قرآن مجید و فرقان حمید:
الله کے نام سے
|
تعوذ
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں الله کی شیطان مردود سے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله من الشیطان الرجیم﴾․(سورة النحل، الایة:98)
یعنی جب تو قرآن پڑھے تو شیطان مردو سے الله کی پناہ مانگ۔
کیوں کہ قرآن الله کا کلام ہے، جو کہ سراسر نور ہی نور ہے ، لہٰذا دل کو ایسے نور سے منور کرنے کے لیے شرورو وساوس شیطانیہ وغیرہ سے پاک کرنا ضروری ہے۔
اسی لیے تلاوت کلام الله سے قبل اس کے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، کیوں کہ دفع مضرت جلب منفعت پر مقدم ہے۔
احکام تعوذ
جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ تلاوت قرآن سے پہلے ”اعوذبالله من الشیطان الرجیم“ پڑھنا مسنون ہے، خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں، البتہ نماز کی پہلی رکعت کے علاوہ دیگر رکعات میں اس کا پڑھنا مسنون نہیں۔ ( البحر الرائق: کتاب الصلاة، صفة الصلاة، 542/1، رشیدیہ کذا فی فتح القدیر: کتاب الصلاة، صفة الصلاة:428/1، رشیدیہ)۔
تسمیہ
بسم الله الرحمن الرحیم
ترجمہ: شروع الله کے نام سے، جو بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے۔
بسم الله میں ”باء“ استعانت کے لیے ہے،جو” أقرأ“ یا ”أشرع“ سے متعلق ہے ۔ تقدیر کلام یوں ہے بسم الله أشرع یا بسم الله أقرأ۔ (الدر المصون فی علوم الکتاب المکنون: الفاتحہ)
الله: اس ذات کا عَلَم ( مخصوص نام) ہے جو تمام کی تمام صفات کمالیہ سے متصف ہے۔ ( معجم مفردات الفاظ القرآن: حرف الألف)
الرحمن الرحیم:
یہ دونوں لفظ”رحمة“ سے مشتق ہیں اور ”رحمة“ کا معنی”رقة القلب“ ہے ۔( معجم مفردات الفاظ القرآن: حرف الراء)
یہ دونوں الله کی صفات ہیں او رالله کی تمام صفات کا اطلاق اس کی ذات پر حقیقی ہے ۔ لہٰذا جس طرح ذات باری تعالیٰ سماعت کے لیے کان، بصارت کے لیے آنکھ او رعلم کے لیے حافظہ کی محتاج نہیں، اسی طرح وہ ذات رحمت کے لیے رقت قلبی کی بھی محتاج نہیں، بلکہ اس کی تمام صفات اس کے ساتھ اسی طرح قائم ہیں جیسا کہ اس کے شایان شان ہے گو اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہ ہو۔
الرحمن میں مبالغہ زیادہ ہے، کیوں کہ اس کے معنی عام الرحمة کے ہیں او رعموم رحمت بلاتفریق مومن وکافردنیا ہی میں ہے اور ”الرحیم“ تام الرحمة کے معنی میں ہے او راتمام رحمت صرف مؤمنین کے ساتھ آخرت میں خاص ہے ، اسی بنا پر کہا گیا ہے ”یا رحمن الدنیا ورحیم الاٰخرة“ (عمدة الحفاظ: حرف الراء، 80/2، دارالکتب العلمیہ)
رحمن الله کا مخصوص نام ہے، غیر الله پر اس کا اطلاق جائز نہیں، جب کہ ”رحیم“ کا اطلاق غیر الله کے لیے جائز ہے ، قرآن مجید میں رسول کی صفت بیان کرتے ہوئے﴿بالمؤمنین رؤوف رحیم﴾ (سورة التوبة، الایة:128) فرمایا گیا ہے ۔ ( عمدة الحفاظ: حرف الراء،80/2)
بسم الله الرحمن الرحیم
سورتوں کا جز ہے یا نہیں؟
اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ”بسم الله الرحمن الرحیم“ قرآن میں داخل ہے اور سورہٴ نمل میں آیت (30) ﴿إنہ من سلیمان وانہ بسم الله الرحمن الرحیم﴾ کا جز ہے۔
البتہ سورتوں کی ابتدا میں لکھی ہوئی ” بسم الله“ ان سورتوں میں داخل ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔
امام شافعی، عبدالله بن المبارک او رعبدالله بن عباس کے ہاں ”بسم الله“ سورہٴ برأت کے علاوہ تمام سورتوں کا جز ہے۔
امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ صرف سورہٴ فاتحہ کا جز ہے، اس کے علاوہ کسی دوسری سورة کا جز نہیں۔
امام مالک کے نزدیک یہ نہ کسی سورة کا جز ہے اور نہ کامل ومستقل آیت ہے، بلکہ صرف سورہٴ نمل کی آیت کا جز ہے، جو یہاں بطور تبرک ذکر کی گئی ہے۔ (الجامع لأحکام القرآن لأبی عبدالله القرطبی:93/1، دارالفکر )
جب کہ احناف کے ہاں ” بسم الله“ کسی سورة کا جز نہیں، بلکہ یہ ایک مستقل آیت ہے، جو سورتوں کے درمیان فصل کے لیے نازل کی گئی۔
امام ابوبکر الجصاص رحمہ الله نے اس قول کو تفصیلی دلائل سے مزین کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں : (أحکام القرآن لأبی بکر الجصاص الرازی:9/1، دارالکتاب العربی)
ایک اشکال اور اس کا جواب
اس مقام پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ جب ”بسم الله الرحمن الرحیم“ قرآن کی مستقل آیت ہے تو لازم آئے گا کہ اس کا انکار کرنے والا کافر ہو۔
کیوں کہ قرآن کا ثبوت قطعی ہے لہٰذا اس کا انکار کرنے والا قطعیت کا منکر ہو گا ، جب کہ امام مالک رحمہ الله جیسے جلیل القدر امام اس کے آیت ہونے کا انکار کرتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ”بسم الله الرحمن الرحیم“ کے قرآن ہونے میں کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ قرآن میں داخل ہے اور آیت نمل انہ من الی آخرہ کا جزو ہے۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے۔
پس تسمیہ قرآن میں جہاں بھی تواتر کے ساتھ لکھا ہوا ہے امام مالک بھی اس کی قرآنیت ( قرآن میں سے ہونے) کے معترف ہیں۔
ہاں البتہ ان کی کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ سورہٴ نمل کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں لکھی بسم الله کو خارج ازقرآن مانتے ہیں۔
لیکن یہ محض غلط فہمی ہے ، اس غلط فہمی کی بناء یہ ہے کہ سورتوں کی ابتدا میں لکھی ”بسم الله“ کے بارے میں دو طرح کا اختلاف ہے۔
ایک اختلاف تو یہ ہے کہ یہ ان سورتوں کا جز ہے یا نہیں؟
اور دوسرا اختلاف یہ ہے کہ ”بسم الله“ کامل ومستقل آیت ہے یا نہیں؟
امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ ” بسم الله“ نہ سورتوں کا جز ہے او رنہ ہی کامل ومستقل آیت ہے، بلکہ اسے جز آیت کی حیثیت سے بطور تبرک ذکر کیا گیا ہے ۔
اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ سورتوں کی ابتدا میں لکھی ”بسم الله“ امام مالک کے نزدیک قرآن میں داخل نہیں۔
حالاں کہ امام مالک رحمہ الله سے ایسی کوئی بھی روایت ثابت نہیں۔
دیکھیے قاضی ابن رشد القرطبی ( جو کبار ومحققین علمائے مالکیہ میں سے ہیں) ”بسم الله “ کے بارے میں صرف دو قسم کے اختلاف ( جو ہم نے ذکر کیے ) نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
” لیکن اس ( بسم الله) کے مسئلہ میں باعث تعجب بات یہ واقع ہوئی کہ لوگ کہتے ہیں بسم الله میں یہ اختلاف بھی ہے کہ یہ سورہٴ نمل کے علاوہ بھی قرآن میں داخل ہے یا صرف سورہٴ نمل میں ہی داخل قرآن ہے؟
اور امام شافعی پر رد کرتے ہوئے یہ نقل کرتے ہیں کہ اگر بسم الله سورہٴ نمل کے علاوہ بھی قرآن کا جز ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم اسے ضرور بیان فرماتے، اس لیے کہ قرآن تواتر کے ساتھ منقول ہے ۔
اور ان کا خیال ہے کہ یہ قطعی دلیل ہے ۔
اور ابو حامد نے اپنے مسلک کی تائید یہ کہہ کر حاصل کی ہے کہ اگر سورہٴ نمل کے علاوہ یہ قرآن کا جز نہ ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر واجب تھا کہ اس کو بیان کرتے ۔ ( جب بیان نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ بسم الله سورہٴ نمل کے علاوہ بھی قرآن کا جز ہے)۔
یہ سب غیر معقول اور نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
اس لیے کہ بعینہ ایک ہی آیت کے بارے میں یہ کہنا کیسے جائز ہے کہ یہ ایک جگہ داخل قرآن اور دوسری جگہ خارج از قرآن ہے؟
بلکہ یوں کہا جائے کہ” بسم الله“ کا قرآن میں ہونا ثابت ہے جہاں بھی ذکر کی گئی ہے اور یہ سورہٴ نمل کی آیت ہے۔
او رکیا یہ ( بسم الله ) سورہٴ فاتحہ اور ان تمام سورتوں، جن کا یہ افتتاح کرتی ہے، کا جز ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے اور مسئلہ میں دونوں احتمال ہیں۔ وہ اس لیے کہ یہ قرآن میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ تمام سورتوں کا افتتاح بھی کرتی ہے۔
اس پر غور کرو، کیوں کہ یہ بالکل ظاہر ہے ، والله أعلم۔“( بدایة المجتھد ونھایة المقتصد لابن رشد:219/2،ط: عباس احمد باز)
دیکھیں امام مالک رحمہ الله کی طرف منسوب قول کو ” خبط“ اور ” غیر مفہوم“ کہہ کر رد کر دیا۔
معلوم ہوا کہ ام مالک رحمہ الله کی طرف سورہٴ نمل کے علاوہ لکھی گئی ” بسم الله“ کو خارج از قرآن بتلانے کی نسبت صحیح نہیں۔
اسی وجہ سے کبار مفسرین یعنی حافظ ابن کثیر، قاضی بیضاوی، علامہ آلوسی، فقیہ ابو اللیث سمرقندی، علامہ زمخشری، ابن جوزی اور قاضی ابوبکر الجصاص رحمہم الله وغیرہم اپنی تفاسیر میں بسم الله کے بار ے میں اختلافات کا تذکرہ کرنے کے باوجود ایسے کسی اختلاف کا ذکر نہیں کرتے کہ سورتوں کے اوائل میں لکھی بسم الله داخل قرآن ہے یا خارج از قرآن۔ اگر ایسا کوئی اختلاف ہوتا تو یہ مفسرین اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے ضرور ذکر کرتے۔
بلکہ ان میں سے اکثر مفسرین( دیکھیے: تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ:17/1، تفسیر کشاف، سورہٴ فاتحہ، روح المعانی، تفسیر بسم الله، تفسیر البیضاوی، سورہٴ فاتحہ) سورتوں کے اوائل میں لکھی بسم الله کے بارے میں امام ابوحنیفہ ومالک کا ایک ہی مسلک نقل کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک بسم الله سورتوں کا جز نہیں۔
بس فرق صرف اتنا ہے کہ احناف کے ہاں ”بسم الله“ کامل آیت ہے، جب کہ امام مالک کے ہاں کامل آیت نہیں، بلکہ یہاں جز قرآن کی حیثیت سے مذکور ہے۔ والله أعلم
احکام تسمیہ
تلاوت قرآن پاک اور تمام سورتوں سے قبل ”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھنا مسنون ہے، مگر سورہٴ برأت سے قبل اس کا پڑھنا مسنون نہیں۔
اور احناف کے نزدیک نماز کی تمام رکعات میں سورہٴ فاتحہ سے قبل آہستہ آواز سے تسمیہ پڑھنا سنت ہے ۔ ( البحرالرائق:کتاب الصلاة، 546/1، دارالکتب العلمیة)
اس کے علاوہ ہر کام مثلاً: کھانے پینے، لکھنے یا ذبح وغیرہ کرنے سے پہلے تسمیہ پڑھنا مسنون ہے۔
حدیث میں ہے:
”کل أمر ذی بال لایبدأ لہ فیہ ببسم الله فھو أقطع“․(روح المعانی، احکام تسمیہ،39/1، امدادیہ)
ترجمہ: ہر وہ ذی شان معاملہ جس میں بسم الله سے ابتدا نہ کی جائے بے برکت ہے۔
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں الله کی شیطان مردود سے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله من الشیطان الرجیم﴾․(سورة النحل، الایة:98)
یعنی جب تو قرآن پڑھے تو شیطان مردو سے الله کی پناہ مانگ۔
کیوں کہ قرآن الله کا کلام ہے، جو کہ سراسر نور ہی نور ہے ، لہٰذا دل کو ایسے نور سے منور کرنے کے لیے شرورو وساوس شیطانیہ وغیرہ سے پاک کرنا ضروری ہے۔
اسی لیے تلاوت کلام الله سے قبل اس کے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، کیوں کہ دفع مضرت جلب منفعت پر مقدم ہے۔
احکام تعوذ
جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ تلاوت قرآن سے پہلے ”اعوذبالله من الشیطان الرجیم“ پڑھنا مسنون ہے، خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں، البتہ نماز کی پہلی رکعت کے علاوہ دیگر رکعات میں اس کا پڑھنا مسنون نہیں۔ ( البحر الرائق: کتاب الصلاة، صفة الصلاة، 542/1، رشیدیہ کذا فی فتح القدیر: کتاب الصلاة، صفة الصلاة:428/1، رشیدیہ)۔
تسمیہ
بسم الله الرحمن الرحیم
ترجمہ: شروع الله کے نام سے، جو بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے۔
بسم الله میں ”باء“ استعانت کے لیے ہے،جو” أقرأ“ یا ”أشرع“ سے متعلق ہے ۔ تقدیر کلام یوں ہے بسم الله أشرع یا بسم الله أقرأ۔ (الدر المصون فی علوم الکتاب المکنون: الفاتحہ)
الله: اس ذات کا عَلَم ( مخصوص نام) ہے جو تمام کی تمام صفات کمالیہ سے متصف ہے۔ ( معجم مفردات الفاظ القرآن: حرف الألف)
الرحمن الرحیم:
یہ دونوں لفظ”رحمة“ سے مشتق ہیں اور ”رحمة“ کا معنی”رقة القلب“ ہے ۔( معجم مفردات الفاظ القرآن: حرف الراء)
یہ دونوں الله کی صفات ہیں او رالله کی تمام صفات کا اطلاق اس کی ذات پر حقیقی ہے ۔ لہٰذا جس طرح ذات باری تعالیٰ سماعت کے لیے کان، بصارت کے لیے آنکھ او رعلم کے لیے حافظہ کی محتاج نہیں، اسی طرح وہ ذات رحمت کے لیے رقت قلبی کی بھی محتاج نہیں، بلکہ اس کی تمام صفات اس کے ساتھ اسی طرح قائم ہیں جیسا کہ اس کے شایان شان ہے گو اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہ ہو۔
الرحمن میں مبالغہ زیادہ ہے، کیوں کہ اس کے معنی عام الرحمة کے ہیں او رعموم رحمت بلاتفریق مومن وکافردنیا ہی میں ہے اور ”الرحیم“ تام الرحمة کے معنی میں ہے او راتمام رحمت صرف مؤمنین کے ساتھ آخرت میں خاص ہے ، اسی بنا پر کہا گیا ہے ”یا رحمن الدنیا ورحیم الاٰخرة“ (عمدة الحفاظ: حرف الراء، 80/2، دارالکتب العلمیہ)
رحمن الله کا مخصوص نام ہے، غیر الله پر اس کا اطلاق جائز نہیں، جب کہ ”رحیم“ کا اطلاق غیر الله کے لیے جائز ہے ، قرآن مجید میں رسول کی صفت بیان کرتے ہوئے﴿بالمؤمنین رؤوف رحیم﴾ (سورة التوبة، الایة:128) فرمایا گیا ہے ۔ ( عمدة الحفاظ: حرف الراء،80/2)
بسم الله الرحمن الرحیم
سورتوں کا جز ہے یا نہیں؟
اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ”بسم الله الرحمن الرحیم“ قرآن میں داخل ہے اور سورہٴ نمل میں آیت (30) ﴿إنہ من سلیمان وانہ بسم الله الرحمن الرحیم﴾ کا جز ہے۔
البتہ سورتوں کی ابتدا میں لکھی ہوئی ” بسم الله“ ان سورتوں میں داخل ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔
امام شافعی، عبدالله بن المبارک او رعبدالله بن عباس کے ہاں ”بسم الله“ سورہٴ برأت کے علاوہ تمام سورتوں کا جز ہے۔
امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ صرف سورہٴ فاتحہ کا جز ہے، اس کے علاوہ کسی دوسری سورة کا جز نہیں۔
امام مالک کے نزدیک یہ نہ کسی سورة کا جز ہے اور نہ کامل ومستقل آیت ہے، بلکہ صرف سورہٴ نمل کی آیت کا جز ہے، جو یہاں بطور تبرک ذکر کی گئی ہے۔ (الجامع لأحکام القرآن لأبی عبدالله القرطبی:93/1، دارالفکر )
جب کہ احناف کے ہاں ” بسم الله“ کسی سورة کا جز نہیں، بلکہ یہ ایک مستقل آیت ہے، جو سورتوں کے درمیان فصل کے لیے نازل کی گئی۔
امام ابوبکر الجصاص رحمہ الله نے اس قول کو تفصیلی دلائل سے مزین کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں : (أحکام القرآن لأبی بکر الجصاص الرازی:9/1، دارالکتاب العربی)
ایک اشکال اور اس کا جواب
اس مقام پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ جب ”بسم الله الرحمن الرحیم“ قرآن کی مستقل آیت ہے تو لازم آئے گا کہ اس کا انکار کرنے والا کافر ہو۔
کیوں کہ قرآن کا ثبوت قطعی ہے لہٰذا اس کا انکار کرنے والا قطعیت کا منکر ہو گا ، جب کہ امام مالک رحمہ الله جیسے جلیل القدر امام اس کے آیت ہونے کا انکار کرتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ”بسم الله الرحمن الرحیم“ کے قرآن ہونے میں کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ قرآن میں داخل ہے اور آیت نمل انہ من الی آخرہ کا جزو ہے۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے۔
پس تسمیہ قرآن میں جہاں بھی تواتر کے ساتھ لکھا ہوا ہے امام مالک بھی اس کی قرآنیت ( قرآن میں سے ہونے) کے معترف ہیں۔
ہاں البتہ ان کی کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ سورہٴ نمل کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں لکھی بسم الله کو خارج ازقرآن مانتے ہیں۔
لیکن یہ محض غلط فہمی ہے ، اس غلط فہمی کی بناء یہ ہے کہ سورتوں کی ابتدا میں لکھی ”بسم الله“ کے بارے میں دو طرح کا اختلاف ہے۔
ایک اختلاف تو یہ ہے کہ یہ ان سورتوں کا جز ہے یا نہیں؟
اور دوسرا اختلاف یہ ہے کہ ”بسم الله“ کامل ومستقل آیت ہے یا نہیں؟
امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ ” بسم الله“ نہ سورتوں کا جز ہے او رنہ ہی کامل ومستقل آیت ہے، بلکہ اسے جز آیت کی حیثیت سے بطور تبرک ذکر کیا گیا ہے ۔
اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ سورتوں کی ابتدا میں لکھی ”بسم الله“ امام مالک کے نزدیک قرآن میں داخل نہیں۔
حالاں کہ امام مالک رحمہ الله سے ایسی کوئی بھی روایت ثابت نہیں۔
دیکھیے قاضی ابن رشد القرطبی ( جو کبار ومحققین علمائے مالکیہ میں سے ہیں) ”بسم الله “ کے بارے میں صرف دو قسم کے اختلاف ( جو ہم نے ذکر کیے ) نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
” لیکن اس ( بسم الله) کے مسئلہ میں باعث تعجب بات یہ واقع ہوئی کہ لوگ کہتے ہیں بسم الله میں یہ اختلاف بھی ہے کہ یہ سورہٴ نمل کے علاوہ بھی قرآن میں داخل ہے یا صرف سورہٴ نمل میں ہی داخل قرآن ہے؟
اور امام شافعی پر رد کرتے ہوئے یہ نقل کرتے ہیں کہ اگر بسم الله سورہٴ نمل کے علاوہ بھی قرآن کا جز ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم اسے ضرور بیان فرماتے، اس لیے کہ قرآن تواتر کے ساتھ منقول ہے ۔
اور ان کا خیال ہے کہ یہ قطعی دلیل ہے ۔
اور ابو حامد نے اپنے مسلک کی تائید یہ کہہ کر حاصل کی ہے کہ اگر سورہٴ نمل کے علاوہ یہ قرآن کا جز نہ ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر واجب تھا کہ اس کو بیان کرتے ۔ ( جب بیان نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ بسم الله سورہٴ نمل کے علاوہ بھی قرآن کا جز ہے)۔
یہ سب غیر معقول اور نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
اس لیے کہ بعینہ ایک ہی آیت کے بارے میں یہ کہنا کیسے جائز ہے کہ یہ ایک جگہ داخل قرآن اور دوسری جگہ خارج از قرآن ہے؟
بلکہ یوں کہا جائے کہ” بسم الله“ کا قرآن میں ہونا ثابت ہے جہاں بھی ذکر کی گئی ہے اور یہ سورہٴ نمل کی آیت ہے۔
او رکیا یہ ( بسم الله ) سورہٴ فاتحہ اور ان تمام سورتوں، جن کا یہ افتتاح کرتی ہے، کا جز ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے اور مسئلہ میں دونوں احتمال ہیں۔ وہ اس لیے کہ یہ قرآن میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ تمام سورتوں کا افتتاح بھی کرتی ہے۔
اس پر غور کرو، کیوں کہ یہ بالکل ظاہر ہے ، والله أعلم۔“( بدایة المجتھد ونھایة المقتصد لابن رشد:219/2،ط: عباس احمد باز)
دیکھیں امام مالک رحمہ الله کی طرف منسوب قول کو ” خبط“ اور ” غیر مفہوم“ کہہ کر رد کر دیا۔
معلوم ہوا کہ ام مالک رحمہ الله کی طرف سورہٴ نمل کے علاوہ لکھی گئی ” بسم الله“ کو خارج از قرآن بتلانے کی نسبت صحیح نہیں۔
اسی وجہ سے کبار مفسرین یعنی حافظ ابن کثیر، قاضی بیضاوی، علامہ آلوسی، فقیہ ابو اللیث سمرقندی، علامہ زمخشری، ابن جوزی اور قاضی ابوبکر الجصاص رحمہم الله وغیرہم اپنی تفاسیر میں بسم الله کے بار ے میں اختلافات کا تذکرہ کرنے کے باوجود ایسے کسی اختلاف کا ذکر نہیں کرتے کہ سورتوں کے اوائل میں لکھی بسم الله داخل قرآن ہے یا خارج از قرآن۔ اگر ایسا کوئی اختلاف ہوتا تو یہ مفسرین اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے ضرور ذکر کرتے۔
بلکہ ان میں سے اکثر مفسرین( دیکھیے: تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ:17/1، تفسیر کشاف، سورہٴ فاتحہ، روح المعانی، تفسیر بسم الله، تفسیر البیضاوی، سورہٴ فاتحہ) سورتوں کے اوائل میں لکھی بسم الله کے بارے میں امام ابوحنیفہ ومالک کا ایک ہی مسلک نقل کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک بسم الله سورتوں کا جز نہیں۔
بس فرق صرف اتنا ہے کہ احناف کے ہاں ”بسم الله“ کامل آیت ہے، جب کہ امام مالک کے ہاں کامل آیت نہیں، بلکہ یہاں جز قرآن کی حیثیت سے مذکور ہے۔ والله أعلم
احکام تسمیہ
تلاوت قرآن پاک اور تمام سورتوں سے قبل ”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھنا مسنون ہے، مگر سورہٴ برأت سے قبل اس کا پڑھنا مسنون نہیں۔
اور احناف کے نزدیک نماز کی تمام رکعات میں سورہٴ فاتحہ سے قبل آہستہ آواز سے تسمیہ پڑھنا سنت ہے ۔ ( البحرالرائق:کتاب الصلاة، 546/1، دارالکتب العلمیة)
اس کے علاوہ ہر کام مثلاً: کھانے پینے، لکھنے یا ذبح وغیرہ کرنے سے پہلے تسمیہ پڑھنا مسنون ہے۔
حدیث میں ہے:
”کل أمر ذی بال لایبدأ لہ فیہ ببسم الله فھو أقطع“․(روح المعانی، احکام تسمیہ،39/1، امدادیہ)
ترجمہ: ہر وہ ذی شان معاملہ جس میں بسم الله سے ابتدا نہ کی جائے بے برکت ہے۔
سب تعریفیں الله کے لیے ہیں |
تفسیر سورہ فاتحہ
جمہور علماء کے نزدیک یہ سورہ مکی ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ)
سورة: یا ” سؤر“ سے مشتق ہے ، بمعنی بچا ہوا حصہ ۔سورة بھی چوں کہ قرآن کا ایسا حصہ ہے جس کی ابتدا وانتہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے توقیفاً ثابت ہے، اس لیے اس کو سورة کہا جاتا ہے۔
یا یہ لفظ” سور“ سے مشتق ہے، جو ایسی حفاظتی دیوار کو کہا جاتا ہے جو پورے شہر کو محیط ہو۔
سورة بھی چوں کہ اپنے معانی ومضامین کو محیط ہوتی ہے اسی لیے اس کو سورة کہا جاتا ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ)
الفاتحہ: یہ لفظ ”فتح یفتح“ سے مشتق ہے، بمعنی کھولنا، چوں کہ قرآن پاک کا افتتاح اسی سورة سے کیا گیا ہے، اسی لیے اس کا نام ” فاتحہ“ ہے۔ ( زاد المسیر والکشف والبیان، سورہٴ فاتحہ)
سورة الفاتحہ کے اسماء
اس سورة کے متعدد اسماء ہیں۔
فاتحة الکتاب:
کیوں کہ قرآن کریم کی ترتیب معہود کی اسی سے ابتدا کی گئی ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ھی أم القرآن وھی فاتحة الکتاب“․ (روح المعانی، سورہٴ فاتحہ)
أم الکتاب وأم القرآن:
کیوں کہ یہ سورة قرآن کے اصولی مباحث پر مشتمل ہے۔
یعنی ”الحمد“ سے ”الرحیم“ تک حمد وثنا اور ”مالک یوم الدین“ میں احوال آخرت اور﴿ایاک نعبدو وایاک نستعین﴾ میں الله کے معبود ہونے او ربندے کے اس کی طرف محتاج ہونے کا بیان اور باقی آیات میں نبوت ورسالت اور مومنین کے لیے انعام واکرام کی بشارت اور مغضوبین وضالین کے لیے جہنم کی وعید کا بیان ہے۔ (روح المعانی: سورہٴ فاتحہ)
اور أم القرآن کا مطلب بھی یہی ہے، یعنی اصول القرآن ۔
السبع المثانی: کیوں کہ یہ سات آیات پر مشتمل ہے او رہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہے۔ السبع المثانی کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ سات آیات جو مکرر ہوں۔ (بحر العلوم للسمر قندی: سورہٴ فاتحہ)
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسماء ہیں: مثلاً: کنز، وافیہ، کافیہ ، حمد، شکر، دعاء، تعلیم المسئلہ، شفاء، نور، رقیہ، القرآن العظیم۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: روح المعانی، سورہٴ فاتحہ)
اس سورة کا ایک نام سورة الصلاة بھی ہے، کیوں کہ نماز میں اس سورة کا پڑھنا امام ومنفرد کے لیے واجب ہے ، جب کہ مقتدی کے لیے خاموشی سے امام کی متابعت کرنا ہی کافی ہے۔ ( البحر الرائق: کتاب الصلاة، صفة الصلاة، 546/1، رشیدیہ)
آخر الذکر مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے، لہٰذا یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے، اس کی مکمل تفصیل تو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله کے رسالہ ”ہدیة المغتذی فی قراء ة المقتدی“ اور مولانا ابوبکر غازی پوری صاحب کی کتاب ”ارمغان حق“ اور حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب”احسن الکلام“ میں ملاحظہ فرمائیں۔
البتہ اس مقام پر صرف امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی تائید میں اختصار کے ساتھ کچھ دلائل ذکر کرنا مقصود ہے۔
مسئلہ فاتحہ خلف الإمام
امام شافعی رحمہ الله کے نزدیک مقتدی کے لیے ہر نماز میں سورہٴ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ، نماز خواہ سری ہو یا جہری ۔( بدائع الصنائع: کتاب الصلاة، واجبات الصلاة،681/1)
اور امام مالک رحمہ الله کے نزدیک مقتدی پر سری نمازوں میں فاتحہ پڑھنا واجب ہے او رجہری نمازوں میں مقتدی پر قرات فاتحہ واجب نہیں۔ ( الإستذکار لابن عبدالبر، کتاب الصلاة،506,491/1)
جب کہ احناف کے ہاں سری وجہری دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے قرات فاتحہ جائز نہیں۔
اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
قرآن مجید میں ہے:﴿واذا قریٴ القرآن فاستمعولہ وانصتوا لعلکم ترحمون﴾․ ( سورة الأعراف، الآیة:204)
ترجمہ: جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو او رخاموش رہو، شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔
روح المعانی میں ہے:” قرأ رجل من الأنصار خلف رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فنزلت: وإذا قریٴ الیٰ آخرہ“․ ( تفسیر روح المعانی، الأعراف، الآیة:204)
ترجمہ: انصار میں سے ایک شخص نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اقتداء میں قرأت کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔﴿واذا قریٴ …﴾
لہٰذا مذکورہ آیت سے مقتدی کے حق میں فاتحہ خلف الإمام کی ممانعت ثابت ہوئی۔
صحیح مسلم میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے:”إنما جعل الإمام لیؤتم بہ، فإذا کبر فکبروإذا قرأ فانصتوا“ ․ ( الجامع الصحیح لمسلم بن الحجاج، کتاب الصلاة، باب: التشھد فی الصلاة، قدیمی)
ترجمہ: امام تو اقتدا ہی کے لیے بنایا گیا ہے ، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرات کرے تو خاموش ہو جاؤ۔
سنن ابن ماجہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے : ”من کان لہ إمام، فقراء ة الإمام لہ قراء ة“۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الصلاة، ص:61، قدیمی)
جس شخص کا امام ہو تو امام ہی کی قرات اس کی قرات ہے۔
اس حدیث کے بارے میں علامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں: ”وھو حدیث صحیح عندنا، لہ طرق کثیرة جداً“ ․( سلسلة الاحادیث للألبانی،57/2، رقم:592)
ترجمہ: اور یہ حدیث ہمارے نزدیک صحیح ہے، اس کے بہت زیادہ طرق ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی متعدد روایات منع قرات فاتحہ خلف الإمام پر دلالت کرتی ہیں، جن کی تفصیل انہی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے جن کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں۔
لہٰذا آیت قرآنی اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جن احادیث میں قرأت فاتحہ خلف الإمام کی تاکید وارد ہوئی ہے وہ احادیث امام ومنفرد کے ساتھ خاص ہیں۔
چناں چہ امام احمد بن حنبل جو جلیل القدر ائمہ ومحدثین میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی ایسی احادیث کو جن میں فاتحہ خلف الإمام کی تاکید وارد ہوئی ہے امام ومنفرد ہی کے حق میں خاص قرار دیا ہے۔
ترمذی میں ہے:
” فأما احمد بن حنبل: فقال معنی قول النبی صلی الله علیہ وسلم: لاصلوٰة لمن لم یقرأ بفاتحہ الکتاب اذا کان وحدہ، واحتج بحدیث جابر بن عبدالله حیث قال: من صلی رکعة لم یقرأ فیھا بأم القرآن فلم یصل الا ان یکون وراء الإمام“․
قال احمد: ھذا رجل من أصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم ، تأول قول النبی صلی الله علیہ وسلم : لا صلوٰة لمن لم یقرأ بفاتحہ الکتاب: إن ھذا إذا کان وحدہ․ ( سنن الترمذی، کتاب الصلاة، باب ماجاء فی ترک القراء ة خلف الإمام :71/1، قدیمی)
ترجمہ: اور احمد بن حنبل نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ جو شخص سورہٴ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں اس پر محمول ہے کہ جب نماز پڑھنے والا اکیلا ہو اور انھوں نے جابر بن عبدالله رضی الله عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی رکعت پڑھی اور سورہٴ فاتحہ نہ پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی الایہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی جو روایت ترمذی وغیرہ میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے ، آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے عرض کیا گیا کہ ہم امام کے پیچھے بھی نماز پڑھتے ہیں، اس وقت کیا کریں؟ ابوہریرہ نے فرمایا کہ امام کے پیچھے تو سورہٴ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو ۔ آخری جملہ” امام کے پیچھے سورہٴ فاتحہ تم اپنے جی میں پڑھو“ حدیث مرفوع نہیں، بلکہ حضرت ابوہریرة رضی الله عنہ کا اجتہاد ہے، کیوں کہ پورے ذخیرہٴ احادیث میں کسی بھی صحیح حدیث میں صراحتاً مقتدی کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ تم امام کے پیچھے سورہٴ فاتحہ پڑھو، زیادہ سے زیادہ استثناء میں النھی( یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقتدیوں کو امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فرماتے ہوئے یہ کہنا کہ”فلا تفعلوا إلابأم القرآن“ یعنی مت پڑھو سوائے سورہٴ فاتحہ کے) کا ثبوت ہے او راس سے امر مستفاد نہیں ہوتا، اس کی مکمل تشریح انہی رسائل میں دیکھی جاسکتی ہے جن کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کے اجتہاد کے مقابلے میں ہم جابر بن عبدالله کا اجتہاد نقل کر چکے ہیں، لہٰذا آیت وروایات میں بہترین تطبیق اسی طرح ممکن ہے کہ جن روایات میں قرأت فاتحہ کی تاکید وارد ہوئی ہے وہ صرف امام ومنفرد کے حق میں خاص رکھی جائیں۔
علاوہ ازیں منع قرات خلف الإمام سولہ صحابہ کرام رضی الله عنہم سے ثابت ہے ، جن میں حضرت عمر ، علی ، عبدالله بن مسعود، عبدالله بن عمر اور زید بن ثابت رضی الله عنہم جیسے فقہائے کرام بھی شامل ہیں۔
جب کہ فاتحہ خلف الإمام کی روایات صرف چار صحابہ کرام رضی الله عنہم سے ثابت ہے، یعنی حضرت ابوہریرہ، ابوسعید خدری، عبادة بن الصامت اور عبدالله بن عباس رضی الله عنہم۔
لہٰذا اگر ترجیح دی جائے تب بھی فاتحہ خلف الإمام کی ممانعت ہی کثرت اصحاب کی وجہ سے راجح ہو گی۔
جمہور علماء کے نزدیک یہ سورہ مکی ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ)
سورة: یا ” سؤر“ سے مشتق ہے ، بمعنی بچا ہوا حصہ ۔سورة بھی چوں کہ قرآن کا ایسا حصہ ہے جس کی ابتدا وانتہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے توقیفاً ثابت ہے، اس لیے اس کو سورة کہا جاتا ہے۔
یا یہ لفظ” سور“ سے مشتق ہے، جو ایسی حفاظتی دیوار کو کہا جاتا ہے جو پورے شہر کو محیط ہو۔
سورة بھی چوں کہ اپنے معانی ومضامین کو محیط ہوتی ہے اسی لیے اس کو سورة کہا جاتا ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ)
الفاتحہ: یہ لفظ ”فتح یفتح“ سے مشتق ہے، بمعنی کھولنا، چوں کہ قرآن پاک کا افتتاح اسی سورة سے کیا گیا ہے، اسی لیے اس کا نام ” فاتحہ“ ہے۔ ( زاد المسیر والکشف والبیان، سورہٴ فاتحہ)
سورة الفاتحہ کے اسماء
اس سورة کے متعدد اسماء ہیں۔
فاتحة الکتاب:
کیوں کہ قرآن کریم کی ترتیب معہود کی اسی سے ابتدا کی گئی ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ھی أم القرآن وھی فاتحة الکتاب“․ (روح المعانی، سورہٴ فاتحہ)
أم الکتاب وأم القرآن:
کیوں کہ یہ سورة قرآن کے اصولی مباحث پر مشتمل ہے۔
یعنی ”الحمد“ سے ”الرحیم“ تک حمد وثنا اور ”مالک یوم الدین“ میں احوال آخرت اور﴿ایاک نعبدو وایاک نستعین﴾ میں الله کے معبود ہونے او ربندے کے اس کی طرف محتاج ہونے کا بیان اور باقی آیات میں نبوت ورسالت اور مومنین کے لیے انعام واکرام کی بشارت اور مغضوبین وضالین کے لیے جہنم کی وعید کا بیان ہے۔ (روح المعانی: سورہٴ فاتحہ)
اور أم القرآن کا مطلب بھی یہی ہے، یعنی اصول القرآن ۔
السبع المثانی: کیوں کہ یہ سات آیات پر مشتمل ہے او رہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہے۔ السبع المثانی کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ سات آیات جو مکرر ہوں۔ (بحر العلوم للسمر قندی: سورہٴ فاتحہ)
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسماء ہیں: مثلاً: کنز، وافیہ، کافیہ ، حمد، شکر، دعاء، تعلیم المسئلہ، شفاء، نور، رقیہ، القرآن العظیم۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: روح المعانی، سورہٴ فاتحہ)
اس سورة کا ایک نام سورة الصلاة بھی ہے، کیوں کہ نماز میں اس سورة کا پڑھنا امام ومنفرد کے لیے واجب ہے ، جب کہ مقتدی کے لیے خاموشی سے امام کی متابعت کرنا ہی کافی ہے۔ ( البحر الرائق: کتاب الصلاة، صفة الصلاة، 546/1، رشیدیہ)
آخر الذکر مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے، لہٰذا یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے، اس کی مکمل تفصیل تو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله کے رسالہ ”ہدیة المغتذی فی قراء ة المقتدی“ اور مولانا ابوبکر غازی پوری صاحب کی کتاب ”ارمغان حق“ اور حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب”احسن الکلام“ میں ملاحظہ فرمائیں۔
البتہ اس مقام پر صرف امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی تائید میں اختصار کے ساتھ کچھ دلائل ذکر کرنا مقصود ہے۔
مسئلہ فاتحہ خلف الإمام
امام شافعی رحمہ الله کے نزدیک مقتدی کے لیے ہر نماز میں سورہٴ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ، نماز خواہ سری ہو یا جہری ۔( بدائع الصنائع: کتاب الصلاة، واجبات الصلاة،681/1)
اور امام مالک رحمہ الله کے نزدیک مقتدی پر سری نمازوں میں فاتحہ پڑھنا واجب ہے او رجہری نمازوں میں مقتدی پر قرات فاتحہ واجب نہیں۔ ( الإستذکار لابن عبدالبر، کتاب الصلاة،506,491/1)
جب کہ احناف کے ہاں سری وجہری دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے قرات فاتحہ جائز نہیں۔
اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
قرآن مجید میں ہے:﴿واذا قریٴ القرآن فاستمعولہ وانصتوا لعلکم ترحمون﴾․ ( سورة الأعراف، الآیة:204)
ترجمہ: جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو او رخاموش رہو، شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔
روح المعانی میں ہے:” قرأ رجل من الأنصار خلف رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فنزلت: وإذا قریٴ الیٰ آخرہ“․ ( تفسیر روح المعانی، الأعراف، الآیة:204)
ترجمہ: انصار میں سے ایک شخص نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اقتداء میں قرأت کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔﴿واذا قریٴ …﴾
لہٰذا مذکورہ آیت سے مقتدی کے حق میں فاتحہ خلف الإمام کی ممانعت ثابت ہوئی۔
صحیح مسلم میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے:”إنما جعل الإمام لیؤتم بہ، فإذا کبر فکبروإذا قرأ فانصتوا“ ․ ( الجامع الصحیح لمسلم بن الحجاج، کتاب الصلاة، باب: التشھد فی الصلاة، قدیمی)
ترجمہ: امام تو اقتدا ہی کے لیے بنایا گیا ہے ، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرات کرے تو خاموش ہو جاؤ۔
سنن ابن ماجہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے : ”من کان لہ إمام، فقراء ة الإمام لہ قراء ة“۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الصلاة، ص:61، قدیمی)
جس شخص کا امام ہو تو امام ہی کی قرات اس کی قرات ہے۔
اس حدیث کے بارے میں علامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں: ”وھو حدیث صحیح عندنا، لہ طرق کثیرة جداً“ ․( سلسلة الاحادیث للألبانی،57/2، رقم:592)
ترجمہ: اور یہ حدیث ہمارے نزدیک صحیح ہے، اس کے بہت زیادہ طرق ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی متعدد روایات منع قرات فاتحہ خلف الإمام پر دلالت کرتی ہیں، جن کی تفصیل انہی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے جن کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں۔
لہٰذا آیت قرآنی اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جن احادیث میں قرأت فاتحہ خلف الإمام کی تاکید وارد ہوئی ہے وہ احادیث امام ومنفرد کے ساتھ خاص ہیں۔
چناں چہ امام احمد بن حنبل جو جلیل القدر ائمہ ومحدثین میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی ایسی احادیث کو جن میں فاتحہ خلف الإمام کی تاکید وارد ہوئی ہے امام ومنفرد ہی کے حق میں خاص قرار دیا ہے۔
ترمذی میں ہے:
” فأما احمد بن حنبل: فقال معنی قول النبی صلی الله علیہ وسلم: لاصلوٰة لمن لم یقرأ بفاتحہ الکتاب اذا کان وحدہ، واحتج بحدیث جابر بن عبدالله حیث قال: من صلی رکعة لم یقرأ فیھا بأم القرآن فلم یصل الا ان یکون وراء الإمام“․
قال احمد: ھذا رجل من أصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم ، تأول قول النبی صلی الله علیہ وسلم : لا صلوٰة لمن لم یقرأ بفاتحہ الکتاب: إن ھذا إذا کان وحدہ․ ( سنن الترمذی، کتاب الصلاة، باب ماجاء فی ترک القراء ة خلف الإمام :71/1، قدیمی)
ترجمہ: اور احمد بن حنبل نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ جو شخص سورہٴ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں اس پر محمول ہے کہ جب نماز پڑھنے والا اکیلا ہو اور انھوں نے جابر بن عبدالله رضی الله عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی رکعت پڑھی اور سورہٴ فاتحہ نہ پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی الایہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی جو روایت ترمذی وغیرہ میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے ، آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے عرض کیا گیا کہ ہم امام کے پیچھے بھی نماز پڑھتے ہیں، اس وقت کیا کریں؟ ابوہریرہ نے فرمایا کہ امام کے پیچھے تو سورہٴ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو ۔ آخری جملہ” امام کے پیچھے سورہٴ فاتحہ تم اپنے جی میں پڑھو“ حدیث مرفوع نہیں، بلکہ حضرت ابوہریرة رضی الله عنہ کا اجتہاد ہے، کیوں کہ پورے ذخیرہٴ احادیث میں کسی بھی صحیح حدیث میں صراحتاً مقتدی کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ تم امام کے پیچھے سورہٴ فاتحہ پڑھو، زیادہ سے زیادہ استثناء میں النھی( یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقتدیوں کو امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فرماتے ہوئے یہ کہنا کہ”فلا تفعلوا إلابأم القرآن“ یعنی مت پڑھو سوائے سورہٴ فاتحہ کے) کا ثبوت ہے او راس سے امر مستفاد نہیں ہوتا، اس کی مکمل تشریح انہی رسائل میں دیکھی جاسکتی ہے جن کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کے اجتہاد کے مقابلے میں ہم جابر بن عبدالله کا اجتہاد نقل کر چکے ہیں، لہٰذا آیت وروایات میں بہترین تطبیق اسی طرح ممکن ہے کہ جن روایات میں قرأت فاتحہ کی تاکید وارد ہوئی ہے وہ صرف امام ومنفرد کے حق میں خاص رکھی جائیں۔
علاوہ ازیں منع قرات خلف الإمام سولہ صحابہ کرام رضی الله عنہم سے ثابت ہے ، جن میں حضرت عمر ، علی ، عبدالله بن مسعود، عبدالله بن عمر اور زید بن ثابت رضی الله عنہم جیسے فقہائے کرام بھی شامل ہیں۔
جب کہ فاتحہ خلف الإمام کی روایات صرف چار صحابہ کرام رضی الله عنہم سے ثابت ہے، یعنی حضرت ابوہریرہ، ابوسعید خدری، عبادة بن الصامت اور عبدالله بن عباس رضی الله عنہم۔
لہٰذا اگر ترجیح دی جائے تب بھی فاتحہ خلف الإمام کی ممانعت ہی کثرت اصحاب کی وجہ سے راجح ہو گی۔
سورہٴ فاتحہ کے فضائل
احادیث میں اس سورة کے فضائل بکثرت وارد ہیں۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے:”عن أبی سعید مرفوعاً: فاتحة الکتاب شفاء من کل داء“․ (تفسیر ابن کثیر: تفسیر سورہٴ فاتحہ)
ترجمہ: ابوسعید خدری رضی الله عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ سورہٴ فاتحہ ہربیماری سے شفاء ہے۔
ایک اور روایت میں ہے:
”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما أنزل الله فی التورة ولا فی الإنجیل مثل أم القرآن، وھی السبع المثانی، وھی مقسومة بینی وبین عبدی نصفین“․
ترجمہ: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله نے ام القرآن۔ (سورہٴ فاتحہ)کی طرح کوئی سورة نہ تورات میں اتاری او رنہ انجیل میں اتاری اور وہ سبع المثانی ہے، جو میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم ہے۔
یعنی ”الحمد“ سے ”یوم الدین“ تک الله کی حمد وستایش ہے اور چوتھی آیت میں الله کی تعریف اور بندہ کی استعانت دونوں کا تذکرہ ہے، اس کے بعد آخر تک بندہ کی خود اپنے لیے دعا ہے۔
علاوہ ازیں اس میں چوں کہ الله رب العزت کی طرف سے بندہ کو دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے کہ پہلے الله کی حمد وثنا کرے اور پھر اپنے لیے دعا مانگے، لہٰذا یہ اتنی عظیم الشان دعا ہے کہ جب بندہ مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ نماز میں یہ دعا مانگتا ہے تو بارگاہ رب العزت میں اس کا ایک ایک حرف شرف قبولیت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔
چناں چہ صحیح مسلم میں ہے کہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”قال الله تعالیٰ: قسمت الصلاة بینی وبین عبدی نصفین، ولعبدی ماسأل، فإذا قال العبد: الحمدلله رب العالمین، قال الله تعالیٰ: حمدنی عبدی، وإذا قال: الرحمن الرحیم، قال الله تعالیٰ: أثنیٰ علی عبدی، وإذا قال: مالک یوم الدین․ قال: مجدنی عبدی…، فإذا قال: إیاک نعبد وإیاک نستعین․ قال: ھذا بینی وبین عبدی، ولعبدی ما سأل․ فإذا قال: إھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین․قال: ھٰذا لعبدی، ولعبدی ماسأل․(صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب وجوب قراء ة فاتحہ الکتاب، ص،203، داراحیاء التراث)
ترجمہ: الله تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے نماز ( سورہٴ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جب بندہ ﴿الحمدلله رب العالمین﴾ کہتا ہے تو الله فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی اور جب بندہ ﴿الرحمن الرحیم﴾ کہتا ہے تو الله فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء بیان کی اور جب بندہ﴿ مالک یوم الدین﴾ کہتا ہے تو الله فرماتا ہے کہ یہ میرے او رمیرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے کے لیے وہی ہے جو اس نے مانگا او رجب بندہ ﴿اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین﴾ کہتا ہے تو الله فرماتا ہے کہ یہ میرے بندے کے لیے ہے او رمیرے بندے کے لیے وہی ہے جو اس نے مانگا۔
خلاصہٴ فاتحہ
”الحمد“ سے ”الرحیم“ تک الہٰیات کا بیان ہوا ہے اور ”مالک یوم الدین“ میں جزا وسزا او رمآل ومعاد کا بیان ہوا ہے۔
اور اس کے بعد آخر تک رسالت وشریعت ایمان وکفر اور ہدایت وضلالت کا بیان ہے۔
انہی تینوں نوعیتوں کے مضامین پورے قرآن میں جابجا تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں او راس سے قبل نازل شدہ کتب سماویہ میں بھی یہی چیزیں بیان ہوئی ہیں۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تمام آسمانی کتب کا خلاصہ قرآن میں اور قرآن کا خلاصہ سورہٴ فاتحہ میں ہے اور سورہٴ فاتحہ کا خلاصہ ”بسم الله الرحمن الرحیم“ میں ہے۔
وہ اس طرح کہ لفظ”الله“ تمام صفات کمالیہ کی جامع ذات کا نام ہے ، لہٰذا اس میں الہٰیات کی ابحاث سمٹ گئیں اور الرحمن سے چوں کہ دنیاوی رحمتیں مراد ہیں، اس لیے اس میں دنیا سے متعلق امور یعنی رسالت وشریعت ایمان وکفر اور ہدایت وضلالت کا بیان آگیا۔
اور ”الرحیم“ سے آخرت کی رحمتیں مراد ہیں ، اس لیے اس میں ماٰل ومعاد اور امور آخرت کا بیان آگیا۔
آیات وترجمہ
آیات:﴿الحمد لله رب العالمین، الرحمن الرحیم، ملک یوم الدین، ایاک نعبد وایاک نستعین، اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین﴾․
ترجمہ: سب تعریفیں الله کے لیے ہیں، جو پالنے والا سارے جہان کا، بے حد مہربان، نہایت رحم والا، مالک روز جزا کا، تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں او رتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، بتلا ہم کو راہ سیدھی، راہ ان لوگوں کی جن پر تونے اپنا فضل فرمایا، جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔
تفسیر
﴿الحمدلله رب العالمین﴾: ”الحمد“ پر الف لام استغراق کے لیے ہے اور لفظ ”الله“ پر لام استحقاق کے لیے ہے۔ (الدرالمصون للسمین الحلبی، سورة الفاتحہ، الآیة:1)
العالمین میں الف لام جنس کے لیے ہے، لہٰذا اس سے تمام مخلوقات کی الگ الگ جنس مراد ہے ۔ (تفسیر البیضاوی، سورة الفاتحہ، الایة:1)
مطلب یہ ہے کہ تمام تعریفات کی حقیقی سزا وار صرف الله ہی کی ذات ہے ، جو تمام مخلوقات کو پالنے والی ہے ، اس کے علاوہ کوئی بھی تعریف کا حقیقی مستحق نہیں، کیوں کہ کسی عالم کا علم، سخی کی سخاوت اور طاقت ور کی طاقت اس کی ذاتی خوبی نہیں، جس کی بنا پر اس کی تعریف کی جائے، بلکہ یہ تمام خوبیاں رب العالمین ہی کی مرہون منت ہیں ، جب کہ الله جل شانہ کی قدرت ، علم ، ارادہ حتی کہ تمام کی تمام خوبیاں ذاتی ہیں، لہٰذا تمام تعریفات کا حقیقی سزاوار صرف الله ہی ہے ۔
بلاغت
”الحمد“ ابتدا کی بنا پر مرفوع ہے او راس کی خبر ”الله“ ہے، جو کہ ظرف ہے ، حالاں کہ اصل یہ ہے کہ فعل کو مضمر رکھ کر لفظ ”حمد“ کو منصوب رکھا جاتا ہے، کیوں کہ ” حمد“ ان افعال میں سے ہے جنہیں عرب جملہ خبریہ کے معنوں میں افعال مضمرہ کے ساتھ منصوب رکھتے ہیں، جیسے شکراً ، کفراً اور عجباً اور سبحان الله اور معاذ الله بھی انہی افعال میں سے ہیں۔
پس مذکورہ مقام پر نصب چھوڑ کر رفع اس لیے دیا گیا، تاکہ یہ جملہ ثبات او راستقلال کے معنی پر دلالت کرے۔
فرمان باری تعالیٰ﴿قالوا سلٰماً قال سلم﴾․ (ھود:69) بھی اسی قبیل سے ہے ۔
تاکہ اس پر دلالت ہو کہ ابراہیم علیہ السلام نے ان فرشتوں کے سلام کے مقابلے میں اس سے اچھے انداز میں جواب دیا، کیوں کہ لفظ ”سلام“ کا رفع ان فرشتوں کے لیے سلامتی کے ثبات اور دوام پر دلالت کرتا ہے، نہ کہ تجدد وحدوث پر، جو کسی آن ہو اور کسی آن نہ ہو ۔ (الکشاف للزمخشری: الفاتحہ:2)
﴿الرحمن الرحیم﴾: یعنی بے حد مہربان، نہایت رحم والا۔
اس کا بیان گزر چکا ہے کہ یہ دونوں الله کی صفات ہیں اور الرحمن میں الرحیم سے زیادہ مبالغہ ہے۔
بعض علماء نے ان دونوں میں یہ فرق کیا ہے کہ الرحمن سے بلند وعظیم نعمتیں عطا کرنے والا اور الرحیم سے ہر قسم کی نعمتیں عطا کرنے والا مراد ہے۔ (تفسیر روح المعانی: الفاتحہ:2)
کشاف میں ہے کہ اگر کہا جائے کہ دونوں اوصاف میں سے جو زیادہ بلیغ ہے اس کو ادنیٰ پر مقدم کیوں کیا گیا ، حالاں کہ قیاس یہ ہے کہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کی جائے۔ جیسے کہا جاتا ہے ”فلان عالم نحریر“ ”جواد فیاض“ وغیرہ کہ ”نحریر“ اور ”فیاض“ میں ”عالم“ اور ”جواد“ سے زیادہ مبالغہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب باری تعالیٰ نے ”الرحمن“ فرمایا تو یہ لفظ صرف جلیل القدر اور عظیم المرتبت نعمتوں کو شامل تھا، پس بعد میں ”الرحیم“ فرماکر دقیق وخفیف نعمتوں کو بھی شامل فرما لیا۔ (تفسیر الکشاف: الفاتحہ:3)
گویا کہ الرحیم اپنے عموم کی وجہ سے الرحمن سے ابلغ ہے۔
﴿مالک یوم الدین﴾․ یعنی روز جزا کا مالک۔
دین سے مراد روز جزا ہے، جس دن تمام لوگ اپنے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ پائیں گے۔
دنیا میں تو الله کی طرف سے انسانوں کو کچھ ناقص ملکیت عطا کی گئی ہے ، لیکن ایک روز ایسا آئے گا کہ جس دن یہ ناقص ملکیت بھی ختم ہو جائے گی اور تمام کی تمام ملکیت صرف الله ہی کی ہو گی اور کسی کا کسی پر کوئی بس نہیں چلے گا۔
آیت مذکورہ میں انسان کو اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس چند روزہ ناقص ملکیت میں بدمست ہو کر خدا کا نافرمان مت ہونا، کیوں کہ یہ صرف آزمائش کے لیے ہے۔
ایک روز ایسا آئے گا کہ جب تم الله کے سامنے بالکل بے اختیار کھڑے ہو گے۔
ایسے ہی ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿لمن الملک الیوم لله الواحد القھار﴾(سورة المؤمن:16)
یعنی آج کے دن کس کی بادشاہی ہے ؟ صرف الله یکتا وبرترہی کی بادشاہی ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿یوم لا تملک نفس لنفس شیئاً والامر یومئذٍ لله﴾․ یعنی جس دن کسی شخص کا کسی کے نفع کے لیے بس نہیں چلے گا اور تمام حکومت اس روز الله ہی کی ہو گی۔
﴿ایّاک نعبد وایاک نستعین﴾․ یعنی ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں او رتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
یہ حمد وثناء کے بعد بندہ کی طرف سے بارگاہ رب العزت میں خطاب ہے، کیوں کہ جو ذات غایت درجے کی عظمت وجلال اور انتہائی خوبی وکمال کے ساتھ متصف ہو تو عبادت کے لائق بھی صرف وہی ذات ہے۔
اور ظاہر ہے کہ اس کی مدد وتوفیق کے بغیر عبادت بھی ناممکن ہے، اس لیے مدد بھی اسی سے مانگنی چاہیے۔
”ایاک“ مفعول ہے، اسے اختصاص کی غرض سے مقدم کیا گیا ہے، جیسے فرمان باری تعالی﴿ قل افغیر الله تأمرونی أعبد أیھا الجٰھلون﴾․ ( سورة الزمر:64) اور﴿قل أغیر الله أبغی رباً﴾․(سورة الأنعام:164) میں ”غیر“ کی نفی کے لیے مفعول کو مقدم کیا گیا، معنی یہ ہے کہ ہم تجھے ہی عبادت کے لیے خاص کرتے ہیں او رتجھے ہی طلب مدد کے لیے خاص کرتے ہیں ۔
اور اگر کہا جائے کہ صیغہ غائب کو چھوڑ کر صیغہ خطاب کو کیوں اختیار کیا گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے علم بیان میں التفات کہا جاتا ہے اور یہ التفات عرب کی اس عادت پر مبنی ہے کہ وہ کلام میں ردو بدل کرکے مخاطب کو تعجب میں ڈالتے ہیں یا اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔
اور یہ اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ جب کلام ایک اسلوب سے دوسرے اسلوب کی طرف منتقل کیا جاتا ہے تو یہ سامع کی تازگی ونشاط اور کلام کی طرف توجہ کا بہترین سبب ہوتا ہے، جب کہ یہ فائدہ ایک ہی اسلوب پر کلام جاری رکھنے سے حاصل نہیں ہوتا۔
او راس التفات کے ذریعہ سے بعض اوقات کچھ مخصوص فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔
زیر بحث کلام میں اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ جبحمد کی لائق ذات کا ذکر کیا گیا اور اس پر عظیم الشان صفات جاری کی گئیں تو ایسی ذات کا علم حاصل ہوا جو نہایت عالی شان ہے، لہٰذا مناسب ہوا کہ اس عظیم ذات سے خطاب کے ساتھ درخواست کی جائے ۔ ( تفسیر الکشاف، سورہٴ فاتحہ:4)
اور فرمان باری تعالیٰ ﴿ ایاک نستعین﴾ میں ایجاز حذف بھی ہے۔
اس لیے کہ اس کے متعلق میں عموم مقصود ہے، محذوف عبارت اس طرح ہے:
”ایاک نستعین علی العبادة وعلیٰ امور نا کلھا“ یعنی ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں عبادت اور اپنے تمام امور میں۔ (تفسیر الکشاف، الفاتحہ:4)
تصوف وسلوک
سالکین کا مقام ﴿ایاک نعبد﴾ پر تمام ہو جاتا ہے، اس کے بعد وہ ﴿ایاک نستعین﴾ سے تمکین کا طالب ہوتا ہے۔
بیان اس کا یہ ہے کہ مرید کی ابتدائی حرکت حمد ہے، کیوں کہ جب سالک کا نفس مزکی اور اس کا قلب مجلی ہو جاتا ہے تو پھر اس میں انوار عنایت، جو کہ مقام ولایت کا موجب ہیں، درخشاں ہوتے ہیں ، تو یہ نفس مزکیّٰ طلب مقصود کے لیے خالص ہوجاتا ہے ۔ پس اپنے اوپر انعامات الہٰیہ کے آثار کو کامل اوراس کے الطاف کو غیر متناہی دیکھتا ہے۔
سو اس پر وہ حمد کرتا ہے اور ذکر کو اختیار کرتا ہے ، پھر پردہ ہائے عزت کے پیچھے سے اس کے لیے ﴿رب العالمین﴾ کے معنی کا حجاب مکشوف ہو جاتا ہے ،اس وقت وہ ماسوی الله کو محل فنا میں اور اپنے کو تربیت میں بقاء دہندہ کا محتاج دیکھتا ہے۔
پس وہ وحشت اعراض اور ظلمت سکون الی الأغیار سے خلاصی حاصل کرنے کی طلب کے لیے ترقی کرتا ہے۔
پس اس پر درگاہِ مقدس کی ہواؤں سے رحمن رحیم کے الطاف کے جھونکے چلتے ہیں ، پھر وہ سراپا پردہ ہائے جمال کے آگے سے برق ہائے جلال کی چمک کے واسطہ سے مالک حقیقی کی طرف رجوع کرتا ہے۔
پھر وہ مقام﴿لمن الملک الیوم لله الواحد القھار﴾ (مقام توحید) میں بلسان اضطرار پکارتا ہے کہ میں نے اپنا نفس آپ کے سپرد کر دیا اور میں ہمہ تن آپ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
اور اس مقام پر پہنچ کروہ لجہٴ وصول میں گھس گیا، جس سے اس نے نسبت عبودیت کو محقق کر لیا اور مقام عین تک گھس گیا اور کہنے لگا ﴿ ایاک نعبد﴾ اور یہاں مقام سالک کی انتہا ہے ( جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا)۔
کیا سید الخلق وحبیب حق صلی الله علیہ وسلم کو نہیں دیکھتے کہ آپ کے مقام کو کس طرح اس قول کے ذریعے تعبیر کیا گیا ﴿سبحن الذی أسری بعبدہ لیلاً﴾․
اس کے بعد بندہ نے ﴿ایاک نستعین﴾ سے تمکین کی درخواست کی اور﴿اھدنا الصراط المستقیم﴾ سے بھی اسی تمکین کا طالب ہوا اور قول ﴿غیر المغضوب علیہم ولا الضالین﴾ کے ذریعے سے تلوین سے پناہ مانگی ہے۔
پس طالب کمال ہو کر اس نے صعود کیا اور کامل ہو کر اس نے رجوع ونزول کیا۔
گویا اسی لطیفہ کے سبب سے نماز کو معراجِ مومن کہا گیا۔(بیان القرآن از مولانا حکیم الامت اشرف علی تھانوی، سورہ فاتحہ)
مسئلہ استعانت
غیر الله سے استعانت ( مدد مانگنے) کی مختلف صورتیں ہیں، جن کے احکام بھی جدا جدا ہیں۔
تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
استعانت کی ایک صورت تو یہ ہے کہ غیر الله کو فاعل مستقل اور قادر بالذات مان کر اس سے استعانت کی جائے، یہ تو کھلا شرک ہے اور کفار مکہ بھی اسے شرک سمجھتے تھے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ مستعان منہ ( جس سے مدد مانگی جائے) کے بارے میں یہ عقیدہ ہو کہ یہ اگرچہ فاعل مستقل نہیں، مگر الله نے کچھ اختیار اسے تفویض کر دیا ہے او راس دائرے کے اندر وہ خود مختار ہے ۔
یہی وہ استعانت ہے جو کفر واسلام کے درمیان امتیاز کرتی ہے ۔ آیت مذکورہ میں بھی اسی کی نفی کی گئی ہے، مشرکین وکفار بھی اسی استعانت کے قائل ہیں۔
تیسری قسم یہ ہے کہ مستعان منہ کو نہ قادر مطلق تسلیم کرے اور نہ فاعل مستقل یا قادر بعد تفویض الہٰی خیال کرے، لیکن امور غیر عادیہ ومافوق الاسباب میں مدد مانگے، یعنی وہ امور ایسے ہوں جو الله تعالیٰ نے انسان کے دائرہ اختیار میں نہ رکھے ہوں۔
جیسے غیر الله سے اپنے یا کسی کے لیے اولاد مانگنا یا اس سے ہدایت کی دعا کرنا کہ تو مجھے ہدایت دے دے ۔یہ ناجائز ہے ،کیوں کہ یہ استعانت موہم شرک ہے ( یعنی اس میں شرک کا شائبہ ہوتا ہے )، البتہ ہدایت کی دعا کرانا جائز ہے۔
چوتھی قسم یہ ہے کہ مستعان منہ کو نہ قادر مطلق اور نہ مستقل بعد تفویض الہٰی خیال کرے اور استعانت بھی امور عاویہ وماتحت الاسباب میں کرے اور مستعان منہ کو قدرت خداوندی اور عون الہٰی کا مظہر سمجھے اور پس پردہ کارخانہٴ قدرت ہی کو عامل خیال کرے تو یہ استعانت جائز ہے۔
کیوں کہ یہ استعانت حقیقتاً الله ہی سے ہے، غیر الله سے نہیں، عقل وبداہت سے اس کا انکار ممکن نہیں، اس کے بغیر نظام عالم کا ایک پل بھی چلنا ممکن نہیں، کیوں کہ اس عالم میں ہر پل مزدور ، تاجر، زمین دار، صنعت کار مخلوق ہی کی مدد میں لگے ہوئے ہیں ،اسی سے نظام عالم قائم ودائم ہے۔
قرآن واحادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے مثلاً: ذوالقرنین کا قول ﴿اعینونی بقوة﴾ یعنی ( اے لوگو!) تم ( دیوار چنوانے میں) قوة کے ذریعے سے میری مدد کرو، اسی قسم کی استعانت ہے۔
کیوں کہ دیوار کی تعمیر ایک ایسا امر ہے جو اسباب طبعیہ کے تحت داخل ہے، لہٰذا دوالقرنین کی یہ استعانت امور ماتحت الاسباب ہونے کی بنا پر نہ صرف جائز، بلکہ ضروریات بشریہ کے عین موافق ہے۔
جناب نعیم الدین مراد آبادی بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جناب احمد رضا خان بریلوی کے مایہ ناز شاگردوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، اپنے استاذ کے ترجمہ قرآن”کنزالایمان“ کے تحت مختصر تفسیر خزائن العرفان“ لکھی اور 1367ھ میں وفات پائی“۔
نعیم الدین مراد آبادی صاحب کا مغالطہ
آیت مذکورہ کے تحت جناب نعیم الدین مراد آبادی اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
” اس سے یہ سمجھنا کہ” اولیاء وانبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے“ عقیدہ باطلہ ہے، کیوں کہ مقربان حق کی امداد امداد الہٰی ہے، استعانت بالغیر نہیں، اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابیہ نے سمجھے تو قرآن پاک میں ﴿عینونی بقوة﴾ اور ﴿استعینوا بالصبر والصلوٰة ﴾کیوں وار د ہوتا اور احادیث میں اہل الله سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی؟ ( کنزالایمان مع خزائن العرفان، سورةالفاتحہ:4)
نعیم الدین صاحب او ران کی جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام واولیائے کرام تمام کائنات میں تصرف کے مالک او رامور غیر عادیہ ومافوق الاسباب امور میں خود مختار ہیں اور انہیں یہ اختیار الله کی طرف سے تفویض کیا گیا ہے، لہٰذا ہر قسم کے امور میں ان سے استعانت بھی جائز ہے، خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں۔
مندرجہ بالا حوالہ میں بھی اسی نظریے کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
غیر الله سے امور غیر عادیہ ومافوق الاسباب میں استعانت شرک ہے
انبیائے کرام واولیائے کرام سے مذکورہ استعانت بہرحال شرک ہے، کیوں کہ استعانت کرنے والے انہیں مختار کل خیال کرتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی الله رحمہ الله لکھتے ہیں:
”ومنھا انہم کانوا یستعینوں بغیر الله فی حوائجہم من شفاء المریض وغناء الفقیر، وینذرون لہم ویتوقعون انجاح مقاصدہم بتلک النذور، ویتلون أسمائہم رجاء برکتھا، فأوجب الله تعالیٰ علیہم أن یقولوا فی صلواتھم:﴿ایاک نعبدوایاک نستعین﴾․
وقال الله تعالیٰ:
﴿فلاتدعوا مع الله احداً﴾
ولیس المراد من الدعاء العبادة، کما قال بعض المفسرین، بل ھو الاستعانة، لقولہ تعالیٰ: ﴿بل ایاہ تدعون فیکشف ماتدعون﴾․ (حجة الله البالغہ، ص:62، طبع مصر)
ترجمہ: اقسام شرک میں سے ایک یہ ہے کہ مشرکین اپنی حاجتوں میں غیر الله سے استعانت کرتے تھے، مثلاً بیمار کی شفا اور فقیر کی مال داری وغیرہ اوران کے لیے نذریں مانتے تھے اور ان کی وجہ سے وہ اپنی مرادیں پوری ہونے کی امید رکھتے تھے۔
اور برکت حاصل کرنے کی امید سے وہ ان کے نام ورد کے طور پر پڑھا کرتے تھے۔
سوالله تعالیٰ نے ان پر یہ واجب کر دیا کہ وہ اپنی نمازمیں ﴿ایاک نعبدو وایاک تستعین﴾ پڑھیں اور نیز الله تعالیٰ نے فرمایا کہ تم الله کے ساتھ کسی کو مت پکارو او رمذکورہ آیت میں دعا سے مراد عبادت نہیں، جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے، بلکہ استعانت مراد ہے، جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے ”بلکہ تم صرف اسی کو پکارو گے سو وہ تمہاری تکلیف کو رفع کرے گا۔“
اس صاف اور صریح عبارت سے واضح ہو جاتا ہے کہ غیر الله سے استعانت شرک ہے اور مشرکین مکہ اسی شرک میں مبتلا تھے۔
ایک او رجگہ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:
”وکفرالله سبحانہ مشرکی مکة بقولہم لرجل سخی کان یلت السویق للحجاج أنہ نصب منصب الألوھیة، فجعلوا یستعینون بہ عندالشدائد“․ ( البدورالبازغة:106)
ترجمہ: اور الله تعالیٰ نے مکہ کے مشرکوں کو اس لیے کافر فرمایا کہ انہوں نے ایک سخی آدمی کو جو ستو گھول کر حجاج کو پلاتا تھا( جس کا نام لات تھا) حاجت روائی کا منصب دے رکھا تھا او رتکالیف ومصائب کے موقع پر وہ اس سے استعانت کیا کرتے تھے۔
قاضی ثناء الله پانی پتی المتوفی1325ھ لکھتے ہیں:
مسئلہ: عبادت مر غیر خدا را جائز نیست، و نہ مدد خواستن از غیر حق… اھ ( ارشاد الطالبین:20)
یعنی نہ تو خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت جائز ہے اور نہ اس کے سوا کسی سے مدد طلب کرنا۔
حیرت ہے کہ یہ اکابر علمائے اسلام تو غیر الله سے استعانت کو شرک وکفر قرار دیں اور ﴿ایاک نستعین﴾ کے سراسر خلاف سمجھیں، مگر نعیم الدین صاحب یہ کہتے رہیں کہ استعانت بالغیر کی نفی اس آیت سے وھابیہ نے سمجھی ہے۔
یہ صاحب عین شرک کو قرآن وسنت سے ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔
الغرض مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ غیر الله سے استعانت شرک ہے۔
اور آیت میں اسی کی نفی ہے اورمشرکین بھی اپنے بتوں سے عطائی اختیارات کے تحت ہی استعانت کیا کرتے تھے، کیوں کہ کوئی بھی مشرک غیر الله کو حقیقی مستعان نہیں سمجھتا تھا۔
چناں چہ فرمان باری تعالی ہے :
﴿والذین اتخذوا من دونہ اولیاء ما نعبدھم الا لیقربونا الی الله زلفی﴾․ (سورة الزمر:3)
یعنی جن لوگوں نے الله کے سوا شرکاء تجویز کر رکھے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت اسی لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا کا مقرب بنا دیں ۔
ایک اور آیت میں ہے:
﴿قل من یرزقکم من السماء والارض امن یملک السمع والأبصار ومن یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی ومن یدبر الأمر فسیقولون الله﴾ اھ( سورہ یونس:31)
یعنی ( کافروں سے) کہہ دیجیے کہ وہ کون ہے جوتم کو آسمانوں اور زمینوں سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو جاندار کو بے جان سے نکالتا ہے اور بے جان کو جاندار سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ، سو وہ کہیں گے کہ الله (ہے)۔
ان آیات سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہکفار بتوں کے لیے عطائی اختیارات کا عقیدہ رکھتے تھے، جب کہ مستقل ومختار صرف الله ہی کو جانتے تھے۔
پس ثابت ہو اکہ ﴿ ایاک نعبد وایاک نستعین﴾ میں اسی شرک کی نفی کی گئی ہے۔
باقی رہا نعیم الدین صاحب کا یہ کہنا کہ ”مقربان حق سے استعانت حقیقتاً الله ہی سے استعانت ہے“ بالکل باطل ہے، کیوں کہ الله کی ذات اور مقربین کی ذات علیحدہ علیحدہ ہیں، لہٰذا مقربان حق غیر الله ہیں۔
دونوں تو اسی صورت میں ایک ہو سکتے ہیں کہ عیسائیوں کی طرح دو کو ایک اور ایک کو د ومان لیا جائے ۔ نعوذ بالله من ذالک․
اور ذوالقرنین کا قول ﴿اعینونی بقوة﴾ کو دلیل کے طور پر ذکر کرنے کا نعیم الدین صاحب کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ یہ استعانت ماتحت الاسباب ہے، اس کی قدرے وضاحت ہم مسئلہ استعانت کے آخر میں کر چکے ہیں۔
اسی طرح ﴿واستعینوا بالصبر والصلوة﴾ میں صبر اور صلوٰة پر باسببیہ داخل ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ تم صبر اور صلوٰة کے ذریعے سے مدد مانگو، لیکن مدد کس سے مانگی جائے اس کا بیان تو﴿والله المستعان﴾․(سورہٴ یوسف:18) ﴿ایاک نستعین﴾․ (سورہٴ فاتحہ:4) اور ﴿اللھم انا نستعینک﴾ میں کر دیا گیا کہ صرف الله ہی سے مدد مانگی جائے۔
اور نعیم الدین صاحب کا یہ کہنا کہ احادیث میں اہل الله سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی ہے باطل ہے۔
کیوں کہ احادیث میں جا بجا اس شرک کی نفی توکی گئی ہے مگر پورے ذخیرہٴ حدیث میں کسی ایک حدیث میں بھی اس شرک کی تعلیم نہیں دی گئی۔
جبریہ اور قدریہ کی تردید
جبریہ ایک فرقے کا نام ہے ، جس کا عقیدہ ہے کہ انسان کا کوئی بھی فعل حقیقتاً اس کا فعل نہیں اور نہ ہی انسان اپنے افعال پر قادر ہے، بلکہ وہ الله کی طرف سے مجبور محض ہے ۔ ( الملل والنحل:72/1، دارالکتب العلمیہ)
قدریہ ان لوگوں کا نام ہے جو انسان کو اپنے فعل پر قادر بالذات اور فاعل مختار مانتے ہیں اور اس میں الله کا کوئی دخل تسلیم نہیں کرتے، ان میں خوارج ومعتزلہ بھی داخل ہیں۔
جبروقدر کے بارے میں عقیدہٴ اہلسنت
انسان کی قدرت غیر مستقل ہے، اس لیے وہ قدرت انسان کے اختیار سے مؤثر نہیں ہوتی، بلکہ اس قدرت کے ساتھ قوی داعیہ کا ہونا ضروری ہے، جس کی بنا پر انسان فعل کا اکتساب کرسکے۔
اور وہ قوی داعیہ الله تبارک وتعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، لہٰذا انسان نہ تو اپنے افعال میں مستقل ہے اور نہ مجبور محض، بلکہ کسب فعل کے لیے انسان کو ایک گونہ قدرت غیر مستقلہ حاصل ہے، اسی پر جزا وسزا کا ترتب ہوتا ہے۔
پس ﴿ایاک نستعین﴾ کا مطلب یہ ہے کہ اے الله! ہم اپنے تمام افعال میں تجھ سے فعل کے اکتساب کے لیے قوی داعیہ کے خلق اور اس سے روکنے والے داعیہ کو زائل کرنے کا سوال کرتے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، سورہٴ فاتحہ:4)
اس تقریر سے دونوں فرقوں کا جواب بھی واضح ہو گیا۔
آیات:﴿الحمد لله رب العالمین، الرحمن الرحیم، ملک یوم الدین، ایاک نعبد وایاک نستعین، اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین﴾․
ترجمہ: سب تعریفیں الله کے لیے ہیں، جو پالنے والا سارے جہان کا، بے حد مہربان، نہایت رحم والا، مالک روز جزا کا، تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں او رتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، بتلا ہم کو راہ سیدھی، راہ ان لوگوں کی جن پر تونے اپنا فضل فرمایا، جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔
تفسیر
﴿الحمدلله رب العالمین﴾: ”الحمد“ پر الف لام استغراق کے لیے ہے اور لفظ ”الله“ پر لام استحقاق کے لیے ہے۔ (الدرالمصون للسمین الحلبی، سورة الفاتحہ، الآیة:1)
العالمین میں الف لام جنس کے لیے ہے، لہٰذا اس سے تمام مخلوقات کی الگ الگ جنس مراد ہے ۔ (تفسیر البیضاوی، سورة الفاتحہ، الایة:1)
مطلب یہ ہے کہ تمام تعریفات کی حقیقی سزا وار صرف الله ہی کی ذات ہے ، جو تمام مخلوقات کو پالنے والی ہے ، اس کے علاوہ کوئی بھی تعریف کا حقیقی مستحق نہیں، کیوں کہ کسی عالم کا علم، سخی کی سخاوت اور طاقت ور کی طاقت اس کی ذاتی خوبی نہیں، جس کی بنا پر اس کی تعریف کی جائے، بلکہ یہ تمام خوبیاں رب العالمین ہی کی مرہون منت ہیں ، جب کہ الله جل شانہ کی قدرت ، علم ، ارادہ حتی کہ تمام کی تمام خوبیاں ذاتی ہیں، لہٰذا تمام تعریفات کا حقیقی سزاوار صرف الله ہی ہے ۔
بلاغت
”الحمد“ ابتدا کی بنا پر مرفوع ہے او راس کی خبر ”الله“ ہے، جو کہ ظرف ہے ، حالاں کہ اصل یہ ہے کہ فعل کو مضمر رکھ کر لفظ ”حمد“ کو منصوب رکھا جاتا ہے، کیوں کہ ” حمد“ ان افعال میں سے ہے جنہیں عرب جملہ خبریہ کے معنوں میں افعال مضمرہ کے ساتھ منصوب رکھتے ہیں، جیسے شکراً ، کفراً اور عجباً اور سبحان الله اور معاذ الله بھی انہی افعال میں سے ہیں۔
پس مذکورہ مقام پر نصب چھوڑ کر رفع اس لیے دیا گیا، تاکہ یہ جملہ ثبات او راستقلال کے معنی پر دلالت کرے۔
فرمان باری تعالیٰ﴿قالوا سلٰماً قال سلم﴾․ (ھود:69) بھی اسی قبیل سے ہے ۔
تاکہ اس پر دلالت ہو کہ ابراہیم علیہ السلام نے ان فرشتوں کے سلام کے مقابلے میں اس سے اچھے انداز میں جواب دیا، کیوں کہ لفظ ”سلام“ کا رفع ان فرشتوں کے لیے سلامتی کے ثبات اور دوام پر دلالت کرتا ہے، نہ کہ تجدد وحدوث پر، جو کسی آن ہو اور کسی آن نہ ہو ۔ (الکشاف للزمخشری: الفاتحہ:2)
﴿الرحمن الرحیم﴾: یعنی بے حد مہربان، نہایت رحم والا۔
اس کا بیان گزر چکا ہے کہ یہ دونوں الله کی صفات ہیں اور الرحمن میں الرحیم سے زیادہ مبالغہ ہے۔
بعض علماء نے ان دونوں میں یہ فرق کیا ہے کہ الرحمن سے بلند وعظیم نعمتیں عطا کرنے والا اور الرحیم سے ہر قسم کی نعمتیں عطا کرنے والا مراد ہے۔ (تفسیر روح المعانی: الفاتحہ:2)
کشاف میں ہے کہ اگر کہا جائے کہ دونوں اوصاف میں سے جو زیادہ بلیغ ہے اس کو ادنیٰ پر مقدم کیوں کیا گیا ، حالاں کہ قیاس یہ ہے کہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کی جائے۔ جیسے کہا جاتا ہے ”فلان عالم نحریر“ ”جواد فیاض“ وغیرہ کہ ”نحریر“ اور ”فیاض“ میں ”عالم“ اور ”جواد“ سے زیادہ مبالغہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب باری تعالیٰ نے ”الرحمن“ فرمایا تو یہ لفظ صرف جلیل القدر اور عظیم المرتبت نعمتوں کو شامل تھا، پس بعد میں ”الرحیم“ فرماکر دقیق وخفیف نعمتوں کو بھی شامل فرما لیا۔ (تفسیر الکشاف: الفاتحہ:3)
گویا کہ الرحیم اپنے عموم کی وجہ سے الرحمن سے ابلغ ہے۔
﴿مالک یوم الدین﴾․ یعنی روز جزا کا مالک۔
دین سے مراد روز جزا ہے، جس دن تمام لوگ اپنے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ پائیں گے۔
دنیا میں تو الله کی طرف سے انسانوں کو کچھ ناقص ملکیت عطا کی گئی ہے ، لیکن ایک روز ایسا آئے گا کہ جس دن یہ ناقص ملکیت بھی ختم ہو جائے گی اور تمام کی تمام ملکیت صرف الله ہی کی ہو گی اور کسی کا کسی پر کوئی بس نہیں چلے گا۔
آیت مذکورہ میں انسان کو اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس چند روزہ ناقص ملکیت میں بدمست ہو کر خدا کا نافرمان مت ہونا، کیوں کہ یہ صرف آزمائش کے لیے ہے۔
ایک روز ایسا آئے گا کہ جب تم الله کے سامنے بالکل بے اختیار کھڑے ہو گے۔
ایسے ہی ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿لمن الملک الیوم لله الواحد القھار﴾(سورة المؤمن:16)
یعنی آج کے دن کس کی بادشاہی ہے ؟ صرف الله یکتا وبرترہی کی بادشاہی ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿یوم لا تملک نفس لنفس شیئاً والامر یومئذٍ لله﴾․ یعنی جس دن کسی شخص کا کسی کے نفع کے لیے بس نہیں چلے گا اور تمام حکومت اس روز الله ہی کی ہو گی۔
﴿ایّاک نعبد وایاک نستعین﴾․ یعنی ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں او رتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
یہ حمد وثناء کے بعد بندہ کی طرف سے بارگاہ رب العزت میں خطاب ہے، کیوں کہ جو ذات غایت درجے کی عظمت وجلال اور انتہائی خوبی وکمال کے ساتھ متصف ہو تو عبادت کے لائق بھی صرف وہی ذات ہے۔
اور ظاہر ہے کہ اس کی مدد وتوفیق کے بغیر عبادت بھی ناممکن ہے، اس لیے مدد بھی اسی سے مانگنی چاہیے۔
”ایاک“ مفعول ہے، اسے اختصاص کی غرض سے مقدم کیا گیا ہے، جیسے فرمان باری تعالی﴿ قل افغیر الله تأمرونی أعبد أیھا الجٰھلون﴾․ ( سورة الزمر:64) اور﴿قل أغیر الله أبغی رباً﴾․(سورة الأنعام:164) میں ”غیر“ کی نفی کے لیے مفعول کو مقدم کیا گیا، معنی یہ ہے کہ ہم تجھے ہی عبادت کے لیے خاص کرتے ہیں او رتجھے ہی طلب مدد کے لیے خاص کرتے ہیں ۔
اور اگر کہا جائے کہ صیغہ غائب کو چھوڑ کر صیغہ خطاب کو کیوں اختیار کیا گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے علم بیان میں التفات کہا جاتا ہے اور یہ التفات عرب کی اس عادت پر مبنی ہے کہ وہ کلام میں ردو بدل کرکے مخاطب کو تعجب میں ڈالتے ہیں یا اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔
اور یہ اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ جب کلام ایک اسلوب سے دوسرے اسلوب کی طرف منتقل کیا جاتا ہے تو یہ سامع کی تازگی ونشاط اور کلام کی طرف توجہ کا بہترین سبب ہوتا ہے، جب کہ یہ فائدہ ایک ہی اسلوب پر کلام جاری رکھنے سے حاصل نہیں ہوتا۔
او راس التفات کے ذریعہ سے بعض اوقات کچھ مخصوص فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔
زیر بحث کلام میں اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ جبحمد کی لائق ذات کا ذکر کیا گیا اور اس پر عظیم الشان صفات جاری کی گئیں تو ایسی ذات کا علم حاصل ہوا جو نہایت عالی شان ہے، لہٰذا مناسب ہوا کہ اس عظیم ذات سے خطاب کے ساتھ درخواست کی جائے ۔ ( تفسیر الکشاف، سورہٴ فاتحہ:4)
اور فرمان باری تعالیٰ ﴿ ایاک نستعین﴾ میں ایجاز حذف بھی ہے۔
اس لیے کہ اس کے متعلق میں عموم مقصود ہے، محذوف عبارت اس طرح ہے:
”ایاک نستعین علی العبادة وعلیٰ امور نا کلھا“ یعنی ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں عبادت اور اپنے تمام امور میں۔ (تفسیر الکشاف، الفاتحہ:4)
تصوف وسلوک
سالکین کا مقام ﴿ایاک نعبد﴾ پر تمام ہو جاتا ہے، اس کے بعد وہ ﴿ایاک نستعین﴾ سے تمکین کا طالب ہوتا ہے۔
بیان اس کا یہ ہے کہ مرید کی ابتدائی حرکت حمد ہے، کیوں کہ جب سالک کا نفس مزکی اور اس کا قلب مجلی ہو جاتا ہے تو پھر اس میں انوار عنایت، جو کہ مقام ولایت کا موجب ہیں، درخشاں ہوتے ہیں ، تو یہ نفس مزکیّٰ طلب مقصود کے لیے خالص ہوجاتا ہے ۔ پس اپنے اوپر انعامات الہٰیہ کے آثار کو کامل اوراس کے الطاف کو غیر متناہی دیکھتا ہے۔
سو اس پر وہ حمد کرتا ہے اور ذکر کو اختیار کرتا ہے ، پھر پردہ ہائے عزت کے پیچھے سے اس کے لیے ﴿رب العالمین﴾ کے معنی کا حجاب مکشوف ہو جاتا ہے ،اس وقت وہ ماسوی الله کو محل فنا میں اور اپنے کو تربیت میں بقاء دہندہ کا محتاج دیکھتا ہے۔
پس وہ وحشت اعراض اور ظلمت سکون الی الأغیار سے خلاصی حاصل کرنے کی طلب کے لیے ترقی کرتا ہے۔
پس اس پر درگاہِ مقدس کی ہواؤں سے رحمن رحیم کے الطاف کے جھونکے چلتے ہیں ، پھر وہ سراپا پردہ ہائے جمال کے آگے سے برق ہائے جلال کی چمک کے واسطہ سے مالک حقیقی کی طرف رجوع کرتا ہے۔
پھر وہ مقام﴿لمن الملک الیوم لله الواحد القھار﴾ (مقام توحید) میں بلسان اضطرار پکارتا ہے کہ میں نے اپنا نفس آپ کے سپرد کر دیا اور میں ہمہ تن آپ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
اور اس مقام پر پہنچ کروہ لجہٴ وصول میں گھس گیا، جس سے اس نے نسبت عبودیت کو محقق کر لیا اور مقام عین تک گھس گیا اور کہنے لگا ﴿ ایاک نعبد﴾ اور یہاں مقام سالک کی انتہا ہے ( جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا)۔
کیا سید الخلق وحبیب حق صلی الله علیہ وسلم کو نہیں دیکھتے کہ آپ کے مقام کو کس طرح اس قول کے ذریعے تعبیر کیا گیا ﴿سبحن الذی أسری بعبدہ لیلاً﴾․
اس کے بعد بندہ نے ﴿ایاک نستعین﴾ سے تمکین کی درخواست کی اور﴿اھدنا الصراط المستقیم﴾ سے بھی اسی تمکین کا طالب ہوا اور قول ﴿غیر المغضوب علیہم ولا الضالین﴾ کے ذریعے سے تلوین سے پناہ مانگی ہے۔
پس طالب کمال ہو کر اس نے صعود کیا اور کامل ہو کر اس نے رجوع ونزول کیا۔
گویا اسی لطیفہ کے سبب سے نماز کو معراجِ مومن کہا گیا۔(بیان القرآن از مولانا حکیم الامت اشرف علی تھانوی، سورہ فاتحہ)
مسئلہ استعانت
غیر الله سے استعانت ( مدد مانگنے) کی مختلف صورتیں ہیں، جن کے احکام بھی جدا جدا ہیں۔
تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
استعانت کی ایک صورت تو یہ ہے کہ غیر الله کو فاعل مستقل اور قادر بالذات مان کر اس سے استعانت کی جائے، یہ تو کھلا شرک ہے اور کفار مکہ بھی اسے شرک سمجھتے تھے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ مستعان منہ ( جس سے مدد مانگی جائے) کے بارے میں یہ عقیدہ ہو کہ یہ اگرچہ فاعل مستقل نہیں، مگر الله نے کچھ اختیار اسے تفویض کر دیا ہے او راس دائرے کے اندر وہ خود مختار ہے ۔
یہی وہ استعانت ہے جو کفر واسلام کے درمیان امتیاز کرتی ہے ۔ آیت مذکورہ میں بھی اسی کی نفی کی گئی ہے، مشرکین وکفار بھی اسی استعانت کے قائل ہیں۔
تیسری قسم یہ ہے کہ مستعان منہ کو نہ قادر مطلق تسلیم کرے اور نہ فاعل مستقل یا قادر بعد تفویض الہٰی خیال کرے، لیکن امور غیر عادیہ ومافوق الاسباب میں مدد مانگے، یعنی وہ امور ایسے ہوں جو الله تعالیٰ نے انسان کے دائرہ اختیار میں نہ رکھے ہوں۔
جیسے غیر الله سے اپنے یا کسی کے لیے اولاد مانگنا یا اس سے ہدایت کی دعا کرنا کہ تو مجھے ہدایت دے دے ۔یہ ناجائز ہے ،کیوں کہ یہ استعانت موہم شرک ہے ( یعنی اس میں شرک کا شائبہ ہوتا ہے )، البتہ ہدایت کی دعا کرانا جائز ہے۔
چوتھی قسم یہ ہے کہ مستعان منہ کو نہ قادر مطلق اور نہ مستقل بعد تفویض الہٰی خیال کرے اور استعانت بھی امور عاویہ وماتحت الاسباب میں کرے اور مستعان منہ کو قدرت خداوندی اور عون الہٰی کا مظہر سمجھے اور پس پردہ کارخانہٴ قدرت ہی کو عامل خیال کرے تو یہ استعانت جائز ہے۔
کیوں کہ یہ استعانت حقیقتاً الله ہی سے ہے، غیر الله سے نہیں، عقل وبداہت سے اس کا انکار ممکن نہیں، اس کے بغیر نظام عالم کا ایک پل بھی چلنا ممکن نہیں، کیوں کہ اس عالم میں ہر پل مزدور ، تاجر، زمین دار، صنعت کار مخلوق ہی کی مدد میں لگے ہوئے ہیں ،اسی سے نظام عالم قائم ودائم ہے۔
قرآن واحادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے مثلاً: ذوالقرنین کا قول ﴿اعینونی بقوة﴾ یعنی ( اے لوگو!) تم ( دیوار چنوانے میں) قوة کے ذریعے سے میری مدد کرو، اسی قسم کی استعانت ہے۔
کیوں کہ دیوار کی تعمیر ایک ایسا امر ہے جو اسباب طبعیہ کے تحت داخل ہے، لہٰذا دوالقرنین کی یہ استعانت امور ماتحت الاسباب ہونے کی بنا پر نہ صرف جائز، بلکہ ضروریات بشریہ کے عین موافق ہے۔
جناب نعیم الدین مراد آبادی بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جناب احمد رضا خان بریلوی کے مایہ ناز شاگردوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، اپنے استاذ کے ترجمہ قرآن”کنزالایمان“ کے تحت مختصر تفسیر خزائن العرفان“ لکھی اور 1367ھ میں وفات پائی“۔
نعیم الدین مراد آبادی صاحب کا مغالطہ
آیت مذکورہ کے تحت جناب نعیم الدین مراد آبادی اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
” اس سے یہ سمجھنا کہ” اولیاء وانبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے“ عقیدہ باطلہ ہے، کیوں کہ مقربان حق کی امداد امداد الہٰی ہے، استعانت بالغیر نہیں، اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابیہ نے سمجھے تو قرآن پاک میں ﴿عینونی بقوة﴾ اور ﴿استعینوا بالصبر والصلوٰة ﴾کیوں وار د ہوتا اور احادیث میں اہل الله سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی؟ ( کنزالایمان مع خزائن العرفان، سورةالفاتحہ:4)
نعیم الدین صاحب او ران کی جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام واولیائے کرام تمام کائنات میں تصرف کے مالک او رامور غیر عادیہ ومافوق الاسباب امور میں خود مختار ہیں اور انہیں یہ اختیار الله کی طرف سے تفویض کیا گیا ہے، لہٰذا ہر قسم کے امور میں ان سے استعانت بھی جائز ہے، خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں۔
مندرجہ بالا حوالہ میں بھی اسی نظریے کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
غیر الله سے امور غیر عادیہ ومافوق الاسباب میں استعانت شرک ہے
انبیائے کرام واولیائے کرام سے مذکورہ استعانت بہرحال شرک ہے، کیوں کہ استعانت کرنے والے انہیں مختار کل خیال کرتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی الله رحمہ الله لکھتے ہیں:
”ومنھا انہم کانوا یستعینوں بغیر الله فی حوائجہم من شفاء المریض وغناء الفقیر، وینذرون لہم ویتوقعون انجاح مقاصدہم بتلک النذور، ویتلون أسمائہم رجاء برکتھا، فأوجب الله تعالیٰ علیہم أن یقولوا فی صلواتھم:﴿ایاک نعبدوایاک نستعین﴾․
وقال الله تعالیٰ:
﴿فلاتدعوا مع الله احداً﴾
ولیس المراد من الدعاء العبادة، کما قال بعض المفسرین، بل ھو الاستعانة، لقولہ تعالیٰ: ﴿بل ایاہ تدعون فیکشف ماتدعون﴾․ (حجة الله البالغہ، ص:62، طبع مصر)
ترجمہ: اقسام شرک میں سے ایک یہ ہے کہ مشرکین اپنی حاجتوں میں غیر الله سے استعانت کرتے تھے، مثلاً بیمار کی شفا اور فقیر کی مال داری وغیرہ اوران کے لیے نذریں مانتے تھے اور ان کی وجہ سے وہ اپنی مرادیں پوری ہونے کی امید رکھتے تھے۔
اور برکت حاصل کرنے کی امید سے وہ ان کے نام ورد کے طور پر پڑھا کرتے تھے۔
سوالله تعالیٰ نے ان پر یہ واجب کر دیا کہ وہ اپنی نمازمیں ﴿ایاک نعبدو وایاک تستعین﴾ پڑھیں اور نیز الله تعالیٰ نے فرمایا کہ تم الله کے ساتھ کسی کو مت پکارو او رمذکورہ آیت میں دعا سے مراد عبادت نہیں، جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے، بلکہ استعانت مراد ہے، جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے ”بلکہ تم صرف اسی کو پکارو گے سو وہ تمہاری تکلیف کو رفع کرے گا۔“
اس صاف اور صریح عبارت سے واضح ہو جاتا ہے کہ غیر الله سے استعانت شرک ہے اور مشرکین مکہ اسی شرک میں مبتلا تھے۔
ایک او رجگہ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:
”وکفرالله سبحانہ مشرکی مکة بقولہم لرجل سخی کان یلت السویق للحجاج أنہ نصب منصب الألوھیة، فجعلوا یستعینون بہ عندالشدائد“․ ( البدورالبازغة:106)
ترجمہ: اور الله تعالیٰ نے مکہ کے مشرکوں کو اس لیے کافر فرمایا کہ انہوں نے ایک سخی آدمی کو جو ستو گھول کر حجاج کو پلاتا تھا( جس کا نام لات تھا) حاجت روائی کا منصب دے رکھا تھا او رتکالیف ومصائب کے موقع پر وہ اس سے استعانت کیا کرتے تھے۔
قاضی ثناء الله پانی پتی المتوفی1325ھ لکھتے ہیں:
مسئلہ: عبادت مر غیر خدا را جائز نیست، و نہ مدد خواستن از غیر حق… اھ ( ارشاد الطالبین:20)
یعنی نہ تو خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت جائز ہے اور نہ اس کے سوا کسی سے مدد طلب کرنا۔
حیرت ہے کہ یہ اکابر علمائے اسلام تو غیر الله سے استعانت کو شرک وکفر قرار دیں اور ﴿ایاک نستعین﴾ کے سراسر خلاف سمجھیں، مگر نعیم الدین صاحب یہ کہتے رہیں کہ استعانت بالغیر کی نفی اس آیت سے وھابیہ نے سمجھی ہے۔
یہ صاحب عین شرک کو قرآن وسنت سے ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔
الغرض مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ غیر الله سے استعانت شرک ہے۔
اور آیت میں اسی کی نفی ہے اورمشرکین بھی اپنے بتوں سے عطائی اختیارات کے تحت ہی استعانت کیا کرتے تھے، کیوں کہ کوئی بھی مشرک غیر الله کو حقیقی مستعان نہیں سمجھتا تھا۔
چناں چہ فرمان باری تعالی ہے :
﴿والذین اتخذوا من دونہ اولیاء ما نعبدھم الا لیقربونا الی الله زلفی﴾․ (سورة الزمر:3)
یعنی جن لوگوں نے الله کے سوا شرکاء تجویز کر رکھے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت اسی لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا کا مقرب بنا دیں ۔
ایک اور آیت میں ہے:
﴿قل من یرزقکم من السماء والارض امن یملک السمع والأبصار ومن یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی ومن یدبر الأمر فسیقولون الله﴾ اھ( سورہ یونس:31)
یعنی ( کافروں سے) کہہ دیجیے کہ وہ کون ہے جوتم کو آسمانوں اور زمینوں سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو جاندار کو بے جان سے نکالتا ہے اور بے جان کو جاندار سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ، سو وہ کہیں گے کہ الله (ہے)۔
ان آیات سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہکفار بتوں کے لیے عطائی اختیارات کا عقیدہ رکھتے تھے، جب کہ مستقل ومختار صرف الله ہی کو جانتے تھے۔
پس ثابت ہو اکہ ﴿ ایاک نعبد وایاک نستعین﴾ میں اسی شرک کی نفی کی گئی ہے۔
باقی رہا نعیم الدین صاحب کا یہ کہنا کہ ”مقربان حق سے استعانت حقیقتاً الله ہی سے استعانت ہے“ بالکل باطل ہے، کیوں کہ الله کی ذات اور مقربین کی ذات علیحدہ علیحدہ ہیں، لہٰذا مقربان حق غیر الله ہیں۔
دونوں تو اسی صورت میں ایک ہو سکتے ہیں کہ عیسائیوں کی طرح دو کو ایک اور ایک کو د ومان لیا جائے ۔ نعوذ بالله من ذالک․
اور ذوالقرنین کا قول ﴿اعینونی بقوة﴾ کو دلیل کے طور پر ذکر کرنے کا نعیم الدین صاحب کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ یہ استعانت ماتحت الاسباب ہے، اس کی قدرے وضاحت ہم مسئلہ استعانت کے آخر میں کر چکے ہیں۔
اسی طرح ﴿واستعینوا بالصبر والصلوة﴾ میں صبر اور صلوٰة پر باسببیہ داخل ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ تم صبر اور صلوٰة کے ذریعے سے مدد مانگو، لیکن مدد کس سے مانگی جائے اس کا بیان تو﴿والله المستعان﴾․(سورہٴ یوسف:18) ﴿ایاک نستعین﴾․ (سورہٴ فاتحہ:4) اور ﴿اللھم انا نستعینک﴾ میں کر دیا گیا کہ صرف الله ہی سے مدد مانگی جائے۔
اور نعیم الدین صاحب کا یہ کہنا کہ احادیث میں اہل الله سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی ہے باطل ہے۔
کیوں کہ احادیث میں جا بجا اس شرک کی نفی توکی گئی ہے مگر پورے ذخیرہٴ حدیث میں کسی ایک حدیث میں بھی اس شرک کی تعلیم نہیں دی گئی۔
جبریہ اور قدریہ کی تردید
جبریہ ایک فرقے کا نام ہے ، جس کا عقیدہ ہے کہ انسان کا کوئی بھی فعل حقیقتاً اس کا فعل نہیں اور نہ ہی انسان اپنے افعال پر قادر ہے، بلکہ وہ الله کی طرف سے مجبور محض ہے ۔ ( الملل والنحل:72/1، دارالکتب العلمیہ)
قدریہ ان لوگوں کا نام ہے جو انسان کو اپنے فعل پر قادر بالذات اور فاعل مختار مانتے ہیں اور اس میں الله کا کوئی دخل تسلیم نہیں کرتے، ان میں خوارج ومعتزلہ بھی داخل ہیں۔
جبروقدر کے بارے میں عقیدہٴ اہلسنت
انسان کی قدرت غیر مستقل ہے، اس لیے وہ قدرت انسان کے اختیار سے مؤثر نہیں ہوتی، بلکہ اس قدرت کے ساتھ قوی داعیہ کا ہونا ضروری ہے، جس کی بنا پر انسان فعل کا اکتساب کرسکے۔
اور وہ قوی داعیہ الله تبارک وتعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، لہٰذا انسان نہ تو اپنے افعال میں مستقل ہے اور نہ مجبور محض، بلکہ کسب فعل کے لیے انسان کو ایک گونہ قدرت غیر مستقلہ حاصل ہے، اسی پر جزا وسزا کا ترتب ہوتا ہے۔
پس ﴿ایاک نستعین﴾ کا مطلب یہ ہے کہ اے الله! ہم اپنے تمام افعال میں تجھ سے فعل کے اکتساب کے لیے قوی داعیہ کے خلق اور اس سے روکنے والے داعیہ کو زائل کرنے کا سوال کرتے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، سورہٴ فاتحہ:4)
اس تقریر سے دونوں فرقوں کا جواب بھی واضح ہو گیا۔
ہدایت کی دُعا
|
﴿اھدنا الصراط المستقیم﴾․
یعنی چلا ہم کو سیدھی راہ پر۔
الله کی حمد وثنا او راپنی نیاز مندی کے بعد بندہ کی طرف سے اپنے لیے دعا ہے کہ اے الله! مجھے سیدھی راہ پر چلا ۔
ہدایت کے معنی بعض علماء کے نزدیک منزل تک پہنچانا اور بعض کے نزدیک منزل تک پہنچانے والے راستہ کی دلالت ہے۔ (تفسیر روح المعانی، فاتحہ:5)
جو افراط وتفریط سے پاک ہو، یعنی دین اسلام، مطلب یہ ہوا کہ یا الله! ہم کو دین اسلام پر چلا، جو افراط وتفریط سے پاک ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ:5)
مذکورہ آیت میں اسلام کو سیدھی راہ سے تشبیہہ دی گئی، جو کہ استعارہٴ تحقیقیہ ہے۔ (استعارہٴ تحقیقیہ یہ ہے کہ مشبہ ( جسے تشبیہ دی جائے) اور مشبہ بہ (جس کے ساتھ تشبیہ دی جائے) میں سے صرف مشبہ بہ کو ذکر کیا جائے اور ا س کا معنی حساً یا عقلاً متحقق ہو، مذکورہ استعارہ میں چوں کہ اسلام کا سیدھا راستہ ہونا عقلاً متحقق ہے، لہٰذا یہ استعارہ تحقیقیہ ہے)
مراتبِ ہدایت
ہدایت کے چار مراتب ہیں:
پہلا مرتبہ تووہ ہے جو انسان سمیت ہر مخلوق کو حاصل ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے۔
﴿ربنا الذی اعطیٰ کل شيء خلقہ ثم ھدی﴾․ (سورہٴ طہٰ:50)
یعنی ہمارا رب تو وہ ہے جس نے ہر شے کو خلقت عطا کرکے اسے ہدایت دی ۔
اس آیت میں ہدایت کا یہی پہلا مرتبہ مراد ہے ، جو انسان کو عقل کی صورت میں، چرند، پرند اور درند کو ان کو ضروریات سے متعلق شعور وسمجھ کی صورت میں، حتی کہ پہاڑ، ستاروں اور درختوں کو بھی ایک خاص شعور کی صورت میں حاصل ہے۔
جیسا کہ آیت﴿ یسجد لہ من فی السموٰت ومن فی الأرض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدوآب﴾․ (سورة الحج:18) سے واضح ہے۔
ہدایت کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جو الله کی طرف سے انسانوں کے لیے انزال کتب اور بعثت انبیا کے ذریعے سے مقصود ہے۔
قرآن کریم میں جہاں بھی ہدایت دینے کی نسبت کتب منزلہ اور انبیا کی طرف کی گئی ہے وہاں یہی ہدایت مراد ہے۔
ہدایت کا تیسرا مرتبہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے ، یعنی ایسے حالات واسباب کا کسی مومن کے لیے پیدا ہو جانا جن کی بنا پر احکام خدائی کو دل میں بسا لینا او ران پر عمل کرنا آسان ہو جائے او ران کی خلاف ورزی دشوار ہو جائے۔
اسے توفیق بھی کہتے ہیں۔
اس کا دائرہ بہت وسیع ہے، اس ہدایت سے نہ کوئی مؤمن مستغنی ہو سکتا ہے اور نہ کوئی نبی۔
قرآن میں جہاں بھی مومنین او رانبیا کو ہدایت دیے جانے کا ذکر ہے اس سے یہی ہدایت مراد ہے۔
چوتھے مرتبہ میں ہدایت سے مراد اعمال کا ثواب دینا اور جنت میں داخل کرنا ہے۔ ( سورة الأعراف:43)
جنتیوں کے قول﴿الحمدلله الذی ھدانا لہٰذا﴾ ( تمام تعریفیں اس الله کے لیے ہیں جس نے ہمیں یہ ہدایت دی ) میں یہی ہدایت مراد ہے، یعنی ہمیں جنت میں داخل کیا۔
قرآن کریم میں جن مقامات میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہدایت دینے کی نفی کرکے ہدایت کو صرف الله کے ساتھ خاص کیا گیا ہے وہاں ہدایت کی آخری دونوں اقسام مراد ہیں۔( مفردات القرآن، حرف الھاء، ص:570، دارالکتب العلمیہ)
دعا کا مفہوم
ہم بیان کرچکے ہیں کہ ”اھدنا“ بندہ کی طرف سے رب جل شانہ کی جناب میں دعا ہے۔
حدیث میں ہے کہ جب دعا مانگی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الدعاء، ص:274، قدیمی)
فرمان خدا وندی ہے:
﴿أحبیب دعوة الداع اذا دعان﴾۔ ( سورة البقرة:186)
یعنی میں جواب دیتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کا جب وہ مجھے پکارتا ہے۔
الغرض آیات واحادیث کا معتدبہ ذخیرہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب سچے دل سے دعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔
اور عقلاً بھی واضح ہے کہ قرآن میں جابجا ﴿ وادعوہ خوفاً وطمعاً﴾․ (سورة الأعراف:56)اور اس الله کو پکارو خوف اور امید کے ساتھ۔) ﴿وادعواربکم تضرعاً وخفیةً﴾․ (سورة الأعراف:55)
کہہ کر بندوں کو الله سے دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے ، لہٰذا اگر الله کی طرف سے ان دعاؤں کے جواب میں حاجت روائی او رمشکل کشائی نہ کی جائے تو یہ ترغیبیں بے کار ٹھہرتی ہیں۔
نیر یہ بخل بھی ہے کہ الله تعالیٰ دعا کو قبول نہ کرے۔
تعالی الله عن ذالک علوا کبیراً
دعا کا مفہوم یہی ہے اور یہی عقیدہ پوری امت کا متوارث چلا آرہا ہے۔
سرسید احمد صاحب ( یہ 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1898ء میں وفات پائی ، علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی تھے، انگریزوں نے انہیں مجاہدین آزادی کے خلاف بھاری خدمات کے عوض”سر“ کا خطاب دیا، انہوں نے تفسیر القرآن کے نام سے نصف قرآن کی تفسیر لکھی اور اس میں امور مافوق الاسباب یعنی معجزات وکرامات اور امور غیر محسوسہ وغیر مرئیہ مثلاً: وحی وملائکہ، جنت وجہنم اور آدم وحوا علیہما السلام کی فلسفیانہ وغیر اسلامی تشریح کرکے ان کی حقیقت سے انکار کر بیٹھے اسی بناء پر یہ ” نیچری“ کے عنوان سے مشہور ہوئے۔) کے نزدیک دعا کا مفہوم:
جناب سرسید احمد خان صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:” حصول مطلب کے لیے جو اسباب خدا نے مقرر کیے ہیں، وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے ، مگر دعا نہ اس مطلب کے اسباب میں سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے…… پس دعا سے مطلب کا حاصل ہونا موعود نہیں۔“(تفسیر القرآن از سرسید احمد خان، سورہٴ فاتحہ)
چوں کہ موصوف غیر مسلم فلسفیوں سے متأثر ہو کر اس عقیدہ کے قائل ہیں کہ دنیا میں امور غیر عادیہ ومافوق الاسباب کا وقوع ممکن نہیں، لہٰذا دعا کو سبب السبب ماننے سے بھی انکار کر دیا، اس پر کوئی نقلی دلیل تو تھی ہی نہیں، لیکن عقلی دلیل کے طور پر بھی محض اپنا عقیدہ ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
البتہ اس عقیدہ کی بنا اسی اصول پر ہے کہ دنیا میں خوارق عادات کا وقوع ممکن نہیں، اس کا ابطال تو ہم آگے چل کر کریں گے۔
فی الحال ہم قرآن ولغت عربیہ ( جو کہ سرسید احمد خان صاحب کے نزدیک حجت ہے) کے حوالہ جات سے یہ ثابت کرنے پر اکتفاء کریں گے کہ دعا کا مفہوم کیا ہے۔
اجابت دعا کا مفہوم قرآن سے
فرمان خداوندی ہے:﴿فدعا ربہ انی مغلوب فانتصر ففتحنا ابواب السمآء بمآء منھمر﴾․ (سورة القمر:11-10)
ترجمہ:پس(نوح علیہ السلام نے) اپنے رب سے دعا کی کہ میں درماندہ ہوں، سو آپ انتقام لے لیجیے، پس ہم نے کثرت سے برسنے والے آسمان کے دروازے کھول دیے۔
اس مقام پر” ففتحنا“ کی جوفاء ہے یہ ماقبل کے جواب کے طور پر ہے ، جس سے صاف ظاہر ہے کہ الله نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے سبب آسمان سے پانی برسایا۔
ایک او رمقام پر ہے:﴿فاستجاب لکم ربکم انی ممدکم بألف من الملئکة مردفین﴾․(سورة الانفال:8)
ترجمہ: پھر الله تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا، جو سلسلہ وار چلے آویں گے۔
اس مقام پر بھی واضح ہے کہ الله نے دعا کی قبولیت کے طور پر ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے سے نصرت فرمائی ہے۔
ایک او رمقام میں ہے:﴿فافتح بینی وبینھم فتحاً ونجنی ومن معی من المومنین فانجینہ ومن معہ فی الفلک المشحون، ثم اغرقنا بعد البٰقین﴾․(سورة الشعراء:119)
ترجمہ:( حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا) سو آپ میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیجیے او رمجھ کواور جو میرے ساتھ مومنین ہیں انہیں نجات دیجیے۔ پس ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں تھے انہیں نجات دی ، پھر اس کے بعد ہم نے باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔
دیکھیں الله نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے طفیل ایسے ہی اسباب یعنی نوح او ران کے متبعین کے لیے کشتی او رکفار کے لیے شدید بارش او رسیلاب کا انتظام فرمادیا۔
چناں چہ نوح علیہ السلام او رمومنین کو نجات اور کفار کو ہلاکت ہوئی۔
ان چند امثال قرآنیہ سے واضح ہوا کہ دعا اسباب الامور میں یقینا موثر ہوتی ہے۔
جب کہ جناب سرسید احمد خان صاحب الله کو قادر مطلق مانتے ہوئے بھی دعا کو اسباب الامور میں غیر مؤثر کہتے ہیں اور قرآن میں جہاں بھی دعا کا ذکر ہے ۔ وہاں دعا سے عبادت مراد لیتے ہیں۔
چوں کہ جناب تفسیر القرآن بالقرآن کے بعد تفسیر القرآن باللغت کے قائل ہیں۔
لہٰذا ہم لغت سے بھی یہ ثابت کریں گے کہ دعا سے مراد عبادت نہیں، بلکہ الله کو پکارنا ہے۔
دعا کا مفہوم لغت عرب سے
عمدة الحفاظ فی تفسیر اشرف الالفاظ میں ہے:”والدعاء کالنداء…، ویعبر بہ عن السؤال، وعن الاستعانة․ ومنہ: ﴿دعوا الله﴾ أی سألوہ حوائجہم واستعانوہ علیھا․“ ( عمدة الحفاظ فی تفسیر اشرف الالفاظ، فصل الدال:14/2، دارالکتب العلمیہ)
ترجمہ: اور دعا نداء کی طرح ہے اور اسے سوال او رمدد مانگنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ قول باری تعالیٰ: ﴿دعواالله﴾ اسی قبیل سے ہے، یعنی انہوں نے اپنی ضروریات الله سے مانگیں اور ان پر الله سے مدد طلب کی ۔
مفردات القرآن میں ہے:”الدعاء کالنداء“․ (معجم مفردات الفاظ القرآن الکریم، ص:190، دارالکتب العلمیہ)
ترجمہ: دعا پکار کی طرح ہے۔
لسان العرب میں ہے:
”کقولک للرجل: إذا لقیت العدوخالیاً فادع المسملین ومعناہ: استغث بالمسلمین فالدعاء ھھنا بمعنی الإستغاثة“․ (لسان العرب، مادة، دع و)
ترجمہ: جیسے تمہارا کسی شخص کو یہ کہنا کہ ” اذا لقیت العدو خالیا فادع المسلمین“ یعنی مسلمانوں سے مدد مانگو۔ پس ”دعاء“ یہاں مدد مانگنے کے معنی میں ہے۔
مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ دعا کے معنی عبادت کے نہیں، بلکہ پکارنے کے ہیں، جیسا کہ عقیدہٴ امت مسلمہ قرناً بعد قرن آج تک چلا آرہا ہے۔
پس موصوف کے نزدیک اصول مسلمہ سے دعا کا مفہوم متعین ہو چکا۔ لہٰذا ان دلائل عقلیہ ونقلیہ کے ہوتے ہوئے دعا کا الگ مفہوم بلادلیل بیان کرنا یا تو لاعلمی ہے یا خالص ضد ہے۔
غلام احمد پرویز صاحب کے نزدیک صراط مستقیم کا مفہوم
جناب غلام احمد پرویز صاحب ارتقائے انسانی کی تشریح کرتے ہوئے ارتقائی منازل کو صراط مستقیم کا مفہوم قرار دیتے ہیں او رلکھتے ہیں کہ انسان کا ارتقا اب تک مادی تھا، لیکن اگلا ارتقا اوپر کی طرف ہو گا، مادی نہیں، صراط مستقیم میں یہی مراد ہے او راسی عقدے کو حل کیا گیا ہے۔
چوں کہ موصوف کا مضمون کافی تفصیلی ہے ، اس لیے ہم نے عبارت ذکر کرنے کے بجائے اس کا خلاصہ ذکر کر دیا ہے ۔ تفصیلی عبارت ”قرآنی فیصلے“ میں ملاحظہ فرمائیں۔ (قرآنی فیصلے از غلام احمد پرویز، ص:335، طبع ، طلوع اسلام ٹرسٹ)
گویا موصوف کے خیال میں قرآن صرف نظریہ ارتقا کی پیچیدگی حل کرنے کے لیے نازل ہوا تھا۔
غور کیجیے کہ کیا قرآن کے اولین مخاطب جوان فلسفیانہ پیچیدگیوں سے ناواقف تھے ، کیا انہوں نے اس کا یہ مطلب سمجھ لیا ہو گا؟
اور کیا یہی ارتقائی منازل تھیں، جو انسانوں سے طے کرانے کے لیے الله تعالیٰ نے انبیا بھیجے او رکتب نازل فرمائیں۔
موصوف تفسیر القرآن بالقر آن کے مدعی ہیں تو لغت یا قرآنی حوالہ جات سے دلائل بھی دے دیتے ، لیکن چوں کہ یہ ان کا محض دعویٰ ہے، جس پر کوئی دلیل نہیں، لہٰذا اس کی تردید کے لیے ہم صرف قرآنی آیات سے تشریح پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
صراط مستقیم کی تشریح قرآن سے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وان الله ربي وربکم فاعبدوہ، ھذا صراط مستقیم﴾․ ( سورة الزخرف:64)
ترجمہ: اور بے شک الله میرا او رتمہارا رب ہے ، اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔
ایک او رمقام میں ہے:﴿دیناً قیما ملةابراہیم حنیفاً﴾․ (سورة الأنعام:161)
ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے کہ وہ ایک دین ہے مستحکم، جوطریقہ ہے ابراہیم علیہ السلام کا، جس میں ذرا کجی نہیں۔
ایک اور مقام میں ارشاد فرمایا:
﴿ وان اعبدونی ھذا صراط مستقیم﴾․( سورہٴ یس:61)
ترجمہ: یعنی میری ہی عبادت کرو ، یہی صراط مستقیم ہے۔
ایک اور مقام میں ہے:﴿وأن ھذا صراطی مستقیماً فاتبعوہ﴾․ (سورالأنعام:153)
ترجمہ: یعنی یہ دین میرا راستہ ہے، جو سیدھا ہے، سو اس راستہ پر چلو۔
ان آیات کو بار بار پڑھ کر غور کیجیے کہ کیا اتنی واضح تشریح کے بعد بھی کسی کے لیے گنجائش ہے کہ وہ قرآن پاک کی من مانی تشریحات کر سکے۔ فماذا بعد الحق الا الضلل․
﴿صراط الذین انعمت علیہم﴾․
یعنی ( اے الله ہمیں سیدھی راہ پر چلا) راہ ان لوگوں کی جن پر تونے فضل فرمایا۔
یہ جملہ ”الصراط المستقیم“ سے بدل ہے۔
فضل وانعام سے مراد دین کی نعمت ہے او رمنعم علیہم (جن پر انعام کیا گیا) حضرات انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں، جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے۔
﴿ومن یطع الله ورسولہ فاولئک مع الذین انعم الله علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین﴾․ (سورة النساء:69)
ترجمہ: او رجو لوگ الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوئے جن پر الله نے انعام فرمایا یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔
مطلب یہ ہوا کہ اے الله! ہم کو انبیا ، صدیقین ، شہدا اور صالحین کے راستے پر چلا۔
یہاں اشکال ہوتا ہے کہ عبارت میں اتنی طوالت کیوں اختیار کی گئی کہ پہلے صراط مستقیم مطلق ذکر کیا گیا ، پھر اس کا بدل ذکر کرکے تعیینکی گئی ۔
اختصار کے ساتھ ﴿اھدنا صراط الذین انعمت﴾ بھی تو کہہ سکتے تھے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اسے علیٰ طریق البدل ذکر کرکے یہ تاکید کر دی گئی کہ صراط مسلمین کی تفسیر ”صراط مسلمین“ ( مسلمانوں کا راستہ) ہے ، پس اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ یہ آیت مسلمین کے حق میں انتہائی بلیغ اور مؤکد شہادت بن گئی کہ مسلمین کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ ( تفسیر الکشاف، سورہٴ فاتحہ:6)
﴿غیر المضغوب علیہم ولا الضالین﴾․
یعنی جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے ۔صراط مستقیم کو ایجابی طریقے سے متعین کرنے کے بعد سلبی طریقے سے متعین کیا گیا ہے۔
حق سے پھرجانے او رسیدھے راستہ سے ہٹ جانے کی عموماً دو وجہ ہوتی ہیں۔
ایک تو عمل میں کوتاہی، یعنی حق کو پہچانتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنا، مغضوب علیہم سے ایسے ہی لوگ مراد ہیں۔ اس کے اولین مصداق یہود ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہوا:
﴿وبآؤا بغضب من الله﴾․( سورة البقرة:90)
یعنی وہ لوٹے الله کے غضب کے ساتھ۔
اور دوسری وجہ علم کی کمی ہے یعنی حق کو پہچاننے میں کوتاہی ہو ، ضالین سے ایسے ہی لوگ مراد ہیں ، اس کے اولین مصداق نصاری ہیں۔
جن کے بارے میں ارشاد ہوا:﴿ قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا وضلوا عن سواء السبیل﴾․ ( سورة المائدہ:77)
یعنی وہ لوگ پہلے گمراہ ہو چکے اور کئی لوگوں کو گمراہ کرچکے اور وہ سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔
پس خلاصہ یہ ہوا کہ ہمیں نہ ایسا افراط والا راستہ چاہیے کہ چند خواہشات کی بنا پر احکام شریعت کی خلاف ورزی کر بیٹھیں، جیسے یہود اور نہ ایسی تفریط والا راستہ چاہیے کہ تعظیم کی بنا پر خدا کے مقرب کو عین خدا قرار دے دیں، جیسے نصاری۔
بلکہ ہمیں انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کا راستہ چاہیے، جو افراط وتفریط سے محفوظ ہے۔
احکام
نماز میں سورہٴ فاتحہ کے بعد آہستہ آواز سے آمین کہنا سنت ہے۔ (تبیین الحقائق، کتاب الصلاة:295/1، دارالکتب العلمیہ)
علماء اہل حق کے نزدیک مختار یہی ہے کہ اگر کوئی شخص صحیح مخرج کی ادائیگی پر قادر نہ ہو اور نماز میں ضالین کی جگہ ظالین پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
فتاوی قاضی خان میں ہے کہ اگر کسی شخص میں دو حرفوں کے درمیان جدائی کرنے کی صلاحیت نہ ہو اور وہ دونوں حرف قریب المخرج ہوں، جیسے :ظاء اور ضاد تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے۔
اکثر مشائخ نے فرمایا کہ اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ ( فتاوی قاضی خان مع ہندیہ، کتاب الصلاة :141/1، رشیدیہ)
اسی طرح فتاویٰ بزازیہ میں ہے۔( فتاویٰ برازیہ مع ہندیة، کتاب الصلاة:42/1،رشیدیہ)
یعنی چلا ہم کو سیدھی راہ پر۔
الله کی حمد وثنا او راپنی نیاز مندی کے بعد بندہ کی طرف سے اپنے لیے دعا ہے کہ اے الله! مجھے سیدھی راہ پر چلا ۔
ہدایت کے معنی بعض علماء کے نزدیک منزل تک پہنچانا اور بعض کے نزدیک منزل تک پہنچانے والے راستہ کی دلالت ہے۔ (تفسیر روح المعانی، فاتحہ:5)
جو افراط وتفریط سے پاک ہو، یعنی دین اسلام، مطلب یہ ہوا کہ یا الله! ہم کو دین اسلام پر چلا، جو افراط وتفریط سے پاک ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ:5)
مذکورہ آیت میں اسلام کو سیدھی راہ سے تشبیہہ دی گئی، جو کہ استعارہٴ تحقیقیہ ہے۔ (استعارہٴ تحقیقیہ یہ ہے کہ مشبہ ( جسے تشبیہ دی جائے) اور مشبہ بہ (جس کے ساتھ تشبیہ دی جائے) میں سے صرف مشبہ بہ کو ذکر کیا جائے اور ا س کا معنی حساً یا عقلاً متحقق ہو، مذکورہ استعارہ میں چوں کہ اسلام کا سیدھا راستہ ہونا عقلاً متحقق ہے، لہٰذا یہ استعارہ تحقیقیہ ہے)
مراتبِ ہدایت
ہدایت کے چار مراتب ہیں:
پہلا مرتبہ تووہ ہے جو انسان سمیت ہر مخلوق کو حاصل ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے۔
﴿ربنا الذی اعطیٰ کل شيء خلقہ ثم ھدی﴾․ (سورہٴ طہٰ:50)
یعنی ہمارا رب تو وہ ہے جس نے ہر شے کو خلقت عطا کرکے اسے ہدایت دی ۔
اس آیت میں ہدایت کا یہی پہلا مرتبہ مراد ہے ، جو انسان کو عقل کی صورت میں، چرند، پرند اور درند کو ان کو ضروریات سے متعلق شعور وسمجھ کی صورت میں، حتی کہ پہاڑ، ستاروں اور درختوں کو بھی ایک خاص شعور کی صورت میں حاصل ہے۔
جیسا کہ آیت﴿ یسجد لہ من فی السموٰت ومن فی الأرض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدوآب﴾․ (سورة الحج:18) سے واضح ہے۔
ہدایت کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جو الله کی طرف سے انسانوں کے لیے انزال کتب اور بعثت انبیا کے ذریعے سے مقصود ہے۔
قرآن کریم میں جہاں بھی ہدایت دینے کی نسبت کتب منزلہ اور انبیا کی طرف کی گئی ہے وہاں یہی ہدایت مراد ہے۔
ہدایت کا تیسرا مرتبہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے ، یعنی ایسے حالات واسباب کا کسی مومن کے لیے پیدا ہو جانا جن کی بنا پر احکام خدائی کو دل میں بسا لینا او ران پر عمل کرنا آسان ہو جائے او ران کی خلاف ورزی دشوار ہو جائے۔
اسے توفیق بھی کہتے ہیں۔
اس کا دائرہ بہت وسیع ہے، اس ہدایت سے نہ کوئی مؤمن مستغنی ہو سکتا ہے اور نہ کوئی نبی۔
قرآن میں جہاں بھی مومنین او رانبیا کو ہدایت دیے جانے کا ذکر ہے اس سے یہی ہدایت مراد ہے۔
چوتھے مرتبہ میں ہدایت سے مراد اعمال کا ثواب دینا اور جنت میں داخل کرنا ہے۔ ( سورة الأعراف:43)
جنتیوں کے قول﴿الحمدلله الذی ھدانا لہٰذا﴾ ( تمام تعریفیں اس الله کے لیے ہیں جس نے ہمیں یہ ہدایت دی ) میں یہی ہدایت مراد ہے، یعنی ہمیں جنت میں داخل کیا۔
قرآن کریم میں جن مقامات میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہدایت دینے کی نفی کرکے ہدایت کو صرف الله کے ساتھ خاص کیا گیا ہے وہاں ہدایت کی آخری دونوں اقسام مراد ہیں۔( مفردات القرآن، حرف الھاء، ص:570، دارالکتب العلمیہ)
دعا کا مفہوم
ہم بیان کرچکے ہیں کہ ”اھدنا“ بندہ کی طرف سے رب جل شانہ کی جناب میں دعا ہے۔
حدیث میں ہے کہ جب دعا مانگی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الدعاء، ص:274، قدیمی)
فرمان خدا وندی ہے:
﴿أحبیب دعوة الداع اذا دعان﴾۔ ( سورة البقرة:186)
یعنی میں جواب دیتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کا جب وہ مجھے پکارتا ہے۔
الغرض آیات واحادیث کا معتدبہ ذخیرہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب سچے دل سے دعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔
اور عقلاً بھی واضح ہے کہ قرآن میں جابجا ﴿ وادعوہ خوفاً وطمعاً﴾․ (سورة الأعراف:56)اور اس الله کو پکارو خوف اور امید کے ساتھ۔) ﴿وادعواربکم تضرعاً وخفیةً﴾․ (سورة الأعراف:55)
کہہ کر بندوں کو الله سے دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے ، لہٰذا اگر الله کی طرف سے ان دعاؤں کے جواب میں حاجت روائی او رمشکل کشائی نہ کی جائے تو یہ ترغیبیں بے کار ٹھہرتی ہیں۔
نیر یہ بخل بھی ہے کہ الله تعالیٰ دعا کو قبول نہ کرے۔
تعالی الله عن ذالک علوا کبیراً
دعا کا مفہوم یہی ہے اور یہی عقیدہ پوری امت کا متوارث چلا آرہا ہے۔
سرسید احمد صاحب ( یہ 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1898ء میں وفات پائی ، علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی تھے، انگریزوں نے انہیں مجاہدین آزادی کے خلاف بھاری خدمات کے عوض”سر“ کا خطاب دیا، انہوں نے تفسیر القرآن کے نام سے نصف قرآن کی تفسیر لکھی اور اس میں امور مافوق الاسباب یعنی معجزات وکرامات اور امور غیر محسوسہ وغیر مرئیہ مثلاً: وحی وملائکہ، جنت وجہنم اور آدم وحوا علیہما السلام کی فلسفیانہ وغیر اسلامی تشریح کرکے ان کی حقیقت سے انکار کر بیٹھے اسی بناء پر یہ ” نیچری“ کے عنوان سے مشہور ہوئے۔) کے نزدیک دعا کا مفہوم:
جناب سرسید احمد خان صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:” حصول مطلب کے لیے جو اسباب خدا نے مقرر کیے ہیں، وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے ، مگر دعا نہ اس مطلب کے اسباب میں سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے…… پس دعا سے مطلب کا حاصل ہونا موعود نہیں۔“(تفسیر القرآن از سرسید احمد خان، سورہٴ فاتحہ)
چوں کہ موصوف غیر مسلم فلسفیوں سے متأثر ہو کر اس عقیدہ کے قائل ہیں کہ دنیا میں امور غیر عادیہ ومافوق الاسباب کا وقوع ممکن نہیں، لہٰذا دعا کو سبب السبب ماننے سے بھی انکار کر دیا، اس پر کوئی نقلی دلیل تو تھی ہی نہیں، لیکن عقلی دلیل کے طور پر بھی محض اپنا عقیدہ ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
البتہ اس عقیدہ کی بنا اسی اصول پر ہے کہ دنیا میں خوارق عادات کا وقوع ممکن نہیں، اس کا ابطال تو ہم آگے چل کر کریں گے۔
فی الحال ہم قرآن ولغت عربیہ ( جو کہ سرسید احمد خان صاحب کے نزدیک حجت ہے) کے حوالہ جات سے یہ ثابت کرنے پر اکتفاء کریں گے کہ دعا کا مفہوم کیا ہے۔
اجابت دعا کا مفہوم قرآن سے
فرمان خداوندی ہے:﴿فدعا ربہ انی مغلوب فانتصر ففتحنا ابواب السمآء بمآء منھمر﴾․ (سورة القمر:11-10)
ترجمہ:پس(نوح علیہ السلام نے) اپنے رب سے دعا کی کہ میں درماندہ ہوں، سو آپ انتقام لے لیجیے، پس ہم نے کثرت سے برسنے والے آسمان کے دروازے کھول دیے۔
اس مقام پر” ففتحنا“ کی جوفاء ہے یہ ماقبل کے جواب کے طور پر ہے ، جس سے صاف ظاہر ہے کہ الله نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے سبب آسمان سے پانی برسایا۔
ایک او رمقام پر ہے:﴿فاستجاب لکم ربکم انی ممدکم بألف من الملئکة مردفین﴾․(سورة الانفال:8)
ترجمہ: پھر الله تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا، جو سلسلہ وار چلے آویں گے۔
اس مقام پر بھی واضح ہے کہ الله نے دعا کی قبولیت کے طور پر ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے سے نصرت فرمائی ہے۔
ایک او رمقام میں ہے:﴿فافتح بینی وبینھم فتحاً ونجنی ومن معی من المومنین فانجینہ ومن معہ فی الفلک المشحون، ثم اغرقنا بعد البٰقین﴾․(سورة الشعراء:119)
ترجمہ:( حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا) سو آپ میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیجیے او رمجھ کواور جو میرے ساتھ مومنین ہیں انہیں نجات دیجیے۔ پس ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں تھے انہیں نجات دی ، پھر اس کے بعد ہم نے باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔
دیکھیں الله نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے طفیل ایسے ہی اسباب یعنی نوح او ران کے متبعین کے لیے کشتی او رکفار کے لیے شدید بارش او رسیلاب کا انتظام فرمادیا۔
چناں چہ نوح علیہ السلام او رمومنین کو نجات اور کفار کو ہلاکت ہوئی۔
ان چند امثال قرآنیہ سے واضح ہوا کہ دعا اسباب الامور میں یقینا موثر ہوتی ہے۔
جب کہ جناب سرسید احمد خان صاحب الله کو قادر مطلق مانتے ہوئے بھی دعا کو اسباب الامور میں غیر مؤثر کہتے ہیں اور قرآن میں جہاں بھی دعا کا ذکر ہے ۔ وہاں دعا سے عبادت مراد لیتے ہیں۔
چوں کہ جناب تفسیر القرآن بالقرآن کے بعد تفسیر القرآن باللغت کے قائل ہیں۔
لہٰذا ہم لغت سے بھی یہ ثابت کریں گے کہ دعا سے مراد عبادت نہیں، بلکہ الله کو پکارنا ہے۔
دعا کا مفہوم لغت عرب سے
عمدة الحفاظ فی تفسیر اشرف الالفاظ میں ہے:”والدعاء کالنداء…، ویعبر بہ عن السؤال، وعن الاستعانة․ ومنہ: ﴿دعوا الله﴾ أی سألوہ حوائجہم واستعانوہ علیھا․“ ( عمدة الحفاظ فی تفسیر اشرف الالفاظ، فصل الدال:14/2، دارالکتب العلمیہ)
ترجمہ: اور دعا نداء کی طرح ہے اور اسے سوال او رمدد مانگنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ قول باری تعالیٰ: ﴿دعواالله﴾ اسی قبیل سے ہے، یعنی انہوں نے اپنی ضروریات الله سے مانگیں اور ان پر الله سے مدد طلب کی ۔
مفردات القرآن میں ہے:”الدعاء کالنداء“․ (معجم مفردات الفاظ القرآن الکریم، ص:190، دارالکتب العلمیہ)
ترجمہ: دعا پکار کی طرح ہے۔
لسان العرب میں ہے:
”کقولک للرجل: إذا لقیت العدوخالیاً فادع المسملین ومعناہ: استغث بالمسلمین فالدعاء ھھنا بمعنی الإستغاثة“․ (لسان العرب، مادة، دع و)
ترجمہ: جیسے تمہارا کسی شخص کو یہ کہنا کہ ” اذا لقیت العدو خالیا فادع المسلمین“ یعنی مسلمانوں سے مدد مانگو۔ پس ”دعاء“ یہاں مدد مانگنے کے معنی میں ہے۔
مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ دعا کے معنی عبادت کے نہیں، بلکہ پکارنے کے ہیں، جیسا کہ عقیدہٴ امت مسلمہ قرناً بعد قرن آج تک چلا آرہا ہے۔
پس موصوف کے نزدیک اصول مسلمہ سے دعا کا مفہوم متعین ہو چکا۔ لہٰذا ان دلائل عقلیہ ونقلیہ کے ہوتے ہوئے دعا کا الگ مفہوم بلادلیل بیان کرنا یا تو لاعلمی ہے یا خالص ضد ہے۔
غلام احمد پرویز صاحب کے نزدیک صراط مستقیم کا مفہوم
جناب غلام احمد پرویز صاحب ارتقائے انسانی کی تشریح کرتے ہوئے ارتقائی منازل کو صراط مستقیم کا مفہوم قرار دیتے ہیں او رلکھتے ہیں کہ انسان کا ارتقا اب تک مادی تھا، لیکن اگلا ارتقا اوپر کی طرف ہو گا، مادی نہیں، صراط مستقیم میں یہی مراد ہے او راسی عقدے کو حل کیا گیا ہے۔
چوں کہ موصوف کا مضمون کافی تفصیلی ہے ، اس لیے ہم نے عبارت ذکر کرنے کے بجائے اس کا خلاصہ ذکر کر دیا ہے ۔ تفصیلی عبارت ”قرآنی فیصلے“ میں ملاحظہ فرمائیں۔ (قرآنی فیصلے از غلام احمد پرویز، ص:335، طبع ، طلوع اسلام ٹرسٹ)
گویا موصوف کے خیال میں قرآن صرف نظریہ ارتقا کی پیچیدگی حل کرنے کے لیے نازل ہوا تھا۔
غور کیجیے کہ کیا قرآن کے اولین مخاطب جوان فلسفیانہ پیچیدگیوں سے ناواقف تھے ، کیا انہوں نے اس کا یہ مطلب سمجھ لیا ہو گا؟
اور کیا یہی ارتقائی منازل تھیں، جو انسانوں سے طے کرانے کے لیے الله تعالیٰ نے انبیا بھیجے او رکتب نازل فرمائیں۔
موصوف تفسیر القرآن بالقر آن کے مدعی ہیں تو لغت یا قرآنی حوالہ جات سے دلائل بھی دے دیتے ، لیکن چوں کہ یہ ان کا محض دعویٰ ہے، جس پر کوئی دلیل نہیں، لہٰذا اس کی تردید کے لیے ہم صرف قرآنی آیات سے تشریح پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
صراط مستقیم کی تشریح قرآن سے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وان الله ربي وربکم فاعبدوہ، ھذا صراط مستقیم﴾․ ( سورة الزخرف:64)
ترجمہ: اور بے شک الله میرا او رتمہارا رب ہے ، اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔
ایک او رمقام میں ہے:﴿دیناً قیما ملةابراہیم حنیفاً﴾․ (سورة الأنعام:161)
ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے کہ وہ ایک دین ہے مستحکم، جوطریقہ ہے ابراہیم علیہ السلام کا، جس میں ذرا کجی نہیں۔
ایک اور مقام میں ارشاد فرمایا:
﴿ وان اعبدونی ھذا صراط مستقیم﴾․( سورہٴ یس:61)
ترجمہ: یعنی میری ہی عبادت کرو ، یہی صراط مستقیم ہے۔
ایک اور مقام میں ہے:﴿وأن ھذا صراطی مستقیماً فاتبعوہ﴾․ (سورالأنعام:153)
ترجمہ: یعنی یہ دین میرا راستہ ہے، جو سیدھا ہے، سو اس راستہ پر چلو۔
ان آیات کو بار بار پڑھ کر غور کیجیے کہ کیا اتنی واضح تشریح کے بعد بھی کسی کے لیے گنجائش ہے کہ وہ قرآن پاک کی من مانی تشریحات کر سکے۔ فماذا بعد الحق الا الضلل․
﴿صراط الذین انعمت علیہم﴾․
یعنی ( اے الله ہمیں سیدھی راہ پر چلا) راہ ان لوگوں کی جن پر تونے فضل فرمایا۔
یہ جملہ ”الصراط المستقیم“ سے بدل ہے۔
فضل وانعام سے مراد دین کی نعمت ہے او رمنعم علیہم (جن پر انعام کیا گیا) حضرات انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں، جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے۔
﴿ومن یطع الله ورسولہ فاولئک مع الذین انعم الله علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین﴾․ (سورة النساء:69)
ترجمہ: او رجو لوگ الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوئے جن پر الله نے انعام فرمایا یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔
مطلب یہ ہوا کہ اے الله! ہم کو انبیا ، صدیقین ، شہدا اور صالحین کے راستے پر چلا۔
یہاں اشکال ہوتا ہے کہ عبارت میں اتنی طوالت کیوں اختیار کی گئی کہ پہلے صراط مستقیم مطلق ذکر کیا گیا ، پھر اس کا بدل ذکر کرکے تعیینکی گئی ۔
اختصار کے ساتھ ﴿اھدنا صراط الذین انعمت﴾ بھی تو کہہ سکتے تھے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اسے علیٰ طریق البدل ذکر کرکے یہ تاکید کر دی گئی کہ صراط مسلمین کی تفسیر ”صراط مسلمین“ ( مسلمانوں کا راستہ) ہے ، پس اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ یہ آیت مسلمین کے حق میں انتہائی بلیغ اور مؤکد شہادت بن گئی کہ مسلمین کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ ( تفسیر الکشاف، سورہٴ فاتحہ:6)
﴿غیر المضغوب علیہم ولا الضالین﴾․
یعنی جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے ۔صراط مستقیم کو ایجابی طریقے سے متعین کرنے کے بعد سلبی طریقے سے متعین کیا گیا ہے۔
حق سے پھرجانے او رسیدھے راستہ سے ہٹ جانے کی عموماً دو وجہ ہوتی ہیں۔
ایک تو عمل میں کوتاہی، یعنی حق کو پہچانتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنا، مغضوب علیہم سے ایسے ہی لوگ مراد ہیں۔ اس کے اولین مصداق یہود ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہوا:
﴿وبآؤا بغضب من الله﴾․( سورة البقرة:90)
یعنی وہ لوٹے الله کے غضب کے ساتھ۔
اور دوسری وجہ علم کی کمی ہے یعنی حق کو پہچاننے میں کوتاہی ہو ، ضالین سے ایسے ہی لوگ مراد ہیں ، اس کے اولین مصداق نصاری ہیں۔
جن کے بارے میں ارشاد ہوا:﴿ قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا وضلوا عن سواء السبیل﴾․ ( سورة المائدہ:77)
یعنی وہ لوگ پہلے گمراہ ہو چکے اور کئی لوگوں کو گمراہ کرچکے اور وہ سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔
پس خلاصہ یہ ہوا کہ ہمیں نہ ایسا افراط والا راستہ چاہیے کہ چند خواہشات کی بنا پر احکام شریعت کی خلاف ورزی کر بیٹھیں، جیسے یہود اور نہ ایسی تفریط والا راستہ چاہیے کہ تعظیم کی بنا پر خدا کے مقرب کو عین خدا قرار دے دیں، جیسے نصاری۔
بلکہ ہمیں انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کا راستہ چاہیے، جو افراط وتفریط سے محفوظ ہے۔
احکام
نماز میں سورہٴ فاتحہ کے بعد آہستہ آواز سے آمین کہنا سنت ہے۔ (تبیین الحقائق، کتاب الصلاة:295/1، دارالکتب العلمیہ)
علماء اہل حق کے نزدیک مختار یہی ہے کہ اگر کوئی شخص صحیح مخرج کی ادائیگی پر قادر نہ ہو اور نماز میں ضالین کی جگہ ظالین پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
فتاوی قاضی خان میں ہے کہ اگر کسی شخص میں دو حرفوں کے درمیان جدائی کرنے کی صلاحیت نہ ہو اور وہ دونوں حرف قریب المخرج ہوں، جیسے :ظاء اور ضاد تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے۔
اکثر مشائخ نے فرمایا کہ اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ ( فتاوی قاضی خان مع ہندیہ، کتاب الصلاة :141/1، رشیدیہ)
اسی طرح فتاویٰ بزازیہ میں ہے۔( فتاویٰ برازیہ مع ہندیة، کتاب الصلاة:42/1،رشیدیہ)
اسلام کی بنیادی تعلیمات، توحید، نبوت ورسالت
بسم الله الرحمن الرحیم
﴿سورة البقرہ﴾
نام اور وجہ تسمیہ
اس سورت کے متعدد نام ہیں، تاہم”البقرة“ کے نام سے معروف ہے، ”بقرة“ عربی زبان میں گائے کو کہتے ہیں ، چوں کہ اس سورت میں بنی اسرائیل کے ایک واقعے میں ”بقرہ“ کا تذکرہ ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام بقرہ ہے۔
فضیلت
احادیث صحیحہ میں سورت بقرة کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہر چیز کا ایک اعلیٰ ترین حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کا اعلیٰ ترین حصہ ”سورة بقرة“ ہے ۔“ ( جامع الترمذی، ابواب فضائل القرآن، رقم الحدیث:2878)
ایک او رحدیث میں ارشاد فرمایا” اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ ( تلاوت سے آباد رکھو)، جس گھر میں سورة بقرة کی تلاوت ہوتی ہے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔“ (صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم:780)
خلاصہ سورة بقرہ
سورة بقرہ کے مضامین اسلام کی بنیادی تعلیمات ، توحید، نبوت، رسالت اور قیامت پر مشتمل ہیں، انہیں بنیادی عقائد کو مختلف مقامات پر مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ، اسی سورت میں بنی اسرائیل کے ایک معروف واقعے کا تذکرہ ہے ، جس میں ایک مذبوحہ گائے کا ٹکڑا مقتول کو لگا تو وہ زندہ ہو کر قاتل کی نشان د ہی کرنے لگا۔ اس واقعے سے ان تینوں بنیادی عقائد پر روشنی پڑتی ہے ۔ ایک طرف تو اس میں الله تعالیٰ کی شان الوہیت اور کمالِ قدرت کے ادنیٰ کرشمہ کا اظہارہے، دوسری طرف یہی واقعہ حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت ورسالت کی تصدیق کے لیے عظیم الشان معجزہ ہے اور یہی معجزہ قیامت کے منکرین کے لیے مقام عبرت بھی ہے کہ وہ غور وفکر سے کام لیں،الله تعالیٰ روز محشر اپنی قدرت سے اسی طرح مُردوں کو زندہ فرمائیں گے، جس طرح اس مقتول کو زندہ فرمایا۔
باقی تمام مضامین مثلاً: راہ ِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب، اپنے محبوب بندوں پر انعامات ونواز شات کا تذکرہ، نافرمانوں کے انجام کی خبر، سیاسی ومعاشرتی احکام، جہاد، قصاص، میراث، حج، حیض ونفاس کے احکام، نکاح وطلاق، عدت، حق مہر، بچوں وغیرہ کی تربیت کے متعلق بنیادی اصولوں پر مشتمل ہیں۔
﴿المٓ﴾
قرآن کریم کی بعض سورتوں کا آغاز ایسے کلمات سے ہوتا ہے جو چند حروف سے مرکب ہیں، جیسے المّٓ، طٰسٓمّٓ، ظسٓ چوں کہ ان کلمات کے ہر ہر حرف کو جدا جدا ساکن پڑھا جاتا ہے اس لیے انہیں ”حروف مقطعہ“ کہا جاتا ہے۔
حروف مقطعات کے معانی
یہ حروف متشابہات کی قبیل سے ہیں اور متشابہات کے بارے میں جمہور صحابہ ، تابعین، علمائے امت کا مسلک وہی ہے جسے خلفائے راشدین نے اختیار کیا کہ اس کے ظاہری الفاظ پر ایمان لاکر اس کے معنی ومراد بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے، معنی اور مراد کے متعلق بس اتنا اعتقاد ہی کافی ہے کہ اس کا حقیقی علم الله تعالیٰ ہی کو ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، البقرة، تحت اٰیہ رقم:1)
کیوں کہ ان کی کو ئی تفسیر آپ صلی الله علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے، بعض ائمہ مفسرین سے جو معانی منقول ہیں، ان کی حیثیت ایک فائدے اور نکتے کی ہے، تعیین مراد ہر گز نہیں۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے معانی ومراد کا علم صرف الله تعالیٰ کو ہے تو پھر ان کو قرآن کریم میں ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟ اس کا جواب علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ کی زبانی سنیے، فرماتے ہیں:
”حروف مقطعات کا معنی اگرچہ ہمیں معلوم نہیں، لیکن اس پر ایمان لانا بھی باعث نجات اور ثواب ہے ، پھر اس کی تلاوت کرنے کے بھی معنوی فوائد او ربرکات ہیں، اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں۔ (ایضاً)
حروف مقطعات کی بابت مودودی صاحب کا موقف
مودودی صاحب کا موقف ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم حروف مقطعات کی مراد سے بخوبی واقف تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ اسلوب بیان متروک ہو گیا او راس وجہ سے معانی میں اختلاف پیداہو گیا، چناں چہ مودودی صاحب لکھتے ہیں۔
”یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے جن کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو ، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے، کہ ان سے مراد کیا ہے … بعد میں یہ اسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا او راس بنا پر مفسرین کے لیے ان کے معانی متعین کرنا مشکل ہو گیا۔“(تفہیم القرآن، البقرة، تحت آیہ رقم:1)
(مودودی صاحب کا فکری وشخصی تعارف:سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب25 ستمبر1903ء کو اورنگ آباد حیدر آباد دکن، ہندوستان میں پیدا ہوئے، آپ کا خاندان ایک خاندانی بزرگ قطب الدین مودودچشتی کے نام نامی سے منسوب ہے، جو، ہرات میں متوطن اور خواجہ معین الدین چشتی کے شیخ الشیوخ تھے۔آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ، والد محترم کے انتقال کے بعد تعلیم میٹرک سے آگے، نہ بڑھ سکی۔ لیکن شب وروز کے مسلسل مطالعے سے اپنی قابلیت میں غیر معمولی اضافہ کیا اور اردو انشا پردازی میں کمال حاصل کرکے مختلف رسائل واخبار کی ادارت سنبھالی۔1941ء میں ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
چوں کہ مودودی صاحب کے دینی علوم وافکار کا مدار اپنا مطالعہ اور ”اپنی فہم“ تھی، اس لیے ان کا قلم متضادرویوں کا حامل رہا، قرآن کریم کی تفسیر پر قلم اٹھایا تو اسلاف کے پیمانے سے ہٹ گئے ، بلکہ کہیں کہیں تو اس تفسیر وتشریح کے ڈانڈے تحریف سے جاملتے ہیں۔”تفہیم القرآن“ میں مودودی صاحب نے بائبل پر اعتماد، حدیث پر بد اعتمادی، من مانے قیاسات، خوارق ومعجزات سے انکار، انبیائے کرام وصحابہ کرام کی کردار کشی اورمنفرد فقہی نظریات کا جابجا اظہار کیا ہے۔
مودودی صاحب کے بعض رفقانے کسی مصلحت کے پیش نظر ”تفیہم القرآن“ کی نئی طباعتوں میں بہت سے قابل اعتراض مقامات حذف کر دیے ہیں تاہم اب بھی نظر وفکر کے ایسے زاویے موجود ہیں جو امت مسلمہ کے جانے بوجھے پیمانوں سے ہٹے ہوئے ہیں، موقع بموقع ان کا ذکر آتا رہے گا۔ )
مودودی صاحب کے مؤقف پر ایک نظر
خلفائے راشدین وجمہور صحابہ کرام رضی الله عنہم تو پوری زندگی یہی کہتے رہے کہ حروف مقطعات متشابہات کے قبیل سے ہیں، ان کے معنی مراد کا علم الله تعالیٰ کو ہے ، لیکن مودودی صاحب فرماتے ہیں:” یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے، جن کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو۔“
جن صحابہ کرام رضی الله عنہم سے بعض معانی منقول ہیں انہوں نے یہ معانی ایک فائدے اور لکھنے کی حیثیت سے بیان کیے ، کسی صحابی رضی الله عنہ سے یہ دعوی منقول نہیں ہے کہ زبانِ نبوت سے جب فلاں حروف مقطعات جاری ہوئے تھے تو ہم نے اس کے یہ معنی سمجھے تھے، لیکن مودودی صاحب فرماتے ہیں:” سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے ۔“
اگر مودودی صاحب کا موقف درست تسلیم کر لیا جائے تو صحابہ کرام رضی الله عنہم کی امانت ودیانت پر حرف آئے گا کہ حروف مقطعات کے معانی ومراد کا علم ہونے کے باوجود امت کو اس خزانے سے محروم رکھ کر خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔ (معاذ الله) او ران کی دیانت بھی اس وجہ سے قابل اطمینان نہ رہے گی کہ انہوں نے اسلوب بیان کے متروک ہونے کے بعد علوم نبوت کی حفاظت سے غفلت برتی او راپنے ذہن وفکر کے تمام گوشوں سے وہ معانی ہی مٹا دیے جو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی تلاوت کے وقت سمجھے تھے۔ جب صحابہ کرام رضی الله عنہم کی امانت ودیانت کی ضمانت ہی مشکوک ٹھہری تو علوم شریعت کے محفوظ او رصحیح ہونے کی ضمانت کس طرح دی جاتی ہے؟
لسانیات سے متعلق ادنی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی مودودی صاحب کے موقف کو تسلیم کرنے میں تامل کرے گا، مودودی صاحب کے مضمون کے پیش نظر دیکھا جائے تو ایک طرف اس اسلوب کا چلن اس قدر عام تھا کہ بولنے والے کو اس کے معنی بیان کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی دوسری طرف یہ اس قدر جلدی متروک ہو گیا کہ اپنی فہم سے سمجھنے والے بھی اپنی زندگی کے کسی حصے میں بیان کرنے سے قاصر رہے ۔ کسی زبان کا اسلوب اس قدر تیزی سے بدل جاتا ہے ؟ اسلوب بدلنے سے معنی بھی کلیةً معدوم ہو جاتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مودودی صاحب کا یہ دعوی حقائق سے بہت دور اور شک وشبہ کی ایسی بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر اسلام کا اپنی پسند کا محل تعمیر کیا جاسکتا ہے۔
﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾․
ترجمہ: اس کتاب میں کچھ شک نہیں۔
”ذَلِکَ“ اسم اشارہ بعید کے لیے ہے۔ یعنی جس چیز کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے اگر وہ دور ہو تو ”ذَلِکَ“ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات وہ چیز تو قریب ہی ہوتی ہے، لیکن مرتبت او رمنزلت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتی ہے اس مقامِ بلند کے اظہار کے لیے بھی اسم اشارہ بعید ”ذَلِکَ“ لے آتے ہیں۔ (مفردات القرآن للراغب، ص:204، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
یہاں قرآن کریم اپنے وجود کے اعتبار سے تو ہمارے بہت قریب ہے، لیکن اپنی شان اور درجے کے اعتبار سے ہمارے وہم وخیال سے بھی بلند وبالا ہے، اسی کے اظہار کے لیے فرمایا گیا۔﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ﴾․
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما اورتابعین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ذلک(اسم شارہ بعید) ھذا(اسم اشارہ قریب) کے معنی میں استعمال ہوا ہے، کیوں کہ عربی محاورے میں دونوں اسم ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔( تفسیر ابن کثیر، البقرة،تحت آیة رقم:2)
”الْکِتَابُ“ عربی عرف میں ”لکھی ہوئی چیز“ کو کہتے ہیں۔ (مفردات القرآن للراغب، ص:442، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس آیت کریمہ میں ”الْکِتَابُ“ سے قرآن کریم مراد ہے۔ اس پر شبہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت تو قرآن کریم مکمل نہیں ہوا تھا تو پھر ” الکتاب“ سے قرآن کریم مراد لینا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ”کتاب“ کا اطلاق ان آیات پر بھی ہو سکتا ہے جو بعد میں نازل ہونے والی ہوں۔ چناں چہ قرآن کریم کی اس آیت:﴿کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہ﴾․(سورہ ص، آیت:29) میں کتاب کا طلاق ان آیات پر بھی ہوا ہے جو بعد میں نازل ہوئیں، کیوں کہ اس آیت کے نزول کے وقت قرآن کریم نہ کتابی صورت میں تھا اور نہ ہی مکمل شکل میں اتر چکا تھا۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ”الکتاب“ سے قرآن کریم کی وہ کتابت مراد ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے۔
پرویز صاحب کے نزدیک ”الکتاب“ کا معنی
( پرویز صاحب کا فکری وشخصی تعارف:”غلام احمد پرویز صاحب کو منکرین حدیث کے طبقے میں ” مفکر قرآن“ کا درجہ حاصل ہے، پرویز صاحب معروف منکر حدیث اسلم جیراج پوری ( پروفیسر جامعہ ملیہ دہلی) کے فیض یافتہ تھے، عمر کا بیشتر حصہ سرکاری ملازمت میں گزرا، اقبال کے شیدائی تھے، ان کی یاد میں جاری ہونے والے پرچے ماہنامہ”طلوعِ اسلام“ میں اپنے نظریات وافکار آہستہ آہستہ پھیلانے شروع کیے، تفسیم ہند کے بعد آپ دہلی سے کراچی منتقل ہو گئے اور یہ پرچہ منکرین حدیث کا ترجمان بن گیا۔1955ء میں کراچی سے لاہور منتقل ہو گئے اور لاہور ہی میں1985ء میں 82 سال کی عمر میں فوت ہو گئے، مسئلہ تقدیر میں پرویز صاحب نے معتزلہ کی پیروی کی اورکتاب التقدیر لکھی ، انکار معجزہ اور نظریہ ارتقا میں سرسید کے ہم نوا ہو گئے، سوشلزم کو مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے” قرآنی نظام ربوبیت“ نامی کتاب لکھ ماری، شریعت کی اصطلاحات ، کتاب الله، خدا، عبادت، صلوة، زکوٰة، قیامت، جنت ودوزخ کو خود ساختہ معانی کے جامے پہنا کر ان کا مفہوم ہی بدل ڈالا، اسی مقصد کے لیے کئی جلدوں میں ”لغات القرآن“ تصنیف کر ڈالی۔)
پرویز صاحب ”قرآنی فیصلے“ میں الکتاب کا معنی لکھتے ہیں:
”قرآن اپنے آپ کو بار بار کتاب کہتا ہے، پہلی آیت ہی﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾ سے شروع ہوتی ہے اور عرب اسی لکھ ہوئی چیز کو کتاب کہتے تھے جو مدون شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہے۔ (قرآنی فیصلے:668)
پرویز صاحب کو یہ معنی گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پرویز صاحب نے یہ معنی انکارِ حدیث کے موقف کو سہارا دینے کے لیے گھڑا، تاکہ ”کتٰب“ کی مذکورہ تعریف کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاسکے کہ” اگر احادیث بھی دین کا حصہ ہوتیں تو ان کا مجموعہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارک میں امت کے حوالے کر جاتے ، جس طرح قرآن کریم مدون اور کتابی شکل میں امت کے حوالے کر گئے تھے“ مزید تفصیل دیکھیے ۔ (طلوع اسلام، ص:11، فروری1982ء)
کیا آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں مدوّن شکل میں قرآن کریم امت کے حوالے کر گئے تھے؟ پرویز صاحب کے دعویٰ کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے تفصیلی مباحث تفسیر کے مقدمے میں دیکھیے۔ ان شاء الله
پرویز صاحب کی مذکورہ تعریف بے بنیاد ہے
پرویز صاحب کا دعویٰ تو یہی ہے کہ عربی زبان میں کتاب اسی کو کہتے ہیں ” جو مدوّن“ شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہو“۔ لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔
بمعنی خط:
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد پرندے کے ذریعے جو خط روانہ فرمایا تھا اسے کتاب سے تعبیر فرمایا﴿اذھب بکتابی ھذا﴾ (لے جا میرا یہ خط) اور بلقیس نے بھی اسے کتاب سے تعبیر کیا﴿انی القی الی کتب کریم﴾ (میرے پاس ڈالا گیا ایک خط عزت کا) اس کا مضمون دو آیتوں پر مشتمل ہے۔
﴿إِنَّہُ مِن سُلَیْْمَانَ وَإِنَّہُ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ، أَلَّا تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ﴾․(النمل:31,30)
ترجمہ: وہ خط ہے سلیمان کی طرف سے اور وہ یہ ہے شروع الله کے نام سے، جو بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے کہ زور نہ کرو میرے مقابلے میں اور چلے آؤ میرے سامنے، حکم بردار ہو کر۔
اب بتائیے اس مختصر خط کو مدوّن شکل اور سلی ہوئی صورت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
بمعنی فریضہ:
﴿ إِنَّ الصَّلاَةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوتاً﴾․( سورة النساء، آیت:103)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقرر وقتوں میں۔
کیا اس آیت کا ترجمہ پرویزی معنی کتاب کے پیش نظر یوں کیا جاسکتا ہے؟ ” بے شک نماز مسلمانوں پر مدوّن شکل اور سلی ہوئی صورت میں موجود ہے اپنے مقررہ وقتوں میں“۔
بمعنی تقدیر:
﴿لَّوْلاَ کِتَابٌ مِّنَ اللّہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْم﴾․(سورہٴ الأنفال، آیت:68)
ترجمہ: اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا الله پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب۔
کیا مذکورہ آیت میں کتاب سے ”مدوّن شکل اور سلی سوئی صورت” والی کتاب مراد لینے کی گنجائش ہے؟
بمعنی صحیفہ:
﴿وَالطُّورِ، وَکِتَابٍ مَّسْطُورٍ،فِیْ رَقٍّ مَّنشُور﴾․(سورہٴ طور، آیت:3,1)
ترجمہ: قسم ہے طور کی اورلکھی ہوئی کتاب کی، کشادہ ورق میں۔
اس آیت میں کتاب سے لکھی ہوئی چیز مراد ہے، اگرچہ وہ مدوّن شکل اور سلی ہوئی صورت میں نہ ہو۔
کتاب کے مختلف معانی کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ پرویز صاحب کا دعوی کہ ”عرب اسی لکھی ہوئی چیز کو کتاب کہتے ہیں جو مدوّن شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہو“ بے بنیاد اور بلادلیل ہے۔ اور پرویز صاحب نے لفظ ”کتاب“ کے اردو محاورے سے عوام الناس کو فریب دینے کی کوشش کی ہے ، کیوں کہ اردو میں کتاب اسی کو کہتے ہیں جو مدوّن شکل میں ہو۔
﴿لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾
تفسیر، ایک شبہ کا ازالہ
یہاں ایک شبہ ہو سکتا ہے کہ الله تعالیٰ نے تو اس کتاب سے ہر قسم کے شک کی نفی کی ہے ۔ حالاں کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اس میں شک کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شک ان کے دلوں میں ہے، یہ کتاب محلِ شک نہیں، اس کی مثال قرآن کریم میں ہے:﴿وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَّا رَیْْبَ فِیْہَا﴾․(سورہٴ حج، آیت:7)
ترجمہ: یعنی قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اگرچہ لوگ اپنے دلوں میں شک رکھیں۔
﴿سورة البقرہ﴾
نام اور وجہ تسمیہ
اس سورت کے متعدد نام ہیں، تاہم”البقرة“ کے نام سے معروف ہے، ”بقرة“ عربی زبان میں گائے کو کہتے ہیں ، چوں کہ اس سورت میں بنی اسرائیل کے ایک واقعے میں ”بقرہ“ کا تذکرہ ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام بقرہ ہے۔
فضیلت
احادیث صحیحہ میں سورت بقرة کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہر چیز کا ایک اعلیٰ ترین حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کا اعلیٰ ترین حصہ ”سورة بقرة“ ہے ۔“ ( جامع الترمذی، ابواب فضائل القرآن، رقم الحدیث:2878)
ایک او رحدیث میں ارشاد فرمایا” اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ ( تلاوت سے آباد رکھو)، جس گھر میں سورة بقرة کی تلاوت ہوتی ہے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔“ (صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم:780)
خلاصہ سورة بقرہ
سورة بقرہ کے مضامین اسلام کی بنیادی تعلیمات ، توحید، نبوت، رسالت اور قیامت پر مشتمل ہیں، انہیں بنیادی عقائد کو مختلف مقامات پر مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ، اسی سورت میں بنی اسرائیل کے ایک معروف واقعے کا تذکرہ ہے ، جس میں ایک مذبوحہ گائے کا ٹکڑا مقتول کو لگا تو وہ زندہ ہو کر قاتل کی نشان د ہی کرنے لگا۔ اس واقعے سے ان تینوں بنیادی عقائد پر روشنی پڑتی ہے ۔ ایک طرف تو اس میں الله تعالیٰ کی شان الوہیت اور کمالِ قدرت کے ادنیٰ کرشمہ کا اظہارہے، دوسری طرف یہی واقعہ حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت ورسالت کی تصدیق کے لیے عظیم الشان معجزہ ہے اور یہی معجزہ قیامت کے منکرین کے لیے مقام عبرت بھی ہے کہ وہ غور وفکر سے کام لیں،الله تعالیٰ روز محشر اپنی قدرت سے اسی طرح مُردوں کو زندہ فرمائیں گے، جس طرح اس مقتول کو زندہ فرمایا۔
باقی تمام مضامین مثلاً: راہ ِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب، اپنے محبوب بندوں پر انعامات ونواز شات کا تذکرہ، نافرمانوں کے انجام کی خبر، سیاسی ومعاشرتی احکام، جہاد، قصاص، میراث، حج، حیض ونفاس کے احکام، نکاح وطلاق، عدت، حق مہر، بچوں وغیرہ کی تربیت کے متعلق بنیادی اصولوں پر مشتمل ہیں۔
﴿المٓ﴾
قرآن کریم کی بعض سورتوں کا آغاز ایسے کلمات سے ہوتا ہے جو چند حروف سے مرکب ہیں، جیسے المّٓ، طٰسٓمّٓ، ظسٓ چوں کہ ان کلمات کے ہر ہر حرف کو جدا جدا ساکن پڑھا جاتا ہے اس لیے انہیں ”حروف مقطعہ“ کہا جاتا ہے۔
حروف مقطعات کے معانی
یہ حروف متشابہات کی قبیل سے ہیں اور متشابہات کے بارے میں جمہور صحابہ ، تابعین، علمائے امت کا مسلک وہی ہے جسے خلفائے راشدین نے اختیار کیا کہ اس کے ظاہری الفاظ پر ایمان لاکر اس کے معنی ومراد بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے، معنی اور مراد کے متعلق بس اتنا اعتقاد ہی کافی ہے کہ اس کا حقیقی علم الله تعالیٰ ہی کو ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، البقرة، تحت اٰیہ رقم:1)
کیوں کہ ان کی کو ئی تفسیر آپ صلی الله علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے، بعض ائمہ مفسرین سے جو معانی منقول ہیں، ان کی حیثیت ایک فائدے اور نکتے کی ہے، تعیین مراد ہر گز نہیں۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے معانی ومراد کا علم صرف الله تعالیٰ کو ہے تو پھر ان کو قرآن کریم میں ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟ اس کا جواب علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ کی زبانی سنیے، فرماتے ہیں:
”حروف مقطعات کا معنی اگرچہ ہمیں معلوم نہیں، لیکن اس پر ایمان لانا بھی باعث نجات اور ثواب ہے ، پھر اس کی تلاوت کرنے کے بھی معنوی فوائد او ربرکات ہیں، اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں۔ (ایضاً)
حروف مقطعات کی بابت مودودی صاحب کا موقف
مودودی صاحب کا موقف ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم حروف مقطعات کی مراد سے بخوبی واقف تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ اسلوب بیان متروک ہو گیا او راس وجہ سے معانی میں اختلاف پیداہو گیا، چناں چہ مودودی صاحب لکھتے ہیں۔
”یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے جن کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو ، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے، کہ ان سے مراد کیا ہے … بعد میں یہ اسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا او راس بنا پر مفسرین کے لیے ان کے معانی متعین کرنا مشکل ہو گیا۔“(تفہیم القرآن، البقرة، تحت آیہ رقم:1)
(مودودی صاحب کا فکری وشخصی تعارف:سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب25 ستمبر1903ء کو اورنگ آباد حیدر آباد دکن، ہندوستان میں پیدا ہوئے، آپ کا خاندان ایک خاندانی بزرگ قطب الدین مودودچشتی کے نام نامی سے منسوب ہے، جو، ہرات میں متوطن اور خواجہ معین الدین چشتی کے شیخ الشیوخ تھے۔آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ، والد محترم کے انتقال کے بعد تعلیم میٹرک سے آگے، نہ بڑھ سکی۔ لیکن شب وروز کے مسلسل مطالعے سے اپنی قابلیت میں غیر معمولی اضافہ کیا اور اردو انشا پردازی میں کمال حاصل کرکے مختلف رسائل واخبار کی ادارت سنبھالی۔1941ء میں ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
چوں کہ مودودی صاحب کے دینی علوم وافکار کا مدار اپنا مطالعہ اور ”اپنی فہم“ تھی، اس لیے ان کا قلم متضادرویوں کا حامل رہا، قرآن کریم کی تفسیر پر قلم اٹھایا تو اسلاف کے پیمانے سے ہٹ گئے ، بلکہ کہیں کہیں تو اس تفسیر وتشریح کے ڈانڈے تحریف سے جاملتے ہیں۔”تفہیم القرآن“ میں مودودی صاحب نے بائبل پر اعتماد، حدیث پر بد اعتمادی، من مانے قیاسات، خوارق ومعجزات سے انکار، انبیائے کرام وصحابہ کرام کی کردار کشی اورمنفرد فقہی نظریات کا جابجا اظہار کیا ہے۔
مودودی صاحب کے بعض رفقانے کسی مصلحت کے پیش نظر ”تفیہم القرآن“ کی نئی طباعتوں میں بہت سے قابل اعتراض مقامات حذف کر دیے ہیں تاہم اب بھی نظر وفکر کے ایسے زاویے موجود ہیں جو امت مسلمہ کے جانے بوجھے پیمانوں سے ہٹے ہوئے ہیں، موقع بموقع ان کا ذکر آتا رہے گا۔ )
مودودی صاحب کے مؤقف پر ایک نظر
خلفائے راشدین وجمہور صحابہ کرام رضی الله عنہم تو پوری زندگی یہی کہتے رہے کہ حروف مقطعات متشابہات کے قبیل سے ہیں، ان کے معنی مراد کا علم الله تعالیٰ کو ہے ، لیکن مودودی صاحب فرماتے ہیں:” یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے، جن کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو۔“
جن صحابہ کرام رضی الله عنہم سے بعض معانی منقول ہیں انہوں نے یہ معانی ایک فائدے اور لکھنے کی حیثیت سے بیان کیے ، کسی صحابی رضی الله عنہ سے یہ دعوی منقول نہیں ہے کہ زبانِ نبوت سے جب فلاں حروف مقطعات جاری ہوئے تھے تو ہم نے اس کے یہ معنی سمجھے تھے، لیکن مودودی صاحب فرماتے ہیں:” سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے ۔“
اگر مودودی صاحب کا موقف درست تسلیم کر لیا جائے تو صحابہ کرام رضی الله عنہم کی امانت ودیانت پر حرف آئے گا کہ حروف مقطعات کے معانی ومراد کا علم ہونے کے باوجود امت کو اس خزانے سے محروم رکھ کر خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔ (معاذ الله) او ران کی دیانت بھی اس وجہ سے قابل اطمینان نہ رہے گی کہ انہوں نے اسلوب بیان کے متروک ہونے کے بعد علوم نبوت کی حفاظت سے غفلت برتی او راپنے ذہن وفکر کے تمام گوشوں سے وہ معانی ہی مٹا دیے جو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی تلاوت کے وقت سمجھے تھے۔ جب صحابہ کرام رضی الله عنہم کی امانت ودیانت کی ضمانت ہی مشکوک ٹھہری تو علوم شریعت کے محفوظ او رصحیح ہونے کی ضمانت کس طرح دی جاتی ہے؟
لسانیات سے متعلق ادنی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی مودودی صاحب کے موقف کو تسلیم کرنے میں تامل کرے گا، مودودی صاحب کے مضمون کے پیش نظر دیکھا جائے تو ایک طرف اس اسلوب کا چلن اس قدر عام تھا کہ بولنے والے کو اس کے معنی بیان کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی دوسری طرف یہ اس قدر جلدی متروک ہو گیا کہ اپنی فہم سے سمجھنے والے بھی اپنی زندگی کے کسی حصے میں بیان کرنے سے قاصر رہے ۔ کسی زبان کا اسلوب اس قدر تیزی سے بدل جاتا ہے ؟ اسلوب بدلنے سے معنی بھی کلیةً معدوم ہو جاتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مودودی صاحب کا یہ دعوی حقائق سے بہت دور اور شک وشبہ کی ایسی بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر اسلام کا اپنی پسند کا محل تعمیر کیا جاسکتا ہے۔
﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾․
ترجمہ: اس کتاب میں کچھ شک نہیں۔
”ذَلِکَ“ اسم اشارہ بعید کے لیے ہے۔ یعنی جس چیز کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے اگر وہ دور ہو تو ”ذَلِکَ“ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات وہ چیز تو قریب ہی ہوتی ہے، لیکن مرتبت او رمنزلت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتی ہے اس مقامِ بلند کے اظہار کے لیے بھی اسم اشارہ بعید ”ذَلِکَ“ لے آتے ہیں۔ (مفردات القرآن للراغب، ص:204، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
یہاں قرآن کریم اپنے وجود کے اعتبار سے تو ہمارے بہت قریب ہے، لیکن اپنی شان اور درجے کے اعتبار سے ہمارے وہم وخیال سے بھی بلند وبالا ہے، اسی کے اظہار کے لیے فرمایا گیا۔﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ﴾․
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما اورتابعین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ذلک(اسم شارہ بعید) ھذا(اسم اشارہ قریب) کے معنی میں استعمال ہوا ہے، کیوں کہ عربی محاورے میں دونوں اسم ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔( تفسیر ابن کثیر، البقرة،تحت آیة رقم:2)
”الْکِتَابُ“ عربی عرف میں ”لکھی ہوئی چیز“ کو کہتے ہیں۔ (مفردات القرآن للراغب، ص:442، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس آیت کریمہ میں ”الْکِتَابُ“ سے قرآن کریم مراد ہے۔ اس پر شبہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت تو قرآن کریم مکمل نہیں ہوا تھا تو پھر ” الکتاب“ سے قرآن کریم مراد لینا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ”کتاب“ کا اطلاق ان آیات پر بھی ہو سکتا ہے جو بعد میں نازل ہونے والی ہوں۔ چناں چہ قرآن کریم کی اس آیت:﴿کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہ﴾․(سورہ ص، آیت:29) میں کتاب کا طلاق ان آیات پر بھی ہوا ہے جو بعد میں نازل ہوئیں، کیوں کہ اس آیت کے نزول کے وقت قرآن کریم نہ کتابی صورت میں تھا اور نہ ہی مکمل شکل میں اتر چکا تھا۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ”الکتاب“ سے قرآن کریم کی وہ کتابت مراد ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے۔
پرویز صاحب کے نزدیک ”الکتاب“ کا معنی
( پرویز صاحب کا فکری وشخصی تعارف:”غلام احمد پرویز صاحب کو منکرین حدیث کے طبقے میں ” مفکر قرآن“ کا درجہ حاصل ہے، پرویز صاحب معروف منکر حدیث اسلم جیراج پوری ( پروفیسر جامعہ ملیہ دہلی) کے فیض یافتہ تھے، عمر کا بیشتر حصہ سرکاری ملازمت میں گزرا، اقبال کے شیدائی تھے، ان کی یاد میں جاری ہونے والے پرچے ماہنامہ”طلوعِ اسلام“ میں اپنے نظریات وافکار آہستہ آہستہ پھیلانے شروع کیے، تفسیم ہند کے بعد آپ دہلی سے کراچی منتقل ہو گئے اور یہ پرچہ منکرین حدیث کا ترجمان بن گیا۔1955ء میں کراچی سے لاہور منتقل ہو گئے اور لاہور ہی میں1985ء میں 82 سال کی عمر میں فوت ہو گئے، مسئلہ تقدیر میں پرویز صاحب نے معتزلہ کی پیروی کی اورکتاب التقدیر لکھی ، انکار معجزہ اور نظریہ ارتقا میں سرسید کے ہم نوا ہو گئے، سوشلزم کو مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے” قرآنی نظام ربوبیت“ نامی کتاب لکھ ماری، شریعت کی اصطلاحات ، کتاب الله، خدا، عبادت، صلوة، زکوٰة، قیامت، جنت ودوزخ کو خود ساختہ معانی کے جامے پہنا کر ان کا مفہوم ہی بدل ڈالا، اسی مقصد کے لیے کئی جلدوں میں ”لغات القرآن“ تصنیف کر ڈالی۔)
پرویز صاحب ”قرآنی فیصلے“ میں الکتاب کا معنی لکھتے ہیں:
”قرآن اپنے آپ کو بار بار کتاب کہتا ہے، پہلی آیت ہی﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾ سے شروع ہوتی ہے اور عرب اسی لکھ ہوئی چیز کو کتاب کہتے تھے جو مدون شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہے۔ (قرآنی فیصلے:668)
پرویز صاحب کو یہ معنی گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پرویز صاحب نے یہ معنی انکارِ حدیث کے موقف کو سہارا دینے کے لیے گھڑا، تاکہ ”کتٰب“ کی مذکورہ تعریف کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاسکے کہ” اگر احادیث بھی دین کا حصہ ہوتیں تو ان کا مجموعہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارک میں امت کے حوالے کر جاتے ، جس طرح قرآن کریم مدون اور کتابی شکل میں امت کے حوالے کر گئے تھے“ مزید تفصیل دیکھیے ۔ (طلوع اسلام، ص:11، فروری1982ء)
کیا آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں مدوّن شکل میں قرآن کریم امت کے حوالے کر گئے تھے؟ پرویز صاحب کے دعویٰ کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے تفصیلی مباحث تفسیر کے مقدمے میں دیکھیے۔ ان شاء الله
پرویز صاحب کی مذکورہ تعریف بے بنیاد ہے
پرویز صاحب کا دعویٰ تو یہی ہے کہ عربی زبان میں کتاب اسی کو کہتے ہیں ” جو مدوّن“ شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہو“۔ لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔
بمعنی خط:
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد پرندے کے ذریعے جو خط روانہ فرمایا تھا اسے کتاب سے تعبیر فرمایا﴿اذھب بکتابی ھذا﴾ (لے جا میرا یہ خط) اور بلقیس نے بھی اسے کتاب سے تعبیر کیا﴿انی القی الی کتب کریم﴾ (میرے پاس ڈالا گیا ایک خط عزت کا) اس کا مضمون دو آیتوں پر مشتمل ہے۔
﴿إِنَّہُ مِن سُلَیْْمَانَ وَإِنَّہُ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ، أَلَّا تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ﴾․(النمل:31,30)
ترجمہ: وہ خط ہے سلیمان کی طرف سے اور وہ یہ ہے شروع الله کے نام سے، جو بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے کہ زور نہ کرو میرے مقابلے میں اور چلے آؤ میرے سامنے، حکم بردار ہو کر۔
اب بتائیے اس مختصر خط کو مدوّن شکل اور سلی ہوئی صورت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
بمعنی فریضہ:
﴿ إِنَّ الصَّلاَةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوتاً﴾․( سورة النساء، آیت:103)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقرر وقتوں میں۔
کیا اس آیت کا ترجمہ پرویزی معنی کتاب کے پیش نظر یوں کیا جاسکتا ہے؟ ” بے شک نماز مسلمانوں پر مدوّن شکل اور سلی ہوئی صورت میں موجود ہے اپنے مقررہ وقتوں میں“۔
بمعنی تقدیر:
﴿لَّوْلاَ کِتَابٌ مِّنَ اللّہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْم﴾․(سورہٴ الأنفال، آیت:68)
ترجمہ: اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا الله پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب۔
کیا مذکورہ آیت میں کتاب سے ”مدوّن شکل اور سلی سوئی صورت” والی کتاب مراد لینے کی گنجائش ہے؟
بمعنی صحیفہ:
﴿وَالطُّورِ، وَکِتَابٍ مَّسْطُورٍ،فِیْ رَقٍّ مَّنشُور﴾․(سورہٴ طور، آیت:3,1)
ترجمہ: قسم ہے طور کی اورلکھی ہوئی کتاب کی، کشادہ ورق میں۔
اس آیت میں کتاب سے لکھی ہوئی چیز مراد ہے، اگرچہ وہ مدوّن شکل اور سلی ہوئی صورت میں نہ ہو۔
کتاب کے مختلف معانی کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ پرویز صاحب کا دعوی کہ ”عرب اسی لکھی ہوئی چیز کو کتاب کہتے ہیں جو مدوّن شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہو“ بے بنیاد اور بلادلیل ہے۔ اور پرویز صاحب نے لفظ ”کتاب“ کے اردو محاورے سے عوام الناس کو فریب دینے کی کوشش کی ہے ، کیوں کہ اردو میں کتاب اسی کو کہتے ہیں جو مدوّن شکل میں ہو۔
﴿لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾
تفسیر، ایک شبہ کا ازالہ
یہاں ایک شبہ ہو سکتا ہے کہ الله تعالیٰ نے تو اس کتاب سے ہر قسم کے شک کی نفی کی ہے ۔ حالاں کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اس میں شک کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شک ان کے دلوں میں ہے، یہ کتاب محلِ شک نہیں، اس کی مثال قرآن کریم میں ہے:﴿وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَّا رَیْْبَ فِیْہَا﴾․(سورہٴ حج، آیت:7)
ترجمہ: یعنی قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اگرچہ لوگ اپنے دلوں میں شک رکھیں۔
﴿ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْن﴾․(الحج:7)
ترجمہ: راہ بتلاتی ہے ڈرنے والوں کو۔
ربط: سورہٴ فاتحہ میں اہل ایمان کی دعا کا تذکرہ ہے اس سورہ میں اس دعا کا جواب ہے کہ یہ لو! یہ ہے کتاب ہدایت، پھر ان تین گروہوں کا تذکرہ ہے جو انبیاء کی صراطِ مستقیم کی دعوت کے نتیجے میں سامنے آئے۔
﴿لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾․
ویسے تو یہ کتاب پوری دنیا کے لیے شمع ہدایت ہے، لیکن اس سے روشنی وہی پاسکیں گے جو دل میں خوف خدا اور حق کی سچی تڑپ رکھتے ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر ، البقرہ، تحت آیہ رقم:2)
معلوم ہوا کہ اس سے استفادہ کی پہلی شرط تقوی ہے، شریعت کی اصطلاح میں ہر گناہ سے اپنے آپ کو بچانے کا نام تقوی ہے۔
تقویٰ کے مراتب
تقوی کے تین مراتب ودرجات ہیں۔
1. اسلام قبول کرکے اپنے آپ کو جہنم کے دائمی عذاب سے بچانا۔ آیت کریمہ﴿وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَی﴾․ (الفتح:26) میں تقوی سے یہی معنی مراد ہیں۔
2. اپنے نفس کو گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے او رگناہ صغیرہ پر اصرار سے محفوظ رکھنا تقوی کا دوسرا مرتبہ ہے، آیت کریمہ:﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَی آمَنُواْ وَاتَّقَوا﴾․(الاعراف:96) میں تقوی کے یہی معنی مراد ہیں اور اصطلاح شریعت میں بھی عموماً جب تقویٰ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے یہی معنی مراد ہوتے ہیں۔
3. قلب وفکر کے ہر گوشے کو ہر ایسی چیز سے محفوظ رکھنا جو ذکر الہٰی سے دوری کا سبب بنتی ہو۔ یہ تقوی کا اعلیٰ مرتبہ ہے ۔ آیت کریمہ:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ حَقَّ تُقَاتِہ﴾․ میں تقوی کے یہی معنی مراد ہیں۔ (تفسیر ابی سعود،آل عمران، تحت آیة رقم:102)
متقین کی صفات
یہاں سے اس مبارک گروہ کی صفات بیان کی جارہی ہیں ، جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور دل وجان سے ان کے قول وفعل کی تصدیق کی۔
﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ ﴾․(البقرة، آیت:3)
ترجمہ: جو یقین کرتے ہیں بے دیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور جو ہم نے روزی دی ہے ان کو،اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبْ﴾․
ایمان کی تعریف:”ایمان“ امن سے ماخوذ ہے، امن اطمینان وسکون کو کہتے ہیں، جو خوف کو ضد ہے، جب ”امن“ کو بابِ افعال سے ”ایمان“ کی صورت میں لایا جائے تو اس کے معنی خوف زائل کرنے کے ہو جاتے ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں:”ھو التصدیق بما علم مجيٴ النبی ا بہ ضرورة تفصیلاً فیما علم تفصیلاً وإجمالاً فیما علم إجمالاً“․(روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:3)
یعنی حضور ا سے جن چیزوں کا ثبوت ”ضروری“ طور پر ہوا ہے ، اس کی تصدیق کرنا ایمان ہے اگر آپ صلی الله علیہ وسلم سے کسی چیز کا ثبوت اجمالی طور پر ہوا ہے ، تو اجمالی تصدیق اور اگر کسی چیز کا ثبوت تفصیلی طور پر ہوا ہے ، تو تفصیلی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ مذکورہ تعریف میں ”ضرورة“ سے مراد یقین ہے ۔( نبراس، شرح شرح العقائد، ص:249، امدادیہ ملتان)
یعنی جو چیز یقینی اور قطعی طور پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہو اس کی تصدیق کو ایمان کہا جائے گا۔
ضروریات دین کون سی چیزیں ہیں؟
دین کی جو چیزیں اس قدر تواتر او ریقین سے معلوم او رمشہور ہو چکی ہوں کہ عوام الناس بھی جانتے ہوں کہ یہ چیزیں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے دین مبارک کی ہیں، وہ چیزیں ضروریاتِ دین کہلاتی ہیں، مثلاً توحید ورسالت، ختم نبوت، حیات بعد الموت، سزا اور جزائے عمال، نماز اور زکوٰة کی فرضیت، شراب اور سود کی حرمت۔(مجموعة رسائل الکشمیری، اکفار المحلدین،3/2، ادارة القرآن، کراچی)
ایمان فلسفی او رایمان شرعی میں فرق
ایمان وہی معتبر ہے جو نبی کے خبر دینے او رنبی پر اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو ۔ جو شخص رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی کسی خبر او رحکم کو محض اس بنیاد پر تسلیم کرے کہ یہ عقل کے موافق ہے تو اس کا ایمان معتبر نہ ہو گا، کیوں کہ عقلیات کے نتائج مشکوک اور ظنی ہیں، جب کہ ایمان یقین ومعرفت کا تقاضا کرتا ہے ۔
لہٰذا اگر کوئی شخص توحید باری تعالیٰ کا اقرار تو کرتا ہے، لیکن حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خبر یا حکم کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض عقلی دلائل کی بنیاد پر تو ایسا شخص صاحب ایمان نہ ہو گا، اسی طرح کوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارک کہ” کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو سات مرتبہ دھو لو“ کی تصدیق محض سائنسی موافقت کی وجہ سے کرے کہ سائنس کے تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو سات بار دھونے سے اس سے مضر اثرات اور جراثیم ختم ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پربرتن کو سات بار دھوئے تو ایسا ایمان سائنسی کہلائے گا نہ، کہ شرعی۔
غیب
لغت میں ”غیب“ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو نظر سے پوشیدہ، مشاہدے او رتجربے سے باہر ہو ۔ ( لسان العرب،151/1، بیروت)
﴿ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبْ﴾ کا مطلب:
”ایمان“ اور غیب“ کی حقیقت واضح ہونے کے بعد اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ حواس وعقل سے وراء جن چیزوں کی خبر نبی سے ملی ہے ان کی دل وجاں سے تصدیق کرتے ہیں ،مثلاً حشر ونشر، حساب وکتاب، جنت ودوزخ، حو روملائکہ کی تصدیق۔
انبیاء کے لیے بھی علم غیب ہے
عالَم غیب پر ایمان لانا پرہیز گاروں کی صفت ہے اور انبیائے کرام تو تمام پرہیز گاروں کے امام اور پیشوا ہیں، ان کا علم و معرفت بھی اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ایک مقام پر جاکے ٹھہر جاتا ہے ، جہاں سے ان کے لیے مغیبات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس پر وہ ایمان لاتے ہیں۔
﴿وَیُقِیْمُونَ الصَّلوٰة﴾․
یہ پرہیز گاروں کی دوسری صفت ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی بڑے اہتمام سے کرتے ہیں ۔ نماز کے فرائض وواجبات سنن ومستحبات رکھتے ہیں اورایسی کیفیت پر مشتمل نماز کا نام ”اقامت صلاة“ ہے ۔ ( مفردات الفاظ القرآن للراغب، ص:320)
صلوة کا شرعی مفہوم
شریعت میں صلوٰة ایک مخصوص عبادت کا نام ہے ۔ ( مفردات الفاظ القرآن للراغب، ص:320)
پرویز صاحب کے نزدیک صلوة کا مفہوم
پرویز صاحب اپنی کتاب ”نظامِ ربوبیت“ میں صلوٰة کا مفہوم لکھتے ہیں : ” اقامت صلوة کے معنی ہیں ایسا معاشرہ قائم کرنا جس میں تمام افراد قوانین خداوندی کے پیچھے پیچھے چلتے جائیں ۔(پرویز صاحب کی اصطلاح” ”قانون ربوبیت“” نظام ربوبیت“ پر تفصیلی بحث سورة النساء آیت نمبر59 کے تحت آئے گی۔)یہ سب نظام ربوبیت کا اتباع کریں۔ (نظام ربوبیت، آٹھواں باب، ص:148)
پرویز صاحب چوں کہ منکرِ حدیث ہونے کے ساتھ شریعت کے بنیادی علوم سے بھی کورے ہیں، اس لیے وہ اپنے ذہن میں قائم کردہ خود ساختہ رائے پر قرآن وشریعت کی اصطلاحات کو چسپاں کرتے چلے جاتے ہیں ، جن کی تائید نہ قرآن واحادیث سے ہوتی ہے، نہ صحابہ کرام کے اقوال سے۔
پرویز صاحب کی بنیادی غلط فہمی
پرویز صاحب بنیادی طور پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن فہمی کے لیے حدیث رسول الله ا کو معیار نہیں بنایا جاسکتا ہے، کیوں کہ نبوت کا فریضہ فقط خدا کے کلام کو خدا کی مخلوق تک پہنچانے کا ہے۔ پرویز صاحب کا یہ موقف اس قدر بودا ہے کہ خود قرآنی آیات اسے باطل قرار دے رہی ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ﴾․ (الجمعة:2)
اس آیت کریمہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو کتاب وحکمت کا معلم قرار دیا جارہا ہے، ایک دسرے مقام پر ارشاد ہے کہ ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون﴾․ (النحل:44)
یہاں آپ ا کو کتاب الله کی شرح وبیان کا حق دیا جارہا ہے﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّہُ﴾․(النساء:105)
یعنی ”ہم نے آپ پر کتاب اتاری، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اپنی سمجھ کے ذریعے فیصلے فرمائیں جو الله تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی “۔ اس سے معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ نے نزول قرآن کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم سے بھی باخبر کیا ہے ۔ جس کا اظہار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے الفاظ واعمال کے ذریعے کیا۔ اسی معنی و مفہوم کو امت حدیث رسول سے اور ائمہ مجتہدین وحی خفی یا وحی غیر متلو سے تعبیر کرتے ہیں۔
حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد قرآن فہمی کے لیے صحابہ کرام کے اقوال کو پیش نظر رکھنا بھی اس لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ تفسیر (حیات مبارکہ) کے عینی شاہد اور ان احوال واسباب سے بھی بخوبی واقف تھے، جس میں نزول قرآن ہوا تھا، لہٰذا قرآن کریم کی درست تفسیر وہی ہو گی جس میں ان مذکورہ اصولوں کی رعایت کی گئی ہو۔ اگر کوئی شخص ان اصولوں سے صرف نظر کرکے تفسیر پر لب کشائی کرے گا تو وہ یقیناً جادہٴ حق سے بھٹک جائے گا اور اس کا ہر قدم کتنا ہی خیر خواہی اور خلوصِ نیت سے اٹھایا گیا ہو ، گم راہی ہی کی طرف بڑھے گا۔ (پرویز صاحب کے شبہات او راس کے اطمینان بخش جوابات مقدمے میں دیکھیے۔)
پرویز صاحب کا بے بنیاد شبہ
پرویز صاحب ” مفہوم القرآن“ میں لکھتے ہیں۔” کہا یہ جاتا ہے کہ قرآن کریم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوا او رحضور نے اسے صحابہ کی جماعت کو سمجھایا، ظاہر ہے کہ اس آسماں کے نیچے اس ذاتِ اقدس واعظم سے بہتر نہ تو کوئی قرآن کوسمجھانے والا ہو سکتا ہے اور نہ قدوسیوں کی اس جماعت سے بہتر سمجھنے والا اس لیے ہمیں قرآن فہمی کے سلسلے میں کسی اور طرف رخ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔“ یہ بالکل بجا اور درست ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جو کچھ حضور نے سمجھایا تھا وہ اپنی اصلی اور حقیقی شکل میں ہم تک نہیں پہنچا۔“ (مفہوم القرآن، از پرویز، ص:16)
منکرین حدیث کا یہ شبہ بالفرض درست تسلیم کر لیں تو ان سے سوال یہ ہے کہ اگر حضور کی تعلیمات حقیقی شکل میں ہم تک نہیں پہنچی تو آپ کس بنیاد پر اپنے افکار کو اسلامی کہنے پر تُلے ہوئے ہیں؟ آپ تک یہ حقیقی تعلیمات کس واسطے سے پہنچی؟
﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ﴾
تفسیر: رزق، لغت میں بخشش او رحصے کو کہتے ہیں، خواہ وہ حسی ہو یا معنوی۔ (تفسیر المنار، البقرہ، تحت آیة رقم:3)
یہاں لغوی معنی مراد ہیں ۔ یعنی متقین کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ظاہری وباطنی نعمتوں کو خرچ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے، مال دار اپنی دولت سے، علماء اپنے علم سے ، اہل معرفت اپنے انوار وفیوض سے طالبان رشد وہدایت کو فیض یاب کرتے ہیں۔
ایک شبہ
یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ مال تو کفار بھی خرچ کرتے ہیں، بالخصوص موجودہ دور میں تو ان کے بڑے بڑے فلاحی ادارے بظاہر شب وروز خدمتِ انسانیت میں مصروف ہیں، تو پھر یہ متقین ہی کی خصوصیت کیوں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ متقین رضائے الہٰی کی طلب میں رزقِ حلال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، جب کہ کافروں کے پیش نظر دنیا کا مفاد ہوتا ہے ، اس لیے یہ متقین کی خصوصیت قرار دی گئی۔
قرآن کریم میں جابجا الله تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کی راہ میں مال ایسا آدمی ہی خرچ کرے گا جو ذاتی وانفرادی حیثیت سے ما ل پر حق ملکیت بھی رکھتا ہو، اگر اسلام میں ذاتی ملکیت کا کوئی تصور نہ ہو تو راہِ خدا میں خرچ کرنے کی یہ ترغیب بے معنی رہ جائے گی ۔ لیکن پرویز صاحب چوں کہ سوشلزم کے نظریہ معیشت سے متاثر ہیں، اس لیے وہ ذاتی ملکیت کو ناجائز تصور کرتے ہیں ۔ ( ذاتی وانفرادی ملکیت کی مکمل بحث البقرہ:219، کے تحت آئے گی)
چناں چہ اس آیت میں انہوں نے نے ”انفاق“ کا معنی ومفہوم ہی بدل ڈالا۔ اس آیت کا مفہوم لکھتے ہیں۔
”اور جو سامانِ نشو ونما انہیں دیا جاتا ہے ، اس میں سے اپنی ضروریات کے بقدر لے کر باقی نوع انسان کی پرورش کے لیے کھلا رکھتے ہیں۔“ (مفہوم القرآن، البقرة، تحت ، آیة رقم:3)
پرویز صاحب کے نزدیک”انفاق“ کے بنیادی معنی
پرویز صاحب مطالب الفرقان میں لکھتے ہیں:” اس مادہ کے بنیادی معنی”خرچ کرنا“ نہیں بلکہ کھلا رکھنا ہے … واضح رہے کہ انفاق کے معنی”خرچ کرنا“ کے نہیں۔“ (مطالب الفرقان:106/1)
پرویز صاحب کے نرذیک”انفاق“ کی لغوی تحقیق
پرویز صاحب نے لفظ ”انفاق“ سے خرچ کرنے کے معنی ختم کرنے اور کھلے رکھنے کو ثابت کرنے کے لیے جو لغوی چھان بین کی ہے اسے بھی پڑھیے۔
”اب لفظ ینفقون کی طرف آئیے، جس کا مادہ (ن، ف، ق) ہے، نفق اس سرنگ کو کہتے ہیں جس کے داخل ہونے او رنکلنے کے دونوں راستے کھلے ہوں… بنابریں منافق اس کو کہتے ہیں جو کسی نظام میں داخل ہونے سے پہلے دل میں یہ سوچ لے مجھے اس سے باہر نکلنا پڑا تو اس کے لیے کون کون سے راستے اختیار کرنے ہوں گے ، بہرحال اس مادہ کے بنیادی معنی ” خرچ کرنا“ نہیں، بلکہ ”کھلا رکھنا“ ہیں ۔ ( مطالب الفرقان:105/1،106)
پرویز صاحب کی لغوی تحقیق پر ایک نظر
پرویزصاحب نے (ن،ف،ق) کے مادّے کے بنیادی معنی ایک ہی بتلا کر علمی خیانت اور مسلمانوں کو فریب دینے کی کوشش کی ہے، ”نفق“ کا مادہ بنیادی طو رپر دو جداگانہ معنی پر دلالت کرتا ہے ۔
کسی چیز کا کسی چیز سے کٹ کر جدا ہو جانا ، چلے جانا۔
کسی چیز کا پوشیدہ ہو جانا۔ ( معجم مقاییس اللغة:454/5)
پہلے معنی”کسی چیز کا کسی چیز سے کٹ کر جدا ہو جانا“ میں کم ہونے، ختم اور فنا ہونے یا مرجانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، جیسے: ”نفق مالہ ودرھمہ وطعامہ نفقاً ونفاقاً، ونِفق، کلاھما( أی نفَق ونِفق) نقص وقل، وقیل: فنی وذھب“․ ( لسان العرب، باب نفق:242/14، داراحیاء التراث العربی)
یعنی مال ودرھم اور کھانے میں ”نفق“ہوا (کم ہو گیا) ۔ یہ بھی مراد لیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں ختم ہو گئیں یا ہاتھ سے نکل گئیں۔ یہی ”نفق“ جس کا تعلق اول الذکر بنیادی معنی سے ہے جب باب افعال سے ہو تو لازمی ہونے کی صورت میں تو اس کے معنی،مال کے ہاتھ سے نکل جانے اور فقیر ومحتاج ہو جانے کے ہیں، جیسے :”انفق الرجل: افتقرأی ذھب ماعندہ“․(معجم مقاییس اللغة:454/5، دارالفکر، بیروت)
او رمتعدی ہونے کی صورت میں اسی کے معنی کسی چیز کو کسی مصرف میں لاکر اور خرچ کرکے کم کر دینے کے ہیں، جیسے ”أنفق المال صرفہ“․ (معجم مقاییس اللغة، 242/14، داراحیاء التراث العربی)
اس نے ”انفاقِ مال“ کیا، یعنی مال خرچ کیا، کسی لغوی نے آج تک اس کا ترجمہ مال کھلا رکھنے کا نہیں کیا، سوائے پرویز صاحب کے، جو عجمی بھی ہیں او رعجمی سازش کو بامراد کرنے کے لیے یہ معنی گھڑ رہے ہیں۔
نفق کے دوسرے بنیادی معنی میں سرنگ کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ (معجم مقاییس اللغة:455/5، دارالفکر)
لیکن یہاں تمام ائمہ لغت کے نزدیک”نفق“ کا تعلق اول الذکر بنیادی معنی کے باب افعال سے ہے، جسے بہ تفصیل ہم نے ذکر کر دیا۔
تغافل جاہلانہ یا تجاہل عارفانہ؟
”انفاق“ کے معنی ”کھلے رکھنے“ پر اصرار کے باوجود پرویز صاحب نے مفہوم القرآن میں کئی آیات میں ”انفاق“ کے معنی خرچ کرنے کے کرکے اپنی ہی تحقیق پر پانی پھیر دیا، دیکھیے ذیل کی آیات، جن کا ترجمہ مفہوم القرآن سے لیا گیا۔
﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ ﴾․ (البقرة:270)
ترجمہ: جو کچھ تم خرچ کرنے کی چیزوں سے خرچ کرتے ہو۔
﴿وَلاَ یُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَلاَ کَبِیْرَة﴾․ (التوبہ:121)
ترجمہ: یہ لوگ اس مقصد کے لیے جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں …
یہ صرف دو آیات کا ترجمہ بطور مثال دیا گیا ہے، جن میں ”انفاق“ کا ترجمہ خرچ کرنا خود پرویز صاحب نے کیا، حالاں کہ ان کی لغوی تحقیق یہ ہے کہ:
”انفاق کے بنیادی معنی خرچ کرنا نہیں بلکہ کھلا رکھنا ہیں۔“
مراد آبادی صاحب کا تفسیری نوٹ:
مراد آبادی صاحب﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ”صدقات نافلہ، اموات کے لیے ایصال ثواب، جیسے گیارہویں ، چالیسواں وغیرہ بھی اس میں داخل ہے ۔“ ( تفسیر خزائن العرفان، البقرة، تحت آیہ رقم:3)
ایصال ثواب کا صحیح طریقہ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صدقات وخیرات، بلکہ کوئی بھی نیک عمل اس نیت سے کر لیا جائے کہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچ جائے تو وہ اسے پہنچ جاتا ہے ، ایصال ثواب کے لیے یہی مسنون طریقہ ہے ۔ ( ردالمحتار، باب صلاة الجنازہ، 243/2، معید)
لیکن اگر ایصال ثواب کے لیے کسی تاریخ کا التزام کر لیا جائے (جیسے تیجہ، گیارھویں، چالسیواں) یا کوئی ایسی مخصوص ہیئت اختیار کر لی جائے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو اور صحابہ کرام رضی الله عنہم وتابعین رحمہم الله نے، جو نیک کاموں پر سب سے زیادہ حریص تھے، انہوں نے اسے انجام نہ دیا ہو ( جیسے کھانا سامنے رکھ کر مخصوص آیات کی تلاوت کرنا) تو وہ بدعت شمار ہوتا ہے ۔ ( التعریفات للجرجانی، ص:33، قدیمی)
اس لیے فقہائے کرام نے ایصال ثواب کے اس طریقہ کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ ( البنرازیة علی ھامش الھندیہ، کتاب الصلاة،81/4، رشیدیہ)
ترجمہ: راہ بتلاتی ہے ڈرنے والوں کو۔
ربط: سورہٴ فاتحہ میں اہل ایمان کی دعا کا تذکرہ ہے اس سورہ میں اس دعا کا جواب ہے کہ یہ لو! یہ ہے کتاب ہدایت، پھر ان تین گروہوں کا تذکرہ ہے جو انبیاء کی صراطِ مستقیم کی دعوت کے نتیجے میں سامنے آئے۔
﴿لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾․
ویسے تو یہ کتاب پوری دنیا کے لیے شمع ہدایت ہے، لیکن اس سے روشنی وہی پاسکیں گے جو دل میں خوف خدا اور حق کی سچی تڑپ رکھتے ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر ، البقرہ، تحت آیہ رقم:2)
معلوم ہوا کہ اس سے استفادہ کی پہلی شرط تقوی ہے، شریعت کی اصطلاح میں ہر گناہ سے اپنے آپ کو بچانے کا نام تقوی ہے۔
تقویٰ کے مراتب
تقوی کے تین مراتب ودرجات ہیں۔
1. اسلام قبول کرکے اپنے آپ کو جہنم کے دائمی عذاب سے بچانا۔ آیت کریمہ﴿وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَی﴾․ (الفتح:26) میں تقوی سے یہی معنی مراد ہیں۔
2. اپنے نفس کو گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے او رگناہ صغیرہ پر اصرار سے محفوظ رکھنا تقوی کا دوسرا مرتبہ ہے، آیت کریمہ:﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَی آمَنُواْ وَاتَّقَوا﴾․(الاعراف:96) میں تقوی کے یہی معنی مراد ہیں اور اصطلاح شریعت میں بھی عموماً جب تقویٰ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے یہی معنی مراد ہوتے ہیں۔
3. قلب وفکر کے ہر گوشے کو ہر ایسی چیز سے محفوظ رکھنا جو ذکر الہٰی سے دوری کا سبب بنتی ہو۔ یہ تقوی کا اعلیٰ مرتبہ ہے ۔ آیت کریمہ:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ حَقَّ تُقَاتِہ﴾․ میں تقوی کے یہی معنی مراد ہیں۔ (تفسیر ابی سعود،آل عمران، تحت آیة رقم:102)
متقین کی صفات
یہاں سے اس مبارک گروہ کی صفات بیان کی جارہی ہیں ، جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور دل وجان سے ان کے قول وفعل کی تصدیق کی۔
﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ ﴾․(البقرة، آیت:3)
ترجمہ: جو یقین کرتے ہیں بے دیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور جو ہم نے روزی دی ہے ان کو،اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبْ﴾․
ایمان کی تعریف:”ایمان“ امن سے ماخوذ ہے، امن اطمینان وسکون کو کہتے ہیں، جو خوف کو ضد ہے، جب ”امن“ کو بابِ افعال سے ”ایمان“ کی صورت میں لایا جائے تو اس کے معنی خوف زائل کرنے کے ہو جاتے ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں:”ھو التصدیق بما علم مجيٴ النبی ا بہ ضرورة تفصیلاً فیما علم تفصیلاً وإجمالاً فیما علم إجمالاً“․(روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:3)
یعنی حضور ا سے جن چیزوں کا ثبوت ”ضروری“ طور پر ہوا ہے ، اس کی تصدیق کرنا ایمان ہے اگر آپ صلی الله علیہ وسلم سے کسی چیز کا ثبوت اجمالی طور پر ہوا ہے ، تو اجمالی تصدیق اور اگر کسی چیز کا ثبوت تفصیلی طور پر ہوا ہے ، تو تفصیلی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ مذکورہ تعریف میں ”ضرورة“ سے مراد یقین ہے ۔( نبراس، شرح شرح العقائد، ص:249، امدادیہ ملتان)
یعنی جو چیز یقینی اور قطعی طور پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہو اس کی تصدیق کو ایمان کہا جائے گا۔
ضروریات دین کون سی چیزیں ہیں؟
دین کی جو چیزیں اس قدر تواتر او ریقین سے معلوم او رمشہور ہو چکی ہوں کہ عوام الناس بھی جانتے ہوں کہ یہ چیزیں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے دین مبارک کی ہیں، وہ چیزیں ضروریاتِ دین کہلاتی ہیں، مثلاً توحید ورسالت، ختم نبوت، حیات بعد الموت، سزا اور جزائے عمال، نماز اور زکوٰة کی فرضیت، شراب اور سود کی حرمت۔(مجموعة رسائل الکشمیری، اکفار المحلدین،3/2، ادارة القرآن، کراچی)
ایمان فلسفی او رایمان شرعی میں فرق
ایمان وہی معتبر ہے جو نبی کے خبر دینے او رنبی پر اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو ۔ جو شخص رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی کسی خبر او رحکم کو محض اس بنیاد پر تسلیم کرے کہ یہ عقل کے موافق ہے تو اس کا ایمان معتبر نہ ہو گا، کیوں کہ عقلیات کے نتائج مشکوک اور ظنی ہیں، جب کہ ایمان یقین ومعرفت کا تقاضا کرتا ہے ۔
لہٰذا اگر کوئی شخص توحید باری تعالیٰ کا اقرار تو کرتا ہے، لیکن حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خبر یا حکم کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض عقلی دلائل کی بنیاد پر تو ایسا شخص صاحب ایمان نہ ہو گا، اسی طرح کوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارک کہ” کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو سات مرتبہ دھو لو“ کی تصدیق محض سائنسی موافقت کی وجہ سے کرے کہ سائنس کے تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو سات بار دھونے سے اس سے مضر اثرات اور جراثیم ختم ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پربرتن کو سات بار دھوئے تو ایسا ایمان سائنسی کہلائے گا نہ، کہ شرعی۔
غیب
لغت میں ”غیب“ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو نظر سے پوشیدہ، مشاہدے او رتجربے سے باہر ہو ۔ ( لسان العرب،151/1، بیروت)
﴿ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبْ﴾ کا مطلب:
”ایمان“ اور غیب“ کی حقیقت واضح ہونے کے بعد اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ حواس وعقل سے وراء جن چیزوں کی خبر نبی سے ملی ہے ان کی دل وجاں سے تصدیق کرتے ہیں ،مثلاً حشر ونشر، حساب وکتاب، جنت ودوزخ، حو روملائکہ کی تصدیق۔
انبیاء کے لیے بھی علم غیب ہے
عالَم غیب پر ایمان لانا پرہیز گاروں کی صفت ہے اور انبیائے کرام تو تمام پرہیز گاروں کے امام اور پیشوا ہیں، ان کا علم و معرفت بھی اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ایک مقام پر جاکے ٹھہر جاتا ہے ، جہاں سے ان کے لیے مغیبات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس پر وہ ایمان لاتے ہیں۔
﴿وَیُقِیْمُونَ الصَّلوٰة﴾․
یہ پرہیز گاروں کی دوسری صفت ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی بڑے اہتمام سے کرتے ہیں ۔ نماز کے فرائض وواجبات سنن ومستحبات رکھتے ہیں اورایسی کیفیت پر مشتمل نماز کا نام ”اقامت صلاة“ ہے ۔ ( مفردات الفاظ القرآن للراغب، ص:320)
صلوة کا شرعی مفہوم
شریعت میں صلوٰة ایک مخصوص عبادت کا نام ہے ۔ ( مفردات الفاظ القرآن للراغب، ص:320)
پرویز صاحب کے نزدیک صلوة کا مفہوم
پرویز صاحب اپنی کتاب ”نظامِ ربوبیت“ میں صلوٰة کا مفہوم لکھتے ہیں : ” اقامت صلوة کے معنی ہیں ایسا معاشرہ قائم کرنا جس میں تمام افراد قوانین خداوندی کے پیچھے پیچھے چلتے جائیں ۔(پرویز صاحب کی اصطلاح” ”قانون ربوبیت“” نظام ربوبیت“ پر تفصیلی بحث سورة النساء آیت نمبر59 کے تحت آئے گی۔)یہ سب نظام ربوبیت کا اتباع کریں۔ (نظام ربوبیت، آٹھواں باب، ص:148)
پرویز صاحب چوں کہ منکرِ حدیث ہونے کے ساتھ شریعت کے بنیادی علوم سے بھی کورے ہیں، اس لیے وہ اپنے ذہن میں قائم کردہ خود ساختہ رائے پر قرآن وشریعت کی اصطلاحات کو چسپاں کرتے چلے جاتے ہیں ، جن کی تائید نہ قرآن واحادیث سے ہوتی ہے، نہ صحابہ کرام کے اقوال سے۔
پرویز صاحب کی بنیادی غلط فہمی
پرویز صاحب بنیادی طور پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن فہمی کے لیے حدیث رسول الله ا کو معیار نہیں بنایا جاسکتا ہے، کیوں کہ نبوت کا فریضہ فقط خدا کے کلام کو خدا کی مخلوق تک پہنچانے کا ہے۔ پرویز صاحب کا یہ موقف اس قدر بودا ہے کہ خود قرآنی آیات اسے باطل قرار دے رہی ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ﴾․ (الجمعة:2)
اس آیت کریمہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو کتاب وحکمت کا معلم قرار دیا جارہا ہے، ایک دسرے مقام پر ارشاد ہے کہ ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون﴾․ (النحل:44)
یہاں آپ ا کو کتاب الله کی شرح وبیان کا حق دیا جارہا ہے﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّہُ﴾․(النساء:105)
یعنی ”ہم نے آپ پر کتاب اتاری، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اپنی سمجھ کے ذریعے فیصلے فرمائیں جو الله تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی “۔ اس سے معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ نے نزول قرآن کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم سے بھی باخبر کیا ہے ۔ جس کا اظہار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے الفاظ واعمال کے ذریعے کیا۔ اسی معنی و مفہوم کو امت حدیث رسول سے اور ائمہ مجتہدین وحی خفی یا وحی غیر متلو سے تعبیر کرتے ہیں۔
حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد قرآن فہمی کے لیے صحابہ کرام کے اقوال کو پیش نظر رکھنا بھی اس لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ تفسیر (حیات مبارکہ) کے عینی شاہد اور ان احوال واسباب سے بھی بخوبی واقف تھے، جس میں نزول قرآن ہوا تھا، لہٰذا قرآن کریم کی درست تفسیر وہی ہو گی جس میں ان مذکورہ اصولوں کی رعایت کی گئی ہو۔ اگر کوئی شخص ان اصولوں سے صرف نظر کرکے تفسیر پر لب کشائی کرے گا تو وہ یقیناً جادہٴ حق سے بھٹک جائے گا اور اس کا ہر قدم کتنا ہی خیر خواہی اور خلوصِ نیت سے اٹھایا گیا ہو ، گم راہی ہی کی طرف بڑھے گا۔ (پرویز صاحب کے شبہات او راس کے اطمینان بخش جوابات مقدمے میں دیکھیے۔)
پرویز صاحب کا بے بنیاد شبہ
پرویز صاحب ” مفہوم القرآن“ میں لکھتے ہیں۔” کہا یہ جاتا ہے کہ قرآن کریم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوا او رحضور نے اسے صحابہ کی جماعت کو سمجھایا، ظاہر ہے کہ اس آسماں کے نیچے اس ذاتِ اقدس واعظم سے بہتر نہ تو کوئی قرآن کوسمجھانے والا ہو سکتا ہے اور نہ قدوسیوں کی اس جماعت سے بہتر سمجھنے والا اس لیے ہمیں قرآن فہمی کے سلسلے میں کسی اور طرف رخ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔“ یہ بالکل بجا اور درست ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جو کچھ حضور نے سمجھایا تھا وہ اپنی اصلی اور حقیقی شکل میں ہم تک نہیں پہنچا۔“ (مفہوم القرآن، از پرویز، ص:16)
منکرین حدیث کا یہ شبہ بالفرض درست تسلیم کر لیں تو ان سے سوال یہ ہے کہ اگر حضور کی تعلیمات حقیقی شکل میں ہم تک نہیں پہنچی تو آپ کس بنیاد پر اپنے افکار کو اسلامی کہنے پر تُلے ہوئے ہیں؟ آپ تک یہ حقیقی تعلیمات کس واسطے سے پہنچی؟
﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ﴾
تفسیر: رزق، لغت میں بخشش او رحصے کو کہتے ہیں، خواہ وہ حسی ہو یا معنوی۔ (تفسیر المنار، البقرہ، تحت آیة رقم:3)
یہاں لغوی معنی مراد ہیں ۔ یعنی متقین کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ظاہری وباطنی نعمتوں کو خرچ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے، مال دار اپنی دولت سے، علماء اپنے علم سے ، اہل معرفت اپنے انوار وفیوض سے طالبان رشد وہدایت کو فیض یاب کرتے ہیں۔
ایک شبہ
یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ مال تو کفار بھی خرچ کرتے ہیں، بالخصوص موجودہ دور میں تو ان کے بڑے بڑے فلاحی ادارے بظاہر شب وروز خدمتِ انسانیت میں مصروف ہیں، تو پھر یہ متقین ہی کی خصوصیت کیوں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ متقین رضائے الہٰی کی طلب میں رزقِ حلال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، جب کہ کافروں کے پیش نظر دنیا کا مفاد ہوتا ہے ، اس لیے یہ متقین کی خصوصیت قرار دی گئی۔
قرآن کریم میں جابجا الله تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کی راہ میں مال ایسا آدمی ہی خرچ کرے گا جو ذاتی وانفرادی حیثیت سے ما ل پر حق ملکیت بھی رکھتا ہو، اگر اسلام میں ذاتی ملکیت کا کوئی تصور نہ ہو تو راہِ خدا میں خرچ کرنے کی یہ ترغیب بے معنی رہ جائے گی ۔ لیکن پرویز صاحب چوں کہ سوشلزم کے نظریہ معیشت سے متاثر ہیں، اس لیے وہ ذاتی ملکیت کو ناجائز تصور کرتے ہیں ۔ ( ذاتی وانفرادی ملکیت کی مکمل بحث البقرہ:219، کے تحت آئے گی)
چناں چہ اس آیت میں انہوں نے نے ”انفاق“ کا معنی ومفہوم ہی بدل ڈالا۔ اس آیت کا مفہوم لکھتے ہیں۔
”اور جو سامانِ نشو ونما انہیں دیا جاتا ہے ، اس میں سے اپنی ضروریات کے بقدر لے کر باقی نوع انسان کی پرورش کے لیے کھلا رکھتے ہیں۔“ (مفہوم القرآن، البقرة، تحت ، آیة رقم:3)
پرویز صاحب کے نزدیک”انفاق“ کے بنیادی معنی
پرویز صاحب مطالب الفرقان میں لکھتے ہیں:” اس مادہ کے بنیادی معنی”خرچ کرنا“ نہیں بلکہ کھلا رکھنا ہے … واضح رہے کہ انفاق کے معنی”خرچ کرنا“ کے نہیں۔“ (مطالب الفرقان:106/1)
پرویز صاحب کے نرذیک”انفاق“ کی لغوی تحقیق
پرویز صاحب نے لفظ ”انفاق“ سے خرچ کرنے کے معنی ختم کرنے اور کھلے رکھنے کو ثابت کرنے کے لیے جو لغوی چھان بین کی ہے اسے بھی پڑھیے۔
”اب لفظ ینفقون کی طرف آئیے، جس کا مادہ (ن، ف، ق) ہے، نفق اس سرنگ کو کہتے ہیں جس کے داخل ہونے او رنکلنے کے دونوں راستے کھلے ہوں… بنابریں منافق اس کو کہتے ہیں جو کسی نظام میں داخل ہونے سے پہلے دل میں یہ سوچ لے مجھے اس سے باہر نکلنا پڑا تو اس کے لیے کون کون سے راستے اختیار کرنے ہوں گے ، بہرحال اس مادہ کے بنیادی معنی ” خرچ کرنا“ نہیں، بلکہ ”کھلا رکھنا“ ہیں ۔ ( مطالب الفرقان:105/1،106)
پرویز صاحب کی لغوی تحقیق پر ایک نظر
پرویزصاحب نے (ن،ف،ق) کے مادّے کے بنیادی معنی ایک ہی بتلا کر علمی خیانت اور مسلمانوں کو فریب دینے کی کوشش کی ہے، ”نفق“ کا مادہ بنیادی طو رپر دو جداگانہ معنی پر دلالت کرتا ہے ۔
کسی چیز کا کسی چیز سے کٹ کر جدا ہو جانا ، چلے جانا۔
کسی چیز کا پوشیدہ ہو جانا۔ ( معجم مقاییس اللغة:454/5)
پہلے معنی”کسی چیز کا کسی چیز سے کٹ کر جدا ہو جانا“ میں کم ہونے، ختم اور فنا ہونے یا مرجانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، جیسے: ”نفق مالہ ودرھمہ وطعامہ نفقاً ونفاقاً، ونِفق، کلاھما( أی نفَق ونِفق) نقص وقل، وقیل: فنی وذھب“․ ( لسان العرب، باب نفق:242/14، داراحیاء التراث العربی)
یعنی مال ودرھم اور کھانے میں ”نفق“ہوا (کم ہو گیا) ۔ یہ بھی مراد لیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں ختم ہو گئیں یا ہاتھ سے نکل گئیں۔ یہی ”نفق“ جس کا تعلق اول الذکر بنیادی معنی سے ہے جب باب افعال سے ہو تو لازمی ہونے کی صورت میں تو اس کے معنی،مال کے ہاتھ سے نکل جانے اور فقیر ومحتاج ہو جانے کے ہیں، جیسے :”انفق الرجل: افتقرأی ذھب ماعندہ“․(معجم مقاییس اللغة:454/5، دارالفکر، بیروت)
او رمتعدی ہونے کی صورت میں اسی کے معنی کسی چیز کو کسی مصرف میں لاکر اور خرچ کرکے کم کر دینے کے ہیں، جیسے ”أنفق المال صرفہ“․ (معجم مقاییس اللغة، 242/14، داراحیاء التراث العربی)
اس نے ”انفاقِ مال“ کیا، یعنی مال خرچ کیا، کسی لغوی نے آج تک اس کا ترجمہ مال کھلا رکھنے کا نہیں کیا، سوائے پرویز صاحب کے، جو عجمی بھی ہیں او رعجمی سازش کو بامراد کرنے کے لیے یہ معنی گھڑ رہے ہیں۔
نفق کے دوسرے بنیادی معنی میں سرنگ کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ (معجم مقاییس اللغة:455/5، دارالفکر)
لیکن یہاں تمام ائمہ لغت کے نزدیک”نفق“ کا تعلق اول الذکر بنیادی معنی کے باب افعال سے ہے، جسے بہ تفصیل ہم نے ذکر کر دیا۔
تغافل جاہلانہ یا تجاہل عارفانہ؟
”انفاق“ کے معنی ”کھلے رکھنے“ پر اصرار کے باوجود پرویز صاحب نے مفہوم القرآن میں کئی آیات میں ”انفاق“ کے معنی خرچ کرنے کے کرکے اپنی ہی تحقیق پر پانی پھیر دیا، دیکھیے ذیل کی آیات، جن کا ترجمہ مفہوم القرآن سے لیا گیا۔
﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ ﴾․ (البقرة:270)
ترجمہ: جو کچھ تم خرچ کرنے کی چیزوں سے خرچ کرتے ہو۔
﴿وَلاَ یُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَلاَ کَبِیْرَة﴾․ (التوبہ:121)
ترجمہ: یہ لوگ اس مقصد کے لیے جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں …
یہ صرف دو آیات کا ترجمہ بطور مثال دیا گیا ہے، جن میں ”انفاق“ کا ترجمہ خرچ کرنا خود پرویز صاحب نے کیا، حالاں کہ ان کی لغوی تحقیق یہ ہے کہ:
”انفاق کے بنیادی معنی خرچ کرنا نہیں بلکہ کھلا رکھنا ہیں۔“
مراد آبادی صاحب کا تفسیری نوٹ:
مراد آبادی صاحب﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ”صدقات نافلہ، اموات کے لیے ایصال ثواب، جیسے گیارہویں ، چالیسواں وغیرہ بھی اس میں داخل ہے ۔“ ( تفسیر خزائن العرفان، البقرة، تحت آیہ رقم:3)
ایصال ثواب کا صحیح طریقہ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صدقات وخیرات، بلکہ کوئی بھی نیک عمل اس نیت سے کر لیا جائے کہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچ جائے تو وہ اسے پہنچ جاتا ہے ، ایصال ثواب کے لیے یہی مسنون طریقہ ہے ۔ ( ردالمحتار، باب صلاة الجنازہ، 243/2، معید)
لیکن اگر ایصال ثواب کے لیے کسی تاریخ کا التزام کر لیا جائے (جیسے تیجہ، گیارھویں، چالسیواں) یا کوئی ایسی مخصوص ہیئت اختیار کر لی جائے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو اور صحابہ کرام رضی الله عنہم وتابعین رحمہم الله نے، جو نیک کاموں پر سب سے زیادہ حریص تھے، انہوں نے اسے انجام نہ دیا ہو ( جیسے کھانا سامنے رکھ کر مخصوص آیات کی تلاوت کرنا) تو وہ بدعت شمار ہوتا ہے ۔ ( التعریفات للجرجانی، ص:33، قدیمی)
اس لیے فقہائے کرام نے ایصال ثواب کے اس طریقہ کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ ( البنرازیة علی ھامش الھندیہ، کتاب الصلاة،81/4، رشیدیہ)
رزق کیاہے؟
اشیاء محرمہ پر رزق کا اطلاق درست ہے یا نہیں؟
اہل سنت والجماعت کے نزدیک حلال او رحرام دونوں پر رزق کا اطلاق درست ہے، فرقہ معتزلہ کے نزدیک رزق کا اطلاق فقط حلال پر کیا جاسکتا ہے، نہ کہ حرام پر ۔ ( النبراس شرح شرح العقائد، ص:197)
رزق کی لغوی وشرعی تعریف
لغت میں رزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے نفع اٹھایا جائے ۔ اصطلاح شریعت میں رزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو الله تعالیٰ کی طرف سے ہر ذی حیات کو نفع اٹھانے کے لیے مہیا ہو جائے، یہ چیز حلال بھی ہو سکتی ہے، حرام بھی، بہر صورت رزق ہی کہلائے گی۔ ( النبراس شرح شرح العقائد، ص:196)
معتزلہ کے نزدیک رزق کی تعریف
معتزلہ کے نزدیک رزق فقط اسے کہتے ہیں جس سے نفع اٹھانے کو الله تعالیٰ نے منع نہ فرمایا ہو ۔ چوں کہ حرام سے نفع اٹھانے کو الله تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس لیے اسے رزق نہیں کہا جا سکتا ۔ لہٰذا رزق کا اطلاق فقط حلال پر ہو گا، نہ کہ حرام پر۔ (( النبراس شرح شرح العقائد، ص:197)
معتزلہ کا موقف قرآن وسنت کے خلاف ہے
معتزلہ کا موقف درست تسلیم کر لینے کی صورت میں قرآنی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے، کیوں کہ الله تعالیٰ کے فرمان کے مطابق زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق میرے ذمے نہ ہو ﴿ما من دابة فی الأرض إلاّ علی الله رزقھا﴾ لیکن معتزلہ کے مؤقف کے پیش نظراگر کوئی شخص عمربھر حرام کھا کر مر گیا تو وہ زرق الہٰی سے محروم شمار ہو گا۔
اس کے علاوہ حدیث مبارکہ میں ایک صحابی کا تذکرہ آتا ہے، جنہوں نے بارگاہ ِ رسالت میں آکر عرض کیا کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اپنے ہاتھ سے دف بجانے کے سوا کسی اور ذریعہ سے زرق نہیں ملے گا، لہٰذا مجھے ایسے گانوں کی اجازت مرحمت فرمائیں جن میں کوئی فحش بات نہ ہو ، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ناراض ہو کر فرمایا :”کذبت یا عدو الله! لقد رزقک الله حلالاً طیباً فاخترت ماحرم الله من رزقہ مکان ما أحل الله من حلال “․ ( المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:7190،و کذا ابن ماجہ، رقم الحدیث:2711)
ترجمہ:” اے دشمن خدا! تو جھوٹ بولتا ہے ، الله تعالیٰ نے تیرے لیے حلال اور پاکیزہ رزق پیدا فرمایا، لیکن تونے اس رزق کو چھوڑ کر جو الله تعالیٰ نے تیرے لیے حلال فرمایا تھا اپنا وہ رزق اختیا رکیا جو الله تعالیٰ نے تجھ پر حرام فرمایا۔“
دیکھیے حدیث مبارکہ میں حرام کو بھی رزق فرمایا گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ انہوں نے رزق کے حصول کے لیے شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ ایسا طریقہ اختیار کیا جوشریعت میں ممنوع تھا۔
معتزلہ کا بنیادی اشکال
اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو ہستی اپنے بندوں کو رزق سے نوازتی ہے وہ فقط الله تعالیٰ کی ذات ہے اور عطائے رزق کی نسبت ہمیشہ اسی کی طرف ہو گی، لیکن معتزلہ کا شبہ یہ ہے کہ اگر رزق حرام کو بھی رزق شمار کیا جائے تو وہ بھی الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا او رجو چیز الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو وہ قبیح (بری) نہیں ہو سکتی لہٰذا حرام قبیح نہ رہے گا او راس کا مرتکب دنیا میں مذمت اور آخرت میں مستحق عقاب بھی نہ ہو گا ۔ حالاں کہ حرام کی قباحت پر او راس کے مرتکب کی دنیا میں مذمت اور آخرت میں مستحق عقاب ہونے پر کسی کو اختلاف نہیں۔
جواب
معتزلہ کے اشکال کی یہ بنیاد ہی غلط ہے کہ جو چیز الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو وہ قبیح نہیں ہو سکتی، کیوں کہ الله تعالیٰ کی ذات صرف خالق ہی نہیں،بلکہ حکیم بھی ہے، اس کا کوئی فعلِ خلق ( پیدا کرنے کا عمل) حکمت ومصلحت سے خالی نہیں، اگرچہ وہ ہمیں معلوم نہ ہو ، چناں چہ جن چیزوں کے خلق ( پیدا کرنے) کو ہم قبیح سمجھتے ہیں ان میں بھی حکمت ومصلحت کے بعض پہلو ہونے کا ہمیں یقین ہے ، جیسے اجسامِ خبیثہ مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ کی تخلیق میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ چیزیں ہماری نظر میں اگرچہ خبیث اور قبیح ہیں، مگر ان میں بہت سے فائدے بھی ہیں، مثلاً اطبا کا کہنا ہے کہ بچھو کی راکھ مثانے کی پتھری کو ریزہ ریزہ کرکے خارج کر دیتی ہے ،سانپ کا گوشت اور چربی بہت سے امراض کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے ، ان مصالح کی بنا پر ان کے خلق ( پیدا کرنے) کو قبیح نہیں کہہ سکتے، لہٰذا اس کے خلق کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف کرنے میں کوئی شبہ نہیں۔
لیکن جب کوئی بندہ، جو نہ خالق ہے، نہ حکیم ہے، شریعت کی ممانعت کے باوجود کسی فعل کا کسب کرتا ہے تو وہ کسب ”کسب قبیح“ شمار ہو گا، لہٰذا اس کسبِ قبیح کی وجہ سے وہ دنیا میں مذمت اور آخرت میں مستحق عقاب ہو گا۔
فائدہ: معتزلہ چوں کہ فعل قبیح کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف جائز نہیں سمجھتے، اس لیے قرآن کریم میں جہاں جہاں قبیح کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ہو رہی ہے جیسے :﴿ختم الله علی قلوبھم﴾ ﴿یضل بہ کثیراً ﴾ان تمام مقامات پر نسبت حقیقی کو نسبت مجازی قرار دیتے ہیں، لہٰذا آئندہ موقع بموقع اس کی نشان دہی کرکے مذکورہ جواب کی طرف اشارہ کر دیا جائے گا۔
﴿والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾․
ترجمہ: اور وہ لوگ جو ایمان لائے اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تیری طرف اور اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تجھ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔
تفسیر
یہ متقین اور پرہیز گاروں کی چوتھی صفت ہے کہ وہ قرآن کریم پر ہی نہیں ،بلکہ کتب سابقہ ( تورات، انجیل ، زبور) پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ یہ الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور صدقِ دل سے ان کی تصدیق کرتے ہیں، اگرچہ قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد وہ منسوخ شمار ہوں گی۔
موجودہ توراة وانجیل کے بارے میں شرعی حکم
چوں کہ موجودہ تورات وانجیل تحریف شدہ ہیں ، اہل کتاب نے وقتاً فوقتاً ان میں ردّ بدل کرکے ان کی حقیقی تعلیمات مسخ کر ڈالی ہیں۔ ( اس دعوی پر مفصل دلائل البقرة ، آیت: نمبر75 کی تفسیر کے تحت دیکھیے)لہٰذا ان کتابوں سے جو مندرجات ( ذکر کردہ روایات) قرآن وسنت کے موافق ہوں تو ان کے مفہوم کو فقط اس بنا پر تسلیم کر لیا جائے کہ قرآن وسنت سے ان کی تصدیق ہو رہی ہے اور جومندرجات قرآن وسنت سے معارض او رمخالف ہوں انہیں رد کر دیا جائے او رجو قرآن سنت کے موافق ہوں نہ مخالف، ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب، بلکہ ان سے کہو ہم الله پر ایمان لاتے ہیں او ران چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو الله تعالیٰ نے ہماری طرف نازل فرمائی اور جو تمہاری طرف نازل فرمائی۔ (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم الحدیث:7362)
فائدہ: قرآن کریم کی تفسیر میں حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑ کر قدیم آسمانی صحیفوں پر اعتماد کرنا بجھے ہوئے چراغوں سے روشنی لینے کے مترادف ہے ، جن مفسرین نے اس طرز پر تفسیری کوششیں کی ہیں انہوں نے جا بجا ٹھوکر کھائی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کی واضح دلیل
آیت کے طرز بیان سے واضح معلوم ہورہا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور قرآن کریم آخری کتاب ہے ،کیوں کہ اگر نبوت کا سلسلہ جاری ہوتا اور حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد بھی وحی نازل ہوتی تو اس پر بھی ایمان لانے کا ذکر ہوتا اور آیت یوں ہوتی ” وما انزل من قبلک وما ینزل من بعدک․“ جس طرح قدیم آسمانی صحیفوں پر ایمان لانے کا ذکر ہے، اسی طرح بعد میں آنے والی کتاب کا یا وحی کا ذکر ہونا چاہیے تھا، لیکن قرآن کریم میں کہیں اس طرح کا ذکر نہیں ۔ لہٰذا مذکورہ آیت ختم نبوت کی واضح دلیل ہے اور متنبی قادیان کی نبوت کی نفی ظاہر ہے۔
﴿وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾․
ترجمہ: اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔
تفسیر
یہ متقین کی پانچویں صفت ہے کہ وہ یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتا ہے ،جسے اپنانے کے بعد مومن اپنی زندگی کا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے اور اس کے اعمال وافعال جلوت وخلوت میں یکساں ہو جاتے ہیں۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ لفظ ﴿ یُوقِنُون﴾ فرمایا، ﴿یؤمنون﴾ نہیں فرمایا، یعنی یہ نہیں فرمایا کہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، بلکہ فرمایا آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ کیوں کہ ایمان کامقابل تکذیب وانکار ہے او ریقین کا مقابل شک او رتردد ہے ﴿یوقنون﴾ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ یومِ آخرت پر فقط عدم تکذیب او رانکار کی نفی کافی نہیں، بلکہ آخرت پر ایسا یقین ضروری ہے جو شک وشبہ سے بالاتر ہو ۔
یقین تین طرح کا ہوتا ہے:
1. یقین عیان: جیسے جلتی آگ دیکھ کر آگ کا یقین کرلینا۔
2. یقین دلالت:جیسے دھواں دیکھ کر آگ پر یقین کر لینا۔
3. یقین خبر: جیسے کسی ثقہ آدمی نے خبر دی، ہم نے یقین کر لیا۔
مذکورہ آیت میں ، یقین خبر مراد ہے۔
مرزا قادیانی کی تحریف اور دھوکہ دہی
مرزا قادیانی نے ﴿وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾ میں آخرة سے آخری نبی مراد لے کر خود کو آخری نبی قرار دیا۔ مرزا کا دعویٰ پڑھیے آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلے وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے ، ہماری وحی پر ایمان لانے کاذکر کیوں نہیں؟ اسی امر پر توجہ کر رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے القاہو اور یکایک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیة کریمہ مذکورہ میں تینوں وحیوں کا ذکر ہے ﴿ماأنزل الیک﴾ سے قرآن شریف کی وحی اور ﴿ما أنزل من قبلک﴾ سے انبیائے سابقین کی وحی اور ﴿بالاٰخرة﴾ سے مراد مسیح موعود ( مرزا قادیانی) ہے۔
قرآن کریم میں ”آخرة“ پر ایمان ویقین لانے کا تذکرہ جہاں بھی ہے وہاں ”آخرة“ سے دوسری زندگی اورجہاں مراد ہے ۔ ( مفردات الفاظ القرآن للراغب، ص:20)
آج تک کسی مفسر نے ”آخرة“ سے آخری نبی یا مسیح موعود کا احتمال تک بیان نہیں کیا، مرزا قادیانی نے اپنی جھوٹی نبوت پر پردہ ڈالنے کے لیے اور مسلمانوں کو فریب میں رکھنے کے لیے یہ معنی گھڑا۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ قادیانیوں نے اس مقام کے علاوہ کہیں بھی ”آخرة“ کا ترجمہ مسیح موعود سے نہیں کیا، بلکہ آخرت ہی سے کیا۔
﴿أُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾
ترجمہ: وہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے پرودگار کی طرف سے اور وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے۔
تفسیر
جن لوگوں نے مذکورہ صفات اپنا لیے در حقیقت یہی لوگ اپنے رب کے فضل سے سفینہ ہدایت پر سوار ہیں اور یہی لوگ دنیا وآخرت میں حقیقی فلاح سے سرفراز ہوں گے۔
بلاغت
﴿أُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ﴾: کلمہ ”علی“ ”استعلاء“ کے لیے استعمال ہوتا ہے ، یعنی متقین کو ہدایت پر خصوصی اختیار اور قدرت حاصل ہے ﴿ من ربھم﴾میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس میں متقین کا کوئی ذاتی کمال نہیں، بلکہ اس میں الله تعالیٰ کا محض فضل وکرم شامل حال ہے۔
﴿وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾آیت کریمہ میں ”ھم“ بطور کلمہ فصل تاکید اور تخصیص کے لیے ہے، جس سے معنی میں حصر پیدا ہو گیا۔
فلاحِ مطلق او رمطلق فلاح کے درمیان فرق اور معتزلہ کی غلط فہمی
﴿أُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾ میں جو حصر ہے اس کا تعلق فلاح مطلق ( فلاحِ کامل) سے ہے ۔ یعنی کام یابی اور فلاح کے اعلیٰ درجے پر تو وہی لوگ فائز ہوں گے جو مذکورہ صفات سے متصف ہوں،البتہ صحیح العقیدہ مسلمان، جو نماز وزکوٰة کی ادائیگی سے غفلت برت رہا ہو وہ فلاح( کام یابی) کے اعلیٰ درجے پرتو فائز نہ ہو گا، لیکن صاحبِ ایمان ہونے کی وجہ سے نفس فلاح (ایسی کام یابی جس پر نجات کا مدار ہو) اسے حاصل ہو گی، یعنی اس قدر کا م یابی سے سرفراز ہو گا کہ وہ اپنے برے اعمال کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہو سکے۔
باقی معتزلہ وخوارج نے حصر کا تعلق مطلق فلاح ( نفس فلاح) سے جوڑ دیا، یعنی نفس فلاح ( بنیادی مدار نجات) بھی اسے حاصل ہو گی جو مذکورہ تمام صفات سے متصف ہو ، لہٰذا اگر کسی نے نماز وزکوٰة میں غفلت سے کام لیا تواسے نفس فلاح ( جس پر نجات کا مدار ہے ) بھی حاصل نہ ہوگی ،اب وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔اس لیے ان کا عقیدہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ معتزلہ وخوارج کو گم راہی، فلاح مطلق ( فلاح کامل) اور مطلق فلاح(نفس فلاح جو مدار نجات ہے) میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔
﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ سَوَاء ٌ عَلَیْْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ ﴾
ترجمہ: بے شک جو لوگ کافر ہو چکے، برابر ہے ان کو تو ڈرائے یا نہ ڈرائے ،وہ ایمان نہ لائیں گے۔
تفسیر: کافروں کے اوصاف
اس سے قبل متقین او ران کی صفات کاتذکرہ تھا، جسے اپنا کر وہ جادہ مستقیم پر گام زن ہوئے اور دنیا وآخرت کی بھلائی سے سرفراز ہوئے، یہاں سے ان بد نصیبوں کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے جنہوں نے راہ ہدایت سے انحراف کیا اور گم راہی میں پڑے رہے ، قرآن کریم کی زبان میں انہیں کافر کہا گیا ہے۔
آیت کریمہ میں ﴿الذین کفروا﴾ سے وہ کافر مراد ہیں جن کا خاتمہ علم الہیٰ کے مطابق کفر پر ہی ہونا تھا، انہیں کافروں کے بارے میں فرمایاگیا کہ ان کو ڈرانا یانہ ڈرانا برابر ہے ۔ لیکن مبلغ ان کی ہٹ دھرمی سے غمگین ہو کر رشد وہدایت کا سلسلہ ترک نہ کرے، کیوں کہ ایسے تو بہرحال اجر ملے گا، اس لیے ہدایت کی شمع جلائے رکھے۔ ( بعض مفسرین نے اس آیت کے تحت جبر کی بحث چھیڑی ہے اس کی تفصیل آل عمران آیت:26 کے تحت دیکھیے)
کفر کی تعریف
کفر کی تعریف فقہاء نے ان الفاظ سے کی ہے” آپ صلی الله علیہ وسلم جن ضروریاتِ دین کے ساتھ معبوث ہوئے ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے ۔“ ( الدرالمختار، کتاب الجہاد:223/4، سعید)
لیکن فقہاء کی یہ تعریف جامعیت سے محروم ہے ، کیوں کہ جوشخص ضروریات دین کا انکار تو نہ کرے لیکن تصدیق بھی نہ کرے تو ایسا شخص بلاشبہ کافر ہے ، لیکن فقہاء کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی، اس لیے علامہ رازی رحمہ الله نے کفر کی ایک او رتعریف کی، جو انتہائی جامع او رکفر کی تمام اقسام کو شامل ہے، چناں چہ وہ کفر کی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
”الکفر عدم تصدیق الرسول فی شيٴ مما علم بالضرورة مجیئہ بہ“․ (التفسیر الکبیر،البقرة، تحت آیة رقم:6)
یعنی” رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس چیز میں تصدیق نہ کرنا جس کا بدیہی اور قطعی طور پر دین سے ہونا معلوم ہو چکا ہو ۔“ یہ تعریف اس شخص پر بھی صادق آئے گی، جس نے ضروریات دین میں سے کسی کا انکار تو نہیں کیا، لیکن تصدیق بھی نہیں کی۔
کافروں کی اقسام اور نام
کافرہر اس شخصیت کا نام ہے جو مؤمن نہ ہو ، اب اگر وہ زبان سے اسلام کا دعوی کرتا ہے تو اس کا خاص نام منافق ہے او راگر پہلے مسلمان تھا، پھر کافر ہو گیا تو ”مرتد“ ہے او راگر ایک سے زیادہ معبود مانتا ہے تو ”مشرک“ ہے، اس لیے کہ وہ خدا کا شریک مانتا ہے او راگر کسی منسوخ آسمانی مذہب اورکتاب کا پیروکار ہے تو ”کتابی“ ہے، جیسے یہودی، نصرانی او راگر زمانہ کو قدیم اور دنیا کے تمام حادثات وموجودات کو زمانہ کی طرف منسوب کرتاہے تو ”دھریہ“ ہے او راگر خالق عالم کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتا اور سمجھتا ہے کہ عالم باقتضاء مادہ خود بخود وجود میں آیا ہے تو معطل ہے ۔ اور اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار اور اسلامی شعائر کا اظہار کرنے کے باوجود ایسے عقیدے رکھتا ہے جو متفقہ طور پر کفر ہیں تو ”زندیق“ ہے۔ ( شرح المقاصد، المقصد السادس،:460/3، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
﴿خَتَمَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ ﴾․
ترجمہ: مہر کر دی الله نے ان کے دلوں پر۔ او ران کے کانوں پر اوران کی آنکھوں پر پردہ ہے او ران کے لیے بڑا عذاب ہے۔
تفسیر
ان کافروں کو تو چاہیے تھاکہ وہ شمع ہدایت پر پروانہ وار گرتے اور رسول الله کی ہر صدا پر لبیک کہتے، لیکن یہ دنیا پر ستی میں اور ذاتی مفادات کے پیش نظر رسول الله کی مخالفت پر اتر آئے، اس ناشکری پر الله تعالیٰ نے یہ سزا دی کہ ان کے دلوں او رکانوں پر مہر لگادی اور آنکھوں پرپردہ ڈال دیا، اب یہ حق بات پر کان دھرسکتے ہیں، نہ اس پر غور وفکر کی آنکھ کھول سکتے ہیں، اس میں سارا قصور ان کے اپنے مزاج اور برے اعمال اور شرارت کا ہے ، جس نے ان کی فطرت سلیمہ مسخ کر ڈالی ہے۔ جب فطرت سلیمہ مسخ ہو جاتی ہے تو امور فطرت ناگوار گرزتے ہیں، اسی حالت کو بطور استعارہ ﴿ختم الله علی قلوبھم﴾ سے تعبیر فرمایا۔
معتزلہ کی سوئے فہمی
چوں کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ جوچیز الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو وہ قبیح ( بری) نہیں ہو سکتی، لیکن مذکور ہ آیت میں ایک قبیح فعل، دلوں اور کانوں پر مہر لگانے کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ہو رہی ہے، جس سے معتزلہ کے عقیدے پر واضح زد پڑ رہی ہے ،اس لیے انہوں نے نے یہاں تاویل کی راہ اختیار کی اور اس اسناد حقیقی کو اسناد مجازی سے بدل ڈالا، چناں چہ علامہ زمحشری نے ختم الله کا حقیقی فاعل شیطان کو قرار دیا او رمجازاً فاعل کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف اس لیے ہے کہ شیطان کو یہ قدرت الله تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ معتزلہ کے مذکورہ عقیدے پر مکمل بحث سورة البقرہ کی آیت نمبر3 کے تحت گزر چکی ہے۔
مہر اور پردہ حقیقت پر محمول ہیں یامجاز پر؟
مہر اور پردے کی نسبت تو الله تعالیٰ کی طرف حقیقی ہے، لیکن مہر اور پردہ حقیقی ہیں یا مجازی؟ جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک مہر اور پردے سے حقیقتاً مہر اور پردہ مراد نہیں، بلکہ مجازاً بطور استعارة ان کا ذکر ہوا ہے ، حسن بصری، علامہ قرطبی ان کے علاوہ بعض علما کے نرذیک حقیقی مہر اور پردہ مراد ہیں، اگرچہ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ ( حاشیة الشہاب، الجامع لاحکام القرآن، البقرة، تحت آیہ رقم:7)
اہل سنت والجماعت کے نزدیک حلال او رحرام دونوں پر رزق کا اطلاق درست ہے، فرقہ معتزلہ کے نزدیک رزق کا اطلاق فقط حلال پر کیا جاسکتا ہے، نہ کہ حرام پر ۔ ( النبراس شرح شرح العقائد، ص:197)
رزق کی لغوی وشرعی تعریف
لغت میں رزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے نفع اٹھایا جائے ۔ اصطلاح شریعت میں رزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو الله تعالیٰ کی طرف سے ہر ذی حیات کو نفع اٹھانے کے لیے مہیا ہو جائے، یہ چیز حلال بھی ہو سکتی ہے، حرام بھی، بہر صورت رزق ہی کہلائے گی۔ ( النبراس شرح شرح العقائد، ص:196)
معتزلہ کے نزدیک رزق کی تعریف
معتزلہ کے نزدیک رزق فقط اسے کہتے ہیں جس سے نفع اٹھانے کو الله تعالیٰ نے منع نہ فرمایا ہو ۔ چوں کہ حرام سے نفع اٹھانے کو الله تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس لیے اسے رزق نہیں کہا جا سکتا ۔ لہٰذا رزق کا اطلاق فقط حلال پر ہو گا، نہ کہ حرام پر۔ (( النبراس شرح شرح العقائد، ص:197)
معتزلہ کا موقف قرآن وسنت کے خلاف ہے
معتزلہ کا موقف درست تسلیم کر لینے کی صورت میں قرآنی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے، کیوں کہ الله تعالیٰ کے فرمان کے مطابق زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق میرے ذمے نہ ہو ﴿ما من دابة فی الأرض إلاّ علی الله رزقھا﴾ لیکن معتزلہ کے مؤقف کے پیش نظراگر کوئی شخص عمربھر حرام کھا کر مر گیا تو وہ زرق الہٰی سے محروم شمار ہو گا۔
اس کے علاوہ حدیث مبارکہ میں ایک صحابی کا تذکرہ آتا ہے، جنہوں نے بارگاہ ِ رسالت میں آکر عرض کیا کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اپنے ہاتھ سے دف بجانے کے سوا کسی اور ذریعہ سے زرق نہیں ملے گا، لہٰذا مجھے ایسے گانوں کی اجازت مرحمت فرمائیں جن میں کوئی فحش بات نہ ہو ، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ناراض ہو کر فرمایا :”کذبت یا عدو الله! لقد رزقک الله حلالاً طیباً فاخترت ماحرم الله من رزقہ مکان ما أحل الله من حلال “․ ( المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:7190،و کذا ابن ماجہ، رقم الحدیث:2711)
ترجمہ:” اے دشمن خدا! تو جھوٹ بولتا ہے ، الله تعالیٰ نے تیرے لیے حلال اور پاکیزہ رزق پیدا فرمایا، لیکن تونے اس رزق کو چھوڑ کر جو الله تعالیٰ نے تیرے لیے حلال فرمایا تھا اپنا وہ رزق اختیا رکیا جو الله تعالیٰ نے تجھ پر حرام فرمایا۔“
دیکھیے حدیث مبارکہ میں حرام کو بھی رزق فرمایا گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ انہوں نے رزق کے حصول کے لیے شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ ایسا طریقہ اختیار کیا جوشریعت میں ممنوع تھا۔
معتزلہ کا بنیادی اشکال
اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو ہستی اپنے بندوں کو رزق سے نوازتی ہے وہ فقط الله تعالیٰ کی ذات ہے اور عطائے رزق کی نسبت ہمیشہ اسی کی طرف ہو گی، لیکن معتزلہ کا شبہ یہ ہے کہ اگر رزق حرام کو بھی رزق شمار کیا جائے تو وہ بھی الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا او رجو چیز الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو وہ قبیح (بری) نہیں ہو سکتی لہٰذا حرام قبیح نہ رہے گا او راس کا مرتکب دنیا میں مذمت اور آخرت میں مستحق عقاب بھی نہ ہو گا ۔ حالاں کہ حرام کی قباحت پر او راس کے مرتکب کی دنیا میں مذمت اور آخرت میں مستحق عقاب ہونے پر کسی کو اختلاف نہیں۔
جواب
معتزلہ کے اشکال کی یہ بنیاد ہی غلط ہے کہ جو چیز الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو وہ قبیح نہیں ہو سکتی، کیوں کہ الله تعالیٰ کی ذات صرف خالق ہی نہیں،بلکہ حکیم بھی ہے، اس کا کوئی فعلِ خلق ( پیدا کرنے کا عمل) حکمت ومصلحت سے خالی نہیں، اگرچہ وہ ہمیں معلوم نہ ہو ، چناں چہ جن چیزوں کے خلق ( پیدا کرنے) کو ہم قبیح سمجھتے ہیں ان میں بھی حکمت ومصلحت کے بعض پہلو ہونے کا ہمیں یقین ہے ، جیسے اجسامِ خبیثہ مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ کی تخلیق میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ چیزیں ہماری نظر میں اگرچہ خبیث اور قبیح ہیں، مگر ان میں بہت سے فائدے بھی ہیں، مثلاً اطبا کا کہنا ہے کہ بچھو کی راکھ مثانے کی پتھری کو ریزہ ریزہ کرکے خارج کر دیتی ہے ،سانپ کا گوشت اور چربی بہت سے امراض کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے ، ان مصالح کی بنا پر ان کے خلق ( پیدا کرنے) کو قبیح نہیں کہہ سکتے، لہٰذا اس کے خلق کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف کرنے میں کوئی شبہ نہیں۔
لیکن جب کوئی بندہ، جو نہ خالق ہے، نہ حکیم ہے، شریعت کی ممانعت کے باوجود کسی فعل کا کسب کرتا ہے تو وہ کسب ”کسب قبیح“ شمار ہو گا، لہٰذا اس کسبِ قبیح کی وجہ سے وہ دنیا میں مذمت اور آخرت میں مستحق عقاب ہو گا۔
فائدہ: معتزلہ چوں کہ فعل قبیح کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف جائز نہیں سمجھتے، اس لیے قرآن کریم میں جہاں جہاں قبیح کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ہو رہی ہے جیسے :﴿ختم الله علی قلوبھم﴾ ﴿یضل بہ کثیراً ﴾ان تمام مقامات پر نسبت حقیقی کو نسبت مجازی قرار دیتے ہیں، لہٰذا آئندہ موقع بموقع اس کی نشان دہی کرکے مذکورہ جواب کی طرف اشارہ کر دیا جائے گا۔
﴿والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾․
ترجمہ: اور وہ لوگ جو ایمان لائے اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تیری طرف اور اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تجھ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔
تفسیر
یہ متقین اور پرہیز گاروں کی چوتھی صفت ہے کہ وہ قرآن کریم پر ہی نہیں ،بلکہ کتب سابقہ ( تورات، انجیل ، زبور) پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ یہ الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور صدقِ دل سے ان کی تصدیق کرتے ہیں، اگرچہ قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد وہ منسوخ شمار ہوں گی۔
موجودہ توراة وانجیل کے بارے میں شرعی حکم
چوں کہ موجودہ تورات وانجیل تحریف شدہ ہیں ، اہل کتاب نے وقتاً فوقتاً ان میں ردّ بدل کرکے ان کی حقیقی تعلیمات مسخ کر ڈالی ہیں۔ ( اس دعوی پر مفصل دلائل البقرة ، آیت: نمبر75 کی تفسیر کے تحت دیکھیے)لہٰذا ان کتابوں سے جو مندرجات ( ذکر کردہ روایات) قرآن وسنت کے موافق ہوں تو ان کے مفہوم کو فقط اس بنا پر تسلیم کر لیا جائے کہ قرآن وسنت سے ان کی تصدیق ہو رہی ہے اور جومندرجات قرآن وسنت سے معارض او رمخالف ہوں انہیں رد کر دیا جائے او رجو قرآن سنت کے موافق ہوں نہ مخالف، ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب، بلکہ ان سے کہو ہم الله پر ایمان لاتے ہیں او ران چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو الله تعالیٰ نے ہماری طرف نازل فرمائی اور جو تمہاری طرف نازل فرمائی۔ (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم الحدیث:7362)
فائدہ: قرآن کریم کی تفسیر میں حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑ کر قدیم آسمانی صحیفوں پر اعتماد کرنا بجھے ہوئے چراغوں سے روشنی لینے کے مترادف ہے ، جن مفسرین نے اس طرز پر تفسیری کوششیں کی ہیں انہوں نے جا بجا ٹھوکر کھائی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کی واضح دلیل
آیت کے طرز بیان سے واضح معلوم ہورہا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور قرآن کریم آخری کتاب ہے ،کیوں کہ اگر نبوت کا سلسلہ جاری ہوتا اور حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد بھی وحی نازل ہوتی تو اس پر بھی ایمان لانے کا ذکر ہوتا اور آیت یوں ہوتی ” وما انزل من قبلک وما ینزل من بعدک․“ جس طرح قدیم آسمانی صحیفوں پر ایمان لانے کا ذکر ہے، اسی طرح بعد میں آنے والی کتاب کا یا وحی کا ذکر ہونا چاہیے تھا، لیکن قرآن کریم میں کہیں اس طرح کا ذکر نہیں ۔ لہٰذا مذکورہ آیت ختم نبوت کی واضح دلیل ہے اور متنبی قادیان کی نبوت کی نفی ظاہر ہے۔
﴿وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾․
ترجمہ: اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔
تفسیر
یہ متقین کی پانچویں صفت ہے کہ وہ یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتا ہے ،جسے اپنانے کے بعد مومن اپنی زندگی کا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے اور اس کے اعمال وافعال جلوت وخلوت میں یکساں ہو جاتے ہیں۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ لفظ ﴿ یُوقِنُون﴾ فرمایا، ﴿یؤمنون﴾ نہیں فرمایا، یعنی یہ نہیں فرمایا کہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، بلکہ فرمایا آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ کیوں کہ ایمان کامقابل تکذیب وانکار ہے او ریقین کا مقابل شک او رتردد ہے ﴿یوقنون﴾ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ یومِ آخرت پر فقط عدم تکذیب او رانکار کی نفی کافی نہیں، بلکہ آخرت پر ایسا یقین ضروری ہے جو شک وشبہ سے بالاتر ہو ۔
یقین تین طرح کا ہوتا ہے:
1. یقین عیان: جیسے جلتی آگ دیکھ کر آگ کا یقین کرلینا۔
2. یقین دلالت:جیسے دھواں دیکھ کر آگ پر یقین کر لینا۔
3. یقین خبر: جیسے کسی ثقہ آدمی نے خبر دی، ہم نے یقین کر لیا۔
مذکورہ آیت میں ، یقین خبر مراد ہے۔
مرزا قادیانی کی تحریف اور دھوکہ دہی
مرزا قادیانی نے ﴿وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾ میں آخرة سے آخری نبی مراد لے کر خود کو آخری نبی قرار دیا۔ مرزا کا دعویٰ پڑھیے آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلے وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے ، ہماری وحی پر ایمان لانے کاذکر کیوں نہیں؟ اسی امر پر توجہ کر رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے القاہو اور یکایک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیة کریمہ مذکورہ میں تینوں وحیوں کا ذکر ہے ﴿ماأنزل الیک﴾ سے قرآن شریف کی وحی اور ﴿ما أنزل من قبلک﴾ سے انبیائے سابقین کی وحی اور ﴿بالاٰخرة﴾ سے مراد مسیح موعود ( مرزا قادیانی) ہے۔
قرآن کریم میں ”آخرة“ پر ایمان ویقین لانے کا تذکرہ جہاں بھی ہے وہاں ”آخرة“ سے دوسری زندگی اورجہاں مراد ہے ۔ ( مفردات الفاظ القرآن للراغب، ص:20)
آج تک کسی مفسر نے ”آخرة“ سے آخری نبی یا مسیح موعود کا احتمال تک بیان نہیں کیا، مرزا قادیانی نے اپنی جھوٹی نبوت پر پردہ ڈالنے کے لیے اور مسلمانوں کو فریب میں رکھنے کے لیے یہ معنی گھڑا۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ قادیانیوں نے اس مقام کے علاوہ کہیں بھی ”آخرة“ کا ترجمہ مسیح موعود سے نہیں کیا، بلکہ آخرت ہی سے کیا۔
﴿أُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾
ترجمہ: وہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے پرودگار کی طرف سے اور وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے۔
تفسیر
جن لوگوں نے مذکورہ صفات اپنا لیے در حقیقت یہی لوگ اپنے رب کے فضل سے سفینہ ہدایت پر سوار ہیں اور یہی لوگ دنیا وآخرت میں حقیقی فلاح سے سرفراز ہوں گے۔
بلاغت
﴿أُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ﴾: کلمہ ”علی“ ”استعلاء“ کے لیے استعمال ہوتا ہے ، یعنی متقین کو ہدایت پر خصوصی اختیار اور قدرت حاصل ہے ﴿ من ربھم﴾میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس میں متقین کا کوئی ذاتی کمال نہیں، بلکہ اس میں الله تعالیٰ کا محض فضل وکرم شامل حال ہے۔
﴿وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾آیت کریمہ میں ”ھم“ بطور کلمہ فصل تاکید اور تخصیص کے لیے ہے، جس سے معنی میں حصر پیدا ہو گیا۔
فلاحِ مطلق او رمطلق فلاح کے درمیان فرق اور معتزلہ کی غلط فہمی
﴿أُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾ میں جو حصر ہے اس کا تعلق فلاح مطلق ( فلاحِ کامل) سے ہے ۔ یعنی کام یابی اور فلاح کے اعلیٰ درجے پر تو وہی لوگ فائز ہوں گے جو مذکورہ صفات سے متصف ہوں،البتہ صحیح العقیدہ مسلمان، جو نماز وزکوٰة کی ادائیگی سے غفلت برت رہا ہو وہ فلاح( کام یابی) کے اعلیٰ درجے پرتو فائز نہ ہو گا، لیکن صاحبِ ایمان ہونے کی وجہ سے نفس فلاح (ایسی کام یابی جس پر نجات کا مدار ہو) اسے حاصل ہو گی، یعنی اس قدر کا م یابی سے سرفراز ہو گا کہ وہ اپنے برے اعمال کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہو سکے۔
باقی معتزلہ وخوارج نے حصر کا تعلق مطلق فلاح ( نفس فلاح) سے جوڑ دیا، یعنی نفس فلاح ( بنیادی مدار نجات) بھی اسے حاصل ہو گی جو مذکورہ تمام صفات سے متصف ہو ، لہٰذا اگر کسی نے نماز وزکوٰة میں غفلت سے کام لیا تواسے نفس فلاح ( جس پر نجات کا مدار ہے ) بھی حاصل نہ ہوگی ،اب وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔اس لیے ان کا عقیدہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ معتزلہ وخوارج کو گم راہی، فلاح مطلق ( فلاح کامل) اور مطلق فلاح(نفس فلاح جو مدار نجات ہے) میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔
﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ سَوَاء ٌ عَلَیْْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ ﴾
ترجمہ: بے شک جو لوگ کافر ہو چکے، برابر ہے ان کو تو ڈرائے یا نہ ڈرائے ،وہ ایمان نہ لائیں گے۔
تفسیر: کافروں کے اوصاف
اس سے قبل متقین او ران کی صفات کاتذکرہ تھا، جسے اپنا کر وہ جادہ مستقیم پر گام زن ہوئے اور دنیا وآخرت کی بھلائی سے سرفراز ہوئے، یہاں سے ان بد نصیبوں کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے جنہوں نے راہ ہدایت سے انحراف کیا اور گم راہی میں پڑے رہے ، قرآن کریم کی زبان میں انہیں کافر کہا گیا ہے۔
آیت کریمہ میں ﴿الذین کفروا﴾ سے وہ کافر مراد ہیں جن کا خاتمہ علم الہیٰ کے مطابق کفر پر ہی ہونا تھا، انہیں کافروں کے بارے میں فرمایاگیا کہ ان کو ڈرانا یانہ ڈرانا برابر ہے ۔ لیکن مبلغ ان کی ہٹ دھرمی سے غمگین ہو کر رشد وہدایت کا سلسلہ ترک نہ کرے، کیوں کہ ایسے تو بہرحال اجر ملے گا، اس لیے ہدایت کی شمع جلائے رکھے۔ ( بعض مفسرین نے اس آیت کے تحت جبر کی بحث چھیڑی ہے اس کی تفصیل آل عمران آیت:26 کے تحت دیکھیے)
کفر کی تعریف
کفر کی تعریف فقہاء نے ان الفاظ سے کی ہے” آپ صلی الله علیہ وسلم جن ضروریاتِ دین کے ساتھ معبوث ہوئے ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے ۔“ ( الدرالمختار، کتاب الجہاد:223/4، سعید)
لیکن فقہاء کی یہ تعریف جامعیت سے محروم ہے ، کیوں کہ جوشخص ضروریات دین کا انکار تو نہ کرے لیکن تصدیق بھی نہ کرے تو ایسا شخص بلاشبہ کافر ہے ، لیکن فقہاء کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی، اس لیے علامہ رازی رحمہ الله نے کفر کی ایک او رتعریف کی، جو انتہائی جامع او رکفر کی تمام اقسام کو شامل ہے، چناں چہ وہ کفر کی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
”الکفر عدم تصدیق الرسول فی شيٴ مما علم بالضرورة مجیئہ بہ“․ (التفسیر الکبیر،البقرة، تحت آیة رقم:6)
یعنی” رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس چیز میں تصدیق نہ کرنا جس کا بدیہی اور قطعی طور پر دین سے ہونا معلوم ہو چکا ہو ۔“ یہ تعریف اس شخص پر بھی صادق آئے گی، جس نے ضروریات دین میں سے کسی کا انکار تو نہیں کیا، لیکن تصدیق بھی نہیں کی۔
کافروں کی اقسام اور نام
کافرہر اس شخصیت کا نام ہے جو مؤمن نہ ہو ، اب اگر وہ زبان سے اسلام کا دعوی کرتا ہے تو اس کا خاص نام منافق ہے او راگر پہلے مسلمان تھا، پھر کافر ہو گیا تو ”مرتد“ ہے او راگر ایک سے زیادہ معبود مانتا ہے تو ”مشرک“ ہے، اس لیے کہ وہ خدا کا شریک مانتا ہے او راگر کسی منسوخ آسمانی مذہب اورکتاب کا پیروکار ہے تو ”کتابی“ ہے، جیسے یہودی، نصرانی او راگر زمانہ کو قدیم اور دنیا کے تمام حادثات وموجودات کو زمانہ کی طرف منسوب کرتاہے تو ”دھریہ“ ہے او راگر خالق عالم کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتا اور سمجھتا ہے کہ عالم باقتضاء مادہ خود بخود وجود میں آیا ہے تو معطل ہے ۔ اور اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار اور اسلامی شعائر کا اظہار کرنے کے باوجود ایسے عقیدے رکھتا ہے جو متفقہ طور پر کفر ہیں تو ”زندیق“ ہے۔ ( شرح المقاصد، المقصد السادس،:460/3، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
﴿خَتَمَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ ﴾․
ترجمہ: مہر کر دی الله نے ان کے دلوں پر۔ او ران کے کانوں پر اوران کی آنکھوں پر پردہ ہے او ران کے لیے بڑا عذاب ہے۔
تفسیر
ان کافروں کو تو چاہیے تھاکہ وہ شمع ہدایت پر پروانہ وار گرتے اور رسول الله کی ہر صدا پر لبیک کہتے، لیکن یہ دنیا پر ستی میں اور ذاتی مفادات کے پیش نظر رسول الله کی مخالفت پر اتر آئے، اس ناشکری پر الله تعالیٰ نے یہ سزا دی کہ ان کے دلوں او رکانوں پر مہر لگادی اور آنکھوں پرپردہ ڈال دیا، اب یہ حق بات پر کان دھرسکتے ہیں، نہ اس پر غور وفکر کی آنکھ کھول سکتے ہیں، اس میں سارا قصور ان کے اپنے مزاج اور برے اعمال اور شرارت کا ہے ، جس نے ان کی فطرت سلیمہ مسخ کر ڈالی ہے۔ جب فطرت سلیمہ مسخ ہو جاتی ہے تو امور فطرت ناگوار گرزتے ہیں، اسی حالت کو بطور استعارہ ﴿ختم الله علی قلوبھم﴾ سے تعبیر فرمایا۔
معتزلہ کی سوئے فہمی
چوں کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ جوچیز الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو وہ قبیح ( بری) نہیں ہو سکتی، لیکن مذکور ہ آیت میں ایک قبیح فعل، دلوں اور کانوں پر مہر لگانے کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ہو رہی ہے، جس سے معتزلہ کے عقیدے پر واضح زد پڑ رہی ہے ،اس لیے انہوں نے نے یہاں تاویل کی راہ اختیار کی اور اس اسناد حقیقی کو اسناد مجازی سے بدل ڈالا، چناں چہ علامہ زمحشری نے ختم الله کا حقیقی فاعل شیطان کو قرار دیا او رمجازاً فاعل کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف اس لیے ہے کہ شیطان کو یہ قدرت الله تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ معتزلہ کے مذکورہ عقیدے پر مکمل بحث سورة البقرہ کی آیت نمبر3 کے تحت گزر چکی ہے۔
مہر اور پردہ حقیقت پر محمول ہیں یامجاز پر؟
مہر اور پردے کی نسبت تو الله تعالیٰ کی طرف حقیقی ہے، لیکن مہر اور پردہ حقیقی ہیں یا مجازی؟ جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک مہر اور پردے سے حقیقتاً مہر اور پردہ مراد نہیں، بلکہ مجازاً بطور استعارة ان کا ذکر ہوا ہے ، حسن بصری، علامہ قرطبی ان کے علاوہ بعض علما کے نرذیک حقیقی مہر اور پردہ مراد ہیں، اگرچہ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ ( حاشیة الشہاب، الجامع لاحکام القرآن، البقرة، تحت آیہ رقم:7)
منافقین کا بیان
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللّہِ وَبِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِیْن﴾․(سورہٴ البقرہ، آیت:8)
ترجمہ: ”اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے الله پر اور دن قیامت پر اور وہ ہر گز مومن نہیں۔“
ربط:
پہلے اہل ایمان کا تذکرہ تھا، پھر ان بدنصیبوں کا ذکر آیا جو ایمان لانے کے بجائے کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے تھے، اب تیسرے گروہ کا تذکرہ ہے جنہوں نے دوغلہ پن اختیار کیا اور منافق کہلائے، یہاں ہم ان کی تعریف، تعارف، اقسام واحکام تفصیل سے ذکر کر دیتے ہیں، آئندہ فقط اشارہ کر دیا جائے گا۔
منافق کی تعریف
جو شخص ظاہری شکل وصورت میں مسلمان اور ارکانِ اسلام کا پابند ہو، لیکن درپردہ کفریہ عقائد پر قائم ہو یا اسلامی عقائد کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا ہو تو ایسے شخص کو شریعت کی زبان میں منافق کہا جاتا ہے۔ (البحرالرائق، کتاب الجہاد، احکام المرتدین،212/5، رشیدیہ)
منافقین کا تعارف
جب حضور صلی الله علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے اور لوگ جو ق در جوق مسلمان ہونے لگے ، مسلمانوں کو شان وشوکت اور اسلام کو غلبہ نصیب ہوا تو بعض دنیا پرست لوگوں نے مصلحت اسی میں جانی کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں شریک ہو جائیں، تاکہ اپنی جان ومال بھی محفوظ رہے اور مسلمانوں کے ساتھ مالِ غنیمت میں بھی حصہ دار بن جائیں ، مدینہ کے بعض یہودی اور قبیلہ اوس وخزرج کے بعض افراد اس گروہ میں شریک تھے ، ان کی لگام عبدالله بن اُبی بن سلول کے ہاتھ میں تھی، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، کافروں کی مجلس میں جاکر مسلمانوں کے راز افشا کرتے اور مسلمانوں کے پاس آکر وفا کا دم بھرتے ، جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت ان کی امتیازی صفات تھیں، چوں کہ مسلمان انہیں اپنا سمجھ رہے تھے، اس لیے ان آیات میں الله تعالیٰ نے ان کے حالات وصفات سے حضور صلی الله علیہ وسلم کو مطلع کر دیا، تاکہ مسلمان ان کے فتنے سے محفوظ رہیں۔
منافقین کی قسمیں
منافقین کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔منافق اعتقادی : وہ ہے جو بظاہر مسلمان لیکن درپردہ کافر ہو ، ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں انہیں کے ناشائستہ اعمال وافعال کا تذکرہ ہے۔
۲۔ منافق عملی: اسے کہتے ہیں جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کی ظاہری صفات منافقین سے ملتی جلتی ہوں ، مثلاً جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت جیسے برے افعال میں مبتلا رہتا ہو ۔ ایسا شخص مسلمان تو رہے گا، لیکن سخت گناہ گار ہو گا۔
منافق اعتقادی اب بھی پائے جاتے ہیں؟
منافق اعتقادی اب بھی پائے جاتے ہیں جو کسی مصلحت کے پیش نظر اپنے کفر کا اظہار نہیں کر پاتے، تاہم وحی کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے ان پر کفر یا منافق اعتقادی کا حکم لگانا دشوار ہے۔ (فتح الباری، کتاب الفتن، باب اذا قال ضدّ قوم…74/13، دارنشر الکتب الاسلامیہ)۔
منافق اور زندیق میں فرق
اگر منافق اپنے کفریہ عقائد کا اظہار زبان سے کر دے تو وہ زندیق شمار ہوتا ہے ۔ (شرح المقاصد، المقصد السادس،47/3، بیروت)
جب اسلامی ریاست او راسلامی قوانین کی پاس داری نہ ہو تو مسلمان معاشرے میں منافق اعتقادی کی بنسبت زنادقہ بکثرت ہوتے ہیں ، البتہ جب اسلام کو شان وشوکت اور غلبہ نصیب ہو تو سزا کے خوف سے یہی زنادقہ منافق اعتقادی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
منافق سے قتال نہ کرنے کی حکمت
چوں کہ منافقین کی وضع قطع مسلمانوں کی سی تھی ، مسلمان معاشرے میں رہتے اور خود کو مسلمان ہی ظاہر کرتے ، ان کے سر قلم کر دینے کی صورت میں خطرہ تھا کہ کہیں حقائق سے ناواقف دور دراز کے لوگ اور قبائل یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے ہی رفقا پر تلوار چلا رہے ہیں او راسی غلط فہمی میں پڑ کر اسلام کے قریب آنے کے بجائے دور ہوتے چلے جائیں، اسی مصلحت کے پیش نظر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے قتال نہیں فرمایا، تاہم موقع بہ موقع ان کی سرزنش کرتے رہے، جس سے ان کی ذلت ورسوائی کا سامان پیدا ہوتا رہا، ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم نے برسر مجلس تمام منافقوں کے نام لے لے کر مسجد سے نکال دیا۔ (السیرة النبویة لابن ہشام، من اسلم من احبار یہود نفاقاً528/2، المکتبة العلمیة، بیروت)
نعیم الدین مراد آبادی صاحب کے لطیف رمز کی حقیقت
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا﴾ کی تفسیر میں نعیم الدین مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں﴿وَمِنَ النَّاس﴾ فرمانے میں لطیف رمز یہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات وانسانی کمالات سے ایسا عار ی ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف وخوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتا، یوں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی آدمی ہیں۔“
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منافق انسانی صفات سے عاری ہوتا ہے، لیکن ﴿وَمِنَ النَّاس﴾ سے یہ لطیف رمز نکالنا بے جاہے، کیوں کہ قرآن کریم میں ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ﴾․(سورة البقرہ، آیت:207)
ترجمہ:” اور لوگوں میں ایک شخص وہ ہے کہ بیچتا ہے اپنی جان کو الله کی رضا جوئی میں“۔
اسی طرح ایک او رمقام پر ہے :
﴿اللَّہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَائِکَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاس﴾․(سورہٴ الحج، آیت:75)
ترجمہ:” الله چھانٹ لیتا ہے فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں۔“ ان دونوں آیتوں ﴿من الناس﴾سے اہل ایمان مراد ہیں ، لہٰذا معلوم ہوا کہ﴿ من الناس﴾ کی بنیاد پر یہ لطیف رمز نکالنا درست نہیں، بلکہ بعض مقامات پر تو خطرہ ایمان ہے۔
نعیم الدین مراد آبادی صاحب کی جسارت
نعیم الدین مراد آبادی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:
” اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل وکمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے ، اس لیے قرآن پاک میں جا بجا انبیائے کرام ( علیہم الصلاة والسلام) کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا اور درحقیقت انبیائے کرام کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کفار کا دستور ہے۔“ ( خزائن العرفان، تحت آیہ رقم:8 البقرہ)
نعم الدین مراد آبادی صاحب جس آیت کریمہ کی تفسیر کر رہے ہیں ، اس آیت میں لفظ بشر ہے نہ انبیائے کرام کا تذکرہ ہے، بلکہ من الناس سے منافقین کی صفات کا بیان ہے ، لیکن نعیم الدین مراد آبادی صاحب یہاں پر بھی اپنے غلط عقیدے کے ثبوت پر زور قلم صرف کر رہے ہیں، انبیائے کرام کی بشریت پر تفصیلی بحث تو اپنے مقام پر آئے گی لیکن سردست اتنا عرض ہے کہ بشر کو حقیر اور ذلیل سمجھنا ابلیس کا نظریہ ہے۔
چناں چہ قرآن کریم میں اس کا یہ قول ذکر ہے کہ﴿ قَالَ أَنَاْ خَیْْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْن﴾․ (الاعراف:12)
ترجمہ:” بولا میں اس سے بہتر ہوں، مجھ کو تونے بنایا آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے۔“
اس آیت کے مضمون کے پیش نظر معلوم ہوا کہ بشر میں اس کے فضائل وکمالات کے انکار کا پہلو تلاش کرنا ابلیس کا طریقہ ہے ، نعم الدین مراد آبادی صاحب کا یہ دعوی کہ ” قرآن پاک میں جابجا انبیائے کرام علیہم السلام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا۔“ بہت بڑی جسارت اور الله تعالیٰ پر افترا اور بہتان ہے، کاش! اتنے بڑے دعوے کے بعد اس کی تائید میں ایک ہی آیت پیش کر دیتے ہیں۔
پورے قرآن کریم میں اس مفہوم کی آیت نہیں ہے، البتہ ایسی آیات جا بجا ملتی ہیں جن میں کفار ومشرکین کی طرف سے انبیائے کرام کی بشریت پر اعتراض کیا گیا ہے، چند آیتیں درج ذیل ہیں۔
﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن یُؤْمِنُواْ إِذْ جَاء ہُمُ الْہُدَی إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّہُ بَشَراً رَّسُولا﴾․(بنی اسرائیل، آیت:94)
ترجمہ:” اور لوگوں کو روکا نہیں ایمان لانے سے جب پہنچی ان کو ہدایت، مگر اسی بات نے کہ کہنے لگے کیا الله نے بھیجا آدمی کو پیغام دے کر۔“
﴿فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عَبِدُونَ﴾․ (المؤمنون، آیت:47)
ترجمہ:” سوبولے کیا ہم مانیں گے اپنے برابر کے دو آدمیوں کو اور ان کی قوم ہماری تابع دار (خدمت گار) ہیں۔“
﴿ذَلِکَ بِأَنَّہُ کَانَت تَّأْتِیْہِمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ یَہْدُونَنَا ﴾․(التغابن، آیت:6)
ترجمہ: ”یہ اس لیے کہ لاتے تھے ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں، پھر کہتے کیا آدمی ہم کو راہ سمجھائیں گے؟“
﴿یُخَادِعُونَ اللّہَ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَہُم وَمَا یَشْعُرُون﴾․(البقرہ، آیت:9)
ترجمہ:” دغا بازی کرتے ہیں الله سے اور ایمان والوں سے اور دراصل کسی کو دغا نہیں دیتے، مگر اپنے آپ کو اور نہیں سوچتے“۔
تفسیر
منافقین کی خصوصی صفت کا تذکرہ ہے کہ یہ دورنگی پالیسی اختیار کرکے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم او رمسلمانوں کو دھوکہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، لیکن الله تعالیٰ نے ان کے احوال سے آپ کو آگاہ فرما دیا، اب مسلمان تو ان کی دھوکہ دہی سے محفوظ رہیں گے، البتہ ان کی چال بازیاں خود ان کے لیے نقصان وہ ثابت ہوں گی۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
آیت کریمہ میں ہے کہ منافقین الله تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں، حالاں کہ دھوکہ اور فریب تو اسے دیا جاسکتا ہے جولاعلم اور حقیقت سے ناواقف ہو ۔ الله تعالیٰ تو علیم وخبیر ذات ہے، اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی، پھر اسے کیسے دھوکہ دیا جاسکتا ہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ آیت کریمہ میں ﴿یخادعون الله﴾ میں رسول محذوف ہے یعنی ”یخادعون رسول الله“، منافقین الله کے رسول کو دھوکہ دیتے ہیں۔(دیکھیے، تفسیر مدارک، مظہری، قرطبی، کبیر، خازن، روح المعانی)۔
آیت کے اسلوب بیان میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عظمت کی طرف اشارہ ہے ، جس طرح مال غنیمت میں پانچواں حصہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے، لیکن الله تعالیٰ نے آیت کریمہ میں اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔﴿واعلموا أنما غنمتم من شيء فأن لله خمسہ﴾․
ترجمہ:” او رجان رکھو کہ جو کچھ تم کو غنیمت ملے کسی چیز سے سو الله کے واسطے ہے۔“
فائدہ:
تمام مفسرین نے ﴿یخادعون الله﴾کے شبہ کے جواب میں آیت میں رسول کو محذوف قرا ر دیا اس سے معلوم ہوا کہ اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو علم غیب کلی ذاتی طور پر حاصل تھا نہ عطائی طور پر، اگر آپ کے لیے علم غیب کلی ذاتی یا عطائی مان لیا جائے تو پھر منافقین کی طرف سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دھوکہ دینے کا کیا مطلب ہو گا؟
﴿فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّہُ مَرَضاً وَلَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُون﴾․ (البقرہ، آیت:10)
ترجمہ:” ان کے دلوں میں بیماری ہے، پھر بڑھا دی الله نے ان کو بیماری، ان کے لیے عذاب دردناک ہے اس بات پر کہ جھوٹ کہتے تھے۔“
﴿فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَض﴾ منافقین کی پہلی خصلت
اس مرض سے جسمانی مرض مراد نہیں، بلکہ روحانی مرض ”نفاق“ مراد ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة، تحت آیہ رقم:10)
قلب سے کیا مراد ہے ؟ احادیث مبارکہ کے مقابلے میں سائنس کی حیثیت کیا ہے؟
قلب دل کو کہتے ہیں، لیکن قرآن کریم میں مختلف مواقع پر مختلف معانی کے لیے استعارةً استعمال ہوا ہے، مثلاً، علم، فہم، رائے وغیرہ۔
جیسے اس آیت میں: ﴿إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَذِکْرَی لِمَن کَانَ لَہُ قَلْب﴾ ․ (ق، آیت:37)
ترجمہ:”اس میں سوچنے کی جگہ ہے اس کو جس کے اندر دل ہے“۔
اس آیت میں قلب سے علم وفہم مراد ہے ۔ ( مفردات القرآن للراغب، ص:458، بیروت)
اور آیت کریمہ﴿تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعاً وَقُلُوبُہُمْ شَتَّی﴾․ (الحشر:14)
ترجمہ:” تو سمجھے وہ اکھٹے ہیں او ران کے دل جدا جدا ہور ہے ہیں۔“
یہاں قلب سے رائے مراد ہے۔ (الوجوہ والنظائر لألفاظ کتاب الله العزیز، ص:385، بیروت)
تاہم مذکورہ آیت میں قلب سے دل مراد ہے ، جو لوگ قرآن کریم کی تفسیر کا سائنسی اسلوب اختیار کرکے سائنس کے ہر نظریہ کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کی خدمت میں مصروف ہیں ، ان کے سامنے جب اس طرح کی آیات آئیں جن میں دلوں پر مہر لگانے کی بات کہی گئی ﴿خَتَمَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہم﴾․ (البقر:7)ترجمہ:” مہر کر دی الله نے ان کے دلوں پر“۔
یا دل میں نفاق کے روحانی مرض کی نشان دہی کی گئی ، یا جس آیت میں دلوں کو نابینا قرار دیا گیا: ﴿فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُور﴾․(الحج، آیت:46)
ترجمہ:” سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی، پر اندھے ہو جاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں۔“
تو ان پر سائنسی اشکال ہوا کہ دل تو محض خون کی روانی برقرار رکھنے کا ایک آلہ ہے ، اس میں نفاق کا مرض ہونے یا نابینا ہونے او رمہر لگانے کا کیامطلب ؟
جب ان لوگوں سے اس کی کوئی سائنسی توجیہ نہ بن سکی تو انہوں نے اس شبہ سے بچنے کے لیے لغت کا سہارا لیا کہ عربی زبان میں قلب عقل کو بھی کہتے ہیں اور قرآن کریم میں بھی قلب عقل کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، لہٰذا قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے عقلوں پر الله تعالیٰ نے مہر لگا دی۔ اس نادر تفسیر پر اشکال ہوا کہ قرآن کریم میں تو قلب کا مقام سینہ او رچھاتی بھی بتایا گیا:﴿فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُور﴾․
ترجمہ:” سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں پر اندھے ہو جاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں۔“
صدر سینہ او رچھاتی کو کہتے ہیں،اگر قلب سے مراد عقل ہی ہے تو عقل کا مقام سر ہے نہ کہ سینہ، پھر قلب کے صدر ( سینہ) میں ہونے کے کیا معنی ہوں گے ؟ اس کے جواب میں کہا گیا کہ صدر کا معنی سینہ ہی نہیں ہوتا بلکہ وسط درمیان بھی ہوتا ہے ۔اب آیت کے معنی یہ ہوئے کہ وہ عقول اندھی ہیں جو وسط میں ہیں۔ یہ تاویل اس قدر لغو ہے کہ اس پر کلام کرنا بھی ضیاع وقت ہے ، تاہم ان سائنس زدہ مفکرین سے یہ سوال ہے کہ اگر سائنسی اشکال سے بچنے کے لیے قلب سے عقل ہی مراد لی جائے تو ان احادیث کا کیا بنے گا جن میں قلب دل ہی کو کہا گیا ہے ۔ مثلاً ایک مشہور حدیث ہے۔
”ان فی الجسد مضغة إذا صلحت، صلح الجسد کلہ، وإذا فَسَدت فی الجسد کلہ، ألا، وھی القلب“․(صحیح البخاری، کتاب الإیمان، رقم الحدیث:52)
”بے شک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ اصلاح یافتہ ہو تو سارا جسم صالح ہوتا ہے او راگر گوشت کے اس لوتھڑے میں فساد پیدا ہو جائے تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے ۔ جان لو! وہ لوتھڑا دل ہے ۔“
تمام محدثین نے لوتھڑے کی تشریح دل سے کی ہے، کیوں کہ دل ہی ہے جو گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہوتا ہے نہ کہ عقل۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ ” مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب (دل ) میں سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے ، اگر وہ توبہ کرکے گناہ سے رک جاتا ہے تو اس کا قلب (دل) پہلے کی طرح صاف وشفاف ہو جاتا ہے او راگر وہ مسلسل گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے تو وہ سیاہ نقطہ پھیل کر پورے قلب (دل) پر چھا جاتا ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہی وہ زنگ ہے جسے الله تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے :﴿کلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون﴾․ (سنن ابن ماجہ، ابواب الزھد، رقم الحدیث،4244)
کیا یہاں قلب سے مراد عقل ہے ؟ بالفرض عقل کو مراد لے لیا جائے تو کیا سائنس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ گناہ کرنے سے عقل پہ سیاہ نقطہ پڑتا ہے؟
اب ایک طرف یہ احادیث مبارکہ ہیں جو درحقیقت قرآن کریم کی اصل شارح ہیں ، دوسری طرف وہ لغوی تاویلات ہیں، جو سائنس زدہ مفکرین بیان کرتے ہیں او رحق تو یہی ہے کہ احادیث مبارکہ کے سامنے ایسی لغوی بحثیں اور ظنی ووہمی سائنسی اصولوں کی حیثیت مکھی کے پر جتنی بھی نہیں۔
اسلاف کا طریقہ تفسیر یہی رہا کہ وہ قرآن کریم کو ہی بنیاد بنا کر باقی نظریات کے حق وباطل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں، کیوں کہ قرآن کریم ہی وہ میزان علم ہے جس میں تول کرہر نظریے کی حقانیت کو جانچا جاسکتا ہے۔
سائنس کو قرآن کریم سے ثابت کرنے میں کیا فکری گمراہیاں پنہاں ہیں؟ کیا سائنس اس قابل ہے کہ اسے معیار علم ٹھہرایا جائے؟ اس کی تفصیلی بحث مقدمہ میں دیکھیے۔
﴿فَزَادَہُمُ اللّہُ مَرَضاً﴾․” پھر بڑھا دی الله نے ان کی بیماری۔“
تفسیر
جوں جوں قرآن کریم کانزول ہوتا جاتا ہے تو ان کا مرض نفاق بھی بڑھتا جاتا ہے ، کیوں کہ یہ قرآن کریم کی ہر آیت کو بظاہر تو مان لیتے ہیں لیکن دل میں اس کے منکرہی رہتے ہیں او رجب مسلمانوں کی شان وشوکت کو دیکھتے ہیں تو مزید بغض وحسد کی آگ میں جلتے بھنتے ہیں۔ (روح المعانی، البقرة، ص:10)
﴿وَلَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُون﴾․
ترجمہ:”ان کے لیے عذاب درد ناک ہے اس بات پر کہ جھوٹ کہتے تھے۔“
یہ منافقین کی سزا اور ان کے انجام کا ذکر ہے ۔
﴿ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُون﴾”ب“ سببیت کے لیے ہے اور ”ما“ مصدریہ ہے اور فعل ناقص دوام واستمرار کے لیے ہے یعنی یہ سزا ان کے مسلسل جھوٹ بولنے اور اپنے نفاق پر اصرار کا نتیجہ ہے۔ (تفسیر أبی السعود، البقرہ:10)
ترجمہ: ”اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے الله پر اور دن قیامت پر اور وہ ہر گز مومن نہیں۔“
ربط:
پہلے اہل ایمان کا تذکرہ تھا، پھر ان بدنصیبوں کا ذکر آیا جو ایمان لانے کے بجائے کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے تھے، اب تیسرے گروہ کا تذکرہ ہے جنہوں نے دوغلہ پن اختیار کیا اور منافق کہلائے، یہاں ہم ان کی تعریف، تعارف، اقسام واحکام تفصیل سے ذکر کر دیتے ہیں، آئندہ فقط اشارہ کر دیا جائے گا۔
منافق کی تعریف
جو شخص ظاہری شکل وصورت میں مسلمان اور ارکانِ اسلام کا پابند ہو، لیکن درپردہ کفریہ عقائد پر قائم ہو یا اسلامی عقائد کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا ہو تو ایسے شخص کو شریعت کی زبان میں منافق کہا جاتا ہے۔ (البحرالرائق، کتاب الجہاد، احکام المرتدین،212/5، رشیدیہ)
منافقین کا تعارف
جب حضور صلی الله علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے اور لوگ جو ق در جوق مسلمان ہونے لگے ، مسلمانوں کو شان وشوکت اور اسلام کو غلبہ نصیب ہوا تو بعض دنیا پرست لوگوں نے مصلحت اسی میں جانی کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں شریک ہو جائیں، تاکہ اپنی جان ومال بھی محفوظ رہے اور مسلمانوں کے ساتھ مالِ غنیمت میں بھی حصہ دار بن جائیں ، مدینہ کے بعض یہودی اور قبیلہ اوس وخزرج کے بعض افراد اس گروہ میں شریک تھے ، ان کی لگام عبدالله بن اُبی بن سلول کے ہاتھ میں تھی، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، کافروں کی مجلس میں جاکر مسلمانوں کے راز افشا کرتے اور مسلمانوں کے پاس آکر وفا کا دم بھرتے ، جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت ان کی امتیازی صفات تھیں، چوں کہ مسلمان انہیں اپنا سمجھ رہے تھے، اس لیے ان آیات میں الله تعالیٰ نے ان کے حالات وصفات سے حضور صلی الله علیہ وسلم کو مطلع کر دیا، تاکہ مسلمان ان کے فتنے سے محفوظ رہیں۔
منافقین کی قسمیں
منافقین کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔منافق اعتقادی : وہ ہے جو بظاہر مسلمان لیکن درپردہ کافر ہو ، ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں انہیں کے ناشائستہ اعمال وافعال کا تذکرہ ہے۔
۲۔ منافق عملی: اسے کہتے ہیں جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کی ظاہری صفات منافقین سے ملتی جلتی ہوں ، مثلاً جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت جیسے برے افعال میں مبتلا رہتا ہو ۔ ایسا شخص مسلمان تو رہے گا، لیکن سخت گناہ گار ہو گا۔
منافق اعتقادی اب بھی پائے جاتے ہیں؟
منافق اعتقادی اب بھی پائے جاتے ہیں جو کسی مصلحت کے پیش نظر اپنے کفر کا اظہار نہیں کر پاتے، تاہم وحی کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے ان پر کفر یا منافق اعتقادی کا حکم لگانا دشوار ہے۔ (فتح الباری، کتاب الفتن، باب اذا قال ضدّ قوم…74/13، دارنشر الکتب الاسلامیہ)۔
منافق اور زندیق میں فرق
اگر منافق اپنے کفریہ عقائد کا اظہار زبان سے کر دے تو وہ زندیق شمار ہوتا ہے ۔ (شرح المقاصد، المقصد السادس،47/3، بیروت)
جب اسلامی ریاست او راسلامی قوانین کی پاس داری نہ ہو تو مسلمان معاشرے میں منافق اعتقادی کی بنسبت زنادقہ بکثرت ہوتے ہیں ، البتہ جب اسلام کو شان وشوکت اور غلبہ نصیب ہو تو سزا کے خوف سے یہی زنادقہ منافق اعتقادی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
منافق سے قتال نہ کرنے کی حکمت
چوں کہ منافقین کی وضع قطع مسلمانوں کی سی تھی ، مسلمان معاشرے میں رہتے اور خود کو مسلمان ہی ظاہر کرتے ، ان کے سر قلم کر دینے کی صورت میں خطرہ تھا کہ کہیں حقائق سے ناواقف دور دراز کے لوگ اور قبائل یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے ہی رفقا پر تلوار چلا رہے ہیں او راسی غلط فہمی میں پڑ کر اسلام کے قریب آنے کے بجائے دور ہوتے چلے جائیں، اسی مصلحت کے پیش نظر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے قتال نہیں فرمایا، تاہم موقع بہ موقع ان کی سرزنش کرتے رہے، جس سے ان کی ذلت ورسوائی کا سامان پیدا ہوتا رہا، ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم نے برسر مجلس تمام منافقوں کے نام لے لے کر مسجد سے نکال دیا۔ (السیرة النبویة لابن ہشام، من اسلم من احبار یہود نفاقاً528/2، المکتبة العلمیة، بیروت)
نعیم الدین مراد آبادی صاحب کے لطیف رمز کی حقیقت
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا﴾ کی تفسیر میں نعیم الدین مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں﴿وَمِنَ النَّاس﴾ فرمانے میں لطیف رمز یہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات وانسانی کمالات سے ایسا عار ی ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف وخوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتا، یوں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی آدمی ہیں۔“
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منافق انسانی صفات سے عاری ہوتا ہے، لیکن ﴿وَمِنَ النَّاس﴾ سے یہ لطیف رمز نکالنا بے جاہے، کیوں کہ قرآن کریم میں ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ﴾․(سورة البقرہ، آیت:207)
ترجمہ:” اور لوگوں میں ایک شخص وہ ہے کہ بیچتا ہے اپنی جان کو الله کی رضا جوئی میں“۔
اسی طرح ایک او رمقام پر ہے :
﴿اللَّہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَائِکَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاس﴾․(سورہٴ الحج، آیت:75)
ترجمہ:” الله چھانٹ لیتا ہے فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں۔“ ان دونوں آیتوں ﴿من الناس﴾سے اہل ایمان مراد ہیں ، لہٰذا معلوم ہوا کہ﴿ من الناس﴾ کی بنیاد پر یہ لطیف رمز نکالنا درست نہیں، بلکہ بعض مقامات پر تو خطرہ ایمان ہے۔
نعیم الدین مراد آبادی صاحب کی جسارت
نعیم الدین مراد آبادی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:
” اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل وکمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے ، اس لیے قرآن پاک میں جا بجا انبیائے کرام ( علیہم الصلاة والسلام) کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا اور درحقیقت انبیائے کرام کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کفار کا دستور ہے۔“ ( خزائن العرفان، تحت آیہ رقم:8 البقرہ)
نعم الدین مراد آبادی صاحب جس آیت کریمہ کی تفسیر کر رہے ہیں ، اس آیت میں لفظ بشر ہے نہ انبیائے کرام کا تذکرہ ہے، بلکہ من الناس سے منافقین کی صفات کا بیان ہے ، لیکن نعیم الدین مراد آبادی صاحب یہاں پر بھی اپنے غلط عقیدے کے ثبوت پر زور قلم صرف کر رہے ہیں، انبیائے کرام کی بشریت پر تفصیلی بحث تو اپنے مقام پر آئے گی لیکن سردست اتنا عرض ہے کہ بشر کو حقیر اور ذلیل سمجھنا ابلیس کا نظریہ ہے۔
چناں چہ قرآن کریم میں اس کا یہ قول ذکر ہے کہ﴿ قَالَ أَنَاْ خَیْْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْن﴾․ (الاعراف:12)
ترجمہ:” بولا میں اس سے بہتر ہوں، مجھ کو تونے بنایا آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے۔“
اس آیت کے مضمون کے پیش نظر معلوم ہوا کہ بشر میں اس کے فضائل وکمالات کے انکار کا پہلو تلاش کرنا ابلیس کا طریقہ ہے ، نعم الدین مراد آبادی صاحب کا یہ دعوی کہ ” قرآن پاک میں جابجا انبیائے کرام علیہم السلام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا۔“ بہت بڑی جسارت اور الله تعالیٰ پر افترا اور بہتان ہے، کاش! اتنے بڑے دعوے کے بعد اس کی تائید میں ایک ہی آیت پیش کر دیتے ہیں۔
پورے قرآن کریم میں اس مفہوم کی آیت نہیں ہے، البتہ ایسی آیات جا بجا ملتی ہیں جن میں کفار ومشرکین کی طرف سے انبیائے کرام کی بشریت پر اعتراض کیا گیا ہے، چند آیتیں درج ذیل ہیں۔
﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن یُؤْمِنُواْ إِذْ جَاء ہُمُ الْہُدَی إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّہُ بَشَراً رَّسُولا﴾․(بنی اسرائیل، آیت:94)
ترجمہ:” اور لوگوں کو روکا نہیں ایمان لانے سے جب پہنچی ان کو ہدایت، مگر اسی بات نے کہ کہنے لگے کیا الله نے بھیجا آدمی کو پیغام دے کر۔“
﴿فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عَبِدُونَ﴾․ (المؤمنون، آیت:47)
ترجمہ:” سوبولے کیا ہم مانیں گے اپنے برابر کے دو آدمیوں کو اور ان کی قوم ہماری تابع دار (خدمت گار) ہیں۔“
﴿ذَلِکَ بِأَنَّہُ کَانَت تَّأْتِیْہِمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ یَہْدُونَنَا ﴾․(التغابن، آیت:6)
ترجمہ: ”یہ اس لیے کہ لاتے تھے ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں، پھر کہتے کیا آدمی ہم کو راہ سمجھائیں گے؟“
﴿یُخَادِعُونَ اللّہَ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَہُم وَمَا یَشْعُرُون﴾․(البقرہ، آیت:9)
ترجمہ:” دغا بازی کرتے ہیں الله سے اور ایمان والوں سے اور دراصل کسی کو دغا نہیں دیتے، مگر اپنے آپ کو اور نہیں سوچتے“۔
تفسیر
منافقین کی خصوصی صفت کا تذکرہ ہے کہ یہ دورنگی پالیسی اختیار کرکے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم او رمسلمانوں کو دھوکہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، لیکن الله تعالیٰ نے ان کے احوال سے آپ کو آگاہ فرما دیا، اب مسلمان تو ان کی دھوکہ دہی سے محفوظ رہیں گے، البتہ ان کی چال بازیاں خود ان کے لیے نقصان وہ ثابت ہوں گی۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
آیت کریمہ میں ہے کہ منافقین الله تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں، حالاں کہ دھوکہ اور فریب تو اسے دیا جاسکتا ہے جولاعلم اور حقیقت سے ناواقف ہو ۔ الله تعالیٰ تو علیم وخبیر ذات ہے، اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی، پھر اسے کیسے دھوکہ دیا جاسکتا ہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ آیت کریمہ میں ﴿یخادعون الله﴾ میں رسول محذوف ہے یعنی ”یخادعون رسول الله“، منافقین الله کے رسول کو دھوکہ دیتے ہیں۔(دیکھیے، تفسیر مدارک، مظہری، قرطبی، کبیر، خازن، روح المعانی)۔
آیت کے اسلوب بیان میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عظمت کی طرف اشارہ ہے ، جس طرح مال غنیمت میں پانچواں حصہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے، لیکن الله تعالیٰ نے آیت کریمہ میں اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔﴿واعلموا أنما غنمتم من شيء فأن لله خمسہ﴾․
ترجمہ:” او رجان رکھو کہ جو کچھ تم کو غنیمت ملے کسی چیز سے سو الله کے واسطے ہے۔“
فائدہ:
تمام مفسرین نے ﴿یخادعون الله﴾کے شبہ کے جواب میں آیت میں رسول کو محذوف قرا ر دیا اس سے معلوم ہوا کہ اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو علم غیب کلی ذاتی طور پر حاصل تھا نہ عطائی طور پر، اگر آپ کے لیے علم غیب کلی ذاتی یا عطائی مان لیا جائے تو پھر منافقین کی طرف سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دھوکہ دینے کا کیا مطلب ہو گا؟
﴿فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّہُ مَرَضاً وَلَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُون﴾․ (البقرہ، آیت:10)
ترجمہ:” ان کے دلوں میں بیماری ہے، پھر بڑھا دی الله نے ان کو بیماری، ان کے لیے عذاب دردناک ہے اس بات پر کہ جھوٹ کہتے تھے۔“
﴿فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَض﴾ منافقین کی پہلی خصلت
اس مرض سے جسمانی مرض مراد نہیں، بلکہ روحانی مرض ”نفاق“ مراد ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة، تحت آیہ رقم:10)
قلب سے کیا مراد ہے ؟ احادیث مبارکہ کے مقابلے میں سائنس کی حیثیت کیا ہے؟
قلب دل کو کہتے ہیں، لیکن قرآن کریم میں مختلف مواقع پر مختلف معانی کے لیے استعارةً استعمال ہوا ہے، مثلاً، علم، فہم، رائے وغیرہ۔
جیسے اس آیت میں: ﴿إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَذِکْرَی لِمَن کَانَ لَہُ قَلْب﴾ ․ (ق، آیت:37)
ترجمہ:”اس میں سوچنے کی جگہ ہے اس کو جس کے اندر دل ہے“۔
اس آیت میں قلب سے علم وفہم مراد ہے ۔ ( مفردات القرآن للراغب، ص:458، بیروت)
اور آیت کریمہ﴿تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعاً وَقُلُوبُہُمْ شَتَّی﴾․ (الحشر:14)
ترجمہ:” تو سمجھے وہ اکھٹے ہیں او ران کے دل جدا جدا ہور ہے ہیں۔“
یہاں قلب سے رائے مراد ہے۔ (الوجوہ والنظائر لألفاظ کتاب الله العزیز، ص:385، بیروت)
تاہم مذکورہ آیت میں قلب سے دل مراد ہے ، جو لوگ قرآن کریم کی تفسیر کا سائنسی اسلوب اختیار کرکے سائنس کے ہر نظریہ کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کی خدمت میں مصروف ہیں ، ان کے سامنے جب اس طرح کی آیات آئیں جن میں دلوں پر مہر لگانے کی بات کہی گئی ﴿خَتَمَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہم﴾․ (البقر:7)ترجمہ:” مہر کر دی الله نے ان کے دلوں پر“۔
یا دل میں نفاق کے روحانی مرض کی نشان دہی کی گئی ، یا جس آیت میں دلوں کو نابینا قرار دیا گیا: ﴿فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُور﴾․(الحج، آیت:46)
ترجمہ:” سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی، پر اندھے ہو جاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں۔“
تو ان پر سائنسی اشکال ہوا کہ دل تو محض خون کی روانی برقرار رکھنے کا ایک آلہ ہے ، اس میں نفاق کا مرض ہونے یا نابینا ہونے او رمہر لگانے کا کیامطلب ؟
جب ان لوگوں سے اس کی کوئی سائنسی توجیہ نہ بن سکی تو انہوں نے اس شبہ سے بچنے کے لیے لغت کا سہارا لیا کہ عربی زبان میں قلب عقل کو بھی کہتے ہیں اور قرآن کریم میں بھی قلب عقل کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، لہٰذا قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے عقلوں پر الله تعالیٰ نے مہر لگا دی۔ اس نادر تفسیر پر اشکال ہوا کہ قرآن کریم میں تو قلب کا مقام سینہ او رچھاتی بھی بتایا گیا:﴿فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُور﴾․
ترجمہ:” سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں پر اندھے ہو جاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں۔“
صدر سینہ او رچھاتی کو کہتے ہیں،اگر قلب سے مراد عقل ہی ہے تو عقل کا مقام سر ہے نہ کہ سینہ، پھر قلب کے صدر ( سینہ) میں ہونے کے کیا معنی ہوں گے ؟ اس کے جواب میں کہا گیا کہ صدر کا معنی سینہ ہی نہیں ہوتا بلکہ وسط درمیان بھی ہوتا ہے ۔اب آیت کے معنی یہ ہوئے کہ وہ عقول اندھی ہیں جو وسط میں ہیں۔ یہ تاویل اس قدر لغو ہے کہ اس پر کلام کرنا بھی ضیاع وقت ہے ، تاہم ان سائنس زدہ مفکرین سے یہ سوال ہے کہ اگر سائنسی اشکال سے بچنے کے لیے قلب سے عقل ہی مراد لی جائے تو ان احادیث کا کیا بنے گا جن میں قلب دل ہی کو کہا گیا ہے ۔ مثلاً ایک مشہور حدیث ہے۔
”ان فی الجسد مضغة إذا صلحت، صلح الجسد کلہ، وإذا فَسَدت فی الجسد کلہ، ألا، وھی القلب“․(صحیح البخاری، کتاب الإیمان، رقم الحدیث:52)
”بے شک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ اصلاح یافتہ ہو تو سارا جسم صالح ہوتا ہے او راگر گوشت کے اس لوتھڑے میں فساد پیدا ہو جائے تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے ۔ جان لو! وہ لوتھڑا دل ہے ۔“
تمام محدثین نے لوتھڑے کی تشریح دل سے کی ہے، کیوں کہ دل ہی ہے جو گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہوتا ہے نہ کہ عقل۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ ” مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب (دل ) میں سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے ، اگر وہ توبہ کرکے گناہ سے رک جاتا ہے تو اس کا قلب (دل) پہلے کی طرح صاف وشفاف ہو جاتا ہے او راگر وہ مسلسل گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے تو وہ سیاہ نقطہ پھیل کر پورے قلب (دل) پر چھا جاتا ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہی وہ زنگ ہے جسے الله تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے :﴿کلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون﴾․ (سنن ابن ماجہ، ابواب الزھد، رقم الحدیث،4244)
کیا یہاں قلب سے مراد عقل ہے ؟ بالفرض عقل کو مراد لے لیا جائے تو کیا سائنس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ گناہ کرنے سے عقل پہ سیاہ نقطہ پڑتا ہے؟
اب ایک طرف یہ احادیث مبارکہ ہیں جو درحقیقت قرآن کریم کی اصل شارح ہیں ، دوسری طرف وہ لغوی تاویلات ہیں، جو سائنس زدہ مفکرین بیان کرتے ہیں او رحق تو یہی ہے کہ احادیث مبارکہ کے سامنے ایسی لغوی بحثیں اور ظنی ووہمی سائنسی اصولوں کی حیثیت مکھی کے پر جتنی بھی نہیں۔
اسلاف کا طریقہ تفسیر یہی رہا کہ وہ قرآن کریم کو ہی بنیاد بنا کر باقی نظریات کے حق وباطل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں، کیوں کہ قرآن کریم ہی وہ میزان علم ہے جس میں تول کرہر نظریے کی حقانیت کو جانچا جاسکتا ہے۔
سائنس کو قرآن کریم سے ثابت کرنے میں کیا فکری گمراہیاں پنہاں ہیں؟ کیا سائنس اس قابل ہے کہ اسے معیار علم ٹھہرایا جائے؟ اس کی تفصیلی بحث مقدمہ میں دیکھیے۔
﴿فَزَادَہُمُ اللّہُ مَرَضاً﴾․” پھر بڑھا دی الله نے ان کی بیماری۔“
تفسیر
جوں جوں قرآن کریم کانزول ہوتا جاتا ہے تو ان کا مرض نفاق بھی بڑھتا جاتا ہے ، کیوں کہ یہ قرآن کریم کی ہر آیت کو بظاہر تو مان لیتے ہیں لیکن دل میں اس کے منکرہی رہتے ہیں او رجب مسلمانوں کی شان وشوکت کو دیکھتے ہیں تو مزید بغض وحسد کی آگ میں جلتے بھنتے ہیں۔ (روح المعانی، البقرة، ص:10)
﴿وَلَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُون﴾․
ترجمہ:”ان کے لیے عذاب درد ناک ہے اس بات پر کہ جھوٹ کہتے تھے۔“
یہ منافقین کی سزا اور ان کے انجام کا ذکر ہے ۔
﴿ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُون﴾”ب“ سببیت کے لیے ہے اور ”ما“ مصدریہ ہے اور فعل ناقص دوام واستمرار کے لیے ہے یعنی یہ سزا ان کے مسلسل جھوٹ بولنے اور اپنے نفاق پر اصرار کا نتیجہ ہے۔ (تفسیر أبی السعود، البقرہ:10)
﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُون،أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِن لاَّ یَشْعُرُونَ﴾․ (البقرہ:12,11)
ترجمہ: ”اور جب کہا جاتا ہے ان کو فساد نہ ڈالو ملک میں تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ، جان لو وہی ہیں خرابی کرنے والے لیکن نہیں سمجھتے۔“
تفسیر
منافقین کی دوسری خصلت، فساد اور اصلاح کی حقیقت
منافقین کئی طرح سے فساد پھیلاتے تھے، کبھی کافروں کے پاس جا کر مسلمانوں کے راز افشا کرتے، کبھی کافروں کو مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ کرتے، مسلمان جہاد کرتے تو یہ امن وامان کا ڈھنڈورا پیٹتے، ان کی حوصلہ شکنی کرتے، یہ لوگ ایمان وکفر اور توحید وشرک میں امتیازی فرق روا نہیں رکھنا چاہتے تھے ، حالاں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد کفر وشرک کے فساد کا خاتمہ تھا کیوں کہ کفر اور شرک سے بڑھ کر کوئی فتنہ وفساد نہیں جیسے الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّہِ﴾․(البقرة:193)
اور لڑو اُن سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد او رحکم رہے خدا تعالیٰ ہی کا یہاں فتنہ سے شرک مراد ہے۔ ( بحر المحیط، البقرة، تحت آیہ رقم:193)
آپ صلی الله علیہ وسلم او رمسلمانوں کی اصلاحی جدوجہد (جہاد) کو فساد تعبیر کرتے حالاں کہ الله تعالیٰ کے کلمہ کوبلند کرنے اور کفرو شرک کو مغلوب کرنے کے لیے جہاد کرنا عین اصلاح ہے جہاد کو فسا دکہنا درحقیقت فساد ہے ، جب ان منافقین سے کہا جاتا کہ راہ حق میں روڑے اٹکا کر فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہم نے کب فساد مچایا ہے ہم تو پُر امن اور صلح پسند لوگ ہیں ، چوں کہ انہوں نے فساد واصلاح کے خود ساختہ پیمانے بنا رکھے ہیں اس لیے انہیں یہ شعور بھی نہیں ہوتا کہ ہم فساد میں مبتلا ہیں۔
موجودہ دور کے زندیقوں کا بھی یہی حال ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی غلط سلط تاویلیں کرکے فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں او راس پر مزید حماقت یہ کہ اسے امت کی اصلاح کا زریعہ سمجھتے ہیں۔
﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُواْ کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَاء أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَاء وَلَکِن لاَّ یَعْلَمُون﴾․(البقرة:13)
ترجمہ:” کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بے وقوف جان لو وہی ہیں بے وقوف لیکن نہیں جانتے۔“
تفسیر
منافقین کی تیسری خصلت
جب منافقین سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمہیں ایمان کا دعوی ہے تو صحابہ کرام رضی الله عنہم جیسی مقدس جماعت کی طرح ایمان لاؤ جو ایمان وعشق کی اس منزل پر فائز تھے ،جہاں کبھی ”کیوں“ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا ” کس طرح“ فنا وزوال کے گھاٹ اتر گیا”کاش ایسا ہوتا“کی گنجائش ہی باقی نہ رہی جو نبوت کے ہر اشارے پر جان ومال لُٹانے کا فن جانتے تھے، وہ خواہش نفس کی غلامی سے اس قدر آزاد ہو چکے تھے کہ نازک سے نازک لمحات میں بھی عروسِ دنیا انہیں اپنی ادا وناز کا اسیر نہ بنا سکی ، اے دنیا پرست منافقو!
اپنے ایمان کو ذرا ان کے ایمان پر تو پرکھو، اس کے جواب میں منافق کہتے ہیں ۔ ”ہوں! ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں جنہیں نفع کی خبر ہے نہ نقصان کی ۔“ حالاں کہ بے وقوف تو یہی منافقین ہیں جو عارضی زندگی کو دائمی زندگی پر ترجیح دے رہے ہیں ، پر اپنی حماقت کو دانائی سمجھ کر اس پر نازاں وفرحاں بھی ہیں، آج کل بھی دین دشمنوں کا یہی وطیرہ ہے کہ مخلص مسلمانوں کو دقیانوس، بنیاد پرست، فسادی، جدید تقاضوں سے بے خبر جیسے القابات سے نوازتے رہتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی الله عنہم کا ایمان معیار ہے
آیت کریمہ میں … ﴿ کَمَا آمَنَ النَّاسُ﴾ سے صحابہ کرام رضی الله عنہم مراد ہیں یعنی ایمان لانا ہے تو صحابہ کرام کی طرح ایمان لاؤ، جو شکوک وشبہات سے بالاتر ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان وتصدیق اسی قسم کی معتبر ہو گی جس قسم کی تصدیق صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کی ، اگر کوئی شخص ملائکہ، جنت، جہنم کی ایسی تصدیق وتعریف کرے جو صحابہ کرام کی تصدیق سے یکسر مختلف ہو جیسے زنادقہ کا طریقہ ہے، تو یہ تصدیق درحقیقت تکذیب شمار ہو گی۔
﴿وَإِذَا لَقُواْ الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَی شَیَاطِیْنِہِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَکْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ ،اللّہُ یَسْتَہْزِءُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُون﴾․(البقرة:14-13)
ترجمہ: ”او رجب ملاقات کرتے ہیں مسلمانوں سے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئیں ہیں او رجب تنہا ہوتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاس تو کہتے ہیں بے شک ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ہنسی کرتے ہیں ( یعنی مسلمانوں سے) الله ہنسی کرتا ہے ان سے اور ترقی دیتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں (اور) حالت یہ ہے کہ وہ عقل کے اندھے ہیں۔“
تفسیر
منافقین کی چوتھی خصلت
منافقین کا یہ رویہ تھا کہ جب مسلمانوں سے ملتے تو انہیں یقین دلاتے کہ ہم تو مسلمان ہیں او رجب کافروں کے سرغنوں کے پاس جاتے تو انہیں کہتے کہ ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ ہیں ، مسلمانوں کے ساتھ میل جول اور اٹھنا بیٹھنا تو بس ہنسی مذاق کے واسطے ہے ۔ ان کے اس قول کے جواب میں کہا گیا کہ تم اہل ایمان کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہو تو الله تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہنسی مذاق کرتا ہے ۔ جس کی صورت یہ ہوتی ہے الله تعالیٰ ان پر مال دولت کی فراوانی کر دیتے ہیں اور یہ غرور وتکبر میں آکر خوب فتنہ وفساد کا بازار گرم کرتے ہیں او رپھر اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ مال ودولت الله تعالیٰ کا فضلِ خاص ہے کہ اچانک گرفت شروع ہو جاتی ہے اور یہ مال جسے نعمت سمجھ رہے ہوتے ہیں عذاب بن جاتا ہے جیسے الله تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا ہے :﴿فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْْء ٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاہُم بَغْتَةً فَإِذَا ہُم مُّبْلِسُون﴾․(الانعام:44)
ترجمہ: ”پھر جب وہ بھول گئے اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی کھول دیے ہم نے ان پر دروازے ہر چیز کے یہاں تک کہ جب وہ خوش ہوئے ان چیزوں پر جو ان کو دی گئیں پکڑ لیا ہم نے ان کو اچانک پس اس وقت وہ رہ گئے ناامید)۔
کیا الله تعالیٰ بھی ہنسی مذاق کرتا ہے؟
الله تعالیٰ کی ذات لہو ولعب، استہزاء جیسی چیزوں سے بلند تر ہے ، آیت میں استہزاء کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف اہل عرب کے محاور ے کی بنا پر ہے ، اہل عرب کا محاورہ ہے کہ جب کوئی کام کسی فعل کی سزا کے طور پر کیا جائے تو اس کی تعبیر بھی اسی فعل سے کر دیتے ہیں۔ (الجامع لأ حکام القرآن للقرطبی، البقرہ تحت اٰیہ رقم:16)
مثلاً:﴿ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاہُمْ﴾( الحشر:19) اس میں بھلانے کی جو سزا دی گئی ہے اسے بھی بھلانے سے تعبیر کیا گیا جب کہ الله تعالیٰ کے لیے بھول جانے کا کوئی امکان ہی نہیں اسی طرح ﴿وَجَزَاء سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُہَا﴾․ ( الشوری:40) میں برائی کی سزا کو برائی سے تعبیر کیا گیا ، حالاں کہ برائی کی سزا تو عین انصاف اور عدل کا تقاضا ہے وہ خودبرائی نہیں یہ سب عرب محاورے کی بنا پر ہے۔
﴿أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُواْ مُہْتَدِیْن﴾․ (البقرة:16)
ترجمہ:” یہ وہی ہیں جنہوں نے مول لی گمراہی ہدایت کے بدلے، سونافع نہ ہوئی ان کی سوداگری اور نہ ہوئے راہ پانے والے۔“
تفسیر
”شراء“ کا لفظ عربی میں دو متضاد معنوں ”خرید“ اور ”فروخت“ کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ ( مفردات القرآن للراغب، باب، شراء)
یہاں خریدنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ ان منافقین نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ، لیکن اس صورت میں اشکال یہ ہو گا کہ منافقین کے پاس ایمان ہی کب تھا کہ وہ اس کے بدلے گمراہی خرید لیتے وہ تو ایمان کی دولت ہی سے محروم تھے ، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ” اشتراء“ کے معنی مجازی ترجیح واختیار مراد لیے جائیں کہ انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی اس صورت میں ”بالھدی“ میں ”ب“ علیٰ کے معنی میں ہو گی ، تفسیر طبری اور روح المعانی میں یہی توجیہ مذکور ہے ۔ ( روح المعانی، البقرہ، تحت آیہ رقم:16)
تاہم اگر ہدایت سے وہ فطری ہدایت مراد لی جائے جس کا تذکرہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ” ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے لیکن ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں، تو پھر کوئی اشکال ہی باقی نہ رہے گا او رتمام الفاظ بھی اپنے حقیقی معنوں میں رہیں گے ۔ ( تفسیر الکشاف، البقرة، تحت آیہ رقم:16)
او راگر منافقین سے وہ مخصوص افراد مراد لیے جائیں جو واقعی ایمان کی دولت پانے کے بعد نفاق کی راہ پہ چل پڑے تھے جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے۔
تو اس صورت میں بھی کوئی اشکال باقی نہ رہے گا لیکن آیت کا مصداق محدود ہو جائے گا۔
﴿فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُواْ مُہْتَدِیْنَ﴾
تفسیر
منافقین نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو ترجیح دے کر سر اسر گھاٹے کا سودا کیا ہے ، تجارت ان کا پیشہ ہے لیکن تجارت کے سلیقے سے بے خبر ہیں ، کیا گمراہی انہیں دنیا میں اطمینان وسکون او رآخرت میں رضائے الہٰی کا پروانہ دی سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں یہ ایک کھوٹہ سِکہّ ہے جس کی کہیں قدر وقیمت نہیں۔
﴿مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاء تْ مَا حَوْلَہُ ذَہَبَ اللّہُ بِنُورِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ یُبْصِرُون﴾․ (البقرة:17)
ترجمہ:” ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی پھر جب روشن کر دیا آگ نے اس کے آس پاس کو تو زائل کر دی الله نے ان کی روشنی اور چھوڑا ان کو اندھیروں میں کہ کچھ نہیں دیکھتے۔“
تفسیر
تمثیل کی حقیقت
کسی صورت واقعہ کو صورت حقیقت واقعہ یعنی کسی واقعہ کی جزئیات پیش نظر رکھے بغیر کل کو کل سے تشبیہ دی جائے،حقیقت واقعہ سے تشبیہ دینے کا نام مثال او رتمثیل ہے ، اگرچہ اس تشبیہ میں دونوں کے اجزا ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ (کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم:1449/2)
مثل کے مفہوم میں ایک پہلو ندرت او رغرابت کا بھی پایا جاتا ہے یعنی ایسا حال جو عجیب وغریب ہو ۔ ( تفسیر الکشاف: البقرة تحت آیة رقم:17)
”الَّذِی“:”کَمَثَلِ الَّذِی“ میں”الَّذِی“ مفرد ہے لیکن یہاں معناً جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ قرآن کریم میں اس طریق استعمال کے متعدد نظائر ہیں ۔ ( تفسیر الکشاف: البقرہ تحت آیة رقم:17)
مثلاً:﴿خُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُواْ…﴾ (سورة التوبة:69) ﴿وَالَّذِیْ جَاء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ أُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُون﴾․ سورة الزمر:33)
مثال بیان کرنے کا مقصد
قرآن کریم میں مثالوں کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ممثل لہ (جس کی وضاحت کے لیے، مثال دی جاتی ہے) کو پردہ خفا سے نکال کر حقیقت کاروپ دے دیا جائے تاکہ نظر وفکر کا ہر درجہ اس چشمہ ہدایت سے سیرابی کا سامان پیدا کر سکے۔( احکام القرآن للقرطبی البقرہ، تحت آیة رقم:17)
﴿وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ﴾ ․(سورة العنکبوت:43)
مگر جس شخص نے کج روی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو وہ یہاں بھی تشنہٴ لب رہے گا۔﴿یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہِ کَثِیْرا﴾․ (البقرة:26)
منافقین کی پہلی مثال
یہ پہلی مثال ان منافقین کے بارے میں ہے جنہوں نے ایمان پانے کے بعد گنوا دیا او رکفر اختیار کر لیا، چناں چہ حضرت عبدالله بن مسعود ودیگر صحابہ کرام رضی الله عنہم سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے، تو کچھ لوگ اسلام قبول کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد منافق بن گئے، ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو اس قدر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کھڑا ہو کہ سیدھا راستہ بھی سُجھائی نہ دیتا ہو ، اس نے آگ سلگا کر ارد گرد کے ماحول کو روشن کر دیا، جب پرخار جھاڑیوں سے بچ کر سدھے راستے پر چلنے کی امید ہو چکی تھی کہ دفعةً وہ آگ بجھ گئی پھر وہی ظلمت کا پردہ چھا گیا ، اب وہ حیراں وسرگرداں، اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے، منزل کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے نہ کانٹوں سے دامن بچا سکتا ہے ، یہی حالت منافقین کی ہے شرک وکفر کی ظلمتوں میں پڑے ہوئے تھے کہ نورِ نبوت کی جلوہ آرائیوں نے انہیں ذوق توحید سے آشنا کیا، حلال وحرام کے فرق سے باخبر ہوئے جب اس نور کا پورا عکس ان کے دلوں میں اتر چکا تو یہ پھر سے کفر وشرک کی ظلمتوں میں جاگھسے۔ اب ان کے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں رہا جس کے ذریعہ حلال وحرام، خیر وشرکی تمیز کر سکیں۔ ( تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:17)
﴿صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَرْجِعُونَ﴾․(البقرة:18)
ترجمہ:” بہرے ہیں ، گونگے ہیں، اندھے ہیں، سو وہ نہیں لوٹیں گے۔“
تفسیر
جو شخص گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہو ، علم ومعرفت کے تمام ذرائع اس پر بند ہو چکے ہوں، کان صدائے حق سننے سے قاصر، زبان اظہار حق سے عاجز، آنکھیں حق کی روشنی دیکھنے سے محروم ہو چکی ہوں تو ایسے شخص کو ایمان ویقین کی منزل تو کجا نشانِ منزل بھی نہ ملے گا، یہ منزل تو انہیں خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے جن کے کان نغمہ توحید پر ہمہ تن گوش ہوں او رلبوں کی جنبش تصدیق کے لیے بے قرار ہو۔
﴿أَوْکَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاء ِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ أَصْابِعَہُمْ فِیْ آذَانِہِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ واللّہُ مُحِیْطٌ بِالْکافِرِیْنَ، یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصَارَہُمْ کُلَّمَا أَضَاء لَہُم مَّشَوْاْ فِیْہِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْْہِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّہُ لَذَہَبَ بِسَمْعِہِمْ وَأَبْصَارِہِمْ إِنَّ اللَّہ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر﴾․(البقرة:20-19)
ترجمہ:” یا ان کی مثال ایسی ہے جیسے زور سے مینہ پڑ رہا ہو آسماں سے، اس میں اندھیرے ہیں اور گرج او ربجلی، دیتے ہیں انگلیاں اپنے کانوں میں مارے کڑک کے موت کے ڈر سے او رالله احاطہ کرنے والا ہے کافروں کا قریب ہے کہ بجلی اچک لے ان کی آنکھیں، جب چمکتی ہے ان پر تو چلنے لگتے ہیں اس کی روشنی میں او رجب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں او راگر چاہے الله تولے جائے ان کے کان اور آنکھیں بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے۔“
تفسیر
منافقین کی دوسری مثال
یہ مثال ان منافقین کی ہے جو تردد اور شک وشبہ میں زندگی گزارتے ہیں ان میں سے بعض کو تو ہدایت نصیب ہو جاتی ہے اور بعض اسی پس وپیش میں زندگی فنا کر دیتے ہیں۔
ان کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے موسلا دھار بارش برس رہی ہو، اندھیریاں چھائی ہوئی ہوں، بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک زوروں پر ہو ، وہاں پر موجود لوگ طوفان بادوباراں کے اس منظر سے خوف زدہ ہو رہے ہوں بادل کڑکے تو موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں بجلی کی تیز چمک آنکھوں کی روشنی سلب کرنے کو ہو تو اس کی روشنی میں قدم دو قدم چل دیے پھر جب تاریکی چھا گئی تو حیران وپریشان کھڑے ہو گئے، منافقین کا حال بھی ایسا ہی ہے جب اسلام کی شان وشوکت اور پھیلتے ہوئے نور کو دیکھتے ہیں تو آگے بڑھنے لگتے ہیں او رجب دیکھتے ہیں کہ اہل ایمان پر آزمائشیں آرہی ہیں تو قدم روک لیتے ہیں او رکفر کی اوٹ میں جاکر راحت وسکون کا سامان ڈھونڈتے ہیں۔
بارش آسماں سے برستی ہے یا بادل سے؟
مذکورہ آیت او راس کے علاوہ کئی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش آسمان سے ہوتی ہے مثلاً:﴿وَہُوَ الَّذِیَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً ﴾․ (الأنعام:99)﴿أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء﴾․(رعد:17)﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً طَہُوراً﴾․(فرقان:48)
دوسری طرف بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں بادل سے بارش برسنے کا ذکر ہے مثلاً:﴿حَتَّی إِذَا أَقَلَّتْ سَحَاباً ثِقَالاً سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِہِ الْمَاء﴾․(الاعراف:57)
ترجمہ:” یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں اٹھا لاتی ہیں بھاری بادلوں کو تو ہانک دیتے ہیں ہم اس بادل کو ایک شہر مردہ کی طرف پھر ہم اتارتے ہیں اس بادل سے پانی)
﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاء ثَجَّاجاً ﴾․(النباء:14)
ترجمہ:” اور اتارا نچڑنے والی بدلیوں سے پانی کا ریلا۔“
قرآن کی دونوں طرح کی آیات میں بظاہر تعارض محسوس ہوتا ہے۔
دفع تعارض
پہلی آیات میں سما سے مراد سحاب (بادل) ہی ہے کیوں کہ اس چیز کو جو جہت علّو میں ہوتی ہے اسے سماء سے تعبیر کر دیا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کل ما علاک فھو سماء ہر وہ شی جو تیرے اوپر ہے وہ آسمان ہے چوں کہ بادل بھی جہت علو (اوپر کی طرف) میں ہوتے ہیں اسی لیے انہیں سماء (آسماں) سے تعبیر کرکے ﴿ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ًً﴾ کہہ دیا گیا وگرنہ درحقیقت بارش بادلوں ہی سے ہوتی ہے۔ ( روح المعانی، البقرة، تحت آیت رقم:20)
ترجمہ: ”اور جب کہا جاتا ہے ان کو فساد نہ ڈالو ملک میں تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ، جان لو وہی ہیں خرابی کرنے والے لیکن نہیں سمجھتے۔“
تفسیر
منافقین کی دوسری خصلت، فساد اور اصلاح کی حقیقت
منافقین کئی طرح سے فساد پھیلاتے تھے، کبھی کافروں کے پاس جا کر مسلمانوں کے راز افشا کرتے، کبھی کافروں کو مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ کرتے، مسلمان جہاد کرتے تو یہ امن وامان کا ڈھنڈورا پیٹتے، ان کی حوصلہ شکنی کرتے، یہ لوگ ایمان وکفر اور توحید وشرک میں امتیازی فرق روا نہیں رکھنا چاہتے تھے ، حالاں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد کفر وشرک کے فساد کا خاتمہ تھا کیوں کہ کفر اور شرک سے بڑھ کر کوئی فتنہ وفساد نہیں جیسے الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّہِ﴾․(البقرة:193)
اور لڑو اُن سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد او رحکم رہے خدا تعالیٰ ہی کا یہاں فتنہ سے شرک مراد ہے۔ ( بحر المحیط، البقرة، تحت آیہ رقم:193)
آپ صلی الله علیہ وسلم او رمسلمانوں کی اصلاحی جدوجہد (جہاد) کو فساد تعبیر کرتے حالاں کہ الله تعالیٰ کے کلمہ کوبلند کرنے اور کفرو شرک کو مغلوب کرنے کے لیے جہاد کرنا عین اصلاح ہے جہاد کو فسا دکہنا درحقیقت فساد ہے ، جب ان منافقین سے کہا جاتا کہ راہ حق میں روڑے اٹکا کر فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہم نے کب فساد مچایا ہے ہم تو پُر امن اور صلح پسند لوگ ہیں ، چوں کہ انہوں نے فساد واصلاح کے خود ساختہ پیمانے بنا رکھے ہیں اس لیے انہیں یہ شعور بھی نہیں ہوتا کہ ہم فساد میں مبتلا ہیں۔
موجودہ دور کے زندیقوں کا بھی یہی حال ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی غلط سلط تاویلیں کرکے فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں او راس پر مزید حماقت یہ کہ اسے امت کی اصلاح کا زریعہ سمجھتے ہیں۔
﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُواْ کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَاء أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَاء وَلَکِن لاَّ یَعْلَمُون﴾․(البقرة:13)
ترجمہ:” کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بے وقوف جان لو وہی ہیں بے وقوف لیکن نہیں جانتے۔“
تفسیر
منافقین کی تیسری خصلت
جب منافقین سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمہیں ایمان کا دعوی ہے تو صحابہ کرام رضی الله عنہم جیسی مقدس جماعت کی طرح ایمان لاؤ جو ایمان وعشق کی اس منزل پر فائز تھے ،جہاں کبھی ”کیوں“ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا ” کس طرح“ فنا وزوال کے گھاٹ اتر گیا”کاش ایسا ہوتا“کی گنجائش ہی باقی نہ رہی جو نبوت کے ہر اشارے پر جان ومال لُٹانے کا فن جانتے تھے، وہ خواہش نفس کی غلامی سے اس قدر آزاد ہو چکے تھے کہ نازک سے نازک لمحات میں بھی عروسِ دنیا انہیں اپنی ادا وناز کا اسیر نہ بنا سکی ، اے دنیا پرست منافقو!
اپنے ایمان کو ذرا ان کے ایمان پر تو پرکھو، اس کے جواب میں منافق کہتے ہیں ۔ ”ہوں! ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں جنہیں نفع کی خبر ہے نہ نقصان کی ۔“ حالاں کہ بے وقوف تو یہی منافقین ہیں جو عارضی زندگی کو دائمی زندگی پر ترجیح دے رہے ہیں ، پر اپنی حماقت کو دانائی سمجھ کر اس پر نازاں وفرحاں بھی ہیں، آج کل بھی دین دشمنوں کا یہی وطیرہ ہے کہ مخلص مسلمانوں کو دقیانوس، بنیاد پرست، فسادی، جدید تقاضوں سے بے خبر جیسے القابات سے نوازتے رہتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی الله عنہم کا ایمان معیار ہے
آیت کریمہ میں … ﴿ کَمَا آمَنَ النَّاسُ﴾ سے صحابہ کرام رضی الله عنہم مراد ہیں یعنی ایمان لانا ہے تو صحابہ کرام کی طرح ایمان لاؤ، جو شکوک وشبہات سے بالاتر ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان وتصدیق اسی قسم کی معتبر ہو گی جس قسم کی تصدیق صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کی ، اگر کوئی شخص ملائکہ، جنت، جہنم کی ایسی تصدیق وتعریف کرے جو صحابہ کرام کی تصدیق سے یکسر مختلف ہو جیسے زنادقہ کا طریقہ ہے، تو یہ تصدیق درحقیقت تکذیب شمار ہو گی۔
﴿وَإِذَا لَقُواْ الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَی شَیَاطِیْنِہِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَکْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ ،اللّہُ یَسْتَہْزِءُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُون﴾․(البقرة:14-13)
ترجمہ: ”او رجب ملاقات کرتے ہیں مسلمانوں سے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئیں ہیں او رجب تنہا ہوتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاس تو کہتے ہیں بے شک ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ہنسی کرتے ہیں ( یعنی مسلمانوں سے) الله ہنسی کرتا ہے ان سے اور ترقی دیتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں (اور) حالت یہ ہے کہ وہ عقل کے اندھے ہیں۔“
تفسیر
منافقین کی چوتھی خصلت
منافقین کا یہ رویہ تھا کہ جب مسلمانوں سے ملتے تو انہیں یقین دلاتے کہ ہم تو مسلمان ہیں او رجب کافروں کے سرغنوں کے پاس جاتے تو انہیں کہتے کہ ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ ہیں ، مسلمانوں کے ساتھ میل جول اور اٹھنا بیٹھنا تو بس ہنسی مذاق کے واسطے ہے ۔ ان کے اس قول کے جواب میں کہا گیا کہ تم اہل ایمان کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہو تو الله تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہنسی مذاق کرتا ہے ۔ جس کی صورت یہ ہوتی ہے الله تعالیٰ ان پر مال دولت کی فراوانی کر دیتے ہیں اور یہ غرور وتکبر میں آکر خوب فتنہ وفساد کا بازار گرم کرتے ہیں او رپھر اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ مال ودولت الله تعالیٰ کا فضلِ خاص ہے کہ اچانک گرفت شروع ہو جاتی ہے اور یہ مال جسے نعمت سمجھ رہے ہوتے ہیں عذاب بن جاتا ہے جیسے الله تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا ہے :﴿فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْْء ٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاہُم بَغْتَةً فَإِذَا ہُم مُّبْلِسُون﴾․(الانعام:44)
ترجمہ: ”پھر جب وہ بھول گئے اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی کھول دیے ہم نے ان پر دروازے ہر چیز کے یہاں تک کہ جب وہ خوش ہوئے ان چیزوں پر جو ان کو دی گئیں پکڑ لیا ہم نے ان کو اچانک پس اس وقت وہ رہ گئے ناامید)۔
کیا الله تعالیٰ بھی ہنسی مذاق کرتا ہے؟
الله تعالیٰ کی ذات لہو ولعب، استہزاء جیسی چیزوں سے بلند تر ہے ، آیت میں استہزاء کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف اہل عرب کے محاور ے کی بنا پر ہے ، اہل عرب کا محاورہ ہے کہ جب کوئی کام کسی فعل کی سزا کے طور پر کیا جائے تو اس کی تعبیر بھی اسی فعل سے کر دیتے ہیں۔ (الجامع لأ حکام القرآن للقرطبی، البقرہ تحت اٰیہ رقم:16)
مثلاً:﴿ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاہُمْ﴾( الحشر:19) اس میں بھلانے کی جو سزا دی گئی ہے اسے بھی بھلانے سے تعبیر کیا گیا جب کہ الله تعالیٰ کے لیے بھول جانے کا کوئی امکان ہی نہیں اسی طرح ﴿وَجَزَاء سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُہَا﴾․ ( الشوری:40) میں برائی کی سزا کو برائی سے تعبیر کیا گیا ، حالاں کہ برائی کی سزا تو عین انصاف اور عدل کا تقاضا ہے وہ خودبرائی نہیں یہ سب عرب محاورے کی بنا پر ہے۔
﴿أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُواْ مُہْتَدِیْن﴾․ (البقرة:16)
ترجمہ:” یہ وہی ہیں جنہوں نے مول لی گمراہی ہدایت کے بدلے، سونافع نہ ہوئی ان کی سوداگری اور نہ ہوئے راہ پانے والے۔“
تفسیر
”شراء“ کا لفظ عربی میں دو متضاد معنوں ”خرید“ اور ”فروخت“ کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ ( مفردات القرآن للراغب، باب، شراء)
یہاں خریدنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ ان منافقین نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ، لیکن اس صورت میں اشکال یہ ہو گا کہ منافقین کے پاس ایمان ہی کب تھا کہ وہ اس کے بدلے گمراہی خرید لیتے وہ تو ایمان کی دولت ہی سے محروم تھے ، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ” اشتراء“ کے معنی مجازی ترجیح واختیار مراد لیے جائیں کہ انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی اس صورت میں ”بالھدی“ میں ”ب“ علیٰ کے معنی میں ہو گی ، تفسیر طبری اور روح المعانی میں یہی توجیہ مذکور ہے ۔ ( روح المعانی، البقرہ، تحت آیہ رقم:16)
تاہم اگر ہدایت سے وہ فطری ہدایت مراد لی جائے جس کا تذکرہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ” ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے لیکن ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں، تو پھر کوئی اشکال ہی باقی نہ رہے گا او رتمام الفاظ بھی اپنے حقیقی معنوں میں رہیں گے ۔ ( تفسیر الکشاف، البقرة، تحت آیہ رقم:16)
او راگر منافقین سے وہ مخصوص افراد مراد لیے جائیں جو واقعی ایمان کی دولت پانے کے بعد نفاق کی راہ پہ چل پڑے تھے جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے۔
تو اس صورت میں بھی کوئی اشکال باقی نہ رہے گا لیکن آیت کا مصداق محدود ہو جائے گا۔
﴿فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُواْ مُہْتَدِیْنَ﴾
تفسیر
منافقین نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو ترجیح دے کر سر اسر گھاٹے کا سودا کیا ہے ، تجارت ان کا پیشہ ہے لیکن تجارت کے سلیقے سے بے خبر ہیں ، کیا گمراہی انہیں دنیا میں اطمینان وسکون او رآخرت میں رضائے الہٰی کا پروانہ دی سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں یہ ایک کھوٹہ سِکہّ ہے جس کی کہیں قدر وقیمت نہیں۔
﴿مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاء تْ مَا حَوْلَہُ ذَہَبَ اللّہُ بِنُورِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ یُبْصِرُون﴾․ (البقرة:17)
ترجمہ:” ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی پھر جب روشن کر دیا آگ نے اس کے آس پاس کو تو زائل کر دی الله نے ان کی روشنی اور چھوڑا ان کو اندھیروں میں کہ کچھ نہیں دیکھتے۔“
تفسیر
تمثیل کی حقیقت
کسی صورت واقعہ کو صورت حقیقت واقعہ یعنی کسی واقعہ کی جزئیات پیش نظر رکھے بغیر کل کو کل سے تشبیہ دی جائے،حقیقت واقعہ سے تشبیہ دینے کا نام مثال او رتمثیل ہے ، اگرچہ اس تشبیہ میں دونوں کے اجزا ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ (کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم:1449/2)
مثل کے مفہوم میں ایک پہلو ندرت او رغرابت کا بھی پایا جاتا ہے یعنی ایسا حال جو عجیب وغریب ہو ۔ ( تفسیر الکشاف: البقرة تحت آیة رقم:17)
”الَّذِی“:”کَمَثَلِ الَّذِی“ میں”الَّذِی“ مفرد ہے لیکن یہاں معناً جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ قرآن کریم میں اس طریق استعمال کے متعدد نظائر ہیں ۔ ( تفسیر الکشاف: البقرہ تحت آیة رقم:17)
مثلاً:﴿خُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُواْ…﴾ (سورة التوبة:69) ﴿وَالَّذِیْ جَاء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ أُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُون﴾․ سورة الزمر:33)
مثال بیان کرنے کا مقصد
قرآن کریم میں مثالوں کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ممثل لہ (جس کی وضاحت کے لیے، مثال دی جاتی ہے) کو پردہ خفا سے نکال کر حقیقت کاروپ دے دیا جائے تاکہ نظر وفکر کا ہر درجہ اس چشمہ ہدایت سے سیرابی کا سامان پیدا کر سکے۔( احکام القرآن للقرطبی البقرہ، تحت آیة رقم:17)
﴿وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ﴾ ․(سورة العنکبوت:43)
مگر جس شخص نے کج روی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو وہ یہاں بھی تشنہٴ لب رہے گا۔﴿یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہِ کَثِیْرا﴾․ (البقرة:26)
منافقین کی پہلی مثال
یہ پہلی مثال ان منافقین کے بارے میں ہے جنہوں نے ایمان پانے کے بعد گنوا دیا او رکفر اختیار کر لیا، چناں چہ حضرت عبدالله بن مسعود ودیگر صحابہ کرام رضی الله عنہم سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے، تو کچھ لوگ اسلام قبول کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد منافق بن گئے، ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو اس قدر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کھڑا ہو کہ سیدھا راستہ بھی سُجھائی نہ دیتا ہو ، اس نے آگ سلگا کر ارد گرد کے ماحول کو روشن کر دیا، جب پرخار جھاڑیوں سے بچ کر سدھے راستے پر چلنے کی امید ہو چکی تھی کہ دفعةً وہ آگ بجھ گئی پھر وہی ظلمت کا پردہ چھا گیا ، اب وہ حیراں وسرگرداں، اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے، منزل کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے نہ کانٹوں سے دامن بچا سکتا ہے ، یہی حالت منافقین کی ہے شرک وکفر کی ظلمتوں میں پڑے ہوئے تھے کہ نورِ نبوت کی جلوہ آرائیوں نے انہیں ذوق توحید سے آشنا کیا، حلال وحرام کے فرق سے باخبر ہوئے جب اس نور کا پورا عکس ان کے دلوں میں اتر چکا تو یہ پھر سے کفر وشرک کی ظلمتوں میں جاگھسے۔ اب ان کے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں رہا جس کے ذریعہ حلال وحرام، خیر وشرکی تمیز کر سکیں۔ ( تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:17)
﴿صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَرْجِعُونَ﴾․(البقرة:18)
ترجمہ:” بہرے ہیں ، گونگے ہیں، اندھے ہیں، سو وہ نہیں لوٹیں گے۔“
تفسیر
جو شخص گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہو ، علم ومعرفت کے تمام ذرائع اس پر بند ہو چکے ہوں، کان صدائے حق سننے سے قاصر، زبان اظہار حق سے عاجز، آنکھیں حق کی روشنی دیکھنے سے محروم ہو چکی ہوں تو ایسے شخص کو ایمان ویقین کی منزل تو کجا نشانِ منزل بھی نہ ملے گا، یہ منزل تو انہیں خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے جن کے کان نغمہ توحید پر ہمہ تن گوش ہوں او رلبوں کی جنبش تصدیق کے لیے بے قرار ہو۔
﴿أَوْکَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاء ِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ أَصْابِعَہُمْ فِیْ آذَانِہِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ واللّہُ مُحِیْطٌ بِالْکافِرِیْنَ، یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصَارَہُمْ کُلَّمَا أَضَاء لَہُم مَّشَوْاْ فِیْہِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْْہِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّہُ لَذَہَبَ بِسَمْعِہِمْ وَأَبْصَارِہِمْ إِنَّ اللَّہ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر﴾․(البقرة:20-19)
ترجمہ:” یا ان کی مثال ایسی ہے جیسے زور سے مینہ پڑ رہا ہو آسماں سے، اس میں اندھیرے ہیں اور گرج او ربجلی، دیتے ہیں انگلیاں اپنے کانوں میں مارے کڑک کے موت کے ڈر سے او رالله احاطہ کرنے والا ہے کافروں کا قریب ہے کہ بجلی اچک لے ان کی آنکھیں، جب چمکتی ہے ان پر تو چلنے لگتے ہیں اس کی روشنی میں او رجب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں او راگر چاہے الله تولے جائے ان کے کان اور آنکھیں بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے۔“
تفسیر
منافقین کی دوسری مثال
یہ مثال ان منافقین کی ہے جو تردد اور شک وشبہ میں زندگی گزارتے ہیں ان میں سے بعض کو تو ہدایت نصیب ہو جاتی ہے اور بعض اسی پس وپیش میں زندگی فنا کر دیتے ہیں۔
ان کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے موسلا دھار بارش برس رہی ہو، اندھیریاں چھائی ہوئی ہوں، بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک زوروں پر ہو ، وہاں پر موجود لوگ طوفان بادوباراں کے اس منظر سے خوف زدہ ہو رہے ہوں بادل کڑکے تو موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں بجلی کی تیز چمک آنکھوں کی روشنی سلب کرنے کو ہو تو اس کی روشنی میں قدم دو قدم چل دیے پھر جب تاریکی چھا گئی تو حیران وپریشان کھڑے ہو گئے، منافقین کا حال بھی ایسا ہی ہے جب اسلام کی شان وشوکت اور پھیلتے ہوئے نور کو دیکھتے ہیں تو آگے بڑھنے لگتے ہیں او رجب دیکھتے ہیں کہ اہل ایمان پر آزمائشیں آرہی ہیں تو قدم روک لیتے ہیں او رکفر کی اوٹ میں جاکر راحت وسکون کا سامان ڈھونڈتے ہیں۔
بارش آسماں سے برستی ہے یا بادل سے؟
مذکورہ آیت او راس کے علاوہ کئی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش آسمان سے ہوتی ہے مثلاً:﴿وَہُوَ الَّذِیَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً ﴾․ (الأنعام:99)﴿أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء﴾․(رعد:17)﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً طَہُوراً﴾․(فرقان:48)
دوسری طرف بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں بادل سے بارش برسنے کا ذکر ہے مثلاً:﴿حَتَّی إِذَا أَقَلَّتْ سَحَاباً ثِقَالاً سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِہِ الْمَاء﴾․(الاعراف:57)
ترجمہ:” یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں اٹھا لاتی ہیں بھاری بادلوں کو تو ہانک دیتے ہیں ہم اس بادل کو ایک شہر مردہ کی طرف پھر ہم اتارتے ہیں اس بادل سے پانی)
﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاء ثَجَّاجاً ﴾․(النباء:14)
ترجمہ:” اور اتارا نچڑنے والی بدلیوں سے پانی کا ریلا۔“
قرآن کی دونوں طرح کی آیات میں بظاہر تعارض محسوس ہوتا ہے۔
دفع تعارض
پہلی آیات میں سما سے مراد سحاب (بادل) ہی ہے کیوں کہ اس چیز کو جو جہت علّو میں ہوتی ہے اسے سماء سے تعبیر کر دیا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کل ما علاک فھو سماء ہر وہ شی جو تیرے اوپر ہے وہ آسمان ہے چوں کہ بادل بھی جہت علو (اوپر کی طرف) میں ہوتے ہیں اسی لیے انہیں سماء (آسماں) سے تعبیر کرکے ﴿ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ًً﴾ کہہ دیا گیا وگرنہ درحقیقت بارش بادلوں ہی سے ہوتی ہے۔ ( روح المعانی، البقرة، تحت آیت رقم:20)
رب کی اطاعت وعبادت
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾․(البقرة:21)
ربطِ آیات
گزشتہ آیات میں مؤمنین ، کافرین اور منافقین کے اوصاف اور ان کی جزا وسزا علیحدہ علیحدہ بیان کرنے کے بعد یہاں سے تمام بنی نوع انسان کو مجموعی طور پر مخاطب کرکے ان کے سامنے دعوت توحید بیان کی ہے ۔
اسلام کے اجزائے ترکیبی دو ہیں ایک توحید، دوسری رسالت، پہلے توحید اور عبادت کو بیان کیا ہے ، جو تقوی اور پرہیز گاری کی جڑ ہے ، توحید کی دعوت ایسے انداز سے دی گئی ہے کہ اس میں دعوی کے ساتھ ساتھ اس کے واضح دلائل بھی آگئے ہیں۔
اے لوگو! بندگی کرو اپنے رب کی ، جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
لفظ عبادت کی تشریح
مفسرین نے عبادت کی تشریح انتہائی درجے کی تواضع اور بعض نے انتہائی درجے کی تعظیم سے کی ہے۔ ( روح المعانی:86/1، امدادیہ ملتان، تفسیر ابن کثیر:26/1، دار الفکر، الکشاف:12/1، ادب الحوذة)
اگرچہ یہ معنی صحیح ہیں ، مگر تشریح کے محتاج ہیں ، کیوں کہ والدین اور اساتذہ کی تعظیم او ران کے لیے تواضع عبادت نہیں کہلاتی۔
شیخ الہند رحمة الله علیہ نے ترجمہ میں عبادت کا معنی بندگی سے کیا ہے، یعنی بندہ ہونا۔ یہ اسی ذات کے لیے ہو سکتا ہے جس کی طرف بندہ ہر وقت ہر چیز میں محتاج ہو۔
عبادت کی بہترین تشریح علامہ ابن قیم رحمة الله علیہ نے مدارج السالکین40/1 میں فرمائی ہے:”عبادت، معبود کے لیے اسباب سے ماورا غیبی قوت ( علم اور تصرف) تسلیم کرنے کا نام ہے، جس قوت کے ذریعے وہ نفع اور نقصان پہنچانے پر قادر ہو۔ لہٰذا ہر وہ دعا، پکار، تعریف وتعظیم جو اس اعتقاد کی بناپر پیدا ہو عبادت ہے۔“
اگر یہ اعتقاد خدا تعالیٰ کے حق میں ہو کہ ہمارے حالات جاننے اور ان میں متصرف ہونے میں الله جل شانہ کا مافوق الاسباب غیبی قبضہ ہے اور اسی اعتقاد کے ماتحت الله جل شانہ کو پکارا جائے یا کوئی صفت وثنا بیان کی جائے یا کوئی نذر ونیاز دی جائے، یا کسی اور فعل سے تعظیم کی جائے تو یہ سب الله کی عبادت او رموجب ثواب کہلائے گی۔
او راگر معاذ الله یہ اعتقاد کسی پیر وپیغمبر کے متعلق ہو کہ ہمارے حالات جاننے او ر ان میں متصرف ہونے میں مافوق الاسباب غیبی قبضہ رکھتے ہیں او راسی اعتقاد کے تحت وہاں جاکر دوزانو بیٹھے، اس پر کپڑا ڈالے، وہاں کچھ شیرینی تقسیم کرے اس کی قبر کو بوسہ دے، یا گھر ہی میں بیٹھ کر اس کے نام پر صدقہ وخیرات دے او راسی عقیدہ کے تحت زندہ پیر کے ہاتھوں کو بوسہ دے ، یا اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھے، تو یہ سب افعال اس پیر کی عبادت ہوں گے اور الله کے نزدیک موجب لعنت ہوں گے۔
لفظ رب کا انتخاب
پھر یہاں الله جل شانہ نے یوں نہیں فرمایا کہ میری عبادت کرو، یا الله کی عبادت کرو ، بلکہ یوں فرمایا کہ اپنے رب کی عبادت کر و، یعنی ہر وقت اور ہر حال میں پرورش کرنے والے کی عبادت کرو ۔ اور نکتہ اس اس میں یہ ہے کہ جب بندہ اپنے خالق اور رازق اور آقا ومولا کے انعامات واحسانات او راس کی بخشش وعنایات کو خیال کرے گا تو از خود اپنے خالق ورازق کی اطاعت اوعبادت کو دل چاہے گا، پھر یہاں لفظ”رب“ کا انتخاب کرنے میں حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں دعوی کے ساتھ دلیل بھی آگئی۔
دعوی توحید کو دو قسم کے دلائل سے مزین فرمایا:”ان الله تعالیٰ ذکر ھنا خمسة أنواع من الدلائل، إثنین من الأنفس وثلاثة من الآفاق، فبدأ أولاً، بقولہ:(خلقکم) الخ․“ (التفسیر الکبیر:101/1، مکتب الأعلام الاسلامیة)
ایک انفسی دلائل، یعنی وہ دلائل جوانسان کی ذات سے متعلق ہیں دوسرے آفاقی دلائل یعنی وہ دلائل جو انسان کے گردوپیش کی چیزوں سے متعلق ہیں۔
یہاں تک تو انفسی دلائل کا بیان تھا کہ اے انسان! تم کو پردہٴ عدم سے نکالا اور وجود کی عجیب وغریب خلعت تم کو پہنائی۔
﴿لعلکم﴾
میں لفظ”لعل“ امید کے لیے آتا ہے: ”ولعل للترجی أو الاشفاق، تقول: لعل زیداً یکرمنی، ولعلہ یھیننی“․ (الکشاف:91/1، أدب الحوزہ) ”وذکر بعض المفسرین: أن لعل من الله واجب“․ (معجم مفردات الفاظ القرآن:505، دارالکتب العلمیة)
مگر جب الله کی طرف سے ہو تو یقین کے معنوں میں ہوتا ہے۔ توحید کے نتیجہ میں نجات یقینی ہے ، مگر اس امر یقینی کو اُمید کے عنوان سے ذکر کرنے میں حکمت یہ ہے ، کہ جب تک فضل خدا وندی نہ ہو ، انسان کا کوئی عمل بذات خود ذریعہ نجات نہیں بن سکتا۔
﴿الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الأَرْضَ فِرَاشاً وَالسَّمَاء بِنَاء وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّہِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُون﴾․(البقرة:22)
ترجمہ:”جس نے بنایا واسطے تمہارے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور اُتارا آسمان سے پانی، پھر نکالے اس سے میوے، تمہارے کھانے کے واسطے۔“
ربط آیات
گزشتہ آیت میں انفسی دلائل کا بیان تھا، اب یہاں سے آفاقی دلائل کا بیان ہے۔
تفسیر
گویا کہ سارا عالم بمنزلہ ایک مکان کے ہے ، زمین اس کا فرش اور آسمان اس کی چھت ہے ، چاند وسورج، چمکتے ستارے اس مکان کی روشن شمعیں ہیں، انواع واقسام کے پھل ، میوے اس مکان میں رہنے والوں کے لیے سامان زندگی ہے۔
یہاں دونوں قسم انفسی اور آفاقی دلائل الله تعالیٰ کو معبود ماننے اور اس کی ہی عبادت کرنے کے لیے دیے گئے ، تاکہ ہر انسان غور کرے کہ اس کو عدم سے وجود میں لانے والا او رایک قطرہٴ ناچیز سے حسین وجمیل انسان پیدا کرنے والا اور پھر انسانوں کی تربیت اور پرورش کے سارے سامان مہیا کرنے والا بجز حق تعالیٰ کے کوئی نہیں، تو عبادت وبندگی کا حق دار بھی اس کے سوا کوئی او رنہیں ہو سکتا۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا ضروری ہے۔
فراش
کرہٴ ارض باوجود گول ہونے کے چوں کہ ضخامت کی وجہ سے ہموار نظر آتا ہے ، اس لیے فراش بچھونے سے تعبیر فرمایا:
اور قرآن مجید کا طرز خطاب بھی یہی ہے کہ ہر دیکھنے والا عالم ہو یا جاہل سمجھ سکے۔(الکشاف:94/1 ، أدب الحوزہ)
”سو نہ ٹھہراؤ کسی کو الله کے مقابل او رتم تو جانتے ہو“ دلیل کا نتیجہ ہے، یعنی جب تم جانتے ہو کہ یہ سارے کام کرنے والا الله ہے ، تو پھر کسی کو عبادت میں اس کا شریک نہ بناؤ۔
یہاں نتیجہ اس پر صراحت سے دلالت کر رہا ہے کہ دعوی میں حصر ہے ، تو دعوی کا مقصد یہ نہیں کہ الله کو معبود مانو․ بلکہ مقصد یہ ہے کہ صرف الله ہی کو معبود مانو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ کیوں کہ نزول قرآن سے پہلے مشرکین مکہ اور یہود ونصاری سب خدا کو اپنا معبود مانتے تھے ، لیکن وہ اس کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کرتے تھے ، اس لیے شرک سے منع فرمایا اور صرف الله ہی کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔
الأنداد ندکی جمع ہے ”الأنداد جمع ندّ، وھو المثل المناوی… وقیل: الأنداد: نظراء، وقیل: أضداد، قالہ أبوعبیدة“․ (عمدة الحفاظ، باب النون:155/4 العلمیة) اور ند عربی زبان میں مثل کو بھی کہتے ہیں اور مد مقابل کو بھی ، چناں چہ انداد کے معنی اشباہ اور اضداد دونوں لیے گئے ہیں۔ لفظ کی جامعیت میں حکمت یہ ہے کہ دنیا میں شرک دونوں قسم کا مروج رہا ہے ، بہت سی قوموں نے اپنے دیوتاؤں کو محض الله کے مشابہہ اور مثل تسلیم کیا اور بعضوں نے الله کے مقابل کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
﴿وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاءَ کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْن﴾․ (البقرة:24,23)
ترجمہ:” او راگر تم شک میں ہو اس کلام سے جواتارا ہم نے اپنے بندے پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی او ربلاؤ اس کو جو تمہارا مدد گار ہو، الله کے سوا،ا گر تم سچے ہو۔“
ربط آیات
اسلام کے اجزائے ترکیبی دو ہیں، ایک توحید، دوسری رسالت۔ گذشتہ آیات میں توحید عقلی دلائل سے ثابت کی گئی، اب ان آیات میں دلائل نبوت بیان کرتے ہیں ، نبوت کی واضح دلیل چوں کہ معجزہ ہوتا ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بہت سے معجزات عطا ہوئے ، ان تمام معجزات میں سب سے اعلیٰ اور افضل معجزہ قرآن ہے ، جو آپ کی نبوت کی سب سے بڑی اور روشن دلیل ہے ،اس کے معجزہ ہونے میں مخالفین کو شبہ تھا کہ شاید اس کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم خود گھڑتے رہتے ہیں اور لوگوں کو کلام الہٰی بتا کر سناتے ہیں ، تو اس صورت میں دلیل نبوت مشتبہ ہو تی، اس لیے الله تعالیٰ اس اشتباہ کو اگلی آیت میں رفع فرماتے ہیں، تاکہ اس کا معجزہ ہونا ثابت ہو جائے۔
قرآن کریم کا نزول ایک ساتھ کیوں نہیں ہوا
﴿نزلنا﴾ کی تفسیر میں علامہ زمحشری رحمہ الله تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں(الکشاف:96/1، أدب الحوزہ ایران، کذا فی التفسیر الکبیر:116/1، مکتب الاعلام الاسلامیہ):
اگر کوئی معترض ہو کہ قرآن کریم ایک ساتھ ہی کیوں نازل نہیں ہوا؟ تھوڑا تھوڑا ہو کر کیوں اترا؟ تو ہم اسے جواب میں کہیں گے یہ انسانوں کو چیلنج دینے کے لیے تھوڑا تھوڑا اتارا گیا، کیوں کہ منکرین کہتے تھے کہ جس طرح اور شعراء اور خطباء سوچ سوچ کر اشعار اور خطبات لکھتے ہیں، یہ رسول بھی وقفوں کے ساتھ اسے گھڑتے رہتے ہیں، کلام الہٰی ہوتا تو تورات وانجیل کی طرح یک بارگی کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے :﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ﴾․ (الفرقان:32)
ترجمہ:” او رکہنے لگے وہ لوگ جو منکر ہیں کیوں نہ اترا اس پر قرآن سارا (اکھٹا) ایک جگہ ہو کر ( ایک بار))
چناں ارشاد فرمایا کہ اگر تم اس زعم فاسد اور خیال باطل کی وجہ سے اس کلام کے کلام الہٰی ہونے میں شک اور تردد میں ہو تو تم بھی اسی طرح اس جیسی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بنالاؤ، جو فصاحت وبلاغت او رمعنوی علوم وفنون کے لحاظ سے قرآن کا نمونہ ہو۔
عبدنا میں اضافت کون سی ہے
﴿علی عبدنا﴾
یہاں اضافت تشریف او رتخصیص کے لیے ہے۔ ”الإضافة علی ”عبدنا“ للتشریف والتخصیص، وھذا أشرف وصف لرسول الله صلی الله علیہ وسلم“ ( صفوة التفاسیر:41/1، دارالقرآن)
یعنی اپنے خاص او رمقرب بندے محمد صلی الله علیہ وسلم پر ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا سب سے افضل وصف یہی عبد ہونا ہے، جیسے کسی شاعر نے کہا ہے #
لاتدعنی إلا بیاعبدھا
فانہ أشرف أسمائی
مت پکارو مجھے، مگر ان کا غلام کہہ کر، کہ میرا یہی نام سب ناموں سے افضل ہے #
اگر یک بار گوید بندہ من
از عرش بگذر دخندہٴ من
او را س میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے مطیع وفرماں بردار ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ”وفي ذکرہ صلی الله علیہ وسلم بعنوان العبودیة مع الاضافة إلی ضمیر الجلالة من التشریف والتنویہ والتنبیہ علی اختصاصہ بہ عزوجل وانقیادہ لأوامرہ تعالیٰ مالا یخفی“․ ( تفسیر أبي السعود:87/11، دارالکتب العلمیہ)
(مثل سے کیا مراد ہے ؟ اور سرسید کا موقف)
﴿فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہِ﴾
ترجمہ:” تولے آؤ ایک سورت اس جیسی۔“
تمام مفسرین سلفاً خلفاً اس پر متفق ہیں کہ مثل سے مراد مثل فی البلاغت والفصاحت ہے ، مگر سرسید احمد خاں صاحب کہتے ہیں کہ مثل سے مراد مثل فی الہدایت ہے ، چناں چہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان:37/1، دوست ایسوسی ایٹس):
” مگر میری سمجھ میں ان آیتوں کا یہ مطلب نہیں ہے، اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ قرآن مجید نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ فصاحت وبلاغت پر واقع ہے او رجو کہ وہ ایسی وحی ہے جو پیغمبر کے قلب نبوت پر، نہ بطور معنی ومضمون کے بلکہ بلفظ ڈالی گئی تھی، جس کے سبب سے ہم اس کو وحی متلو یا قرآن یا کلام خدا کہتے او ریقین کرتے ہیں ،اس لیے ضرور تھا کہ وہ ایسے اعلیٰ درجہ فصاحت پر ہو ، جو بے مثل وبے نظیر ہو ، مگر یہ بات کہ اس کی مثال کوئی نہیں کہہ سکا یا کہہ سکتا، اس کے من الله ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی ، کسی کلام کا نظیر نہ ہونا اس بات کی تو بلاشبہ دلیل ہے کہ اس کی مانند کوئی دوسرا کلام موجود نہیں ہے ، مگر اس کی دلیل نہیں ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے ، بہت سے کلام انسانوں کے دنیا میں ایسے موجود ہیں کہ ان کے مثل فصاحت وبلاغت میں آج تک دوسرا کلام نہیں ہوا ، مگر وہ من الله تسلیم نہیں ہوتے ، نہ ان آیتوں میں کوئی ایسا اشارہ ہے، جس سے فصاحت وبلاغت میں معارضہ چاہا گیا ہو ، بلکہ صاف پایا جاتا ہے کہ جو ہدایت قرآن سے ہوتی ہے اس میں معارضہ چاہا گیا ہے ، اگر قرآن کے خدا سے ہونے میں شبہ ہو تو کوئی ایک سورہ یا دس سورتیں یا کوئی کتاب مثل قرآن کے بنالاؤ جو ایسی ہادی ہو ، سورة قصص میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو صاف حکم دیا گیا ہے کہ تو کافروں سے کہہ دے کہ کوئی کتاب جو توریت وقرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو اسے لاؤ۔“
پہلے ہم آیات تحدی (چیلنج )جن میں کفار سے معارضہ چاہا گیا ہے کوئی ایسا قرینہ تلاش کرتے ہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ کس چیز میں معارضہ چاہا گیا ہے ، ہدایت میں یا فصاحت وبلاغت میں۔
وہ تمام آیات جن میں کفار کو چیلنج دیا گیا ہے او ران سے معارضہ چاہا گیا ہے ، ان کو محض عاجز کرنے کے لیے نازل ہوئی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس چیلنج میں ان کے تمام اعوان وانصار کو بھی دعوت دی گئی ہے کہ تم سب مل کر اس جیسی کتاب بنالاؤ۔
او ریہ بات بھی ظاہر ہے کہ مقابلہ میں ایسی باتوں کو پیش کیا جاتا ہے ، جس سے فریق مخالف کو بھی اتفاق ہو۔
اس تمہید کے بعد، اگر مثل سے مراد ہدایت میں مثل ہے اور ہدایت میں کفار سے معارضہ چاہا گیا ہے ، جیسا کہ سر سید صاحب کہتے ہیں، تو کلام بالکل بے معنی اور بے مطلب ہو جائے گا، اس لیے کہ کفار اس بات سے متفق ہی نہیں تھے کہ اس جیسی ہادی انام کتاب بنالیں، بلکہ ان کو تو قرآن کی ہدایت سے سخت نفرت تھی ، بار بار یہی کہتے تھے کہ اس قرآن کو بدل ڈالو، کوئی اورکتاب ہمارے پاس لاؤ، یہ تو ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے ، اس کی تکذیب کی معقول وجہ ان کے نزدیک یہی تھی کہ:﴿أَجَعَلَ الْآلِہَةَ إِلٰہاً وَاحِداً إِنَّ ہَذَا لَشَیْْء ٌ عُجَابٌ﴾․ (ص:5)
ترجمہ:” کیا اس نے کردی اتنوں کی بندگی کے بدلے ایک ہی کی بندگی یہ بھی ہے بڑے تعجب کی بات۔“
پس ایسے لوگوں کے سامنے، جو اس کتاب کی ہدایت سے سخت متنفر ہوں اور یہی وجہ ان کی نفرت کی ہو ، ایسے لوگوں کو یہ کہنا کہ تم سب کے سب مل کر اس جیسی کوئی ہادی انام کتاب بناؤ، بالکل ایسا ہے جیسے کوئی ہندوبت پرست یا عیسائی تثلیث پرست کسی مسلمان کو یہ کہے کہ تو ہماری کتاب جس میں بت پرستی یا تثلیث پرستی کی دعوت دی ہے ، نہیں مانتاتو اس جیسی کتاب بنالاؤ، ظاہر ہے یہ بالکل بے معنی چیلنج ہے ، کیوں کہ جو وجہ مسلمانوں کو اس کتاب کی تسلیم سے مانع ہے ، اسی قسم کی کتاب کا اس سے مطالبہ کرنا گویا ایک تکلیف بالمحال ہے ، اسی قاعدہ پر کفار کا جواب پر آمادہ ہونا اور﴿وَإِذَا تُتْلَی عَلَیْْہِمْ آیَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہَذَا إِنْ ہَذَا إِلاَّ أَسَاطِیْرُ الأوَّلِیْن﴾․( الأنفال:31)
ترجمہ: ”او رجب کوئی پڑھے ان پر ہماری آیتیں تو کہیں ہم سن چکے اگر ہم چاہیں تو ہم بھی کہہ لیں ایسا یہ تو کچھ بھی نہیں مگر احوال ہیں اگلوں کے۔“
کہنا صاف بتلاتا ہے کہ وہ اس کے طرز بیان کی نسبت معارضہ سمجھتے تھے ، ورنہ یہ نہ کہتے اور ساتھ اس کے اس آمادگی کی وجہ بھی بتلانا کہ :﴿إِنْ ہَذَا إِلاَّ أَسَاطِیْرُ الأوَّلِیْن﴾ بالکل واضح کر رہا ہے کہ مثل سے مراد مثل فی الہدایت نہیں، ورنہ ایسی مستعدی نہ جتلاتے ، بلکہ بجائے اس کے یہ کہتے کہ ہم تو اس قرآن کو اور اس کے مثل ہادی بنانے کو ہی برا سمجھتے ہیں۔
نیز کفار کا یہ کہنا کہ قرآن بنانا کیا مشکل ہے ، یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں، قابل غور ہے ، اس لیے کہ ہدایت کی وجہ سے تو اس کو بالکل نیا سمجھتے تھے﴿مَا سَمِعْنَا بِہَذَا فِیْ الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ ہَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ ﴾․( ص:7)
صاف ظاہر ہے کہ قرآن باعتبار ہادی ہونے کے ایک نئی چیز جانتے تھے بلکہ باعتبار ہادی ہونے کے موجب نفرت کہتے تھے۔
پس ان دونوں آیتوں کے ملانے سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ کفار خود اس معارضہ کو باعتبار ہدایت نہیں بلکہ با عتبار طرز بیان سمجھتے تھے۔
سر سید کی دلیل اور اس کا جواب
سرسید صاحب نے اپنے مدعا پر سورہ قصص کی اس آیت کوپیش کیا ہے ﴿قُلْ فَأْتُوا بِکِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللَّہِ ہُوَ أَہْدَی مِنْہُمَا أَتَّبِعْہُ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ﴾․ (قصص:49)
ترجمہ:”توکہہ اب تم لاؤ کوئی کتاب الله کے پاس کی جوان دونوں سے بہتر ہو کہ میں اس پر چلوں اگر تم سچے ہو۔“
یعنی آپ فرما دیجیے کہ تم الله کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ، جو ان دونوں کتابوں یعنی قرآن اور تورات سے بڑھ کر ہدایت دینے والی ہو ، میں اس کا اتباع کر لوں گا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو۔
دیکھو اس آیت میں واضح طور پر ہدایت میں معارضہ چاہا گیاہے، لہٰذا یہ آیت ان تمام آیات تحدی کی تفسیر ہو گی ۔
لیکن اس آیت کو ان آیات کی تفسیر بنانا بوجوہ صحیح نہیں ہے :
آیات تحدی میں دعوی مثلیت کا ہے ، جب کہ اس آیت میں مثلیت کا نہیں، بلکہ اھدی کتاب یعنی قرآن سے بڑھ کر ہدایت والی کتاب لانے کا مطالبہ ہے ، لہٰذا دعوی اور دلیل میں مطابقت باقی نہیں رہی، حالاں کہ دعوی اور دلیل میں مطابقت ضروری ہے۔
یہ آیت ان آیات کی تفسیر ہوتی تو اس میں من عندا لله یعنی الله کے پاس سے لانے کا مطالبہ کیوں ہوتا؟ حالاں کہ ان آیات میں کفار کی بنائی ہوئی کتاب کا مطالبہ ہے۔
آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تم نہ تورات کو مانتے ہو ، نہ قرآن کو مانتے ہو ، چلو تم او رکتاب لے آؤ، جو الله کی طرف سے ہو ، اگر تم بالفرض اسے الله کی کتاب ثابت کر دو تو میں اس کی پیروی کر لوں گا، اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو میری لائی ہوئی کتاب کو مانو، میں نے اس کا حق ہونا ثابت کر دیا ہے ۔
اس مضمون کا آیات تحدی سے کوئی تعلق نہیں، اس میں کفار کو صرف اس بات پر الزام دیا گیا ہے کہ باوجود کہ تمہارے پاس کوئی سماوی کتاب بھی نہیں، پھر بھی اتنی سخت مخالفت کر رہے ہو۔
سرسید صاحب کا نظریہ
سرسید صاحب کا یہ کہنا ” بہت سے کلام انسانوں کے دنیا میں ایسے موجود ہیں کہ ان کے مثل فصاحت وبلاغت میں آج تک دوسرا کلام نہیں ہوا، مگر وہ من الله تسلیم نہیں ہوتے۔“ محض دعوی بلا دلیل ہے ورنہ کوئی کلام یا متکلم ایسا بتلا دیں جس نے اہل زبان کے سامنے دعوی کیا ہو، نہ صرف دعوی بلکہ ”ولن تفعلوا“ کے اعلان سے تمام منکروں کو ہمیشہ کے لیے عاجزودرماندہ کر دیا ہو ، سوائے الله جل شانہ کے۔ پس ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید بے مثل بلیغ کلام ہے ، اس جیسا کلام نہ کسی نے بنایا ہے او رنہ ہی قیامت تک بنا سکے گا اور یہی اس کی من الله ہونے کی دلیل ہے #
نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں غور کر دیکھا
بھلا کیوں کر نہ ہو! یکتا کلام پاک رحماں ہے
ربطِ آیات
گزشتہ آیات میں مؤمنین ، کافرین اور منافقین کے اوصاف اور ان کی جزا وسزا علیحدہ علیحدہ بیان کرنے کے بعد یہاں سے تمام بنی نوع انسان کو مجموعی طور پر مخاطب کرکے ان کے سامنے دعوت توحید بیان کی ہے ۔
اسلام کے اجزائے ترکیبی دو ہیں ایک توحید، دوسری رسالت، پہلے توحید اور عبادت کو بیان کیا ہے ، جو تقوی اور پرہیز گاری کی جڑ ہے ، توحید کی دعوت ایسے انداز سے دی گئی ہے کہ اس میں دعوی کے ساتھ ساتھ اس کے واضح دلائل بھی آگئے ہیں۔
اے لوگو! بندگی کرو اپنے رب کی ، جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
لفظ عبادت کی تشریح
مفسرین نے عبادت کی تشریح انتہائی درجے کی تواضع اور بعض نے انتہائی درجے کی تعظیم سے کی ہے۔ ( روح المعانی:86/1، امدادیہ ملتان، تفسیر ابن کثیر:26/1، دار الفکر، الکشاف:12/1، ادب الحوذة)
اگرچہ یہ معنی صحیح ہیں ، مگر تشریح کے محتاج ہیں ، کیوں کہ والدین اور اساتذہ کی تعظیم او ران کے لیے تواضع عبادت نہیں کہلاتی۔
شیخ الہند رحمة الله علیہ نے ترجمہ میں عبادت کا معنی بندگی سے کیا ہے، یعنی بندہ ہونا۔ یہ اسی ذات کے لیے ہو سکتا ہے جس کی طرف بندہ ہر وقت ہر چیز میں محتاج ہو۔
عبادت کی بہترین تشریح علامہ ابن قیم رحمة الله علیہ نے مدارج السالکین40/1 میں فرمائی ہے:”عبادت، معبود کے لیے اسباب سے ماورا غیبی قوت ( علم اور تصرف) تسلیم کرنے کا نام ہے، جس قوت کے ذریعے وہ نفع اور نقصان پہنچانے پر قادر ہو۔ لہٰذا ہر وہ دعا، پکار، تعریف وتعظیم جو اس اعتقاد کی بناپر پیدا ہو عبادت ہے۔“
اگر یہ اعتقاد خدا تعالیٰ کے حق میں ہو کہ ہمارے حالات جاننے اور ان میں متصرف ہونے میں الله جل شانہ کا مافوق الاسباب غیبی قبضہ ہے اور اسی اعتقاد کے ماتحت الله جل شانہ کو پکارا جائے یا کوئی صفت وثنا بیان کی جائے یا کوئی نذر ونیاز دی جائے، یا کسی اور فعل سے تعظیم کی جائے تو یہ سب الله کی عبادت او رموجب ثواب کہلائے گی۔
او راگر معاذ الله یہ اعتقاد کسی پیر وپیغمبر کے متعلق ہو کہ ہمارے حالات جاننے او ر ان میں متصرف ہونے میں مافوق الاسباب غیبی قبضہ رکھتے ہیں او راسی اعتقاد کے تحت وہاں جاکر دوزانو بیٹھے، اس پر کپڑا ڈالے، وہاں کچھ شیرینی تقسیم کرے اس کی قبر کو بوسہ دے، یا گھر ہی میں بیٹھ کر اس کے نام پر صدقہ وخیرات دے او راسی عقیدہ کے تحت زندہ پیر کے ہاتھوں کو بوسہ دے ، یا اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھے، تو یہ سب افعال اس پیر کی عبادت ہوں گے اور الله کے نزدیک موجب لعنت ہوں گے۔
لفظ رب کا انتخاب
پھر یہاں الله جل شانہ نے یوں نہیں فرمایا کہ میری عبادت کرو، یا الله کی عبادت کرو ، بلکہ یوں فرمایا کہ اپنے رب کی عبادت کر و، یعنی ہر وقت اور ہر حال میں پرورش کرنے والے کی عبادت کرو ۔ اور نکتہ اس اس میں یہ ہے کہ جب بندہ اپنے خالق اور رازق اور آقا ومولا کے انعامات واحسانات او راس کی بخشش وعنایات کو خیال کرے گا تو از خود اپنے خالق ورازق کی اطاعت اوعبادت کو دل چاہے گا، پھر یہاں لفظ”رب“ کا انتخاب کرنے میں حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں دعوی کے ساتھ دلیل بھی آگئی۔
دعوی توحید کو دو قسم کے دلائل سے مزین فرمایا:”ان الله تعالیٰ ذکر ھنا خمسة أنواع من الدلائل، إثنین من الأنفس وثلاثة من الآفاق، فبدأ أولاً، بقولہ:(خلقکم) الخ․“ (التفسیر الکبیر:101/1، مکتب الأعلام الاسلامیة)
ایک انفسی دلائل، یعنی وہ دلائل جوانسان کی ذات سے متعلق ہیں دوسرے آفاقی دلائل یعنی وہ دلائل جو انسان کے گردوپیش کی چیزوں سے متعلق ہیں۔
یہاں تک تو انفسی دلائل کا بیان تھا کہ اے انسان! تم کو پردہٴ عدم سے نکالا اور وجود کی عجیب وغریب خلعت تم کو پہنائی۔
﴿لعلکم﴾
میں لفظ”لعل“ امید کے لیے آتا ہے: ”ولعل للترجی أو الاشفاق، تقول: لعل زیداً یکرمنی، ولعلہ یھیننی“․ (الکشاف:91/1، أدب الحوزہ) ”وذکر بعض المفسرین: أن لعل من الله واجب“․ (معجم مفردات الفاظ القرآن:505، دارالکتب العلمیة)
مگر جب الله کی طرف سے ہو تو یقین کے معنوں میں ہوتا ہے۔ توحید کے نتیجہ میں نجات یقینی ہے ، مگر اس امر یقینی کو اُمید کے عنوان سے ذکر کرنے میں حکمت یہ ہے ، کہ جب تک فضل خدا وندی نہ ہو ، انسان کا کوئی عمل بذات خود ذریعہ نجات نہیں بن سکتا۔
﴿الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الأَرْضَ فِرَاشاً وَالسَّمَاء بِنَاء وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّہِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُون﴾․(البقرة:22)
ترجمہ:”جس نے بنایا واسطے تمہارے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور اُتارا آسمان سے پانی، پھر نکالے اس سے میوے، تمہارے کھانے کے واسطے۔“
ربط آیات
گزشتہ آیت میں انفسی دلائل کا بیان تھا، اب یہاں سے آفاقی دلائل کا بیان ہے۔
تفسیر
گویا کہ سارا عالم بمنزلہ ایک مکان کے ہے ، زمین اس کا فرش اور آسمان اس کی چھت ہے ، چاند وسورج، چمکتے ستارے اس مکان کی روشن شمعیں ہیں، انواع واقسام کے پھل ، میوے اس مکان میں رہنے والوں کے لیے سامان زندگی ہے۔
یہاں دونوں قسم انفسی اور آفاقی دلائل الله تعالیٰ کو معبود ماننے اور اس کی ہی عبادت کرنے کے لیے دیے گئے ، تاکہ ہر انسان غور کرے کہ اس کو عدم سے وجود میں لانے والا او رایک قطرہٴ ناچیز سے حسین وجمیل انسان پیدا کرنے والا اور پھر انسانوں کی تربیت اور پرورش کے سارے سامان مہیا کرنے والا بجز حق تعالیٰ کے کوئی نہیں، تو عبادت وبندگی کا حق دار بھی اس کے سوا کوئی او رنہیں ہو سکتا۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا ضروری ہے۔
فراش
کرہٴ ارض باوجود گول ہونے کے چوں کہ ضخامت کی وجہ سے ہموار نظر آتا ہے ، اس لیے فراش بچھونے سے تعبیر فرمایا:
اور قرآن مجید کا طرز خطاب بھی یہی ہے کہ ہر دیکھنے والا عالم ہو یا جاہل سمجھ سکے۔(الکشاف:94/1 ، أدب الحوزہ)
”سو نہ ٹھہراؤ کسی کو الله کے مقابل او رتم تو جانتے ہو“ دلیل کا نتیجہ ہے، یعنی جب تم جانتے ہو کہ یہ سارے کام کرنے والا الله ہے ، تو پھر کسی کو عبادت میں اس کا شریک نہ بناؤ۔
یہاں نتیجہ اس پر صراحت سے دلالت کر رہا ہے کہ دعوی میں حصر ہے ، تو دعوی کا مقصد یہ نہیں کہ الله کو معبود مانو․ بلکہ مقصد یہ ہے کہ صرف الله ہی کو معبود مانو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ کیوں کہ نزول قرآن سے پہلے مشرکین مکہ اور یہود ونصاری سب خدا کو اپنا معبود مانتے تھے ، لیکن وہ اس کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کرتے تھے ، اس لیے شرک سے منع فرمایا اور صرف الله ہی کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔
الأنداد ندکی جمع ہے ”الأنداد جمع ندّ، وھو المثل المناوی… وقیل: الأنداد: نظراء، وقیل: أضداد، قالہ أبوعبیدة“․ (عمدة الحفاظ، باب النون:155/4 العلمیة) اور ند عربی زبان میں مثل کو بھی کہتے ہیں اور مد مقابل کو بھی ، چناں چہ انداد کے معنی اشباہ اور اضداد دونوں لیے گئے ہیں۔ لفظ کی جامعیت میں حکمت یہ ہے کہ دنیا میں شرک دونوں قسم کا مروج رہا ہے ، بہت سی قوموں نے اپنے دیوتاؤں کو محض الله کے مشابہہ اور مثل تسلیم کیا اور بعضوں نے الله کے مقابل کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
﴿وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاءَ کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْن﴾․ (البقرة:24,23)
ترجمہ:” او راگر تم شک میں ہو اس کلام سے جواتارا ہم نے اپنے بندے پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی او ربلاؤ اس کو جو تمہارا مدد گار ہو، الله کے سوا،ا گر تم سچے ہو۔“
ربط آیات
اسلام کے اجزائے ترکیبی دو ہیں، ایک توحید، دوسری رسالت۔ گذشتہ آیات میں توحید عقلی دلائل سے ثابت کی گئی، اب ان آیات میں دلائل نبوت بیان کرتے ہیں ، نبوت کی واضح دلیل چوں کہ معجزہ ہوتا ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بہت سے معجزات عطا ہوئے ، ان تمام معجزات میں سب سے اعلیٰ اور افضل معجزہ قرآن ہے ، جو آپ کی نبوت کی سب سے بڑی اور روشن دلیل ہے ،اس کے معجزہ ہونے میں مخالفین کو شبہ تھا کہ شاید اس کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم خود گھڑتے رہتے ہیں اور لوگوں کو کلام الہٰی بتا کر سناتے ہیں ، تو اس صورت میں دلیل نبوت مشتبہ ہو تی، اس لیے الله تعالیٰ اس اشتباہ کو اگلی آیت میں رفع فرماتے ہیں، تاکہ اس کا معجزہ ہونا ثابت ہو جائے۔
قرآن کریم کا نزول ایک ساتھ کیوں نہیں ہوا
﴿نزلنا﴾ کی تفسیر میں علامہ زمحشری رحمہ الله تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں(الکشاف:96/1، أدب الحوزہ ایران، کذا فی التفسیر الکبیر:116/1، مکتب الاعلام الاسلامیہ):
اگر کوئی معترض ہو کہ قرآن کریم ایک ساتھ ہی کیوں نازل نہیں ہوا؟ تھوڑا تھوڑا ہو کر کیوں اترا؟ تو ہم اسے جواب میں کہیں گے یہ انسانوں کو چیلنج دینے کے لیے تھوڑا تھوڑا اتارا گیا، کیوں کہ منکرین کہتے تھے کہ جس طرح اور شعراء اور خطباء سوچ سوچ کر اشعار اور خطبات لکھتے ہیں، یہ رسول بھی وقفوں کے ساتھ اسے گھڑتے رہتے ہیں، کلام الہٰی ہوتا تو تورات وانجیل کی طرح یک بارگی کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے :﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ﴾․ (الفرقان:32)
ترجمہ:” او رکہنے لگے وہ لوگ جو منکر ہیں کیوں نہ اترا اس پر قرآن سارا (اکھٹا) ایک جگہ ہو کر ( ایک بار))
چناں ارشاد فرمایا کہ اگر تم اس زعم فاسد اور خیال باطل کی وجہ سے اس کلام کے کلام الہٰی ہونے میں شک اور تردد میں ہو تو تم بھی اسی طرح اس جیسی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بنالاؤ، جو فصاحت وبلاغت او رمعنوی علوم وفنون کے لحاظ سے قرآن کا نمونہ ہو۔
عبدنا میں اضافت کون سی ہے
﴿علی عبدنا﴾
یہاں اضافت تشریف او رتخصیص کے لیے ہے۔ ”الإضافة علی ”عبدنا“ للتشریف والتخصیص، وھذا أشرف وصف لرسول الله صلی الله علیہ وسلم“ ( صفوة التفاسیر:41/1، دارالقرآن)
یعنی اپنے خاص او رمقرب بندے محمد صلی الله علیہ وسلم پر ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا سب سے افضل وصف یہی عبد ہونا ہے، جیسے کسی شاعر نے کہا ہے #
لاتدعنی إلا بیاعبدھا
فانہ أشرف أسمائی
مت پکارو مجھے، مگر ان کا غلام کہہ کر، کہ میرا یہی نام سب ناموں سے افضل ہے #
اگر یک بار گوید بندہ من
از عرش بگذر دخندہٴ من
او را س میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے مطیع وفرماں بردار ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ”وفي ذکرہ صلی الله علیہ وسلم بعنوان العبودیة مع الاضافة إلی ضمیر الجلالة من التشریف والتنویہ والتنبیہ علی اختصاصہ بہ عزوجل وانقیادہ لأوامرہ تعالیٰ مالا یخفی“․ ( تفسیر أبي السعود:87/11، دارالکتب العلمیہ)
(مثل سے کیا مراد ہے ؟ اور سرسید کا موقف)
﴿فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہِ﴾
ترجمہ:” تولے آؤ ایک سورت اس جیسی۔“
تمام مفسرین سلفاً خلفاً اس پر متفق ہیں کہ مثل سے مراد مثل فی البلاغت والفصاحت ہے ، مگر سرسید احمد خاں صاحب کہتے ہیں کہ مثل سے مراد مثل فی الہدایت ہے ، چناں چہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان:37/1، دوست ایسوسی ایٹس):
” مگر میری سمجھ میں ان آیتوں کا یہ مطلب نہیں ہے، اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ قرآن مجید نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ فصاحت وبلاغت پر واقع ہے او رجو کہ وہ ایسی وحی ہے جو پیغمبر کے قلب نبوت پر، نہ بطور معنی ومضمون کے بلکہ بلفظ ڈالی گئی تھی، جس کے سبب سے ہم اس کو وحی متلو یا قرآن یا کلام خدا کہتے او ریقین کرتے ہیں ،اس لیے ضرور تھا کہ وہ ایسے اعلیٰ درجہ فصاحت پر ہو ، جو بے مثل وبے نظیر ہو ، مگر یہ بات کہ اس کی مثال کوئی نہیں کہہ سکا یا کہہ سکتا، اس کے من الله ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی ، کسی کلام کا نظیر نہ ہونا اس بات کی تو بلاشبہ دلیل ہے کہ اس کی مانند کوئی دوسرا کلام موجود نہیں ہے ، مگر اس کی دلیل نہیں ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے ، بہت سے کلام انسانوں کے دنیا میں ایسے موجود ہیں کہ ان کے مثل فصاحت وبلاغت میں آج تک دوسرا کلام نہیں ہوا ، مگر وہ من الله تسلیم نہیں ہوتے ، نہ ان آیتوں میں کوئی ایسا اشارہ ہے، جس سے فصاحت وبلاغت میں معارضہ چاہا گیا ہو ، بلکہ صاف پایا جاتا ہے کہ جو ہدایت قرآن سے ہوتی ہے اس میں معارضہ چاہا گیا ہے ، اگر قرآن کے خدا سے ہونے میں شبہ ہو تو کوئی ایک سورہ یا دس سورتیں یا کوئی کتاب مثل قرآن کے بنالاؤ جو ایسی ہادی ہو ، سورة قصص میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو صاف حکم دیا گیا ہے کہ تو کافروں سے کہہ دے کہ کوئی کتاب جو توریت وقرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو اسے لاؤ۔“
پہلے ہم آیات تحدی (چیلنج )جن میں کفار سے معارضہ چاہا گیا ہے کوئی ایسا قرینہ تلاش کرتے ہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ کس چیز میں معارضہ چاہا گیا ہے ، ہدایت میں یا فصاحت وبلاغت میں۔
وہ تمام آیات جن میں کفار کو چیلنج دیا گیا ہے او ران سے معارضہ چاہا گیا ہے ، ان کو محض عاجز کرنے کے لیے نازل ہوئی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس چیلنج میں ان کے تمام اعوان وانصار کو بھی دعوت دی گئی ہے کہ تم سب مل کر اس جیسی کتاب بنالاؤ۔
او ریہ بات بھی ظاہر ہے کہ مقابلہ میں ایسی باتوں کو پیش کیا جاتا ہے ، جس سے فریق مخالف کو بھی اتفاق ہو۔
اس تمہید کے بعد، اگر مثل سے مراد ہدایت میں مثل ہے اور ہدایت میں کفار سے معارضہ چاہا گیا ہے ، جیسا کہ سر سید صاحب کہتے ہیں، تو کلام بالکل بے معنی اور بے مطلب ہو جائے گا، اس لیے کہ کفار اس بات سے متفق ہی نہیں تھے کہ اس جیسی ہادی انام کتاب بنالیں، بلکہ ان کو تو قرآن کی ہدایت سے سخت نفرت تھی ، بار بار یہی کہتے تھے کہ اس قرآن کو بدل ڈالو، کوئی اورکتاب ہمارے پاس لاؤ، یہ تو ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے ، اس کی تکذیب کی معقول وجہ ان کے نزدیک یہی تھی کہ:﴿أَجَعَلَ الْآلِہَةَ إِلٰہاً وَاحِداً إِنَّ ہَذَا لَشَیْْء ٌ عُجَابٌ﴾․ (ص:5)
ترجمہ:” کیا اس نے کردی اتنوں کی بندگی کے بدلے ایک ہی کی بندگی یہ بھی ہے بڑے تعجب کی بات۔“
پس ایسے لوگوں کے سامنے، جو اس کتاب کی ہدایت سے سخت متنفر ہوں اور یہی وجہ ان کی نفرت کی ہو ، ایسے لوگوں کو یہ کہنا کہ تم سب کے سب مل کر اس جیسی کوئی ہادی انام کتاب بناؤ، بالکل ایسا ہے جیسے کوئی ہندوبت پرست یا عیسائی تثلیث پرست کسی مسلمان کو یہ کہے کہ تو ہماری کتاب جس میں بت پرستی یا تثلیث پرستی کی دعوت دی ہے ، نہیں مانتاتو اس جیسی کتاب بنالاؤ، ظاہر ہے یہ بالکل بے معنی چیلنج ہے ، کیوں کہ جو وجہ مسلمانوں کو اس کتاب کی تسلیم سے مانع ہے ، اسی قسم کی کتاب کا اس سے مطالبہ کرنا گویا ایک تکلیف بالمحال ہے ، اسی قاعدہ پر کفار کا جواب پر آمادہ ہونا اور﴿وَإِذَا تُتْلَی عَلَیْْہِمْ آیَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہَذَا إِنْ ہَذَا إِلاَّ أَسَاطِیْرُ الأوَّلِیْن﴾․( الأنفال:31)
ترجمہ: ”او رجب کوئی پڑھے ان پر ہماری آیتیں تو کہیں ہم سن چکے اگر ہم چاہیں تو ہم بھی کہہ لیں ایسا یہ تو کچھ بھی نہیں مگر احوال ہیں اگلوں کے۔“
کہنا صاف بتلاتا ہے کہ وہ اس کے طرز بیان کی نسبت معارضہ سمجھتے تھے ، ورنہ یہ نہ کہتے اور ساتھ اس کے اس آمادگی کی وجہ بھی بتلانا کہ :﴿إِنْ ہَذَا إِلاَّ أَسَاطِیْرُ الأوَّلِیْن﴾ بالکل واضح کر رہا ہے کہ مثل سے مراد مثل فی الہدایت نہیں، ورنہ ایسی مستعدی نہ جتلاتے ، بلکہ بجائے اس کے یہ کہتے کہ ہم تو اس قرآن کو اور اس کے مثل ہادی بنانے کو ہی برا سمجھتے ہیں۔
نیز کفار کا یہ کہنا کہ قرآن بنانا کیا مشکل ہے ، یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں، قابل غور ہے ، اس لیے کہ ہدایت کی وجہ سے تو اس کو بالکل نیا سمجھتے تھے﴿مَا سَمِعْنَا بِہَذَا فِیْ الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ ہَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ ﴾․( ص:7)
صاف ظاہر ہے کہ قرآن باعتبار ہادی ہونے کے ایک نئی چیز جانتے تھے بلکہ باعتبار ہادی ہونے کے موجب نفرت کہتے تھے۔
پس ان دونوں آیتوں کے ملانے سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ کفار خود اس معارضہ کو باعتبار ہدایت نہیں بلکہ با عتبار طرز بیان سمجھتے تھے۔
سر سید کی دلیل اور اس کا جواب
سرسید صاحب نے اپنے مدعا پر سورہ قصص کی اس آیت کوپیش کیا ہے ﴿قُلْ فَأْتُوا بِکِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللَّہِ ہُوَ أَہْدَی مِنْہُمَا أَتَّبِعْہُ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ﴾․ (قصص:49)
ترجمہ:”توکہہ اب تم لاؤ کوئی کتاب الله کے پاس کی جوان دونوں سے بہتر ہو کہ میں اس پر چلوں اگر تم سچے ہو۔“
یعنی آپ فرما دیجیے کہ تم الله کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ، جو ان دونوں کتابوں یعنی قرآن اور تورات سے بڑھ کر ہدایت دینے والی ہو ، میں اس کا اتباع کر لوں گا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو۔
دیکھو اس آیت میں واضح طور پر ہدایت میں معارضہ چاہا گیاہے، لہٰذا یہ آیت ان تمام آیات تحدی کی تفسیر ہو گی ۔
لیکن اس آیت کو ان آیات کی تفسیر بنانا بوجوہ صحیح نہیں ہے :
آیات تحدی میں دعوی مثلیت کا ہے ، جب کہ اس آیت میں مثلیت کا نہیں، بلکہ اھدی کتاب یعنی قرآن سے بڑھ کر ہدایت والی کتاب لانے کا مطالبہ ہے ، لہٰذا دعوی اور دلیل میں مطابقت باقی نہیں رہی، حالاں کہ دعوی اور دلیل میں مطابقت ضروری ہے۔
یہ آیت ان آیات کی تفسیر ہوتی تو اس میں من عندا لله یعنی الله کے پاس سے لانے کا مطالبہ کیوں ہوتا؟ حالاں کہ ان آیات میں کفار کی بنائی ہوئی کتاب کا مطالبہ ہے۔
آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تم نہ تورات کو مانتے ہو ، نہ قرآن کو مانتے ہو ، چلو تم او رکتاب لے آؤ، جو الله کی طرف سے ہو ، اگر تم بالفرض اسے الله کی کتاب ثابت کر دو تو میں اس کی پیروی کر لوں گا، اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو میری لائی ہوئی کتاب کو مانو، میں نے اس کا حق ہونا ثابت کر دیا ہے ۔
اس مضمون کا آیات تحدی سے کوئی تعلق نہیں، اس میں کفار کو صرف اس بات پر الزام دیا گیا ہے کہ باوجود کہ تمہارے پاس کوئی سماوی کتاب بھی نہیں، پھر بھی اتنی سخت مخالفت کر رہے ہو۔
سرسید صاحب کا نظریہ
سرسید صاحب کا یہ کہنا ” بہت سے کلام انسانوں کے دنیا میں ایسے موجود ہیں کہ ان کے مثل فصاحت وبلاغت میں آج تک دوسرا کلام نہیں ہوا، مگر وہ من الله تسلیم نہیں ہوتے۔“ محض دعوی بلا دلیل ہے ورنہ کوئی کلام یا متکلم ایسا بتلا دیں جس نے اہل زبان کے سامنے دعوی کیا ہو، نہ صرف دعوی بلکہ ”ولن تفعلوا“ کے اعلان سے تمام منکروں کو ہمیشہ کے لیے عاجزودرماندہ کر دیا ہو ، سوائے الله جل شانہ کے۔ پس ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید بے مثل بلیغ کلام ہے ، اس جیسا کلام نہ کسی نے بنایا ہے او رنہ ہی قیامت تک بنا سکے گا اور یہی اس کی من الله ہونے کی دلیل ہے #
نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں غور کر دیکھا
بھلا کیوں کر نہ ہو! یکتا کلام پاک رحماں ہے
ایمان او راعمال صالحہ
﴿وَبَشِّرِ الَّذِیْن آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ کُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْہَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ ہَذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِہِ مُتَشَابِہاً وَلَہُمْ فِیْہَا أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَةٌ وَہُمْ فِیْہَا خَالِدُون﴾․ (البقرة:25)
ترجمہ: اور خوش خبری دے ان لوگوں کو، جو ایمان لائے او راچھے کام کیے کہ ان کے واسطے باغ ہیں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، جب ملے گا ان کو وہاں کا کوئی پھل کھانے کو تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جوملا تھا ہم کو اس سے پہلے اور دیے جائیں گے ان کو پھل ایک صورت کے اور ان کے لیے وہاں عورتیں ہوں گی پاگیزہ اور وہ وہیں ہمیشہ رہیں گے۔
ربطِ آیات
قرآن مجید میں جہاں جہاں کفار اور ان کی سزا کا ذکر آتا ہے ، مؤمنوں او ران کی جزا کا ذکر بھی ضرور آتا ہے ، تاکہ آخرت کی راحت اورتکلیف کا حال ساتھ ساتھ معلوم ہوتا رہے ، اسی طرز بیان کے مطابق پہلی آیت میں کافروں کے انجام کا ذکر فرما کر ، ان آیتوں میں مؤمنوں اور ان کی جزا کا ذکر فرمایا ہے۔
تفسیر
یہاں مؤمنین کو جنت کی خوش خبری دو چیزوں کی بنا پر دی گئی ہے، ایک ایمان، دوسرے عمل صالح اور بھی متعدد جگہ قرآن پاک نے اخروی انعامات واحسانات کے حصول کی ایمان او راعمال صالحہ کے ساتھ شرط لگائی ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایمان بغیر عمل صالح کے انسان کو اس بشارت کا مستحق نہیں بناتا اور عمل صالح بغیر ایمان کے تو کوئی أخروی اجر نہیں رکھتا، اگرچہ نفس ایمان جہنم میں ہمیشہ رہنے سے بچانے کا سبب ہے ، لیکن عذابِ جہنم سے بالکل دوری اعمال صالحہ ہی سے ممکن ہے، یہی اہل السنة والجماعت کا عقیدہ ہے۔
ایمان کی حقیقت
ایمان کی حقیقت کے بارے میں مختلف فرقوں کے مختلف نظریات پر اہل علم نے لمبی اور تفصیلی بحثیں فرمائی ہیں، اب چوں کہ اس قسم کے فرقے ناپید ہو چکے ہیں ، اس لیے بہت زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت بھی نہیں، تعارف کے طور پر خلاصہ جان لینا کافی ہے۔
جہمیہ کا عقیدہ
یہ جہم بن صفوان کے متبعین ہیں، انہی کی تردید میں امام بخاری نے مستقل کتاب قائم کی ہے ”کتاب الرد علی الجھمیہ“․
ان کے عجیب وغریب عقائد تھے، ان کا کہنا تھا ہے کہ ایمان الله کی معرفت کا نام ہے، مثلاً: ایک آدمی نے دل میں سوچنا شروع کیا او راس کو خود بخود دل میں معرفت حاصل ہو گئی کہ الله ایک ہے ، کہتے ہیں یہ کافی ہے ، بس آدمی مومن ہو گیا، چاہے دل سے تصدیق کرے یا نہ کرے ، زبان سے اقرار کرے یا نہ کرے، اسی طرح عمل کرے یا نہ کرے ، محض معرفت ایمان کے لیے کافی ہے ۔ ( امداد الباری،263/4، مکتبہ حرم)
معرفت اور تصدیق میں فرق
دونوں میں فرق یہ ہے کہ معرفت غیر اختیاری چیز ہے، کسیچیز کا علم حاصل ہو جانا غیر اختیاری چیز ہے اور” تصدیق“ میں اپنے اختیار سے کسی بات کی تصدیق کی جاتی ہے۔
ان کا یہ مذہب بداھةً باطل ہے ،کیوں کہ یہ معرفت تو یہودیوں کو بھی حاصل تھی ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ﴾۔(البقرة، آیت:146)
یعنی یہ یہود حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود مؤمن نہیں ہیں ، حتی کہ یہ معرفت فرعون کو بھی حاصل تھی، مگر اس کے باوجود فرعون بالاجماع کافر ہے۔
کرامیہ کا عقیدہ
یہ محمد بن کرّام کی طرف منسوب ہیں، مشہور یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایمان صرف زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے، یعنی جس نے زبان سے کلمہ پڑھا بس وہ مؤمن ہے، چاہے دل میں تصدیق ہو یا نہ ہو ۔ (امداد الباری:263/4، مکتبہ حرم)
چناں چہ حافظ ابن حجر رحمة الله علیہ نے بھی یہی نقل فرمایا ہے ۔ (فتح الباری، کتاب الایمان، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم! بنی الاسلام علی خمس:64/2، العلمیة)
”الکرامیة قالوا: ھو نطق فقط“
یعنی کرامیہ کے نزدیک ایمان صرف اقرار کا نام ہے۔
لیکن بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ ن کا صحیح مذہب یہ ہے کہ زبان سے اقرار دنیاوی احکام کے اجرا کے لیے ہے، البتہ آخرت میں نجات کے لیے ان کے نزدیک بھی دل میں تصدیق ضروری ہے۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کی بھی یہی تحقیق ہے ۔ ( فضل الباری:245/1، ادارہ علوم شرعیہ کراچی)
اس صورت میں اہل السنہ والجماعہ اور کرامیہ کے درمیان کوئی زیادہ اختلاف باقی نہیں رہتا۔
مرحبہٴ کا عقیدہ
مرحبہٴ کے نزدیک ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے ، عمل کی کوئی حاجت نہیں ، چناں چہ وہ کہتے ہیں:”لا تضرمع الایمان معصیة کما لا تنفع مع الکفر طاعة“․ (امداد الباری:263/4، مکتبہ حرم)
یعنی جس طرح کفر کے ساتھ کوئی عمل مقبول نہیں، کافر خواہ کتنے ہی اچھے عمل کرے ثواب نہیں ملے گا، اسی طرح ایمان کے ساتھ کوئی معصیت مضر نہیں ، انہوں نے عمل کو بالکل لغو اور بے کار چیز قرار دیا۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کی رائے یہ ہے کہ تصدیق قلبی کے بعد مرجہٴ کے نزدیک جنت کا دخول ضروری ہے، اگرچہ کوئی عمل نہ کیا ہو ، لیکن ترقی درجات کے لیے وہ بھی عمل کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ (فضل الباری:246/1، ادارہ علوم شرعیہ کراچی)
مرحبہٴٴ ارجاء سے ہے اور ارجاء کے معنی مؤخر کرنے کے ہیں، مرحبہٴ کہتے ہیں کہ عمل کی کوئی حاجت نہیں ، گویا کہ انہوں نے عمل کو مؤخر کر دیا، اس لیے ان کو مرحبہٴ کہا جاتا ہے۔ (مختار المصاحح، باب الراء:128، العلمیة)
مرحبہٴ کی تردید ان آیات سے ہوتی ہے جن میں عذاب کو معصیت پر مرتب کیا گیا ہے ، مثلاً:﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً﴾․(سورة النساء:10)
اس میں صاف صاف ذکر ہے کہ وہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے ، جو یتیموں کا مال ظلماً کھاتے ہیں ، معلوم ہوا کہ معصیت کی وجہ سے عذاب ہو گا۔
معتزلہ وخوارج کاعقیدہ
ان کے نزدیک ایمان تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے : دل میں تصدیق ہو ، زبان سے اقرار ہو، عمل ہو۔
ان میں سے اگر کوئی ایک چیز نہ پائی جائے تو ایمان معتبر نہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان بغیر عمل کے درست او رمعتبر نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص عمل نہیں کرے گا تو اس کو مؤمن نہیں کہاجائے گا، اگر کوئی شخص نماز چھوڑدے تو وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا، کیوں کہ نماز بھی ایمان کا ایک اہم جزہے اورجب ایک جز کو چھوڑ دیا تو اس پر کل کا اطلاق نہیں ہو گا یا کوئی شخص کسی معصیت کا ارتکاب کرے، مثلاً، چوری کرے ، ڈاکہ ڈالے، زنا کرے ، شراب پی لے تو اس عمل سے بھی وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا، کیوں کہ اعمال ایمان کا جز نہیں۔
پھر معتزلہ وخوارج میں مشہور فرق ہے، خوارج کہتے ہیں کہ معصیت کے ارتکاب سے انسان ایمان سے خارج ہو جاتا ہے اور کفر میں داخل ہو جاتا ہے او رمعتزلہ یہ کہتے ہیں کہ ایمان سے تو خارج ہو جاتا ہے لیکن کفر میں داخل نہیں ہوتا، بیچ میں لٹکتا رہتا ہے اس کو فاسق کہتے ہیں لیکن جس طرح کافر ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اسی طرح یہ فاسق بھی۔ گویا انجام کے اعتبار سے ان کے اور خوارج کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ معتزلہ وخوارج او ر مرحبہٴ دونوں افراط و تفریط کے شکار ہیں، ایک جانب معتزلہ وخوارج ہیں کہ اگر گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوا تو ایمان ہی معتبر نہیں اور وہ شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور دوسری طرف مرحبہٴ ہیں کہ ان کے نزدیک معاصی بالکل مضر نہیں، گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے باوجود آدمی براہ راست جنت میں جائے گا۔
جمہوراہل سنت کا مسلک مبنی بر اعتدال ہے، نہ تو معتزلہ و خوارج کی طرح تفریط ہے کہ عمل کے نہ ہونے سے ایمان ہی ختم ہو جائے اور نہ مرحبہٴ کی طرح افراط ہے کہ عمل اتنا بے حقیقت ہے کہ اس کے نہ ہونے سے کوئی نقصان نہ ہو، اس وجہ سے جمہور اہل سنت۔فرماتے ہیں کہ عمل ایمان کامل کا جز ہے، جس کامطلب یہ ہوا کہ عمل ایمان کی فرع او رتکمیل کا باعث ہے، چناں چہ قرآن مجید کی آیت میں اسی طرف اشارہ ہے ، فرمایا:
﴿أَلَمْ تَرَ کَیْْفَ ضَرَبَ اللّہُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِیْ السَّمَاء﴾․(سورہ ابراہیم:24)
آیت میں اصل نفس ایمان اور عمل اس کی فرع ہے، نیز ارشاد ہے:
﴿إِلَیْْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ﴾․ (الفاطر:10)
کلم طیب نفس ایمان ہے اور عمل صالح اس کی تکمیل کے لیے ہے۔
معتزلہ وخوارج کے نزدیک عمل جز ایمان ہے ، ان کی تردید ان آیات سے ہوتی ہے جن میں عمل کا عطف ایمان پر کیا گیا ہے ، مثلاً:
﴿وَبَشِّرِ الَّذِیْن آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَات﴾․ (البقرہ:25)
اس میں عمل کا عطف ایمان پر کیا گیا ہے اور عطف مغایرت چاہتا ہے، تو معلوم ہوا کہ ایمان او رچیز ہے او رعمل اور چیز ہے ، اگر جز ہوتا تو اس کو ایمان پر معطوف نہ کیا جاتا ہے۔
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ ﴾․(سورة النساء، آیت:48)
ترجمہ: بے شک الله تعالیٰ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے او راس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا۔
معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ شرک سے کم گناہوں کی بخشش فرمائیں گے ، انسان کیسا ہی بد عمل اور کتناہی گنہگار ہو، مگر کسی نہ کسی وقت جہنم سے نکال لیا جائے گااور جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔
اگر عمل جز ایمان ہو تا جیساکہ معتزلہ وخوارج کہتے ہیں تو وہ کبھی بھی جنت میں نہ جاتا۔
ایمان کی حقیقت کے بارے مختلف فرقوں کے مذاہب کا مختصر خلاصہ بیان کر دیا گیا، امید ہے ان کی پہچان کے لیے اتناکافی ہو گا۔
﴿وبشر الذین اٰمنوا الخ﴾
”واو“ عرف عطف، ”بشر“ فعل امر معطوف ہے، عطف کے بارے میں تین احتمال ہیں۔(الکشاف، سورة البقرہ، رقم الآیة:25،104/1، أدب الحوذہ، التفسیر الکبیر:126/2، اعلام الاسلامیہ، سورة البقرة، رقم، الآیة:25)․
مضمون جملہ کا عطف مضمون جملہ پر ہے، یعنی مؤمنوں کی جزا کے بیان کا عطف، کافروں کے عذاب کے بیان پر ہے۔
”فاتقوا“ فعل امر پر عطف ہے۔
بشر کو فعل ماضی مجہول پڑھا جائے ، جیسا کہ ایک قرأت بھی ہے، تو اس صورت میں ” اُعدت“ پر عطف ہو گا۔
وہ خوش خبری کیا ہے ؟ فرمایا:﴿أن لھم جنت تجری من تحتھا الانھر﴾ کہ ایسے لوگوں کے لیے جنت یعنی عجیب قسم کے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جنت لغت میں باغ کو کہتے ہیں ، لیکن اصطلاح شریعت میں اس خاص جگہ کا نام ہے جو مومنوں کو آخرت میں عطا ہو گی، جہاں راحت ہی راحت نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی، آگے جنت کی بعض نعمتوں کا ذکر فرمایا:
﴿کُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْہَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ ہَذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِہِ مُتَشَابِہا﴾․(البقرة، آیت:25)
یعنی اہل جنت کو جنت کے پھل جب دیے جائیں گے ، تو وہ ان پھلوں کی ظاہری شکل وصورت دیکھ کر یوں کہیں گے ، کہ یہ پھل تو وہی ہیں جو ہم کو پہلے دیے گئے تھے۔
پہلے دیے گئے پھلوں سے کیا مراد
بعض مفسرین نے فرمایا کہ پہلے دیے گئے پھلوں سے مراد ہے کہ دنیا میں جو پھل ہمیں دیے گئے تھے یہ اسی جیسے ہیں ۔(روح المعانی:275/1، سورہ البقرة، تحت آیة رقم:25 العلمیة، تفسیر أبي السعود:94/1، سورة البقرة، تحت آیة:25، العلمیة، تفسیر ابن کثیر،63/1، سورة البقرة تحت آیة رقم:25، دار الفکر، التفسیر الکبیر:129/2، سورة البقرة،تحت آیة رقم:25، الاعلام الاسلامیة)․
جنت کے پھل ظاہری شکل وصورت میں دنیا کے پھلوں کے طرح ہوں گے، دیکھنے میں مثلاً:آم، انار، سیب ہی ہوں گے ، تو وہ ان کی ظاہری شکل وصورت کو دنیا کے پھلوں سے مشابہہ ہونے کی وجہ سے کہیں گے یہ تو وہی پھل ہیں، جو دنیا میں ہمیں ملا کرتے تھے۔ بعض نے فرمایا: وہیں جنت میں جب ایک مرتبہ دینے کے بعد دوسری مرتبہ دیے جائیں گے تو وہ ان پھلوں کی ظاہری شکل وصورت پہلے دیے گئے پھلوں کے مشابہہ ہونے کی وجہ سے کہیں گے : یہ پھل تو وہی ہیں جو ہم کو پہلے دیے گئے تھے، مگر جب کھائیں گے تو نئی لذت پائیں گے۔ (ایضاً)
بعض حضرات نے فرمایا کہ پہلے دیے گئے پھلوں سے مراد وہ طاعات ومعارف ہیں جن کو اصحاب فطرت اور عقول سلیمہ (رزق، ظاہری سے زیادہ) لذیذ سمجھتے ہیں اور یہ پھل لذت میں ان طاعات ومعارف کے مشابہہ ہیں۔ ( روح المعانی:275/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25 العلمیة)
خلاصہ یہ کہ جنت میں ہماری سوچ سے بہت بلند اعلیٰ درجہ کی غذائیں ملیں گی، پھر ان مادی غذاؤں کے ساتھ سکون وراحت قلب کے لیے حسب منشا رفیق بھی ملیں گے، فرمایا:﴿وَلَہُمْ فِیْہَا أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَةٌ﴾․(تفسیر ابن کثیر:64/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25)
یعنی ان کے لیے بیویاں ہوں گی پاک صاف۔
ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا:(حوالہ بالا)
”مطھرة من القذر والاذی“ یعنی گندگی اور تکلیف دینے والی چیز سے پاک صاف ہوں گی اور مجاہد نے فرمایا:(حوالہ بالا)
”من الحیض والغائط والبول والنخام والبزاق والمنی والولد“ یعنی حیض، پاخانہ، پیشاب، رینٹ، تھوک، منی اور بچے سے پاک صاف ہوں گی اور حضرت قتادہ نے فرمایا(حوالہ بالا)”من الاذی والماثم“ یعنی ہر تکلیف دینے والی چیز او رگناہوں سے پاک صاف ہوں گی۔
ان سب اقوال کا خلاصہ یہ نکلا کہ وہ ہر قسم کی ظاہری وباطنی گندگی سے پاک صاف ہوں گی، ان کا ظاہر وباطن سب کچھ عمدہ او ربہترین ہو گا۔
” مطھرة“ (باب تفعیل سے) فرمایا اور ”طاھرات“ نہیں فرمایا۔
اس سے ان کی طہارت او رپاکیزگی کو نہایت اعلیٰ طریقے پر بیان فرمانا مقصود ہے کہ ان کو ایک پاک کرنے والے نے پاک بنایا ہے اور وہ پاک بنانے والا الله ہی ہے۔ (الکشاف:110/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25، ادب الحوذہ، التفسیر الکبیر:130/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25 الاعلامیة الاسلامیہ)․
یہ مفہوم لفظ”مطہرہ“ سے تو نکلتا ہے لفظ”طاہرات“ سے نہیں، اس لیے مطہرہ فرمایا۔﴿وَہُمْ فِیْہَا خَالِدُون﴾، یعنی جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔
نوٹ: ”خلود“ سے متعلق تفصیلی بحث سورہ ہود آیت نمبر1 کے تحت آئے گی)
جنت کی جن چیزوں کا قرآن وحدیث میں تذکرہ ہے ، اس میں کسی نعمت کی پوری کیفیت بیان نہیں کی گئی، جو کچھ بیان فرمایا ہے ، وہاں کی نعمتیں اس سے بہت بلند وبالا ہیں۔
پھر جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے ، وہاں ان کے علاوہ بھی بہت زیادہ نعمتیں ہیں، نیز کسی چیز کے دیکھنے اور استعمال کرنے سے جوپوری واقفیت حاصل ہوتی ہے وہ محض سننے سے حاصل نہیں ہو سکتی ، لہٰذا اس دنیا میں رہتے ہوئے نعمائے جنت کی واقعی حقیقت وکیفیت کا ادراک نہیں ہو سکتا ہے ۔
سرسید احمد خان صاحب کا جنت کی مادّی نعمتوں سے انکار
سرسید احمد خان او ران کی روش پر چلنے والے عقل پرست جنت کی مادّی نعمتوں کا کھلے لفظوں میں انکار کرتے ہیں ، ان کے نزدیک جنت کے میوے پھل، شراب وشہد ، حور قصور اور اس طرح کی تمام نعمتیں جسمانی اور مادّی کے بجائے روحانی نوعیت کی ہیں، چناں چہ سرسید صاحب اپنے موقف کے اثبات میں لکھتے ہیں:
”جنت یا بہشت کی ماہیت جو خدا تعالیٰ نے بتلائی ہے وہ تو یہ ہے : ﴿ فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرة اعین جزاء بما کانوا یعملون﴾ یعنی کوئی نہیں جانتا کہ کیا ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت چھپا رکھی گئی ہے اس کے بدلے میں جو وہ کرتے تھے۔
پیغمبر خدا صلی الله علیہ وسلم نے جو حقیقت بہشت کی فرمائی، جیسا کہ بخاری ومسلم نے ابوہریرہ کی سند پر بیان کیا ہے وہ یہ ہے ، قال الله تعالیٰ: ”اعددت لعبادی الصالحین مالاعین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر“ یعنی الله تعالیٰ نے فرمایا کہ تیار کی ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے او رنہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گذرا ہے۔
پس اگر حقیقت بہشت کی یہی باغ اور نہریں اور موتی کے اورچاندی ، سونے کی اینٹوں کے مکان اور دودھ وشراب اور شہد کے سمندر اور لذیذ میوے اور خوب صورت عورتیں اور لونڈے ہوں ، تو یہ قرآن کی آیت اور خدا کے فرمودہ کے بالکل مخالف ہے۔“(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، البقرة ، تحت آیہ رقم:25)
ایک دوسری جگہ جنت کا استہزاء کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” یہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا ہوئی ہے، اس میں سنگ مر مر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں، باغ میں شاداب وسرسبز درخت ہیں ، دودھ وشراب وشہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے ، ساقی وساقنین نہایت خوبصورت چاندی کے کنگن پہنے ہوئے جو ہمارے ہاں کی کھو سنیں پہنتی ہیں، شراب پلا رہی ہیں ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے، ایک نے ران پر سر دھرا ہے ایک چھاتی سے لپٹ رہا ہے ایک نے لب جان بخش کا بوسہ لیا ہے ، کوئی کسی کونے میں کچھ کر رہا ہے، کوئی کسی کونے میں کچھ، ایسا بیہودہ پن ہے ، جس پر تعجب ہوتا ہے ، اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔“ ( تفسیر القرآن سر سید، ص:44، دوست ایسوسی ایٹس)
سر سید صاحب کے مستدلات کی حقیقت
سرسید نے اپنے موقف میں جس آیت قرآنی اور حدیث رسول کو پیش کیا ہے اسے اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں اس سے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کے متعلق تمام تر حقائق الله تعالیٰ ہی جانتا ہے بجز وحی کے اس تک کسی کی رسائی نہیں۔
نیز سرسید کی بیان کردہ نصوص میں جو یہ کہا گیا ہے کہ: ” کسی آنکھ نے ان نعمتوں کو نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا، کسی دل پر ان کا خیال نہیں گزارا۔“ اس سے مردا یہ ہے کہ ان نعمتوں کی حقیقت وماہیت اور لذتِ کیفیت کو ابھی تک کوئی انسان نہیں جان سکا، کیوں کہ حقیقت وماہیت اور لذتِ کیفیت کا علم مشاہدے او راستعمال میں لائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ البتہ ان نعمتوں کی ظاہری صورت وحی کے ذریعے بتلا دی گئی ہے۔
ترجمہ: اور خوش خبری دے ان لوگوں کو، جو ایمان لائے او راچھے کام کیے کہ ان کے واسطے باغ ہیں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، جب ملے گا ان کو وہاں کا کوئی پھل کھانے کو تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جوملا تھا ہم کو اس سے پہلے اور دیے جائیں گے ان کو پھل ایک صورت کے اور ان کے لیے وہاں عورتیں ہوں گی پاگیزہ اور وہ وہیں ہمیشہ رہیں گے۔
ربطِ آیات
قرآن مجید میں جہاں جہاں کفار اور ان کی سزا کا ذکر آتا ہے ، مؤمنوں او ران کی جزا کا ذکر بھی ضرور آتا ہے ، تاکہ آخرت کی راحت اورتکلیف کا حال ساتھ ساتھ معلوم ہوتا رہے ، اسی طرز بیان کے مطابق پہلی آیت میں کافروں کے انجام کا ذکر فرما کر ، ان آیتوں میں مؤمنوں اور ان کی جزا کا ذکر فرمایا ہے۔
تفسیر
یہاں مؤمنین کو جنت کی خوش خبری دو چیزوں کی بنا پر دی گئی ہے، ایک ایمان، دوسرے عمل صالح اور بھی متعدد جگہ قرآن پاک نے اخروی انعامات واحسانات کے حصول کی ایمان او راعمال صالحہ کے ساتھ شرط لگائی ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایمان بغیر عمل صالح کے انسان کو اس بشارت کا مستحق نہیں بناتا اور عمل صالح بغیر ایمان کے تو کوئی أخروی اجر نہیں رکھتا، اگرچہ نفس ایمان جہنم میں ہمیشہ رہنے سے بچانے کا سبب ہے ، لیکن عذابِ جہنم سے بالکل دوری اعمال صالحہ ہی سے ممکن ہے، یہی اہل السنة والجماعت کا عقیدہ ہے۔
ایمان کی حقیقت
ایمان کی حقیقت کے بارے میں مختلف فرقوں کے مختلف نظریات پر اہل علم نے لمبی اور تفصیلی بحثیں فرمائی ہیں، اب چوں کہ اس قسم کے فرقے ناپید ہو چکے ہیں ، اس لیے بہت زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت بھی نہیں، تعارف کے طور پر خلاصہ جان لینا کافی ہے۔
جہمیہ کا عقیدہ
یہ جہم بن صفوان کے متبعین ہیں، انہی کی تردید میں امام بخاری نے مستقل کتاب قائم کی ہے ”کتاب الرد علی الجھمیہ“․
ان کے عجیب وغریب عقائد تھے، ان کا کہنا تھا ہے کہ ایمان الله کی معرفت کا نام ہے، مثلاً: ایک آدمی نے دل میں سوچنا شروع کیا او راس کو خود بخود دل میں معرفت حاصل ہو گئی کہ الله ایک ہے ، کہتے ہیں یہ کافی ہے ، بس آدمی مومن ہو گیا، چاہے دل سے تصدیق کرے یا نہ کرے ، زبان سے اقرار کرے یا نہ کرے، اسی طرح عمل کرے یا نہ کرے ، محض معرفت ایمان کے لیے کافی ہے ۔ ( امداد الباری،263/4، مکتبہ حرم)
معرفت اور تصدیق میں فرق
دونوں میں فرق یہ ہے کہ معرفت غیر اختیاری چیز ہے، کسیچیز کا علم حاصل ہو جانا غیر اختیاری چیز ہے اور” تصدیق“ میں اپنے اختیار سے کسی بات کی تصدیق کی جاتی ہے۔
ان کا یہ مذہب بداھةً باطل ہے ،کیوں کہ یہ معرفت تو یہودیوں کو بھی حاصل تھی ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ﴾۔(البقرة، آیت:146)
یعنی یہ یہود حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود مؤمن نہیں ہیں ، حتی کہ یہ معرفت فرعون کو بھی حاصل تھی، مگر اس کے باوجود فرعون بالاجماع کافر ہے۔
کرامیہ کا عقیدہ
یہ محمد بن کرّام کی طرف منسوب ہیں، مشہور یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایمان صرف زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے، یعنی جس نے زبان سے کلمہ پڑھا بس وہ مؤمن ہے، چاہے دل میں تصدیق ہو یا نہ ہو ۔ (امداد الباری:263/4، مکتبہ حرم)
چناں چہ حافظ ابن حجر رحمة الله علیہ نے بھی یہی نقل فرمایا ہے ۔ (فتح الباری، کتاب الایمان، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم! بنی الاسلام علی خمس:64/2، العلمیة)
”الکرامیة قالوا: ھو نطق فقط“
یعنی کرامیہ کے نزدیک ایمان صرف اقرار کا نام ہے۔
لیکن بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ ن کا صحیح مذہب یہ ہے کہ زبان سے اقرار دنیاوی احکام کے اجرا کے لیے ہے، البتہ آخرت میں نجات کے لیے ان کے نزدیک بھی دل میں تصدیق ضروری ہے۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کی بھی یہی تحقیق ہے ۔ ( فضل الباری:245/1، ادارہ علوم شرعیہ کراچی)
اس صورت میں اہل السنہ والجماعہ اور کرامیہ کے درمیان کوئی زیادہ اختلاف باقی نہیں رہتا۔
مرحبہٴ کا عقیدہ
مرحبہٴ کے نزدیک ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے ، عمل کی کوئی حاجت نہیں ، چناں چہ وہ کہتے ہیں:”لا تضرمع الایمان معصیة کما لا تنفع مع الکفر طاعة“․ (امداد الباری:263/4، مکتبہ حرم)
یعنی جس طرح کفر کے ساتھ کوئی عمل مقبول نہیں، کافر خواہ کتنے ہی اچھے عمل کرے ثواب نہیں ملے گا، اسی طرح ایمان کے ساتھ کوئی معصیت مضر نہیں ، انہوں نے عمل کو بالکل لغو اور بے کار چیز قرار دیا۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کی رائے یہ ہے کہ تصدیق قلبی کے بعد مرجہٴ کے نزدیک جنت کا دخول ضروری ہے، اگرچہ کوئی عمل نہ کیا ہو ، لیکن ترقی درجات کے لیے وہ بھی عمل کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ (فضل الباری:246/1، ادارہ علوم شرعیہ کراچی)
مرحبہٴٴ ارجاء سے ہے اور ارجاء کے معنی مؤخر کرنے کے ہیں، مرحبہٴ کہتے ہیں کہ عمل کی کوئی حاجت نہیں ، گویا کہ انہوں نے عمل کو مؤخر کر دیا، اس لیے ان کو مرحبہٴ کہا جاتا ہے۔ (مختار المصاحح، باب الراء:128، العلمیة)
مرحبہٴ کی تردید ان آیات سے ہوتی ہے جن میں عذاب کو معصیت پر مرتب کیا گیا ہے ، مثلاً:﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً﴾․(سورة النساء:10)
اس میں صاف صاف ذکر ہے کہ وہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے ، جو یتیموں کا مال ظلماً کھاتے ہیں ، معلوم ہوا کہ معصیت کی وجہ سے عذاب ہو گا۔
معتزلہ وخوارج کاعقیدہ
ان کے نزدیک ایمان تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے : دل میں تصدیق ہو ، زبان سے اقرار ہو، عمل ہو۔
ان میں سے اگر کوئی ایک چیز نہ پائی جائے تو ایمان معتبر نہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان بغیر عمل کے درست او رمعتبر نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص عمل نہیں کرے گا تو اس کو مؤمن نہیں کہاجائے گا، اگر کوئی شخص نماز چھوڑدے تو وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا، کیوں کہ نماز بھی ایمان کا ایک اہم جزہے اورجب ایک جز کو چھوڑ دیا تو اس پر کل کا اطلاق نہیں ہو گا یا کوئی شخص کسی معصیت کا ارتکاب کرے، مثلاً، چوری کرے ، ڈاکہ ڈالے، زنا کرے ، شراب پی لے تو اس عمل سے بھی وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا، کیوں کہ اعمال ایمان کا جز نہیں۔
پھر معتزلہ وخوارج میں مشہور فرق ہے، خوارج کہتے ہیں کہ معصیت کے ارتکاب سے انسان ایمان سے خارج ہو جاتا ہے اور کفر میں داخل ہو جاتا ہے او رمعتزلہ یہ کہتے ہیں کہ ایمان سے تو خارج ہو جاتا ہے لیکن کفر میں داخل نہیں ہوتا، بیچ میں لٹکتا رہتا ہے اس کو فاسق کہتے ہیں لیکن جس طرح کافر ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اسی طرح یہ فاسق بھی۔ گویا انجام کے اعتبار سے ان کے اور خوارج کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ معتزلہ وخوارج او ر مرحبہٴ دونوں افراط و تفریط کے شکار ہیں، ایک جانب معتزلہ وخوارج ہیں کہ اگر گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوا تو ایمان ہی معتبر نہیں اور وہ شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور دوسری طرف مرحبہٴ ہیں کہ ان کے نزدیک معاصی بالکل مضر نہیں، گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے باوجود آدمی براہ راست جنت میں جائے گا۔
جمہوراہل سنت کا مسلک مبنی بر اعتدال ہے، نہ تو معتزلہ و خوارج کی طرح تفریط ہے کہ عمل کے نہ ہونے سے ایمان ہی ختم ہو جائے اور نہ مرحبہٴ کی طرح افراط ہے کہ عمل اتنا بے حقیقت ہے کہ اس کے نہ ہونے سے کوئی نقصان نہ ہو، اس وجہ سے جمہور اہل سنت۔فرماتے ہیں کہ عمل ایمان کامل کا جز ہے، جس کامطلب یہ ہوا کہ عمل ایمان کی فرع او رتکمیل کا باعث ہے، چناں چہ قرآن مجید کی آیت میں اسی طرف اشارہ ہے ، فرمایا:
﴿أَلَمْ تَرَ کَیْْفَ ضَرَبَ اللّہُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِیْ السَّمَاء﴾․(سورہ ابراہیم:24)
آیت میں اصل نفس ایمان اور عمل اس کی فرع ہے، نیز ارشاد ہے:
﴿إِلَیْْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ﴾․ (الفاطر:10)
کلم طیب نفس ایمان ہے اور عمل صالح اس کی تکمیل کے لیے ہے۔
معتزلہ وخوارج کے نزدیک عمل جز ایمان ہے ، ان کی تردید ان آیات سے ہوتی ہے جن میں عمل کا عطف ایمان پر کیا گیا ہے ، مثلاً:
﴿وَبَشِّرِ الَّذِیْن آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَات﴾․ (البقرہ:25)
اس میں عمل کا عطف ایمان پر کیا گیا ہے اور عطف مغایرت چاہتا ہے، تو معلوم ہوا کہ ایمان او رچیز ہے او رعمل اور چیز ہے ، اگر جز ہوتا تو اس کو ایمان پر معطوف نہ کیا جاتا ہے۔
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ ﴾․(سورة النساء، آیت:48)
ترجمہ: بے شک الله تعالیٰ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے او راس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا۔
معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ شرک سے کم گناہوں کی بخشش فرمائیں گے ، انسان کیسا ہی بد عمل اور کتناہی گنہگار ہو، مگر کسی نہ کسی وقت جہنم سے نکال لیا جائے گااور جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔
اگر عمل جز ایمان ہو تا جیساکہ معتزلہ وخوارج کہتے ہیں تو وہ کبھی بھی جنت میں نہ جاتا۔
ایمان کی حقیقت کے بارے مختلف فرقوں کے مذاہب کا مختصر خلاصہ بیان کر دیا گیا، امید ہے ان کی پہچان کے لیے اتناکافی ہو گا۔
﴿وبشر الذین اٰمنوا الخ﴾
”واو“ عرف عطف، ”بشر“ فعل امر معطوف ہے، عطف کے بارے میں تین احتمال ہیں۔(الکشاف، سورة البقرہ، رقم الآیة:25،104/1، أدب الحوذہ، التفسیر الکبیر:126/2، اعلام الاسلامیہ، سورة البقرة، رقم، الآیة:25)․
مضمون جملہ کا عطف مضمون جملہ پر ہے، یعنی مؤمنوں کی جزا کے بیان کا عطف، کافروں کے عذاب کے بیان پر ہے۔
”فاتقوا“ فعل امر پر عطف ہے۔
بشر کو فعل ماضی مجہول پڑھا جائے ، جیسا کہ ایک قرأت بھی ہے، تو اس صورت میں ” اُعدت“ پر عطف ہو گا۔
وہ خوش خبری کیا ہے ؟ فرمایا:﴿أن لھم جنت تجری من تحتھا الانھر﴾ کہ ایسے لوگوں کے لیے جنت یعنی عجیب قسم کے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جنت لغت میں باغ کو کہتے ہیں ، لیکن اصطلاح شریعت میں اس خاص جگہ کا نام ہے جو مومنوں کو آخرت میں عطا ہو گی، جہاں راحت ہی راحت نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی، آگے جنت کی بعض نعمتوں کا ذکر فرمایا:
﴿کُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْہَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ ہَذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِہِ مُتَشَابِہا﴾․(البقرة، آیت:25)
یعنی اہل جنت کو جنت کے پھل جب دیے جائیں گے ، تو وہ ان پھلوں کی ظاہری شکل وصورت دیکھ کر یوں کہیں گے ، کہ یہ پھل تو وہی ہیں جو ہم کو پہلے دیے گئے تھے۔
پہلے دیے گئے پھلوں سے کیا مراد
بعض مفسرین نے فرمایا کہ پہلے دیے گئے پھلوں سے مراد ہے کہ دنیا میں جو پھل ہمیں دیے گئے تھے یہ اسی جیسے ہیں ۔(روح المعانی:275/1، سورہ البقرة، تحت آیة رقم:25 العلمیة، تفسیر أبي السعود:94/1، سورة البقرة، تحت آیة:25، العلمیة، تفسیر ابن کثیر،63/1، سورة البقرة تحت آیة رقم:25، دار الفکر، التفسیر الکبیر:129/2، سورة البقرة،تحت آیة رقم:25، الاعلام الاسلامیة)․
جنت کے پھل ظاہری شکل وصورت میں دنیا کے پھلوں کے طرح ہوں گے، دیکھنے میں مثلاً:آم، انار، سیب ہی ہوں گے ، تو وہ ان کی ظاہری شکل وصورت کو دنیا کے پھلوں سے مشابہہ ہونے کی وجہ سے کہیں گے یہ تو وہی پھل ہیں، جو دنیا میں ہمیں ملا کرتے تھے۔ بعض نے فرمایا: وہیں جنت میں جب ایک مرتبہ دینے کے بعد دوسری مرتبہ دیے جائیں گے تو وہ ان پھلوں کی ظاہری شکل وصورت پہلے دیے گئے پھلوں کے مشابہہ ہونے کی وجہ سے کہیں گے : یہ پھل تو وہی ہیں جو ہم کو پہلے دیے گئے تھے، مگر جب کھائیں گے تو نئی لذت پائیں گے۔ (ایضاً)
بعض حضرات نے فرمایا کہ پہلے دیے گئے پھلوں سے مراد وہ طاعات ومعارف ہیں جن کو اصحاب فطرت اور عقول سلیمہ (رزق، ظاہری سے زیادہ) لذیذ سمجھتے ہیں اور یہ پھل لذت میں ان طاعات ومعارف کے مشابہہ ہیں۔ ( روح المعانی:275/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25 العلمیة)
خلاصہ یہ کہ جنت میں ہماری سوچ سے بہت بلند اعلیٰ درجہ کی غذائیں ملیں گی، پھر ان مادی غذاؤں کے ساتھ سکون وراحت قلب کے لیے حسب منشا رفیق بھی ملیں گے، فرمایا:﴿وَلَہُمْ فِیْہَا أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَةٌ﴾․(تفسیر ابن کثیر:64/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25)
یعنی ان کے لیے بیویاں ہوں گی پاک صاف۔
ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا:(حوالہ بالا)
”مطھرة من القذر والاذی“ یعنی گندگی اور تکلیف دینے والی چیز سے پاک صاف ہوں گی اور مجاہد نے فرمایا:(حوالہ بالا)
”من الحیض والغائط والبول والنخام والبزاق والمنی والولد“ یعنی حیض، پاخانہ، پیشاب، رینٹ، تھوک، منی اور بچے سے پاک صاف ہوں گی اور حضرت قتادہ نے فرمایا(حوالہ بالا)”من الاذی والماثم“ یعنی ہر تکلیف دینے والی چیز او رگناہوں سے پاک صاف ہوں گی۔
ان سب اقوال کا خلاصہ یہ نکلا کہ وہ ہر قسم کی ظاہری وباطنی گندگی سے پاک صاف ہوں گی، ان کا ظاہر وباطن سب کچھ عمدہ او ربہترین ہو گا۔
” مطھرة“ (باب تفعیل سے) فرمایا اور ”طاھرات“ نہیں فرمایا۔
اس سے ان کی طہارت او رپاکیزگی کو نہایت اعلیٰ طریقے پر بیان فرمانا مقصود ہے کہ ان کو ایک پاک کرنے والے نے پاک بنایا ہے اور وہ پاک بنانے والا الله ہی ہے۔ (الکشاف:110/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25، ادب الحوذہ، التفسیر الکبیر:130/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25 الاعلامیة الاسلامیہ)․
یہ مفہوم لفظ”مطہرہ“ سے تو نکلتا ہے لفظ”طاہرات“ سے نہیں، اس لیے مطہرہ فرمایا۔﴿وَہُمْ فِیْہَا خَالِدُون﴾، یعنی جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔
نوٹ: ”خلود“ سے متعلق تفصیلی بحث سورہ ہود آیت نمبر1 کے تحت آئے گی)
جنت کی جن چیزوں کا قرآن وحدیث میں تذکرہ ہے ، اس میں کسی نعمت کی پوری کیفیت بیان نہیں کی گئی، جو کچھ بیان فرمایا ہے ، وہاں کی نعمتیں اس سے بہت بلند وبالا ہیں۔
پھر جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے ، وہاں ان کے علاوہ بھی بہت زیادہ نعمتیں ہیں، نیز کسی چیز کے دیکھنے اور استعمال کرنے سے جوپوری واقفیت حاصل ہوتی ہے وہ محض سننے سے حاصل نہیں ہو سکتی ، لہٰذا اس دنیا میں رہتے ہوئے نعمائے جنت کی واقعی حقیقت وکیفیت کا ادراک نہیں ہو سکتا ہے ۔
سرسید احمد خان صاحب کا جنت کی مادّی نعمتوں سے انکار
سرسید احمد خان او ران کی روش پر چلنے والے عقل پرست جنت کی مادّی نعمتوں کا کھلے لفظوں میں انکار کرتے ہیں ، ان کے نزدیک جنت کے میوے پھل، شراب وشہد ، حور قصور اور اس طرح کی تمام نعمتیں جسمانی اور مادّی کے بجائے روحانی نوعیت کی ہیں، چناں چہ سرسید صاحب اپنے موقف کے اثبات میں لکھتے ہیں:
”جنت یا بہشت کی ماہیت جو خدا تعالیٰ نے بتلائی ہے وہ تو یہ ہے : ﴿ فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرة اعین جزاء بما کانوا یعملون﴾ یعنی کوئی نہیں جانتا کہ کیا ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت چھپا رکھی گئی ہے اس کے بدلے میں جو وہ کرتے تھے۔
پیغمبر خدا صلی الله علیہ وسلم نے جو حقیقت بہشت کی فرمائی، جیسا کہ بخاری ومسلم نے ابوہریرہ کی سند پر بیان کیا ہے وہ یہ ہے ، قال الله تعالیٰ: ”اعددت لعبادی الصالحین مالاعین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر“ یعنی الله تعالیٰ نے فرمایا کہ تیار کی ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے او رنہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گذرا ہے۔
پس اگر حقیقت بہشت کی یہی باغ اور نہریں اور موتی کے اورچاندی ، سونے کی اینٹوں کے مکان اور دودھ وشراب اور شہد کے سمندر اور لذیذ میوے اور خوب صورت عورتیں اور لونڈے ہوں ، تو یہ قرآن کی آیت اور خدا کے فرمودہ کے بالکل مخالف ہے۔“(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، البقرة ، تحت آیہ رقم:25)
ایک دوسری جگہ جنت کا استہزاء کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” یہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا ہوئی ہے، اس میں سنگ مر مر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں، باغ میں شاداب وسرسبز درخت ہیں ، دودھ وشراب وشہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے ، ساقی وساقنین نہایت خوبصورت چاندی کے کنگن پہنے ہوئے جو ہمارے ہاں کی کھو سنیں پہنتی ہیں، شراب پلا رہی ہیں ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے، ایک نے ران پر سر دھرا ہے ایک چھاتی سے لپٹ رہا ہے ایک نے لب جان بخش کا بوسہ لیا ہے ، کوئی کسی کونے میں کچھ کر رہا ہے، کوئی کسی کونے میں کچھ، ایسا بیہودہ پن ہے ، جس پر تعجب ہوتا ہے ، اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔“ ( تفسیر القرآن سر سید، ص:44، دوست ایسوسی ایٹس)
سر سید صاحب کے مستدلات کی حقیقت
سرسید نے اپنے موقف میں جس آیت قرآنی اور حدیث رسول کو پیش کیا ہے اسے اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں اس سے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کے متعلق تمام تر حقائق الله تعالیٰ ہی جانتا ہے بجز وحی کے اس تک کسی کی رسائی نہیں۔
نیز سرسید کی بیان کردہ نصوص میں جو یہ کہا گیا ہے کہ: ” کسی آنکھ نے ان نعمتوں کو نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا، کسی دل پر ان کا خیال نہیں گزارا۔“ اس سے مردا یہ ہے کہ ان نعمتوں کی حقیقت وماہیت اور لذتِ کیفیت کو ابھی تک کوئی انسان نہیں جان سکا، کیوں کہ حقیقت وماہیت اور لذتِ کیفیت کا علم مشاہدے او راستعمال میں لائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ البتہ ان نعمتوں کی ظاہری صورت وحی کے ذریعے بتلا دی گئی ہے۔
سائنس کی حدود
﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾
تفسیر
آیت کریمہ میں لفظ”ثم“ ترتیب اور تقدیم وتاخیر ظاہر کرنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ صرف فرق زمانی ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے ۔ (تفسیر بیضاوی، البقرة تحت آیة رقم:29)
”اسْتَوَی“ کے صلے میں جب ”إلی“ استعمال ہو تو اس کا معنی قصد اور توجہ ہوتا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:29)
لہٰذا آیت کریمہ کا معنی ہوا کہ الله تعالیٰ نے آسمان کی تخلیق کا قصد فرمایا۔ ( تفسیر المدارک، البقرة تحت آیة، رقم:29)
آسمان سے کیا مراد ہے؟
اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ”السَّمَاء“ کا لفظ قرآن کریم میں مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے، مثلاً چھت کے لیے﴿ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاء﴾ (الحج:15) یعنی إلی سقف البیت․
بادلوں کے معنی میں﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً﴾ (المؤمنون:18)
یعنی من السحاب․ ( الوجوہ والنظائر لکتاب الله العزیز، باب السین، ص:272، بیروت)
لیکن آیت کریمہ ﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾میں سات آسمانوں سے کیا مراد ہے؟ آسمان کوئی وجود رکھتا ہے یا صرف خلا کا نام آسمان ہے؟ آسمان کے بارے میں کتنی آرا ہیں؟ اور ان کی علمی اور شرعی حیثیت کیا ہے ؟ یہاں اسی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
پہلی رائے: کائنات کے حقائق کو صرف سائنس کی نظر سے دیکھنے والے سائنس دان او ران کے ہم نواؤں کی رائے یہ ہے کہ آسمان اسی خلا کا نام ہے جو تاحد نظر پھیلا ہوا ہے، اس طبقے کے مفسر سرسید اسی رائے کو درست قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” اس مقام پر سماء کے لفظ سے وہ وسعت مراد ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوپر دیکھتا ہے ، پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس وسعت کی طرف متوجہ ہوا جو انسان کے سر پر بلند دکھائی دیتی ہے اور ٹھیک اس کو سات بلندیاں کر دیں ۔ “( تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، البقرہ تحت آیة رقم:29)
اس رائے پہ اشکال ہوا کہ اس وسعت پر سات کے عدد کا اطلاق کس ضرورت کے پیش نظر ہوا ؟ سر سید اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”اس زمانے کے لوگ جو بلحاظ سبع سیارات یہ سمجھتے تھے کہ آسماں سات ہیں ، انہیں لوگوں کے خیال کے مطابق سات کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے۔“ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان: البقرہ تحت آیة رقم:29)
دوسری رائے: یہ ہے کہ آسمان سے اجرام علویہ ( ستارے کواکب) مراد ہیں، اس تفسیر پر بھی اشکال ہوا کہ اجرام علویہ ( ستارے وغیرہ) کی تعداد تو اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں شمار میں نہیں لایا جاسکتا ، پھر قرآن کریم میں﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾ فرماکر انہیں سات کے عدد کے اند ر کیوں محدود کر دیا ؟ اس کا جواب دیا گیا کہ سات کا عدد تحدید کے لیے نہیں،بلکہ ستاروں کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے لایا گیا ہے ، جس طرح قرآن کریم میں ایک مقام پر سات سمندروں سے کثرت سمندر مراد لیے گئے ہیں ۔ ﴿وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہِ﴾․ (لقمان:27)
ترجمہ: ”او راگر جتنے درخت ہیں زمین میں قلم ہوں اور سمندر ہو اس کی سیاہی، اس کے پیچھے ہوں سات سمندر، نہ تمام ہوں باتیں الله کی۔“
تیسری رائے: علمائے ہیئت اور حکمائے یونان کی ہے کہ افلاک کی تعداد نو ہے یونانی حکمت کی کتابیں جب عربی میں ترجمہ ہو کر آئیں تو علمائے ہیئت نے نہ صرف انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا، بلکہ اسلامی علوم اور یونانی حکمت میں موافقت پیدا کرنے کی غرض سے یہ دعوی بھی کر ڈلا کہ آسمان کی تعداد نو ہے ، چناں چہ ہماری حکمت کی کتابوں ( شرح چغمینی وغیرہ) میں یہ قول ایک مسلم دعوی کے طور پر مذکور ہے، سات آسمان تو وہی جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے باقی دو عرش اور کرسی ہیں ، جنہیں آسمان قرارا دے کر آسمان کی تعداد نو کر دی گئی ، علمائے ہیئت آسمان او رافلاک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں۔
اس رائے پر بھی اشکال ہوا کہ قرآن کریم میں تو آسمانوں کی تعداد سات بتائی گئی ہے پھر آسمان نو کیسے ہوئے ؟ علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمہ الله نے اس کا جواب دیا کہ گو قرآن کریم میں سات کے عدد کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، لیکن اس سے زائد عدد کی نفی کہاں ثابت ہوئی؟
پہلی رائے پر ایک نظر: سائنس صرف اس چیز کو تسلیم کرتی ہے جو مشاہدات، تجربات اور عقلی دلائل سے اپنا وجود منواسکے، سائنسی عقائد میں ایمان بالغیب کی حیثیت ایک لطیفے سے زیادہ نہیں(اس کی تفصیلی بحث مقدمے میں دیکھیے) اور اسلام نے جس آسماں کا تصور دیا ہے وہ تاحال مشاہدے میں نہیں آیا اس لیے سائنس دانوں نے خلاء ہی کو آسمان قرار دیا ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ سائنس کے ظنی فنون کو وحی الہٰی میں دخل اندازی کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟ سائنس کی محدود معلومات ومشاہدات کا عالم تو یہ ہے کہ خود ان کے بیان کے مطابق ”ان کی نظر دیوقامت عظیم ترین دور بینوں کے ذریعے بھی صرف دس کھرب میل نوری سال کے فاصلے تک پہنچ سکی ہے ۔“ (خلاصہ تفسیر القرآن، باب اول:101/1)
اور اجرام فلکی اس سے بھی آگے ہیں او رساتوں آسمان تو ان سے بھی بلند وبالا ہیں ، اگر سائنس اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود آسمان کا مشاہدہ نہ کر سکی تو اس میں قصور اور عاجزی سائنس کی ہے ؟ یا وحی کی ؟
البتہ جو لوگ وحی پر ایمان ویقین ہی نہ رکھتے ہوں ان سے اس بات پر گفتگو کرنا بے سود ہے۔
دوسری رائے پر ایک نظر: آسمان سے اجرام فلکیہ (سیارے) مراد لینا دو وجہ سے درست نہیں۔
1...قرآن کریم نے اجرام فلکیہ کو پہلے آسماں کی زینت قرار دیا ہے ﴿ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾․ (الملک:5)
ترجمہ:” اور ہم نے رونق دی سب سے ورلے آسماں کو چراغوں سے۔“
2...﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾․ (الصف:6)
ترجمہ:” ہم نے رونق دی ( سب سے) ورلے آسماں کو ایک رونق جوتارے ہیں۔“
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اجرام فلکیہ (ستارے وغیرہ) اور آسماں دو جدا جدا چیزیں ہیں، انہیں ایک قرار دینا درست نہیں۔اجرام فلکیہ لاتعداد اور بے شمار ہیں اور آسمانوں کے بارے میں قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ وہ سات ہیں﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾․
”پھر قصد کیا آسماں کی طرف، سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسمان“
﴿فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْْن﴾․(فصلت:12)
”پھر کر دیے وہ سات آسمان دو دن میں ۔“
﴿اللَّہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُن﴾․ (الطلاق:12)
ترجمہ:”الله وہ ہے جس نے بنائے سات آسمان او رزمینیں بھی اتنی ہیں۔“
﴿الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً﴾․(الملک:3)
ترجمہ: ”جس نے بنائے سات آسماں تہ پر تہ۔“
مذکورہ آیات میں جس قدر تکرار او راہتمام کے ساتھ آسمانوں کی تعداد بیان کی گئی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں عدد بیان کرنے کا مقصد آسمانوں کی محدود تعداد کااظہار ہے ، نیز اہل زبان نے بھی یہی مطلب سمجھا، لہٰذا صرف ایک عقلی احتمال کی بنا پر ”عدد“ کو کثرت آسمان کی دلیل بنانا کس طرح درست ہو گا؟
تیسری رائے پر ایک نظر: تیسری رائے ان علمائے ہئیت کی تھی جو یونانی حکمت سے حدر درجہ متاثر تھے، فلسفہ اور شریعت کے کلام میں موافقت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے آسمان اورافلاک کو ایک ہی چیز شمارکرکے آسمانوں کی تعداد نو قرار دی، چناں چہ علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾ (الملک:5) کی تفسیر میں علمائے ہئیت کے اس موقف پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”وکون السماء، ھی الفلک، خلاف المعروف عن السلف، وانما ھو قول قالہ من أراد الجمع بین کلام الفلاسفة الأولی وکلام الشریعة، فشاع فی ما بین الاسلام، واعتقدہ من اعتقدہ․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)
ترجمہ:” آسماں کو ہی فلک قرار دینا سلفِ صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ، یہ قول درحقیقت ان لوگوں کا ہے جنہوں نے متقدمین فلاسفہ اور شریعت کے کلام میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی، پھر یہی قول اہل اسلام میں پھیل گیا او رجس نے چاہا اسے عقیدہ کے طور پر اختیار کر لیا۔“
اب ذیل میں فلک کا مفہوم ذکر کیا جاتا ہے، جو آسمان کے مفہوم سے قطعی طور پر مختلف ہے۔
فلک کا مفہوم آسمان سے مختلف ہے۔
اصطلاح شریعت میں فلک ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں، چناں چہ علامہ راغب اصفہانی رحمہ الله لکھتے ہیں
”الفلک مجری الکواکب وتسمیتہ بذلک لکونہ کالفلک“․ ( مفردات القرآن للراغب، فلک: ص:432)
” فلک سے ستاروں کا مدار مراد ہے اور فلک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کشتی کی طرح گول ہے۔“
علامہ فخر الدین رازی رحمہ الله﴿وکل فی فلک یسبحون﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”الفلک فی کلام العرب کل شئيء دائرة، جمعہ أفلاک، واختلف العقلاء فیہ فقال بعضہم: الفلک لیس بجسم، وانما ھو مدار النجوم، وھو قول ضحاک“ ․ (التفسیر الکبیر، الانبیاء تحت آیة رقم:33)
اہل عرب کے محاورے میں ہر گول چیز کو فلک کہتے ہیں، اس کی جمع افلاک ہے ، فلاسفہ کا اس میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہفلک کوئی جسم نہیں رکھتا، درحقیقت یہ ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں اور یہی ضحاک کا قول ہے۔ تفسیر کبیر کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ فلک ستاروں کا مدار ہے ۔
کمالین حاشیہ جلالین میں ہے۔
”… ان الفلک غیر السماء، قال الجمہور: الفلک موج مکفوف تحت السماء تجری فیہ الشمس والقمر والنجوم․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الأیة 33، حاشیہ:13)
فلک آسمان کے علاوہ ایک چیز ہے، جمہور علماء فرماتے ہیں کہ فلک آسمان کے نیچے ایک ٹھہری ہوئی موج کا نام ہے، جس میں سورج اور چاند ستارے تیرتے رہتے ہیں۔
مذکورہ عبارت سے صاف معلوم ہوا کہ فلک او رآسمان دو جدا جدا چیزیں ہیں ، نیز فلک آسمان کے نیچے ہے اور ستاروں کا مدار ہے ۔
حاشیہ کمالین میں علامہ عسقلانی رحمہ الله نے صاف لفظوں میں فرمایا:” السمٰوت السبع عند اہل الشرع غیر الأفلاک․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الایة 33، حاشیہ:13)
یعنی اہل شرع کے نزدیک سات آسمانوں سے افلاک مراد نہیں ہیں۔
علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾ کی تفسیر میں فلک اور آسمان کی بحث کرتے ہوئے ان لوگوں کو خطاوار اور سلف صالحین کے موقف کا مخالف گردانا ہے جو آسمان اور فلک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں ، چناں چہ لکھتے ہیں۔
” وقد اخطئوا فی ذلک، وخالفوا سلف الأمة فیہ، فالفلک غیر السماء“․ (روح المعانی، الصف، تحت آیة رقم:6)
” یہ آسمان اور فلک کوایک ہی چیز سمجھنے والے سر اسر غلط فہمی کا شکار ہیں او ران کا موقف سلف صالحین کے موقف سے میل نہیں کھاتا، فلک اور آسمان جدا جدا چیزیں ہیں۔“
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا علمائے ہیئت کا موقف کہ آسمان اور فلک ایک ہی چیز ہے ا وران کی تعداد نو ہے ، غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ علامہ آلوسی رحمہ الله تعالی نے ایسے لوگوں پر بہترین الفاظ میں تبصرہ کیا ہے ۔
”ان من تصدی لتطبیق الآیات والاخبار علی ما قالہ الفلاسفة مطلقاً فقد تصدی لأمر لایکاد یتم لہ، والله تعالیٰ ورسولہ أحق بالاتباع․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)
”آیات واحادیث اور فلاسفہ کے اقوال میں موافقت پیدا کرنے والا شخص کبھی اپنے مقصد میں بامراد نہیں ہوسکتا، اتباع کے لائق تو صرف الله تعالیٰ اور اس کے رسول ہی ہیں۔“
آسمان کا اسلامی تصور
آسمانوں کے اسلامی تصور کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ عبدالحق حقانی دہلوی رحمہ الله لکھتے ہیں:
”الہامی کتابوں بالخصوص قرآن مجید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آسمان کوئی مجسم چیز ہے، جو قیامت کو پھٹ جائے گی، عام ہے کہ وہ کوئی جسم اور کسی قسم کا ہو، قال الله تعالی: ﴿إذا السماء انفطرت﴾ وقال: ﴿إذا السماء کشطت…﴾ کیوں کہ اگر آسمان فضا یا بُعد موہوم کا نام ہے، جیسا کہ بعض مقلدین یورپ کا قول ہے تو وہ ایک عدمی چیز ہے ، اس کا پھٹنا او راس کے چھلکوں یعنی طبقات کا اکھڑنا اور ا س کو پیدا کرنا او ربنانا جس طرح کہ زمین او راس کی چیزیں بنائیں یا اس کی کھڑکیاں کھلنا جس کا توراة میں ذکر ہے اوراس کو سقف محفوظ ( چھت) کہنا چہ معنی دارد؟۔ “( تفسیر حقانی، البقرہ: تحت آیة رقم:29)
خلاصہ کلام یہ ہے:
فلک اور آسمان دو مختلف چیزیں ہیں۔
فلک ، شمس وقمر اور سیاروں کا مدار ہے۔
فلک سے آسمان مراد لینا سلف صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ۔
سیاروں کے مدار فلک کو آسمان قرار دینے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی فلک قمر کو آسمان اول ، فلک عطارد کو آسمان دوم، فلک زہراء کو آسمان سوم، فلک شمس کو آسمان چہارم ، فلک مریخ کو آسمان پنجم، فلک مشتری کو آسمان ششم اور فلک زحل کو آسمان ہفتم، فلک الثوابت کو آسمان ہشتم (عرش الہی) فلک الأفلاک کو آسمان نہم ( کرسی) قرار دینا شرعاً شدید ترین غلطی ہے ، کیوں کہ ساتوں آسمان تمام سیاروں، ستاروں او راجرام فلکی کے اوپر واقع ہیں۔
آسمانوں کی تعداد سات ہے۔
تفسیر
آیت کریمہ میں لفظ”ثم“ ترتیب اور تقدیم وتاخیر ظاہر کرنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ صرف فرق زمانی ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے ۔ (تفسیر بیضاوی، البقرة تحت آیة رقم:29)
”اسْتَوَی“ کے صلے میں جب ”إلی“ استعمال ہو تو اس کا معنی قصد اور توجہ ہوتا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:29)
لہٰذا آیت کریمہ کا معنی ہوا کہ الله تعالیٰ نے آسمان کی تخلیق کا قصد فرمایا۔ ( تفسیر المدارک، البقرة تحت آیة، رقم:29)
آسمان سے کیا مراد ہے؟
اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ”السَّمَاء“ کا لفظ قرآن کریم میں مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے، مثلاً چھت کے لیے﴿ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاء﴾ (الحج:15) یعنی إلی سقف البیت․
بادلوں کے معنی میں﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً﴾ (المؤمنون:18)
یعنی من السحاب․ ( الوجوہ والنظائر لکتاب الله العزیز، باب السین، ص:272، بیروت)
لیکن آیت کریمہ ﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾میں سات آسمانوں سے کیا مراد ہے؟ آسمان کوئی وجود رکھتا ہے یا صرف خلا کا نام آسمان ہے؟ آسمان کے بارے میں کتنی آرا ہیں؟ اور ان کی علمی اور شرعی حیثیت کیا ہے ؟ یہاں اسی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
پہلی رائے: کائنات کے حقائق کو صرف سائنس کی نظر سے دیکھنے والے سائنس دان او ران کے ہم نواؤں کی رائے یہ ہے کہ آسمان اسی خلا کا نام ہے جو تاحد نظر پھیلا ہوا ہے، اس طبقے کے مفسر سرسید اسی رائے کو درست قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” اس مقام پر سماء کے لفظ سے وہ وسعت مراد ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوپر دیکھتا ہے ، پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس وسعت کی طرف متوجہ ہوا جو انسان کے سر پر بلند دکھائی دیتی ہے اور ٹھیک اس کو سات بلندیاں کر دیں ۔ “( تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، البقرہ تحت آیة رقم:29)
اس رائے پہ اشکال ہوا کہ اس وسعت پر سات کے عدد کا اطلاق کس ضرورت کے پیش نظر ہوا ؟ سر سید اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”اس زمانے کے لوگ جو بلحاظ سبع سیارات یہ سمجھتے تھے کہ آسماں سات ہیں ، انہیں لوگوں کے خیال کے مطابق سات کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے۔“ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان: البقرہ تحت آیة رقم:29)
دوسری رائے: یہ ہے کہ آسمان سے اجرام علویہ ( ستارے کواکب) مراد ہیں، اس تفسیر پر بھی اشکال ہوا کہ اجرام علویہ ( ستارے وغیرہ) کی تعداد تو اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں شمار میں نہیں لایا جاسکتا ، پھر قرآن کریم میں﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾ فرماکر انہیں سات کے عدد کے اند ر کیوں محدود کر دیا ؟ اس کا جواب دیا گیا کہ سات کا عدد تحدید کے لیے نہیں،بلکہ ستاروں کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے لایا گیا ہے ، جس طرح قرآن کریم میں ایک مقام پر سات سمندروں سے کثرت سمندر مراد لیے گئے ہیں ۔ ﴿وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہِ﴾․ (لقمان:27)
ترجمہ: ”او راگر جتنے درخت ہیں زمین میں قلم ہوں اور سمندر ہو اس کی سیاہی، اس کے پیچھے ہوں سات سمندر، نہ تمام ہوں باتیں الله کی۔“
تیسری رائے: علمائے ہیئت اور حکمائے یونان کی ہے کہ افلاک کی تعداد نو ہے یونانی حکمت کی کتابیں جب عربی میں ترجمہ ہو کر آئیں تو علمائے ہیئت نے نہ صرف انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا، بلکہ اسلامی علوم اور یونانی حکمت میں موافقت پیدا کرنے کی غرض سے یہ دعوی بھی کر ڈلا کہ آسمان کی تعداد نو ہے ، چناں چہ ہماری حکمت کی کتابوں ( شرح چغمینی وغیرہ) میں یہ قول ایک مسلم دعوی کے طور پر مذکور ہے، سات آسمان تو وہی جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے باقی دو عرش اور کرسی ہیں ، جنہیں آسمان قرارا دے کر آسمان کی تعداد نو کر دی گئی ، علمائے ہیئت آسمان او رافلاک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں۔
اس رائے پر بھی اشکال ہوا کہ قرآن کریم میں تو آسمانوں کی تعداد سات بتائی گئی ہے پھر آسمان نو کیسے ہوئے ؟ علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمہ الله نے اس کا جواب دیا کہ گو قرآن کریم میں سات کے عدد کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، لیکن اس سے زائد عدد کی نفی کہاں ثابت ہوئی؟
پہلی رائے پر ایک نظر: سائنس صرف اس چیز کو تسلیم کرتی ہے جو مشاہدات، تجربات اور عقلی دلائل سے اپنا وجود منواسکے، سائنسی عقائد میں ایمان بالغیب کی حیثیت ایک لطیفے سے زیادہ نہیں(اس کی تفصیلی بحث مقدمے میں دیکھیے) اور اسلام نے جس آسماں کا تصور دیا ہے وہ تاحال مشاہدے میں نہیں آیا اس لیے سائنس دانوں نے خلاء ہی کو آسمان قرار دیا ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ سائنس کے ظنی فنون کو وحی الہٰی میں دخل اندازی کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟ سائنس کی محدود معلومات ومشاہدات کا عالم تو یہ ہے کہ خود ان کے بیان کے مطابق ”ان کی نظر دیوقامت عظیم ترین دور بینوں کے ذریعے بھی صرف دس کھرب میل نوری سال کے فاصلے تک پہنچ سکی ہے ۔“ (خلاصہ تفسیر القرآن، باب اول:101/1)
اور اجرام فلکی اس سے بھی آگے ہیں او رساتوں آسمان تو ان سے بھی بلند وبالا ہیں ، اگر سائنس اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود آسمان کا مشاہدہ نہ کر سکی تو اس میں قصور اور عاجزی سائنس کی ہے ؟ یا وحی کی ؟
البتہ جو لوگ وحی پر ایمان ویقین ہی نہ رکھتے ہوں ان سے اس بات پر گفتگو کرنا بے سود ہے۔
دوسری رائے پر ایک نظر: آسمان سے اجرام فلکیہ (سیارے) مراد لینا دو وجہ سے درست نہیں۔
1...قرآن کریم نے اجرام فلکیہ کو پہلے آسماں کی زینت قرار دیا ہے ﴿ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾․ (الملک:5)
ترجمہ:” اور ہم نے رونق دی سب سے ورلے آسماں کو چراغوں سے۔“
2...﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾․ (الصف:6)
ترجمہ:” ہم نے رونق دی ( سب سے) ورلے آسماں کو ایک رونق جوتارے ہیں۔“
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اجرام فلکیہ (ستارے وغیرہ) اور آسماں دو جدا جدا چیزیں ہیں، انہیں ایک قرار دینا درست نہیں۔اجرام فلکیہ لاتعداد اور بے شمار ہیں اور آسمانوں کے بارے میں قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ وہ سات ہیں﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾․
”پھر قصد کیا آسماں کی طرف، سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسمان“
﴿فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْْن﴾․(فصلت:12)
”پھر کر دیے وہ سات آسمان دو دن میں ۔“
﴿اللَّہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُن﴾․ (الطلاق:12)
ترجمہ:”الله وہ ہے جس نے بنائے سات آسمان او رزمینیں بھی اتنی ہیں۔“
﴿الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً﴾․(الملک:3)
ترجمہ: ”جس نے بنائے سات آسماں تہ پر تہ۔“
مذکورہ آیات میں جس قدر تکرار او راہتمام کے ساتھ آسمانوں کی تعداد بیان کی گئی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں عدد بیان کرنے کا مقصد آسمانوں کی محدود تعداد کااظہار ہے ، نیز اہل زبان نے بھی یہی مطلب سمجھا، لہٰذا صرف ایک عقلی احتمال کی بنا پر ”عدد“ کو کثرت آسمان کی دلیل بنانا کس طرح درست ہو گا؟
تیسری رائے پر ایک نظر: تیسری رائے ان علمائے ہئیت کی تھی جو یونانی حکمت سے حدر درجہ متاثر تھے، فلسفہ اور شریعت کے کلام میں موافقت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے آسمان اورافلاک کو ایک ہی چیز شمارکرکے آسمانوں کی تعداد نو قرار دی، چناں چہ علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾ (الملک:5) کی تفسیر میں علمائے ہئیت کے اس موقف پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”وکون السماء، ھی الفلک، خلاف المعروف عن السلف، وانما ھو قول قالہ من أراد الجمع بین کلام الفلاسفة الأولی وکلام الشریعة، فشاع فی ما بین الاسلام، واعتقدہ من اعتقدہ․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)
ترجمہ:” آسماں کو ہی فلک قرار دینا سلفِ صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ، یہ قول درحقیقت ان لوگوں کا ہے جنہوں نے متقدمین فلاسفہ اور شریعت کے کلام میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی، پھر یہی قول اہل اسلام میں پھیل گیا او رجس نے چاہا اسے عقیدہ کے طور پر اختیار کر لیا۔“
اب ذیل میں فلک کا مفہوم ذکر کیا جاتا ہے، جو آسمان کے مفہوم سے قطعی طور پر مختلف ہے۔
فلک کا مفہوم آسمان سے مختلف ہے۔
اصطلاح شریعت میں فلک ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں، چناں چہ علامہ راغب اصفہانی رحمہ الله لکھتے ہیں
”الفلک مجری الکواکب وتسمیتہ بذلک لکونہ کالفلک“․ ( مفردات القرآن للراغب، فلک: ص:432)
” فلک سے ستاروں کا مدار مراد ہے اور فلک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کشتی کی طرح گول ہے۔“
علامہ فخر الدین رازی رحمہ الله﴿وکل فی فلک یسبحون﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”الفلک فی کلام العرب کل شئيء دائرة، جمعہ أفلاک، واختلف العقلاء فیہ فقال بعضہم: الفلک لیس بجسم، وانما ھو مدار النجوم، وھو قول ضحاک“ ․ (التفسیر الکبیر، الانبیاء تحت آیة رقم:33)
اہل عرب کے محاورے میں ہر گول چیز کو فلک کہتے ہیں، اس کی جمع افلاک ہے ، فلاسفہ کا اس میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہفلک کوئی جسم نہیں رکھتا، درحقیقت یہ ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں اور یہی ضحاک کا قول ہے۔ تفسیر کبیر کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ فلک ستاروں کا مدار ہے ۔
کمالین حاشیہ جلالین میں ہے۔
”… ان الفلک غیر السماء، قال الجمہور: الفلک موج مکفوف تحت السماء تجری فیہ الشمس والقمر والنجوم․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الأیة 33، حاشیہ:13)
فلک آسمان کے علاوہ ایک چیز ہے، جمہور علماء فرماتے ہیں کہ فلک آسمان کے نیچے ایک ٹھہری ہوئی موج کا نام ہے، جس میں سورج اور چاند ستارے تیرتے رہتے ہیں۔
مذکورہ عبارت سے صاف معلوم ہوا کہ فلک او رآسمان دو جدا جدا چیزیں ہیں ، نیز فلک آسمان کے نیچے ہے اور ستاروں کا مدار ہے ۔
حاشیہ کمالین میں علامہ عسقلانی رحمہ الله نے صاف لفظوں میں فرمایا:” السمٰوت السبع عند اہل الشرع غیر الأفلاک․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الایة 33، حاشیہ:13)
یعنی اہل شرع کے نزدیک سات آسمانوں سے افلاک مراد نہیں ہیں۔
علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾ کی تفسیر میں فلک اور آسمان کی بحث کرتے ہوئے ان لوگوں کو خطاوار اور سلف صالحین کے موقف کا مخالف گردانا ہے جو آسمان اور فلک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں ، چناں چہ لکھتے ہیں۔
” وقد اخطئوا فی ذلک، وخالفوا سلف الأمة فیہ، فالفلک غیر السماء“․ (روح المعانی، الصف، تحت آیة رقم:6)
” یہ آسمان اور فلک کوایک ہی چیز سمجھنے والے سر اسر غلط فہمی کا شکار ہیں او ران کا موقف سلف صالحین کے موقف سے میل نہیں کھاتا، فلک اور آسمان جدا جدا چیزیں ہیں۔“
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا علمائے ہیئت کا موقف کہ آسمان اور فلک ایک ہی چیز ہے ا وران کی تعداد نو ہے ، غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ علامہ آلوسی رحمہ الله تعالی نے ایسے لوگوں پر بہترین الفاظ میں تبصرہ کیا ہے ۔
”ان من تصدی لتطبیق الآیات والاخبار علی ما قالہ الفلاسفة مطلقاً فقد تصدی لأمر لایکاد یتم لہ، والله تعالیٰ ورسولہ أحق بالاتباع․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)
”آیات واحادیث اور فلاسفہ کے اقوال میں موافقت پیدا کرنے والا شخص کبھی اپنے مقصد میں بامراد نہیں ہوسکتا، اتباع کے لائق تو صرف الله تعالیٰ اور اس کے رسول ہی ہیں۔“
آسمان کا اسلامی تصور
آسمانوں کے اسلامی تصور کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ عبدالحق حقانی دہلوی رحمہ الله لکھتے ہیں:
”الہامی کتابوں بالخصوص قرآن مجید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آسمان کوئی مجسم چیز ہے، جو قیامت کو پھٹ جائے گی، عام ہے کہ وہ کوئی جسم اور کسی قسم کا ہو، قال الله تعالی: ﴿إذا السماء انفطرت﴾ وقال: ﴿إذا السماء کشطت…﴾ کیوں کہ اگر آسمان فضا یا بُعد موہوم کا نام ہے، جیسا کہ بعض مقلدین یورپ کا قول ہے تو وہ ایک عدمی چیز ہے ، اس کا پھٹنا او راس کے چھلکوں یعنی طبقات کا اکھڑنا اور ا س کو پیدا کرنا او ربنانا جس طرح کہ زمین او راس کی چیزیں بنائیں یا اس کی کھڑکیاں کھلنا جس کا توراة میں ذکر ہے اوراس کو سقف محفوظ ( چھت) کہنا چہ معنی دارد؟۔ “( تفسیر حقانی، البقرہ: تحت آیة رقم:29)
خلاصہ کلام یہ ہے:
فلک اور آسمان دو مختلف چیزیں ہیں۔
فلک ، شمس وقمر اور سیاروں کا مدار ہے۔
فلک سے آسمان مراد لینا سلف صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ۔
سیاروں کے مدار فلک کو آسمان قرار دینے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی فلک قمر کو آسمان اول ، فلک عطارد کو آسمان دوم، فلک زہراء کو آسمان سوم، فلک شمس کو آسمان چہارم ، فلک مریخ کو آسمان پنجم، فلک مشتری کو آسمان ششم اور فلک زحل کو آسمان ہفتم، فلک الثوابت کو آسمان ہشتم (عرش الہی) فلک الأفلاک کو آسمان نہم ( کرسی) قرار دینا شرعاً شدید ترین غلطی ہے ، کیوں کہ ساتوں آسمان تمام سیاروں، ستاروں او راجرام فلکی کے اوپر واقع ہیں۔
آسمانوں کی تعداد سات ہے۔
صفات متشابہات کی بحث
﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء﴾ کے ذیل میں بعض علماء نے صفات متشابہات کی بحث چھیڑی ہے، اس مناسبت سے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ اختصار کے ساتھ نقل کیا جا رہا ہے، اس موضوع پر تفصیلی مباحث اور سلف صالحین کا تفصیلی موقف جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کریں۔”القول التمام بإثبات التفویض مذھباً للسّلف الکرام“ مؤلف سیف بن علی․
﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․
اہل سنت والجماعت کا اجتماعی اور اتفاقی عقیدہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ زمان ومکان کی حدود سے اور سمت وجہت کی قیود سے پاک اور منزّہ ہے (ولا محدود ولا معدود، ولا یوصف بالماھیة ولا بالکیفیة، ولا یتمکن فی مکان (إذا لم یکن فی مکان لم یکن فی جھة، لاعلو ولاسفل ولا غیرھما) ولا یجری علیہ زمان، العقائد النسفیة، ص:43، مع شرح التفتازانی)
وہ عرش کا محتاج ہے نہ فرش کا، عرش وکرسی کے وجود میں آنے سے پہلے وہ جس شان میں تھا اب بھی اسی شان میں ہے ۔
البتہ جہاں تک بحث قرآن وحدیث کے ان الفاظ کے متعلق ہے جو الله تعالیٰ کے لیے عرش پر قرار پکڑنے:﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (الاعراف، آیت:54)اور چہرہ:﴿وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّک﴾․ (الرحمن، آیت:27)ہاتھ:﴿ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․ (الفتح، آیت:10)آنکھ: ﴿وَلِتُصْنَعَ عَلَی عَیْْنِی﴾․ (طہ، آیت:39)پنڈلی:﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَن سَاق﴾․(القلم:42) وغیرہ ہونے پر دلالت کناں ہیں ، تو انہیں اسلاف نے صفات متشابہات قرار دے دیا ہے۔ کیوں کہ اگر انہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو تجسیم وتشبیہ کی راہیں کھلتی ہیں اور اگر صرف تنزیہ وتجرید کے تقاضے ملحوظ رکھے جائیں تو انکارِ صفات کے پہلو نکلتے ہیں۔
فرقہ مجسمہ اور مشبہہ نے تو ان صفات کے حقیقی معنی مراد لے کر تجسیم وتشبیہ کی تمام منزلیں طے کر ڈالیں اور برملا یہ دعویٰ کر دیا کہ الله تعالیٰ بھی اس طرح ہاتھ ، پاؤں رکھتے ہیں جس طرح ایک مخلوق رکھتی ہے۔ (شرح المقاصد، المقصد الخامس، 37/3)
اور آسمان وزمین کی تخلیق کے بعد اسی طرح عرش پر بیٹھے ہیں، جس طرح ایک بادشاہ ملکی امور کی انجام دہی کے بعد تختِ شاہی پر فروکش ہوتا ہے۔
دوسری طرف تنزیہ وتجرید کے علم بردار معتزلہ، معطلہ جہمیہ نے مذکورہ صفات کو توحید باری تعالیٰ کے منافی قرار دے کر انہیں مجازی معنی پر محمول کیا اورپھر اسی کو حرف آخر اور حتمی بھی قرار دیا ہے۔ ( التمہید لابن عبدالبر،145/7)
افراط وتفریط کی اس کش مکش میں اہل سنت والجماعت ہی ایسا گروہ تھا جو اعتدال کی راہ پر گام زن رہا اور سلف صالحین کے نقش قدم پہ چل کر تعبیر وتشریح کے اس پیچیدہ مقام سے باسلامت گزر گیا۔
اہل سنت والجماعت کا مسلک
متقدمین سلف صالحین کا موقف: متقدمین سلفِ صالحین کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات متشابہات قرآن وحدیث او راجماع امت سے ثابت ہیں ان کے متعلق بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ :
جو لفظ صفت باری پر دلالت کناں ہے اس کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ثابت ہے۔
اس لفظ سے اس کا ظاہری اور حقیقی معنی ہر گز مراد نہیں ۔
نیز ذات بار ی مخلوق کی مشابہات سے پاک ہے۔ (” نؤمن بأن الاستواء ثابت لہ تعالی( بمعنی یلیق بہ ھو سبحانہ اعلم بہ) کماجری علیہ السلف رضوان الله تعالیٰ علیہم فی المتشابہ من التنزیہ عمالا یلیق بجلال الله تعالیٰ مع تفویض علم معناہ إلیہ سبحانہ․“ المسایرہ شرح المسامرہ لابن الہمام، ص:45)․
” وانما یسلک فی ھذا المقام مذھب السلف الصالح، الأوزاعي والثوری واللیث بن سعد والشافعی وأحمد بن حنبل واسحاق بن راھویہ وغیرہم من أئمة المسلمین، قدیماً وحدیثاً، وھو إمرار،کما جاء ت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل، والظاہر المتبادر إلی اذھان المشبھین منفی عن الله، فإن الله لا یشبہہ شيء من خلقہ․“ ( تفسیر ابن کثیر، الاعراف، تحت آیت: رقم:54)
یہ اہل سنت کا مسلمہ موقف ہے جس پر چندد لائل پیش خدمت ہیں۔
امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کی مجلس میں ایک شخص نے ﴿الرحمن عَلَی الْعَرْش اسْتَوَی﴾ کی تلاوت کرکے یہی سوال اٹھایا کہ الله تعالیٰ کا استوا کیسا ہے ؟ امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے ایک لمحہ سوچ کر ارشاد فرمایا یہ استوا ایسا ہی ہے جیسا الله تعالیٰ نے آیت کریمہ میں اپنے بارے میں بیان فرما دیا ہے ۔ الرحمن ( یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے) اس کی کوئی کیفیت نہیں ( کیوں کہ یہ جسم کی خصوصیت ہے) اس لیے یہاں کیفیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (”فقال: (الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ․ ولا یقال کیف، وکیف عنہ مرفوع․“(الدرالمنثور، لابن الجوزی، الاعراف، تحت آیة رقم:54) (ھکذا فی کتاب الاسماء والصفات للإمام البیہقی، ص:408)
امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے اپنے جواب میں اہل سنت والجماعت کے موقف کی ترجمانی فرمائی ہے کہ استوی بار ی تعالیٰ کی متشابہہ المعنی صفت ہے، لہٰذا صفت استویٰ کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اس کے معنی ومراد پر لب کشائی سے گریز کرنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے اہل سنت استوی کی تشریح مایلیق بہ ( ایسا استوی جو اس کے شایان شان ہے) سے کر دیتے ہیں۔
امام ترمذی رحمہ الله اپنی سنن میں صفات متشابہات کے متعلق جمہور اہل سنت کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان صفات پر صدق دل سے ایمان لاکر اس کی کوئی تفسیر نہ کی جائے، بلکہ ایسا وہم بھی نہ لایا جائے جس سے تجسیم وتشبیہ کا اشارہ نکلتا ہو ، ائمہ اہل سنت سفیان الثوری، مالک بن انس، عبدالله بن المبارک وغیرہ سب کا یہی مسلک ہے ۔ (”والمذھب فی ھذا عند اھل العلم من الأئمة مثل سفیان الثوری ومالک ابن انس، وابن المبارک، وابن عینیة ووکیع وغیرہ… وھذا الذی اختارہ أھل الحدیث أن تروی ھذہ الأشیاء کما جاء ت ویؤمن بھا، ولا تفسر، ولا تتوھم، ولا یقال کیف…“․ (”سنن الترمذی، تحت حدیث، رقم:2557: مزید کتاب التفسیر سورہ المائدہ، رقم الحدیث:3045، باب ماجاء فی خلود)
قرآن وحدیث میں بارہا ید (ہاتھ) کا لفظ الله تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے، جس پر علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فرمایا کہ اس (ید) سے وہ ہاتھ ہر گز مراد نہیں جس کا ذکر ہوتے ہی ہمارے دل ودماغ میں ایک جسمانی عضو کا تصور دوڑنے لگتا ہے ، بلکہ یہ ایک صفت باری تعالیٰ ہے ( جس کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے ) لہٰذا اس صفت پر ایمان لا کر توقف اختیار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہی اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے ۔ (”ولیس الید عندنا الجارحة، إنما ھی صفة جاء بہ التوقیف، فنحن نطلقھا علی ماجاء ت، ولا نکیفھا، وھذا مذھب أھل السنة والجماعة․“ (فتح الباری لابن حجر، تحت حدیث رقم باب قول الله تعالیٰ: (تعرج الملٰئکة والروح إلیہ) رقم الحدیث:6993) امرارھا علی ماجاء ت مفوضا معناہ إلی الله تعالی… قال الطیبی: ھذا ھو المذھب المعتمد، وبہ یقول السلف الصالح․“ ( فتح الباری لابن حجر باب قول الله تعالیٰ ولتصنع علی عینی، رقم الحدیث:6972)
دیکھیے علامہ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ نے صفات متشابہات کے متعلق واضح فرما دیا ہے کہ یہ متشابہہ المعنی صفت ہے ، لہٰذا اس کی تلاوت پر اکتفا کرکے اس کے معنی ومراد کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔
علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ الله اور سفیان بن عینیہ رحمہ الله کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :” کسی شخص کے لیے یہ روا نہیں کہ صفاتِ متشابہات کی تفسیر عربی یا عجمی زبان میں کرتا پھرے ۔ ان الفاظ کو پڑھ کر ان سے گزر جانا ہی بس ان کی تفسیر ہے۔“ ( ”ما وصف الله تبارک وتعالیٰ بنفسہ فی کتابہ فقرأتہ تفسیرہ، لیس لأحد أن یفسرہ بالعربیة ولابالفارسیة․“(کتاب الأسماء والصفات للبیہقی مع الھامش، ص:314)
علامہ بیہقی رحمہ الله فرماتے ہیں:متقدمین سلف صالحین استواء اوراسی جیسی تمام صفاتِ متشابہات کی کوئی تفسیر نہیں کرتے تھے۔“ ( ”فأما الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا کانوا لایفسرونہ، ویتکلمون فیہ کنحو مذھبہم فی أمثال ذلک․“ (کتاب الأسماء والصفات للبیہقی، ص:407)
مذکورہ بالا دلائل سے متقدمین سلف صالحین کا موقف روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ صفات متشابہہ المعنی ہیں ، ان کے ظاہری معنی مراد لینا کسی طرح درست نہیں۔
متقدمین کے مسلک پر کچھ شہبات
پہلا شبہ: اگر صفات متشابہات ، استوی ، ید، وجہ وغیرہ کے ظاہری معنی اس لیے مراد نہیں لیے جاسکتے کہ اس سے جسمانیت کے پہلو سامنے آتے ہیں تو پھر محکم صفات علم ، قدرت ، حیات وغیرہ کا تصور بھی تو جسمانیت کے بغیر نہیں ہو سکتا، انہیں بھی متشابہات قرار دیا جائے۔
جواب… اس شبہ کی یہ بنیاد ہی غلط ہے کہ محکم صفات ، علم، قدرت ، حیات کا تصور جسم کے بغیر نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ان صفات کا اطلاق جب باری تعالیٰ پر کیا جاتا ہے تو اس کی اولین دلالت جسم پر نہیں ہوتی، بلکہ ان الفاظ کے کانوں میں پڑتے ہی جو معانی اخذ ہوتے ہیں اس میں تنزیہ وتجرید کے تقاضے پوری طرح جلوہ گر ہوتے ہیں اور دل ودماغ کے کسی گوشے میں جسم کا تصور نہیں ابھرتا، برخلاف صفاتِ متشابہات ، استواء ِید، وجہ، کے کہ ان الفاظ کی اولین دلالت ہی جسمانیت پر ہوتی ہے ۔ ان کے ظاہری معنی مراد لینے کے بعد جسمانی لوازم کو وہم وخیال سے دور نہیں رکھا جاسکتا، لہٰذا اگر متشابہات اور محکمات میں یہ فرق ملحوظ رکھاجائے تو اشکال پیدا ہی نہ ہو ۔
دوسرا شبہ: اگر متشابہات کے معنی مراد کا علم صرف الله تبارک وتعالیٰ کو ہے تو پھر ان کو قرآن کریم میں ذکر کرنے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : اگرچہ ہمیں صفات متشابہات کے معنی ومراد کا علم نہیں، لیکن ان پر ایمان لانا بھی باعث نجات اور ثواب ہے ، علاوہ ازیں اس کی تلاوت کے بھی معنوی فوائد اوربرکات ہیں ،اگرچہ ان تک ہماری رسائی نہیں ہے۔
متاخرین اہل سنت والجماعت کا موقف
متأخرین سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ صفات متشابہات کے ایسے مجازی معنی بیان کیے جاسکتے ہیں جو الله تبارک وتعالیٰ کے شایان شان ہوں، بشرطے کہ:
اس لفظ کے اندر مجازی معنی مراد لینے کی گنجائش ہو۔
نیز اس مجازی معنی کو احتمال تفسیر کے درجے میں رکھا جائے، انہیں قطعی اوریقینی نہ کہا جائے۔
لہٰذا ”ید“ سے قدرت ، ”وجہ“ سے ذات اور استوا سے استیلا (غلبہ) مراد لیا جاسکتا ہے ۔ ( المسایرہ فی العقائد المنجیة فی الأخرة، ص:47,44)
تاویل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
چوں کہ متاخرین کے زمانے میں کئی فرقہائے باطلہ رواج پذیر ہو کر امت مسلمہ کی وحدت فکر کو پارہ پارہ کرنے میں مصروف کار تھے ، جن میں سر فہرست مجسمہ او رمشبہہ ایسے فرقے تھے جو صفات متشابہات کے ظاہری الفاظ کا سہارا لے کر الله تعالیٰ کے لیے مخلوق کی طرح ہاتھ ، پاؤں، چہرہ، پنڈلی وغیرہ ثابت کرتے تھے۔
متاخرین سلف صالحین نے جب دیکھا کہ یہ فرقہائے باطلہ عوام کی ذہنی سطح سے غلط فائدہ اٹھا کر انہیں گم راہی کی طرف دھکیل رہے ہیں تو انہوں نے تاویل کا مسلک اختیارکرکے تمام متشابہات کے مناسب ، سادہ عام فہم معانی بیان کیے، مثلاً کہا ید سے ہاتھ نہیں قدرت مراد ہے، وجہ سے چہرہ نہیں بلکہ ذات مراد ہے، استوی سے استقرار وجلوس نہیں بلکہ استیلا اور غلبہ مراد ہے، تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کومجسمہ اور مشبہہ کے گم راہ کن خیالات سے بچایا جاسکے۔
مسلکِ تاویل کی بنیاد کی وہ آیت کریمہ ہے جو متشابہات کے متعلق وارد ہے ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا﴾․ (آل عمران:7)
اس آیت کریمہ کی ایک قرأت میںإ لا الله پر وقف نہیں ہے، اس صورت میں ﴿الراسخون فی العلم﴾ کا لفظ الله پر عطف ہو گا اور آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہات کی تاویل کا علم الله کو او رعلمائے راسخین کو ہے ۔ متاخرین نے اسی قرأت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے۔ ( المسامرہ مع شرحہ المسایرہ ص:45، بیروت)
متاخرین کے مسلک پر کچھ شبہات او ران کا ازالہ
پہلاشبہ: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله نے فقہ اکبر میں تصریح فرمائی ہے کہ ”ید“ سے قدرت یا نعمت مراد لینا جائز نہیں، کیوں کہ اس طرح تاویل کرنے سے صفت باری تعالیٰ کاابطال لازم آتا ہے۔ (فماذکرہ الله تعالیٰ فی القرآن من ذکر الوجہ، والید، والنفس فہو لہ صفات بلاکیف ولایقال: إن یدہ قدرتہ أو نعمتہ، لأن فیہ ابطال الصفة وھو قول اھل القدر والا عتزال․“ (الفقہ الأکبر مع شرحہ للملا علی القاری، ص:67)
دیکھیے امام صاحب تو تاویل کے مسلک کو ناجائز قرار دے رہے ہیں ، لیکن ان کے مقلدین اسی مسلک کو حرزِ جان بنائے ہوئے ہیں، یہ امام صاحب کے مسلک سے انحراف نہیں ہے؟
جواب: اگر فقہ اکبر کی مکمل عبارت پڑھ لی جاتی تو اشکال پیدا نہ ہوتا، کیوں کہ امام صاحب نے صفات متشابہات میں اس تاویل کو ناجائز فرمایا ہے جسے قطعیت کے درجے پر فائز کر دیا گیا ہو ، جس کے نتیجے میں صفات کے اصل کلمات بے معنی ہو کر رہ جائیں ، چوں کہ ایسی تاویل معتزلہ وغیرہ کرتے ہیں ، اس لیے امام صاحب نے ان کی تردید فرمائی ہے ، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس عبارت کے متصل بعد ہی امام صاحب نے فرمایا ”وھو قول اھل القدر والاعتزال“ یعنی صفات میں تاویل کرکے اسے قطعی سمجھنا معتزلہ اور قدریہ کا مسلک ہے ۔
جہاں تک اہل سنت والجماعت کی بات ہے وہ جب کسی لفظ کی تاویل کرتے ہیں تو اس سے ایسے معنی مراد لیتے ہیں۔
جس کا وہ لفظ احتمال بھی رکھتا ہو ۔
لفظ کے اصل معنی کی نفی بھی نہ ہوتی ہو ۔
اور وہ تفسیر ظن اور احتمال کے درجے میں ہو۔
مثلاً آیت کریمہ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون﴾ کا معنی یہ ہے کہ جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن صوفیا اس کی تفسیر عمومی معنی میں کرتے ہیں ”جو ہم نے ان کومال وعلم دیا ہے “ یہاں علم مراد لینے سے مال کی نفی نہیں ہوتی، اسی طرح ید سے قدرت ونعمت اور وجہ سے ذات مراد لینے سے بھی لفظ کے اصل معنی ہاتھ اور چہرے کی نفی نہیں ہوتی۔ اہل سنت والجماعت اور فرقہائے باطلہ میں یہی بنیادی فرق ہے، چناں چہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں:
” اعتراض ہوتا ہے کہ جس طرح گروہ اشاعرہ، ماترید یہ تاویلات کرتے ہیں ، معتزلہ او رجہمیہ بھی تاویلات کرتے ہیں ان میں او ران میں کیا فرق ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں کی تلاویلات میں فرق یہ ہے کہ اشاعرہ ماتریدیہ تاویلات پر جزم نہیں کرتے، برخلاف معتزلہ وغیرہ کے کہ وہ تلاویلات کرتے ہیں او رکہتے ہیں بس یہاں یہی معنی مراد ہیں ۔(معارف مدنیہ ، ص:47)
دوسرا شبہ: علامہ تفتازانی رحمہ الله تعالی، شرح عقائد نسفیہ میں لکھتے ہیں کہ صفات باری تعالی کے متعلق اشاعرہ اور ماتریدیہ کا موقف یہ ہے کہ ہر ہر صفت اپنے معنی ومراد کے اعتبار سے دوسری صفت کے مقابلے میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، کسی بھی صورت میں دو صفات کوہم معنی اور مترادف نہیں قرار دیا جاسکتا۔ (ولہ صفات لما ثبت من أنہ تعالیٰ عالم، قادر، حي إلی غیر ذلک، ومعلوم أن کلا من ذلک یدل علی معنی زائد علی مفہوم الواجب، ولیس الکل الفاظ مترادفة“․ (شرح العقائد النسفیة للتفتازنی، ص:48)
لہٰذا مذکورہ موقف کی روشنی میں ید اور استویٰ کو ایک معنی زائدہ پر دلالت کناں ہونا چاہیے، انہیں نعمت وقدرت یا استیلاء وغلبہ کے ہم معنی قرار دینا خود تمہارے اپنے موقف کی رو سے بھی درست نہیں ہے۔
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ تمیزِ صفات کا مذکورہ موقف محکم صفات ( علم قدرت ، سمع، بصر) کے متعلق ہے نہ کہ صفات متشابہات کے متعلق ، علامہ تفتازانی رحمہ الله تعالیٰ نے بھی محکم صفات کے ضمن میں اس موقف پر روشنی ڈالی ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ جب صفات متشابہات ، ید اور استویٰ سے نعمت اور استیلا وغلبہ مراد لیتے ہیں تو اسے معنی مجاز قرار دیتے ہیں، نہ کہ مترادفات اور مجازی معنی کا استعمال تو عرف اور لغت سے ثابت ہے ۔
چناں چہ ایک شاعر ”استویٰ“ کو بطور مجاز غلبے سے تعبیر کرتے ہوئے کہتا ہے #
قد استوی بشر علی العراق
(المسامرة، ص:46)
تحقیق بشر عراق پر غالب آگیا ہے ( بشر ایک شخص کا نام ہے) ۔
اسی طرح ید سے بطور مجاز نعمت مراد لیتے ہوئے ایک شاعر نے کہا ہے #
إلیک یديَّ منک الأیادی تمدّھا
( ”إلیک یدی منک الأیادی تمدھا، قال شارحہ: المراد بالید ھنا الجارحة، والأیادی جمع ید بمعنی النعمة فالمعنی الأیادي الفائضة من حضرتک حملتنی علی مد یدی الیک فی طلب المسئول وبغیة المأمول․“(شرح کتاب الفقہ الأکبر، ص:67)
”تیری نعمتوں کا فیض ہی مجھے تمہاری طرف ہاتھ پھیلانے پر مجبورکرتا ہے ، مذکورہ شعر میں ”الأیادی“ سے نعمتیں مراد ہیں اگر ان صفاتِ متشابہات کو مجازی معنوں پر محمول نہ کیا جائے، بلکہ وہ ظاہری معنی مراد لیے جائیں جسے آپ زائد معنی سے تعبیر کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ کھلی ہوئی تجسیم پر دلالت کناں ہیں، اس لیے اہل سنت والجماعة نے اس تعبیر سے گریز فرمایا ہے۔
تیسرا شبہ: کیا تاویل کرنا بدعت ہے؟
غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کا صفات باری تعالیٰ کے متعلق کیا عقیدہ ہے ؟ اس پر تفصیلی گفت گو تو چند صفحات آگے آرہی ہے ۔ لیکن یہاں سردست ان کے اس اعتراض کا جواب دینا مقصود ہے جس کی آڑ میں یہ اہل سنت والجماعت کو اپنی تحریر وتقریر پر جا بجا مطعون کرتے ہیں ، ان کا دعوی یہ ہے کہ صفات متشابہات کی تاویل کرنا بدعت اور ناجائز ہے، چوں کہ اشاعرہ․ (واضح رہے کہ اشاعرہ کا اطلاق بطور اصطلاح اہل سنت والجماعت کے دونوں گروہ اشاعرہ اور ماتریدیہ پر ہوتا ہے ، واصطلح المتأخرون علی تسمیة الفریقین بالأشاعرة تغلیبا․ ( النبراس، ص:22، امدادیہ ملتان) نے اپنے مسلک کی بنیاد تاویل پر رکھی ہے، لہٰذا ان کے بدعتی اور گم راہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ (”القول بالمجاز قول مبتدع․“ (الصواعق المرسلة ص:233، بیروت) ”وطریقی التفویض والتاویل فی باب الصفات مسلکان باطلان․“ (حاشیة علی فتح الباری زھیر شاویش، کتاب التوحید، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم: لاشخص اغیر من الله: 493/13)
جواب: غیر مقلدین کا مذکورہ اشکال چند وجوہ سے درست نہیں ہے ۔
متاخرین سلف صالحین کے مسلک تاویل کی بنیاد وہ آیت کریمہ ہے جو متشابہات کے متعلق وارد ہے ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ﴾․ (آل عمران:7)
اس آیت کریمہ کی ایک قرأت میں ﴿إلا الله﴾ پر وقف نہیں ہے ۔ اس صورت میں ﴿الراسخون فی العلم﴾ کا لفظ الله پر عطف ہوگا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ متشابہات کی تاویل کا علم الله کو او رعلمائے راسخین کو ہے۔ (المسامرہ مع شرحہ المسایرہ، ص:45، بیروت) متاخرین نے اسی قرأت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے جب ایک چیز کا شرعی جواز موجود ہو تو اسے بدعت کیسے کہا جاسکتا ہے؟
نیز متشابہات کی تاویل صحابہ کرام، تابعین، سلف صالحین سے بھیمنقول ہے ، کیا ان مبارک ہستیوں سے بدعت کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ ذیل میں ان کی تلاویلات کی ایک جھلک آپ بھی دیکھ لیجیے ۔
رئیس المفسرین حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے سند صحیح کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ میں ”ساق“ کی تاویل ”شدت“ سے فرمائی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ: ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : قال عن شدة الأمر․ (فتح الباری، باب: قول الله تعالیٰ: وجوہ یومئذٍ ناضرة إلی ربھا ناظرة․ الحدیث الثالث رقم:7436) تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)
بلکہ آپ تو مقطعات کی بھی تاویل فرمایا کرتے تھے۔ ( العرف الشذي، 496/1، بیروت)
علامہ ابن جریری طبری رحمہ الله ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اور تابعین رحمہم الله کی ایک جماعت نے ساق کی تاویل ”شدت امر“ سے کی ہے۔(تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما حضرت قتادہ ، حضرت مجاہد حضرت سفیان ثوری رحمہم ا الله نے آیت کریمہ: ﴿والسماء بنینا ھا بأید وإنا لموسعون﴾ میں ”بأید“ کی تاویل قوت سے فرمائی ہے ۔ (تفسیر ابن حبریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:47)
حضرت امام مالک رحمہ الله تعالیٰ سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیاگیا جس میں نزول الہی کا ذکر ان الفاظ میں ہے کہ الله تعالیٰ رات کو دنیا کے قریبی آسماں پر نزول فرماتے ہیں ، آپ نے فرمایا اس سے امر اور حکم مراد ہے کہ حکم الہی نازل ہوتا ہے۔ دیکھیے! امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے نزول الہی کی تاویل نزول حکم الہی سے فرمائی۔ ”قال حدثنا مطرف عن مالک بن انس أنہ سئل عن الحدیث ”إن الله ینزل فی اللیل إلی سماء الدنیا“ فقال مالک: یتنزل أمرہ․“ (التمہید لابن عبدالبر، 143/7)
امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ کے بھتیجے سے مروی ہے کہ امام صاحب نے ﴿وجاء ربک﴾ (اور آیا آپ کا رب) کی تاویل وجاء ثوابہ ( اور آیا رب کا ثواب ) سے فرمایا ۔
امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سند پر کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ (”رواہ البیہقی عن الحاکم عن ابی عمر بن السماک عن احمد بن حنبل ان احمد بن حنبل تأول قول الله تعالیٰ:﴿ وجاء ربک﴾: أنہ وجاء ثوابہ․ “ … ھذا سند لاغبار علیہ․“ (البدایة والنہایة،327/10)
حقیقت یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں الفاظ کی ظاہری دلالت سے قطع نظر کرکے مجاز واستعارے کی آڑ لی جاتی ہے اور چاروناچار تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جب تک اس اندازِ بیان کی توجیہ مجاز کی روشنی میں نہ کی جائے تو افہام وتفہیم کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ مثلاً قرآنِ کریم میں ہے ﴿کُلُّ شَیْْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ﴾․ (القصص، آیت:88)
ترجمہ: ہر چیز کو فنا ہے مگر اس کا منھ ( ذات) ۔اگر یہاں وجہ منھ کی تاویل ذات سے نہ کی جائے تو پھر آیت کریمہ کا صاف صاف مطلب یہ ہو گا الله تعالیٰ کے ید ، قدم، ساق ( جنہیں غیر مقلدین الله کے عضو تسلیم کرتے ہیں) فنا اور زوال پذیر ہو جائیں گے ، صرف باری تعالیٰ کا چہرہ ہی قائم ودائم رہے گا۔ چناں چہ اس مقام پر خود غیر مقلدین تاویل وتعبیر کی ضرورت سے بے نیاز نہ رہ سکے او ران کے لیے وجہ کی تاویل ذات سے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہا ۔ ( تفسیر جونا گڑھی ، القصص، تحت آیہ رقم:88)
اسی طرح قرآن کریم میں آیت کریمہ ہے ﴿قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَأَتَی اللّہُ﴾․ (النحل:26)
البتہ دغا بازی کرچکے ہیں جو تھے ان سے پہلے، پھر پہنچا حکم الله کا میں فأتی الله کی تاویل فأتی عذاب الله (الله کا عذاب آیا) سے کرتے ہیں ۔ (تفسیر جونا گڑھی ، النحل ،تحت آیہ رقم:26)
قرآن وحدیث میں کتنے ہی ایسے مقامات ہیں جہاں غیر مقلدین نے تاویل واستعارے سے بلاجھجک کام لیا ہے۔ اگر تاویل بدعت ہے تو اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں، پھر اشاعرہ پر ہی الزام تراشی کیوں؟
خلاصہ یہ ہے کہ : متقدمین کے نزدیک یہ صفات ، ید، وجہ ، استوی متشابہہ المعنی ہیں۔صفات متشابہات کے لغوی معنی تحت اللفظ کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان کی تشریح اور وضاحت معروف فی الخلق سے نہیں کرسکتے، اگر ان صفات کو معروف معانی کے ساتھ الله تعالیٰ کے لیے ثابت کریں تو اس سے تجسیم لازم آتی ہے اور کیفیت کی جہالت سے ہم تجسیم سے نہیں نکل سکتے۔ متاخرین نے اہل بدعت کے بڑھتے ہوئے فروغ کی روک تھام کے لیے مسلک تایل اختیار کیا او رتمام متشابہات کی مناسب تاویلات کیں او ران تلاویلات کا شرعی جواز موجود ہے۔ متاخرین سلف صالحین سے ﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾ کی کئی تاویلیں منقول ہیں، تاہم مشہور تاویل یہ ہے۔
اسْتَوَی سے غلبہ وقبضہ مراد ہے اورالعرش تخت کو کہتے ہیں۔ اور﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾الله تبارک وتعالیٰ کے کائنات پرمکمل قبضہ وقدرت اور اس کے حاکمانہ تصرف سے تعبیر ہے کہ کائنات کی کوئی چیز او رکوئی گوشہ اس کے قبضہ قدرت اور تصرفات سے باہر نہیں۔(تفسیر رازی، الاعراف، تحت آیہ رقم:54۔مزید تاویلات کے لیے دیکھیے: تفسیر فخر الدین رازی، تفسیر روح المعانی، اللباب فی علوم الکتاب، الاعراف تحت آیہ رقم:54)
اہل سنت والجماعت اشاعرہ اور ماترید یہ کے مجموعے کا نام ہے۔ ( ”وھؤلاء الحنفیة والشافعیة والمالکیة وفضلاء الحنابلة ولله الحمد فی العقائد ید واحدة کلھم علی رأي أھل السنة والجماعة، یدینون الله تعالیٰ بطریق شیخ السنة أبی الحسن الأشعریی رحمہ الله تعالی․“ ( معید النعم ومبید النِقم للسبکی، ص:62) ””اذا أطلق أھل السنة والجماعة فالمراد بھم الأشاعرة والماتریدیة․“ (اتحاف السادة المتقین شرح احیاء علوم الدین للغزالی:8/2، بیروت)
امت کے اس عظیم حصے کو او ران سے وابستہ محدثین کرام، فقہائے عظام کو بدعتی اور گم راہ کہنے والا شخص خود گم راہ اور بدعتی ہے۔
﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․
اہل سنت والجماعت کا اجتماعی اور اتفاقی عقیدہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ زمان ومکان کی حدود سے اور سمت وجہت کی قیود سے پاک اور منزّہ ہے (ولا محدود ولا معدود، ولا یوصف بالماھیة ولا بالکیفیة، ولا یتمکن فی مکان (إذا لم یکن فی مکان لم یکن فی جھة، لاعلو ولاسفل ولا غیرھما) ولا یجری علیہ زمان، العقائد النسفیة، ص:43، مع شرح التفتازانی)
وہ عرش کا محتاج ہے نہ فرش کا، عرش وکرسی کے وجود میں آنے سے پہلے وہ جس شان میں تھا اب بھی اسی شان میں ہے ۔
البتہ جہاں تک بحث قرآن وحدیث کے ان الفاظ کے متعلق ہے جو الله تعالیٰ کے لیے عرش پر قرار پکڑنے:﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (الاعراف، آیت:54)اور چہرہ:﴿وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّک﴾․ (الرحمن، آیت:27)ہاتھ:﴿ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․ (الفتح، آیت:10)آنکھ: ﴿وَلِتُصْنَعَ عَلَی عَیْْنِی﴾․ (طہ، آیت:39)پنڈلی:﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَن سَاق﴾․(القلم:42) وغیرہ ہونے پر دلالت کناں ہیں ، تو انہیں اسلاف نے صفات متشابہات قرار دے دیا ہے۔ کیوں کہ اگر انہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو تجسیم وتشبیہ کی راہیں کھلتی ہیں اور اگر صرف تنزیہ وتجرید کے تقاضے ملحوظ رکھے جائیں تو انکارِ صفات کے پہلو نکلتے ہیں۔
فرقہ مجسمہ اور مشبہہ نے تو ان صفات کے حقیقی معنی مراد لے کر تجسیم وتشبیہ کی تمام منزلیں طے کر ڈالیں اور برملا یہ دعویٰ کر دیا کہ الله تعالیٰ بھی اس طرح ہاتھ ، پاؤں رکھتے ہیں جس طرح ایک مخلوق رکھتی ہے۔ (شرح المقاصد، المقصد الخامس، 37/3)
اور آسمان وزمین کی تخلیق کے بعد اسی طرح عرش پر بیٹھے ہیں، جس طرح ایک بادشاہ ملکی امور کی انجام دہی کے بعد تختِ شاہی پر فروکش ہوتا ہے۔
دوسری طرف تنزیہ وتجرید کے علم بردار معتزلہ، معطلہ جہمیہ نے مذکورہ صفات کو توحید باری تعالیٰ کے منافی قرار دے کر انہیں مجازی معنی پر محمول کیا اورپھر اسی کو حرف آخر اور حتمی بھی قرار دیا ہے۔ ( التمہید لابن عبدالبر،145/7)
افراط وتفریط کی اس کش مکش میں اہل سنت والجماعت ہی ایسا گروہ تھا جو اعتدال کی راہ پر گام زن رہا اور سلف صالحین کے نقش قدم پہ چل کر تعبیر وتشریح کے اس پیچیدہ مقام سے باسلامت گزر گیا۔
اہل سنت والجماعت کا مسلک
متقدمین سلف صالحین کا موقف: متقدمین سلفِ صالحین کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات متشابہات قرآن وحدیث او راجماع امت سے ثابت ہیں ان کے متعلق بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ :
جو لفظ صفت باری پر دلالت کناں ہے اس کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ثابت ہے۔
اس لفظ سے اس کا ظاہری اور حقیقی معنی ہر گز مراد نہیں ۔
نیز ذات بار ی مخلوق کی مشابہات سے پاک ہے۔ (” نؤمن بأن الاستواء ثابت لہ تعالی( بمعنی یلیق بہ ھو سبحانہ اعلم بہ) کماجری علیہ السلف رضوان الله تعالیٰ علیہم فی المتشابہ من التنزیہ عمالا یلیق بجلال الله تعالیٰ مع تفویض علم معناہ إلیہ سبحانہ․“ المسایرہ شرح المسامرہ لابن الہمام، ص:45)․
” وانما یسلک فی ھذا المقام مذھب السلف الصالح، الأوزاعي والثوری واللیث بن سعد والشافعی وأحمد بن حنبل واسحاق بن راھویہ وغیرہم من أئمة المسلمین، قدیماً وحدیثاً، وھو إمرار،کما جاء ت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل، والظاہر المتبادر إلی اذھان المشبھین منفی عن الله، فإن الله لا یشبہہ شيء من خلقہ․“ ( تفسیر ابن کثیر، الاعراف، تحت آیت: رقم:54)
یہ اہل سنت کا مسلمہ موقف ہے جس پر چندد لائل پیش خدمت ہیں۔
امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کی مجلس میں ایک شخص نے ﴿الرحمن عَلَی الْعَرْش اسْتَوَی﴾ کی تلاوت کرکے یہی سوال اٹھایا کہ الله تعالیٰ کا استوا کیسا ہے ؟ امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے ایک لمحہ سوچ کر ارشاد فرمایا یہ استوا ایسا ہی ہے جیسا الله تعالیٰ نے آیت کریمہ میں اپنے بارے میں بیان فرما دیا ہے ۔ الرحمن ( یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے) اس کی کوئی کیفیت نہیں ( کیوں کہ یہ جسم کی خصوصیت ہے) اس لیے یہاں کیفیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (”فقال: (الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ․ ولا یقال کیف، وکیف عنہ مرفوع․“(الدرالمنثور، لابن الجوزی، الاعراف، تحت آیة رقم:54) (ھکذا فی کتاب الاسماء والصفات للإمام البیہقی، ص:408)
امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے اپنے جواب میں اہل سنت والجماعت کے موقف کی ترجمانی فرمائی ہے کہ استوی بار ی تعالیٰ کی متشابہہ المعنی صفت ہے، لہٰذا صفت استویٰ کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اس کے معنی ومراد پر لب کشائی سے گریز کرنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے اہل سنت استوی کی تشریح مایلیق بہ ( ایسا استوی جو اس کے شایان شان ہے) سے کر دیتے ہیں۔
امام ترمذی رحمہ الله اپنی سنن میں صفات متشابہات کے متعلق جمہور اہل سنت کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان صفات پر صدق دل سے ایمان لاکر اس کی کوئی تفسیر نہ کی جائے، بلکہ ایسا وہم بھی نہ لایا جائے جس سے تجسیم وتشبیہ کا اشارہ نکلتا ہو ، ائمہ اہل سنت سفیان الثوری، مالک بن انس، عبدالله بن المبارک وغیرہ سب کا یہی مسلک ہے ۔ (”والمذھب فی ھذا عند اھل العلم من الأئمة مثل سفیان الثوری ومالک ابن انس، وابن المبارک، وابن عینیة ووکیع وغیرہ… وھذا الذی اختارہ أھل الحدیث أن تروی ھذہ الأشیاء کما جاء ت ویؤمن بھا، ولا تفسر، ولا تتوھم، ولا یقال کیف…“․ (”سنن الترمذی، تحت حدیث، رقم:2557: مزید کتاب التفسیر سورہ المائدہ، رقم الحدیث:3045، باب ماجاء فی خلود)
قرآن وحدیث میں بارہا ید (ہاتھ) کا لفظ الله تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے، جس پر علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فرمایا کہ اس (ید) سے وہ ہاتھ ہر گز مراد نہیں جس کا ذکر ہوتے ہی ہمارے دل ودماغ میں ایک جسمانی عضو کا تصور دوڑنے لگتا ہے ، بلکہ یہ ایک صفت باری تعالیٰ ہے ( جس کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے ) لہٰذا اس صفت پر ایمان لا کر توقف اختیار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہی اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے ۔ (”ولیس الید عندنا الجارحة، إنما ھی صفة جاء بہ التوقیف، فنحن نطلقھا علی ماجاء ت، ولا نکیفھا، وھذا مذھب أھل السنة والجماعة․“ (فتح الباری لابن حجر، تحت حدیث رقم باب قول الله تعالیٰ: (تعرج الملٰئکة والروح إلیہ) رقم الحدیث:6993) امرارھا علی ماجاء ت مفوضا معناہ إلی الله تعالی… قال الطیبی: ھذا ھو المذھب المعتمد، وبہ یقول السلف الصالح․“ ( فتح الباری لابن حجر باب قول الله تعالیٰ ولتصنع علی عینی، رقم الحدیث:6972)
دیکھیے علامہ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ نے صفات متشابہات کے متعلق واضح فرما دیا ہے کہ یہ متشابہہ المعنی صفت ہے ، لہٰذا اس کی تلاوت پر اکتفا کرکے اس کے معنی ومراد کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔
علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ الله اور سفیان بن عینیہ رحمہ الله کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :” کسی شخص کے لیے یہ روا نہیں کہ صفاتِ متشابہات کی تفسیر عربی یا عجمی زبان میں کرتا پھرے ۔ ان الفاظ کو پڑھ کر ان سے گزر جانا ہی بس ان کی تفسیر ہے۔“ ( ”ما وصف الله تبارک وتعالیٰ بنفسہ فی کتابہ فقرأتہ تفسیرہ، لیس لأحد أن یفسرہ بالعربیة ولابالفارسیة․“(کتاب الأسماء والصفات للبیہقی مع الھامش، ص:314)
علامہ بیہقی رحمہ الله فرماتے ہیں:متقدمین سلف صالحین استواء اوراسی جیسی تمام صفاتِ متشابہات کی کوئی تفسیر نہیں کرتے تھے۔“ ( ”فأما الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا کانوا لایفسرونہ، ویتکلمون فیہ کنحو مذھبہم فی أمثال ذلک․“ (کتاب الأسماء والصفات للبیہقی، ص:407)
مذکورہ بالا دلائل سے متقدمین سلف صالحین کا موقف روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ صفات متشابہہ المعنی ہیں ، ان کے ظاہری معنی مراد لینا کسی طرح درست نہیں۔
متقدمین کے مسلک پر کچھ شہبات
پہلا شبہ: اگر صفات متشابہات ، استوی ، ید، وجہ وغیرہ کے ظاہری معنی اس لیے مراد نہیں لیے جاسکتے کہ اس سے جسمانیت کے پہلو سامنے آتے ہیں تو پھر محکم صفات علم ، قدرت ، حیات وغیرہ کا تصور بھی تو جسمانیت کے بغیر نہیں ہو سکتا، انہیں بھی متشابہات قرار دیا جائے۔
جواب… اس شبہ کی یہ بنیاد ہی غلط ہے کہ محکم صفات ، علم، قدرت ، حیات کا تصور جسم کے بغیر نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ان صفات کا اطلاق جب باری تعالیٰ پر کیا جاتا ہے تو اس کی اولین دلالت جسم پر نہیں ہوتی، بلکہ ان الفاظ کے کانوں میں پڑتے ہی جو معانی اخذ ہوتے ہیں اس میں تنزیہ وتجرید کے تقاضے پوری طرح جلوہ گر ہوتے ہیں اور دل ودماغ کے کسی گوشے میں جسم کا تصور نہیں ابھرتا، برخلاف صفاتِ متشابہات ، استواء ِید، وجہ، کے کہ ان الفاظ کی اولین دلالت ہی جسمانیت پر ہوتی ہے ۔ ان کے ظاہری معنی مراد لینے کے بعد جسمانی لوازم کو وہم وخیال سے دور نہیں رکھا جاسکتا، لہٰذا اگر متشابہات اور محکمات میں یہ فرق ملحوظ رکھاجائے تو اشکال پیدا ہی نہ ہو ۔
دوسرا شبہ: اگر متشابہات کے معنی مراد کا علم صرف الله تبارک وتعالیٰ کو ہے تو پھر ان کو قرآن کریم میں ذکر کرنے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : اگرچہ ہمیں صفات متشابہات کے معنی ومراد کا علم نہیں، لیکن ان پر ایمان لانا بھی باعث نجات اور ثواب ہے ، علاوہ ازیں اس کی تلاوت کے بھی معنوی فوائد اوربرکات ہیں ،اگرچہ ان تک ہماری رسائی نہیں ہے۔
متاخرین اہل سنت والجماعت کا موقف
متأخرین سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ صفات متشابہات کے ایسے مجازی معنی بیان کیے جاسکتے ہیں جو الله تبارک وتعالیٰ کے شایان شان ہوں، بشرطے کہ:
اس لفظ کے اندر مجازی معنی مراد لینے کی گنجائش ہو۔
نیز اس مجازی معنی کو احتمال تفسیر کے درجے میں رکھا جائے، انہیں قطعی اوریقینی نہ کہا جائے۔
لہٰذا ”ید“ سے قدرت ، ”وجہ“ سے ذات اور استوا سے استیلا (غلبہ) مراد لیا جاسکتا ہے ۔ ( المسایرہ فی العقائد المنجیة فی الأخرة، ص:47,44)
تاویل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
چوں کہ متاخرین کے زمانے میں کئی فرقہائے باطلہ رواج پذیر ہو کر امت مسلمہ کی وحدت فکر کو پارہ پارہ کرنے میں مصروف کار تھے ، جن میں سر فہرست مجسمہ او رمشبہہ ایسے فرقے تھے جو صفات متشابہات کے ظاہری الفاظ کا سہارا لے کر الله تعالیٰ کے لیے مخلوق کی طرح ہاتھ ، پاؤں، چہرہ، پنڈلی وغیرہ ثابت کرتے تھے۔
متاخرین سلف صالحین نے جب دیکھا کہ یہ فرقہائے باطلہ عوام کی ذہنی سطح سے غلط فائدہ اٹھا کر انہیں گم راہی کی طرف دھکیل رہے ہیں تو انہوں نے تاویل کا مسلک اختیارکرکے تمام متشابہات کے مناسب ، سادہ عام فہم معانی بیان کیے، مثلاً کہا ید سے ہاتھ نہیں قدرت مراد ہے، وجہ سے چہرہ نہیں بلکہ ذات مراد ہے، استوی سے استقرار وجلوس نہیں بلکہ استیلا اور غلبہ مراد ہے، تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کومجسمہ اور مشبہہ کے گم راہ کن خیالات سے بچایا جاسکے۔
مسلکِ تاویل کی بنیاد کی وہ آیت کریمہ ہے جو متشابہات کے متعلق وارد ہے ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا﴾․ (آل عمران:7)
اس آیت کریمہ کی ایک قرأت میںإ لا الله پر وقف نہیں ہے، اس صورت میں ﴿الراسخون فی العلم﴾ کا لفظ الله پر عطف ہو گا اور آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہات کی تاویل کا علم الله کو او رعلمائے راسخین کو ہے ۔ متاخرین نے اسی قرأت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے۔ ( المسامرہ مع شرحہ المسایرہ ص:45، بیروت)
متاخرین کے مسلک پر کچھ شبہات او ران کا ازالہ
پہلاشبہ: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله نے فقہ اکبر میں تصریح فرمائی ہے کہ ”ید“ سے قدرت یا نعمت مراد لینا جائز نہیں، کیوں کہ اس طرح تاویل کرنے سے صفت باری تعالیٰ کاابطال لازم آتا ہے۔ (فماذکرہ الله تعالیٰ فی القرآن من ذکر الوجہ، والید، والنفس فہو لہ صفات بلاکیف ولایقال: إن یدہ قدرتہ أو نعمتہ، لأن فیہ ابطال الصفة وھو قول اھل القدر والا عتزال․“ (الفقہ الأکبر مع شرحہ للملا علی القاری، ص:67)
دیکھیے امام صاحب تو تاویل کے مسلک کو ناجائز قرار دے رہے ہیں ، لیکن ان کے مقلدین اسی مسلک کو حرزِ جان بنائے ہوئے ہیں، یہ امام صاحب کے مسلک سے انحراف نہیں ہے؟
جواب: اگر فقہ اکبر کی مکمل عبارت پڑھ لی جاتی تو اشکال پیدا نہ ہوتا، کیوں کہ امام صاحب نے صفات متشابہات میں اس تاویل کو ناجائز فرمایا ہے جسے قطعیت کے درجے پر فائز کر دیا گیا ہو ، جس کے نتیجے میں صفات کے اصل کلمات بے معنی ہو کر رہ جائیں ، چوں کہ ایسی تاویل معتزلہ وغیرہ کرتے ہیں ، اس لیے امام صاحب نے ان کی تردید فرمائی ہے ، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس عبارت کے متصل بعد ہی امام صاحب نے فرمایا ”وھو قول اھل القدر والاعتزال“ یعنی صفات میں تاویل کرکے اسے قطعی سمجھنا معتزلہ اور قدریہ کا مسلک ہے ۔
جہاں تک اہل سنت والجماعت کی بات ہے وہ جب کسی لفظ کی تاویل کرتے ہیں تو اس سے ایسے معنی مراد لیتے ہیں۔
جس کا وہ لفظ احتمال بھی رکھتا ہو ۔
لفظ کے اصل معنی کی نفی بھی نہ ہوتی ہو ۔
اور وہ تفسیر ظن اور احتمال کے درجے میں ہو۔
مثلاً آیت کریمہ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون﴾ کا معنی یہ ہے کہ جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن صوفیا اس کی تفسیر عمومی معنی میں کرتے ہیں ”جو ہم نے ان کومال وعلم دیا ہے “ یہاں علم مراد لینے سے مال کی نفی نہیں ہوتی، اسی طرح ید سے قدرت ونعمت اور وجہ سے ذات مراد لینے سے بھی لفظ کے اصل معنی ہاتھ اور چہرے کی نفی نہیں ہوتی۔ اہل سنت والجماعت اور فرقہائے باطلہ میں یہی بنیادی فرق ہے، چناں چہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں:
” اعتراض ہوتا ہے کہ جس طرح گروہ اشاعرہ، ماترید یہ تاویلات کرتے ہیں ، معتزلہ او رجہمیہ بھی تاویلات کرتے ہیں ان میں او ران میں کیا فرق ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں کی تلاویلات میں فرق یہ ہے کہ اشاعرہ ماتریدیہ تاویلات پر جزم نہیں کرتے، برخلاف معتزلہ وغیرہ کے کہ وہ تلاویلات کرتے ہیں او رکہتے ہیں بس یہاں یہی معنی مراد ہیں ۔(معارف مدنیہ ، ص:47)
دوسرا شبہ: علامہ تفتازانی رحمہ الله تعالی، شرح عقائد نسفیہ میں لکھتے ہیں کہ صفات باری تعالی کے متعلق اشاعرہ اور ماتریدیہ کا موقف یہ ہے کہ ہر ہر صفت اپنے معنی ومراد کے اعتبار سے دوسری صفت کے مقابلے میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، کسی بھی صورت میں دو صفات کوہم معنی اور مترادف نہیں قرار دیا جاسکتا۔ (ولہ صفات لما ثبت من أنہ تعالیٰ عالم، قادر، حي إلی غیر ذلک، ومعلوم أن کلا من ذلک یدل علی معنی زائد علی مفہوم الواجب، ولیس الکل الفاظ مترادفة“․ (شرح العقائد النسفیة للتفتازنی، ص:48)
لہٰذا مذکورہ موقف کی روشنی میں ید اور استویٰ کو ایک معنی زائدہ پر دلالت کناں ہونا چاہیے، انہیں نعمت وقدرت یا استیلاء وغلبہ کے ہم معنی قرار دینا خود تمہارے اپنے موقف کی رو سے بھی درست نہیں ہے۔
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ تمیزِ صفات کا مذکورہ موقف محکم صفات ( علم قدرت ، سمع، بصر) کے متعلق ہے نہ کہ صفات متشابہات کے متعلق ، علامہ تفتازانی رحمہ الله تعالیٰ نے بھی محکم صفات کے ضمن میں اس موقف پر روشنی ڈالی ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ جب صفات متشابہات ، ید اور استویٰ سے نعمت اور استیلا وغلبہ مراد لیتے ہیں تو اسے معنی مجاز قرار دیتے ہیں، نہ کہ مترادفات اور مجازی معنی کا استعمال تو عرف اور لغت سے ثابت ہے ۔
چناں چہ ایک شاعر ”استویٰ“ کو بطور مجاز غلبے سے تعبیر کرتے ہوئے کہتا ہے #
قد استوی بشر علی العراق
(المسامرة، ص:46)
تحقیق بشر عراق پر غالب آگیا ہے ( بشر ایک شخص کا نام ہے) ۔
اسی طرح ید سے بطور مجاز نعمت مراد لیتے ہوئے ایک شاعر نے کہا ہے #
إلیک یديَّ منک الأیادی تمدّھا
( ”إلیک یدی منک الأیادی تمدھا، قال شارحہ: المراد بالید ھنا الجارحة، والأیادی جمع ید بمعنی النعمة فالمعنی الأیادي الفائضة من حضرتک حملتنی علی مد یدی الیک فی طلب المسئول وبغیة المأمول․“(شرح کتاب الفقہ الأکبر، ص:67)
”تیری نعمتوں کا فیض ہی مجھے تمہاری طرف ہاتھ پھیلانے پر مجبورکرتا ہے ، مذکورہ شعر میں ”الأیادی“ سے نعمتیں مراد ہیں اگر ان صفاتِ متشابہات کو مجازی معنوں پر محمول نہ کیا جائے، بلکہ وہ ظاہری معنی مراد لیے جائیں جسے آپ زائد معنی سے تعبیر کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ کھلی ہوئی تجسیم پر دلالت کناں ہیں، اس لیے اہل سنت والجماعة نے اس تعبیر سے گریز فرمایا ہے۔
تیسرا شبہ: کیا تاویل کرنا بدعت ہے؟
غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کا صفات باری تعالیٰ کے متعلق کیا عقیدہ ہے ؟ اس پر تفصیلی گفت گو تو چند صفحات آگے آرہی ہے ۔ لیکن یہاں سردست ان کے اس اعتراض کا جواب دینا مقصود ہے جس کی آڑ میں یہ اہل سنت والجماعت کو اپنی تحریر وتقریر پر جا بجا مطعون کرتے ہیں ، ان کا دعوی یہ ہے کہ صفات متشابہات کی تاویل کرنا بدعت اور ناجائز ہے، چوں کہ اشاعرہ․ (واضح رہے کہ اشاعرہ کا اطلاق بطور اصطلاح اہل سنت والجماعت کے دونوں گروہ اشاعرہ اور ماتریدیہ پر ہوتا ہے ، واصطلح المتأخرون علی تسمیة الفریقین بالأشاعرة تغلیبا․ ( النبراس، ص:22، امدادیہ ملتان) نے اپنے مسلک کی بنیاد تاویل پر رکھی ہے، لہٰذا ان کے بدعتی اور گم راہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ (”القول بالمجاز قول مبتدع․“ (الصواعق المرسلة ص:233، بیروت) ”وطریقی التفویض والتاویل فی باب الصفات مسلکان باطلان․“ (حاشیة علی فتح الباری زھیر شاویش، کتاب التوحید، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم: لاشخص اغیر من الله: 493/13)
جواب: غیر مقلدین کا مذکورہ اشکال چند وجوہ سے درست نہیں ہے ۔
متاخرین سلف صالحین کے مسلک تاویل کی بنیاد وہ آیت کریمہ ہے جو متشابہات کے متعلق وارد ہے ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ﴾․ (آل عمران:7)
اس آیت کریمہ کی ایک قرأت میں ﴿إلا الله﴾ پر وقف نہیں ہے ۔ اس صورت میں ﴿الراسخون فی العلم﴾ کا لفظ الله پر عطف ہوگا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ متشابہات کی تاویل کا علم الله کو او رعلمائے راسخین کو ہے۔ (المسامرہ مع شرحہ المسایرہ، ص:45، بیروت) متاخرین نے اسی قرأت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے جب ایک چیز کا شرعی جواز موجود ہو تو اسے بدعت کیسے کہا جاسکتا ہے؟
نیز متشابہات کی تاویل صحابہ کرام، تابعین، سلف صالحین سے بھیمنقول ہے ، کیا ان مبارک ہستیوں سے بدعت کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ ذیل میں ان کی تلاویلات کی ایک جھلک آپ بھی دیکھ لیجیے ۔
رئیس المفسرین حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے سند صحیح کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ میں ”ساق“ کی تاویل ”شدت“ سے فرمائی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ: ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : قال عن شدة الأمر․ (فتح الباری، باب: قول الله تعالیٰ: وجوہ یومئذٍ ناضرة إلی ربھا ناظرة․ الحدیث الثالث رقم:7436) تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)
بلکہ آپ تو مقطعات کی بھی تاویل فرمایا کرتے تھے۔ ( العرف الشذي، 496/1، بیروت)
علامہ ابن جریری طبری رحمہ الله ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اور تابعین رحمہم الله کی ایک جماعت نے ساق کی تاویل ”شدت امر“ سے کی ہے۔(تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما حضرت قتادہ ، حضرت مجاہد حضرت سفیان ثوری رحمہم ا الله نے آیت کریمہ: ﴿والسماء بنینا ھا بأید وإنا لموسعون﴾ میں ”بأید“ کی تاویل قوت سے فرمائی ہے ۔ (تفسیر ابن حبریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:47)
حضرت امام مالک رحمہ الله تعالیٰ سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیاگیا جس میں نزول الہی کا ذکر ان الفاظ میں ہے کہ الله تعالیٰ رات کو دنیا کے قریبی آسماں پر نزول فرماتے ہیں ، آپ نے فرمایا اس سے امر اور حکم مراد ہے کہ حکم الہی نازل ہوتا ہے۔ دیکھیے! امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے نزول الہی کی تاویل نزول حکم الہی سے فرمائی۔ ”قال حدثنا مطرف عن مالک بن انس أنہ سئل عن الحدیث ”إن الله ینزل فی اللیل إلی سماء الدنیا“ فقال مالک: یتنزل أمرہ․“ (التمہید لابن عبدالبر، 143/7)
امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ کے بھتیجے سے مروی ہے کہ امام صاحب نے ﴿وجاء ربک﴾ (اور آیا آپ کا رب) کی تاویل وجاء ثوابہ ( اور آیا رب کا ثواب ) سے فرمایا ۔
امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سند پر کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ (”رواہ البیہقی عن الحاکم عن ابی عمر بن السماک عن احمد بن حنبل ان احمد بن حنبل تأول قول الله تعالیٰ:﴿ وجاء ربک﴾: أنہ وجاء ثوابہ․ “ … ھذا سند لاغبار علیہ․“ (البدایة والنہایة،327/10)
حقیقت یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں الفاظ کی ظاہری دلالت سے قطع نظر کرکے مجاز واستعارے کی آڑ لی جاتی ہے اور چاروناچار تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جب تک اس اندازِ بیان کی توجیہ مجاز کی روشنی میں نہ کی جائے تو افہام وتفہیم کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ مثلاً قرآنِ کریم میں ہے ﴿کُلُّ شَیْْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ﴾․ (القصص، آیت:88)
ترجمہ: ہر چیز کو فنا ہے مگر اس کا منھ ( ذات) ۔اگر یہاں وجہ منھ کی تاویل ذات سے نہ کی جائے تو پھر آیت کریمہ کا صاف صاف مطلب یہ ہو گا الله تعالیٰ کے ید ، قدم، ساق ( جنہیں غیر مقلدین الله کے عضو تسلیم کرتے ہیں) فنا اور زوال پذیر ہو جائیں گے ، صرف باری تعالیٰ کا چہرہ ہی قائم ودائم رہے گا۔ چناں چہ اس مقام پر خود غیر مقلدین تاویل وتعبیر کی ضرورت سے بے نیاز نہ رہ سکے او ران کے لیے وجہ کی تاویل ذات سے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہا ۔ ( تفسیر جونا گڑھی ، القصص، تحت آیہ رقم:88)
اسی طرح قرآن کریم میں آیت کریمہ ہے ﴿قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَأَتَی اللّہُ﴾․ (النحل:26)
البتہ دغا بازی کرچکے ہیں جو تھے ان سے پہلے، پھر پہنچا حکم الله کا میں فأتی الله کی تاویل فأتی عذاب الله (الله کا عذاب آیا) سے کرتے ہیں ۔ (تفسیر جونا گڑھی ، النحل ،تحت آیہ رقم:26)
قرآن وحدیث میں کتنے ہی ایسے مقامات ہیں جہاں غیر مقلدین نے تاویل واستعارے سے بلاجھجک کام لیا ہے۔ اگر تاویل بدعت ہے تو اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں، پھر اشاعرہ پر ہی الزام تراشی کیوں؟
خلاصہ یہ ہے کہ : متقدمین کے نزدیک یہ صفات ، ید، وجہ ، استوی متشابہہ المعنی ہیں۔صفات متشابہات کے لغوی معنی تحت اللفظ کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان کی تشریح اور وضاحت معروف فی الخلق سے نہیں کرسکتے، اگر ان صفات کو معروف معانی کے ساتھ الله تعالیٰ کے لیے ثابت کریں تو اس سے تجسیم لازم آتی ہے اور کیفیت کی جہالت سے ہم تجسیم سے نہیں نکل سکتے۔ متاخرین نے اہل بدعت کے بڑھتے ہوئے فروغ کی روک تھام کے لیے مسلک تایل اختیار کیا او رتمام متشابہات کی مناسب تاویلات کیں او ران تلاویلات کا شرعی جواز موجود ہے۔ متاخرین سلف صالحین سے ﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾ کی کئی تاویلیں منقول ہیں، تاہم مشہور تاویل یہ ہے۔
اسْتَوَی سے غلبہ وقبضہ مراد ہے اورالعرش تخت کو کہتے ہیں۔ اور﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾الله تبارک وتعالیٰ کے کائنات پرمکمل قبضہ وقدرت اور اس کے حاکمانہ تصرف سے تعبیر ہے کہ کائنات کی کوئی چیز او رکوئی گوشہ اس کے قبضہ قدرت اور تصرفات سے باہر نہیں۔(تفسیر رازی، الاعراف، تحت آیہ رقم:54۔مزید تاویلات کے لیے دیکھیے: تفسیر فخر الدین رازی، تفسیر روح المعانی، اللباب فی علوم الکتاب، الاعراف تحت آیہ رقم:54)
اہل سنت والجماعت اشاعرہ اور ماترید یہ کے مجموعے کا نام ہے۔ ( ”وھؤلاء الحنفیة والشافعیة والمالکیة وفضلاء الحنابلة ولله الحمد فی العقائد ید واحدة کلھم علی رأي أھل السنة والجماعة، یدینون الله تعالیٰ بطریق شیخ السنة أبی الحسن الأشعریی رحمہ الله تعالی․“ ( معید النعم ومبید النِقم للسبکی، ص:62) ””اذا أطلق أھل السنة والجماعة فالمراد بھم الأشاعرة والماتریدیة․“ (اتحاف السادة المتقین شرح احیاء علوم الدین للغزالی:8/2، بیروت)
امت کے اس عظیم حصے کو او ران سے وابستہ محدثین کرام، فقہائے عظام کو بدعتی اور گم راہ کہنے والا شخص خود گم راہ اور بدعتی ہے۔
اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش اور غیر مقلدین کا ناقابل فہم مسلک
غیر مقلدین کا موقف یہ ہے کہ ﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾ اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے ، یعنی الله تعالیٰ”پھر بیٹھا تخت پر“ اور عرش الله تعالیٰ کامکان ہے اور الله تعالیٰ جہت بلندی سے متصف ہے ۔(وھو في جہة الفوق، ومکان العرش۔(نزل الأبرار، کتاب الایمان، ص:3،لاہور)
اسی طرح یَدْ ، وجہ، ساق، سے الله تعالیٰ کے اعضا وجوارح مراد ہیں، تاہم ان کی کیفیت مجہول ہے۔ (”ولہ وجہ، وعین، وید، وکف، وقبضة، واصابع، وساعد، وذراع، وجنب، وحقو، وقدم، ورجل، وساق، وکیف کما تلیق بذاتہ“․(نزل الابرار من فقہ النبی المختار، کتاب الإیمان، ص:3، لاہور)
اگر غیر مقلدین کے مذکورہ موقف ومسلک کو درست قرار دیا جائے تو ذات بار ی تعالیٰ کے لیے ”جسم“ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہتا، کیوں کہ باری تعالیٰ کے لیے مکان وجہت اور اعضائے جارحہ (منھ، ہاتھ، پنڈلی) ثابت کرتے ہی جسمانیت کے تمام پہلو غیر شعوری طور پر پیدا ہو جاتے ہیں یا پھر یہ مسئلہ مبہم اور ناقابل فہم بن جاتا ہے۔
اس لیے کہ جب آپ الله تعالیٰ کے لیے ، چہرہ، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے اثبات پر زور دیتے ہیں تو اس کے جو معنی انسانی ذہن میں متبادر ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کی ذات نہ صرف جسم رکھتی ہے، بلکہ اعضا وجوارح سے بھی متصف ہے، لیکن پھر جب آپ کہتے ہیں ان اعضاءِ جوارحہ کی کیفیت مجہول ہے، اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی مانند نہیں، اس کا چہرہ ہمارے چہرے کی طرح نہیں تو پھر فیصلہ کن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نفی کا اطلاق کس سے متعلق ہے؟
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ:
وہ چہرے، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے مدلولات ہی سے متصف نہیں؟یا یہ کہ وہ ایک نوع کے اعضائے جارحہ تو رکھتا ہے، مگر یہ اعضائے جارحہ تمام ذی اعضا حیوانات سے مختلف ہیں؟
اگر پہلی صورت صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے آپ الفاظ کے ہیر پھیر میں سرگرداں او رکسی نتیجے تک پہنچنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ ایک چیز ثابت کرکے پھر اس کی نفی کر دینے سے کوئی واضح مفہوم سامنے نہیں آتا۔
اگر وہ دوسری صورت صحیح ہے تو پھر ”جسمانیت“ سے دامن بچانا محال ہے ،اس لیے کہ آپ کی نفی کا اطلاق صرف ہیئت، شکل اور نوعیت پر ہوا ہے، جس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے لیے ید، وجہ، استوی علی العرش کے جسمانی مدلول تو ثابت ہیں، لیکن ہمارے ہاتھ ، چہرے کے مقابلے میں بے نظیر ہیں ۔
غیر مقلدین کے مسلک کی مذکورہ کیفیت دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان کا مسلک اہل سنت سے جدا او رناقابل فہم ہے۔ (استوی علی العرش، وھذا الأصل معقود لبیان أنہ تعالیٰ غیر مستقر علی مکان کما قدمہ صریحاً فی ترجمة اصول الرکن الأول، ونبہ علیہ مصانا بالجواب عن تمسک القائلین بالجھة والمکان، فإن الکرامیة یثبتون جہة العلو من غیر استقرار علی العرش، والحشویة، وھم المجسمة، یصر حون بالاستقرار علی العرش وتمسکو بظواہرھا منھا قولہ تعالیٰ: ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾․ (المسامرة شرح المسایرہ ، الأصل الثامن:ص،44، بیروت)
علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ( صفات متشابہات) میں تاؤیل سے پہلوتہی اختیار کرکے الفاظ کے ظاہری معنی کے درپے ہو جانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ قرآن کریم کی آیات تضادبیانی کا شکار ہیں۔ (وقد جمع فی ھذہ الأیة بین ”استوی العرش“ وبین ”ھو معکم“ ، والأخذ بالظاھر من تناقض، فدل علی انہ لا بدمن التاویل، والإعراض عن التاویل اعتراف بالتناقض)․ (احکام القرآن اللقرطبی) کیوں کہ صفات متشابہات کے ظاہری معنی مراد لینے سے قرآن کی کئی آیات تضادوتناقض کا شکار ہوتی نظر آتی ہیں مثلاً:﴿ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (اعراف:54) اور ﴿وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ﴾․ (الأنعام:18) کا ظاہری معنی یہ ہوا کہ الله تعالیٰ حسی طور پر عرش پر بیٹھے ہیں او رجہت فوق میں ہیں ۔لیکن مندرجہ ذیل آیتوں کے ظاہری معنی سے معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ کی ذات گرامی عرش پر نہیں، بلکہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ ﴿وَقَالَ اللّہُ إِنِّیْ مَعَکُمْ﴾․ (المائدہ:11)﴿وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْْنَ مَا کُنتُمْ﴾․(الحدید:4) ﴿إِنَّنِیْ مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَی﴾․(طہ:46) ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ مَا یَکُونُ مِن نَّجْوَی ثَلَاثَةٍ إِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا أَدْنَی مِن ذَلِکَ وَلَا أَکْثَرَ إِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ أَیْْنَ مَا کَانُوا﴾․(المجادلہ:7)
اگر تاویل بدعت ہے تو پھر اس تعارض اورتناقض کا کیا حل؟
غیر مقلدین کا امام مالک رحمہ الله کے قول سے غلط استدلال
غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمہ الله صفات متشابہات کو حقیقی معنوں پر محمول کرکے اس کی کیفیت مجہول قرار دیتے تھے ، چناں چہ ایک بار ان سے جب ”استویٰ“ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا”الاستواء غیر مجہول“ یعنی لفظ ”استویٰ“ کی دلالت اپنے معنی ومراد (استقرار) پر واضح ہے۔ یعنی الله تعالیٰ عرش پر مستقِر ہیں البتہ اس استقرار کی کیفیت مجہول ہے۔ (الاستواء غیر مجہول، والکیف غیر معقول، والایمان بہ واجب، والسئوال عنہ بدعة“․ روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)
علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے اس فریب استدلال سے پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ:
” الاستواء غیر مجہول“ کا مطلب یہ ہے الله تعالیٰ کی صفت استوا (قرآن وحدیث) میں مذکور ہے ۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا معنی ومراد ”استقرار“ معلوم ہے۔ ( لیس نصاً فی ھذ المذھب لاحتمال أن یکون المراد من قولہ : غیر مجہول، انہ ثابت معلوم الثبوت لا أن معناہ وھو الاستقرار غیر مجہول۔“ (روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)
نیز امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کا استوا کے متعلق صحیح قول وہ ہے جو سند صحیح کے ساتھ علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری․ (واخرج البیہقی بسند جید عن عبدالله بن وھب، قال: کنا عند مالک، فدخل رجل فقال: یا أبا عبدالله ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ کیف استوی؟ فاطرق مالک فأخذتہ الرحضاء ثم رفع راسہ، فقال: الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ، ولایقال کیف وکیف عنہ مرفوع․فتح الباری لابن حجر، باب وکان عرشہ علی الماء:494/20) اور علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے کتاب الاسماء والصفات․(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، ص:408) میں نقل کیا ہے کہ ” الله تعالیٰ عرش پر ایسا ہی مستوی ہے جیسے خود آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اسے متشابہہ المعنی قرار دیا۔
لہٰذا امام مالک رحمہ الله کے ایک معروف او رمستند قول کو نظر انداز کرکے ایک غیر معروف اور مبہم قول سے اپنے مطلب کا مفہوم اخذ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ا لله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسم سے اور جسم کی تمام خصوصیات زمان ومکان اور حدود وجہت سے پاک اور منزہ ہے، لہٰذا ذات باری تعالیٰ کے حق میں کوئی لفظ بھی استعمال نہ کیا جائے جو جسم اور خاصہ جسم پر دلالت کرتا ہو، مثلاً لفظ ”أین“ عربی میں مکان کے لیے استعمال ہوتا ہے اور مکان جسم کا خاصہ ہے، لہٰذا ذات باری کے متعلق لفظ ”أین“ سے استفسار جائز نہیں ( مثلا این الله ؟ الله کہاں ہے؟)۔ چناں چہ علامہ ابن حجر رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں۔
” الله تعالیٰ کی حکمتوں پر کیوں اور کیسے کا سوال اٹھانا ایسے ہی عبث ہے جیسے الله کے وجود پر کہاں اور کیسے کا سوال ۔“ (فلا یتوجہ علی حکمہ لم ولا کیف کما لا یتوجہ علیہ فی وجودہ أین وحیث) ․( فتح الباری لابن حجر:441/1)
لیکن غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کے نزدیک ”عرش“ باری تعالیٰ کا مکان اور فوق باری تعالیٰ کی جہت ہے ، دلیل مانگنے پر فوراً مسلم شریف کی حدیث پیش کر دیتے ہیں ، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک باندی سے پوچھا ”أین الله؟“ (الله کہاں ہے؟) جواب میں باندی نے کہا فی السماء (آسمان میں ہے)۔ ( قلت یا رسول الله أفلا أعتقہا قال: ائتنی بھا، فأتیتہ بھا، فقال لہا: این الله؟ قالت: فی السماء․( صحیح مسلم باب تحریم السلام فی الصلاة، رقم الحدیث:1227)
غیر مقلدین اس حدیث سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ”أین“ سے الله کی ذات کے متعلق سوال فرمانا مکان الہی کے ثبوت پر واضح دلیل ہے ، پھر باندی کے جواب فی السماء پر خاموش رہنا بلکہ اسے مومنہ قرار دے کر آزاد کر ادینا اس بات کی دلیل ہے کہ باندی کا جواب درست تھا کہ الله تعالیٰ فی السماء یعنی جہت فوق میں ہے ۔ مذکورہ حدیث کی چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ غیر مقلدین نے جس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے عقیدے کی عمارت کھڑی کی ہے اس کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے۔
1... چناں چہ امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبہیقی، ص:422)
2... حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وفی اللفظ مخالفة کثیرة“ کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ( التلخیص الحبیر:443/3)
3... امام بزار رحمہ الله نے بھی اس حدیث کے اضطراب پر نشان دہی کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ ( کشف الأستار:14/1)
4... علامہ زاہد الکوثری رحمہ الله تعالیٰ نے بھی اس حدیث پر اضطراب کا حکم لگایا ہے ۔ ( ھامش الأسما والصفات:344)
5... نیز حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی سے بھی ”أین“ کا سوال منقول نہیں ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا کہ مشرک ہے یا موحدہ؟( شرح السیوطی علی مسلم:217/2، رقم الحدیث:537)
خلاصہ یہ کہ ایک معلول اور شاذ روایت سے عقیدے کا استنباط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بنا کرا شاعرہ کو گم راہ او ربدعتی کہنا تو سراسر جہالت ہے یا تعصب۔ بالفرض اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا تو پھر ”أین“ کا سوال ذات باری تعالی کے مکان کے لیے نہیں، بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لیے ہو گا، یعنی ہمارے الله کامرتبہ کیا ہے ؟ یا یہ کہ الله تعالیٰ کے احکام وأوامر کا مکان کون سا ہے؟ (کذا فی شر ح النووی علی مسلم،298/2، رقم الحدیث:836)
خلاصہ یہ کہ غیر مقلدین اور سلفی حضرات کا موقف افراط و تفریط کا شکار ہے، چناں چہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں :
” آج کل بعض لوگ جن پر ظاہریت غالب ہے، جب متشابہات کی تفسیر کرتے ہیں تو درجہ اجمال میں تو مسلک سلف پر رہتے ہیں، مگر چار غلطیاں کرتے ہیں ۔
1... ایک یہ کہ تفسیر ظنی کی قطعیت کے مدعی ہو جاتے ہیں۔ ( چناں چہ مسلک تفویض کو باطل قرار دیتے ہیں۔)
2... دوسری غلطی یہ ہے کہ جب تفصیل کرتے ہیں تو عنوانات موہمہ تکییف وتجسیم اختیا رکرتے ہیں ۔ ( جسے کہ عرش کو الله تعالیٰ کا مکان اور ”فوق“ کو جہت قرار دینا اور ید وجہ سے اعضائے جوارح مراد لینا۔)
3... تیسری غلطی یہ کہ مسلک تأویل کو علی الاطلاق باطل کہہ کر ہزاروں اہل حق کی تضلیل کرتے ہیں، حالاں کہ اہل حق کے پاس ان کے مسلک کی صحت کے لیے احادیث بھی بنا ہیں اور قواعد شرعیہ بھی۔(گذشتہ صفحات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔)
4... چوتھی غلطی یہ کہ تفسیر بالاستقرار کو تو سلف کے مسلک پر سمجھتے ہیں اور دوسری تفاسیر لغویہ کو تاویل خلف سمجھتے ہیں ، حالاں کہ سب کا مساوی ہونا اوپر ظاہر ہو چکا ہے۔(امداد الفتاوی:111/6)
صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔
مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔
یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔
مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔
باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)
مجسمہ کی نقلی دلیل او راس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت او رجہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔
جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
غیر مقلدین کا موقف یہ ہے کہ ﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾ اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے ، یعنی الله تعالیٰ”پھر بیٹھا تخت پر“ اور عرش الله تعالیٰ کامکان ہے اور الله تعالیٰ جہت بلندی سے متصف ہے ۔(وھو في جہة الفوق، ومکان العرش۔(نزل الأبرار، کتاب الایمان، ص:3،لاہور)
اسی طرح یَدْ ، وجہ، ساق، سے الله تعالیٰ کے اعضا وجوارح مراد ہیں، تاہم ان کی کیفیت مجہول ہے۔ (”ولہ وجہ، وعین، وید، وکف، وقبضة، واصابع، وساعد، وذراع، وجنب، وحقو، وقدم، ورجل، وساق، وکیف کما تلیق بذاتہ“․(نزل الابرار من فقہ النبی المختار، کتاب الإیمان، ص:3، لاہور)
اگر غیر مقلدین کے مذکورہ موقف ومسلک کو درست قرار دیا جائے تو ذات بار ی تعالیٰ کے لیے ”جسم“ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہتا، کیوں کہ باری تعالیٰ کے لیے مکان وجہت اور اعضائے جارحہ (منھ، ہاتھ، پنڈلی) ثابت کرتے ہی جسمانیت کے تمام پہلو غیر شعوری طور پر پیدا ہو جاتے ہیں یا پھر یہ مسئلہ مبہم اور ناقابل فہم بن جاتا ہے۔
اس لیے کہ جب آپ الله تعالیٰ کے لیے ، چہرہ، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے اثبات پر زور دیتے ہیں تو اس کے جو معنی انسانی ذہن میں متبادر ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کی ذات نہ صرف جسم رکھتی ہے، بلکہ اعضا وجوارح سے بھی متصف ہے، لیکن پھر جب آپ کہتے ہیں ان اعضاءِ جوارحہ کی کیفیت مجہول ہے، اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی مانند نہیں، اس کا چہرہ ہمارے چہرے کی طرح نہیں تو پھر فیصلہ کن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نفی کا اطلاق کس سے متعلق ہے؟
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ:
وہ چہرے، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے مدلولات ہی سے متصف نہیں؟یا یہ کہ وہ ایک نوع کے اعضائے جارحہ تو رکھتا ہے، مگر یہ اعضائے جارحہ تمام ذی اعضا حیوانات سے مختلف ہیں؟
اگر پہلی صورت صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے آپ الفاظ کے ہیر پھیر میں سرگرداں او رکسی نتیجے تک پہنچنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ ایک چیز ثابت کرکے پھر اس کی نفی کر دینے سے کوئی واضح مفہوم سامنے نہیں آتا۔
اگر وہ دوسری صورت صحیح ہے تو پھر ”جسمانیت“ سے دامن بچانا محال ہے ،اس لیے کہ آپ کی نفی کا اطلاق صرف ہیئت، شکل اور نوعیت پر ہوا ہے، جس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے لیے ید، وجہ، استوی علی العرش کے جسمانی مدلول تو ثابت ہیں، لیکن ہمارے ہاتھ ، چہرے کے مقابلے میں بے نظیر ہیں ۔
غیر مقلدین کے مسلک کی مذکورہ کیفیت دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان کا مسلک اہل سنت سے جدا او رناقابل فہم ہے۔ (استوی علی العرش، وھذا الأصل معقود لبیان أنہ تعالیٰ غیر مستقر علی مکان کما قدمہ صریحاً فی ترجمة اصول الرکن الأول، ونبہ علیہ مصانا بالجواب عن تمسک القائلین بالجھة والمکان، فإن الکرامیة یثبتون جہة العلو من غیر استقرار علی العرش، والحشویة، وھم المجسمة، یصر حون بالاستقرار علی العرش وتمسکو بظواہرھا منھا قولہ تعالیٰ: ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾․ (المسامرة شرح المسایرہ ، الأصل الثامن:ص،44، بیروت)
علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ( صفات متشابہات) میں تاؤیل سے پہلوتہی اختیار کرکے الفاظ کے ظاہری معنی کے درپے ہو جانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ قرآن کریم کی آیات تضادبیانی کا شکار ہیں۔ (وقد جمع فی ھذہ الأیة بین ”استوی العرش“ وبین ”ھو معکم“ ، والأخذ بالظاھر من تناقض، فدل علی انہ لا بدمن التاویل، والإعراض عن التاویل اعتراف بالتناقض)․ (احکام القرآن اللقرطبی) کیوں کہ صفات متشابہات کے ظاہری معنی مراد لینے سے قرآن کی کئی آیات تضادوتناقض کا شکار ہوتی نظر آتی ہیں مثلاً:﴿ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (اعراف:54) اور ﴿وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ﴾․ (الأنعام:18) کا ظاہری معنی یہ ہوا کہ الله تعالیٰ حسی طور پر عرش پر بیٹھے ہیں او رجہت فوق میں ہیں ۔لیکن مندرجہ ذیل آیتوں کے ظاہری معنی سے معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ کی ذات گرامی عرش پر نہیں، بلکہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ ﴿وَقَالَ اللّہُ إِنِّیْ مَعَکُمْ﴾․ (المائدہ:11)﴿وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْْنَ مَا کُنتُمْ﴾․(الحدید:4) ﴿إِنَّنِیْ مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَی﴾․(طہ:46) ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ مَا یَکُونُ مِن نَّجْوَی ثَلَاثَةٍ إِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا أَدْنَی مِن ذَلِکَ وَلَا أَکْثَرَ إِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ أَیْْنَ مَا کَانُوا﴾․(المجادلہ:7)
اگر تاویل بدعت ہے تو پھر اس تعارض اورتناقض کا کیا حل؟
غیر مقلدین کا امام مالک رحمہ الله کے قول سے غلط استدلال
غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمہ الله صفات متشابہات کو حقیقی معنوں پر محمول کرکے اس کی کیفیت مجہول قرار دیتے تھے ، چناں چہ ایک بار ان سے جب ”استویٰ“ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا”الاستواء غیر مجہول“ یعنی لفظ ”استویٰ“ کی دلالت اپنے معنی ومراد (استقرار) پر واضح ہے۔ یعنی الله تعالیٰ عرش پر مستقِر ہیں البتہ اس استقرار کی کیفیت مجہول ہے۔ (الاستواء غیر مجہول، والکیف غیر معقول، والایمان بہ واجب، والسئوال عنہ بدعة“․ روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)
علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے اس فریب استدلال سے پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ:
” الاستواء غیر مجہول“ کا مطلب یہ ہے الله تعالیٰ کی صفت استوا (قرآن وحدیث) میں مذکور ہے ۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا معنی ومراد ”استقرار“ معلوم ہے۔ ( لیس نصاً فی ھذ المذھب لاحتمال أن یکون المراد من قولہ : غیر مجہول، انہ ثابت معلوم الثبوت لا أن معناہ وھو الاستقرار غیر مجہول۔“ (روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)
نیز امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کا استوا کے متعلق صحیح قول وہ ہے جو سند صحیح کے ساتھ علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری․ (واخرج البیہقی بسند جید عن عبدالله بن وھب، قال: کنا عند مالک، فدخل رجل فقال: یا أبا عبدالله ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ کیف استوی؟ فاطرق مالک فأخذتہ الرحضاء ثم رفع راسہ، فقال: الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ، ولایقال کیف وکیف عنہ مرفوع․فتح الباری لابن حجر، باب وکان عرشہ علی الماء:494/20) اور علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے کتاب الاسماء والصفات․(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، ص:408) میں نقل کیا ہے کہ ” الله تعالیٰ عرش پر ایسا ہی مستوی ہے جیسے خود آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اسے متشابہہ المعنی قرار دیا۔
لہٰذا امام مالک رحمہ الله کے ایک معروف او رمستند قول کو نظر انداز کرکے ایک غیر معروف اور مبہم قول سے اپنے مطلب کا مفہوم اخذ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ا لله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسم سے اور جسم کی تمام خصوصیات زمان ومکان اور حدود وجہت سے پاک اور منزہ ہے، لہٰذا ذات باری تعالیٰ کے حق میں کوئی لفظ بھی استعمال نہ کیا جائے جو جسم اور خاصہ جسم پر دلالت کرتا ہو، مثلاً لفظ ”أین“ عربی میں مکان کے لیے استعمال ہوتا ہے اور مکان جسم کا خاصہ ہے، لہٰذا ذات باری کے متعلق لفظ ”أین“ سے استفسار جائز نہیں ( مثلا این الله ؟ الله کہاں ہے؟)۔ چناں چہ علامہ ابن حجر رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں۔
” الله تعالیٰ کی حکمتوں پر کیوں اور کیسے کا سوال اٹھانا ایسے ہی عبث ہے جیسے الله کے وجود پر کہاں اور کیسے کا سوال ۔“ (فلا یتوجہ علی حکمہ لم ولا کیف کما لا یتوجہ علیہ فی وجودہ أین وحیث) ․( فتح الباری لابن حجر:441/1)
لیکن غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کے نزدیک ”عرش“ باری تعالیٰ کا مکان اور فوق باری تعالیٰ کی جہت ہے ، دلیل مانگنے پر فوراً مسلم شریف کی حدیث پیش کر دیتے ہیں ، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک باندی سے پوچھا ”أین الله؟“ (الله کہاں ہے؟) جواب میں باندی نے کہا فی السماء (آسمان میں ہے)۔ ( قلت یا رسول الله أفلا أعتقہا قال: ائتنی بھا، فأتیتہ بھا، فقال لہا: این الله؟ قالت: فی السماء․( صحیح مسلم باب تحریم السلام فی الصلاة، رقم الحدیث:1227)
غیر مقلدین اس حدیث سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ”أین“ سے الله کی ذات کے متعلق سوال فرمانا مکان الہی کے ثبوت پر واضح دلیل ہے ، پھر باندی کے جواب فی السماء پر خاموش رہنا بلکہ اسے مومنہ قرار دے کر آزاد کر ادینا اس بات کی دلیل ہے کہ باندی کا جواب درست تھا کہ الله تعالیٰ فی السماء یعنی جہت فوق میں ہے ۔ مذکورہ حدیث کی چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ غیر مقلدین نے جس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے عقیدے کی عمارت کھڑی کی ہے اس کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے۔
1... چناں چہ امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبہیقی، ص:422)
2... حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وفی اللفظ مخالفة کثیرة“ کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ( التلخیص الحبیر:443/3)
3... امام بزار رحمہ الله نے بھی اس حدیث کے اضطراب پر نشان دہی کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ ( کشف الأستار:14/1)
4... علامہ زاہد الکوثری رحمہ الله تعالیٰ نے بھی اس حدیث پر اضطراب کا حکم لگایا ہے ۔ ( ھامش الأسما والصفات:344)
5... نیز حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی سے بھی ”أین“ کا سوال منقول نہیں ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا کہ مشرک ہے یا موحدہ؟( شرح السیوطی علی مسلم:217/2، رقم الحدیث:537)
خلاصہ یہ کہ ایک معلول اور شاذ روایت سے عقیدے کا استنباط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بنا کرا شاعرہ کو گم راہ او ربدعتی کہنا تو سراسر جہالت ہے یا تعصب۔ بالفرض اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا تو پھر ”أین“ کا سوال ذات باری تعالی کے مکان کے لیے نہیں، بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لیے ہو گا، یعنی ہمارے الله کامرتبہ کیا ہے ؟ یا یہ کہ الله تعالیٰ کے احکام وأوامر کا مکان کون سا ہے؟ (کذا فی شر ح النووی علی مسلم،298/2، رقم الحدیث:836)
خلاصہ یہ کہ غیر مقلدین اور سلفی حضرات کا موقف افراط و تفریط کا شکار ہے، چناں چہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں :
” آج کل بعض لوگ جن پر ظاہریت غالب ہے، جب متشابہات کی تفسیر کرتے ہیں تو درجہ اجمال میں تو مسلک سلف پر رہتے ہیں، مگر چار غلطیاں کرتے ہیں ۔
1... ایک یہ کہ تفسیر ظنی کی قطعیت کے مدعی ہو جاتے ہیں۔ ( چناں چہ مسلک تفویض کو باطل قرار دیتے ہیں۔)
2... دوسری غلطی یہ ہے کہ جب تفصیل کرتے ہیں تو عنوانات موہمہ تکییف وتجسیم اختیا رکرتے ہیں ۔ ( جسے کہ عرش کو الله تعالیٰ کا مکان اور ”فوق“ کو جہت قرار دینا اور ید وجہ سے اعضائے جوارح مراد لینا۔)
3... تیسری غلطی یہ کہ مسلک تأویل کو علی الاطلاق باطل کہہ کر ہزاروں اہل حق کی تضلیل کرتے ہیں، حالاں کہ اہل حق کے پاس ان کے مسلک کی صحت کے لیے احادیث بھی بنا ہیں اور قواعد شرعیہ بھی۔(گذشتہ صفحات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔)
4... چوتھی غلطی یہ کہ تفسیر بالاستقرار کو تو سلف کے مسلک پر سمجھتے ہیں اور دوسری تفاسیر لغویہ کو تاویل خلف سمجھتے ہیں ، حالاں کہ سب کا مساوی ہونا اوپر ظاہر ہو چکا ہے۔(امداد الفتاوی:111/6)
صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔
مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔
یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔
مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔
باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)
مجسمہ کی نقلی دلیل او راس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت او رجہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔
جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
ملائکہ کی حقیقت اور ان کی صفات
﴿وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْم﴾․(بقرہ، آیت:29)
الله تعالیٰ کی ایک صفت علم ہے
﴿وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْم﴾․ الله تعالیٰ کی ایک صفت علم ہے ۔ یعنی وہ ہر چیز سے واقف اور باخبر ہے ۔ خالق کائنات ہونے کی حیثیت سے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کا علم اپنی ذات تک محدود نہ ہو، بلکہ کائنات میں موجود تمام اشیا او رمخلوقات کی کلیات وجزئیات تک پھیلا ہوا ہو۔
﴿وَمَا تَکُونُ فِیْ شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْہُ مِن قُرْآنٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْْکُمْ شُہُوداً إِذْ تُفِیْضُونَ فِیْہِ وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِکَ وَلا أَکْبَرَ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾․ (سورہ یونس، آیت:61)
ترجمہ: ”اور نہیں ہوتا تو کسی حال میں اور نہ پڑھتا ہے اس میں سے کچھ قرآن او رنہیں کرتے ہو تم لوگ کچھ کام کہ ہم نہیں ہوتے حاضر تمہارے پاس جب تم مصروف ہوتے ہو اس میں اور غائب نہیں رہتا تیرے رب سے ایک ذرہ بھر زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ چھوٹا اس سے اور نہ بڑا جو نہیں ہے کھلی ہوئی کتاب میں۔“
کیا الله تعالیٰ جزئیات زمانی سے آگاہ نہیں
فلاسفہ کی ایک جماعت کا دعوی ہے کہ الله تعالیٰ جزئیات زمانی سے واقف نہیں ہے، اس کا دائرہ علم اپنی ہی ذات میں سمٹا ہوا ہے۔ البتہ جمہور فلاسفہ کا نقطہٴ نظر یہ ہے کہ الله تعالیٰ جزئیات زمانی جانتا تو ہے، مگر جزئیات زمانی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ کلی کی حیثیت سے ۔ (المسامرة:68)
مثلاً: ازل سے اس کے علم میں ہے کہ افلاک کی حرکتِ دوریہ کی بدولت شمس وقمر کا ایک نظام قائم ہو گا، اس نظام کے تحت جب چاند ، سورج کے آمنے سامنے ہو گا تو سورج گریہن کا واقعہ رونما ہو گا۔ اس اسلوبِ کلی کی حیثیت سے تو الله تعالیٰ کو سورج گرہن ہونے کی تمام جزئیات کا علم ہے ، لیکن یہ علم جزئیات زمانی کو شامل نہیں ، یعنی کب او رکس وقت سورج گرہن کا واقعہ معرض ظہور میں آئے گا؟ او رکس وقت اختتام پذیر ہو گا؟ علم الہی کی یہی صورت انسان کے متعلق بھی ہے کہ وہ انسان کے عوارض وکوائف سے مکمل واقف ہے، لیکن خالد وعمر کے احوالِ شخصیہ کیا ہیں ؟ او روہ کب رونما ہوں گے ؟ اس سے وہ لاعلم ہے ، کیوں کہ ان سے آشنائی کی صورت عقلی نہیں حسی ہے اور وہ حسیات سے ماورا او رمنزہ ہے۔
فلاسفہ کی دلیل
فلاسفہ کہتے ہیں اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ علم الہٰی کی وسعت جزئیات زمانی تک پھیلی ہوئی ہے تو اس سے کئی خرابیاں لازم آتی ہیں۔ مثلاً: اسی سورج گرہن کا واقعہ لیجیے۔ اس کا تجزیہ کرنے سے اس کی مختلف کیفیتیں سامنے آئیں۔
1...پہلے سورج گرہن نہیں ہوا تھا، لیکن متوقع تھا۔
2...سورج گرہن ہوا۔
3...گرہن ختم ہو گیا، لیکن اس سے پہلے موجود تھا۔
ان تین مختلف کیفیتوں سے علم کی تین نوعیتیں ابھریں۔ اب اگر علم الہی جزئیات زمانیہ کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہو تو علم میں تغیر اور تعدد لازم آئے گا، اس لیے کہ علم الہی جب اس بات سے متعلق تھا کہ فلاں وقت سورج گرہن ہوا ہے تو خلافِ حقیقت ہونے کی وجہ سے جہل ہو گا، کیوں کہ ازل میں فلک تھا ،نہ نظامِ شمس وقمر تھا او رجب علم الہی اس بات سے متعلق تھا کہ فلاں وقت سورج گرہن ہو گا، تو یہ واقعہ ختم ہونے کے بعد پھر اس بات سے متعلق ہو گا کہ فلاں وقت سورج گرہن ہوا تھا۔ دیکھیے! مختلف کیفیتوں کے ساتھ علمِ الہی بھی تغیّر پذیر ہے۔ یعنی الله تعالیٰ کا علم بھی ایک علم نہیں رہتا، بلکہ متعدد شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ ایسا تعدد اور تغیرّ پذیر علم حدوث (فنا) کو مستلزم ہے، جو قدیم ( ہمیشہ رہنی والی ذات باری تعالی) کی صفت نہیں بن سکتی ۔ لہٰذا سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ علم الہی کو جزئیات زمانی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔
فلاسفہ کی دلیل مغالطے پر مبنی ہے
فلاسفہ کی یہ دلیل مغالطے پر مبنی ہے، کیوں کہ نظام ِ شمسی کے قائم ہونے کے بعد جب سورج گرہن ہوا ، یا اس کیفیت سے گزر کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آیا، بہرصورت اس کے متعلق علم الہی درحقیقت وہی سابقہ علم ہی ہے جو ازل سے الله تعالیٰ کو حاصل ہے ۔ یہاں تغیّر علم میں نہیں، بلکہ معلومات میں ہے۔ (المسامرہ:68)
یہ بالکل ایسا ہے جیسے آئینے کے سامنے انسان گزر جائے تو انسان کی صورت منعکس ہو گی او راگر گھوڑا گزر جائے تو گھوڑے کی صورت منعکس ہو گی ۔ اس صورت میں تغیّر آئینے کے تعلق میں ہے، خود آئینے میں کوئی تغیّر واقع نہیں ہوا، نسبت واضافت کے تغیّر کو علم وذات کا تغیّر قرار دینا سراسر مغالطہ ہے۔
علاوہ ازیں فلاسفہ کا موقف خود انہیں کے اصولوں کی روشنی میں بھی درست نہیں ۔ کیوں کہ ان کے نزدیک تمام اجناس وانواع کا علم اسلوب کلی کی حیثیت سے الله تعالیٰ کو حاصلہے ، ظاہر ہے کہ تمام اجناس وانواع کا علم ایک دوسرے سے مختلف ہو گا ، کیوں کہ جو علم حیوانات کے متعلق ہے وہ جمادات کے متعلق نہیں ہو سکتا ۔ لہٰذا علم الہی میں تغیّر اور تعدد تو اسلوبِ کل کی صورت میں بھی لازم آرہا ہے۔ پھر جزئیات زمانیہ پر ہی اعتراض کیوں؟
علم بار ی تعالیٰ خالص عقیدے کا مسئلہ ہے، جسے وحی کی روشنی میں حل ہونا چاہیے کہ ”علم“ الله تعالیٰ کی ازلی اور ابدی صفت ہے او رکلیات وجزئیات سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، فلاسفہ نے محض عقل کے بل بوتے پر جس رائے کا اظہار کیا ہے اس کی علمی سطح انتہائی کمزو رہے، جسے بقدر ضرورت یہاں ذکر کر دیا گیا ہے ۔ تاہم اہل علم اگر اس سطحی پن سے مزید واقف ہونا چاہیں تو کتاب الملل والنحل لشھرستانی، المسامرة اور تھافة الفلاسة کی طرف رجوع کریں، جہاں علامہ غزالی رحمہ الله نے فلاسفہ پر نقد واحتساب کادبستان سجا کر واضح کر دیا ہے کہ #
فلسفہ چوں اکثرش باشد ”سفہ“ پس کل آں
ہم ”سفہ“ باشد کہ حکمِ کل، حکم اکثر است
﴿ وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُون﴾․(سورہ بقرہ، آیت:30)
ترجمہ:” اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب، کہا فرشتوں نے کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے اس میں اور خون بہائے اور ہم پڑھتے رہتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو؟ فرمایا بے شک مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔“
ربط آیت
گزشتہ آیت میں ظاہری او رحسی نعمتوں کا تذکرہ تھا، اس آیت میں الله تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور خلافت کا ذکر فرماکر اپنی باطنی نعمتوں کااظہار فرمارہے ہیں۔
تفسیر
یہاں سے اس ماجرے کا تذکرہ ہو رہا ہے جو عالم غیب میں الله تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان ہوا تھا، جب الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ارادہ فرما کر خلافت کے منصب سے سرفراز کرنا چاہا تو فرشتوں سے فرمایا:﴿انی جاعل فی الارض خلیفة ﴾( کہ میں زمین پر ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں)۔
تو فرشتے حیرت او رتعجب کا اظہار کرنے لگے، کیوں کہ وہ زمین پر پہلے سے موجود ایک مخلوق جنات کے حالات سے واقف تھے۔ جو ناری (آگ سے پیدا) ہونے کی وجہ سے شر وفسا د کا نمایاں عنصر لیے ہوئے تھے اور زمین میں قتل وخون ریزی کا بازار گرم کیے ہوئے تھے ۔ ان کے خیال میں یہ مخلوق بھی اسی طرح قتل وفساد کی خوگر ہو گی۔
علاوہ ازیں فرشتوں کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ جس نئی مخلوق کو زمین کی خلافت کا عظیم منصب سونپا جارہاہے اس کی فطرت متضاد قوتوں کا مجموعہ ہے۔
قوت شہوانیہ۔قوت غضبانیہیہ دونوں قوتیں شر وفساد کا سبب بنتی ہیں۔
قوت عقلیہ: یہ اطاعت تسبیح وتحمید کے داعیے ابھارتی ہے۔ فرشتوں نے پہلی دو قوتوں پر الگ الگ غور کرکے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ مخلوق بھی جنات کی طرح فساد برپا کرے گی اور قوتِ عقلیہ کے جو تقاضے ہیں تسبیح وتحمید اطاعت الہی وغیرہ وہ سب ہم پورے کر رہے ہیں، پھر اس نئی مخلوق پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ لیکن اس نکتہ پر غور نہیں کیا کہ جب قوتِ شہوانیہ اور غضبانیہ ، قوت عقلیہ کے تابع ہو جائیں تو کیا کمال پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے بارہ گاہ الہی میں عرض کیا:﴿اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء﴾ آپ ایسی مخلوق پیدا کر رہے ہیں جو زمین میں فساد اور خون ریزی کرے گی ؟(حاشیہ الشھاب البقرة، تحت آیہ رقم:30)
چوں کہ الله تعالیٰ کے علم میں تھا جب قوتِ شہوانیہ اور غضبانیہ قوت عقلی کے تابع ہو جائیں تو فتنہ اور ظلم کی سرکوبی پر قدرت حاصل ہوتی ہے، اس کے بل بوتے پر عادلانہ نظام کا قیام ممکن ہوتا ہے اور یہی متضاد صفات رکھنے والی مخلوق ہے جس میں انبیائے کرام، صدیقین، شہداء، صلحاء پیدا ہوں گے، اس لیے فرمایا: ﴿انی اعلم مالا تعلمون﴾․ ( تفسیر ابن کثیر، البقرہ، تحت آیہ رقم:30)
﴿وإذ قال ربک للملئکة﴾ قرآن کریم میں یہ پہلا مقام ہے کہ ملائکہ (فرشتوں) کا ذکر صریح الفاظ میں ہوا ہے ، چوں کہ بعض لوگوں نے ملائکہ ( فرشتوں) کے بارے میں عجیب وغریب رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے اس مقام پر قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کر دیا جاتا ہے کہ قرآن وسنت کی رو سے ملائکہ (فرشتوں) کی حقیقت کیا ہے؟ او ران کی صفات کیا ہیں؟
ملائکة
”ملٰئکة“ جمع ہے، اس کا واحد ”ملک“ ہے ،مأخذ اشتاق ”ألوکة“ ہے ۔ جس کا معنی ہے پیغام رسانی ، چوں کہ فرشتے الله تعالیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندے تک پہنچاتے ہیں، اس لیے انہیں”ملائکة“ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے ۔ (مفردات القرآن للراغب، ص:28)
ملائکہ کی حقیقت
ملائکة (فرشتے) الله تعالیٰ کی ایک لطیف اور نورانی مخلوق ہے، بذاتِ خود مستقل ایک وجود رکھتی ہے، کسی کی صفت نہیں، مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ زور آوری اور طاقت کے بل بوتے پر بڑے بڑے امور انجام دے سکتی ہے ، اطاعتِ الہی ان کی فطرت ہے، گناہوں سے معصوم او رغلطی ونسیان سے محفوظ ہے ، کھانے پینے، تذکیر وتانیث، تو الدوتناسل سے پاک ہے ان کی تعداد الله کے علاوہ کوئی نہیں جانتا : ﴿ومایعلم جنود ربک إلاھو﴾ انبیائے کرام کے علاوہ دیگر لوگ بھی اس مخلوق کو مختلف شکلوں میں دیکھ چکے ہیں، ان کے وجود کا انکار کرنا یا دور ازکار رکیک تاویلیں کرنا الحاد وزندقہ ہے۔
ملائکہ کا ثبوت
ملائکہ کے ثبوت پر واضح دلیل یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام نے انہیں بچشم خود دیکھا ہے، چناں چہ قرآن کریم میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی بابت ذکر ہے ۔﴿ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَی ، وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَی ،ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی ، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنَی﴾․ (سورہ نجم، آیت:9-5)
ترجمہ: ”اس کو سکھلایا ہے سخت قوتوں والے نے، زور آور نے، پھر سیدھا بیٹھا اور وہ تھا اونچے کنارہ پر آسمان کے ، پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا، پھر رہ گیا فرق دو کمان کی برابر یا اس سے بھی نزدیک۔“
یعنی وحی بھیجنے والا تو اصل میں الله تعالیٰ ہے، لیکن جس کے ذریعے وحی آپ تک پہنچتی ہے اور جوبظاہر آپ کو سکھلاتا ہے وہ بہت سخت قوتوں والا اور زور آور وجیہ فرشتہ ہے، جسے جبرائیل امین کہتے ہیں، جو اپنی اصلی اور حقیقی صورت میں افق آسمانی پر سیدھے کھڑے ہوئے نمودار ہوئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو بے ہوش ہو گئے، جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں آگے بڑھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے اس قدر نزدیک ہو گئے کہ دونوں کے درمیان دو کمانوں سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ ( تفسیر ابن کثیر ، النجم، تحت آیہ رقم:6-5)
چوں کہ الله تعالیٰ کے علم میں تھا کہ کچھ لوگ ملائکہ کے بارے میں تاویل وتکذیب سے کام لیں گے، اس لیے ان کو خاموش کرانے کے لیے یہ بھی ساتھ فرما دیا: ﴿مازاغ البصر وماطغیٰ ﴾کہ یہ دیکھنا وہم وخیال کا نتیجہ نہیں، جسے نظر کا قصور سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔
ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ مستقل بالذات ایک مخلوق کا نام ہے ، انسان کی ملکوتی صفات کو ملائکہ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ صفت کبھی اپنے موصوف سے جدا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی شکل اختیار کرکے موصوف کے لیے معلم بن سکتی ہے ۔
اسی طرح قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ان فرشتوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے انسانی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام: ﴿ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْْفِ إِبْرَاہِیْمَ الْمُکْرَمِیْن…﴾․ (الذاریات:28-24)
حضرت لوط علیہ السلام:﴿وَلَمَّا جَاء تْ رُسُلُنَا لُوطاً سِیْء َ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعاً وَقَالَ ہَذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ﴾․(سورہ ھود، آیت:77)
حضرت داؤد علیہ السلام:﴿وھل أتٰک نبؤ الخصم إذ تسوروا المحراب﴾․ (ص:22-21) سے شرفِ ملاقات حاصل کی۔
انبیا کے علاوہ دیگر لوگوں سے بھی فرشتوں کی ملاقات کا ذکر آیا ہے ۔ ان میں سرِ فہرست حضرت مریم علیہا السلام ہیں۔ قرآن کریم میں ہے کہ جب انسانی صورت میں ایک فرشتہ ان کے پاس پہنچا تو آپ فرمانے لگیں میں تیری طرف سے رحمان کی پناہ میں آتی ہوں اگر تیرے دل میں خدا کا ڈر ہو گا:﴿فَأَرْسَلْنَا إِلَیْْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّاً، قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنکَ إِن کُنتَ تَقِیّا﴾․ (سورہ مریم، آیت:18,17)
بخاری شریف کتاب الایمان میں ایک معروف حدیث ہے، جسے علماء ”حدیث جبرائیل علیہ السلام“ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک اجنبی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں آیا اور دین اسلام کے متعلق کچھ سوال وجواب کیے اور چلا گیا ، اس کے جانے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبرائیل تھے، جو تمہیں دین سکھلانے کی غرض سے تشریف لائے تھے۔(صحیح البخاری، کتاب الإیمان، رقم الحدیث:37)
اس مجلس میں موجود تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو انسانی شکل میں دیکھا ہے ،اس قدر واضح دلائل کے بعد بھی اب کوئی یہ دعوی کرے کہ ملائکہ الله تعالیٰ کی بعض صفات کا نام ہے یا انسان کی ملکوتی صفت ہے، تو یہ ضد اور ہٹ دھرمی ہے، جس کا کوئی علاج نہیں۔
الله تعالیٰ کی ایک صفت علم ہے
﴿وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْم﴾․ الله تعالیٰ کی ایک صفت علم ہے ۔ یعنی وہ ہر چیز سے واقف اور باخبر ہے ۔ خالق کائنات ہونے کی حیثیت سے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کا علم اپنی ذات تک محدود نہ ہو، بلکہ کائنات میں موجود تمام اشیا او رمخلوقات کی کلیات وجزئیات تک پھیلا ہوا ہو۔
﴿وَمَا تَکُونُ فِیْ شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْہُ مِن قُرْآنٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْْکُمْ شُہُوداً إِذْ تُفِیْضُونَ فِیْہِ وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِکَ وَلا أَکْبَرَ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾․ (سورہ یونس، آیت:61)
ترجمہ: ”اور نہیں ہوتا تو کسی حال میں اور نہ پڑھتا ہے اس میں سے کچھ قرآن او رنہیں کرتے ہو تم لوگ کچھ کام کہ ہم نہیں ہوتے حاضر تمہارے پاس جب تم مصروف ہوتے ہو اس میں اور غائب نہیں رہتا تیرے رب سے ایک ذرہ بھر زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ چھوٹا اس سے اور نہ بڑا جو نہیں ہے کھلی ہوئی کتاب میں۔“
کیا الله تعالیٰ جزئیات زمانی سے آگاہ نہیں
فلاسفہ کی ایک جماعت کا دعوی ہے کہ الله تعالیٰ جزئیات زمانی سے واقف نہیں ہے، اس کا دائرہ علم اپنی ہی ذات میں سمٹا ہوا ہے۔ البتہ جمہور فلاسفہ کا نقطہٴ نظر یہ ہے کہ الله تعالیٰ جزئیات زمانی جانتا تو ہے، مگر جزئیات زمانی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ کلی کی حیثیت سے ۔ (المسامرة:68)
مثلاً: ازل سے اس کے علم میں ہے کہ افلاک کی حرکتِ دوریہ کی بدولت شمس وقمر کا ایک نظام قائم ہو گا، اس نظام کے تحت جب چاند ، سورج کے آمنے سامنے ہو گا تو سورج گریہن کا واقعہ رونما ہو گا۔ اس اسلوبِ کلی کی حیثیت سے تو الله تعالیٰ کو سورج گرہن ہونے کی تمام جزئیات کا علم ہے ، لیکن یہ علم جزئیات زمانی کو شامل نہیں ، یعنی کب او رکس وقت سورج گرہن کا واقعہ معرض ظہور میں آئے گا؟ او رکس وقت اختتام پذیر ہو گا؟ علم الہی کی یہی صورت انسان کے متعلق بھی ہے کہ وہ انسان کے عوارض وکوائف سے مکمل واقف ہے، لیکن خالد وعمر کے احوالِ شخصیہ کیا ہیں ؟ او روہ کب رونما ہوں گے ؟ اس سے وہ لاعلم ہے ، کیوں کہ ان سے آشنائی کی صورت عقلی نہیں حسی ہے اور وہ حسیات سے ماورا او رمنزہ ہے۔
فلاسفہ کی دلیل
فلاسفہ کہتے ہیں اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ علم الہٰی کی وسعت جزئیات زمانی تک پھیلی ہوئی ہے تو اس سے کئی خرابیاں لازم آتی ہیں۔ مثلاً: اسی سورج گرہن کا واقعہ لیجیے۔ اس کا تجزیہ کرنے سے اس کی مختلف کیفیتیں سامنے آئیں۔
1...پہلے سورج گرہن نہیں ہوا تھا، لیکن متوقع تھا۔
2...سورج گرہن ہوا۔
3...گرہن ختم ہو گیا، لیکن اس سے پہلے موجود تھا۔
ان تین مختلف کیفیتوں سے علم کی تین نوعیتیں ابھریں۔ اب اگر علم الہی جزئیات زمانیہ کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہو تو علم میں تغیر اور تعدد لازم آئے گا، اس لیے کہ علم الہی جب اس بات سے متعلق تھا کہ فلاں وقت سورج گرہن ہوا ہے تو خلافِ حقیقت ہونے کی وجہ سے جہل ہو گا، کیوں کہ ازل میں فلک تھا ،نہ نظامِ شمس وقمر تھا او رجب علم الہی اس بات سے متعلق تھا کہ فلاں وقت سورج گرہن ہو گا، تو یہ واقعہ ختم ہونے کے بعد پھر اس بات سے متعلق ہو گا کہ فلاں وقت سورج گرہن ہوا تھا۔ دیکھیے! مختلف کیفیتوں کے ساتھ علمِ الہی بھی تغیّر پذیر ہے۔ یعنی الله تعالیٰ کا علم بھی ایک علم نہیں رہتا، بلکہ متعدد شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ ایسا تعدد اور تغیرّ پذیر علم حدوث (فنا) کو مستلزم ہے، جو قدیم ( ہمیشہ رہنی والی ذات باری تعالی) کی صفت نہیں بن سکتی ۔ لہٰذا سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ علم الہی کو جزئیات زمانی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔
فلاسفہ کی دلیل مغالطے پر مبنی ہے
فلاسفہ کی یہ دلیل مغالطے پر مبنی ہے، کیوں کہ نظام ِ شمسی کے قائم ہونے کے بعد جب سورج گرہن ہوا ، یا اس کیفیت سے گزر کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آیا، بہرصورت اس کے متعلق علم الہی درحقیقت وہی سابقہ علم ہی ہے جو ازل سے الله تعالیٰ کو حاصل ہے ۔ یہاں تغیّر علم میں نہیں، بلکہ معلومات میں ہے۔ (المسامرہ:68)
یہ بالکل ایسا ہے جیسے آئینے کے سامنے انسان گزر جائے تو انسان کی صورت منعکس ہو گی او راگر گھوڑا گزر جائے تو گھوڑے کی صورت منعکس ہو گی ۔ اس صورت میں تغیّر آئینے کے تعلق میں ہے، خود آئینے میں کوئی تغیّر واقع نہیں ہوا، نسبت واضافت کے تغیّر کو علم وذات کا تغیّر قرار دینا سراسر مغالطہ ہے۔
علاوہ ازیں فلاسفہ کا موقف خود انہیں کے اصولوں کی روشنی میں بھی درست نہیں ۔ کیوں کہ ان کے نزدیک تمام اجناس وانواع کا علم اسلوب کلی کی حیثیت سے الله تعالیٰ کو حاصلہے ، ظاہر ہے کہ تمام اجناس وانواع کا علم ایک دوسرے سے مختلف ہو گا ، کیوں کہ جو علم حیوانات کے متعلق ہے وہ جمادات کے متعلق نہیں ہو سکتا ۔ لہٰذا علم الہی میں تغیّر اور تعدد تو اسلوبِ کل کی صورت میں بھی لازم آرہا ہے۔ پھر جزئیات زمانیہ پر ہی اعتراض کیوں؟
علم بار ی تعالیٰ خالص عقیدے کا مسئلہ ہے، جسے وحی کی روشنی میں حل ہونا چاہیے کہ ”علم“ الله تعالیٰ کی ازلی اور ابدی صفت ہے او رکلیات وجزئیات سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، فلاسفہ نے محض عقل کے بل بوتے پر جس رائے کا اظہار کیا ہے اس کی علمی سطح انتہائی کمزو رہے، جسے بقدر ضرورت یہاں ذکر کر دیا گیا ہے ۔ تاہم اہل علم اگر اس سطحی پن سے مزید واقف ہونا چاہیں تو کتاب الملل والنحل لشھرستانی، المسامرة اور تھافة الفلاسة کی طرف رجوع کریں، جہاں علامہ غزالی رحمہ الله نے فلاسفہ پر نقد واحتساب کادبستان سجا کر واضح کر دیا ہے کہ #
فلسفہ چوں اکثرش باشد ”سفہ“ پس کل آں
ہم ”سفہ“ باشد کہ حکمِ کل، حکم اکثر است
﴿ وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُون﴾․(سورہ بقرہ، آیت:30)
ترجمہ:” اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب، کہا فرشتوں نے کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے اس میں اور خون بہائے اور ہم پڑھتے رہتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو؟ فرمایا بے شک مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔“
ربط آیت
گزشتہ آیت میں ظاہری او رحسی نعمتوں کا تذکرہ تھا، اس آیت میں الله تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور خلافت کا ذکر فرماکر اپنی باطنی نعمتوں کااظہار فرمارہے ہیں۔
تفسیر
یہاں سے اس ماجرے کا تذکرہ ہو رہا ہے جو عالم غیب میں الله تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان ہوا تھا، جب الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ارادہ فرما کر خلافت کے منصب سے سرفراز کرنا چاہا تو فرشتوں سے فرمایا:﴿انی جاعل فی الارض خلیفة ﴾( کہ میں زمین پر ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں)۔
تو فرشتے حیرت او رتعجب کا اظہار کرنے لگے، کیوں کہ وہ زمین پر پہلے سے موجود ایک مخلوق جنات کے حالات سے واقف تھے۔ جو ناری (آگ سے پیدا) ہونے کی وجہ سے شر وفسا د کا نمایاں عنصر لیے ہوئے تھے اور زمین میں قتل وخون ریزی کا بازار گرم کیے ہوئے تھے ۔ ان کے خیال میں یہ مخلوق بھی اسی طرح قتل وفساد کی خوگر ہو گی۔
علاوہ ازیں فرشتوں کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ جس نئی مخلوق کو زمین کی خلافت کا عظیم منصب سونپا جارہاہے اس کی فطرت متضاد قوتوں کا مجموعہ ہے۔
قوت شہوانیہ۔قوت غضبانیہیہ دونوں قوتیں شر وفساد کا سبب بنتی ہیں۔
قوت عقلیہ: یہ اطاعت تسبیح وتحمید کے داعیے ابھارتی ہے۔ فرشتوں نے پہلی دو قوتوں پر الگ الگ غور کرکے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ مخلوق بھی جنات کی طرح فساد برپا کرے گی اور قوتِ عقلیہ کے جو تقاضے ہیں تسبیح وتحمید اطاعت الہی وغیرہ وہ سب ہم پورے کر رہے ہیں، پھر اس نئی مخلوق پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ لیکن اس نکتہ پر غور نہیں کیا کہ جب قوتِ شہوانیہ اور غضبانیہ ، قوت عقلیہ کے تابع ہو جائیں تو کیا کمال پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے بارہ گاہ الہی میں عرض کیا:﴿اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء﴾ آپ ایسی مخلوق پیدا کر رہے ہیں جو زمین میں فساد اور خون ریزی کرے گی ؟(حاشیہ الشھاب البقرة، تحت آیہ رقم:30)
چوں کہ الله تعالیٰ کے علم میں تھا جب قوتِ شہوانیہ اور غضبانیہ قوت عقلی کے تابع ہو جائیں تو فتنہ اور ظلم کی سرکوبی پر قدرت حاصل ہوتی ہے، اس کے بل بوتے پر عادلانہ نظام کا قیام ممکن ہوتا ہے اور یہی متضاد صفات رکھنے والی مخلوق ہے جس میں انبیائے کرام، صدیقین، شہداء، صلحاء پیدا ہوں گے، اس لیے فرمایا: ﴿انی اعلم مالا تعلمون﴾․ ( تفسیر ابن کثیر، البقرہ، تحت آیہ رقم:30)
﴿وإذ قال ربک للملئکة﴾ قرآن کریم میں یہ پہلا مقام ہے کہ ملائکہ (فرشتوں) کا ذکر صریح الفاظ میں ہوا ہے ، چوں کہ بعض لوگوں نے ملائکہ ( فرشتوں) کے بارے میں عجیب وغریب رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے اس مقام پر قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کر دیا جاتا ہے کہ قرآن وسنت کی رو سے ملائکہ (فرشتوں) کی حقیقت کیا ہے؟ او ران کی صفات کیا ہیں؟
ملائکة
”ملٰئکة“ جمع ہے، اس کا واحد ”ملک“ ہے ،مأخذ اشتاق ”ألوکة“ ہے ۔ جس کا معنی ہے پیغام رسانی ، چوں کہ فرشتے الله تعالیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندے تک پہنچاتے ہیں، اس لیے انہیں”ملائکة“ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے ۔ (مفردات القرآن للراغب، ص:28)
ملائکہ کی حقیقت
ملائکة (فرشتے) الله تعالیٰ کی ایک لطیف اور نورانی مخلوق ہے، بذاتِ خود مستقل ایک وجود رکھتی ہے، کسی کی صفت نہیں، مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ زور آوری اور طاقت کے بل بوتے پر بڑے بڑے امور انجام دے سکتی ہے ، اطاعتِ الہی ان کی فطرت ہے، گناہوں سے معصوم او رغلطی ونسیان سے محفوظ ہے ، کھانے پینے، تذکیر وتانیث، تو الدوتناسل سے پاک ہے ان کی تعداد الله کے علاوہ کوئی نہیں جانتا : ﴿ومایعلم جنود ربک إلاھو﴾ انبیائے کرام کے علاوہ دیگر لوگ بھی اس مخلوق کو مختلف شکلوں میں دیکھ چکے ہیں، ان کے وجود کا انکار کرنا یا دور ازکار رکیک تاویلیں کرنا الحاد وزندقہ ہے۔
ملائکہ کا ثبوت
ملائکہ کے ثبوت پر واضح دلیل یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام نے انہیں بچشم خود دیکھا ہے، چناں چہ قرآن کریم میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی بابت ذکر ہے ۔﴿ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَی ، وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَی ،ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی ، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنَی﴾․ (سورہ نجم، آیت:9-5)
ترجمہ: ”اس کو سکھلایا ہے سخت قوتوں والے نے، زور آور نے، پھر سیدھا بیٹھا اور وہ تھا اونچے کنارہ پر آسمان کے ، پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا، پھر رہ گیا فرق دو کمان کی برابر یا اس سے بھی نزدیک۔“
یعنی وحی بھیجنے والا تو اصل میں الله تعالیٰ ہے، لیکن جس کے ذریعے وحی آپ تک پہنچتی ہے اور جوبظاہر آپ کو سکھلاتا ہے وہ بہت سخت قوتوں والا اور زور آور وجیہ فرشتہ ہے، جسے جبرائیل امین کہتے ہیں، جو اپنی اصلی اور حقیقی صورت میں افق آسمانی پر سیدھے کھڑے ہوئے نمودار ہوئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو بے ہوش ہو گئے، جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں آگے بڑھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے اس قدر نزدیک ہو گئے کہ دونوں کے درمیان دو کمانوں سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ ( تفسیر ابن کثیر ، النجم، تحت آیہ رقم:6-5)
چوں کہ الله تعالیٰ کے علم میں تھا کہ کچھ لوگ ملائکہ کے بارے میں تاویل وتکذیب سے کام لیں گے، اس لیے ان کو خاموش کرانے کے لیے یہ بھی ساتھ فرما دیا: ﴿مازاغ البصر وماطغیٰ ﴾کہ یہ دیکھنا وہم وخیال کا نتیجہ نہیں، جسے نظر کا قصور سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔
ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ مستقل بالذات ایک مخلوق کا نام ہے ، انسان کی ملکوتی صفات کو ملائکہ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ صفت کبھی اپنے موصوف سے جدا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی شکل اختیار کرکے موصوف کے لیے معلم بن سکتی ہے ۔
اسی طرح قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ان فرشتوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے انسانی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام: ﴿ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْْفِ إِبْرَاہِیْمَ الْمُکْرَمِیْن…﴾․ (الذاریات:28-24)
حضرت لوط علیہ السلام:﴿وَلَمَّا جَاء تْ رُسُلُنَا لُوطاً سِیْء َ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعاً وَقَالَ ہَذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ﴾․(سورہ ھود، آیت:77)
حضرت داؤد علیہ السلام:﴿وھل أتٰک نبؤ الخصم إذ تسوروا المحراب﴾․ (ص:22-21) سے شرفِ ملاقات حاصل کی۔
انبیا کے علاوہ دیگر لوگوں سے بھی فرشتوں کی ملاقات کا ذکر آیا ہے ۔ ان میں سرِ فہرست حضرت مریم علیہا السلام ہیں۔ قرآن کریم میں ہے کہ جب انسانی صورت میں ایک فرشتہ ان کے پاس پہنچا تو آپ فرمانے لگیں میں تیری طرف سے رحمان کی پناہ میں آتی ہوں اگر تیرے دل میں خدا کا ڈر ہو گا:﴿فَأَرْسَلْنَا إِلَیْْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّاً، قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنکَ إِن کُنتَ تَقِیّا﴾․ (سورہ مریم، آیت:18,17)
بخاری شریف کتاب الایمان میں ایک معروف حدیث ہے، جسے علماء ”حدیث جبرائیل علیہ السلام“ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک اجنبی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں آیا اور دین اسلام کے متعلق کچھ سوال وجواب کیے اور چلا گیا ، اس کے جانے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبرائیل تھے، جو تمہیں دین سکھلانے کی غرض سے تشریف لائے تھے۔(صحیح البخاری، کتاب الإیمان، رقم الحدیث:37)
اس مجلس میں موجود تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو انسانی شکل میں دیکھا ہے ،اس قدر واضح دلائل کے بعد بھی اب کوئی یہ دعوی کرے کہ ملائکہ الله تعالیٰ کی بعض صفات کا نام ہے یا انسان کی ملکوتی صفت ہے، تو یہ ضد اور ہٹ دھرمی ہے، جس کا کوئی علاج نہیں۔
ملائکہ کی صفات
فرشتے نورانی مخلوق ہیں:
حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے ۔ (مشکوٰة المصابیح، رقم الحدیث:5701، بیروت)
فرشتے عموماً انسانی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں:
کئی بار حضرت جبرائیل علیہ السلام برسر مجلس وحی لے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، لیکن حاضرین کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مرو ی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ یہ جبرائیل آپ کو سلام کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ان پر بھی سلامتی ہو اور الله تعالیٰ کی رحمت ہو ۔ جبرائیل علیہ السلام وہ چیز دیکھ سکتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ ( صحیح مسلم، کتاب المناقب، باب فی فضل عائشة، رقم الحدیث2447)
فرشتے مختلف شکلیں اختیار سکتے ہیں:
چناں چہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں ظاہر ہوئے ﴿فَأَرْسَلْنَا إِلَیْْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّا﴾․ (المریم:17)۔(پھر بھیجا ہم نے اس کے پاس اپنا فرشتہ پھر بن کر آیا اس کے آگے آدمی پورا۔)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتہ بعض اوقات انسانی صورت میں آکر مجھ سے گفتگو کرتا ہے۔
بہت زور آور او رخرق عادت صفات رکھتے ہیں:
چناں چہ صرف آٹھ فرشتے قیامت کے روز عرش الہٰی کو اٹھائے ہوئے ہوں گے ﴿وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَة﴾․ (اوراٹھائیں گے تخت تیرے رب کا اپنے اوپر اس دن آٹھ ۔)
ان کی قدرت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب فرشتہ صور پھونکے گا تو کائنات میں موجود تمام اشیا پر بیہوشی کا عالم طاری ہو جائے گا۔﴿وَنُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاء اللَّہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ أُخْرَی فَإِذَا ہُم قِیَامٌ یَنظُرُونَ﴾․( اور پھونکا صور میں پھر بے ہوش ہو جائے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور زمین میں مگر جس کو الله چاہے پھر پھونکا جائے دوسری بار تو فوراً وہ کھڑے ہو جائیں ہر طرف دیکھتے۔)
الله کی اطاعت اور فرماں برداری میں کوشاں رہتے ہیں:
قرآن کریم میں فرشتوں کو اطاعت اور تسبیح وتحمید کے متعلق الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَہُ لَا یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَلَا یَسْتَحْسِرُونَ، یُسَبِّحُونَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ لَا یَفْتُرُونَ ﴾․(الانبیاء:20-18)
(اور اسی کا ہے جو کوئی ہے آسمان او رزمین میں او رجو اس کے نزدیک رہتے ہیں، سرکشی نہیں کرتے اس کی عبادت سے اور نہیں کرتے کاہلی، یاد کرتے ہیں رات اور دن نہیں تھکتے۔)
ایک دوسرے مقام پر ان کی فرماں برداری کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے ﴿َلایَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُم بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونَ﴾․(الانبیاء:27)
( اس سے بڑھ کر نہیں بول سکتے اور وہ اسی کے حکم پر کام کرتے ہیں۔)
ان میں نکاح اور توالد وتناسل کا سلسلہ قائم نہیں:
کفار او رمشرکین ملائکہ کو عورتیں قرار دیتے تھے، ا لله تعالیٰ نے ان کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا جب فرشتوں کو پیدا کیا جارہا تھا تو یہ کھڑے دیکھ رہے تھے کہ ان کو مرد نہیں عورتیں بنایا ہے ؟﴿وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَةَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثاً أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ﴾․(الزخرف:19)
( اورٹھہرایا انہوں نے فرشتوں کو، جو بندے ہیں رحمان کے، عورتیں۔ کیا دیکھتے تھے ان کا بننا؟)
واضح رہے کہ ملائکہ تذکیر وتانیث سے پاک ہیں، قرآن کریم میں ملائکہ کے لیے مذکر کا صیغہ محض تکریم کی وجہ سے ہے، جیسے الله تعالیٰ کے لیے مذکر کا صیغہ محض عظمت کی وجہ سے ہے۔
فرشتے الله تعالیٰ کے قاصد اور پیغمبر ہیں:
یعنی بعض فرشتے انبیا کے پاس الله کا پیغام لاتے ہیں اور بعض دوسرے جسمانی وروحانی نظام کی تدبیر وتشکیل پر مامور ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿الْحَمْدُ لِلَّہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِکَةِ رُسُلا﴾․(فاطر:1)
( سب خوبی الله کو ہے، جس نے بنا نکالے (بنا کھڑے کیے) آسمان اور زمین جس نے ٹھہرایا فرشتوں کو پیغام لانے والے۔)
آسمان وزمین کے درمیان اترنے چڑھنے کی قدرت رکھتے ہیں:
الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ إِلَیْْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَة﴾․(المعارج:4)
( چڑھیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح اس دن میں جس کی لمبائی پچاس ہزار برس ہے) روح سے جبرائیل علیہ السلام مراد ہیں۔)
اطاعت الہی کے باوجود خوف خدا رکھتے ہیں:
الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلِلّہِ یَسْجُدُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ مِن دَآبَّةٍ وَالْمَلآئِکَةُ وَہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ،یَخَافُونَ رَبَّہُم مِّن فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُون﴾․(النحل:50-49)
(اور الله کو سجدہ کرتا ہے جو آسمان میں ہے او رجو زمین میں ہے جان داروں سے اور فرشتے اور وہ تکبر نہیں کرتے، ڈررکھتے ہیں اپنے رب کا اپنے اوپر سے اور کرتے ہیں جو حکم پاتے ہیں۔ ) فرشتے معصوم ہیں اور الله تعالیٰ سے حد درجہ قرب رکھتے ہیں، لیکن پھر بھی اپنے رب کے جلال سے ڈرتے ہیں)
ان کا وجود حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل کا ہے:
ملائکہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل موجود تھے، جس کی واضح دلیل وہ مکالمہ ہے جو حضرت آدم علیہ ا لسلام کی تخلیق سے قبل الله تعالیٰ اور فرشتوں کے مابین ہوا تھا:﴿ وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء﴾․ (البقرة:30)
( اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب کہا فرشتوں نے کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے اس میں اور خون بہائے)
11 فرشتوں کے پر ہوتے ہیں:
فرشتوں کے دو دو یا تین تین ، یا چار چار یا ا س سے زائد پر ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے :﴿الْحَمْدُ لِلَّہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِکَةِ رُسُلاً أُولِیْ أَجْنِحَةٍ مَّثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ یَزِیْدُ فِیْ الْخَلْقِ مَا یَشَاء ُ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ ﴾․(فاطر:1)
( سب خوبی الله کو ہے جس نے بنا نکالے ( بنا کھڑے کیے) آسمان اور زمین، جس نے ٹھہرایا فرشتوں کو پیغام لانے والا، جن کے پر (بازو) ہیں دو دو اور تین تین اور چار چار، بڑھا دیتا ہے پیدائش میں جو چاہے، بے شک الله ہر چیز کر سکتا ہے۔)
ملائکہ کی اقسام
قرآن وسنت کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ملائکہ مختلف امور کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔
اکابر ملائکہ چار ہیں:
حضرت جبرائیل علیہ السلام، جو انبیاء علیہم السلام کے پاس الله تعالیٰ کا پیغام لاتے تھے﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ، عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِیْن﴾․(الشعراء:194-192)
(اور یہ قرآن ہے اتارا ہوا پروردگار عالم کالے کر اترا اس کو فرشتہ معتبر تیرے دل پر کہ تو ہو ڈرسنا دینے والا۔)
قرآن میں انہیں ”الروح الامین“ ”روح المقدس“ کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ ملائکہ کی جماعت میں انہیں سردار کی حیثیت حاصل ہے۔ ﴿مطاع ثم امین﴾․ (التکویر:21)۔ ( سب کا مانا ہوا وہاں کا معتبر ہے۔)
حضرت میکائیل علیہ السلام جو خدا کی مخلوق کے لیے رزق کی تدبیر میں مصروف رہتے ہیں۔(روح المعانی، البقرہ تحت آیہ رقم:98)
مذکورہ دونوں فرشتوں کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے ﴿مَن کَانَ عَدُوّاً لِّلّہِ وَمَلآئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَإِنَّ اللّہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ﴾․ (البقرہ:98)
( جو کوئی ہووے دشمن الله کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا تو الله دشمن ہے ان کافروں کا۔)
حضرت عزرائیل علیہ السلام جو ملک الموت (موت کا فرشتہ ہے) کے نام سے معروف ہیں۔ (روح المعانی السجدة، تحت آیہ رقم:11) مخلوق کی ارواح قبض کرنے والے فرشتوں کی سرداری بھی انہیں حاصل ہے۔
حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت قائم کرنے کے لیے صور پھونکنے کا فریضہ انجام دیں گے۔
کچھ فرشتے عرش الہٰی اٹھائے ہوئے ہیں﴿الَّذِیْنَ یَحْمِلُونَ الْعَرْش﴾(غافر:7) (جو لوگ اٹھارہے ہیں عرش کو) ایک اور مقام پر فرمایا:﴿ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَةٌ﴾․ ( الحاقہ:17) (اور اٹھائیں گے تخت تیرے رب کا اپنے اوپر اس دن آٹھ شخص۔)
کچھ فرشتے عرش الہی کا طواف کرنے میں مصروف ہیں:﴿وَتَرَی الْمَلَائِکَةَ حَافِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمَ﴾․( الزمر:75) ( اور تو دیکھے فرشتوں کو گھِر رہے ہیں عرش کے گرد پاکی بولتے ہیں اپنے رب کی خوبیاں۔)
کچھ ارواح قبض کرتے ہیں:﴿حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا﴾․ (الانعام:61)۔(یہاں تک کہ جب آپہنچے تم میں سے کسی کو موت تو قبضہ میں لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے۔)
ملائکہ جنت جو اہل جنت پر سلامتی کی دعا کریں گے: ﴿وَالمَلاَئِکَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْْہِم مِّن کُلِّ بَابٍ، سَلاَمٌ عَلَیْْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار﴾․(الرعد:24-23)۔ ( اور فرشتے آئیں ان کے پاس ہر دروازے سے کہیں گے سلامتی تم پر بدلے اس کے کہ تم نے صبر کیا سو خوب ملا عاقبت کا گھر۔)
ملائکہ جہنم، جو اہل دوزخ کو سزا دینے پر مقرر ہیں:﴿عَلَیْْہَا تِسْعَةَ عَشَرَ ،وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِکَة﴾․ (المدثر: 31-30)۔ ( اس پر مقرر ہیں انیس فرشتے اور ہم نے جو رکھیں ہیں دوزخ پر داروغہ وہ فرشتے ہی ہیں۔)
ملائکہ کی اس جماعت کے سردار حضرت مالک علیہ السلام ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿وَنَادَوْا یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْْنَا رَبُّک﴾․ (الزخرف:77) ۔ ( اور پکاریں گے اے مالک کہیں ہم پر فیصل (موت ڈال دے) کرچکے تیرا رب۔)
کچھ ملائکہ انسانوں کی حفاظت پر مامور ہیں:﴿ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ﴾․(ق:17) ۔(داہنے بیٹھا اور بائیں بیٹھا۔)(﴿لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ﴾․ (الرعد:11) ۔( اس کے پہرے والے ہیں بندہ کے آگے سے اور پیچھے سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔)
وہ ملائکہ جو انسانوں کے اعمال لکھتے ہیں:﴿وَإِنَّ عَلَیْْکُمْ لَحَافِظِیْنَ ، کِرَاماً کَاتِبِیْنَ﴾․( الانفطار:11-10) ۔( اور تم پر نگہبان مقرر ہیں، عزت والے عمل لکھنے والے۔)
وہ ملائکہ جو اس عالم کے احوال پر مؤکل ہیں، سورة النازعات اور ذاریات کے علاوہ مختلف مقامات پر ان کے احوال کا ذکر ہے ۔
قرآن وسنت کی رو سے ملائکہ کی ذات وصفات روز روشن کی طرح واضح ہو چکنے کے بعد سرسید کا وہ تبصرہ بھی پڑھیے جو انہوں نے ملائکہ کے متعلق حقارت آمیز لہجے میں کیا ہے۔
ملائکہ پر سرسید احمد کا حقارت آمیز تبصرہ
عام مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے جو عرب کے بت پرستوں کا تھا، وہ فرشتوں کو ہوا کی مانند لطیف سمجھتے ہیں او رمختلف شکلوں میں بن جانے کی ان میں قدرت جانتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں پر رہتے ہیں اور پردار ہیں کہ اڑ کر زمین پر اترتے اور زمین پر سے اڑ کر آسمان پر چلے جاتے ہیں اور چیلوں کی طرح آسمان اور زمین کے بیچ میں منڈلاتے ہیں۔
ایک او رجگہ لکھتے ہیں:
ان کو نوری سمجھ کر گورا گورا برف کا رنگ، نوری شمع کی مانند باہیں، بلور کیسی پنڈلیاں، ہیرے کیسے پاؤں ایک خوب صورت انسان کی شکل، مگر نہ مرد نہ عورتمتصور کیا ہے… کسی کو شان دار اور کسی کو غصہ ور وغضب ناک، کسی کو کم شان کا، کسی کو صور پھونکتا، کسی کو آتشیں کوڑے سے مینہ برساتا خیال کیا ہے۔ (تفسیر القرآن، البقرہ تحت آیہ رقم:30)
ملائکہ کے متعلق سرسید کا موقف اور اس کا علمی جائزہ
سرسید نے فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار تو بآسانی کر دیا لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن وسنت میں جب بارہا ملائکہ کا ذکر ہوا ہے آخر اس سے کیا مراد ہے ؟ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے تاویلات کا سہارا لے کر متضاد رائے کا اظہار کیا ہے ۔
۱۔ جبرائیل ومیکائیل صحف انبیا میں کوئی صفت باری تعالیٰ میں سے کسی خاص لفظ سے تعبیر کی گئی تھی۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ، آیت:97، حصہ اول:145)
آگے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
بہرحال ہم کو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو الفاظ صفات باری تعالیٰ پر مستعمل ہوتے تھے آخر انہی الفاظ کو فرشتوں کے نام سمجھنے لگے۔“ (تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:97، حصہ اول:147)
ملائکہ نبوت پر جبرائیل کا اطلاق ہوا ہے۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ، آیت:97، حصہ اول:166)
ملائکہ کا اطلاق ان قدرتی قوُی پر ہوا ہے جن سے انتظام عالم مربوط ہے۔( تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:97، حصہ اول:164)
انسان ایک مجموعہ قُوی ملکوتی اورقُوائے بیہمی کا ہے… وہی انسان کے فرشتے ہیں۔ ( تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:30، ص:56)
﴿واذ قال ربک للملئکة﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہاں ملائکہ سے فطرت انسانی مراد ہے، اس پر اعتراض ہوا اس وقت تک تو انسان ( حضرت آدم علیہ السلام) کی تخلیق ہی نہیں ہوئی تھی پھر فطرت کیسے وجود میں آگئی ؟ جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو دعوی کر دیا کہ یہ سب انسان کی فطرت کا زبانِ حال سے بیان ہے۔( تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:30، حصہ اول ص:59)
پھر اس دعوی کو سچا ثابت کرنے کے لیے تاویلات کا راستہ اختیار کیا، سرسید نے جنت، جہنم، معجزہ، کرامات، معاد، ملائکہ ، جنات، وشیاطین کے متعلق جن فاسد خیالات کا اظہار کیا ہے وہ درحقیقت فلاسفہ اور قرامطہ کے باطل افکار ہیں۔ ( الملل والنحل لشھرستانی، الباطنیہ،201/1 مجموع الفتاوی لابن تیمیہ176/4)
جنہوں نے علوم نبوت کو اپنے محدود عقلی دائرے میں لانے کے لیے تحریف کا راستہ منتخب کیا، عقل پرستوں کے اس گروہ کی ہمیشہ یہی صدا رہی کہ قرآن وسنت کی تمام تعلیمات انسان کے میزان عقل میں پوری پوری اترنی چاہیے۔ اگر شریعت کا کوئی حکم او رمفہوم خلاف عقل محسوس ہو تو اس میں تاویل کی جائے یا توقف اختیار کیا جائے۔ ( تفسیر القرآن، اصول التفسیر، الاصل الخامس عشر، ص:30)
یہی وہ اصل ہے جس کی آڑ میں تمام عقل پرست طبقے اسلام کے نام پرایک مخصوص اور متوازی نظام فکر پیش کرتے ہیں۔
گم راہی کا یہ پہلا اعزاز معتزلہ کو حاصل ہے، جنہوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دے کر اپنا راستہ اہل سنت سے الگ کر لیا۔ ( الملل والنحل لشھرستانی، المقدمة الخامسة، ص:38-37)
لیکن فلاسفہ اور قرامطہ (باطنیہ) نے تو اپنے عقائد کی ساری عمارت ہی اسی پر استوار کر ڈالی، اس اصل کی اہمیت کے پیش نظر اس پر تفصیلی بحث ہو گی، کیوں کہ سرسید کی تمام تاویلات (تحریفات) کا مدار بھی یہی اصل ہے۔
نقل اور عقل میں تعارض ہو تو ترجیح کسے ہو گی؟
عقل پرستوں کا موقف یہ ہے کہ جب عقل اور نقل میں تعارض ہو جائے تو ترجیح بہر صورت عقلی نتائج ہی کو ہو گی کیوں کہ اگر اس طرح نہ کیا جائے تو پھر عقل اور نقل کے دو متضاد موقف بیک وقت تسلیم کرنے پڑیں گے، یا دونوں موقف چھوڑنے پڑیں گے جو ( اجتماع نقیضین) اور رفع نقیضین کی وجہ سے ) محال ہیں۔
اور نقل کو عقل پر ترجیح دینا بھی محال ہے، کیوں کہ جب نقل کا پورا کارخانہ عقل پر قائم ہو تو پھر نقل کو ترجیح دینے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم فرع کے ذریعے اصل کو باطل کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ صورت کسی طرح درست نہیں ، لہٰذا عقل اور نقل میں تعارض ختم کرنے کی ایک ہی درست صورت ہے کہ عقل کو ترجیح دی جائے اور نقل کی تاویل کی جائے۔
یہ وہ دلیل ہے جسے سر سید انتہائی اعتماد کے ساتھ موقعہ بموقعہ اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ، تحت آیہ رقم:98، تحریر فی اصول التفسیر، سر سید احمد خان، الأصل الخامس عشر ، ص:52)
اس دلیل پر حکم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله علیہ نے فکر وتعمق کے جن جواہر ریزوں کو صفحات قرطاس پر بکھیرا ہے انہیں یہاں بعینہ پیش کر دیتے ہیں، کیوں کہ وہ اس موضوع پر بلاشبہ حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تعارض کی چند صورتیں او راس کا حکم
دلیل عقلی ونقلی میں تعارض کی چار صورتیں عقلاً متحمل ہیں۔
اول یہ کہ دلیل نقلی قطعی ہو، جس میں کسی طرح گنجائش جانب مخالف کی نہ ہو اور دلیل عقلی بھی اسی طرح قطعی ہو۔
دوم یہ کہ دلیل نقلی بھی ظنی ہو اور دلیل عقلی بھی ظنی ہو ۔
تیسرے یہ کہ دلیل نقلی قطعی ہو اور دلیل عقلی ظنی۔
چوتھے یہ کہ دلیل عقلی قطعی ہو اور دلیل نقلی ظنی ہو ۔
اب ان چاروں صورتوں کے احکا م تفصیل سے پڑھیے۔
پہلی صورت اور اس کا حکم
ان میں سے صورت اول، یعنی یہ کہ دلیل شرعی قطعی مخالف ہو دلیل قطعی عقلی کے اس کا ذکر ہیفضول ہے، کیوں کہ یہ صورت وقوع میں نہیں آئی اور یہ دعوی کیا جاتا ہے اور علی رؤس الاشہاد ( گواہوں کے رو برو) کہا جاتا ہے کہ شریعت اسلامی کو یہ فخر حاصل ہے کہ کوئی بات اس کی، جو قطعی طور پر شریعت کے نزدیک مانی ہوئی ہو ، دلیل عقلی قطعی کے خلاف نہیں اور قیامت تک کوئی بھی ایسی بات پیش نہیں کر سکتا اور یہی دلیل ہے اس شریعت کے حق ہونے کی بخلاف دیگر مذاہب کے، مثلاً موجودہ نصرانیت کہ اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے بیٹا ہونا الله تعالیٰ کا ثابت کیا جاتا ہے، جو مستلزم ہے جزئیت کو اور جزئیت مستلزم ہے حدوث کو اور حادث خدا نہیں ہو سکتا ۔یہ دلیل عقلی قطعی کے خلاف ہے۔
تنبیہ
بعض شرعی باتوں کو عوام میں خلافِ عقل کہا جاتا ہے، جیسے معراج شریف ، عذاب قبر ، پل صراط، وغیرہ ۔حالاں کہ یہ محض بے عقلی ہے ، یہ چیزیں خلافِ عادت ہیں، جس کو مستبعد ( دشوار) کہا جاتا ہے، خلافِ عقل نہیں… چوں کہ شریعت حقہ اسلامی میں کہیں دلیل نقلی قطعی اور دلیل عقلی قطعی میں تعارض نہیں ہوا، اس وجہ سے اس کا تو بیان ہی چھوڑ دیا گیا۔
تعارض کی دوسری صورت اور اس کا حکم
اور صورت دوم یعنی یہ کہ دلیل نقلی بھی ظنی ہو اور دلیل عقلی بھی ظنی ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس وقت میں دونوں اس بات میں برابر ہیں کہ جانب مخالف کا کسی درجہ کا احتمال رکھتی ہیں ، لیکن اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ عقلی دلیل کو ترجیح دیں اور دلیل نقلی کو تاویل وتوجیہ کرکے دوسرے بعید احتمال پر محمول کریں ،کیوں کہ یہ تحریف کی ایک قسم ہے ، شریعت کا جو حکم ہمیں معلوم ہوا ہے وہ قرآن کے الفاظ یا حدیث کے الفاظ کے ذریعے معلوم ہوا ہے او راس صورت دوم میں وہ دلیل گو ،دوسرے معنی کو بھی محتمل ہے مگر برابر درجے میں نہیں کیوں کہ ہر لفظ کے ایک معنی قریب ہوتے ہیں، ایک معنی بعید، حتی الامکان الفاظ کو ظاہری اور قریبمعنی پر محمول کرنا چاہیے، ہاں! اگر کوئی وجہ معقول ہو اور الفاظ میں گنجائش ہو تو اور بات ہے، بغیر اس کے کسی عبارت کے معنی قریب کا چھوڑنا ہر گز درست نہیں اور اگر ایسا کیا جائے تو وہ فطری قاعدے کے خلاف ہے ۔ اسی وجہ سے ہم نے اسے تحریف کہا ہے ۔ کیوں کہ یہ قاعدہ فطری ایسا ہے کہ دنیا کے اکثر کاروبار اسی قاعدے پر چل رہے ہیں، مثلاًکوئی ریل کے اسٹیشن پر پہنچ کر نوکر سے کہے ٹکٹ لے لو اور وہ اس کی تعمیل اس طرح کرے کہ ایک پیسہ کا ٹکٹ ڈاک خانہ کا خریدے اور آقا صاحب کے ہاتھ میں دے دے تو یہ حکم کی تعمیل نہ ہو گی، اس میں اس سے زیادہ کیا غلطی ہے کہ اس نے ٹکٹ کے الفاظ کو ظاہری معنی سے پھیر دیا، کیوں کہ ٹکٹ کا لفظ بوقت اسٹیشن پر ہونے کے اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ ریل میں سفر کے لیے کار آمد ہو، گو ڈاک خانہ کے ٹکٹ پر بھی بولا جاتا ہے جب ایک معمولی انسان کے حکم میں معنی قریب کو بدلنا بلاوجہ درست نہیں تو شریعت کے الفاظ میں، جو احکم الحاکمین کے فرمودہ ہیں ،یہ بدلنا کیسے درست ہو گا…؟ اس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ الفاظ کے معنی قریب چھوڑ کر معنی بعید میں استعمال کرنا درست نہیں، بنا بریں صورت مذکورہ میں، یعنی جب دلیل نقلی ظنی اور دلیل عقلی ظنی میں تعارض ہو تو دلیل نقلی کو معنی قریب سے پھیرنا جائز نہ ہو گا، کیوں کہ بے وجہ ہے اور دلیل عقلی کا تعارض اس کے لیے وجہ بننے کی قابلیت نہیں رکھتا، کیوں کہ وہ خود ظنی ہے ، قطعی طور پر وہ دلیل اس سے تعارض نہیں رکھتی ، دلیل عقلی میں کیوں تاویل نہ کی جائے یا اس کو غلط سمجھا جائے تو کون سا حرج ہو جائے گا؟ ہزاروں عقلی ظنی باتیں ایسی ہیں کہ مدتوں تک دنیا کے نزدیک مسلم رہتی ہیں، بعد ازاں غلط ثابت ہو جاتی ہیں، خصوصاً آج کل کی سائنسی تحقیقات تو بہت ہی جلد بدلتی ہیں۔
اسی صورت دوم کی مثال یہ ہے کہ قرآن شریف میں آیا ہے:﴿وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُون﴾․ (الانبیاء:33)
( حق تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے پیدا کیا رات کو اور دن کو اور آفتاب کو اور چاند کو یہ دونوں آسمان میں چلتے ہیں۔)
یسبحون سباحت سے مشتق ہے ۔ سباحت تیرنے کو کہتے ہیں یعنی ایسے چلتے ہیں جیسے کوئی پانی میں تیرتا ہے ظاہر ہے کہ تیرنے میں تیرنے والے کا جسم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے ،یعنی پانی کو چیر کر ادھر ادھر پہنچ جاتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ستارے اسی طرح آسمان میں چلتے ہیں، اس کو حرکت انیّیہ کہتے ہیں، یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ میں کل جسم متحرک کا منتقل ہو جانا اور بعض حکماء ان کے لیے صرف حرکتِ وضعیہ کے قائل ہوئے ہیں، حرکتِ وضعیہ اس کو کہتے ہیں کہ گول چیز اپنے محور ،یعنی کیلی پر حرکت کرے، اس میں یہ ہوتا ہے کہ جسم متحرک کے اجزا تو ادھر سے ادھر کو ہٹتے ہیں لیکن کل جسم متحرک کی جگہ نہیں بدلتی، جیسے چکی گھومتی ہے۔ حکماء کی یہتحقیق آیت کے مضمون سے متعارض ہے لیکن حکما کی یہ تحقیق ظن کے درجے سے آگے نہ بڑھ سکی کیوں کہ ان کے پاس اس پر کوئی دلیل قطعی نہیں ہے تو اس صورت میں آیت کے الفاظ کے صریح معنوں کو حکماء کی اس ظنی تحقیق کی وجہ سے چھوڑنا اور کوئی دور کی تاویل کرنا کہ مثلاً یہ کہ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ آسمان میں تیر رہے ہیں اور حرکتِ انییہ ( کل جسم متحرک کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جانا) ان کو حاصل ہے۔ ورنہ درحقیقت آسمان میں کیل کی طرح گڑے ہوئے ہیں ، ہاں اپنے محور پر چکی کی طرح گھوم رہے ہیں ، ایسا کہنا جائز نہیں کیوں کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں کسی نے آسماں پر جاکر دیکھا نہیں ۔ زمین میں بلکہ اپنے ہی جسم کے اندر جو چیزیں ہیں ان ہی کی تحقیق قطعی طور پر نہیں ہوتی تا بآسمان چہ رسد #
تو کار زمین رانکو ساختی
کہ بآسمان نیز پر داختی
…… خلاصہ یہ کہ جب دلیل عقلی ظنی اور دلیل نقلی ظنی میں تعارض ہو تو دلیل نقلی کو چھوڑنا یا اس میں تاویلات کرنا اور دلیل عقلی ظنی کے مطابق بنانا درست نہیں۔
فرشتے نورانی مخلوق ہیں:
حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے ۔ (مشکوٰة المصابیح، رقم الحدیث:5701، بیروت)
فرشتے عموماً انسانی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں:
کئی بار حضرت جبرائیل علیہ السلام برسر مجلس وحی لے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، لیکن حاضرین کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مرو ی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ یہ جبرائیل آپ کو سلام کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ان پر بھی سلامتی ہو اور الله تعالیٰ کی رحمت ہو ۔ جبرائیل علیہ السلام وہ چیز دیکھ سکتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ ( صحیح مسلم، کتاب المناقب، باب فی فضل عائشة، رقم الحدیث2447)
فرشتے مختلف شکلیں اختیار سکتے ہیں:
چناں چہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں ظاہر ہوئے ﴿فَأَرْسَلْنَا إِلَیْْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّا﴾․ (المریم:17)۔(پھر بھیجا ہم نے اس کے پاس اپنا فرشتہ پھر بن کر آیا اس کے آگے آدمی پورا۔)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتہ بعض اوقات انسانی صورت میں آکر مجھ سے گفتگو کرتا ہے۔
بہت زور آور او رخرق عادت صفات رکھتے ہیں:
چناں چہ صرف آٹھ فرشتے قیامت کے روز عرش الہٰی کو اٹھائے ہوئے ہوں گے ﴿وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَة﴾․ (اوراٹھائیں گے تخت تیرے رب کا اپنے اوپر اس دن آٹھ ۔)
ان کی قدرت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب فرشتہ صور پھونکے گا تو کائنات میں موجود تمام اشیا پر بیہوشی کا عالم طاری ہو جائے گا۔﴿وَنُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاء اللَّہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ أُخْرَی فَإِذَا ہُم قِیَامٌ یَنظُرُونَ﴾․( اور پھونکا صور میں پھر بے ہوش ہو جائے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور زمین میں مگر جس کو الله چاہے پھر پھونکا جائے دوسری بار تو فوراً وہ کھڑے ہو جائیں ہر طرف دیکھتے۔)
الله کی اطاعت اور فرماں برداری میں کوشاں رہتے ہیں:
قرآن کریم میں فرشتوں کو اطاعت اور تسبیح وتحمید کے متعلق الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَہُ لَا یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَلَا یَسْتَحْسِرُونَ، یُسَبِّحُونَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ لَا یَفْتُرُونَ ﴾․(الانبیاء:20-18)
(اور اسی کا ہے جو کوئی ہے آسمان او رزمین میں او رجو اس کے نزدیک رہتے ہیں، سرکشی نہیں کرتے اس کی عبادت سے اور نہیں کرتے کاہلی، یاد کرتے ہیں رات اور دن نہیں تھکتے۔)
ایک دوسرے مقام پر ان کی فرماں برداری کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے ﴿َلایَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُم بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونَ﴾․(الانبیاء:27)
( اس سے بڑھ کر نہیں بول سکتے اور وہ اسی کے حکم پر کام کرتے ہیں۔)
ان میں نکاح اور توالد وتناسل کا سلسلہ قائم نہیں:
کفار او رمشرکین ملائکہ کو عورتیں قرار دیتے تھے، ا لله تعالیٰ نے ان کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا جب فرشتوں کو پیدا کیا جارہا تھا تو یہ کھڑے دیکھ رہے تھے کہ ان کو مرد نہیں عورتیں بنایا ہے ؟﴿وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَةَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثاً أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ﴾․(الزخرف:19)
( اورٹھہرایا انہوں نے فرشتوں کو، جو بندے ہیں رحمان کے، عورتیں۔ کیا دیکھتے تھے ان کا بننا؟)
واضح رہے کہ ملائکہ تذکیر وتانیث سے پاک ہیں، قرآن کریم میں ملائکہ کے لیے مذکر کا صیغہ محض تکریم کی وجہ سے ہے، جیسے الله تعالیٰ کے لیے مذکر کا صیغہ محض عظمت کی وجہ سے ہے۔
فرشتے الله تعالیٰ کے قاصد اور پیغمبر ہیں:
یعنی بعض فرشتے انبیا کے پاس الله کا پیغام لاتے ہیں اور بعض دوسرے جسمانی وروحانی نظام کی تدبیر وتشکیل پر مامور ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿الْحَمْدُ لِلَّہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِکَةِ رُسُلا﴾․(فاطر:1)
( سب خوبی الله کو ہے، جس نے بنا نکالے (بنا کھڑے کیے) آسمان اور زمین جس نے ٹھہرایا فرشتوں کو پیغام لانے والے۔)
آسمان وزمین کے درمیان اترنے چڑھنے کی قدرت رکھتے ہیں:
الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ إِلَیْْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَة﴾․(المعارج:4)
( چڑھیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح اس دن میں جس کی لمبائی پچاس ہزار برس ہے) روح سے جبرائیل علیہ السلام مراد ہیں۔)
اطاعت الہی کے باوجود خوف خدا رکھتے ہیں:
الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلِلّہِ یَسْجُدُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ مِن دَآبَّةٍ وَالْمَلآئِکَةُ وَہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ،یَخَافُونَ رَبَّہُم مِّن فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُون﴾․(النحل:50-49)
(اور الله کو سجدہ کرتا ہے جو آسمان میں ہے او رجو زمین میں ہے جان داروں سے اور فرشتے اور وہ تکبر نہیں کرتے، ڈررکھتے ہیں اپنے رب کا اپنے اوپر سے اور کرتے ہیں جو حکم پاتے ہیں۔ ) فرشتے معصوم ہیں اور الله تعالیٰ سے حد درجہ قرب رکھتے ہیں، لیکن پھر بھی اپنے رب کے جلال سے ڈرتے ہیں)
ان کا وجود حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل کا ہے:
ملائکہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل موجود تھے، جس کی واضح دلیل وہ مکالمہ ہے جو حضرت آدم علیہ ا لسلام کی تخلیق سے قبل الله تعالیٰ اور فرشتوں کے مابین ہوا تھا:﴿ وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء﴾․ (البقرة:30)
( اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب کہا فرشتوں نے کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے اس میں اور خون بہائے)
11 فرشتوں کے پر ہوتے ہیں:
فرشتوں کے دو دو یا تین تین ، یا چار چار یا ا س سے زائد پر ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے :﴿الْحَمْدُ لِلَّہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِکَةِ رُسُلاً أُولِیْ أَجْنِحَةٍ مَّثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ یَزِیْدُ فِیْ الْخَلْقِ مَا یَشَاء ُ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ ﴾․(فاطر:1)
( سب خوبی الله کو ہے جس نے بنا نکالے ( بنا کھڑے کیے) آسمان اور زمین، جس نے ٹھہرایا فرشتوں کو پیغام لانے والا، جن کے پر (بازو) ہیں دو دو اور تین تین اور چار چار، بڑھا دیتا ہے پیدائش میں جو چاہے، بے شک الله ہر چیز کر سکتا ہے۔)
ملائکہ کی اقسام
قرآن وسنت کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ملائکہ مختلف امور کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔
اکابر ملائکہ چار ہیں:
حضرت جبرائیل علیہ السلام، جو انبیاء علیہم السلام کے پاس الله تعالیٰ کا پیغام لاتے تھے﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ، عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِیْن﴾․(الشعراء:194-192)
(اور یہ قرآن ہے اتارا ہوا پروردگار عالم کالے کر اترا اس کو فرشتہ معتبر تیرے دل پر کہ تو ہو ڈرسنا دینے والا۔)
قرآن میں انہیں ”الروح الامین“ ”روح المقدس“ کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ ملائکہ کی جماعت میں انہیں سردار کی حیثیت حاصل ہے۔ ﴿مطاع ثم امین﴾․ (التکویر:21)۔ ( سب کا مانا ہوا وہاں کا معتبر ہے۔)
حضرت میکائیل علیہ السلام جو خدا کی مخلوق کے لیے رزق کی تدبیر میں مصروف رہتے ہیں۔(روح المعانی، البقرہ تحت آیہ رقم:98)
مذکورہ دونوں فرشتوں کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے ﴿مَن کَانَ عَدُوّاً لِّلّہِ وَمَلآئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَإِنَّ اللّہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ﴾․ (البقرہ:98)
( جو کوئی ہووے دشمن الله کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا تو الله دشمن ہے ان کافروں کا۔)
حضرت عزرائیل علیہ السلام جو ملک الموت (موت کا فرشتہ ہے) کے نام سے معروف ہیں۔ (روح المعانی السجدة، تحت آیہ رقم:11) مخلوق کی ارواح قبض کرنے والے فرشتوں کی سرداری بھی انہیں حاصل ہے۔
حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت قائم کرنے کے لیے صور پھونکنے کا فریضہ انجام دیں گے۔
کچھ فرشتے عرش الہٰی اٹھائے ہوئے ہیں﴿الَّذِیْنَ یَحْمِلُونَ الْعَرْش﴾(غافر:7) (جو لوگ اٹھارہے ہیں عرش کو) ایک اور مقام پر فرمایا:﴿ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَةٌ﴾․ ( الحاقہ:17) (اور اٹھائیں گے تخت تیرے رب کا اپنے اوپر اس دن آٹھ شخص۔)
کچھ فرشتے عرش الہی کا طواف کرنے میں مصروف ہیں:﴿وَتَرَی الْمَلَائِکَةَ حَافِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمَ﴾․( الزمر:75) ( اور تو دیکھے فرشتوں کو گھِر رہے ہیں عرش کے گرد پاکی بولتے ہیں اپنے رب کی خوبیاں۔)
کچھ ارواح قبض کرتے ہیں:﴿حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا﴾․ (الانعام:61)۔(یہاں تک کہ جب آپہنچے تم میں سے کسی کو موت تو قبضہ میں لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے۔)
ملائکہ جنت جو اہل جنت پر سلامتی کی دعا کریں گے: ﴿وَالمَلاَئِکَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْْہِم مِّن کُلِّ بَابٍ، سَلاَمٌ عَلَیْْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار﴾․(الرعد:24-23)۔ ( اور فرشتے آئیں ان کے پاس ہر دروازے سے کہیں گے سلامتی تم پر بدلے اس کے کہ تم نے صبر کیا سو خوب ملا عاقبت کا گھر۔)
ملائکہ جہنم، جو اہل دوزخ کو سزا دینے پر مقرر ہیں:﴿عَلَیْْہَا تِسْعَةَ عَشَرَ ،وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِکَة﴾․ (المدثر: 31-30)۔ ( اس پر مقرر ہیں انیس فرشتے اور ہم نے جو رکھیں ہیں دوزخ پر داروغہ وہ فرشتے ہی ہیں۔)
ملائکہ کی اس جماعت کے سردار حضرت مالک علیہ السلام ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿وَنَادَوْا یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْْنَا رَبُّک﴾․ (الزخرف:77) ۔ ( اور پکاریں گے اے مالک کہیں ہم پر فیصل (موت ڈال دے) کرچکے تیرا رب۔)
کچھ ملائکہ انسانوں کی حفاظت پر مامور ہیں:﴿ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ﴾․(ق:17) ۔(داہنے بیٹھا اور بائیں بیٹھا۔)(﴿لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ﴾․ (الرعد:11) ۔( اس کے پہرے والے ہیں بندہ کے آگے سے اور پیچھے سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔)
وہ ملائکہ جو انسانوں کے اعمال لکھتے ہیں:﴿وَإِنَّ عَلَیْْکُمْ لَحَافِظِیْنَ ، کِرَاماً کَاتِبِیْنَ﴾․( الانفطار:11-10) ۔( اور تم پر نگہبان مقرر ہیں، عزت والے عمل لکھنے والے۔)
وہ ملائکہ جو اس عالم کے احوال پر مؤکل ہیں، سورة النازعات اور ذاریات کے علاوہ مختلف مقامات پر ان کے احوال کا ذکر ہے ۔
قرآن وسنت کی رو سے ملائکہ کی ذات وصفات روز روشن کی طرح واضح ہو چکنے کے بعد سرسید کا وہ تبصرہ بھی پڑھیے جو انہوں نے ملائکہ کے متعلق حقارت آمیز لہجے میں کیا ہے۔
ملائکہ پر سرسید احمد کا حقارت آمیز تبصرہ
عام مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے جو عرب کے بت پرستوں کا تھا، وہ فرشتوں کو ہوا کی مانند لطیف سمجھتے ہیں او رمختلف شکلوں میں بن جانے کی ان میں قدرت جانتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں پر رہتے ہیں اور پردار ہیں کہ اڑ کر زمین پر اترتے اور زمین پر سے اڑ کر آسمان پر چلے جاتے ہیں اور چیلوں کی طرح آسمان اور زمین کے بیچ میں منڈلاتے ہیں۔
ایک او رجگہ لکھتے ہیں:
ان کو نوری سمجھ کر گورا گورا برف کا رنگ، نوری شمع کی مانند باہیں، بلور کیسی پنڈلیاں، ہیرے کیسے پاؤں ایک خوب صورت انسان کی شکل، مگر نہ مرد نہ عورتمتصور کیا ہے… کسی کو شان دار اور کسی کو غصہ ور وغضب ناک، کسی کو کم شان کا، کسی کو صور پھونکتا، کسی کو آتشیں کوڑے سے مینہ برساتا خیال کیا ہے۔ (تفسیر القرآن، البقرہ تحت آیہ رقم:30)
ملائکہ کے متعلق سرسید کا موقف اور اس کا علمی جائزہ
سرسید نے فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار تو بآسانی کر دیا لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن وسنت میں جب بارہا ملائکہ کا ذکر ہوا ہے آخر اس سے کیا مراد ہے ؟ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے تاویلات کا سہارا لے کر متضاد رائے کا اظہار کیا ہے ۔
۱۔ جبرائیل ومیکائیل صحف انبیا میں کوئی صفت باری تعالیٰ میں سے کسی خاص لفظ سے تعبیر کی گئی تھی۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ، آیت:97، حصہ اول:145)
آگے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
بہرحال ہم کو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو الفاظ صفات باری تعالیٰ پر مستعمل ہوتے تھے آخر انہی الفاظ کو فرشتوں کے نام سمجھنے لگے۔“ (تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:97، حصہ اول:147)
ملائکہ نبوت پر جبرائیل کا اطلاق ہوا ہے۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ، آیت:97، حصہ اول:166)
ملائکہ کا اطلاق ان قدرتی قوُی پر ہوا ہے جن سے انتظام عالم مربوط ہے۔( تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:97، حصہ اول:164)
انسان ایک مجموعہ قُوی ملکوتی اورقُوائے بیہمی کا ہے… وہی انسان کے فرشتے ہیں۔ ( تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:30، ص:56)
﴿واذ قال ربک للملئکة﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہاں ملائکہ سے فطرت انسانی مراد ہے، اس پر اعتراض ہوا اس وقت تک تو انسان ( حضرت آدم علیہ السلام) کی تخلیق ہی نہیں ہوئی تھی پھر فطرت کیسے وجود میں آگئی ؟ جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو دعوی کر دیا کہ یہ سب انسان کی فطرت کا زبانِ حال سے بیان ہے۔( تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:30، حصہ اول ص:59)
پھر اس دعوی کو سچا ثابت کرنے کے لیے تاویلات کا راستہ اختیار کیا، سرسید نے جنت، جہنم، معجزہ، کرامات، معاد، ملائکہ ، جنات، وشیاطین کے متعلق جن فاسد خیالات کا اظہار کیا ہے وہ درحقیقت فلاسفہ اور قرامطہ کے باطل افکار ہیں۔ ( الملل والنحل لشھرستانی، الباطنیہ،201/1 مجموع الفتاوی لابن تیمیہ176/4)
جنہوں نے علوم نبوت کو اپنے محدود عقلی دائرے میں لانے کے لیے تحریف کا راستہ منتخب کیا، عقل پرستوں کے اس گروہ کی ہمیشہ یہی صدا رہی کہ قرآن وسنت کی تمام تعلیمات انسان کے میزان عقل میں پوری پوری اترنی چاہیے۔ اگر شریعت کا کوئی حکم او رمفہوم خلاف عقل محسوس ہو تو اس میں تاویل کی جائے یا توقف اختیار کیا جائے۔ ( تفسیر القرآن، اصول التفسیر، الاصل الخامس عشر، ص:30)
یہی وہ اصل ہے جس کی آڑ میں تمام عقل پرست طبقے اسلام کے نام پرایک مخصوص اور متوازی نظام فکر پیش کرتے ہیں۔
گم راہی کا یہ پہلا اعزاز معتزلہ کو حاصل ہے، جنہوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دے کر اپنا راستہ اہل سنت سے الگ کر لیا۔ ( الملل والنحل لشھرستانی، المقدمة الخامسة، ص:38-37)
لیکن فلاسفہ اور قرامطہ (باطنیہ) نے تو اپنے عقائد کی ساری عمارت ہی اسی پر استوار کر ڈالی، اس اصل کی اہمیت کے پیش نظر اس پر تفصیلی بحث ہو گی، کیوں کہ سرسید کی تمام تاویلات (تحریفات) کا مدار بھی یہی اصل ہے۔
نقل اور عقل میں تعارض ہو تو ترجیح کسے ہو گی؟
عقل پرستوں کا موقف یہ ہے کہ جب عقل اور نقل میں تعارض ہو جائے تو ترجیح بہر صورت عقلی نتائج ہی کو ہو گی کیوں کہ اگر اس طرح نہ کیا جائے تو پھر عقل اور نقل کے دو متضاد موقف بیک وقت تسلیم کرنے پڑیں گے، یا دونوں موقف چھوڑنے پڑیں گے جو ( اجتماع نقیضین) اور رفع نقیضین کی وجہ سے ) محال ہیں۔
اور نقل کو عقل پر ترجیح دینا بھی محال ہے، کیوں کہ جب نقل کا پورا کارخانہ عقل پر قائم ہو تو پھر نقل کو ترجیح دینے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم فرع کے ذریعے اصل کو باطل کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ صورت کسی طرح درست نہیں ، لہٰذا عقل اور نقل میں تعارض ختم کرنے کی ایک ہی درست صورت ہے کہ عقل کو ترجیح دی جائے اور نقل کی تاویل کی جائے۔
یہ وہ دلیل ہے جسے سر سید انتہائی اعتماد کے ساتھ موقعہ بموقعہ اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ، تحت آیہ رقم:98، تحریر فی اصول التفسیر، سر سید احمد خان، الأصل الخامس عشر ، ص:52)
اس دلیل پر حکم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله علیہ نے فکر وتعمق کے جن جواہر ریزوں کو صفحات قرطاس پر بکھیرا ہے انہیں یہاں بعینہ پیش کر دیتے ہیں، کیوں کہ وہ اس موضوع پر بلاشبہ حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تعارض کی چند صورتیں او راس کا حکم
دلیل عقلی ونقلی میں تعارض کی چار صورتیں عقلاً متحمل ہیں۔
اول یہ کہ دلیل نقلی قطعی ہو، جس میں کسی طرح گنجائش جانب مخالف کی نہ ہو اور دلیل عقلی بھی اسی طرح قطعی ہو۔
دوم یہ کہ دلیل نقلی بھی ظنی ہو اور دلیل عقلی بھی ظنی ہو ۔
تیسرے یہ کہ دلیل نقلی قطعی ہو اور دلیل عقلی ظنی۔
چوتھے یہ کہ دلیل عقلی قطعی ہو اور دلیل نقلی ظنی ہو ۔
اب ان چاروں صورتوں کے احکا م تفصیل سے پڑھیے۔
پہلی صورت اور اس کا حکم
ان میں سے صورت اول، یعنی یہ کہ دلیل شرعی قطعی مخالف ہو دلیل قطعی عقلی کے اس کا ذکر ہیفضول ہے، کیوں کہ یہ صورت وقوع میں نہیں آئی اور یہ دعوی کیا جاتا ہے اور علی رؤس الاشہاد ( گواہوں کے رو برو) کہا جاتا ہے کہ شریعت اسلامی کو یہ فخر حاصل ہے کہ کوئی بات اس کی، جو قطعی طور پر شریعت کے نزدیک مانی ہوئی ہو ، دلیل عقلی قطعی کے خلاف نہیں اور قیامت تک کوئی بھی ایسی بات پیش نہیں کر سکتا اور یہی دلیل ہے اس شریعت کے حق ہونے کی بخلاف دیگر مذاہب کے، مثلاً موجودہ نصرانیت کہ اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے بیٹا ہونا الله تعالیٰ کا ثابت کیا جاتا ہے، جو مستلزم ہے جزئیت کو اور جزئیت مستلزم ہے حدوث کو اور حادث خدا نہیں ہو سکتا ۔یہ دلیل عقلی قطعی کے خلاف ہے۔
تنبیہ
بعض شرعی باتوں کو عوام میں خلافِ عقل کہا جاتا ہے، جیسے معراج شریف ، عذاب قبر ، پل صراط، وغیرہ ۔حالاں کہ یہ محض بے عقلی ہے ، یہ چیزیں خلافِ عادت ہیں، جس کو مستبعد ( دشوار) کہا جاتا ہے، خلافِ عقل نہیں… چوں کہ شریعت حقہ اسلامی میں کہیں دلیل نقلی قطعی اور دلیل عقلی قطعی میں تعارض نہیں ہوا، اس وجہ سے اس کا تو بیان ہی چھوڑ دیا گیا۔
تعارض کی دوسری صورت اور اس کا حکم
اور صورت دوم یعنی یہ کہ دلیل نقلی بھی ظنی ہو اور دلیل عقلی بھی ظنی ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس وقت میں دونوں اس بات میں برابر ہیں کہ جانب مخالف کا کسی درجہ کا احتمال رکھتی ہیں ، لیکن اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ عقلی دلیل کو ترجیح دیں اور دلیل نقلی کو تاویل وتوجیہ کرکے دوسرے بعید احتمال پر محمول کریں ،کیوں کہ یہ تحریف کی ایک قسم ہے ، شریعت کا جو حکم ہمیں معلوم ہوا ہے وہ قرآن کے الفاظ یا حدیث کے الفاظ کے ذریعے معلوم ہوا ہے او راس صورت دوم میں وہ دلیل گو ،دوسرے معنی کو بھی محتمل ہے مگر برابر درجے میں نہیں کیوں کہ ہر لفظ کے ایک معنی قریب ہوتے ہیں، ایک معنی بعید، حتی الامکان الفاظ کو ظاہری اور قریبمعنی پر محمول کرنا چاہیے، ہاں! اگر کوئی وجہ معقول ہو اور الفاظ میں گنجائش ہو تو اور بات ہے، بغیر اس کے کسی عبارت کے معنی قریب کا چھوڑنا ہر گز درست نہیں اور اگر ایسا کیا جائے تو وہ فطری قاعدے کے خلاف ہے ۔ اسی وجہ سے ہم نے اسے تحریف کہا ہے ۔ کیوں کہ یہ قاعدہ فطری ایسا ہے کہ دنیا کے اکثر کاروبار اسی قاعدے پر چل رہے ہیں، مثلاًکوئی ریل کے اسٹیشن پر پہنچ کر نوکر سے کہے ٹکٹ لے لو اور وہ اس کی تعمیل اس طرح کرے کہ ایک پیسہ کا ٹکٹ ڈاک خانہ کا خریدے اور آقا صاحب کے ہاتھ میں دے دے تو یہ حکم کی تعمیل نہ ہو گی، اس میں اس سے زیادہ کیا غلطی ہے کہ اس نے ٹکٹ کے الفاظ کو ظاہری معنی سے پھیر دیا، کیوں کہ ٹکٹ کا لفظ بوقت اسٹیشن پر ہونے کے اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ ریل میں سفر کے لیے کار آمد ہو، گو ڈاک خانہ کے ٹکٹ پر بھی بولا جاتا ہے جب ایک معمولی انسان کے حکم میں معنی قریب کو بدلنا بلاوجہ درست نہیں تو شریعت کے الفاظ میں، جو احکم الحاکمین کے فرمودہ ہیں ،یہ بدلنا کیسے درست ہو گا…؟ اس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ الفاظ کے معنی قریب چھوڑ کر معنی بعید میں استعمال کرنا درست نہیں، بنا بریں صورت مذکورہ میں، یعنی جب دلیل نقلی ظنی اور دلیل عقلی ظنی میں تعارض ہو تو دلیل نقلی کو معنی قریب سے پھیرنا جائز نہ ہو گا، کیوں کہ بے وجہ ہے اور دلیل عقلی کا تعارض اس کے لیے وجہ بننے کی قابلیت نہیں رکھتا، کیوں کہ وہ خود ظنی ہے ، قطعی طور پر وہ دلیل اس سے تعارض نہیں رکھتی ، دلیل عقلی میں کیوں تاویل نہ کی جائے یا اس کو غلط سمجھا جائے تو کون سا حرج ہو جائے گا؟ ہزاروں عقلی ظنی باتیں ایسی ہیں کہ مدتوں تک دنیا کے نزدیک مسلم رہتی ہیں، بعد ازاں غلط ثابت ہو جاتی ہیں، خصوصاً آج کل کی سائنسی تحقیقات تو بہت ہی جلد بدلتی ہیں۔
اسی صورت دوم کی مثال یہ ہے کہ قرآن شریف میں آیا ہے:﴿وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُون﴾․ (الانبیاء:33)
( حق تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے پیدا کیا رات کو اور دن کو اور آفتاب کو اور چاند کو یہ دونوں آسمان میں چلتے ہیں۔)
یسبحون سباحت سے مشتق ہے ۔ سباحت تیرنے کو کہتے ہیں یعنی ایسے چلتے ہیں جیسے کوئی پانی میں تیرتا ہے ظاہر ہے کہ تیرنے میں تیرنے والے کا جسم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے ،یعنی پانی کو چیر کر ادھر ادھر پہنچ جاتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ستارے اسی طرح آسمان میں چلتے ہیں، اس کو حرکت انیّیہ کہتے ہیں، یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ میں کل جسم متحرک کا منتقل ہو جانا اور بعض حکماء ان کے لیے صرف حرکتِ وضعیہ کے قائل ہوئے ہیں، حرکتِ وضعیہ اس کو کہتے ہیں کہ گول چیز اپنے محور ،یعنی کیلی پر حرکت کرے، اس میں یہ ہوتا ہے کہ جسم متحرک کے اجزا تو ادھر سے ادھر کو ہٹتے ہیں لیکن کل جسم متحرک کی جگہ نہیں بدلتی، جیسے چکی گھومتی ہے۔ حکماء کی یہتحقیق آیت کے مضمون سے متعارض ہے لیکن حکما کی یہ تحقیق ظن کے درجے سے آگے نہ بڑھ سکی کیوں کہ ان کے پاس اس پر کوئی دلیل قطعی نہیں ہے تو اس صورت میں آیت کے الفاظ کے صریح معنوں کو حکماء کی اس ظنی تحقیق کی وجہ سے چھوڑنا اور کوئی دور کی تاویل کرنا کہ مثلاً یہ کہ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ آسمان میں تیر رہے ہیں اور حرکتِ انییہ ( کل جسم متحرک کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جانا) ان کو حاصل ہے۔ ورنہ درحقیقت آسمان میں کیل کی طرح گڑے ہوئے ہیں ، ہاں اپنے محور پر چکی کی طرح گھوم رہے ہیں ، ایسا کہنا جائز نہیں کیوں کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں کسی نے آسماں پر جاکر دیکھا نہیں ۔ زمین میں بلکہ اپنے ہی جسم کے اندر جو چیزیں ہیں ان ہی کی تحقیق قطعی طور پر نہیں ہوتی تا بآسمان چہ رسد #
تو کار زمین رانکو ساختی
کہ بآسمان نیز پر داختی
…… خلاصہ یہ کہ جب دلیل عقلی ظنی اور دلیل نقلی ظنی میں تعارض ہو تو دلیل نقلی کو چھوڑنا یا اس میں تاویلات کرنا اور دلیل عقلی ظنی کے مطابق بنانا درست نہیں۔
تعارض کی تیسری صورت اور اس کا حکم
تیسری صورت یہ ہے کہ دلیل نقلی قطعی ہو اور دلیل عقلی ظنی ہو۔ اس کا حکم ظاہر ہے کہ … اس صورت میں دلیل نقلی کو ترجیح دی جائے گی اور دلیل عقلی کو ظنی ماننا درحقیقت اس بات کا اقرار ہے کہ اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یقین کے درجے میں نہیں ہے ۔
اس کی مثال یہ ہے کہ کسی با اعتماد افسر نے کسی ملزم کے بارے میں خبر دی کہ یہ گیارہ بجے ڈاکے میں شریک تھا او رمیں نے اسے خود دیکھا ہے۔ اور گواہ صرف اتنا بیان کر دیں کہ دس بجے کی گاڑی آنے سے پہلے ہم نے اسے دیکھا ہے کہ یہ شہر سے اسباب لیے ہوئے اسٹیشن کی طرف با ارادہ دہلی جارہا تھا، یہ اس کو مستلزم ہے کہ ملزم گیارہ بجے ڈاکہ میں شریک نہ تھا، لیکن یہ لازم آنا ظنی ہے، قطعی نہیں، اس واسطے کہ ہو سکتا ہے کہ شہر سے اس طرح نکلنا بھی اس کا صحیح ہو اور ڈاکے میں شریک ہونا بھی صحیح ہو۔ وہ اس صورت سے کہ ملزم دس بجے سے پہلے شہر سے نکلا ہو، لیکن اسٹیشن تک نہیں گیا اور اسباب کہیں رکھ کہ ڈاکے میں شریک ہو گیا، بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس نے یہ صورت اسباب باندھنے اور مسافر بننے کی اسی واسطے بنائی ہو کہ لوگ جاتے دیکھ لیں اور ڈاکہ زنی کا شبہ اس پر نہ ہو سکے۔
تو یہاں اس واقعہ کا اس ملزم کے ڈاکے میں شریک نہ ہونے کو مستلزم ہونا ظنی ہوا۔ یعنی یہ دلیل عقلی ظنی ہے اور افسر کا بچشم خود اس کو ڈاکے میں شریک دیکھنا دلیل نقلی قطعی ہے، جس میں کوئی احتمال وشک وشبہ نہیں۔ ہر اہل عقل جانتا ہے کہ اس صورت میں دلیل نقلی کو، یعنی افسر مذکور کی خبر کو دلیل عقلی پر ترجیح ہو گی۔ کیوں کہ دلیل عقلی محتمل ہے اور دلیل نقلی غیر محتمل ۔ اس سے ثابت ہوا کہ تعارض اولہ کی صورت سوم میں یعنی جب دلیل نقلی قطعی ہو اور دلیل عقلی ظنی ہو تو دلیل نقلی ہی کو ترجیح ہو گی، اس کے خلاف کرنا خلاف عقل ہے۔
تعارض کی چوتھی صورت اور اس کا حکم
چوتھی صورت یہ ہے کہ دلیل شرعی ظنی ہو اور دلیل عقلی قطعی ہو اس کا حکم یہ ہے کہ یہاں دلیل عقلی کو ترجیح دی جائے گی اور دلیل شرعی کے وہ معنی لیے جائیں گے جس کو وہ محتمل ہے ، یہ حکم بالکل فطرت سلیمہ کے موافق ہے۔ اس صورت میں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں،بلکہ خلاف ادب ہے کہ دلیل شرعی کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ چھوڑنا نہیں، بلکہ اس کے ظنی ماننے کا اظہار ہے ، کیوں کہ ظنی کہنے کے معنی یہی تھے کہ اس میں دوسرے معنی کی بھی گنجائش ہے ، جب ایک کلام میں دو معنی لیے جاسکتے ہیں تو ایک معنی کسی معقول وجہ سے مراد لیناجس کی اجازت متکلم کی طرف سے بھی ہو، متکلم کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جیسا کہ ظاہر ہے۔
اس کی مثال عرف میں یہ ہے کہ ایک آقا نوکر کو حکم دے کہ بازار سے ایک تانبے کا لوٹا خرید لاؤ۔ اس کے ظاہر اور متبادر معنی یہ ہیں کہ قریب کے بازار سے خرید لاؤ، لیکن کلام اس دلالت میں قطعی نہیں ہے، کیوں کہ بازار قریب کے بازار کو بھی کہہ سکتے ہیں اور دور کے بازار کو بھی ، تو یہ دلیل قریبی بازار کے واسطے ظنی ہوئی، اس بازار میں لوٹے بکتے ہی نہیں تو اس وقت عقلاً کیا تجویز کریں گے ؟ کیا اس نوکر کو یہ کرنا چاہیے کہ بازار کے لفظ کو بازار قریب ہی کے معنی پر محمول کرکے اور تلاش کرکے خاموش ہو کے بیٹھا رہے ؟ اگر ایسا کرے تو وہ نوکر مطیع اور کار گزار سمجھا جائے گا یا نہیں؟ اور کیا اگر وہ دور کے بازار سے جاکر لوٹا خرید لائے تو نافرمان قرار دیا جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ اگر ایسا کرے گا تو آقا سر زنش کرے گا کہ میں نے کب یہ کہا تھا کہ دور کے بازار تک مت جانا، جب میرا کلام دونوں بازاروں کو شامل تھا اور قریب کے بازار میں لوٹا نہیں ملا تو دوسرے بازار تک کیوں نہیں گیا ؟ اس کی بنا اسی اصول پر ہے کہ دلیل نقلی ظنی کو دلیل عقلی قطعی پر کیوں ترجیح دی ؟ اس وقت نو کر اگر یہ عذر کر دے کہ آپ کے حکم کی خلاف ورزی کے خوف سے میں دور کے بازار میں نہیں گیا تو جواب یہی دیا جائے گا کہ میرا حکم تو اس بازار کے شمول کا احتمال رکھتا تھا، خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ بلکہ یہ عین تعمیل حکم اور کار گزاری تھی۔
اس مثال سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اصول عقلِ سلیم کے بالکل موافق ہے کہ دلیل نقلی ظنی کو جب دلیل عقلی قطعی سے تعارض ہو تو دلیل عقلی پر عمل کرنا چاہیے او راس پر عمل کرنے سے دلیل نقلی کو ترک کرنا لازم نہیں آتا، بلکہ اس کی ظنیت کو تسلیم کرنا ہے او رمتکلم کے عین مراد کو سمجھنا اور تعمیل کرنا ہے۔
اس کی شرعی مثال یہ ہے کہ سائنس دانوں کے مشاہدے سے اورریاضی کے قواعدیقینیہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ آفتاب زمین سے علیٰحدہ ہے اور اپنی حرکت میں کسی حالت میں زمین سے نہیں چھوتا اور قرآن شریف میں ذوالقرنین کے قصے میں یہ الفاظ آئے ہیں ﴿وجدھا تغرب فی عین حمئة﴾ یعنی ”ذوالقرنین ایک ایسی جگہ پر پہنچے کہ وہاں آفتاب کو پایا ایک کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے “ ان الفاظ سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں آفتاب پانی او رکیچڑ میں غروب ہوتا تھا تو زمین سے اس کو مس ہوا؟ یہ دلیل عقلی مذکورہ کے خلاف ہے چوں کہ یہاں دلیل نقلی کی دلالت ظنی ہے، اس واسطے کہ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ وہاں آفتاب پانی او رکیچڑ میں چھپتا تھا، بلکہ یوں کہتی ہے کہ ذوالقرنین نے یوں محسوس کیا ، اس کو بادی النظر میں ایسا معلوم ہونا کہتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہمارے محاورے میں بھی ایسے ہی لفظ بولتے ہیں ۔ مثلاً حاجی لوگ سمندر کی حالت بیان کرتے ہیں کہ اتنا لمبا چوڑا ہے کہ ہفتوں تک کہیں خشکی کا سامان نظر نہیں آتا۔ آفتاب پانی ہی میں سے نکلتا ہے او رپانی ہی میں چھپتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ واقع میں ایسا ہی ہے کہ آفتاب پانی کے اندر سے نکلتا ہے او رپانی کے اندر چھپتا ہے، بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ آنکھ سے ایسا نظر آتا ہے ، کیوں کہ جہاں تک نظر پہنچتی ہے ،پانی ہی پانی ہوتاہے تو جو چیز نئی نیچے سے اوپر کو آئے گی وہ پانی ہی میں سے اٹھتی نظر آوے گی ، چوں کہ آیت کی دلالت آفتاب کے زمین سے مس کرنے (چھونے ) پر بالکل ظنی ہے او راس میں دوسرے معنوں کی بہت گنجائش ہے، دلیل عقلی اس کے خلاف بالکل قطعی ہے، لہٰذا دلیل عقلی کو بحال رکھا جائے گا اور دلیل نقلی کے وہ معنی لیے جائیں گے جس کو وہ محتمل ہے، یعنی بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آفتاب پانی میں چھپتا ہے۔
مطلب یہ ہو گا کہ وہ ایسی جگہ تھی کہ آگے اس کے مغرب کی طرف پانی ہی پانی تھا، حتی کہ آفتاب پانی میں غروب ہوتا نظر آتا تھا۔ ( اسلام اور عقلیات، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، تسہیل مصطفیٰ خان بجنوری، ص:105,97)
یہ وہ صورت ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ دلیل عقلی کو دلیل نقلی پر ترجیح ہو گی، متکلمین بھی صرف اسی صورت میں دلیل عقلی کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کا دعوی کہ عقل نقل پر مقدم ہے صرف اسی صورت کے متعلق ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله نے تو فرمایا کہ ایسے موقع پر عقل کو ترجیح صرف اس لیے دی جاتی ہے کہ یہ قطعیت کے درجے پر فائز ہوتی ہے، محض عقل کی بنیاد پر اسے راجح قرار نہیں دیا جاتا۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول، 45/1، مصر)
حضرت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله نے انتہائی حکمت اور فراست سے تقابل کی یہ صورتیں اور او ران کا حل تحریر فرمایا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله نے اسی موضوع پر تصنیف کر دہ کتاب ”موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول“ میں تفصیل سے ان کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے جو عقل کو نقل پر ترجیح دینے کی صورت میں پیش آتی ہیں ، لہٰذا قدرے اختصار کے ساتھ اس کے چند مباحث ذکر کیے جاتے ہیں، تاکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ عقل پرستوں کا موقف خود عقل کے نزدیک بھی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
عقل پرستوں کے موقف پر علامہ ابن تیمیہ کا تجزیہ
علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله کا کہنا ہے کہ جو لوگ عقلی او رنقلی دلائل میں تعارض کی صورتیں پیدا کرکے تاویل کی اہمیتوں پر زور دیتے ہیں، ان میں پہلا نقص تو یہ ہے کہ یہ خود آپس میں کسی موقف پر متفق نہیں۔
ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جن کا موقف ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے جنت، جہنم ، آخرت، ملائکہ کے متعلق جن امو راور کیفیات کا اظہار کیا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،روز محشر میں نہ ان جسموں کا بعینہ اعادہ ہو گا نہ جنت کا عیش وسرور اور جہنم کے مصائب وتکلیف جسمانی اور مادی نوعیتوں کی حامل ہوں گی، انبیاء نے یہ خلاف حقیقت چیزیں اس مصلحت کے تحت بیان کی ہیں کہ اس کے بغیر علم سے کوری عوام کے ذہن میں ان حقائق کا اتارنا ناممکن تھا۔ ابن سینا نے ”رسالة أضحویہ“ میں یہی مسلک اختیار کیا ہے ۔ ( سرسید کا موقف بھی یہی ہے، چناں چہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ” انبیاء تمام کافہ أنام (تمام لوگوں) کی تربیت کرتے ہیں جن کا بڑا حصہ قریب کل کے محض ناتربیت یافتہ جاہل وحشی ، جنگلی ، بدوی، بے عقل وبدوماغ ہوتا ہے ۔ اس لیے انبیاء کو یہ مشکل پیش آئی ہے کہ ان حقائق ومعارف کو… ایسے الفاظ میں بیان کریں کہ تربیت یافتہ دماغ اور کوڑی مغز دونوں برابر فائدہ اٹھائیں… وعدہ، وعید، دوزخ وبہشت کے جن الفاظ سے بیان ہوئے ہیں ان سے بعینہ وہی اشیاء مقصود نہیں۔“ تفسیر القرآن: البقرہ، تحت آیة رقم:25)
اس گروہ کو وہمی گروہ کے نام سے موسوم کرنا چاہیے ، ان میں پھر دو گروہ ہیں ،ایک گروہ کا کہنا ہے کہ انبیاء جنت، جہنم، آخرت کی حقیقت سے واقف تھے، مگر عوام کی ذہنی سطح کے پیش نظر بیان کرنے سے قاصر تھے، دوسرا گروہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بڑہانکتا ہے کہ خود انبیاء بھی ان حقائق سے ناواقف تھے ، ان کا علم بھی فقط ظواہر تک محدود تھا، علم وادراک کا یہ شرف صرف حکماء اور فلاسفہ کو حاصل ہے، جو ظواہر پر قناعت کرنے کے بجائے اس کے پوشیدہ معانی اور حقائق کی جلوہ طرازیوں سے بھی بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسرے گروہ کا موقف ہے کہ انبیاء نے سرے سے ایسے ظواہر کی تلقین ہی نہیں کی جس سے جنت وجہنم، ملائکہ وغیرہ کی جسمانیت اور مادی ہونے پر استدلال کیا جاسکے، چناں چہ قرآن کریم میں جہاں جہاں جنت وجہنم ، ملائکہ کے متعلق الفاظ ومعانی جسمانیت اور مادیت کے سانچے میں ڈھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں تو یہ فوراً تاویل کے درپے ہو جاتے ہیں، جو درحقیقت تحریف ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ گروہ درحقیقت محرفین کا گروہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ عقل پرست کتاب الله کی مخالفت پر تو متفق ہیں، لیکن خود کسی رائے پر اتفاق نہیں کرسکتے۔ (بیان موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 4,3/1، مصر، مجموعہ الفتاوی لابن تیمیة:84,83/4، بیروت)
اگر دینی حقائق، الہیات، ما بعد الطبعیات کی صحت واستواری کا تعلق عقل وادراک کی طرفہ طرازیوں سے ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ عقل سے کیا مراد ہے ؟ کیا عقل سے ”غزیرہ“ وہ مَلَکہ اور صلاحیت واستعداد مراد ہے جو تفاوت درجات کے ساتھ تمام انسانوں میں موجود ہے ؟ یا وہ علوم وفنون مراد ہیں جو عقل کی روشنی میں پروان چڑھتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس سے وہ ”غزیرہ“ ملکہ اور صلاحیت مراد نہیں ہو سکتی، کیوں کہ وہ تو عقل اور نقل دونوں کے لیے بمنزلہ شرط کے ہے ، اس کا اپنا کوئی مستقل مؤقف یا مسلک ہے ہی نہیں۔ اس لیے وہ کسی عقیدے اور نظریے کا حامی ہے نہ مخالف۔
رہی دوسری صورت کہ اس سے مراد وہ علوم وفنون ہیں جن کو عقل ودانش کی کارفرمائیوں نے جنم دیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کا براہ راست دین سے کیا تعلق ؟ دینی حقائق ( توحید ، رسالت ونبوت اور معاد، جنت وجہنم وغیرہ) کا ثبوت عقل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نبی اوررسول کی خبر کی بنا پر تسلیم کیا گیا ہے، اس صورت حال میں علوم عقلی کو دین کی بنیاد ٹھہرانا اصولاً غلط ہے، نہ ان سے دینی حقائق کی صحت واستواری پر کوئی روشنی پڑتی ہے اور نہ ان پر ان کا وجود وثبوت مبنی ہے۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:47/1، مصر)
نقلیات پر عقلیات کو ترجیح دینے کا موقف اس بنا پر بھی مسترد کرنے کے لائق ہے کہ جہاں نقلیات کا دائرہ یقین اور قطعیت لیے ہوئے ہے وہاں عقلیات سراسر نقص کا شکار ہیں، عقل ایک ہی موقف پر دو متضاد نتائج فراہم کرسکتی ہے ، چناں چہ عقل پرستوں کی متضاد آرا کی وجہ سے حق و باطل کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے، مثلاً قرآن کریم میں روئت بار ی تعالیٰ کی خوش خبری سنائی گئی ہے او راہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ آخرت میں اہل ایمان الله تعالیٰ کے دیدار سے لطف اندوز ہوں گے اور وہ محبوب حقیقی اپنے جلوے دکھا کر مشتاقانِ دیدار کے قلب وذہن کی بے قراریوں کو سامان تسکین فراہم کرے گا۔ لیکن عقل نے سوال اٹھایا کہ ”روئت“ کے معنی ”مرئی “ ( جسے دیکھا جارہا ہے ) کو نظر وبصر کا ہدف ٹھہرانے کے ہیں ؟ یا اس کا تحقق اس کے بغیر بھی ممکن ہے ؟ عقل پرستوں کا ایک گروہ ضرورت عقلی کی بنا پر کہتا ہے کہ یہ قطعی ناممکن ہے ، کیوں کہ عقل کسی ایسی روئت کا تصور ہی نہیں کر سکتیجس میں ”مرئی“ ( جسے دیکھا جارہا ہے ) کے وجود کا احاطہ نہ ہو پائے ( روئت بار ی تعالیٰ کو تسلیم کر لینے سے لازم آئے گا کہ الله تعالیٰ کا وجودمحدود ہو، جو آنکھوں کا ہدف بن سکے) دوسرا گروہ عقل کی بنیاد پر اس کی تردید کرتا ہے ، اس کا دعوی ہے کہ ”روئت “ کا مفہوم ”مرئی“ کا احاطہ کیے بغیر بھی پورا ہو سکتا ہے ۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 81/1، مصر)
اسی طرح الله تعالیٰ کی صفت علم کے بارے میں ایک گروہ کہتا ہے کہ علم الہیٰ جزئیات کو شامل نہیں دوسرا گروہ کہتا ہے علم الہی جزئیات زمانی کوبھی شامل ہے ، تیسرا گروہ کہتا ہے علم الہی جزئیات زمانی کو شامل تو ہے، لیکن جزئیات زمانی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ کلی کی حیثیت سے۔ ( المسامرہ، ص:68)
عقلیات کی دنیا میں ریاضی ہی ایک ایسا فن ہے جس کے قطعی ہونے پر عقل پرستوں کو ناز ہے، لیکن اسے بھی حرف آخر نہیں قرار دیتے۔ معروف ریاضی وان بطلیموس کی مشہور کتاب ”المجسطی“ جو ریاضی کے نتائج پر مبنی ہے اس کے کئی مقدمات بحث طلب ہیں کئی ایسے ہیں جو صراحتاً غلط اندازوں پر مبنی ہیں۔
ریاضی کے بعد طبعیات کا درجہ ہے، جس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ جسم کی حقیقت کیا ہے ؟ اس بنیادی سوال پر بھی اہل عقل کا اتفاق نہ ہو سکا کوئی اسے مادہ اور صورت سے تربیت پذیر مانتا ہے، کوئی کہتا ہے یہ اجزاء لاتتجزی سے بنا ہے او رکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورت عقلی کی بنیاد پر ان دونوں صورتوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔ پھر یہ اجزاء لاتتجزی یا جواہر فردہ کیا ہیں ؟ اس پر بھی کوئی فیصلہ کن رائے نہیں ۔ ابوالحسن البصری جیسا دقیقہ رس، علامہ جوینی جیسا معقولی ، ابوعبدالله الخطیب جیسا فاضل… سب عقل کی پر پیچ وادیوں میں حیران وپریشان ہیں، کسی مسئلے پر روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:89,88/1)
اب بتائیے جو عقل ہر موقف پر متضاد رائے فراہم کر سکتی ہو اسے قطعیت کے درجے پر فائز کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ قطعی مؤقف تو اسے کہتے ہیں جس کے برعکس دوسرا موقف قائم نہ ہو سکے، یہاں تو اختلاف آرا کا ایک طوفان برپا ہے ، ایک ہی شے عقلی لحاظ سے حق بھی ہے باطل بھی ، ہدایت بھی ہے گم راہی بھی۔
اس کے برخلاف قرآن وحدیث میں ہر بنیادی اور اصولی مسئلہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اس کے دلائل و براہین میں کوئی تضاد کا پہلو نہیں، اسی بات کو قرآن کریم نے اپنے وحی ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ ﴿أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا﴾․ ( النساء:82)
ترجمہ:” کیا غور نہیں کرتے قرآن میں او راگر یہ ہوتا کسی اور کا سوا الله کے تو ضرور پاتے اس میں بہت تفاوت۔“
بلکہ وحی کی غرض وغایت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ان تمام اختلافات کو یکسر مٹا دے جو انسانی فہم کی نارسائیوں نے پیدا کر رکھے ہیں۔﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُول﴾․ (النساء:59)
ترجمہ:” اے ایمان والو! حکم مانو الله کااور حکم مانو رسول کا اور حاکموں کا، جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف الله کے اور رسول کے۔“
نقلیات میں جن چیزوں کو خلاف عقل سمجھا جاتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں یا تو اس کی بنیاد موضوع احادیث ہیں یا پھر ان میں کہیں دلالت واستنباط میں خلل ہے ، تیسری کوئی صورت نہیں۔(موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول،83/1، مصر)
خلاصہ یہ کہ انبیاء کبھی ایسی چیزوں کی اطلاع نہیں دیتے جو عقلاً محال ہوں یا عقل ان کی نفی کرتی ہو، بلکہ ان کی اطلاع ایسی چیزوں کے بارے میں ہوتی ہے جن کے حقائق جاننے سے عقل قاصر اور عاجز ہوتی ہے۔(موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:83/1، مصر)
کون ہے جو علامہ رازی رحمہ الله کی شخصیت سے واقف نہ ہو؟ جو عقلیات میں امامت کے درجے پر فائز ہیں ، انہوں نے اپنے اشعار میں فلسفہ اور عقل کی نارسائیوں کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے عبرت حاصل ہوتی ہے، تمام اشعار کا خلاصہ اس ایکشعر سے حاصل ہو سکتا ہے #
ولم نستفد من بحثنا من طول عمرنا
سوی أن جمعنا فیہ قیل وقالوا
ترجمہ:” ہم نے تمام عمر بحث ومباحثے کے باوجود اپنے دامن میں اس کے علاو ہ کچھ نہیں سمیٹا کہ فلاں کا یہ قول ہے اور فلاں کا یہ قول ہے۔“
حتی کہ علامہ غزالی رحمہ الله بھی اس گروہ سے دست بردار ہو کر ریاض سنت کی شمیم آرائیوں سے قلب ونظر مہکانے لگے ۔ ان کی روح بھی اس عالم میں پرواز ہوئی کہ سینے پر صحیح بخاری تھی اور آنکھیں ابواب وروایات سے فیض یاب ہو رہی تھیں۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:90/1)
تھوڑی دیر کے لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ نقلیات کو جانچنے کے لیے عقل ہی درست اور واحد معیار ہے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ تم کس عقل کو حکم اور معیار بناتے ہو؟
اگر تم فلاسفہ کی عقل کوحکم بناتے ہو تو وہ خود کسی موقف پر متفق نہیں، ان میں تو ہر آنے والا گزرنے والے کے قول کی تردید کرتا ہے ۔
اگر ادباء کی عقل کو فیصل قرارا دیتے ہو تو ان کا یہ کام نہیں، ان کا تعلق تو بس نوادرات وحکایات سے ہے۔
اگر اہل طب، اہل ہندسہ، ریاضی دانوں کی عقل کوفیصل قرار دیتے ہو تو ان کو حدیث ( نقلیات ) سے کیا سروکار؟
اگر محدثین وفقہاء کی عقل کو معیار بناتے ہو تو وہ تمہیں سرے سے پسند ہی نہیں، بلکہ محدثین کو تو تم سادہ لوح اور کند ذہن تصور کرتے ہو۔
اگر ملحدین کی عقل پسند ہے تو ان کے نزدیک خدا پر ایمان لانا جہالت اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اگر اہل سنت والجماعت کی عقل پسند ہے تو شیعہ ومعتزلہ اسے پسند نہیں کرتے……۔
اب بتائیے کس کی عقل کو کس بنیاد پر فیصل اور حَکَم قرار دو گے؟ (السنة ومکانتھا فی التشریع الاسلامی، ص:33)
موضوع کی نزاکت او راہمیت کے پیش نظر اسے قدرے تفصیل سے لکھا ہے، کیوں کہ عقل پرست معتزلہ، جدید وقدیم منکرین حدیث ، سر سید اوران کے جدّت پسند پیروکاروں کا یہ اتفاقی اور بنیادی موقف ہے کہ عقل کو بہر صورت نقل پر ترجیح ہوگی، اس کی آڑ میں کسی نے نبوت ورسالت، جنت وجہنم، ملائکہ اور معجزات کا مذاق اڑایا تو کسی نے حدیث رسول کو بازیچہ اطفال بنا کر اپنی بے عقلی کے جوہر دکھائے۔ اس لیے طوالت کا خوف کیے بغیر اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور کوشش کی ہے کہ اس بحث کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔
ایک شبہ او راس کا جواب
شبہ: گذشتہ تحریر پڑھ کر کسی کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ عقل کی شہادت سرے سے ماننے کے لائق ہی نہیں ، کیوں کہ یہ ہر موقف پر دو متضاد رائے فراہم کر سکتی ہے۔
جواب : ہر گز نہیں، ہم عقل کی اہمیت سے نہ صرف یہ کہ واقف ہیں، بلکہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہیں ۔ عقل پرستوں سے ہمار ا اختلاف عقل کے دائرہ کار کے متعلق ہے، اس اختلاف کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عقل کی دو قسمیں ہیں ۔ 1.عقل سلیم۔ 2.عقل سقیم۔
1...عقلِ سلیم وہ ہے جو علوم نبوت اور وحی پر صدقِ دل سے ایمان لائے او راس میں مناسب رنگ بھرے ( جیسا کہ متکلمین کا طریقہ ہے)۔
2...عقل سقیم وہ ہے جو وحی پر حَکَم بن کر الحاد وزندقہ کو فروغ دے۔
لہٰذا جب ہم عقلیات کی شہادت اور اس کے دلائل کو مشکوک ٹھہرا کر ابطال کرتے ہیں تو اس کا تعلق عقلسقیم سے ہے، نہ کہ عقل سلیم سے۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:98/1، مصر)
عقل کا دائرہ کار اور اس کے استعمال کا صحیح مصرف
علم کے تین ذرائع ہیں:۱۔ حواسِ خمسہ۔۲۔ عقل۔۳۔ وحی۔ ہر ایک کا اپنا محدو ددائرہ کار ہے۔ جن چیزوں کا علم حواسِ خمسہ ( آنکھ، کان، ناک، زبان،لمس یعنی چھونا) سے ہوتا ہے، اسے نری عقل سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک دیوار ہے ،اسے ” دیکھ“ کر اس کا رنگ معلوم کیا جاسکتا ہے، لیکن آنکھیں بند کرکے نری عقل سے اس کارنگ معلوم کرنا ناممکن ہے، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل سے حاصل ہوتا ہے، انہیں حواس کے ذریعے معلوم نہیں کیا جاسکتا،مثلاً آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ پتہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے، اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔
غرض جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں عقل کوئی راہ نمائی نہیں کرتی او رجہاں حواس خمسہ جواب دے رہیں، وہاں سے عقل کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حد پر جاکر رک جاتا ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے۔ مثلاً اسی دیوار کے بارے میں یہ معلوم کرنا اس کو کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ ناراض ہو گا۔ اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ الله تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے یہی وہ دائرہ ہے، جس سے عقل کو متجاوز ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس اقلیم میں صرف وحی ، کتاب اور الله کے برگزیدہ انبیاء اور رسولوں کی ہی حکم رانی ہے او رانہیں کا سکہ چلتا ہے۔
عقلیات کا کام تویہ ہے کہ یہ نقلیات کے تابع بن کر اس میں مناسب رنگ بھرے ، اس کی نوک پلک سنوار کر اسے منظم نظامِ فکر کی حیثیت سے پیش کرے، جیسا کہ متکلمین اسلام نے اس فریضہ کو انجام دے کر نہ صرف فہم وادراک کے نئے سانچے مہیا کیے، بلکہ عقل پرستوں کے بڑھتے ہوئے الحاد وزندقہ کے سیلاب کو بھی مضبوطی سے روکا۔ (جزاھم الله عنا وعن جمیع المسلمین․)
تیسری صورت یہ ہے کہ دلیل نقلی قطعی ہو اور دلیل عقلی ظنی ہو۔ اس کا حکم ظاہر ہے کہ … اس صورت میں دلیل نقلی کو ترجیح دی جائے گی اور دلیل عقلی کو ظنی ماننا درحقیقت اس بات کا اقرار ہے کہ اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یقین کے درجے میں نہیں ہے ۔
اس کی مثال یہ ہے کہ کسی با اعتماد افسر نے کسی ملزم کے بارے میں خبر دی کہ یہ گیارہ بجے ڈاکے میں شریک تھا او رمیں نے اسے خود دیکھا ہے۔ اور گواہ صرف اتنا بیان کر دیں کہ دس بجے کی گاڑی آنے سے پہلے ہم نے اسے دیکھا ہے کہ یہ شہر سے اسباب لیے ہوئے اسٹیشن کی طرف با ارادہ دہلی جارہا تھا، یہ اس کو مستلزم ہے کہ ملزم گیارہ بجے ڈاکہ میں شریک نہ تھا، لیکن یہ لازم آنا ظنی ہے، قطعی نہیں، اس واسطے کہ ہو سکتا ہے کہ شہر سے اس طرح نکلنا بھی اس کا صحیح ہو اور ڈاکے میں شریک ہونا بھی صحیح ہو۔ وہ اس صورت سے کہ ملزم دس بجے سے پہلے شہر سے نکلا ہو، لیکن اسٹیشن تک نہیں گیا اور اسباب کہیں رکھ کہ ڈاکے میں شریک ہو گیا، بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس نے یہ صورت اسباب باندھنے اور مسافر بننے کی اسی واسطے بنائی ہو کہ لوگ جاتے دیکھ لیں اور ڈاکہ زنی کا شبہ اس پر نہ ہو سکے۔
تو یہاں اس واقعہ کا اس ملزم کے ڈاکے میں شریک نہ ہونے کو مستلزم ہونا ظنی ہوا۔ یعنی یہ دلیل عقلی ظنی ہے اور افسر کا بچشم خود اس کو ڈاکے میں شریک دیکھنا دلیل نقلی قطعی ہے، جس میں کوئی احتمال وشک وشبہ نہیں۔ ہر اہل عقل جانتا ہے کہ اس صورت میں دلیل نقلی کو، یعنی افسر مذکور کی خبر کو دلیل عقلی پر ترجیح ہو گی۔ کیوں کہ دلیل عقلی محتمل ہے اور دلیل نقلی غیر محتمل ۔ اس سے ثابت ہوا کہ تعارض اولہ کی صورت سوم میں یعنی جب دلیل نقلی قطعی ہو اور دلیل عقلی ظنی ہو تو دلیل نقلی ہی کو ترجیح ہو گی، اس کے خلاف کرنا خلاف عقل ہے۔
تعارض کی چوتھی صورت اور اس کا حکم
چوتھی صورت یہ ہے کہ دلیل شرعی ظنی ہو اور دلیل عقلی قطعی ہو اس کا حکم یہ ہے کہ یہاں دلیل عقلی کو ترجیح دی جائے گی اور دلیل شرعی کے وہ معنی لیے جائیں گے جس کو وہ محتمل ہے ، یہ حکم بالکل فطرت سلیمہ کے موافق ہے۔ اس صورت میں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں،بلکہ خلاف ادب ہے کہ دلیل شرعی کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ چھوڑنا نہیں، بلکہ اس کے ظنی ماننے کا اظہار ہے ، کیوں کہ ظنی کہنے کے معنی یہی تھے کہ اس میں دوسرے معنی کی بھی گنجائش ہے ، جب ایک کلام میں دو معنی لیے جاسکتے ہیں تو ایک معنی کسی معقول وجہ سے مراد لیناجس کی اجازت متکلم کی طرف سے بھی ہو، متکلم کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جیسا کہ ظاہر ہے۔
اس کی مثال عرف میں یہ ہے کہ ایک آقا نوکر کو حکم دے کہ بازار سے ایک تانبے کا لوٹا خرید لاؤ۔ اس کے ظاہر اور متبادر معنی یہ ہیں کہ قریب کے بازار سے خرید لاؤ، لیکن کلام اس دلالت میں قطعی نہیں ہے، کیوں کہ بازار قریب کے بازار کو بھی کہہ سکتے ہیں اور دور کے بازار کو بھی ، تو یہ دلیل قریبی بازار کے واسطے ظنی ہوئی، اس بازار میں لوٹے بکتے ہی نہیں تو اس وقت عقلاً کیا تجویز کریں گے ؟ کیا اس نوکر کو یہ کرنا چاہیے کہ بازار کے لفظ کو بازار قریب ہی کے معنی پر محمول کرکے اور تلاش کرکے خاموش ہو کے بیٹھا رہے ؟ اگر ایسا کرے تو وہ نوکر مطیع اور کار گزار سمجھا جائے گا یا نہیں؟ اور کیا اگر وہ دور کے بازار سے جاکر لوٹا خرید لائے تو نافرمان قرار دیا جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ اگر ایسا کرے گا تو آقا سر زنش کرے گا کہ میں نے کب یہ کہا تھا کہ دور کے بازار تک مت جانا، جب میرا کلام دونوں بازاروں کو شامل تھا اور قریب کے بازار میں لوٹا نہیں ملا تو دوسرے بازار تک کیوں نہیں گیا ؟ اس کی بنا اسی اصول پر ہے کہ دلیل نقلی ظنی کو دلیل عقلی قطعی پر کیوں ترجیح دی ؟ اس وقت نو کر اگر یہ عذر کر دے کہ آپ کے حکم کی خلاف ورزی کے خوف سے میں دور کے بازار میں نہیں گیا تو جواب یہی دیا جائے گا کہ میرا حکم تو اس بازار کے شمول کا احتمال رکھتا تھا، خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ بلکہ یہ عین تعمیل حکم اور کار گزاری تھی۔
اس مثال سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اصول عقلِ سلیم کے بالکل موافق ہے کہ دلیل نقلی ظنی کو جب دلیل عقلی قطعی سے تعارض ہو تو دلیل عقلی پر عمل کرنا چاہیے او راس پر عمل کرنے سے دلیل نقلی کو ترک کرنا لازم نہیں آتا، بلکہ اس کی ظنیت کو تسلیم کرنا ہے او رمتکلم کے عین مراد کو سمجھنا اور تعمیل کرنا ہے۔
اس کی شرعی مثال یہ ہے کہ سائنس دانوں کے مشاہدے سے اورریاضی کے قواعدیقینیہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ آفتاب زمین سے علیٰحدہ ہے اور اپنی حرکت میں کسی حالت میں زمین سے نہیں چھوتا اور قرآن شریف میں ذوالقرنین کے قصے میں یہ الفاظ آئے ہیں ﴿وجدھا تغرب فی عین حمئة﴾ یعنی ”ذوالقرنین ایک ایسی جگہ پر پہنچے کہ وہاں آفتاب کو پایا ایک کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے “ ان الفاظ سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں آفتاب پانی او رکیچڑ میں غروب ہوتا تھا تو زمین سے اس کو مس ہوا؟ یہ دلیل عقلی مذکورہ کے خلاف ہے چوں کہ یہاں دلیل نقلی کی دلالت ظنی ہے، اس واسطے کہ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ وہاں آفتاب پانی او رکیچڑ میں چھپتا تھا، بلکہ یوں کہتی ہے کہ ذوالقرنین نے یوں محسوس کیا ، اس کو بادی النظر میں ایسا معلوم ہونا کہتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہمارے محاورے میں بھی ایسے ہی لفظ بولتے ہیں ۔ مثلاً حاجی لوگ سمندر کی حالت بیان کرتے ہیں کہ اتنا لمبا چوڑا ہے کہ ہفتوں تک کہیں خشکی کا سامان نظر نہیں آتا۔ آفتاب پانی ہی میں سے نکلتا ہے او رپانی ہی میں چھپتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ واقع میں ایسا ہی ہے کہ آفتاب پانی کے اندر سے نکلتا ہے او رپانی کے اندر چھپتا ہے، بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ آنکھ سے ایسا نظر آتا ہے ، کیوں کہ جہاں تک نظر پہنچتی ہے ،پانی ہی پانی ہوتاہے تو جو چیز نئی نیچے سے اوپر کو آئے گی وہ پانی ہی میں سے اٹھتی نظر آوے گی ، چوں کہ آیت کی دلالت آفتاب کے زمین سے مس کرنے (چھونے ) پر بالکل ظنی ہے او راس میں دوسرے معنوں کی بہت گنجائش ہے، دلیل عقلی اس کے خلاف بالکل قطعی ہے، لہٰذا دلیل عقلی کو بحال رکھا جائے گا اور دلیل نقلی کے وہ معنی لیے جائیں گے جس کو وہ محتمل ہے، یعنی بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آفتاب پانی میں چھپتا ہے۔
مطلب یہ ہو گا کہ وہ ایسی جگہ تھی کہ آگے اس کے مغرب کی طرف پانی ہی پانی تھا، حتی کہ آفتاب پانی میں غروب ہوتا نظر آتا تھا۔ ( اسلام اور عقلیات، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، تسہیل مصطفیٰ خان بجنوری، ص:105,97)
یہ وہ صورت ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ دلیل عقلی کو دلیل نقلی پر ترجیح ہو گی، متکلمین بھی صرف اسی صورت میں دلیل عقلی کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کا دعوی کہ عقل نقل پر مقدم ہے صرف اسی صورت کے متعلق ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله نے تو فرمایا کہ ایسے موقع پر عقل کو ترجیح صرف اس لیے دی جاتی ہے کہ یہ قطعیت کے درجے پر فائز ہوتی ہے، محض عقل کی بنیاد پر اسے راجح قرار نہیں دیا جاتا۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول، 45/1، مصر)
حضرت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله نے انتہائی حکمت اور فراست سے تقابل کی یہ صورتیں اور او ران کا حل تحریر فرمایا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله نے اسی موضوع پر تصنیف کر دہ کتاب ”موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول“ میں تفصیل سے ان کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے جو عقل کو نقل پر ترجیح دینے کی صورت میں پیش آتی ہیں ، لہٰذا قدرے اختصار کے ساتھ اس کے چند مباحث ذکر کیے جاتے ہیں، تاکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ عقل پرستوں کا موقف خود عقل کے نزدیک بھی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
عقل پرستوں کے موقف پر علامہ ابن تیمیہ کا تجزیہ
علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله کا کہنا ہے کہ جو لوگ عقلی او رنقلی دلائل میں تعارض کی صورتیں پیدا کرکے تاویل کی اہمیتوں پر زور دیتے ہیں، ان میں پہلا نقص تو یہ ہے کہ یہ خود آپس میں کسی موقف پر متفق نہیں۔
ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جن کا موقف ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے جنت، جہنم ، آخرت، ملائکہ کے متعلق جن امو راور کیفیات کا اظہار کیا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،روز محشر میں نہ ان جسموں کا بعینہ اعادہ ہو گا نہ جنت کا عیش وسرور اور جہنم کے مصائب وتکلیف جسمانی اور مادی نوعیتوں کی حامل ہوں گی، انبیاء نے یہ خلاف حقیقت چیزیں اس مصلحت کے تحت بیان کی ہیں کہ اس کے بغیر علم سے کوری عوام کے ذہن میں ان حقائق کا اتارنا ناممکن تھا۔ ابن سینا نے ”رسالة أضحویہ“ میں یہی مسلک اختیار کیا ہے ۔ ( سرسید کا موقف بھی یہی ہے، چناں چہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ” انبیاء تمام کافہ أنام (تمام لوگوں) کی تربیت کرتے ہیں جن کا بڑا حصہ قریب کل کے محض ناتربیت یافتہ جاہل وحشی ، جنگلی ، بدوی، بے عقل وبدوماغ ہوتا ہے ۔ اس لیے انبیاء کو یہ مشکل پیش آئی ہے کہ ان حقائق ومعارف کو… ایسے الفاظ میں بیان کریں کہ تربیت یافتہ دماغ اور کوڑی مغز دونوں برابر فائدہ اٹھائیں… وعدہ، وعید، دوزخ وبہشت کے جن الفاظ سے بیان ہوئے ہیں ان سے بعینہ وہی اشیاء مقصود نہیں۔“ تفسیر القرآن: البقرہ، تحت آیة رقم:25)
اس گروہ کو وہمی گروہ کے نام سے موسوم کرنا چاہیے ، ان میں پھر دو گروہ ہیں ،ایک گروہ کا کہنا ہے کہ انبیاء جنت، جہنم، آخرت کی حقیقت سے واقف تھے، مگر عوام کی ذہنی سطح کے پیش نظر بیان کرنے سے قاصر تھے، دوسرا گروہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بڑہانکتا ہے کہ خود انبیاء بھی ان حقائق سے ناواقف تھے ، ان کا علم بھی فقط ظواہر تک محدود تھا، علم وادراک کا یہ شرف صرف حکماء اور فلاسفہ کو حاصل ہے، جو ظواہر پر قناعت کرنے کے بجائے اس کے پوشیدہ معانی اور حقائق کی جلوہ طرازیوں سے بھی بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسرے گروہ کا موقف ہے کہ انبیاء نے سرے سے ایسے ظواہر کی تلقین ہی نہیں کی جس سے جنت وجہنم، ملائکہ وغیرہ کی جسمانیت اور مادی ہونے پر استدلال کیا جاسکے، چناں چہ قرآن کریم میں جہاں جہاں جنت وجہنم ، ملائکہ کے متعلق الفاظ ومعانی جسمانیت اور مادیت کے سانچے میں ڈھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں تو یہ فوراً تاویل کے درپے ہو جاتے ہیں، جو درحقیقت تحریف ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ گروہ درحقیقت محرفین کا گروہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ عقل پرست کتاب الله کی مخالفت پر تو متفق ہیں، لیکن خود کسی رائے پر اتفاق نہیں کرسکتے۔ (بیان موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 4,3/1، مصر، مجموعہ الفتاوی لابن تیمیة:84,83/4، بیروت)
اگر دینی حقائق، الہیات، ما بعد الطبعیات کی صحت واستواری کا تعلق عقل وادراک کی طرفہ طرازیوں سے ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ عقل سے کیا مراد ہے ؟ کیا عقل سے ”غزیرہ“ وہ مَلَکہ اور صلاحیت واستعداد مراد ہے جو تفاوت درجات کے ساتھ تمام انسانوں میں موجود ہے ؟ یا وہ علوم وفنون مراد ہیں جو عقل کی روشنی میں پروان چڑھتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس سے وہ ”غزیرہ“ ملکہ اور صلاحیت مراد نہیں ہو سکتی، کیوں کہ وہ تو عقل اور نقل دونوں کے لیے بمنزلہ شرط کے ہے ، اس کا اپنا کوئی مستقل مؤقف یا مسلک ہے ہی نہیں۔ اس لیے وہ کسی عقیدے اور نظریے کا حامی ہے نہ مخالف۔
رہی دوسری صورت کہ اس سے مراد وہ علوم وفنون ہیں جن کو عقل ودانش کی کارفرمائیوں نے جنم دیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کا براہ راست دین سے کیا تعلق ؟ دینی حقائق ( توحید ، رسالت ونبوت اور معاد، جنت وجہنم وغیرہ) کا ثبوت عقل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نبی اوررسول کی خبر کی بنا پر تسلیم کیا گیا ہے، اس صورت حال میں علوم عقلی کو دین کی بنیاد ٹھہرانا اصولاً غلط ہے، نہ ان سے دینی حقائق کی صحت واستواری پر کوئی روشنی پڑتی ہے اور نہ ان پر ان کا وجود وثبوت مبنی ہے۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:47/1، مصر)
نقلیات پر عقلیات کو ترجیح دینے کا موقف اس بنا پر بھی مسترد کرنے کے لائق ہے کہ جہاں نقلیات کا دائرہ یقین اور قطعیت لیے ہوئے ہے وہاں عقلیات سراسر نقص کا شکار ہیں، عقل ایک ہی موقف پر دو متضاد نتائج فراہم کرسکتی ہے ، چناں چہ عقل پرستوں کی متضاد آرا کی وجہ سے حق و باطل کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے، مثلاً قرآن کریم میں روئت بار ی تعالیٰ کی خوش خبری سنائی گئی ہے او راہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ آخرت میں اہل ایمان الله تعالیٰ کے دیدار سے لطف اندوز ہوں گے اور وہ محبوب حقیقی اپنے جلوے دکھا کر مشتاقانِ دیدار کے قلب وذہن کی بے قراریوں کو سامان تسکین فراہم کرے گا۔ لیکن عقل نے سوال اٹھایا کہ ”روئت“ کے معنی ”مرئی “ ( جسے دیکھا جارہا ہے ) کو نظر وبصر کا ہدف ٹھہرانے کے ہیں ؟ یا اس کا تحقق اس کے بغیر بھی ممکن ہے ؟ عقل پرستوں کا ایک گروہ ضرورت عقلی کی بنا پر کہتا ہے کہ یہ قطعی ناممکن ہے ، کیوں کہ عقل کسی ایسی روئت کا تصور ہی نہیں کر سکتیجس میں ”مرئی“ ( جسے دیکھا جارہا ہے ) کے وجود کا احاطہ نہ ہو پائے ( روئت بار ی تعالیٰ کو تسلیم کر لینے سے لازم آئے گا کہ الله تعالیٰ کا وجودمحدود ہو، جو آنکھوں کا ہدف بن سکے) دوسرا گروہ عقل کی بنیاد پر اس کی تردید کرتا ہے ، اس کا دعوی ہے کہ ”روئت “ کا مفہوم ”مرئی“ کا احاطہ کیے بغیر بھی پورا ہو سکتا ہے ۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 81/1، مصر)
اسی طرح الله تعالیٰ کی صفت علم کے بارے میں ایک گروہ کہتا ہے کہ علم الہیٰ جزئیات کو شامل نہیں دوسرا گروہ کہتا ہے علم الہی جزئیات زمانی کوبھی شامل ہے ، تیسرا گروہ کہتا ہے علم الہی جزئیات زمانی کو شامل تو ہے، لیکن جزئیات زمانی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ کلی کی حیثیت سے۔ ( المسامرہ، ص:68)
عقلیات کی دنیا میں ریاضی ہی ایک ایسا فن ہے جس کے قطعی ہونے پر عقل پرستوں کو ناز ہے، لیکن اسے بھی حرف آخر نہیں قرار دیتے۔ معروف ریاضی وان بطلیموس کی مشہور کتاب ”المجسطی“ جو ریاضی کے نتائج پر مبنی ہے اس کے کئی مقدمات بحث طلب ہیں کئی ایسے ہیں جو صراحتاً غلط اندازوں پر مبنی ہیں۔
ریاضی کے بعد طبعیات کا درجہ ہے، جس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ جسم کی حقیقت کیا ہے ؟ اس بنیادی سوال پر بھی اہل عقل کا اتفاق نہ ہو سکا کوئی اسے مادہ اور صورت سے تربیت پذیر مانتا ہے، کوئی کہتا ہے یہ اجزاء لاتتجزی سے بنا ہے او رکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورت عقلی کی بنیاد پر ان دونوں صورتوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔ پھر یہ اجزاء لاتتجزی یا جواہر فردہ کیا ہیں ؟ اس پر بھی کوئی فیصلہ کن رائے نہیں ۔ ابوالحسن البصری جیسا دقیقہ رس، علامہ جوینی جیسا معقولی ، ابوعبدالله الخطیب جیسا فاضل… سب عقل کی پر پیچ وادیوں میں حیران وپریشان ہیں، کسی مسئلے پر روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:89,88/1)
اب بتائیے جو عقل ہر موقف پر متضاد رائے فراہم کر سکتی ہو اسے قطعیت کے درجے پر فائز کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ قطعی مؤقف تو اسے کہتے ہیں جس کے برعکس دوسرا موقف قائم نہ ہو سکے، یہاں تو اختلاف آرا کا ایک طوفان برپا ہے ، ایک ہی شے عقلی لحاظ سے حق بھی ہے باطل بھی ، ہدایت بھی ہے گم راہی بھی۔
اس کے برخلاف قرآن وحدیث میں ہر بنیادی اور اصولی مسئلہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اس کے دلائل و براہین میں کوئی تضاد کا پہلو نہیں، اسی بات کو قرآن کریم نے اپنے وحی ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ ﴿أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا﴾․ ( النساء:82)
ترجمہ:” کیا غور نہیں کرتے قرآن میں او راگر یہ ہوتا کسی اور کا سوا الله کے تو ضرور پاتے اس میں بہت تفاوت۔“
بلکہ وحی کی غرض وغایت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ان تمام اختلافات کو یکسر مٹا دے جو انسانی فہم کی نارسائیوں نے پیدا کر رکھے ہیں۔﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُول﴾․ (النساء:59)
ترجمہ:” اے ایمان والو! حکم مانو الله کااور حکم مانو رسول کا اور حاکموں کا، جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف الله کے اور رسول کے۔“
نقلیات میں جن چیزوں کو خلاف عقل سمجھا جاتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں یا تو اس کی بنیاد موضوع احادیث ہیں یا پھر ان میں کہیں دلالت واستنباط میں خلل ہے ، تیسری کوئی صورت نہیں۔(موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول،83/1، مصر)
خلاصہ یہ کہ انبیاء کبھی ایسی چیزوں کی اطلاع نہیں دیتے جو عقلاً محال ہوں یا عقل ان کی نفی کرتی ہو، بلکہ ان کی اطلاع ایسی چیزوں کے بارے میں ہوتی ہے جن کے حقائق جاننے سے عقل قاصر اور عاجز ہوتی ہے۔(موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:83/1، مصر)
کون ہے جو علامہ رازی رحمہ الله کی شخصیت سے واقف نہ ہو؟ جو عقلیات میں امامت کے درجے پر فائز ہیں ، انہوں نے اپنے اشعار میں فلسفہ اور عقل کی نارسائیوں کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے عبرت حاصل ہوتی ہے، تمام اشعار کا خلاصہ اس ایکشعر سے حاصل ہو سکتا ہے #
ولم نستفد من بحثنا من طول عمرنا
سوی أن جمعنا فیہ قیل وقالوا
ترجمہ:” ہم نے تمام عمر بحث ومباحثے کے باوجود اپنے دامن میں اس کے علاو ہ کچھ نہیں سمیٹا کہ فلاں کا یہ قول ہے اور فلاں کا یہ قول ہے۔“
حتی کہ علامہ غزالی رحمہ الله بھی اس گروہ سے دست بردار ہو کر ریاض سنت کی شمیم آرائیوں سے قلب ونظر مہکانے لگے ۔ ان کی روح بھی اس عالم میں پرواز ہوئی کہ سینے پر صحیح بخاری تھی اور آنکھیں ابواب وروایات سے فیض یاب ہو رہی تھیں۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:90/1)
تھوڑی دیر کے لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ نقلیات کو جانچنے کے لیے عقل ہی درست اور واحد معیار ہے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ تم کس عقل کو حکم اور معیار بناتے ہو؟
اگر تم فلاسفہ کی عقل کوحکم بناتے ہو تو وہ خود کسی موقف پر متفق نہیں، ان میں تو ہر آنے والا گزرنے والے کے قول کی تردید کرتا ہے ۔
اگر ادباء کی عقل کو فیصل قرارا دیتے ہو تو ان کا یہ کام نہیں، ان کا تعلق تو بس نوادرات وحکایات سے ہے۔
اگر اہل طب، اہل ہندسہ، ریاضی دانوں کی عقل کوفیصل قرار دیتے ہو تو ان کو حدیث ( نقلیات ) سے کیا سروکار؟
اگر محدثین وفقہاء کی عقل کو معیار بناتے ہو تو وہ تمہیں سرے سے پسند ہی نہیں، بلکہ محدثین کو تو تم سادہ لوح اور کند ذہن تصور کرتے ہو۔
اگر ملحدین کی عقل پسند ہے تو ان کے نزدیک خدا پر ایمان لانا جہالت اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اگر اہل سنت والجماعت کی عقل پسند ہے تو شیعہ ومعتزلہ اسے پسند نہیں کرتے……۔
اب بتائیے کس کی عقل کو کس بنیاد پر فیصل اور حَکَم قرار دو گے؟ (السنة ومکانتھا فی التشریع الاسلامی، ص:33)
موضوع کی نزاکت او راہمیت کے پیش نظر اسے قدرے تفصیل سے لکھا ہے، کیوں کہ عقل پرست معتزلہ، جدید وقدیم منکرین حدیث ، سر سید اوران کے جدّت پسند پیروکاروں کا یہ اتفاقی اور بنیادی موقف ہے کہ عقل کو بہر صورت نقل پر ترجیح ہوگی، اس کی آڑ میں کسی نے نبوت ورسالت، جنت وجہنم، ملائکہ اور معجزات کا مذاق اڑایا تو کسی نے حدیث رسول کو بازیچہ اطفال بنا کر اپنی بے عقلی کے جوہر دکھائے۔ اس لیے طوالت کا خوف کیے بغیر اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور کوشش کی ہے کہ اس بحث کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔
ایک شبہ او راس کا جواب
شبہ: گذشتہ تحریر پڑھ کر کسی کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ عقل کی شہادت سرے سے ماننے کے لائق ہی نہیں ، کیوں کہ یہ ہر موقف پر دو متضاد رائے فراہم کر سکتی ہے۔
جواب : ہر گز نہیں، ہم عقل کی اہمیت سے نہ صرف یہ کہ واقف ہیں، بلکہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہیں ۔ عقل پرستوں سے ہمار ا اختلاف عقل کے دائرہ کار کے متعلق ہے، اس اختلاف کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عقل کی دو قسمیں ہیں ۔ 1.عقل سلیم۔ 2.عقل سقیم۔
1...عقلِ سلیم وہ ہے جو علوم نبوت اور وحی پر صدقِ دل سے ایمان لائے او راس میں مناسب رنگ بھرے ( جیسا کہ متکلمین کا طریقہ ہے)۔
2...عقل سقیم وہ ہے جو وحی پر حَکَم بن کر الحاد وزندقہ کو فروغ دے۔
لہٰذا جب ہم عقلیات کی شہادت اور اس کے دلائل کو مشکوک ٹھہرا کر ابطال کرتے ہیں تو اس کا تعلق عقلسقیم سے ہے، نہ کہ عقل سلیم سے۔ (موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:98/1، مصر)
عقل کا دائرہ کار اور اس کے استعمال کا صحیح مصرف
علم کے تین ذرائع ہیں:۱۔ حواسِ خمسہ۔۲۔ عقل۔۳۔ وحی۔ ہر ایک کا اپنا محدو ددائرہ کار ہے۔ جن چیزوں کا علم حواسِ خمسہ ( آنکھ، کان، ناک، زبان،لمس یعنی چھونا) سے ہوتا ہے، اسے نری عقل سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک دیوار ہے ،اسے ” دیکھ“ کر اس کا رنگ معلوم کیا جاسکتا ہے، لیکن آنکھیں بند کرکے نری عقل سے اس کارنگ معلوم کرنا ناممکن ہے، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل سے حاصل ہوتا ہے، انہیں حواس کے ذریعے معلوم نہیں کیا جاسکتا،مثلاً آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ پتہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے، اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔
غرض جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں عقل کوئی راہ نمائی نہیں کرتی او رجہاں حواس خمسہ جواب دے رہیں، وہاں سے عقل کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حد پر جاکر رک جاتا ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے۔ مثلاً اسی دیوار کے بارے میں یہ معلوم کرنا اس کو کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ ناراض ہو گا۔ اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ الله تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے یہی وہ دائرہ ہے، جس سے عقل کو متجاوز ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس اقلیم میں صرف وحی ، کتاب اور الله کے برگزیدہ انبیاء اور رسولوں کی ہی حکم رانی ہے او رانہیں کا سکہ چلتا ہے۔
عقلیات کا کام تویہ ہے کہ یہ نقلیات کے تابع بن کر اس میں مناسب رنگ بھرے ، اس کی نوک پلک سنوار کر اسے منظم نظامِ فکر کی حیثیت سے پیش کرے، جیسا کہ متکلمین اسلام نے اس فریضہ کو انجام دے کر نہ صرف فہم وادراک کے نئے سانچے مہیا کیے، بلکہ عقل پرستوں کے بڑھتے ہوئے الحاد وزندقہ کے سیلاب کو بھی مضبوطی سے روکا۔ (جزاھم الله عنا وعن جمیع المسلمین․)
ملائکہ پر آدم عليه السلام کی برتری
آیات
﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء ہَؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن، قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ، قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ﴾․(البقرة:31 تا33)
ترجمہ:اور سکھلاد یے اللہ نے آدم کو نام سب چیزوں کے، پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کو فرشتوں کے، پھر فرمایا بتاؤ مجھ کو نام ان کے اگر تم سچے ہو،بولے پاک ہے تو ،ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا تونے ہم کو سکھلایا ،بے شک تو ہی ہے اصل جاننے والا، حکمت والا ۔فرمایا اے آدم! بتادے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام۔ پھر جب بتادیے اس نے ان کے نام، فرمایا کیا نہ کہا تھا میں نے تم کو کہ میں خوب جانتا ہوں چھپی ہوئی چیز یں آسمانوں کی اور زمین کی اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو؟
ربط آیت
ملائکہ اس خیال میں تھے کہ ہم خلافت و نیابت کے لیے زیادہ موزوں ہیں، اس لیے انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی تھی کہ ہماری موجودگی میں ایسی مخلوق بنانے میں کیا حکمت ہے جوشرو فساد کا عنصر لیے ہوئے ہے۔اس کا ایک جواب تو گذشتہ آیت میں دیا گیا کہ﴿ انی اعلم مالا تعلمون﴾ یعنی خلافت الٰہیہ کا فریضہ کون انجام دے سکتا ہے اس کی حقیقت ہم ہی جانتے ہیں، اب اس آیت سے دوسرا حکیمانہ جواب دیا جارہا ہے۔
تفسیر
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت اور ملائکہ پر آپ کی برتری کے اظہار کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تمام موجودات کے نام اوصاف اور خواص کا علم آپ کو سکھا دیا۔پھر ان چیزوں کو ملائکہ پر پیش کر کے ان سے پوچھا گیا کہ اگر تم استحقاق خلافت کے دعوے میں سچے ہو تو ان موجودات کے نام و اوصاف ہی بتادو؟ کیوں کہ جب تک ان کا نام،خاصیت اور استعمال کا طریقہ کار معلوم نہ ہو تو خلافت کی ذمہ داریاں ادا نہیں کی جاسکتیں۔ اس پرملائکہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا ﴿سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾(پاک ہیں آپ،ہم کو علم نہیں۔مگر وہی جو آپ نے عطا فرمایا،بے شک آپ بڑے علم و حکمت والے ہیں۔)یعنی ملائکہ نے اپنی درماندگی اور عاجزی کا اظہار و اعتراف کر لیا،چناں چہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے آدم! ملائکہ کو ان چیزوں کا نام بتادو آدم علیہ السلام نے جب ان کا نام بتادیا تو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں زمین آسمان کی تمام چیزوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی جانتا ہوں۔
بعض شبہات اور ان کے جوابات
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر آدم علیہ السلام کی طرح ملائکہ کو بھی یہ علم سکھا دیا جاتا تو وہ بھی جواب دے دیتے، اس میں آدم علیہ السلام کی کیا فضیلت؟
حکیم الا ُمت حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں اسماء کی تعلیم ملائکہ کی موجودگی ہی میں دی گئی، چوں کہ ملائکہ میں ان خاص علوم کی استعداد نہ تھی، اس لیے سمجھنے سے قاصر رہے۔یہ ایسا ہے جیسے اقلیدس کا استاذ کسی دعوی پر دوطا لب علموں کے سامنے تقریر کرے تو وہی طالب علم اسے سمجھے گاجسے اقلیدس سے مناسبت ہوگی دوسرا نہیں۔
اب اگر کسی کو اشکا ل ہو کہ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْسے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں علم اسماء کے سمجھنے کی استعداد تھی۔اس کا جواب یہ ہے کہ انباء محض کسی خبر کو نقل کر دینے کو کہتے ہیں ،یہ تعلیم کے درجے میں نہیں آتی اور نہ ہی اس سے علم اسما ء کے حقائق کا حاصل ہونا لازم آتا ہے ۔
ممکن ہے کسی کو شبہ ہو کہ جب ملائکہ آدم علیہ السلام کی خبر بھی نہیں سمجھے تو فرشتوں کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کو یہ علم حاصل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تقریر کی قوت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کچھ کہہ رہا ہے، اگر چہ سمجھ میں نہ آئے جیسے اقلیدس کے مبادی سے بے خبر طالب علم استاذ کی تقریر تو نہیں سمجھ سکتا، لیکن اتنا سمجھتا ہے کہ استاذ کسی موضوع پر ماہرا نہ گفتگو کر رہا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس خاص علم کی استعداد ملائکہ کو کیوں نہیں دی گئی؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکمت الٰہی کا در ہے، جس پر کسی کو دستک کی اجازت نہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان اور فرشتوں میں جو تفاوت رکھا ہے اسے برقرار رکھ کر انسان کو انسان اور فرشتوں کو فرشتہ ہی رہنے دیا جائے۔اگر یہ استعداد فرشتوں میں پیدا کردی جاتی تو فرشتے فرشتے نہ رہتے۔جیسے حرکت حیوان کا خاصہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ملہ سے یہ صفت جماد میں پیدا کر یں تو وہ جماد نہ رہے، بلکہ حیوان بن جائے۔(مفہوم از بیان القران، اشرف التفاسیر ،البقرہ،تحت ایة رقم:33)
﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ﴾
ترجمہ:اور جب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب سجدہ میں گر پڑے، مگر شیطان، اس نے نہ مانا اور وہ تھا کافروں میں کا۔
ربط:گزشتہ آیت میں ملائکہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت و برتری کا مشاہدہ اور اپنی عاجزی کا اعتراف کیا تھا،اب اس آیت میں فرشتوں کو حکم دیا دیا جارہا ہے کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں ،تاکہ ان کی عملی تعظیم بھی سامنے آجائے ۔
تفسیر
جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ تعظیمی کریں تو تمام فرشتے حکم پاتے ہی سر بسجود ہوگئے۔لیکن ابلیس نے تکبر اور غرور میں آکر سجدہ کرنے سے انکار کردیااور کافر ہوگیا۔
واضح رہے کہ ابلیس کا تعلق جنات سے ہے جیسا کہ سورة کہف میں ہے ۔﴿کان من الجن فسق عن امر ربہ﴾․(الکھف:50)(تھا جن کی قسم سے سونکل بھا گا اپنے رب کے حکم سے )اور سجدہ کرنے کا حکم اسے بھی دیا گیا تھا، چناں چہ قرآن کریم میں ایک مقام پر صراحتا مذکور ہے جب ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا﴿مامنعک الاتسجد اذ امرتک﴾(الاعراف:12)(تجھ کو کیا مانع تھا کہ تونے سجدہ نہ کیا جب میں نے حکم دیا؟لہٰذا کسی کو یہ اشکال پیدا نہ ہو… سجدہ کرنے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا، پھر ابلیس کے انکار کا کیا مطلب ؟
باقی رہا یہ سوال کہ سجدہ کرنے کاحکم صرف ابلیس (جن)کو تھا یا تمام جنات کو؟
جمہور مفسرین کے نزدیک یہ حکم تمام جنات کو تھا۔(تفسیرعزیزی فارسی، البقرة،تحت آیة رقم :34))حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قول کو اختیار کیا ہے۔ (بیان القرآن البقرةتحت آیة رقم :34)
خوارج کے موقف کی تردید
آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ابلیس کو اس لیے کافر قرار دیاگیا کہ اس نے حکم الٰہی ماننے سے انکار کردیا تھا ۔محض ترک عمل (سجدہ)کی وجہ سے کوئی کافر نہیں ہوتا ،اگرچہ گناہ گار ضرور ہوتا ہے ۔اس تصریح سے خوارج ومعتزلہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے، جو ابلیس کو محض ترک سجدہ کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں۔ (تفسیرمدارک البقرةتحت آیة رقم :34)
مودودی صاحب کی غلط فہمی
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے علم ازلی کی بدولت ابلیس کے کافرانہ انجام سے باخبر تھے۔
لیکن وہ کافر کب ہواتھا؟تمام مفسرین اور قرآنی آیت کی روشنی میں یہی معلوم ہو تا ہے کہسجود ملائکہ کے وقت سجدہ سے انکار کرنے کے باعث کافر قرار پایا جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے ﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِ﴾ (الکھف:50)(جب کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو۔ تو سجدہ میں گر پڑے، مگر ابلیس، تھا جن کی قسم سے، سو نکل بھا گا اپنے رب کے حکم سے۔)
یہاں ﴿فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہ﴾ سے واضح ہو رہا ہے اس نے حکم الٰہی کا انکار کر کے کفر کا ارتکاب کیاہے، لیکن مودودی صاحب کا دعوی ہے کہ ابلیس سجود ملائکہ کا معاملہ پیش آنے سے پہلے کافر تھا چناں چہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کا فروں میں سے تھا ۔اس صورت میں مطلب ہوگا کہ جنوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش اور نافرمان تھی اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا“۔(تفہیم القرآن: البقرة،تحت آیة رقم:34)
مودودی صاحب کو یہ غلط فہمی ایک مسلمہ محذوف عبارت نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہوئی۔کیوں کہ جن مفسرین نے بھی ﴿کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ﴾ میں ” کَانَ“کا ترجمہ فعل ماضی ”تھا“سے ادا کیا ہے، انہوں نے فی علم اللہ محذوف مانا ہے۔یعنی اللہ کے علم میں تھا کہ ابلیس درحقیقت کافر ہے۔لیکن اس پر کفر کا حکم تو اس وقت نافذ ہو ا جب اس نے سجدے سے انکار کردیا۔
لیکن مودودی صاحب اپنے خود ساختہ مطلب میں ابلیس پر تب سے کفر کا حکم لگارہے ہیں جب اسے سجدہ کا حکم بھی نہیں ملا تھا۔مودودی صاحب کا مطلب نہ صرف آیت کریمہکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ کی غلط ترجمانی ہے، بلکہ دوسری آیت ﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِ﴾ (الکھف:50)(جب کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو تو سجدہ میں گر پڑے، مگر ابلیس تھا جن کی قسم سے، سو نکل بھا گا اپنے رب کے حکم سے)کے مقتضی کے بھی خلاف ہے۔
سجدہ تعظیمی کا شرعی حکم
انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ جبین کو خاک پر رکھ دینے کا نام سجدہ ہے ۔
یہ سجدہ اگر عبادت کی غرض سے ہو تو ”سجدہ عبادت“اور اگر محض تعظیم و تکریم کے لیے ہو تو سجدہ تعظیمی کہلاتا ہے۔
گذشتہ امتوں میں سجدہ تعظیمی کی اجازت تھی۔(احکام القرآن للجصاص:البقرہ تحت آیة رقم :34)چناں چہ قرآن کریم میں یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں کی طرف سے سجدہ کرنے کا ذکر آتاہے﴿وَرَفَعَ أَبَوَیْْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَہُ سُجَّداً﴾(یوسف:100) (اور اونچا بٹھایااپنے ماں باپ کو تخت پر اور سب گرے اس کے آگے سجدہ میں۔)حضرت آدم علیہ السلام کو کیا جانے والا سجدہ بھی سجدہ تعظیمی تھا۔(تفسیر عزیزی فارسی البقرة:تحت آیہ رقم:34)لیکن شریعت محمدیہ میں ذات باری تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں، چاہے سجدہ تعظیمی یا سجدہ عبادت، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لو کنت امر احدا لامرت المراة ان تسجد لزوجھا(جامع الترمذی :باب حقوق الزوج علی المراة:رقم الحدیث:1159)یعنی اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کا بڑا حق رکھا ہے۔
لہذاقبر،پیر،یا استاد وغیرہ کو سجدہ تعظیمی کرنا حرام ہے۔اگر عبادت کی نیت ہو تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔
آیات
﴿وَقُلْنَا یَا آدَمُ اسْکُنْ أَنتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَ مِنْہَا رَغَداً حَیْْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنَ الْظَّالِمِیْنَ، فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْْطَانُ عَنْہَا فَأَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَقُلْنَا اہْبِطُواْ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِیْ الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِیْنٍ﴾․(البقرة:35 تا36)
ترجمہ:اور ہم نے کہا اے آدم !رہاکر تو اور تیری عورت جنت میں اور کھاؤ اس میں جو چاہو،جہاں کہیں سے چاہو اور پاس مت جانا اس درخت کے، پھر تم ہو جاؤ گے ظالم،پھر بھلادیا ان کو شیطان نے اس جگہ سے، پھر نکالا ان کو اس عزت وراحت سے کہ جس میں تھے اور کہا ہم نے، تم سب اترو،تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانا ہے اور نفع اٹھانا ایک وقت تک۔
ربط
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی دل جوئی اور تسکین خاطر کے لیے حضرت حوا علیہما السلام کو ان کی پسلی کے مادہ سے پیدا فرما کر ان کا ہم نشین بنا دیا ۔اور دونوں جنت میں خوش وخرم اور راحت و مسرت کے دن گزارنے لگے۔نعمتوں سے بھری جنت میں ایک درخت ایسا بھی تھا جسے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا تھا۔و ہ درخت کون ساتھا؟قرآن کریم اور صحیح حدیث میں اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ۔چوں کہ اس پرکوئی شرعی حکم موقوف نہیں، اس لیے اس کی جنس معلوم کرنے کی ضرورت نہیں۔(تفسیر ابن کثیر ۔تفسیر کبیر:البقرة تحت آیہ رقم:35، 36)۔بہرحال حضرت آدم علیہ السلام کی خوش بختیوں کے یہ مناظر ابلیس کو کب گوارہ تھے؟وہ تو بہر صورت ان سے ان کی مسرتیں چھین کر اپنے جذبہ حسد کو سامان تسکین پہنچانا چاہتا تھا۔
چناں چہ اس نے حضرت آدم اور حضرت حوّا علیہما السلام کا خیر خواہ بن کر انہیں بہکا نا شروع کر دیا کہ اگر یہ درخت کھا لیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہ کر جنت میں قربت الٰہی کے مزے لُوٹو گے۔کیوں کہ اس درخت میں حیاتِ جاوداں اور ملکِ لازوال کا راز مضمر ہے۔
﴿ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَی﴾․(طہ:120)
(میں بتاؤں تجھ کو درخت سدا زندہ رہنے کا اور بادشاہی جو پرانی نہ ہو؟)
ساتھ تاویل بھی بتادی کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت منع فرمایا تھا جب تمہاری استعداد کمزور تھی،اب تو ماشاء اللہ تمہاری استعداد اپنی کمال قوت کو پہنچ چکی ہے۔اس لیے اب کھانے میں کچھ حرج نہیں حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی دل فریب باتوں پر کچھ تردد ہوا تو قسمیں کھا کر یقین دلانے لگا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔
﴿وَقَاسَمَہُمَا إِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْن﴾․(الاعراف :21)
تاویل بھی ذرا نمکین تھی، پھر درخت کی خوبیاں سنا کرحضرت آدم علیہ السلام کے آتش شوق کر بھڑکا چکا تھا۔پھر ظالم نے خدا کی قسمیں کھا کر اطمینان دلا یا تھا۔محبوب کا نام سن کر تو اہل دل گھل ہی جاتے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا کہ کوئی بدبخت رب ذوالجلال پر بھی جھوٹی قسمیں کھا سکتا ہے؟
غرض سب ایسے اسباب جمع ہوگئے کہ حضرت آدم علیہ السلام سمجھے اب درخت کھانا ممنوع نہیں رہا اور لغزش میں آکر درخت کھالیا۔بس درخت کا کھانا تھا کہ سب عیش وآرام رخصت ہوگیا اور نیچے اترنے کا حکم دیا گیا، ظاہری سزا تو یہ ہوئی کہ جنت سے زمین پر اترنے کا حکم ملا اور باطنی سزا یہ دی کہ تمہاری اولاد میں باہم عداوتیں ہوں گی، جس سے زندگی کا لطف پھیکا پڑجائے گااور دنیا کی یہ زندگی بھی عارضی ہوگی، چنددن گزار کر یہاں سے بھی کوچ کرنا ہوگا۔
آدم علیہ السلام فرط ندامت سے رونے لگے اور بارگاہ الٰہی میں معافی کے خواست گار ہوئے۔
ابلیس حضرت آدم علیہ السلام سے ملا تھایا محض وسوسہ ڈالا تھا؟
قرآن کریم کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ابلیس اور حضرت آدم علیہ السلام میں باقاعدہ مکالمہ ہوا تھا۔یہ لغزش محض وسوسے کا نتیجہ نہیں۔ کیوں کہ قسمیں عادةً کلام ہی میں کھائی جاتی ہیں اور کلام ملاقات کی صورت میں ممکن ہے۔باقی رہا یہ اشکا ل کہ ایک آیت ﴿فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْْطَان﴾ (الاعراف:20) میں وسوسہ کی تصریح ہے تو اس کے متعلق اتنا جان لینا چاہیے کہ وسوسہ صرف دل میں خیال لانے کا نام نہیں ہے، بلکہ کلام میں کسی کو ورغلانا بھی وسوسہ کہلاتا ہے۔(بیان القرآن:البقرہ:تحت آیة رقم:36)۔
مکالمہ کہاں ہوا تھا؟اس کی صحیح خبر معلوم نہیں تاہم ممکن ہے حضرت آدم علیہ السلام سیر کے لیے جنت سے باہر آسمانوں کی طرف آئے ہوں، وہاں ابلیس سے ملاقات ہوگئی ہو۔یا آدم علیہ السلام جنت کے دروازے پر ہوں اور ابلیس جنت کے دروازے کے باہر اور یہ مکالمہ ہوگیا ہو۔واللہ اعلم بالصواب․
اس مقام پر بے ساختہ یہ خیال پریشان کرنے لگتا ہے کہ کیا انبیائے کرام سے بھی گناہ سرزد ہو سکتے ہیں؟ اس لیے یہاں مسئلہ عصمت انبیاء پر ایک تحقیقی نظر ڈال لینی چاہیے، تاکہ عصمت انبیاء کا مسئلہ بے غبار ہو کر واضح ہو جائے۔
مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام
اہل سنت والجماعت کے نزدیک پوری انسانیت میں صرف انبیائے کرام ہی ایسی مقدس جماعت ہے جو معصومیت کے درجے پر فائز ہے۔(والأنبیاء علیہم الصلاة والسلام کُلّہم منزّھون عن الصغائر والکبائر والکفر والقبح:(شرح کتاب الفقة الأکبر․ بحث فی انّ الأنبیاء منزھون عن الصغائر والکبائر،ص:99:بیروت))ان کے اقوال و افعال،حرکات و سکنات سے قصداً وارادةً کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہو سکتا جو ان کے دامن عصمت کو داغ دار کر سکے۔(وجب أن تکون کل اعتقاداتہ وأفعالہ، واقوالہ، وأخلاقہ الاختیاریة بعد الرسالة موافقة لطاعة اللہ تعالیٰ، وجب أن لایدخل فی شییٴ من اعتقاداتةوأفعالہ، وأقوالہ وأخلاقہ معصیة للہ تعالیٰ (العقیدہ الاسلامیہ، الفصل الرابع،صفة العصمة،ص:382))وہ کسی جبر اور اکراہ کے بغیر اپنے اختیار سے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں(العصمةفضل من اللہ ولطف منہ، ولکن علی وجہ یبقی اختیار ہم بعد العصمة فی الاِقدام علی الطاعة، والامتناع عن العصمة․ واِلیہ مال الشیخ ابو منصور الماتریدی حیث قال: العصمة لاتزیل المحنة أي الاِبتلاء والامتحان، یعنی لا تجبرہ علی الطاعة، ولا تعجزہ عن المعصیة“․ (شرح کتاب الفقہ الأکبر للملا علی القاری، بحث فی ان الانبیاء منزھون، ص:105)
وأما تعریفہا الحقیقی علی ما ذکرہ فی شرح المقاصد فہو أنہا ملکة اجتناب المعاصی مع التمکن منہا․(حاشیہ خیالی:ص:107)
ان عصمة الأنبیاء لیست لامر طبعی، بل بمحض توفیق اللہ تعالیٰ․(روح المعانی، ابراہیم، تحت آیہ، رقم :35)
اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیائے کرام کی ذات گرامی سراپا خیر بن کر جلوہ افروز ہوتی ہے،بارگاہ خداوندی سے امت کے ہر فرد کو بغیر چوں چرا کیے، ان کی مطلق اطاعت کا حکم ملا ہے۔﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہِ﴾ (دلت علی وجوب طاعتہم مطلقاً فلو اتوا بمعصیة لوجب علینا الاقتداء بہم فی تلک المعصیة واجبة علینا، فیلزم توارد الایجاب والتحریم علی الشيٴ الواحد وإنہ محال․(تفسیر کبیر، النساء، تحت آیہ رقم :64)(اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے۔)بلکہ باری تعالیٰ نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے ﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ ﴾ (النساء:80 )(جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا اللہ کا۔) ان کی زندگی کو ”اسوةحسنة“کا خطاب دے کر واضح کر دیا ہے کہ ان کا ہر فعل اورہر قول ہدایت کا روشن چراغ ہے جہاں معصیت کی ظلمت نہیں پھٹک سکتی﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (احزاب:21)(تمہارے لیے بھلی (مفید)تھی رسول اللہ کی چال)۔
اب اگر ان سے گناہ صادر ہونے لگیں تو پوری امت جذبہ اطاعت کے ساتھ اس معصیت میں شریک ہو جائے گی۔معصیت ،اطاعت قرار پائے گی۔جس سے سارا نظام ہدایت درہم برہم ہوجائے گا۔وحی الٰہی سے اعتماد اٹھ جائے گا اور ہدایت کی ہر منزل مشکوک ٹھہرے گی۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
اس مقام پر یہ شبہ وارد ہو تا ہے اگر انبیاء معصوم ہیں تو پھر قرآن وحدیث میں ان کی طرف ایسی چیزیں کیوں منسوب ہیں جو گناہ ہیں؟
شبہ کا ازالہ
پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ انبیائے کرام سے منسوب ایسے واقعات ہم تک کس طریق سے پہنچے ہیں۔اگر خبر واحد کے ذریعے پہنچے ہیں تو قابل التفات ہی نہیں، کیوں کہ انبیائے کرام کو گناہ گار ٹہرانے سے بہتر ہے کہ راویوں کو جھوٹا اور غلط ٹھہرایا جائے۔اور اگر ایسے امور خبر متواتر اور قرآن کریم سے ثابت ہیں تو ایسے تمام افعال:
سہو اور نسیان پر محمول ہیں(والجواب عنہ اما اجمالاً فہو ان ما نقل احاداً مردود، وما نقل متواتراً اومنصوصاً فی الکتاب محمول علی السہو والنسیان او ترک الاولیٰ اوکونہ قبل البعثة او غیر ذلک من المحامل والتاویلات․( شرح المقاصد، المقصد السادس، 3/311:بیروت))۔
کیوں کہ معصیت تو اس نافرمانی کو کہتے ہیں جو جان بوجھ کر اور پورے عزم وارادے کے ساتھ وجود میں آئے۔ اگر عزم وارادے کے بغیر بھول چوک سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوجائے جو بظاہر کسی حکم کے خلاف ہو تو اسے گناہ نہیں کہتے، بلکہ لغزش(زلة)کہتے ہیں۔(والحاصل: ان احداً من اہل السنة لم یجوز ارتکاب المنہی منہم عن قصد، ولکن بطریق السہو والنسیان، ویسمی ذلک زلہ․“(شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری، بحث فی ان الانبیاء منزھون :ص:105))․
اہل سنت والجماعت کی تصریح کے مطابق بھول چوک سے ہونے والے ایسے تمام امور (صغائر) عصمت انبیاء کے منافی نہیں۔ (اَما الصغائر …ویجوز سہواً بالاتفاق…لکن المحققین اشترطوا ان ینہوا علیہ فینتہوا عنہ…․(شرح العقائد النسفیة:ص مبحث عصمة الانبیاء:326)اسی قصہ آدم علیہ السلام کو لیجیے جس کے بارے میں آیاہے ﴿فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْْطَانُ‘﴾البقرة:36 (پھر ہلا دیا ان کو شیطان نے)زلة بلا ارادہ پھسل جانے کو کہتے ہیں۔(شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری:ص:105)ایک دوسرے مقام پر تو واضح الفاظ میں فرما دیا کہ یہ سب بھولے سے ہوا۔﴿ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْما﴾ (طہ:115) (پھر بھول گیا اور نہیں پائی ہم نے اس میں کچھ ہمت(پختگی)۔
یا ایسے تمام امور مؤول ہیں۔
مثلا حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ انہوں نے چاند کو دیکھ کر ارشاد فرمایاتھا﴿ہَذَا رَبِّیْ ﴾انعام:78) لہٰذا اس ناقابل تردید قول کی تاویل کی جائے گی کہ یہاں ہمزہ استفہام محذوف ہے۔تقدیری عبارت یوں ہے ”أہَذَا رَبِّیْ بزعمکم؟“کیا تمہارے خیال میں میرا رب یہی ہے؟
یا خطا ئے اجتہادی پر محمول ہیں۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں ایسے افعال پر عصیان کا اطلاق محض ظاہری صورت کی بنا پر ہوا ہے۔یا انبیائے کرام کے اعلیٰ مقام و مراتب کی نسبت انہیں عصیان کہہ دیا گیا ہے۔(وذکر فی عصمة الانبیاء لیس معنی الزلة انہم زلو ا عن الحق الی الباطل۔ ولکن معناہم انہم زلوا عن الافضل الی الفاضل، وانہم یعاتبون بہ لجلال قدرھم ومکانتہم من اللہ تعالیٰ․ تفسیر حقی ․طہ :تحت آیہ رقم:121)․
انبیاء کوکن امور میں سہو اور نسیان ہوتا ہے؟
علامہ رازی رحمة اللہ علیہ نے انبیائے کرام سے متعلقہ امور چار خانوں پر تقسیم فرما کر ہر ایک پر عمدہ کلام فرمایا ہے کہ انبیاء کے کن امور میں سہو و نسیان کا احتمال رہتاہے۔(تفسیر کبیر،البقرہ ،تحت آیہ رقم36،بتغییریسیر)
امورعقائد
اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء علیہم السلام فطرت توحید پر پیدا ہوتے ہیں اور تادم آخر اس عقید ے پر کار بند رہتے ہیں۔ان کے دل کا آئینہنور توحید سے جگمگاتا رہتا ہے۔ بندگان خدا کی یہ مقدس جماعت زندگی کے ہر مرحلے میں کفر و شرک کی ظلمتوں سے محفوظ رہی ہے، عمداًیا سہواً ان سے کفریہ اعمال صادر نہیں ہوئے۔ البتہ شیعوں کے نزدیک انبیاء سے تقیةً کفر کا اظہار ہو سکتا ہے۔
فریضہ تبلیغ
اس پر بھی پوری امت کا اتفاق ہے کہ انبیائے کرام خدا کے احکام انسانوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی دروغ گوئی یا تحریف سے کام نہیں لیتے۔وہ اس فریضے کی انجام دہی میں ہر قسم کی غلطی سے محفوظ اور معصوم ہیں۔سہو اور نسیان بھی ان پر طاری نہیں ہوتا۔
اجتہاد
اس میں اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ انبیائے کرام غیر منصوصہ مسائل میں وحی کا انتظار کرنے کے بعد اپنے اجتہاد سے جو حکم صادر فرماتے ہیں اس میں خطا کا امکان ہوتا ہے۔تاہم اگر خطائے اجتہادی واقع ہوجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے اطلاع آجاتی ہے ۔چوں کہ یہ اجتہاد ہے، اس لیے اس میں سہو اور نسیان کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔
افعال و عادات
اس میں اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ انبیائے کرام عمداً کبیرہ اور صغیرہ (غیراولیٰ)سے محفوظ اور معصوم ہیں۔ البتہ کبھی کبھی سہواًاور نسیاناً غیر اولیٰ امور صاد رہو جاتے ہیں، جو بظاہر معصیت معلوم ہوتے ہیں،لیکن درحقیقت کسی تشریعی حکم کے اظہار کا وسیلہ ہوتے ہیں۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نماز میں سہو پیش آیا ،جو بظاہر غفلت معلوم ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے سجدہ سہو کا حکم بتلانا مقصود تھا۔(تفسیر الکبیر،البقرة،تحت آیہ رقم ،36)
﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء ہَؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن، قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ، قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ﴾․(البقرة:31 تا33)
ترجمہ:اور سکھلاد یے اللہ نے آدم کو نام سب چیزوں کے، پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کو فرشتوں کے، پھر فرمایا بتاؤ مجھ کو نام ان کے اگر تم سچے ہو،بولے پاک ہے تو ،ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا تونے ہم کو سکھلایا ،بے شک تو ہی ہے اصل جاننے والا، حکمت والا ۔فرمایا اے آدم! بتادے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام۔ پھر جب بتادیے اس نے ان کے نام، فرمایا کیا نہ کہا تھا میں نے تم کو کہ میں خوب جانتا ہوں چھپی ہوئی چیز یں آسمانوں کی اور زمین کی اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو؟
ربط آیت
ملائکہ اس خیال میں تھے کہ ہم خلافت و نیابت کے لیے زیادہ موزوں ہیں، اس لیے انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی تھی کہ ہماری موجودگی میں ایسی مخلوق بنانے میں کیا حکمت ہے جوشرو فساد کا عنصر لیے ہوئے ہے۔اس کا ایک جواب تو گذشتہ آیت میں دیا گیا کہ﴿ انی اعلم مالا تعلمون﴾ یعنی خلافت الٰہیہ کا فریضہ کون انجام دے سکتا ہے اس کی حقیقت ہم ہی جانتے ہیں، اب اس آیت سے دوسرا حکیمانہ جواب دیا جارہا ہے۔
تفسیر
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت اور ملائکہ پر آپ کی برتری کے اظہار کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تمام موجودات کے نام اوصاف اور خواص کا علم آپ کو سکھا دیا۔پھر ان چیزوں کو ملائکہ پر پیش کر کے ان سے پوچھا گیا کہ اگر تم استحقاق خلافت کے دعوے میں سچے ہو تو ان موجودات کے نام و اوصاف ہی بتادو؟ کیوں کہ جب تک ان کا نام،خاصیت اور استعمال کا طریقہ کار معلوم نہ ہو تو خلافت کی ذمہ داریاں ادا نہیں کی جاسکتیں۔ اس پرملائکہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا ﴿سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾(پاک ہیں آپ،ہم کو علم نہیں۔مگر وہی جو آپ نے عطا فرمایا،بے شک آپ بڑے علم و حکمت والے ہیں۔)یعنی ملائکہ نے اپنی درماندگی اور عاجزی کا اظہار و اعتراف کر لیا،چناں چہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے آدم! ملائکہ کو ان چیزوں کا نام بتادو آدم علیہ السلام نے جب ان کا نام بتادیا تو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں زمین آسمان کی تمام چیزوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی جانتا ہوں۔
بعض شبہات اور ان کے جوابات
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر آدم علیہ السلام کی طرح ملائکہ کو بھی یہ علم سکھا دیا جاتا تو وہ بھی جواب دے دیتے، اس میں آدم علیہ السلام کی کیا فضیلت؟
حکیم الا ُمت حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں اسماء کی تعلیم ملائکہ کی موجودگی ہی میں دی گئی، چوں کہ ملائکہ میں ان خاص علوم کی استعداد نہ تھی، اس لیے سمجھنے سے قاصر رہے۔یہ ایسا ہے جیسے اقلیدس کا استاذ کسی دعوی پر دوطا لب علموں کے سامنے تقریر کرے تو وہی طالب علم اسے سمجھے گاجسے اقلیدس سے مناسبت ہوگی دوسرا نہیں۔
اب اگر کسی کو اشکا ل ہو کہ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْسے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں علم اسماء کے سمجھنے کی استعداد تھی۔اس کا جواب یہ ہے کہ انباء محض کسی خبر کو نقل کر دینے کو کہتے ہیں ،یہ تعلیم کے درجے میں نہیں آتی اور نہ ہی اس سے علم اسما ء کے حقائق کا حاصل ہونا لازم آتا ہے ۔
ممکن ہے کسی کو شبہ ہو کہ جب ملائکہ آدم علیہ السلام کی خبر بھی نہیں سمجھے تو فرشتوں کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کو یہ علم حاصل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تقریر کی قوت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کچھ کہہ رہا ہے، اگر چہ سمجھ میں نہ آئے جیسے اقلیدس کے مبادی سے بے خبر طالب علم استاذ کی تقریر تو نہیں سمجھ سکتا، لیکن اتنا سمجھتا ہے کہ استاذ کسی موضوع پر ماہرا نہ گفتگو کر رہا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس خاص علم کی استعداد ملائکہ کو کیوں نہیں دی گئی؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکمت الٰہی کا در ہے، جس پر کسی کو دستک کی اجازت نہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان اور فرشتوں میں جو تفاوت رکھا ہے اسے برقرار رکھ کر انسان کو انسان اور فرشتوں کو فرشتہ ہی رہنے دیا جائے۔اگر یہ استعداد فرشتوں میں پیدا کردی جاتی تو فرشتے فرشتے نہ رہتے۔جیسے حرکت حیوان کا خاصہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ملہ سے یہ صفت جماد میں پیدا کر یں تو وہ جماد نہ رہے، بلکہ حیوان بن جائے۔(مفہوم از بیان القران، اشرف التفاسیر ،البقرہ،تحت ایة رقم:33)
﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ﴾
ترجمہ:اور جب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب سجدہ میں گر پڑے، مگر شیطان، اس نے نہ مانا اور وہ تھا کافروں میں کا۔
ربط:گزشتہ آیت میں ملائکہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت و برتری کا مشاہدہ اور اپنی عاجزی کا اعتراف کیا تھا،اب اس آیت میں فرشتوں کو حکم دیا دیا جارہا ہے کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں ،تاکہ ان کی عملی تعظیم بھی سامنے آجائے ۔
تفسیر
جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ تعظیمی کریں تو تمام فرشتے حکم پاتے ہی سر بسجود ہوگئے۔لیکن ابلیس نے تکبر اور غرور میں آکر سجدہ کرنے سے انکار کردیااور کافر ہوگیا۔
واضح رہے کہ ابلیس کا تعلق جنات سے ہے جیسا کہ سورة کہف میں ہے ۔﴿کان من الجن فسق عن امر ربہ﴾․(الکھف:50)(تھا جن کی قسم سے سونکل بھا گا اپنے رب کے حکم سے )اور سجدہ کرنے کا حکم اسے بھی دیا گیا تھا، چناں چہ قرآن کریم میں ایک مقام پر صراحتا مذکور ہے جب ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا﴿مامنعک الاتسجد اذ امرتک﴾(الاعراف:12)(تجھ کو کیا مانع تھا کہ تونے سجدہ نہ کیا جب میں نے حکم دیا؟لہٰذا کسی کو یہ اشکال پیدا نہ ہو… سجدہ کرنے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا، پھر ابلیس کے انکار کا کیا مطلب ؟
باقی رہا یہ سوال کہ سجدہ کرنے کاحکم صرف ابلیس (جن)کو تھا یا تمام جنات کو؟
جمہور مفسرین کے نزدیک یہ حکم تمام جنات کو تھا۔(تفسیرعزیزی فارسی، البقرة،تحت آیة رقم :34))حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قول کو اختیار کیا ہے۔ (بیان القرآن البقرةتحت آیة رقم :34)
خوارج کے موقف کی تردید
آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ابلیس کو اس لیے کافر قرار دیاگیا کہ اس نے حکم الٰہی ماننے سے انکار کردیا تھا ۔محض ترک عمل (سجدہ)کی وجہ سے کوئی کافر نہیں ہوتا ،اگرچہ گناہ گار ضرور ہوتا ہے ۔اس تصریح سے خوارج ومعتزلہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے، جو ابلیس کو محض ترک سجدہ کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں۔ (تفسیرمدارک البقرةتحت آیة رقم :34)
مودودی صاحب کی غلط فہمی
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے علم ازلی کی بدولت ابلیس کے کافرانہ انجام سے باخبر تھے۔
لیکن وہ کافر کب ہواتھا؟تمام مفسرین اور قرآنی آیت کی روشنی میں یہی معلوم ہو تا ہے کہسجود ملائکہ کے وقت سجدہ سے انکار کرنے کے باعث کافر قرار پایا جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے ﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِ﴾ (الکھف:50)(جب کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو۔ تو سجدہ میں گر پڑے، مگر ابلیس، تھا جن کی قسم سے، سو نکل بھا گا اپنے رب کے حکم سے۔)
یہاں ﴿فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہ﴾ سے واضح ہو رہا ہے اس نے حکم الٰہی کا انکار کر کے کفر کا ارتکاب کیاہے، لیکن مودودی صاحب کا دعوی ہے کہ ابلیس سجود ملائکہ کا معاملہ پیش آنے سے پہلے کافر تھا چناں چہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کا فروں میں سے تھا ۔اس صورت میں مطلب ہوگا کہ جنوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش اور نافرمان تھی اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا“۔(تفہیم القرآن: البقرة،تحت آیة رقم:34)
مودودی صاحب کو یہ غلط فہمی ایک مسلمہ محذوف عبارت نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہوئی۔کیوں کہ جن مفسرین نے بھی ﴿کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ﴾ میں ” کَانَ“کا ترجمہ فعل ماضی ”تھا“سے ادا کیا ہے، انہوں نے فی علم اللہ محذوف مانا ہے۔یعنی اللہ کے علم میں تھا کہ ابلیس درحقیقت کافر ہے۔لیکن اس پر کفر کا حکم تو اس وقت نافذ ہو ا جب اس نے سجدے سے انکار کردیا۔
لیکن مودودی صاحب اپنے خود ساختہ مطلب میں ابلیس پر تب سے کفر کا حکم لگارہے ہیں جب اسے سجدہ کا حکم بھی نہیں ملا تھا۔مودودی صاحب کا مطلب نہ صرف آیت کریمہکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ کی غلط ترجمانی ہے، بلکہ دوسری آیت ﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِ﴾ (الکھف:50)(جب کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو تو سجدہ میں گر پڑے، مگر ابلیس تھا جن کی قسم سے، سو نکل بھا گا اپنے رب کے حکم سے)کے مقتضی کے بھی خلاف ہے۔
سجدہ تعظیمی کا شرعی حکم
انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ جبین کو خاک پر رکھ دینے کا نام سجدہ ہے ۔
یہ سجدہ اگر عبادت کی غرض سے ہو تو ”سجدہ عبادت“اور اگر محض تعظیم و تکریم کے لیے ہو تو سجدہ تعظیمی کہلاتا ہے۔
گذشتہ امتوں میں سجدہ تعظیمی کی اجازت تھی۔(احکام القرآن للجصاص:البقرہ تحت آیة رقم :34)چناں چہ قرآن کریم میں یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں کی طرف سے سجدہ کرنے کا ذکر آتاہے﴿وَرَفَعَ أَبَوَیْْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَہُ سُجَّداً﴾(یوسف:100) (اور اونچا بٹھایااپنے ماں باپ کو تخت پر اور سب گرے اس کے آگے سجدہ میں۔)حضرت آدم علیہ السلام کو کیا جانے والا سجدہ بھی سجدہ تعظیمی تھا۔(تفسیر عزیزی فارسی البقرة:تحت آیہ رقم:34)لیکن شریعت محمدیہ میں ذات باری تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں، چاہے سجدہ تعظیمی یا سجدہ عبادت، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لو کنت امر احدا لامرت المراة ان تسجد لزوجھا(جامع الترمذی :باب حقوق الزوج علی المراة:رقم الحدیث:1159)یعنی اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کا بڑا حق رکھا ہے۔
لہذاقبر،پیر،یا استاد وغیرہ کو سجدہ تعظیمی کرنا حرام ہے۔اگر عبادت کی نیت ہو تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔
آیات
﴿وَقُلْنَا یَا آدَمُ اسْکُنْ أَنتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَ مِنْہَا رَغَداً حَیْْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنَ الْظَّالِمِیْنَ، فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْْطَانُ عَنْہَا فَأَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَقُلْنَا اہْبِطُواْ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِیْ الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِیْنٍ﴾․(البقرة:35 تا36)
ترجمہ:اور ہم نے کہا اے آدم !رہاکر تو اور تیری عورت جنت میں اور کھاؤ اس میں جو چاہو،جہاں کہیں سے چاہو اور پاس مت جانا اس درخت کے، پھر تم ہو جاؤ گے ظالم،پھر بھلادیا ان کو شیطان نے اس جگہ سے، پھر نکالا ان کو اس عزت وراحت سے کہ جس میں تھے اور کہا ہم نے، تم سب اترو،تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانا ہے اور نفع اٹھانا ایک وقت تک۔
ربط
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی دل جوئی اور تسکین خاطر کے لیے حضرت حوا علیہما السلام کو ان کی پسلی کے مادہ سے پیدا فرما کر ان کا ہم نشین بنا دیا ۔اور دونوں جنت میں خوش وخرم اور راحت و مسرت کے دن گزارنے لگے۔نعمتوں سے بھری جنت میں ایک درخت ایسا بھی تھا جسے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا تھا۔و ہ درخت کون ساتھا؟قرآن کریم اور صحیح حدیث میں اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ۔چوں کہ اس پرکوئی شرعی حکم موقوف نہیں، اس لیے اس کی جنس معلوم کرنے کی ضرورت نہیں۔(تفسیر ابن کثیر ۔تفسیر کبیر:البقرة تحت آیہ رقم:35، 36)۔بہرحال حضرت آدم علیہ السلام کی خوش بختیوں کے یہ مناظر ابلیس کو کب گوارہ تھے؟وہ تو بہر صورت ان سے ان کی مسرتیں چھین کر اپنے جذبہ حسد کو سامان تسکین پہنچانا چاہتا تھا۔
چناں چہ اس نے حضرت آدم اور حضرت حوّا علیہما السلام کا خیر خواہ بن کر انہیں بہکا نا شروع کر دیا کہ اگر یہ درخت کھا لیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہ کر جنت میں قربت الٰہی کے مزے لُوٹو گے۔کیوں کہ اس درخت میں حیاتِ جاوداں اور ملکِ لازوال کا راز مضمر ہے۔
﴿ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَی﴾․(طہ:120)
(میں بتاؤں تجھ کو درخت سدا زندہ رہنے کا اور بادشاہی جو پرانی نہ ہو؟)
ساتھ تاویل بھی بتادی کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت منع فرمایا تھا جب تمہاری استعداد کمزور تھی،اب تو ماشاء اللہ تمہاری استعداد اپنی کمال قوت کو پہنچ چکی ہے۔اس لیے اب کھانے میں کچھ حرج نہیں حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی دل فریب باتوں پر کچھ تردد ہوا تو قسمیں کھا کر یقین دلانے لگا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔
﴿وَقَاسَمَہُمَا إِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْن﴾․(الاعراف :21)
تاویل بھی ذرا نمکین تھی، پھر درخت کی خوبیاں سنا کرحضرت آدم علیہ السلام کے آتش شوق کر بھڑکا چکا تھا۔پھر ظالم نے خدا کی قسمیں کھا کر اطمینان دلا یا تھا۔محبوب کا نام سن کر تو اہل دل گھل ہی جاتے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا کہ کوئی بدبخت رب ذوالجلال پر بھی جھوٹی قسمیں کھا سکتا ہے؟
غرض سب ایسے اسباب جمع ہوگئے کہ حضرت آدم علیہ السلام سمجھے اب درخت کھانا ممنوع نہیں رہا اور لغزش میں آکر درخت کھالیا۔بس درخت کا کھانا تھا کہ سب عیش وآرام رخصت ہوگیا اور نیچے اترنے کا حکم دیا گیا، ظاہری سزا تو یہ ہوئی کہ جنت سے زمین پر اترنے کا حکم ملا اور باطنی سزا یہ دی کہ تمہاری اولاد میں باہم عداوتیں ہوں گی، جس سے زندگی کا لطف پھیکا پڑجائے گااور دنیا کی یہ زندگی بھی عارضی ہوگی، چنددن گزار کر یہاں سے بھی کوچ کرنا ہوگا۔
آدم علیہ السلام فرط ندامت سے رونے لگے اور بارگاہ الٰہی میں معافی کے خواست گار ہوئے۔
ابلیس حضرت آدم علیہ السلام سے ملا تھایا محض وسوسہ ڈالا تھا؟
قرآن کریم کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ابلیس اور حضرت آدم علیہ السلام میں باقاعدہ مکالمہ ہوا تھا۔یہ لغزش محض وسوسے کا نتیجہ نہیں۔ کیوں کہ قسمیں عادةً کلام ہی میں کھائی جاتی ہیں اور کلام ملاقات کی صورت میں ممکن ہے۔باقی رہا یہ اشکا ل کہ ایک آیت ﴿فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْْطَان﴾ (الاعراف:20) میں وسوسہ کی تصریح ہے تو اس کے متعلق اتنا جان لینا چاہیے کہ وسوسہ صرف دل میں خیال لانے کا نام نہیں ہے، بلکہ کلام میں کسی کو ورغلانا بھی وسوسہ کہلاتا ہے۔(بیان القرآن:البقرہ:تحت آیة رقم:36)۔
مکالمہ کہاں ہوا تھا؟اس کی صحیح خبر معلوم نہیں تاہم ممکن ہے حضرت آدم علیہ السلام سیر کے لیے جنت سے باہر آسمانوں کی طرف آئے ہوں، وہاں ابلیس سے ملاقات ہوگئی ہو۔یا آدم علیہ السلام جنت کے دروازے پر ہوں اور ابلیس جنت کے دروازے کے باہر اور یہ مکالمہ ہوگیا ہو۔واللہ اعلم بالصواب․
اس مقام پر بے ساختہ یہ خیال پریشان کرنے لگتا ہے کہ کیا انبیائے کرام سے بھی گناہ سرزد ہو سکتے ہیں؟ اس لیے یہاں مسئلہ عصمت انبیاء پر ایک تحقیقی نظر ڈال لینی چاہیے، تاکہ عصمت انبیاء کا مسئلہ بے غبار ہو کر واضح ہو جائے۔
مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام
اہل سنت والجماعت کے نزدیک پوری انسانیت میں صرف انبیائے کرام ہی ایسی مقدس جماعت ہے جو معصومیت کے درجے پر فائز ہے۔(والأنبیاء علیہم الصلاة والسلام کُلّہم منزّھون عن الصغائر والکبائر والکفر والقبح:(شرح کتاب الفقة الأکبر․ بحث فی انّ الأنبیاء منزھون عن الصغائر والکبائر،ص:99:بیروت))ان کے اقوال و افعال،حرکات و سکنات سے قصداً وارادةً کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہو سکتا جو ان کے دامن عصمت کو داغ دار کر سکے۔(وجب أن تکون کل اعتقاداتہ وأفعالہ، واقوالہ، وأخلاقہ الاختیاریة بعد الرسالة موافقة لطاعة اللہ تعالیٰ، وجب أن لایدخل فی شییٴ من اعتقاداتةوأفعالہ، وأقوالہ وأخلاقہ معصیة للہ تعالیٰ (العقیدہ الاسلامیہ، الفصل الرابع،صفة العصمة،ص:382))وہ کسی جبر اور اکراہ کے بغیر اپنے اختیار سے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں(العصمةفضل من اللہ ولطف منہ، ولکن علی وجہ یبقی اختیار ہم بعد العصمة فی الاِقدام علی الطاعة، والامتناع عن العصمة․ واِلیہ مال الشیخ ابو منصور الماتریدی حیث قال: العصمة لاتزیل المحنة أي الاِبتلاء والامتحان، یعنی لا تجبرہ علی الطاعة، ولا تعجزہ عن المعصیة“․ (شرح کتاب الفقہ الأکبر للملا علی القاری، بحث فی ان الانبیاء منزھون، ص:105)
وأما تعریفہا الحقیقی علی ما ذکرہ فی شرح المقاصد فہو أنہا ملکة اجتناب المعاصی مع التمکن منہا․(حاشیہ خیالی:ص:107)
ان عصمة الأنبیاء لیست لامر طبعی، بل بمحض توفیق اللہ تعالیٰ․(روح المعانی، ابراہیم، تحت آیہ، رقم :35)
اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیائے کرام کی ذات گرامی سراپا خیر بن کر جلوہ افروز ہوتی ہے،بارگاہ خداوندی سے امت کے ہر فرد کو بغیر چوں چرا کیے، ان کی مطلق اطاعت کا حکم ملا ہے۔﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہِ﴾ (دلت علی وجوب طاعتہم مطلقاً فلو اتوا بمعصیة لوجب علینا الاقتداء بہم فی تلک المعصیة واجبة علینا، فیلزم توارد الایجاب والتحریم علی الشيٴ الواحد وإنہ محال․(تفسیر کبیر، النساء، تحت آیہ رقم :64)(اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے۔)بلکہ باری تعالیٰ نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے ﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ ﴾ (النساء:80 )(جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا اللہ کا۔) ان کی زندگی کو ”اسوةحسنة“کا خطاب دے کر واضح کر دیا ہے کہ ان کا ہر فعل اورہر قول ہدایت کا روشن چراغ ہے جہاں معصیت کی ظلمت نہیں پھٹک سکتی﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (احزاب:21)(تمہارے لیے بھلی (مفید)تھی رسول اللہ کی چال)۔
اب اگر ان سے گناہ صادر ہونے لگیں تو پوری امت جذبہ اطاعت کے ساتھ اس معصیت میں شریک ہو جائے گی۔معصیت ،اطاعت قرار پائے گی۔جس سے سارا نظام ہدایت درہم برہم ہوجائے گا۔وحی الٰہی سے اعتماد اٹھ جائے گا اور ہدایت کی ہر منزل مشکوک ٹھہرے گی۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
اس مقام پر یہ شبہ وارد ہو تا ہے اگر انبیاء معصوم ہیں تو پھر قرآن وحدیث میں ان کی طرف ایسی چیزیں کیوں منسوب ہیں جو گناہ ہیں؟
شبہ کا ازالہ
پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ انبیائے کرام سے منسوب ایسے واقعات ہم تک کس طریق سے پہنچے ہیں۔اگر خبر واحد کے ذریعے پہنچے ہیں تو قابل التفات ہی نہیں، کیوں کہ انبیائے کرام کو گناہ گار ٹہرانے سے بہتر ہے کہ راویوں کو جھوٹا اور غلط ٹھہرایا جائے۔اور اگر ایسے امور خبر متواتر اور قرآن کریم سے ثابت ہیں تو ایسے تمام افعال:
سہو اور نسیان پر محمول ہیں(والجواب عنہ اما اجمالاً فہو ان ما نقل احاداً مردود، وما نقل متواتراً اومنصوصاً فی الکتاب محمول علی السہو والنسیان او ترک الاولیٰ اوکونہ قبل البعثة او غیر ذلک من المحامل والتاویلات․( شرح المقاصد، المقصد السادس، 3/311:بیروت))۔
کیوں کہ معصیت تو اس نافرمانی کو کہتے ہیں جو جان بوجھ کر اور پورے عزم وارادے کے ساتھ وجود میں آئے۔ اگر عزم وارادے کے بغیر بھول چوک سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوجائے جو بظاہر کسی حکم کے خلاف ہو تو اسے گناہ نہیں کہتے، بلکہ لغزش(زلة)کہتے ہیں۔(والحاصل: ان احداً من اہل السنة لم یجوز ارتکاب المنہی منہم عن قصد، ولکن بطریق السہو والنسیان، ویسمی ذلک زلہ․“(شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری، بحث فی ان الانبیاء منزھون :ص:105))․
اہل سنت والجماعت کی تصریح کے مطابق بھول چوک سے ہونے والے ایسے تمام امور (صغائر) عصمت انبیاء کے منافی نہیں۔ (اَما الصغائر …ویجوز سہواً بالاتفاق…لکن المحققین اشترطوا ان ینہوا علیہ فینتہوا عنہ…․(شرح العقائد النسفیة:ص مبحث عصمة الانبیاء:326)اسی قصہ آدم علیہ السلام کو لیجیے جس کے بارے میں آیاہے ﴿فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْْطَانُ‘﴾البقرة:36 (پھر ہلا دیا ان کو شیطان نے)زلة بلا ارادہ پھسل جانے کو کہتے ہیں۔(شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری:ص:105)ایک دوسرے مقام پر تو واضح الفاظ میں فرما دیا کہ یہ سب بھولے سے ہوا۔﴿ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْما﴾ (طہ:115) (پھر بھول گیا اور نہیں پائی ہم نے اس میں کچھ ہمت(پختگی)۔
یا ایسے تمام امور مؤول ہیں۔
مثلا حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ انہوں نے چاند کو دیکھ کر ارشاد فرمایاتھا﴿ہَذَا رَبِّیْ ﴾انعام:78) لہٰذا اس ناقابل تردید قول کی تاویل کی جائے گی کہ یہاں ہمزہ استفہام محذوف ہے۔تقدیری عبارت یوں ہے ”أہَذَا رَبِّیْ بزعمکم؟“کیا تمہارے خیال میں میرا رب یہی ہے؟
یا خطا ئے اجتہادی پر محمول ہیں۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں ایسے افعال پر عصیان کا اطلاق محض ظاہری صورت کی بنا پر ہوا ہے۔یا انبیائے کرام کے اعلیٰ مقام و مراتب کی نسبت انہیں عصیان کہہ دیا گیا ہے۔(وذکر فی عصمة الانبیاء لیس معنی الزلة انہم زلو ا عن الحق الی الباطل۔ ولکن معناہم انہم زلوا عن الافضل الی الفاضل، وانہم یعاتبون بہ لجلال قدرھم ومکانتہم من اللہ تعالیٰ․ تفسیر حقی ․طہ :تحت آیہ رقم:121)․
انبیاء کوکن امور میں سہو اور نسیان ہوتا ہے؟
علامہ رازی رحمة اللہ علیہ نے انبیائے کرام سے متعلقہ امور چار خانوں پر تقسیم فرما کر ہر ایک پر عمدہ کلام فرمایا ہے کہ انبیاء کے کن امور میں سہو و نسیان کا احتمال رہتاہے۔(تفسیر کبیر،البقرہ ،تحت آیہ رقم36،بتغییریسیر)
امورعقائد
اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء علیہم السلام فطرت توحید پر پیدا ہوتے ہیں اور تادم آخر اس عقید ے پر کار بند رہتے ہیں۔ان کے دل کا آئینہنور توحید سے جگمگاتا رہتا ہے۔ بندگان خدا کی یہ مقدس جماعت زندگی کے ہر مرحلے میں کفر و شرک کی ظلمتوں سے محفوظ رہی ہے، عمداًیا سہواً ان سے کفریہ اعمال صادر نہیں ہوئے۔ البتہ شیعوں کے نزدیک انبیاء سے تقیةً کفر کا اظہار ہو سکتا ہے۔
فریضہ تبلیغ
اس پر بھی پوری امت کا اتفاق ہے کہ انبیائے کرام خدا کے احکام انسانوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی دروغ گوئی یا تحریف سے کام نہیں لیتے۔وہ اس فریضے کی انجام دہی میں ہر قسم کی غلطی سے محفوظ اور معصوم ہیں۔سہو اور نسیان بھی ان پر طاری نہیں ہوتا۔
اجتہاد
اس میں اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ انبیائے کرام غیر منصوصہ مسائل میں وحی کا انتظار کرنے کے بعد اپنے اجتہاد سے جو حکم صادر فرماتے ہیں اس میں خطا کا امکان ہوتا ہے۔تاہم اگر خطائے اجتہادی واقع ہوجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے اطلاع آجاتی ہے ۔چوں کہ یہ اجتہاد ہے، اس لیے اس میں سہو اور نسیان کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔
افعال و عادات
اس میں اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ انبیائے کرام عمداً کبیرہ اور صغیرہ (غیراولیٰ)سے محفوظ اور معصوم ہیں۔ البتہ کبھی کبھی سہواًاور نسیاناً غیر اولیٰ امور صاد رہو جاتے ہیں، جو بظاہر معصیت معلوم ہوتے ہیں،لیکن درحقیقت کسی تشریعی حکم کے اظہار کا وسیلہ ہوتے ہیں۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نماز میں سہو پیش آیا ،جو بظاہر غفلت معلوم ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے سجدہ سہو کا حکم بتلانا مقصود تھا۔(تفسیر الکبیر،البقرة،تحت آیہ رقم ،36)
عصمت انبیا پر استدلال
عصمت انبیا پر قرآنی شواہد
﴿وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ﴾․ (اٰل عمران :132)
ترجمہ: ”اور حکم مانو اللہ کا، اور رسول کا تاکہ تم پہ رحم ہو۔“
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہ﴾․(النساء :64)
ترجمہ:”اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا، مگر اس واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے“۔
ان آیات میں رسو ل کی مطلق اطاعت کا حکم ملا ہے ۔اگر انبیا معصوم نہ ہوتے تو ان کی مطلق اطاعت کا حکم نہ ملتا، بلکہ امرا کی اطاعت کی طرح ان کی اطاعت کا بھی ایک پیمانہ مقرر ہوتا۔جیسا کہ حدیث رسول میں ہے امیر کی اطاعت اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دے ۔ اور جب معصیت کا حکم دے تو پھر اس کی اطاعتکی کوئی ضرورت نہیں۔“(السمع والطاعةحق ما لم یومربالمعصیة، فاذا امر بمعصیة فلا سمع ولاطاعة․ صحیح البخاری :رقم الحدیث:2796)
لیکن انبیاء کی اطاعت کا کوئی پیمانہ نہیں ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت قرار پائی ہے۔ ﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ﴾․ (النساء:80)
ترجمہ:”جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا اللہ کا۔)جو یقینا عصمت انبیاء کی واضح دلیل ہے۔
احکام خداوندی سے روگردانی کرنے والا شخص ظالم ہوتا ہے۔ اور ظالم کبھی منصب نبوت سے سرفراز نہیں ہوسکتا۔ ﴿لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ﴾․ (تفسیر الکبیر البقرة تحت آیة رقم:124) (نہیں پہنچے گا میرا اقرار ظالموں کو)۔
﴿وانہم عندنا لمن المصطفین الاخیار﴾ (ص:47)
ترجمہ:”اور وہ سب ہمارے نزدیک ہیں چنے ہوئے نیک لوگوں میں۔“) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں (انبیا)کو مطلقاً اخیار کے لقب سے نوازا ہے، یعنی ان کے افعال اقوال اور صفات میں خیر کا عنصر چھایا ہوا ہے۔یہ خیر کے پتلے جبھی ہوسکتے ہیں جب معصیت کے شر سے محفوظ اور معصوم ہوں، لہٰذا یہ آیت بھی عصمت انبیا کی واضح دلیل ہے۔(تفسیر کبیر،ص: تحت آیة رقم:37)
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْل اللّٰہ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾․(الاحزاب:21)
(تمہارے لیے بھلی(مفید)تھی رسول اللہ کی چال)یعنی اللہ کے رسول عمدہ نمونہ ہیں،جنہیں دیکھ کر اطاعت الٰہی کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔اطاعت الٰہی کا نمونہ ایسی ذات ہو سکتی ہے جو گناہوں سے پاک ہو۔
﴿مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُؤْتِیَہُ اللّہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُواْ عِبَاداً لِّیْ مِن دُونِ اللّہِ﴾․(اٰل عمران:79)
ترجمہ:”کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ اس کو دیوے کتاب اور حکمت اور پیغمبرکرے، پھر وہ کہے لوگوں کو کہ تم میرے بندے ہو جاؤ، اللہ کو چھوڑ کر“۔
ابو حیان نے اس آیت کریمہ سے عصمت انبیا پر استدلال کیا ہے کہ نبوت کے منصب جلیل پر فائز ہونے والا شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت شعاری سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کر سکتا۔ (تفسیر البحر المحیط:اٰل عمران، تحت آیة رقم:79)۔
شیعوں کے عقیدہ عصمت آئمہ پر ایک نظر
شیعوں کے نزدیک انبیا ورسل کے علاوہ أئمہ(شیعوں کے نظریہ امامت پر تفصیلی بحث سورة الانبیاء کی آیت﴿وجعلنا ہم ائمہ یہدون بأمرنا﴾(73) کے تحت آئے گی،ان شاء اللہ)بھی معصوم ہوتے ہیں۔ ”عصمت امام“ کا عقیدہ ،امامیہ اسماعیلہ شیعہ کے بچے بچے کی نوک زبان پر رہتا ہے ،اس لیے حوالوں کی ضرورت تو نہ تھی، تاہم اس سلسلے کے چند جملے پڑھ لیجئے۔
اصو ل کافی میں امام رضا کا ایک خطبہ منقول ہے، جس میں اماموں کے فضائل و خصائل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
الامام المطھر من الذنوب والمبرأ عن العیوب․(اصول کافی ،کتاب الحجة،باب نادر جامع فی فضل الامام ،200/1)
امام گناہوں سے پاک اور عیوب سے مبرا ہوتا ہے، آگے اس خطبہ میں ہے۔
”فھو معصوم موید، موفق مسدد، قد امن من الخطایا والزلل،والعثار، یخصہ اللہ بذلک، لیکون حجة علی عبادہ“․ (اصول کافی ،کتاب الحجة،باب نادر جامع فی فضل الامام ،203/1)
”پس وہ معصوم ہے، اس کو تائید و توفیق حاصل ہے اور اس کو راہ مستقیم پر رکھا جاتا ہے اور وہ غلطی ولغزش سے محفوظ ہے،اللہ تعالیٰ اس کو یہ خصوصیت اس لیے عطا فرماتے ہیں کہ اس کے بندوں پر حجت ہو۔“
علامہ باقر مجلسی نے اپنی معروف و مشہور کتاب”بحار الانوار“ میں عصمت امام پر مستقل ایک باب باندھا ہے، اس باب میں”اعتقادات ”الصدوق “سے نقل کیا ہے۔
”اعتقادنا فی الأنبیاء والرسل والأئمة أنہم معصومون مطہرون من کل دنس وأنہم لایذنبون ذنبا صغیراً ولا کبیراً…“․ (بحارالانوار ،کتاب الامامہ،باب عصمة الامام ،25/211)
”انبیاء ورسل اور ائمہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ معصوم اور ہرگندگی سے پاک ہوتے ہیں اور ان سے کوئی چھوٹا بڑا گناہ سرزد نہیں ہو سکتا۔“
عصمت أئمہ پر شیعہ حضرات کی پہلی دلیل
شیعہ حضرات کے پاس عصمتِ ائمہ پر کوئی صریح نصّ نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ امام نبی کا نائب اور قائم مقام ہوتا ہے،نیابت کے نازک فرائض سے ایسا شخص عہدہ بر آ ہو سکتا ہے جو صفات کمال میں نبی کا ہم مثل اور معصومیت کے درجے پر فائز ہو۔
عقیدت کی دنیا میں ممکن ہے کہ اسے دلیل کا نام دیاجائے ،لیکن علم و دانش کی دنیا میں اس ناقص طرز استدلال کو دلیل کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ۔چناں چہ امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمہ اللہ شیعوں کی اس مایہ ناز دلیل کا جواب دیتے ہوئے تحریر ماتے ہیں ۔
یہ امام تمام کاموں میں نبی کا نائب نہیں ہوتا۔نبی کے دو کام ہیں،اول:بارگاہ الٰہی سے احکام حاصل کریں۔دوم : یہ کہ مخلوق خدا کو وہ احکام پہنچائیں ۔امام صرف دوسرے کام میں نبی کا نائب ہوتا ہے اور عصمت کی ضرورت صرف پہلے کام میں ہے۔کیوں کہ نبی نے جہاں سے احکام حاصل کیے ہیں وہ ما خذان کا ہماری نظر کے سامنے نہیں ،وہاں تک ہماری رسائی نہیں کہ ہم جانچ سکیں کہ آیا احکام لینے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ہے۔ لہذا اگر نبی معصوم نہ ہوں تو دین پر اعتبار نہ رہے گا۔
بخلاف امام کے کہ وہ بارگاہ احدیت سے احکام نہیں لیتا،اس پر وحی نہیں آتی ،اس کا کام صرف یہ ہے کہ نبی کے پہنچائے ہوئے احکام، یعنی قرآن و حدیث کی اشاعت و حفاظت کرے اور انہیں کی تنقیح کرتا رہے،امام کا ماخذ سب کے پیش نظر ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا علم ہو سکتا ہے اور دین میں کوئی اشتباہ پیدا نہیں ہو سکتا ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ کلیہ صحیح ہو کہ معصوم کے نائب کا بھی معصوم ہونا ضروری ہے تو چاہیے کہ تمام علمائے مجتہدین بھی معصوم ہو جائیں۔کیوں کہ بالاتفاق علمائے مجتہدین نائب نبی یا نائب امام ہیں،علمائے مجتہدین کو جانے دیجیے، خود امام اپنے زمانے میں جن کو اپنا نائب مقرر کر کے اطراف و جوانب میں روانہ کرتا ہے،ان کا معصوم ہونا ضروری ہو گا ،مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں جن جن لوگوں کو اپنی طرف سے کسی مقام کا حاکم بنایا اور ان کو اپنا نائب قرار دیا، ان سب کو معصوم کہنا چاہیے، حالاں کہ آ ج تک مخالفین(شیعہ)میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہو ا اور نہ ہو سکتا ہے۔کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نائبوں نے جو جو ظلم کیے ہیں۔کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود ہمیشہ اپنے نائبوں کے شاکی رہے ہیں اور ان کی خیانتوں پر افسوس فر مایا۔
پس اب یا تو حضرات مخالفین اپنے اجماع کے اور بداہت کے خلاف تمام علماء مجتہدین اورنُوّاب أئمہ کے معصوم ہونے کے قائل ہو جائیں۔
اور پھر اس کے بعد کھلم کھلا ختم نبوت کا انکار کرکے اس امر کا اقرار کر لیں کہ امام سب کاموں میں نائب نبی ہوتا ہے،اس پر بھی وحی اترتی ہے۔(واضح رہے کہ شیعوں کے نزدیک ائمہ پر بھی مقدس وحی کا نزول ہوتا ہے اور ان کو تحلیل و تحریم کا بھی اختیار ہوتا ہے ،شیعوں کے نظریہ امامت،پر مکمل اور مدلل بحث سورة الانبیاء کی آیت وجعلنا ہم ائمة یھدون بأمرنا:73 کی تفسیر کے ضمن میں آئے گی۔ان شاء اللہ) اور وہ اپنے وحی کے احکام کی تبلیغ کرتا ہے ،نہ قرآن و حدیث کی اور یا عصمت ائمہ کے عقیدہ کفریہ سے تائب ہو کر سچے مومن بن جائیں۔(تحفہ خلافت، امام اہل سنت مولانا عبدالشکور لکھنوی:ص:72:73)۔
عصمت ائمہ پر شیعہ حضرات کی دوسری دلیل
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلا﴾ (النساء:59) (اے ایمان والو!حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول اور حاکموں کا، جو تم میں سے ہوں،پھر اگر جھگڑپڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے، اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر۔)
شیعہ حضرات اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں دو دعوے کرتے ہیں۔
اس آیت کریمہ اولی الامر سے (بارہ)ائمہ مراد ہیں۔
نیز آیت کریمہ میں اللہ رسول اور امراء کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے، جو اس دعوی پر واضح دلیل ہے کہ امام بھی رسول کی طرح معصوم ہوتا ہے، بصورت دیگر ا ن تینوں کی اطاعت کا یکساں حکم نہ ہوتا۔
دوسری دلیل کا تجزیہ
اس آیت کریمہ سے ”عصمت امام“ کا مطلب اخذ کرنا سراسر مغالطہ دینے کی کوشش ہے۔کیوں کہ اللہ ،رسول ،اور اولی الأمر (ائمہ)کی اطاعت کا حکم یکساں نہیں ہے بلکہ الله، رسول،کی اطاعت اور ائمہ کی اطاعت میں ایک بنیادی فرق ہے جو اسی آیت کے دوسرے حصے سے نمایا ں ہے ﴿فان تنازعتم فی شیٴ فردوہ الی اللہ ورسولہ﴾(پھر اگر جھگڑپڑو کسی چیز میں تو اس کورجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے اللہ پر، قیامت کے دن پر)امر ا اور رعیت کے مابین کھڑے ہونے والے تنازع کو ختم کرانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ۔اگر ائمہ معصوم ہوتے تو تنازع نہ ہوتا،امت کا ہرفرد ان کے اشارہ آبرو پر سرخم تسلیم کرتا، لیکن یہاں تنازع کا سوال اس لیے پیدا ہوا ہے کہ امرا معصوم نہیں ہیں،غلطی کر سکتے ہیں،راہ حق سے بھٹک سکتے ہیں، اس لیے رجوع کا حکم امام کی طرف نہیں ہے۔
آیت کا یہ حصہ شیعوں کے نظریہ عصمت ائمہ کی پوری عمارت منہدم کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیعوں کے خانہ ساز راویوں نے پریشان ہو کر فوراً ایک روایت گھڑلی کہ یہ آیت تحریف شدہ ہے، اصل آیت میں رعایا کا آپس میں تنازع ہو جانے کی صورت میں رجوع کا حکم تینوں (اللہ ،رسول اور اولی الأمر)کی طرف تھا۔لیکن”محرفین“نے اس آیت سے اولی الامر کا لفظ نکال دیا،چناں چہ تفسیر صافی میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:
القمی عن الصادق قال نزل فان تنازعتم فی شیٴ فردوہ الی اللہ والی الرسول والی اولی الامر منکم، وفی الکافی والعیاشی عن الباقر: انہ تلا فی ہذہ الایة ہکذا فان خفتم تنازعاً فی امر فردوہ الی اللہ والی الرسول والی اولی الامر منکم․ قال:کذا نزلت․ وکیف یامرہم اللہ عزوجل بطاعتہ وولاة الأمر ویرخص فی تنازعتم؟(تفسیر صافی،النساء، تحت آیة رقم :59)
قمی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی ( فان تنازعتم فی شیٴ فردوہ الی اللہ والی الرسول والی اولی الامر منکم)یعنی جب کسی معاملے میں تمہارا اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ ورسول اور ان امراء کی طرف لوٹاؤجو تم سے ہوں۔
”کافی“:اور” عیاشی“میں امام باقر سے روایت ہے کہ انہوں نے بھی اس آیت کو اسی طرح پڑھا… ان کے بقول یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی تھی، کیوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی امراء کی اطاعت کا حکم بھی دے پھر ان سے تنازع کرنے کی اجازت بھی دے؟
جس مذہب کے تمام دلائل ”عقیدہ تحریف القرآن“کی کوکھ سے جنم لیتے ہوں وہاں قرآن وسنت کی کون سے دلیل کا ر گر ہو سکتی ہے۔؟(شیعہ عقیدہ تحریف القرآن کی تفصیلی بحث آگے آئے گی۔ان شاء اللہ )
ایک شبہے کا ازالہ
واضح رہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ پر امرا کی طرف بھی رجوع کرنے کا حکم ملتا ہے۔﴿وَإِذَا جَاء ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ ردُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ﴾․(النساء : 83) (اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اوراگر اس کو پہنچادیتے رسول تک اور اپنے حاکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو اُن میں تحقیق کرنے والے ہیں۔) اس آیت میں امرا سے رجوع کا حکم دیا جارہا ہے،لیکن اس رجوع کا تعلق شرعی معاملات سے نہیں، بلکہ امن و خوف کی خبروں سے ہے، جو افواہ بن کر معاشرے میں افراتفر ی کا ماحول پیدا کرتی ہیں۔
ایسی خبروں کے متعلق ہدایت دی جارہی ہے کہ انہیں افواہ بنانے کے بجائے بارگاہ رسالت اور امرا کو باخبر کیا جائے، تاکہ وہ حقیقت حال سے واقف ہوکر آئندہ کی حکمت عملی مرتب کریں۔
لہٰذا اس آیت میں خاص امور میں امیر کی طرف رجوع کرنے کے حکم سے ”عصمت امام “کا شبہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔
مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام اور سید مودودی صاحب کی قلمی شوخیاں
مولانا مودودی صاحب کے علمی و فکری لٹریچر کی پوری سرگردانی کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ موصوف کی ذاتی خوبیاں اور صلاحیتیں لائق تحسین اور قابل اعتراف ہیں، بایں ہمہ ان کے علمی مزاج کی دو خامیاں ایسی ہیں جن سے چشم پوشی کرنا حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔
موصوف ایک صاحب طرز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ زود نویس تھے۔ظاہر ہے کہ بہت زیادہ لکھنے کے معنی یہ ہیں کہ خیالات و افکار کی جو لہریں وادی قلب میں اتریں انہیں میزان شریعت سے گزار ے بغیر صفحہ قرطاس پر اتاردیا جائے۔
مغرب کے فلسفہ تہذیب و تمدن پر عقابی نظر اور ناقدانہ رائے رکھنے کے باوجود دینی علوم و معارف سے ان کا تعلق سطحی نوعیت کا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کا اشہب خامہ مغربی فکروفلسفہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے میدان کا ر زار میں اتر کر ایسی جو لانیاں دکھاتا ہے کہ زبان سے بے اختیار دادو ستائش کے کلمات نکل جاتے ہیں، لیکن جب یہی قلم مذہبی موضوعات پر اٹھتا ہے تو قدم قدم پہ ٹھوکریں کھاتا ہے، حتی کہ حریم نبوت تک پہنچ کر بھی ادب سے ناآشنا رہتا ہے۔
ان دو خامیوں سے ان کی علمی حیثیت مجروح اور ان کی تحریریں اور تقریریں تضاد بیانی کا شکار ہوگئیں۔
چناں چہ عصمت انبیائے علیہم السلام جیسا ایک سیدھا ساد ھا اور بے غبار مسئلہ بھی ان کی قلمی رنگینیوں کی زد سے نہ بچ سکا، چناں چہ ایک جگہ تو اہل سنت کی موافقت میں لکھتے ہیں ۔
”نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے، لیکن بشر کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود اور جملہ انسانی جذبات، احساسات وخواہشات رکھتیہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا، اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے، جن کے مقابلے میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً وحی جلی کے ذریعے اس کی اصلاح فرما دیتا ہے۔“ (تفہیم القرآن جلددوم، سورة یوسف تحت آیة رقم :24 طبع دوم، 1958) اب ان کی وہ تحریریں بھی پڑھیے جہاں وہ مقام نبوت کی رفعتوں سے بے نیاز ہو کر بلادھڑک لکھتے ہیں :
”نبی ہونے سے پہلے تو حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ایک بہت بڑا گناہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا۔“(رسائل و مسائل ،حصہ اول ص:31 طبع دوم)
حضرت موسی علیہ السلام کے ہاتھوں ایک حربی کافر بلا ارادہ قتل ہو گیا تھا، حربی ہونے کی وجہ سے اس کا قتل ویسے بھی مباح تھا۔لیکن سید مودودی صاحب اسے بہت بڑا گناہ قرار دے رہے ہیں ۔
”موسی ں کی مثال اس جلد فاتح باز کی سی ہے جو اپنے اقتدار کا استحکام کیے بغیر مارچ کرتا ہواچلاجائے اور پیچھے جنگل کی آگ کی طرح مفتوحہ علاقے میں بغاو ت پھیل جائے۔“(رسالہ ترجمان القران ج29 عدد4:ص:5)
یعنی صاحب عزم پیغمبر بھی انتظامی امور سے ناواقف تھے۔
﴿وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ﴾․ (اٰل عمران :132)
ترجمہ: ”اور حکم مانو اللہ کا، اور رسول کا تاکہ تم پہ رحم ہو۔“
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہ﴾․(النساء :64)
ترجمہ:”اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا، مگر اس واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے“۔
ان آیات میں رسو ل کی مطلق اطاعت کا حکم ملا ہے ۔اگر انبیا معصوم نہ ہوتے تو ان کی مطلق اطاعت کا حکم نہ ملتا، بلکہ امرا کی اطاعت کی طرح ان کی اطاعت کا بھی ایک پیمانہ مقرر ہوتا۔جیسا کہ حدیث رسول میں ہے امیر کی اطاعت اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دے ۔ اور جب معصیت کا حکم دے تو پھر اس کی اطاعتکی کوئی ضرورت نہیں۔“(السمع والطاعةحق ما لم یومربالمعصیة، فاذا امر بمعصیة فلا سمع ولاطاعة․ صحیح البخاری :رقم الحدیث:2796)
لیکن انبیاء کی اطاعت کا کوئی پیمانہ نہیں ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت قرار پائی ہے۔ ﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ﴾․ (النساء:80)
ترجمہ:”جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا اللہ کا۔)جو یقینا عصمت انبیاء کی واضح دلیل ہے۔
احکام خداوندی سے روگردانی کرنے والا شخص ظالم ہوتا ہے۔ اور ظالم کبھی منصب نبوت سے سرفراز نہیں ہوسکتا۔ ﴿لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ﴾․ (تفسیر الکبیر البقرة تحت آیة رقم:124) (نہیں پہنچے گا میرا اقرار ظالموں کو)۔
﴿وانہم عندنا لمن المصطفین الاخیار﴾ (ص:47)
ترجمہ:”اور وہ سب ہمارے نزدیک ہیں چنے ہوئے نیک لوگوں میں۔“) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں (انبیا)کو مطلقاً اخیار کے لقب سے نوازا ہے، یعنی ان کے افعال اقوال اور صفات میں خیر کا عنصر چھایا ہوا ہے۔یہ خیر کے پتلے جبھی ہوسکتے ہیں جب معصیت کے شر سے محفوظ اور معصوم ہوں، لہٰذا یہ آیت بھی عصمت انبیا کی واضح دلیل ہے۔(تفسیر کبیر،ص: تحت آیة رقم:37)
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْل اللّٰہ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾․(الاحزاب:21)
(تمہارے لیے بھلی(مفید)تھی رسول اللہ کی چال)یعنی اللہ کے رسول عمدہ نمونہ ہیں،جنہیں دیکھ کر اطاعت الٰہی کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔اطاعت الٰہی کا نمونہ ایسی ذات ہو سکتی ہے جو گناہوں سے پاک ہو۔
﴿مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُؤْتِیَہُ اللّہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُواْ عِبَاداً لِّیْ مِن دُونِ اللّہِ﴾․(اٰل عمران:79)
ترجمہ:”کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ اس کو دیوے کتاب اور حکمت اور پیغمبرکرے، پھر وہ کہے لوگوں کو کہ تم میرے بندے ہو جاؤ، اللہ کو چھوڑ کر“۔
ابو حیان نے اس آیت کریمہ سے عصمت انبیا پر استدلال کیا ہے کہ نبوت کے منصب جلیل پر فائز ہونے والا شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت شعاری سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کر سکتا۔ (تفسیر البحر المحیط:اٰل عمران، تحت آیة رقم:79)۔
شیعوں کے عقیدہ عصمت آئمہ پر ایک نظر
شیعوں کے نزدیک انبیا ورسل کے علاوہ أئمہ(شیعوں کے نظریہ امامت پر تفصیلی بحث سورة الانبیاء کی آیت﴿وجعلنا ہم ائمہ یہدون بأمرنا﴾(73) کے تحت آئے گی،ان شاء اللہ)بھی معصوم ہوتے ہیں۔ ”عصمت امام“ کا عقیدہ ،امامیہ اسماعیلہ شیعہ کے بچے بچے کی نوک زبان پر رہتا ہے ،اس لیے حوالوں کی ضرورت تو نہ تھی، تاہم اس سلسلے کے چند جملے پڑھ لیجئے۔
اصو ل کافی میں امام رضا کا ایک خطبہ منقول ہے، جس میں اماموں کے فضائل و خصائل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
الامام المطھر من الذنوب والمبرأ عن العیوب․(اصول کافی ،کتاب الحجة،باب نادر جامع فی فضل الامام ،200/1)
امام گناہوں سے پاک اور عیوب سے مبرا ہوتا ہے، آگے اس خطبہ میں ہے۔
”فھو معصوم موید، موفق مسدد، قد امن من الخطایا والزلل،والعثار، یخصہ اللہ بذلک، لیکون حجة علی عبادہ“․ (اصول کافی ،کتاب الحجة،باب نادر جامع فی فضل الامام ،203/1)
”پس وہ معصوم ہے، اس کو تائید و توفیق حاصل ہے اور اس کو راہ مستقیم پر رکھا جاتا ہے اور وہ غلطی ولغزش سے محفوظ ہے،اللہ تعالیٰ اس کو یہ خصوصیت اس لیے عطا فرماتے ہیں کہ اس کے بندوں پر حجت ہو۔“
علامہ باقر مجلسی نے اپنی معروف و مشہور کتاب”بحار الانوار“ میں عصمت امام پر مستقل ایک باب باندھا ہے، اس باب میں”اعتقادات ”الصدوق “سے نقل کیا ہے۔
”اعتقادنا فی الأنبیاء والرسل والأئمة أنہم معصومون مطہرون من کل دنس وأنہم لایذنبون ذنبا صغیراً ولا کبیراً…“․ (بحارالانوار ،کتاب الامامہ،باب عصمة الامام ،25/211)
”انبیاء ورسل اور ائمہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ معصوم اور ہرگندگی سے پاک ہوتے ہیں اور ان سے کوئی چھوٹا بڑا گناہ سرزد نہیں ہو سکتا۔“
عصمت أئمہ پر شیعہ حضرات کی پہلی دلیل
شیعہ حضرات کے پاس عصمتِ ائمہ پر کوئی صریح نصّ نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ امام نبی کا نائب اور قائم مقام ہوتا ہے،نیابت کے نازک فرائض سے ایسا شخص عہدہ بر آ ہو سکتا ہے جو صفات کمال میں نبی کا ہم مثل اور معصومیت کے درجے پر فائز ہو۔
عقیدت کی دنیا میں ممکن ہے کہ اسے دلیل کا نام دیاجائے ،لیکن علم و دانش کی دنیا میں اس ناقص طرز استدلال کو دلیل کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ۔چناں چہ امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمہ اللہ شیعوں کی اس مایہ ناز دلیل کا جواب دیتے ہوئے تحریر ماتے ہیں ۔
یہ امام تمام کاموں میں نبی کا نائب نہیں ہوتا۔نبی کے دو کام ہیں،اول:بارگاہ الٰہی سے احکام حاصل کریں۔دوم : یہ کہ مخلوق خدا کو وہ احکام پہنچائیں ۔امام صرف دوسرے کام میں نبی کا نائب ہوتا ہے اور عصمت کی ضرورت صرف پہلے کام میں ہے۔کیوں کہ نبی نے جہاں سے احکام حاصل کیے ہیں وہ ما خذان کا ہماری نظر کے سامنے نہیں ،وہاں تک ہماری رسائی نہیں کہ ہم جانچ سکیں کہ آیا احکام لینے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ہے۔ لہذا اگر نبی معصوم نہ ہوں تو دین پر اعتبار نہ رہے گا۔
بخلاف امام کے کہ وہ بارگاہ احدیت سے احکام نہیں لیتا،اس پر وحی نہیں آتی ،اس کا کام صرف یہ ہے کہ نبی کے پہنچائے ہوئے احکام، یعنی قرآن و حدیث کی اشاعت و حفاظت کرے اور انہیں کی تنقیح کرتا رہے،امام کا ماخذ سب کے پیش نظر ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا علم ہو سکتا ہے اور دین میں کوئی اشتباہ پیدا نہیں ہو سکتا ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ کلیہ صحیح ہو کہ معصوم کے نائب کا بھی معصوم ہونا ضروری ہے تو چاہیے کہ تمام علمائے مجتہدین بھی معصوم ہو جائیں۔کیوں کہ بالاتفاق علمائے مجتہدین نائب نبی یا نائب امام ہیں،علمائے مجتہدین کو جانے دیجیے، خود امام اپنے زمانے میں جن کو اپنا نائب مقرر کر کے اطراف و جوانب میں روانہ کرتا ہے،ان کا معصوم ہونا ضروری ہو گا ،مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں جن جن لوگوں کو اپنی طرف سے کسی مقام کا حاکم بنایا اور ان کو اپنا نائب قرار دیا، ان سب کو معصوم کہنا چاہیے، حالاں کہ آ ج تک مخالفین(شیعہ)میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہو ا اور نہ ہو سکتا ہے۔کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نائبوں نے جو جو ظلم کیے ہیں۔کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود ہمیشہ اپنے نائبوں کے شاکی رہے ہیں اور ان کی خیانتوں پر افسوس فر مایا۔
پس اب یا تو حضرات مخالفین اپنے اجماع کے اور بداہت کے خلاف تمام علماء مجتہدین اورنُوّاب أئمہ کے معصوم ہونے کے قائل ہو جائیں۔
اور پھر اس کے بعد کھلم کھلا ختم نبوت کا انکار کرکے اس امر کا اقرار کر لیں کہ امام سب کاموں میں نائب نبی ہوتا ہے،اس پر بھی وحی اترتی ہے۔(واضح رہے کہ شیعوں کے نزدیک ائمہ پر بھی مقدس وحی کا نزول ہوتا ہے اور ان کو تحلیل و تحریم کا بھی اختیار ہوتا ہے ،شیعوں کے نظریہ امامت،پر مکمل اور مدلل بحث سورة الانبیاء کی آیت وجعلنا ہم ائمة یھدون بأمرنا:73 کی تفسیر کے ضمن میں آئے گی۔ان شاء اللہ) اور وہ اپنے وحی کے احکام کی تبلیغ کرتا ہے ،نہ قرآن و حدیث کی اور یا عصمت ائمہ کے عقیدہ کفریہ سے تائب ہو کر سچے مومن بن جائیں۔(تحفہ خلافت، امام اہل سنت مولانا عبدالشکور لکھنوی:ص:72:73)۔
عصمت ائمہ پر شیعہ حضرات کی دوسری دلیل
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلا﴾ (النساء:59) (اے ایمان والو!حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول اور حاکموں کا، جو تم میں سے ہوں،پھر اگر جھگڑپڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے، اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر۔)
شیعہ حضرات اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں دو دعوے کرتے ہیں۔
اس آیت کریمہ اولی الامر سے (بارہ)ائمہ مراد ہیں۔
نیز آیت کریمہ میں اللہ رسول اور امراء کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے، جو اس دعوی پر واضح دلیل ہے کہ امام بھی رسول کی طرح معصوم ہوتا ہے، بصورت دیگر ا ن تینوں کی اطاعت کا یکساں حکم نہ ہوتا۔
دوسری دلیل کا تجزیہ
اس آیت کریمہ سے ”عصمت امام“ کا مطلب اخذ کرنا سراسر مغالطہ دینے کی کوشش ہے۔کیوں کہ اللہ ،رسول ،اور اولی الأمر (ائمہ)کی اطاعت کا حکم یکساں نہیں ہے بلکہ الله، رسول،کی اطاعت اور ائمہ کی اطاعت میں ایک بنیادی فرق ہے جو اسی آیت کے دوسرے حصے سے نمایا ں ہے ﴿فان تنازعتم فی شیٴ فردوہ الی اللہ ورسولہ﴾(پھر اگر جھگڑپڑو کسی چیز میں تو اس کورجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے اللہ پر، قیامت کے دن پر)امر ا اور رعیت کے مابین کھڑے ہونے والے تنازع کو ختم کرانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ۔اگر ائمہ معصوم ہوتے تو تنازع نہ ہوتا،امت کا ہرفرد ان کے اشارہ آبرو پر سرخم تسلیم کرتا، لیکن یہاں تنازع کا سوال اس لیے پیدا ہوا ہے کہ امرا معصوم نہیں ہیں،غلطی کر سکتے ہیں،راہ حق سے بھٹک سکتے ہیں، اس لیے رجوع کا حکم امام کی طرف نہیں ہے۔
آیت کا یہ حصہ شیعوں کے نظریہ عصمت ائمہ کی پوری عمارت منہدم کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیعوں کے خانہ ساز راویوں نے پریشان ہو کر فوراً ایک روایت گھڑلی کہ یہ آیت تحریف شدہ ہے، اصل آیت میں رعایا کا آپس میں تنازع ہو جانے کی صورت میں رجوع کا حکم تینوں (اللہ ،رسول اور اولی الأمر)کی طرف تھا۔لیکن”محرفین“نے اس آیت سے اولی الامر کا لفظ نکال دیا،چناں چہ تفسیر صافی میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:
القمی عن الصادق قال نزل فان تنازعتم فی شیٴ فردوہ الی اللہ والی الرسول والی اولی الامر منکم، وفی الکافی والعیاشی عن الباقر: انہ تلا فی ہذہ الایة ہکذا فان خفتم تنازعاً فی امر فردوہ الی اللہ والی الرسول والی اولی الامر منکم․ قال:کذا نزلت․ وکیف یامرہم اللہ عزوجل بطاعتہ وولاة الأمر ویرخص فی تنازعتم؟(تفسیر صافی،النساء، تحت آیة رقم :59)
قمی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی ( فان تنازعتم فی شیٴ فردوہ الی اللہ والی الرسول والی اولی الامر منکم)یعنی جب کسی معاملے میں تمہارا اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ ورسول اور ان امراء کی طرف لوٹاؤجو تم سے ہوں۔
”کافی“:اور” عیاشی“میں امام باقر سے روایت ہے کہ انہوں نے بھی اس آیت کو اسی طرح پڑھا… ان کے بقول یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی تھی، کیوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی امراء کی اطاعت کا حکم بھی دے پھر ان سے تنازع کرنے کی اجازت بھی دے؟
جس مذہب کے تمام دلائل ”عقیدہ تحریف القرآن“کی کوکھ سے جنم لیتے ہوں وہاں قرآن وسنت کی کون سے دلیل کا ر گر ہو سکتی ہے۔؟(شیعہ عقیدہ تحریف القرآن کی تفصیلی بحث آگے آئے گی۔ان شاء اللہ )
ایک شبہے کا ازالہ
واضح رہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ پر امرا کی طرف بھی رجوع کرنے کا حکم ملتا ہے۔﴿وَإِذَا جَاء ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ ردُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ﴾․(النساء : 83) (اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اوراگر اس کو پہنچادیتے رسول تک اور اپنے حاکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو اُن میں تحقیق کرنے والے ہیں۔) اس آیت میں امرا سے رجوع کا حکم دیا جارہا ہے،لیکن اس رجوع کا تعلق شرعی معاملات سے نہیں، بلکہ امن و خوف کی خبروں سے ہے، جو افواہ بن کر معاشرے میں افراتفر ی کا ماحول پیدا کرتی ہیں۔
ایسی خبروں کے متعلق ہدایت دی جارہی ہے کہ انہیں افواہ بنانے کے بجائے بارگاہ رسالت اور امرا کو باخبر کیا جائے، تاکہ وہ حقیقت حال سے واقف ہوکر آئندہ کی حکمت عملی مرتب کریں۔
لہٰذا اس آیت میں خاص امور میں امیر کی طرف رجوع کرنے کے حکم سے ”عصمت امام “کا شبہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔
مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام اور سید مودودی صاحب کی قلمی شوخیاں
مولانا مودودی صاحب کے علمی و فکری لٹریچر کی پوری سرگردانی کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ موصوف کی ذاتی خوبیاں اور صلاحیتیں لائق تحسین اور قابل اعتراف ہیں، بایں ہمہ ان کے علمی مزاج کی دو خامیاں ایسی ہیں جن سے چشم پوشی کرنا حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔
موصوف ایک صاحب طرز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ زود نویس تھے۔ظاہر ہے کہ بہت زیادہ لکھنے کے معنی یہ ہیں کہ خیالات و افکار کی جو لہریں وادی قلب میں اتریں انہیں میزان شریعت سے گزار ے بغیر صفحہ قرطاس پر اتاردیا جائے۔
مغرب کے فلسفہ تہذیب و تمدن پر عقابی نظر اور ناقدانہ رائے رکھنے کے باوجود دینی علوم و معارف سے ان کا تعلق سطحی نوعیت کا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کا اشہب خامہ مغربی فکروفلسفہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے میدان کا ر زار میں اتر کر ایسی جو لانیاں دکھاتا ہے کہ زبان سے بے اختیار دادو ستائش کے کلمات نکل جاتے ہیں، لیکن جب یہی قلم مذہبی موضوعات پر اٹھتا ہے تو قدم قدم پہ ٹھوکریں کھاتا ہے، حتی کہ حریم نبوت تک پہنچ کر بھی ادب سے ناآشنا رہتا ہے۔
ان دو خامیوں سے ان کی علمی حیثیت مجروح اور ان کی تحریریں اور تقریریں تضاد بیانی کا شکار ہوگئیں۔
چناں چہ عصمت انبیائے علیہم السلام جیسا ایک سیدھا ساد ھا اور بے غبار مسئلہ بھی ان کی قلمی رنگینیوں کی زد سے نہ بچ سکا، چناں چہ ایک جگہ تو اہل سنت کی موافقت میں لکھتے ہیں ۔
”نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے، لیکن بشر کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود اور جملہ انسانی جذبات، احساسات وخواہشات رکھتیہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا، اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے، جن کے مقابلے میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً وحی جلی کے ذریعے اس کی اصلاح فرما دیتا ہے۔“ (تفہیم القرآن جلددوم، سورة یوسف تحت آیة رقم :24 طبع دوم، 1958) اب ان کی وہ تحریریں بھی پڑھیے جہاں وہ مقام نبوت کی رفعتوں سے بے نیاز ہو کر بلادھڑک لکھتے ہیں :
”نبی ہونے سے پہلے تو حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ایک بہت بڑا گناہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا۔“(رسائل و مسائل ،حصہ اول ص:31 طبع دوم)
حضرت موسی علیہ السلام کے ہاتھوں ایک حربی کافر بلا ارادہ قتل ہو گیا تھا، حربی ہونے کی وجہ سے اس کا قتل ویسے بھی مباح تھا۔لیکن سید مودودی صاحب اسے بہت بڑا گناہ قرار دے رہے ہیں ۔
”موسی ں کی مثال اس جلد فاتح باز کی سی ہے جو اپنے اقتدار کا استحکام کیے بغیر مارچ کرتا ہواچلاجائے اور پیچھے جنگل کی آگ کی طرح مفتوحہ علاقے میں بغاو ت پھیل جائے۔“(رسالہ ترجمان القران ج29 عدد4:ص:5)
یعنی صاحب عزم پیغمبر بھی انتظامی امور سے ناواقف تھے۔
حضرت داؤد علیہ السلام پر خواہش نفس کی پیروی کا الزام
”حضرت داؤد علیہ السلام کے فعل میں خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا۔“(تفہیم القرآن ج 4،سورہ ص،تحت آیة رقم :ص 327 طبع اول)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
حضرت داؤد علیہ اسلام نے اپنے عہد کی اسرائیلی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہوکر اور یا سے طلاق کی درخواست کی تھی۔“(تفہیمات ،حصہ دوم ص:42،طبع دوم)
حضرت یونس علیہ السلام پر کوتاہی کا الزام
” حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتا ہیاں ہوگئی تھیں…جب نبی ادائے رسالت میں کوتاہی کر گیا۔“(تفہیم القرآن ،حصہ دوم ،سورة:ص ،تحت آیہ رقم ،98،طبع سوم)
حضرت یوسف علیہ السلام پر ڈکٹیٹر شپ کا الزام
حضرت یوسف علیہ السلام کے ارشاد :﴿ اجعلنی علیٰ خزائن الارض﴾(سورة یوسف:55)(مجھ کو مقرر کر ملک کے خزانوں پر)کے بارے میں فرماتے ہیں
”یہ محض وزیر مالیات کے منصب کا مطالبہ نہیں تھا، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں،بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو پوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے۔“(تفہیمات ،ص:122 طبع چہارم)
حضرت یوسف علیہ السلام پر ڈکٹیٹر شپ کے مطالبے کا الزام اور ان کے عدل وانصاف پر مبنی اقتدار کو ایک ظالم اور کافر بدنام زمانہ حاکم مسولینی کے اقتدار سے تشبیہدینا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟!
حضرت نوح علیہ السلام پر بشری کمزوری سے مغلوب ہونے کا الزام”بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلی واشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے۔“(تفہیم القرآن ،سورة ص:تحت آیہ رقم ۔46 ،حصہ دوم، طبع چہارم)
سید مودودی صاحب کا ”لطیف نکتہ“
”عصمت دراصل انبیائے کے لوازم سے نہیں ہے اور یہ ایک لطیف نکتہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہہر نبی سے کسی نہ کسی وقت حفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں ہو جانے دی ہیں تاکہ لوگ انبیا کو خدانہ سمجھیں اور جان لیں کہ یہ بھی بشر ہیں۔“(تفہیمات ،ج2 ،ص :43 :طبع دوم)
انبیاء کی بشریت جاننے کے لیے اس انوکھے معیار کا انکشاف ہمیں اپنی علمی زندگی میں پہلی بار ہواہے، کیا بشریت کا پتہ لگانے کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ اہل وعیال رکھتے ہیں ؟کھاتے پیتے ہیں؟
الغرض انبیاء علیہم السلام کے متعلق مولانا سید مودودی کے قلم سے نکلنے والے یہ شہ پارے سوئے ادب میں داخل ہیں یا نہیں ؟اس کا ایک معیار تو بقول حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کے یہ ہے کہ:
اگر یہی فقرے ،یہی تعبیرات وتمثیلات خود مولانا موصوف کے حق میں استعمال کی جائیں تو وہ سوئے ادب میں شمار ہوں گی یانہیں؟مثلاً اگر کہا جائے کہ مولانا ڈکٹیٹر تھے،اپنے دور کے مسولینی تھے،جذبہ جاہلیت سے مغلوب ہوجاتے تھے۔حاکمانہ اقتدار کا نامناسب استعمال کر جاتے تھے، اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتے تھے،ان کے کاموں میں خواہش نفس کا بھی کچھ دخل ہوتا تھا۔
یقین جانیے! مولانا کا کوئی مداح اور عقیدت مند یہ الزامات برداشت نہیں کرے گا ۔اگر یہ جملے مولانا کے روبرو دھرائے جاتے تو وہ بھی صدائے احتجاج بلند کرتے ۔اب آپ ہی انصاف فرمائیں جو الفاظ سید مودودی کی ذات مآب کے لیے تنقیص شان کے آئینہ دار ہوں، وہ انبیا علیہم السلام جیسے مقدس گروہ کے حق میں محترم اور معزز کیسے ہوسکتے ہیں؟اپنی شان تقدیس کے متعلق تو لکھتے ہیں۔
”خدا کے فضل سے میں نے کوئی کام یا کوئی بات جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں کیا اور کہا ،حتی کے ایک ایک لفظ جو میں نے اپنی تقریر میں کہا ہے ،یہ سمجھتے ہوئے کہاہے اس کا حساب مجھے خدا کو دینا ہے، نہ کہ بندوں کو، چناں چہ اپنی جگہ بالکل مطمئن ہوں کہ میں نے کوئی ایک لفظ بھی خلاف حق نہیں کہا“۔(رسائل مسائل حصہ اول ،ص:2،3 طبع دوم)
ایک تقریرمیں فرماتے ہیں:
”میرے رب کی مجھ پر عنایت ہے کہ اس نے میرے دامن کو داغوں سے محفوظ رکھا۔“(تقریر چار روزہ کانفرنس ،جماعت اسلامی بمقام لاہور، 25 تا 28اکتوبر 1963ء ،روزنامہ مشرق لاہور،26اکتوبر)
مولانا غیر معصوم ہوتے ہوئے بھی کبھی جذبات سے مغلوب نہیں ہوئے اور ان کادامن داغوں سے محفوظ رہا۔اور انبیائے کرام کی معصوم جماعت جن کی راہ نمائی کے لیے عرش الہٰی سے وحی اترتی تھی، وہ ان کے خیال کے مطابق کبھی جذبات سے مغلوب ہو جاتی اور کبھی خواہش نفس کا شکار ہو جاتی۔فیاللعجب
اس کا دوسرا معیا ریہ ہے کہ اہل زبان ان فقروں سے کیا تاثر لیتے ہیں۔ان کے عرف میں یہ سوئے ادب میں داخل ہیں یا نہیں ؟اگر ان دونوں معیاروں پر جانچنے کے بعد طے ہو جائے کہ ان جملوں اور فقروں میں سوء ادب کا پہلو نمایاں طور پر پایا جاتا ہے توان کے عقیدت مندو ں کو چاہے وہ ایسی تمام تحریریں جو سوئے ادب پر مبنی ہیں ان کی اشاعت یکسر روک کر اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کے خواست گار ہوں، کیوں کہ انبیائے کرام کے حق میں ادنی تنقیص بھی سلب ایمان کی علامت ہے۔
﴿فَتَلَقَّی آدَمُ مِن رَّبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ، قُلْنَا اہْبِطُواْ مِنْہَا جَمِیْعاً فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی فَمَن تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ، وَالَّذِیْنَ کَفَرواْ وَکَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا أُولَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ ﴾․(البقرہ:38-37)
پھر سیکھ لیں آدم نے اپنے رب سے چند باتیں، پھر متوجہ ہوگیا اللہ اس پر، بے شک وہی ہے توبہ قبول کرنے والا، مہربان ،ہم نے حکم دیا نیچے جاوٴ یہاں سے تم سب ،پھر اگر تم کو پہنچے میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو چلا میری ہدایت پر نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ منکرہوئے اور جھٹلایا ہمار ی نشانیوں کو ،وہ ہیں دوزخ میں جانے والے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
ربط…گزشتہ آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش کا ذکر تھا، ان آیات میں ان کی توبہ اور قبول توبہ کا ذکر ہے ۔
تفسیر
﴿فَتَلَقَّی آدَمُ﴾حضرت آدم علیہ السلام سے جب بھولے سے لغزش صادر ہوگئی تو وہ فرط ندامت میں ایک عرصے تک آہ وفغاں میں مصروف رہے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی نے انہیں کچھ ایسے کلمات سکھائے جسے زبان پر لاتے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرماکر اپنی آغوش رحمت میں لے لیا۔وہ کلمات کون سے تھے؟ان میں مختلف روایات ہیں،تاہم قرآن کریم میں یہ الفاظ حضرت آدم وحوا علیہما لسلام کی زبان سے منقول ہیں۔ ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن﴾(الاعراف:22)
ترجمہ:”بولے وہ دونوں اے رب ہمارے! ظلم کیا ہم نے اپنی جان پر اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے توہم ضرور ہوجائیں گے تباہ“
﴿قُلْنَا اہْبِطُواْ منھا جَمِیْعاً﴾نیچے اترنے کا حکم دوبارہ ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر دوبار اترنے کا حکم ہوا، لغزش کے صادر ہونے کے بعد پھر قبول توبہ کے بعد۔پہلا حکم ،حاکمانہ طرز پر تھا اور اس سے اظہار ناراضگی مقصود تھی۔دوسرا حکم حکیمانہ طرز پر اور منصب خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے ہے۔لہٰذا کسی کو تکرار کا شبہ نہ ہونا چاہیے۔ ﴿فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی…﴾جو لوگ دنیا کے ظلمت کدہ میں احکام الہی کی روشنی میں زندگی بسر کریں گے وہ فتنہ محشر کی ہولناکیوں کے خوف،اورحزن وملال کی کسی کیفیت سے دوچار نہ ہوں گے۔
واضح رہے کہ صدمہ دوطرح کا ہوتاہے، کسی حادثے سے قبل ،یا کسی حادثے کے بعد ،مثلاًمریض کے خدشہ موت سے جوصدمہ لگارہتاہے اسے خوف کہتے ہیں اور مریض کے فوت ہونے کے بعد جوصدمہ لاحق ہوتاہے اسے حزن کہتے ہیں،اولیاء اللہ بروز قیامت ان دونوں سے محفوظ رہیں گے۔
ممکن ہے یہاں کسی کوشبہ ہو کہ احادیث رسول کریم صلى الله عليه وسلم میں توبارہا یہ تذکرہ آیا ہے کہ اس روز بڑے بڑے مقرب بند ے بھی خوف زدہ ہوں گے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث رسول کریم صلى الله عليه وسلم میں جس خوف کا تذکرہ ہے ،اس سے خوف طبعی مراد ہے، یعنی طبعاًتو وہ بھی خوف زدہ ہوں گے، لیکن کوئی خوف ناک واقعہ ان پر نہیں آئے گا، یہ بالکل ایسا ہے جیسے مجلس عدالت میں وکیل ملزم سے کہہ دے کہ اطمینان رکھو، تمہیں اس مقدمے میں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ۔اس سے ملزم مطمئن تو ہو جاتا ہے، لیکن طبعاً خوف لگارہتا ہے۔
﴿والذین کفروا....﴾سے دوسرے گروہ کا تذکرہ ہے، جو احکام الہٰی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ان کا انجام یہی ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
﴿یٰبَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَوْفُواْ بِعَہْدِیْ أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ﴾․(البقرة:40)
اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میرے وہ احسان جو میں نے تم پر کیے اور تم پورا کرو میرا اقرار تو میں پورا کروں تمہارا اقرار اور مجھ ہی سے ڈرو۔
تفسیر
بنی اسرائیل کو انسانی تاریخ میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے،کئی سو سالوں تک توحید کا علم ان کے ہاتھوں میں لہراتا رہا ،تقریباًدو ہزار سال تک اس نسل اور قوم سے انبیاء اور رسول پید اہوتے رہے، حضرت داوٴد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام ،جیسے عظیم الشان بادشاہ اور حضرت یوسف علیہ السلام جیسے وزیر باتدبیر اسی قوم سے اٹھے۔قرآن کریم میں سورة بقرة سے سورة الصف تک تقریباًچالیس بار ان کا تذکرہ ہوا ہے۔اس آیت میں انسانیت کے اسی مخصوص طبقے سے خطاب فرماکر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کرائی، شاید شرما حضوری ہی میں ایمان قبول کرلیں۔
بنی اسرائیل کے عروج وزوال کی داستانوں کے ہر موڑ میں عبرت وبصیرت کے کئی سامان اور ہدایت وضلالت کے کئی نشان ہیں،اس اہمیت کے پیش نظر ان کا تفصیلی تعارف بھی کرادیا جاتاہے، تاکہ ان سے متعلقہ مضامین سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
بنی اسرائیل کا تعارف
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا اصل وطن ”بَابِل“کا علاقہ تھا،جہاں بت پرست بادشاہ نمرود کی حکومت تھی، آپ نے اسے توحید کی دعوت دی تو بادشاہ اور رعایا نے طیش میں آکر آپ کو آگ کی بھٹی میں جھونک دیا، قدرت حق سے وہ آگ گلزار بن گئی ،پھر آپ بَابِل سے ہجرت فرماکرفلسطین کے علاقے کنعان تشریف لے آئے،آپ نے تین عقد فرمائے، پہلی بیوی حضرت سارہ علیہا السلام تھیں،دوسری حرم محترمہ حضرت ہاجرہ علیہاالسلام تھیں،تیسر اعقد حضرت سارہ علیہا السلام کی وفات کے بعد حضرت قتورہ علیہاالسلام سے فرمایا۔
حضرت ہاجرہ علیہاالسلام سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے، حضرت ہاجرہ علیہا السلام ہی تھیں جنہیں آپ مکہ معظمہ کے چٹیل میدانوں میں بحکم خداوندی چھوڑ گئے تھے، اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام گود میں تھے ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد مکہ معظمہ ہی میں آباد ہوگئی تھی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جداعلی حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں۔
حضرت سارہ علیہا السلام کے بطن مبارک سے حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے ان کی اولاد کنعان ہی میں مقیم تھی، حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند یعقوب علیہ السلام تھے، جن کا لقب اسرائیل تھا، اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے ”الله کا برگزیدہ بندہ“ یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ آپ کے بارہ بیٹے تھے، جب آپ کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں زمام اقتدار سنبھالی تو سب بھائی کنعان سے مصر چلے آئے اور حضرت یوسف کی وفات کے بعد بھی وہیں آباد رہے، اگرچہ انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا، پشتہاپشت وہاں رہنے سے بارہ بھائیوں کی اولاد بارہ قبیلوں میں تقسیم ہو چکی تھی، ان کی تعداد چھے لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
چوں کہ یہ لوگ مصر کے اصل باشندے نہیں تھے، اس لیے وہاں کے مقامی باشندے ”قبطیوں“ نے انہیں بری طرح غلام بنا رکھا تھا، بیگار میں پکڑ لیتے، ظلم وستم کا پہاڑ توڑتے، حتی کہ ان کے لڑکوں کو ذبح کر دیتے، بنی اسرائیل کے پاس ان مظالم کا جواب سوائے رونے دھونے کے کچھ نہ تھا۔
حضرت موسی علیہ السلام کی بعثت اور دعوت
ان حالات میں الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر احسان فرماتے ہوئے ان میں حضرت موسی علیہ السلام کو رسول بنا کر مبعوث فرمایا، جنہوں نے فرعون کو توحید کی دعوت پیش کی اور بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے سے روکا، فرعون لسانِ نبوت پر کان دھرنے کے بجائے مخالفت پر اتر آیا۔
بالآخر حضرت موسی علیہ السلام راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر مملکت فرعون سے نکلنے کی غرض سے چل کھڑے ہوئے ، فرعون کو خبر ہوئی تو وہ بھی لشکر لے کر آپ کے تعاقب میں چل پڑا۔ اتنے میں بنی اسرائیل ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سمندر تھا، دھول اڑاتا ہوا فرعونی لشکر تھا۔
الله تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی عصا مبارک سمندر پر ماری جس سے سمندر پھٹا اور مختلف راستے بن گئے ، بنی اسرائیل ان راستوں پر چل کر بسلامت گزر گئے، ان کے دیکھا دیکھی فرعون نے بھی اپنا لشکر سمندر میں اتار دیا، جب درمیان میں پہنچا تو سمندر مل گیا اور فرعون اپنے لشکریوں سمیت غرق آب ہو گیا۔
بنی اسرائیل وادی تیہ میں
سمندر پار کرنے کے بعد اپنے آبائی علاقے میں جانے کے لیے رختِ سفر باندھا ،آبائی علاقہ زیادہ دور نہیں تھا، لیکن حضرت موسی علیہ السلام کو ستانے اور اذیت دینے کی وجہ سے چالیس سال یہ وادی تیہ میں صحرائی بگولوں کی طرح سرگرداں رہے ( صبح کو جہاں سے چلتے شام کو وہیں پہنچ جاتے)، جب موسی علیہ السلام جبل طور پر توریت شریف لینے گئے تو انہوں نے پیچھے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی، علاوہ ازیں عجیب وغریب مطالبے شروع کر دیے مثلاً الله تعالیٰ کو اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ہم اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ نہ لیں۔ الله تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی غذا من وسلوی کے متعلق کہنے لگے کہ ہم ایک ہی چیز پر صبر نہیں کرسکتے ہمیں سبزی ، پیاز ، کھیرا چاہیے۔ اسی طرح کے مختلف واقعات اسی وادی میں پیش آئے، حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے زمانہ میں ان کا علاقہ فتح ہوا اور بیت المقدس میں داخلہ نصیب ہوا۔ واضح رہے کہ بنی اسرائیل کو یہودی بھی کہا جاتا ہے۔
یہودی مدینہ میں کب آئے
اس بارے میں مؤرخین کی رائے یہ ہے کہ جب بخت نصر ظالم اورکافر بادشاہ نے بیت المقدس پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو یہودیوں کی ایک جماعت نے حجاز کا رخ کرکے وادی القری اور تیماء اورمدینہ منورہ میں ڈیرہ ڈال دیا، یہاں پہلے سے بنی جرہم اور عمالقہ کے کچھ لوگ آباد تھے، جنہوں نے کھجوروں کے باغ اور زراعت کا پیشہ اپنا رکھا تھا، یہودی ان کے ساتھ گھل مل کے رہنے لگے، جب آبادی بڑھی اور غلبہ حاصل ہوا تو مقامی آبادی کو باہر نکال کر ان کی املاک اپنے زیر تسلط کر لیں، اسی حال میں یہ لوگ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ ( فتوح البلدان للبلاذری،ص:229)
بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھاہے کہ یہودی علماء نے توریت شریف میں حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے متعلق پڑھ رکھا تھا کہ آپ ایسے شہر کی طرف ہجرت فرمائیں گے جہاں بکثرت کھجوروں کے باغ ہوں گے اور وہ شہر دو پتھریلی زمینوں کے درمیان ہو گا چناں چہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت اس شہر کی تلاش میں نکلی مدینہ منورہ پہنچ کر جب اس کی جغرافیائی کیفیت دیکھی تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہی وہ شہر ہے جہاں آپ صلى الله عليه وسلم ہجرت فرمائیں گے ۔ (معجم البلدان للحموی:5/82)
واضح رہے کہ ہجرت سے قبل مدینہ منورہ کا نام یثرب تھا، بعد میں مدینة الرسول ، طیبہ وغیرہ کے ناموں سے معروف ہوا۔
اوس وخزرج مدینہ میں
یہودیوں کے بسنے کے سالہا سال بعد یمن کے دو بت پرست قبیلے ”اوس“ و”خزرج“ بھی وہیں آکر آباد ہو گئے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تومجموعی طور پر وہاں تین قبیلے یہودیوں کے یعنی۔ ۱ بنی نضیر،۲۔ بنی قریظہ۳۔ بنیقینقاع اور دو قبیلے یمن کے ”اوس“ و”خزرج“ آباد تھے، انہوں نے تو اسلام قبول کر لیا اور انصار مدینہکے نام سے معروف ہوئے ، لیکن یہودیوں نے من حیث المجموع اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آگے آنے والی آیات میں انہیں کو دعوت حق دی گئی ہے۔
ایک شبہ او ر اس کا ازالہ
ممکن ہے یہاں کسی کو شبہ ہو کہ ان آیات میں مخاطب تو وہ لوگ ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے، لیکن و اقعات وہ بیان کیے جارہے ہیں جو سینکڑوں اور ہزاروں بر س قبل ہوئے تھے، مثلاً تم نے بچھڑا بنایا، ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا۔ کیوں کر درست ہو سکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کہ خطاب کبھی شخصی حیثیت سے ہوتا ہے اور کبھی قومی حیثیت سے ان مقامات میں خطاب شخصی حیثیت سے نہیں بلکہ قومی حیثیت سے کیا جارہا ہے لہٰذا اس طرح کے خطاب میں کچھ شبہ نہ ہونا چاہیے۔
ایک قادیانی کا فریب استدلال
حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی رحمہ الله تعالیٰ ایک قادیانی کے فریب استدلال کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جب غلام احمد قادیانی مدعی نبوت نے اپنے یہ جھوٹے الہامات شائع کیے کہ خدا نے محمدی بیگم سے میری شادی کر دی ہے اور وہ ہر مانع کو دور کرکے میرے نکاح میں آوے گی اور ناممکن ہے کہ خدا کا وعدہ ٹل جاوے وغیرہ وغیرہ اور نتیجہ یہ ہوا کہ غلام احمد مر گیا اور محمدی بیگم کی صورت بھی نصیب نہ ہوئی، نکاح میں آنا تو درکنار ۔ تو مسلمانوں کی طرف سے قادیانیوں پر اعتراض کیا گیا کہ اگر تمہارے نبی سچے تھے تو یہ الہامات جھوٹے کیوں ہوئے؟ اس کے جواب میں خلیفہ نور الدین نے اپنی خلافت کا حق ادا کرتے ہوئے یہ کہا کہ بسا اوقات خطاب ایک شخص کو ہوتا ہے اور مراد دوسرا ہوتا ہے … جیسا کہ یا بنی اسرائیل میں خطاب ان بنی سرائیل کو ہے جو جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے اورمراد ان سے اگلے آباؤ اجداد ہیں ، اس طرح جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں۔ حالاں کہ فارس وروم خلافت حضرت عمر رضی الله عنہ میں فتح ہوئے، پس ان الہامات میں مرزا غلام احمد قادیانی سے ان کی اولاد مراد ہے او رمحمدی بیگم سے خود محمدی بیگم یا اس کی کوئی اولاد مراد ہے ۔ اور مطلب یہ تھاکہ تمہاری اولاد سے محمدی بیگم یا اس کی کسی اولاد کی شادی ہوئی، لہٰذا یہ الہامات جھوٹے نہیں۔
لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے یہ جواب محض لغو ہے، کیوں کہ اول تو یہ مجاز ہے او رمجاز کے لیے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے ، قرآن وحدیث میں قرائن موجود ہیں اور مرزا کی وحی میں اس مجاز کا کوئی قرینہ نہیں تھا، کیوں کہ مرزا عمر بھی یہی سمجھتا رہا کہ خود میری شادی خاص محمدی بیگم سے ہو گی اور وہ اسی تمنامیں مر گیا۔
دوسرا یہ کہ یہ قاعدہ ہر فعل میں صحیح نہیں کہ یوں کہا جائے کہ میری فلاں عورت سے شادی ہوئی اور مراد لیا جائے کہ میرے بیٹے کی اس کی بیٹی سے شادی ہوئی، اس کینظیر کسی جگہ ہو تو دکھلائی جاوے او راگر اس قاعدے کو کلیہ تسلیم کیا جاوے تو پھر قادیانیوں پر یہ اشکال ہو گا کہ جن الہامات میں مرزا کو نبی یا رسول، یا چنیں وچناں کہا گیا ہے، ان میں اس کی کیا دلیل ہے کہ خود مرزا مراد ہے، شاید وہاں بھی اس کی کوئی اولاد مراد ہو ۔ اگر اس کا وہ جواب دیں کہ مرزا نے ان سے ایسا ہی سمجھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرزا نے نکاح کے متعلق بھی یہی سمجھا کہ خود میرا نکاح ہو گا، نہ کہ میری اولاد کا، اگر وہاں فہم مرزا حجت ہے تو یہاں بھی ہونی چاہیے او راگر یہاں حجت نہیں تو وہاں بھی نہ ہونی چاہیے۔ آخر وجہ فرق کیا ہے ؟
اگر ان اعتراضات کا جواب کسی قادیانی کے پاس ہو تو ہم سننا چاہتے ہیں۔“ (حل القرآن، البقرہ، تحت آیہ:47)
﴿وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلاَ تَکُونُواْ أَوَّلَ کَافِرٍ بِہِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآیَاتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً وَإِیَّایَ فَاتَّقُونِ، وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون﴾․(سورہ البقرہ: 41 تا42)
ترجمہ:” اور مان لو اس کتاب کو جو میں نے اتاری ہے، سچ بتانے والی ہے، اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے او رمت ہو سب میں اوّل منکر اس کے اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا اور مجھ ہی سے بچتے رہو اور مت ملاؤ صحیح میں غلط او رمت چھپاؤ سچ کو جان بوجھ کر“۔
تفسیر
﴿وَلاَ تَکُونُواْ أَوَّلَ کَافِرٍ بِہ﴾… اس آیت کی تفسیر سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہودی اہل کتاب تھے او ران کے علمی رعب کی دھاک پورے بلاد عرب میں چھائی ہوئی تھی ، انہوں نے توریت میں موجود آپ صلى الله عليه وسلم کی صفات مبارکہ کی بدولت آپ صلى الله عليه وسلم کی شخصیت ورسالت سے اچھی طرح واقفیت حاصل کر لی تھی، ان کے مقابلے میں نصاری بھی اہل کتاب تھے، لیکن تا حال ان تک دعوت حق نہیں پہنچی تھی، اس لیے یہودیوں کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ ایمان کی دولت سے دامن سمیٹ کرالسابقین الأولین کی صف میں کھڑے ہو جاتے، لیکن ان کی کج فطری کی انتہا دیکھیے کہ انہوں نے کافرانہ روش میں پہل کر کے اپنی بدنصیبی کے سارے دروازے کھول لیے، اس آیت میں ان کی اس روش پر تنبیہ کی گئی ہے۔
”حضرت داؤد علیہ السلام کے فعل میں خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا۔“(تفہیم القرآن ج 4،سورہ ص،تحت آیة رقم :ص 327 طبع اول)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
حضرت داؤد علیہ اسلام نے اپنے عہد کی اسرائیلی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہوکر اور یا سے طلاق کی درخواست کی تھی۔“(تفہیمات ،حصہ دوم ص:42،طبع دوم)
حضرت یونس علیہ السلام پر کوتاہی کا الزام
” حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتا ہیاں ہوگئی تھیں…جب نبی ادائے رسالت میں کوتاہی کر گیا۔“(تفہیم القرآن ،حصہ دوم ،سورة:ص ،تحت آیہ رقم ،98،طبع سوم)
حضرت یوسف علیہ السلام پر ڈکٹیٹر شپ کا الزام
حضرت یوسف علیہ السلام کے ارشاد :﴿ اجعلنی علیٰ خزائن الارض﴾(سورة یوسف:55)(مجھ کو مقرر کر ملک کے خزانوں پر)کے بارے میں فرماتے ہیں
”یہ محض وزیر مالیات کے منصب کا مطالبہ نہیں تھا، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں،بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو پوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے۔“(تفہیمات ،ص:122 طبع چہارم)
حضرت یوسف علیہ السلام پر ڈکٹیٹر شپ کے مطالبے کا الزام اور ان کے عدل وانصاف پر مبنی اقتدار کو ایک ظالم اور کافر بدنام زمانہ حاکم مسولینی کے اقتدار سے تشبیہدینا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟!
حضرت نوح علیہ السلام پر بشری کمزوری سے مغلوب ہونے کا الزام”بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلی واشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے۔“(تفہیم القرآن ،سورة ص:تحت آیہ رقم ۔46 ،حصہ دوم، طبع چہارم)
سید مودودی صاحب کا ”لطیف نکتہ“
”عصمت دراصل انبیائے کے لوازم سے نہیں ہے اور یہ ایک لطیف نکتہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہہر نبی سے کسی نہ کسی وقت حفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں ہو جانے دی ہیں تاکہ لوگ انبیا کو خدانہ سمجھیں اور جان لیں کہ یہ بھی بشر ہیں۔“(تفہیمات ،ج2 ،ص :43 :طبع دوم)
انبیاء کی بشریت جاننے کے لیے اس انوکھے معیار کا انکشاف ہمیں اپنی علمی زندگی میں پہلی بار ہواہے، کیا بشریت کا پتہ لگانے کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ اہل وعیال رکھتے ہیں ؟کھاتے پیتے ہیں؟
الغرض انبیاء علیہم السلام کے متعلق مولانا سید مودودی کے قلم سے نکلنے والے یہ شہ پارے سوئے ادب میں داخل ہیں یا نہیں ؟اس کا ایک معیار تو بقول حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کے یہ ہے کہ:
اگر یہی فقرے ،یہی تعبیرات وتمثیلات خود مولانا موصوف کے حق میں استعمال کی جائیں تو وہ سوئے ادب میں شمار ہوں گی یانہیں؟مثلاً اگر کہا جائے کہ مولانا ڈکٹیٹر تھے،اپنے دور کے مسولینی تھے،جذبہ جاہلیت سے مغلوب ہوجاتے تھے۔حاکمانہ اقتدار کا نامناسب استعمال کر جاتے تھے، اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتے تھے،ان کے کاموں میں خواہش نفس کا بھی کچھ دخل ہوتا تھا۔
یقین جانیے! مولانا کا کوئی مداح اور عقیدت مند یہ الزامات برداشت نہیں کرے گا ۔اگر یہ جملے مولانا کے روبرو دھرائے جاتے تو وہ بھی صدائے احتجاج بلند کرتے ۔اب آپ ہی انصاف فرمائیں جو الفاظ سید مودودی کی ذات مآب کے لیے تنقیص شان کے آئینہ دار ہوں، وہ انبیا علیہم السلام جیسے مقدس گروہ کے حق میں محترم اور معزز کیسے ہوسکتے ہیں؟اپنی شان تقدیس کے متعلق تو لکھتے ہیں۔
”خدا کے فضل سے میں نے کوئی کام یا کوئی بات جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں کیا اور کہا ،حتی کے ایک ایک لفظ جو میں نے اپنی تقریر میں کہا ہے ،یہ سمجھتے ہوئے کہاہے اس کا حساب مجھے خدا کو دینا ہے، نہ کہ بندوں کو، چناں چہ اپنی جگہ بالکل مطمئن ہوں کہ میں نے کوئی ایک لفظ بھی خلاف حق نہیں کہا“۔(رسائل مسائل حصہ اول ،ص:2،3 طبع دوم)
ایک تقریرمیں فرماتے ہیں:
”میرے رب کی مجھ پر عنایت ہے کہ اس نے میرے دامن کو داغوں سے محفوظ رکھا۔“(تقریر چار روزہ کانفرنس ،جماعت اسلامی بمقام لاہور، 25 تا 28اکتوبر 1963ء ،روزنامہ مشرق لاہور،26اکتوبر)
مولانا غیر معصوم ہوتے ہوئے بھی کبھی جذبات سے مغلوب نہیں ہوئے اور ان کادامن داغوں سے محفوظ رہا۔اور انبیائے کرام کی معصوم جماعت جن کی راہ نمائی کے لیے عرش الہٰی سے وحی اترتی تھی، وہ ان کے خیال کے مطابق کبھی جذبات سے مغلوب ہو جاتی اور کبھی خواہش نفس کا شکار ہو جاتی۔فیاللعجب
اس کا دوسرا معیا ریہ ہے کہ اہل زبان ان فقروں سے کیا تاثر لیتے ہیں۔ان کے عرف میں یہ سوئے ادب میں داخل ہیں یا نہیں ؟اگر ان دونوں معیاروں پر جانچنے کے بعد طے ہو جائے کہ ان جملوں اور فقروں میں سوء ادب کا پہلو نمایاں طور پر پایا جاتا ہے توان کے عقیدت مندو ں کو چاہے وہ ایسی تمام تحریریں جو سوئے ادب پر مبنی ہیں ان کی اشاعت یکسر روک کر اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کے خواست گار ہوں، کیوں کہ انبیائے کرام کے حق میں ادنی تنقیص بھی سلب ایمان کی علامت ہے۔
﴿فَتَلَقَّی آدَمُ مِن رَّبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ، قُلْنَا اہْبِطُواْ مِنْہَا جَمِیْعاً فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی فَمَن تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ، وَالَّذِیْنَ کَفَرواْ وَکَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا أُولَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ ﴾․(البقرہ:38-37)
پھر سیکھ لیں آدم نے اپنے رب سے چند باتیں، پھر متوجہ ہوگیا اللہ اس پر، بے شک وہی ہے توبہ قبول کرنے والا، مہربان ،ہم نے حکم دیا نیچے جاوٴ یہاں سے تم سب ،پھر اگر تم کو پہنچے میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو چلا میری ہدایت پر نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ منکرہوئے اور جھٹلایا ہمار ی نشانیوں کو ،وہ ہیں دوزخ میں جانے والے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
ربط…گزشتہ آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش کا ذکر تھا، ان آیات میں ان کی توبہ اور قبول توبہ کا ذکر ہے ۔
تفسیر
﴿فَتَلَقَّی آدَمُ﴾حضرت آدم علیہ السلام سے جب بھولے سے لغزش صادر ہوگئی تو وہ فرط ندامت میں ایک عرصے تک آہ وفغاں میں مصروف رہے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی نے انہیں کچھ ایسے کلمات سکھائے جسے زبان پر لاتے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرماکر اپنی آغوش رحمت میں لے لیا۔وہ کلمات کون سے تھے؟ان میں مختلف روایات ہیں،تاہم قرآن کریم میں یہ الفاظ حضرت آدم وحوا علیہما لسلام کی زبان سے منقول ہیں۔ ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن﴾(الاعراف:22)
ترجمہ:”بولے وہ دونوں اے رب ہمارے! ظلم کیا ہم نے اپنی جان پر اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے توہم ضرور ہوجائیں گے تباہ“
﴿قُلْنَا اہْبِطُواْ منھا جَمِیْعاً﴾نیچے اترنے کا حکم دوبارہ ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر دوبار اترنے کا حکم ہوا، لغزش کے صادر ہونے کے بعد پھر قبول توبہ کے بعد۔پہلا حکم ،حاکمانہ طرز پر تھا اور اس سے اظہار ناراضگی مقصود تھی۔دوسرا حکم حکیمانہ طرز پر اور منصب خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے ہے۔لہٰذا کسی کو تکرار کا شبہ نہ ہونا چاہیے۔ ﴿فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی…﴾جو لوگ دنیا کے ظلمت کدہ میں احکام الہی کی روشنی میں زندگی بسر کریں گے وہ فتنہ محشر کی ہولناکیوں کے خوف،اورحزن وملال کی کسی کیفیت سے دوچار نہ ہوں گے۔
واضح رہے کہ صدمہ دوطرح کا ہوتاہے، کسی حادثے سے قبل ،یا کسی حادثے کے بعد ،مثلاًمریض کے خدشہ موت سے جوصدمہ لگارہتاہے اسے خوف کہتے ہیں اور مریض کے فوت ہونے کے بعد جوصدمہ لاحق ہوتاہے اسے حزن کہتے ہیں،اولیاء اللہ بروز قیامت ان دونوں سے محفوظ رہیں گے۔
ممکن ہے یہاں کسی کوشبہ ہو کہ احادیث رسول کریم صلى الله عليه وسلم میں توبارہا یہ تذکرہ آیا ہے کہ اس روز بڑے بڑے مقرب بند ے بھی خوف زدہ ہوں گے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث رسول کریم صلى الله عليه وسلم میں جس خوف کا تذکرہ ہے ،اس سے خوف طبعی مراد ہے، یعنی طبعاًتو وہ بھی خوف زدہ ہوں گے، لیکن کوئی خوف ناک واقعہ ان پر نہیں آئے گا، یہ بالکل ایسا ہے جیسے مجلس عدالت میں وکیل ملزم سے کہہ دے کہ اطمینان رکھو، تمہیں اس مقدمے میں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ۔اس سے ملزم مطمئن تو ہو جاتا ہے، لیکن طبعاً خوف لگارہتا ہے۔
﴿والذین کفروا....﴾سے دوسرے گروہ کا تذکرہ ہے، جو احکام الہٰی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ان کا انجام یہی ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
﴿یٰبَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَوْفُواْ بِعَہْدِیْ أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ﴾․(البقرة:40)
اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میرے وہ احسان جو میں نے تم پر کیے اور تم پورا کرو میرا اقرار تو میں پورا کروں تمہارا اقرار اور مجھ ہی سے ڈرو۔
تفسیر
بنی اسرائیل کو انسانی تاریخ میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے،کئی سو سالوں تک توحید کا علم ان کے ہاتھوں میں لہراتا رہا ،تقریباًدو ہزار سال تک اس نسل اور قوم سے انبیاء اور رسول پید اہوتے رہے، حضرت داوٴد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام ،جیسے عظیم الشان بادشاہ اور حضرت یوسف علیہ السلام جیسے وزیر باتدبیر اسی قوم سے اٹھے۔قرآن کریم میں سورة بقرة سے سورة الصف تک تقریباًچالیس بار ان کا تذکرہ ہوا ہے۔اس آیت میں انسانیت کے اسی مخصوص طبقے سے خطاب فرماکر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کرائی، شاید شرما حضوری ہی میں ایمان قبول کرلیں۔
بنی اسرائیل کے عروج وزوال کی داستانوں کے ہر موڑ میں عبرت وبصیرت کے کئی سامان اور ہدایت وضلالت کے کئی نشان ہیں،اس اہمیت کے پیش نظر ان کا تفصیلی تعارف بھی کرادیا جاتاہے، تاکہ ان سے متعلقہ مضامین سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
بنی اسرائیل کا تعارف
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا اصل وطن ”بَابِل“کا علاقہ تھا،جہاں بت پرست بادشاہ نمرود کی حکومت تھی، آپ نے اسے توحید کی دعوت دی تو بادشاہ اور رعایا نے طیش میں آکر آپ کو آگ کی بھٹی میں جھونک دیا، قدرت حق سے وہ آگ گلزار بن گئی ،پھر آپ بَابِل سے ہجرت فرماکرفلسطین کے علاقے کنعان تشریف لے آئے،آپ نے تین عقد فرمائے، پہلی بیوی حضرت سارہ علیہا السلام تھیں،دوسری حرم محترمہ حضرت ہاجرہ علیہاالسلام تھیں،تیسر اعقد حضرت سارہ علیہا السلام کی وفات کے بعد حضرت قتورہ علیہاالسلام سے فرمایا۔
حضرت ہاجرہ علیہاالسلام سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے، حضرت ہاجرہ علیہا السلام ہی تھیں جنہیں آپ مکہ معظمہ کے چٹیل میدانوں میں بحکم خداوندی چھوڑ گئے تھے، اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام گود میں تھے ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد مکہ معظمہ ہی میں آباد ہوگئی تھی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جداعلی حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں۔
حضرت سارہ علیہا السلام کے بطن مبارک سے حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے ان کی اولاد کنعان ہی میں مقیم تھی، حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند یعقوب علیہ السلام تھے، جن کا لقب اسرائیل تھا، اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے ”الله کا برگزیدہ بندہ“ یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ آپ کے بارہ بیٹے تھے، جب آپ کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں زمام اقتدار سنبھالی تو سب بھائی کنعان سے مصر چلے آئے اور حضرت یوسف کی وفات کے بعد بھی وہیں آباد رہے، اگرچہ انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا، پشتہاپشت وہاں رہنے سے بارہ بھائیوں کی اولاد بارہ قبیلوں میں تقسیم ہو چکی تھی، ان کی تعداد چھے لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
چوں کہ یہ لوگ مصر کے اصل باشندے نہیں تھے، اس لیے وہاں کے مقامی باشندے ”قبطیوں“ نے انہیں بری طرح غلام بنا رکھا تھا، بیگار میں پکڑ لیتے، ظلم وستم کا پہاڑ توڑتے، حتی کہ ان کے لڑکوں کو ذبح کر دیتے، بنی اسرائیل کے پاس ان مظالم کا جواب سوائے رونے دھونے کے کچھ نہ تھا۔
حضرت موسی علیہ السلام کی بعثت اور دعوت
ان حالات میں الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر احسان فرماتے ہوئے ان میں حضرت موسی علیہ السلام کو رسول بنا کر مبعوث فرمایا، جنہوں نے فرعون کو توحید کی دعوت پیش کی اور بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے سے روکا، فرعون لسانِ نبوت پر کان دھرنے کے بجائے مخالفت پر اتر آیا۔
بالآخر حضرت موسی علیہ السلام راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر مملکت فرعون سے نکلنے کی غرض سے چل کھڑے ہوئے ، فرعون کو خبر ہوئی تو وہ بھی لشکر لے کر آپ کے تعاقب میں چل پڑا۔ اتنے میں بنی اسرائیل ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سمندر تھا، دھول اڑاتا ہوا فرعونی لشکر تھا۔
الله تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی عصا مبارک سمندر پر ماری جس سے سمندر پھٹا اور مختلف راستے بن گئے ، بنی اسرائیل ان راستوں پر چل کر بسلامت گزر گئے، ان کے دیکھا دیکھی فرعون نے بھی اپنا لشکر سمندر میں اتار دیا، جب درمیان میں پہنچا تو سمندر مل گیا اور فرعون اپنے لشکریوں سمیت غرق آب ہو گیا۔
بنی اسرائیل وادی تیہ میں
سمندر پار کرنے کے بعد اپنے آبائی علاقے میں جانے کے لیے رختِ سفر باندھا ،آبائی علاقہ زیادہ دور نہیں تھا، لیکن حضرت موسی علیہ السلام کو ستانے اور اذیت دینے کی وجہ سے چالیس سال یہ وادی تیہ میں صحرائی بگولوں کی طرح سرگرداں رہے ( صبح کو جہاں سے چلتے شام کو وہیں پہنچ جاتے)، جب موسی علیہ السلام جبل طور پر توریت شریف لینے گئے تو انہوں نے پیچھے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی، علاوہ ازیں عجیب وغریب مطالبے شروع کر دیے مثلاً الله تعالیٰ کو اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ہم اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ نہ لیں۔ الله تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی غذا من وسلوی کے متعلق کہنے لگے کہ ہم ایک ہی چیز پر صبر نہیں کرسکتے ہمیں سبزی ، پیاز ، کھیرا چاہیے۔ اسی طرح کے مختلف واقعات اسی وادی میں پیش آئے، حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے زمانہ میں ان کا علاقہ فتح ہوا اور بیت المقدس میں داخلہ نصیب ہوا۔ واضح رہے کہ بنی اسرائیل کو یہودی بھی کہا جاتا ہے۔
یہودی مدینہ میں کب آئے
اس بارے میں مؤرخین کی رائے یہ ہے کہ جب بخت نصر ظالم اورکافر بادشاہ نے بیت المقدس پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو یہودیوں کی ایک جماعت نے حجاز کا رخ کرکے وادی القری اور تیماء اورمدینہ منورہ میں ڈیرہ ڈال دیا، یہاں پہلے سے بنی جرہم اور عمالقہ کے کچھ لوگ آباد تھے، جنہوں نے کھجوروں کے باغ اور زراعت کا پیشہ اپنا رکھا تھا، یہودی ان کے ساتھ گھل مل کے رہنے لگے، جب آبادی بڑھی اور غلبہ حاصل ہوا تو مقامی آبادی کو باہر نکال کر ان کی املاک اپنے زیر تسلط کر لیں، اسی حال میں یہ لوگ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ ( فتوح البلدان للبلاذری،ص:229)
بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھاہے کہ یہودی علماء نے توریت شریف میں حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے متعلق پڑھ رکھا تھا کہ آپ ایسے شہر کی طرف ہجرت فرمائیں گے جہاں بکثرت کھجوروں کے باغ ہوں گے اور وہ شہر دو پتھریلی زمینوں کے درمیان ہو گا چناں چہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت اس شہر کی تلاش میں نکلی مدینہ منورہ پہنچ کر جب اس کی جغرافیائی کیفیت دیکھی تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہی وہ شہر ہے جہاں آپ صلى الله عليه وسلم ہجرت فرمائیں گے ۔ (معجم البلدان للحموی:5/82)
واضح رہے کہ ہجرت سے قبل مدینہ منورہ کا نام یثرب تھا، بعد میں مدینة الرسول ، طیبہ وغیرہ کے ناموں سے معروف ہوا۔
اوس وخزرج مدینہ میں
یہودیوں کے بسنے کے سالہا سال بعد یمن کے دو بت پرست قبیلے ”اوس“ و”خزرج“ بھی وہیں آکر آباد ہو گئے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تومجموعی طور پر وہاں تین قبیلے یہودیوں کے یعنی۔ ۱ بنی نضیر،۲۔ بنی قریظہ۳۔ بنیقینقاع اور دو قبیلے یمن کے ”اوس“ و”خزرج“ آباد تھے، انہوں نے تو اسلام قبول کر لیا اور انصار مدینہکے نام سے معروف ہوئے ، لیکن یہودیوں نے من حیث المجموع اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آگے آنے والی آیات میں انہیں کو دعوت حق دی گئی ہے۔
ایک شبہ او ر اس کا ازالہ
ممکن ہے یہاں کسی کو شبہ ہو کہ ان آیات میں مخاطب تو وہ لوگ ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے، لیکن و اقعات وہ بیان کیے جارہے ہیں جو سینکڑوں اور ہزاروں بر س قبل ہوئے تھے، مثلاً تم نے بچھڑا بنایا، ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا۔ کیوں کر درست ہو سکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کہ خطاب کبھی شخصی حیثیت سے ہوتا ہے اور کبھی قومی حیثیت سے ان مقامات میں خطاب شخصی حیثیت سے نہیں بلکہ قومی حیثیت سے کیا جارہا ہے لہٰذا اس طرح کے خطاب میں کچھ شبہ نہ ہونا چاہیے۔
ایک قادیانی کا فریب استدلال
حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی رحمہ الله تعالیٰ ایک قادیانی کے فریب استدلال کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جب غلام احمد قادیانی مدعی نبوت نے اپنے یہ جھوٹے الہامات شائع کیے کہ خدا نے محمدی بیگم سے میری شادی کر دی ہے اور وہ ہر مانع کو دور کرکے میرے نکاح میں آوے گی اور ناممکن ہے کہ خدا کا وعدہ ٹل جاوے وغیرہ وغیرہ اور نتیجہ یہ ہوا کہ غلام احمد مر گیا اور محمدی بیگم کی صورت بھی نصیب نہ ہوئی، نکاح میں آنا تو درکنار ۔ تو مسلمانوں کی طرف سے قادیانیوں پر اعتراض کیا گیا کہ اگر تمہارے نبی سچے تھے تو یہ الہامات جھوٹے کیوں ہوئے؟ اس کے جواب میں خلیفہ نور الدین نے اپنی خلافت کا حق ادا کرتے ہوئے یہ کہا کہ بسا اوقات خطاب ایک شخص کو ہوتا ہے اور مراد دوسرا ہوتا ہے … جیسا کہ یا بنی اسرائیل میں خطاب ان بنی سرائیل کو ہے جو جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے اورمراد ان سے اگلے آباؤ اجداد ہیں ، اس طرح جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں۔ حالاں کہ فارس وروم خلافت حضرت عمر رضی الله عنہ میں فتح ہوئے، پس ان الہامات میں مرزا غلام احمد قادیانی سے ان کی اولاد مراد ہے او رمحمدی بیگم سے خود محمدی بیگم یا اس کی کوئی اولاد مراد ہے ۔ اور مطلب یہ تھاکہ تمہاری اولاد سے محمدی بیگم یا اس کی کسی اولاد کی شادی ہوئی، لہٰذا یہ الہامات جھوٹے نہیں۔
لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے یہ جواب محض لغو ہے، کیوں کہ اول تو یہ مجاز ہے او رمجاز کے لیے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے ، قرآن وحدیث میں قرائن موجود ہیں اور مرزا کی وحی میں اس مجاز کا کوئی قرینہ نہیں تھا، کیوں کہ مرزا عمر بھی یہی سمجھتا رہا کہ خود میری شادی خاص محمدی بیگم سے ہو گی اور وہ اسی تمنامیں مر گیا۔
دوسرا یہ کہ یہ قاعدہ ہر فعل میں صحیح نہیں کہ یوں کہا جائے کہ میری فلاں عورت سے شادی ہوئی اور مراد لیا جائے کہ میرے بیٹے کی اس کی بیٹی سے شادی ہوئی، اس کینظیر کسی جگہ ہو تو دکھلائی جاوے او راگر اس قاعدے کو کلیہ تسلیم کیا جاوے تو پھر قادیانیوں پر یہ اشکال ہو گا کہ جن الہامات میں مرزا کو نبی یا رسول، یا چنیں وچناں کہا گیا ہے، ان میں اس کی کیا دلیل ہے کہ خود مرزا مراد ہے، شاید وہاں بھی اس کی کوئی اولاد مراد ہو ۔ اگر اس کا وہ جواب دیں کہ مرزا نے ان سے ایسا ہی سمجھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرزا نے نکاح کے متعلق بھی یہی سمجھا کہ خود میرا نکاح ہو گا، نہ کہ میری اولاد کا، اگر وہاں فہم مرزا حجت ہے تو یہاں بھی ہونی چاہیے او راگر یہاں حجت نہیں تو وہاں بھی نہ ہونی چاہیے۔ آخر وجہ فرق کیا ہے ؟
اگر ان اعتراضات کا جواب کسی قادیانی کے پاس ہو تو ہم سننا چاہتے ہیں۔“ (حل القرآن، البقرہ، تحت آیہ:47)
﴿وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلاَ تَکُونُواْ أَوَّلَ کَافِرٍ بِہِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآیَاتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً وَإِیَّایَ فَاتَّقُونِ، وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون﴾․(سورہ البقرہ: 41 تا42)
ترجمہ:” اور مان لو اس کتاب کو جو میں نے اتاری ہے، سچ بتانے والی ہے، اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے او رمت ہو سب میں اوّل منکر اس کے اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا اور مجھ ہی سے بچتے رہو اور مت ملاؤ صحیح میں غلط او رمت چھپاؤ سچ کو جان بوجھ کر“۔
تفسیر
﴿وَلاَ تَکُونُواْ أَوَّلَ کَافِرٍ بِہ﴾… اس آیت کی تفسیر سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہودی اہل کتاب تھے او ران کے علمی رعب کی دھاک پورے بلاد عرب میں چھائی ہوئی تھی ، انہوں نے توریت میں موجود آپ صلى الله عليه وسلم کی صفات مبارکہ کی بدولت آپ صلى الله عليه وسلم کی شخصیت ورسالت سے اچھی طرح واقفیت حاصل کر لی تھی، ان کے مقابلے میں نصاری بھی اہل کتاب تھے، لیکن تا حال ان تک دعوت حق نہیں پہنچی تھی، اس لیے یہودیوں کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ ایمان کی دولت سے دامن سمیٹ کرالسابقین الأولین کی صف میں کھڑے ہو جاتے، لیکن ان کی کج فطری کی انتہا دیکھیے کہ انہوں نے کافرانہ روش میں پہل کر کے اپنی بدنصیبی کے سارے دروازے کھول لیے، اس آیت میں ان کی اس روش پر تنبیہ کی گئی ہے۔
﴿ولا تشتروا بایتی ثمناً قلیلاً…﴾ علمائے بنی اسرائیل اس بات سے خوف زدہ تھے کہ نئے دین کو قبول کرنے کی صورت میں ان کے مذہبی اقتدار کا خاتمہ اور نذرانوں کا چلتا ہوا کاروبار بند ہو جائے گا، اس لیے ان کی مکمل کوشش ہوتی کہ عوام الناس ان صفات وکمالات پر مطلع نہ ہونے پائیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے متعلق توریت میں مذکور ہیں، توریت کی ان آیات وصفحات کو چھپاتے، اگر کوئی مطلع ہو جاتا تو اسے ورغلاتے، غلط سلط تاویلیں کرکے اسے بہکاتے اور غلط فہمی میں ڈال دیتے ، اس طرح ان کے نذرانوں کی آمد بھی جاری رہتی اور عقیدت مندوں کا جھرمٹ بھی چھایارہتا۔
واضح رہے کہ ﴿ولا تشتروا بایتی ثمناً قلیلاً﴾ ( اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا) کا یہ مطلب نہیں کہ اگر منھ مانگے دام مل رہے ہوں تو حق بیچ دو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ حق کے مقابلے میں دنیا کے تمام خزانے او رسکے کھوٹے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ لہٰذا حق کا غلغلہ حق نیت کے ساتھ حق طریقے کے ساتھ ہمیشہ بلند ہی رکھنا چاہیے۔
خدمات دینیہ پر اجرت لینے کا شرعی حکم
جو افراد دینی خدمات میں مصروف ہوں اور امامت، اذان، کتبِ دینیہ اور قرآن کریم کی تعلیم دینے پراجرت وصول کرتے ہوں ، ان کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ، ان کے لییتنخواہ لینا بلاشبہ جائز ہے، کیوں کہ اگر امت کا یہ طبقہ محنت مزدوری، تجارت وزراعت میں لگ جائے تو دینی علوم کا سلسلہ یکسر بند ہو جائے گا، مساجد ویران ہو جائیں گی ، حلال وحرام بتانے والا کوئی نہ رہے گا ۔
جو لوگ ان دینی خدام پر انگلیاں اٹھا کر انہیں ﴿ولاتشتروا بایتی ثمناً قلیلاً ﴾کا مصداق ٹھہراتے ہیں وہ شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں ،کیوں کہ اس آیت کریمہ کے مصداق تو وہ لوگ ہیں جو نذرانوں کی وصول یابی کی طمع میں حق کو چھپاتے ہیں یا اس میں ردو بدل کرکے دین حق کو عوامی خواہش کے مطابق ڈھال کر دنیا کے مفاد حاصل کرتے ہیں ۔
ذیل میں خدمات دینیہ پر اجرت کے جواز میں چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔
1... خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دورِ خلافت میں ان حضرات کے لیے وظائف اور تنخواہیں مقرر فرمائیں۔ ( قال الامام الزیلعی رحمہ الله تعالیٰ وقد روی عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ أنہ کان یرزق المعلمین، ثم اسند عن ابراہیم بن سعد عن ابیہ ان عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ کتب إلی بعض عمالہ ان اعط الناس علی تعلیم القرآن نصب الرایة․ وقال الامام ابویوسف رحمہ الله تعالیٰ ولم تزل الخلفاء تجری للقضاة الأرزاق من بیت مال المسلمین ( کتاب الخراج لأبی یوسف ، ص:187)
خلفائے راشدین کا یہ فعل ہمارے لیے حجت کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین․ (شرح معانی الاثار: باب المسح علی الخفین، رقم الحدیث:468) ” کہ تم پر میری اور خلفاء راشدین کے طریقے کی ابتاع لازم ہے۔“
2... ائمہ ثلاثہ امام احمد بن حنبل ،امام مالک، امام شافعی رحمہم الله اور متأخرین فقہائے احناف کے نزدیک یہ اجرت بلاشبہ جائز ہے۔ ( وقال الامام النووی رحمہ الله تعالی: (قولہ صلی الله علیہ وسلم خذوامنھم، واضربوا لی بسھم معکم) ھذا تصریح بجواز أخذ الأجرة علی الرقیة بالفاتحة والذکر، وإنہ حلال لا کراہیة فیھا، وکذا الأجرة علی تعلیم القرآن وہذا مذہب الشافعی ومالک واحمد وإسحاق، و أبی ثور وأخرین من السلف․ (شرح مسلم للنووی:2/224) وقال العلامة ابن نجیم رحمہ الله تعالی: أما المختار للفتوی فی زماننا: یجوز أخذ الاجر للإمام والمؤذن والمعلم، والمفتی کما صرحوابہ فی کتاب الإجارات․ (البحرالرائق)
اگر قرآن وحدیث میں اس کی ممانعت کی تصریح ہوتی تو حضرات خلفائے راشدین، حضرت ائمہ ثلاثہ رحمہم الله، جمہور علمائے کرام، متاخرین فقہائے احناف رحمہم الله تعالی ان کے خلاف کبھی جواز کا فتوی صادر نہ فرماتے او رجن احادیث سے اجرت کے ناجائز ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے ان میں اکثر احادیث ضعیف ہیں، اگر کچھ روایات صحیح بھی ہوں تو وہ مؤول ہیں یا منسوخ۔ (قال العلامة الزیلعی رحمہ الله تعالی تحت حدیث ابی بن کعب رضی الله تعالیٰ عنہ: قال: علمت رجلاً القرآن فأھدی إلی قوساً، فذکرت ذلک للنبی صلی الله علیہ وسلم: إن اخذتھا أخذت قوساً من نارقال فرددتھا․ قال البیہقی فی المعرفة فی کتاب النکاح: ھذا حدیث اختلف فیہ علی عبادة بن نسی، قیل عنہ عن جنادة ابن ابی امیہ عن عبادة بن الصامت، وقیل عنہ عن الاسود بن ثعلبة عن عبادة، وقیل عن عطیة بن قیس عن ابی بن کعب، ثم ان ظاہرہ متروک عندنا وعندھم، فإنہ لو قبل الھدیة، وکانت غیر مشروطة، لم یتسحق ھذا الوعید، ویشبہ ان یکون منسوخاً بحدیث ابن عباس وحدیث الخدری رضی الله عنہما، وابو سعید الاصطخری من اصحابنا ذھب إلی جواز الأخذ فیہ علی مالا یتعین فرضہ علی معلمہ ومنعہ فیما یتعین علیہ تعلیمہ، وحمل علی ذلک اختلاف الاثار، وقدروی عن عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ أنہ کان یرزق المعلمین․ ثم اسند عن ابراہیم بن سعد عن ابیہ ان عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ کتب إلی بعض عمالہ ان اعط الناس علی تعلیم القرآن․ نصب الرأیة:2/137) البتہ ان لوگوں کے لیے اجرت ممنوع ہے جن کا مقصد امور دینیہ سے دنیا کمانا ہو۔
3... نیز یہ تعلیم وتدریس کا معاوضہ نہیں، بلکہ حبسِ اوقات کا معاوضہ ہے، جو جائز ہے۔ ( قال العلامة ابن نجیم رحمہ الله تعالیٰ (ورزق القاضی) یعنی وحل رزق القاضی من بیت المال، لأن بیت المال أعد لمصالح المسلمین، ورزق القاضی منھم: لأنہ حبس نفسہ لنفع المسلمین وفرض النبی صلی الله علیہ وسلم لعلی رضی الله عنہ لما بعثہ إلی الیمن، وکذا الخلفاء من بعدہ، ھذا اذا کان بیت المال جمع من حل، فإن جمع من حرام وباطل لم یحل، لأنہ مال الغیر یجب ردہ علی أربابہ، ثم إذا کان القاضی محتاجاً فلہ ان یأخذ لیستوسل إلی اقامة حقوق المسلمین، لانہ لواشتغل بالکسب لما تفرغ لذالک وإن کان غنیاً فلہ أن یأخذ وھو الأصح لما ذکرنا من العلة، ونظراً لمن یأتی بعدہ من المحتاجین ولأن رزق القاضی إذا قطع فی زمان یقطع الولاة بعد ذلک لمن یتولی بعدہ․“ (تکملة البحرالرائق،8/208)
ایک شبہہ اور اس کا ازالہ
امام نووی ودیگر بہت سے فقہائے کرام رحمہم الله تعالیٰ نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله سے تعلیم قرآن اور درس وتدریس پر اجرت لینا مکروہ وممنوع نقل فرمایا ہے۔ (ومنعھا ابوحنیفة رحمہ الله تعالی ٰ فی تعلیم القرآن وأجازھا فی الرقیة)․(شرح مسلم للنووی رحمہ الله تعالی:2/224) پھر احناف کے لیے یہ معاوضہ کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممانعت اس وقت ہے جب بیت المال سے ان کے وظائف مقرر ہوں، اب جب بیت المال کا نظام درہم برہم ہو گیا تو فقہائے احناف رحمہم الله تعالیٰ میں سے متاخرین حضرات نے ائمہ ثلاثہ رحمہم الله کی طرح جواز کا فتوی دیا ہے ۔ ( قال الإمام قاضی خان رحمہ الله تعالی: وان استاجر رجلاً لتعلیم القرآن لا تصح الإجارة عند المتقدمین، ولا اجر لہ، بین لذلک وقتاً أو لم یبین، ومشایخ بلخ رحمہم الله تعالی جوزوا ھذہ الاجارة حتی حکی عن محمد بن سلام رحمہ الله تعالی أنہ قال: اقضی بتسمیر باب الوالد بأجرة المعلم، وقال الشیخ الإمام ابوبکر محمد بن فضل رحمہ الله تعالی: إنما کرہ المتقدمون الاستکجار لتعلیم القرآن وکرھو أخذ الأجر علی ذلک، لانہ کان للمعلمین عطیات فی بیت المال فی ذلک الزمان، وکان لھم زیادہ رغبة فی أمر الدین واقامة الحسبة، وفی زماننا انقطعت عطیاتھم، وانقضت رغائب الناس فی أمر الأخرة، فلو اشتغلوا بالتعلیم مع الحاجة إلی مصالح المعاش لاختل معاشھم، فقلنا بصحة الاجارة ووجوب الاجرة للمعلم بحیث لو امتنع الوالد عن اعطاء الاجر حبس فیہ․ ( الخانیہ علی ھامش الھندیة، الاجارة: 2/325)
علاوہ ازیں آپ رحمہ الله تعالی کی طرف سے ممانعت کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔
1... آپ نے کمال تقوی کی وجہ سے امور دینیہ پر اجرت لینے کو منع فرمایا۔
2... مال دار اور صاحب حیثیت لوگوں کے لیے مکروہ فرمایا ہو ۔
3... جو لوگ دینی کاموں پر اجرت لینے کو مقصود بالذات سمجھیں ان کے لیے مکروہ وممنوع ہے۔
4... چوں کہ خیر القرون میں مفلس خدام دین کو بیت المال سے باقاعدہ تنخواہیں اور وظیفے ملتے تھے اس لیے ان کو الگ اجرت لینا مکروہ ہے۔ (احسن الفتاوی، الاجارہ:7280)
ایصال ثواب کے لیے ختم قرآن پر اجرت لینا بالاتفاق ناجائز ہے
دینی تعلیم کا فروغ او راس کی نشرو اشاعت کا اہتمام کرنا ایک ایسی اہم دینی ضرورت ہے جس کی بقا کے لیے علماء نے اس پر اجرت لینے کے جواز پر فتوی دیا، لہٰذا اس جواز کا دائرہ کار اس ضرورت تک ہی محدود رہے گا ۔ مُردوں کے ایصال ثواب وغیرہ کے لیے ختم قرآن کا اہتمام کوئی دینی ضرورت نہیں، جس کے لیے اجرت لے کر قرآن کریم پڑھا جائے ۔ لہٰذا اس موقع پر اجرت لینا حرام ہے ، دینے اور لینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے ، جب اجرت ہی حرام ہے تو مردے کو ثواب کیا پہنچے گا؟ (ولا سیما إذا کان فی الورثة صغار أغائب ، مع قطع النظر عما یحصل عند ذلک غالباً من المنکرات الکثیرة کایقاد الشموع والقنادیل التی توجد فی الأفراح، وکدق الطبول، والغناء بالأصوات… وأخذ الأجرة علی الذکر وقراء ة القرآن وغیر ذلک مما ھو مشاھد فی ھذہ الأزمان، وما کان کذلک فلاشک فی حرمتہ وبطلان الوصیة بہ، ولاحول ولا قوة الا بالله العظیم․ ( ردالمحتار:1/841)
وقال العلامة بدرالدین العینی رحمہ الله تعالی: قولہ: ولاتاکلوا بہ أی بالقرآن مثل أن یستاجر الرجل لیقرأ علی رأس قبر قیل ہذا القراء ة لا یستحق بھا الثواب لا للمیت ولا للقاری، قالہ تاج الشریعة رحمہ الله تعالی․ ( البنایة شرح الھدایة:9/339)
﴿وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّکَاةَ وَارْکَعُواْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ، أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ، وَاسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّہَا لَکَبِیْرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْنَ، الَّذِیْنَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُوا رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ إِلَیْْہِ رَاجِعُون﴾․ (البقرة:43 تا46)
اور قائم رکھو نماز اور دیا کرو زکوٰة اور جھکو نماز میں جھکنے والوں کے ساتھ، کیا حکم کرتے ہو لوگوں کو نیک کام کا اور بھولتے ہو اپنے آپ کو اور تم پڑھتے ہو کتاب؟ پھر کیوں نہیں سوچتے ہو؟ اورمدد چاہو صبر سے اور نماز سے اور البتہ وہ بھاری ہے، مگر انہیں عاجزوں پر، جن کو خیال ہے کہ وہ روبرو ہونے والے ہیں اپنے رب کے اور یہ کہ ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ربط
گزشتہ آیات میں اسلام کے بنیادی ارکان کفر سے توبہ کرکے ایمان لانے کا حکم دیا جارہا ہے، اب ان آیات میں اسلام کی فروعات نماز، زکوٰة وغیرہ کی تلقین کی جارہی ہے۔
تفسیر
بنی اسرائیل کو نماز، زکوٰة کی ادائیگی اور اہل رکوع کی معیت اختیار کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ، نماز کا تعلق بدنی عبادت سے اور زکوٰة کا تعلق مالی عبادت سے ہے ۔ خشوع اور خضوع ایک باطنی کیفیت ہے، جو اہل تواضع کی صحبت سے نصیب ہوتی ہے، اس باطنی کیفیت کے حصول کے لیے اہل رکوع کی معیت کا حکم دیا گیا، یہ درحقیقت بنی اسرائیل کے قومی مرض کا علاج تھا، جس میں یہ ایک عرصے سے مبتلا تھے، نماز سے حب جاہ کم ہو گی، زکوٰة سے حب مال اور بخل کا علاج ہو گا اور تواضع سے حسد کی جڑیں ختم ہوں گے۔
بے عمل عالم پر زجر الہی:﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِر…﴾
یہودی علماء اور اکابر اپنے مسلمان عزیزوں کو پس پردہ اطمینان دلاتے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پیغمبر حق ہیں ، ہم لوگ تو کسی مصلحت کے پیش نظر اسلام کے دامن سے وابستہ نہیں ہو سکتے، لیکن تم اس دین حق پر جمے رہو ۔ الله تعالیٰ نے ان کو اس دو رخی پالیسی سے منع فرمایا کہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کرتے ہوئے اپنے آ پ کو بھول جاتے ہو ۔ اس مقام پر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ الله لکھتے ہیں ”مسئلہ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ بے عمل کو واعظ بننا جائز نہیں، بلکہ یہ نکلتا ہے کہ واعظ کو بے عمل بننا جائز نہیں، ان دونوں باتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔“ (بیان القرآن،البقرة آیہ رقم:44)
حب جاہ ومال کا علاج
﴿وَاسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ…﴾ یہودی علماء کو اپنی سیادت وقیادت سے دست کش ہو کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا ، اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے الله تعالیٰ نے انہیں صبر اورنماز سے مدد لینے کا حکم دیا ، صبر سے مال کی محبت کم ہوتی ہے ، کیوں کہ مال اس بنا پر محبوب ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے خواہشات ولذات کا حصول ممکن ہوتا ہے، جب اس کے ترک کرنے پر کمر باندھ لی جا ئے تو مال بھی محبوب نہ رہے گا ۔ نماز سے حب جاہ کم ہوتی ہے، کیوں کہ اس کی ہر ادا سے عاجزی اور پستی جھلکتی ہے ، اقامت صلوٰة کا اہتمام حب جاہ کا بہترین علاج ہے، جب یہ فاسد مادہ ختم ہو گا تو ایمان لانے میں کوئی مشکل نہ رہے گی۔
لیکن اقامت صلوٰة کا اہتمام بھی ایک دشوار اور مشکل معاملہ ہے ، اس کا حل کیا ہے ؟ اس کے متعلق فرماتے ﴿وَإِنَّہَا لَکَبِیْرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْن﴾ کہ بے شک نماز دشوار ضرور ہے، مگر جن کے دلوں میں خشوع ہو ان پر کچھ بھی دشوار نہیں ۔ جب دلوں میں آخرت کی فکر چھا جائے اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا یقین پیداہو جائے تو نیکی کا ہر راستہ آسان ہو جاتا ہے۔
﴿یَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ، وَاتَّقُواْ یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْْئاً وَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَةٌ وَلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَلاَ ہُمْ یُنصَرُون﴾․ (البقرة:47۔48)
اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے احسان جو میں نے تم پر کیے اور اس کو کہ میں نے تم کو بڑائی دی تمام عالم پر اور ڈرو اس دن سے کہ کام نہ آئے کوئی شخص کسی کے کچھ بھی اور قبول نہ ہو اس کی طرف سے سفارش اور نہ لیا جائے اس کی طرف سے بدلہ اور نہ ان کو مدد پہنچے۔
ربط
بنی اسرائیل پر انعامات او رترغیب وترہیب سے اجمالی تذکرے کے بعد اب تفصیلی ذکر آرہا ہے۔
تفسیر
﴿وَأَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْن﴾ سے بنی اسرائیل کے آباء واجداد، انبیائے کرام، علمائے دین وصلحائے امت مراد ہیں، جنہیں الله تعالیٰ نے انسانیت کی راہ نمائی کا منصب عطا فرماکر اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت بخشی اور یہ برگزیدہ بندے اپنے منصب کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتے رہے،لیکن ان کی ناخلف اولاد اس منصب کی ذمے داریاں نہ سنبھال سکی، انبیاء کی تکذیب ، دعوت حق سے اعراض، آسمانی کتاب میں تحریف وتاویل کی راہیں کھول کر اپنی فضیلت کے منارے کو خود اپنے ہاتھوں سے مسمار کر دیا۔
اب اس فضیلت کا تاج امت مسلمہ کے سر پررکھ دیا گیا ہے، جسے الله تعالیٰ نے خیر امت کنتم خیر امة کے لقب سے نواز کر بھٹکے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا فریضہ سونپ دیا ہے۔
﴿وَاتَّقُواْ یَوْماً لاَّ تَجْزِی﴾ دنیا میں ایک مجرم کی رہائی کے لیے جتنے طریقے کارگر ہو سکتے ہیں اس آیت میں ان سب کی نفی ہو رہی ہے ، نیز اس آیت سے بنی اسرائیل کے اس غلط عقیدے کی بھی تردید ہو رہی ہے جو انبیاء کی اولاد ہونے کے ناطے ان میں پھیل چکا تھا کہ کافرانہ عقائد اور فاسقانہ اعمال کے باوجود بزرگوں سے نسبت اور ان کی شفاعت کی بدولت وہ خلد بریں کے مزے لوٹیں گے۔ حالاں کہ دخول جنت کا دار ومدار ایمان اور اعمال صالحہ ہیں،حسب ونسب کے ہوائی قلعے بنا کر خلد بریں کے مزے نہیں لوٹے جاسکتے۔
کفار کی سفارش قبول نہیں کی جائے گی
بروز قیامت کسی کافر کی سفارش نہیں ہو گی، چہ جائیکہ قبول کی جائے۔ تمام مفسرین کااجماع ہے کہ آیت کریمہ ﴿لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْْئاً وَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَةٌ﴾ میں ”نفس“ سے مراد کافر ہے، نہ کہ ہر نفس ( تفسیر القرطبی، البقرة، تحت آیہ رقم:48) کیوں کہ استحقاق شفاعت کے لیے مومن ہونا ضروری ہے۔
اہلسنت والجماعةکے نزدیک شفاعت کا مفہوم
اہلسنت والجماعة کے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں کے گناہ معاف کیے جانے کی سفارش کرنے کا نام شفاعت ہے ۔ قیامت کے دن جب اہل کبائر اپنے فاسقانہ اعمال کی وجہ سے مصائب والآم کی گھڑیوں سے گزر رہے ہوں گے تو انبیائے کرام ، علمائے دین، شہدا وصلحا ئے امت بارگاہ الہی میں ان کے گناہوں کے معاف کیے جانے کی سفارش فرمائیں گے، جسے الله تعالیٰ منظور فرماکر ان کی مغفرت کا اعلان فرما دیں گے، یہ اہلسنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے۔ ( … ماعلم قطعا من ثبوت شفاعة نبینا علیہ الصلاة والسلام تواتراً واجماعاً من الأمة․ (التمیز لما أودعہ الزمخشری من الاعتزال فی تفسیر الکتاب العزیز، البقرة تحت آلایة رقم:48)” وقد جاء ت الآثار التی بلغت بمجموعہا التواتر بصحة الشفاعة فی الآخرة، وأجمع السلف الصالح ومن بعدھم من أھل السنة علیھا، ومنعت الخوارج وبعض المعتزلة“․ (شرح الطیبی، کتاب احوال القیامة، باب الحوض والشفاعة تحت رقم الحدیث:5598) ”والشفاعة ثابتة للرسل، والأخیار فی حق اھل الکبائر بالمستفیض من الأخبار“․ ( شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری، ص:160)
اہلسنت کا مسلک قرآن کریم کی روشنی میں
الله تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾․(سورہٴ محمد:19) (اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اورایمان دار مردوں اور عورتوں کے لیے) اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ نے اہل ایمان کے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا ہے ، اسی طلب مغفرت کا نام شفاعت ہے ، پھر چوں کہ آیت کریمہ میں لفظ”ذنب“ صغائرو کبائر دونوں کو شامل ہے، اس لیے تمام گناہوں کے بارے میں شفاعت ثابت ہو گئی۔ نبی کی ذات چوں کہ معصوم ہوتی ہے، اس لیے ان کے حق میں لفظ”ذنب“ سے ترک اولیٰ یا ایسا صغیرہ مراد ہے جو سہواً صادر ہو اہو۔ (والشفاعة ثابتة للرسل… لنا قولہ تعالی: ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾․(شرح العقائد للنسفی)
﴿فَمَا تَنفَعُہُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِیْن﴾․(المدثر:48) (پھر کام نہ آئے گی ان کے ( حق میں ) سفارش سفارش کرنے والوں کی )
اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ قیامت کے دن کافروں کی بد حالی اور مایوسی کی کیفیت بیان کر رہے ہیں کہ اس روز ان کے حق میں کوئی سفارش بھی سود مند نہ ہو گی ، جب کسی کی بد حالی بیان کرنا مقصود ہو تو وہی حال اورکیفیت بیان کی جاتی ہے جو اس کے ساتھ خاص ہو ، معلوم ہوا کہ شفاعت کا سود مند نہ ہونا کفار کے ساتھ خاص ہے ،رہے مؤمنین تو ان کے حق میں سفارش سود مند ہو گی ۔
مذکورہ استدلال پر ایک شبہہ اور اس کا ازالہ
ہر عبارت میں دو طرح کے مفہوم ہوتے ہیں ۔
1. مفہوم موافق 2. مفہوم مخالف، مفہوم موافق اس حکم کو کہتے ہیں جو اس عبارت میں مذکور ہو ، مفہوم مخالف اس حکم کو کہتے ہیں جو عبارت میں ذکر کردہ حکم کے برعکس ہو اور عبارت اس حکم کے متعلق بالکل خاموش ہو، مثلاً ایک حدیث شریف میں ہے فی الغنم السائمة زکوٰة کہ ”سائمہ“ چراگاہوں میں چرنے والی بکریوں میں زکوٰة ہے۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جوبکریاں ” غیر سائمة“ ہوں، یعنی چراگاہوں میں پیٹ بھرنے کے بجائے گھاس وغیرہ خرید کر انہیں کھلایا جاتا ہو تو ان بکریوں میں زکوٰة نہیں ہے۔ یہ حکم حدیث مبارکہ کے مفہوم مخالف سے سمجھا گیا ہے، مفہوم مخالف شوافع کے ہاں تو حجت ہے، لیکن احناف کے ہاں قرآن وحدیث میں یہ حجت نہیں ۔ اس تمہید کے بعد اب سمجھیے کہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آیت شفاعت میں کافروں کے حق میں شفاعت کے نافع ہونے کی نفی کی گئی ہے، مؤمنین کے حق میں شفاعت کے نافع ہونے یا نہ ہونے کے متعلق آیت بالکل خاموش ہے، لیکن تم اسی آیت سے اہل ایمان کے حق میں شفاعت کے نافع ہونے کو ثابت کرتے ہو، یہ تو مفہوم مخالف سے استدلال ہوا جو معتزلہ کے علاوہ خود احناف کے نزدیک بھی حجت نہیں تو معتزلہ کے خلاف حجت کیسے ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ استدلال مفہوم مخالف سے نہیں، بلکہ کلام کے اسلوب بیان سے ہے۔ (قولہ تعالیٰ: فما تنفعھم شفاعة الشافعین، فإن اسلوب ھذا الکلام یدل علی ثبوت الشفاعة فی الجملة، وإلا فما کان لنفی نفعھا عن الکافرین عند القصد إلی تقبیح حالھم وتحقیق بأسہم معنی، لأن مثل ھذا المقام یقتضی أن یوسموا بما یخصھم، لا بما یعمھم وغیرہم، ولیس المراد ان تعلیق الحکم بالکفر یدل علی نفیہ عماعداہ، حتی یرد علیہ انہ إنما یقوم حجة علی من یقول بمفہوم المخالفة“․ (شرح العقائد للنسفي،ص:116)
اہلسنت کا مسلک حدیث مبارکہ کی روشنی میں
گناہ گار مسلمانوں کے حق میں شفاعت کا مضمون احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ ( وقد جاء ت الاثار التی بلغت بمجموعہا التواتر بصحة الشفاعة فی الآخرة لمذنبي المؤمنین، واجمع السلف والخلف ومن بعدھم من أھل السنن علیھا․ شرح مسلم للنووی رحمہ الله 3/31) ”بل الأحادیث فی باب الشفاعة متواترة․“ (شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری، ص:159)
1... حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت امت کے اہل کبائر کے حق میں ہو گی ۔ (جامع الترمذی، باب القیامة، رقم الحدیث:2435)
2... حضرت عبدالله بن ابی الجدعا ء رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کے ایک آدمی کی سفارش سے قبیلہ بنو تمیم کے افراد سے زیادہ افراد جنت میں داخل ہوں گے۔ ( جامع الترمذی، باب القیامة، رقم الحدیث:2438)
3... حضرت عوف بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اختیار دیا کہ آدھی امت کے دخول جنت پر، جسے چاہوں منتخب کر لوں میں نے شفاعت کاانتخاب کیا اور یہ شفاعت ہر اس مسلمان کے لیے ہے جس کو موت اس حال میں آئی ہو کہ وہ الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ رکھتا ہو ۔( جامع الترمذی، باب القیامة، رقم الحدیث:2441)
شفاعت کی اقسام
شفاعت کی پانچ قسمیں ہیں۔
1... میدان حشرکی ہو لناکیوں سے چھٹکارا پانے اور حساب وکتاب جلدی شروع کرنے کی شفاعت۔ جب انبیاء علیہم الصلاة والسلام پر بھی نفسی نفسی کا عالم طاری ہو گا، اس وقت نبی اکرم ، شفیع اعظم، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فداہ ابی وامی دربار الہٰی میں تعجیل حساب کی سفارش فرمائیں گے۔ یہ شفاعت آپ علیہ الصلاہ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے ۔
2... امت کی ایک بہت بڑی جماعت کے لیے حساب وکتاب کے بغیر جنت میں داخل کرنے کی سفارش ۔یہ شفاعت بھی آپ علیہ الصلاة والسلام کی خصوصیات میں سے ہے ۔
3... امت کے بہت سے افراد کو جہنم سے بچانے کی سفارش حالاں کہ ان پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی ۔
4... جو گناہ گار مسلمان جہنم کے عذاب میں مبتلاہوں گے ،ان کو جہنم کے عذاب سے نکال کر جنت میں داخل کرانے کی سفارش۔
5... اہل جنت کے حق میں رفع درجات کی سفارش۔
(والشفاعة خمسة اقسام: اولھا: مختصة بنبینا علیہ الصلاة والسلام، وھی الإراحة من ھول الموقف وتعجیل الحساب۔
الثانیة: فی داخل قوم الجنة بغیر حساب، وھذہ وردت فی نبینا علیہ الصلاة والسلام․
الثالثة: الشفاعة لقوم استوجبوا النار، فیشفع فیھم نبینا علیہ الصلاة والسلام ومن یشاء الله تعالی․
الرابعة: الشفاعة فیمن دخل النار من المذنبین․
الخامسة: الشفاعة فی زیادة الدرجات فی الجنة لأھلھا، وھذہ لاننکرھا أیضاً)․ (شرح الطیبی، کتاب احوال القیامة، باب الحوض والشفاعة، تحت رقم الحدیث:5598)
واضح رہے کہ ﴿ولا تشتروا بایتی ثمناً قلیلاً﴾ ( اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا) کا یہ مطلب نہیں کہ اگر منھ مانگے دام مل رہے ہوں تو حق بیچ دو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ حق کے مقابلے میں دنیا کے تمام خزانے او رسکے کھوٹے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ لہٰذا حق کا غلغلہ حق نیت کے ساتھ حق طریقے کے ساتھ ہمیشہ بلند ہی رکھنا چاہیے۔
خدمات دینیہ پر اجرت لینے کا شرعی حکم
جو افراد دینی خدمات میں مصروف ہوں اور امامت، اذان، کتبِ دینیہ اور قرآن کریم کی تعلیم دینے پراجرت وصول کرتے ہوں ، ان کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ، ان کے لییتنخواہ لینا بلاشبہ جائز ہے، کیوں کہ اگر امت کا یہ طبقہ محنت مزدوری، تجارت وزراعت میں لگ جائے تو دینی علوم کا سلسلہ یکسر بند ہو جائے گا، مساجد ویران ہو جائیں گی ، حلال وحرام بتانے والا کوئی نہ رہے گا ۔
جو لوگ ان دینی خدام پر انگلیاں اٹھا کر انہیں ﴿ولاتشتروا بایتی ثمناً قلیلاً ﴾کا مصداق ٹھہراتے ہیں وہ شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں ،کیوں کہ اس آیت کریمہ کے مصداق تو وہ لوگ ہیں جو نذرانوں کی وصول یابی کی طمع میں حق کو چھپاتے ہیں یا اس میں ردو بدل کرکے دین حق کو عوامی خواہش کے مطابق ڈھال کر دنیا کے مفاد حاصل کرتے ہیں ۔
ذیل میں خدمات دینیہ پر اجرت کے جواز میں چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔
1... خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دورِ خلافت میں ان حضرات کے لیے وظائف اور تنخواہیں مقرر فرمائیں۔ ( قال الامام الزیلعی رحمہ الله تعالیٰ وقد روی عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ أنہ کان یرزق المعلمین، ثم اسند عن ابراہیم بن سعد عن ابیہ ان عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ کتب إلی بعض عمالہ ان اعط الناس علی تعلیم القرآن نصب الرایة․ وقال الامام ابویوسف رحمہ الله تعالیٰ ولم تزل الخلفاء تجری للقضاة الأرزاق من بیت مال المسلمین ( کتاب الخراج لأبی یوسف ، ص:187)
خلفائے راشدین کا یہ فعل ہمارے لیے حجت کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین․ (شرح معانی الاثار: باب المسح علی الخفین، رقم الحدیث:468) ” کہ تم پر میری اور خلفاء راشدین کے طریقے کی ابتاع لازم ہے۔“
2... ائمہ ثلاثہ امام احمد بن حنبل ،امام مالک، امام شافعی رحمہم الله اور متأخرین فقہائے احناف کے نزدیک یہ اجرت بلاشبہ جائز ہے۔ ( وقال الامام النووی رحمہ الله تعالی: (قولہ صلی الله علیہ وسلم خذوامنھم، واضربوا لی بسھم معکم) ھذا تصریح بجواز أخذ الأجرة علی الرقیة بالفاتحة والذکر، وإنہ حلال لا کراہیة فیھا، وکذا الأجرة علی تعلیم القرآن وہذا مذہب الشافعی ومالک واحمد وإسحاق، و أبی ثور وأخرین من السلف․ (شرح مسلم للنووی:2/224) وقال العلامة ابن نجیم رحمہ الله تعالی: أما المختار للفتوی فی زماننا: یجوز أخذ الاجر للإمام والمؤذن والمعلم، والمفتی کما صرحوابہ فی کتاب الإجارات․ (البحرالرائق)
اگر قرآن وحدیث میں اس کی ممانعت کی تصریح ہوتی تو حضرات خلفائے راشدین، حضرت ائمہ ثلاثہ رحمہم الله، جمہور علمائے کرام، متاخرین فقہائے احناف رحمہم الله تعالی ان کے خلاف کبھی جواز کا فتوی صادر نہ فرماتے او رجن احادیث سے اجرت کے ناجائز ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے ان میں اکثر احادیث ضعیف ہیں، اگر کچھ روایات صحیح بھی ہوں تو وہ مؤول ہیں یا منسوخ۔ (قال العلامة الزیلعی رحمہ الله تعالی تحت حدیث ابی بن کعب رضی الله تعالیٰ عنہ: قال: علمت رجلاً القرآن فأھدی إلی قوساً، فذکرت ذلک للنبی صلی الله علیہ وسلم: إن اخذتھا أخذت قوساً من نارقال فرددتھا․ قال البیہقی فی المعرفة فی کتاب النکاح: ھذا حدیث اختلف فیہ علی عبادة بن نسی، قیل عنہ عن جنادة ابن ابی امیہ عن عبادة بن الصامت، وقیل عنہ عن الاسود بن ثعلبة عن عبادة، وقیل عن عطیة بن قیس عن ابی بن کعب، ثم ان ظاہرہ متروک عندنا وعندھم، فإنہ لو قبل الھدیة، وکانت غیر مشروطة، لم یتسحق ھذا الوعید، ویشبہ ان یکون منسوخاً بحدیث ابن عباس وحدیث الخدری رضی الله عنہما، وابو سعید الاصطخری من اصحابنا ذھب إلی جواز الأخذ فیہ علی مالا یتعین فرضہ علی معلمہ ومنعہ فیما یتعین علیہ تعلیمہ، وحمل علی ذلک اختلاف الاثار، وقدروی عن عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ أنہ کان یرزق المعلمین․ ثم اسند عن ابراہیم بن سعد عن ابیہ ان عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ کتب إلی بعض عمالہ ان اعط الناس علی تعلیم القرآن․ نصب الرأیة:2/137) البتہ ان لوگوں کے لیے اجرت ممنوع ہے جن کا مقصد امور دینیہ سے دنیا کمانا ہو۔
3... نیز یہ تعلیم وتدریس کا معاوضہ نہیں، بلکہ حبسِ اوقات کا معاوضہ ہے، جو جائز ہے۔ ( قال العلامة ابن نجیم رحمہ الله تعالیٰ (ورزق القاضی) یعنی وحل رزق القاضی من بیت المال، لأن بیت المال أعد لمصالح المسلمین، ورزق القاضی منھم: لأنہ حبس نفسہ لنفع المسلمین وفرض النبی صلی الله علیہ وسلم لعلی رضی الله عنہ لما بعثہ إلی الیمن، وکذا الخلفاء من بعدہ، ھذا اذا کان بیت المال جمع من حل، فإن جمع من حرام وباطل لم یحل، لأنہ مال الغیر یجب ردہ علی أربابہ، ثم إذا کان القاضی محتاجاً فلہ ان یأخذ لیستوسل إلی اقامة حقوق المسلمین، لانہ لواشتغل بالکسب لما تفرغ لذالک وإن کان غنیاً فلہ أن یأخذ وھو الأصح لما ذکرنا من العلة، ونظراً لمن یأتی بعدہ من المحتاجین ولأن رزق القاضی إذا قطع فی زمان یقطع الولاة بعد ذلک لمن یتولی بعدہ․“ (تکملة البحرالرائق،8/208)
ایک شبہہ اور اس کا ازالہ
امام نووی ودیگر بہت سے فقہائے کرام رحمہم الله تعالیٰ نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله سے تعلیم قرآن اور درس وتدریس پر اجرت لینا مکروہ وممنوع نقل فرمایا ہے۔ (ومنعھا ابوحنیفة رحمہ الله تعالی ٰ فی تعلیم القرآن وأجازھا فی الرقیة)․(شرح مسلم للنووی رحمہ الله تعالی:2/224) پھر احناف کے لیے یہ معاوضہ کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممانعت اس وقت ہے جب بیت المال سے ان کے وظائف مقرر ہوں، اب جب بیت المال کا نظام درہم برہم ہو گیا تو فقہائے احناف رحمہم الله تعالیٰ میں سے متاخرین حضرات نے ائمہ ثلاثہ رحمہم الله کی طرح جواز کا فتوی دیا ہے ۔ ( قال الإمام قاضی خان رحمہ الله تعالی: وان استاجر رجلاً لتعلیم القرآن لا تصح الإجارة عند المتقدمین، ولا اجر لہ، بین لذلک وقتاً أو لم یبین، ومشایخ بلخ رحمہم الله تعالی جوزوا ھذہ الاجارة حتی حکی عن محمد بن سلام رحمہ الله تعالی أنہ قال: اقضی بتسمیر باب الوالد بأجرة المعلم، وقال الشیخ الإمام ابوبکر محمد بن فضل رحمہ الله تعالی: إنما کرہ المتقدمون الاستکجار لتعلیم القرآن وکرھو أخذ الأجر علی ذلک، لانہ کان للمعلمین عطیات فی بیت المال فی ذلک الزمان، وکان لھم زیادہ رغبة فی أمر الدین واقامة الحسبة، وفی زماننا انقطعت عطیاتھم، وانقضت رغائب الناس فی أمر الأخرة، فلو اشتغلوا بالتعلیم مع الحاجة إلی مصالح المعاش لاختل معاشھم، فقلنا بصحة الاجارة ووجوب الاجرة للمعلم بحیث لو امتنع الوالد عن اعطاء الاجر حبس فیہ․ ( الخانیہ علی ھامش الھندیة، الاجارة: 2/325)
علاوہ ازیں آپ رحمہ الله تعالی کی طرف سے ممانعت کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔
1... آپ نے کمال تقوی کی وجہ سے امور دینیہ پر اجرت لینے کو منع فرمایا۔
2... مال دار اور صاحب حیثیت لوگوں کے لیے مکروہ فرمایا ہو ۔
3... جو لوگ دینی کاموں پر اجرت لینے کو مقصود بالذات سمجھیں ان کے لیے مکروہ وممنوع ہے۔
4... چوں کہ خیر القرون میں مفلس خدام دین کو بیت المال سے باقاعدہ تنخواہیں اور وظیفے ملتے تھے اس لیے ان کو الگ اجرت لینا مکروہ ہے۔ (احسن الفتاوی، الاجارہ:7280)
ایصال ثواب کے لیے ختم قرآن پر اجرت لینا بالاتفاق ناجائز ہے
دینی تعلیم کا فروغ او راس کی نشرو اشاعت کا اہتمام کرنا ایک ایسی اہم دینی ضرورت ہے جس کی بقا کے لیے علماء نے اس پر اجرت لینے کے جواز پر فتوی دیا، لہٰذا اس جواز کا دائرہ کار اس ضرورت تک ہی محدود رہے گا ۔ مُردوں کے ایصال ثواب وغیرہ کے لیے ختم قرآن کا اہتمام کوئی دینی ضرورت نہیں، جس کے لیے اجرت لے کر قرآن کریم پڑھا جائے ۔ لہٰذا اس موقع پر اجرت لینا حرام ہے ، دینے اور لینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے ، جب اجرت ہی حرام ہے تو مردے کو ثواب کیا پہنچے گا؟ (ولا سیما إذا کان فی الورثة صغار أغائب ، مع قطع النظر عما یحصل عند ذلک غالباً من المنکرات الکثیرة کایقاد الشموع والقنادیل التی توجد فی الأفراح، وکدق الطبول، والغناء بالأصوات… وأخذ الأجرة علی الذکر وقراء ة القرآن وغیر ذلک مما ھو مشاھد فی ھذہ الأزمان، وما کان کذلک فلاشک فی حرمتہ وبطلان الوصیة بہ، ولاحول ولا قوة الا بالله العظیم․ ( ردالمحتار:1/841)
وقال العلامة بدرالدین العینی رحمہ الله تعالی: قولہ: ولاتاکلوا بہ أی بالقرآن مثل أن یستاجر الرجل لیقرأ علی رأس قبر قیل ہذا القراء ة لا یستحق بھا الثواب لا للمیت ولا للقاری، قالہ تاج الشریعة رحمہ الله تعالی․ ( البنایة شرح الھدایة:9/339)
﴿وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّکَاةَ وَارْکَعُواْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ، أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ، وَاسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّہَا لَکَبِیْرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْنَ، الَّذِیْنَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُوا رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ إِلَیْْہِ رَاجِعُون﴾․ (البقرة:43 تا46)
اور قائم رکھو نماز اور دیا کرو زکوٰة اور جھکو نماز میں جھکنے والوں کے ساتھ، کیا حکم کرتے ہو لوگوں کو نیک کام کا اور بھولتے ہو اپنے آپ کو اور تم پڑھتے ہو کتاب؟ پھر کیوں نہیں سوچتے ہو؟ اورمدد چاہو صبر سے اور نماز سے اور البتہ وہ بھاری ہے، مگر انہیں عاجزوں پر، جن کو خیال ہے کہ وہ روبرو ہونے والے ہیں اپنے رب کے اور یہ کہ ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ربط
گزشتہ آیات میں اسلام کے بنیادی ارکان کفر سے توبہ کرکے ایمان لانے کا حکم دیا جارہا ہے، اب ان آیات میں اسلام کی فروعات نماز، زکوٰة وغیرہ کی تلقین کی جارہی ہے۔
تفسیر
بنی اسرائیل کو نماز، زکوٰة کی ادائیگی اور اہل رکوع کی معیت اختیار کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ، نماز کا تعلق بدنی عبادت سے اور زکوٰة کا تعلق مالی عبادت سے ہے ۔ خشوع اور خضوع ایک باطنی کیفیت ہے، جو اہل تواضع کی صحبت سے نصیب ہوتی ہے، اس باطنی کیفیت کے حصول کے لیے اہل رکوع کی معیت کا حکم دیا گیا، یہ درحقیقت بنی اسرائیل کے قومی مرض کا علاج تھا، جس میں یہ ایک عرصے سے مبتلا تھے، نماز سے حب جاہ کم ہو گی، زکوٰة سے حب مال اور بخل کا علاج ہو گا اور تواضع سے حسد کی جڑیں ختم ہوں گے۔
بے عمل عالم پر زجر الہی:﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِر…﴾
یہودی علماء اور اکابر اپنے مسلمان عزیزوں کو پس پردہ اطمینان دلاتے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پیغمبر حق ہیں ، ہم لوگ تو کسی مصلحت کے پیش نظر اسلام کے دامن سے وابستہ نہیں ہو سکتے، لیکن تم اس دین حق پر جمے رہو ۔ الله تعالیٰ نے ان کو اس دو رخی پالیسی سے منع فرمایا کہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کرتے ہوئے اپنے آ پ کو بھول جاتے ہو ۔ اس مقام پر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ الله لکھتے ہیں ”مسئلہ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ بے عمل کو واعظ بننا جائز نہیں، بلکہ یہ نکلتا ہے کہ واعظ کو بے عمل بننا جائز نہیں، ان دونوں باتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔“ (بیان القرآن،البقرة آیہ رقم:44)
حب جاہ ومال کا علاج
﴿وَاسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ…﴾ یہودی علماء کو اپنی سیادت وقیادت سے دست کش ہو کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا ، اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے الله تعالیٰ نے انہیں صبر اورنماز سے مدد لینے کا حکم دیا ، صبر سے مال کی محبت کم ہوتی ہے ، کیوں کہ مال اس بنا پر محبوب ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے خواہشات ولذات کا حصول ممکن ہوتا ہے، جب اس کے ترک کرنے پر کمر باندھ لی جا ئے تو مال بھی محبوب نہ رہے گا ۔ نماز سے حب جاہ کم ہوتی ہے، کیوں کہ اس کی ہر ادا سے عاجزی اور پستی جھلکتی ہے ، اقامت صلوٰة کا اہتمام حب جاہ کا بہترین علاج ہے، جب یہ فاسد مادہ ختم ہو گا تو ایمان لانے میں کوئی مشکل نہ رہے گی۔
لیکن اقامت صلوٰة کا اہتمام بھی ایک دشوار اور مشکل معاملہ ہے ، اس کا حل کیا ہے ؟ اس کے متعلق فرماتے ﴿وَإِنَّہَا لَکَبِیْرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْن﴾ کہ بے شک نماز دشوار ضرور ہے، مگر جن کے دلوں میں خشوع ہو ان پر کچھ بھی دشوار نہیں ۔ جب دلوں میں آخرت کی فکر چھا جائے اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا یقین پیداہو جائے تو نیکی کا ہر راستہ آسان ہو جاتا ہے۔
﴿یَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ، وَاتَّقُواْ یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْْئاً وَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَةٌ وَلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَلاَ ہُمْ یُنصَرُون﴾․ (البقرة:47۔48)
اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے احسان جو میں نے تم پر کیے اور اس کو کہ میں نے تم کو بڑائی دی تمام عالم پر اور ڈرو اس دن سے کہ کام نہ آئے کوئی شخص کسی کے کچھ بھی اور قبول نہ ہو اس کی طرف سے سفارش اور نہ لیا جائے اس کی طرف سے بدلہ اور نہ ان کو مدد پہنچے۔
ربط
بنی اسرائیل پر انعامات او رترغیب وترہیب سے اجمالی تذکرے کے بعد اب تفصیلی ذکر آرہا ہے۔
تفسیر
﴿وَأَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْن﴾ سے بنی اسرائیل کے آباء واجداد، انبیائے کرام، علمائے دین وصلحائے امت مراد ہیں، جنہیں الله تعالیٰ نے انسانیت کی راہ نمائی کا منصب عطا فرماکر اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت بخشی اور یہ برگزیدہ بندے اپنے منصب کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتے رہے،لیکن ان کی ناخلف اولاد اس منصب کی ذمے داریاں نہ سنبھال سکی، انبیاء کی تکذیب ، دعوت حق سے اعراض، آسمانی کتاب میں تحریف وتاویل کی راہیں کھول کر اپنی فضیلت کے منارے کو خود اپنے ہاتھوں سے مسمار کر دیا۔
اب اس فضیلت کا تاج امت مسلمہ کے سر پررکھ دیا گیا ہے، جسے الله تعالیٰ نے خیر امت کنتم خیر امة کے لقب سے نواز کر بھٹکے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا فریضہ سونپ دیا ہے۔
﴿وَاتَّقُواْ یَوْماً لاَّ تَجْزِی﴾ دنیا میں ایک مجرم کی رہائی کے لیے جتنے طریقے کارگر ہو سکتے ہیں اس آیت میں ان سب کی نفی ہو رہی ہے ، نیز اس آیت سے بنی اسرائیل کے اس غلط عقیدے کی بھی تردید ہو رہی ہے جو انبیاء کی اولاد ہونے کے ناطے ان میں پھیل چکا تھا کہ کافرانہ عقائد اور فاسقانہ اعمال کے باوجود بزرگوں سے نسبت اور ان کی شفاعت کی بدولت وہ خلد بریں کے مزے لوٹیں گے۔ حالاں کہ دخول جنت کا دار ومدار ایمان اور اعمال صالحہ ہیں،حسب ونسب کے ہوائی قلعے بنا کر خلد بریں کے مزے نہیں لوٹے جاسکتے۔
کفار کی سفارش قبول نہیں کی جائے گی
بروز قیامت کسی کافر کی سفارش نہیں ہو گی، چہ جائیکہ قبول کی جائے۔ تمام مفسرین کااجماع ہے کہ آیت کریمہ ﴿لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْْئاً وَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَةٌ﴾ میں ”نفس“ سے مراد کافر ہے، نہ کہ ہر نفس ( تفسیر القرطبی، البقرة، تحت آیہ رقم:48) کیوں کہ استحقاق شفاعت کے لیے مومن ہونا ضروری ہے۔
اہلسنت والجماعةکے نزدیک شفاعت کا مفہوم
اہلسنت والجماعة کے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں کے گناہ معاف کیے جانے کی سفارش کرنے کا نام شفاعت ہے ۔ قیامت کے دن جب اہل کبائر اپنے فاسقانہ اعمال کی وجہ سے مصائب والآم کی گھڑیوں سے گزر رہے ہوں گے تو انبیائے کرام ، علمائے دین، شہدا وصلحا ئے امت بارگاہ الہی میں ان کے گناہوں کے معاف کیے جانے کی سفارش فرمائیں گے، جسے الله تعالیٰ منظور فرماکر ان کی مغفرت کا اعلان فرما دیں گے، یہ اہلسنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے۔ ( … ماعلم قطعا من ثبوت شفاعة نبینا علیہ الصلاة والسلام تواتراً واجماعاً من الأمة․ (التمیز لما أودعہ الزمخشری من الاعتزال فی تفسیر الکتاب العزیز، البقرة تحت آلایة رقم:48)” وقد جاء ت الآثار التی بلغت بمجموعہا التواتر بصحة الشفاعة فی الآخرة، وأجمع السلف الصالح ومن بعدھم من أھل السنة علیھا، ومنعت الخوارج وبعض المعتزلة“․ (شرح الطیبی، کتاب احوال القیامة، باب الحوض والشفاعة تحت رقم الحدیث:5598) ”والشفاعة ثابتة للرسل، والأخیار فی حق اھل الکبائر بالمستفیض من الأخبار“․ ( شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری، ص:160)
اہلسنت کا مسلک قرآن کریم کی روشنی میں
الله تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾․(سورہٴ محمد:19) (اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اورایمان دار مردوں اور عورتوں کے لیے) اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ نے اہل ایمان کے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا ہے ، اسی طلب مغفرت کا نام شفاعت ہے ، پھر چوں کہ آیت کریمہ میں لفظ”ذنب“ صغائرو کبائر دونوں کو شامل ہے، اس لیے تمام گناہوں کے بارے میں شفاعت ثابت ہو گئی۔ نبی کی ذات چوں کہ معصوم ہوتی ہے، اس لیے ان کے حق میں لفظ”ذنب“ سے ترک اولیٰ یا ایسا صغیرہ مراد ہے جو سہواً صادر ہو اہو۔ (والشفاعة ثابتة للرسل… لنا قولہ تعالی: ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾․(شرح العقائد للنسفی)
﴿فَمَا تَنفَعُہُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِیْن﴾․(المدثر:48) (پھر کام نہ آئے گی ان کے ( حق میں ) سفارش سفارش کرنے والوں کی )
اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ قیامت کے دن کافروں کی بد حالی اور مایوسی کی کیفیت بیان کر رہے ہیں کہ اس روز ان کے حق میں کوئی سفارش بھی سود مند نہ ہو گی ، جب کسی کی بد حالی بیان کرنا مقصود ہو تو وہی حال اورکیفیت بیان کی جاتی ہے جو اس کے ساتھ خاص ہو ، معلوم ہوا کہ شفاعت کا سود مند نہ ہونا کفار کے ساتھ خاص ہے ،رہے مؤمنین تو ان کے حق میں سفارش سود مند ہو گی ۔
مذکورہ استدلال پر ایک شبہہ اور اس کا ازالہ
ہر عبارت میں دو طرح کے مفہوم ہوتے ہیں ۔
1. مفہوم موافق 2. مفہوم مخالف، مفہوم موافق اس حکم کو کہتے ہیں جو اس عبارت میں مذکور ہو ، مفہوم مخالف اس حکم کو کہتے ہیں جو عبارت میں ذکر کردہ حکم کے برعکس ہو اور عبارت اس حکم کے متعلق بالکل خاموش ہو، مثلاً ایک حدیث شریف میں ہے فی الغنم السائمة زکوٰة کہ ”سائمہ“ چراگاہوں میں چرنے والی بکریوں میں زکوٰة ہے۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جوبکریاں ” غیر سائمة“ ہوں، یعنی چراگاہوں میں پیٹ بھرنے کے بجائے گھاس وغیرہ خرید کر انہیں کھلایا جاتا ہو تو ان بکریوں میں زکوٰة نہیں ہے۔ یہ حکم حدیث مبارکہ کے مفہوم مخالف سے سمجھا گیا ہے، مفہوم مخالف شوافع کے ہاں تو حجت ہے، لیکن احناف کے ہاں قرآن وحدیث میں یہ حجت نہیں ۔ اس تمہید کے بعد اب سمجھیے کہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آیت شفاعت میں کافروں کے حق میں شفاعت کے نافع ہونے کی نفی کی گئی ہے، مؤمنین کے حق میں شفاعت کے نافع ہونے یا نہ ہونے کے متعلق آیت بالکل خاموش ہے، لیکن تم اسی آیت سے اہل ایمان کے حق میں شفاعت کے نافع ہونے کو ثابت کرتے ہو، یہ تو مفہوم مخالف سے استدلال ہوا جو معتزلہ کے علاوہ خود احناف کے نزدیک بھی حجت نہیں تو معتزلہ کے خلاف حجت کیسے ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ استدلال مفہوم مخالف سے نہیں، بلکہ کلام کے اسلوب بیان سے ہے۔ (قولہ تعالیٰ: فما تنفعھم شفاعة الشافعین، فإن اسلوب ھذا الکلام یدل علی ثبوت الشفاعة فی الجملة، وإلا فما کان لنفی نفعھا عن الکافرین عند القصد إلی تقبیح حالھم وتحقیق بأسہم معنی، لأن مثل ھذا المقام یقتضی أن یوسموا بما یخصھم، لا بما یعمھم وغیرہم، ولیس المراد ان تعلیق الحکم بالکفر یدل علی نفیہ عماعداہ، حتی یرد علیہ انہ إنما یقوم حجة علی من یقول بمفہوم المخالفة“․ (شرح العقائد للنسفي،ص:116)
اہلسنت کا مسلک حدیث مبارکہ کی روشنی میں
گناہ گار مسلمانوں کے حق میں شفاعت کا مضمون احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ ( وقد جاء ت الاثار التی بلغت بمجموعہا التواتر بصحة الشفاعة فی الآخرة لمذنبي المؤمنین، واجمع السلف والخلف ومن بعدھم من أھل السنن علیھا․ شرح مسلم للنووی رحمہ الله 3/31) ”بل الأحادیث فی باب الشفاعة متواترة․“ (شرح کتاب الفقہ الاکبر للملا علی القاری، ص:159)
1... حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت امت کے اہل کبائر کے حق میں ہو گی ۔ (جامع الترمذی، باب القیامة، رقم الحدیث:2435)
2... حضرت عبدالله بن ابی الجدعا ء رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کے ایک آدمی کی سفارش سے قبیلہ بنو تمیم کے افراد سے زیادہ افراد جنت میں داخل ہوں گے۔ ( جامع الترمذی، باب القیامة، رقم الحدیث:2438)
3... حضرت عوف بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اختیار دیا کہ آدھی امت کے دخول جنت پر، جسے چاہوں منتخب کر لوں میں نے شفاعت کاانتخاب کیا اور یہ شفاعت ہر اس مسلمان کے لیے ہے جس کو موت اس حال میں آئی ہو کہ وہ الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ رکھتا ہو ۔( جامع الترمذی، باب القیامة، رقم الحدیث:2441)
شفاعت کی اقسام
شفاعت کی پانچ قسمیں ہیں۔
1... میدان حشرکی ہو لناکیوں سے چھٹکارا پانے اور حساب وکتاب جلدی شروع کرنے کی شفاعت۔ جب انبیاء علیہم الصلاة والسلام پر بھی نفسی نفسی کا عالم طاری ہو گا، اس وقت نبی اکرم ، شفیع اعظم، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فداہ ابی وامی دربار الہٰی میں تعجیل حساب کی سفارش فرمائیں گے۔ یہ شفاعت آپ علیہ الصلاہ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے ۔
2... امت کی ایک بہت بڑی جماعت کے لیے حساب وکتاب کے بغیر جنت میں داخل کرنے کی سفارش ۔یہ شفاعت بھی آپ علیہ الصلاة والسلام کی خصوصیات میں سے ہے ۔
3... امت کے بہت سے افراد کو جہنم سے بچانے کی سفارش حالاں کہ ان پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی ۔
4... جو گناہ گار مسلمان جہنم کے عذاب میں مبتلاہوں گے ،ان کو جہنم کے عذاب سے نکال کر جنت میں داخل کرانے کی سفارش۔
5... اہل جنت کے حق میں رفع درجات کی سفارش۔
(والشفاعة خمسة اقسام: اولھا: مختصة بنبینا علیہ الصلاة والسلام، وھی الإراحة من ھول الموقف وتعجیل الحساب۔
الثانیة: فی داخل قوم الجنة بغیر حساب، وھذہ وردت فی نبینا علیہ الصلاة والسلام․
الثالثة: الشفاعة لقوم استوجبوا النار، فیشفع فیھم نبینا علیہ الصلاة والسلام ومن یشاء الله تعالی․
الرابعة: الشفاعة فیمن دخل النار من المذنبین․
الخامسة: الشفاعة فی زیادة الدرجات فی الجنة لأھلھا، وھذہ لاننکرھا أیضاً)․ (شرح الطیبی، کتاب احوال القیامة، باب الحوض والشفاعة، تحت رقم الحدیث:5598)
شفیع کون لوگ ہوں گے؟
شفعاء کے مبارک گروہ میں انبیائے کرام کی مقدس جماعت، اپنا لہو بہا کر اسلام کے گلستان فکر کو سینچنے والے عاشقانِ پاک طینت، نبی کے اسوہ حسنہ میں ڈھل جانے کی کوشش کرنے والے صلحائے امت ، اطاعت الہی سے سرشار ملائکہ عظام سبھی شامل ہیں۔ (وشفاعة الانبیاء حق) … وکذا شفاعة الملائکة… وکذا شفاعة العلماء والأولیاء والشھداء والفقراء)․ (شرح کتاب فقہ الاکبر، للملاعلی القاری، ص:160)
اہلسنت کے مسلک شفاعت پر چند شبہات او ران کے جوابات
پہلاشبہ… گناہ کبیرہ کی شفاعت کا عقیدہ رکھنے سے گناہوں میں جرأت پیدا ہو جاتی ہے ،اس لیے شفاعت کو صغائر تک محدود رکھا جائے۔
جواب… یہ شبہہ اس وقت پیدا ہونا چاہیے جب ہم شفاعت ہر مسلمان کے حق میں واجب ہونے کاعقیدہ رکھتے ہوں، ہم تو صرف جواز شفاعت کے قائل ہیں، صرف اس بنا پر معاصی پر جرأت کیوں کر ہو گی ؟ (…ولان فی اثبات الشفاعة لأصحاب الکبائر تحریض الناس علی الذنوب، وانہ لایجوز… قلنا: لیس کذلک، فإنا لانحکم بوجوب الشفاعة لیأمن العبد العذاب، ویتکل علی الشفاعة، ویتجرأ علی الذنوب، بل نقول بجوازھا وتصورھا فی حق کل فرد من اصحاب الکبائر․ (حاشیة علی المسایرة شرح المسامرة ، ص:214)
دوسرا شبہ: علامہ زمخشری عفا الله عنہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ کلام عرب میں جہاں کہیں بھی اسم نکرہ کسی نفی کے تحت واقع ہوتو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے ،لہٰذا اس آیت کریمہ ﴿ولایقبل منھا شفاعة﴾ میں لفظ شفاعة نکرہ ہے او رنفی ( لایقبل) کے تحت واقع ہے، لہٰذا اس کی عمومیت کاتقاضا یہ ہے کہ قیامت کے دن کسی کے حق میں کسی کی شفاعت قبول نہ ہو گی۔
جواب… اس میں کوئی شک نہیں جونکرہ تحت النفی واقع ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے، لیکن یہ بھی بلاغت کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر عمومیت میں کچھ تخصیصی پہلو بھی پائے جاتے ہیں، سوائے اس عام کے جس میں تخصیص عقلاً محال ہو،آیت مذکورہ میں عمومیت کی تخصیص دیگر آیات اور احادیث متواترہ سے ہو رہی ہے، جنہیں ہم گذشتہ صفحات میں تفصیل سے بیان کر آئے ہیں۔ علامہ زمخشری عفا الله عنہ نے اپنے اعتزالی عقیدے کے تحفظ کے لیے ادھورا قاعدہ بیان کرکے علمی چکمہ دینے کی کوشش کی ہے۔ (وکذلک قولہ تعالی: ﴿ویقبل منھا شفاعة﴾ اورد الزمخشری ھذا اللفظ العام علی ظاہرہ لأجل اعتزالہ وانکارہ وشیعتہ للشفاعة، ولم یذکرتاویلہ ولا تخصیصہ، ولا شک ان النکرة مع النفی من الفاظ العموم، لکن الفاظ العموم للتخصیص إلا ما منع برہان العقل من تخصیصہ… (التمیز لما اودعہ الزمحشری من الاعتزال فی تفسیر الکتاب العزیز، البقرة تحت آیہ رقم:48)
خوارج او رمعتزلہ کے نزدیک شفاعت کا مفہوم
شفاعت بمعنی عفو ودرگزر قرآن وسنت کے دلائل قطعیہ او راجماع سے ثابت ہے، اس لیے معتزلہ و خوارج علی الاطلاق مسئلہ شفاعت کاانکار تو نہ کرسکے، لیکن اس کا مفہوم بگاڑ دیا، چناں چہ ان کے نزدیک شفاعت اہل صغائر کی مغفرت اور اہل ایمان کے رفع درجات کا نام ہے۔ ( ان المعتزلة قصروھا علی المطیعین والتائبین لرفع الدرجات وزیادة المثوبات․ ( شرح المقاصد، المقصد السادس:3/399) ”وأما تاویلھم احادیث الشفاعة بکونھا مختصة بزیادة الدرجات فباطل․“ (شرح الطیبی، کتاب احوال القیامة، تحت الحدیث رقم:5598)
خوارج ومعتزلہ کے چند دلائل او ران کا علمی تجزیہ
خوارج ومعتزلہ کی پہلی دلیل اور اس کا علمی تجزیہ:
خوارج ومعتزلہ اپنے موقف پر ان آیات کو پیش کرتے ہیں جن میں مطلقاً شفاعت کی نفی کی گئی ہے ۔﴿ولا یقبل منھا شفاعة﴾․ (البقر:48) ﴿وما للظالمین من حمیم ولا شفیع یطاع﴾․ (غافر:18) (کوئی نہیں گناہ گاروں کا دوست اور نہ سفارشی)
علامہ تفتازانی رحمہ الله نے اس استدلال کے چار جوابات پیش کیے ہیں۔
1... آیات مذکورہ میں شفاعت کی نفی صرف کفار سے متعلق ہے کہ ان کے حق میں کوئی سفارش قابل قبول نہ ہو گی، اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ نفی عام ہے، کفار ہوں یا مؤمنین ،کسی کو کسی کی سفارش فائدہ نہ دے سکے گی ۔
2... تو پھر دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ نفی قیامت کی کسی خاص گھڑی اور لمحے سے متعلق ہے جس میں کوئی سفارش قبول نہ ہو گی ، قرآن کریم کی آیت میں ﴿من ذالذی یشفع عندہ إلا بإذنہ﴾․ ( البقرة:255) ( ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے) میں اسی گھڑی کی طرف اشارہ ہے، بالفرض اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ نفی قیامت کے ہر لمحے اورانسانیت کے ہر فرد سے متعلق ہے ۔
3... تو اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ نفی کسی حال کے ساتھ مخصوص ہے ،مثلاً جب کسی کے جہنم میں جانے کا قطعی فیصلہ صادر ہوچکا ہو گا تو پھر سفارش کوئی فائدہ نہ دے گی، اگر تمام ازمنہ ، تمام احوال، تمام اشخاص کے حق میں شفاعت کی نفی اور غیر مفید ہونے کو تسلیم کر لیا جائے تو چوتھا جواب یہ ہے کہ:
4... دوسری طرف شفاعت کی قبولیت پر بھی دلائل موجود ہیں، لہٰذا دونوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے کہ معتزلہ کی پیش کردہ نصوص ،جو شفاعت کی نفی پر دلالت کرتی ہیں، کفار کے ساتھ خاص کر دی جائیں او راہل ایمان کے حق میں شفاعت روا رکھی جائے۔ ( والجواب بعد تسلیم دلالتھا علی العموم فی الأشخاص والازمان والأحوال أنہ یجب تخصیصھا بالکفار جمعاً بین الأدلة․ (شرح العقائد للنسفی، ص:116، مبحث: الشفاعة ثابتة)
دوسری دلیل اور اس کا علمی تجزیہ:
قرآن کریم میں ہے ولا یشفعون إلا لمن ارتضی․ (الانبیاء:28) (اور سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے الله راضی ہو۔) یہ آیت واضح لفظوں میں اعلان کر رہی ہے کہ استحقاق شفاعت کے دروازے انہیں پر کھلیں گے جن کی شفاعت پر الله تعالیٰ خود راضی ہوں گے ، نافرمان بندوں ( اہل کبائر) سے چوں کہ الله تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اس لیے ان کے حق میں کسی سفارش پر رضائے الہٰی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ ایک دیگر آیت ․﴿فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبیلک﴾․ ( سو معاف کر ان کو جو توبہ کریں اور چلیں تیری راہ پر۔) کا مفہوم بتارہا ہے کہ طلب مغفرت کا حکم انہیں کے لیے ہے جو کبائر سے توبہ کر چکے ہوں۔
جواب… منکرین شفاعت کے علم برداروں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ رضائے الہی کا پروانہ کس بنیاد پر ملتا ہے ؟ اس کا مدار کیا ہے ؟ ایمان بالله یا اعمالہ صالحہ؟ اگر اس کا مدار ایمان بالله ہے تو پھر یہ دولت ایک گناہ گار مسلمان کو بھی حاصل ہے، لہٰذا اس کے حق میں قبول شفاعت کا عقیدہ اختیار کرنے میں بخل سے کام نہ لینا چاہیے۔
اگر اس کا مدار اعمال صالحہ ہیں تو پھر تمہیں کھل کر یہ دعوی کرنا چاہیے کہ انصاف پسند کافر ، مجسمہ اخلاق ملحد بھی رضائے الہی کے شرف سے فیض یاب ہو کر شفاعت کا مستحق بن سکتا ہے، اگر تمہیں یہ تسلیم نہیں تو یہ مانے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ مسلمان اگرچہ گناہ گار ہو، لیکن صاحب ایمان ہونے کی جہت سے الله تعالیٰ کی رضا اسے حاصل ہوتی ہے او رآیت کریمہ﴿ولا یشفعون إلا لمن ارتضی﴾ ․ ( الانبیاء:28) (اور سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے الله رضی ہو) میں رضائے الہی کی یہی جہت مذکور ہے۔
اور ﴿فاغفرللذین تابوا﴾ ( غافر:7) (سو معاف کران کو جو توبہ کریں) میں توبہ سے مراد شرک سے توبہ ہے۔ لہٰذا اس سے اہل کبائر کی عدم شفاعت کا استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ( بانا لانسلم ان من ارتضی لایتناول الفاسق، فإنہ مرتضی من جھة الإیمان والعمل الصالح، وان کان مبغوضاً من جھة المعصیة، بخلاف الکافر المتصف بمثل العدل أو الجور،فانہ لیس بمرتضی عند الله تعالیٰ اصلاً لفوات الحسنات وأساس الکمالات…، فإن المراد تابوا عن الشرک)․ (شرح المقاصد، المقصد السادس:3/401)
تیسری دلیل:
ایک دعا ہے جسے مسلمان شب وروز مانگتے ہیں اوراس کے صحیح ہونے پر سب کا اجماع ہے۔”اللھم اجعلنا من اھل شفاعة محمد صلی الله علیہ وسلم“․ ( اے الله! ہمیں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما۔)
اگر شفاعت اہل کبائر کی مغفرت کا نام ہوتا تو یہ دعا سرے سے صحیح ہی نہ ہوتی، کیوں کہ پھر اس کا مفہوم یوں ہوتا کہ اے الله ہمیں اہل کبائر میں داخل فرما، تاکہ شفاعت کے مستحق بن سکیں۔
جواب… اس دعا کا تعلق حا لتِ معصیت سے ہے، یعنی گناہ گار ہونے کی صورت میں شفاعت محمدی نصیب فرمانا، جس طرح ”اللھم اغفر لنا“ کے معنی ہیں اے الله ہماری مغفرت فرما۔ یعنی گناہ گار ہونے کی صورت میں اس کا یہ مطلب کوئی نہیں لیتا کہ اے الله! ہمیں گناہوں میں مبتلا کرکے پھر مغفرت فرما۔ ( ان المراد اجعلنا من اھل الشفاعة علی تقدیر المعاصی کما فی قولنا: اجعلنا من اھل المغفرة واھل التوبة․ (شرح المقاصد، المقصد السادس:3/401)
﴿وَإِذْ نَجَّیْْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوْء َ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاء ٌ مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ، وَإِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَیْْنَاکُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُون﴾․ (البقرة:49۔50)
اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ رہائی دی ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے، جو کرتے تھے تم پر بڑا عذاب، ذبح کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ چھوڑتے تھے تمہاری عورتوں کو اور اس میں آزمائش تھی تمہارے رب کی طرف سے بڑی او رجب پھاڑ دیا ہم نے تمہاری وجہ سے دریا کو، پھر بچا دیا ہم نے تم کو اور ڈبا دیا فرعون کے لوگوں کو اور تم دیکھ رہے تھے۔
یہاں سے بنی اسرائیل پر ہونے والی عنایات خاصہ کا تذکرہ ہو رہا ہے ۔
پہلی عنایت: نجومیوں نے فرعون کو یہ پیش گوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیری سلطنت زوال کے گھاٹ اتر جائے گی ۔ چناں چہ فرعون نے بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو ذبح کرنے کا حکم جاری کر دیا ۔ سوائے لڑکیوں کے، تاکہ ان سے خدمت گزاری کا کام لیا جاسکے ، ہزاروں بچے فرعونی ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے، پوری قوم غم والم کی کیفیت میں مبتلا تھی ۔ الله تعالیٰ نے فرمایا میرے اس احسان کو یاد کرو جب ہم نے تمہیں اس ظلم سے نجات دی ﴿فی ذٰلکم بلاء من ربکم عظیم﴾․
”بلاء“ کے چندمعنی آتے ہیں اگر ذلکم کااشارہ ذبح کی طرف لیا جائے تو مصیبت کے معنی میں ہو گا او راگر نجات کی طرف اشارہ ہو تو ”بلاء“ نعمت کے معنی میں ہو گا او راگر مجموعہ کی طرف ہو تو امتحان کے معنی لیے جائیں گے۔ ( التحریر والتنویر، البقرة تحت آیہ رقم:49)
حضرت موسی علیہ السلام ایک طویل مدت تک فرعون کو دعوت حق دیتے رہے ، لیکن فرعون نے اس کا کوئی اثر قبول نہ کیا ، بالآخر الله تعالیٰ کے حکم سے آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو لیا اور فرعون کی بے خبری میں فرعون کی مملکت چھوڑنے کا قصد فرما لیا ، بحر قلزم کے کنارے پہنچے تو فرعون بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ آگے سمندر اور پیچھے دشمن۔ بنی اسرائیل کو موت کے آثار نظر آنے لگے۔ حضرت موسی ں نے تسلی دے کر فرمایا۔ ﴿إن معی ربی سیھدین﴾ اس موقع پر رب ذوالجلال کے حکم سے اپنی لاٹھی سمندر پر ماری تو بطور معجزہ سمندر کا پانی منجمد ہو گیا اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے بارہ راستے بن گئے ، جہاں سے گزر کر یہ بسلامت دوسرے کنارے اتر گئے ،فرعون نے دیکھا دیکھی میں اپنے گھوڑے بھی ان راستوں پر اتار دیے، جب درمیان میں پہنچا تو الله تعالیٰ کے حکم سے سمندر جاری ہو گیا اور طوفانی موجوں نے فرعون اور اس کے لشکر کو گھیر کر ہمیشہ کے لیے عبرت کا نمونہ بنا دیا، یہ الله تعالیٰ کی عنایت خاص ہے کہ ان کے دشمن کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کرکے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی۔
﴿وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی أَرْبَعِیْنَ لَیْْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِہِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ، ثُمَّ عَفَوْنَا عَنکُمِ مِّن بَعْدِ ذَلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ، وَإِذْ آتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون﴾․ (البقرة:51۔53)
اور جب ہم نے وعدہ کیا موسی سے چالیس رات کا، پھر تم نے بنا لیابچھڑا موسی کے بعد او رتم ظالم تھے، پھر معاف کیا ہم نے تم کو اس پر بھی، تاکہ تم احسان مانو اور جب ہم نے دی موسی کو کتاب اور حق کو ناحق سے جدا کرنے والے احکام ،تاکہ تم سیدھی راہ پاؤ۔
﴿وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی أَرْبَعِیْنَ لَیْْلَة﴾ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کو آزادی نصیب ہوئی اور شب وروز کے تمام لمحے آزاد فضاؤں میں بسر ہونے لگے تو انہیں ایک ایسے مجموعہ قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی جس کی روشنی میں زندگی کے پیش آمدہ مسائل بآسانی حل کیے جائیں۔ قوم نے اس خواہش کا اظہار حضرت موسی ں سے کیا ۔ آپ ں نے قوم کی یہ درخواست بارگاہ الہی میں پیش کی، جواب میں آپ کو کوہ طور میں چالیس روز تک اعتکاف میں رہنے کا حکم ملا، جہاں آپ ذکرواذکار اور عبادت الہٰی میں مشغول رہے، جب چالیس دن تکمیل کو پہنچے تو الله تعالیٰ کی طرف سے تورات ملی، تورات عبرانی زبان میں قانون کو کہتے ہیں۔ ( روح المعانی، البقرة آیہ رقم:51)
﴿ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِہ﴾جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور میں معتکف تھے تو بنی اسرائیل میں سے ایک شخص سامری نے سونے اور چاندی سے بچھڑے کا قالب بنا کر اس میں حضرت جبرائیل ں کے گھوڑے کے قدموں سے اٹھائی ہوئی خاک ڈال دی، جس کی تاثیر سے اس بچھڑے کے قالب سے مختلف آوازیں نکلنے لگیں، بنی اسرائیل حیران تھے کہ یہ کیا چیز ہے ؟ سامری نے یہ دعوی کرکے ان کی حیرت دور کر دی کہ اس بچھڑے میں الله تعالیٰ کی ذات حلول کر چکی ہے، یہی ہمارا معبود ہے، جس کی تلاش میں موسی علیہ السلام کوہ طور تشریف لے جاچکے ہیں، اتنے بڑے جرم کے بعد بھی توبہ کرنے پر الله تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ الله تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو ۔اس توبہ کا ذکر اگلی آیات میں آرہا ہے۔
﴿وَإِذْ آتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ﴾”فرقان“ فیصلے کی چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کیا جاسکے۔ (مفردات الفاظ القرآن لراغب، فرق، ص:633)
اس سے یا تو وہ احکام شرعیہ مراد ہیں جو تورات میں مذکور تھے، جن سے عقائد اور عملی اختلافات کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر ، البقرة تحت آیہ رقم:54) یا اس سے مراد وہ معجزات ہیں، جو سچے اور جھوٹے دعوی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ (تفسیر روح المعانی، البقرة تحت آیہ رقم:54) یا یہ تورات ہی کی ایک صفت ہے، جو کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ فیصل کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ (تفسیر کشاف، البقرة تحت آیہ رقم:54)
﴿وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ عِندَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾․(البقرة:54)
اورجب کہا موسی نے اپنی قوم سے! اے قوم تم نے نقصان کیا اپنا، یہ بچھڑا بنا کر، سواب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اور مار ڈالو اپنی اپنی جان، یہ بہتر ہے تمہارے لیے تمہارے خالق کے نزدیک، پھر متوجہ ہوا تم پر، بے شک وہی ہے معاف کرنے والا، نہایت مہربان۔
موسی علیہ السلام جب کوہ طور سے واپس تشریف لائے اور قوم کو مبتلائے شرک دیکھا تو سخت پریشان اور غمگین ہوئے، سامری کو ڈانٹا، شرک میں مبتلا جہلاء کو زجر وتنبیہ کی، انہیں اپنی غلطی اور مشرکانہ اعمال پر ندامت ہوئی، معافی اور توبہ کے خواست گار ہوئے، ان کی توبہ کی قبولیت کا یہ طریقہ تجویز ہوا کہ جو مسلمان شرک سے دور رہے وہ اپنے ہاتھوں سے ان عزیزوں اوررشتہ داروں کو تہ تیغ کریں جو گوسالہ پرستی میں مبتلاہو گئے تھے۔ یہ بڑا سخت امتحان تھا، لیکن اسی میں ان کے لیے خیر تھی کہ وہ اس جہاں میں مقتول ہو کر آخرت کے دائمی عذاب سے بچ گئے ۔ یہ سزا بالکل ایسی ہی تھی جیسے ہماری شریعت میں بعض گناہوں کی سزا توبہ کے باوجود قتل ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اردو طبقہ کے بعض مفسرین نے اسے فتنہ ارتداد کی سزا قرار دیا ہے ، لیکن یہ درست نہیں، کیوں کہ بنی اسرائیل کو جب یہ سزا دی جارہی تھی اس وقت وہ اپنے مشرکانہ افعال سے توبہ کرکے سچے مسلمان بن چکے تھے ، تجدید ایمان کے بعدجو سزا دی جائے اسے ارتداد کی سزا نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں قتل کی سزا درحقیقت ان کی توبہ کا ہی ایک مرحلہ تھا ،نہ کہ ارتداد کی سزا کا ایک حصہ۔
﴿إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾
دنیائے مسیحیت نے الله تعالیٰ کے متعلق یہ خیال اختیار کررکھا ہے کہ وہ قانونِ مکافاتِ عمل کا پابند ہے، اس لیے کسی گناہ گار کو سزا دیے بغیر معاف کرنا اس کے قانون کے منافی ہے، تاہم وہ رحیم بھی ہے ،جس کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کے گناہوں سے درگزر کیا جائے ۔ اس لیے اس نے اپنے بیٹے مسیح کو سب کی طرف سے سے بطور کفارہ سزا دے کر سب کو معاف کر دیا۔
یہودیوں نے خدا کی جباریت وقہاریت کو اس قدر زورو شور سے بیان کیاکہ رحمت الہی کی ساری تصویر دھندلی ہو گئی ۔ الله تعالیٰ نے اپنی شانِ توابیت اور شانِ رحیمی کو بیان کرکے تمام گم راہیوں کی تردید فرمائی۔
﴿وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَی لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اللَّہَ جَہْرَةً فَأَخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ، ثُمَّ بَعَثْنَاکُم مِّن بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون﴾․(البقرة:55۔56)
اور جب تم نے کہا اے موسی! ہم ہر گز یقین نہ کریں گے تیرا جب تک کہ نہ دیکھ لیں الله کو سامنے، پھرآلیا تم کو بجلی نے او رتم دیکھ رہے تھے، پھر اٹھا کھڑا کیا ہم نے تم کو مر گئے پیچھے تاکہ تم احسان مانو۔
بنی اسرائیل کا لقائے الہی کا اصرار
حضرت موسی ں تورات لے کر قوم کے پاس تشریف لائے تو بعض اسرائیلیوں نے اسے کتاب الہٰی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، ان کا اصرار تھا کہ الله تعالیٰ خود اعلان فرمائیں کہ یہ میری کتاب ہے ۔ الله تعالیٰ نے حضرت موسی ں کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے چیدہ چیدہ ستر افراد کو لے کر کوہ طور پر تشریف لے آئیں، جہاں انہیں یہ اعلان بھی سنا دیا جائے گا۔ (تفسیر بیضاوی، البقرة تحت آیہ رقم:55) کتاب الہٰی کی صداقت کا اعلان سننے کے بعد ان کا مطالبہ ہوا کہ جب تک ہم الله تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے ، چوں کہ اس آب وگِل کی دنیا میں رہ کر خدا کا دیدار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اس بے جا مطالبے اور گستاخی پر خدا کی طرف سے ایک بجلی آئی اور اس نے سب کو موت کی نیند سلا دیا۔ ( تفسیر کبیر للرازی، البقرة تحت آیہ رقم:55) اس صورت حال میں بنی اسرائیل کی طرف سے اس بدگمانی کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ حضرت موسی ں نے کسی تدبیر سے ان تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہو گا۔ اس لیے حضرت موسی علیہ السلام نے ان کے لیے حیاتِ نو کی دعا فرمائی، جو قبول ہوئی او رانہیں ایک نئی زندگی سے سر فراز کیا گیا، یہ الله تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام تھا!!!
﴿وَظَلَّلْنَا عَلَیْْکُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَیْْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِن کَانُواْ أَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ، وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ ہَذِہِ الْقَرْیَةَ فَکُلُواْ مِنْہَا حَیْْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُواْ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطَایَاکُمْ وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ، فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَیْْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَاء بِمَا کَانُواْ یَفْسُقُون﴾․ (البقرة:57 تا59)
اور سایہ کیا ہم نے تم پر ابر کا اور اتارا تم پر من اور سلویٰ ،کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دی او رانہوں نے ہمارا کچھ نقصان نہ کیا، بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے رہے او رجب ہم نے کہا داخل ہو اس شہر میں او رکھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو فراغت سے اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے او رکہتے جاؤ بخش دے تومعاف کر دیں گے ہم تمہارے قصور اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والے کو، پھر بدل ڈالا ظالموں نے بات کو خلاف اس کے جو کہہ دی گئی تھی ان سے، پھر اتارا ہم نے ظالموں پر عذاب آسمان سے، ان کی عدول حکمی پر۔
شفعاء کے مبارک گروہ میں انبیائے کرام کی مقدس جماعت، اپنا لہو بہا کر اسلام کے گلستان فکر کو سینچنے والے عاشقانِ پاک طینت، نبی کے اسوہ حسنہ میں ڈھل جانے کی کوشش کرنے والے صلحائے امت ، اطاعت الہی سے سرشار ملائکہ عظام سبھی شامل ہیں۔ (وشفاعة الانبیاء حق) … وکذا شفاعة الملائکة… وکذا شفاعة العلماء والأولیاء والشھداء والفقراء)․ (شرح کتاب فقہ الاکبر، للملاعلی القاری، ص:160)
اہلسنت کے مسلک شفاعت پر چند شبہات او ران کے جوابات
پہلاشبہ… گناہ کبیرہ کی شفاعت کا عقیدہ رکھنے سے گناہوں میں جرأت پیدا ہو جاتی ہے ،اس لیے شفاعت کو صغائر تک محدود رکھا جائے۔
جواب… یہ شبہہ اس وقت پیدا ہونا چاہیے جب ہم شفاعت ہر مسلمان کے حق میں واجب ہونے کاعقیدہ رکھتے ہوں، ہم تو صرف جواز شفاعت کے قائل ہیں، صرف اس بنا پر معاصی پر جرأت کیوں کر ہو گی ؟ (…ولان فی اثبات الشفاعة لأصحاب الکبائر تحریض الناس علی الذنوب، وانہ لایجوز… قلنا: لیس کذلک، فإنا لانحکم بوجوب الشفاعة لیأمن العبد العذاب، ویتکل علی الشفاعة، ویتجرأ علی الذنوب، بل نقول بجوازھا وتصورھا فی حق کل فرد من اصحاب الکبائر․ (حاشیة علی المسایرة شرح المسامرة ، ص:214)
دوسرا شبہ: علامہ زمخشری عفا الله عنہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ کلام عرب میں جہاں کہیں بھی اسم نکرہ کسی نفی کے تحت واقع ہوتو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے ،لہٰذا اس آیت کریمہ ﴿ولایقبل منھا شفاعة﴾ میں لفظ شفاعة نکرہ ہے او رنفی ( لایقبل) کے تحت واقع ہے، لہٰذا اس کی عمومیت کاتقاضا یہ ہے کہ قیامت کے دن کسی کے حق میں کسی کی شفاعت قبول نہ ہو گی۔
جواب… اس میں کوئی شک نہیں جونکرہ تحت النفی واقع ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے، لیکن یہ بھی بلاغت کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر عمومیت میں کچھ تخصیصی پہلو بھی پائے جاتے ہیں، سوائے اس عام کے جس میں تخصیص عقلاً محال ہو،آیت مذکورہ میں عمومیت کی تخصیص دیگر آیات اور احادیث متواترہ سے ہو رہی ہے، جنہیں ہم گذشتہ صفحات میں تفصیل سے بیان کر آئے ہیں۔ علامہ زمخشری عفا الله عنہ نے اپنے اعتزالی عقیدے کے تحفظ کے لیے ادھورا قاعدہ بیان کرکے علمی چکمہ دینے کی کوشش کی ہے۔ (وکذلک قولہ تعالی: ﴿ویقبل منھا شفاعة﴾ اورد الزمخشری ھذا اللفظ العام علی ظاہرہ لأجل اعتزالہ وانکارہ وشیعتہ للشفاعة، ولم یذکرتاویلہ ولا تخصیصہ، ولا شک ان النکرة مع النفی من الفاظ العموم، لکن الفاظ العموم للتخصیص إلا ما منع برہان العقل من تخصیصہ… (التمیز لما اودعہ الزمحشری من الاعتزال فی تفسیر الکتاب العزیز، البقرة تحت آیہ رقم:48)
خوارج او رمعتزلہ کے نزدیک شفاعت کا مفہوم
شفاعت بمعنی عفو ودرگزر قرآن وسنت کے دلائل قطعیہ او راجماع سے ثابت ہے، اس لیے معتزلہ و خوارج علی الاطلاق مسئلہ شفاعت کاانکار تو نہ کرسکے، لیکن اس کا مفہوم بگاڑ دیا، چناں چہ ان کے نزدیک شفاعت اہل صغائر کی مغفرت اور اہل ایمان کے رفع درجات کا نام ہے۔ ( ان المعتزلة قصروھا علی المطیعین والتائبین لرفع الدرجات وزیادة المثوبات․ ( شرح المقاصد، المقصد السادس:3/399) ”وأما تاویلھم احادیث الشفاعة بکونھا مختصة بزیادة الدرجات فباطل․“ (شرح الطیبی، کتاب احوال القیامة، تحت الحدیث رقم:5598)
خوارج ومعتزلہ کے چند دلائل او ران کا علمی تجزیہ
خوارج ومعتزلہ کی پہلی دلیل اور اس کا علمی تجزیہ:
خوارج ومعتزلہ اپنے موقف پر ان آیات کو پیش کرتے ہیں جن میں مطلقاً شفاعت کی نفی کی گئی ہے ۔﴿ولا یقبل منھا شفاعة﴾․ (البقر:48) ﴿وما للظالمین من حمیم ولا شفیع یطاع﴾․ (غافر:18) (کوئی نہیں گناہ گاروں کا دوست اور نہ سفارشی)
علامہ تفتازانی رحمہ الله نے اس استدلال کے چار جوابات پیش کیے ہیں۔
1... آیات مذکورہ میں شفاعت کی نفی صرف کفار سے متعلق ہے کہ ان کے حق میں کوئی سفارش قابل قبول نہ ہو گی، اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ نفی عام ہے، کفار ہوں یا مؤمنین ،کسی کو کسی کی سفارش فائدہ نہ دے سکے گی ۔
2... تو پھر دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ نفی قیامت کی کسی خاص گھڑی اور لمحے سے متعلق ہے جس میں کوئی سفارش قبول نہ ہو گی ، قرآن کریم کی آیت میں ﴿من ذالذی یشفع عندہ إلا بإذنہ﴾․ ( البقرة:255) ( ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے) میں اسی گھڑی کی طرف اشارہ ہے، بالفرض اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ نفی قیامت کے ہر لمحے اورانسانیت کے ہر فرد سے متعلق ہے ۔
3... تو اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ نفی کسی حال کے ساتھ مخصوص ہے ،مثلاً جب کسی کے جہنم میں جانے کا قطعی فیصلہ صادر ہوچکا ہو گا تو پھر سفارش کوئی فائدہ نہ دے گی، اگر تمام ازمنہ ، تمام احوال، تمام اشخاص کے حق میں شفاعت کی نفی اور غیر مفید ہونے کو تسلیم کر لیا جائے تو چوتھا جواب یہ ہے کہ:
4... دوسری طرف شفاعت کی قبولیت پر بھی دلائل موجود ہیں، لہٰذا دونوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے کہ معتزلہ کی پیش کردہ نصوص ،جو شفاعت کی نفی پر دلالت کرتی ہیں، کفار کے ساتھ خاص کر دی جائیں او راہل ایمان کے حق میں شفاعت روا رکھی جائے۔ ( والجواب بعد تسلیم دلالتھا علی العموم فی الأشخاص والازمان والأحوال أنہ یجب تخصیصھا بالکفار جمعاً بین الأدلة․ (شرح العقائد للنسفی، ص:116، مبحث: الشفاعة ثابتة)
دوسری دلیل اور اس کا علمی تجزیہ:
قرآن کریم میں ہے ولا یشفعون إلا لمن ارتضی․ (الانبیاء:28) (اور سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے الله راضی ہو۔) یہ آیت واضح لفظوں میں اعلان کر رہی ہے کہ استحقاق شفاعت کے دروازے انہیں پر کھلیں گے جن کی شفاعت پر الله تعالیٰ خود راضی ہوں گے ، نافرمان بندوں ( اہل کبائر) سے چوں کہ الله تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اس لیے ان کے حق میں کسی سفارش پر رضائے الہٰی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ ایک دیگر آیت ․﴿فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبیلک﴾․ ( سو معاف کر ان کو جو توبہ کریں اور چلیں تیری راہ پر۔) کا مفہوم بتارہا ہے کہ طلب مغفرت کا حکم انہیں کے لیے ہے جو کبائر سے توبہ کر چکے ہوں۔
جواب… منکرین شفاعت کے علم برداروں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ رضائے الہی کا پروانہ کس بنیاد پر ملتا ہے ؟ اس کا مدار کیا ہے ؟ ایمان بالله یا اعمالہ صالحہ؟ اگر اس کا مدار ایمان بالله ہے تو پھر یہ دولت ایک گناہ گار مسلمان کو بھی حاصل ہے، لہٰذا اس کے حق میں قبول شفاعت کا عقیدہ اختیار کرنے میں بخل سے کام نہ لینا چاہیے۔
اگر اس کا مدار اعمال صالحہ ہیں تو پھر تمہیں کھل کر یہ دعوی کرنا چاہیے کہ انصاف پسند کافر ، مجسمہ اخلاق ملحد بھی رضائے الہی کے شرف سے فیض یاب ہو کر شفاعت کا مستحق بن سکتا ہے، اگر تمہیں یہ تسلیم نہیں تو یہ مانے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ مسلمان اگرچہ گناہ گار ہو، لیکن صاحب ایمان ہونے کی جہت سے الله تعالیٰ کی رضا اسے حاصل ہوتی ہے او رآیت کریمہ﴿ولا یشفعون إلا لمن ارتضی﴾ ․ ( الانبیاء:28) (اور سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے الله رضی ہو) میں رضائے الہی کی یہی جہت مذکور ہے۔
اور ﴿فاغفرللذین تابوا﴾ ( غافر:7) (سو معاف کران کو جو توبہ کریں) میں توبہ سے مراد شرک سے توبہ ہے۔ لہٰذا اس سے اہل کبائر کی عدم شفاعت کا استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ( بانا لانسلم ان من ارتضی لایتناول الفاسق، فإنہ مرتضی من جھة الإیمان والعمل الصالح، وان کان مبغوضاً من جھة المعصیة، بخلاف الکافر المتصف بمثل العدل أو الجور،فانہ لیس بمرتضی عند الله تعالیٰ اصلاً لفوات الحسنات وأساس الکمالات…، فإن المراد تابوا عن الشرک)․ (شرح المقاصد، المقصد السادس:3/401)
تیسری دلیل:
ایک دعا ہے جسے مسلمان شب وروز مانگتے ہیں اوراس کے صحیح ہونے پر سب کا اجماع ہے۔”اللھم اجعلنا من اھل شفاعة محمد صلی الله علیہ وسلم“․ ( اے الله! ہمیں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما۔)
اگر شفاعت اہل کبائر کی مغفرت کا نام ہوتا تو یہ دعا سرے سے صحیح ہی نہ ہوتی، کیوں کہ پھر اس کا مفہوم یوں ہوتا کہ اے الله ہمیں اہل کبائر میں داخل فرما، تاکہ شفاعت کے مستحق بن سکیں۔
جواب… اس دعا کا تعلق حا لتِ معصیت سے ہے، یعنی گناہ گار ہونے کی صورت میں شفاعت محمدی نصیب فرمانا، جس طرح ”اللھم اغفر لنا“ کے معنی ہیں اے الله ہماری مغفرت فرما۔ یعنی گناہ گار ہونے کی صورت میں اس کا یہ مطلب کوئی نہیں لیتا کہ اے الله! ہمیں گناہوں میں مبتلا کرکے پھر مغفرت فرما۔ ( ان المراد اجعلنا من اھل الشفاعة علی تقدیر المعاصی کما فی قولنا: اجعلنا من اھل المغفرة واھل التوبة․ (شرح المقاصد، المقصد السادس:3/401)
﴿وَإِذْ نَجَّیْْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوْء َ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاء ٌ مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ، وَإِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَیْْنَاکُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُون﴾․ (البقرة:49۔50)
اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ رہائی دی ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے، جو کرتے تھے تم پر بڑا عذاب، ذبح کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ چھوڑتے تھے تمہاری عورتوں کو اور اس میں آزمائش تھی تمہارے رب کی طرف سے بڑی او رجب پھاڑ دیا ہم نے تمہاری وجہ سے دریا کو، پھر بچا دیا ہم نے تم کو اور ڈبا دیا فرعون کے لوگوں کو اور تم دیکھ رہے تھے۔
یہاں سے بنی اسرائیل پر ہونے والی عنایات خاصہ کا تذکرہ ہو رہا ہے ۔
پہلی عنایت: نجومیوں نے فرعون کو یہ پیش گوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیری سلطنت زوال کے گھاٹ اتر جائے گی ۔ چناں چہ فرعون نے بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو ذبح کرنے کا حکم جاری کر دیا ۔ سوائے لڑکیوں کے، تاکہ ان سے خدمت گزاری کا کام لیا جاسکے ، ہزاروں بچے فرعونی ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے، پوری قوم غم والم کی کیفیت میں مبتلا تھی ۔ الله تعالیٰ نے فرمایا میرے اس احسان کو یاد کرو جب ہم نے تمہیں اس ظلم سے نجات دی ﴿فی ذٰلکم بلاء من ربکم عظیم﴾․
”بلاء“ کے چندمعنی آتے ہیں اگر ذلکم کااشارہ ذبح کی طرف لیا جائے تو مصیبت کے معنی میں ہو گا او راگر نجات کی طرف اشارہ ہو تو ”بلاء“ نعمت کے معنی میں ہو گا او راگر مجموعہ کی طرف ہو تو امتحان کے معنی لیے جائیں گے۔ ( التحریر والتنویر، البقرة تحت آیہ رقم:49)
حضرت موسی علیہ السلام ایک طویل مدت تک فرعون کو دعوت حق دیتے رہے ، لیکن فرعون نے اس کا کوئی اثر قبول نہ کیا ، بالآخر الله تعالیٰ کے حکم سے آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو لیا اور فرعون کی بے خبری میں فرعون کی مملکت چھوڑنے کا قصد فرما لیا ، بحر قلزم کے کنارے پہنچے تو فرعون بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ آگے سمندر اور پیچھے دشمن۔ بنی اسرائیل کو موت کے آثار نظر آنے لگے۔ حضرت موسی ں نے تسلی دے کر فرمایا۔ ﴿إن معی ربی سیھدین﴾ اس موقع پر رب ذوالجلال کے حکم سے اپنی لاٹھی سمندر پر ماری تو بطور معجزہ سمندر کا پانی منجمد ہو گیا اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے بارہ راستے بن گئے ، جہاں سے گزر کر یہ بسلامت دوسرے کنارے اتر گئے ،فرعون نے دیکھا دیکھی میں اپنے گھوڑے بھی ان راستوں پر اتار دیے، جب درمیان میں پہنچا تو الله تعالیٰ کے حکم سے سمندر جاری ہو گیا اور طوفانی موجوں نے فرعون اور اس کے لشکر کو گھیر کر ہمیشہ کے لیے عبرت کا نمونہ بنا دیا، یہ الله تعالیٰ کی عنایت خاص ہے کہ ان کے دشمن کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کرکے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی۔
﴿وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی أَرْبَعِیْنَ لَیْْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِہِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ، ثُمَّ عَفَوْنَا عَنکُمِ مِّن بَعْدِ ذَلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ، وَإِذْ آتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون﴾․ (البقرة:51۔53)
اور جب ہم نے وعدہ کیا موسی سے چالیس رات کا، پھر تم نے بنا لیابچھڑا موسی کے بعد او رتم ظالم تھے، پھر معاف کیا ہم نے تم کو اس پر بھی، تاکہ تم احسان مانو اور جب ہم نے دی موسی کو کتاب اور حق کو ناحق سے جدا کرنے والے احکام ،تاکہ تم سیدھی راہ پاؤ۔
﴿وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی أَرْبَعِیْنَ لَیْْلَة﴾ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کو آزادی نصیب ہوئی اور شب وروز کے تمام لمحے آزاد فضاؤں میں بسر ہونے لگے تو انہیں ایک ایسے مجموعہ قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی جس کی روشنی میں زندگی کے پیش آمدہ مسائل بآسانی حل کیے جائیں۔ قوم نے اس خواہش کا اظہار حضرت موسی ں سے کیا ۔ آپ ں نے قوم کی یہ درخواست بارگاہ الہی میں پیش کی، جواب میں آپ کو کوہ طور میں چالیس روز تک اعتکاف میں رہنے کا حکم ملا، جہاں آپ ذکرواذکار اور عبادت الہٰی میں مشغول رہے، جب چالیس دن تکمیل کو پہنچے تو الله تعالیٰ کی طرف سے تورات ملی، تورات عبرانی زبان میں قانون کو کہتے ہیں۔ ( روح المعانی، البقرة آیہ رقم:51)
﴿ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِہ﴾جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور میں معتکف تھے تو بنی اسرائیل میں سے ایک شخص سامری نے سونے اور چاندی سے بچھڑے کا قالب بنا کر اس میں حضرت جبرائیل ں کے گھوڑے کے قدموں سے اٹھائی ہوئی خاک ڈال دی، جس کی تاثیر سے اس بچھڑے کے قالب سے مختلف آوازیں نکلنے لگیں، بنی اسرائیل حیران تھے کہ یہ کیا چیز ہے ؟ سامری نے یہ دعوی کرکے ان کی حیرت دور کر دی کہ اس بچھڑے میں الله تعالیٰ کی ذات حلول کر چکی ہے، یہی ہمارا معبود ہے، جس کی تلاش میں موسی علیہ السلام کوہ طور تشریف لے جاچکے ہیں، اتنے بڑے جرم کے بعد بھی توبہ کرنے پر الله تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ الله تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو ۔اس توبہ کا ذکر اگلی آیات میں آرہا ہے۔
﴿وَإِذْ آتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ﴾”فرقان“ فیصلے کی چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کیا جاسکے۔ (مفردات الفاظ القرآن لراغب، فرق، ص:633)
اس سے یا تو وہ احکام شرعیہ مراد ہیں جو تورات میں مذکور تھے، جن سے عقائد اور عملی اختلافات کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر ، البقرة تحت آیہ رقم:54) یا اس سے مراد وہ معجزات ہیں، جو سچے اور جھوٹے دعوی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ (تفسیر روح المعانی، البقرة تحت آیہ رقم:54) یا یہ تورات ہی کی ایک صفت ہے، جو کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ فیصل کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ (تفسیر کشاف، البقرة تحت آیہ رقم:54)
﴿وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ عِندَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾․(البقرة:54)
اورجب کہا موسی نے اپنی قوم سے! اے قوم تم نے نقصان کیا اپنا، یہ بچھڑا بنا کر، سواب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اور مار ڈالو اپنی اپنی جان، یہ بہتر ہے تمہارے لیے تمہارے خالق کے نزدیک، پھر متوجہ ہوا تم پر، بے شک وہی ہے معاف کرنے والا، نہایت مہربان۔
موسی علیہ السلام جب کوہ طور سے واپس تشریف لائے اور قوم کو مبتلائے شرک دیکھا تو سخت پریشان اور غمگین ہوئے، سامری کو ڈانٹا، شرک میں مبتلا جہلاء کو زجر وتنبیہ کی، انہیں اپنی غلطی اور مشرکانہ اعمال پر ندامت ہوئی، معافی اور توبہ کے خواست گار ہوئے، ان کی توبہ کی قبولیت کا یہ طریقہ تجویز ہوا کہ جو مسلمان شرک سے دور رہے وہ اپنے ہاتھوں سے ان عزیزوں اوررشتہ داروں کو تہ تیغ کریں جو گوسالہ پرستی میں مبتلاہو گئے تھے۔ یہ بڑا سخت امتحان تھا، لیکن اسی میں ان کے لیے خیر تھی کہ وہ اس جہاں میں مقتول ہو کر آخرت کے دائمی عذاب سے بچ گئے ۔ یہ سزا بالکل ایسی ہی تھی جیسے ہماری شریعت میں بعض گناہوں کی سزا توبہ کے باوجود قتل ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اردو طبقہ کے بعض مفسرین نے اسے فتنہ ارتداد کی سزا قرار دیا ہے ، لیکن یہ درست نہیں، کیوں کہ بنی اسرائیل کو جب یہ سزا دی جارہی تھی اس وقت وہ اپنے مشرکانہ افعال سے توبہ کرکے سچے مسلمان بن چکے تھے ، تجدید ایمان کے بعدجو سزا دی جائے اسے ارتداد کی سزا نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں قتل کی سزا درحقیقت ان کی توبہ کا ہی ایک مرحلہ تھا ،نہ کہ ارتداد کی سزا کا ایک حصہ۔
﴿إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾
دنیائے مسیحیت نے الله تعالیٰ کے متعلق یہ خیال اختیار کررکھا ہے کہ وہ قانونِ مکافاتِ عمل کا پابند ہے، اس لیے کسی گناہ گار کو سزا دیے بغیر معاف کرنا اس کے قانون کے منافی ہے، تاہم وہ رحیم بھی ہے ،جس کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کے گناہوں سے درگزر کیا جائے ۔ اس لیے اس نے اپنے بیٹے مسیح کو سب کی طرف سے سے بطور کفارہ سزا دے کر سب کو معاف کر دیا۔
یہودیوں نے خدا کی جباریت وقہاریت کو اس قدر زورو شور سے بیان کیاکہ رحمت الہی کی ساری تصویر دھندلی ہو گئی ۔ الله تعالیٰ نے اپنی شانِ توابیت اور شانِ رحیمی کو بیان کرکے تمام گم راہیوں کی تردید فرمائی۔
﴿وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَی لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اللَّہَ جَہْرَةً فَأَخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ، ثُمَّ بَعَثْنَاکُم مِّن بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون﴾․(البقرة:55۔56)
اور جب تم نے کہا اے موسی! ہم ہر گز یقین نہ کریں گے تیرا جب تک کہ نہ دیکھ لیں الله کو سامنے، پھرآلیا تم کو بجلی نے او رتم دیکھ رہے تھے، پھر اٹھا کھڑا کیا ہم نے تم کو مر گئے پیچھے تاکہ تم احسان مانو۔
بنی اسرائیل کا لقائے الہی کا اصرار
حضرت موسی ں تورات لے کر قوم کے پاس تشریف لائے تو بعض اسرائیلیوں نے اسے کتاب الہٰی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، ان کا اصرار تھا کہ الله تعالیٰ خود اعلان فرمائیں کہ یہ میری کتاب ہے ۔ الله تعالیٰ نے حضرت موسی ں کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے چیدہ چیدہ ستر افراد کو لے کر کوہ طور پر تشریف لے آئیں، جہاں انہیں یہ اعلان بھی سنا دیا جائے گا۔ (تفسیر بیضاوی، البقرة تحت آیہ رقم:55) کتاب الہٰی کی صداقت کا اعلان سننے کے بعد ان کا مطالبہ ہوا کہ جب تک ہم الله تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے ، چوں کہ اس آب وگِل کی دنیا میں رہ کر خدا کا دیدار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اس بے جا مطالبے اور گستاخی پر خدا کی طرف سے ایک بجلی آئی اور اس نے سب کو موت کی نیند سلا دیا۔ ( تفسیر کبیر للرازی، البقرة تحت آیہ رقم:55) اس صورت حال میں بنی اسرائیل کی طرف سے اس بدگمانی کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ حضرت موسی ں نے کسی تدبیر سے ان تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہو گا۔ اس لیے حضرت موسی علیہ السلام نے ان کے لیے حیاتِ نو کی دعا فرمائی، جو قبول ہوئی او رانہیں ایک نئی زندگی سے سر فراز کیا گیا، یہ الله تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام تھا!!!
﴿وَظَلَّلْنَا عَلَیْْکُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَیْْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِن کَانُواْ أَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ، وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ ہَذِہِ الْقَرْیَةَ فَکُلُواْ مِنْہَا حَیْْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُواْ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطَایَاکُمْ وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ، فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَیْْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَاء بِمَا کَانُواْ یَفْسُقُون﴾․ (البقرة:57 تا59)
اور سایہ کیا ہم نے تم پر ابر کا اور اتارا تم پر من اور سلویٰ ،کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دی او رانہوں نے ہمارا کچھ نقصان نہ کیا، بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے رہے او رجب ہم نے کہا داخل ہو اس شہر میں او رکھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو فراغت سے اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے او رکہتے جاؤ بخش دے تومعاف کر دیں گے ہم تمہارے قصور اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والے کو، پھر بدل ڈالا ظالموں نے بات کو خلاف اس کے جو کہہ دی گئی تھی ان سے، پھر اتارا ہم نے ظالموں پر عذاب آسمان سے، ان کی عدول حکمی پر۔
تفسیر
﴿وَظَلَّلْنَا عَلَیْْکُمُ الْغَمَام…﴾ یہ قصہ بھی وادی تِیہ میں پیش آیا، گزشتہ صفحات میں بنی اسرائیل کے تعارف میں ذکر کیا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کا آبائی اورا صلی وطن شام تھا، حضرت یوسف ں کے زمانہ اقتدار میں یہ مصر میں آکر بسے تھے او رملک شام میں ایک دوسری قوم عمالقہ قابض ہو گئی تھی ،فرعون کی غرقابی کے بعد انہیں عمالقہ سے جہاد کرکے اپنا ملک چھڑانے کا حکم ہوا۔ لیکن انہوں نے عمالقہ کی قوت وطاقت کے قصے سن رکھے تھے، اس لیے ہمت ہاربیٹھے او رجہاد کرنے سے صاف انکار کر دیا، الله تعالیٰ نے سزا کے طور پر وادی تیہ میں چالیس سال تک سرگرداں رکھا، خیمے پھٹ گئے تھے، دھوپ کی شدت ہوئی تو الله تعالیٰ سے آسمان کو ابر آلود کر دیا۔ ان کی نافرمانیوں کے باوجود الله تعالیٰ انہیں انعامات سے نوازتے رہے ۔ کسی قسم کی زراعت او رکاروبار بھی نہ تھا، خوردونوش کے لیے الله تعالیٰ نے ان کے لییمن وسلویٰ اتارا۔ ”من“ دھنیا کے سائز کے ترنجبین قسم کے دانے ہوتے ہیں جو نہایت شیریں ہوتے تھے ۔ رات کو ان کے خیموں کے اردگرد برس جاتے ، بنی اسرائیل صبح کو جمع کر لیتے ، ”سلوی“ بیٹر قسم کا ایک پرندہ تھا، جن کے غول درغول دریائے شور سے اڑکر ان کے خیموں کے اردگر آکے بیٹھ جاتے، جنہیں یہ آسانی سے پکڑ کر گوشت وکباب بناتے۔
﴿وَلَکِن کَانُواْ أَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ﴾… بنی اسرائیل کو من وسلوی ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن انہوں نے اس کا ذخیرہ کرکے حکم الہٰی کو توڑ ڈالا، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ گوشت سڑنے لگا۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل ذخیرہ اندوزی کا ارتکاب نہ کرتے تو گوشت کبھی نہ گلتا اور نہ سڑتا، خواہ مہینوں پڑا رہتا۔ مگر ان کی نافرمانی کی وجہ سے گوشت سڑنے لگا۔ خدا کی نافرمانی کرکے اپنے نفس پر خود ہی ظلم کا ارتکاب کیا۔
﴿وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ ہَذِہِ الْقَرْیَة الخ﴾… یہ قصہ بھی وادی تیہ کا ہے، اس مقام پر الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی سرکشی، بے ادبی اور اس کے برے انجام سے آگاہ فرمایا ہے۔
بنی اسرائیل کو من وسلوی کی صورت میں ملنے والی مفت اور صحت بخش غذا کی کوئی اہمیت نہ تھی، انہیں شکایت تھی کہ ہم ایک ہی کھانا کھا کھا کر تنگ آچکے ہیں، اب دال ، سبزیاں وغیرہ کھانے کو جی چاہتا ہے، ان کے اصرار پر الله تعالیٰ نے انہیں ایک ایسی بستی میں جانے کا حکم دیا جہاں ان کی مطلوبہ چیزیں وافر مقدار میں تھیں ۔ نیز بستی میں داخل ہونے کے آداب بھی بتلائے گئے کہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ شکر الہی بجالاتے ہوئے داخل ہونا او رزبان پہ یہ ورد جاری رکھنا اے الله! ہمارے غلطیوں کو معاف فرما دے۔ اگر تم نے ان ہدایت پر عمل کیا تو ہم تمہاری لغزشوں سے در گذر کرکے مزید اجر سے بھی نوازیں گے۔
لیکن بنی اسرائیلیوں نے الله تعالیٰ کے اس حکم کا مذاق اڑایا، عاجزی او رانکساری کے بجائے اکڑتے ہوئے داخل ہوئے اور کلمہ استغفار ”حطة“ ( اے الله! ہماری مغفرت فرما) کو لفظ حبة فی شعرة ( غلہ جَو کے درمیان ہے ) سے بدل دیا۔ اس مذاق پر عذاب الہٰی کی شکل میں طاعون پھوٹا او رسب گستاخ اس میں مر گئے۔
﴿وَإِذِ اسْتَسْقَی مُوسَی لِقَوْمِہِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْْناً قَدْ عَلِمَ کُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَہُمْ کُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّہِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْن﴾․(البقرة:60)
اور جب پانی مانگا موسی نے اپنی قوم کے واسطے تو ہم نے کہا مار اپنے عصا کو پتھر پر سو بہ نکلے اس سے بارہ چشمے ، پہچان لیا ہر قوم نے اپنا گھاٹ کھاؤ اور پیو الله کی روزی اور نہ پھرو ملک میں فساد مچاتے۔
جب بنی اسرائیل وادی تیہ میں اترے تو وہاں پانی پانے کی کوئی سبیل نہ تھی ، انسانی زندگی کی بقا کے لیے پانی سے زیادہ اہم چیز کون سی ہو سکتی ہے ۔ اس لیے حضرت موسی ں نے بارگاہ الہی میں پانی کے لیے التجا فرمائی ، آپ کو ایک خاص پتھر پر عصا مارنے کا حکم ہوا ، جہاں عصا لگتے ہی بارہ چشمے پھوٹ پڑے، جوبارہ قبائل میں تقسیم ہو گئے اور سب کی ضروریات بآسانی پوری ہونے لگیں ۔ الله تعالیٰ نے پانی مہیا فرما کر کتنے بڑے انعام سے نوازا!!
عقل پرستوں کا اصول فطرت او رمعجزہ
عقل پرستوں کا اصول یہ ہے کہ اس کاروبار دنیا کا ہر فعل تعلیل وتسبیب کے ہمہ گیر قانون پر استوار ہے ، ذرّے سے لے کر پہاڑ تک ، قطرہ سے لے کر سمندر تک، کوئی چیز اس سے مستثنیٰ نہیں، کائنات کے ہر حصے پر اسی قاعدے او رقانون کی حکم رانی ہے ۔ یہ ایک ایسا اٹل قانون ہے کہ بقول سر سید اس کا انحراف خدا بھی نہیں کر سکتا ۔ ( محصلہ تحریر فی اصول التفسیر بمع تفسیر القرآن ، سرسید، الأصل الثامن، ص:21) عقل پرست اسے قانون فطرت کا نام دیتے ہیں، اسی قانون کی آڑ میں یہ معجزات او رکرامات کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں مذکور خرقِ عادات کو قانون فطرت میں ڈھالنے کے لیے تاویل وتحریف سے کام لیتے ہیں چناں چہ سر سید صاحب :﴿فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْْنا﴾(تو ہم نے کہا مار اپنے عصا کو پتھر پر ،سو بہ نکلے اس سے بارہ چشمے) پتھر سے چشمے بہنے کا انکار کرتے ہوئے اس آیت کریمہ کا ترجمہ کرتے ہیں۔
”حجر کے معنی پہاڑ کے ہیں اور ضرب کے معنی رفتن ( چلنا) کے ، پس صاف معنی ”فاضرب بعصاک الحجر“ کے ہوئے کہ اپنی لاٹھی کے سہارے پہاڑ پر چل ، اس پہاڑ کے پرے ایک مقام ہے، جہاں بارہ چشمے پانی کے جاری تھے، خدا نے فرمایا ” فانفجرت منہ اثنتا عشرة عیناً“ یعنی اس میں سے پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ:60)۔
عربی زبان سے شدبد رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حجر ( پتھر) بول کر پہاڑ مراد نہیں لیا جاتا اور ضرب بمعنی رفتن ( چلنا) اس وقت ہوتا ہے جب اس کے صلے میں لفظ ” فی“ ہو، لیکن عقل پرستوں کو قاعدے اور قانون سے کیا واسطہ؟ انہیں تو فقط اپنا مطلب نکالنا ہے اگرچہ وہ ”شوربے کی تحقیق“ کی صورت میں نکل رہا ہو ۔ شوربے سے روٹی کھانے کے مفہوم سے ہر خاص وعام واقف ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی لغوی تحقیق میں جت کر یہ دعوی کر ڈالے کہ اس کا مطلب کھارے پانی سے روٹی کھانے کے ہیں ۔کیوں کہ، شوربہ شوراور آب سے مرکب ہے شور کھارے اور آب پانی کو کہتے ہیں، بتائیے! اس مسخرے پن کو تحقیق کا نام دیا جاسکتا ہے؟
مناسب ہے کہ اس مقام پر اس بنیادی اختلاف پر تفصیلی بحث ہو جائے جو خرق عادات امو رکے انکار کا موجب بنتا ہے۔ لہٰذا معجزہ کی حقیقت، اس کا ثبوت، منکرین کے دلائل وشبہات کا تفصیلی جائزہ لیاجارہا ہے۔
معجزہ کی تعریف
جو خرقِ عادات امور کسی مدعی نبوت کی ذات گرامی سے صادر ہوں اسے قرآن کریم کی اصطلاح میں آیت اور متکلمین اسلام کی اصطلاح میں معجزہ کہتے ہیں، معجزے کا مطلب ہے عاجز کر دینے والا، معجزے کو معجزہ اس لیے کہتے ہیں کہ نبوت ورسالت کے منکرین اس کے ہم مثل لانے سے عاجز ہوتے ہیں۔ معجزہ اپنے ظہور میں کسی سبب طبعی کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ وہ خالص ارادہ الہی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے او رمدعی نبوت کی صداقت کا خدائی اعلان ہوتا ہے۔ (المعجزات: جمع معجزة وھی امر یظہر بخلاف العادة علی یدمدعی النبوة عند تحدی المنکرین علی وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ، وذلک لانہ لولا التائید بالمعجزة لما وجب قبول قولہ․ ( شرح العقائد النسفیہ مبحث النبوة:135)
معجزہ نبوت کی دلیل ہے یا نہیں؟
اس کاجواب ایک دوسرے سوال پر موقوف ہے، وہ یہ کہ ایک نبی اور رسول اپنے دعوے نبوت ورسالت پر لوگوں کو کس طرح اطمینان دلائے گا؟
فلاسفہ کاجو گروہ معجزات کو سبب طبعی کا نتیجہ قرار دیتا ہے، ان کا موقف یہ ہے کہ ”پہلے یہ طے کیا جائے کہ صحیح عقائد او راعمال خیر کیا ہیں؟ اس امر کے محقق ہو جانے کے بعد جب یہ دیکھا جائے کہ ایک شخص لوگوں کو دین حق کی دعوت دیتا ہے اور یہ بھی نظر آئے کہ اس کی بات لوگوں کو باطل سے حق کی طرف لانے میں نہایت قوی اثر رکھتی ہے تو ہم کو یقین آجائے گا کہ وہ سچا پیغمبر ہے او رواجب الاتباع ہے ۔ یہ طریقہ عقل سے زیادہ قریب ہے او راس پر کم سے کم شبہے وارد ہوتے ہیں۔ (علم الکلام اور کلام، شبلی نعمانی:2/129)
فلاسفہ کا یہ موقف علامہ رازی رحمہ الله نے مطالب عالیہ میں نقل فرمایا ہے، جیسے ہمارے برصغیر کے معروف فلسفی علامہ شبلی نعمانی نے ”علم الکلام او رکلام“ میں اپنے مدعی پر پیش کیا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس قدر عقلی شبہات اس طریق پر وارد ہوتے ہیں کسی اور پر نہیں ہوتے ۔ کون سے اعمال، خیرکے ضمن میں شمار ہوں گے اورکون سے اعمال؟ شر کے ضمن میں ؟ اس کا فیصلہ وحی کی راہ نمائی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ ”پہلے یہ طے کیا جائے کہ صحیح عقائد اوراعمال خیر کیا ہیں “نبی کی بعثت کے مقاصد میں سے اہم مقصد یہی ہے کہ وہ ان اعمال ، افعال، عقائد، کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے جسے لوگوں کی خواہشات نے بگاڑ دیا ۔ اگر لوگ عقائد کی تصحیح اور اعمال خیر کو اپنے تئیں محقق کر لیں تو پھر بعثت انبیاء چہ معنی دارد؟
مزید برآں انسانی عقل خیروشر کے جو پیمانے تیار کرتی ہے وہ سب مفادات ، مصالح، خود غرضی ، ہویٰ پرستی کے سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں جونظریہ ضرورت کے تحت بدل بھی سکتے ہیں، اس کی چھوٹی سی اور معروف مثال لیجیے۔ زنا تمام شرائع میں حرام رہا، خود عقل بھی ایک عرصے تک اس کی حرمت اورقباحت کا فیصلہ دیتی رہی لیکن اب یورپ کے فلاسفہ اور لادینی عناصر باہمی رضا مندی سے ہونے والے زنا کو ”آزادی عمل“ کی معراج قرار دے چکے ہیں، آپ ہی فیصلہ کریں انبیائے کرام کی بعثت خیر وشر کے انہیں پیمانوں کو سند جواز عطا کرنے کے لیے ہوتی ہے ؟
اس مفروضے کا دوسرا جز یہ ہے کہ ”اس کی بات لوگوں کو باطل سے حق کی طرف لانے میں نہایت قوی اثر رکھتی ہے تو ہم کو یقین آجائے گا کہ وہ سچا پیغمبر ہے۔“ معرفت نبوت کی یہ دلیل بھی محل نظر ہے، حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے، لیکن ان کی آواز پر لبیک کہنے والے افراد اکثریت نہ بن سکے، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض نبی ایسے ہوں گے جن کے ساتھ صرف دو امتی ہوں گے ، بعض کے ساتھ صرف تین امتی ہوں گے ۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، رقم الحدیث:4284)
اسی طبقے کے بعض جدت پسندوں نے نبی کے حسن اخلاق اور حسن تعلیم کو دلیل نبوت قرار دیا۔
لیکن یہ مفروضہ بھی درست نہیں۔ نبوت ایک عظیم الشان دعوی ہے، اس کا تعلق عام وخاص، جاہل وعالم، امیر وفقیر سب کے لیے یکساں ہے او رحسن اخلاق وحسن تعلیم ایسی عام فہم دلیل نہیں،جو ہر طبقے کے لیے مفید ہو، نیز حسنِ اخلاق ایک کسبی چیز ہے، اسے اگر نبوت کی دلیل ٹھہرا دیا جائے تو ہر مجسمہ اخلاق کے لیے دعوی نبوت کی راہ ہم وار ہو جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ عقل کی پرپیچ وادیوں میں قدم رکھنے والے فلاسفہ دلیل نبوت کے متعلق فیصلہ کن رائے دینے سے عاجز ہیں۔
اب آئیے متکلمین اسلام کی طرف! جن کا دعوی ہے کہ معجزہ دلیل نبوت ہے۔ کیوں کہ یہ عام فہم دلیل ہے؟ جو چیز طاقت بشر یہ سے خارج اور قادر مطلق کا کرشمہ ہو اس کانظارہ کرنے والا ہر شخص فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس شخص کا قادر مطلق کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے ، اسی کو تسلیم کر لینے کا نام نبوت ہے، معجزے کے ظہور سے نبی کی سچائی کا علم اضطراری طور پر پیدا ہو جاتا ہے ،جس طرح آفتاب کو دیکھ کر بے اختیار دن کے وجود کا علم ہوتا ہے۔
معجزے کو دلیل نبوت نہ سمجھنے والوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ معجزات کے و قوع سے تو اس لیے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ قرآن کریم کی آیات قطعیہ اور اخبار متواترہ سے ثابت ہیں۔ مثلاً حضرت موسی علیہ السلام کے عصا مارنے سے پتھر سے پانی کانکل آنا۔عصائے موسی علیہ السلام کا سانپ بن کر جادو گروں کے سانپوں کو نگل جانا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آتش نمرود کا گل وگلزار ہو جانا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بے جان چیزوں میں حیات نو ڈال دینا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کے انگشت مبارک سے پانی کا جاری وساری ہونا۔ ستون حنانہ کا آپ علیہ السلام کی جدائی میں رونا۔ انبیاء علیہم السلام کی ذات مبارکہ سے یہ افعال کیوں صادر ہوئے؟ یہ سب کھیل تماشا اور لہوو لعب تھا۔(نعوذ بالله) یا اس سے کوئی غرض وغایت تھی؟ اگر لہو ولعب تھا تو یہ انبیاء کے حسن اخلاق اور حسن تعلیم کے منافی ہے کہ وہ لوگوں کو لہو ولعب میں مصروف رکھ کر یادحق سے غافل رکھیں اور اگر ان افعال کا ظہور کسی غرض وغایت پرمبنی تھا تو وہ کیا ہیں ؟
معجزہ اور سحر میں فرق
معجزہ اور سحر میں چند وجوہ سے فرق ہے۔
معجزے کے ظہور میں بعض اوقات نبی کے ارادے کو بھی دخل نہیں ہوتا اور سحر ہمیشہ ساحر کے ارادے اور خبر سے وجود میں آتا ہے ۔ جب حضرت موسی علیہ السلام کو جادوگروں کے مقابلے میں اپنی عصا ڈالنے کا حکم ہوا تو انہیں خبر بھی نہ تھی کہ وہ سانپ بن جائے گا، اس لیے اسے سانپ بنتے ہوئے دیکھ کر آپ خود بھی خوف زدہ ہو گئے ۔
معجزے کے ظہور میں اسبابِ طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا، جب کہ سحر کے ظہور میں مخفی اسباب طبعیہ کار فرما ہوتے ہیں ، جس کا اقرار خود ساحر بھی کرتے ہیں، اس لیے انہیں خرق عادات بھی نہیں کہا جاسکتا۔
کوئی شعبدہ باز او رجادوگر انبیاء سے ظاہر ہونے والے معجزوں کا معارض نہیں لاسکتا۔ ( المسامرة فی شرح المسایرة، الأصل العاشر، فی اثبات نبوة نبینا، ص:199) یہی وجہ ہے کہ ساحرانِ فرعون نے موسی ں کا معجزہ دیکھ کر فوراً شکست تسلیم کر لی اور اقرار کر لیا کہ یہ معجزہ ہے ،جو اسباب طبعیہ سے ماوریٰ ہے، اسے سبب طبعیہ کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکتی۔ جب ساحر اوراہل فن معجزہ کو کسی سبب وغیرہ کا نتیجہ نہیں قرار دیتے تو ان کے مقابلے میں ان لوگوں کا یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ” سحر او رمعجزہ میں کوئی فرق نہیں، دونوں اسباب طبعیہ کا نتیجہ ہیں “؟ جنہیں اس فن سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
انبیاء علیہم السلام روحانیت اور اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں ، شعبدہ باز اور ساحر اخلاق رزیلہ کا شکار ہوتے ہیں، گندگی اور ناپاکی کے بغیر انہیں سحر پر قدرت ہی حاصل نہیں ہوتی۔
انبیاء علیہم السلام معجزوں کے ذریعے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے ہیں اور ساحر اپنے سحر کو معاش کا ذریعہ سمجھتے ہیں، چناں چہ ساحران فرعون نے اپنے جادوگری کے مظاہرے سے قبل اجرت کا مطالبہ پیش کیا:﴿وَجَاء السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالْواْ إِنَّ لَنَا لأَجْراً إِن کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِیْن﴾․ (الاعراف:113)
”بولے ہمارے لیے کچھ مزدوری ہے اگر ہم غالب ہوئے۔“
اگر جادوگر اور ساحر نبوت کا دعوی کر دے تو اس کی جادوگری اور ساحری کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے، کیوں کہ نبوت اور جادوگری دو متضاد چیزیں ہیں ،جو ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ (ملخص تفسیر عثمانی،البقرہ تحت آیہ رقم:50)
﴿وَظَلَّلْنَا عَلَیْْکُمُ الْغَمَام…﴾ یہ قصہ بھی وادی تِیہ میں پیش آیا، گزشتہ صفحات میں بنی اسرائیل کے تعارف میں ذکر کیا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کا آبائی اورا صلی وطن شام تھا، حضرت یوسف ں کے زمانہ اقتدار میں یہ مصر میں آکر بسے تھے او رملک شام میں ایک دوسری قوم عمالقہ قابض ہو گئی تھی ،فرعون کی غرقابی کے بعد انہیں عمالقہ سے جہاد کرکے اپنا ملک چھڑانے کا حکم ہوا۔ لیکن انہوں نے عمالقہ کی قوت وطاقت کے قصے سن رکھے تھے، اس لیے ہمت ہاربیٹھے او رجہاد کرنے سے صاف انکار کر دیا، الله تعالیٰ نے سزا کے طور پر وادی تیہ میں چالیس سال تک سرگرداں رکھا، خیمے پھٹ گئے تھے، دھوپ کی شدت ہوئی تو الله تعالیٰ سے آسمان کو ابر آلود کر دیا۔ ان کی نافرمانیوں کے باوجود الله تعالیٰ انہیں انعامات سے نوازتے رہے ۔ کسی قسم کی زراعت او رکاروبار بھی نہ تھا، خوردونوش کے لیے الله تعالیٰ نے ان کے لییمن وسلویٰ اتارا۔ ”من“ دھنیا کے سائز کے ترنجبین قسم کے دانے ہوتے ہیں جو نہایت شیریں ہوتے تھے ۔ رات کو ان کے خیموں کے اردگرد برس جاتے ، بنی اسرائیل صبح کو جمع کر لیتے ، ”سلوی“ بیٹر قسم کا ایک پرندہ تھا، جن کے غول درغول دریائے شور سے اڑکر ان کے خیموں کے اردگر آکے بیٹھ جاتے، جنہیں یہ آسانی سے پکڑ کر گوشت وکباب بناتے۔
﴿وَلَکِن کَانُواْ أَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ﴾… بنی اسرائیل کو من وسلوی ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن انہوں نے اس کا ذخیرہ کرکے حکم الہٰی کو توڑ ڈالا، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ گوشت سڑنے لگا۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل ذخیرہ اندوزی کا ارتکاب نہ کرتے تو گوشت کبھی نہ گلتا اور نہ سڑتا، خواہ مہینوں پڑا رہتا۔ مگر ان کی نافرمانی کی وجہ سے گوشت سڑنے لگا۔ خدا کی نافرمانی کرکے اپنے نفس پر خود ہی ظلم کا ارتکاب کیا۔
﴿وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ ہَذِہِ الْقَرْیَة الخ﴾… یہ قصہ بھی وادی تیہ کا ہے، اس مقام پر الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی سرکشی، بے ادبی اور اس کے برے انجام سے آگاہ فرمایا ہے۔
بنی اسرائیل کو من وسلوی کی صورت میں ملنے والی مفت اور صحت بخش غذا کی کوئی اہمیت نہ تھی، انہیں شکایت تھی کہ ہم ایک ہی کھانا کھا کھا کر تنگ آچکے ہیں، اب دال ، سبزیاں وغیرہ کھانے کو جی چاہتا ہے، ان کے اصرار پر الله تعالیٰ نے انہیں ایک ایسی بستی میں جانے کا حکم دیا جہاں ان کی مطلوبہ چیزیں وافر مقدار میں تھیں ۔ نیز بستی میں داخل ہونے کے آداب بھی بتلائے گئے کہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ شکر الہی بجالاتے ہوئے داخل ہونا او رزبان پہ یہ ورد جاری رکھنا اے الله! ہمارے غلطیوں کو معاف فرما دے۔ اگر تم نے ان ہدایت پر عمل کیا تو ہم تمہاری لغزشوں سے در گذر کرکے مزید اجر سے بھی نوازیں گے۔
لیکن بنی اسرائیلیوں نے الله تعالیٰ کے اس حکم کا مذاق اڑایا، عاجزی او رانکساری کے بجائے اکڑتے ہوئے داخل ہوئے اور کلمہ استغفار ”حطة“ ( اے الله! ہماری مغفرت فرما) کو لفظ حبة فی شعرة ( غلہ جَو کے درمیان ہے ) سے بدل دیا۔ اس مذاق پر عذاب الہٰی کی شکل میں طاعون پھوٹا او رسب گستاخ اس میں مر گئے۔
﴿وَإِذِ اسْتَسْقَی مُوسَی لِقَوْمِہِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْْناً قَدْ عَلِمَ کُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَہُمْ کُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّہِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْن﴾․(البقرة:60)
اور جب پانی مانگا موسی نے اپنی قوم کے واسطے تو ہم نے کہا مار اپنے عصا کو پتھر پر سو بہ نکلے اس سے بارہ چشمے ، پہچان لیا ہر قوم نے اپنا گھاٹ کھاؤ اور پیو الله کی روزی اور نہ پھرو ملک میں فساد مچاتے۔
جب بنی اسرائیل وادی تیہ میں اترے تو وہاں پانی پانے کی کوئی سبیل نہ تھی ، انسانی زندگی کی بقا کے لیے پانی سے زیادہ اہم چیز کون سی ہو سکتی ہے ۔ اس لیے حضرت موسی ں نے بارگاہ الہی میں پانی کے لیے التجا فرمائی ، آپ کو ایک خاص پتھر پر عصا مارنے کا حکم ہوا ، جہاں عصا لگتے ہی بارہ چشمے پھوٹ پڑے، جوبارہ قبائل میں تقسیم ہو گئے اور سب کی ضروریات بآسانی پوری ہونے لگیں ۔ الله تعالیٰ نے پانی مہیا فرما کر کتنے بڑے انعام سے نوازا!!
عقل پرستوں کا اصول فطرت او رمعجزہ
عقل پرستوں کا اصول یہ ہے کہ اس کاروبار دنیا کا ہر فعل تعلیل وتسبیب کے ہمہ گیر قانون پر استوار ہے ، ذرّے سے لے کر پہاڑ تک ، قطرہ سے لے کر سمندر تک، کوئی چیز اس سے مستثنیٰ نہیں، کائنات کے ہر حصے پر اسی قاعدے او رقانون کی حکم رانی ہے ۔ یہ ایک ایسا اٹل قانون ہے کہ بقول سر سید اس کا انحراف خدا بھی نہیں کر سکتا ۔ ( محصلہ تحریر فی اصول التفسیر بمع تفسیر القرآن ، سرسید، الأصل الثامن، ص:21) عقل پرست اسے قانون فطرت کا نام دیتے ہیں، اسی قانون کی آڑ میں یہ معجزات او رکرامات کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں مذکور خرقِ عادات کو قانون فطرت میں ڈھالنے کے لیے تاویل وتحریف سے کام لیتے ہیں چناں چہ سر سید صاحب :﴿فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْْنا﴾(تو ہم نے کہا مار اپنے عصا کو پتھر پر ،سو بہ نکلے اس سے بارہ چشمے) پتھر سے چشمے بہنے کا انکار کرتے ہوئے اس آیت کریمہ کا ترجمہ کرتے ہیں۔
”حجر کے معنی پہاڑ کے ہیں اور ضرب کے معنی رفتن ( چلنا) کے ، پس صاف معنی ”فاضرب بعصاک الحجر“ کے ہوئے کہ اپنی لاٹھی کے سہارے پہاڑ پر چل ، اس پہاڑ کے پرے ایک مقام ہے، جہاں بارہ چشمے پانی کے جاری تھے، خدا نے فرمایا ” فانفجرت منہ اثنتا عشرة عیناً“ یعنی اس میں سے پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ:60)۔
عربی زبان سے شدبد رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حجر ( پتھر) بول کر پہاڑ مراد نہیں لیا جاتا اور ضرب بمعنی رفتن ( چلنا) اس وقت ہوتا ہے جب اس کے صلے میں لفظ ” فی“ ہو، لیکن عقل پرستوں کو قاعدے اور قانون سے کیا واسطہ؟ انہیں تو فقط اپنا مطلب نکالنا ہے اگرچہ وہ ”شوربے کی تحقیق“ کی صورت میں نکل رہا ہو ۔ شوربے سے روٹی کھانے کے مفہوم سے ہر خاص وعام واقف ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی لغوی تحقیق میں جت کر یہ دعوی کر ڈالے کہ اس کا مطلب کھارے پانی سے روٹی کھانے کے ہیں ۔کیوں کہ، شوربہ شوراور آب سے مرکب ہے شور کھارے اور آب پانی کو کہتے ہیں، بتائیے! اس مسخرے پن کو تحقیق کا نام دیا جاسکتا ہے؟
مناسب ہے کہ اس مقام پر اس بنیادی اختلاف پر تفصیلی بحث ہو جائے جو خرق عادات امو رکے انکار کا موجب بنتا ہے۔ لہٰذا معجزہ کی حقیقت، اس کا ثبوت، منکرین کے دلائل وشبہات کا تفصیلی جائزہ لیاجارہا ہے۔
معجزہ کی تعریف
جو خرقِ عادات امور کسی مدعی نبوت کی ذات گرامی سے صادر ہوں اسے قرآن کریم کی اصطلاح میں آیت اور متکلمین اسلام کی اصطلاح میں معجزہ کہتے ہیں، معجزے کا مطلب ہے عاجز کر دینے والا، معجزے کو معجزہ اس لیے کہتے ہیں کہ نبوت ورسالت کے منکرین اس کے ہم مثل لانے سے عاجز ہوتے ہیں۔ معجزہ اپنے ظہور میں کسی سبب طبعی کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ وہ خالص ارادہ الہی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے او رمدعی نبوت کی صداقت کا خدائی اعلان ہوتا ہے۔ (المعجزات: جمع معجزة وھی امر یظہر بخلاف العادة علی یدمدعی النبوة عند تحدی المنکرین علی وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ، وذلک لانہ لولا التائید بالمعجزة لما وجب قبول قولہ․ ( شرح العقائد النسفیہ مبحث النبوة:135)
معجزہ نبوت کی دلیل ہے یا نہیں؟
اس کاجواب ایک دوسرے سوال پر موقوف ہے، وہ یہ کہ ایک نبی اور رسول اپنے دعوے نبوت ورسالت پر لوگوں کو کس طرح اطمینان دلائے گا؟
فلاسفہ کاجو گروہ معجزات کو سبب طبعی کا نتیجہ قرار دیتا ہے، ان کا موقف یہ ہے کہ ”پہلے یہ طے کیا جائے کہ صحیح عقائد او راعمال خیر کیا ہیں؟ اس امر کے محقق ہو جانے کے بعد جب یہ دیکھا جائے کہ ایک شخص لوگوں کو دین حق کی دعوت دیتا ہے اور یہ بھی نظر آئے کہ اس کی بات لوگوں کو باطل سے حق کی طرف لانے میں نہایت قوی اثر رکھتی ہے تو ہم کو یقین آجائے گا کہ وہ سچا پیغمبر ہے او رواجب الاتباع ہے ۔ یہ طریقہ عقل سے زیادہ قریب ہے او راس پر کم سے کم شبہے وارد ہوتے ہیں۔ (علم الکلام اور کلام، شبلی نعمانی:2/129)
فلاسفہ کا یہ موقف علامہ رازی رحمہ الله نے مطالب عالیہ میں نقل فرمایا ہے، جیسے ہمارے برصغیر کے معروف فلسفی علامہ شبلی نعمانی نے ”علم الکلام او رکلام“ میں اپنے مدعی پر پیش کیا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس قدر عقلی شبہات اس طریق پر وارد ہوتے ہیں کسی اور پر نہیں ہوتے ۔ کون سے اعمال، خیرکے ضمن میں شمار ہوں گے اورکون سے اعمال؟ شر کے ضمن میں ؟ اس کا فیصلہ وحی کی راہ نمائی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ ”پہلے یہ طے کیا جائے کہ صحیح عقائد اوراعمال خیر کیا ہیں “نبی کی بعثت کے مقاصد میں سے اہم مقصد یہی ہے کہ وہ ان اعمال ، افعال، عقائد، کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے جسے لوگوں کی خواہشات نے بگاڑ دیا ۔ اگر لوگ عقائد کی تصحیح اور اعمال خیر کو اپنے تئیں محقق کر لیں تو پھر بعثت انبیاء چہ معنی دارد؟
مزید برآں انسانی عقل خیروشر کے جو پیمانے تیار کرتی ہے وہ سب مفادات ، مصالح، خود غرضی ، ہویٰ پرستی کے سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں جونظریہ ضرورت کے تحت بدل بھی سکتے ہیں، اس کی چھوٹی سی اور معروف مثال لیجیے۔ زنا تمام شرائع میں حرام رہا، خود عقل بھی ایک عرصے تک اس کی حرمت اورقباحت کا فیصلہ دیتی رہی لیکن اب یورپ کے فلاسفہ اور لادینی عناصر باہمی رضا مندی سے ہونے والے زنا کو ”آزادی عمل“ کی معراج قرار دے چکے ہیں، آپ ہی فیصلہ کریں انبیائے کرام کی بعثت خیر وشر کے انہیں پیمانوں کو سند جواز عطا کرنے کے لیے ہوتی ہے ؟
اس مفروضے کا دوسرا جز یہ ہے کہ ”اس کی بات لوگوں کو باطل سے حق کی طرف لانے میں نہایت قوی اثر رکھتی ہے تو ہم کو یقین آجائے گا کہ وہ سچا پیغمبر ہے۔“ معرفت نبوت کی یہ دلیل بھی محل نظر ہے، حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے، لیکن ان کی آواز پر لبیک کہنے والے افراد اکثریت نہ بن سکے، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض نبی ایسے ہوں گے جن کے ساتھ صرف دو امتی ہوں گے ، بعض کے ساتھ صرف تین امتی ہوں گے ۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، رقم الحدیث:4284)
اسی طبقے کے بعض جدت پسندوں نے نبی کے حسن اخلاق اور حسن تعلیم کو دلیل نبوت قرار دیا۔
لیکن یہ مفروضہ بھی درست نہیں۔ نبوت ایک عظیم الشان دعوی ہے، اس کا تعلق عام وخاص، جاہل وعالم، امیر وفقیر سب کے لیے یکساں ہے او رحسن اخلاق وحسن تعلیم ایسی عام فہم دلیل نہیں،جو ہر طبقے کے لیے مفید ہو، نیز حسنِ اخلاق ایک کسبی چیز ہے، اسے اگر نبوت کی دلیل ٹھہرا دیا جائے تو ہر مجسمہ اخلاق کے لیے دعوی نبوت کی راہ ہم وار ہو جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ عقل کی پرپیچ وادیوں میں قدم رکھنے والے فلاسفہ دلیل نبوت کے متعلق فیصلہ کن رائے دینے سے عاجز ہیں۔
اب آئیے متکلمین اسلام کی طرف! جن کا دعوی ہے کہ معجزہ دلیل نبوت ہے۔ کیوں کہ یہ عام فہم دلیل ہے؟ جو چیز طاقت بشر یہ سے خارج اور قادر مطلق کا کرشمہ ہو اس کانظارہ کرنے والا ہر شخص فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس شخص کا قادر مطلق کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے ، اسی کو تسلیم کر لینے کا نام نبوت ہے، معجزے کے ظہور سے نبی کی سچائی کا علم اضطراری طور پر پیدا ہو جاتا ہے ،جس طرح آفتاب کو دیکھ کر بے اختیار دن کے وجود کا علم ہوتا ہے۔
معجزے کو دلیل نبوت نہ سمجھنے والوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ معجزات کے و قوع سے تو اس لیے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ قرآن کریم کی آیات قطعیہ اور اخبار متواترہ سے ثابت ہیں۔ مثلاً حضرت موسی علیہ السلام کے عصا مارنے سے پتھر سے پانی کانکل آنا۔عصائے موسی علیہ السلام کا سانپ بن کر جادو گروں کے سانپوں کو نگل جانا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آتش نمرود کا گل وگلزار ہو جانا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بے جان چیزوں میں حیات نو ڈال دینا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کے انگشت مبارک سے پانی کا جاری وساری ہونا۔ ستون حنانہ کا آپ علیہ السلام کی جدائی میں رونا۔ انبیاء علیہم السلام کی ذات مبارکہ سے یہ افعال کیوں صادر ہوئے؟ یہ سب کھیل تماشا اور لہوو لعب تھا۔(نعوذ بالله) یا اس سے کوئی غرض وغایت تھی؟ اگر لہو ولعب تھا تو یہ انبیاء کے حسن اخلاق اور حسن تعلیم کے منافی ہے کہ وہ لوگوں کو لہو ولعب میں مصروف رکھ کر یادحق سے غافل رکھیں اور اگر ان افعال کا ظہور کسی غرض وغایت پرمبنی تھا تو وہ کیا ہیں ؟
معجزہ اور سحر میں فرق
معجزہ اور سحر میں چند وجوہ سے فرق ہے۔
معجزے کے ظہور میں بعض اوقات نبی کے ارادے کو بھی دخل نہیں ہوتا اور سحر ہمیشہ ساحر کے ارادے اور خبر سے وجود میں آتا ہے ۔ جب حضرت موسی علیہ السلام کو جادوگروں کے مقابلے میں اپنی عصا ڈالنے کا حکم ہوا تو انہیں خبر بھی نہ تھی کہ وہ سانپ بن جائے گا، اس لیے اسے سانپ بنتے ہوئے دیکھ کر آپ خود بھی خوف زدہ ہو گئے ۔
معجزے کے ظہور میں اسبابِ طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا، جب کہ سحر کے ظہور میں مخفی اسباب طبعیہ کار فرما ہوتے ہیں ، جس کا اقرار خود ساحر بھی کرتے ہیں، اس لیے انہیں خرق عادات بھی نہیں کہا جاسکتا۔
کوئی شعبدہ باز او رجادوگر انبیاء سے ظاہر ہونے والے معجزوں کا معارض نہیں لاسکتا۔ ( المسامرة فی شرح المسایرة، الأصل العاشر، فی اثبات نبوة نبینا، ص:199) یہی وجہ ہے کہ ساحرانِ فرعون نے موسی ں کا معجزہ دیکھ کر فوراً شکست تسلیم کر لی اور اقرار کر لیا کہ یہ معجزہ ہے ،جو اسباب طبعیہ سے ماوریٰ ہے، اسے سبب طبعیہ کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکتی۔ جب ساحر اوراہل فن معجزہ کو کسی سبب وغیرہ کا نتیجہ نہیں قرار دیتے تو ان کے مقابلے میں ان لوگوں کا یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ” سحر او رمعجزہ میں کوئی فرق نہیں، دونوں اسباب طبعیہ کا نتیجہ ہیں “؟ جنہیں اس فن سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
انبیاء علیہم السلام روحانیت اور اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں ، شعبدہ باز اور ساحر اخلاق رزیلہ کا شکار ہوتے ہیں، گندگی اور ناپاکی کے بغیر انہیں سحر پر قدرت ہی حاصل نہیں ہوتی۔
انبیاء علیہم السلام معجزوں کے ذریعے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے ہیں اور ساحر اپنے سحر کو معاش کا ذریعہ سمجھتے ہیں، چناں چہ ساحران فرعون نے اپنے جادوگری کے مظاہرے سے قبل اجرت کا مطالبہ پیش کیا:﴿وَجَاء السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالْواْ إِنَّ لَنَا لأَجْراً إِن کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِیْن﴾․ (الاعراف:113)
”بولے ہمارے لیے کچھ مزدوری ہے اگر ہم غالب ہوئے۔“
اگر جادوگر اور ساحر نبوت کا دعوی کر دے تو اس کی جادوگری اور ساحری کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے، کیوں کہ نبوت اور جادوگری دو متضاد چیزیں ہیں ،جو ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ (ملخص تفسیر عثمانی،البقرہ تحت آیہ رقم:50)
No comments:
Post a Comment