Friday 9 September 2016

درود شریف کے فضائل ،مسائل اور آداب


إِنَّ اللَّهَ وَمَلٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا {33:56}
خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو تم بھی ان پر دُرود اور سلام بھیجا کرو



الله تعالیٰ نے تمام عبادتوں کے بارے میں اپنے بندوں کو کرنے کا حکم فرمایا ہے اور درود کے بارے میں پہلے بنفس نفیس اس عمل کے کرنے کا ذکر فرمایا، پھر اس پر فرشتوں کے مامور ہونے کا ذکر کیا،اس کے بعد مومنوں کو حکم دیا کہ تم آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجنا تمام عبادات سے افضل ہے۔




















دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘
 [صحیح مسلم : 408]




دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ»
[سنن النسائی:1297، صحیح الجامع : 6359 ]
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘




حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
(مََنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا ، وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا ، أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)
[ صحیح الجامع : 6357]
’’جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔‘‘





امام ابن ابی الدنیا اور نمیری نے کتاب الاعلام میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) کو ٹھہرایا جائے گا عرش کے قریب ایک کشادہ جگہ میں ان پر سو سبز کپڑے ہوں گے۔ گویا کہ وہ بوسیدہ کپڑے ہیں۔ اور آپ دیکھیں گے اس شخص کی طرف جو ان کی اولاد میں جنت کی طرف جائے گا اور دیکھیں گے اس شخص کی طرف بھی جو ان کی اولاد میں سے دوزخ کی طرف جائے گا۔ اس درمیان کہ آدم (علیہ السلام) اسی جگہ پر ہوں گے کہ آپ کی نظر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے ایک شخص پر پڑے کی۔ جس کو دوزخ کی طر ف لے جا رہے ہوں گے۔ تو آدم آواز دیں گے اے احمد! اے احمد! وہ فرمائیں گے میں حاضر ہوں اے بشر کے باپ۔ آدم (علیہ السلام) فرمائیں گے یہ آدمی تیری امت میں سے ہے۔ اس کو دوزخ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ پس میں اپنی چادر کو مضبوط کرتے ہوئے فرشتوں کے پیچھے جانے میں جلدی کروں گا۔ اور میں کہوں گا اے میرے رب کے قاصدو ٹھہرجاؤ۔ وہ کہیں گے ہم غضب ناک اور طاقتور ہیں ہم اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اور ہم وہی کرتے ہیں جو ہم کو حکم دیا گیا۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مایوس ہو جائیں گے (فرشتوں سے) تو اپنی داڑھی مبارک کو اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑ کر عرش الہیٰ کی طرف اپنا چہرہ پھیر لیں گے۔ اور فرمائیں گے اے میرے رب آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تجھ کو رسوا نہ کروں گا میری امت کے بارے میں تو عرش کے پاس سے ایک آواز آئے گی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ اور اس آدمی کو اپنے مقام کی طرف واپس لوٹا دو۔ پھر میں اپنی چادر باندھنے کی جگہ سے پوروں کی مثل ایک سفید کاغذ کا پرزہ نکالوں گا۔ اور اس کو ترازو کے دائیں پلڑے میں ڈالوں گا اور کہوں گا بسم اللہ تو اس کی نیکیاں بھاری ہو جائیں گی برائیوں پر تو آواز دی جائے گی یہ نیک بخت ہوگیا ہے اور اس کا دادا بھی نیک بخت ہے۔ اور اس کا بول بھاری ہو گیا تم اس کو جنت کی طرف لے چلو۔ فرشتے اس کو جنت کی طرف لے جائیں گے ۔ اور وہ کہے گا اے میرے رب کے قاصدو ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ میں سوال کرون اس کریم بندہ کے بارے میں اپنے رب سے اور وہ کہے گا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیسے ہی اچھا آپ کا چہرہ ہے اور کیا ہی اچھا آپ کا اخلاق ہے۔ آپ کون ہیں کہ آپ نے میرے گناہوں کو میرے لئے کم کردیا آپ فرمائیں گے میں تیرا نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں اور یہ تیرا درود ہے جو تو نے مجھ پر بھیجا تھا۔ اور میں تجھ پر آسان کر رہا ہوں جس کا تو زیادہ حاجت مند ہے۔
[حسن الظن بالله لابن أبي الدنيا:80، المنتقى من مسموعات مرو للضياء المقدسي:94، طبقات الشافعية الكبرى للسبكي:1/179، القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع: ص129، الخصائص الكبرى:2/457، الدر المنثور في التفسير بالمأثور:3/421، الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود: ص171، التفسير المظهري:3/327، تفسير الألوسي = روح المعاني:4/324]




مَنْ صَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِائَةَ مَرَّةٍ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَى وَجْهِهِ مِنَ النُّورِ نُورٌ، يَقُولُ النَّاسُ: أَيُّ شَيْءٍ كَانَ يَعْمَلُ هَذَا "۔
[شعب الإيمان:2774،  كنز العمال 3990، جامع الاحادیث للسیوطی:34841، أخرجه البيهقى فى شعب الإيمان (3/112، رقم 3036) .]
جو شخص درود پڑھے نبی ﷺ پر جمعہ کے دن سو (100) مرتبہ، تو وہ آئے گا قیامت کے دن اس حال میں کہ اس کا چہرہ نور سے روشن ہوگا۔ لوگ کہیں گے:  اس نے ایسا کون سا عمل کیا تھا۔




"من صلى علي في يوم ألف مرة لم يمت حتى يبشر بالجنة". (أبو الشيخ) عن أنس.
[کنز العمال:2233، جامع الاحادیث للسیوطی:22774]
جو شخص درود پڑھے مجھ پر دن میں ہزار(1000)مرتبہ تو وہ نہیں مرےگا جب تک کہ خوشخبری پائے جنت کی (فرشتوں سے)۔



من صلى على فى يوم مائة مرة قضى الله له مائة حاجة سبعين منها لآخرته وثلاثين منها لدنياه (ابن النجار عن جابر)
[جامع الاحادیث للسیوطی:22775]
جو شخص درود پڑھے مجھ پر دن میں سو (100) مرتبہ تو پوری کرےگا اللہ اسکی  سو (100) ضرورتیں، ستر (70) آخرۃ سے اور تیس (30) اس کی دنیا کی۔


"من صلى علي يوم الجمعة مائة مرة جاء يوم القيامة ومعه نور لو قسم النور بين الخلق كلهم لوسعهم". (حل) عن علي بن الحسين بن علي عن أبيه عن جده.
[کنز العمال:2240، أخرجه أبو نعيم فى الحلية (8/47) وقال: غريب.]
جو شخص درود پڑھے مجھ پر جمعہ کے دن سو (100) مرتبہ تو وہ آئےگا قیامت کے دن اس حال میں کہ اس کے ساتھ نور ہوگا،  اگر وہ نور پوری مخلوق کے درمیاں تقسیم کیا جائے تو وہ (نور) ان کو گھیر لےگا۔






حضور ﷺ کی طرف سے سلام کا جواب:
فقیہ ابواللّیث سمرقندی رحمہ الله اپنی سند کے ساتھ حضرت محمد بن عبدالرحمن سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میرے وصال کے بعد جو شخص بھی تم میں سے مجھ پر سلام بھیجے تو جبرائیل علیہ السلام حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں یا محمد ( صلی الله علیہ وسلم)! یہ فلاں شخص کا بیٹا فلاں ہے اور آپ پر سلام بھیجتا ہے تو میں جواب میں کہتا ہوں:

وعلیہ السلام ورحمة الله وبرکاتہ” اور اس بھیجنے والے پر سلام ہو اورالله تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں۔“


درود شریف کے بغیر دُعا قبول نہیں ہوتی:
سعید بن مسیب حضرت عمر کا قول نقل کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جب تک کسی دعا کے ساتھ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم پر درود شریف نہ ہو وہ دعا زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتی ہے۔





















جو شخص آپ کا نام سُنے اور درود نہ پڑھے وہ الله کی رحمت سے دور ہے:
حضرت انس بن مالک راوی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منبر پر چڑھتے ہوئے آمین کہی۔ پھر پاؤں اوپر رکھا اور آمین کہی ، پھر پاؤں مبارک اوپر رکھا تو آمین کہی۔ پھر درست ہو کر بیٹھ گئے ۔ تو حضرت معاذ بن جبل نے تین بار آمین فرمانے کی وجہ پوچھی۔ آپ نے ارشاد فرمایا میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے او رکہنے لگے اے محمد ( صلی الله علیہ وسلم)! جس شخص نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی اور وہ یونہی مر گیا تو وہ دوزخ میں جائے گا اور الله تعالیٰ اس کو رحمت سے دور رکھے ، میں نے اس پر آمین کہی اور پھر جبرائیل علیہ السلام نے یہ کہا کہ جو شخص اپنے والدین کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پائے او ران کے ساتھ حُسن سلوک نہ کرے، اسی حال میں مر جائے تو دورخ میں جائے گا اور الله کی رحمت سے دور رہے ، میں نے آمین کہی ۔ پھر انہوں نے کہا جس شخص کے پاس آپ کا ذکر ہو اور درود نہ پڑھے، مر جائے تو دوزخ میں جائے اور الله کی رحمت سے دور ہو میں نے آمین کہی۔



نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)

’’اس آدمی کی ناک خاک میں ملے جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔‘ [ترمذی : 3545۔ وصححہ الالبانی ]
نیز ارشاد فرمایا :
(اَلْبَخِیْلُ الَّذِیْ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)

’’ بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘
[ ترمذی : 3546۔ وصححہ الابانی ]
ïاذان کے بعد
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
(إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ، ثُمَّ صَلُّوْا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلاَۃً صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہٖ عَشْرًا)

’’جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی اسی طرح کہو جیسے وہ کہے ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے ( یا دس مرتبہ اس کی تعریف کرتا ہے)۔‘‘
[صحیح مسلم: 384]





درود پڑھنے سے حاجتیں پوری ہوتی اور الله تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں:

حضرت جابر بن عبدالله حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص دن میں سو مرتبہ مجھ پر درودبھیجتا ہے الله تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری فرماتے ہیں ، ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی ۔

حضرت سعید بن عمیر، جو بدری صحابی ہیں، جنگ بدر میں شہید ہوئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں کہ میرا جو امتی اخلاص کے ساتھ ایک بار مجھ پر درود بھیجتا ہے۔ الله تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں، دس درجات بلند فرماتے ہیں، دس برائیاں دور فرماتے ہیں۔

فقیہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے یہ حکایت سنی کہ حضرت سفیان ثوری طواف کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو ہر قدم پر درود شریف پڑھتا تھا۔ سفیان ثوری نے پوچھا اے شخص! کیا بات ہے کہ طواف کے درمیان تسبیح وتہلیل کے بجائے تو ہر قدم پر درود شریف پڑھتا ہے؟ اس سلسلہ میں کوئی علمیبات معلوم ہو تو بتاؤ۔ وہ کہنے لگا تو کون ہے الله تجھے معاف فرمائے ؟ انہوں نے کہا میرا نام سفیان ثوری ہے۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اگر تو اپنے وقت کا نادر شخص نہ ہوتا تو میں یہ راز تجھے نہ بتاتا اور نہ ہی اپنے حال پر مطلع کرتا۔ واقعہ یہ ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ حج بیت الله کے سفر پر نکلا، اثنائے سفر میرے ا والد بیمار ہوگئے، میں ان کا علاج کرتا رہا۔ ایک رات میں والد کے سرہانے بیٹھا تھاکہ وہ فوت ہو گئے او رچہرہ سیاہ ہو گیا، میں نے انا لله وانا الیہ راجعون پڑھی اور چادر سے اپنے والد کا منھ ڈھانپ دیا۔ اتنے میں نیند کا غلبہ ہوا او رمیں سو گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک انتہائی حسین وجمیل شخص ہے کہ اس جیسا خوبصورت کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا ،نہ اس سے بڑھ کر پاکیزہ اور اجلا لباس کبھی دیکھا اور نہ اس سے بہتر کبھی کوئی خوش بو او رمہک نصیب ہوئی تھی، وہ قدم قدم چلا آرہا تھا، حتی کہ میرے والد کے قریب پہنچ گیا۔ اس کے چہرہ سے کپڑا ہٹا کر ہاتھ پھیرا، جس سے وہ سفیداور منور ہو گیا یہ شخص واپس ہونے لگا تومیں دامن سے لپٹ گیا اور پوچھا اے الله کے بندے! تو کون ہے جس کی برکت سے الله تعالیٰ نے میرے والد پر اس سفر کی حالت میں احسان فرمایا؟ارشاد ہوا کیا تو مجھے نہیں پہچانتا؟ میں محمد بن عبدالله ( صلی الله علیہ وسلم) ہوں، جس پر قرآن نازل ہوا۔ تیرا باپ گو ذاتی طور پر کوتاہیاں کرتا رہتا تھا، لیکن مجھ پر درود بکثرت پڑھتا تھا، اب مصیبت میں مبتلا ہو کر اس نے فریاد کی او رمیں ہر اس شخص کی مدد کے لیے ہوں ،جو مجھ پر درود بکثرت پڑھتا ہے۔ میں خواب سے بیدار ہوا تو دیکھا میرے والد کا چہرہ سفید اور روشن تھا۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مَنْ نَسِیَ الصَّلاَۃَ عَلَیَّ خَطِیَٔ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ
[صحیح الجامع للألبانی : 6568]
جو شخص مجھ پر درود پڑھنا بھول جاتا ہے گویا وہ جنت کا راستہ بھولتا ہے۔


وہ مجلس جس میں درود شریف نہ پڑھا جائے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
(أَیُّمَا قَوْمٍ جَلَسُوْا مَجْلِسًا ثُمَّ تَفَرَّقُوْا قَبْلَ أَنْ یَّذْکُرُوا ﷲَ وَیُصَلُّوا عَلَی النَّبِیِّﷺکَانَ عَلَیْہِمْ مِنَ اﷲِ تِرَۃً)

’’ جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوں ، پھر وہ اللہ کا ذکر اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے بغیر جدا جدا ہوجائیں تویہ مجلس ان کے لیے عیب اور نقص کا باعث ہو گی۔‘‘
[طبرانی:7751]




سخت ناپسندیدہ چیزیں:
حضرت ابوبریدہ اپنے والد سے حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ چار چیزیں سخت ناپسندیدہ ہیں۔
1.  یہ کہ آدمی ( بلاوجہ) کھڑا ہو کر پیشاب کرے۔
2.  نماز سے فارغ ہونے سے پہلے پیشانی پونچھنے لگے۔
3.  اذان سنتے ہوئے کلمات اذان کا جواب نہ دے۔
4.  یہ کہ میرا نام لیا جائے تو مجھ پر درود نہ پڑھے۔

حضرت ابوہریرہ  حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ مجھ پر خوب درود بھیجا کرو کہ یہ تمہارے لیے پاکیزگی ہے اور الله تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ کا سوال کیا کرو ، عرض کیا گیا یا رسول الله! وسیلہ کیا ہے؟ ارشاد ہوا جنت کا ایک اعلیٰ درجہ اور مقام ہے، جوایک ہی شخص کو نصیب ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہی ہوں گا۔ فقیہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ تمہارے لیے پاکیزگی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ درود شریف سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ اگر آں حضور صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا امید شفاعت کے سواکوئی اجر وثواب نہ ہوتا تو بھی ہر صاحبِ عقل پر واجب ہے کہ اس سے غافل نہ رہے ۔ چہ جائیکہ اس میں گناہوں کی مغفرت بھی ہے اور الله تعالیٰ کی طرف سے رحمت بھی۔



حضرت کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول الله! ہم آپ پر صلوة کیسے بھیجیں تو ارشاد فرمایا کہ یوں پڑھا کرو۔

”اللھم صل علی محمد وعلی اٰل محمد، وبارک علی محمد وعلی اٰل محمد، کما صلیت و بارکت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم، انک حمید مجید“․
اے الله رحمتیں نازل فرما حضرت محمد پر اور آپ کی آل پر اور برکتیں نازل فرماحضرت محمد اور آپ کی آل پر، جیسا کہ تو نے رحمتیں او ربرکتیں نازل فرمائی ہیں حضرت ابراہیم پر اور ان کی آل پر، بے شک تو حمد وثنا او ربزرگی والا ہے۔“

اور بعض حضرات کا قول ہے کہ صلوة علی النبی یہ ہے:

”اللھم صلیت انت وملئٰکتک علی محمد“․
”اے الله! تو اور تیرے فرشتے حضرت محمد ا پر رحمتیں بھیجتے ہیں۔“

بعض نے یہ بتایا کہ یوں پڑھے:

”اللھم إنی اشھدک واشھد ملئٰکتک أنی اصلی علی محمد“․
”اے الله! میں تجھے اور تیرے فرشتوں کو اس پر گواہ بناتا ہوں کہ میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں۔“

اور بعض نے کہا کہ یوں کہے:

”اللھم صل علی محمد وعلی اٰل محمد النبی الامی وعلی اٰلہ واصحابہ، کلما ذکرک الذاکرون، وغفل عن ذکرہ الغافلون“․
اے الله! رحمتیں بھیج حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر، یعنی نبی امی پر، ان کی آل پر ،ان کے صحابہ پر، جب تک تیرا ذکر کرنے والے تیرا ذکر کرتے رہیں اور غافل جب تک غفلت میں رہیں۔“





درود شریف پڑھنے کے فوائد

علامہ ابن قیم ؒ نے درود شریف پڑھنے کے ۳۹ فوائد ذکر کئے ہیں ، ان میں سے چند اہم فوائد یہ ہیں :
ï درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہوتا ہے۔
ïایک مرتبہ درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
ï دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔
ïدس گناہ معاف کردییجاتے ہیں ۔
ïدس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
ïدعاسے پہلے درود شریف پڑھنے سے دعا کی قبولیت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
ï اذان کے بعد کی مسنون دعا سے پہلے درود شریف پڑھا جائے تو قیامت کے روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔
ïدرود شریف کثرت سے پڑھنے سے پریشانیاں ٹل جاتی ہیں ۔
ïقیامت کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب ہو گا۔
ï درود شریف پڑھنے سے مجلس بابرکت ہو جاتی ہے۔
ïجب انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا ہے تواللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے۔
ï درود شریف پڑھنے والے شخص کی عمر اس کے عمل اور رزق میں برکت آتی ہے۔
ï درود شریف کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
ï درود شریف پڑھنے سے دل کو ترو تازگی اور زندگی ملتی ہے۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حقوق ادا کرنے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔ اور روزِ قیامت ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور آپ کے ہاتھوں حوضِ کوثر کا پانی نصیب کرے ۔ آمین ثم آمین







پرورد گار دو عالم نے جتنا مقام اپنی تمام مخلوق کے اندر سیدنا محمد رسول الله ﷺ کو عطائے فرمایا ہے اتنا مقام کسی اور کو نہیں بخشا، اس مقام تک آج تک نہ کوئی نبی پہنچ سکا ہے نہ کوئی فرشتہ، حضور صلی الله علیہ وسلم کے مقام کا اندازہ کل قیامت کے دن ہو گا، جب تمام انبیائے کرام علی نبینا وعلیہم الصلوٰة والسلام بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت کے طلب گار ہوں گے۔ الله تعالیٰ نے جہاں پر آپ صلی الله علیہ وسلم کو اورخصوصیات سے نوازا وہیں پر ایک خاصیت جو صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص ہے وہ درود شریف ہے، جس میں نہ کوئی نبی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہے اور نہ کوئی فرشتہ، جو صرف اور صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے، یوں تو اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کے خصائص، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے رفعت ذکر پر بحث کی جائے تو اس کے لیے دفتر چاہیے۔ لیکن پھر بھی بعد میں لکھنے والے کو لکھنا پڑتا ہے بعد از خدا بزرگ تو ئی قصہ مختصر۔

لیکن آج صرف اور صرف حضور صلی الله علیہ وسلم الف الف مرةً کی شان کے ایک اہم باب ” دورد پاک“ پر کچھ تحر یرکرنا چاہتا ہوں بخاری شریف میں حضرت ابو سعید خدری رضی الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ﴿ان الله وملائکتہ یصلون علی النبی…﴾“ تو ہم نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا ”کیف نصلی علیک؟“ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود شریف کیسے پڑھیں، جب کہ ہم سلام بھیجنا سیکھ چکے ہیں جو تشہدمیں پڑھتے ہیں؟”السلام علیک ایھا النبی ورحمة الله وبرکاتہ“ تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” قل: اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد… الخ“ (درود ابراہیمی) پڑھو۔ یہ آیت مبارکہ مدینہ منورہ زادھا الله شرفاً میں ماہ شعبان 2 ہجری کو نازل ہوئی، جس کی رو سے اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ میرے نبی حضرت محمد علیہ الصلوٰة والسلام پر درود بھیجو۔

درود بھیجنے والے تین ہیں ،اول خود الله تعالیٰ، دوم فرشتے ، سوم اہل ایمان الله تعالیٰ کے درود بھیجنے کا مقصد آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعریف فرمانا، آپ صلی الله علیہ وسلم پر رحمتوں کا نزول کرنا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کرنا ہے۔

ملائکہ کے درود بھیجنے کا مقصد آپ صلی الله علیہ وسلم کے حق میں الله تعالیٰ سے دعا کرنا کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو اعلیٰ وارفع مراتب عطا فرمائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے دین کو غلبہ اور آپ کی شریعت مطہرہ کو فروغ بخشے اور اہل ایمان کے درود وسلام کا مطلب بارگاہ الہٰی میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان کی بلندی کی التجا کرنا اور آپ کی مدح وثنا کرنا ہے ۔ جمہور مفسرین نے یہی معنی لکھے ہیں۔

فائدہ: قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے اندر یہ بات نہایت واضح طور پر موجود ہے کہ الله تعالیٰ نے سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جو خصائص اوصاف ،مناقب عطا فرمانے تھے، عطا فرما دیے، مثلاً رفعت ذکر، غلبہ دین، رسالت عامہ الی یوم القیامة، ختم نبوت ، مقام محمود ، شفاعت عظمی،گو کہ ان میں جن کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے وہ اس وقت وقوع ہوں گے تو پھر ملائکہ یا اہل ایمان کی دعاؤں کا کیا مقصد کہ وہ اعلیٰ وارفع مراتب کے لیے بارگاہ صمدیت کے اندر سراپا عجز وانکساری بنے ہوئے ہیں؟ تو علمائے محققین نے سمندر کے اندر غواصی کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ملائکہ او راہل ایمان دعا نہ بھی کرتے، جو درود سے مراد ہے ، توپھر بھی پروردگار نے جو جو فضیلتیں بخشی تھیں وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو بخش دیں لیکن ملائکہ اوراہل ایمان کو درود کا حکم دے کر اپنے نبی کی شان بیان کردی کہ ملائکہ اور اہل ایمان درود پڑھ کر اپنے کسی اور مقصد کی دعا نہیں کرتے بلکہ درود پڑھتے ہوئے میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لیے دعا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور الله کی رحمت حاصل کرتے رہتے ہیں۔ علامہ سید محمود آلوسی رحمة الله علیہ نے ایک اہم بات اس آیت کے ضمن میں تحریر فرمائی کہ کسی نبی کی امت کو پرودرگار نے حکم نہیں دیا کہ وہ اپنے نبی پر درود سلام بھیجیں، سوائے اس امت کے کہتم اپنے نبی پر درود وسلام بھیجو اور یہ بات اگر خاص ہے تو صرف سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خاص نظر آتی ہے، جس سے جہاں پر ایک طرف حضور علیہ الصلوٰة والسلام کا مقام نظر آتا ہے، وہیں پر اس امت کے ساتھ الله تعالیٰ کی محبت بھی نظر آتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ اس امت کو کسی نہ کسی صورت میں ہر وقت نوازنا چاہتے ہیں اور الله کی رضا حاصل کرنے کے لیے اتباع رسول صلی الله علیہ وسلم اور درود پاک سے بڑھ کر کوئی اہم عمل نہیں، کیوں کہ پرورد گار بھی اس عمل کے اندر اپنے ملائکہ اور اپنے بندوں کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں ۔ تمام دین کے کامو ں کے اندر الله تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة﴾ ساری زندگی ایک انسان، خاص کر مسلمان کیسے گزارے الله تعالیٰ نے بیان کر دیا ہے اور نمونہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی ذات کوبنایا ہے، لیکن درود پاک عمل ہے جس کے لیے نمونہ ملائکہ، انبیاء یا کسی اور کو نہیں بنایا، بلکہ اپنی ذات مبارکہ کو بنایا ہے کہ﴿ان الله وملائکتہ یصلون علی النبی﴾ کہ لوگو! آؤ آج اپنے الله تعالیٰ کی اتباع کرو۔ اور اپنے نبی پردرود بھیجو اور اس عمل مبارک کے اندر اپنے رب کے ساتھ شریک ہو کر خدا کی رحمت حاصل کرنے کے حق دار بن جاؤ۔﴿ان الله وملائکتہ… ﴾ جملہ اسمیہ ہے لفظ ان شروع میں ہے، تاکید بھی ہے، تفسیر کبیر میں امام رازی  فرماتے ہیں کہ جملہ اسمیہ استمرار کا فائدہ دیتا ہے، گویا یہ عمل جب سے الله تعالیٰ کی ذات ہے شروع ہے اور آج بھی جاری ہے او رہمیشہ جاری رہے گا۔ ہر چیز کی ایک ابتدا ہے او رایک انتہا ہے، لیکن درود وہ عمل ہے جس کی ابتدا تو ہے انتہا نہیں یہ عمل اس میں تھا، ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

امام بخاری نے ابو العالیہ تابعی سے یہ اثر نقل کیا ہے کہ الله تعالیٰ کا صلوٰة سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم او رملائکہ کے سامنے آپ صلی الله علیہ وسلم کی مدح وثنا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم دنیا میں تویہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو بلند مرتبہ نصیب فرمایا۔ آپ کے ذکر کو اپنے ذکر کے ساتھ شامل فرمایا۔ اذان ، اقامت، نماز، درود وسلام، کلمہ طیبہ غرض ہر جگہ اپنے نام کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کے نام کو شامل فرما لیا۔ قال حسان بن ثابت رضی الله عنہ #
        وضم الالٰہ اسم النبی الیٰ اسمہ
        اذ قال فی الخمس المؤذن اشھد
        وشق لہ من اسمہ لیسجلہ
        فذو العرش محمود وھذا محمد

” الله تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کے نام کو ملا رکھا ہے، جیساکہ پانچ وقت موذن اشھد کہتا ہے۔ الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اعزاز کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کا نام اپنے نام سے مشتق کیا، چناں چہ صاحب عرش محمود ہے اور آپ محمد، صلی الله علیہ وسلم #
        صلوٰة الله کلام الله جہاں دیکھا تو یہ دیکھا
        اگر لکھا الله دیکھا تو محمد بھی لکھا دیکھا

اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ تعظیم بھی فرمائی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دین کو دنیا بھر میں پھیلا دیا اور غالب کر دیا۔ ﴿لیظھرہ علی الدین کلہ﴾․ آپ کی شریعت کو قیامت تک کی شریعت بنا دیا اور شریعت کی حفاظت بھی خود فرمانے کا وعدہ کیا۔ ﴿انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون﴾ اور آخرت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم یہ کی کہ آپ کا مقام تمام مخلوقات سے بلند فرما دیا۔

حدیث کے الفاظ ہیں ”انا سید ولد آدم، ولافخر، وانا اول من تنشق عنہ الارض، وانا اول شافع، واول مشفع، ولافخر، ولواء الحمد بیدی یوم القیامة، ولا فخر“․

میں ساری اولاد آدم کا سردار ہوں، قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر مبارکہ شق ہو گی اور حشر کے دن سب سے پہلے میں سفارش کروں گا، جو کہ قبول ہو گی اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا او رمیں ان تما م باتوں پر فخر نہیں کرتا، بلکہ الله تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔“
[سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الشفاعة]

فائدہ! چاہیے تو یہ تھا کہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر انبیائے کرام علی نبیا وعلیہم الصلوٰة والسلام کی قبور مبارکہ شق ہوتیں، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر سب سے پہلے شق ہونے کی وجہ کیاہے؟ تو علمائے کرام نے نکتہ آفرینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک کا شق ہونا آپ کے لیے باعث اعزاز او روجہ تعظیم ہے وہیں یہ امت کے گناہ گار جن کی زندگی گناہوں سے بھری پڑی ہے قیامت کے دن گناہوں کی وجہ سے پریشان ہوں گے اور قیامت کے دن ہوش وحواس تک جواب دے دیں گے تو ان کی نگاہ جب قبروں سے اٹھتے ہی محشر کے میدان میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر پڑے گی تو ان کی تسلی کا سامان ہو جائے گا۔ سبحان الله! کہ یہ شفیع المذبین پیغمبر سامنے موجود ہے، جیسے ایک شخص کسی نئی بستی میں جائے تو وہاں اجنبیت کی وجہ سے وہ تھوڑا بہت تنگ ہوتا ہے، لیکن کوئی جان پہچان والا نکل آئے تو پھر اس کی یہ تکلیف دور ہو جاتی ہے، ایسے ہی محشر کا میدان بھی ایک نیا جہاں ہے اور ایک ایسی جگہ جہاں انسان کے ہوش وحواس کام کرنا چھوڑ دیں گے اور اس مشکل ترین مقام کے اندر سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انورپر نگاہ پڑ جائے تو خدا کی نعمت نہیں تو اور کیا ہے، جن کو دیکھتے ہی تمام مصیبتیں دور ہو جائیں اور بے قرار دل کو قرار آجائے، بلکہ اکابرین تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو عالم برزخ کے اندر رکھنا بھی خدا کی نعمت ہے، پرورد گار چاہتے تو قیامت تک زندہ رکھتے، لیکن اس جہاں کے اندر زندہ نہ رکھنے کی جہاں اور حکمتیں ہیں جو تحریرکرنا اس وقت مقصود نہیں، وہیں پر ایک حکمت آپ صلی الله علیہ وسلم کو برزخ میں پہنچا کر حیات برزخی دے کر اس امت کے مرنے والوں کے لیے مغفرت کا سامان مہیا کرنا ہے، کیوں کہ اسی زمین کے اندر جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت کے آنے والے مدفون ہوں گے، وہیں پر اس زمین کے اندر سر کار دو عالم ،روح دوعالم، فخر دو عالم، اثاثہ دو عالم، سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی تشریف فرماہیں، یقینا ان کی برکات جہاں پر دنیا والوں کو مل رہی ہیں، وہیں پر برزخ والوں کو بھی ضرور عطا ہوں گی۔

لہٰذا محشر کے اندر جو شخص سب سے زیادہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے قریب ہو گا وہ، وہ خوش نصیب ہے جو متبع رسول ہو گا او رکثرت کے ساتھ درود پاک پڑھتا ہو گا۔

سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم وہ عظیم ترین ہستی ہیں جنہوں نے کفار کے احسانات کابدلہ بھی دیا۔ کسی نے تھوڑی سی اچھائی کی اس کو دوگنا بدلہ دیا تو جو آپ صلی الله علیہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود پڑھے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کل اس کو کیسے محروم فرمائیں گے؟!
        یارب صل وسلم دائماً ابداً
        علی حبیبک خیر الخلق کلھم

علامہ اسماعیل حقی آفندیؒ اپنی شہرہ آفاق تصنیف، تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں کہ جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے دین کی ترویج واشاعت کی، یہ آپ کا ہی خاصہ ہے، جو کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا بہت بڑا احسان ہے، جس کا شکر ادا کرنے کے لیے آپ کی امت کو درود وسلام کا حکم دیا گیا ہے۔

علامہ قسطلانی رحمة الله علیہ نے مواہب لدنیہ میں ابن عربی رحمة الله علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ درود پاک سے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ دونوں جہانوں میں تعلق مضبوط ہوتا ہے۔

علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں رقم طراز ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس تمام بنی نوع انسان اور مخلوق کے لیے الله تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا اس کے شکر ادا کرنے کی ایک شکل درود پاک ہے، جتنی بھی جسمانی اور روحانی عبادات ہیں۔ ترقیاں ہیں، وصال حق ہے۔ قرب پروردگار ہے، وہ سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے طفیل ہے۔ لہٰذا ان کا صلہ اگر کسی صورت میں ہے تو وہ درود پاک ہے۔

حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ، جو حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ ہیں ، فرماتے تھے کہ درود شریف ایک ایسی عبادت ہے جس میں منہ سے بیک وقت الله تعالیٰ کا نام بھی نکلتا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا نام بھی نکلتا ہے ۔ الله تعالیٰ اور حضور صلی الله علیہ وسلم جس عبادت میں جمع ہو جائیں اس کا کیا کہنا ۔ الله تعالیٰ بھی راضی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی راضی۔

درود شریف پڑھنے کا طریقہ
وضو کرکے قبلہ رخ ہو کر دوزانوں ساری دنیا سے توجہ ہٹا کر پڑھنے والا یہ تصور کرے کہ میں سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے روضہٴ انور کے سامنے ہوں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے روضہ انور سے جو انوارات پھیل رہے ہیں او رنکل رہے ہیں ان سے میں بھی مستفید ہو رہا ہوں۔ او رجو الفاظ زبان سے نکل رہے ہیں ان پر خصوصی توجہ ہو تو کچھ بعید نہیں کہ پڑھنے والا کل حضور صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت سے مستفید نہ ہو سکے او راس دنیا کے اندر حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت اس کا مقدر نہ بن سکے۔ خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان نور الله مرقدہ فرماتے تھے کہ نماز والا درود شریف روزانہ تین سوتیرہ بار پڑھ لینا چاہیے، اگر نہ ہو سکے تو تعداد کم کر لی جائے ،لیکن سو سے کم نہ ہو، چاہے تو کوئی اور درود شریف بھی پڑھ سکتا ہے، بالخصوص:”اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آل سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم“․

الله تعالیٰ ہمیں کثرت کے ساتھ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر درود پاک پڑھنے والا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے مبارک ارشادات پر عمل کرنے والا بنائے۔
        یارب صل وسلم دائماً ابداً
        علیٰ حبیبک خیر الخلق کلھم



روضہ اطہر پر حاضری کے آداب
حضرت ملاعلی قاری رحمہ الله نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضری کے آداب، درودوسلام پیش کرنے کے الفاظ اور طریقے بڑی تفصیل سے اپنی کتاب ” ارشاد الساری الی مناسک الملا علی القاری“ میں ذکر فرمائے ہیں۔ مختصراً چند آداب اور درود وسلام کے صیغے ذکر کیے جاتے ہیں۔

جب آدمی مدینہ منورہ کی طرف چلے تو درود شریف کثرت سے پڑھتا رہے اور جوں جوں قریب ہوتا جائے اور زیادہ کثرت کرتا جائے، جب مدینہ منورہ کی عمارتوں پر نظر پڑے تو یہ دعا پڑھے: ”اللھم ھذا حرم نبیک فاجعلہ وقایة لی من النارو أماناً من العذاب وسوء الحساب“۔

مستحب ہے کہ مدینہ منور میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرے، پاک صاف عمدہ لباس جو پاس موجود ہو پہنے، اگر نئے کپڑے ہوں تو بہتر ہے۔ خوشبو لگائے شہر میں داخل ہونے سے پہلے پیادہ چلے۔ اور اس شہر کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے نہایت خوش وخضوع ، تواضع، ادب اور حضور قلب کے ساتھ درود شریف پڑھتا ہوا داخل ہو اور یہ پیش نظر رکھے کہ یہ وہ زمین ہے جس پر جابجا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قدم مبارک لگے ہوئے ہیں۔

جب مسجد نبوی میں داخل ہونے لگے تو باب جبرئیل سے داخل ہو اور پہلے دائیں پاؤں رکھے اور درود شریف پڑھ کر ” اللھم افتح لی ابواب رحمتک“ پڑھے، پھرپہلے ریاض الجنة میں آکر دو رکعت تحیة المسجد کی پڑھے، یہ وہ جگہ ہے جو قبر شریف اور منبر شریف کے درمیان ہے، حدیث شریف میں آتا ہے: ریاض الجنة جنت کا ٹکڑا ہے، اس سے فارغ ہو کر الله تعالیٰ کا اپنی اس حاضری کی توفیق اور سعادت بخشی پر شکر ادا کرے، اور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرے۔ اس کے بعد روضہٴ اقدس کے پاس حاضر ہو اور سرہانے کی دیوار کے کونے میں جو ستون ہے اس سے تین چار ہاتھ کے فاصلے پر کھڑا ہو ،نہ بالکل جالیوں کے پاس جائے اور نہ ہی زیادہ دور بلاضرورت کھڑا ہو، اس طرح کہ رخ روضہٴ اقدس کی طرف اور پشت قبلہ کی طرف ہو اور یہ تصور کرے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم لحد شریف میں قبلہ کی طرف چہرہ مبارک کیے ہوئے لیٹے ہیں اور پھر نہایت ادب کے ساتھ درمیانہ آواز سے نہ بہت پکار کر اور نہ بالکل آہستہ، سلام کرے۔ یہاں چند الفاظ درودوسلام لکھے جاتے ہیں۔

” السلام علیک أیھا النبی ورحمة الله وبرکاتہ، السلام علیک یا رسول الله، السلام علیک یا حبیب الله، السلام علیک باخیر خلق الله، السلام علیک یا صفوة الله، السلام علیک یا سید المرسلین، یا رسول الله إني أشھدأن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أنک عبدہ ورسولہ۔ أشھد انک بلغت الرسالة، وأدیت الامانة، ونصحت الامة، وکشفت الغمة فجزاک الله خیراً، جزاک الله عنا أفضل ماجازیٰ نبباً عن أمتہ۔ السلام علیک یا من ارسلہ الله رحمة للعالمین، السلام علیک یا مبشر المحسنین ( ارشاد الساری الی مناسک الملا علی القاری ص338)۔



انبیائے علیہم السلام کے ناموں کے ساتھ ”ص“ یا ”صلعم“ وغیرہ لکھنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب انبیائے کرام علیہم السلام کے نام لکھے جاتے ہیں، تو بطور دعا ”صلی الله علیہ وسلم“ کو مختصر کرکے”ص“ لکھنا، علیہ السلام کو مختصر کرکے ’ ’ “ لکھنا یا ”صلعم“ لکھنا، اسی طرح صحابہ رضی الله عنہم کے لیے مختصرا ” رض“ لکھنا اور بزرگان دین کے لیے مختصراً ” رح“ لکھنا کیسا ہے؟ کیا ان سے درود کا مقصد ادا ہو جائے گا یا نہیں؟ اور کوئی کراہیت ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ بعض اشخاص کے ساتھ ” علیہم السلام“ لکھا جاتا ہے، جیسے حضرت مریم کا نام ذکر کیا جاتا ہے تو ساتھ ” علیھا السلام“ لکھتے ہیں ، تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب… انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے نام نامی اسم گرامی کے بعد ” علیہ الصلوٰة والسلام“ یا صلی الله علیہ وسلم“ لکھنے کے بجائے ”ع“ یا ”  “ یا ”ص“ یا ”صلعم“ لکھنا، اور حضرات صحابہٴ کرام کے اسمائے گرامی کے ساتھ ” رضی الله عنہ“ کے بجائے”رض“ اور بزرگانِ دین کے اسماء کے ساتھ ”رحمہ الله“ کی بجائے ”رح“ لکھنا اسی طرح ” تعالیٰ“ اور ”جل جلالہ“ کے بجائے ” تعہ“ اور ”ج“ لکھنا درست نہیں، اور خلافِ ادب ہونے کے ساتھ ساتھ قلتِ محبت پر دال ہے، او رمقصود جو کہ صلوٰة وسلام کہنا ہے ان حروف سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ” علیہ الصلوٰة وسلام“ اور صلی الله علیہ وسلم“ وغیرہ پورا کرکے لکھنا چاہیے۔

اور اگر دیکھا جائے تو تمام کتب حدیث میں محدثین رحمہم الله تعالیٰ نے جہاں بھی نام مبارکہ ذکر کیا ہے وہاں پر پورا پورا درود وسلام لکھا ہے، تو گویا کہ اس کو ایک طرح کی اجماعی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا پورا پورا علیہ الصلوٰة والسلام لکھنا چاہیے، اور یہ بھی ملاحظہ ہو کہ بعض ائمہ کرام رحمہم الله تعالیٰ اس کے قائل ہیں کہ جب اسم گرامی مکرر ذکر ہو تو ہر ہر مرتبہ تکرار کے ساتھ درود پڑھنا واجب ہے، اگرچہ ایک مجلس میں ہو، تو یہ بھی صلوٰة وسلام کی اہمیت کی دلیل ہے، لہٰذا صلوة و سلام پورا لکھنا چاہیے، تاکہ مقصود اچھے طریقے سے حاصل ہو ۔

صلوة وسلام انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا دیگر بزرگ اشخاص کے ساتھ منفرداً صلوة وسلام پڑھنا یا لکھنا مکروہ ہے، لیکن اگر تبعاً ان پر درود لکھا یا پڑھا جائے تو جائز ہے، اس طرح کہ ان اشخاص کا نام انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے ساتھ مذکور ہو اور صلوة وسلام میں ان کو بھی شامل کیا جائے۔ جیسے ” اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وصحبہ وسلم․“




2 comments: