یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
اور محمد ﷺ ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 144]
القرآن:
اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ (18) چنانچہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں ؟
[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 34]
تفسیر:
(18) سورة طور : آیت#30 میں مذکور ہے کہ کفار مکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے انتقال کے موقع پر وہ خوشی منائیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اول تو موت ہر شخص کو آنی ہے، اور کیا خود یہ خوشی منانے والے موت سے بچ جائیں گے۔
القرآن:
(اے پیغمبر) موت تمہیں بھی آنی ہے اور موت انہیں بھی آنی ہے۔ پھر تم سب قیامت کے دن اپنے پروردگار کے پاس اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔
متواتر وہ حدیث ہے جس کو ابتداء سے لے کر آخر سند تک ہر زمانہ میں اتنے لوگوں نے(مسلسل) بیان کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃّ محال نظر آئے، اور سند کی انتہا ایسی چیز پر ہو جس کا تعلق محسوسات سے ہو، نظر وفکر سے علم یقینی حاصل نہیں ہوتا ہے، یہ(یقین)حدیثِ متواتر سے حاصل ہوتا ہے، مثلاً:- قرآن پاک بھی تواتر سے امت تک پہنچا ہے اور علمِ یقین کا درجہ رکھتا ہے۔
مثالِ حدیث:-
﴿امام ترمذی لکھتے ہیں کہ﴾
ہم سے حدیث بیان کی (1)ابوھشام الرفاعی نے، (انہوں نے کہا کہ) ہم سے حدیث بیان کی (2)ابوبکر بن عیاش نے کہ، (انہوں نے کہا کہ) ہم سے حدیث بیان کی (3)عاصم نے، ان سے (5) زِرّ نے ، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یہ حدیث یہاں صرف ایک صحابی کی ایک سند سے بیان کی گئی ہے،جبکہ یہ حدیث تقریباً 62 یا 100 سے زائد سے صحابہ نے روایت کیا۔[قواعد المحدثین:٦٠٢] مختلف سندوں(طریقوں)سے احادیث کی کتابوں میں منقول ہے۔
اس کے علاوہ احادیث متواترہ پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الأزهار المتناثرة في الأخبار المتواترة" میں تقریباً ایک سو گیارہ متواتر احادیث نقل کی ہیں، اور علامہ محمد بن الجعفر الکتّانی کی کتاب: "النظم المتناثر من الحدیث المتواتر" میں احادیث متواتر کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ فقط واللہ اعلم
حدیث متواتر کی لغوی تعریف: "متواتر" کا لفظ "تواتر" سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے: مسلسل، پے در پے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تتْرَى )
ترجمہ:
پھر ہم نے پے در پے رسول بھیجے
[سورۃ المؤمنون :44]
اصطلاحی تعریف:
وہ روایت جسے ایک بہت بڑی تعداد روایت کرے جن کا جھوٹ پر متفق و متحد ہونا ناممکن ہو ، یہ تعداد اپنے ہی جیسی تمام صفات کی حامل ایک بڑی جماعت سے روایت کرے، اور انہوں نے یہ خبر بذریعہ حس حاصل کی ہو۔
علمائے کرام نے متواتر حدیث کیلئے 4 شرائط ذکر کی ہیں:
1- اسے بہت بڑی تعداد بیان کرے۔
2- راویوں کی تعداد اتنی ہو کہ عام طور پر اس قدر عدد کا کسی جھوٹی خبر کے بارے میں متفق ہونا محال ہو۔
3- مذکورہ راویوں کی تعداد سند کے ہر طبقے میں ہو، چنانچہ ایک بہت بڑی جماعت اپنے ہی جیسی ایک بڑی جماعت سے روایت کرے، یہاں تک کہ سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے۔
4- ان راویوں کی بیان کردہ خبر کا استنادی ذریعہ حس ہو، یعنی: وہ یہ کہیں کہ : ہم نے سنا، یا ہم نے دیکھا، کیونکہ جو بات سنی نہ گئی ہو، اور نہ دیکھی گئی ہو، تو اس میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے وہ روایت متواتر نہیں رہے گی۔
متواتر حدیث کی اقسام:
1- متواتر لفظی:
ایسی روایت جس کے الفاظ اور معنی دونوں تواتر کیساتھ ثابت ہوں
اس کی مثال: حدیث: (مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ)
ترجمہ: جو مجھ [محمد صلی اللہ علیہ وسلم] پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
اس روایت کو بخاری: (107) ، مسلم (3) ، ابو داود (3651) ترمذی (2661) ، ابن ماجہ (30 ، 37) اور احمد (2/159) نے روایت کیا ہے۔
اس روایت کو نقل کرنے والے صحابہ کرام کی تعداد72 سے بھی زیادہ ہے، اور صحابہ کرام سے یہ روایت بیان کرنے والوں کی تعداد نا قابل شمار ہے۔
2- متواتر معنوی: ایسی روایت جس کا مفہوم تواتر کیساتھ ثابت ہو، الفاظ میں کچھ کمی بیشی ہو۔
اس کی مثال: دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کی احادیث ہیں، چنانچہ دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے سے متعلق ایک سو کے قریب روایات ملتی ہیں، ان تمام احادیث میں یہ بات مشترک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے وقت ہاتھ اٹھائے، ان تمام روایات کو سیوطی رحمہ اللہ نے اپنے ایک رسالے میں جمع کیا ہے، جس کا نام ہے: " فض الوعاء في أحاديث رفع اليدين في الدعاء "
متواتر حدیث کا حکم:
متواتر حدیث کی تصدیق کرنا یقینی طور پر لازمی امر ہے؛ کیونکہ متواتر حدیث سے قطعی اور یقینی علم حاصل ہوتا ہے؛ اور اس قطعی و یقینی علم کیلئے ایسی حدیث کو کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی، نیز ایسی روایت کے حالات بھی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی عقلمند اس حدیث کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رکھتا۔
مصادر:
- "نزہۃ النظر" از حافظ ابن حجر
- "الحدیث المتواتر" از ڈاکٹر خلیل ملا خاطر
- "الحديث الضعيف وحكم الاحتجاج به "از: شیخ ڈاکٹر عبد الكريم بن عبد الله الخضیر
- " معجم مصطلحات الحديث ولطائف الأسانيد"از: ڈاکٹر محمد ضياء الرحمن اعظمی
اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔ (77)
[سورة البقرة:120]
(77) اگرچہ حضور رسالت مآب ﷺ سے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ آپ کفار کی خواہشات کے پیچھے چلیں، لیکن اس آیت نے فرض محال کے طور پر یہ بات کہہ کر اصول یہ بتلادیا کہ اللہ کے نزدیک شخصیات کی اہمیت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ اللہ کی اطاعت کی وجہ سے ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ ساری مخلوقات میں سب سے افضل اسی بنا پر ہیں کہ اللہ کے سب سے زیادہ فرمانبردار ہیں۔
یہود ونصاریٰ تاریخ کے آئینہ میں
(امام ابن قیم الجوزیہ)
دنیا میں پائے جانے والے دو مذاہب یہود اور نصاریٰ نے متعدد اسباب کی بنا پر اسلام کے خلاف نفرت انگیز مہم کا آغاز کیا اس کے لیے جہاں انھوں نے نبی کریم ﷺ اور ان کے اتباع و تابعین پر رقیق الزامات لگائے بلکہ انھوں نے اسلام کے خلاف جنگوں کا آغاز کر دیا۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے مجدد اور اپنے استاد امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی ترجمان مانے جاتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انھوں نے یہود و نصاریٰ کے تمام اعتراضات کے مسکت جوابات دئیے ہیں۔ انھوں نے شریعت اسلامیہ کے ان بنیادی مسائل پر تحقیقی انداز میں روشنی ڈالی ہے جن کو ہمارے دینی حلقے فراموش کر چکے ہیں۔ امام صاحب نے عیسائیوں اور یہودیوں کی کتب سماویہ میں باطل تحریفات کا پردہ ایسے دلنشیں انداز میں فاش کیا ہے کہ کتاب پڑھ کر جہاں اسلام کی حقانیت کا نقش دل پر جم جاتا ہے وہیں انھوں یہود و نصاری کی اسلام دشمنی اور دین یہود کی ضلالت پر مہر ثبت کر دی ہے۔
باغ فدک ایک نہایت مختصر کھجوروں کا باغ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فی ملا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات تک اس کو اپنی تحویل میں رکھ رکھا تھا اس سے اپنے اہل وعیال کو بقدر قوت (ضرورت بھر) سال بھر کا نفقہ دے دیا کرتے تھے اور باقی جو کچھ بچتا تھا وہ فقراء مساکین پر صدقہ کردیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے متولی ہوئے اور حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور خلیفہ برحق ہونے کی حیثیت سے آپ کی ہی طرح اس کی آمدنی خرچ کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی عمل کیا، البتہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتظم تجویز فرمادیا تھا۔ باغ فدک کا واقعہ مختصر ہے، مگر شیعوں نے اس کو بے جا لمبا کردیا۔ سیرت مصطفی (۳/۲۴۲-۲۴۹) موٴلف حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی میں باغ فدک کا واقعہ مع شیعوں کے اعتراضات وجوابات مفصلاً مذکور ہے، تفصیل دیکھنی ہو تو اس کا مطالعہ کرلیا جائے۔
مذکورہ واقعہ بخاری شریف میں کتاب المغازی اور مسلم شریف میں کتاب الجہاد میں مذکور ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
حضور ﷺکی وفات کے بعد حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے ان اموال (ترکہ ) سے اپنی میراث کا مطالبہ فرمایا جو اللہ تعالی نے رسول اللہ ْﷺ کو مدینہ اور فدک میں عنایت فرمائے تھے ،اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہﷺ کی وہ روایت مبارکہ سنائی ’’ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے‘‘البتہ آل محمد اسی مال میں سے اپنی ضرورت پوری کرے گی اور خدا کی قسم جو صدقہ رسول اللہ ﷺ چھوڑ گئے اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا، جس حال میں وہ حضور ﷺ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو حضور ﷺ کا اپنی زندگی میں تھا، اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا راضی ہوگئیں۔
خود شیعوں کی کتاب میں ہے کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مذکورہ حدیث سنائی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اس پر راضی ہوں، چنانچہ شیعوں کی کتاب "محجاج السالکین" میں ہے :
"أن أبا بكر لما رأى فاطمة رضي الله تعالى عنها انقبضت عنه وهجرته ولم تتكلم بعد ذلك في أمر فدك كبر ذلك عنده فأراد استرضاءها فأتاها فقال: صدقت يا بنت رسول الله صلّى الله عليه وسلم فيما ادعيت ولكن رأيت رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم يقسمها فيعطي الفقراء والمساكين وابن السبيل بعد أن يؤتى منها قوتكم فما أنتم صانعون بها؟ فقالت: افعل فيها كما كان أبي صلى الله تعالى عليه وسلم يفعل فيها فقال: لك الله تعالى أن أفعل فيها ما كان يفعل أبوك، فقالت: والله لتفعلن؟ فقال: والله لأفعلن ذلك، فقالت: اللهم اشهد، ورضيت بذلك، وأخذت العهد عليه فكان أبو بكر يعطيهم منها قوتهم ويقسم الباقي بين الفقراء والمساكين وابن السبيل۔"
(محجاج السالكين بحوالہ تحفہ اثنا عشریہ (اردو) باب نمبر۱۰ خلفاء ثلاثہ ....ص545، دار الإشاعت كراچی)
اور سب سے بڑھ کر خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں حضرت زید بن الحسین بن علی رضی اللہ عنہ کابیان ہےکہ اگرمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جگہ ہوتا تو یہی فیصلہ کرتا جو فیصلہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ۔
چنانچہ السنن الكبری للبیہقی میں ہے :
"أخبرنا أبوعبد الله الحافظ … قال زید بن علی بن الحسین بن علي: أما أنا فلو كنت مكان أبي بكر رضي الله عنه لحكمت بمثل ماحکم به أبوبکر رضي الله عنه فی فدك."
(السنن الکبری للبیھقی :6/302)
و في البدایة و النهایة (۲۵۳/۵):
"و تكلمت الرافضة في هذا المقام بجهل عظیم و تکلفوا مالا علم لهم به و كذبوا بمالم یحیطوا بعلمه."
صحيح بخاری میں ہے :
"عن أبي اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان النصري، أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه دعاه، إذ جاءه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد يستأذنون؟ فقال: نعم فأدخلهم، فلبث قليلا ثم جاء فقال:هل لك في عباس، وعلي يستأذنان؟ قال: نعم، فلما دخلا قال عباس: يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا، وهما يختصمان في الذي أفاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم من بني النضير، فاستب علي، وعباس، فقال الرهط: يا أمير المؤمنين اقض بينهما، وأرح أحدهما من الآخر، فقال عمر: اتئدوا أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا صدقة» يريد بذلك نفسه؟ قالوا: قد قال ذلك، فأقبل عمر على عباس، وعلي فقال: أنشدكما بالله، هل تعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال ذلك؟ قالا: نعم، قال: فإني أحدثكم عن هذا الأمر، إن الله سبحانه كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه أحدا غيره، فقال جل ذكره:{وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب}[الحشر: 6]- إلى قوله - {قدير} [الحشر: 6]، فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم، ولا استأثرها عليكم، لقد أعطاكموها وقسمها فيكم حتى بقي هذا المال منها، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على أهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، ثم توفي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال أبو بكر: فأنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضه أبو بكر فعمل فيه بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنتم حينئذ، فأقبل على علي، وعباس وقال: تذكران أن أبا بكر فيه كما تقولان، والله يعلم: إنه فيه لصادق بار راشد تابع للحق؟ ثم توفى الله أبا بكر، فقلت: أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، فقبضته سنتين من إمارتي أعمل فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، والله يعلم: أني فيه صادق بار راشد تابع للحق؟ ثم جئتماني كلاكما، وكلمتكما واحدة وأمركما جميع، فجئتني - يعني عباسا - فقلت لكما: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا صدقة» فلما بدا لي أن أدفعه إليكما قلت: إن شئتما دفعته إليكما، على أن عليكما عهد الله وميثاقه: لتعملان فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وما عملت فيه منذ وليت، وإلا فلا تكلماني، فقلتما ادفعه إلينا بذلك، فدفعته إليكما، أفتلتمسان مني قضاء غير ذلك، فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، لا أقضي فيه بقضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنه فادفعا إلي فأنا أكفيكماه."
ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا۔ (وہ بھی امیرالمؤمنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیرالمؤمنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین! میرا اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کر دیجئیے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فئے کے طور پر دی تھی۔ اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمؤمنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جلدی نہ کیجئے۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال فئے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ”بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قدیر“ تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس رضی اللہ عنہ سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ ”ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے، جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔
(صحيح البخاري: حدیث نمبر 4033، باب: حديث بني النضير)
نیز امام بیہقی کی ’’السنن الکبری‘‘ میں حضرت امام عامر شعبی سے ایک روایت ہےجس میں واضح طور پر موجود ہے کہ جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مرض میں مبتلا ہوگئیں، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی اجازت سے گھر میں تشریف لے گئے اور دوران گفتگو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ :میں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ اللہ کی مرضی اور اس کے رسول کی مرضی اور اے آل رسول تمہاری مرضی اور خوشی کی ابتغاء اور جستجو کی خاطر کیا ہے، اس گفتگو کے دوران حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے خوشی ورضا مندی کا اظہار فرمایا، جو صاف الفاظ سے مروی ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:
"عن الشعبي قال: لما مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا أتاہا أبوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ، فاستأذن علیہا، فقال علي رضی اللہ عنہ: یا فاطمۃ! ہذا أبوبکر یستأذن علیک، فقالت: أتحب أن آذن لہ؟ قال: نعم، فآذنت لہ، فدخل علیہا یترضاہا، وقال: واللہ ما ترکت الدار والمال والأہل والعشیرۃ إلا ابتغاء مرضاۃ اللہ ومرضاۃ رسولہ ومرضاتکم أہل البیت، ثم ترضاہا حتی رضیت۔ ہذا مرسل حسن بإسناد صحیح."
(السنن الکبری للبیہقي، باب بیان مصرف أربعۃ أخماس الفيء … دارالفکر۹/ ۴۳۶، رقم:۱۳۰۰۵)
پھر اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا کیسے حق پہنچتا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئی تھیں، پورے ذخیرۂ حدیث میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے، جس میں حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہونا ثابت ہو، یہ محض اہلِ شیعہ کی طرف سے بدگمانی پیدا کرنے کی گندی حرکت ہے۔
اللہ کے احکام بندوں تک پہنچانے اور دنیا میں خدا کا قانون نافذ کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے اللہ نے زمین میں جن بندوں کو بھیجا ہے وہ اللہ کے نبی اور خلیفہ کہلاتے ہیں، چنانچہ سب سے پہلے نبی اور خلیفہ آدم علیہ السلام ہیں، پہر نوح علیہ السلام پھر اسی طرح یہ سلسلہ درجہ بدرجہ چلتے ہوئے آخر میں ہمارے آقا محمد ﷺ تک پہنچا اور محمد ﷺ اللہ کے سب سے آخری نبی اور خلیفہ ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی یا خلیفہ اللہ کی طرف سے نہ آیا ہے نہ آئے گا۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد احکامِ الٰہی کے نافذ کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے جو منتخب ہوا وہ خلیفة الرسول اور آپ ﷺ کا نائب ہوتا ہے۔ خلافت پوری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے، البتہ ملوکت بادشاہت متعدد ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک ہی زمانہ میں علاقے کے لحاظ سے متعدد سلاطین اسلام ہوئے ہیں، ملوکیت(بادشاہت) بھی خلافت کی طرح ایک عہدہ اور ذمہ داری ہے کیونکہ آپ ﷺ کے اندر خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی شان بھی موجود تھی۔ نیز ملوکیت اور بادشاہت بھی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ اور انعام ہے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے ﴿وَهَبْ لِي مُلْكًا ﴾ یعنی اور مجھے سلطنت بخش دے [سورۃ ص:35] کی دعا کی اور اللہ نے ان کو خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت بھی عطا کی تھی جس پر دلالت کرنے والی بہت سی آیتیں قرآن میں موجود ہیں۔
[حوالہ جات؛ سورۃ البقرۃ:246+247، النساء:54، ص:20]
لہٰذا بادشاہت فی نفسہ مذموم شئ نہیں ہے۔ الغرض جب آسمانی خلافت اور بادشاہت ختم ہوگئی تو دنیا کی خلافت اور بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا، چنانچہ خلفائے راشدین آپ ﷺ کے جانشین اور خلیفہ ہیں، خلیفہ بنانے کے مختلف طریقے عہد صحابہ میں پیش آئے ہیں، چنانچہ ایک طریقہ تو حضرت ابوبکرؓ کے انتخاب کا تھا کہ تمام صحابہؓ نے ان کو بالاتفاق اپنا امیر اور آپ ﷺ کا خلیفہ مقرر کیا اور دوسرا طریقہ حضرت عمرؓ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے اخیر زمانہ میں بغیر کسی شوریٰ کے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین اور خلیفہ بنادیا، پھر تیسرا طریقہ حضرت عثمانؓ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے پہلے ایک شوریٰ قائم کی جس کے انتخاب سے حضرت عثمانؓ خلیفہ مقرر ہوئے، اور چوتھا طریقہ حضرت علیؓ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد اکثر صحابہؓ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کیا اور ان کو اپنا امیر تسلیم کرلیا۔ اسی طرح ایک پانچواں طریقہ وہ ہے جو صحابی رسولِ ہادی، مہدی امیر معاویہؓ سے ثابت ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانیشین اور خلیفہ بنایا۔ الغرض یہ سب کے سب طریقے عہد صحابہ میں پیش آئے ہیں اور بادشاہت کا طریقہ بھی اسلام میں موجود ہے، پس اُسے منسوخ کیسے کہا جائے گا، آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
الفتن لنعيم بن حماد:248، الجامع لعلوم الإمام أحمد:15/159، دلائل النبوة للبيهقي:6/447، جامع بيان العلم وفضله:2324، المتفق والمفترق، للخطيب البغدادي:626، الفردوس بمأثور الخطاب:3023، التاريخ الكبير للبخاري:4/ 15، تاريخ دمشق لابن عساكر:1/183، البداية والنهاية لابن كثير:9/212، فضائل الشام لابن رجب الحنبلي:3/190، إمتاع الأسماع لالمقريزي:12/209، المقاصد الحسنة للسخاوي:583،
اہل السنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی پاک ﷺ کے بعد خلیفہ بلافصل حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں، ان کے بعد حضرت عمرؓ ، ان کے بعد حضرت عثمان غنیؓ، اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں، بالترتیب یہ چاروں حضرات خلفاء راشدین ہیں جن کی خلافت کی پیشن گوئی قرآن کریم میں دی گئی ہے، اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ میرے بعد خلافت تیس(30) سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت اور ملوکیت شروع ہوجائے گی۔
[سنن الترمذي:2226]
اس سے مراد خلافتِ راشدہ ہے جس کی مدت حضرت سیدنا حسنؓ کی خلافت پر جا کر ختم ہوجاتی ہے؛ کیونکہ مستند تاریخی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ خلفاء اربعہ کی خلافت کی مدت انتیس(29)سال اور چھ(6)ماہ پر جاکر ختم ہوجاتی ہے ابھی چونکہ تیس(30)سال پورا ہونے میں تقریباً چھ(6) ماہ باقی تھے کہ حضرت علیؓ کی شہادت ہوگئی تھی ان کی شہادت کے بعد اکثر مسلمانوں نے حضرت سیدنا حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی اس کے بعد حضرت حسنؓ نے تقریبا چھ(6)ماہ خلافت کی جب خلافت کے تیس(30)سال مکمل ہوگئے تو انہوں نے نبی ﷺ کے پیشن گوئی کے مطابق حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کرتے ہوئے خلافت کی ذمہ داری ان کے حوالے کردی تھی، اس اعتبار سے حضرت سیدنا حسنؓ کی خلافت کا زمانہ بھی خلافتِ راشدہ میں داخل ہوگا، اور حضرت حسنؓ بھی خلفاء راشدین میں شامل ہوں گے، لہذا جو لوگ مذکورہ حدیث کے حوالے سے حضرت حسن کی خلافت کو خلافتِ راشدہ میں داخل کرکے ان کو خلیفہ راشد کہتے ہیں ان کی بات درست ہے، لیکن حضرت امیر معاویہؓ کو خلفاء راشدین کی فہرست میں شامل نہ ہوں گے؛ کیونکہ خلافتِ راشدہ کے لئے ہجرت کرنا شرط ہے، جیسا کہ "ازالة الخلفاء عن خلافة الخلفاء[ج1/ص10] میں اس کی صراحت کی گئی ہے، چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ صاحب لکھتے ہیں: "از جملہ لوازم خلافت خاصہ آنست کہ خلیفہ از مہاجرین اولین باشد" اور یہ شرط حضرت امیر معاویہؓ میں مفقود ہے؛ اس لئے ان کو خلفاءِ راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا، رہا مسئلہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو خلفاءِ راشدین میں شمار کرنے کا مسئلہ تو چونکہ خلفاء راشدین میں شمار ہونے کے لئے صحابی ہونا ضروری ہے، جیسا کہ آپ کے مسائل اور ان کا حل [ج1 /ص330] پر اس کی صراحت کی گئی ہے اور یہ شرط حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے اندر مفقود ہے؛ کیونکہ وہ صحابی نہیں ہیں بلکہ تابعی ہیں اس لئے ان کو خلفاء راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا جہاں تک تعلق ہے اہل سنت و الجماعت کے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلفاء راشدین میں شامل کرنے کا تو اگرچہ بعض اہل السنة والجماعة حضرات نے ان کو خلفاء راشدین میں شمار کیا ہے مگر اس معنیٰ میں نہیں کہ یہ بھی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں خلافتِ راشدہ کی پیشن گوئی دی گئی ہے بلکہ وہ حضرات ان کو اس اعتبار سے خلیفہ راشد کہتے ہیں کہ یہ بذاتِ خود عادل اور خیرخواہی کرنے والے اچھے خلیفہ تھے اور ان کی خلافت میں رشد(ہدایت) پائی جاتی تھی، اور ان کی خلافت، خلافتِ راشدہ کے مشابہ تھی اس اعتبار سے انہوں نے ان کو خلیفہ راشد کہا ورنہ درحقیقت یہ خلفاء راشدین کے مصداق نہیں ہیں۔
(1)الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ سے، وہ حضرت سفینہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خلافت علی منہاج النبوۃ (نبوت کی خلافت) تیس سال رہے گی ، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا۔
[سنن ابو داؤد - سنت کا بیان - حدیث نمبر 4647][صحیح ابن حبان:6783]
پھر (سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ کہتے ہیں) مجھ سے سفینہ رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت، عمر رضی الله عنہ کی خلافت، عثمان رضی الله عنہ کی خلافت اور علی رضی الله عنہ کی خلافت، شمار کرو۔
[مصنف ابن ابی شیبہ: کتاب الاوائل، باب:-سب سے پہلے کون سا عمل کس نے کیا ؟ حدیث نمبر: 37156]
قلت: معاویة؟ قال: کان اول الملوک. وتابعہ حماد بن سلمة عن سعید بن جمہان.
(المدخل الی سنن الکبری للبیہقی: باب اقاویل الصحابة رضی اللہ عنہم: ج ۱/ ص ۱۱۶)
تشریح: حضرت سفینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام ہیں انھوں نے حضور ﷺ کا جو ارشاد نقل فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت یعنی ٹھیک ٹھیک میرے طریقہ پر اور اللہ تعالی کے پسندیدہ طریقہ پر میری نیابت میں دین کی دعوت و خدمت اور نظام حکومت کا کام (جس کا مختصر معروف عنوان "خلافت راشدہ" ہے) بس تیس سال تک چلے گا اس کے بعد نظام حکومت بادشاہت میں تبدیل ہوجائے گا اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ پر یہ حقیقت منکشف فرما دی تھی آپ ﷺ نے مختلف موقعوں پر اس کا اظہار فرمایا اور امت کو اس کے بارے میں آگاہی دی مختلف صحابہ کرامؓ سے اس سلسلہ کے آپ ﷺ کے ارشادات مروی ہیں۔ حضرت سفینہ ؓٗ نے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمانے کے ساتھ اس کا حساب بھی بتلایا لیکن اس کو تقریبی یعنی موٹا حساب سمجھنا چاہیے تحقیقی حساب یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر ؓ کی خلافت کی مدت دو سال چار مہینے ہے۔ اس کے بعد حضرت فاروق اعظم ؓ کی مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہیں۔ اس کے بعد حضرت ذوالنورین کی خلافت کی مدت چند دن کم بارہ سال ہیں۔ اس کے بعد حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت کی مدت چار سال نو مہینے ہیں۔ ان کی میزان 29 سال 7 مہینے ہوتی ہے اس کے ساتھ سیدنا حضرت حسنؓ کی خلافت کی مدت قریبا پانچ ماہ جوڑ لی جائے تو پورے تیس سال ہو جاتے ہیں۔ یہی تیس (30) سال خلافت راشدہ کے ہیں اس کے بعد جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا نظام حکومت بادشاہت میں تبدیل ہوگیا اس طرح کی رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئیاں آپ ﷺ کی نبوت کی کھلی دلیلیں بھی ہیں اور ان میں امت کو آگاہی بھی ہیں۔
[معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1948]
آپؓ کے بعد آپؓ کے بڑے صاحبزادے حضرت حسن ؓٗ آپؓ کے جانشین اور خلیفہ ہوئے لیکن انہوں نے چند ہی مہینے بعد مسلمانوں کی خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ایک پیشن گوئی کے مطابق حضرت معاویہ ؓ سے صلح کر لی اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ حضرت حسنؓ کی خلافت کے یہ چند مہینے شامل کر لیے جائیں تو پورے تیس سال ہو جاتے ہیں۔ خلافت علی منہاج نبوت اور خلافت راشدہ جس کو اس حدیث میں خلافت النبوہ کہا گیا ہےبس اس تیس سالوں تک رہی۔ اس کے بعد طور طریقوں میں تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا اور شدہ شدہ خلافت علی منھاج النبوہ کی جگہ بادشاہت کا رنگ آ گیا۔ آنحضرت ﷺ کی دوسری پیشنگوئیوں کی طرح یہ حدیث بھی رسول اللہ ﷺ کا معجزہ اور آپ ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد جو کچھ ہونے والا تھا۔ آپ ﷺ نے اس کی اطلاع دی اور وہی وقوع میں آیا۔ ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کو اس کا علم اللہ تعالی کی وحی کے ہی ذریعہ ہوا تھا۔
اور بیہقی نے سفینہ کی سند سے اسے المدخل میں شامل کیا ہے کہ سب سے پہلے بادشاہ معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور خلافت نبوت سے مراد مکمل خلافت ہے اور یہ محدود ہے۔ پانچوں تک، لہٰذا حدیث اس مذہب سے متصادم نہیں ہے، یہ مذہب اس وقت تک قائم رہے گا جب تک اس کے بارہ خلفاء نہ ہوں، کیونکہ اس سے مراد مطلق خلافت ہے، اور خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
هُوَ آخر الْخُلَفَاء الرَّاشِدين بِنَصّ جده صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ولي الْخلَافَة بعد قتل أَبِيه بمبايعة أهل الْكُوفَة فَأَقَامَ بهَا سِتَّة أشهر وأياما خَليفَة حق وَإِمَام عدل وَصدق تَحْقِيقا لما اخبر بِهِ جده الصَّادِق المصدوق صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بقوله
وہ اپنے دادا (صلى الله عَلَيْهِ وَسلم) کی بيان کے مطابق صحیح ہدایت یافتہ خلفاء میں سے آخری ہیں، اور کوفہ کے لوگوں سے بیعت کرنے کے بعد اپنے والد کو قتل کرنے کے بعد خلافت کے جانشین تھے، اس لیے آپ نے قیام کیا۔ وہاں چھ ماہ اور دن ایک سچے خلیفہ اور انصاف اور سچائی کے امام کی حیثیت سے اپنے دادا الصادق المصدوق سے کہی گئی بات کو پورا کرتے ہوئے ان کے اس قول کے مطابق۔
وہ چھ مہینے ان تیس کی تکمیل ہیں، اس لیے اس کے لیے اس کی خلافت معین ہوئی اور اس پر مردوں کا اجماع قائم ہوا، اس لیے اس کے حق میں کوئی شک نہیں۔
امام صدر الدین علی بن علی بن محمد بن ابی العز الحنفی اپنی کتاب [شرح العقيدة الطحاوية] میں لکھتے ہیں:
و أول ملوك المسلمين معاوية رضي الله عنه ، و هو خير ملوك المسلمين ، لكنه إنما صار إماما حقا لما فوض إليه الحسن بن علي رضي الله عنهم الخلافة ، فإن الحسن رضي الله عنه بايعه أهل العراق بعد موت أبيه ، ثم بعد ستة أشهر فوض الأمر إلى معاوية
ترجمہ:
مسلمانوں کے پہلے بادشاہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ہیں اور وہ مسلمانوں کے تمام بادشاہوں سے بہتر تھے لیکن بعد ازاں وہ بھی خلیفہ برحق تھے جب حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ نے انہیں خلافت تفویض کر دی تھی ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ کی عراقیوں نے بیعت کی لیکن چھ ماہ بعد انہوں نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو تفویض کر دی.
[شرح العقيدة الطحاوية ، لامام صدر الدين علي بن علي بن محمد بن أبي العز الحنفي ، تحت " خلافة علي رضي الله عنه ، ص 479 تا 480 مطبوعة دار ابن رجب ، طبع اول ١٤٢٢ه/٢٠٠٢ء]
لما قال العلامة ملا علی القاری رحمہ اللہ:
وخلافة النبوة ثلاثون سنة _منہا خلافة الصدیق سنتان وثلاثة اشہر وخلافة عمر عشر سنین ونصف وخلافة عثمان اثنتا عشرة سنة وخلافة علی اربع سنین وتسعة اشہر وخلافة ابنہ ستة اشہر واول ملوک المسلمین معاویة وہو افضلہم لکنہ انما صار اماما حقا لما فوض الیہ الحسن بن علی الخلافة فان الحسن بایعہ اہل العراق بعد موت ابیہ ثم بعد ستة اشہر فوض الامر الی معاویة والقصة مشہورة وفی الکتب المبسوط مستورہ
[صحيح مسلم:433(975)، سنن أبي داود:668، سنن ابن ماجه:993]
صف محاذاۃ (سیدھی-برابری) میں رکھنا ہے:
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیزہ یا تیر کی طرح صف سیدھی کرتے تھے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا دیکھا تو فرمایا:
”اپنی صفیں برابر کرو، یا اللہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا“۔
[صحيح البخاري:717، صحيح مسلم:978+979، جامع الترمذي:227، سنن أبي داود:663+662، سنن النسائى الصغرى:811، سنن ابن ماجه:994]
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو، اور ایک صف دوسری صف سے نزدیک رکھو، اور گردنوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں وہ صفوں کے بیچ میں سے گھس آتا ہے، گویا وہ بکری کا بچہ ہے۔
[سنن أبي داود:667، سنن النسائى الصغرى:816]
عن انس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «رصوا صفوفكم وقاربوا بينها وحاذوا بالاعناق».
ترجمہ:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”اپنی صفوں کو مضبوطی سے ملاؤ اور ان کے درمیان فاصلہ کم رکھو اور اپنی گردنوں کو ایک محاذ پر (یعنی برابر برابر) رکھو۔“
[صحیح ابن حبان (الإحسان):2163، صحیح ابن خزيمة:1545]
نماز میں ٹخنے کا ٹخنے سے - کندھے کا کندھاسے ملانے کا حکم:
واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے۔[ابوداؤد:662]۔ اور ان احادیث میں کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے، حقیقی معنیٰ مراد نہیں ہے، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، ٹخنوں کی سیدھ میں ٹخنے رکھیں، صفوں کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو۔
نماز میں پاؤں ملانے کا حکم:
نماز میں کھڑے ہوتے وقت پاؤں سے پاؤں ملانا ضروری نہیں ہے؛ ہاں صفیں اچھی طرح سیدھی کرنی چاہیے بایں طور کہ درمیان میں کوئی خالی جگہ نہ رہے، نیز ایسا بھی نہ ہو کہ کوئی آگے کوئی پیچھے کھڑا ہو ؛ بلکہ سارے لوگ اعتدال کے ساتھ خالی جگہوں کو پُر کرتے ہوئے صف میں کھڑے ہوں، جن احادیث میں تسویة الصفوف پاؤں سے پاؤں ملانے کی بات آئی ہے، اس سے یہی مراد ہے، حافظ ابن حجر نے یہ صراحت کی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ مقتدی حضرات حقیقتًا پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑے ہوں۔
احادیث میں ٹخنے سے ٹخنے، کندھے سی کندھے ملانا اپنی حقیقت پر محمول نہیں ہے۔
شارحِ بخاری علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعہ اپنی مشہور کتاب فتح الباری میں فرماتے ہیں:
والمراد بذالک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ
(فتح الباری: باب الأذان، رقم الحدیث، ص: ۷۲۵)
حدیث شریف کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف میں صف سیدھی کرنے اور خلل کو بند کرنے سے متعلق کئی الفاظ وارد ہوئے ہیں، ان سب کو ملاحظہ فرمالیں۔
نیز اعلاء السنن میں (باب سنة تسویة الصف) اور فیض الباری شرح صحیح البخاری میں (باب الزاق المنکب بالمنکب (فی باب الاذان) کو بھی مطالعہ کرلیں۔
حوالہ
والمراد بتسویة الصفوف اعتدال القائمین بہا علی سمت واحد أو یراد بہا سد الخلل الذی فی الصف إلخ
(فتح الباری لابن حجر، /207، باب تسویة الصفوف عند الإقامة وبعدہا، ط:المملکة العربیة السعودیة)....
(قولہ باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف)
المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ وقد ورد الأمر بسد خلل الصف والترغیب فیہ فی أحادیث کثیرة أجمعہا حدیث بن عمر عند أبی داود وصححہ بن خزیمة والحاکم ولفظہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولا تذروا فرجات للشیطان ومن وصل صفا وصلہ اللہ ومن قطع صفا قطعہ اللہ۔
(فتح الباری لابن حجر : باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف 2/ 211،ط: السعودیة)
واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے اور جماعت کی نماز میں اگر بتکلف کندھوں اور ٹخنوں کو ملا بھی لیا جائے تو بھی گھٹنوں کو ملا کر صف میں کھڑا ہونا تقریباً محال ہے، اسی طرح بہت زیادہ پیر کھول کر ٹخنے سے ٹخنے ملانے کی صورت میں کاندھے ملانا بھی تقریباً ناممکن ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی احادیث میں کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ صف سیدھی کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ٹخنے اور ایڑھیاں پیچھے سے برابر کرکے کھڑے ہوجائیں، صف سیدھی ہوجائے گی، ایڑھیاں برابر کرنے سے ٹخنے خود ہی تقریباً برابر ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ مونڈھا مونڈھے (کندھے) کی سیدھ میں رکھیں۔
واضح رہے کہ جماعت کی نماز میں صفوں کے درمیان اتصال سنت مؤکدہ ہے ، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، صفوں کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو، اگر مقتدی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے نہ ہوں بلکہ فاصلہ سے کھڑے ہوں تو جماعت کی فضیلت تو حاصل ہوجائے گی البتہ یہ خلافِ سنت اور مکروہ عمل ہے۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
"يقول: أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه، فقال: «أقيموا صفوفكم» ثلاثاً، «والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم» قال: فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه."
ترجمہ:
ابوالقاسم جدلی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا ”اپنی صفیں برابر کر لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔“ قسم اللہ کی! (ضرور ایسا ہو گا کہ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔“ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔
[سنن أبي داود:662]
البحرالرائق میں ہے:
"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف."
"ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامة في صف خلف صف فيه فرجة. قلت: وبالكراهة أيضا صرح الشافعية. قال السيوطي في [بسط الكف في إتمام الصف] : وهذا الفعل مفوت لفضيلة الجماعة الذي هو التضعيف لا لأصل بركة الجماعة، فتضعيفها غير بركتها، وبركتها هي عود بركة الكامل منهم على الناقص. اهـ
قوله وهذا الفعل مفوت إلخ) هذا مذهب الشافعية لأن شرط فضيلة الجماعة عندهم أن تؤدى بلا كراهة، وعندنا ينال التضعيف ويلزمه مقتضى الكراهة أو الحرمة كما لو صلاها في أرض مغصوبة رحمتي ونحوه في ط"
(كتاب الصلاة،باب الإمامة،1/ 570،ط:سعید )
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:
"فيأمرهم الإمام بذلك وقال صلى الله عليه وسلم: "استووا تستوي قلوبكم وتماسوا تراحموا" وقال صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم.
قوله: "فيأمرهم الإمام بذلك" تفريع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضا بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويستووا مناكبهم وصدورهم كما في الدر عن الشمني وفي الفتح ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه."
(ص: 306,ط: دار الكتب العلمية بيروت)
ـ’’اس باب میں مختلف الفاظ سے روایات آئی ہیں، بخاری کے الفاظ تو سوال ہی میں مذکور ہیں اور سنن ابو داؤد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ آئے ہیں: قال فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و رکبتہ برکبة صاحبہ و کعبہ بکعبہ۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: قاربو بینہما و حاذوا بالاعناق۔اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: حاذوا بالمناکب۔ اور یہ امر یقنی ہے کہ ان سب عبارات کا معبر عنہ ایک ہی ہے، اسی کو کہیں الزاق سے تعبیر کردیا، کہیں مقاربت سے کہیں محاذاۃ سے، اس سے معلوم ہوا کہ محاذاۃ و مقاربت ہی کو الزاق کہہ دیا ہے مبالغۃ فی المقاربۃ۔ دوسرے اگر الزاق کے معنی حقیقی لئے جاویں تو الزاق المناکب اور الزاق الکعب اس صورت متعارفہ معتادہ میں مجتمع نہیں ہوسکتے کہ مصلی اپنے قدمین میں خوب انفراج رکھے، کیونکہ اس میں الزاق الکعاب تو ہوگا لیکن الزاق المناکب نہ ہوگا ، جیسا کہ ظاہر اور مشاہد ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ الزاق الکعب کو مقصود سمجھا جاوے اور الزاق المناکب کی رعایت نہ کی جاوے، کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ الزاق المناکب اصل ہے اور الزاق الکعاب غیر مقصود۔ تیسرے الزاق الکعاب کی جو صورت بھی لی جاوے الزاق الرکب کے ساتھ اس کے تحقیق کی کوئی صورت نہیں، کیونکہ رکبہ بمعنی زانو کا الزاق دوسرے رکبہ سے جب ہوسکتا ہے کہ دو شخص باہم متقابل اور متواجہ ہوں جیسا کہ ظاہر ہے، البتہ محاذاۃ رکب میں ہر حال میں ممکن ہے ان وجوہ سے ثابت ہوا کہ جس الزاق کا دعوی کیا جاتا ہے، حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی بلکہ فرجات چھوڑنے کی ممانعت سے اس کی نفی ہوتی ہے۔ واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم ۔‘‘
(امداد الفتاوی: ج:1 ص:326 ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )
فتاوی محمودیہ میں ہے:
علامہ شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں تصریح کی ہے کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھے، اس سے معلوم ہوا کہ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں ملایا جائے گا، علاوہ ازیں ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر نماز پڑھنا بہت دشوار ہے اور قعدہ تو اس حالت میں ممکن بھی نہیں، البتہ ایک نمازی دوسرے نمازی کے ساتھ صف میں کھڑا ہو کر اپنا ٹخنہ دوسرے کے ساتھ سیدھ میں رکھے، آگے پیچھے نہ رکھے، تاکہ صف سیدھی رہے، یہی حکم حدیث وفقہ سے ثابت ہے، یہ نہیں کہ ایک نمازی ٹخنہ کو دوسرے نمازی کے ٹخنہ سے ملالے ۔