Thursday, 30 April 2015

فضائلِ سورة الإخلاص


سورۃ الاخلاص پڑھنے پر جنت واجب ہوجاتی ہے:

(1)حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ مُهَاجِرٍ أَبِي الْحَسَنِ ، عَنْ شَيْخٍ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ، فَمَرَّ بِرَجُلٍ يَقْرَأُ : قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ ، قَالَ : " أَمَّا هَذَا فَقَدْ بَرِئَ مِنَ الشِّرْكِ " ، قَالَ : وَإِذَا آخَرُ يَقْرَأُ : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " بِهَا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدِ الْمَدَنِيِّينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ ... » حَدِيثُ شَيْخٍ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ ... رقم الحديث: 16261(16169)]
(اما احمدؒ فرماتے ہیں کہ)ہم سے حدیث بیان کی ابو النضر نے، انہوں نے کہا: ہمیں المسعودی نے مہاجر ابو الحسن کی واسطہ سے (بیان کیا کہ)، ایک شیخ سے جنہوں نے نبی ﷺ کو پایا ہے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے ساتھ سفر پر نکلا تو نبی ﷺ کا گذر ایک آدمی پر ہوا جو سورۃ الکافرون کی تلاوت کر رہا تھا، نبی ﷺ نے فرمایا: یہ تو شرک سے بری ہوگیا، پھر دوسرے آدمی کو دیکھا وہ سورۃ الاخلاص کی تلاوت کر رہا تھا، نبی ﷺ نے فرمایا: اس (سورۃ کے پڑھنے کی برکت) سے اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔
[مسند احمد:16605+16617+23194+23206، مسند دارمی:3469، السنن الكبرى للنسائی:10473+10571]
صحيح الكتب التسعة وزوائده:648

















أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ - بِسمِ ٱللهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيـمِ
قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ 0 ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ 0 لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ 0 وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُواً أَحَدٌ 0
ترجمہ:
آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیئے (1) کہ وہ الله (اپنے کمال ذات اور صفات میں) ایک ہے۔ (2) الله ایسا بےنیاز ہے(کہ وہ کسی کا محتاج نہیں اور اس کے سب محتاج ہیں)۔ (3) اس کے اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے (4)۔ اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے۔
[سورۃ الاخلاص:1-4]
تفسیر:
1: بعض کافروں نے حضور اقدس ﷺ سے پوچھا تھا کہ آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہ کیسا ہے؟ اس کا حسب نسب بیان کر کے اس کا تعارف تو کرائیے۔ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔
[روح المعانی بحوالہ بیہقی و طبرانی وغیرہ]
2: یہ قرآن کریم کے لفظ ’’احد‘‘ کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صرف ’’ ایک ‘‘ کا لفظ اس کے پورے معنی ظاہر نہیں کرتا۔ ’’ ہر لحاظ سے ایک ‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات اس طرح ایک ہے کہ اس کے نہ اجزاء ہیں، نہ حصے ہیں، اور نہ اس کی صفات کسی اور میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بھی ایک ہے، اور اپنی صفات میں بھی ۔
3: یہ قرآن کریم کے لفظ ’’ اَلصَّمَدُ ‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا مفہوم بھی اردو کے کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ عربی میں ’’ صمد ‘‘ اس کو کہتے ہیں جس سے سب لوگ اپنی مشکلات میں مدد لینے کے لیے رجوع کرتے ہوں، اور سب اس کے محتاج ہوں، اور وہ خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ عام طور سے اختصار کے پیش نظر اس لفظ کا ترجمہ ’’ بے نیاز ‘‘ کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس کے صرف ایک پہلو کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن یہ پہلو اس میں نہیں آتا کہ سب اس کے محتاج ہیں۔ اس لیے یہاں ایک لفظ سے ترجمہ کرنے کے بجائے اس کا پورا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔
4: یہ ان لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ یا حضرت عزیر علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔

5: یعنی کوئی نہیں ہے جو کسی معاملے میں اس کی برابری یا ہمسری کرسکے۔ اس سورۃ کی ان چار مختصر آیتوں میں اللہ تعالی کی توحید کو انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، پہلی آیت میں ان کی تردید ہے جو ایک سے زیادہ خداؤں کے قائل ہیں، دوسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالی کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا، کار ساز یا حاجت روا قرار دیتے ہیں، تیسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالی کے لئے اولاد مانتے ہیں، اور چوتھی آیت میں ان لوگوں کا ردّ کیا گیا ہے جو اللہ تعالی کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں مثلاً بعض مجوسیوں کا کہنا یہ تھا کہ روشنی کا خالق کوئی اور ہے اور اندھیرا کا خالق کوئی اور ہے، اسی طرح اس مختصر سورت نے شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دیکر خالص توحید ثابت کی ہے، اس لئے اس سورت کو سورۂ اخلاص کہا جاتا ہے، اور ایک صحیح حدیث میں اس کو قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین عقیدوں پر زور دیا ہے : توحید، رسالت اور آخرت اور اس صورت نے ان میں توحید کے عقیدے کی پوری وضاحت فرمائی ہے ، اس سورۃ کی تلاوت کے بھی احادیث میں بہت فضائل آئے ہیں۔







******************************





(2)حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ ابْنِ حُنَيْنٍ مَوْلًى لِآلِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ مَوْلَى زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : أَقْبَلْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَجَبَتْ ، قُلْتُ : وَمَا وَجَبَتْ ؟ قَالَ : الْجَنَّةُ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، وَابْنُ حُنَيْنٍ هُوَ عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ .
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ /65 الْإِخْلَاصِ /65 ... رقم الحديث: 2841]
ابوکریب، اسحاق بن سلیمان، مالک بن انس، عبیداللہ بن عبدالرحمن، ابوحنین مولی لآل زید بن خطاب یا مولی زید بن خطاب، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ ﷺ نے کسی کو سورہ اخلاص پڑھتے ہوئے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: واجب ہوگئی، میں نے پوچھا، کیا واجب ہوگئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا؟ جنت۔


یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو صرف مالک بن انس کی روایت سے جانتے ہیں اور ابوحنین وہ عبید بن حنین ہیں۔
[سنن ترمذی:2897، سنن نسائی:994، المستدرك على الصحيحين للحاكم:2079]
صحيح الترغيب والترهيب:1478





حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ ابْنَ حُنَيْنٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ: ‌قُلْ ‌هُوَ ‌اللهُ ‌أَحَدٌ حَتَّى خَتَمَهَا، فَقَالَ " وَجَبَتْ " قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ مَا وَجَبَتْ؟ قَالَ: " ‌الْجَنَّةُ " قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَهُ فَأُبَشِّرَهُ، فَآثَرْتُ الْغَدَاءَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَرِقْتُ أَنْ يَفُوتَنِي الْغَدَاءُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى الرَّجُلِ فَوَجَدْتُهُ قَدْ ذَهَبَ۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سورہ اخلاص کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: واجب ہوگئی۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا چیز واجب ہوگئی؟ فرمایا: اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا اس کے پاس جا کر اسے یہ خوشخبری دے دوں اور اپنا ناشتہ قربان کردوں لیکن پھر مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ میرا ناشتہ فوت نہ ہوجائے چنانچہ بعد میں اس آدمی کے پاس پہنچا تو وہ جا چکا تھا۔
[مسند احمد: حدیث نمبر 10919، إسناده صحيح]
[موطأ مالك - رواية يحيى - ت الأعظمي:709، مسند البزار:8784، المستدرك على الصحيحين للحاكم:2079]





(3)حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ مَيْمُونٍ أَبُو سَهْلٍ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ قَرَأَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَتَيْ مَرَّةٍ " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " مُحِيَ عَنْهُ ذُنُوبُ خَمْسِينَ سَنَةً إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ " ، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنَامَ عَلَى فِرَاشِهِ فَنَامَ عَلَى يَمِينِهِ ، ثُمَّ قَرَأَ " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " مِائَةَ مَرَّةٍ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَقُولُ لَهُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا عَبْدِيَ ادْخُلْ عَلَى يَمِينِكَ الْجَنَّةَ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا عَنْ ثَابِتٍ .
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ /65 الْإِخْلَاصِ /65 ... رقم الحديث: 2842]
محمد بن مرزوق بصری، حاتم بن میمون ابوسہل، ثابت بنانی، حضرت انس بن مالک ؓ نبی اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص روزانہ دو سو(200) مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے، اس کے پچاس(50) سال کے گناہ معاف کر دیئے گئے، ہاں البتہ اگر اس پر قرض ہوگا، تو وہ معاف نہیں ہوگا، اسی سند سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے سونے کا ارادہ کیا اور پھر اپنی دائیں کروٹ لیٹا، پھر سو(100) مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے بندے اپنی دائیں جانب سے جنت میں داخل ہو جا، یہ حدیث ثابت کی روایت سے غریب ہے۔ وہ انسؓ سے روایت کرتے ہیں، پھر یہ اس کے علاوہ اور اس سند سے بھی منقول ہے۔
[جامع ترمذی: حدیث نمبر 2898، مصابيح السنة-البغوي:1558]






حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ ‌أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّ هَذِهِ السُّورَةَ: ‌قُلْ ‌هُوَ ‌اللهُ ‌أَحَدٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ ‌الْجَنَّةَ "۔
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں سورہ اخلاص سے محبت رکھتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اس سورت سے محبت کرنا تمہیں جنت میں داخل کروادے گا۔
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
[مسند احمد: حدیث نمبر 12432] 




حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ ‌أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ: إِنِّي أُحِبُّ هَذِهِ السُّورَةَ: ‌قُلْ ‌هُوَ ‌اللهُ ‌أَحَدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ ‌
‌الْجَنَّةَ "۔
ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں سورہ اخلاص سے محبت رکھتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اس سورت سے محبت کرنا تمہیں جنت میں داخل کروادے گا۔

[مسند احمد: حدیث نمبر 12512]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءَ ، فَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ لَهُمْ فِي الصَّلَاةِ فَقَرَأَ بِهَا افْتَتَحَ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا ، ثُمَّ يَقْرَأُ بِسُورَةٍ أُخْرَى مَعَهَا ، وَكَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ ، فَكَلَّمَهُ أَصْحَابُهُ فَقَالُوا : إِنَّكَ تَقْرَأُ بِهَذِهِ السُّورَةِ ثُمَّ لَا تَرَى أَنَّهَا تُجْزِيكَ حَتَّى تَقْرَأَ بِسُورَةٍ أُخْرَى ، فَإِمَّا أَنْ تَقْرَأَ بِهَا وَإِمَّا أَنْ تَدَعَهَا وَتَقْرَأَ بِسُورَةٍ أُخْرَى ، قَالَ : مَا أَنَا بِتَارِكِهَا ، إِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ أَؤُمَّكُمْ بِهَا فَعَلْتُ ، وَإِنْ كَرِهْتُمْ تَرَكْتُكُمْ ، وَكَانُوا يَرَوْنَهُ أَفْضَلَهُمْ وَكَرِهُوا أَنْ يَؤُمَّهُمْ غَيْرُهُ ، فَلَمَّا أَتَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ فَقَالَ : " يَا فُلَانُ ، مَا يَمْنَعُكَ مِمَّا يَأْمُرُ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ أَنْ تَقْرَأَ هَذِهِ السُّورَةَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ " ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي أُحِبُّهَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ حُبَّهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، وَرَوَى مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي أُحِبُّ هَذِهِ السُّورَةَ " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " فَقَالَ : " إِنَّ حُبَّكَ إِيَّاهَا يُدْخِلُكَ الْجَنَّةَ " ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَشْعَثِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ ، بِهَذَا .
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ /65 الْإِخْلَاصِ /65 ... رقم الحديث: 2845]

محمد بن اسماعیل، اسماعیل بن ابی اویس، عبدالعزیز بن محمد، عبیداللہ بن عمربن ثابت بنانی، حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری شخص مسجد قباء میں ہم لوگوں کی امامت کرتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ جب بھی نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھنے لگتے تو پہلے سورہ اخلاص پڑھتے پھر کوئی سورت پڑھتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے۔ ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کیا آپ سورہ اخلاص پڑھنے کے بعد یہ سوچتے ہیں کہ یہ کافی نہیں پھر دوسری بھی پڑھتے ہیں۔ یا تو آپ یہ سورت پڑھ لیا کریں یا پھر کوئی اور سورت، انہوں نے فرمایا: میں اسے یہ ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمہاری امامت کروں تو ٹھیک ہے ورنہ میں چھوڑ دیتا ہوں۔ وہ لوگ انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے، لہذا کسی اور کی امامت پسند نہیں کرتے تھے، چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ ﷺ نے اس شخص سے پوچھا: اے فلاں ! تمہیں اپنے دوستوں کی تجویز پر عمل کرنے سے کونسی چیز روکتی ہے اور کیا وجہ سے کہ تم ہر رکعت میں سورت (یعنی سورہ اخلاص) پڑھتے ہو؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! میں اس سورت سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں اس سورۃ سے محبت یقینا جنت میں داخل کرے گی۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ یعنی عبیداللہ بن عمر کی ثابت بنانی سے روایت ہے۔ مبارک بن فضالہ بھی اسے ثابت بنانی سے اور وہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اس سورت (یعنی سورہ اخلاص) سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسکی محبت تمہیں جنت میں داخل کر دے گی۔
[جامع ترمذی: حدیث نمبر 2901، مسند أبي يعلى:3335، صحيح ابن خزيمة:537، صحيح ابن حبان:794]






(4)حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، ثَنَا حَيْوَةُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عَقِيلٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «مَنْ قَرَأَ {‌قُلْ ‌هُوَ ‌اللَّهُ ‌أَحَدٌ} عَشْرَ مَرَّاتٍ، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرٌ فِي ‌الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأَ عِشْرِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرَانِ فِي ‌الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأَهَا ثَلَاثِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا ثَلَاثَةُ قُصُورٍ فِي ‌الْجَنَّةِ». فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذاً لَتَكْثُرَنَّ قُصُورُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -: «اللَّهُ أَوْسَعُ مِنْ ذَلِكَ».
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَزَعَمُوا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الأَبْدَالِ۔
ترجمہ:
سعید بن مسیبؒ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دس(10) مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے گا اس کے لیے جنت میں ایک محل بنا دیا جائے گا، اور جو شخص بیس(20) مرتبہ پڑھے گا اسکے لیے جنت میں دو(2) محل بنا دیے جائیں گے، اور جو شخص تیس(30) مرتبہ پڑھے گا اسکے لیے جنت میں تین(3) محل بنا دیے جائیں گے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! اس طرح تو ہم بہت سے محل پا لیں گے! نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی رحمت اس سے زیادہ وسیع ہے۔
امام دارمیؒ(م255ھ) فرماتے ہیں ابوعقیل نامی راوی کا نام زہرہ بن معبد ہے لوگوں نے یہ بات سنی کہ یہ صاحب ابدال کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
[تفسير القرآن من الجامع لابن وهب:269، سنن دارمی:1254، المعجم الأوسط-الطبراني:281]





حضرت معاذ بن انسؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے گا اللہ جنت میں اس کا محل تعمیر کرے گا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس طرح تو ہم بہت سے محلات بنالیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ بڑی کثرت والا اور بہت عمدگی والا ہے۔
[مسند احمد: حدیث نمبر 15610، فضائل القرآن لابن الضريس:296، المعجم الكبير للطبراني:397، فضائل سورة الإخلاص للحسن الخلال:1+29+32]







(5)عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَقْرَأُ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ}  فَقَالَ: " أَوْجَبَ هَذَا " أَو " وَجَبَتْ لِهَذَا الْجَنَّةُ۔
ترجمہ:
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو سورہ اخلاص کی تلاوت کررہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔
[مسند أحمد:22289، المعجم الكبير للطبراني:7866، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:]



حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ رَجُلًا سَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ رَدِّدُهَا ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ ، وَكَأَنَّ الرَّجُلَ يَتَقَالُّهَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ " ، وَزَادَ أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي أَخِي قَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ مِنَ السَّحَرِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ لَا يَزِيدُ عَلَيْهَا ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا أَتَى الرَّجُلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ .
[صحيح البخاري » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ ... رقم الحديث: 4652]

عبداللہ بن یوسف، مالک، عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ اپنے والد سے، وہ ابوسعید خدریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کسی کو سورہ اخلاص بار بار پڑھتے ہوئے سنا، صبح کو اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر بیان کیا اور وہ سورہ اخلاص کو چھوٹی ہونے کی وجہ سے کمتر جانتا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کہ قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ سورۃ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے، ابومعمر نے مزید بیان کیا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے ان سے مالک بن انس نے ان سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوصعصعہ نے ان سے ان کے والد نے ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ مجھے میرے بھائی قتادہ بن نعمان نے خبر دی کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پچھلی رات اٹھ کر سورۃ اخلاص پڑھنے لگا اور اس کے علاوہ کچھ نہ پڑھا، جب صبح ہوئی تو اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 6]



عمربن حفص، اعمش، ابراہیم، ضحاک المشرقی، ابوسعید خدریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی تہائی قرآن پڑھنے سے رات بھر میں عاجز ہوجاتا ہے، تو صحابہ کو یہ مشکل معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! اتنی طاقت کس میں ہے، آپ نے فرمایا سورۃ اخلاص جس میں اللہ واحد الصمد کی صفات درج ہیں، تہائی قرآن کے برابر ہے، فریری کہتے کہ میں نے ابوجعفر محمد بن حاتم کاتب ابوعبداللہ (بخاری) سے سنا ہے، ابوعبداللہ کہتے تھے یہ حدیث ابراہیم سے مرسل ہے اور ضحاک مشرقی سے مسند کے طور پر بیان کی گئی ہے۔[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 7]






قتیبہ بن سعید، مفضل، عقیل، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر آرام فرماتے تو روزانہ رات کو اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر ان پر سورۃ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر دم کرتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے تمام بدن پر پھیرلیتے، پہلے اپنے سر اور چہرے مبارک پر پھیرتے اس کے بعد اپنے تمام اوپر کے جسم پر جہاں تک کہ آپ کا ہاتھ پہنچتا اور یہ فعل آپ تین مرتبہ کرتے تھے۔[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 9]
[شمائل ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 240]







محمود بن غیلان، ابوعمار، ابواحمد زبیری، سفیان، ابواسحاق ، مجاہدؒ، ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں ایک ماہ تک رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا رہا آپ ﷺ فجر کی دو سنتوں میں سورة کافرون اور اسورة اخلاص پڑھا کرتے تھے اس باب میں ابن مسعود انس ابوہریرہ ابن عباس حفصہ اور حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں ابن عمر کی حدیث حسن ہے اور ہم اسے بواسطہ سفیان ثوری ابواسحاق سے صرف ابواحمد کی روایت سے جانتے ہیں اور لوگوں کے نزدیک معروف یہ ہے کہ اسرائیل ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں ابواحمد سے بھی یہ حدیث بواسطہ اسرائیل روایت کی گئی ہے اور ابواحمد زبیری ثقہ اور حافظ ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے بندار سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابواحمد زبیری سے بہتر حافظ نہیں دیکھا ان کا نام محمد بن عبداللہ بن زبیری اسدی کوفی ہے .
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 404]

محمد بن مثنی، بدل بن محبر، عبدالملک بن معدان بن عاصم بن ابووائل، عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں شمار نہیں کرسکتا کہ میں نے کتنی مرتبہ رسول اللہ ﷺ کو مغرب اور فجر کی دو سنتوں میں سورہ کافرون اور سورة اخلاص پڑھتے ہوئے سنا اس باب میں حضرت ابن عمر سے بھی روایت ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں ابن مسعودؓ کی حدیث غریب ہے ہم اس کو عبدالملک بن معدان کی عاصم سے روایت کے علاوہ نہیں جانتے.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 418]

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِيهِنَّ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِثَلَاثِ سُوَرٍ آخِرُهُنَّ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِشَةَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَأَبِي أَيُّوبَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، وَيُرْوَى أَيْضًا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ ، عَنْ أُبَيٍّ ، وَذَكَرَ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أُبَيٍّ ، قَالَ أَبُو عِيسَى : وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا ، وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ بِثَلَاثٍ ، قَالَ سُفْيَانُ : إِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِخَمْسٍ ، وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِثَلَاثٍ ، وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِرَكْعَةٍ . قَالَ سُفْيَان : وَالَّذِي أَسْتَحِبُّ أَنْ أُوتِرَ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ ، وَهُوَ قَوْلُ : ابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ : كَانُوا يُوتِرُونَ بِخَمْسٍ وَبِثَلَاثٍ وَبِرَكْعَةٍ وَيَرَوْنَ كُلَّ ذَلِكَ حَسَنًا .
[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْوِتْرِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِثَلَاثٍ ... رقم الحديث: 422]

ہناد، ابوبکربن عیاش، ابواسحاق ، حارث، حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور ان میں قصار مفصل کی نو سورتیں پڑھتے اور ہر رکعت میں تین سورتیں جن میں آخری سورة اخلاص ہوتی تھی اس باب میں عمران بن حصین عائشہ ابن عباس ابوایوب اور عبدالرحمن بن ابزی سے بھی روایت ہے عبدالرحمن بن ابزی نبی ﷺ سے بھی روایت کرتے ہیں بعض حضرات اسے اسی طرح نقل کرتے ہوئے ابی بن کعب کا ذکر نہیں کرتے جبکہ بعض حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے اور وہ ابی بن کعب سے نقل کرتے ہیں امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں علماء صحابہ وغیر کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے کہ وتر میں تین رکعات پڑھی جائیں سفیان کہتے ہیں کہ اگر چاہئے تو پانچ پڑھے لیکن میرے نزدیک وتر کی تین رکعتیں پڑھنا مستحب ہے ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے ہم سے روایت کی سعید بن یعقوب طالقانی نے انہوں نے حماد بن زید سے انہوں نے ہشام سے انہوں نے محمد بن سیرین سے محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ صحابہ کرام پانچ تین اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے اور تینوں طرح پڑھنا اچھا سمجھتے تھے .[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 448]



علی بن حجر، شریک، ابواسحاق ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورة اعلی سورہ کافروں اور سورة اخلاص پڑھتے تھے اس باب میں حضرت علی عائشہ اور عبدالرحمن بن ابزی بھی ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں نبی ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری رکعت میں سورة اخلاص اور معوذتیں بھی پڑھیں جسے صحابہ کرام اور بعد کے اہل علم کی اکثریت نے اختیار کیا ہے وہ یہی ہے کہ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ, سورة کافروں اور سورہ اخلاص تینوں میں سے ہر رکعت میں ایک سورة پڑھے .
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 450]



اسحاق بن ابراہیم بن حبیب بن شہید بصری، محمد بن سلمہ حرانی، خصیف، عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں کیا پڑھتے تھے انہوں نے فرمایا آپ ﷺ پہلی رکعت میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی) اور دوسری رکعت میں ( يَا أَيُّهَا الْکَافِرُونَ) اور تیسری رکعت میں (هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) اور معوذتین پڑھتے تھے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے عبدالعزیز ابن جریج کے والد اور عطاء کے ساتھ ہیں ابن جریج کا نام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے یحیی بن سعید انصاری نے بھی یہ حدیث بواسطہ عمرو حضرت عائشہ سے اور وہ نبی ﷺ سے روایت کرتی ہیں.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 451]





حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْحَرَشِيُّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَلْمِ بْنِ صَالِحٍ الْعِجْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَرَأَ " إِذَا زُلْزِلَتْ " عُدِلَتْ لَهُ بِنِصْفِ الْقُرْآنِ ، وَمَنْ قَرَأَ " قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ " عُدِلَتْ لَهُ بِرُبُعِ الْقُرْآنِ ، وَمَنْ قَرَأَ " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " عُدِلَتْ لَهُ بِثُلُثِ الْقُرْآنِ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ الْحَسَنِ بْنِ سَلْمٍ ، وَفِي الْبَابِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ .
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ /65 الْإِخْلَاصِ /65 ... رقم الحديث: 2893]

محمد بن موسیٰ جرشی بصری، حسن بن سلیم بن صالح عجلی، ثابت بنانی، حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے سورہ زلزال پڑھی اس کے لئے آدھے قرآن پڑھنے کا ثواب ہے۔ جس نے سورہ کافرون پڑھی اس کے لئے چوتھائی قرآن کا اور جس نے سورہ اخلاص پڑھی اس کے لئے تہائی قرآن کا ثواب ہے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف حسن بن سلم کی روایت سے جانتے ہیں اور اس باب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 820]



حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ : " هَلْ تَزَوَّجْتَ يَا فُلَانُ ؟ قَالَ : لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَلَا عِنْدِي مَا أَتَزَوَّجُ بِهِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : ثُلُثُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : رُبُعُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : رُبُعُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : رُبُعُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : تَزَوَّجْ تَزَوَّجْ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ .
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ /65 الْإِخْلَاصِ /65 ... رقم الحديث: 2839]

عقبة بن مکرم عمی بصری، ابن ابی فدیک، سلمة بن وردان، حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کسی صحابی سے پوچھا کیا تم نے شادی کرلی ہے؟ اس نے عرض کیا اللہ کی قسم نہیں کی یا رسول اللہ ! اور نہ ہی میرے پاس اتنا مال ہے کہ جس سے شادی کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں سورہ اخلاص یاد نہیں، عرض کیا، کیوں نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تہائی قرآن ہوا، پھر آپ ﷺ نے پوچھا سورہ نصر یاد ہے، اس نے عرض کیا کیوں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا یہ چوتھائی قرآن ہوا، پھر پوچھا سورہ کافرون یاد ہے؟ اس نے عرض کیا جی ہاں، کیوں نہیں آپ ﷺ نے فرمایا یہ بھی چوتھائی قرآن ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا سورہ زلزال یاد ہے، اس نے عرض کیا جی ہاں کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ بھی چوتھائی قرآن ہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا تم نکاح کرو۔ نکاح کرو۔ یہ حدیث حسن ہے۔[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 821]




حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا يَمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا زُلْزِلَتْ " تَعْدِلُ نِصْفَ الْقُرْآنِ ، " وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ، " وَقُلْ يأَيُّهَا الْكَافِرُونَ " تَعْدِلُ رُبُعَ الْقُرْآنِ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَمَانِ بْنِ الْمُغِيرَةِ .
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ /65 الْإِخْلَاصِ /65 ... رقم الحديث: 2838]

علی بن حجر، یزید بن ہارون، یمان بن مغیرة عنزی، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورہء زلزال نصف قرآن کے برابر، سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر اور سورہ کافرون چوتھائی قرآن کے برابر ہے۔ یہ حدیث غریب، ہم اس حدیث کو صرف یمان بن مغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 822]



حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ ، عَنْ رَبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنٍ امْرَأَةِ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ فِي لَيْلَةٍ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ؟ مَنْ قَرَأَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ فَقَدْ قَرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ " ، وَفِي الْبَابِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، وَأَبِي سَعِيدٍ ، وَقَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ ، وَأَنَسٍ ، وَابْنِ عُمَرَ ، وَأَبِي مَسْعُودٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ ، وَلَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَحْسَنَ مِنْ رِوَايَةِ زَائِدَةَ ، وَتَابَعَهُ عَلَى رِوَايَتِهِ إِسْرَائِيلُ ، وَالْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنً الثِّقَاتِ هَذَا الْحَدِيثَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَاضْطَرَبُوا فِيهِ .
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ /65 الْإِخْلَاصِ /65 ... رقم الحديث: 2840]

محمد بشار، عبدالرحمن بن مہدی، زائدة، منصور، ہلال بن یساف، ربیع بن خثیم و عمرو بن میمون، عبدالرحمن بن ابی لیلی، امرائة ابی ایوب، حضرت ابوایوبؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی روزانہ رات کو تہائی قرآن کو پڑھنے سے بھی عاجز ہے کیوں کہ جس نے سورہ اخلاص پڑھی گویا کہ اس نے تہائی قرآن پڑھا۔ اس باب میں حضرت ابودرداءؓ، ابوسعیدؓ، قتادہ بن نعمانؓ، ابوہریرہؓ انس رضی اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابومسعودؓ سے بھی روایت ہے۔ یہ حدیث حسن ہے، ہمیں علم نہیں کہ اس حدیث کو کسی زائدہ سے بہتر بیان کیا ہو۔ اسرائیل اور فیاض بھی ان کی متابعت کرتے ہیں، پھر شعبہ اور کئی ثقہ راوی اسے منصور سے نقل کرتے ہوئے اضطراب کرتے ہیں۔
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 823]





حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " احْشُدُوا فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ، قَالَ : فَحَشَدَ مَنْ حَشَدَ ، ثُمَّ خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " ثُمَّ دَخَلَ ، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ إِنِّي لَأَرَى هَذَا خَبَرًا جَاءَ مِنَ السَّمَاءِ ، ثُمَّ خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنِّي قُلْتُ : سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ، أَلَا وَإِنَّهَا تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ ، وَأَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ اسْمُهُ سَلْمَانُ .
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ /65 الْإِخْلَاصِ /65 ... رقم الحديث: 2844]

محمد بن بشار، یحیی بن سعید، یزید بن کیسان، ابوحازم ، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جمع ہو جاؤ میں تم لوگوں کے سامنے تہائی قرآن پڑھوں گا، چنانچہ جو لوگ جمع ہو سکے جمع ہوگئے، پھر رسول اللہ ﷺ نکلے اور سورہ اخلاص پڑھی پھر واپس چلے گئے۔ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تہائی قرآن پڑھیں گے، میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ آسمان سے کوئی نئی چیز نازل ہونے کی وجہ سے اندر گئے ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ دوبارہ تشریف لائے اور فرمایا میں نے تم سے کہا تھا کہ میں تہائی قرآن پڑھوں گا۔ جان لو کہ یہ (یعنی سورہ اخلاص) تہائی قرآن کے برابر ہے۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے اور ابوحازم اشجعی کا نام سلمان ہے۔[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 826]



حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ " ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ .
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي سُورَةِ /65 الْإِخْلَاصِ /65 ... رقم الحديث: 2843]

عباس بن محمد دوری، خالد بن مخلد، سلیمان بن بلال، سہیل بن ابی صالح، ابوصالح، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے.
[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 827]



احمد بن منیع، ابوسعد، صنعانی، ابوجعفر رازی، ربیع بن انس، ابوالعالیہ، حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ مشرکین نبی اکرم ﷺ سے کہنے لگے کہ اپنے رب کا نسب بیان کیجئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ الخ(113۔ اخلاص : 1) نازل فرمائی (کہہ دو وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اسکی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اسکے برابر کا کوئی نہیں ہے۔) صمد وہ ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا۔ اس لیے کہ ہر پیدا ہونے والی چیز یقینا مرے گی۔ اور جو مرے گا اسکا وارث بھی ہوگا۔ کفو کے معنی مشابہ اور برابری کے ہیں یعنی اسکے مثل کوئی چیز نہیں۔ [جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1316]

عبد بن حمید، عبیدالہ بن موسی، ابوجعفر رازی، ربیع، حضرت ابوعالیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کے معبودوں کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہا اپنے رب کا نسب بیان کیجئے۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سورہ اخلاص لے کر نازل ہوئے۔ پھر اسی کی مانند حدیث بیان کرتے ہوئے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ حدیث ابوسعد کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ ابوسعد کا نام محمد بن میسر ہے۔ [جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1317]

قتیبہ، مفضل بن فضالہ، عقیل، ابن شہاب، عروة، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بستر پر تشریف لاتے تو دونوں ہتھیلیاں جمع کرتے پھر سورہ اخلاص، الفلق اور سورہ الناس تینوں سورتیں پڑھ کر ان میں پھونکتے اور اس کے بعد دونوں ہاتھوں کو جہاں تک ہوسکتابدن پر مل لیتے۔ پہلے سر اور چہرے پر پھر جسم کے اگلے حصے پر اور یہ عمل تین مرتبہ کرتے۔ یہ حدیث غریب صحیح ہے۔ [جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1354]

عبد بن حمید، محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک، ابن ابی ذئب، ابوسعید براد، معاذ بن عبداللہ بن خبیب، حضرت عبداللہ بن خبیبؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم برسات کی اندھیری رات میں نبی اکرم ﷺ کی تلاش میں نکلے تاکہ آپ ﷺ ہماری امامت کریں۔ چنانہ میں نے آپ ﷺ کو تلاش کرلیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہو، میں خاموش رہا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہو۔ میں اس مرتبہ بھی خاموش رہا۔ تو آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی فرمایا کہو، میں نے عرض کیا کیا کہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا سورہ اخلاص سورہ فلق اور سورہ ناس صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھا کرو۔ یہ تمہاری ہر چیز کے لے کافی ہیں۔ یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے اور ابوسعید برادہ کا نام اسید بن ابی اسید ہے۔ [جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1532]



علی بن میمون، مخلد بن یزید، سفیان، زبید، سعید بن عبدالرحمن بن ابزی، وہ اپنے والد سے، ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے۔ پہلی رکعت میں سورہ اعلی دوسری میں سورہ کافرون اور تیسری میں سورہ اخلاص تلاوت فرماتے پھر رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھتے اور جب فارغ ہوتے تو تین دفعہ پڑھتے اور آخری مرتبہ ذرا کھینچ کر کہتے۔[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1704]

اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، سعید بن ابوعروبة، قتادہ، سعید بن عبدالرحمن بن ابزی، ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺوتر کی پہلی رکعت میں سورہ اعلی دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1705]

یحیی بن موسی، عبدالعزیز بن خالد، سعید بن ابوعروبة، قتادہ، عزرہ، سعید بن عبدالرحمن بن ابزی، ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں سورہ اعلی دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھا کرتے اور آخر میں ایک ہی مرتبہ سلام پھیرتے نیز سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ یہ کلمات ادا فرماتے.
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1706]

حسین بن عیسی، ابواسامة، زکریا بن ابوزائدة، ابواسحاق ، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی تین رکعات ادا فرماتے۔ پہلی رکعت میں سورہ اعلی دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے۔[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1707]

احمد بن سلیمان، ابونعیم، زہیر، ابواسحاق ، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ وہ وتر کی تین رکعتیں ادا پڑھتے اور ان میں سورہ اعلی سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1708]


محمد بن حسین بن ابراہیم بن اشکاب نسائی، محمد بن ابوعبیدة، اعمش، طلحہ، ذر، سعید بن عبدالرحمن بن ابزی، ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے پھر سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ پڑھتے۔[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1734]



حیی بن موسی، عبدالرحمن بن عبداللہ بن سعد، ابوجعفررازی، اعمش، زبید و طلحہ، ذر، سعید بن عبدالرحمن بن ابزی، ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی نماز میں سورہ اعلی سورہ الکافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1735]




حسن بن قزعة، حصین بن نمیر، حصین بن عبدالرحمن، ذر، ابن عبدالرحمن بن ابزیؓ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1736]




عمروبن یزید، بہزبن اسید، شعبہ، سلمہ و زبید، ذر، ابن عبدالرحمن بن ابزیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھتے اور سلام کے بعد تین مرتبہ پڑھتے ہوئے آخری مرتبہ آواز کو (ذرا) بلند کیا کرتے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1737]




محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، سلمہ و زبید، ذر، ابن عبدالرحمن بن ابزی، عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھتے پھر سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ کہتے اور تیسری دفعہ آواز کو ذرا اونچا کرتے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1738]



محمد بن قدامة، جریر، منصور، سلمہ بن کہیل، سعید بن عبدالرحمن بن ابزیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔ پھر جب سلام پھیر کر فارغ ہوتے تو تین مرتبہ کہتے اور تیسری مرتبہ (نسبتا) کھینچ کر ادا فرماتے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1739]



احمد بن سلیمان، محمد بن عبید، عبدالملک بن ابوسلیمان، زبید، سعید بن عبدالرحمن بن ابزیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1740]



عمران بن موسی، عبدالوارث، محمد بن جحادة، زبید، ابن ابزی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز وتر پڑھتے تو اس میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرماتے۔ پھر نماز پڑھ لینے کے بعد تین دفعہ کہتے۔ [سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1741]



احمد بن محمد بن عبید اللہ، شعیب بن حرب، مالک، زبید، ابن ابزی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر نماز میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1742]



عبداللہ بن صباح، حسن بن حبیب، روح بن قاسم، عطاء بن سائب، سعید بن عبدالرحمن بن ابزیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1744]



محمد بن بشار، ابوداؤد، شعبہ، قتادہ، عزرہ، سعید بن عبدالرحمن بن ابزیؓ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔ پھر جب فارغ ہوتے تو تین مرتبہ کہتے.
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1745]



اسحاق بن منصور، ابوداؤد، شعبة، قتادہ، زرارة، عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھتے اور جب فارغ ہوتے تو تین مرتبہ کہتے۔ نیز تیسری دفعہ پڑھتے ہوئے آواز کو ذرا (نسبتا) اونچا کرتے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1746]



احمد بن حرب، قاسم، سفیان، زبید، سعید بن عبدالرحمن بن ابزی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی نماز میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے اور پھر سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ بلند آواز سے سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ پڑھتے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1755]



محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، ابونعیم، سفیان، زبید، ذر، سعید بن عبدالرحمن بن ابزیؓ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص تلاوت فرماتے اور جب اٹھنے کا ارادہ کرتے تو تین دفعہ اونچی آواز سے سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ پڑھتے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1757]




حرمی بن یونس بن محمد، جریر، زبیدا، ذر، سعید بن عبدالرحمن بن ابزیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی نماز ان سورتوں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص جب سلام پھیرتے تو تین مرتبہ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ کہتے اور تیسری مرتبہ آواز کھینچ کر ذرا اونچی کرتے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1758]



محمد بن مثنی، عبدالعزیز بن عبدالصمد، سعید، قتادہ، عزرة، سعید بن عبدالرحمن بن ابزیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سورہ اعلی سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔ پھر جب فارغ ہوتے تو سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ کہتے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1759]




أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ الْوَلِيدِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا انْتَهَى إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ قَرَأَ : وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 , فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ، فَقَرَأَ : فَاتِحَةَ الْكِتَابِ , وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ , وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ , ثُمَّ عَادَ إِلَى الرُّكْنِ ، فَاسْتَلَمَهُ ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا " .
[سنن النسائى الصغرى » كِتَاب مَنَاسِكِ الْحَجِّ » الْقِرَاءَةُ فِي رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ ... رقم الحديث: 2930]

عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، ولید، مالک، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے، جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم ﷺجس وقت مقام ابراہیم کے پاس پہنچے تو یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی پھر دو رکعت ادا کی اور ان میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون اور سورہ اخلاص تلاوت فرمائی پھر حجر اسود کی جانب تشریف لے گئے اور اس کو بوسہ دیا پھر صفا روانہ ہو گئے۔
[سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 875]
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1817]



سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ بیان کرتی ہیں نبی اکرم ﷺ فجر کی ان دو (سنتوں) میں مختصرقرأت کیا کرتے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی بیان کیا آپ ان رکعت میں سورۃ الکافرون اور سورۃ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔ (اس حدیث کے راوی ) سعید بیان کرتے ہیں یہاں دو رکعت سے مراد فجرکی دو سنتیں ہیں۔[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1444]



حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ تین رکعت وترادا کرتے تھے جن میں سورہ اعلی اور سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1577]



حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ وتر کی تین رکعات ادا کرتے تھے جس میں پہلی رکعت سورہ اعلی، دوسری رکعت سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1580]



ابوحسن مہاجر فرماتے ہیں زیاد کے عہد حکومت میں ایک شخص کوفہ آیا میں نے اسے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ایک مرتبہ وہ نبی کے ساتھ چل رہا تھا اسنے یہ بتایا کہ میرے گھٹنے نبی اکرم ﷺ کے گھٹنوں کو چھو رہے تھے آپنے اک شخص کو سورہ کافرون پڑھتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا یہ شخص شرک سے بری ہے پھر آپ نے ایک شخص کو سورہ اخلاص پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا اس کی بخشش ہوگئی۔
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1251]



نوف بکالی بیان کرتے ہیں اللہ نے قرآن مجید کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اور سورہ اخلاص کو تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1253]


عتبہ بن ضمرہ اپنے والد کے بارے میں یہ بیان کرتے ہیں جب وہ کوئی سورت پڑھتے تھے تو اس سورت کو ختم کرنے سے پہلے اور اس کے بعد سورہ اخلاص بھی پڑھا کرتے تھے۔
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1255]



حضرت ابودرداءؓ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کیا کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ رات کے وقت ایک تہائی قرآن پڑھے لوگوں نے عرض کی ہم ایسا نہیں کرسکتے ہمارے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بے شک اللہ نے قرآن کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اور سورہ اخلاص کو تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1256]



حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے۔
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1257]



حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1258]
یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ حضرت عبداللہ سے منقول ہے۔





حمید بن عبدالرحمن اپنی والد کے حوالے سے یہ بات نقل کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ سے سورہ اخلاص کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ تہائی قرآن ہے یا اس کے برابر ہے۔
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1260]



عبدالرحمن بن ابولیلی ایک انصاری خاتون کے بارے میں نقل کرتے ہیں حضرت ابوایوب ان کے پاس آئے اور بولے نبی اکرم ﷺ جو چیز لے کر آئے ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اس خاتون نے جواب دیا نبی اکرم ﷺ اپنے ساتھ ہمارے پاس بہت سی بھلائی لے کر آئے ہیں وہ کیا ہے۔؟ حضرت ابوایوب نے بتایا نبی اکرم ﷺ نے ہم سے یہ کہا کیا تم میں سے کوئی شخص رات کے وقت تہائی قرآن کی تلاوت کرسکتا ہے روای بیان کرتے ہیں ہمیں یہ معاملہ مشکل محسوس ہوا ہم یہ نہیں کرسکیں گے ہم نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا نبی اکرم ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی اور پھر ارشاد فرمایا کیا کوئی شخص سورہ اخلاص نہیں پڑھ سکتا۔[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1261]



حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص پچاس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھتا ہے اللہ اس کے پچاس برس کے گناہ بخش دیتا ہے ۔
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1262]





مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 640 ، 1/172
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ وتر کی نماز میں مفصلات کی نو مختلف سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے، اسود کے بقول پہلی رکعت میں سورہ تکاثر، سورہ قدر اور سورہ زلزال کی تلاوت فرماتے، دوسری رکعت میں سورہ عصرہ، سورہ نصر اور سورہ کوثر جبکہ تیسری رکعت میں سورہ کفرون، سورہ لہب اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے۔



مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 845 , 1/588
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور ان میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص(علی الترتیب) پڑھتے تھے.



مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 850 ، 1/589
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور ان میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص(علی الترتیب) پڑھتے تھے.



مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 900 ، 1/598
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور ان میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص(علی الترتیب) پڑھتے تھے.



مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 1015 ، 1/622
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور ان میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص(علی الترتیب) پڑھتے تھے .



مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 1611 ، 1/734
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور ان میں سورہ اعلی، سورہ کافرون اور سورہ اخلاص(علی الترتیب) پڑھتے تھے .



مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 318 ، 1/973
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فجر سے پہلے کی سنتوں میں اور مغرب کے بعد کی دوسنتوں میں بیسیوں یادسیوں مرتبہ سورہ کافروں اور سورہ اخلاص پڑھی ہوگی۔



مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 459   1/196
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فجر سے پہلے کی سنتوں میں بیسیوں مرتبہ سورہ کافروں اور سورہ اخلاص پڑھی ہوگی۔




مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 750    1/1044
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فجر سے پہلے سنتوں میں اور مغرب کے بعد کی دوسنتوں میں یادسیوں مرتبہ سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھی ہوگی۔ 



مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1218    1/1121
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے پورا مہینہ یہ اندازہ لگایا کہ نبی کریم ﷺ فجر سے پہلے کی دو رکعتوں (سنتوں ) میں سورہ کافروں اور سورہ اخلاص پڑھتے رہے ہیں ۔




مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1225    1/1123
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے ٢٤ یا ٢٥ دن تک یہ اندازہ لگایا کہ نبی کریم ﷺ فجر سے پہلے کی اور مغرب کے بعد کی دو رکعتوں (سنتوں ) میں سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھتے رہے ہیں ۔




مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1268    1/1132
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے ٢٤ یا ٢٥ دن تک یہ اندازہ لگایا کہ نبی کریم ﷺ فجر سے پہلے کی اور مغرب کے بعد کی دو رکعتوں (سنتوں ) میں سورہ کافروں اور سورہ اخلاص پڑھتے رہے ہیں۔ 



مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 2109    1/1282
حضرت ابن عمروؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے کہ کیا تم میں سے کسی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہررات تہائی قرآن پڑھ لیاکرے؟ لوگوں نے کہایہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ ؟ انہوں نے فرمایا سورہ اخلاص تہائی قرآن ہے اتنی دیر میں نبی کریم ﷺ تشریف لے آئے آپ ﷺ نے حضرت ابوایوبؓ کی بات سن لی تھی اس لئے فرمایا ابوایوب نے سچ کہا.





مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 2349    1/1790
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمع ہوجاؤ میں تمہیں ایک تہائی قرآن پڑھ کر سناؤں گا چنانچہ جمع ہونے والے جمع ہوگئے تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرمائی اور واپس گھر میں داخل ہوگئے ہم ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل ہورہی ہے اس لئے آپ گھرچلے گئے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا میں نے تم سے کہا تھا کہ میں تمہیں ایک تہائی قرآن پڑھ کر سناؤں گا سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہی ہے۔




مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 71    1/2033
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کیا تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجزہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورہ اخلاص پڑھ لیا کرو کہ وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ 

مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 133    1/2045
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سورہ اخلاص ہی پر ساری رات گذاردی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، سورہ اخلاص نصف یا تہائی قرآن کے برابر ہے۔ 


مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 193     1/2061
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہے .


مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 321     1/2084
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے دوسرے کو ساری رات سورہ اخلاص کو بار بار پڑھتے ہوئے سنا تو صبح کے وقت وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ بات ذکر کی، اس کا خیال یہ تھا کہ یہ بہت تھوڑی چیز ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے .


مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 406    1/2098
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا ایک پڑوسی ہے، وہ ساری رات قیام کرتا ہے لیکن سورہ اخلاص کے علاوہ کچھ نہیں پڑھتا، اس کا خیال یہ تھا کہ یہ بہت تھوڑی چیز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے.




مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1218    1/2811
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے.


مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1219    1/2811
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے۔

مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1220    1/2811
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1221    1/2811
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے

مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1222    1/2811
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے

مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1223    1/2811
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہم فطرت اسلام ، کلمہ ، اخلاص اور محمد کے دین ، اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کی ملت پر جو سب سے یکسو ہوگئے تھے مسلمان تھے اور مشرک نہ تھے قائم ہیں ۔

مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1224    1/2811
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے۔

مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1225    1/2811
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور سورہ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ بلند آواز سے سبحان الملک القدوس فرماتے تھے۔


مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1226    1/2812
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہم فطرت اسلام ، کلمہ ، اخلاص اور محمد کے دین ، اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کی ملت پر جو سب سے یکسو ہوگئے تھے مسلمان تھے اور مشرک نہ تھے قائم ہیں ۔

مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1227    1/2812
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہم فطرت اسلام ، کلمہ ، اخلاص اور محمد کے دین ، اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کی ملت پر جو سب سے یکسو ہوگئے تھے مسلمان تھے اور مشرک نہ تھے قائم ہیں ۔

مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1230    1/2812
حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہم فطرت اسلام ، کلمہ ، اخلاص اور محمد کے دین ، اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کی ملت پر جو سب سے یکسو ہوگئے تھے مسلمان تھے اور مشرک نہ تھے قائم ہیں ۔ 





مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 2428    1/3062
ایک شیخ سے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے، مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سورہ کافرون کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو شریک سے بری ہوگیا، پھر دوسرے آدمی کو دیکھا وہ سورہ اخلاص کی تلاوت کر رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی برکت سے اس کی بخشش ہوگئی۔ 


مسند احمد:جلد ہفتم:حدیث نمبر 281    1/3157
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ 


مسند احمد:جلد ہفتم:حدیث نمبر 283    1/3157
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ ایک رات میں تہائی قرآن پڑھ سکے، سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے۔ 


مسند احمد:جلد ہفتم:حدیث نمبر 493    1/3200
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو میں نے آگے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھام لیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مومن کی نجات کس طرح ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عقبہ! اپنی زبان کی حفاظت کرو، اپنے گھر کو اپنے لیے کافی سمجھو، اور اپنے گناہوں پر آہ وبکاء کرو۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ ملاقات ہوئی، اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا اے عقبہ بن عامر! کیا میں تمہیں تورات، زبور، انجیل اور قرآن کی تین سب سے بہتر سورتیں نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ مجھے آپ پر نثار کرے، کیوں نہیں ! چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھائیں اور فرمایا عقبہ! انہیں مت بھلانا اور کوئی رات ایسی نہ گذارنا جس میں یہ سورتیں نہ پڑھو، چنانچہ میں اس وقت سے انہیں کبھی بھولنے نہیں دیا، اور کوئی رات انہیں پڑھے بغیر نہیں گذاری۔ کچھ عرصے بعد پھر ملاقات ہوئی تو میں نے آگے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھام لیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے سب سے افضل اعمال کے بارے میں بتائیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عقبہ! رشتہ توڑنے والے سے رشتہ جوڑو، محروم رکھنے والے کو عطاء کرو، اور ظالم سے درگذر اور اعراض کرو۔


مسند احمد:جلد ہفتم:حدیث نمبر 607    1/3220
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عقبہ! رشتہ توڑنے والے سے رشتہ جوڑو، محروم رکھنے والے کو عطاء کرو، اور ظالم سے درگذر اور اعراض کرو۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ پھر میری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے عقبہ! اپنی زبان کی حفاظت کرو، اپنے گھر کو اپنے لیے کافی سمجھو، اور اپنے گناہوں پر آہ وبکاء کرو۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ پھر میری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے عقبہ بن عامر! کیا میں تمہیں ایسی سورتیں نہ بتاؤں جن کی مثال تورات، زبور، انجیل اور قرآن میں بھی نہیں ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سورہ اخلاص سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھائیں اور فرمایا عقبہ انہیں مت بھلانا اور کوئی رات ایسی نہ گذارنا جس میں یہ سورتیں نہ پڑھو، چنانچہ میں نے اس وقت سے انہیں کبھی بھولنے نہیں دیا، اور کوئی رات انہیں پڑھے بغیر نہیں گذاری۔


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 1346    1/3924
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے اپنے رب کانسب نامہ بیان کرو اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ اخلاص نازل فرمائی کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اکیلاہے اللہ بے نیازہے ، اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے۔


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 1389    1/3936
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص سورہ اخلاص پڑھ لے یہ ایسے ہے جیسے اس نے ایک تہائی قرآن کی تلاوت کی ۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 1789    1/4033
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کیا تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑہنے سے عاجز ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہوگی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورئہ اخلاص پڑھ لیا کرو (کہ وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے) 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3184    1/4344
ایک شیخ سے " جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایاہے " مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلا تو نبی کریم کا گذر ایک آدمی پر ہوا جوسورہ کافرون کی تلاوت کررہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ توشرک سے بری ہوگیا پھر دوسرے آدمی کو دیکھا وہ سورہ اخلاص کی تلاوت کررہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی برکت سے اس کے لئے جنت واجب ہوگئی ۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3196    1/4347
ایک شیخ سے " جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایاہے " مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلا تو نبی کریم کا گذر ایک آدمی پر ہوا جوسورہ کافرون کی تلاوت کررہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ توشرک سے بری ہوگیا پھر دوسرے آدمی کو دیکھا وہ سورہ اخلاص کی تلاوت کررہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی برکت سے اس کی بخشش ہوگی ۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3519    1/4418
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3526    1/4419
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجزہے کہ ایک رات میں تہائی قرآن پڑھ سکے سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے اس لئے جو شخص رات کے وقت تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لے گویا اس نے تہائی قرآن پڑھ لیا۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 5005    1/4693
حضرت عائشہ! سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنی ہتھیلیاں جمع کر تے اور ان پر سورئہ اخلاص اور معوذ تین پڑھ کر پھو نکتے اور جہاں جہاں تک ممکن ہو تا اپنے جسم پر ان ہاتھوں کو پھیر لیتے اور سب سے پہلے اپنے سر اور چہرے اور سامنے کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تھے اور تین مرتبہ اس طرح کرتے تھے۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 5349    1/4754
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا! سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنی ہتھیلیاں جمع کرتے اور ان پر سورئہ اخلاص اور معوذ تین پڑھ کر پھونکتے اور جہاں جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر ان ہاتھوں کو پھیر لیتے اور سب سے پہلے اپنے سر اور چہرے اور سامنے کے جسم پر ہاتھ پھرتے تھے۔


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 5621    1/4800
محمد کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت عائشہ سے فجر کی سنتوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں مختصر پڑھتے تھے اور میر ا خیال ہے کہ اس میں سورئہ کافروں میں سورئہ اخلاص جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 5632    1/4802
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں میں سورئہ کافروں اور سورئہ اخلاص پڑھتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے کی دو رکعتوں میں یہ سورتیں پست آواز سے پڑھتے تھے۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 6000    1/4867
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں میں سورئہ کافروں اور سورئہ اخلاص پڑھتے تھے۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 6119    1/4886
محمد کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت عائشہ سے فجر کی سنتون میں قرات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سری قرات فرماتے تھے اور میرا خیال ہے کہ اس میں سورئہ کافروں اور سورئہ اخلاص جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 7313    1/5111
حضرت ام کلثوم سے مروی ہے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا سورئہ اخلاص ایک تہائی قران کے برابر ہے۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 7522    1/5152
حضرت ابودردا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو ؟ صحابہ کرام یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہو گی؟ نبی نے فرمایا سورئہ اخلاص پڑھ لیا کرو (کہ وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے) ۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 7525    1/5153
حضرت ابودردا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو ؟ صحابہ کرام یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہو گی؟ ہم بہت کمزور اور عاجز ہیں ، نبی نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے تین حصے کئے ہیں ، اور سورئہ اخلاص کو ان میں سے ایک جز و قرار دیا ہے۔ 


مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 7547    1/5157
حضرت ابودردا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو ؟ صحابہ کرام یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہو گی؟ ہم بہت کمزور اور عاجز ہیں ، نبی نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے تین حصے کئے ہیں ، اور سورئہ اخلاص کو ان میں سے ایک جز و قرار دیا ہے۔
گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ 




قُل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ {112:1}
تو کہہ وہ اللہ ایک ہے [۱]
Say, “The truth is that Allah is One.
کہہ دو اللہ ایک ہے: یعنی جو لوگ اللہ کی نسبت پوچھتے ہیں کہ وہ کیسا ہے، ان سے کہہ دیجیئے کہ وہ ایک ہے۔ جس کی ذات میں کسی قسم کے تعدد و تکثر اور دوئی کی گنجائش نہیں۔ نہ اسکا کوئی مقابل، نہ مشابہ، اس میں مجوس کے عقیدہ کا رد ہوگیا۔ جو کہتے ہیں کہ خالق دو ہیں۔ خیر کا خالق "یزداں" اور شر کا "ہرمن" نیز ہنود کی تردید ہوئی جو تینتیس کروڑ دیوتاؤں کو خدائی میں حصہ دار ٹھہراتے ہیں۔

اللَّهُ الصَّمَدُ {112:2}
اللہ بے نیاز ہے [۲]
Allah is Besought of all, needing none.
صمد کے معنیٰ: "صمد" کی تفسیر کئ طرح کی گئ ہے۔ طبرانی ان سب کو نقل کرکے فرماتے ہیں { وکلّ ھٰذہٖ صحیحۃ وھی صفات ربنا عزوجل ھوالّذی یصمد الیہ فی الحوائج وھو الذی قدانتھٰی سؤددہٗ وھو الصمد الذی لاجوف لہ ولا یاکل ولایشرب وھوالباقی بعد خلقہ } (ابن کثیرؒ) (یہ سب معانی صحیح ہیں اور یہ سب ہمارے رب کی صفات ہیں۔ وہ ہی ہے جس کی طرف تمام حاجات میں رجوع کیا جاتا ہے یعنی سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اور وہ ہی ہے جس کی بزرگی اور فوقیت تمام کمالات اور خوبیوں میں انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اور وہ ہی ہے جو کھانے پینے کی خواہشات سے پاک ہے۔ اور وہ ہی ہے جو خلقت کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہنے والا ہے) اللہ تعالیٰ کی صفت صمدیت سے ان جاہلوں پر رد ہوا جو کسی غیر اللہ کو کسی درجہ میں مستقل اختیار رکھنے والا سمجھتے ہوں نیز آریوں کے عقیدہ مادہ و روح کی تردید بھی ہوئی۔ کیونکہ ان کے اصول کے موافق اللہ تو عالم بنانے میں ان دونوں کا محتاج ہے اور یہ دونوں اپنے وجود میں اللہ کے محتاج نہیں (العیاذ باللہ)۔

لَم يَلِد وَلَم يولَد {112:3}
نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا [۳]
He neither begot anyone, nor was he begotten.
اللہ کی نہ اولاد ہے نہ والدیعنی نہ کوئی اس کی اولاد، نہ وہ کسی کی اولاد، اس میں ان لوگوں کا رد ہوا جو حضرت مسیحؑ کو یا حضرت عزیرؑ کو خدا کا بیٹا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں۔ نیز جو لوگ مسیحؑ کو یا کسی بشر کو خدا مانتے ہیں ان کی تردید { لَمْ یُوْلَدْ } میں کر دی گئ۔ یعنی خدا کی شان یہ ہے کہ اس کو کسی نے جنا نہ ہو۔ اور ظاہر ہے حضرت مسیحؑ ایک پاکباز عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ پھر وہ خدا کس طرح ہو سکتے ہیں۔

وَلَم يَكُن لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ {112:4}
اور نہیں اُس کے جوڑ کا کوئی [۴]
And equal to Him has never been any one.”
خدا کے جوڑ کا کوئی نہیںجب اس کے جوڑ کا کوئی نہیں تو جو رویا بیٹا کہاں سے ہو۔ اس جملہ میں ان اقوام کا رد ہوگیا جو اللہ کی کسی صفت میں کسی مخلوق کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہیں۔ حتّٰی کہ بعض گستاخ تو اس سے بڑھ کر صفات دوسروں میں ثابت کر دیتے ہیں۔ یہود کی کتابیں اٹھا کر دیکھو ایک دنگل میں خدا کی کشتی یعقوبؑ سے ہو رہی ہے اور یعقوبؑ خدا کو پچھاڑ دیتے ہیں۔(العیاذ باللہ) { کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا }۔ { اِنّی اسالک یا اللہ لواحد الاحد الصمد الذی لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوًا احد ان تغفرلی ذنوبی انک انت الغفورالرحیم }۔



فضائل القرآن لابن الضريس » سنة الوفاة : 294
فضائل سورة الإخلاص للخلال » سنة الوفاة : 439
فضائل القرآن وتلاوته للرازي » سنة الوفاة : 454