قرآن کا تعارف:
قرآن۔۔۔یعنی بہت زیادہ/باربار۔۔۔پڑھی جانے والی
[سورۃ یوسف:2](طٰہٰ:2، 113، الحشر:21، الانسان:23)
کتاب۔۔۔یعنی لکھا ہوا مخصوص صحیفہ ہے۔
[ابراھیم:1 النحل:64، 89، العنکبوت:47،ص:29]
جس میں کوئی شک نہیں(کہ وہ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ہے).
[البقرۃ:2(یونس:37)]
جو۔۔۔اُم الکتاب میں(درج)ہے۔
[الزخرف:4]
یعنی لوحِ محفوظ میں(درج)ہے۔
[البروج:22]
جو نازل کی ہے اللہ نے
[البقرۃ:174، 176]
جسے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا گیا۔
[الاسراء:106]
۔۔۔جو اس(تورات)کی تصدیق کرتی ہے جو پہلے سے ان(کتاب والوں)کے پاس ہے
[البقرۃ:89، 101]
...جو کاغذ میں لکھی ہوئی نازل نہیں ہوئی
[الانعام:7]
جسے تم نے کاغذوں میں (محفوظ) رکھا ہوا ہے۔
[الانعام:91]
لوگوں کیلئے
[الزمر:41]
...جو ان سب پر پڑھی جاتی ہے
[العنکبوت:55]
ہم نے اتاری ہے (اے محمد ﷺ!) آپ پر تاکہ آپ نکالیں لوگوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف
[ابراھیم:1]
...حق پر مشتمل ہے
[النساء:104، المائدہ:48، الزمر:2]
...برکت (دائمی خیر) والی ہے
[الانعام:92، 155]
ھدایت ہے۔
[البقرۃ:2 المائدہ:46، النحل:44]
الفرقان۔۔۔یعنی حق وباطل میں فرق کرنے والی ہے۔
[الفرقان:1](البقرۃ:185، آل عمران:4)
خیر وبھلائی ہے
[البقرۃ:105]
نشانی ہے
[آل عمران:50]
واضح بیان ہے
[آل عمران:138]
برھان۔۔۔کھلی دلیل ہے
اور راستہ واضح کردینے والی روشنی ہے۔
[النساء:174]
بصائر۔۔۔آنکھیں کھولدینے والی باتیں
[الانعام:104]
وضاحت، ہدایت اور رحمت ہے۔
[الانعام:157]
دلوں کی بیماریوں کی شفاء ہے۔۔۔مومنوں کیلئے
[یونس:57]
ذکر۔یاددہانی ہے
[الاعراف:63،69 ص:49]
موعظہ۔۔۔نصیحت ہے
[یونس:57]
حق۔سچ ہے
[یونس:108، الکھف:29]
ایک حکم نامہ
[الرعد:37]
پیغامِ الٰہی ہے لوگوں کیلئے
[ابراھیم:52]
بشارت۔۔۔یعنی خوشخبری ہے۔۔۔مومنوں کیلئے
[البقرۃ:97، النمل:2]
آیاتّ بینات۔۔۔روشن نشانیاں۔
[البقرۃ:99الحج:16، المجادلہ:5(الطلاق:11)]
(خاص)نور ہے
[التغابن:8]
واضح(روشنی)ہے۔
[النساء:174]
جس میں ہر مثال(مضمون)ہے لوگوں کیلئے
[الاسراء:89، الکھف:54، النور:35، الروم:58، الزمر:27]
مثال حکمت وبصیرت کی
[الاعراف:203، الجاثیہ:20]
مثال حق اور باطل کی
[الرعد:17]
مثال ان(دونوں)کے پیچھے چلنے والوں کی
[محمد:3]
مثال پاکیزہ کلمہ کی
[ابراھیم:24]
مثال ظالموں کے ساتھ ہمارے سلوک(عذاب۔پکڑ)کی
[ابراھیم:45]
مثال اللہ کی
[النور:35]
مثال اللہ کے علاؤہ جن اولیاء(رکھوالوں)کو(مشرکین)پکارتے ہیں
[العنکبوت:41- [43
مثال قرآن کی
[الحشر:21]
مثال جس کی سمجھ صرف عالم ہی رکھتے ہیں۔
[العنکبوت:43]
(3)سورۃ آل عمران کا تعارف:
عمران حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام ہے اور‘‘ آل عمران ’’ کا مطلب ہے‘‘ عمران کا خاندان ’’ اس سورت کی آیات 33 تا 37 میں اس خاندان کا ذکر آیا ہے، اس لیے اس سورت کا نام‘‘ سورۃ آل عمران ’’ ہے۔ اس سورت کے بیشتر حصے اس دور میں نازل ہوئے ہیں جب مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے تھے، مگر یہاں بھی کفار کے ہاتھوں انہیں بہت سی مشکلات درپیش تھیں۔ سب سے پہلے غزوہ بدر پیش آیا جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غیر معمولی فتح عطا فرمائی، اور کفار قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے اگلے سال انہوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا، اور غزوہ احد پیش آیا، جس میں مسلمانوں کو عارضی پسپائی بھی اختیار کرنی پڑی۔ ان دونوں غزوات کا ذکر اس سورت میں آیا ہے، اور ان سے متعلق مسائل پر قیمتی ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے، سورۃ بقرہ میں ان کے عقائد و اعمال کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر ہوچکا ہے، اور ضمنا عیسائیوں کا بھی تذکرہ آیا تھا۔ سورۃ آل عمران میں اصل روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے، اور ضمنا یہودیوں کا بھی تذکرہ آیا ہے۔ عرب کے علاقے نجران میں عیسائی بڑی تعداد میں آباد تھے، ان کا ایک وفد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تھا۔ سورۃ آل عمران کا ابتدائی تقریبا آدھا حصہ انہی کے دلائل کے جواب اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی صحیح حیثیت بتانے میں صرف ہوا ہے۔ نیز اس سورت میں زکوٰۃ سود اور جہاد سے متعلق احکام بھی عطا فرمائے گئے ہیں، اور سورت کے آخرت میں دعوت دی گئی ہے کہ اس کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں پر انسان کو غور کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانا چاہیے، اور ہر حاجت کے لیے اسی کو پکارنا چاہئے۔ سورۃ آل عمران مدنی ہے اور اس میں 200 آیتیں اور 20 رکوع ہیں۔
(4)سورۃ النساء کا تعارف:
یہ سورت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی، اور اس کا اکثر حصہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مدینہ منورہ کی نوازائیدہ مسلمان ریاست مختلف مسائل سے دو چار تھی۔ زندگی کا ایک نیا ڈھانچہ ابھر رہا تھا جس کے لیے مسلمانوں کو اپنی عبادت کے طریقوں اور اخلاق و معاشرت سے متعلق تفصیلی ہدایات کی ضرورت تھی، دشمن طاقتیں اسلام کی پیش قدمی کا راستہ روکنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی تھیں، اور مسلمانوں کو اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے نت نئے مسائل کا سامنا تھا۔ سورۃ نساء نے ان تمام معاملات میں تفصیلی ہدایات فراہم کی ہیں۔ چونکہ ایک مستحکم خاندانی ڈھانچہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے، اس لیے یہ سورت خاندانی معاملات کے بارے میں مفصل احکام سے شروع ہوئی ہے۔ چونکہ خاندانی نظام میں عورتوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، اس لیے عورتوں کے بارے میں اس سورت نے تفصیلی احکام عطا فرمائے ہیں، اور اسی لیے اس کا نام سورۃ نساء ہے۔ جنگ احد کے بعد بہت سی خواتین بیوہ اور بہت سے بچے یتیم ہوگئے تھے، اس لیے سورت نے شروع ہی میں یتیموں کے حقوق کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے، اور آیت نمبر 14 تک میراث کے احکام تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے، ان مظالم کی ایک ایک کر کے نشاندہی کی گئی ہے، اور معاشرے سے ان کا خاتمہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ نکاح و طلاق کے مفصل احکام بیان کیے گئے ہیں، اور میاں بیوی کے حقوق متعین فرمائے گئے ہیں۔ یہ مضمون آیت نمبر 35 تک چلا ہے جس کے بعد انسان کی باطنی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ مسلمانوں کو عرب کے صحراؤں میں سفر کے دوران پانی کی قلت پیش آتی تھی، لہذا آیت 43 میں تیمم کا طریقہ اور آیت 101 میں سفر میں نماز قصر کرنے کی سہولت عطا فرمائی گئی ہے۔ نیز جہاد کے دوران نماز خوف کا طریقہ آیت 102 اور 103 میں بتایا گیا ہے۔ مدینہ منورہ میں بسنے والے یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ کرنے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا تھا، آیات 44 تا 57 اور 153 تا 175 میں ان کے ساتھ عیسائیوں کو بھی خطاب میں شامل کرلیا گیا ہے، اور انہیں تثلیث کے عقیدے کے بجائے خالص توحید اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ آیات 58، 59 میں سیاست اور حکمرانی سے متعلق ہدایات آئی ہیں۔ منافقین کی بد اعمالیاں آیات 60 تا 70 اور پھر آیات 137 تا 152 میں واضح کی گئی ہیں۔ آیات 71 تا 92 نے جہاد کے احکام بیان کر کے منافقین کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ اسی سیاق میں آیات 92، 93 میں قتل کی سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں۔ جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے اور کفار کے ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے، ان کی ہجرت کے مسائل آیات 97 تا 100 میں زیر بحث آئے ہیں، اسی دوران بہت سے تنازعات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے فیصلے کے لیے لائے گئے۔ آیات 105 تا 115 میں ان کے فیصلے کا طریقہ آپ کو بتایا گیا ہے، اور مسلمانوں کو آپ کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آیات 116 تا 126 میں توحید کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ خاندانی نظام اور میراث کے بارے میں صحابہ کرام نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد سوالات پوچھے تھے، آیات 127 تا 129 اور پھر 176 میں ان سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ پوری سورت احکام اور تعلیمات سے بھری ہوئی ہے، اور شروع میں تقوی کا جو حکم دیا گیا تھا، کہا جاسکتا ہے کہ پوری سورت اس کی تفصیلات بیان کرتی ہے۔
(5)سورۃ المائدہ کا تعارف:
یہ سورت حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے بالکل آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ علامہ ابو حیان فرماتے ہیں کہ اس کے کچھ حصے صلح حدیبیہ، کچھ فتح مکہ اور کچھ حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئے تھے۔ اس زمانے میں اسلام کی دعوت جزیرہ عرب کے طول و عرض میں اچھی طرح پھیل چکی تھی، دشمنان اسلام بڑی حد تک شکست کھاچکے تھے، اور مدینہ منورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قائم کی ہوئی اسلامی ریاست مستحکم ہوچکی تھی۔ لہذا اس سورت میں مسلمانوں کے سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل سے متعلق بہت سی ہدایات دی گئی ہیں۔ سورت کا آغاز اس بنیادی حکم سے ہوا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے عہد و پیمان پورے کرنے چاہیں۔ اس بنیادی حکم میں اجمالی طور پر شریعت کے تمام احکام آگئے ہیں چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہوں یا بندوں کے حقوق سے متعلق۔ اس ضمن میں یہ اصول بڑی تاکید کے ساتھ سمجھایا گیا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی ہر معاملہ انصاف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ دشمنان اسلام کو اب اسلام کی پیش قدمی روکنے سے مایوسی ہوچکی ہے اور اللہ نے اپنا دین مکمل فرما دیا ہے۔ اسی سورت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس قسم کی غذائیں حلال ہیں اور کس قسم کی حرام؟ اسی سلسلے میں شکار کے احکام بھی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اہل کتاب کے ذبیحے اور ان کی عورتوں سے نکاح کے احکام کا بیان آیا ہے، چوری اور ڈاکے کی شرعی سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں، کسی انسان کو ناحق قتل کرنا کتنا بڑا گناہ ہے ؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے، شراب اور جوے کو صریح الفاظ میں حرام قرار دیا گیا ہے، وضو اور تیمم کا طریہ بتایا گیا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے کس طرح اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو توڑا؟ اس کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ مائدہ عربی میں دسترخوان کو کہتے ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر 114 میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے متبعین نے یہ دعا کرنے کی فرمائش کی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسمانی غذاؤں کے ساتھ ایک دسترخوان نازل فرمائے۔ اس واقعے کی مناسبت سے اس سورت کا نام مائدہ یعنی دسترخوان رکھا گیا ہے۔
(6)سورۃ الانعام کا تعارف:
یہ سورت چونکہ مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اسلام اپنے ابتدائی دور میں تھی، اس لیے اس میں اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے اور ان عقائد پر جو اعتراضات کفار کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے، ان کا جواب دیا گیا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں پر کفار مکہ کی طرف سے طرح طرح کے ظلم توڑے جارہے تھے، اس لیے ان کو تسلی بھی دی گئی ہے۔ کفار مکہ اپنے مشرکانہ عقائد کے نتیجے میں جن بے ہود رسموں اور بے بنیاد خیالات میں مبتلا تھے، ان کی تردید فرمائی گئی ہے۔ عربی زبان میں انعام چوپایوں کو کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین مویشیوں کے بارے میں بہت سے غلط عقیدے رکھتے تھے، مثلا ان کو بتوں کے نام پر وقف کر کے ان کا کھانا حرام سمجھتے تھے۔ چونکہ اس سورت میں ان بے بنیادی عقائد کی تردید کی گئی ہے۔ (دیکھیے آیات 136 تا 146) اس لیے اس کا نام سورۃ الانعام رکھا گیا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند آیتوں کو چھوڑ کر یہ پوری سورت ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی تھی، لیکن علامہ آلوسہ (رح) نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان روایتوں پر تنقید کی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم یہ سورت مکی ہے، اور اس میں ایک سو پینسٹھ آیتیں اور بیس رکوع ہیں۔
(7)سورۃ الاعراف کا تعارف:
یہ سورت بھی مکی ہے۔ اس کا بنیادی موضوع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آخرت کو ثابت کرنا ہے۔ اس کے ساتھ توحید کے دلائل بھی بیان ہوئے ہیں۔ اور متعدد انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات بھی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ خاص طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر تشریف لے جانے کا واقعہ سب سے زیادہ مفصل طریقے پر اسی سورت میں آیا ہے۔ اعراف کے لفظی معنیٰ بلندیوں کے ہیں۔ اور اصطلاح میں یہ اس جگہ کا نام ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیان واقع ہے، اور جن لوگوں کے اچھے اور برے اعمال برابر ہوں گے ان کو کچھ عرصے کے لیے یہاں رکھا جائے گا، پھر ان کے ایمان کی وجہ سے آخر کار وہ بھی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ چونکہ اسی سورت میں اعراف اور اس میں رکھنے جانے والوں کا بیان تفصیل سے آیا ہے، اس لیے اس کا نام سورۃ اعراف رکھا گیا ہے۔
(8)سورۃ انفال کا تعارف:
یہ سورت تقریبا سن 2 ہجری کے آس پاس مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے، اور اس کے بیشتر مضامین جنگ بدر اور اس کے واقعات اور مسائل سے متعلق ہیں۔ یہ جنگ اسلام اور کفر کے درمیان پہلے باقاعدہ معرکے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح مبین عطا فرمائی ہے اور قریش مکہ کو ذلت آمیز شکست سے دور چار کیا۔ چنانچہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات بھی یاد دلائے ہیں، اور مسلمانوں نے جس جاں نثاری کے ساتھ یہ جنگ لڑی اس کی ہمت افزائی کے ساتھ بعض ان کمزوریوں کی بھی نشان دہی فرمائی ہے جو اس جنگ میں سامنے آئیں۔ اور آئندہ کے لیے وہ ہدایات بھی دی گئی ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کی کامیابی اور فتح و نصرت کا سبب بن سکتی ہیں۔ جہاد اور مال غنیمت کی تقسیم کے بہت سے احکام بھی بیان ہوئے ہیں اور چونکہ جنگ بدر اصل میں کفار کے ظلم و ستم کے پس منظر میں پیش آئی تھی، اس لیے ان حالات کا بھی زکر کیا گیا ہے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کا حکم ہوا۔ نیز جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، ان کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آجائیں۔ ہجرت کی وجہ سے میراث کی تقسیم سے متعلق کچھ احکام عارضی طور پر نافذ کیے گئے تھے۔ سورت کے آخر میں اسی وجہ سے میراث کے کچھ مستقل احکام دییے گئے ہیں۔ جنگ بدر چونکہ اس سورت کے بہت سے مضامین جنگ بدر کے مختلف واقعات سے متعلق ہیں، اس لیے ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے اس جنگ کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات یہاں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، تاکہ اس سے متعلق آیات کو ان کے صحیح پس منظر میں سمجھا جاسکے۔ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت کے بعد تیرہ سال مقیم رہے۔ اس دوران مکہ مکرمہ کے کفار نے آپ اور آپ کے جاں نثار صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو طرح طرح سے ستانے اور ناقابل برداشت تکلیفیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں تک کہ ہجرت سے ذرا پہلے آپ کو قتل کرنے کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا جس کا ذکر اسی سورت میں آنے والا ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو کفار مکہ مسلسل اس فکر میں رہے کہ آپ کو وہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا جائے۔ انہوں نے عبداللہ بن ابی کو مدینہ منورہ میں خط لکھا کہ تم لوگوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو پناہ دی ہے، اب یا تو تم انہیں پناہ دینے سے ہاتھ اٹھا لو، ورنہ ہم تم پر حملہ کریں گے۔ (دیکھے سنن ابو داؤد، کتاب الخراج، باب 23، حدیث نمبر 3004) انصار میں سے اوس کے قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ گئے تو عین طواف کے دوران ابو جہل نے ان سے کہا کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دے رکھی ہے، اور اگر تم ہمارے ایک سردار کی پناہ میں نہ ہوتے تو زندہ واپس نہیں جاسکتے تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ اگر مدینہ منوہ کا کوئی آدمی مکہ مکرمہ آئے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ حضرت سعد بن معاذ (رض) نے اس کے جواب میں ابو جہل سے کہہ دیا کہ اگر تم ہمارے آدمیوں کو مکہ مکرمہ آنے سے روکو گے تو ہم تمہارے لیے اس سے بھی بڑی رکاوٹ کھڑٰ کردیں گے، یعنی تم تجارتی قافلے لے کر جب شام جاتے ہو تو تمہارا راستہ مدینہ منورہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ اب ہم تمہارے قافلوں کو روکنے اور ان پر حملہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ (دیکھئے، صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 2، حدیث نمبر 3950) اس کے بعد کفار مکہ کے کچھ دستے مدینہ منورہ کے آس پاس آئے، اور مسلمانوں کے مویشی لوٹ کرلے گئے۔ حالات کے اس پس منظر میں ابو سفیان (جو اس وقت کفار مکہ کا سردار تھا) ایک بڑا بھاری تجارتی قافلہ لے کر شام گیا۔ اس قافلے میں مکہ مکرمہ کے ہر مرد و عورت نے سونا چاندی جمع کر کے تجارت میں شرکت کی غرض سے بھیجا تھا۔ یہ قافلہ شام سے سوفیصد نفع کما کر واپس آرہا تھا۔ یہ قافلہ ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا، اور پچاس ہزار دینار (گنیوں) کا سامان لارہا تھا، اور اس کے ساتھ چالیس مسلح افراد اس کی حفاظت پر متعین تھے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قافلے کی واپسی کا پتہ چلا تو حضرت سعد بن معاذ کے چیلنج کے مطابق آپ نے اس قافلے پر حمہ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس کے لیے باقاعدہ سپاہیوں کی بھرتی کا موقع نہیں تھا، اس لیے وقت پر جتنے صحابہ تیار ہوسکے، ان کی تعداد تین سو تیرہ تھی، کل ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے، ساٹھ زرہیں تھیں، اس مختصر سامان کے ساتھ آپ مدینہ منورہ سے نکلے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض غیر مسلم مصنفین نے اس واقعے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ایک پرامن تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ہمارے زمانے کے بعض مسلمان مصنفین نے اس اعتراض سے مرعوب ہو کر یہ دعوی کرنے کی کوشش کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ قافلے پر حملہ کرنے کا نہیں تھا، بلکہ ابو سفیان نے اپنے طور پر خطرہ محسوس کر کے ابوجہل کے لشکر کو دعوت دی تھی، لیکن واقعے کی یہ تشریح صحیح احادیث اور قرآن ارشادات کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ درحقیقت یہ اعتراض اس وقت کے حالات اور اس دور کے سیاسی، دفاعی اور معاشرتی ڈھانچے سے بے خبری پر مبنی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو واقعات ہم نے اوپر بیان کیے ہیں ان کی روشنی میں فریقین کے درمیان ایک مسلسل جنگ کی حالت موجود تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو نہ صرف چیلنج دے رکھے تھے، بلکہ کفار کی طرف سے عملی طور پر چھیڑ چھاڑ بھی شروع ہوچکی تھی۔ دوسرے حضرت سعد بن معاذ پہلے سے انہیں متنبہ کر آئے تھے کہ وہ ان کے قافلوں پر حملہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ تیسرے اس دور میں شہری اور فوجی افراد کی کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی۔ کسی معاشرے کے تمام بالغ مرد مقاتلہ یعنی لڑنے والے کہلاتے تھے۔ چنانچہ قافلے کی سر کردگی ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی جو اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کھلا دشمن تھا، اور اس کے ساتھ چالیس افراد میں سے ہر ایک قریش کے ان لوگوں میں سے تھا جو مسلمانوں کو ستانے میں پیش پیش رہے تھے، اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہے تھے، اور یہ قافلہ بھی اگر کامیابی سے مکہ مکرمہ پہنچ جاتاتو قریش کی جنگی طاقت میں بڑے اضافے کا سبب بنتا۔ ان حالات میں اس کو ایک پرامن تجارتی قافلے پر حملہ قرار دینا اس وقت کے حالات سے ناواقفیت یا محض عناد کا کرشمہ ہے، اور اس کی وجہ سے ان واقعات کا انکار کرنا کسی طرح درست نہیں ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ بہرحال ! جب ابو سفیان کو آپ کے ارادے کا اندازہ ہوا تو اس نے ایک طرف تو ایک تیز رفتار ایلچی ابو جہل کے پاس بھیج کر اس واقعے کی اطلاع کی، اور اسے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ آپ پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا، اور دوسری طرف اپنے قافلے کا راستہ بدل کر بحر احمر کے ساحل کی طرف نکل گیا تاکہ وہاں سے چکر کاٹ کر مکہ مکرمہ پہنچ سکے۔ ابو جہل نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر ایک بڑا لشکر تیار کیا اور لوہے میں غرق ہو کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب پتہ چلا کہ ابو سفیان تو قافلہ لے کر نکل چکا ہے اور ابو جہل کا لشکر آرہا ہے تو آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ سب نے یہی رائے دی کہ اب ابو جہل سے ایک فیصلہ کن معرکہ ہوجانا چاہیے۔ چنانچہ بدر کے مقام پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا۔ مسلمانوں کی تعداد اور سازو سامان ابو جہل کے لشکر کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی۔ ابوجہل سمیت قریش کے ستر سردار جو مسلمانوں کی دشمنی میں پیش پیش تھے مارے گئے، اور دوسرے ستر افراد گرفتار ہوئے اور باقی لوگ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
(9)سورۃ توبہ کا تعارف:
یہ بھی مدنی سورت ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ اپنے مضامین کے اعتبار سے یہ پچھلی سورت یعنی سورۃ انفال کا تکملہ ہے۔ غالبا اسی لیے عام سورتوں کے برخلاف اس سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ نازل ہوئی، نہ لکھی گئی۔ اور اس کی تلاوت کا بھی قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص پیچھے سورۃ انفال سے تلاوت کرتا چلا آرہا ہو، اسے یہاں بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہیے، البتہ اگر کوئی شخص اسی سورت سے تلاوت شروع کر رہا ہو تو اس کو بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ اور بعض لوگوں نے اس سورت کے شروع میں بسم اللہ کے بجائے کچھ اور جملے پڑھنے کے لیے بنا رکھے ہیں، وہ بے بنیاد ہیں۔ اوپر جو طریقہ لکھا گیا ہے، وہی سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے۔ یہ سورت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ عرب کے بہت سے قبائل اس انتظار میں تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفار قریش کی جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے ،۔ جب قریش نے حدیبیہ والا معاہدہ توڑ دیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا، اور کسی خاص خونریزی کے بغیر اسے فتح کرلیا۔ اس موقع پر کفار کی کمر ٹوٹ چکی تھی، ا لبتہ آخری تدبیر کے طور پر قبیلہ ہوازن نے ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع کیا جس سے حنین کی وادی میں آخری بڑی جنگ ہوئی، اور شروع میں معمولی ہزیمت کے بعد مسلمانوں کو اس میں بھی فتح ہوئی۔ اس جنگ کے بعض واقعات بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اب عرب کے جو قبائل قریش کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے تھے، یا ان کی جنگوں کے آخری انجام کے منتظر تھے، ان کے دل سے اسلام کے خلا ہر رکاوٹ دور ہوگئی اور وہ جوق در جوق مدینہ منورہ آکر مسلمان ہوئے، اور اسی طرح جزیرہ عرب کے بیشتر علاقے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزیرہ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیا گیا۔ اصل منشا تو یہت ھا کہ پورے جزیرہ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے، جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں۔ (موطا امام مالک، کتاب الجامع و مسند احمد ج : 6 ص : 572) لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار فرمایا گیا۔ سب سے پہلا ہدف یہ مقرر فرمایا گیا کہ جزیرہ عرب کو بت پرستوں سے خالی کرایا جائے۔ چنانچہ جو بچے کھچے بت پرست عرب میں رہ گئے تھے، اور جنہوں نے بیس سال سے زیادہ مدت تک مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا تھا، ان کو اس سورت کے شروع میں مختلف مدتوں کی مہلت دی گئی جس میں اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انہیں جزیرہ عرب چھوڑنے، ورنہ جنگ کا سامنا کرنے کے احکام دییے گئے ہیں، اور مسجد حرام کو بت پرستی کی ہر نشانی سے پاک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ہدف کے پورا ہونے کے بعد جزیرہ عرب کی مکمل صفائی کا دوسرا مرحلہ یہود و نصاری کو وہاں سے نکالنے کا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ میں یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا تھا، لیکن آپ نے اس کی وصیت فرما دی تھی، جیسا کہ آیت نمبر 29 کے تحت اس کی وضاحت آنے والی ہے۔ اس سے پہلے روم کے بادشاہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ان پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی فوج جمع کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش قدمی کر کے اس کے مقابلے کے لیے تبوک تک تشریف لے گئے۔ اس سورت کا بہت بڑا حصہ اس مہم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ منافقین کی معاندانہ کارروائیاں مسلسل جاری تھی، اس سورت میں ان کی بدعنوانیوں کو بھی طشت ازبام کیا گیا ہے۔ اس سورت کو سورۃ توبہ بھی کہا جاتا ہے، اور سورۃ برائت بھی۔ برائت اس لیے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے برائت اور دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے، اور توبہ اس لیے کہ اس میں بعض ان صحابہ کرام کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے جنہوں نے تبوک کی مہم میں حصہ نہیں لیا تھا، اور بعد میں اپنی اس غلطی پر توبہ کی تھی۔ ان آیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے وہ پس منظر جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے تعارف میں اوپر بیان کیا گیا ہے، جزیرۂ عرب کو اسلام کا مرکز بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ کچھ عرصے کی مہلت کے بعد کوئی بت پرست مستقل طور پر جزیرۂ عرب میں نہیں رہ سکتا، چنانچہ ان آیات میں ان بچے کھچے مشرکین سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، اگرچہ یہ مشرکین وہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اور ان پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے، لیکن جزیرۂ عرب سے نکلنے کے لئے مختلف مہلتیں دی گئی ہیں جن کی تفصیل ان آیتوں میں آئی ہے، ان مشرکین کی چار قسمیں تھیں : (الف) پہلی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کیا ہوا تھا، ایسے مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ ان چار مہینوں میں وہ اگر اسلام لانا چاہتے ہیں تو اسلام لے آئیں، اور اگر جزیرۂ عرب سے باہر کہیں جانا چاہیں تو اس کا انتظام کرلیں، اگر یہ دونوں کام نہ کرسکیں توان کے خلاف ابھی سے اعلان کردیا گیا ہے کہ ان کو جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ (ترمذی، کتاب الحج، حدیث نمبر : 871)۔ (ب) دوسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ توتھا لیکن اس کی کوئی مدت متعین نہیں تھی، ان کے بارے میں بھی اعلان کردیا گیا کہ اب وہ معاہدہ چار مہینے تک جاری رہے گا، اس دوران ان کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جن کا ذکر پہلی قسم کے بارے میں کیا گیا، سورۂ توبہ کی پہلی اور دوسری آیت ان دو قسموں سے متعلق ہے۔ (ج) تیسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ تو کیا تھا ؛ لیکن انہوں نے بد عہدی کی، اور وہ معاہدہ توڑدیا، جیسے کفار قریش کے ساتھ حدیبیہ میں معاہدہ ہوا تھا ؛ لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی، اور اسی کی بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا تھا، ان لوگوں کو کوئی مزید مہلت تو نہیں دی گئی ؛ لیکن چونکہ دست برداری کا یہ اعلان حج کے موقع پر کیا گیا تھا جو خود حرمت والے مہینے میں ہوتا ہے، اور اس کے بعد محرم کا مہینہ بھی حرمت والا ہے، اور اس میں جنگ کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے ان کو محرم کے آخر تک مہلت مل گئی، انہی کے بارے میں آیت نمبر : 5 میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد اگر یہ، نہ ایمان لائیں اور نہ جزیرۂ عرب سے باہر جائیں توان کو قتل کردیا جائے گا۔ (د) چوتھی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ کسی خاص مدت تک کے لئے مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا، اور انہوں نے کوئی بد عہدی بھی نہیں کی تھی اسیے لوگوں کے بارے میں آیت نمبر : 4 میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے معاہدے کی جتنی بھی مدت باقی ہے اس کو پورا کیا جائے، اور اس پوری مدت میں ان کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے، مثلاً قبیلہ کنانہ کے دوچھوٹے قبیلے بنو ضمر اور بنو مدلج کے ساتھ آپ کا ایسا ہی معاہدہ تھا، اور ان کی طرف سے کوئی بد عہدی سامنے نہیں آئی تھی، ان کے معاہدہ کی مدت ختم ہونے میں اس وقت نو مہینے باقی تھے ؛ چنانچہ ان کو نو مہینے کی مہلت دی گئی۔ ان چاروں قسم کے اعلانات کو براءت یا دستبرداری کے اعلانات کہا جاتا ہے۔
(10)سورۃ یونس کا تعارف:
یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ البتہ بعض مفسرین نے اس کو تین آیتوں ( آیت نمبر 40 اور 94 اور 95) کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ مدیننہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن اس کا کوئی یقینی ثبوت موجود نہیں ہے۔ سورت کا نام حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا ہے جن کا حوالہ آیت نمبر 98 میں آیا ہے۔ مکہ مکرمہ میں سب سے اہم مسئلہ اسلام کے بنیادی عقائد کو ثابت کرنا تھا، اس لئے اکثر مکی سورتوں میں بنیادی زور توحید، رسالت اور آخرت کے مضامین پر دیا گیا ہے۔ اس سورت کے بھی مرکزی موضوعات یہی ہیں۔ اس کے ساتھ اسلام پر مشرکین عرب کے اعتراضات کے جواب دیئے گئے ہیں اور ان کے غلط طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے، اور انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی ضد جاری رکھی دنیا اور آخرت دونوں میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف عذاب آسکتا ہے۔ اسی سلسلہ میں پچھلے انبیائے کرام میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کے نتیجے میں فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اور حضرت نوح اور حضرت یونس علیہما السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان میں کافروں کے لئے تو یہ کہ انہوں نے پیغمبر کی مخالفت میں جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے، اس کے نتیجے میں ان کا انجام بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے لیے یہ تسلی کا سامان بھی ہے کہ ان ساری مخالفتوں کے باوجود آخری انجام ان شاء اللہ انہی کے حق میں ہوگا۔
(11)سورۃ ہود کا تعارف:
یہ سورت بھی مکی ہے، اور اس کے مضامین پچھلی سورت کے مضامین سے ملتے جلتے ہیں، البتہ سورۃ یونس میں جن پیغمبروں کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان ہوئے تھے، اس سورت میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب، اور حضرت لوط علیہم السلام کے واقعات زیادہ تفصیل سے انتہائی بلیغ اور موثر اسلوب میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی بڑی بڑی زور آور قوموں کو تباہ کرچکی ہے، اور جب انسان اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے قہر اور عذاب کا مستحق ہوجائے تو چاہے وہ کتنے بڑے پیغمبر سے قریبی رشتہ رکھتا ہو، اس کا یہ رشتہ اسے عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا، جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو نہیں بچا سکا۔ اس سورت میں عذاب الہی کے واقعات اتنے موثر انداز میں بیان ہوئے ہیں اور دین پر استقامت کا حکم اتنی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورۃ ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے، ان سورتوں میں جو تنبیہ کی گئی ہے اس کی بنا پر آپ کو اپنی امت کے بارے میں بھی یہ خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے اسی طرح کے کسی عذاب کا شکار نہ ہوجائے۔
(12)سورۃ یوسف کا تعارف:
یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کروایا تھا کہ بنو اسرائیل کے لوگ جو فلسطین کے باشندے تھے، مصر میں جاکر کیوں آباد ہوئے؟ ان لوگوں کا خیال تھا کہ آپ کے پاس چونکہ بنو اسرائیل کی تاریخ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس لیے آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے، اور اس طرح آپ کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ (معاذ اللہ) سچے نبی نہیں ہیں۔ اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ پوری سورۃ یوسف نازل فرما دی جس میں پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے۔ دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے، انہی کا دوسرا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کے بارہ صاحبزادے تھے، انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے۔ اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی بنیامین بھی شامل تھے۔ ان دونوں کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کر کے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ایک کنویں میں ڈال دیا، جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھا کر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا، شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے، لیکن اس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آرہی ہے، اس سرداری کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا، اور انہیں نہ صرف جیل سے نکال کر باعزت بری کردیا، بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا، اور بعد میں حکومت کے سارے اختیارات انہی کو سونپ دیے۔ اس کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو فلسطین سے مصر بلوا لیا۔ اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔ سورۃ یوسف کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا پورا واقعہ ایک ہی تسلسل میں تفصیل کے ساتھ زکر کیا گیا ہے، اور تقریبا پوری سورت اسی کے لیے وقف ہے، اور یہ واقعہ کسی اور سورت میں نہیں آیا۔ اس واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرما دی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ یہ بات ان پر بھی واضح تھی کہ اس واقعے کا علم ہونے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا، لہذا یہ تفصیل آپ کو وحی کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، ان کے پیش نظراس واقعے میں آپ کے لیے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہی کو عزت، شوکت اور سربلندی عطا فرمائی، اور جن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایا تھا، ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں، لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے، اور حق غالب ہو کر رہے گا۔ اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لیے بہت سے سبق ہیں، اور شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔
(13)سورۃ الرعد کا تعارف:
یہ سورت بھی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات اور ان پر عائد کیے جانے والے اعتراضات کا جواب ہے۔ پچھلی سورت یعنی سورۃ یوسف کے آخر ( آیت نمبر 105) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن کفار ان کی طرف دھیان دینے کے بجائے ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اب اس سورت میں کائنات کی ان نشانیوں کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے جو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ جس قادر مطلق نے اس کائنات کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے، اسے اپنی خدائی قائم کرنے کے لیے کسی مددگار یا شریک کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تو اس کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی بھی گواہی دیتا ہے، اور اس بات کی بھی کہ یہ سارا نظام اس نے بے مقصد پیدا نہیں کردیا۔ اس کا یقینا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ اس دنیوی زندگی میں کیے ہوئے ہر کام کا کسی دن حساب ہو، اور اس دن نیکیوں کا انعام اور برائیوں کی سزا دی جائے۔ اس سے خودبخود آخرت کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ پھر نیکی اور برائی کا تعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایات بندوں کو دی جائیں۔ ان ہدایات کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں جو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام معلوم کر کے دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں۔ لہذا اسی سے رسالت کا عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ کائنات کی جو نشانیاں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، ان میں بادلوں کی گرج چمک بھی ہے جس کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر 13 میں آیا ہے۔ عربی میں گرج کو رعد کہا جاتا ہے۔ اسی پر اس سورت کا نام رعد رکھا گیا ہے۔
(14)سورۃ ابراہیم کا تعارف:
دوسری مکی سورتوں کی طررح اس سورت کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کا انکار کرنے کے خوفناک نتائج پر تنبیہ ہے۔ چونکہ عرب کے مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مانتے تھے، اس لیے سورت کے آخر سے پہلے رکوع میں ان کی وہ پر اثر دعا نقل فرمائی گئی ہے جس میں انہوں نے شرک اور بت پرستی کی صاف صاف برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ انہیں اور ان کے بیٹوں کو بت پرستی سے محفوظ رکھا جائے۔ اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورۃ ابراہیم ہے۔
(15)سورۃ الحجر کا تعارف:
اس سورت کی آیت نمبر 94 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی، کیونکہ اس آیت میں پہلی بار آپ کو کھل کر اسلام کی عام تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ سورت کے شروع میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے، اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا جب وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اسلام لے آتے۔ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی ( معاذ اللہ) مجنون کہتے، اور کبھی کاہن قرار دیتے تھے۔ ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہانت کی حقیقت آیت نمبر 17 اور 18 میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ان لوگوں کے کفر کی اصل وجہ ان کا تکبر تھا، اس لیے ابلیس کا واقعہ آیات نمبر 26 تا 44 میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے تکبر نے کس طرح اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کیا۔ کفار کی عبرت کے لیے حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہم السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کافروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے۔ ان کا فریضہ اتنا ہے کہ وہ موثر انداز میں تبلیغ کریں، جو وہ بہترین طریقے پر انجام دے رہے ہیں۔ نتائج کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے۔ سورت کا نام قوم ثمود کی بستیوں کے نام پر رکھا گیا ہے جو حجر کہلاتی تھیں، اور ان کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر 80 میں آیا ہے۔
(16)سورۃ النحل کا تعارف:
اس سورت کا بنیادی موضوع اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا مفصل بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ اسی لیے اس سورت کو سورۃ النعم (نعمتوں کی سورت) بھی کہا جاتا ہے۔ عرب کے مشرکین عام طور سے یہ مانتے تھے کہ ان میں سے بیشتر نعمتیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں وہ بت بھی شریک ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا تذکرہ فرما کر انہیں توحید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ایمان نہ لانے کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ یہ سورت جس زمانے میں نازل ہوئی، اس وقت بہت سے مسلمان کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے تھے۔ آیت نمبر 41 و 42 میں ان کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے مصائب و آلام کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اور انہیں دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا عطا ہوگا، اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا اجر و ثواب ہے، بشرطیکہ وہ صبر سے کام لیں، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ سورت کے آخری حصے میں اسلامی شریعت کے کچھ اہم احکام بھی بیان فرمائے گئے ہیں جو ایک مسلمان کے طرز عمل کی بنیاد ہونے چاہیئں۔ نحل عربی میں شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر 68 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے شہد کی مکھی کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کے حکم سے پہاڑوں اور جنگلوں میں اپنے چھتے بناتی اور شہد پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے سورت کا نام نحل رکھا گیا ہے۔
(17)سورۃ بنی اسرائیل کا تعارف:
(18)سورۃ الکھف کا تعارف:
(19)سورۃ مریم کا تعارف:
(20)سورۃ طٰہٰ کا تعارف:
(21)سورۃ الانبیاء کا تعارف:
(22)سورۃ الحج کا تعارف:
(23)سورۃ المومنون کا تعارف:
(24)سورۃ النور کا تعارف:
سورۃ نور تعارف اس سورت کا مرکزی موضوع معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو روکنے اور عفت و عصمت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہدایات اور احکام دینا ہے۔ پچھلی سورت کے شروع میں مومنوں کی جو خصوصیات بیان فرمائی گئی تھیں، ان میں سے ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی باعفت زندگی گزارتے ہیں۔ اب اس سورت میں باعفت زندگی گزارنے کے ضروری تقاضے بیان فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ سورت کے شروع ہی میں زنا کی شرعی سزا بیان فرمائی گئی ہے، اور ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح زنا انتہائی گھناؤنا جرم ہے، اسی طرح کسی بے گناہ پر شرعی ثبوت کے بغیر زنا کا الزام لگانا بھی نہ صرف سخت گناہ ہے، بلکہ اس پر بھی سخت قانونی سزا مقرر فرمائی گئی ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ سورت ہجرت کے بعد چھٹے سال نازل ہوئی اس سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرب کے ایک قبیلے بنو المصطلق کے بارے میں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ آپ پر حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر جمع کر رہا ہے۔ آپ نے اس کے حملے سے پہلے ہی پیش قدمی کر کے اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اسی سفر سے واپسی پر منافقین نے حضرت صدیقہ عائشہ (رض) کے خلاف بڑی کمینگی کے ساتھ ایک بے بنیاد تہمت لگائی، اور اسے مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر شہرت دی جس سے کچھ مخلص مسلمان بھی متاثر ہوگئے۔ اس سورت کی آیات : 11 تا 20 حضرت عائشہ کی براءت کا اعلان کرنے کے لیے نازل ہوئیں۔ اور جن لوگوں نے تہمت لگانے کا گھناؤنا جرم کیا تھا ان کو اور معاشرے میں عریانی و فحاشی پھیلانے والوں کو سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئیں۔ نیز عفت وعصمت کی حفاظت کے پہلے قدم کے طور پر خواتین کو پردے کے احکام بھی اسی سورت میں دیے گئے ہیں، اور دوسروں کے گھر جانے کے لیے ضروری آداب و احکام کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔
(25)سورۃ الفرقان کا تعارف:
(26)سورۃ الشعراء کا تعارف:
(27)سورۃ النمل کا تعارف:
(28)سورۃ القصص کا تعارف:
(29)سورۃ العنکبوت کا تعارف:
(30)سورۃ الروم کا تعارف:
(31)سورۃ لقمان کا تعارف:
(32)سورۃ السجدہ کا تعارف:
(33)سورۃ الاحزاب کا تعارف:
(34)سورۃ سبا کا تعارف:
(35)سورۃ فاطر کا تعارف:
(36)سورۃ یٰس کا تعارف:
(37)سورۃ الصافات کا تعارف:
(38)سورۃ صٓ کا تعارف:
(39)سورۃ الزمر کا تعارف:
(40)سورۃ المؤمن کا تعارف:
(41)سورۃ حم سجدہ کا تعارف:
(42)سورۃ الشوریٰ کا تعارف:
(43)سورۃ الزخرف کا تعارف:
(44)سورۃ الدخان کا تعارف:
(45)سورۃ الجاثیہ کا تعارف:
(46)سورۃ الاحقاف کا تعارف:
(47)سورۃ محمد کا تعارف:
(48)سورۃ الفتح کا تعارف:
(49)سورۃ الحجرات کا تعارف:
(50)سورۃ ق کا تعارف:
(51)سورۃ الذاریات کا تعارف:
(53)سورۃ النجم کا تعارف:
(54)سورۃ القمر کا تعارف:
(55)سورۃ الرّحمٰن کا تعارف:
(56)سورۃ الواقعہ کا تعارف:
(57)سورۃ الحدید کا تعارف:
(58)سورۃ المجادلۃ کا تعارف:
(59)سورۃ الحشر کا تعارف:
(60)سورۃ الممتحنہ کا تعارف:
(61)سورۃ الصّفِّ کا تعارف:
(62)سورۃ الجمعہ کا تعارف:
(63)سورۃ المنافقون کا تعارف:
(64)سورۃ التغابن کا تعارف:
(65)سورۃ الطلاق کا تعارف:
(66)سورۃ التحریم کا تعارف:
(67)سورۃ الْمُلْک کا تعارف:
پارہ نمبر 1
قرآن مجید کے پہلے پارے (جُز) میں "سورۃ الفاتحہ" اور "سورۃ البقرہ" کی ابتدائی آیات (آیت 1 سے 141 تک) شامل ہیں۔ ذیل میں اس پارے کا اہم خلاصہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:
---
### 1. سورۃ الفاتحہ (7 آیات):
- مرکزی موضوع: اللہ کی حمد و ثنا، ہدایت کی درخواست، اور صراطِ مستقیم کی وضاحت۔
- اہم نکات:
- آیت 1-3: اللہ کی ربوبیت، رحمت، اور روزِ جزا کی مالکیت کا اعلان۔
- آیت 5: دعا: "اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ" (ہمیں سیدھا راستہ دکھا)۔
- آیت 6-7: دو گروہوں (نعمت یافتہ اور غضب کے مستحق) کی نشاندہی۔
---
### 2. سورۃ البقرہ (آیت 1 تا 141):
#### اہم حصے اور موضوعات:
1. انسانوں کی تین اقسام (آیت 1-20):
- مومنین: جو غیب پر ایمان لاتے ہیں (آیت 3-5).
- کافرین: جو حق کو جانتے ہوئے بھی انکار کرتے ہیں (آیت 6-7).
- منافقین: دل سے کافر مگر زبان سے ایمان کا دعویٰ (آیت 8-20).
2. تخلیقِ آدم اور شیطان کی سرکشی (آیت 30-39):
- آیت 30: فرشتوں کا سوال: "أَتَجْعَلُ فِیْهَا مَن یُفْسِدُ فِیْهَا؟" (کیا زمین میں فساد کرنے والا بنا رہے ہو؟).
- آیت 34: شیطان کا آدم کو سجدہ نہ کرنا اور اس کی سرکشی۔
3. بنی اسرائیل کی نافرمانیاں (آیت 40-103):
- آیت 47: انہیں اللہ کے احسانات یاد دلائے گئے۔
- آیت 54: گوسالہ پرستی کی سزا اور توبہ کا حکم۔
- آیت 67-73: گائے ذبح کرنے کا واقعہ (بنی اسرائیل کی ہٹ دھرمی)۔
4. حضرت ابراہیم علیہ السلام اور کعبہ کی تعمیر (آیت 124-141):
- آیت 124: ابراہیم علیہ السلام کو امت کا امام بنایا گیا۔
- آیت 127: ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کا کعبہ کی تعمیر میں دعا: "رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا" (اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما)۔
- آیت 133-141: ابراہیم علیہ السلام کی توحید پر مبنی وصیت اور اہلِ کتاب کو اسوۂ ابراہیم کی دعوت۔
---
### اہم تعلیمات اور حوالہ جات:
1. توحید کی دعوت:
- "وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" (اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ) (آیت 22).
2. آخرت پر ایمان:
- "وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ" (اور اللہ قبروں والوں کو زندہ کرے گا) (آیت 28).
3. نفاق کی مذمت:
- "فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ" (ان کے دلوں میں بیماری ہے) (آیت 10).
4. توبہ کی اہمیت:
- "ثُمَّ اجْتَبَاهُ وَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى" (پھر اللہ نے انہیں چن لیا اور توبہ قبول کی اور ہدایت دی) (آیت 37).
---
### پارے کا مرکزی پیغام:
پہلا پارہ "ہدایت، توحید، اور انسان کی آزمائش" کے موضوعات پر مشتمل ہے۔ اس میں مومن، کافر اور منافق کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے، ساتھ ہی انبیاء کے واقعات کے ذریعے یہ سبق دیا گیا ہے کہ "اللہ کی اطاعت اور توکل" ہی کامیابی کی کلید ہے۔
ماخذ:
- تفسیر ابن کثیر
- تفسیر القرطبی
- القرآن الکریم (ترجمہ و تفسیر ڈاکٹر محمود احمد غازی)
پارہ نمبر 2
قرآن مجید کے دوسرے پارے (جزو) میں سورۃ البقرہ کی آیات 142 سے 252 تک شامل ہیں۔ یہ پارہ "تغیرِ قبلہ، احکاماتِ شریعت، انبیاء کے واقعات، اور جہاد و قربانی" جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔ ذیل میں اس پارے کا خلاصہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:
---
### 1. تغیرِ قبلہ اور امتِ مسلمہ کا امتیازی کردار (آیت 142-152):
- آیت 142-143: قبلہ کی تبدیلی (بیت المقدس سے کعبہ کی طرف) اور امتِ مسلمہ کو "امتِ وسط" (اعتدال پسند قوم) قرار دیا گیا۔ اللہ فرماتا ہے:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا (اور اسی طرح ہم نے تمہیں اعتدال والی امت بنایا)۔
- آیت 144: نبی ﷺ کا قبلہ کی طرف توجہ: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لیں)۔
---
### 2. امتحان اور صبر کی اہمیت (آیت 153-157):
- آیت 153: صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرنے کا حکم: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ۔
- آیت 155-157: ایمان کی آزمائش (خوف، بھوک، مال اور جان کے نقصان سے) اور صبر کرنے والوں کے لیے اجر کی بشارت۔
---
### 3. احکاماتِ شریعت (آیت 178-188):
- قصاص کا قانون (آیت 178-179):
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ (قصاص میں تمہاری زندگی ہے)۔
- وصیت کا حکم (آیت 180): والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کرنا۔
- روزے کی فرضیت (آیت 183-185):
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (تم پر روزے فرض کیے گئے)۔
---
### 4. جہاد فی سبیل اللہ اور مال کی قربانی (آیت 190-195، 261-274):
- آیت 190-193: جہاد کی حدود: وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ (اللہ کی راہ میں لڑو)، مگر ظلم نہ کرو۔
- آیت 261: مال کی قربانی کی مثال: مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (جو لوگ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایک دانے جیسی ہے جو سات بالیاں اگاتا ہے)۔
---
### 5. طالوت اور جالوت کا واقعہ (آیت 246-252):
- آیت 246-248: بنی اسرائیل کا طالوت کو بادشاہ ماننے سے انکار اور تابوتِ سکینہ کی نشانی۔
- آیت 249: طالوت کی فوج کا امتحان (دریا سے پانی نہ پینا) اور حضرت داؤد علیہ السلام کی فتح۔
- آیت 251: داؤد علیہ السلام کا جالوت کو قتل کرنا اور اللہ کی نصرت: وَهَزَمُوا بِإِذْنِ اللَّهِ۔
---
### اہم تعلیمات اور حوالہ جات:
1. امتِ وسط کی ذمہ داری:
- "لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ" (تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو) (آیت 143)۔
2. توکل اور صبر:
- "إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ" (بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) (آیت 153)۔
3. انفاق کی فضیلت:
- "الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ" (جو رات دن چھپے اور کھلم کھلا مال خرچ کرتے ہیں) (آیت 274)۔
---
### پارے کا مرکزی پیغام:
دوسرا پارہ "امتِ مسلمہ کے امتیازی کردار، اجتماعی احکامات، اور اللہ پر توکل" کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں جہاد، انفاق، اور صبر کے ذریعے آزمائشوں میں کامیابی کا راستہ بتایا گیا ہے۔ ساتھ ہی، طالوت و جالوت کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ "اللہ کی نصرت اہلِ ایمان کے ساتھ ہے"، چاہے ظاہری اسباب کم ہی کیوں نہ ہوں۔
پارہ نمبر 3
قرآن مجید کے تیسرے پارے (جزو) میں سورۃ البقرہ کی آخری آیات (253 سے 286) اور سورۃ آل عمران کی ابتدائی آیات (1 سے 92 تک) شامل ہیں۔ یہ پارہ "توحید، مالی احکامات، انفاق، اور اہلِ کتاب سے مکالمہ" جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔ ذیل میں اس پارے کا خلاصہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:
---
### 1. سورۃ البقرہ (آیت 253-286):
#### اہم موضوعات:
- آیت 253: انبیاء کے درجات میں فرق: "تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ" (ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی)۔
- آیت 255 (آیت الکُرسی): اللہ کی عظمت اور کائنات پر اختیار کی وضاحت:
"اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ..." (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے)۔
- آیت 256: دین میں جبر کی ممانعت: "لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ" (دین میں کوئی جبر نہیں)۔
- آیت 261-274: انفاق کی فضیلت اور ریا کاری کی مذمت۔
- آیت 275-281: سود (ربا) کی حرمت اور اس کے تباہ کن اثرات۔
- آیت 282-283: تجارت اور قرض کے احکام (مفصل ترین آیت)۔
- آیت 286: انسان کی استطاعت سے بڑا بوجھ نہ ڈالنا: "لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا"۔
---
### 2. سورۃ آل عمران (آیت 1-92):
#### اہم موضوعات:
- توحید اور قرآن کی حقانیت (آیت 1-9):
"اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ" (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے)۔
- آیت 18: اللہ، فرشتوں، اور اہلِ علم کا توحید کی گواہی دینا: "شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ"۔
- حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا واقعہ (آیت 42-63):
- آیت 45: فرشتوں کی حضرت مریم کو بشارت: "إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ"۔
- آیت 55: حضرت عیسیٰ کی وفات اور اللہ کی طرف اٹھائے جانے کا بیان۔
- اہلِ کتاب کو دعوتِ توحید (آیت 64-80):
"قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ..." (اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہم میں یکساں ہے)۔
- آیت 92: نیکی کے لیے خرچ کرنا: "لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ" (تم نیکی نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو)۔
---
اہم تعلیمات اور حوالہ جات:
1. توحید کی عظمت:
- "هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ" (وہ اللہ یکتا اور سب پر غالب ہے) (آل عمران: 6)۔
2. انفاق کی شرائط:
- "الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ" (جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں) (آل عمران: 134)۔
3. سود کی تباہی:
- "يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا" (اللہ سود کو مٹاتا ہے) (البقرہ: 276)۔
4. دعا کی قبولیت:
- "رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا" (اے رب! ہم سے بھول یا غلطی کی پکڑ نہ کر) (البقرہ: 286)۔
---
پارے کا مرکزی پیغام:
تیسرا پارہ "توحید کے اثبات، مالی معاملات میں پاکیزگی، اور اہلِ کتاب کے ساتھ مکالمے" کی دعوت پر زور دیتا ہے۔ اس میں سود کی مذمت، انفاق کی ترغیب، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ "اللہ کی نصرت ہمیشہ حق کے ساتھ ہے"۔ ساتھ ہی، آیت الکُرسی اور سورۃ آل عمران کی ابتدائی آیات ایمان کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں۔
پارہ نمبر 4
قرآن مجید کے چوتھے پارے (جزو) میں سورۃ آل عمران کی آخری آیات (93 سے 200 تک) اور سورۃ النساء کی ابتدائی آیات (1 سے 23 تک) شامل ہیں۔ یہ پارہ "اجتماعی اخلاقیات، جنگِ اُحد کے واقعات، وراثت کے احکام، اور خاندانی نظام" جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔ ذیل میں اس پارے کا خلاصہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:
---
### 1. سورۃ آل عمران (آیت 93-200):
#### اہم موضوعات:
- آیت 93: حضرت موسیٰ علیہ السلام پر مَنّ و سَلْوَىٰ (عمدہ غذا) کے نزول کا ذکر۔
- آیت 103: اتحاد کی تاکید: "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو)۔
- جنگِ اُحد کا واقعہ (آیت 121-129):
- آیت 121: غزوہ اُحد میں مسلمانوں کی نافرمانی کا نتیجہ۔
- آیت 152: ابتدائی فتح کے بعد آزمائش: "حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ" (جب تم ہمت ہار بیٹھے اور اختلاف کرنے لگے)۔
- آیت 190-194: کائنات پر غوروفکر کی دعوت اور دعا: "رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ" (اے رب! جسے تو آگ میں ڈالے گا، اسے رسوا کر دے گا)۔
---
### 2. سورۃ النساء (آیت 1-23):
#### اہم موضوعات:
- انسانی حقوق اور عدل (آیت 1):
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ" (اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا)۔
- یتیموں کے حقوق (آیت 2-6):
"وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ" (یتیموں کو ان کے مال دے دو)۔
- وراثت کے احکام (آیت 7-12):
- آیت 11: مرد اور عورت کا حصہ: "لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ" (مرد کو دو حصے، عورت کو ایک)۔
- نکاح اور مہر کے اصول (آیت 19-21):
"فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا" (اگر بیویاں رضامندی سے مہر کا کچھ حصہ معاف کریں تو اسے خوشی سے کھاؤ)۔
---
### اہم تعلیمات اور حوالہ جات:
1. اتحاد اور صبر کی اہمیت:
- "وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ" (اختلاف نہ کرو، ورنہ کمزور ہو جاؤ گے) (آل عمران: 152)۔
2. یتیموں کے ساتھ انصاف:
- "إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا..." (جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں...) (النساء: 10)۔
3. خاندانی نظام کی حفاظت:
- "وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو) (النساء: 19)۔
---
### پارے کا مرکزی پیغام:
چوتھا پارہ "اجتماعی اخلاقیات، جنگی تجربات سے سبق، اور خاندانی قوانین" کی تفصیلات پیش کرتا ہے۔ سورۃ آل عمران میں جنگِ اُحد کے واقعے سے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ "اللہ کی اطاعت اور اتحاد" ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ سورۃ النساء کے ابتدائی احکامات میں "یتیموں، عورتوں، اور ورثاء کے حقوق" کو واضح کیا گیا ہے، جس سے اسلامی معاشرے کے عدل پر مبنی ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔
پارہ نمبر 5
پارہ نمبر 6
پارہ نمبر 7
پارہ نمبر 8
پارہ نمبر 9
پارہ نمبر 10
پارہ نمبر 11
پارہ نمبر 12
پارہ نمبر 13
پارہ نمبر 14

No comments:
Post a Comment