یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Monday, 17 July 2023
حدیثِ متواتر اور احادیث متواتر
Sunday, 16 July 2023
یہود کی تاریخ، فطرت خصلتیں، عزائم منصوبے اور فساد و تباہ کاریاں
القرآن:
اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔ (77)
[سورة البقرة:120]
(77) اگرچہ حضور رسالت مآب ﷺ سے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ آپ کفار کی خواہشات کے پیچھے چلیں، لیکن اس آیت نے فرض محال کے طور پر یہ بات کہہ کر اصول یہ بتلادیا کہ اللہ کے نزدیک شخصیات کی اہمیت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ اللہ کی اطاعت کی وجہ سے ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ ساری مخلوقات میں سب سے افضل اسی بنا پر ہیں کہ اللہ کے سب سے زیادہ فرمانبردار ہیں۔
Thursday, 13 July 2023
مسئلہ باغ فدک
شیعہ کتاب سے مسئلہ حل:
ترجمہ:
یہ سن کر سیدہ فاطمہ رضہ نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا۔ابو بکر رضہ نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی رضہ اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے۔اور اس امر کی گواہی دی۔اتنے میں حضرت عمر رضہ اور عبدالرحمن بن عوف رضہ بھی آگئے ۔ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے۔ابوبکر رضہ نے کہا کہ اے بنت پیغمبر تو نے بھی سچ کہا اے علی رضہ تو بھی سچے ہو۔ اس لیے کہ اے فاطمہ رضہ تیرے لیے وہی کچھ ہے۔ جو آپ کے والد کا تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے۔اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے۔تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے۔تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر رضہ سے راضی ہوگئیں ۔اور اسی بات پر ابوبکر صدیق رضہ سے عہد لیا۔ابوبکر رضہ فدک کا غلہ وصول کرتے اور اھل بیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے۔ان کے بعد حضرت عمر رضہ بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے،اس کے بعد عثمان رضہ بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے، اس کے بعد علی رضہ بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے۔
[شیعہ کتاب:حجج النھج صفحہ ۲۶۶]
ترجمہ:
جب امر خلافت علی رضہ کے سپرد ہوا تو علی رضہ شیرخدا سے فدک کو اھل بیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی رضہ شیرخدا نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر نے نہی کیا۔
[شیعہ کتاب:حجج نھج صفحہ ۲۷۷]
[شیعہ کتاب:شرح نھج البلاغہ ابن حدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲]
[شیعہ کتاب: الشافی فی الامامت صفحہ ۷۶]
Wednesday, 12 July 2023
نبوت-رحمت ، خلافت-امامت، سلطنت-ملوکیت، امارت-ولایت
خلافت کا لفظی معنٰی ’نیابت‘ ہے.
اللہ پاک کا فرمان ہے:
”إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً“
ترجمہ:
میں زمین میں ایک خلیفہ(نائب) بنانے والا ہوں۔
[سورۃ البقرۃ:30]
نماز میں صف بندی کی ترتیب اور پاؤں ٹخنے کندھے ملانے کا مطلب


نماز میں پاؤں ملانے کا حکم:
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:
"فيأمرهم الإمام بذلك وقال صلى الله عليه وسلم: "استووا تستوي قلوبكم وتماسوا تراحموا" وقال صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم.
قوله: "فيأمرهم الإمام بذلك" تفريع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضا بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويستووا مناكبهم وصدورهم كما في الدر عن الشمني وفي الفتح ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه."
(ص: 306,ط: دار الكتب العلمية بيروت)
ـ’’اس باب میں مختلف الفاظ سے روایات آئی ہیں، بخاری کے الفاظ تو سوال ہی میں مذکور ہیں اور سنن ابو داؤد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ آئے ہیں: قال فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و رکبتہ برکبة صاحبہ و کعبہ بکعبہ۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: قاربو بینہما و حاذوا بالاعناق۔اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: حاذوا بالمناکب۔ اور یہ امر یقنی ہے کہ ان سب عبارات کا معبر عنہ ایک ہی ہے، اسی کو کہیں الزاق سے تعبیر کردیا، کہیں مقاربت سے کہیں محاذاۃ سے، اس سے معلوم ہوا کہ محاذاۃ و مقاربت ہی کو الزاق کہہ دیا ہے مبالغۃ فی المقاربۃ۔ دوسرے اگر الزاق کے معنی حقیقی لئے جاویں تو الزاق المناکب اور الزاق الکعب اس صورت متعارفہ معتادہ میں مجتمع نہیں ہوسکتے کہ مصلی اپنے قدمین میں خوب انفراج رکھے، کیونکہ اس میں الزاق الکعاب تو ہوگا لیکن الزاق المناکب نہ ہوگا ، جیسا کہ ظاہر اور مشاہد ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ الزاق الکعب کو مقصود سمجھا جاوے اور الزاق المناکب کی رعایت نہ کی جاوے، کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ الزاق المناکب اصل ہے اور الزاق الکعاب غیر مقصود۔ تیسرے الزاق الکعاب کی جو صورت بھی لی جاوے الزاق الرکب کے ساتھ اس کے تحقیق کی کوئی صورت نہیں، کیونکہ رکبہ بمعنی زانو کا الزاق دوسرے رکبہ سے جب ہوسکتا ہے کہ دو شخص باہم متقابل اور متواجہ ہوں جیسا کہ ظاہر ہے، البتہ محاذاۃ رکب میں ہر حال میں ممکن ہے ان وجوہ سے ثابت ہوا کہ جس الزاق کا دعوی کیا جاتا ہے، حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی بلکہ فرجات چھوڑنے کی ممانعت سے اس کی نفی ہوتی ہے۔ واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم ۔‘‘
(امداد الفتاوی: ج:1 ص:326 ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )
فتاوی محمودیہ میں ہے:
علامہ شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں تصریح کی ہے کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھے، اس سے معلوم ہوا کہ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں ملایا جائے گا، علاوہ ازیں ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر نماز پڑھنا بہت دشوار ہے اور قعدہ تو اس حالت میں ممکن بھی نہیں، البتہ ایک نمازی دوسرے نمازی کے ساتھ صف میں کھڑا ہو کر اپنا ٹخنہ دوسرے کے ساتھ سیدھ میں رکھے، آگے پیچھے نہ رکھے، تاکہ صف سیدھی رہے، یہی حکم حدیث وفقہ سے ثابت ہے، یہ نہیں کہ ایک نمازی ٹخنہ کو دوسرے نمازی کے ٹخنہ سے ملالے ۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
(باب صفۃ الصلاۃ ج:21 ص:508 ط:جامعہ فاروقیہ)

Tuesday, 11 July 2023
ائمہ حدیث اور ائمہ جرح وتعدیل
آنحضرت کی تعلیماتِ قدسیہ کی جاذبیت
خدمتِ حدیث کے مختلف دائرے
Friday, 7 July 2023
احادیث غدیر خم اور اس کی حقیقت
Thursday, 6 July 2023
خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضی کے مستند فضائل ومنقبت اور سیرت
حدیث نمبر 1
عَنْ سَهْلِ بْنُ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: «لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ» فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ يَرْجُونَ أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالُوا: هُوَ يَا رَسُولَ اللهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، قَالَ فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ، فَأُتِيَ بِهِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ، وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ، حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا؟ قَالَ: «انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ، حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللهِ فِيهِ، فَوَاللهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ»
ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن ارشاد فرمایا کہ: کل میں یہ پرچم ایسے ایک شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ خیبر کو فتح کرا دے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول کا محب اور محبوب ہو گا ..... پس جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ سب امید اور تمنا رکھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ پرچم ان کو عطا فرما دیں گے ..... تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ "علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟" تو لوگوں نے عرض کیا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے (اس لئے وہ اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں) ..... آپ نے ارشاد فرمایا کہ ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجو .... چنانچہ ان کو بلا کر لایا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں اپنا آب دہن (تھوک) ڈال دیا تو وہ ایسے اچھے ہو گئے کہ گویا ان کو کوئی تکلیف تھی ہی نہیں .....ن اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے پرچم ان کو عنایت فرمایا (یہ اس کا نشان تھا کہ آج لشکر کے سپہ سالار اور قائد یہ ہوں گے) تو حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا میں خیبر والوں سے اس وقت تک جنگ کروں کہ وہ ہماری طرح ہو جائیں (یعنی اسلام قبول کر لیں) تو آپ نے فرمایا کہ تم آہستہ روی کے ساتھ جاؤ، یہاں تک کہ ان کی زمین اور ان کے علاقہ میں پہنچ جاؤ، پھر ان کو اسلام کی دعوت دو، اور ان کو بتلا دو کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق واجب ہو گا .... خدا کی قسم! یہ بات کہ تمہارے ذریعہ ان میں سے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نصیب ہو جائے تمہارے حق میں اس سے بہتر ہے کہ مال غنیمت میں سرخ اونٹ تم کو ملیں۔
[صحیح بخاری:3009+3701+4210+2942، صحیح مسلم:2406(6223)]
تشریح:
خیبر مدینہ سے ایک سو چوراسی کلو میٹر (قریباً سوا سو میل) شمال میں واقع ہے، یہ یہودیوں کی بستی تھی، یہ وہ یہودی تھے جو کسی زمانے میں شام سے نکالے گئے اور یہاں آ کر بس گئے تھے، یہ سب دولت مند اور سرمایہ دار تھے، یہاں انہوں نے بہت مضبوط قلعے بنا لئے تھے اور اس وقت کے معیار کے مطابق جن کی ساز و سامان کا اچھا ذخیرہ بھی رکھتے تھے، یہ علاقہ سرسبز و شاداب اور بہت زرخیز تھا۔ مدینہ منورہ کے قرب و جوار کے جن یہودیوں کو ان کی غداریوں اور شراتوں کی وجہ سے نکالا اور جلا وطنم کیا گیا تھا وہ بھی یہیں آ کر بس گئے تھے، یہ مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ رکھتے اور سازشیں کرتے رہتے تھے۔ مدینہ منورہ جو رسول خدا ﷺ کا دار الہجرۃ اور مسلمانوں کا دار الحکومت تھا، اس کے لئے خیبر کے یہ یہودی ایک مستقل خطرہ تھے۔ ۶ھ کے اواخر میں رسول اللہ ﷺ حدیبیہ سے واپس آ کر اور قریش مکہ سے مصالحبت اور دس سال کے لئے نا جنگ معاہدہ کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے، ذی الحجہ کا قریبا پورا مہینہ مدینہ ہی میں گذرا، محرم ۷ھ میں آپ نے خیبر کی خطرناک دشمن طاقت سے تحفظ اور مامون رہنے کے لئے صرف قریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر ساتھ لے کر خیبر کی طرف کوچ فرمایا، خیبر کے قریب پہنچ کر جس جگہ کو لشکر کے قیام کے لئے مناسب سمجھا وہاں قیام فرمایا، حسب معمول آپ ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ کہ اگر وہ فی الحال اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ تو سیاسی ماتحتی قبول کر کے جزیہ ادا کیا کریں اور اگر ان میں سے کوئی بات قبول نہ کی گئی تو ہم اللہ کے حکم کے مطابق جنگ کریں گے۔ یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کریں یا جزیہ دینا منظور کریں۔ خیبر کے یہودی سرداروں نے کسی بات کے بھی قبول کرنے سے متکبرانہ انداز میں انکار کر دیا اور جنگ لئے تیار ہو گئے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے انہوں نے متعدد قلعے بنا لئے تھے، جن میں سامان جنگ کے علاوہ کھانے پینے کی چیزوں کا بھی وافر ذخیرہ تھا، وہ مطمئن تھے کہ مسلمانوں کا لشکر کسی طرح بھی ان پر فتح نہ حاصل کر سکے گا۔ بہرحال جنگ شروع ہوئی اور کئی دن تک جاری رہی مسلمانوں نے یکے بعد دیگرے ان کے کئی قلعوں پر قبضہ کر لیا، لیکن ایک قلعہ جو بہت مضبوط اور مستحکم تھا اور اس کی حفاظت اور دفاع کا بھی غیر معمولی انتظام کیا گیا تھا بار بار کے حملوں کے باوجود وہ فتح نہ ہو سکا، تو رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ کل میں یہ پرچم اور جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کا محب اور محبوب ہو گا اور اللہ اس کے ہاتھ پر یعنی اس کے ذریعہ فتح مکمل کرا دے گا اور یہ آخری قلعہ بھی فتح ہو جائے گا اور اس طرح جنگ کا خاتمہ بالخیر ہو جائے گا پھر یہاں کے یہودی یا تو اسلام قبول کر لیں گے یا سیاسی ماتحتی قبول کر کے جزیہ دینا منظور کر لیں گے ..... حضور نے اس شخص کو نامزد نہیں فرمایا جس کو آئندہ کل پرچم دینے کا آپ کا ارادہ تھا بس یہ فرمایا کہ وہ اللہ ااور اس کے رسول کا محب اور محبوب ہو گا اور اللہ اس کے ذریعہ یہ آخری قلعہ بھی فتح کرا دے گا، بلاشبہ یہ بڑی فضیلت اور سعادت تھی اور بہت سے حضرات اس کے متمننی اور امیدوار تھے کہ کل پرچم ان کو عطا فرمایا جائے ..... حضرت علی مرتضیٰؓ اس وقت وہاں موجود نہں تھے ..... جب اگلی صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا علی بن ابی طالب کدھر ہیں؟ لوگوں نے بتلایا ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے اس لئے وہ اس وقت یہاں حاضر نہیں ہو سکے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا کسی کو بھیج کر ان کو بلواؤ، چنانچہ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس ھال میں کہ ان کی دونوں آنکھوں میں تکلیف تھی، حضور ﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈال دیا فورا تکلیف جاتی رہی اور وہ ایسے ہو گئے جیسے آنکھ میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں، اس کے بعد آپ نے پرچم (جھنڈا) ان کو عطا فرمایا، یہ اس بات کی علامت تھی کہ آج لشکر کی قیادت یہ کریں گے ..... حضرت علی مرتضیٰ نے جھنڈا ہاتھ میں لے کر حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا میں ان یہودیوں سے اس وقت تک نگ کروں کہ وہ اسلام قبول کر کے ہمارے طرح ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ ایک آدمی کو بھی ہدایت عطا فرما دے اور اس کو ایمان کی دولت حاصل ہو جائے تو یہ تمہارے واسطے اس سے بہتر ہو گا کہ تم کو غنیمت میں بہت سے سرخ اونٹ مل جائیں (اس زمانے میں سرخ اونٹ عربوں کے لئے عزیز ترین دولت تھی) حضور ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ ہماری جنگ کا مقصد دشمن پر فتح حاصل کر کے مال غنیمت سمیٹنا نہیں ہے، اصل مقصد اور نصب العین بندگانِ خداس کی ہدایت ہے، جہاد اور قتال فی سبیل اللہ میں بس یہی نصب العین پیش نظر رکھنا چاہئے اور اسی کے تقاضے کے مطابق رویہ متعین کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ صحیحین کی مندرجہ بالا حدیث کے راوی حضرت سہل بن سعد ؓ نے اس روایت میں حاضرین مجلس اور اپنے مخاطبین کی خصوصیت یا کسی دوسرے وقتی تقاضے سے جنگ خیبر کے آخری مرحلہ کا صرف اتنا ہی واقعہ بیان کیا ہے جس سے حضرت لی مرتضیٰؓ کی یہ خاص فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے محب اور محبوب ہیں ..... یہ بھی بیان نہیں فرمایا کہ جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت علی مرتضیٰ ہی کے ہاتھ پر یہودیوں کا آخری قلعہ بھی فتح ہوا اور خیبر کی فتح مکمل ہوئی۔ یہاں راقم سطور نے جنگ خیبر کے سلسلہ میں اتنا ہی لکھنا مناسب سمجھا جس سے اس کا پس منظر اور کچھ اجمالی حال بھی معلوم ہو جائے، اس غزوہ خیبر سے متعلق تفصیلات سیرت و تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس حدیث میں ضمنی طور پر حضور ﷺ کے دو معجزے بھی معلوم ہوئے ایک یہ کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کی دونوں آنکھوں میں سخت تکلیف تھی حضور ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا فوراً تکلیف دور ہو گئی اور وہ ایسے ہو گئے جیسے کوئی تکلیف تھی ہی نہیں ..... دوسرا معجزہ یہ معلوم ہوا کہ آئندہ کل فتح مکمل ہو جانے کے بارے میں حضور ﷺ نے جو پیشن گوئی فرمائی تھی وہ پوری ہوئی۔ حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت کی ہوئی اس حدیث کا خاص سبق یہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب ؓ اللہ اور اس کے رسول کے محب و محبوب ہیں اور الحمدللہ ہم اہل السنۃ والجماعۃ اور امت کے سواد اعظم کا یہی عقیدہ ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے سوا کسی دوسرے کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا محب و محبوب ہونے کی سعادت نصیب نہ ہو اور اللہ و رسول پر ایمان رکھنے والا ہر مومن صادق اپنے ایمانی درجہ کے مطابق اللہ اور اس کے رسول کا محب و محبوب ہے، سورہ آل عمران کی آیت قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ بھی اس کی دلیل اور شاہد عدل ہے۔