بعض غیرعالم ایک دو آیت یا حدیث سے کئی آیات و احادیث اور عمل کا انکار کرنے کی کوشش کرتے، کہتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا اس ارشاد ہے:
﴿لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾
ترجمہ:
’’اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے‘ بلکہ تمہارا ڈر پہنچتا ہے-‘‘
[سورۃ الحج، آیت: 37]
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی طرف نہیں دیکھتا اور نہ ہی تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ دلوں کی طرف دیکھتا ہے اور آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کیا۔
جبکہ دوسرے موقع پر یہ وضاحت وتفسیر موجود وثابت بھی ہے کہ تقویٰ سے مراد دل (کی نیت وایمان) کے ساتھ عمل بھی شامل ہے:
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ ، وَأَمْوَالِكُمْ ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ ، وَأَعْمَالِكُمْ " .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھے گا بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھے گا۔
[صحيح مسلم:2564 - كِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ - بَابُ تَحْرِيمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ، وَخَذْلِهِ، وَاحْتِقَارِهِ، وَدَمِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَالِهِ]
تخريج الحديث
|
ایک روایت میں یہ الفاظ مزید مروی ہیں:
لہٰذا جو بھی نیک دل رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہمدردی رکھتا ہے، اور تم سب تو بس (ایک) آدم کی اولاد ہو، تم میں سے سے کرامت(عزت) والا اللہ کے نزدیک زیادہ ڈرنے والا ہے۔
(سورۃ الحجرات:13)
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:1544]
فقہی نکتے:
(1)زہد یعنی نافرمانی سے حاصل کردہ دنیا کی حوصلہ شکنی کی کتاب:- اللہ کے ذکر ونصیحت کی فضیلت کا باب
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:1544]
(2)نیکی، صلہ رحمی اور اداب کی کتاب:- مسلمان بھائی پر ظلم کرنے اور اسے ذلیل کرنے اور اسے حقیر سمجھنے اور اس کے جان و مال وعزت کی حرمت کے بیان میں
[صحيح مسلم:2564 (6543)]
(3)عاجزی اختیار کرنے اور سستی چھوڑنے کا بیان
[التواضع والخمول لابن أبي الدنيا:31]
(4)حسد وبغض سے روکنا
[مستخرج أبي عوانة - ط الجامعة الإسلامية:11188]
(5)آدابِ رسول اللہ ﷺ :- آپ کے آگے بلند آواز نہ کرنا۔(اپنی رائے کو پیغمبر کے فرمان پر فوقیت نہ دینا)۔
[الأمثال والحكم - الماوردي: صفحہ 81]
(6)ایمان کی 71ویں شاخ:- زہد اور امیدیں گھٹانا۔
[شعب الإيمان - ت زغلول:10476]
(7)امیدوں کو گھٹانے اور عمل میں جلدی کرنا موت آنے سے پہلے۔
[الآداب للبيهقي:816]
(8)اللہ کے خوبصورت (خوبیوں والے) ناموں کا بیان:- نظر (دیکھنے) کے بارے میں
[الأسماء والصفات - البيهقي:1002+1003]
(9)قناعت (یعنی تھوڑے پر راضی رہنے) کی مدح اور سادگی کی تعریف کا بیان
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2448]
(10)بداخلاقیاں:- شہرت اور دکھلاوے، غرور کی مذمت، اور (خالص)نیت کی فضیلت کا بیان
[إحياء علوم الدين:3 / 276 (3/ 390) 4/ 362]
(11)تقویٰ (یعنی اللہ سے ڈرنے، نافرمانی سے بچنے) کی فضیلت
[شرح السنة للبغوي:4150]
(12)دکھلاوے اور سنوانے کی مذمت
[مصابيح السنة للبغوي:4097]
(13)توبہ (یعنی اللہ کی طرف لوٹ آنے) کا بیان
[الأحكام الكبرى-الإشبيلي:3 / 278]
(14)جاسوسی اور جو ناپسند کریں اپنی بات سنانا ان کی باتیں سننا۔
[رياض الصالحين ت الفحل:1570]
(15) شرعی سیاست میں راعی(نگہبان) اور رعیت کی اصلاح میں:-
اللہ کی ماننے والوں اور اللہ کے نافرمانی والوں میں تمیز (1)خالص نیت اور (2)نیک اعمال سے ہوتی ہے۔
لوگوں کے اجتماعی معاملات کا والی(نگران) کا تقرر کرنا دین کے واجبات میں سے ہے، بلکہ اس کے سوا دین اور دنیا تمام(قائم وباقی) نہیں، کیونکہ آدم کی اولاد کی مصلحتیں تمام(قائم وباقی) نہیں ہوتیں سوائے اجتماع کے ایک دوسرے کی ضرورت میں، نفع اٹھانےاور نقصان دفع کرنے کیلئے باہمی مدد ونصرت کیلئے۔ کیونکہ ان میں کوئی اکیلا نفع حاصل یا نقصان دفع نہیں کرسکتا۔
[السياسة الشرعية في إصلاح الراعي والرعية-ابن تيمية: صفحہ246]
(16)اپنی خوبصورتی کی محبت
[الاستقامة-ابن تيمية:1/ 245، مجموع الفتاوى-ابن تيمية:22/ 126]
دل کی خوبصورتی ظاہر کو مزین کرتی ہے۔
[روضة المحبين ونزهة المشتاقين: ص320]
(17)نظریں جھکانے کا بیان۔۔۔یعنی اجنبی مرد وعورت کا ایک دوسرے کو نہ دیکھنا، تاکہ دل کے زنا سے بچنا جاسکے۔
[مجموع الفتاوى-ابن تيمية:15/ 416، 21/ 248]
ارادے سے دل میں برے خیالات نہ لانا۔
(18)نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے قوائد و فوائد
لوگوں کی اقسام عروج وفساد میں
[قواعد وفوائد في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر من كلام شيخ الإسلام ابن تيمية: ص57]
(19)دوسرا کبیرہ (دل کا مخفی) گناہ- چھوٹا خفیہ شرک:-
نیت کو خالص نہ رکھنا، ریاء کرنا، شہرت چاہنا۔
[الزواجر عن اقتراف الكبائر-ابن حجر الهيتمي:1 / 82]
(20)اللہ کے رسول ﷺ کے اخلاق اور لباس وبستر:-
[المواهب اللدنية-القسطلاني:2/ 194، جمع الوسائل في شرح الشمائل:1 /119]
(21)اختیار وارادے سے کئے گئے اعمال کا بدلہ ملتا ہے، غلطی وبھول پرثواب کی طرح عذاب بھی نہیں۔
[الإحكام في أصول الأحكام:5/ 142]
اللہ پاک نے فرمایا:
۔۔۔۔لیکن وہ پکڑتا ہے تمہیں اس پر جو کمایا (کیا) تمہارے دلوں نے۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:225]
(22)نماز میں خیالات آنا برا نہیں لانا برا ہے۔
(23)منافقت نام ہے باطن میں برائی رکھنا اور ظاہر میں خوش اخلاقی دکھانا۔
(24)نعمتوں کی تازگی پیغمبر کریم ﷺ کے اچھے اخلاق میں:-
اخلاصِ نیت، تقویٰ(بچنا)، خشوع(ڈرنا)، برابری، عمل کی اہمیت
[نضرة النعيم في مكارم أخلاق الرسول الكريم: 2 / 134]
(25)توبہ- دل کی ندامت کے ساتھ لوٹنا اور استغفار-بخشش کی دعا کا عمل اختیار کرنا
[المنتخب من صحيح السنة النبوية: ص3]
دل کے اعمال: کی دو اقسام ہیں:
(1)اچھے اخلاق:
(۱)ایمان، (۲)اخلاص، (۳)توکل، (۴)خوف، (۵)رضیٰ، (۶)قناعت، (۷)حیاء،(۸) تواضع ، (۹)خشوع، (۱۰)تقویٰ، (۱۱)حلم وبردباری، (۱۲)صدق وسچائی، (۱۳)صبر، (۱۴)شکر، (۱۵)رحم ونرمی، (۱۶)احسان، (۱۷)زھد، (۱۸)فراسۃ، (۱۹)سخاوت (۲۰)خیرخواہی وغیرہ
(2)برے اخلاق:
(۱)الغفلۃ(بےتوجہی وبےدھیانی)،
(۲)الریاء(دکھلاوا)،
(۳)الکبر(فخر وغرور)،
(۴)العجلۃ(بےصبری وجلدبازی)،
(۵)العجز(کمزوری وبےہمتی)،
(۶)الکسل(سستی)،
(۷)الجبن(بزدلی)،
(۸)البخل(کنجوسی)،
(۹)الکفر ونفاق،
(۱۰)الحرص(لالچ)،
(۱۱)سوء الظن(بدگمانی)،
(۱۲)الظلم(کسی کا حق نہ ماننا)،
(۱۳)البخل(کنجوسی)،
(۱۴)تقعر وتکلف،
(۱۵)حسد وغیرہ
تشریح :
"قلب" یعنی دل رب العالمین اور احکم الحاکمین کے نظر فرمانے کا مقام ہے، اس شخص پر تعجب ہے جو اپنے چہرہ کا اہتمام کرتا ہے جو مخلوق کے دیکھنے کی چیز ہے، اس کو دھوتا اور گندگیوں اور میل سے صاف کرتا اور حتی الوسع اس کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ مخلوق کسی عیب پر نہ مطلع ہو اور اپنے اس قلب کا اہتمام نہیں کرتا جو رب العالمین کے نظر فرمانے کا مقام ہے، کسی عیب اور برائی ، گندگی اور آفت کو اس میں نہ دیکھے، بلکہ اس کو تو فضیحتوں، گندگیوں اور برائیوں میں ڈالے رکھتا ہے، اگر مخلوقات میں سے کوئی اس کو دیکھ لے تو اس سے علیحدگی اور جدائی اختیار کرلے اور اس کو چھوڑ دے۔
قلب ایسا بادشاہ اور رئیس ہے کہ اطاعت اور فرمانبرداری کے قابل ہے اور تمام اعضاء انسانی اس کے تابع اور ماتحت ہیں، لہذا جب متبوع میں صلاحیت پیدا ہوگی تو تابع میں یقینی طور پر ظاہر ہوگی اور جب بادشاہ راہ راست اختیار کرے گا تو اس کی رعایا خود راہ راست پر آجائے گی اور اس چیز کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بخوبی بیان کردیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إن فی الجسد لمضغۃ اذاصلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ ألا وہی القلب‘‘ ۔
قلب ایسا بادشاہ اور رئیس ہے کہ اطاعت اور فرمانبرداری کے قابل ہے اور تمام اعضاء انسانی اس کے تابع اور ماتحت ہیں، لہذا جب متبوع میں صلاحیت پیدا ہوگی تو تابع میں یقینی طور پر ظاہر ہوگی اور جب بادشاہ راہ راست اختیار کرے گا تو اس کی رعایا خود راہ راست پر آجائے گی اور اس چیز کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بخوبی بیان کردیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إن فی الجسد لمضغۃ اذاصلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ ألا وہی القلب‘‘ ۔
(ابن ماجہ،ج:۵،ص:۴۶۷)
ترجمہ:۔
’’بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو تو سارا بدن درست ہوتا ہے اور وہ خراب ہو تو سارا بدن خراب ہوجاتا ہے، ہوشیار رہو کہ وہ قلب ہے‘‘۔
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’قلب ایک قلعہ ہے اور شیطان دشمن ہے۔اور وہ چاہتا ہے کہ قلعہ میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کرلے۔ دشمن سے قلعہ کی حفاظت تب ہی ہوسکتی ہے کہ اس کے دروازوں کی حفاظت کی جائے اور تمام گزرگاہوں کو بچایاجائے، جو شخص حفاظت کرنا نہ جانتا ہو، وہ حفاظت بھی نہیں کرسکتا، چنانچہ وسواس شیطانی سے دل کی حفاظت کرنا واجب ہے، بلکہ یہ کام ہر مکلف پر بھی واجب ہوتا ہے، جب تک شیطانی گزرگاہوں سے واقف نہ ہو تب تک شیطان کو دور نہیں کرسکتا، اس لئے ان گزر گاہوں کا علم حاصل کرنا واجب ہے اور ان دروازوں سے آگاہ ہونا بھی واجب ہے، یہی بندے کی صفات ہیں اور یہ کئی ایک ہیں مثلاً:
۱۔ غضب وشہوت، غضب توعقل پر جناتی اثر کی طرح ہے۔ جب عقل کمزور ہو تو شیطانی لشکر حملہ آور ہوتا ہے اور جب انسان غصہ کرتاہے تو شیطان اس کے ذریعہ سے اپنا کھیل کھیلتا ہے، جیساکہ بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔
۲۔حسد وحرص، ان دونوں کی وجہ سے انسان ہرچیز کا حریص بن جاتا ہے، یہ چیزیں اسے لالچی اور اندھا بنادیتی ہیں، اب شیطان کو موقع ملتا ہے، حرص کے وقت وہ شہوت تک پہنچ جاتا ہے، چاہے کس قدر برا اور بے حیائی کا کام ہو۔
۳۔سیر ہوکر کھانا، اگرچہ حلال اور پاک ہو، اس لئے کہ سیر ہو کرکھانے سے شہوات کو قوت حاصل ہوتی ہے اور یہ شیطان کے ہتھیار ہیں۔
۴۔مکان، لباس اور سامان خانہ کے ساتھ زینت کرنا، جب انسان کے دل میں اس کا غلبہ دیکھتا ہے تو اس کو بڑھاتا ہے، وہ ہمیشہ مکان بنانے، اس کی چھتیں، دیوار سجانے اور عمارات کو وسیع کرنے میں لگائے رکھتا ہے، اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ تیری عمر بہت لمبی ہوگی، جب وہ ان کاموں میں گھر گیا تو اب دوبارہ اس کے پاس اسے آنے کی ضرورت نہیں رہتی، اب بعض کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیں کہ وہ شیطان کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، خواہشات کے مطیع ہوتے ہیں، اس سے انجام خراب ہونے کا بھی ڈر ہوتا ہے۔
دنیا دار الامتحان ہے، یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس کو ہم اپنی مرضی کی مطابق نہیں گزارسکتے، مگر ہرکام میں دیکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریقہ ہے؟۔
زندگی موت ہے اور موت زندگی کی ابتداء ہے جو اصل اور ابدی ہے، لہذا اس دنیا میں انسان کی ابدی زندگی سنوارنے کے لئے دو طریقے ہیں، اول: دل۔ اور دوم: جسم۔
دل جسم کا بادشاہ ہے، اگر وہ سنور گیا تو پورا جسم یا یوں کہئے پوری زندگی سنور گئی اور اگر وہ خراب یا فاسد ہوگیا تو پوری زندگی خراب ہوجائے گی ۔ دل کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے،دل احساسات کی کائنات ہے، دل مسکن الٰہی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام، اولیاء کرامؒ نے ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر محنت کی۔ دل میں اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی غیر کو، محبت کی نسبت، خوف کی نسبت، امید اور یقین کی نسبت نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایمان دل کی کیفیت کا نام ہے اور جسم سے اس کا اطاعت الٰہی کی صورت میں ظہور ہوتا ہے۔ایک بزرگ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جس طرح رات دن کا فرق ہے، اسی طرح نور وظلمت کا فرق ہے۔ نور حقیقی کے ظاہر ہوجانے کے بعد (یعنی اپنے اعمال نظر آجانے کے بعد) رات اور دن کے فرق کی طرح دین اور دنیا کا فرق معلوم ہوگا۔ دن کی روشنی اعمال میں کامیابی دکھاتی ہے اور دنیا کی چیزوں سے متنفر اور صراط مستقیم کا راستہ دکھاتی ہے۔ سورج کی روشنی بغیر محنت آجائے گی ، لیکن اعمال دکھانے والی روشنی محنت سے آتی ہے اور جب یہ روشنی نصیب ہوگئی تو پھر مطلب حاصل ہوگا۔ اس روشنی کے حصول کے بعد نہ سود کے نزدیک جائے گا، نہ کسی کو دھوکہ دینے کا سوال پیدا ہوگا اور نہ رشوت یا دیگر منکرات کے قریب جائے گا، جو کام کرے گا مرضی مولیٰ کی خاطر کرے گا، اگر کسی کو دوست بنائے گا تو بھی اسی کی مرضی مطلوب ہوگی اور اگر کسی کو دشمن سمجھے گا تو بھی اسی کی رضا کے لئے ‘‘۔
حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’قلب ایک قلعہ ہے اور شیطان دشمن ہے۔اور وہ چاہتا ہے کہ قلعہ میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کرلے۔ دشمن سے قلعہ کی حفاظت تب ہی ہوسکتی ہے کہ اس کے دروازوں کی حفاظت کی جائے اور تمام گزرگاہوں کو بچایاجائے، جو شخص حفاظت کرنا نہ جانتا ہو، وہ حفاظت بھی نہیں کرسکتا، چنانچہ وسواس شیطانی سے دل کی حفاظت کرنا واجب ہے، بلکہ یہ کام ہر مکلف پر بھی واجب ہوتا ہے، جب تک شیطانی گزرگاہوں سے واقف نہ ہو تب تک شیطان کو دور نہیں کرسکتا، اس لئے ان گزر گاہوں کا علم حاصل کرنا واجب ہے اور ان دروازوں سے آگاہ ہونا بھی واجب ہے، یہی بندے کی صفات ہیں اور یہ کئی ایک ہیں مثلاً:
۱۔ غضب وشہوت، غضب توعقل پر جناتی اثر کی طرح ہے۔ جب عقل کمزور ہو تو شیطانی لشکر حملہ آور ہوتا ہے اور جب انسان غصہ کرتاہے تو شیطان اس کے ذریعہ سے اپنا کھیل کھیلتا ہے، جیساکہ بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔
۲۔حسد وحرص، ان دونوں کی وجہ سے انسان ہرچیز کا حریص بن جاتا ہے، یہ چیزیں اسے لالچی اور اندھا بنادیتی ہیں، اب شیطان کو موقع ملتا ہے، حرص کے وقت وہ شہوت تک پہنچ جاتا ہے، چاہے کس قدر برا اور بے حیائی کا کام ہو۔
۳۔سیر ہوکر کھانا، اگرچہ حلال اور پاک ہو، اس لئے کہ سیر ہو کرکھانے سے شہوات کو قوت حاصل ہوتی ہے اور یہ شیطان کے ہتھیار ہیں۔
۴۔مکان، لباس اور سامان خانہ کے ساتھ زینت کرنا، جب انسان کے دل میں اس کا غلبہ دیکھتا ہے تو اس کو بڑھاتا ہے، وہ ہمیشہ مکان بنانے، اس کی چھتیں، دیوار سجانے اور عمارات کو وسیع کرنے میں لگائے رکھتا ہے، اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ تیری عمر بہت لمبی ہوگی، جب وہ ان کاموں میں گھر گیا تو اب دوبارہ اس کے پاس اسے آنے کی ضرورت نہیں رہتی، اب بعض کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیں کہ وہ شیطان کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، خواہشات کے مطیع ہوتے ہیں، اس سے انجام خراب ہونے کا بھی ڈر ہوتا ہے۔
دنیا دار الامتحان ہے، یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس کو ہم اپنی مرضی کی مطابق نہیں گزارسکتے، مگر ہرکام میں دیکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریقہ ہے؟۔
زندگی موت ہے اور موت زندگی کی ابتداء ہے جو اصل اور ابدی ہے، لہذا اس دنیا میں انسان کی ابدی زندگی سنوارنے کے لئے دو طریقے ہیں، اول: دل۔ اور دوم: جسم۔
دل جسم کا بادشاہ ہے، اگر وہ سنور گیا تو پورا جسم یا یوں کہئے پوری زندگی سنور گئی اور اگر وہ خراب یا فاسد ہوگیا تو پوری زندگی خراب ہوجائے گی ۔ دل کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے،دل احساسات کی کائنات ہے، دل مسکن الٰہی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام، اولیاء کرامؒ نے ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر محنت کی۔ دل میں اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی غیر کو، محبت کی نسبت، خوف کی نسبت، امید اور یقین کی نسبت نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایمان دل کی کیفیت کا نام ہے اور جسم سے اس کا اطاعت الٰہی کی صورت میں ظہور ہوتا ہے۔ایک بزرگ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جس طرح رات دن کا فرق ہے، اسی طرح نور وظلمت کا فرق ہے۔ نور حقیقی کے ظاہر ہوجانے کے بعد (یعنی اپنے اعمال نظر آجانے کے بعد) رات اور دن کے فرق کی طرح دین اور دنیا کا فرق معلوم ہوگا۔ دن کی روشنی اعمال میں کامیابی دکھاتی ہے اور دنیا کی چیزوں سے متنفر اور صراط مستقیم کا راستہ دکھاتی ہے۔ سورج کی روشنی بغیر محنت آجائے گی ، لیکن اعمال دکھانے والی روشنی محنت سے آتی ہے اور جب یہ روشنی نصیب ہوگئی تو پھر مطلب حاصل ہوگا۔ اس روشنی کے حصول کے بعد نہ سود کے نزدیک جائے گا، نہ کسی کو دھوکہ دینے کا سوال پیدا ہوگا اور نہ رشوت یا دیگر منکرات کے قریب جائے گا، جو کام کرے گا مرضی مولیٰ کی خاطر کرے گا، اگر کسی کو دوست بنائے گا تو بھی اسی کی مرضی مطلوب ہوگی اور اگر کسی کو دشمن سمجھے گا تو بھی اسی کی رضا کے لئے ‘‘۔
نبی نے اپنی پاک بیویوں کو ایک نابینا صحابی سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
نبی ﷺ کی پاک بیوی حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس تھی اور آپ کے پاس حضرت میمونہؓ (بھی) تھیں۔ سامنے سے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (جو نابینا تھے) تشریف لائے اور یہ واقعہ پردہ کا حکم دیے جانے کے بعد کا ہے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان سے تم دونوں پردہ کرو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ ہمیں نہیں دیکھتے اور نہ ہمیں پہچانتے ہیں؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو انہیں نہیں دیکھتی ہو (معلوم ہوا کہ جہاں مرد کو عورت پر نظر نہیں ڈالنی چاہے وہیں پر عورت کے لے بھی جائز نہیں کہ مرد کو دیکھے بلا ضرورت لیکن کسی ضرورت سے بازار ہسپتال وغیرہ جانا پڑے تو دوسری بات ہے۔)
[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 720 (18789 )، - لباس کا بیان : مومن عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دینے والے فرمان الہی کا بیان]
=============================
لا ينظر الله إلى صلاة رجل لا يقيم صلبه بين ركوعه وسجوده
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ اس آدمی کی نماز پر نظر بھی نہیں فرماتا جو رکوع اور سجدے کے درمیان اپنی کمر کو سیدھا نہیں کرتا۔ (اطمینان سے ارکان ادا نہیں کرتا)
[مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 3559 ، 56479]
الشواهد
|
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والوں کو رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے. (ایک روایت کے مطابق قیامت کے دن).
[مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 1063، 48902]
تخريج الحديث
3) إِنَّ اللَّهَ لا يَنْظُرُ إِلَى مَنْ يَخْضِبُ بِالسَّوَادِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
الله نہیں نظر فرماۓ گا قیامت کے دن (اس پر) جو کالا خضاب کرے
=============================
فإن الله لا يحب الفحش والتفحش
اللہ تعالیٰ بد زبانی اور بد گوئی کو پسند نہیں کرتا (اللہ تعالیٰ گندی باتیں کرنے گندا سندا رہنے کو پسند نہیں فرماتا)؛
[صحیح مسلم: جلد سوم: حدیث نمبر 1162، 12792]
تخريج الحديث
|
4) ارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ
اپنے تہبند کو نصف ساق (آدھی پنڈلی) تک اونچا رکھو، پس اگر اس سے انکار کرو تو کم ازکم ٹخنوں سے اونچا رکھو اور تہبند (شلوار یا پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچتے رہو اس لیے کہ یہ تکبر میں سے ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں فرماتے
|
لَا تُسْبِلْ إِزَارَكَ ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُسْبِلِينَ
اپنے کپڑے مت لٹکاؤ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کپڑا لٹکانے والے کو پسند نہیں فرماتے ۔
|
No comments:
Post a Comment