القرآن:
...درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ "متقی(پرہیزگار)" ہے...
[تفسیر البغوی:7/349،ابن کثیر:7/386، الثعلبی:2814» سورۃ الحجرات، آیت 13]
القرآن:
اور اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا، البتہ جو قسمیں تم نے اپنے "دلوں" کے ارادے سے کھائی ہوں گی ان پر گرفت کرے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔
[تفسیر الراغب الاصفھانی»سورۃ البقرة، آیت نمبر 225]
القرآن:
اور لوگوں کے سامنے (غرور سے) اپنے گال مت پھلاؤ، اور زمین پر اتراتے ہوئے مت چلو۔ یقین جانو اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ اور اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو اور اپنی آواز آہستہ رکھو بیشک سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے۔
[تفسیر ابن کثیر:6/343» سورۃ لقمان، آیت نمبر 18-19]
القرآن:
اللہ کو نہ ان(قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔۔۔
[تفسیر ابن کثیر:5/431»سورۃ الحج، آیت نمبر 37]
|
تشریح :
قلب ایسا بادشاہ اور رئیس ہے کہ اطاعت اور فرمانبرداری کے قابل ہے اور تمام اعضاء انسانی اس کے تابع اور ماتحت ہیں، لہذا جب متبوع میں صلاحیت پیدا ہوگی تو تابع میں یقینی طور پر ظاہر ہوگی اور جب بادشاہ راہ راست اختیار کرے گا تو اس کی رعایا خود راہ راست پر آجائے گی اور اس چیز کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بخوبی بیان کردیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إن فی الجسد لمضغۃ اذاصلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ ألا وہی القلب‘‘ ۔
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’قلب ایک قلعہ ہے اور شیطان دشمن ہے۔اور وہ چاہتا ہے کہ قلعہ میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کرلے۔ دشمن سے قلعہ کی حفاظت تب ہی ہوسکتی ہے کہ اس کے دروازوں کی حفاظت کی جائے اور تمام گزرگاہوں کو بچایاجائے، جو شخص حفاظت کرنا نہ جانتا ہو، وہ حفاظت بھی نہیں کرسکتا، چنانچہ وسواس شیطانی سے دل کی حفاظت کرنا واجب ہے، بلکہ یہ کام ہر مکلف پر بھی واجب ہوتا ہے، جب تک شیطانی گزرگاہوں سے واقف نہ ہو تب تک شیطان کو دور نہیں کرسکتا، اس لئے ان گزر گاہوں کا علم حاصل کرنا واجب ہے اور ان دروازوں سے آگاہ ہونا بھی واجب ہے، یہی بندے کی صفات ہیں اور یہ کئی ایک ہیں مثلاً:
۱۔ غضب وشہوت، غضب توعقل پر جناتی اثر کی طرح ہے۔ جب عقل کمزور ہو تو شیطانی لشکر حملہ آور ہوتا ہے اور جب انسان غصہ کرتاہے تو شیطان اس کے ذریعہ سے اپنا کھیل کھیلتا ہے، جیساکہ بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔
۲۔حسد وحرص، ان دونوں کی وجہ سے انسان ہرچیز کا حریص بن جاتا ہے، یہ چیزیں اسے لالچی اور اندھا بنادیتی ہیں، اب شیطان کو موقع ملتا ہے، حرص کے وقت وہ شہوت تک پہنچ جاتا ہے، چاہے کس قدر برا اور بے حیائی کا کام ہو۔
۳۔سیر ہوکر کھانا، اگرچہ حلال اور پاک ہو، اس لئے کہ سیر ہو کرکھانے سے شہوات کو قوت حاصل ہوتی ہے اور یہ شیطان کے ہتھیار ہیں۔
۴۔مکان، لباس اور سامان خانہ کے ساتھ زینت کرنا، جب انسان کے دل میں اس کا غلبہ دیکھتا ہے تو اس کو بڑھاتا ہے، وہ ہمیشہ مکان بنانے، اس کی چھتیں، دیوار سجانے اور عمارات کو وسیع کرنے میں لگائے رکھتا ہے، اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ تیری عمر بہت لمبی ہوگی، جب وہ ان کاموں میں گھر گیا تو اب دوبارہ اس کے پاس اسے آنے کی ضرورت نہیں رہتی، اب بعض کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیں کہ وہ شیطان کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، خواہشات کے مطیع ہوتے ہیں، اس سے انجام خراب ہونے کا بھی ڈر ہوتا ہے۔
دنیا دار الامتحان ہے، یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس کو ہم اپنی مرضی کی مطابق نہیں گزارسکتے، مگر ہرکام میں دیکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریقہ ہے؟۔
زندگی موت ہے اور موت زندگی کی ابتداء ہے جو اصل اور ابدی ہے، لہذا اس دنیا میں انسان کی ابدی زندگی سنوارنے کے لئے دو طریقے ہیں، اول: دل۔ اور دوم: جسم۔
دل جسم کا بادشاہ ہے، اگر وہ سنور گیا تو پورا جسم یا یوں کہئے پوری زندگی سنور گئی اور اگر وہ خراب یا فاسد ہوگیا تو پوری زندگی خراب ہوجائے گی ۔ دل کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے،دل احساسات کی کائنات ہے، دل مسکن الٰہی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام، اولیاء کرامؒ نے ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر محنت کی۔ دل میں اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی غیر کو، محبت کی نسبت، خوف کی نسبت، امید اور یقین کی نسبت نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایمان دل کی کیفیت کا نام ہے اور جسم سے اس کا اطاعت الٰہی کی صورت میں ظہور ہوتا ہے۔ایک بزرگ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جس طرح رات دن کا فرق ہے، اسی طرح نور وظلمت کا فرق ہے۔ نور حقیقی کے ظاہر ہوجانے کے بعد (یعنی اپنے اعمال نظر آجانے کے بعد) رات اور دن کے فرق کی طرح دین اور دنیا کا فرق معلوم ہوگا۔ دن کی روشنی اعمال میں کامیابی دکھاتی ہے اور دنیا کی چیزوں سے متنفر اور صراط مستقیم کا راستہ دکھاتی ہے۔ سورج کی روشنی بغیر محنت آجائے گی ، لیکن اعمال دکھانے والی روشنی محنت سے آتی ہے اور جب یہ روشنی نصیب ہوگئی تو پھر مطلب حاصل ہوگا۔ اس روشنی کے حصول کے بعد نہ سود کے نزدیک جائے گا، نہ کسی کو دھوکہ دینے کا سوال پیدا ہوگا اور نہ رشوت یا دیگر منکرات کے قریب جائے گا، جو کام کرے گا مرضی مولیٰ کی خاطر کرے گا، اگر کسی کو دوست بنائے گا تو بھی اسی کی مرضی مطلوب ہوگی اور اگر کسی کو دشمن سمجھے گا تو بھی اسی کی رضا کے لئے ‘‘۔
|
|
|
|
No comments:
Post a Comment