صفیں برابر کرنے کا بیان:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ...مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ»(وفي رواية)
«...من تمام الصلاة»
ترجمہ:
صفیں درست کرو، بے شک صفوں کی درستی...
اقامت صلوٰۃ میں سے ہے۔
[صحيح البخاري:433]
(دوسری روایت میں ہے)
نماز کے پورا کرنے میں سے ہے۔
[صحيح مسلم:433(975)، سنن أبي داود:668، سنن ابن ماجه:993]
صف محاذاۃ (سیدھی-برابری) میں رکھنا ہے:
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیزہ یا تیر کی طرح صف سیدھی کرتے تھے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا دیکھا تو فرمایا:
”اپنی صفیں برابر کرو، یا اللہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا“۔
[صحيح البخاري:717، صحيح مسلم:978+979، جامع الترمذي:227، سنن أبي داود:663+662، سنن النسائى الصغرى:811، سنن ابن ماجه:994]
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رُصُّوا صُفُوفَكُمْ وَقَارِبُوا بَيْنَهَا وَحَاذُوا بِالْأَعْنَاقِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرَى الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ كَأَنَّهَا الْحَذَفُ.
ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو، اور ایک صف دوسری صف سے نزدیک رکھو، اور گردنوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں وہ صفوں کے بیچ میں سے گھس آتا ہے، گویا وہ بکری کا بچہ ہے۔
[سنن أبي داود:667، سنن النسائى الصغرى:816]
عن انس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «رصوا صفوفكم وقاربوا بينها وحاذوا بالاعناق».
ترجمہ:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”اپنی صفوں کو مضبوطی سے ملاؤ اور ان کے درمیان فاصلہ کم رکھو اور اپنی گردنوں کو ایک محاذ پر (یعنی برابر برابر) رکھو۔“
[صحیح ابن حبان (الإحسان):2163، صحیح ابن خزيمة:1545]
نماز میں ٹخنے کا ٹخنے سے - کندھے کا کندھا سے ملانے کا حکم:
واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے۔[ابوداؤد:662]۔ اور ان احادیث میں کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے، حقیقی معنیٰ مراد نہیں ہے، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، ٹخنوں کی سیدھ میں ٹخنے رکھیں، صفوں کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو۔
نماز میں پاؤں ملانے کا حکم:
نماز میں کھڑے ہوتے وقت پاؤں سے پاؤں ملانا ضروری نہیں ہے؛ ہاں صفیں اچھی طرح سیدھی کرنی چاہیے بایں طور کہ درمیان میں کوئی خالی جگہ نہ رہے، نیز ایسا بھی نہ ہو کہ کوئی آگے کوئی پیچھے کھڑا ہو ؛ بلکہ سارے لوگ اعتدال کے ساتھ خالی جگہوں کو پُر کرتے ہوئے صف میں کھڑے ہوں، جن احادیث میں تسویة الصفوف پاؤں سے پاؤں ملانے کی بات آئی ہے، اس سے یہی مراد ہے، حافظ ابن حجر نے یہ صراحت کی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ مقتدی حضرات حقیقتًا پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑے ہوں۔
احادیث میں ٹخنے سے ٹخنے، کندھے سی کندھے ملانا اپنی حقیقت پر محمول نہیں ہے۔
شارحِ بخاری علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعہ اپنی مشہور کتاب فتح الباری میں فرماتے ہیں:
والمراد بذالک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ
(فتح الباری: باب الأذان، رقم الحدیث، ص: ۷۲۵)
حدیث شریف کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف میں صف سیدھی کرنے اور خلل کو بند کرنے سے متعلق کئی الفاظ وارد ہوئے ہیں، ان سب کو ملاحظہ فرمالیں۔
نیز اعلاء السنن میں (باب سنة تسویة الصف) اور فیض الباری شرح صحیح البخاری میں (باب الزاق المنکب بالمنکب (فی باب الاذان) کو بھی مطالعہ کرلیں۔
حوالہ
والمراد بتسویة الصفوف اعتدال القائمین بہا علی سمت واحد أو یراد بہا سد الخلل الذی فی الصف إلخ
(فتح الباری لابن حجر، /207، باب تسویة الصفوف عند الإقامة وبعدہا، ط:المملکة العربیة السعودیة)....
(قولہ باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف)
المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ وقد ورد الأمر بسد خلل الصف والترغیب فیہ فی أحادیث کثیرة أجمعہا حدیث بن عمر عند أبی داود وصححہ بن خزیمة والحاکم ولفظہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولا تذروا فرجات للشیطان ومن وصل صفا وصلہ اللہ ومن قطع صفا قطعہ اللہ۔
(فتح الباری لابن حجر : باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف 2/ 211،ط: السعودیة)
واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے اور جماعت کی نماز میں اگر بتکلف کندھوں اور ٹخنوں کو ملا بھی لیا جائے تو بھی گھٹنوں کو ملا کر صف میں کھڑا ہونا تقریباً محال ہے، اسی طرح بہت زیادہ پیر کھول کر ٹخنے سے ٹخنے ملانے کی صورت میں کاندھے ملانا بھی تقریباً ناممکن ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی احادیث میں کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ صف سیدھی کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ٹخنے اور ایڑھیاں پیچھے سے برابر کرکے کھڑے ہوجائیں، صف سیدھی ہوجائے گی، ایڑھیاں برابر کرنے سے ٹخنے خود ہی تقریباً برابر ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ مونڈھا مونڈھے (کندھے) کی سیدھ میں رکھیں۔
واضح رہے کہ جماعت کی نماز میں صفوں کے درمیان اتصال سنت مؤکدہ ہے ، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، صفوں کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو، اگر مقتدی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے نہ ہوں بلکہ فاصلہ سے کھڑے ہوں تو جماعت کی فضیلت تو حاصل ہوجائے گی البتہ یہ خلافِ سنت اور مکروہ عمل ہے۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
"يقول: أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه، فقال: «أقيموا صفوفكم» ثلاثاً، «والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم» قال: فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه."
ترجمہ:
ابوالقاسم جدلی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا ”اپنی صفیں برابر کر لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔“ قسم اللہ کی! (ضرور ایسا ہو گا کہ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔“ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔
[سنن أبي داود:662]
البحرالرائق میں ہے:
"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف."
(کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ ج:1،ص:375 ط:دارالکتاب الاسلامی)
وفی حاشية ابن عابدين :
"ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامة في صف خلف صف فيه فرجة. قلت: وبالكراهة أيضا صرح الشافعية. قال السيوطي في [بسط الكف في إتمام الصف] : وهذا الفعل مفوت لفضيلة الجماعة الذي هو التضعيف لا لأصل بركة الجماعة، فتضعيفها غير بركتها، وبركتها هي عود بركة الكامل منهم على الناقص. اهـ
قوله وهذا الفعل مفوت إلخ) هذا مذهب الشافعية لأن شرط فضيلة الجماعة عندهم أن تؤدى بلا كراهة، وعندنا ينال التضعيف ويلزمه مقتضى الكراهة أو الحرمة كما لو صلاها في أرض مغصوبة رحمتي ونحوه في ط"
(كتاب الصلاة،باب الإمامة،1/ 570،ط:سعید )
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:
"فيأمرهم الإمام بذلك وقال صلى الله عليه وسلم: "استووا تستوي قلوبكم وتماسوا تراحموا" وقال صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم.
قوله: "فيأمرهم الإمام بذلك" تفريع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضا بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويستووا مناكبهم وصدورهم كما في الدر عن الشمني وفي الفتح ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه."
(ص: 306,ط: دار الكتب العلمية بيروت)
ـ’’اس باب میں مختلف الفاظ سے روایات آئی ہیں، بخاری کے الفاظ تو سوال ہی میں مذکور ہیں اور سنن ابو داؤد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ آئے ہیں: قال فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و رکبتہ برکبة صاحبہ و کعبہ بکعبہ۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: قاربو بینہما و حاذوا بالاعناق۔اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: حاذوا بالمناکب۔ اور یہ امر یقنی ہے کہ ان سب عبارات کا معبر عنہ ایک ہی ہے، اسی کو کہیں الزاق سے تعبیر کردیا، کہیں مقاربت سے کہیں محاذاۃ سے، اس سے معلوم ہوا کہ محاذاۃ و مقاربت ہی کو الزاق کہہ دیا ہے مبالغۃ فی المقاربۃ۔ دوسرے اگر الزاق کے معنی حقیقی لئے جاویں تو الزاق المناکب اور الزاق الکعب اس صورت متعارفہ معتادہ میں مجتمع نہیں ہوسکتے کہ مصلی اپنے قدمین میں خوب انفراج رکھے، کیونکہ اس میں الزاق الکعاب تو ہوگا لیکن الزاق المناکب نہ ہوگا ، جیسا کہ ظاہر اور مشاہد ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ الزاق الکعب کو مقصود سمجھا جاوے اور الزاق المناکب کی رعایت نہ کی جاوے، کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ الزاق المناکب اصل ہے اور الزاق الکعاب غیر مقصود۔ تیسرے الزاق الکعاب کی جو صورت بھی لی جاوے الزاق الرکب کے ساتھ اس کے تحقیق کی کوئی صورت نہیں، کیونکہ رکبہ بمعنی زانو کا الزاق دوسرے رکبہ سے جب ہوسکتا ہے کہ دو شخص باہم متقابل اور متواجہ ہوں جیسا کہ ظاہر ہے، البتہ محاذاۃ رکب میں ہر حال میں ممکن ہے ان وجوہ سے ثابت ہوا کہ جس الزاق کا دعوی کیا جاتا ہے، حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی بلکہ فرجات چھوڑنے کی ممانعت سے اس کی نفی ہوتی ہے۔ واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم ۔‘‘
(امداد الفتاوی: ج:1 ص:326 ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )
فتاوی محمودیہ میں ہے:
علامہ شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں تصریح کی ہے کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھے، اس سے معلوم ہوا کہ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں ملایا جائے گا، علاوہ ازیں ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر نماز پڑھنا بہت دشوار ہے اور قعدہ تو اس حالت میں ممکن بھی نہیں، البتہ ایک نمازی دوسرے نمازی کے ساتھ صف میں کھڑا ہو کر اپنا ٹخنہ دوسرے کے ساتھ سیدھ میں رکھے، آگے پیچھے نہ رکھے، تاکہ صف سیدھی رہے، یہی حکم حدیث وفقہ سے ثابت ہے، یہ نہیں کہ ایک نمازی ٹخنہ کو دوسرے نمازی کے ٹخنہ سے ملالے ۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
(باب صفۃ الصلاۃ ج:21 ص:508 ط:جامعہ فاروقیہ)
