Wednesday, 27 September 2023

وصالِ پیغمبر اسلام ﷺ کی پیشگوئی اور اس سے حاصل نصیحتیں

 وفاتِ پیغمبر ﷺ کی سچی پیشگوئی اور حاصل نصیحتیں»

القرآن:

اور محمد ﷺ ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 144]


القرآن:

اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ (18) چنانچہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں ؟

[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 34]

تفسیر:

(18) سورة طور : آیت#30 میں مذکور ہے کہ کفار مکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے انتقال کے موقع پر وہ خوشی منائیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اول تو موت ہر شخص کو آنی ہے، اور کیا خود یہ خوشی منانے والے موت سے بچ جائیں گے۔


القرآن:

(اے پیغمبر) موت تمہیں بھی آنی ہے اور موت انہیں بھی آنی ہے۔ پھر تم سب قیامت کے دن اپنے پروردگار کے پاس اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔

[سورۃ نمبر 39 الزمر،آیت نمبر 30-31]



[سورۃ نمبر 39 الزمر،آیت نمبر 30-31]











م

م

[سورۃ نمبر 39 الزمر،آیت نمبر 30-31]




Monday, 17 July 2023

حدیثِ متواتر اور احادیث متواتر

حدیثِ متواتر

حدیثِ مُتَواتِر:-
متواتر وہ حدیث ہے جس کو ابتداء سے لے کر آخر سند تک ہر زمانہ میں اتنے لوگوں نے(مسلسل) بیان کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃّ محال نظر آئے، اور سند کی انتہا ایسی چیز پر ہو جس کا تعلق محسوسات سے ہو، نظر وفکر سے علم یقینی حاصل نہیں ہوتا ہے، یہ(یقین)حدیثِ متواتر سے حاصل ہوتا ہے، مثلاً:- قرآن پاک بھی تواتر سے امت تک پہنچا ہے اور علمِ یقین کا درجہ رکھتا ہے۔

Sunday, 16 July 2023

یہود کی تاریخ، فطرت خصلتیں، عزائم منصوبے اور فساد و تباہ کاریاں


القرآن:

اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔ (77)

[سورة البقرة:120]

(77) اگرچہ حضور رسالت مآب ﷺ سے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ آپ کفار کی خواہشات کے پیچھے چلیں، لیکن اس آیت نے فرض محال کے طور پر یہ بات کہہ کر اصول یہ بتلادیا کہ اللہ کے نزدیک شخصیات کی اہمیت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ اللہ کی اطاعت کی وجہ سے ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ ساری مخلوقات میں سب سے افضل اسی بنا پر ہیں کہ اللہ کے سب سے زیادہ فرمانبردار ہیں۔











یہود ونصاریٰ تاریخ کے آئینہ میں
(امام  ابن قیم الجوزیہ)
دنیا میں پائے جانے والے دو مذاہب یہود اور نصاریٰ نے متعدد اسباب کی بنا پر اسلام کے خلاف نفرت انگیز مہم کا آغاز کیا اس کے لیے جہاں انھوں نے نبی کریم ﷺ اور ان کے اتباع و تابعین پر رقیق الزامات لگائے بلکہ انھوں نے اسلام کے خلاف جنگوں کا آغاز کر دیا۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے مجدد اور اپنے استاد امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی ترجمان مانے جاتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انھوں نے یہود و نصاریٰ کے تمام اعتراضات کے مسکت جوابات دئیے ہیں۔ انھوں نے شریعت اسلامیہ کے ان بنیادی مسائل پر تحقیقی انداز میں روشنی ڈالی ہے جن کو ہمارے دینی حلقے فراموش کر چکے ہیں۔ امام صاحب نے عیسائیوں اور یہودیوں کی کتب سماویہ میں باطل تحریفات کا پردہ ایسے دلنشیں انداز میں فاش کیا ہے کہ کتاب پڑھ کر جہاں اسلام کی حقانیت کا نقش دل پر جم جاتا ہے وہیں انھوں یہود و نصاری کی اسلام دشمنی اور دین یہود کی ضلالت پر مہر ثبت کر دی ہے۔



Thursday, 13 July 2023

مسئلہ باغ فدک


شیعہ کتاب سے مسئلہ حل:

ترجمہ:

یہ سن کر سیدہ فاطمہ رضہ نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا۔ابو بکر رضہ نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی رضہ اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے۔اور اس امر کی گواہی دی۔اتنے میں حضرت عمر رضہ اور عبدالرحمن بن عوف رضہ بھی آگئے ۔ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے۔ابوبکر رضہ نے کہا کہ اے بنت پیغمبر تو نے بھی سچ کہا اے علی رضہ تو بھی سچے ہو۔ اس لیے کہ اے فاطمہ رضہ تیرے لیے وہی کچھ ہے۔ جو آپ کے والد کا تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے۔اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے۔تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے۔تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر رضہ سے راضی ہوگئیں ۔اور اسی بات پر ابوبکر صدیق رضہ سے عہد لیا۔ابوبکر رضہ فدک کا غلہ وصول کرتے اور اھل بیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے۔ان کے بعد حضرت عمر رضہ بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے،اس کے بعد عثمان رضہ بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے، اس کے بعد علی رضہ بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے۔

[شیعہ کتاب:حجج النھج صفحہ ۲۶۶]



ترجمہ:

جب امر خلافت علی رضہ کے سپرد ہوا تو علی رضہ شیرخدا سے فدک کو اھل بیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی رضہ شیرخدا نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر نے نہی کیا۔

[شیعہ کتاب:حجج نھج صفحہ ۲۷۷]

[شیعہ کتاب:شرح نھج البلاغہ ابن حدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲]

[شیعہ کتاب: الشافی فی الامامت صفحہ ۷۶]







Wednesday, 12 July 2023

نبوت-رحمت ، خلافت-امامت، سلطنت-ملوکیت، امارت-ولایت

خلافت کا لفظی معنٰی ’نیابت‘ ہے.

اللہ پاک کا فرمان ہے: 

”إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً

ترجمہ:

میں زمین میں ایک خلیفہ(نائب) بنانے والا ہوں۔

[سورۃ البقرۃ:30]

نماز میں صف بندی کی ترتیب اور پاؤں ٹخنے کندھے ملانے کا مطلب

صفیں برابر کرنے کا بیان:
‏‏‏‏‏‏سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ...مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ»
(وفي رواية)
«...من تمام الصلاة»
ترجمہ:
صفیں درست کرو، بے شک صفوں کی درستی...
اقامت صلوٰۃ میں سے ہے۔
[صحيح البخاري:433]
(دوسری روایت میں ہے)
نماز کے پورا کرنے میں سے ہے۔
[صحيح مسلم:433(975)، سنن أبي داود:668، سنن ابن ماجه:993]



صف محاذاۃ (سیدھی-برابری) میں رکھنا ہے:
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیزہ یا تیر کی طرح صف سیدھی کرتے تھے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا دیکھا تو فرمایا:
”اپنی صفیں برابر کرو، یا اللہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا“۔
[صحيح البخاري:717، صحيح مسلم:978+979، جامع الترمذي:227، سنن أبي داود:663+662، سنن النسائى الصغرى:811، سنن ابن ماجه:994]




‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رُصُّوا صُفُوفَكُمْ وَقَارِبُوا بَيْنَهَا وَحَاذُوا بِالْأَعْنَاقِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرَى الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ كَأَنَّهَا الْحَذَفُ.
ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو، اور ایک صف دوسری صف سے نزدیک رکھو، اور گردنوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں وہ صفوں کے بیچ میں سے گھس آتا ہے، گویا وہ بکری کا بچہ ہے۔
[سنن أبي داود:667، سنن النسائى الصغرى:816]




عن انس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «رصوا صفوفكم وقاربوا بينها وحاذوا بالاعناق».
ترجمہ:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”اپنی صفوں کو مضبوطی سے ملاؤ اور ان کے درمیان فاصلہ کم رکھو اور اپنی گردنوں کو ایک محاذ پر (یعنی برابر برابر) رکھو۔“
[صحیح ابن حبان (الإحسان):2163، صحیح ابن خزيمة:1545]

نماز میں ٹخنے کا ٹخنے سے - کندھے کا کندھا سے ملانے کا حکم:

واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے۔[ابوداؤد:662]۔ اور ان احادیث میں  کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے، حقیقی  معنیٰ مراد نہیں ہے، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، ٹخنوں کی سیدھ میں ٹخنے رکھیں، صفوں  کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو۔


نماز میں پاؤں ملانے کا حکم:

نماز میں کھڑے ہوتے وقت پاؤں سے پاؤں ملانا ضروری نہیں ہے؛ ہاں صفیں اچھی طرح سیدھی کرنی چاہیے بایں طور کہ درمیان میں کوئی خالی جگہ نہ رہے، نیز ایسا بھی نہ ہو کہ کوئی آگے کوئی پیچھے کھڑا ہو ؛ بلکہ سارے لوگ اعتدال کے ساتھ خالی جگہوں کو پُر کرتے ہوئے صف میں کھڑے ہوں، جن احادیث میں تسویة الصفوف پاؤں سے پاؤں ملانے کی بات آئی ہے، اس سے یہی مراد ہے، حافظ ابن حجر نے یہ صراحت کی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ مقتدی حضرات حقیقتًا پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑے ہوں۔

احادیث میں ٹخنے سے ٹخنے، کندھے سی کندھے ملانا اپنی حقیقت پر محمول نہیں ہے۔

شارحِ بخاری علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعہ اپنی مشہور کتاب فتح الباری میں فرماتے ہیں:
والمراد بذالک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ
(فتح الباری: باب الأذان، رقم الحدیث، ص: ۷۲۵)

حدیث شریف کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف میں صف سیدھی کرنے اور خلل کو بند کرنے سے متعلق کئی الفاظ وارد ہوئے ہیں، ان سب کو ملاحظہ فرمالیں۔

نیز اعلاء السنن میں (باب سنة تسویة الصف) اور فیض الباری شرح صحیح البخاری میں (باب الزاق المنکب بالمنکب (فی باب الاذان) کو بھی مطالعہ کرلیں۔

حوالہ
والمراد بتسویة الصفوف اعتدال القائمین بہا علی سمت واحد أو یراد بہا سد الخلل الذی فی الصف إلخ 
(فتح الباری لابن حجر، /207، باب تسویة الصفوف عند الإقامة وبعدہا، ط:المملکة العربیة السعودیة)....
(قولہ باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف)
المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ وقد ورد الأمر بسد خلل الصف والترغیب فیہ فی أحادیث کثیرة أجمعہا حدیث بن عمر عند أبی داود وصححہ بن خزیمة والحاکم ولفظہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولا تذروا فرجات للشیطان ومن وصل صفا وصلہ اللہ ومن قطع صفا قطعہ اللہ۔
(فتح الباری لابن حجر : باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف 2/ 211،ط: السعودیة)




واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے اور جماعت کی نماز میں اگر بتکلف کندھوں اور ٹخنوں کو ملا بھی لیا جائے تو بھی گھٹنوں کو ملا کر صف میں کھڑا ہونا تقریباً محال ہے،  اسی طرح بہت زیادہ پیر کھول کر ٹخنے سے ٹخنے ملانے کی صورت میں کاندھے ملانا بھی تقریباً ناممکن ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی احادیث میں کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ صف سیدھی کرنے کا طریقہ  یہ ہے کہ  ٹخنے  اور ایڑھیاں پیچھے سے برابر کرکے کھڑے ہوجائیں،  صف سیدھی ہوجائے گی، ایڑھیاں برابر کرنے سے ٹخنے خود ہی تقریباً برابر ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ مونڈھا مونڈھے (کندھے) کی سیدھ میں رکھیں۔



واضح رہے کہ جماعت کی نماز میں صفوں کے درمیان اتصال سنت مؤکدہ ہے ، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، صفوں  کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو، اگر مقتدی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے نہ ہوں بلکہ فاصلہ سے کھڑے ہوں تو جماعت کی فضیلت تو حاصل ہوجائے گی البتہ یہ خلافِ سنت اور مکروہ عمل ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"يقول: أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه، فقال: «أقيموا صفوفكم» ثلاثاً، «والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم» قال: فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه."
ترجمہ:
ابوالقاسم جدلی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا ”اپنی صفیں برابر کر لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔“ قسم اللہ کی! (ضرور ایسا ہو گا کہ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔“ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔
[سنن أبي داود:662]

البحرالرائق میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ‌ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف."

(کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ ج:1،ص:375 ط:دارالکتاب الاسلامی)

وفی حاشية ابن عابدين :

"ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامة في صف خلف صف فيه فرجة. قلت: وبالكراهة أيضا صرح الشافعية. قال السيوطي في [بسط الكف في إتمام الصف] : وهذا الفعل مفوت لفضيلة الجماعة الذي هو التضعيف لا لأصل بركة الجماعة، فتضعيفها غير بركتها، وبركتها هي عود بركة الكامل منهم على الناقص. اهـ

قوله وهذا الفعل مفوت إلخ) هذا مذهب الشافعية لأن شرط فضيلة الجماعة عندهم أن تؤدى بلا كراهة، وعندنا ينال التضعيف ويلزمه مقتضى الكراهة أو الحرمة كما لو صلاها في أرض مغصوبة رحمتي ونحوه في ط"

 (‌‌‌‌كتاب الصلاة،باب الإمامة،1/ 570،ط:سعید )

وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:  


"فيأمرهم الإمام بذلك وقال صلى الله عليه وسلم: "استووا تستوي قلوبكم وتماسوا تراحموا" وقال صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم.


قوله: "فيأمرهم الإمام بذلك" تفريع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضا بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويستووا مناكبهم وصدورهم كما في الدر عن الشمني وفي الفتح ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه."

(ص: 306,ط: دار الكتب العلمية بيروت)


ـ’’اس باب میں مختلف الفاظ سے روایات آئی ہیں، بخاری کے الفاظ تو سوال ہی میں مذکور ہیں اور سنن ابو داؤد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ آئے ہیں: قال فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و رکبتہ برکبة صاحبہ و کعبہ بکعبہ۔ اور حضرت انس رضی  اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: قاربو بینہما و حاذوا بالاعناق۔اور عبداللہ  بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: حاذوا بالمناکب۔ اور یہ امر یقنی ہے کہ ان سب عبارات کا معبر عنہ ایک ہی ہے، اسی کو کہیں الزاق سے تعبیر کردیا، کہیں مقاربت سے کہیں محاذاۃ سے، اس سے معلوم ہوا کہ محاذاۃ و مقاربت ہی کو الزاق  کہہ دیا ہے مبالغۃ فی المقاربۃ۔ دوسرے اگر الزاق کے معنی حقیقی  لئے جاویں تو الزاق المناکب اور الزاق الکعب  اس صورت متعارفہ معتادہ میں مجتمع نہیں ہوسکتے کہ مصلی اپنے قدمین میں خوب انفراج رکھے، کیونکہ اس میں الزاق الکعاب تو ہوگا لیکن الزاق  المناکب نہ ہوگا ، جیسا کہ ظاہر اور مشاہد ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ الزاق الکعب کو مقصود سمجھا جاوے اور الزاق المناکب کی رعایت نہ کی جاوے، کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ الزاق المناکب اصل ہے اور الزاق الکعاب  غیر مقصود۔ تیسرے الزاق الکعاب کی جو صورت  بھی  لی جاوے الزاق الرکب کے ساتھ اس کے تحقیق کی کوئی صورت نہیں، کیونکہ رکبہ بمعنی زانو کا الزاق دوسرے رکبہ سے جب ہوسکتا ہے کہ دو شخص باہم متقابل اور متواجہ ہوں جیسا کہ ظاہر ہے، البتہ محاذاۃ  رکب میں ہر حال میں ممکن ہے ان وجوہ سے ثابت ہوا کہ  جس الزاق کا دعوی کیا جاتا ہے، حدیث  اس پر دلالت نہیں کرتی بلکہ فرجات چھوڑنے کی ممانعت سے اس کی نفی ہوتی ہے۔ واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم ۔‘‘

(امداد الفتاوی: ج:1 ص:326 ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )


فتاوی محمودیہ میں ہے:

علامہ شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں تصریح کی ہے کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھے، اس سے معلوم ہوا کہ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں ملایا جائے گا، علاوہ ازیں   ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر نماز پڑھنا  بہت دشوار ہے اور قعدہ تو اس حالت میں ممکن بھی نہیں، البتہ ایک نمازی دوسرے نمازی کے ساتھ صف میں کھڑا ہو کر اپنا ٹخنہ دوسرے کے ساتھ سیدھ میں رکھے، آگے پیچھے نہ رکھے، تاکہ صف سیدھی رہے، یہی حکم حدیث وفقہ سے ثابت ہے، یہ نہیں کہ ایک نمازی ٹخنہ کو دوسرے نمازی کے ٹخنہ سے ملالے ۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

(باب صفۃ الصلاۃ ج:21 ص:508 ط:جامعہ فاروقیہ)










Tuesday, 11 July 2023

ائمہ حدیث اور ائمہ جرح وتعدیل


آنحضرت کی تعلیماتِ قدسیہ کی جاذبیت



آنحضرت   کی تعلیماتِ قدسیہ میں فطرت اور عقیدت کی وہ جاذبیت پائی گئی کہ اُن کے گرد اہلِ علم کا ایک عظیم گروہ پوری عقیدت سے حق وحفاظت کا پہرہ دینے لگا اور علوم دینی کی یہ جاذبیت دن بدن بڑھتی رہی اور ہردور میں قائم رہی کوئی دَور ایسا نہ آیا جب سنن نبوی   پر لوگ پروانہ وار نچھاور نہ ہوتے ہوں۔


خدمتِ حدیث کے مختلف دائرے



چند اہلِ علم اُٹھے اور اُنھوں نے روایت Tradition اور فنِ روایت Science of Transmissionکواپنی محنت کا موضوع بنایا اور کچھ لوگ اُس کے رجال Chain of Transmitters کی تحقیق میں لگ گئے اور ہرکھرے کھوٹے کا کھوج لگایا؛ پھرایسے اہلِ علم بھی اُٹھے جواحادیث کے معانی ومطالب کی گہرائی میں اُترے جن مسائل وحوادث میں قرآن وسنت کی صریح نص موجود نہ تھی اُن کے حکم قرآن وسنت کی روشنی میں دریافت کیئے، ان کی جزئیات قرآن وحدیث کے اُصولوں سے استنباط (استنباط، نبط سے ہے، نبط کنویں کی تہہ میں سے پانی نکالنے کو کہتے ہیں، کنواں کھودنے میں جوپانی پہلی مرتبہ نکلتا ہے اسے ماءِ مستنبط کہا جاتا ہے؛ یہاں مراد کسی بات کی تہہ تک پہنچ کراُس کی صحیح حقیقت معلوم کرلینا ہے؛ اِسی طرح فقہاءؒ کا کسی دبی بات کونکال لینا استنباط کہلاتا ہے، فقہاء کرامؒ موجدِ احکام نہیں ہوتے صرف مظہرِ احکام ہوتے ہیں کہ جوبات گہرائی میں دَبی تھی اُسے ظاہر کردیا، شریعۃ کی ایجاد پیغمبر کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ بھی اپنی طرف سے نہیں خدا کی طرف سے شریعت کی بات کہتے ہیں) کیں ان کے لیئے بھی حدیث کا وسیع علم درکار تھا اور اس بحرِناپید کنار میں کامیاب تیرنے کے بغیر کوئی ان چھپے موتیوں کونہ چن سکتا تھا، ان حضرات کی کاوش رہی کہ نہ صرف مسائل غیرمنصوصہ کا استنباط کرتے جائیں بلکہ مزید استنباط واستخراج کے لیئے قواعد بھی وضع کرتے رہیں یہ ائمہ حدیث اس پہلو سے اسلام کے مقنن Theoristقرار پائے اور غیرمجتہدین کے لیئے امام ٹھہرے؛ پھرکچھ اور محدثین اُٹھے اور جن راویوں نے احادیث روایت کی تھیں ان کی جانچ پڑتال اور جرح وتعدیل میں لگ گئے، وہ اس تحقیق میں یہاں تک آگے گئے کہ ان راویوں کی روایت اُن کے دیگر ہمعصرراویوں سے لے کر ان کی مرویات کوپرکھا کہ یہ اور کہاں کہاں نقل ہوئی ہیں، یہ حضرات اس لائن سے آگے بڑھے اور انہوں نے تحقیق وتنقید کے اس پہلو سے آنحضرت   کی تعلیمات کی خدمت اور حفاظت کی پھر کچھ ائمہ حدیث نے فنی طور پر حدیث جمع کرنے میں اپنے کمالاتِ تالیف دکھائے اور کچھ علماء حدیث نے اسماء الرجال کا فن ترتیب دے کر تاریخ شرائع میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا، یہ سب حضرات اپنے اپنے دائرۂ کار میں حدیث کی خدمت کرتے رہے اور حق یہ ہے کہ ان دوائر علم میں ہردائرہ خدمت کے اکابر اپنے اپنے موضوع کے ائمہ حدیث تھے؛ پھرجن بزرگوں نے حدیث کی شروح میں ان تمام موضوعات پر فنی گفتگو کی، وہ حضرات بھی اپنی جگہ ائمہ حدیث تھے، سطورِ ذیل میں علمِ حدیث کے کچھ انہی وفاداروں کا تذکرہ ہے جو اپنی محنتوں اور ریاضتوں سے علم حدیث کے وہ چراغ روشن کرگئے جن کی تابانی رہتی دُنیا تک طالبانِ عمل کوروشنی بخشتی رہے گی۔



Friday, 7 July 2023

احادیث غدیر خم اور اس کی حقیقت


احادیثِ غدیرِ خم:

(1)حضرت جابر بن عبدللہ ؓ کی روایت:

حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ، قَالَ: کُنَّا بِالْجُحْفَۃِ بِغَدِیرِ خُمٍّ إذْ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ۔
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم غدیر خُمّ (یعنی خُمّ نام کے تالاب) کے موقع پر حجفہ مقام میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے پھر حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: جس کا میں مولا(دوست/محبوب) ہوں، پس علی بھی اس کا مولا(دوست/محبوب) ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ» کتاب: فضائل کا بیان» باب:-حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کا بیان، حدیث نمبر: 32734]

حکم الحدیث:
حديث متواتر نصّ على تواتره عدد من الأئمة الكرام منهم الحافظ ابن حجر رحمه الله فقد قال في الفتح الباری (٧/ ٩٣)


Thursday, 6 July 2023

خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضی کے مستند فضائل ومنقبت اور سیرت


حدیث نمبر 1

عَنْ سَهْلِ بْنُ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: «لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ» فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ يَرْجُونَ أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالُوا: هُوَ يَا رَسُولَ اللهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، قَالَ فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ، فَأُتِيَ بِهِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ، وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ، حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا؟ قَالَ: «انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ، حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللهِ فِيهِ، فَوَاللهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ»

ترجمہ:

حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن ارشاد فرمایا کہ: کل میں یہ پرچم ایسے ایک شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ خیبر کو فتح کرا دے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول کا محب اور محبوب ہو گا ..... پس جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ سب امید اور تمنا رکھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ پرچم ان کو عطا فرما دیں گے ..... تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ "علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟" تو لوگوں نے عرض کیا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے (اس لئے وہ اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں) ..... آپ نے ارشاد فرمایا کہ ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجو .... چنانچہ ان کو بلا کر لایا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں اپنا آب دہن (تھوک) ڈال دیا تو وہ ایسے اچھے ہو گئے کہ گویا ان کو کوئی تکلیف تھی ہی نہیں .....ن اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے پرچم ان کو عنایت فرمایا (یہ اس کا نشان تھا کہ آج لشکر کے سپہ سالار اور قائد یہ ہوں گے) تو حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا میں خیبر والوں سے اس وقت تک جنگ کروں کہ وہ ہماری طرح ہو جائیں (یعنی اسلام قبول کر لیں) تو آپ نے فرمایا کہ تم آہستہ روی کے ساتھ جاؤ، یہاں تک کہ ان کی زمین اور ان کے علاقہ میں پہنچ جاؤ، پھر ان کو اسلام کی دعوت دو، اور ان کو بتلا دو کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق واجب ہو گا .... خدا کی قسم! یہ بات کہ تمہارے ذریعہ ان میں سے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نصیب ہو جائے تمہارے حق میں اس سے بہتر ہے کہ مال غنیمت میں سرخ اونٹ تم کو ملیں۔

[صحیح بخاری:3009+3701+4210+2942، صحیح مسلم:2406(6223)]


تشریح:

خیبر مدینہ سے ایک سو چوراسی کلو میٹر (قریباً سوا سو میل) شمال میں واقع ہے، یہ یہودیوں کی بستی تھی، یہ وہ یہودی تھے جو کسی زمانے میں شام سے نکالے گئے اور یہاں آ کر بس گئے تھے، یہ سب دولت مند اور سرمایہ دار تھے، یہاں انہوں نے بہت مضبوط قلعے بنا لئے تھے اور اس وقت کے معیار کے مطابق جن کی ساز و سامان کا اچھا ذخیرہ بھی رکھتے تھے، یہ علاقہ سرسبز و شاداب اور بہت زرخیز تھا۔ مدینہ منورہ کے قرب و جوار کے جن یہودیوں کو ان کی غداریوں اور شراتوں کی وجہ سے نکالا اور جلا وطنم کیا گیا تھا وہ بھی یہیں آ کر بس گئے تھے، یہ مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ رکھتے اور سازشیں کرتے رہتے تھے۔ مدینہ منورہ جو رسول خدا ﷺ کا دار الہجرۃ اور مسلمانوں کا دار الحکومت تھا، اس کے لئے خیبر کے یہ یہودی ایک مستقل خطرہ تھے۔ ۶؁ھ کے اواخر میں رسول اللہ ﷺ حدیبیہ سے واپس آ کر اور قریش مکہ سے مصالحبت اور دس سال کے لئے نا جنگ معاہدہ کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے، ذی الحجہ کا قریبا پورا مہینہ مدینہ ہی میں گذرا، محرم ۷؁ھ میں آپ نے خیبر کی خطرناک دشمن طاقت سے تحفظ اور مامون رہنے کے لئے صرف قریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر ساتھ لے کر خیبر کی طرف کوچ فرمایا، خیبر کے قریب پہنچ کر جس جگہ کو لشکر کے قیام کے لئے مناسب سمجھا وہاں قیام فرمایا، حسب معمول آپ ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ کہ اگر وہ فی الحال اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ تو سیاسی ماتحتی قبول کر کے جزیہ ادا کیا کریں اور اگر ان میں سے کوئی بات قبول نہ کی گئی تو ہم اللہ کے حکم کے مطابق جنگ کریں گے۔ یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کریں یا جزیہ دینا منظور کریں۔ خیبر کے یہودی سرداروں نے کسی بات کے بھی قبول کرنے سے متکبرانہ انداز میں انکار کر دیا اور جنگ لئے تیار ہو گئے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے انہوں نے متعدد قلعے بنا لئے تھے، جن میں سامان جنگ کے علاوہ کھانے پینے کی چیزوں کا بھی وافر ذخیرہ تھا، وہ مطمئن تھے کہ مسلمانوں کا لشکر کسی طرح بھی ان پر فتح نہ حاصل کر سکے گا۔ بہرحال جنگ شروع ہوئی اور کئی دن تک جاری رہی مسلمانوں نے یکے بعد دیگرے ان کے کئی قلعوں پر قبضہ کر لیا، لیکن ایک قلعہ جو بہت مضبوط اور مستحکم تھا اور اس کی حفاظت اور دفاع کا بھی غیر معمولی انتظام کیا گیا تھا بار بار کے حملوں کے باوجود وہ فتح نہ ہو سکا، تو رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ کل میں یہ پرچم اور جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کا محب اور محبوب ہو گا اور اللہ اس کے ہاتھ پر یعنی اس کے ذریعہ فتح مکمل کرا دے گا اور یہ آخری قلعہ بھی فتح ہو جائے گا اور اس طرح جنگ کا خاتمہ بالخیر ہو جائے گا پھر یہاں کے یہودی یا تو اسلام قبول کر لیں گے یا سیاسی ماتحتی قبول کر کے جزیہ دینا منظور کر لیں گے ..... حضور نے اس شخص کو نامزد نہیں فرمایا جس کو آئندہ کل پرچم دینے کا آپ کا ارادہ تھا بس یہ فرمایا کہ وہ اللہ ااور اس کے رسول کا محب اور محبوب ہو گا اور اللہ اس کے ذریعہ یہ آخری قلعہ بھی فتح کرا دے گا، بلاشبہ یہ بڑی فضیلت اور سعادت تھی اور بہت سے حضرات اس کے متمننی اور امیدوار تھے کہ کل پرچم ان کو عطا فرمایا جائے ..... حضرت علی مرتضیٰؓ اس وقت وہاں موجود نہں تھے ..... جب اگلی صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا علی بن ابی طالب کدھر ہیں؟ لوگوں نے بتلایا ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے اس لئے وہ اس وقت یہاں حاضر نہیں ہو سکے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا کسی کو بھیج کر ان کو بلواؤ، چنانچہ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس ھال میں کہ ان کی دونوں آنکھوں میں تکلیف تھی، حضور ﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈال دیا فورا تکلیف جاتی رہی اور وہ ایسے ہو گئے جیسے آنکھ میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں، اس کے بعد آپ نے پرچم (جھنڈا) ان کو عطا فرمایا، یہ اس بات کی علامت تھی کہ آج لشکر کی قیادت یہ کریں گے ..... حضرت علی مرتضیٰ نے جھنڈا ہاتھ میں لے کر حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا میں ان یہودیوں سے اس وقت تک نگ کروں کہ وہ اسلام قبول کر کے ہمارے طرح ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ ایک آدمی کو بھی ہدایت عطا فرما دے اور اس کو ایمان کی دولت حاصل ہو جائے تو یہ تمہارے واسطے اس سے بہتر ہو گا کہ تم کو غنیمت میں بہت سے سرخ اونٹ مل جائیں (اس زمانے میں سرخ اونٹ عربوں کے لئے عزیز ترین دولت تھی) حضور ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ ہماری جنگ کا مقصد دشمن پر فتح حاصل کر کے مال غنیمت سمیٹنا نہیں ہے، اصل مقصد اور نصب العین بندگانِ خداس کی ہدایت ہے، جہاد اور قتال فی سبیل اللہ میں بس یہی نصب العین پیش نظر رکھنا چاہئے اور اسی کے تقاضے کے مطابق رویہ متعین کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ صحیحین کی مندرجہ بالا حدیث کے راوی حضرت سہل بن سعد ؓ نے اس روایت میں حاضرین مجلس اور اپنے مخاطبین کی خصوصیت یا کسی دوسرے وقتی تقاضے سے جنگ خیبر کے آخری مرحلہ کا صرف اتنا ہی واقعہ بیان کیا ہے جس سے حضرت لی مرتضیٰؓ کی یہ خاص فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے محب اور محبوب ہیں ..... یہ بھی بیان نہیں فرمایا کہ جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت علی مرتضیٰ ہی کے ہاتھ پر یہودیوں کا آخری قلعہ بھی فتح ہوا اور خیبر کی فتح مکمل ہوئی۔ یہاں راقم سطور نے جنگ خیبر کے سلسلہ میں اتنا ہی لکھنا مناسب سمجھا جس سے اس کا پس منظر اور کچھ اجمالی حال بھی معلوم ہو جائے، اس غزوہ خیبر سے متعلق تفصیلات سیرت و تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس حدیث میں ضمنی طور پر حضور ﷺ کے دو معجزے بھی معلوم ہوئے ایک یہ کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کی دونوں آنکھوں میں سخت تکلیف تھی حضور ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا فوراً تکلیف دور ہو گئی اور وہ ایسے ہو گئے جیسے کوئی تکلیف تھی ہی نہیں ..... دوسرا معجزہ یہ معلوم ہوا کہ آئندہ کل فتح مکمل ہو جانے کے بارے میں حضور ﷺ نے جو پیشن گوئی فرمائی تھی وہ پوری ہوئی۔ حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت کی ہوئی اس حدیث کا خاص سبق یہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب ؓ اللہ اور اس کے رسول کے محب و محبوب ہیں اور الحمدللہ ہم اہل السنۃ والجماعۃ اور امت کے سواد اعظم کا یہی عقیدہ ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے سوا کسی دوسرے کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا محب و محبوب ہونے کی سعادت نصیب نہ ہو اور اللہ و رسول پر ایمان رکھنے والا ہر مومن صادق اپنے ایمانی درجہ کے مطابق اللہ اور اس کے رسول کا محب و محبوب ہے، سورہ آل عمران کی آیت قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ بھی اس کی دلیل اور شاہد عدل ہے۔





Thursday, 1 June 2023

ظلم کیا ہے؟ ظالم کون؟ ظلم اور ظالم کے اقسام اور احکام


ظلم کی تعریف:

ظلم کہتے ہیں ناحق کسی کے حق میں عمل دخل کرنا

یا

کسی کے حق سے زیادتی کرنا۔

[نضرۃ النعیم:10/4872]

چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ۔

[مفردات،امام راغب:1/537]















Monday, 15 May 2023

امریکی سازشی ٹولہ: رینڈ کارپوریشن کی divide & rule رپورٹ

"امریکی سازشی ٹولہ think tank رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) نے امریکی حکومت کے لیے 9/11 سے بہت پہلے جو مسلم دشمن ایجنڈہ بناکر دیا تھا، اس میں اہم ترین مسلمانوں کو اندرونی محاذ (یعنی عوام اور علماء وحکام کے درمیان آپسی لڑائی) کے فروغ کے ذریعہ کمزور کرنا بھی تھا۔"

 https://www.rand.org/pubs/monographs/MG574.html







اسلام کو بدلنے کی سازش کا ثبوت

امریکہ اسلام کو کس شکل میں ڈھالنے کا خواہاں ہے اور کن کن ذرائع، پالیسیوں اور سوچ کے ذریعے اپنے من پسند اسلام کو دنیا میں فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے، اس پر کسی سازشی تھیوری یا تجزیہ کی بجائے آئیں ذرا اُس دستاویز پر ہی نظر دوڑا لیتے ہیں جو امریکہ و یورپ کی پالیسی کا Focus ہے اور جسے امریکہ و یورپ اسلامی ممالک پر مسلط کرنے کے لیے پورے طریقے سے سرگرم ہیں۔ 

میری تو قارئین کرام کے ساتھ ساتھ سیاسی و مذہبی رہنماؤں، فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ افسروں، پارلیمنٹ کے ممبران اور حکمرانوں کے علاوہ میڈیا کے بڑوں سے بھی گزارش ہوگی کہ اس دستاویز کا ضرور مطالعہ کریں تاکہ لبرل ازم اور جدت پسندی کے اُس بخار کی وجہ کو بھی سمجھا جا سکے جو آج کل کئی دوسرے اسلامی ملکوں کے علاوہ ہمارے حاکم طبقات اور میڈیا کو بھی چڑھا ہوا ہے اور جہاں اسلام کے نفاذ اور شریعت کی بات کرنے والوں کو بنیاد پرستی اور شدت پسندی کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔

 آپ اس رپورٹ کو اس لئے بھی پڑھ کر حیران ہوں گے کہ کس طرح ایک پالیسی کے تحت مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے تاکہ امریکہ کے ورلڈ آرڈر اور مغربی تہذیب کو اسلامی ممالک میں بھی لاگو کیا جا سکے، جس کے لئے اسلام کے اصل کو بدلنا شرط ہے۔ اِس رپورٹ کو پڑھ کر اپنے اردگرد اُن چہروں کو پہچاننے کی بھی کوشش کریں جو اسلام کو امریکہ کی خواہش کے مطابق بدلنا چاہتے ہیں۔

رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) امریکہ کا ایک اہم ترین تھنک ٹینک ہے جو امریکی حکومت کے لئے پالیسیاں بناتا ہے۔ 9/11کے بعد رینڈ کارپوریشن کے نیشنل سکیورٹی ریسرچ ڈویژن نے "CIVIL DEMOCRATIC ISLAM, PARTNERS, RESOURCES AND STRATEGIES" کے عنوان سے 72صفحات پر مشتمل ایک پالیسی پیپر تیار کیا جسے انٹرنیٹ پر اس تھنک ٹینک کی ویب سائٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔

 اس پالیسی پیپر کے ابتدا ہی میں بغیر کسی لگی لپٹی کے لکھا گیا کہ امریکہ اور ماڈرن انڈسٹریل ورلڈ کو ایسی اسلامی دنیا کی ضرورت ہے جو مغربی اصولوں اور رولز کے مطابق چلے جس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں میں موجود ایسے افراد اور طبقہ کی پشت پناہی کی جائے جو مغربی جمہوریت اور جدیدیت کو ماننے والے ہوں۔

 ایسے افراد کو کیسے ڈھونڈا جائے یہ وہ سوال تھا جس پر رینڈ کارپوریشن نے مسلمانوں کو چار Categoriesمیں تقسیم کیا۔ پہلی قسم بنیادپرست (Fundamentalists) جن کے بارے میں رینڈ کارپوریشن کہتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جومغربی جمہوریت اور موجودہ مغربی اقدار اور تہذیب کو ماننے کی بجائے اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار کے نفاذ کے خواہاں ہیں۔ 

دوسری قسم قدامت پسند (Traditionalists) مسلمانوں کی ہے جو قدامت پسند معاشرہ چاہتے ہیں کیوں کہ وہ جدیدیت اور تبدیلی کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں۔ رینڈ کارپوریشن کے مطابق تیسری قسم ایسے مسلمانوں کی ہے جنہیں جدت پسند (Modernists) کا نام دیا گیا جو بین الاقوامی جدیدیت (Global Modernity) کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں اسلام کو بھی جدید بنانے کے لئے اصلاحات کے قائل ہیں۔ چوتھی قسم ہے سیکولر (Secularists) مسلمانوں کی جو اسلامی دنیا سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی مغرب کی طرح دین کو ریاست سے علیحدہ کر دیں۔

پہلی قسم کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی تھنک ٹینک کا اسٹریٹجک پیپر لکھتا ہے کہ بنیادپرست امریکہ اور مغرب کے بارے میں مخالفانہ رویہ رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے Footnotesمیں مرحوم قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کا حوالہ بنیاد پرستوں کے طور پر دیا گیا اور یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ضروری نہیں کہ Fundamentalists دہشتگردی کی بھی حمایت کرتے ہوں۔ 

اس رپورٹ نے امریکی حکمرانوں کو تجویز دی کہ بنیاد پرست مسلمانوں کی حمایت کوئی آپشن نہیں۔ قدامت پسند مسلمان رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ اعتدال پسند ہوتے ہیں لیکن ان میں بہت سے لوگ بنیادپرستوں کے قریب ہیں۔ 

امریکی پالیسی رپورٹ کے مطابق اعتدال پسندوں میں یہ خرابی ہے کہ وہ دل سے جدت پسندی کے کلچر اور مغربی ویلیوز کو تسلیم نہیں کرتے۔ جدت پسنداور سیکولر مسلمانوں کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مغربی اقدار اور پالیسیوں کے قریب ترین ہیں۔ لیکن، رینڈ پالیسی رپورٹ کے مطابق، یہ دونوں طبقے (Modernists and Secularists) مسلمانوں میں کمزور ہیں، ان کو زیادہ حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ان کے پاس مالی وسائل اور موثر انفراسٹرکچر موجود ہے۔

پالیسی رپورٹ نے اسلامی دنیا میں مغربی جمہوریت، جدت پسندی اور ورلڈ آرڈر کے فروغ اور نفاذ کے لئے کئی تجاویز دیں اور کہا کہ امریکہ اور مغرب کو بڑی احتیاط کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسلامی ممالک اور معاشروں میں کن افراد، کیسی قوتوں اور کیسے رجحانات کو مضبوط بنانے میں مدد دینی ہے تاکہ مقررہ اہداف حاصل ہو سکیں۔

ان اہداف کے حصول کے لئے امریکہ و یورپ کو پالیسی دی گئی کہ وہ جدت پسندوں (Modernists) کی حمایت کریں، اس طبقہ کے کام کی اشاعت اور ڈسٹری بیوشن میں مالی مدد کریں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ عوام الناس اور نوجوانوں کے لئے لکھیں، ایسے جدت پسند نظریات کو اسلامی تعلیمی نصاب میں شامل کریں، جدت پسندوں کو پبلک پلیٹ فارم مہیا کریں،بنیادپرست اور قدامت پرست مسلمانوں کے برعکس جدت پسندوں کی اسلامی معاملات پر تشریحات، رائے اور فیصلوں کو میڈیا، انٹر نیٹ، اسکولوں کالجوں اور دوسرے ذرائع سے عام کریں، سیکولرازم اور جدت پسندی کو مسلمان نوجوانوں کے سامنے متبادل کلچر کے طور پر پیش کریں، مسلمان نوجوانوں کو اسلام کے علاوہ دوسرے کلچرز کی تاریخ پڑھائیں، سول سوسائٹی کو مضبوط کریں۔

 اس کے ساتھ ساتھ اس پالیسی میں امریکہ و یورپ کو یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ قدامت پسندوں کو بنیادپرستوں کے خلاف سپورٹ کریں، ان دونوں طبقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں، پوری کوشش کی جائے کہ بنیاد پرست مسلمان اور قدامت پرست آپس میں اتحاد نہ قائم کر سکیں، 

قدامت پسندوں کی دہشت گردی کے خلاف بیانات کو خوب اجاگر کریں، بنیاد پرستوں کو اکیلا کرنے کے لئے کوشش کریں کہ قدامت پسند اور جدت پسند آپس میں تعاون کریں، جہاں ممکن ہو قدامت پسندوں کی تربیت کریں تا کہ وہ بنیاد پرستوں کے مقابلہ میں بہتر مکالمہ کر سکیں، بنیاد پرستوں کی اسلام کے متعلق سوچ کو چیلنج کریں، بنیاد پرست طبقوں کے غیرقانونی گروہوں اور واقعات سے تعلق کو سامنے لائیں، عوام کو بتائیں کہ بنیاد پرست حکمرانی کر سکتے اور نہ اپنے لوگوں کو ترقی دلوا سکتے ہیں، بنیاد پرستوں میں موجود شدت پسندوں کی دہشتگردی کو بزدلی سے جوڑیں۔

 اس پالیسی رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ بنیاد پرستوں کے درمیان آپس کے اختلافات کی حوصلہ افزائی کریں۔ بنیاد پرستوں کو مشترکہ دشمن کے طور پر لیا جائے۔ رینڈ کارپوریشن نے اپنی پالیسی رپورٹ میں امریکہ و یورپ کو یہ بھی تجویز دی کہ اس رائے کی حمایت کی جائے کہ ریاست اور مذہب کو جدا کیا جائے اور اسے اسلامی طور پر بھی صحیح ثابت کیا جائے اور یہ بھی مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام کو ریاست سے جدا کرنے سے اُن کا ایمان خطرے میں نہیں پڑے گا بلکہ مزید مضبوط ہو گا‘‘۔

 https://www.rand.org/pubs/monographs/MG574.html







القرآن:

کافر لوگ خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے، یہ نہیں چاہتے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے کوئی بھلائی تم پر نازل ہو، حالانکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص فرما لیتا ہے۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 105]





القرآن:
اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو رازدار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ (عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتادی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 118]

القرآن:
یہ لوگ چاہتے یہ ہیں کہ جس طرح انہوں نے کفر کو اپنا لیا ہے، اسی طرح تم بھی کافر بن کر سب برابر ہوجاؤ،۔ لہذا (اے مسلمانو) تم ان میں سے کسی کو اس وقت تک دوست نہ بناؤ جب تک وہ اللہ کے راستے میں ہجرت نہ کرلے۔ چنانچہ اگر وہ (ہجرت سے) اعراض کریں تو ان کو پکڑو، اور جہاں بھی انہیں پاؤ، انہیں قتل کردو، اور ان میں سے کسی کو نہ اپنا دوست بناؤ، نہ مددگار۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 89]


القرآن:
اگر(اے مسلمانو!) تم ان(کافروں) کے ہاتھ آجاؤ تو وہ تمہارے دشمن بن جائیں گے اور اپنے ہاتھ اور زبانیں پھیلا پھیلا کر تمہارے ساتھ برائی کریں گے، اور ان کی خواہش یہ ہے کہ تم کافر بن جاؤ۔
[سورۃ نمبر 60 الممتحنة، آیت نمبر 2]


القرآن:
لہذا تم ان کی باتوں میں نہ آنا جو (تمہیں) جھٹلا رہے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ تم ڈھیلے پڑجاؤ تو یہ بھی ڈھیلے پڑجائیں۔
[سورۃ نمبر 68 القلم، آیت نمبر 9]
تفسیر:
کافروں کی طرف سے کئی بار اس قسم کی تجویزیں پیش کی گئی تھیں کہ اگر آنحضرت ﷺ اپنے فرائض تبلیغ کی ادائیگی میں کچھ نرمی کا مظاہرہ فرمائیں اور ہمارے بتوں کو باطل نہ کہیں تو ہم بھی آپ کو ستانا چھوڑ دیں گے۔ یہ ان کی اس تجویز کی طرف اشارہ ہے۔