں نے نماز دہرائی۔ یہ نصیحت کرنے والے صاحب ایک غریب آدمی عطر تیل کی تجارت کرتے تھے ۔ لوگوں نے اس واقعہ کے بعد ان کی بڑی قدر کی، ان کو تبرکاً اپنی دکانوں پر بٹھاتے او ران سے عطر تیل خریدتے اور جو دام کہتے وہی دیتے۔

دیکھو دین بھی، جو کہ اتباع ہدیٰ ہے، کیسی برکت کی چیز ہے کہ دنیا بھی درست ہو گئی ۔ مگر ان صاحب کو یعنی سب انسپکٹر صاحب کو کتنا غصہ آیا کہ ناصح کو بُرا بھلا بھی کہا، مارا پیٹا بھی ۔ یہاں تک لوگوں میں شور وغل مچ گیا، ان کا یہ غصہ اتباع ہویٰ تھا کہ داروغہ جی کو نصیحت پر بھی غصہ آگیا، حدود شریعت کو نہ دیکھا کہ ہم کیا کررہے ہیں اور زیادہ تر سبب ایسے غصے کا کبر ہے اور اس کا علاج اپنی حقیقت میں غور کرنا ہے۔

حکایت
جیسا امام غزالی رحمہ الله نے ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک شخص فاخرہ لباس میں اکڑتا ہوا چلا جارہا تھا۔ ایک بزرگ نے ناصحانہ کہا کہ میاں ذرا تواضع کے ساتھ چلوتو وہ کہتا ہے کہ تم مجھے نہیں جانتے میں کون ہوں، یہ بولے ہاں!جانتا ہوں آپ کون ہیں، تمہاری حقیقت یہ ہے #
        اولک نطفة قذرة وآخرک جیفة مذرة
        وانت بین ذلک تحمل العذرة

تمہاری ابتدائی حالت تو یہ ہے کہ ایک نطفہٴ ناپاک تھے او رآخری حالت یہ ہو گی کہ ایک سڑے ہوئے مردار ہو جاؤ گے او ردرمیانی حالت یہ کہ دوسیر سے کم پاخانہ تمہارے پیٹ میں نہیں۔ حقیقت میں یہ باتیں ایسی ہیں کہ غضب کے وقت ان پر غور کرنا چاہیے، کیوں کہ منشا غضب کا اکثر کبر ہے او رکبر کا منشا اپنی حقیقت سے بے خبری ہے، یہ تو علمی علاج ہے

غصہ کے بارے میں ایک گُر
اب میں غصہ کے بارے میں ایک گُر بتلاتا ہوں، جو عملی علاج ہے، جو دستور العمل بنانے کے لائق ہے، وہ یہ کہ غصہ آتے ہی فوراً نافذ کرنا شروع نہ کر دے، ذرا ٹھہر جائے او رجس پر غصہ آیا ہے اس کو اپنے سامنے سے ہٹا دے یا خود وہاں سے ہٹ جائے، جب جوش جاتارہے، اب فیصلہ کرے کہ اس شخص کو کیا سزا دی جائے؟ مگر اس فیصلہ کے لیے علم دین کی ضرورت ہو گی، وہ بتلائے گا کہ یہ موقع غصہ نافذ کرنے کا ہے یا نہیں ؟ پھر موقع ہونے پر سزا کتنی ہونی چاہیے؟ اس کے بعد جو کچھ فیصلہ ہو گا وہ بجا ہو گا او ران سب باتوں کا فیصہ سکون کی حالت میں کرے، غصہ میں نہ کرے، کیوں کہ حدیث میں ہے : ”لا یقضی القاضی وھو غضبان“ کہ قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے بلکہ خوب سوچے اور معاملہ پر نظر ثانی بھی کرے ۔ یہاں بھی علمِ دین کی ضرورت ہو گی ۔ اسی طرح میاں جی کو چاہیے کہ فوراً سزا دینا نہ شروع کر دیں، یہ بھی سکون کی حالت میں فیصلہ کریں، جب جرم ثابت ہو جائے تو سزا بھی حکم شرعی سے تجویز کریں کہ ایک لکڑی مارنی چاہیے یا دو تین۔ گو نفس اس پر راضی نہ ہو گا، کیوں کہ اس کا مزہ تو اس میں ہے کہ دھنیے کی طرح دھنتا چلا جائے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مزے کے لیے مارتے ہیں، سزا کے لیے نہیں۔

مقتضا پر عمل کی شرائط
ایک بات، جو پہلی بات کا تتمہ ہے ،یہ بھی ہے کہ جب غصہ آئے تو یہ بھی سوچیں کہ کہ آیا سزا دینا واجب ہے یا جائز؟ اگر واجب ہو تو اس آیت پر عمل کرے ﴿ ولا تاخذکم بھما رأفة فی دین الله﴾ زنا کار کے لیے فرماتے ہیں کہ کہ اس پر شفقت غالب نہ آنی چاہیے، پس اگر شرعاً سزا واجب ہو تو سزا دینا واجب ہے، شیخ شیرازی رحمہ الله فرماتے ہیں #
        بے حکم شرع آب خوردن خطا ست
        وگر خوں بفتوی بریزی روا ست

شریعت کی اجازت کے بغیر پانی پینا بھی غلطی ہے او راگر شریعت خون بہانے کا حکم کرے یعنی جہاد کا یا قربانی کا تو وہ بھی واجب ہے۔

اور یہ اس صورت میں ہے جب موجب سزا اپنا حق نہ ہو، بلکہ حق الله ہو او راگر اپنا حق ہو کہ کسی نے ہمارا نقصان کیا تھا یا ہمار ی نافرمانی کی تھی تو اس وقت کامل درجہ اتباع ہدیٰ کا یہ ہے ﴿ فمن عفی واصلح فأجرہ علی الله﴾ یعنی اپنا حق معاف کر دے، گو یہ بھی جائز ہے کہ بدلہ لے لے، لیکن اگر معاف کر دے تو اس کا اجر الله تعالیٰ پر ہے کہ معاف کرنا نفس پر شاق ہے ۔

مراقبات برائے دفع غصہ
اس کے لیے بعض مراقبات کی بھی ضرورت ہے، مثلاً یہ سوچے کہ اے نفس! کیا تو مجرم نہیں ہے ؟ پھر یہ کہے کہ جتنی تجھ کو اس پر قدرت ہے خدا تعالیٰ کی تجھ پر اس سے زیادہ قدرت ہے ، پھر یہ سوچے کہ تو اپنے جرم کے لیے کیا چاہتا ہے؟ اسی طرح تجھ کو دوسروں کے لیے بھی معافی کو پسند کر نا چاہیے اور یہ بھی سوچے کہ اگر تو خطا معاف کر دے گا تو حق تعالیٰ تیری خطا معاف کر دیں گے۔

حکایت
ایک شخص کی حکایت ہے کہ وہ زیادہ پابند اعمال کا نہ تھا، مگر ایک کام یہ کیا کرتا تھا کہ جب لوگوں کو قرض دیتا تو مہلت بھی دے دیتا او راگر مقروض کے پاس ادا کرنے کو نہ ہوا تو معاف کر دیتا۔ جب اس کا انتقال ہو گیا تو حق تعالیٰ نے فرمایا کہ گواس کے اعمال زیادہ نہیں، مگر جب یہ باوجود عجز واحتیاج کے ہمارے بندوں کے ساتھ سہولت کرتا تھا تو ہم تو قادر ہیں، ہم بھی اس کے ساتھ سہولت ہی کریں گے، اس لیے ہم نے اپنا سب حق معاف کیا۔

بہرحال ان مراقبات کے بعد غصہ کو ضبط کر دینا یا مجرم کو معاف کر دینا سہل ہوجائے گا اور یہ ضبط اور معافی علاوہ اخلاق کے، موجب اجروثواب بھی ہے او رواقعی قدرت کے وقت غصہ کو پی لینا اور معاف کر دینا ہے بھی بڑا کام، اس کے فضائل بھی بہت وارد ہیں مولانا رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں #
        گفت عیسی را یکے ہشیار سر
        چیست در ہستی زجملہ صعب تر
        گفت اے جان صعب تر خشم خدا
        کہ از ودوزخ ہمے لرزد چو ما
        گفت از خشم خدا چہ بود اماں
        گفت ترک خشم خویش اندر زماں

داعیہ بعد ریاضت کے بھی باقی رہتا ہے او راُس کی دلیل
حق تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿والکظمین الغیظ والعافین عن الناس﴾ اس میں علاوہ فضیلت ضبط کے، ایک دلیل بھی ہے اس دعوی کی، جو اوپر کیا گیا کہ داعیہ انتقام تو نفس میں رہتا ہے، مگر ریاضت سے مقاومت آسان ہو جاتی ہے، کیوں کہ حق تعالیٰ نے ﴿ الکاظمین﴾ فرمایا ہے کہ وہ غصہ کے پینے والے ہیں ،یعنی غصہ تو آتا ہے مگر پی جاتے ہیں ۔ فاقدین الغیظ نہیں فرمایا کہ ان کو غصہ ہی نہیں آتا۔

حالت غضب میں حضرت حسین رضی الله عنہ کا طرز عمل
حضرت حسین رضی الله عنہ کی حکایت ہے کہ آپ کے یہاں چند مہمان تھے، کھانے کا وقت آیا۔ غلام کھانا لایا۔ اتفاق سے شوربے کا پیالہ لیے ہوئے تھا کہ فرش پر سے پاؤں پھسلا پیالے میں سے گرم گرم شوربا آپ کے چہرہ مبارک پر گر پڑا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیسا منظر تھا؟ اس وقت کے اہلِ جاہ اپنے دل میں ٹٹولیں کہ ایسے موقع پر وہ کیا کرتے؟ آپ نے کچھ نہیں کیا،مگر بمصلحت تعلیم نظر تادیب سے اس کی طرف دیکھا ،اس کی زبان پر فوراً یہ جاری ہو گیا ﴿ الکظمین الغیظ﴾ الله کے خاص بندے غصہ کو پینے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا ( کظمت غیظی) کہ میں نے اپنا غصہ پی لیا، پھر غلام نے کہا ﴿والعافین عن الناس﴾ اور وہ لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:(عفوت عنک) کہ میں نے تجھے معاف کیا۔ پھر اُس نے کہا ﴿والله یحب المحسنین﴾ او رالله احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ” قد اعتقتک لوجہ الله“ کہ میں نے تجھ کو الله کے واسطے آزاد کیا۔

حضرات !یہ نمونے ہیں اقتدا کے لیے، اب یہ سوچو کہ ہم میں ان حضرات سے زیادہ کون سی فضیلت ہے جو غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں؟!

غصہ فرو ہونے کی تدابیر
اور غصہ فروہونے کے لیے علاوہ مراقبات واعمال مذکورہ کے، بعض او راعمال بھی ہیں، ایک یہ کہ جب غصہ آئے تو زمین پر لیٹ جائے حدیث میں ہے : ”فلیتلبسہ بالارض“ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے ،بیٹھا ہو تو لیٹ جائے ۔اس سے غصہ کم ہو جائے گا گوختم نہ ہو گا، ہاں! جیسی اس وقت اس کے شباب کی حالت تھی ،وہ نہ رہے گی اور راز اس کا یہ ہے کہ غصہ جاری کرنے کے لیے دست وپاکی حرکت کی بھی ضرورت ہوتی ہے او راس نے اس کو بے کار کر دیا تو غصہ کم ہو جائے گا۔ دوسرے اس کو قرب ہو گا زمین سے اور زمین میں خاصیت ہے خاک ساری اورعجز پیدا کرنے کی، جو غصہ کی ضد ہے۔

دوسری تدبیر یہ ہے کہ پانی پی لے۔

تیسری تدبیر یہ ہے کہ کچھ دیر تک اعوذبالله من الشیطان الرجیم پڑھتا رہے اور فقط زبان سے پڑھنا کافی نہیں، بلکہ یہ بھی سوچے کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور بُری چیز ہے او رغصہ کے بُرے ہونے کی ایک کھلی دلیل یہ ہے کہ جب کبھی آپ نے غصہ جاری کیا ہو گا تو بعد میں پشیمانی ضرور ہوئی ہو گی، الانادراً ۔ایک تدبیر یہ ہے کہ جس پر غصہ آیا ہے اس کو سامنے سے ہٹا دے، اگر وہ نہ ہٹے تو تم ہٹ جاؤ۔

یہ تدابیر ہیں غصہ فرو کرنے کی اور یہ ہے اس باب میں اتباع ہدیٰ، بزرگان دین نے، الله والوں نے نفس کے ایسے ایسے علاج کیے ہیں اور بڑے بڑے موقع پر ضبط کیا ہے۔

مولانا اسماعیل صاحب رحمہ الله کا ضبط غصہ
مولانا اسماعیل صاحب رحمہ الله شہید نصیحت کرنے میں تیز مشہور تھے، بعض لوگوں کا گمان یہ تھا کہ یہ تیزی نفسانیت کا جوش ہے، آپ ایک دفعہ مجمعے میں وعظ فرمارہے تھے کہ ایک بے ادب شخص نے عرض کیا کہ حضرت میں نے سنا ہے کہ آپ حرام کی پیدائش ہیں؟ آپ نے اسی لہجہ میں، جو وعظ کا لہجہ تھا، نہایت متانت سے جواب دیا کہ بھائی! کسی نے تم سے غلط کہا ہے ۔ میرے ماں باپ کے نکاح کے گواہ تو اب تک موجود ہیں، تمہارا جی چاہے تو میں ان سے گواہی دلوا دوں کہ ان کے سامنے نکاح ہوا تھا او رنکاح کے بعد الولدُ للفراش حکم شرعی ہے۔ کیا انتہا ہے اس تواضع کی ، اس شخص کی یہ بات تمام سامعین کو سخت گراں گزری، خصوصاً جان نثاروں کو تو نہ معلوم کیسا ہیجان ہوا ہو گا؟ مگر مولانا نے استقلال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ تحمل سے کام لیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ شخص آپ کے قدموں میں گر پڑا او رکہا کہ میرا گمان یہ تھا کہ آپ کا غصہ نفس کے لیے ہے، آج معلوم ہوگیا کہ آپ غصہ نفس کے لیے نہیں کرتے۔ غرض بزرگوں کی بڑی بڑی حکایتیں ہیں کہ انہوں نے کس طرح غصہ کو ضبط کیا ہے۔

بزرگوں کے ساتھ تمسخر واستہزا کی سزا
ایک شیخ ایک بزرگ کی خدمت میں گئے او ریہ کہا کہ آپ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے او رآپ کی والدہ صاحبہ بیوہ رہ گئیں اور سنا ہے کہ وہ نہایت حسین ہیں، آپ ان سے میرا نکاح کر دیجیے۔ وہ بزرگ جواب میں فرماتے ہیں کہ میری والدہ نابالغ نہیں ہیں، بلکہ بالغ اور ثیبہ ہیں، میں ان سے پوچھتا ہوں، اگر وہ راضی ہو جائیں تو مجھے کیا انکار ہے ۔ اُس نے کہا تو پھر گھر میں جاکر پوچھ لیجیے، آپ گھر میں جانے لگے، مگر وہ الله تعالیٰ کے خاص بندے تھے، اتفاق سے ان بزرگ نے چلتے چلتے مڑ کر جو دیکھا تو وہ شخص گرا ہوا، مرا ہوا پڑا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو میرے صبر نے قتل کر دیا۔ اس کا مقصود نکاح کرنا نہیں تھا، بلکہ ان بزرگ کے ساتھ تمسخر واستخفاف ہنسی کرنا تھا ۔کیا انتہا ہے اس حلم وضبط کی، مگر یہ حضرات جتنا حلم کرتے ہیں اتنا ہی خدا تعالیٰ ان کی طرف سے انتقام لیتے ہیں، حدیث میں ہے :”من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب“ عارف شیرازی رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں #
        بس تجربہ کردیم دریں دیر مکافات
        با درد کشاں ہر کہ در افتاد بر افتاد

کسی شخص کو اول تو کسی کے ساتھ بھی دل آزاری کا برتاؤ نہ کرنا چاہیے، خاص کر الله تعالیٰ کے نیک بندوں کے ساتھ ہر گز ایسا برتاؤ نہ کرنا چاہیے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ #
        چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد
        میلش اندر طعنہٴ پاکاں برد

جب طعنہ بھی جائز نہیں تو بھلا اور ایذا تو کیسے جائز ہو گی؟

بچوں کو پڑھانے والوں کی حالت
اوپر ذکر تھا غصہ میں بے اعتدالی کا، اسی کا خلاصہ پھر عرض کرتا ہوں کہ غصہ کو جاری کرنے میں حدود سے خارج ہو جانا بہت بُرا ہے، مگر ہماری یہ کیفیت ہے کہ جب غصہ آتا ہے تو کچھ بھی نہیں دیکھتے ،بس یہ چاہتے ہیں کہ دل ٹھنڈا کر لیں، خاص طور پر میاں جی صاحبان کی تو عموماً یہی حالت ہے۔ آج کل اسکولوں میں تو کسی کی مجال نہیں کہ ایسی کارروائی کرے، مگر مکاتیب میں طرح طرح کی سزائیں ایجاد کی جاتی ہیں، اس پر طرہ یہ کہ بیوی سے تو لڑکر آئے اور غصہ اُتاریں لڑکوں پر، پھر جرم تو کیا ایک لڑکے نے اورپیٹیں گے سب کو، اسی طرح بعض ظالم نوکروں کی بُری طرح خبر لیتے ہیں ،اُن کو ٹھوکریں مارتے ہیں۔

قیامت میں بے جا غصہ کا انجام
اس کا نتیجہ عنقریب یہ ہو گا کہ آج وہ مظلوم او رمغلوب ہیں، مگر قیامت میں غالب ہوں گے۔ حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا کہ میرے غلام چوری کرتے ہیں، خیانت کرتے ہیں ۔ میں ان کو مارتاہوں، میرا ان کا کیا معاملہ ہو گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت میں ترازوکھڑی کی جائے گی، ایک پلہ میں ان کی خطائیں او رایک پلہ میں تمہاری سزا رکھی جائے گی، جو پلہ بھاری ہو گا اسی کی موافق عمل ہو گا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول الله ! میں نے سب کو آزاد کیا۔ میں اپنا کام آپ کر لیا کروں گا۔ یہ ان صحابی کا غلبہ حال تھا، حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ مطلب نہ تھا ،بلکہ مقصود یہ تھا کہ اعتدال ہونا چاہیے۔

ماتحتوں کی خطا معاف کرنے کی تعلیم
کسی نے پوچھا کہ یا رسول الله !میں اپنے ماتحتوں کی کتنی خطائیں معاف کیا کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا دن رات میں سو دفعہ، مرادیہ ہے کہ کثرت سے معاف کیا کرو۔ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم ایسی نہیں کہ اس تعلیم پر عمل کرنے سے کسی کی مصلحت میں کسی قسم کا بھی خلل پڑے، اس میں سب کی رعایت ہے، اس لیے خاص سو کا عدد مراد نہیں۔مراد یہ ہے کہ بعض لوگ جو خفیف خفیف باتوں پر تشدد کرتے ہیں اور تسامح جانتے ہی نہیں، یہ نہیں چاہیے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کسی امر میں اتباع ہویٰ سے کام نہ لے، بلکہ اتباع ہدیٰ کا اہتمام رکھے، یہ حالت مذکورہ ہماری شہوت اورغضب کی ہے ۔ 



بدعا ت ورسوم کو روکنے کی بہترین ترکیب
اسی طرح ہماری او رباتیں بھی ہیں کہ ان میں زیادہ حصہ اتباع ہویٰ کا ہے، چناں چہ خرچ ہی کو دیکھ لو کہ چھوٹی چھوٹی تقریبوں میں کیسی دھوم دھام کرتے ہیں ۔ اس کا منشا صرف جوش مسرت ہی نہیں بلکہ تفاخر بھی مقصود ہوتا ہے، چناں چہ شادی کے علاوہ غمی میں دل توغم میں مبتلا ہوتا ہے، پھر چالیسواں اور چھ ماہی اور برسی وغیرہ سب کچھ دھوم دھام سے کیوں کیا جاتا ہے ، اگر اس کا سبب تفاخر نہیں تو اور کیا ہے؟

ایک رئیس نے ایک موقع پر خوب حقیقت کھولی، قصہ یہ ہے کہ ان کے باپ مر گئے اُس مقام پر چالیسویں کی رسم حسب حیثیت بڑے پیمانہ پر ادا کی جاتی تھی، چناں چہ ان کے یہاں بھی چالیسویں کا بڑا سامان ہوا، ان کے احباب اور قرابت دار جمع ہوئے، کوئی مہمان ہاتھی پر چڑھ کر آیا، کوئی گھوڑے پر کوئی رتھ میں، کوئی بہلی میں، کوئی پالکی میں ۔ ان کو مجبوراً سب کا سامان کرنا پڑا، کھانے کے لیے ایک وسیع ہال تجویز کیا گیا، فرش بچھا کر کھانا چننا شروع کیا۔ بہت دیر میں کھانا چنا گیا، عمدہ عمدہ اور نفیس رنگ برنگ کے کھانے تھے ،بسم الله کا وقت آیا تو ان رئیس نے کہا کہ صاحب! مجھے کچھ عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ آپ سب صاحبوں کو معلوم ہے کہ یہ کاہے کی تقریب ہے، آپ سب صاحب جانتے ہیں کہ میرے والد کا سایہ میرے سر پر سے اُٹھ گیا اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ کتنی بڑی مصیبت ہے، پس مجھ پر مصیبت پڑی ہے، کیوں صاحبو! کیا مصیبت زدہ کایہی حق ہے کہ اس کو اور مصیبت پہنچاؤ؟ کیوں صاحبو! کیا یہی ہمدردی ہے، کہ میرا تو باپ مرا اور تم آستینیں چڑھا کر کھانے کو تیار ہو بیٹھے پھر کہا اچھا بسم الله کیجیے ۔بھلا اس کے بعد کس کی غیرت تھی کہ کھانا کھاتا۔ سب عقلا تھے، سب نے اس بات پرغور کیا اور سب نے اس پر اتفاق کیا کہ آج سے یہ رسم موقوف کر دینی چاہیے، واقعی نہایت برُی اور بالکل ہمدردی کے خلاف حرکت ہے چناں چہ ایک عہد نامہ لکھا گیا او را سپر سب نے دستخط کیے۔ اور بغیر کھائے چل دیے۔ اس کے بعد ان رئیس زادہ نے خدمت گاروں سے کہا کہ مساکین اورمحتاجوں کو بلا لاؤ سب کھانا ان کو کھلا دیا گیا۔ ان کے تو سات پشت نے بھی ایسا کھانا نہ کھایا ہو گا۔ بہت دعائیں دیں۔

واقعی! اگر غور کرکے دیکھا جائے تو شادی غمی سب ہی میں، ہم نے تمام خرافات اور لغو رسمیں اختیار کر رکھی ہیں اور اس قدر لغو اور بے ہودہ رسوم ہیں جس کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں اور جس کا منشا محض اتباع ہوی ہے اور کچھ بھی نہیں۔

دین کے کاموں میں اتباع ہویٰ
یہ تو دنیا کے کام ہیں، مگر ہمارے اوپر یہاں تک اتباع ہوی کا غلبہ ہے کہ ہماری عبادت بھی اس سے خالی نہیں ۔ ٹٹول کر یکھ لیجیے، ہم جتنے کام دین کے کرتے ہیں ان کی کیا کیفیت ہے؟ مثلاً جیسے قومی مذہبی انجمن ہے، فی نفسہ دین کا کام ہے، طاعت کی چیز ہے، مگر اس میں بھی وہی اتباع ہویٰ ہے، دینی مدرسہ جاری کرنا۔ ظاہر بات ہے کہ یہ خدمت دین کے واسطے اور ثواب کے لیے ہے، مگر ہم کس لیے کرتے ہیں اس کا اندازہ امتحان سے ہو سکتا ہے۔

واقعی امتحان کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ للہیت سے مدرسہ جاری کیا ہے یا نفسانیت سے؟ وہ امتحان یہ ہے کہ اگر مقابلہ میں کوئی اور مدرسہ ہو جائے تو اب کارکنان مدرسہ کو دیکھو کہ اس کا ہونا ان کو گراں ہے یا نہیں ؟اگر الله تعالیٰ کے واسطے یہ کام ہے تو گرانی نہ ہونی چاہیے، اگرچہ یہ بھی اندیشہ ہو کہ ہمارا مدرسہ بند ہوجائے گا کیوں کہ اس کی جگہ دوسرا مدرسہ موجود ہے وہ بھی وہی کام کرے گا، جو یہ کرتا ہے او رکام ہی مقصود ہے اگر کسی کی نیت میں یہ بات ہے تو بے شک وہ کام الله کے واسطے ہے، مگر اس کا کہیں نشان بھی نہیں، خواب میں بھی اس کا منظر نظر نہیں آتا، بلکہ فوراً ان کو فکر پڑ جائے گی کہ بس جی! اب تو چندہ گیا گزرا ہوا، ہمارے مدرسہ کی شہرت بھی گئی گزری، اب اس کی فکر میں ہوں گے کہ دوسرے مدرسہ کی مذمت کریں گے، اس کا نام مدرسہ ضرار کہیں گے، اس کی عیب چینی کریں گے، رات دن اس کے اکھاڑنے کی فکر میں پڑ جائیں گے او راپنے مدرسہ کی بابت یہ فکر ہو گی کہ اس کا نام بڑھا رہے۔ اپنے مدرسہ کے طلبا کو بھیج کر دوسرے مدرسہ کے طلبا سے مباحثہ کرائیں گے اور نیت یہ ہو گی کہ یہ ان پر غالب ہوں، تاکہ یوں کہہ سکیں کہ وہاں خاک لیاقت نہیں ہوتی ،ہمارے مدرسہ کے طلبا ایسے لائق فائق ہیں اور یہ فکر ہو گی کہ ہمارے مدرسہ میں بہت سے طلبا کی دستاربندی ہو، تاکہ نام ہو کہ ہم نے اتنوں کو قابل کر دیا اور وہاں کچھ بھی نہیں، بس یہ ہے خلوص اور یہ دین ہے افسوس۔

حضرات !یہ حالت ہے ہماری دین کے کاموں کی کہ وہ کام بھی نفسانیت سے ہی کیے جاتے ہیں، اس کا نام تدین نہیں بلکہ اتباع ہویٰ ہے۔

پیِروں کی حالت
اسی طرح آج کے پیروں کی حالت دیکھیے کہ اگر ایک پیر ہو شہر میں او رکوئی دوسرا پیر آجائے تو اب وہ اس فکر میں ہیں کہ ان کی عیب جوئی کریں، کہیں خاص جلسہ میں ان کی مذمت کی جارہی ہے، کہیں مجمعوں میں ان کی برائیاں ہو رہی ہیں، بس ہر وقت یہی فکر رہتی ہے کہ یہاں سے یہ اکھڑ جائیں۔ حضرت! یہ دین ہے ؟ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کام میں خلوص ہو اور دوسرے شخص وہی کام کرنے لگے جو پہلا شخص کر رہا تھا تو یہ پہلا شخص خدا تعالیٰ کا شکرکرے گا کہ میرا اور مدد گار پیدا ہو گیا یہ تو خوش ہونے کی بات ہے، اس پر مسرت ہونی چاہیے کہ اپنا بوجھ ہلکا ہو گیا، مگر ایسے لوگ اب کہاں؟ بس اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصود دین نہیں، بلکہ اغراض ہیں اور یہی اتباع ہویٰ ہے۔

علامت خلوص
علی خوّاص رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ خلوص کی علامت یہ ہے کہ اگر دوسرا کام کرنے والا آجائے تو یہ اس کام کو چھوڑ دے اب دیکھ لیجیے کہ یہ علامت کہاں کہاں پائی جاتی ہے؟ الاماشآء الله اور ان مستثناؤں میں بعض خدا کے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی بیعت ہونے آتا ہے تو یوں کہہ دیتے ہیں کہ دوسری جگہ جاؤ، بس جسے مقصود کام ہو گا وہ کام ہی چاہے گا، کوئی کرے ،کسی جگہ بھی ہو ، بس مخلصین کی علامت یہ ہے۔ مگر ہماری تو عام طور پر یہ حالت ہے کہ دین کاکام بھی کریں گے تو اس میں خواہش نفسانی ملی ہوئی ہو گی، غرض ہر چیز میں وہی اتباع ہویٰ کی علت ہے اور یہ سب تو اہل ظاہر کی کیفیت تھی، جس کو میں نے عرض کیا۔

باطنی اصلاح کے طالبین کی غلطی
اب اہلِ باطن کے متعلق ایک باریک بات رہ گئی ،اس کو عرض کرکے بیان ختم کرنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ استیعاب کی ضرورت نہیں، نمونہ کافی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ سب سے بڑا طبقہ مشائخ اور سالکین کا ہے، جو اہل باطن ہیں اور سب سے بڑا کام ذکر الله اور اصلاح نفس ہے، یہ تو بالکل صدق ہی پر مبنی ہونا چاہیے۔ اغراض کا اس میں کیا دخل؟! مگر افسوس اس میں بھی ہم لوگوں کی خرابی سے یہاں تک نوبت پہنچی ہے کہ یہ بھی اتباع ہویٰ سے خالی نہیں رہا، شرح اس کی یہ ہے کہ اول یہ سمجھنا چاہیے کہ مقصود اس طریق کا کیا ہے؟ سو وہ وصول الی الحق یعنی رضائے حق ہے اور ثمرہ اصلاح کایہی ہے مگر ہم لوگوں نے نادانی سے اس وقت اس ثمرہ کو چھوڑ کر اپنی طرف سے دوسرا ثمرہ اختراع کیا ہے، کسی نے لذات وانوار کو مقصود سمجھا ہے، کسی نے کشف وکرامت کو۔ یہ کیفیت تو مخلصین کی ہے اور دنیا پرستوں کا تو ذکر ہی کیا ہے، ان کا تو ہرحال میں مقصود دنیا ہی ہے، ان مخترع ثمرات کو مقصود بنانے میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ اگر وہ مقصود مرتب نہ ہوا تو ناکامی کا شبہ ہو کر بعض وقت تعطل کی نوبت آجاتی ہے، چناں چہ بعض کو کشف وکرامت وانوار وغیرہ نہ ہونے سے ایسے قبض کی نوبت آگئی کہ اپنے کو قتل کر لیا۔

خودرائی کی برائی
یہ سب خرابی تجویز کی ہے کہ ثمرات خود تجویز کر لیتے ہیں، عارف شیرازی رحمة الله علیہ اسی کی مذمت میں فرماتے ہیں #
        فکر خود ورائے خود در عالم رندی نیست
        کفر ست دریں مذہب خود بینی وخود رائی

دیکھیے! عارف نے خودرائی کو کفر طریق فرمایا ہے۔ اس طریق کا حاصل تفویض محض ہے، یعنی کام کرے اور ثمرات کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرے، حتی کہ یہ شان ہونی چاہیے #
        ارید وصالہ یرید ھجری
        فاترک ما ارید لما یرید
    (ترجمہ: میں اس سے ملنا چاہتا ہوں وہ مجھ سے جدائی، میں نے اپنی خواہش کو محبوب کی خواہش پر قربان کر دیا۔)

مقصودِ اصلی رضائے دوست ہے
عارف شیرازی رحمة الله علیہ نے ترجمہ اس کا خواب کیا ہے #
        میل من سوئے وصال ومیل او سوئے فراق
        ترک کام خود گرفتم تا بر آید کام دوست

نیز عارف شیرازی رحمة الله علیہ کہتے ہیں #
        فراق ووصل چہ باشد رضائے دوست طلب
        کہ حیف باشد از او غیر او تمنائے
    (ترجمہ: فراق ووصل کی کیا حقیقت ہے محبوب سے اس کی رضا مندی کو طلب کرو کہ اس سے اس کے غیر کو طلب کرنا شرمندگی کا باعث ہے۔)

اس شعر پر شاید کسی کو یہ شبہ کہ قیامت کا عذاب بھی تو فراق ہے جیسا خود حافظ رحمة الله علیہ ہی دوسری جگہ فرماتے ہیں #
        شنیدہ ام سخن خوش کہ پیر کنعاں گفت
        فراق یارنہ آں میکند کہ بتواں گفت
    (ترجمہ: پیر کنعاں نے نہایت عمدہ بات کہی وہ یہ کہ فراق محبوب الہٰی ایسی مصیبت ہے جو کہ بیان نہیں کرسکتے واعظ شہر نے ہولِ قیامت کی جو حدیث ذکر کی ہے اس میں کہتا یہ ہے کہ اس نے زمانہ کی جدائی کا ذکر کیا ہے۔)

تو کیا اس کی بھی پروانہ کرنی چاہیے، حالاں کہ خود اس کلام میں اس فراق کا محذورعنہ ہونا مصرح ہے۔

جواب یہ ہے کہ ایک فراق حقیقی ہے او رایک فراق صوری ہے اور عارف کی مراد پہلے کلام میں فراق صوری ہے اور عذاب قیامت فراق حقیقی ہے، جو دوسرے کلام میں مذکور ہے۔ عارف شیرازی رحمة الله علیہ کے کلام سابق میں وہ مراد نہیں۔ مطلب یہ کہ جس فراق ووصل کے تم طالب ہو اس سے بحث نہ ہونی چاہیے، بلکہ دوست کی رضا کو دیکھنا چاہیے ،جیسی اس کی رضا ہو اسی کو گوارا کرنا چاہیے، گو طبع کو ناگواری ہو۔

حالتِ فراق میں حصولِ رضائے دوست کی مثال
اس کو ایک مثال میں یوں سمجھیے کہ مثلاً ایک محبوب سے عاشق کو وصل حسی میسر ہوا کہ بیٹھے ہوئے اس سے باتیں کر رہا ہے۔ ایسی ہی حالت میں اس نے جیب سے روپیہ نکال کر دیا کہ بازار سے فلاں شے خرید لاؤ۔ ظاہر ہے کہ اس دس منٹ کے عرصہ میں ظاہری وصل سے یہ محروم رہے گا، مگر عشاق کی شان کیا ہے ؟ شان یہی ہے کہ فوراً بازار چلا جائے او رمحبوب کے ظاہری فراق کو ظاہری وصل پر ترجیح دے، یعنی جو بُعد اس کا تجویز کیا ہوا ہے اس کو اختیار کرے، گو طبعا ناگوار ہو۔ اپنی تجویز کو ترجیح نہ دے، کیوں کہ حقیقی وصل رضائے محبوب ہے اور یہ فراق محض ظاہری ہے، حقیقی فراق نہیں۔ اب دونوں کلام میں تعار ض نہ رہا۔

مقصودِ اصلی
غرض مقصود رضا ہے، ہر حال میں راضی رہنا چاہیے، گو وہ حال طبعا ناگوار ہو۔ سالکین کو ایسی جہالتیں بہت پیش آتی ہیں مثلاً دلچسپی کے ساتھ ذِکر کرتا تھا، پھر اس سے دلچسپی جاتی رہی ،ذوق وشوق کم ہو گیا، پس خیال کرتا ہے کہ میں مردود ہو گیا، بڑا غمگین ہوتا ہے، بعض کو قبض کی حالت ایسی پیش آتی ہے کہ خود کشی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں سو اس کا کچھ خیال نہ کرنا چاہیے بلکہ جو حالت بھی پیش آئے اس پر راضی رہنا چاہیے، اپنی رائے کو دخل ہی نہ دے، مولانا فرماتے ہیں #
        چوں کہ قبض آید تو در وے بسط بیں
        تازہ باش وچیں میفگن بر جبین
        چوں کہ قبضے آیدت اے راہ رو
        آں صلاحِ تست آیس دل مشو
    (ترجمہ:جب حالت قبض تجھ کو پیش آئے تو اس میں خوش رہ، ہشاش بشاش رہو اور پیشانی پر شکن نہ لاؤ، اے راہ سلوک کے مسافر !تجھے حالت قبض پیش آتی ہے اس سے مقصود تیری اصلاح ہے، اس حالت پر تو دل چھوٹا نہ کر۔)

اسی کو عارف شیرازی رحمة الله علیہ کہتے ہیں #
        باغباں گرپنج روزے صحبت گل بایدش
        برجفائے خار ہجراں صبر بلبل بایدش
    (ترجمہ: باغباں اگرچند روز کے لیے پھولوں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو ہجر کے کانٹوں کی بے وفائی پر بلبل بھی تو صبر کرتی ہے۔)

غرض کچھ بھی حال ہو عاشق کا مذہب یہ ہونا چاہیے #
        زندہ کنی عطائے تو
        ور بکشی فدائے تو
        جاں شدہ مبتلائے تو
        ہر چہ کنی رضائے تو
    (ترجمہ: آپ زندہ رکھیں آپ کی مرضی مار دیں تو میں آپ پر قربان۔ میری جان تو آپ کے عشق میں مبتلا ہے ،جو آپ کی مرضی ہو کریں۔)

اور یہ مذہب ہونا چاہیے #
        ناخوش تو خوش بود بر جان من
        دل فدائے یار دل رنجان من
    (ترجمہ: جس بات سے تو خوش ہو، چاہے مجھے ناپسند ہو میں وہ کرنے کو تیار ہوں، کیوں کہ میرا دل تجھ پر قربان ہے۔)

طالبِ لذات طالبِ حق نہیں ہے 
اور جو شخص اس کے خلاف لذات کا طالب ہے وہ حق تعالیٰ کا طالب نہیں کیوں کہ لذت عین حق تو ہے نہیں، بس عاشق صادق و ہی ہے جوحق کا طالب ہو، نہ احوال کا نہ کیفیات کا ،کیوں کہ یہ باتیں نہ موعود ہیں، نہ لازم ہیں، کبھی ہوتی ہیں ،کبھی نہیں ہوتیں ،اس لیے ان کی طرف التفات ہی نہ کرنا چاہیے۔ توجہ صرف اُس چیز کی طرف کرو جو بوجہ موعود ہونے کے مرتب ہوتی ہے ،وہ کیا ہے توجہ حق الی العبد، چناں چہ حضرت حافظ محمد ضامن صاحب رحمة الله علیہ اسی کی نسبت فرماتے تھے کہ ہمارا مقصود تو ذکر سے یہ ہے ﴿فاذکرونی اذکرکم﴾ حق تعالیٰ فرماتے ہیں” تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا“ یہ ایسا ثمر ہے جس میں بوجہ وعدہ کے کبھی تخلف ہی نہیں ہوتا۔ یعنی ہم الله تعالیٰ کو اس لیے یاد کیا کریں کہ وہ ہمیں یاد کریں گے اس کے سوا حیات دنیا میں کس اور ثمر کے ہم طالب نہ ہوں، باقی اصل ثمرہ رضا ودخولِ جنت وہ تو آخرت میں ہو گا ہی، بس او رکیا چاہیے۔ ایسا شخص جس کا یہ مطلوب ہو کبھی پریشان نہیں ہوتا۔ یہ ہے حقیقت سلوک کی، مگر ہم اس میں بھی بدوں اتباع ہویٰ کیے ہوئے نہ رہے۔ بھلا بتلائیے جس طریق کا مبنی محض خلوص ہو جب اس میں بھی نفس کا اتباع ہو رہا ہے جیسا ابھی اوپر بیان ہوا ہے کہ مخترع ثمرات کو مقصود بنا رکھا ہے تو دیکھیے ہماری حالت کہاں سے کہاں پہنچی ہے؟

ہویٰ کی تعریف اور اُس کا اطلاق
پس اسی کی شکایت ہے اس آیت میں ﴿ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من الله﴾ ہر چند کہ ہویٰ لغةً خواہش محمود ومذموم دونوں کو عام ہے، مگر اکثر ہویٰ کا اطلاق ہوائے مذموم ہی پر ہوتا ہے، اس صورت میں ﴿بغیر ھدی من الله﴾ قید واقعہ ہو گی او رکبھی ہویٰ کا اطلاق ہوائے محمود پر بھی آتا ہے، چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ بعض عورتیں آپ سے کہتی تھیں کہ ہم نے اپنے نفس کو آپ کے لیے ہبہ کیا، یعنی اپنے کو بلا مہر کے آپ کے نکا ح میں دیتے ہیں۔ کیوں کہ آپ کا نکاح بلا مہر بھی صحیح ہو جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے ان عورتوں کو ایک بار بے حیا کہہ دیا، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ﴿وامراة مؤمنة ان وھبت نفسھا للنبی ان اراد النبی﴾ الی قولہ تعالیٰ ﴿ ترجی من تشاء منھن وتؤوی الیک من تشاء﴾ اس پر حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے آپ سے عرض کیا ”مااری ربک الا یسارع فی ھواک“ یہاں بھی لفظ ” ھوی“ آیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خواہش محمود ہی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ ”ھوی“ کا اطلاق ہوائے محمود پر بھی ہوتا ہے ۔ اس صورت میں ﴿بغیر ھدی من الله﴾ قید احترازی ہو گی۔

ھویٰ کی اقسام
فیصلہ یہ ہو گا کہ ہویٰ دو قسم کی ہے، ایک وہ جو تابع ہدی کے ہو اور ایک وہ جو تابع ہدیٰ کے نہ ہو۔ پس جو ہویٰ تابع ہدیٰ کی ہو وہ ہویٰ اہل الله کی ہے، ان کا نفس مطمئنہ ہوتا ہے، جس کا تعلق رضائے حق سے ہو چکا ہے۔

نفسِ مطمئنہ کا حال
یہ وہ بات ہے جو بہلول  کی حکایت میں ہے، کسی بزرگ سے انہوں نے پوچھا کہ کس حال میں ہو ؟ ان بزرگ نے فرمایا اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو جس کی خواہش کے خلاف دنیا میں کچھ بھی نہ ہوتا ہو ، کہا یہ کیسے ؟ فرمایا یہ ایسے کہ میں نے اپنی خواہش کو حق تعالیٰ کی خواہش میں فنا کر دیا ہے، اب کوئی واقعہ میری خواہش کے خلاف ہوتا ہی نہیں، پھر مجھے راحت ہی راحت ہے، رنج کیوں ہو؟ واقعی جس نے اپنی خواہش کو فنا کر دیا ہو ۔ خدا تعالیٰ کی خواہش میں جو حاصل ہے فانی فی الحق ہونے کا وہ ہر حال میں خوش رہتا ہے اور اس صورت میں جو چیز خدا کی خواہش اور ارادہ کے موافق ہو گی وہ اس کی خواہش کے موافق بھی ہو گی، پس دنیا میں تمام حوادث اور تمام واقعات اس کی مرضی کے موافق ہی ہوں گے پھر اس کو رنج کیوں ہو گا ؟ اس کا نفس ،نفس مطمئنہ ہو گا اور وہ کس پر مطمئن ہو گا؟ تعلق بہ محبوب پر مطمئن ہو گا، جیسا ارشاد ﴿الابذکر الله تطمئن القلوب﴾ ․

اسی واسطے وہ کسی حالت اور کسی چیز سے دل گیر نہیں ہو گا، کیوں کہ کوئی چیز اس کے خلاف ہی نہیں ہوتی ۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ دعا نہیں کرتا، وہ دعا ضرور کرتاہے ،کیوں کہ وہ دعا خود حق تعالیٰ کی خواہش کے موافق ہے اس دلیل سے۔



دُعا پر ایک اشکال اور اس کا جواب
یہاں ایک اشکال جو بہ ظاہر واقع ہوتا تھا رفع ہو گیا اور اسی اشکال کی وجہ سے بعض اہلِ حال دعا کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اشکال کی تقریر یہ ہے کہ جس بات کے لیے دعا کی جاتی ہے دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ خدا تعالیٰ کی خواہش وارادہ کے موافق ہے یا مخالف ہے، اگر موافق ہے تو اس کا آپ ہی ظہور ہو جائے گا، دعا کی کیا حاجت ہے؟ او راگر مخالف ہے تو ایسی بات کی دعا کرنا گستاخی ہے۔

جواب یہ ہے کہ جس بات کا خلاف ارادہٴ حق ہونا متیقن نہ ہو، بلکہ محتمل بین الامرین ہو، اس کے لیے دعا کرنا نصوص میں مامور بہ ہے اور ماموربہ کا بجالانا خود حق تعالیٰ کی خواہش کے موافق ہے، پس دعا کرنا خلاف خواہش حق نہ ہوا، ہاں! جس امر کا خلاف خواہش حق ہونا متیقین ہو ،اس کے لیے دعا کرنا ممنوع ہے اور خلاف خواہش ہونے کے علم کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ کسی امر حرام اور ممنوع کے لیے دعا کی جائے، جس کا خلاف خواہش حق ہونا نصوص سے معلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ مطلوب حرام او رممنوع تو نہیں، مگر اس کا خلاف خواہش حق ہونا دلیل صحیح سے معلوم ہو چکا ہے، جیسے کوئی اپنی نبوت کی دعا کرنے لگے۔

سوال وجواب
اب ایک سوال باقی رہا ،وہ یہ کہ جس امر کا خلاف منشا حق ہونا متیقن نہیں، جس کے لیے دعا جائز ہے، اگر اس کے لیے دعا کی گئی اور عین دعا کی حالت میں یہ احتمال ہے کہ قبول نہ ہو تو اس وقت دوسرا اشکال ہو گا، وہ یہ کہ دعا تو طلب ہے اور طلب کے وقت ایک شق کو ترجیح دے رہا ہے اور تفویض میں دونوں شقیں مساوی تھیں تو دعا وتفویض کیسے جمع ہوئے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ عارف عین دعا کی حالت میں قبول وعدم قبول دونوں پر دل سے راضی ہوتاہے، مگر طلب میں ایک کو ترجیح دینا یہ بھی رضا ہی کا اتباع ہے۔ تو اس وقت بھی در حقیقت وہ دونوں احتمال پر رضا ہی کا طالب ہے، اگر دعا قبول ہوئی تو ثواب بھی ملے گا او رمراد ظاہری بھی پوری ہو گی اور قبول نہ ہوئی تو اجرو ثواب سے خوش ہو گا او رمراد حق کے پورا ہونے پر اپنی مراد سے زیادہ خوش ہو گا #
        اگر مرادت را مذاق شکر ست
        بے مرادی نے مراد دلبر ست
ترجمہ:” اگر میری خواہش پوری ہو جائے تو شکر کا موقع ہے او راگر خواہش پوری نہ ہوئی تو بھی میری مراد بر آئی کہ محبوب کی خواہش پوری ہو گئی۔“

پس طلب ودعا اور تفویض ورضا دونوں اس طرح جمع ہوگئیں یہاں مضمون مقصود ختم ہو گیا۔

فنا فی الله کا طریقہ
اب صرف مقصود کے متعلق دو تین مختصر جملے باقی رہ گئے ہیں، وہ معروض ہیں ایک یہ کہ یہ تو معلوم ہو گیا کہ خواہش کے فنا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب یہ بات معلوم کرنا رہ گئی کہ فانی ہونے کی کیا صورت ہے؟ اس کو مولانا فرماتے ہیں #
        با ہواؤ آرزو کم باش دوست
        چوں یضلک عن سبیل الله اوست
ترجمہ:” خواہشات نفسانی اور آرزؤوں کو کم کر وکیوں کہ یہ تمہیں الله کے راستے سے بھٹکا دیں گی۔“

حاصل یہ ہوا کہ ہویٰ کے فانی ہونے کی صورت یہ ہے کہ اس کا اتباع نہ کرے، اس سے وہ مضمحل ہو جائے گا، اضمحلال فنا ہے، پھر اس کی مقاومت آسان ہوجائے گی ،اس کا کسی قدر بیان اثناءِ وعظ بھی ہو چکا ہے، اس سے ” ہواؤ آرزو“ کے فنا کرنے کا حاصل تو معلوم ہو گیا، آگے اس کے طریقہ کا بیان ہے #
        ایں ہوا راہ نشکند اندر جہاں
        ہیچ چیزے جز کہ سایہ ہمرہاں
ترجمہ:” خواہشات نفسانی کو کم کرنے کی کوئی صورت نہیں، سوائے اس کے کہ راہ سلوک میں کوئی ہم سفر راہ نما ساتھ ہو۔“

یعنی خواہش نفسانی کا شکستہ کرنے والا رفیق، طریق کے سوا کوئی نہیں، آگے رفیقِ طریق کی تعیین فرماتے ہیں #
        نفس نتواں کشت الا ظل پیر
        دامن آں نفس کش را سخت گیر
ترجمہ:” نفس کی قوت کو توڑنے والا سوائے شیخِ طریقت کے کوئی نہیں، جب میسر آجائے اس کے دامن کو سختی سے پکڑ لو۔“

یہ ہے وہ رفیقِ طریق یعنی شیخِ کامل پس فانی بننے کی صورت ہے کہ شیخِ کامل کا دامن پکڑ لو۔

بیعت ضروری نہیں کام کرنا ضروری ہے 
مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ کسی کے مرید ہی ہو جاؤ۔ اس معاملہ میں بہت لوگ بڑی غلطی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ لوگ بعیت کو ضروری یعنی شرط اور کافی یعنی علت سمجھتے ہیں کام نہیں کرتے یا بدوں بیعت کام کو نافع نہیں سمجھتے۔ پس خوب سمجھ لو کہ شیخ کا اتباع ضروری ہے، بیعت ہونا ضرور ی نہیں، یعنی اس پر اصرار نہ کرو کہ بیعت ہی ہو تو کام کروں گا ۔ بس کام کرنا چاہیے اور شیخ سے کام لینا چاہیے۔

مشائخ کا فرضِ منصبی
اب کام کی تفصیل بھی سن لو! شیخ کے تو دو کام ہیں، ایک اصلاح، ایک ذکر کی تعلیم ۔او ران میں بھی اصل کام اصلاح ہی ہے، ذکر اس کی اعانت وبرکت کے لیے ہے، باقی اصلاح کیا چیز ہے؟! سو وہ نفس کو پاک کرنا ہے ذمائم سے، یعنی تربیت باطنی کرنا ،مگر اس کی اعانت کے لیے شیخ ذکر الله کی تعلیم کرتا ہے یوں آدمی اصلاح کی خود بھی تدبیر کر سکتا ہے، مگر شیخ کی تعلیم میں غیبی برکت ہوتی ہے۔ باقی نِرا وظیفہ بدوں اصلاح کے مطلق کافی نہیں ہے، اس خیال کی بھی اصلاح ضروری ہے، بہت لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ کہ نرا وظیفہ ہی اصلاح کے لیے کافی ہے، حالاں کہ اصلاح کی حقیقت ہی ہویٰ کا نفس سے نکلنا ہے اگر ہویٰ نفس کے اندر ہے تو فرمائیے نِرا وظیفہ کیسے کافی ہو گا؟! یہ کام تو شیخ کا تھا۔

مریدین کی ذمہ داری
اور مرید کا اصل کام ہے اتباع او راتباع کی تکمیل کے لیے دوسرا کام ہے شیخ کو حالات کی اطلاع۔ پس میں خلاصہ اور عطر تصوف کا بتلائے دیتا ہوں کہ اصل مقصود ہویٰ کو ہدیٰ کے تابع کرنا ہے اور یہ جب ہو گا کہ نفس سے ہوا نکل جائے ، یعنی ہوائے نفس مغلوب ہو جائے اور یہ بات شیخ کے واسطہ سے حاصل ہو جاتی ہے، پس یہ ہے خلاصہ۔

مطالعہ مواعظ وکتب قائم مقام شیخ ہیں
دوسرا جملہ یہ کہ اگر کسی کو شیخ کامل نہ ملے تو وہ یہ تدبیر کرے کہ مشائخ کے ملفوظات واحوال کا مطالعہ کرے او رکتابوں سے فنائے نفس کا طریقہ معلوم کرکے عمل کرے، مگر شیخ کی تلاش میں برابر رہے، کیوں کہ کتابوں کے مطالعہ سے شیخ کے برابر نفع نہیں ہو سکتا، پس جس کو شیخ میسر ہو وہ تو ایسا ہے جیسے طبیب سے علاج کرانے والا۔ او رجس کو نہ ملے وہ خود کتابوں میں تدابیر دیکھ کر ایسا علاج شروع کر دے جس میں خطرہ نہ ہو، لیکن ایسا نفع تھوڑا ہی گا، جیسا طبیب سے رجوع کرنے والے کو ہوتا ہے۔ غرض مشائخ کا فرضِ منصبی نفس کی اصلاح ہے یعنی دواعی ذمیمہ کا مغلوب ہوجانا اور جیسے طلب ظاہر میں امراض جسم کے مغلوب کرنے کی تدابیر ہیں اور یہی معنی ہیں صحت کے گو د واعی مرض کے یعنی اخلاط وغیرہ بدن کے اندر باقی رہتے ہیں، مگر اعتدال کے سبب مضر اثر نہیں کرتے ۔اسی طرح طب باطن میں امراض نفس کے مغلوب کرنے کی ایسی تدابیر ہیں جن کے استعمال سے دواعی ذمیمہ کا اضمحلال ہو جاتا ہے ۔ شیخ یہی تدابیر بتلاتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتا اور یہ تدابیر تم خود بھی اپنے مطالعہ سے معلوم کر سکتے تھے، مگر تمہارا معلوم کرنا ویسا ہی ہو گا جیسا غیر طبیب کتب طب سے طریق علاج معلوم کرتا ہے اور دونوں کا فرق ظاہر ہے۔

حاصلِ تدابیر
او ران مجموعی تدابیر کا حاصل یہ ہے کہ اول تو علم شریعت حاصل کرے، تاکہ افعال واخلاق کا بھلا اور بُرا ہونا معلوم ہو کہ یہ چیز بُری ہے او ریہ اچھی ہے۔ پھر جو بُری خواہش نفس کے اندر پیدا ہو اس کے مقتضا پر عمل نہ کرے اگر پھر خواہش پیدا ہو پھر ایسا ہی کرے، چند روز میں تقاضا جاتا رہے گا اور یہ زوال تقاضا ہر شخص کی استعداد کے موافق مختلف طور پر ہو گا ( مثلاً کسی کو تین بار اس پر عمل کرنے میں نفع ہو گا ،کسی کو زیادہ میں، کسی کو کم میں ) اگر کچھ مدت تک ایسا کیا جائے تو مقاومت نفس آسان ہوجائے گی، یہ طریقہ دونوں شقوں کے ساتھ میں نے اس لیے بیان کر دیا کہ بعض دفعہ شیخ کامل نہیں ملتا تواس صورت میں طالب کو کیا کرنا چاہیے؟ پس وہ یہ دو کام کرے، ایک تحصیل علوم، دوسرے ہوائے مذموم میں نفس کی مخالفت، مگر یہ لازم ہے کہ شیخ کی تلاش میں رہے۔

شیخِ کامل کی علامتیں
تیسرا جملہ یہ کہ یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ شیخ کامل کسے کہتے ہیں؟ پس سنیے کہ شیخ کامل کی سات علامتیں ہیں۔

ایک علامت یہ ہے کہ اس کو علم دین بقدر ضرورت حاصل ہو ۔ ایک یہ کہ علمائے حق سے اُس کو مناسبت ہو ۔ ایک یہ کہ جتنا علم رکھتا ہو اس پر عمل کا اہتمام ہو۔ چوتھے اس کی صحبت میں یہ برکت ہو کہ روز بروز دنیا سے دل سرد ہونے لگے او رحق تعالیٰ سے محبت بڑھنے لگے ۔ پانچویں دقیق علامت ہے وہ یہ کہ اہل علم او راہل فہم کی توجہ اس کی طرف زیادہ ہو یعنی علما اور صلحا کا میلان اس کی طرف زیادہ ہو،ا مرا او رعوام الناس کا میلان زیادہ نہ ہو چھٹے یہ کہ وہ کسی شیخ کامل کا مجاز ہو، یعنی کسی مشہور بزرگ نے اس کو بیعت وتلقین وغیرہ کی اجازت دی ہو۔ ساتویں یہ کہ اس کے اصحاب میں زیادہ کی حالت اچھی ہو ۔ یعنی اس کے ہاتھ سے لوگوں کو شفا حاصل ہوتی ہو اور طریق باطن میں شفا اسی کا نام ہے کہ اپنی حالت شریعت کے موافق ہو جائے، مولانا ان ہی شرائط کا خلاصہ فرماتے ہیں #
        کار مرداں روشنی وگرمی ست
        کار دوناں حیلہٴ وبے شرمی ست
روشنی سے مراد معرفت ہے او ر گرمی سے مراد محبت ہے، یعنی شیخ کامل وہ ہے جسے معرفت بھی حاصل ہو اور صحبت بھی۔ ایک مقام پر مصنوعی پیروں کے بارے میں فرماتے ہیں #
        اے بسا ابلیس آدم روے ہست
        پس بہر دستے نباید داددست
ترجمہ:” کبھی کبھی شیاطین بھی مشائخ کی شکل بنا لیتے ہیں، پس ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے سے بچو۔“

شیخ کے حقوق
اور جب شیخ کامل مل جائے تو اس کے حقوق کے متعلق فرماتے ہیں #
        نفس نتواں کشت الا ظل پیر
        دامن آں نفس کش را سخت گیر

اسی کو شیخ فرید عطار رحمة الله علیہ فرماتے ہیں #
        در ارادت باش صادق اے فرید
        تا بیابی گنج عرفاں را کلید
        بے رفیقے ہر کہ شد در راہ عشق
        عمر بگذشت ونشد آگاہ عشق
ترجمہ:” اے فرید! واردات کے لیے کسی پیر صادق کا ہاتھ تھام لو کہ وہ تمہیں علم وعرفان کے خزانوں کی چابیاں تھما دے۔ بغیرراہ نما کے جس نے بھی اس راہِ عشق میں قدم رکھا عمر گزر گئی، لیکن وہ اسرارِ عشق سے آگاہ نہ ہوا۔“

اور شیخ کے او ربھی حقوق ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ اس کا جی برا نہ کرے ،اس کی کوشش کرے کہ اس کا دل میلانہ ہو، یہاں تک کہ اگر وہ ادب وتعظیم سے خوش ہو تو اس کی تعظیم کرے اور جو تعظیم نہ کرنے سے خوش ہو تو تعظیم نہ کرے، یہ نہ ہو کہ اپنی مرضی کے موافق عمل کرے اور شیخ کی مرضی کا اتباع نہ کرے، یہ حاصل ہے اتباعِ شیخ کا۔

خلاصہ وعظ
خلاصہ تمام بیان کا یہ ہے کہ اتباع ہویٰ کو ترک او راتباع ہدی کو لازم کرنا چاہیے ۔ یہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے او راسی سے اصلاح ہو سکتی ہے، بدوں اس کے منزل مقصود تک پہنچنا سخت دشوار ہے اور یہ سمجھ لیجیے کہ بدوں کیے ہوئے کوئی کام نہیں ہوتا، اس لیے کام کرنا او رہمت سے کام لینا چاہیے، اس ہمت میں ہماری حالت یہ ہے کہ دنیوی امور میں تو جان لڑا دیتے ہیں اور دنیوی مقاصد کے حاصل کرنے میں عمریں ختم کر دیتے ہیں، مگر دین کے بارے میں دیکھا جاتا ہے کہ عام طور سے قصد ہی نہیں کرتے، بس یہ چاہتے ہیں کہ گھر بیٹھے بٹھائے دین مل جائے، کچھ کرنا نہ پڑے ۔ تو سمجھ لو کہ بدوں سعی کے کچھ نہیں ہوتا، عادة الله یوں ہی جاری ہے ۔ اب میں بیان کو ختم کرتا ہوں۔

دعا کیجیے کہ خدا تعالیٰ عمل کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ آمین

No comments:

Post a Comment