Sunday, 2 March 2025

خلاصۂ مضامین قرآن


قرآن کا تعارف:

قرآن۔۔۔یعنی بہت زیادہ/باربار۔۔۔پڑھی جانے والی

[سورۃ یوسف:2](طٰہٰ:2، 113، الحشر:21، الانسان:23)


کتاب۔۔۔یعنی لکھا ہوا مخصوص صحیفہ ہے۔

[ابراھیم:1 النحل:64، 89، العنکبوت:47،ص:29]


جس میں کوئی شک نہیں(کہ وہ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ہے).

[البقرۃ:2(یونس:37)]


جو۔۔۔اُم الکتاب میں(درج)ہے۔

[الزخرف:4]

یعنی لوحِ محفوظ میں(درج)ہے۔

[البروج:22]


جو نازل کی ہے اللہ نے

[البقرۃ:174، 176]

جسے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا گیا۔

[الاسراء:106]


۔۔۔جو اس(تورات)کی تصدیق کرتی ہے جو پہلے سے ان(کتاب والوں)کے پاس ہے

[البقرۃ:89، 101]


...جو کاغذ میں لکھی ہوئی نازل نہیں ہوئی

[الانعام:7]

جسے تم نے کاغذوں میں (محفوظ) رکھا ہوا ہے۔

[الانعام:91]

لوگوں کیلئے

[الزمر:41]


...جو ان سب پر پڑھی جاتی ہے

[العنکبوت:55]


ہم نے اتاری ہے (اے محمد ﷺ!) آپ پر تاکہ آپ نکالیں لوگوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف

[ابراھیم:1]


...حق پر مشتمل ہے

[النساء:104، المائدہ:48، الزمر:2]


...برکت (دائمی خیر) والی ہے

[الانعام:92، 155]


ھدایت ہے۔

[البقرۃ:2 المائدہ:46، النحل:44]


الفرقان۔۔۔یعنی حق وباطل میں فرق کرنے والی ہے۔

[الفرقان:1](البقرۃ:185، آل عمران:4)


خیر وبھلائی ہے

[البقرۃ:105]


نشانی ہے

[آل عمران:50]


واضح بیان ہے

[آل عمران:138]


برھان۔۔۔کھلی دلیل ہے

اور راستہ واضح کردینے والی روشنی ہے۔

[النساء:174]


بصائر۔۔۔آنکھیں کھولدینے والی باتیں

[الانعام:104]


وضاحت، ہدایت اور رحمت ہے۔

[الانعام:157]


دلوں کی بیماریوں کی شفاء ہے۔۔۔مومنوں کیلئے

[یونس:57]


ذکر۔یاددہانی ہے

[الاعراف:63،69 ص:49]


موعظہ۔۔۔نصیحت ہے

[یونس:57]


حق۔سچ ہے

[یونس:108، الکھف:29]


ایک حکم نامہ

[الرعد:37]


پیغامِ الٰہی ہے لوگوں کیلئے

[ابراھیم:52]


بشارت۔۔۔یعنی خوشخبری ہے۔۔۔مومنوں کیلئے

[البقرۃ:97، النمل:2]


آیاتّ بینات۔۔۔روشن نشانیاں۔

[البقرۃ:99الحج:16، المجادلہ:5(الطلاق:11)]


(خاص)نور ہے

[التغابن:8]

واضح(روشنی)ہے۔

[النساء:174]


جس میں ہر مثال(مضمون)ہے لوگوں کیلئے

[الاسراء:89، الکھف:54، النور:35، الروم:58، الزمر:27]

مثال حکمت وبصیرت کی

[الاعراف:203، الجاثیہ:20]

مثال حق اور باطل کی

[الرعد:17]

مثال ان(دونوں)کے پیچھے چلنے والوں کی

[محمد:3]

مثال پاکیزہ کلمہ کی

[ابراھیم:24]

مثال ظالموں کے ساتھ ہمارے سلوک(عذاب۔پکڑ)کی

[ابراھیم:45]

مثال اللہ کی

[النور:35]

مثال اللہ کے علاؤہ جن اولیاء(رکھوالوں)کو(مشرکین)پکارتے ہیں

[العنکبوت:41- [43

مثال قرآن کی

[الحشر:21]

مثال جس کی سمجھ صرف عالم ہی رکھتے ہیں۔

[العنکبوت:43]





(1)سورۃ الفاتحہ کا تعارف:
سورۃ فاتحہ نہ صرف قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے ؛ بلکہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو مکمل طور پر نازل ہوئی، اس سے پہلے کوئی سورت پوری نہیں نازل ہوئی تھی ؛ بلکہ بعض سورتوں کی کچھ آیتیں آئی تھیں، اس سورت کو قرآن کریم کے شروع میں رکھنے کا منشأ بظاہر یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہو اسے سب سے پہلے اپنے خالق ومالک کی صفات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک حق کے طلب گار کی طرح اسی سے ہدایت مانگنی چاہیے ؛ چنانچہ اس میں بندوں کو وہ دعا سکھائی گئی ہے جو ایک طالب حق کو اللہ سے مانگنی چاہیے، یعنی سیدھے راستے کی دعا، اس طرح اس سورت میں صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی جو دعا مانگی گئی ہے پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھا راستہ کیا ہے؟








(2)سورۃ البقرہ کا تعارف:
یہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورت ہے، اس کی آیات 67 تا 73 میں اس گائے کا واقعہ مذکور ہے جسے ذبح کرنے کا حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام سورۃ البقرۃ ہے، کیونکہ بقرہ عربی میں گائے کو کہتے ہیں، سورت کا آغاز اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے بیان سے ہوا ہے، اسی ضمن میں انسانوں کی تین قسمیں یعنی، مومن، کافر اور منافق بیان کی گئی ہیں، پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے، تاکہ انسان کو اپنی پیدائش کا مقصد معلوم ہو، اس کے بعد آیات کے ایک طویل سلسلہ میں بنیادی طور پر خطاب یہودیوں سے ہے جوبڑی تعداد میں مدینہ منورہ کے آس پاس آباد تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں نازل فرمائیں اور جس طرح انہوں نے ناشکری اور نافرمانی سے کام لیا اس کا مفصل بیان ہے، پہلے پارہ کے تقریباً آخر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے، اس لئے کہ انہیں نہ صرف یہودی اور عیسائی بلکہ عرب کے بت پرست بھی اپنا پیشوا مانتے تھے، ان سب کو یاد دلایا گیا کہ وہ خالص توحید کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی کسی قسم کی شرک کو گوارہ نہیں کیا، اسی ضمن میں بیت اللہ کی تعمیر اور اسے قبلہ بنانے کا موضوع زیر بحث آیا ہے، دوسرے پارہ کے شروع میں اس کے مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس سورت میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں جن میں عبادت سے لے کر معاشرت، خاندانی امور اور حکمرانی سے متعلق بہت سے مسائل داخل ہیں۔ یہ سورت مدنی ہے اور اس میں 286 آیتیں اور 40 رکوع ہیں۔







(3)سورۃ آل عمران کا تعارف:

عمران حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام ہے اور‘‘ آل عمران ’’ کا مطلب ہے‘‘ عمران کا خاندان ’’ اس سورت کی آیات 33 تا 37 میں اس خاندان کا ذکر آیا ہے، اس لیے اس سورت کا نام‘‘ سورۃ آل عمران ’’ ہے۔ اس سورت کے بیشتر حصے اس دور میں نازل ہوئے ہیں جب مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے تھے، مگر یہاں بھی کفار کے ہاتھوں انہیں بہت سی مشکلات درپیش تھیں۔ سب سے پہلے غزوہ بدر پیش آیا جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غیر معمولی فتح عطا فرمائی، اور کفار قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے اگلے سال انہوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا، اور غزوہ احد پیش آیا، جس میں مسلمانوں کو عارضی پسپائی بھی اختیار کرنی پڑی۔ ان دونوں غزوات کا ذکر اس سورت میں آیا ہے، اور ان سے متعلق مسائل پر قیمتی ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے، سورۃ بقرہ میں ان کے عقائد و اعمال کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر ہوچکا ہے، اور ضمنا عیسائیوں کا بھی تذکرہ آیا تھا۔ سورۃ آل عمران میں اصل روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے، اور ضمنا یہودیوں کا بھی تذکرہ آیا ہے۔ عرب کے علاقے نجران میں عیسائی بڑی تعداد میں آباد تھے، ان کا ایک وفد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تھا۔ سورۃ آل عمران کا ابتدائی تقریبا آدھا حصہ انہی کے دلائل کے جواب اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی صحیح حیثیت بتانے میں صرف ہوا ہے۔ نیز اس سورت میں زکوٰۃ سود اور جہاد سے متعلق احکام بھی عطا فرمائے گئے ہیں، اور سورت کے آخرت میں دعوت دی گئی ہے کہ اس کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں پر انسان کو غور کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانا چاہیے، اور ہر حاجت کے لیے اسی کو پکارنا چاہئے۔ سورۃ آل عمران مدنی ہے اور اس میں 200 آیتیں اور 20 رکوع ہیں۔

(4)سورۃ النساء کا تعارف:

یہ سورت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی، اور اس کا اکثر حصہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مدینہ منورہ کی نوازائیدہ مسلمان ریاست مختلف مسائل سے دو چار تھی۔ زندگی کا ایک نیا ڈھانچہ ابھر رہا تھا جس کے لیے مسلمانوں کو اپنی عبادت کے طریقوں اور اخلاق و معاشرت سے متعلق تفصیلی ہدایات کی ضرورت تھی، دشمن طاقتیں اسلام کی پیش قدمی کا راستہ روکنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی تھیں، اور مسلمانوں کو اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے نت نئے مسائل کا سامنا تھا۔ سورۃ نساء نے ان تمام معاملات میں تفصیلی ہدایات فراہم کی ہیں۔ چونکہ ایک مستحکم خاندانی ڈھانچہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے، اس لیے یہ سورت خاندانی معاملات کے بارے میں مفصل احکام سے شروع ہوئی ہے۔ چونکہ خاندانی نظام میں عورتوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، اس لیے عورتوں کے بارے میں اس سورت نے تفصیلی احکام عطا فرمائے ہیں، اور اسی لیے اس کا نام سورۃ نساء ہے۔ جنگ احد کے بعد بہت سی خواتین بیوہ اور بہت سے بچے یتیم ہوگئے تھے، اس لیے سورت نے شروع ہی میں یتیموں کے حقوق کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے، اور آیت نمبر 14 تک میراث کے احکام تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے، ان مظالم کی ایک ایک کر کے نشاندہی کی گئی ہے، اور معاشرے سے ان کا خاتمہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ نکاح و طلاق کے مفصل احکام بیان کیے گئے ہیں، اور میاں بیوی کے حقوق متعین فرمائے گئے ہیں۔ یہ مضمون آیت نمبر 35 تک چلا ہے جس کے بعد انسان کی باطنی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ مسلمانوں کو عرب کے صحراؤں میں سفر کے دوران پانی کی قلت پیش آتی تھی، لہذا آیت 43 میں تیمم کا طریقہ اور آیت 101 میں سفر میں نماز قصر کرنے کی سہولت عطا فرمائی گئی ہے۔ نیز جہاد کے دوران نماز خوف کا طریقہ آیت 102 اور 103 میں بتایا گیا ہے۔ مدینہ منورہ میں بسنے والے یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ کرنے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا تھا، آیات 44 تا 57 اور 153 تا 175 میں ان کے ساتھ عیسائیوں کو بھی خطاب میں شامل کرلیا گیا ہے، اور انہیں تثلیث کے عقیدے کے بجائے خالص توحید اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ آیات 58، 59 میں سیاست اور حکمرانی سے متعلق ہدایات آئی ہیں۔ منافقین کی بد اعمالیاں آیات 60 تا 70 اور پھر آیات 137 تا 152 میں واضح کی گئی ہیں۔ آیات 71 تا 92 نے جہاد کے احکام بیان کر کے منافقین کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ اسی سیاق میں آیات 92، 93 میں قتل کی سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں۔ جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے اور کفار کے ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے، ان کی ہجرت کے مسائل آیات 97 تا 100 میں زیر بحث آئے ہیں، اسی دوران بہت سے تنازعات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے فیصلے کے لیے لائے گئے۔ آیات 105 تا 115 میں ان کے فیصلے کا طریقہ آپ کو بتایا گیا ہے، اور مسلمانوں کو آپ کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آیات 116 تا 126 میں توحید کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ خاندانی نظام اور میراث کے بارے میں صحابہ کرام نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد سوالات پوچھے تھے، آیات 127 تا 129 اور پھر 176 میں ان سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ پوری سورت احکام اور تعلیمات سے بھری ہوئی ہے، اور شروع میں تقوی کا جو حکم دیا گیا تھا، کہا جاسکتا ہے کہ پوری سورت اس کی تفصیلات بیان کرتی ہے۔




(5)سورۃ المائدہ کا تعارف:

یہ سورت حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے بالکل آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ علامہ ابو حیان فرماتے ہیں کہ اس کے کچھ حصے صلح حدیبیہ، کچھ فتح مکہ اور کچھ حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئے تھے۔ اس زمانے میں اسلام کی دعوت جزیرہ عرب کے طول و عرض میں اچھی طرح پھیل چکی تھی، دشمنان اسلام بڑی حد تک شکست کھاچکے تھے، اور مدینہ منورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قائم کی ہوئی اسلامی ریاست مستحکم ہوچکی تھی۔ لہذا اس سورت میں مسلمانوں کے سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل سے متعلق بہت سی ہدایات دی گئی ہیں۔ سورت کا آغاز اس بنیادی حکم سے ہوا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے عہد و پیمان پورے کرنے چاہیں۔ اس بنیادی حکم میں اجمالی طور پر شریعت کے تمام احکام آگئے ہیں چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہوں یا بندوں کے حقوق سے متعلق۔ اس ضمن میں یہ اصول بڑی تاکید کے ساتھ سمجھایا گیا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی ہر معاملہ انصاف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ دشمنان اسلام کو اب اسلام کی پیش قدمی روکنے سے مایوسی ہوچکی ہے اور اللہ نے اپنا دین مکمل فرما دیا ہے۔ اسی سورت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس قسم کی غذائیں حلال ہیں اور کس قسم کی حرام؟ اسی سلسلے میں شکار کے احکام بھی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اہل کتاب کے ذبیحے اور ان کی عورتوں سے نکاح کے احکام کا بیان آیا ہے، چوری اور ڈاکے کی شرعی سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں، کسی انسان کو ناحق قتل کرنا کتنا بڑا گناہ ہے ؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے، شراب اور جوے کو صریح الفاظ میں حرام قرار دیا گیا ہے، وضو اور تیمم کا طریہ بتایا گیا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے کس طرح اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو توڑا؟ اس کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ مائدہ عربی میں دسترخوان کو کہتے ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر 114 میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے متبعین نے یہ دعا کرنے کی فرمائش کی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسمانی غذاؤں کے ساتھ ایک دسترخوان نازل فرمائے۔ اس واقعے کی مناسبت سے اس سورت کا نام مائدہ یعنی دسترخوان رکھا گیا ہے۔

(6)سورۃ الانعام کا تعارف:

یہ سورت چونکہ مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اسلام اپنے ابتدائی دور میں تھی، اس لیے اس میں اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے اور ان عقائد پر جو اعتراضات کفار کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے، ان کا جواب دیا گیا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں پر کفار مکہ کی طرف سے طرح طرح کے ظلم توڑے جارہے تھے، اس لیے ان کو تسلی بھی دی گئی ہے۔ کفار مکہ اپنے مشرکانہ عقائد کے نتیجے میں جن بے ہود رسموں اور بے بنیاد خیالات میں مبتلا تھے، ان کی تردید فرمائی گئی ہے۔ عربی زبان میں انعام چوپایوں کو کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین مویشیوں کے بارے میں بہت سے غلط عقیدے رکھتے تھے، مثلا ان کو بتوں کے نام پر وقف کر کے ان کا کھانا حرام سمجھتے تھے۔ چونکہ اس سورت میں ان بے بنیادی عقائد کی تردید کی گئی ہے۔ (دیکھیے آیات 136 تا 146) اس لیے اس کا نام سورۃ الانعام رکھا گیا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند آیتوں کو چھوڑ کر یہ پوری سورت ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی تھی، لیکن علامہ آلوسہ (رح) نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان روایتوں پر تنقید کی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم یہ سورت مکی ہے، اور اس میں ایک سو پینسٹھ آیتیں اور بیس رکوع ہیں۔


(7)سورۃ الاعراف کا تعارف:

یہ سورت بھی مکی ہے۔ اس کا بنیادی موضوع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آخرت کو ثابت کرنا ہے۔ اس کے ساتھ توحید کے دلائل بھی بیان ہوئے ہیں۔ اور متعدد انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات بھی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ خاص طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر تشریف لے جانے کا واقعہ سب سے زیادہ مفصل طریقے پر اسی سورت میں آیا ہے۔ اعراف کے لفظی معنیٰ بلندیوں کے ہیں۔ اور اصطلاح میں یہ اس جگہ کا نام ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیان واقع ہے، اور جن لوگوں کے اچھے اور برے اعمال برابر ہوں گے ان کو کچھ عرصے کے لیے یہاں رکھا جائے گا، پھر ان کے ایمان کی وجہ سے آخر کار وہ بھی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ چونکہ اسی سورت میں اعراف اور اس میں رکھنے جانے والوں کا بیان تفصیل سے آیا ہے، اس لیے اس کا نام سورۃ اعراف رکھا گیا ہے۔


(8)سورۃ انفال کا تعارف:

یہ سورت تقریبا سن 2 ہجری کے آس پاس مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے، اور اس کے بیشتر مضامین جنگ بدر اور اس کے واقعات اور مسائل سے متعلق ہیں۔ یہ جنگ اسلام اور کفر کے درمیان پہلے باقاعدہ معرکے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح مبین عطا فرمائی ہے اور قریش مکہ کو ذلت آمیز شکست سے دور چار کیا۔ چنانچہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات بھی یاد دلائے ہیں، اور مسلمانوں نے جس جاں نثاری کے ساتھ یہ جنگ لڑی اس کی ہمت افزائی کے ساتھ بعض ان کمزوریوں کی بھی نشان دہی فرمائی ہے جو اس جنگ میں سامنے آئیں۔ اور آئندہ کے لیے وہ ہدایات بھی دی گئی ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کی کامیابی اور فتح و نصرت کا سبب بن سکتی ہیں۔ جہاد اور مال غنیمت کی تقسیم کے بہت سے احکام بھی بیان ہوئے ہیں اور چونکہ جنگ بدر اصل میں کفار کے ظلم و ستم کے پس منظر میں پیش آئی تھی، اس لیے ان حالات کا بھی زکر کیا گیا ہے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کا حکم ہوا۔ نیز جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، ان کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آجائیں۔ ہجرت کی وجہ سے میراث کی تقسیم سے متعلق کچھ احکام عارضی طور پر نافذ کیے گئے تھے۔ سورت کے آخر میں اسی وجہ سے میراث کے کچھ مستقل احکام دییے گئے ہیں۔ جنگ بدر چونکہ اس سورت کے بہت سے مضامین جنگ بدر کے مختلف واقعات سے متعلق ہیں، اس لیے ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے اس جنگ کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات یہاں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، تاکہ اس سے متعلق آیات کو ان کے صحیح پس منظر میں سمجھا جاسکے۔ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت کے بعد تیرہ سال مقیم رہے۔ اس دوران مکہ مکرمہ کے کفار نے آپ اور آپ کے جاں نثار صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو طرح طرح سے ستانے اور ناقابل برداشت تکلیفیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں تک کہ ہجرت سے ذرا پہلے آپ کو قتل کرنے کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا جس کا ذکر اسی سورت میں آنے والا ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو کفار مکہ مسلسل اس فکر میں رہے کہ آپ کو وہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا جائے۔ انہوں نے عبداللہ بن ابی کو مدینہ منورہ میں خط لکھا کہ تم لوگوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو پناہ دی ہے، اب یا تو تم انہیں پناہ دینے سے ہاتھ اٹھا لو، ورنہ ہم تم پر حملہ کریں گے۔ (دیکھے سنن ابو داؤد، کتاب الخراج، باب 23، حدیث نمبر 3004) انصار میں سے اوس کے قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ گئے تو عین طواف کے دوران ابو جہل نے ان سے کہا کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دے رکھی ہے، اور اگر تم ہمارے ایک سردار کی پناہ میں نہ ہوتے تو زندہ واپس نہیں جاسکتے تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ اگر مدینہ منوہ کا کوئی آدمی مکہ مکرمہ آئے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ حضرت سعد بن معاذ (رض) نے اس کے جواب میں ابو جہل سے کہہ دیا کہ اگر تم ہمارے آدمیوں کو مکہ مکرمہ آنے سے روکو گے تو ہم تمہارے لیے اس سے بھی بڑی رکاوٹ کھڑٰ کردیں گے، یعنی تم تجارتی قافلے لے کر جب شام جاتے ہو تو تمہارا راستہ مدینہ منورہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ اب ہم تمہارے قافلوں کو روکنے اور ان پر حملہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ (دیکھئے، صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 2، حدیث نمبر 3950) اس کے بعد کفار مکہ کے کچھ دستے مدینہ منورہ کے آس پاس آئے، اور مسلمانوں کے مویشی لوٹ کرلے گئے۔ حالات کے اس پس منظر میں ابو سفیان (جو اس وقت کفار مکہ کا سردار تھا) ایک بڑا بھاری تجارتی قافلہ لے کر شام گیا۔ اس قافلے میں مکہ مکرمہ کے ہر مرد و عورت نے سونا چاندی جمع کر کے تجارت میں شرکت کی غرض سے بھیجا تھا۔ یہ قافلہ شام سے سوفیصد نفع کما کر واپس آرہا تھا۔ یہ قافلہ ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا، اور پچاس ہزار دینار (گنیوں) کا سامان لارہا تھا، اور اس کے ساتھ چالیس مسلح افراد اس کی حفاظت پر متعین تھے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قافلے کی واپسی کا پتہ چلا تو حضرت سعد بن معاذ کے چیلنج کے مطابق آپ نے اس قافلے پر حمہ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس کے لیے باقاعدہ سپاہیوں کی بھرتی کا موقع نہیں تھا، اس لیے وقت پر جتنے صحابہ تیار ہوسکے، ان کی تعداد تین سو تیرہ تھی، کل ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے، ساٹھ زرہیں تھیں، اس مختصر سامان کے ساتھ آپ مدینہ منورہ سے نکلے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض غیر مسلم مصنفین نے اس واقعے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ایک پرامن تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ہمارے زمانے کے بعض مسلمان مصنفین نے اس اعتراض سے مرعوب ہو کر یہ دعوی کرنے کی کوشش کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ قافلے پر حملہ کرنے کا نہیں تھا، بلکہ ابو سفیان نے اپنے طور پر خطرہ محسوس کر کے ابوجہل کے لشکر کو دعوت دی تھی، لیکن واقعے کی یہ تشریح صحیح احادیث اور قرآن ارشادات کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ درحقیقت یہ اعتراض اس وقت کے حالات اور اس دور کے سیاسی، دفاعی اور معاشرتی ڈھانچے سے بے خبری پر مبنی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو واقعات ہم نے اوپر بیان کیے ہیں ان کی روشنی میں فریقین کے درمیان ایک مسلسل جنگ کی حالت موجود تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو نہ صرف چیلنج دے رکھے تھے، بلکہ کفار کی طرف سے عملی طور پر چھیڑ چھاڑ بھی شروع ہوچکی تھی۔ دوسرے حضرت سعد بن معاذ پہلے سے انہیں متنبہ کر آئے تھے کہ وہ ان کے قافلوں پر حملہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ تیسرے اس دور میں شہری اور فوجی افراد کی کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی۔ کسی معاشرے کے تمام بالغ مرد مقاتلہ یعنی لڑنے والے کہلاتے تھے۔ چنانچہ قافلے کی سر کردگی ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی جو اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کھلا دشمن تھا، اور اس کے ساتھ چالیس افراد میں سے ہر ایک قریش کے ان لوگوں میں سے تھا جو مسلمانوں کو ستانے میں پیش پیش رہے تھے، اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہے تھے، اور یہ قافلہ بھی اگر کامیابی سے مکہ مکرمہ پہنچ جاتاتو قریش کی جنگی طاقت میں بڑے اضافے کا سبب بنتا۔ ان حالات میں اس کو ایک پرامن تجارتی قافلے پر حملہ قرار دینا اس وقت کے حالات سے ناواقفیت یا محض عناد کا کرشمہ ہے، اور اس کی وجہ سے ان واقعات کا انکار کرنا کسی طرح درست نہیں ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ بہرحال ! جب ابو سفیان کو آپ کے ارادے کا اندازہ ہوا تو اس نے ایک طرف تو ایک تیز رفتار ایلچی ابو جہل کے پاس بھیج کر اس واقعے کی اطلاع کی، اور اسے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ آپ پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا، اور دوسری طرف اپنے قافلے کا راستہ بدل کر بحر احمر کے ساحل کی طرف نکل گیا تاکہ وہاں سے چکر کاٹ کر مکہ مکرمہ پہنچ سکے۔ ابو جہل نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر ایک بڑا لشکر تیار کیا اور لوہے میں غرق ہو کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب پتہ چلا کہ ابو سفیان تو قافلہ لے کر نکل چکا ہے اور ابو جہل کا لشکر آرہا ہے تو آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ سب نے یہی رائے دی کہ اب ابو جہل سے ایک فیصلہ کن معرکہ ہوجانا چاہیے۔ چنانچہ بدر کے مقام پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا۔ مسلمانوں کی تعداد اور سازو سامان ابو جہل کے لشکر کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی۔ ابوجہل سمیت قریش کے ستر سردار جو مسلمانوں کی دشمنی میں پیش پیش تھے مارے گئے، اور دوسرے ستر افراد گرفتار ہوئے اور باقی لوگ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔


(9)سورۃ توبہ کا تعارف:

یہ بھی مدنی سورت ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ اپنے مضامین کے اعتبار سے یہ پچھلی سورت یعنی سورۃ انفال کا تکملہ ہے۔ غالبا اسی لیے عام سورتوں کے برخلاف اس سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ نازل ہوئی، نہ لکھی گئی۔ اور اس کی تلاوت کا بھی قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص پیچھے سورۃ انفال سے تلاوت کرتا چلا آرہا ہو، اسے یہاں بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہیے، البتہ اگر کوئی شخص اسی سورت سے تلاوت شروع کر رہا ہو تو اس کو بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ اور بعض لوگوں نے اس سورت کے شروع میں بسم اللہ کے بجائے کچھ اور جملے پڑھنے کے لیے بنا رکھے ہیں، وہ بے بنیاد ہیں۔ اوپر جو طریقہ لکھا گیا ہے، وہی سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے۔ یہ سورت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ عرب کے بہت سے قبائل اس انتظار میں تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفار قریش کی جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے ،۔ جب قریش نے حدیبیہ والا معاہدہ توڑ دیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا، اور کسی خاص خونریزی کے بغیر اسے فتح کرلیا۔ اس موقع پر کفار کی کمر ٹوٹ چکی تھی، ا لبتہ آخری تدبیر کے طور پر قبیلہ ہوازن نے ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع کیا جس سے حنین کی وادی میں آخری بڑی جنگ ہوئی، اور شروع میں معمولی ہزیمت کے بعد مسلمانوں کو اس میں بھی فتح ہوئی۔ اس جنگ کے بعض واقعات بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اب عرب کے جو قبائل قریش کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے تھے، یا ان کی جنگوں کے آخری انجام کے منتظر تھے، ان کے دل سے اسلام کے خلا ہر رکاوٹ دور ہوگئی اور وہ جوق در جوق مدینہ منورہ آکر مسلمان ہوئے، اور اسی طرح جزیرہ عرب کے بیشتر علاقے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزیرہ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیا گیا۔ اصل منشا تو یہت ھا کہ پورے جزیرہ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے، جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں۔ (موطا امام مالک، کتاب الجامع و مسند احمد ج : 6 ص : 572) لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار فرمایا گیا۔ سب سے پہلا ہدف یہ مقرر فرمایا گیا کہ جزیرہ عرب کو بت پرستوں سے خالی کرایا جائے۔ چنانچہ جو بچے کھچے بت پرست عرب میں رہ گئے تھے، اور جنہوں نے بیس سال سے زیادہ مدت تک مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا تھا، ان کو اس سورت کے شروع میں مختلف مدتوں کی مہلت دی گئی جس میں اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انہیں جزیرہ عرب چھوڑنے، ورنہ جنگ کا سامنا کرنے کے احکام دییے گئے ہیں، اور مسجد حرام کو بت پرستی کی ہر نشانی سے پاک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ہدف کے پورا ہونے کے بعد جزیرہ عرب کی مکمل صفائی کا دوسرا مرحلہ یہود و نصاری کو وہاں سے نکالنے کا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ میں یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا تھا، لیکن آپ نے اس کی وصیت فرما دی تھی، جیسا کہ آیت نمبر 29 کے تحت اس کی وضاحت آنے والی ہے۔ اس سے پہلے روم کے بادشاہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ان پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی فوج جمع کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش قدمی کر کے اس کے مقابلے کے لیے تبوک تک تشریف لے گئے۔ اس سورت کا بہت بڑا حصہ اس مہم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ منافقین کی معاندانہ کارروائیاں مسلسل جاری تھی، اس سورت میں ان کی بدعنوانیوں کو بھی طشت ازبام کیا گیا ہے۔ اس سورت کو سورۃ توبہ بھی کہا جاتا ہے، اور سورۃ برائت بھی۔ برائت اس لیے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے برائت اور دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے، اور توبہ اس لیے کہ اس میں بعض ان صحابہ کرام کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے جنہوں نے تبوک کی مہم میں حصہ نہیں لیا تھا، اور بعد میں اپنی اس غلطی پر توبہ کی تھی۔ ان آیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے وہ پس منظر جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے تعارف میں اوپر بیان کیا گیا ہے، جزیرۂ عرب کو اسلام کا مرکز بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ کچھ عرصے کی مہلت کے بعد کوئی بت پرست مستقل طور پر جزیرۂ عرب میں نہیں رہ سکتا، چنانچہ ان آیات میں ان بچے کھچے مشرکین سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، اگرچہ یہ مشرکین وہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اور ان پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے، لیکن جزیرۂ عرب سے نکلنے کے لئے مختلف مہلتیں دی گئی ہیں جن کی تفصیل ان آیتوں میں آئی ہے، ان مشرکین کی چار قسمیں تھیں : (الف) پہلی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کیا ہوا تھا، ایسے مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ ان چار مہینوں میں وہ اگر اسلام لانا چاہتے ہیں تو اسلام لے آئیں، اور اگر جزیرۂ عرب سے باہر کہیں جانا چاہیں تو اس کا انتظام کرلیں، اگر یہ دونوں کام نہ کرسکیں توان کے خلاف ابھی سے اعلان کردیا گیا ہے کہ ان کو جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ (ترمذی، کتاب الحج، حدیث نمبر : 871)۔ (ب) دوسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ توتھا لیکن اس کی کوئی مدت متعین نہیں تھی، ان کے بارے میں بھی اعلان کردیا گیا کہ اب وہ معاہدہ چار مہینے تک جاری رہے گا، اس دوران ان کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جن کا ذکر پہلی قسم کے بارے میں کیا گیا، سورۂ توبہ کی پہلی اور دوسری آیت ان دو قسموں سے متعلق ہے۔ (ج) تیسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ تو کیا تھا ؛ لیکن انہوں نے بد عہدی کی، اور وہ معاہدہ توڑدیا، جیسے کفار قریش کے ساتھ حدیبیہ میں معاہدہ ہوا تھا ؛ لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی، اور اسی کی بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا تھا، ان لوگوں کو کوئی مزید مہلت تو نہیں دی گئی ؛ لیکن چونکہ دست برداری کا یہ اعلان حج کے موقع پر کیا گیا تھا جو خود حرمت والے مہینے میں ہوتا ہے، اور اس کے بعد محرم کا مہینہ بھی حرمت والا ہے، اور اس میں جنگ کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے ان کو محرم کے آخر تک مہلت مل گئی، انہی کے بارے میں آیت نمبر : 5 میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد اگر یہ، نہ ایمان لائیں اور نہ جزیرۂ عرب سے باہر جائیں توان کو قتل کردیا جائے گا۔ (د) چوتھی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ کسی خاص مدت تک کے لئے مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا، اور انہوں نے کوئی بد عہدی بھی نہیں کی تھی اسیے لوگوں کے بارے میں آیت نمبر : 4 میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے معاہدے کی جتنی بھی مدت باقی ہے اس کو پورا کیا جائے، اور اس پوری مدت میں ان کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے، مثلاً قبیلہ کنانہ کے دوچھوٹے قبیلے بنو ضمر اور بنو مدلج کے ساتھ آپ کا ایسا ہی معاہدہ تھا، اور ان کی طرف سے کوئی بد عہدی سامنے نہیں آئی تھی، ان کے معاہدہ کی مدت ختم ہونے میں اس وقت نو مہینے باقی تھے ؛ چنانچہ ان کو نو مہینے کی مہلت دی گئی۔ ان چاروں قسم کے اعلانات کو براءت یا دستبرداری کے اعلانات کہا جاتا ہے۔


(10)سورۃ یونس کا تعارف:

یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ البتہ بعض مفسرین نے اس کو تین آیتوں ( آیت نمبر 40 اور 94 اور 95) کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ مدیننہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن اس کا کوئی یقینی ثبوت موجود نہیں ہے۔ سورت کا نام حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا ہے جن کا حوالہ آیت نمبر 98 میں آیا ہے۔ مکہ مکرمہ میں سب سے اہم مسئلہ اسلام کے بنیادی عقائد کو ثابت کرنا تھا، اس لئے اکثر مکی سورتوں میں بنیادی زور توحید، رسالت اور آخرت کے مضامین پر دیا گیا ہے۔ اس سورت کے بھی مرکزی موضوعات یہی ہیں۔ اس کے ساتھ اسلام پر مشرکین عرب کے اعتراضات کے جواب دیئے گئے ہیں اور ان کے غلط طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے، اور انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی ضد جاری رکھی دنیا اور آخرت دونوں میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف عذاب آسکتا ہے۔ اسی سلسلہ میں پچھلے انبیائے کرام میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کے نتیجے میں فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اور حضرت نوح اور حضرت یونس علیہما السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان میں کافروں کے لئے تو یہ کہ انہوں نے پیغمبر کی مخالفت میں جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے، اس کے نتیجے میں ان کا انجام بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے لیے یہ تسلی کا سامان بھی ہے کہ ان ساری مخالفتوں کے باوجود آخری انجام ان شاء اللہ انہی کے حق میں ہوگا۔


(11)سورۃ ہود کا تعارف:

یہ سورت بھی مکی ہے، اور اس کے مضامین پچھلی سورت کے مضامین سے ملتے جلتے ہیں، البتہ سورۃ یونس میں جن پیغمبروں کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان ہوئے تھے، اس سورت میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب، اور حضرت لوط علیہم السلام کے واقعات زیادہ تفصیل سے انتہائی بلیغ اور موثر اسلوب میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی بڑی بڑی زور آور قوموں کو تباہ کرچکی ہے، اور جب انسان اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے قہر اور عذاب کا مستحق ہوجائے تو چاہے وہ کتنے بڑے پیغمبر سے قریبی رشتہ رکھتا ہو، اس کا یہ رشتہ اسے عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا، جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو نہیں بچا سکا۔ اس سورت میں عذاب الہی کے واقعات اتنے موثر انداز میں بیان ہوئے ہیں اور دین پر استقامت کا حکم اتنی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورۃ ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے، ان سورتوں میں جو تنبیہ کی گئی ہے اس کی بنا پر آپ کو اپنی امت کے بارے میں بھی یہ خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے اسی طرح کے کسی عذاب کا شکار نہ ہوجائے۔


(12)سورۃ یوسف کا تعارف:

یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کروایا تھا کہ بنو اسرائیل کے لوگ جو فلسطین کے باشندے تھے، مصر میں جاکر کیوں آباد ہوئے؟ ان لوگوں کا خیال تھا کہ آپ کے پاس چونکہ بنو اسرائیل کی تاریخ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس لیے آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے، اور اس طرح آپ کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ (معاذ اللہ) سچے نبی نہیں ہیں۔ اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ پوری سورۃ یوسف نازل فرما دی جس میں پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے۔ دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے، انہی کا دوسرا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کے بارہ صاحبزادے تھے، انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے۔ اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی بنیامین بھی شامل تھے۔ ان دونوں کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کر کے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ایک کنویں میں ڈال دیا، جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھا کر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا، شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے، لیکن اس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آرہی ہے، اس سرداری کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا، اور انہیں نہ صرف جیل سے نکال کر باعزت بری کردیا، بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا، اور بعد میں حکومت کے سارے اختیارات انہی کو سونپ دیے۔ اس کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو فلسطین سے مصر بلوا لیا۔ اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔ سورۃ یوسف کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا پورا واقعہ ایک ہی تسلسل میں تفصیل کے ساتھ زکر کیا گیا ہے، اور تقریبا پوری سورت اسی کے لیے وقف ہے، اور یہ واقعہ کسی اور سورت میں نہیں آیا۔ اس واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرما دی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ یہ بات ان پر بھی واضح تھی کہ اس واقعے کا علم ہونے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا، لہذا یہ تفصیل آپ کو وحی کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، ان کے پیش نظراس واقعے میں آپ کے لیے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہی کو عزت، شوکت اور سربلندی عطا فرمائی، اور جن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایا تھا، ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں، لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے، اور حق غالب ہو کر رہے گا۔ اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لیے بہت سے سبق ہیں، اور شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔


(13)سورۃ الرعد کا تعارف:

یہ سورت بھی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات اور ان پر عائد کیے جانے والے اعتراضات کا جواب ہے۔ پچھلی سورت یعنی سورۃ یوسف کے آخر ( آیت نمبر 105) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن کفار ان کی طرف دھیان دینے کے بجائے ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اب اس سورت میں کائنات کی ان نشانیوں کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے جو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ جس قادر مطلق نے اس کائنات کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے، اسے اپنی خدائی قائم کرنے کے لیے کسی مددگار یا شریک کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تو اس کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی بھی گواہی دیتا ہے، اور اس بات کی بھی کہ یہ سارا نظام اس نے بے مقصد پیدا نہیں کردیا۔ اس کا یقینا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ اس دنیوی زندگی میں کیے ہوئے ہر کام کا کسی دن حساب ہو، اور اس دن نیکیوں کا انعام اور برائیوں کی سزا دی جائے۔ اس سے خودبخود آخرت کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ پھر نیکی اور برائی کا تعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایات بندوں کو دی جائیں۔ ان ہدایات کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں جو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام معلوم کر کے دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں۔ لہذا اسی سے رسالت کا عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ کائنات کی جو نشانیاں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، ان میں بادلوں کی گرج چمک بھی ہے جس کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر 13 میں آیا ہے۔ عربی میں گرج کو رعد کہا جاتا ہے۔ اسی پر اس سورت کا نام رعد رکھا گیا ہے۔


(14)سورۃ ابراہیم کا تعارف:

دوسری مکی سورتوں کی طررح اس سورت کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کا انکار کرنے کے خوفناک نتائج پر تنبیہ ہے۔ چونکہ عرب کے مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مانتے تھے، اس لیے سورت کے آخر سے پہلے رکوع میں ان کی وہ پر اثر دعا نقل فرمائی گئی ہے جس میں انہوں نے شرک اور بت پرستی کی صاف صاف برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ انہیں اور ان کے بیٹوں کو بت پرستی سے محفوظ رکھا جائے۔ اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورۃ ابراہیم ہے۔


(15)سورۃ الحجر کا تعارف:

اس سورت کی آیت نمبر 94 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی، کیونکہ اس آیت میں پہلی بار آپ کو کھل کر اسلام کی عام تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ سورت کے شروع میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے، اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا جب وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اسلام لے آتے۔ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی ( معاذ اللہ) مجنون کہتے، اور کبھی کاہن قرار دیتے تھے۔ ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہانت کی حقیقت آیت نمبر 17 اور 18 میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ان لوگوں کے کفر کی اصل وجہ ان کا تکبر تھا، اس لیے ابلیس کا واقعہ آیات نمبر 26 تا 44 میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے تکبر نے کس طرح اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کیا۔ کفار کی عبرت کے لیے حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہم السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کافروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے۔ ان کا فریضہ اتنا ہے کہ وہ موثر انداز میں تبلیغ کریں، جو وہ بہترین طریقے پر انجام دے رہے ہیں۔ نتائج کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے۔ سورت کا نام قوم ثمود کی بستیوں کے نام پر رکھا گیا ہے جو حجر کہلاتی تھیں، اور ان کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر 80 میں آیا ہے۔


(16)سورۃ النحل کا تعارف:

اس سورت کا بنیادی موضوع اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا مفصل بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ اسی لیے اس سورت کو سورۃ النعم (نعمتوں کی سورت) بھی کہا جاتا ہے۔ عرب کے مشرکین عام طور سے یہ مانتے تھے کہ ان میں سے بیشتر نعمتیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں وہ بت بھی شریک ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا تذکرہ فرما کر انہیں توحید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ایمان نہ لانے کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ یہ سورت جس زمانے میں نازل ہوئی، اس وقت بہت سے مسلمان کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے تھے۔ آیت نمبر 41 و 42 میں ان کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے مصائب و آلام کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اور انہیں دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا عطا ہوگا، اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا اجر و ثواب ہے، بشرطیکہ وہ صبر سے کام لیں، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ سورت کے آخری حصے میں اسلامی شریعت کے کچھ اہم احکام بھی بیان فرمائے گئے ہیں جو ایک مسلمان کے طرز عمل کی بنیاد ہونے چاہیئں۔ نحل عربی میں شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر 68 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے شہد کی مکھی کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کے حکم سے پہاڑوں اور جنگلوں میں اپنے چھتے بناتی اور شہد پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے سورت کا نام نحل رکھا گیا ہے۔


(17)سورۃ بنی اسرائیل کا تعارف:

سورۃ بنی اسرائیل تعارف اس سورت کی سب سے پہلی آیت ہی یہ بتا رہی ہے کہ اس کا نزول معراج مبارک کے واقعے کے بعد ہوا ہے۔ اگرچہ معراج کے واقعے کی ٹھیک ٹھیک تاریخ یقینی طور پر متعین کرنا مشکل ہے، لیکن زیادہ تر روایات کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ عظیم واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے دس سال بعد اور ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس وقت تک اسلام کی دعوت کا پیغام نہ صرف عرب کے بت پرستوں تک، بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں تک بھی پہنچ چکا تھا۔ اس سورت میں معراج کے غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد بنو اسرائیل کے واقعے کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ کس طرح انہیں دو مرتبہ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح مشرکین عرب کو سبق دیا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی مخالفت سے بازآجائیں، ورنہ ان کو بھی اسی قسم کے انجام سے سابقہ پیش آسکتا ہے، کیونکہ اس وقت قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اعتدال کے ساتھ سیدھے راستے کی طرف ہدایت کر رہی ہے۔ ( آیت نمبر 9) پھر آیت نمبر 22 سے 38 تک مسلمانوں کو ان کے دینی، معاشرتی اور اخلاقی طرز عمل کے بارے میں نہایت اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ اور مشرکین کے نامعقول اور معاندانہ طرز عمل کی مذمت کر کے ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتے رہیں۔ چونکہ سورت کے شروع میں بنو اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے دو اہم واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے سورت کا نام سورۃ بنی اسرائیل ہے۔ اور اس کا دوسرا نام سورۃ الاسراء بھی ہے۔ اسراء سفر معراج کو اور خاص طور پر اس سفر کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے جایا گیا، سورت کا آغاز ہی چونکہ اس معجزانہ سفر کے تذکرے سے ہوا ہے، اس لیے اس کو سورۃ الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔

(18)سورۃ الکھف کا تعارف:

سورۃ الکہف تعارف حافظ ابن جریر طبری نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس سورت کا شان نزول یہ نقل کیا ہے کہ مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے دو آدمی مدینہ منورہ کے یہودی علماء کے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجے کہ تورات اور انجیل کے یہ علماء آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہودی علماء نے ان سے کہا کہ آپ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوالات کیجیے۔ اگر وہ ان کا صحیح جواب دے دیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور اگر وہ صحیح جواب نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کا نبوت کا دعوی صحیح نہیں ہے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ ان نوجواں کا وہ عجیب واقعہ بیان کریں جو کسی زمانے میں شرک سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے نکل کر کسی غار میں چھپ گئے تھے۔ دوسرے اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا۔ تیسرے ان سے پوچھیں کہ روح کی حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں شخص مکہ مکرمہ واپس آئے، اور اپنی برادری کے لوگوں کو ساتھ لے کر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ تین سوال پوچھے۔ تیسرے سوال کا جواب تو پچھلی سورت (85: 17) میں آچکا ہے۔ اور پہلے دو سوالات کے جواب میں یہ سوورت نازل ہوئی جس میں غار میں چھپنے والے نوجوانوں کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے، انہی کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے۔ کہف عربی میں غار کو کہتے ہیں، اصحاب کہف کے معنی ہوئے غار والے اور اسی غار کے نام پر سورت کو سورۃ الکہف کہا جاتا ہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں سورت کے آخر میں ذوالقرنین کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے جنہوں نے مشرق ومغرب کا سفر کیا تھا۔ اس کے علاوہ اسی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے جس میں وہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس تشریف لے گئے تھے، اور کچھ عرصہ ان کی معیت میں سفر کیا تھا۔ یہ تین واقعات تو اس سورت کا مرکزی موضوع ہیں۔ ان کے علاوہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو خدا کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، اس سورت میں بطور خاص اس کی تردید بھی ہے اور حق کا انکار کرنے والوں کو وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں، اور حق کے ماننے والوں کو نیک انجام کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔ سورۃ کہف کی تلاوت کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ خاص طور پر جمعہ کے دن اس کی تلاوت کی بڑی فضیلت آئی ہے، اور اسی لیے بزرگان دین کا معمول رہا ہے کہ وہ جمعہ کے دن اس کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔


(19)سورۃ مریم کا تعارف:

تعارف اس سورت کا بنیادی مقصد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں صحیح عقائد کی وضاحت اور ان کے بارے میں عیسائیوں کی تردید ہے۔ اگرچہ مکہ مکرمہ میں، جہاں یہ سورت نازل ہوئی، عیسائیوں کی کوئی خاص آبادی نہیں تھی، لیکن مکہ مکرمہ کے بت پرست کبھی کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کی تردید کے لیے عیسائیوں سے مدد لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے صحابہ کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے جہاں عیسائی مذہب ہی کی حکمرانی تھی۔ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمان حضرت عیسی، حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحی علیہم السلام کی صحیح حقیقت سے واقف ہوں۔ چنانچہ اس سورت میں ان حضرات کے واقعات اسی سیاق و سباق میں بیان ہوئے ہیں۔ اور چونکہ یہ واضح کرنا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بیٹے نہیں ہیں، جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے، بلکہ وہ انبیائے کرام ہی کے مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ اس لیے بعض دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کا بھی مختصر تذکرہ اس سورت میں آیا ہے۔ لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ ولادت اور اس وقت حضرت مریم علیہا السلام کی کیفیات سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان ہوئی ہیں، اس لیے اس کا نام سورۃ مریم رکھا گیا ہے۔

(20)سورۃ طٰہٰ کا تعارف:

سورۃ طہ تعارف یہ سورت مکہ مکرمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی۔ مستند روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمر (رض) اسی سورت کو سن کر اسلام لائے تھے۔ ان کی بہن حضرت فاطمہ اور ان کے بہنوئی حضرت سعید بن زید (رض) ان سے پہلے خفیہ طور پر اسلام لاچکے تھے جس کا انہیں پتہ نہیں تھا۔ ایک روز وہ گھر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ راستے میں نعیم بن عبداللہ نامی ایک صاحب انہیں ملے، انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ پہلے اپنے گھر کی خبر لیں جہاں آپ کی بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں۔ حضرت عمر غصے کے عالم میں واپس آئے تو بہن اور بہنوئی حضرت خباب بن ارت (رض) سے سورۃ طہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر کو آتے دیکھا تو انہوں نے وہ صحیفہ جس پر سورۃ طہ لکھی ہوئی تھی، کہیں چھپا دیا، لیکن حضرت عمر پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم مسلمان ہوچکے ہو، اور یہ کہہ کر بہن اور بہنوئی دونوں کو بہت مارا۔ اس وقت ان دونوں نے کہا کہ آپ ہمیں کوئی بھی سزا دیں، ہم مسلمان ہوچکے ہیں، اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، وہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے کہا کہ اچھا مجھے بھی دکھاؤ، وہ کیسا کلام ہے۔ بہن نے ان سے غسل کروا کر صحیفہ ان کو دکھایا جس میں سورۃ طہ لکھی ہوئی تھی۔ اسے پڑھ کر حضرت عمر (رض) مبہوت رہ گئے، اور انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا نہیں، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ حضرت خباب (رض) نے بھی انہیں اسلام لانے کی ترغیب دی، اور بتایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق دے کر اسلام کی قوت کا سامان پیدا فرمادے۔ چنانچہ اسی وقت وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اسلام قبول کرلیا۔ جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی، وہ مسلمانوں کے لیے بڑی آزمائش اور تکلیفوں کا زمانہ تھا۔ کفار مکہ نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اس لیے اس سورت کا بنیادی مقصد ان کو تسلی دینا تھا کہ اس قسم کی آزمائشیں حق کے علمبرداروں کو ہر زمانے میں پیش آئی ہیں، لیکن آخری انجام انہی کے حق میں ہوا ہے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ نہایت تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان ہوا ہے جس سے دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں، یہ بھی کہ ایمان والوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ بھی کہ آخری فتح انہی کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت کرنا مقصود ہے کہ تمام انبیائے کرام کی بنیادی دعوت ایک ہی ہوتی ہے کہ انسان خدائے واحد پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔

(21)سورۃ الانبیاء کا تعارف:

سورۃ الانبیاء تعارف اس سورت کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات ہے، اور ان عقائد کے خلاف کفار مکہ جو اعتراضات اٹھایا کرتے تھے، سورت میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ان لوگوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ ایک ہم جیسے انسان کو پیغمبر بنا کر کیوں بھیجا گیا ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ انسانوں کے پاس انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجنا مناسب تھا، اور اس ضمن میں بہت سے پچھلے پیغمبروں کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ سب انسان ہی تھے، اور انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو انہی عقائد کی تعلیم دی تھی جو حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقائد ہیں۔ انبیائے کرام کے اسی حوالے کی بنا پر اس سورت کا نام سورۃ الانبیاء رکھا گیا ہے۔

(22)سورۃ الحج کا تعارف:

سورۃ الحج تعارف اس سورت کا کچھ حصہ مدنی ہے، اور کچھ مکی۔ مطلب یہ ہے کہ اس سورت کا نزول مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے شروع ہوچکا تھا، اور تکمیل ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اسی سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ حج کی عبادت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں کس طرح شرو ع ہوئی، اور اس کے بنیادی ارکان کیا ہیں؟ اسی وجہ سے اس کا نام سورۃ حج ہے۔ مکہ مکرمہ میں مشرکین نے مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلم کا نشانہ بنایا تھا، وہاں مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی جاتی تھی، لیکن مدینہ منورہ آنے کے بعد اسی سورت میں پہلی بار مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم کے مقابلے میں جہاد کی اجازت دی گئی، اور فرمایا گیا کہ جن کافروں نے مسلمانوں پر ظلم کر کے انہیں اپنا وطن اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے، اب مسلمان ان کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح جہاد کو ایک عبادت قرار دے کر یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ نہ صرف اس کا ثواب آخرت میں ملے گا، بلکہ دنیا میں بھی مسلمانوں کو ان شاء اللہ فتح نصیب ہوگی۔ اس کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد بھی بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ سورت کا آغاز آخرت کے بیان سے ہوا ہے جس میں قیامت کا ہولناک منظر بڑے موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

(23)سورۃ المومنون کا تعارف:

سورۃ المومنون تعارف اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے وہ بنیادی صفات ذکر فرمائی ہیں جو مسلمانوں میں پائی جانی چاہیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عمر (رض) کے حوالے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اس سورت کی پہلی دس آیتوں میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، اگر کوئی شخص وہ ساری باتیں اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ اسی لیے اس سورت کا نام مومنون ہے۔ یعنی وہ سورت جو یہ بیان کرتی ہے کہ مسلمانوں کو کیسا ہونا چاہیے۔ نیز نسائی میں روایت ہے کہ ایک صاحب نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق اور اوصاف کیسے تھے ؟ اس کے جواب میں حضرت عائشہ (رض) نے سورۃ مومنون کی یہ دس آیتیں تلاوت فرما دیں کہ یہ سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف تھے۔ سورت کا بنیادی مقصد انسان کو اس کی اصلیت کی طرف متوجہ کر کے اس بات پر غوروفکر کی دعوت دینا ہے کہ اس کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے، اور بالاخر مرنے کے بعد جو زندگی آنی ہے، اس میں انسان کا نجام کیا ہوگا؟ اس کے علاوہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک بہت سے انبیائے کرام کے واقعات اس سورت میں دہرائے گئے ہیں، تاکہ یہ بات واضھ ہو کہ ان سب پیغمبروں کی دعوت تواتر کے ساتھ ایک ہی تھی، اور جن لوگوں نے ان کا انکار کیا، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا نشانہ بننا پڑا۔ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے ان کی نیکیوں اور برائیوں کا حساب لیں گے، اور ہر انسان کو اپنے عقیدے اور عمل کے اعتبار سے جزا وسزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس عقیدے کو کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کی طرف متوجہ کر کے ثابت کیا گیا ہے۔

(24)سورۃ النور کا تعارف:

سورۃ نور تعارف اس سورت کا مرکزی موضوع معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو روکنے اور عفت و عصمت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہدایات اور احکام دینا ہے۔ پچھلی سورت کے شروع میں مومنوں کی جو خصوصیات بیان فرمائی گئی تھیں، ان میں سے ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی باعفت زندگی گزارتے ہیں۔ اب اس سورت میں باعفت زندگی گزارنے کے ضروری تقاضے بیان فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ سورت کے شروع ہی میں زنا کی شرعی سزا بیان فرمائی گئی ہے، اور ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح زنا انتہائی گھناؤنا جرم ہے، اسی طرح کسی بے گناہ پر شرعی ثبوت کے بغیر زنا کا الزام لگانا بھی نہ صرف سخت گناہ ہے، بلکہ اس پر بھی سخت قانونی سزا مقرر فرمائی گئی ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ سورت ہجرت کے بعد چھٹے سال نازل ہوئی اس سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرب کے ایک قبیلے بنو المصطلق کے بارے میں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ آپ پر حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر جمع کر رہا ہے۔ آپ نے اس کے حملے سے پہلے ہی پیش قدمی کر کے اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اسی سفر سے واپسی پر منافقین نے حضرت صدیقہ عائشہ (رض) کے خلاف بڑی کمینگی کے ساتھ ایک بے بنیاد تہمت لگائی، اور اسے مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر شہرت دی جس سے کچھ مخلص مسلمان بھی متاثر ہوگئے۔ اس سورت کی آیات : 11 تا 20 حضرت عائشہ کی براءت کا اعلان کرنے کے لیے نازل ہوئیں۔ اور جن لوگوں نے تہمت لگانے کا گھناؤنا جرم کیا تھا ان کو اور معاشرے میں عریانی و فحاشی پھیلانے والوں کو سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئیں۔ نیز عفت وعصمت کی حفاظت کے پہلے قدم کے طور پر خواتین کو پردے کے احکام بھی اسی سورت میں دیے گئے ہیں، اور دوسروں کے گھر جانے کے لیے ضروری آداب و احکام کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔



(25)سورۃ الفرقان کا تعارف:

سورۃ فرقان تعارف یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کے بارے میں کفار مکہ کے مختلف اعتراضات کا جواب دینا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے کائنات میں انسان کے لیے جو بیشمار نعمتیں پیدا فرمائی ہیں، انہیں یاد دلا کر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری، اس کی توحید کے اقرار اور شرک سے علیحدگی کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی گئی ہیں، اور ان کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آخرت میں جو اجر وثواب رکھا ہے، اس کا بیان فرمایا گیا ہے۔



(26)سورۃ الشعراء کا تعارف:

سورۃ الشعراء تعارف حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت سورۃ واقعہ (سورہ نمبر 56) کے بعد نازل ہوئی تھی۔ یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی کا وہ زمانہ تھا جس میں کفار مکہ آپ کی دعوت کی بڑے زور و شور سے مخالفت کرتے ہوئے آپ سے اپنی پسند کے معجزات دکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس سورت کے ذریعے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی دی گئی ہے، اور کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلا کر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں انصاف ہو اور وہ سچے دل سے حق کی تلاش کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ نشانیاں اس توحید کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اور اسے کسی اور معجزے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی ضمن میں پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے واقعات یہ بیان کرنے کے لیے سنائے گئے ہیں کہ ان کی قوموں نے جو معجزات مانگے تھے، انہیں وہی معجزات دکھائے گئے، لیکن وہ پھر بھی نہ مانے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب منہ مانگے معجزات دیکھنے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اس بنا پر کفار مکہ کو مہلت دی جارہی ہے کہ وہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرنے کے بجائے توحید و رسالت کے دوسرے دلائل پر کھلی آنکھوں سے غور کر کے ایمان لائیں، اور ہلاکت سے بچ جائیں۔ کفار مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کاہن کہتے تھے، کبھی جادو گر اور کبھی آپ کو شاعر کا نام دیتے تھے۔ سورت کے آخری رکوع میں ان باتوں کی مدلل تردید فرمائی گئی ہے، اور کاہنوں اور شاعروں کی خصوصیات بیان کر کے جتایا گیا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نہیں پائی جاتی۔ اسی ضمن میں آیت 224 تا 227 نے شعراء کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اسی وجہ سے سورت کا نام شعراء رکھا گیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں صفحہ نمبر 1141)

(27)سورۃ النمل کا تعارف:

سورۃ نمل تعارف حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت پچھلی سورت یعنی سورۃ شعراء کے فورا بعد نازل ہوئی تھی۔ دوسری مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور کفر کے برے نتائج کا بیان ہے۔ حضرت موسی، اور حضرت صالح علیہما السلام کے واقعات کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی قوموں نے اس بنا پر ان کی بات نہیں مانی کہ انہیں اپنی دولت اور اپنے سماجی رتبے پر گھمنڈ تھا۔ اسی طرح کفار مکہ بھی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کررہے تھے۔ دوسری طرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی دولت اور بے نظیر بادشاہت سے نوازا تھا، لیکن یہ دولت اور بادشاہت ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہوئی۔ اسی طرح سبا کی ملکہ بلقیس بھی بہت دولت مند تھی، لیکن حق واضح ہونے کے بعد اس نے اس کو فورا قبول کرلیا۔ اس سیاق میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور سبا کی ملکہ کا واقعہ اس سورت میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور اس کے بعد کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کو بڑے موثر انداز میں ذکر فرمایا گیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے۔ نمل کے معنی عربی میں چیونٹی کے ہوتے ہیں، اور چونکہ اس سورت کی آیت نمبر 18 میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ چیونٹیوں کی وادی کے پاس سے گزرے تھے، اس لیے اس کا نام سورۃ نمل رکھا گیا ہے۔

(28)سورۃ القصص کا تعارف:

سورۃ القصص تعارف حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت میں ہے کہ یہ سورت سورۃ نمل (سورت نمبر 27) کے بعد نازل ہوئی تھی، اور مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری سورت ہے جو مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے نازل ہوئی، کیونکہ اس کی آیت نمبر 85 اس وقت نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غرض سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ سورت کا مرکزی موضوع حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی دعوت کی سچائی کو ثابت کرنا ہے۔ سورت کی پہلی 43 آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ابتدائی زندگی کی وہ تفصیلات بیان فرمائی گئی ہیں جو کسی اور سورت میں بیان نہیں ہوئیں۔ اس واقعے کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد آیات 44 تا 47 میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ان واقعات کو اتنی تفصیل سے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اس کے باوجود جب آپ یہ واقعات بیان فرما رہے ہیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ کفار مکہ کی طرف کی سے آپ کی نبوت اور رسالت پر جو اعتراضات کیے جاتے تھے، ان کا شافی جواب بھی اس سورت میں دیا گیا ہے، اور آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ ضد پر اڑے ہوئے ہیں، ان کے طرز عمل کی کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔ پھر کفار مکہ جن جھوٹے خداؤں پر ایمان رکھتے تھے، ان کی تردید کی گئی ہے۔ قریش کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت پر غرور کی وجہ سے بھی آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔ ان کی عبرت کے لیے آیات 76 تا 82 میں قارون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند شخص تھا، لیکن اس کی دولت اسے تباہی سے نہ بچا سکی جو غرور اور ضد کے نتیجے میں اس پر آکر رہی۔ سورت کے آخر میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگرچہ اس وقت آپ بے سروسامانی کی حالت میں مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو فاتح کی حیثیت سے دوبارہ مکہ مکرمہ واپس آنے کا موقع عنایت فرمائے گا۔ یہ سورت مکی ہے اور اس میں اٹھاسی آیتیں اور نو رکوع ہیں۔

(29)سورۃ العنکبوت کا تعارف:

سورۃ عنکبوت تعارف یہ سورت مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ہاتھوں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی تھیں، بعض مسلمان ان تکلیفوں کی شدت سے بعض اوقات پریشان ہوتے اور ان کی ہمت ٹوٹنے لگتی تھی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے مسلمانوں کو بڑی قیمتی ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ اول تو سورت کے بالکل شروع میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جو جنت تیار فرمائی ہے وہ اتنی سستی نہیں ہے کہ کسی تکلیف کے بغیر حاصل ہوجائے۔ ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ دوسرے یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ یہ ساری تکلیفیں عارضی نوعیت کی ہیں، اور آخرکار ایک وقت آنے والا ہے جب ظالموں کو ظلم کرنے کی طاقت نہیں رہے گی، اور غلبہ اسلام اور مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا۔ اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات سنائے ہیں جن میں سے ہر واقعے میں یہی ہوا ہے کہ شروع میں ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو برباد کیا اور مظلوم مومنوں کو فتح عطا فرمائی۔ مکی زندگی کے اسی زمانے میں کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین کفر پر بضد رہے، اور اپنی اولاد کو واپس کفر اختیار کرنے پر مجبور کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین ہونے کی وجہ سے ان کی اولاد کو دین و مزہب کے معاملے میں میں بھی ان کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ اس سورت کی آیت نمبر 8 میں اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں یہ معتدل اور برحق اصول بیان فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ انسان کا فرض ہے، لیکن اگر وہ کفر یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ جن مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ کے کافروں کا ظلم و ستم ناقابل برداشت ہورہا تھا، ان کو اس سورت میں نہ صرف اجازت، بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اطمینان کے ساتھ ساتھ اپنے دین پر عمل کرسکیں۔ بعض کافر لوگ مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو، اور اگر اس کے نتیجے میں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا آئی تو تمہاری طرف سے ہم اسے بھگت لیں گے۔ اس سورت کی آیات 12 و 13 میں اس لغو پیشکش کی حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ آخرت میں کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ اس کے علاوہ توحید، رسالت اور آخرت کے دلائل بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں جو اعتراضات کافروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے، ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ عنکبوت عربی میں مکڑی کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر 41 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مکڑی کے جالے پر بھروسہ کر رکھا ہو، اس لیے اس سورت کا نام سورۃ عنکبوت ہے۔ یہ سورت مکی ہے اور اس میں انہتر آیتیں اور سات رکوع ہیں۔

(30)سورۃ الروم کا تعارف:

اس سورت کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے جو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی اور حقانیت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کرتا ہے، جس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اس کے ہر بادشاہ کو کسری کہا جاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے، یعنی آگ کو پوجتے تھے، دوسری بڑی طاقت روم کی تھی، جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی، شام، مصر، ایشیائے کو چک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے، اور اس کے ہر بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی، جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اور اس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کرلئے تھے، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کرکے رومیوں کو مسلسل پیچھے ڈھکیلتی جارہی تھی، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہورہا تھا، ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں، اور جب کبھی اریان کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اس پر نہ صرف خوشی مناتے بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں مسلسل شکست کھاتے جارہے ہیں، اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے، انہیں برابر فتح نصیب ہورہی ہے، اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی، اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشینگوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھاگئے ہیں، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کرکے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور اس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک و قت دو پیشنگوئیاں کی گئیں، ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھاگئے ہیں وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور دوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہیں اس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے، یہ دونوں پیشینگوئیاں اس وقت کے ماحول میں اتنی بعید از قیاس تھیں کہ کوئی شخص جو اس وقت کے حالات سے واقف ہو ایسی پیشینگوئی نہیں کرسکتا تھا، مسلمان اس وقت جس طرح کافروں کے ظلم وستم میں دبے اور پسے ہوئے تھے، اس کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں، دوسری طرف سلطنت روما کا حال بھی یہ تھا کہ اس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا، چنانچہ سلطنت روما کا مشہور مؤرخ ایڈروڈ گبن اس پیشینگوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : جس وقت مبینہ طور پر یہ پیشینگوئی کی گئی اس وقت کسی بھی پیشینگوئی کا پورا ہونا اس سے زیادہ بعید نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ قیصر ہرقل کی حکومت کے پہلے بارہ سالوں میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ رومی سلطنت کا خاتمہ بالکل قریب آچکا ہے : Gibbon: The Decline and Fall of the Roman Epaire,chapter 46,Volume 2,P.125,Great Books,V.38,University of Chicago,1990 چنانچہ مکہ مکرمہ کے مشرکین نے اس پیشینگوئی کا بہت مذاق اڑایا، یہاں تک کہ ان کے ایک مشہور سردار ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے یہ شرط لگالی کہ اگر آئندہ نوسال کے درمیان روم کے لوگ ایرانیوں پر غالب آگئے تو وہ حضرت ابوبکر کو سواونٹ دے گا، اور اگر اس عرصے میں وہ غالب نہ آئے تو حضرت ابوبکر صدیق اس کو سو اونٹ دیں گے (اس وقت تک اس قسم کی دو طرفہ شرط لگانا حرام نہیں کیا گیا تھا)، چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایرانیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک وہ قیصر کے پایۂ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے اور انہوں نے قیصر ہرقل کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر یہ جواب دیا کہ انہیں ہرقل کے سر کے سوا کوئی اور پیشکش منظور نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا لیکن اسکے فوراً بعد حالات نے عجیب وغریب پلٹا کھایا، ہر قل نے مجبور ہو کر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کیا جس میں اسے ایسی کامیابی حاصل ہوئی جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا، اس پیشینگوئی کو ابھی سات سال گزرے تھے کہ رومیوں کی فتح کی خبر عرب تک پہنچ گئی، جس وقت یہ خبر پہنچی یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب بدر کے میدان میں سردار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کے لشکر کو عبرتناک شکست دی تھی، اور مسلمانوں کو اس فتح پر غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی تھی، اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیشینگوئیاں کھلی آنکھوں اس طرح پوری ہوئیں جس کا بظاہر حالات کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا، اور اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی، اس وقت ابی بن خلف جس نے حضرت ابوبکر (رض) سے شرط لگائی تھی مرچکا تھا، لیکن اس کے بیٹوں نے شرط کے مطابق سو اونٹ حضرت ابوبکر (رض) کو ادا کئے، اور چونکہ اس وقت جوے کی حرمت آچکی تھی اور دو طرفہ شرط جوے ہی کی ایک شکل ہے، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو حکم دیا کے وہ یہ اونٹ خود استعمال کرنے کے بجائے صدقہ کردیں۔ اس پیشینگوئی کے علاوہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد تو حید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا ہے اور مخالفین کی تردید کی گئی ہے۔

(31)سورۃ لقمان کا تعارف:


یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے بارے میں کفار مکہ کی مخالفت اپنے شباب پر تھی اور کافروں کے سردارحیلوں بہانوں اور پر تشدد کاروائیوں سے اسلام کی نشر واشاعت کا راستہ روکنے کی کوششیں کررہے تھے، قرآن کریم کا اثر انگیز اسلوب جب لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتا تو وہ ان کی توجہ اس سے ہٹانے کے لئے انہیں قصے کہانیوں اور شعر وشاعری میں الجھا نے کی کوشش کرتے تھے، جس کا تذکرہ اس سورت کے شروع (آیت نمبر : 6) میں کیا گیا ہے، حضرت لقمان اہل عرب ایک بڑے عقل مند اور دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے، ان کی حکیمانہ باتوں کو اہل عرب بڑاوزن دیتے تھے، یہاں تک کہ شاعروں نے اپنے اشعار میں ان کا ایک حکیم کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے، قرآن کریم نے اس سورت میں واضح فرمایا ہے کہ لقمان جیسے حکیم اور دانشور جن کی عقل وحکمت کا تم بھی لوہا مانتے ہو وہ بھی توحید کے قائل تھے، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک ماننے کو ظلم عظیم قرار دیا تھا، اور اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ تم کبھی شرک مت کرنا، اس ضمن میں اس سورت نے ان کی اور بھی کئی قیمتی نصیحتیں ذکر فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں، دوسری طرف مکہ مکرمہ کے مشرکین کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو توحید اور نیک عمل کی نصیحت تو کیا کرتے انہیں شرک پر مجبور کرتے تھے، اور اگر ان کی اولاد میں سے کوئی مسلمان ہوجاتا تو اس پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ دوبارہ شرک کو اختیار کرلے، اس مناسبت سے حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان ( آیات نمبر : 14، 15 میں) اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر وہ اصول بیان فرمایا ہے جو پیچھے سورۂ عنکبوت (8: 29) میں بھی گزرا ہے کہ والدین کی عزت اور اطاعت اپنی جگہ لیکن اگر وہ اپنی اولاد کو شرک اختیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں تو ان کا کہنا ماننا جائز نہیں، اس کے علاوہ یہ سورت توحید کے دلائل اور آخرت کی یاد دہانی کے مؤثر مضامین پر مشتمل ہے۔

(32)سورۃ السجدہ کا تعارف:

اس سورت کا مرکزی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد، یعنی توحید، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آخرت کا اثبات ہے، نیز جو کفار عرب ان عقائد کی مخالفت کرتے تھے، اس سورت میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ان کا انجام بھی بتایا گیا ہے، چونکہ اس سورت کی آیت نمبر : 15، سجدے کی آیت ہے، یعنی جو شخص بھی اس کی تلاوت کرے یا سنے اس پر سجدہ ٔ تلاوت واجب ہے، اس لئے اس کا نام تنزیل السجدہ یا الم سجدہ یا صرف سورۂ سجدہ رکھا گیا ہے، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں بکثرت یہ سورت پڑھا کرتے تھے، اور مسند احمد (3: 34) کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ رات کو سونے سے پہلے دو سورتوں کی تلاوت ضرور فرماتے تھے، ایک سورۂ تنزیل السجدہ اور دوسری سورۂ ملک۔

(33)سورۃ الاحزاب کا تعارف:

یہ سورت حضور سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد چوتھے اور پانچویں سال کے درمیان نازل ہوئی ہے، اس کے پس منظر میں چار واقعات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں جن کا حوالہ اس سورت میں آیا ہے، ان چار واقعات کا مختصر تعارف درج ذیل ہے، تفصیلات ان شاء اللہ متعلقہ آیتوں کی تشریح میں آگے آئیں گے۔ پہلا واقعہ جنگ احزاب کا ہے، جس کے نام پر اس سورت کا نام رکھا گیا ہے، بدر واحد کی ناکامیوں کے بعد قریش کے لوگوں نے عرب کے دوسرے قبائل کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اکسایا، اور ان کا ایک متحدہ محاذ بناکر مدینہ منورہ پر حملہ کیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان فارسی (رض) کے مشورے پر مدینہ منورہ کے دفاع کے لئے شہر کے گرد ایک حندق کھودی تاکہ دشمن اسے عبور کرکے شہر تک نہ پہنچ سکے، اسی لئے اس جنگ کو جنگ خندق بھی کہا جاتا ہے، اس جنگ کے اہم واقعات اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، اور اس موقع پر مسلمانوں کو جس شدید آزمائش سے گزرنا پڑا، اس کی تفصیل بھی بیان فرمائی گئی ہے۔ دوسرا اہم واقعہ جنگ قریظہ کا ہے، قریظہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ منورہ کے مضافات میں آباد تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے بعد ان سے امن کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کے دشمنوں کی مدد نہیں کریں گے، لیکن قریظہ کے یہودیوں نے معاہدے کی دوسری خلاف ورزیوں کے علاوہ جنگ احزاب کے نازک موقع پر خفیہ ساز باز کرکے پیچھے سے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپنا چاہا، اس لئے جنگ احزاب سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ فوراً قریظہ پر حملہ کرکے ان آستین کے سانپوں کا قلع قمع فرمائیں، چنانچہ آپ نے ان کا محاصرہ فرمایا، جس کے نتیجے میں ان کے بہت سے افراد قتل ہوئے اور بہت سے گرفتار، اس واقعے کی بھی تفصیل اس سورت میں آئی ہے۔ تیسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ اہل عرب جب کسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیتے تو اس ے ہر معاملے میں سگے بیٹے کا درجہ دیتے تھے، یہاں تک کہ وہ میراث بھی پاتا تھا، اور اس کے منہ بولے باپ کے لئے جائز نہیں سمجھاجاتا تھا کہ وہ اس کی بیوہ یا مطلقہ بیوی سے نکاح کرے، بلکہ اس کو بدترین معیوب عمل سمجھا جاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی، عرب کی یہ جاہلانہ رسمیں دلوں میں ایسا گھر کرگئی تھیں کہ ان کا خاتمہ صرف زبانی نصیحت سے نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی رسموں کا خاتمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے خود علی الاعلان ان رسموں کے خلاف عمل فرمایا تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ اگر اس کام میں ذرا بھی کوئی خرابی ہوتی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس بھی نہ جاتے، اس کی بہت سی مثالیں آپ کی سیرت طیبہ میں موجود ہیں، منہ بولے بیٹے کے بارے میں جو رسم تھی، اس کے سد باب کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنے ایک منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ (رض) کی مطلقہ بیوی حضرت زینب بنت جحش (رض) سے نکاح فرمائیں، واضح رہے کہ حضرت زینب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپی کی بیٹی تھیں، اور حضرت زید (رض) سے ان کا نکاح خود آپ نے کروایا تھا، اس لئے اگرچہ اب ان سے نکاح کرنا آپ کے لئے صبر آزما عمل تھا ؛ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور دینی مصلحت کے آگے سر جھکادیا، اور ان سے نکاح کرلیا، اسی نکاح کے ولیمے میں حجاب (پردے) کے احکام پر مشتمل آیات نازل ہوئیں جو اس سورت کا حصہ ہیں۔ چوتھا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات نے اگرچہ ہر طرح کے سرد گرم حالات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھر پور ساتھ دیا، لیکن جب آپ کے پاس مختلف فتوحات کے نتیجے میں مالی طور پر وسعت ہوئی تو انہوں نے اپنے نفقے میں اضافے کا مطالبہ کردیا، یہ مطالبہ عام حالات میں کسی بھی طرح کوئی ناجائز مطالبہ نہیں تھا لیکن پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا شرف رکھنے والی ان مقدس خواتین کا مقام بلند اس قسم کے مطالبات سے بالاتر تھا۔ اس لئے اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی زیب وزینت چاہتی ہیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں اعزاز واکرام کے ساتھ علیحدہ کرنے کو تیار ہیں، اور اگر وہ پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کی ساتھی ہیں اور آخرت کے انعامات کی طلب گار ہیں تو پھر اس قسم کے مطالبے ان کو زیب نہیں دیتے۔ چونکہ حضرت زینب (رض) سے نکاح کے واقعے پر کفار اور منافقین نے آپ کے خلاف اعتراضات کئے تھے، اس لئے اسی سورت میں حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بلند بتایا گیا ہے، اور آپ کی تعظیم وتکریم اور اطاعت کا حکم دے کر یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ آپ جیسی عظیم شخصیت پر نادانوں کے یہ اعتراضات آپ کے مقام بلند میں ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتے، اس کے علاوہ ازواج مطہرات (رض) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل اور اس سے متعلق بعض تفصیلات بھی اس سورت میں بیان ہوئی ہیں۔

(34)سورۃ سبا کا تعارف:

اس سورت کا بنیادی موضوع اہل مکہ اور دوسرے مشرکین کو اسلام کے بنیادی عقائد کی دعوت دینا ہے، اس سلسلے میں ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے، اور ان کو نافرمانی کے برے انجام سے بھی ڈرایا گیا ہے، اسی مناسبت سے ایک طرف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی اور دوسری طرف قوم سبا کی عظیم الشان حکومتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو ایسی زبردست سلطنت سے نوازا گیا جس کی کوئی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن ان برگزیدہ پیغمبروں کو کبھی اس سلطنت پر ذرہ برابر غرور نہیں ہوا، اور وہ اس سلطنت کو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے رہے، اور اپنی حکومت کو نیکی کی ترویج اور بندوں کی فلاح وبہبود کے کاموں میں استعمال کیا، چنانچہ وہ دنیا میں بھی سرخرو رہے، اور آخرت میں بھی اونچا مقام پایا، دوسری طرف قوم سبا کو جو یمن میں آباد تھی، اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی خوشحالی سے نوازا ؛ لیکن انہوں نے ناشکری کی روش اختیار کی، اور کفر وشرک کو فروغ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، اور ان کی خوشحالی ایک قصہ ٔ پارینہ بن کر رہ گئی، ان دونوں واقعات کا ذکر فرماکر سبق یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اقتدار حاصل ہو یا دنیوی خوشحالی نصیب ہو تو اس میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھنا تباہی کو دعوت دینا ہے، اس سے مشرکین کے ان سرداروں کو متنبہ کیا گیا ہے جو اپنے اقتدار کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر دین حق کے راستے میں روڑے اٹکا رہے تھے۔

(35)سورۃ فاطر کا تعارف:

اس سورت میں بنیادی طور پر مشرکین کو توحید اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی جو نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، اُن پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اول تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس قادر مطلق نے یہ کائنات پیدا فرمائی ہے اسے اپنی خدائی کا نظام چلانے میں کسی شریک یا مددگار کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور دوسرے یہ کہ وہ یہ کائنات کسی مقصد کے بغیر فضول پیدا نہیں کرسکتا، یقیناً اس کا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ جو لوگ یہاں اس کے احکام کے مطابق نیک زندگی گزاریں، انہیں انعامات سے نوازا جائے، اور جو نافرمانی کریں ان کو سزا دی جائے، جس کے لئے آخرت کی زندگی ضروری ہے، تیسرے یہ کہ جو ذات کائنات کے اس عظیم الشان کارخانے کو عدم سے وجود میں لے کر آئی ہے، اس کے لئے اس کو ختم کرکے نئے سرے سے آخرت کا عالم پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، جسے ناممکن سمجھ کر اس کا انکار کیا جائے، اور جب یہ حقیقتیں مان لی جائیں تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوسکتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اس دنیا میں انسان اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، تو ظاہر ہے کہ اپنی مرضی لوگوں کو بتانے کے لئے اس نے رہنمائی کا کوئی سلسلہ ضرور جاری فرمایا ہوگا، ای سلسلے کا نام رسالت نبوت یا پیغمبری ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی سلسلے کے آخری نمائندے ہیں، اس سورت میں آپ کو یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ اگر کافر لوگ آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس میں آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؛ بلکہ آپ کا فریضہ صرف اتنا ہے کہ لوگوں تک حق کا پیغام واضح طریقے سے پہنچادیں، آگے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے اور وہی اس کے لئے جواب دہ ہیں۔ سورت کا نام فاطر بالکل پہلی آیت سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا۔ اسی سورت کا دوسرا نام سورۂ ملائکہ بھی ہے، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں فرشتوں کا بھی ذکر ہے۔

(36)سورۃ یٰس کا تعارف:

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی وہ نشانیاں بیان فرمائی ہیں جونہ صرف پوری کائنات میں بلکہ خود انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ان مظاہر سے ایک طرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو ذات اتنی قدرت اور حکمت کی مالک ہے اس کو اپنی خدائی کا نظام چلانے کے لئے نہ کسی شریک کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی، اس لئے وہ اور صرف وہ عبادت کے لائق ہے، اور دوسری طرف قدرت کی ان نشانیوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس ذات نے یہ کائنات اور اس کا محیر العقول نظام پیدا فرمایا ہے، اس کے لئے یہ بات کچھ بھی مشکل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مرنے کے بعد انہیں دوسری زندگی عطا فرمائے، اس طرح قدرت کی ان نشانیوں سے توحید اور آخرت کا عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوجاتا ہے، حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو یہی دعوت دینے کے لئے تشریف لائے ہیں کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرکے اپنا عقیدہ اور عمل درست کریں، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کررہے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ؛ کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے مستحق بن رہے ہیں، اسی سلسلے میں آیات نمبر 13 سے 29 تک ایک ایسی قوم کا واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے جس نے حق کی دعوت کو قبول نہ کیا ؛ بلکہ حق کے داعیوں کے ساتھ ظلم وبربریت کا معاملہ کیا جس کے نتیجے میں حق کے داعی کا انجام تو بہترین ہوا لیکن حق کے یہ منکر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی پکڑ میں آگئے ؛ چونکہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد کو بڑے فصیح وبلیغ اور جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، اس لئے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے اس سورت کو قرآن کا دل قرار دیا ہے۔

(37)سورۃ الصافات کا تعارف:

مکی سورتوں میں زیادہ تر اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات پر زوردیا گیا ہے، اس سورت کا مرکزی موضوع بھی یہی ہے، البتہ اس سورت میں خاص طور پر مشرکین عرب کے اس غلط عقیدہ کی تردید کی گئی ہے جس کی رو سے وہ کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں یہی وجہ ہے کہ سورت کا آغاز فرشتوں کے اوصاف سے کیا گیا ہے، کفار کو کفر کے ہولناک انجام سے ڈرایا گیا ہے، اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود اس دنیا میں بھی اسلام ہی غالب آکر رہے گا، اسی مناسبت سے حضرت نوح، حضرت لوط، حضرت موسیٰ، حضرت الیاس اور حضرت یونس علیہم السلام کے واقعات مختصر اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، خاص طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے قربانی کے جس عظیم جذبے سے اس کی تعمیل فرمائی، اس کا واقعہ بڑے مؤثر اور مفصل انداز میں اسی سورت کے اندر بیان ہوا ہے، سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔

(38)سورۃ صٓ کا تعارف:

اس سورت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے جو معتبر روایتوں میں بیان کیا گیا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابوطالب اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تھے، لیکن اپنی رشتہ داری کے حق کو نبھانے کے لئے آپ کی مدد بہت کرتے تھے، ایک مرتبہ قریش کے دوسرے سردار ابوطالب کے پاس وفد کی شکل میں آئے اور کہا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑدیں تو ہم انہیں ان کے اپنے دین پر عمل کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، حالانکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بتوں کو اس کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے کہ ان میں کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں، اور ان کو خدا ماننا گمراہی ہے، چنانچہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجلس میں بلاکر آپ ک سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو آپ نے ابو طالب سے فرمایا کہ چچا جان کیا میں انہیں اس چیز کی دعوت نہ دوں جس میں ان کی بہتری ہے، ابوطالب نے پوچھا وہ کیا چیز ہے، آپ نے فرمایا میں ان سے ایک ایسا کلمہ کہلانا چاہتا ہوں جس کے ذریعے سارا عرب ان کے آگے سرنگوں ہوجائے، اور یہ پورے عجم کے مالک ہوجائیں، اس کے بعد آپ نے کلمۂ توحید پڑھا، یہ سن کر تمام لوگ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے، اور کہنے لگے کہ کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر ایک کو اختیار کرلیں، یہ توبڑی عجیب بات ہے، اس موقع پر سورۂ صٓ کی آیات نازل ہوئیں، اس کے علاوہ اس سورت میں مختلف پیغمبروں کا بھی تذکرہ ہے جن میں حضرت داؤو اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے واقعات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

(39)سورۃ الزمر کا تعارف:

یہ سورت مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، اور اس میں مشرکین کے مختلف باطل عقیدوں کی تردید فرمائی گئی ہے، یہ مشرکین مانتے تھے کہ کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ؛ لیکن انہوں نے مختلف دیوتا گھڑ کر یہ مانا ہوا تھا کہ ان کی عبادت کرنے سے وہ خوش ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں گے، اور بعض نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا ہوا تھا، اس سورت میں ان محتلف عقائد کی تردید کرکے انہیں توحید کی دعوت دی گئی ہے، یہ وہ دور ہے جب مسلمانوں کو مشرکین کے ہاتھوں بدترین اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس لئے اس سورت میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ کسی ایسے خطے کی طرف ہجرت کرجائیں جہاں وہ اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں، نیز کافروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی معاندانہ روش نہ چھوڑی تو انہیں بدترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، سورت کے آخر میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ آخرت میں کافر کس طرح گروہوں کی شکل میں دوزخ تک لے جائے جائیں گے، اور مسلمانوں کو کس طرح گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جایا جائے گا، گروہوں کے لئے عربی لفظ زمر استعمال کیا گیا ہے اور وہی اس سورت کا نام ہے۔

(40)سورۃ المؤمن کا تعارف:

یہاں سے سورۂ احقاف تک ہر سورت حٰمٓ کے حروف مقطعات سے شروع ہورہی ہے، جیسا کہ سورۃ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا تھا ان حروف کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، چونکہ یہ سات سورتیں حٰمٓ سے شروع ہورہی ہیں اس لئے ان کو حوامیم کہا جاتا ہے، اور ان کے اسلوب میں عربی بلاغت کے لحاظ سے جو ادبی حسن ہے اس کی وجہ سے انہیں عروس القرآن یعنی قرآن کی دلہن کا لقب بھی دیا گیا ہے، یہ تمام سورتیں مکی ہیں، اور ان میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت، اور آخرت کے مضامین پر زور دیا گیا ہے، کفار کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور کفر کے برے انجام سے خبر دار کیا گیا ہے، اور بعض انبیائے کرام کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، اس پہلی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرتے ہوئے آیت 28 سے 35 تک فرعون کی قوم کے ایک ایسے مرد مومن کی تقریر نقل فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنا ایمان تک چھپایا ہوا تھا، لیکن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اور ان کے رفقاء پر فرعون کے مظالم بڑھنے کا اندیشہ ہوا، اور فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا توانہوں نے اپنے ایمان کا کھلم کھلا اعلان کرتے ہوئے فرعون کے دربار میں یہ موثر تقریر فرمائی، اسی مرد مومن کے حوالے سے اس سورت کا نام بھی مومن ہے اور اسے سورۃ غافر بھی کہتے ہیں غافر کے معنی ہیں معاف کرنے والا، اس سورت کی ابتدائی آیت میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے استعمال ہوا ہے، اس وجہ سے سورت کی پہچان کے لئے اس کا ایک نام غافر بھی رکھا گیا۔

(41)سورۃ حم سجدہ کا تعارف:

یہ سورت اس مجموعے کا ایک حصہ ہے جسے حوامیم کہا جاتا ہے، اور جس کا تعارف پیچھے سورۂ مومن کے شروع میں گزرچکا ہے، اس سورت کے مضامین بھی دوسری مکی سورتوں کی طرح اسلام کے بنیادی عقائد کے اثبات اور مشرکین کی تردید پر مشتمل ہیں، اس سورت کی آیت نمبر : 38 آیت سجدہ ہے، یعنی اس کے پڑھنے اور سننے سے سجدہ واجب ہوتا ہے، اس لئے اس کو حم السجدہ کہا جاتا ہے، اس کا دوسرا نام فصلت بھی ہے، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں یہ لفظ آیا ہے، نیز اسے سورۃ المصابیح اور سورۃ الاقوات بھی کہا جاتا ہے۔ ( روح المعانی)۔

(42)سورۃ الشوریٰ کا تعارف:

یہ حوامیم کے مجموعے کی تیسری سورت ہے، دوسری مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقائد پر زور دیا گیا ہے، اور ایمان کی قابل تعریف صفات بیان فرمائی گئی ہیں، اسی ذیل میں آیت نمبر : 38 میں مسلمانوں کی یہ خصوصیت بیان فرمائی گئی ہے کہ ان کے اہم معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں، مشورے کے لئے عربی کا لفظ شوری استعمال کیا گیا ہے، اسی بنا پر سورت کا نام سورۂ شوری ہے، سورت کے آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان سے روبرو ہوکرہم کلام نہیں ہوتا، بلکہ وحی کے ذریعے کلام فرماتا ہے، اور پھر اس وحی کی مختلف صورتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔

(43)سورۃ الزخرف کا تعارف:

اس سورت کا مرکزی موضوع مشرکین مکہ کی تردید ہے جس میں ان کے اس عقیدے کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے جس کی رو سے وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، نیز وہ اپنے دین کو صحیح قرار دینے کے لئے یہ دلیل دیتے تھے کہ ہم نے اپنے باپ دادؤں کو اسی طریقے پر پایا ہے، اس کے جواب میں اول تو یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ قطعی عقائد کے معاملے میں باپ دادؤں کی تقلید بالکل غلط طرز عمل ہے، اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر فرمایا گیا ہے کہ اگر باپ دادؤں ہی کے پیچھے چلنا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کیوں نہیں کرتے، جنہوں نے شرک سے کھلم کھلا بیزاری کا اعلان فرمایا تھا، مشرکین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو اعتراضات کیا کرتے تھے اس سورت میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے، ان کا ایک اعتراض یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو کوئی پیغمبر بھیجنا ہی تھا تو کسی دولت مند سردار کو اس مقصد کے لئے کیوں نامزد نہیں کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں یہ واضح فرمایا ہے کہ دنیوی مال ودولت کا انسان کے تقدس اور اللہ تعالیٰ کے تقرب سے کوئی تعلق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی سونا چاندی اور دنیا بھر کی دولت دے سکتا ہے ؛ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں، کیونکہ آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں اس مال ودولت کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس سورت نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ معاشی وسائل کی تقسیم اپنی حکمت کے مطابق ایک خاص انداز سے فرماتے ہیں، جس کے لئے ایک مستحکم نظام بنایا گیا ہے، اسی ذیل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ بھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے ؛ کیونکہ فرعون کو بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر یہی اعتراض تھا کہ وہ دنیوی مال ودولت کے اعتبار سے کوئی بڑی حیثیت نہیں رکھتے، اور فرعون کے پاس سب کچھ ہے ؛ لیکن انجام یہ ہوا کہ فرعون اپنے کفر کی وجہ سے غرق ہوا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غالب آکر رہے، نیز اس سورت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی مختصر ذکر فرماکر ان کی صحیح حیثیت واضح فرمائی گئی ہے۔ ‘‘ زخرف ’’ عربی زبان میں سونے کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر : 35 میں اس کا ذکر اس سیاق میں کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو سارے کافروں کو سونے ہی سونے سے نہال کردے، اسی وجہ سے اس سورت کا نام زخرف ہے۔

(44)سورۃ الدخان کا تعارف:

مستند روایات کے مطابق یہ سورت اس وقت نازل ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کے کافروں کو متنبہ کرنے کے لئے ایک شدید قحط میں مبتلا فرمایا، اس موقع پر لوگ چمڑے تک کھانے پر مجبور ہوئے، اور ابو سفیان کے ذریعے کافروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ قحط دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر قحط دور ہوگیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے قحط سے نجات عطا فرمادی، لیکن جب قحط دور ہوگیا تو یہ کافر لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور ایمان نہیں لائے، اس واقعے کا تذکرہ اس سورت کی آیت نمبر 10 تا 15 میں آیا ہے، اور اسی سلسلے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک آسمان پر دھواں ہی دھواں نظر آئے گا (اس کا مطلب ان شاء اللہ اس آیت کی تفسیر میں آئے گا) دھویں کو عربی زبان میں دخان کہتے ہیں اور اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورۂ دخان ہے، سورت کے باقی مضامین توحید رسالت اور آخرت کے اثبات پر مشتمل ہیں۔

(45)سورۃ الجاثیہ کا تعارف:

اس سورت میں بنیادی طور پر تین باتوں پر زور دیا گیا ہے، ایک یہ کہ اس کائنات میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی اتنی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں کہ ایک انسان اگر معقولیت کے ساتھ ان پر غور کرے تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کائنات کے خالق کو اپنی خدائی کے انتظام میں کسی شریک کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لہذا اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا کر اس کی عبادت کرنا سراسر بے بنیاد بات ہے، دوسرے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا گیا ہے کہ آپ کو شریعت کے کچھ ایسے احکام دئے گئے ہیں جو پچھلی امتوں کو دئے ہوئے احکام سے کسی قدر مختلف ہیں، چونکہ یہ سارے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اس لئے اس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئیے، تیسرے اس سورت میں قیامت کے ہولناک مناظر کا نقشہ کھینچا گیا ہے، اسی سلسلے میں آیت نمبر : 28 میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ ڈر کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے، جاثیہ عربی زبان میں ان لوگوں کو کہتے ہیں جو گھٹنے کے بل بیٹھتے ہوں، اسی لفظ کو سورت کا نام بنادیا گیا ہے۔

(46)سورۃ الاحقاف کا تعارف:

اس سورت کی آیت نمبر 29 اور 30 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی تھی جب جنات کی ایک جماعت نے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن کریم سنا تھا، معتبر روایات کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے پہلے اس وقت پیش آیا تھا جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے واپس تشریف لارہے تھے اور نخلہ کے مقام پر فجر کی نماز میں قرآن کریم کی تلاوت فرمارہے تھے، دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورت میں بھی اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کو دلائل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، اسی زمانہ میں اس قسم کے واقعات پیش آرہے تھے کہ ایک ہی گھر انے میں والدین مسلمان ہوگئے اور اولاد مسلمان نہیں ہوئی، اور اس نے اپنے والدین کو ملامت شروع کردی کہ وہ کیوں اسلام لائے، اس کے برعکس بعض گھرانوں میں اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین مسلمان نہیں ہوئے، اور انہوں نے اولاد پر تشدد شروع کردیا، اس سورت کی آیات 16 و 17 میں اسی قسم کی صورت حال کا تذکرہ کیا گیا ہے، اور اسی پس منظر میں اولاد پر ماں باپ کے حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، اس کے علاوہ ماضی میں جن قوموں نے کفر اور نافرمانی کی روش اختیار کی ان کے برے انجام کا حوالہ دیا گیا ہے، اور قوم عاد کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے، جس جگہ یہ قوم آباد تھی وہاں بہت سے ریت کے ٹیلے تھے جنہیں عربی زبان میں احقاف کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے اس سورت کا نام احقاف ہے۔

(47)سورۃ محمد کا تعارف:

یہ سورت مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں، اور بیشتر مفسرین کی رائے میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی، یہ وہ وقت تھا جب عرب کے کفار مدینہ منورہ کی ابھرتی ہوئی اسلامی حکومت کو کسی نہ کسی طرح زیر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، اور اس پر حملے کرنے کی تیاریاں کررہے تھے، اس لئے اس سورت میں بنیادی طور پر جہاد وقتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں، اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کا کلمہ بلند رکھنے کے لئے جہاد کرتے ہیں، ان کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، مدینہ منورہ میں ایک بڑی تعداد ان منافقوں کی تھی جو زبان سے تو اسلام لے آئے تھے، لیکن دل سے وہ کافر تھے، ایسے لوگوں کے سامنے جب جہاد اور لڑائی کی بات کی جاتی تو اپنی بزدلی اور دل کے کھوٹ کی وجہ سے لڑائی سے بچنے کے بہانے تلاش کرتے تھے، اس سورت میں ان کی مذمت کرکے ان کا برا انجام بتایا گیا ہے، جنگ کے دوران جو قیدی گرفتار ہوں ان کے احکام بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، چونکہ اس سورت کی دوسری ہی آیت میں حضور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبارک نام لیا گیا ہے، اس لئے اس کا نام سورۂ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، چونکہ اس میں جہاد وقتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں اس لئے اس کو سورۂ قتال بھی کہا جاتا ہے۔

(48)سورۃ الفتح کا تعارف:

یہ سورت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی، جس کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا فرمائیں، آپ نے یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں اپنے صحابہ کے ساتھ داخل ہورہے ہیں، چنانچہ آپ چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو آپ کو پتہ چلا کہ قریش کے مشرکین نے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکے، اس خبر کے ملنے پر آپ نے اپنی پیش قدمی روک دی، اور مکہ مکرمہ سے کچھ دور حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، (یہ جگہ آج کل شمیسی کہلاتی ہے) وہاں سے آپ نے حضرت عثمان (رض) کو اپنا ایلچی بناکر مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ وہاں کے سرداروں کو بتائیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جنگ کے ارادے سے نہیں آئے ہیں، وہ صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں اور عمرہ کرکے پر امن طور پر واپس چلے جائیں گے، حضرت عثمان (رض) مکہ مکرمہ گئے تو ان کے جانے کے کچھ ہی بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ مکہ مکرمہ کے کافروں نے انہیں قتل کردیا ہے، اس موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو جمع کرکے ان سے یہ بیعت لی،(یعنی ہاتھ میں ہاتھ لے کر یہ عہد لیا) کہ اگر کفار مکہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تو وہ ان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کریں گے، اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ خزاعہ کے ایک سردار کے ذریعے قریش کے سرداروں کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ ایک مدت تک جنگ بندی کا معاہدہ کرنا چاہیں تو آپ اس کے لئے تیار ہیں، جواب میں مکہ مکرمہ سے کئی ایلچی آئے، اور آخر کار ایک معاہدہ لکھا گیا، جس میں محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق یہ طے ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش آئندہ دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگ نہیں کریں گے،(سیرت ابن ہشام 2: 317 وفتح الباری 8۔ 283) اسی معاہدے کو صلح حدیبیہ کا معاہدہ کہا جاتا ہے، صحابہ کرام اس موقع پر کافروں کے طرز عمل سے بہت غم وغصے کی حالت میں تھے، اور کافروں نے صلح کی یہ شرط رکھی تھی کہ اس وقت مسلمان واپس مدینہ منورہ چلے جائیں اور اگلے سال آکر عمرہ کریں، تمام صحابہ احرام باندھ کر آئے تھے، اور کافروں کی ضد کی وجہ سے احرام کھولنا ان کو بہت بھاری معلوم ہورہا تھا، اس کے علاوہ کافروں نے ایک شرط یہ بھی رکھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اسے واپس مکہ مکرمہ بھیجیں، اور اگر کوئی شخص مدینہ منورہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ آئے گا تو قریش کے ذمے یہ نہیں ہوگا کہ وہ اسے واپس مدینہ منورہ بھیجیں، یہ شرط بھی مسلمانوں کے لئے بہت تکلیف دہ تھی، اور اس کی وجہ سے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان شرائط کو قبول کرنے کے بجائے ان کافروں سے ابھی ایک فیصلہ کن معرکہ ہوجائے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اسی صلح کے نتیجے میں آخر کار قریش کا اقتدار ختم ہو، اس لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرائط منظور کرلیں، صحابہ کرام اس وقت جہاد کے جوش سے سرشار تھے اور موت پر بیعت کرچکے تھے ؛ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے آگے انہوں نے سر جھکادیا اور صلح پر راضی ہو کر واپس مدینہ منورہ چلے گئے، اور اگلے سال عمرہ کیا، اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد ایک واقعہ تو یہ ہوا کہ ایک صاحب جن کا نام ابوبصیر (رضی اللہ عنہ) تھا، مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدے کے مطابق انہیں واپس بھیج دیا، انہوں نے مکہ مکرمہ جانے کے بجائے ایک درمیانی جگہ پڑاؤ ڈال کر قریش کے خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کردی، کیونکہ وہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کے پابند نہیں تھے، اس چھاپہ مار جنگ سے قریش اتنے پریشان ہوئے کہ خود انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کی کہ اب ہم وہ شرط واپس لیتے ہیں جس کی رو سے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو واپس بھیجنا ضروری قرار دیا گیا تھا، قریش نے کہا کہ اب جو کوئی مسلمان ہو کر آئے تو آپ اسے مدینہ منورہ ہی میں رکھیں، اور ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں کو بھی اپنے پاس بلالیں، چنانچہ آپ نے انہیں مدینہ منورہ بلالیا، دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ قریش کے کافروں نے دوسال کے اندر اندر حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پیغام بھیجا کہ یا تو وہ اس کی تلافی کریں یا معاہدہ ختم کریں، قریش نے اس وقت غرور میں آکر کوئی بات نہ مانی، جس کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پیغام بھیج دیا کہ اب ہمارا آپ کا معاہدہ ختم ہوگیا ہے، اس کے بعد آپ نے ہجرت کے آٹھویں سال دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی فرمائی، اس وقت قریش کا غرور ٹوٹ چکا تھا، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی خاص خونریزی کے بغیر مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہوئے، اور قریش کے لوگوں نے شہر آپ کے حوالے کردیا۔ سورۂ فتح میں صلح حدیبیہ کے مختلف واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے اور صحابہ کرام کی تعریف کی گئی ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے ہر مرحلے پر بڑی بہادری سرفروشی اور اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کیا، دوسری طرف منافقین کی بد اعمالیوں اور ان کے برے انجام کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔

(49)سورۃ الحجرات کا تعارف:

اس سورت کے بنیادی موضوع دو ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں کو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تعظیم کا کیسا رویہ اختیار کرنا چاہئیے، اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد واتفاق قائم رکھنے کے لئے کن اصولوں پر عمل کرناضروری ہے، اس سلسلے میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دوگروہوں میں اختلاف پیدا ہوجائے تو دوسرے مسلمانوں پر کیا فریضہ عائد ہوتا ہے، اور اس کے بعد وہ اسباب بیان فرمائے گئے ہیں جو عام طور سے رہن سہن کے دوران آپس کے لڑائی جھگڑے پیدا کرتے ہیں، مثلاً ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، غیبت کرنا، دوسروں کے معاملات میں ناحق مداخلت کرنا، بدگمانی کرنا وغیرہ، نیز یہ حقیقت پوری وضاحت اور تاکید کے ساتھ بیان فرمائی گئی ہے کہ خاندان قبیلے زبان اور قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی بڑائی جتانے کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ہے، تمام انسان برابر ہیں، اور اگر کسی کو دوسرے پر کوئی فوقیت ہوسکتی ہے تو وہ صرف اپنے کردار اور تقوی کی بنیاد پر ہوسکتی ہے، سورت کے آخر میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے صرف زبان سے اسلام کا اقرار کرلینا کافی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام احکام کو دل سے ماننا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر اسلام کا دعوی معتبر نہیں ہے۔ حجرات عربی میں حجرۃ کی جمع ہے جو کمرے کو کہتے ہیں، اس سورت کی چوتھی آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رہائشی حجروں کے پیچھے سے آپ کو آواز دینے سے منع فرمایا گیا ہے اس وجہ سے اس سورت کا نام سورۂ حجرات رکھا گیا ہے۔

(50)سورۃ ق کا تعارف:

اس سورت کا اصل موضوع آخرت کا اثبات ہے، اسلام کے عقائد میں عقیدۂ آخرت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کے قول وفعل میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرتا ہے، اور اگر یہ عقیدہ دل میں پیوست ہوجائے تو وہ ہر وقت انسان کو اس بات کی یاد دلاتا رہتا ہے کہ اسے اپنے ہر کام کا اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہے، اور پھر یہ عقیدہ انسان کو گناہوں، جرائم اور ناانصافیوں سے دور رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لئے قرآن کریم نے آخرت کی زندگی کو یاد دلانے پر بہت زور دیا ہے، اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابۂ کرام ہر وقت آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کی فکر میں لگے رہتے تھے، اب جو مکی سورتیں آرہی ہیں، ان میں زیادہ تر اسی عقیدے کے دلائل اور قیامت کے حالات اور جنت اور دوزخ کی منظر کشی پر زور دیا گیا ہے، سورۂ ق کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بکثرت فجر اور جمعہ کی نمازوں میں اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے، سورت کے آغاز حروف مقطعات میں حرف ق سے کیا گیا ہے، جس کے معنی اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں، اسی حرف کے نام پر سورت کا نام رکھا گیا ہے۔

(51)سورۃ الذاریات کا تعارف:

یہاں سے سورۂ حدید (سورت نمبر : 57) تک تمام سورتیں مکی ہیں، اور ان سب کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد کی تعلیم اور خاص طور پر آخرت کی زندگی، جنت اور دوزخ کے حالات اور پچھلی قوموں کے عبرت ناک انجام کا نہایت فصیح وبلیغ اور انتہائی مؤثر تذکرہ ہے، اس تاثیر کو کسی بھی ترجمے کے ذریعے کسی اور زبان میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہے،لیکن ترجمے کے ذریعے ان کے مفہوم کو کسی درجے میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ ان تمام سورتوں کے مضامین ایک جیسے ہیں، اس لئے سورہ واقعہ تک ہر سورت کا الگ تعارف نہیں دیا گیا۔

(53)سورۃ النجم کا تعارف:

یہ سورت مکی زندگی کی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے، بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو آپ نے علی الاعلان ایسے مجمع میں پڑھ کر سنائی جس میں مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی، نیز یہ پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی، اور جس وقت آپ نے سجدے کی آیت اس مجمع کے سامنے تلاوت فرمائی تو یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا کہ آپ نے اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے سجدہ کیا ہی تھا، اس وقت جو مشرکین موجود تھے انہوں نے بھی سجدہ کیا، غالباً اس سورت کے پر شکوہ اور مؤثر مضامین نے انہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ سجدہ کرنے پر مجبور کردیاتھا، اس سورت کا اصل موضوع حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو ثابت کرنا ہے اور یہ کہ جو وحی آپ پر نازل ہوتی ہے وہ کسی شک وشبہ کے بغیر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) لے کر آتے ہیں، اور اس ضمن میں یہ حقیقت بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دو مرتبہ اپنی اصل صورت میں دیکھا ہے، ان میں سے ایک اس وقت دیکھا جب آپ معراج پر تشریف لے گئے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے اثبات کے ساتھ اس میں مشرکین مکہ کے غلط عقائد اور ان کے بعض بے ہودہ دعووں کی تردید بھی ہے اور پچھلی امتوں پر نازل ہونے والے عذاب کے حوالے سے انہیں حق کو تسلیم کرنے کی موثر دعوت بھی دی گئی ہے، نجم عربی میں ستارے کو کہتے ہیں، اور چونکہ اس سورت کی پہلی ہی آیت میں ستارے کی قسم کھائی گئی ہے، اس لئے اس سورت کا نام سورۂ نجم ہے۔

(54)سورۃ القمر کا تعارف:

یہ سورت مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ دکھلایا، اسی لئے اس کا نام سورۂ قمر ہے، حضرت عائشہ (رض) سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی، اس وقت میں بچی تھی، اور کھیلاکرتی تھی، سورت کا موضوع دوسری مکی سورتوں کی طرح کفار عرب کو توحید رسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینا ہے، اور اسی ضمن میں عاد وثمود، حضرت نوح اور حضرت لوط علیہم السلام کی قوموں اور فرعون کے دردناک انجام کا مختصرلیکن بہت بلیغ انداز میں تذکرہ فرمایا گیا ہے، اور بار بار یہ جملہ دہرایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نصیحت حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کو بہت آسان بنادیا ہے تو کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔

(55)سورۃ الرّحمٰن کا تعارف:

یہ سورت وہ واحد سورت ہے جس میں بیک وقت انسانوں اور جنات دونوں کو صراحت کے ساتھ مخاطب فرمایا گیا ہے، دونوں کو اللہ تعالیٰ کی وہ بیشمار نعمتیں یاد دلائی گئی ہیں جو اس کائنات میں پھیلی پڑی ہیں، اور بار بار یہ فقرہ دہرایا گیا ہے کہ اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟ اپنے اسلوب اور فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے بھی یہ ایک منفرد سورت ہے، جس کی تأ ثیر کو کسی اور زبان میں ترجمہ کرکے منتقل نہیں کیا جاسکتا، اس بارے میں روایات مختلف ہیں کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی، عام طور سے قرآن کریم کے نسخوں میں اس کو مدنی قرار دیا گیا ہے، لیکن علامہ قرطبی نے کئی روایتوں کی بنا پر یہ رجحان ظاہر کیا ہے کہ یہ مکی سورت ہے، واللہ اعلم۔

(56)سورۃ الواقعہ کا تعارف:

یہ سورت مکی زندگی کے ابتدائی دور کی سورتوں میں سے ہے، اور اس میں معجزانہ فصاحت وبلاغت کے ساتھ پہلے تو قیامت کے حالات بیان فرمائے گئے ہیں، اور بتایا گیا ہے کہ آخرت میں تمام انسان اپنے انجام کے لحاظ سے تین مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے، ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کا ہوگا جو ایمان اور عمل صالح کے لحاظ سے اعلی ترین مرتبے کے حامل ہیں، دوسرا گروہ ان عام مسلمانوں کا ہوگا جنہیں ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے، اور تیسرا گروہ ان کافروں کا ہوگا جن کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے، پھر ان تینوں گروہوں کو جن حالات سے سابقہ پیش آئے گا اسکی ایک جھلک بڑے مؤثر انداز میں دکھائی گئی ہے، اس کے بعد انسان کو خود اس کے اپنے وجود اور ان نعمتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اسی کا شکر بجالاکر اسکی وحدانیت کا اعتراف کرے، اور توحید پر ایمان لائے، پھر آخری رکوع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان فرماتے ہوئے انسان کو اس کی موت کا وقت یاد دلایا گیا ہے کہ اس وقت وہ کتنا ہی بڑا آدمی سمجھا جاتا ہو، نہ تو خود اپنی موت سے چھٹکارا پاسکتا ہے نہ اپنے کسی محبوب کو موت سے بچاسکتا ہے، لہذا جو پروردگار موت اور زندگی کا مالک ہے وہی مرنے کے بعد بھی انسان کے انجام کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے، اور انسان کا کام یہ ہے کہ اس کی عظمت کے آگے سر بسجود ہو۔ سورت کی پہلی ہی آیت میں واقعہ کا لفظ آیا ہے جس سے مراد قیامت کا واقعہ ہے اور اسی کے نام پر اس سورت کو سورۂ واقعہ کہا جاتا ہے۔

(57)سورۃ الحدید کا تعارف:

اس سورت کی آیت نمبر : 10 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی، اس موقع پر چونکہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی دشمنی کی کاروائیاں بڑی حد تک دھیمی پڑگئی تھیں اور جزیرۂ عرب پر مسلمانوں کا تسلط بڑھ رہا تھا، اس لئے اس سورت میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان صفات سے آراستہ کرنے پر زیادہ توجہ دیں جو ان کے دین کو مطلوب ہیں، اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں پر مغفرت مانگیں نیز ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنا مال خرچ کریں اور آخرت کی بہبود کو دنیا کے مال ودولت پر ترجیح دیں جس کے نتیجے میں انہیں آخرت میں ایک ایسا نور عطا ہوگا جو انہیں جنت تک لے جائے گا، جبکہ منافق لوگ اس نور سے محروم کردئیے جائیں گے، سورت کے آخر میں عیسائیوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ جو رہبانیت (ترک دنیا) انہوں نے اختیار کی تھی، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مطابقت نہیں رکھتی تھی، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ دنیا کو بالکل چھوڑ کر بیٹھ جاؤ؛ بلکہ یہ تاکید فرمائی تھی کہ اسی دنیا میں رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرو اور تمام حقوق اسی کی ہدایت کے مطابق ادا کرو، نیز عیسائیوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں تو اس کے لئے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا ضروری ہے، اس سورت کی آیت نمبر : 25 میں لوہے کا ذکر آیا ہے، لوہے کو عربی میں حدید کہتے ہیں، اس لئے سورت کا نام سورۃ الحدید ہے۔

(58)سورۃ المجادلۃ کا تعارف:

اس سورت میں بنیادی طور پر چار اہم موضوعات کا بیان ہے۔ پہلا موضوع ’’ظہار‘‘ ہے۔ اہلِ عرب میں یہ طریقہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے کہہ دیتا تھا کہ ’’انت علی کظہر امی‘‘، یعنی تم میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہو۔ جاہلیت کے زمانے میں اس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایسا کہنے سے بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے۔ سورت کی اِبتداء میں اسی کے احکام کا بیان ہے جس کی تفصیل ان شا اللہ ان آیتوں کی حواشی میں آنے والی ہے، دوسرا موضوع یہ ہے کہ بعض یہودی اور منافقین آپس میں اس طرح سرگوشیاں کیا کرتے تھے جس سے مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ وہ ان کے خلاف کوئی سازش کررہے ہیں، نیز بعض صحابہ کرامؓ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں کوئی مشورہ یا کوئی بات کرنا چاہتے تھے۔ اس سورت میں ان خفیہ باتوں کے اَحکام بیان فرمائے گئے ہیں۔ تیسرا موضوع اُن آداب کا بیان ہے جو مسلمانوں کو اپنی اجتماعی مجلسوں میں ملحوظ رکھنے چاہئیں۔ چوتھا اور آخری موضوع اُن منافقوں کا تذکرہ ہے جو ظاہر میں تو ایمان کا اور مسلمانوں سے دوستی کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن در حقیقت وہ ایمان نہیں لائے تھے، اور درپردہ وہ مسلمانوں کے دُشمنوں کی مدد کرتے رہتے تھے۔ سورت کا نام ’’مجادلہ‘‘ (یعنی بحث کرنا) اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے جس میں ایک خاتون کے بحث کرنے کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ خاتون کا یہ واقعہ نیچے حاشیہ نمبر : 1 میں آرہا ہے۔ 

(59)سورۃ الحشر کا تعارف:

یہ سورت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے دوسرے سال نازل ہوئی تھی۔ مدینہ منوَّرہ میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے یہ معاہدہ کرلیا تھا کہ آپس میں امن وامان سے رہیں گے، اور مدینہ منوَّرہ پر حملہ ہونے کی صورت میں مل کر اُس کا دِفاع کریں گے، یہودیوں نے اس معاہدے کو قبول تو کرلیا تھا، لیکن اُن کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی بغض تھا، اس لئے وہ خفیہ طور پر آپ کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے، چنانچہ اُنہوں نے در پردہ مکہ مکرَّمہ کے بت پرستوں سے تعلقات رکھے ہوئے تھے، اور ان کو مسلمانوں کے خلاف اُکساتے رہتے تھے، اور اُن سے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ اگر تم مسلمانوں پر حملہ کروگے تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ یہودیوں کا ایک قبیلہ بنو نضیر کہلاتا تھا، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے معاہدے کی کچھ شرائط پر عمل کرانے کے لئے اُن کے پاس تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے یہ سازش کی کہ جب آپ بات چیت کرنے کے لئے بیٹھیں تو ایک شخص اُوپر سے آپ پر ایک چٹان گرادے۔ جس سے (معاذاللہ) آپ شہید ہوجائیں، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو ان کی اس سازش سے باخبر فرمادیا، اور آپ وہاں سے اُٹھ کر چلے آئے۔ اس واقعے کے بعد آپ نے بنو نضیر کے پاس پیغام بھیجا کہ اب آپ لوگوں کے ساتھ ہمارا معاہدہ ختم ہوگیا ہے، اور ہم آپ کے لئے ایک مدت مقرر کرتے ہیں کہ اس مدّت کے اندر اندر آپ مدینہ منوَّرہ چھوڑ کر کہیں چلے جائیں، ورنہ مسلمان آپ پر حملہ کرنے کے لئے آزاد ہوں گے، کچھ منافقین نے بنو نضیر کو جاکر یقین دلایا کہ آپ لوگ ڈٹے رہیں، اگر مسلمانوں نے حملہ کیا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ بنو نضیر مقرّرہ مدّت میں مدینہ منوَّرہ سے نہیں گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدّت گذرنے کے بعد اُن کے قلعے کا محاصرہ کرلیا، اور منافقین نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ آخر کار اُن لوگوں نے ہتھیا ڈال دئیے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو مدینہ منوَّرہ سے جلاوطن کرنے کا حکم دیا، البتہ یہ اجازت دی کہ ہتھیاروں کے سوا وہ اپنا سارا مال ودولت اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ یہ سورت اس واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی، اور اس میں اس واقعے پر تبصرہ بھی فرمایا گیا ہے، اور اس سے متعلق بہت سی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ ’’حشر‘‘ کے لفظی معنیٰ ہیں ’’جمع کرنا‘‘، چونکہ اس سورت کی آیت نمبر : 2 میں یہ لفظ آیا ہے جس کی تشریح آیت نمبر : 2 کے حاشیہ میں آرہی ہے، اس لئے اس سورت کا نام ’’سورۂ حشر‘‘ ہے اور بعض صحابہؓ سے منقول ہے کہ وہ اسے سورہ بنی نضیر بھی کہا کرتے تھے۔ 

(60)سورۃ الممتحنہ کا تعارف:

یہ سورت صلح حدیبیہ اور فتحِ مکہ کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئی ہے، ان دونوں واقعات کی تفصیل پیچھے سورہ فتح کے تعارف میں گزرچکی ہے۔ اس سورت کے بنیادی موضوع دو ہیں، ایک صلح حدیبیہ کی شرائط میں جو بات طے ہوئی تھی کہ اگر مکہ مکرَّمہ سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منوَّرہ آئے گا تو مسلمان اُسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے، اس کا اطلاق مسلمان ہو کر آنے والی عورتوں پر نہیں ہوگا، اور اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر آئے گی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جائزہ لے کر دیکھیں گے کہ کیا واقعی مسلمان ہو کر آئی ہے، یا آنے کا مقصد کچھ اور ہے۔ اگر اس جائزے سے یہ بات ثابت ہو کہ وہ واقعی مسلمان ہو کر آئی ہے تو پھر اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ اس صورت میں اگر وہ شادی شدہ ہو، اور اس کا شوہر مکہ مکرَّمہ میں رہ گیا ہو، اُس کے نکاح اور مہر وغیرہ سے متعلق کیا اَحکام ہوں گے ؟ وہ بھی اس سورت میں بیان فرمائے گئے ہیں، اور جن مسلمانوں کے نکاح میں ابھی تک بت پرست عورتیں تھیں، ان کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اب وہ ان کے نکاح میں نہیں رہ سکتیں۔ چونکہ اس سورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان عورتوں کا امتحان یا جائزہ لینے کا حکم دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام ممتحنہ ہے، یعنی امتحان لینے والی۔ سورت کا دُوسرا موضوع جو بالکل شروع میں بیان ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے غیر مسلموں سے کس قسم کے تعلقات رکھنا جائز ہے اور کس قسم کے ناجائز، چنانچہ سورت کو اس حکم سے شروع فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو دُشمنوں سے خصوصی دوستی نہیں رکھنی چاہئے۔ ان آیتوں کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ سورہ فتح کے تعارف میں ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کو مکہ مکرَّمہ کے کافروں نے دوسال کے اندر اندر ہی توڑدیا تھا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں پر واضح فرمادیا تھا کہ اب وہ معاہدہ باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد آپ نے مکہ مکرمہ کے کفار پر ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کی تیاری شروع فرمادی تھی، لیکن ساتھ ہی کوشش یہ تھی کہ قریش کے لوگوں کو آپ کی تیاری کا علم نہ ہو۔ اسی دوران سارہ نام کی ایک عورت جو گانا بجاکر پیسے کماتی تھی، مکہ مکرَّمہ سے مدینہ منوَّرہ آئی اور اس نے بتایا کہ وہ مسلمان ہو کر نہیں آئی، بلکہ وہ شدید مفلسی میں مبتلا ہے، کیونکہ جنگ بدر کے بعد قریش مکہ کی عیش وعشرت کی محفلیں ویران ہوچکی ہیں، اب کوئی اُسے گانے بجانے کے لئے نہیں بلاتا۔ اس لئے مالی اِمداد حاصل کرنے کے لئے آئی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعبدالمطلب کو اس کی مدد کرنے کی ترغیب دی، اور اُس کو کچھ نقدی اور کچھ کپڑے دے کر رُخصت کیا گیا۔ دُوسری طرف مہاجرین صحابہ کرام میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایک ایسے بزرگ تھے جو اصل میں یمن کے باشندے تھے، اور مکہ مکرَّمہ آکر بس گئے تھے، مکہ مکرَّمہ میں ان کا قبیلہ نہیں تھا، وہ خود تو ہجرت کرکے مدینہ منوَّرہ آگئے تھے، لیکن ان کے اہل وعیال مکہ مکرَّمہ ہی میں رہ گئے تھے، جن کے بارے میں اُنہیں یہ خطرہ تھا کہ کہیں قریش کے لوگ ان پر ظلم نہ کریں، دوسرے مہاجر صحابہ جن کے اہل وعیال مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، اُنہیں تو کسی قدر اطمینان تھا کہ ان کا پورا قبیلہ وہاں موجود ہے جو کافروں کے ظلم سے اُنہیں تحفظ دے سکتا ہے، لیکن حضرت حاطبؓ کے اہل وعیال کو یہ تحفظ حاصل نہیں تھا۔ جب سارہ نامی عورت مکہ مکرَّمہ واپس جانے لگی تو ان کے دل میں یہ خیال آیا کے اگر میں قریش کے لوگوں کو خفیہ طور پر ایک خط میں یہ اِطلاع دے دُوں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے مکہ مکرمہ کی فتح کا وعدہ فرمارکھا ہے ؛ لیکن میری طرف سے قریش پر ایک احسان ہوجائے گا، اور اس احسان کی وجہ سے وہ میرے اہل وعیال کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایک خط لکھ کر سارہ کے حوالے کردیا کہ وہ قریش کے سرداروں کو پہنچادے۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ سارہ ایک خفیہ خط لے کرگئی ہے، اور روضہ خاخ کے مقام تک پہنچ چکی ہے۔ آپ نے حضرت علیؓ، حضرت مرثدؓ اور حضرت زبیرؓ کو اس مہم پر روانہ فرمایا کہ وہ اس عورت کا پیچھا کرکے اُس سے وہ خط بر آمد کریں، اور یہاں واپس لے آئیں۔ یہ حضرات گئے اور انہوں نے وہ خط برآمد کرلیا۔ حضرت حاطبؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے معذرت کی، اور اپنی اس غلطی کی وجہ بیان کی جو اُوپر ذکر کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نیک نیتی کی وجہ سے ان کی اس غلطی کو معاف فرمادیا۔ اسی واقعے پر اس سورت کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں۔ 

(61)سورۃ الصّفِّ کا تعارف:

یہ سورت مدینہ منوَّرہ میں اُس وقت نازل ہوئی تھی جب منافقین آس پاس کے یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کررہے تھے، اس سورت میں بنی اسرائیل کے یہودیوں کا یہ کردار خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے خود اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طرح طرح سے تکلیفیں پہنچائیں، جس کے نتیجے میں ان کے مزاج میں ٹیڑھ پیدا ہوگئی، اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے اُن کی نبوّت کا بھی انکار کیا، اور انہوں نے حضور سَرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی جو بشارتیں دی تھیں، اُن پر بھی کان نہیں دھرا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی نبوّت پر ایمان لانے سے انکار کردیا، بلکہ آپ کے خلاف سازشیں شروع کردیں، بنی اسرائیل کے اس کردار کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس سورت میں مخلص مسلمانوں کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھیک ٹھیک پیروی کی، اور وہ کام کئے جن کا اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں خاص طور پر حکم دیا ہے، اور ان میں جہاد خصوصی اہمیت رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو عنقریب فتح ونصرت عطا فرمانے والے ہیں، جس کے نتیجے میں منافقین اور یہودیوں کی ساری سازشیں خاک میں مل جائیں گی، اس سیاق میں اس سورت کی چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کی تعریف فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں صف بناکر جہاد کرتے ہیں، اس مناسبت سے اس سورت کا نام سورۂ صف ہے۔

(62)سورۃ الجمعہ کا تعارف:

اس سورت کے پہلے رکوع میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کی بعثت کے مقاصد بیان فرماکر پوری اِنسانیت کو آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور خاص طور پر یہودیوں کی مذمت کی گئی ہے، کہ وہ جس کتاب یعنی تورات پر ایمان رکھنے کا دعوی کرتے ہیں، اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی بشارت موجود ہے، اسکے باوجود وہ آپ پر ایمان نہ لاکر خود اپنی کتاب کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ پھر دوسرے رُکوع میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ان کی تجارتی سرگرمیاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے راستے میں رُکاوٹ نہیں بننی چاہئیں، چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد ہر قسم کی خرید وفروخت بالکل ناجائز ہے۔ نیز جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے ہوں، اُس وقت کسی تجارتی کام کے لئے آپ کو چھوڑ کر چلے جانا جائز نہیں ہے، اور اگر دُنیوی مصروفیات کا شوق کسی دِینی فریضے میں رکاوٹ بننے لگے تو اس بات کا دھیان کرنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے آخرت میں جو کچھ تیار کر رکھا ہے، وہ دُنیا کی ان دِلفریبیوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے، اور دِینی فرائض کو رِزق کی خاطر چھوڑنا سراسر نادانی ہے، کیونکہ رِزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، لہٰذا رِزق اُس کی نافرمانی کرکے نہیں، بلکہ اس کی اِطاعت کرکے طلب کرنا چاہئیے۔ چونکہ دُوسرے رُکوع میں جمعہ کے اَحکام بیان فرمائے گئے ہیں، اس لئے اس سورت کا نام جمعہ ہے۔

(63)سورۃ المنافقون کا تعارف:

یہ سورت ایک خاص واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو المصطلق عرب کا ایک قبیلہ تھا، جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ منوَّرہ پر حملہ کرنے کے لئے لشکر جمع کررہا ہے، آپ اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ خود وہاں تشریف لے گئے، ان سے جنگ ہوئی، اور آخر کار اُن لوگوں نے شکست کھائی، اور بعد میں مسلمان بھی ہوئے، جنگ کے بعد چند دن آپ نے وہیں ایک چشمے کے قریب پڑاو ڈالے رکھا جس کا نام مریسیع تھا، اسی قیام کے دوران ایک مہاجر اور ایک انصاری کے درمیان پانی ہی کے کسی معاملے پر جھگڑا ہوگیا، جھگڑے میں نوبت ہاتھا پائی کی آگئی، اور ہوتے ہوتے مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو پکارا، اور اَنصاری نے انصار کو، یہاں تک کہ اندیشہ ہوگیا کہ کہیں مہاجرین اور اَنصار کے درمیان لڑائی نہ چھڑ جائے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ تشریف لائے، اور فرمایا کہ مہاجر اور انصار کے نام پر لڑائی کرنا وہ جاہلانہ عصبیت ہے جس سے اسلام نے نجات دی ہے، آپ نے فرمایا کہ یہ عصبیت کے بدبو دار نعرے ہیں جو مسلمانوں کو چھوڑنے ہوں گے، ہاں مظلوم جو کوئی بھی ہو اس کی مدد کرنی چاہئیے، اور ظالم جو کوئی ہو، اُسے ظلم سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد جھگڑا فرو ہوگیا، اور جن حضرات میں ہاتھا پائی ہوئی تھی، ان کے درمیان معافی تلافی ہوگئی۔ یہ جھگڑا تو ختم ہوگیا، لیکن مسلمانوں کے لشکر میں کچھ منافق لوگ بھی تھے جو مالِ غنیمت میں حصہ دار بننے کے لئے شامل ہوگئے تھے، اُن کے سردار عبداللہ بن اُبیّ کو جب اس جھگڑے کا علم ہوا تو اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم نے مہاجروں کو اپنے شہر میں پناہ دے کر اپنے سرپر چڑھا لیا ہے، یہاں تک کہ اب وہ مدینے کے اصل باشندوں پر ہاتھ اٹھانے لگے ہیں، یہ صورت حال قابلِ برداشت نہیں ہے۔ پھر اُس نے یہ بھی کہا کہ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو جو عزّت والا ہے، وہ ذِلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ اُس کا واضح اِشارہ اس طرف تھا کہ مدینے کے اصل باشندے مہاجروں کو نکال باہر کریں گے۔ اس موقع پر ایک مخلص انصاری صحابی حضرت زید بن ارقمؓ بھی موجود تھے، اُنہوں نے اس بات کو برا سمجھا، اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ عبداللہ ابن اُبیّ نے ایسا کہا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبیّ سے پوچھا تو وہ صاف مکر گیا کہ میں نے یہ بات نہیں کہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درگزر فرمایا کہ شاید حضرت زید بن ارقمؓ کو غلط فہمی ہوئی ہو، حضرت زید بن ارقم کو یہ رنج تھا کہ عبداللہ ابن اُبیّ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اُن کو جھوٹا بنایا۔ اس کے بعد آپ اپنے صحابہ کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ ابھی مدینہ منوَّرہ نہیں پہنچے تھے کہ یہ سورت نازل ہوگئی جس نے حضرت زید بن ارقمؓ کی تصدیق، کی اور منافقین کی حقیقت واضح فرمائی۔

(64)سورۃ التغابن کا تعارف:

اگرچہ بعض مفسرین نے اس سورت کی کچھ آیتوں کو مکی اور کچھ کو مدنی کہا ہے، لیکن اکثر مفسرین نے پوری سورت کو مدنی قراردیا ہے، البتہ اس کے مضامین مکی سورتوں کی طرح اسلام کے بنیادی عقائد کی دعوت پر مشتمل ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے حوالے سے توحید، رِسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی گئی ہے، اور پچھلی اُمتوں کی تباہی کے اسباب بتاتے ہوئے توجہ دِلائی گئی ہے کہ ہر اِنسان کو اللہ تعالیٰ کے رسول برحق اور ان پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لاکر آخرت کی تیاری کرنی چاہئیے، اور اگر اِنسان کے بیوی بچے اس راستے میں رُوکاٹ بنیں تو سمجھنا چاہئے کہ وہ اِنسان کی خیر خواہی نہیں، دُشمنی کررہے ہیں، سورت کا نام آیت نمبر : 9 سے ماخوذ ہے جس کی تشریح اُسی آیت کے حاشیے (حاشیہ نمبر 1 ) میں آرہی ہے۔

(65)سورۃ الطلاق کا تعارف:

پچھلی دو سورتوں میں مسلمانوں کو یہ تنبیہ فرمائی گئی تھی کہ وہ اپنے بیوی بچوں کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ اب اس سورت اور اگلی سورت میں میاں بیوی کے تعلقات سے متعلق کچھ ضروری اَحکام بیان فرمائے گئے ہیں، ازدواجی تعلقات کے مسائل میں طلاق ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عملاً بہت اِفراط وتفریط پائی جاتی ہے، چنانچہ قرآنِ کریم نے اس کے بارے میں متوازن طرزِ عمل اِختیار کرنے کے لئے طلاق کے کچھ احکام سورۃ بقرہ (2:224 تا 232) میں بیان فرمائے ہیں، اب اس سورت میں طلاق کے وہ احکام بیان فرمائے گئے ہیں جو وہاں بیان نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ اگر طلاق دینی ہو تو اُس کے لئے صحیح وقت اور صحیح طریقہ کیا ہے، نیز جن عورتوں کو حیض نہ آتا ہو، اس کی عدّت کتنی ہوگی، عدّت کے دوران اُن کے سابق شوہروں کو ان کا خرچ کس معیار پر اور کب تک اٹھانا ہوگا۔ اگر اولاد ہوچکی ہو تو اس کو دُودھ پلانے کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔ اس قسم کے اَحکام بیان فرماتے ہوئے بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر مرد اور عورت کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں، کیونکہ میاں بیوی کا تعلق ایسا ہے کہ ان کی ہر شکایت کا علاج عدالتوں سے نہیں مل سکتا۔ ایک متوازن خاندانی نظام اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک ہر فریق اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام نہ دے، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں، انہی کو دُنیا اور آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔

(66)سورۃ التحریم کا تعارف:

جیسا کہ پچھلی سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، اس سورت کا بنیادی موضوع بھی یہ ہے کہ میاں بیوی کو آپس میں اور اپنی اولاد کے ساتھ کس طرح معتدل اور متوازن رویہ اختیار کرنا چاہئیے، ایک طرف اُن سے معقول حدود میں محبت بھی دِین کا تقاضا ہے، اور دُوسری طرف اُن کی یہ نگرانی بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اَحکام سے اِنحراف نہ کریں۔ اسی سلسلے میں ایک واقعہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا تھا کہ اپنی کچھ اَزواجِ مطہرات کی خوشنودی کی خاطر آپ نے یہ قسم کھالی تھی کہ آئندہ شہد نہیں پیونگا، جس کی تفصیل آیت نمبر : 1 کے حاشیہ میں آرہی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کی ہے، اُسے آپ اپنے اُوپر حرام کیوں کرتے ہیں ؟ اس لئے سورت کا نام تحریم ہے، جس کے معنیٰ ہیں: ’’حرام کرنا‘‘۔

(67)سورۃ الْمُلْک کا تعارف:

پہلے فقرے تبارک الذی بیدہ الملک کے لفظ اَلمُلک کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : کسی معتبر روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کس زمانے میں نازل ہوئی ہے ، مگر مضامین اور انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے ۔ موضوع اور مضمون : اس میں ایک طرف مختصر طریقے سے اسلام کی تعلیمات کا تعارف کرایا گیا ہے اور دوسری طرف بڑے مؤثر انداز میں ان لوگوں کو چونکایا گیا ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے تھے ۔ یہ مکۂ معظمہ کی ابتدائی سورتوں کی خصوصیت ہے کہ وہ اسلام کی ساری تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کے مقصد بعثت کو پیش کرتی ہیں ، مگر تفصیل کے ساتھ نہیں بلکہ اختصار کے ساتھ ، تاکہ وہ بتدریج لوگوں کے ذہن نشین ہوتی چلی جائیں ۔ اس کے ساتھ ان میں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی غفلت دور کی جائے ، ان کو سوچنے پر مجبور کیا جائے ، اور ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کیا جائے ۔ پہلی پانچ آیتوں میں انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ جس کائنات میں رہتا ہے وہ ایک انتہائی منظم اور محکم سلطنت ہے جس میں ڈھونڈے سے بھی کوئی عیب یا نقص یا خلل تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سلطنت کو عدم سے وجود میں بھی اللہ تعالیٰ ہی لایا ہے اور اس کی تدبیر و انتظام اور فرمانروائی کے تمام اختیارات بھی بالکلیہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی قدرت لامحدود ہے ۔ اس کے ساتھ انسان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس انتہائی حکیمانہ نظام میں وہ بے مقصد پیدا نہیں کر دیا گیا ہے بلکہ یہاں اسے امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس امتحان میں وہ اپنے حسن عمل ہی سے کامیاب ہو سکتا ہے ۔ آیت 6 سے 11 تک کفر کے وہ ہولناک نتائج بیان کیے گئے ہیں جو آخرت میں نکلنے والے ہیں اور لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو بھیج کر تمہیں اسی دنیا میں ان نتائج سے خبردار کر دیا ہے ۔ اب اگر یہاں تم انبیاء کی بات مان کر اپنا رویہ درست نہ کرو گے تو آخرت میں تمہیں خود اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو سزا تم کو دی جا رہی ہے فی الواقع تم اس کے مستحق ہو ۔ آیت 12 سے 14 تک یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ہو سکتا ۔ وہ تمہاری ہر کھلی اور چھپی بات ، حتی کہ تمہارے دل کے خیالات تک سے واقف ہے ۔ لہذا اخلاق کی صحیح بنیاد یہ ہے کہ انسان اس اَن دیکھے خدا کی بازپرس سے ڈر کر برائی سے بچے ، خواہ دنیا میں کوئی طاقت اس پر گرفت کرنے والی ہو یا نہ ہو اور دنیا میں اس سے کسی نقصان کا امکان ہو یا نہ ہو ۔ یہ طرز عمل جو لوگ اختیار کریں گے وہی آخرت میں بخشش اور اجر عظیم کے مستحق ہوں گے ۔ آیت 15 سے 23 تک ان پیش پا افتادہ حقیقتوں کی طرف ، جنہیں انسان دنیا کے معمولات سمجھ کر قابل توجہ شمار نہیں کرتا ، پے در پے اشارے کر کے ان پر سوچنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ اس زمین کو دیکھو جس پر تم اطمینان سے چل پھر رہے ہو اور جس سے اپنا رزق حاصل کر رہے ہو ۔ خدا ہی نے اسے تمہارے لیے تابع کر رکھا ہے ، ورنہ کسی وقت بھی اس زمین میں ایسا زلزلہ آ سکتا ہے کہ تم پیوند خاک ہو جاؤ ، یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہیں تہس نہس کر کے رکھ دے ۔ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو دیکھو ۔ خدا ہی تو ہے جو انہیں فضا میں تھامے ہوئے ہے ۔ اپنے تمام ذرائع و وسائل پر نگاہ ڈال کر دیکھو ۔ خدا اگر تمہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو کون تمہیں اس سے بچا سکتا ہے اور خدا اگر تمہارے لیے رزق کے دروازے بند کر دے تو کون انہیں کھول سکتا ہے ؟ یہ ساری چیزیں تمہیں حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے موجود ہیں ۔ مگر انہیں تم حیوانات کی طرح دیکھتے ہو جو مشاہدات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، اور اس سماعت و بینائی اور ان سوچنے سمجھنے والے دماغوں سے کام نہیں لیتے جو انسان ہونے کی حیثیت سے خدا نے تمہیں دیے ہیں ۔ اسی وجہ سے راہ راست تمہیں نظر نہیں آتی ۔ آیت 24 سے 27 تک بتایا گیا ہے کہ آخرکار تمہیں لازماً اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے ۔ نبی کا کام یہ نہیں ہے کہ تمہیں اس کے آنے کا وقت اور تاریخ بتائے ۔ اس کا کام بس یہ ہے کہ تمہیں اس آنے والے وقت سے پیشگی خبردار کر دے ۔ تم آج اس کی بات نہیں مانتے اور مطالبہ کرتے ہو کہ وہ وقت لا کر تمہیں دکھا دیا جائے ۔ مگر جب وہ آ جائے گا اور تم آنکھوں سے اسے دیکھ لو گے تو تمہارے ہوش اڑ جائیں گے ۔ اس وقت تم سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جسے جلدی لے آنے کا تم مطالبہ کر رہے تھے ۔ آیت 28 اور 29 میں کفار مکہ کی ان باتوں کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے خلاف کرتے تھے ۔ وہ حضور ﷺ کو کوستے تھے اور آپ کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہلاکت کی دعائیں مانگتے تھے ۔ اس پر فرمایا گیا ہے کہ تمہیں راہ راست کی طرف بلانے والے خواہ ہلاک ہوں یا اللہ ان پر رحم کرے ، اس سے آخر تمہاری قسمت کیسے بدل جائے گی ؟ تم اپنی فکر کرو کہ خدا کا عذاب اگر تم پر آ جائے تو کون تمہیں بچائے گا ؟ جو لوگ خدا پر ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اس پر توکل کیا ہے ، انہیں تم گمراہ سمجھ رہے ہو ۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بات کھل جائے گی کہ حقیقت میں گمراہ کون تھا ۔ آخر میں لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھ دیا گیا ہے اور اسی پر سوچنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ عرب کے صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں ، جہاں تمہاری زندگی کا سارا انحصار اس پانی پر ہے جو کسی جگہ زمین سے نکل آیا ہے ، وہاں اگر یہ پانی زمین میں اتر کر غائب ہو جائے تو خدا کے سوا کون تمہیں یہ آب حیات لا کر دے سکتا ہے؟







پارہ نمبر 1

قرآن مجید کے پہلے پارے (جُز) میں "سورۃ الفاتحہ" اور "سورۃ البقرہ" کی ابتدائی آیات (آیت 1 سے 141 تک) شامل ہیں۔ ذیل میں اس پارے کا اہم خلاصہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:


---


### 1. سورۃ الفاتحہ (7 آیات):

- مرکزی موضوع: اللہ کی حمد و ثنا، ہدایت کی درخواست، اور صراطِ مستقیم کی وضاحت۔  

- اہم نکات:

  - آیت 1-3: اللہ کی ربوبیت، رحمت، اور روزِ جزا کی مالکیت کا اعلان۔  

  - آیت 5: دعا: "اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ" (ہمیں سیدھا راستہ دکھا)۔  

  - آیت 6-7: دو گروہوں (نعمت یافتہ اور غضب کے مستحق) کی نشاندہی۔  


---


### 2. سورۃ البقرہ (آیت 1 تا 141):

#### اہم حصے اور موضوعات:


1. انسانوں کی تین اقسام (آیت 1-20):

  - مومنین: جو غیب پر ایمان لاتے ہیں (آیت 3-5).  

  - کافرین: جو حق کو جانتے ہوئے بھی انکار کرتے ہیں (آیت 6-7).  

  - منافقین: دل سے کافر مگر زبان سے ایمان کا دعویٰ (آیت 8-20).  


2. تخلیقِ آدم اور شیطان کی سرکشی (آیت 30-39):

  - آیت 30: فرشتوں کا سوال: "أَتَجْعَلُ فِیْهَا مَن یُفْسِدُ فِیْهَا؟" (کیا زمین میں فساد کرنے والا بنا رہے ہو؟).  

  - آیت 34: شیطان کا آدم کو سجدہ نہ کرنا اور اس کی سرکشی۔  


3. بنی اسرائیل کی نافرمانیاں (آیت 40-103):

  - آیت 47: انہیں اللہ کے احسانات یاد دلائے گئے۔  

  - آیت 54: گوسالہ پرستی کی سزا اور توبہ کا حکم۔  

  - آیت 67-73: گائے ذبح کرنے کا واقعہ (بنی اسرائیل کی ہٹ دھرمی)۔  


4. حضرت ابراہیم علیہ السلام اور کعبہ کی تعمیر (آیت 124-141):

  - آیت 124: ابراہیم علیہ السلام کو امت کا امام بنایا گیا۔  

  - آیت 127: ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کا کعبہ کی تعمیر میں دعا: "رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا" (اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما)۔  

  - آیت 133-141: ابراہیم علیہ السلام کی توحید پر مبنی وصیت اور اہلِ کتاب کو اسوۂ ابراہیم کی دعوت۔  


---


### اہم تعلیمات اور حوالہ جات:

1. توحید کی دعوت:

   - "وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" (اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ) (آیت 22).  


2. آخرت پر ایمان:

   - "وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ" (اور اللہ قبروں والوں کو زندہ کرے گا) (آیت 28).  


3. نفاق کی مذمت:

   - "فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ" (ان کے دلوں میں بیماری ہے) (آیت 10).  


4. توبہ کی اہمیت:

   - "ثُمَّ اجْتَبَاهُ وَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى" (پھر اللہ نے انہیں چن لیا اور توبہ قبول کی اور ہدایت دی) (آیت 37).  


---


### پارے کا مرکزی پیغام:

پہلا پارہ "ہدایت، توحید، اور انسان کی آزمائش" کے موضوعات پر مشتمل ہے۔ اس میں مومن، کافر اور منافق کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے، ساتھ ہی انبیاء کے واقعات کے ذریعے یہ سبق دیا گیا ہے کہ "اللہ کی اطاعت اور توکل" ہی کامیابی کی کلید ہے۔  


ماخذ:

- تفسیر ابن کثیر  

- تفسیر القرطبی  

- القرآن الکریم (ترجمہ و تفسیر ڈاکٹر محمود احمد غازی)






پارہ نمبر 2

قرآن مجید کے دوسرے پارے (جزو) میں سورۃ البقرہ کی آیات 142 سے 252 تک شامل ہیں۔ یہ پارہ "تغیرِ قبلہ، احکاماتِ شریعت، انبیاء کے واقعات، اور جہاد و قربانی" جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔ ذیل میں اس پارے کا خلاصہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:


---


### 1. تغیرِ قبلہ اور امتِ مسلمہ کا امتیازی کردار (آیت 142-152):

- آیت 142-143: قبلہ کی تبدیلی (بیت المقدس سے کعبہ کی طرف) اور امتِ مسلمہ کو "امتِ وسط" (اعتدال پسند قوم) قرار دیا گیا۔ اللہ فرماتا ہے:  

  وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا (اور اسی طرح ہم نے تمہیں اعتدال والی امت بنایا)۔  

- آیت 144: نبی ﷺ کا قبلہ کی طرف توجہ: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لیں)۔  


---


### 2. امتحان اور صبر کی اہمیت (آیت 153-157):

- آیت 153: صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرنے کا حکم: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ۔  

- آیت 155-157: ایمان کی آزمائش (خوف، بھوک، مال اور جان کے نقصان سے) اور صبر کرنے والوں کے لیے اجر کی بشارت۔  


---


### 3. احکاماتِ شریعت (آیت 178-188):

- قصاص کا قانون (آیت 178-179):

  وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ (قصاص میں تمہاری زندگی ہے)۔  

- وصیت کا حکم (آیت 180): والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کرنا۔  

- روزے کی فرضیت (آیت 183-185):

  كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (تم پر روزے فرض کیے گئے)۔  


---


### 4. جہاد فی سبیل اللہ اور مال کی قربانی (آیت 190-195، 261-274):

- آیت 190-193: جہاد کی حدود: وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ (اللہ کی راہ میں لڑو)، مگر ظلم نہ کرو۔  

- آیت 261: مال کی قربانی کی مثال: مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (جو لوگ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایک دانے جیسی ہے جو سات بالیاں اگاتا ہے)۔  


---


### 5. طالوت اور جالوت کا واقعہ (آیت 246-252):

- آیت 246-248: بنی اسرائیل کا طالوت کو بادشاہ ماننے سے انکار اور تابوتِ سکینہ کی نشانی۔  

- آیت 249: طالوت کی فوج کا امتحان (دریا سے پانی نہ پینا) اور حضرت داؤد علیہ السلام کی فتح۔  

- آیت 251: داؤد علیہ السلام کا جالوت کو قتل کرنا اور اللہ کی نصرت: وَهَزَمُوا بِإِذْنِ اللَّهِ۔  


---


### اہم تعلیمات اور حوالہ جات:

1. امتِ وسط کی ذمہ داری:

   - "لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ" (تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو) (آیت 143)۔  

2. توکل اور صبر:

   - "إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ" (بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) (آیت 153)۔  

3. انفاق کی فضیلت:

   - "الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ" (جو رات دن چھپے اور کھلم کھلا مال خرچ کرتے ہیں) (آیت 274)۔  


---


### پارے کا مرکزی پیغام:

دوسرا پارہ "امتِ مسلمہ کے امتیازی کردار، اجتماعی احکامات، اور اللہ پر توکل" کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں جہاد، انفاق، اور صبر کے ذریعے آزمائشوں میں کامیابی کا راستہ بتایا گیا ہے۔ ساتھ ہی، طالوت و جالوت کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ "اللہ کی نصرت اہلِ ایمان کے ساتھ ہے"، چاہے ظاہری اسباب کم ہی کیوں نہ ہوں۔  






پارہ نمبر 3

قرآن مجید کے تیسرے پارے (جزو) میں سورۃ البقرہ کی آخری آیات (253 سے 286) اور سورۃ آل عمران کی ابتدائی آیات (1 سے 92 تک) شامل ہیں۔ یہ پارہ "توحید، مالی احکامات، انفاق، اور اہلِ کتاب سے مکالمہ" جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔ ذیل میں اس پارے کا خلاصہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:


---


### 1. سورۃ البقرہ (آیت 253-286):

#### اہم موضوعات:

- آیت 253: انبیاء کے درجات میں فرق: "تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ" (ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی)۔  

- آیت 255 (آیت الکُرسی): اللہ کی عظمت اور کائنات پر اختیار کی وضاحت:  

  "اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ..." (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے)۔  

- آیت 256: دین میں جبر کی ممانعت: "لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ" (دین میں کوئی جبر نہیں)۔  

- آیت 261-274: انفاق کی فضیلت اور ریا کاری کی مذمت۔  

- آیت 275-281: سود (ربا) کی حرمت اور اس کے تباہ کن اثرات۔  

- آیت 282-283: تجارت اور قرض کے احکام (مفصل ترین آیت)۔  

- آیت 286: انسان کی استطاعت سے بڑا بوجھ نہ ڈالنا: "لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا"۔  


---


### 2. سورۃ آل عمران (آیت 1-92): 

#### اہم موضوعات:

- توحید اور قرآن کی حقانیت (آیت 1-9): 

  "اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ" (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے)۔  

- آیت 18: اللہ، فرشتوں، اور اہلِ علم کا توحید کی گواہی دینا: "شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ"۔

- حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا واقعہ (آیت 42-63):

  - آیت 45: فرشتوں کی حضرت مریم کو بشارت: "إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ"۔  

  - آیت 55: حضرت عیسیٰ کی وفات اور اللہ کی طرف اٹھائے جانے کا بیان۔  

- اہلِ کتاب کو دعوتِ توحید (آیت 64-80):

  "قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ..." (اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہم میں یکساں ہے)۔  

- آیت 92: نیکی کے لیے خرچ کرنا: "لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ" (تم نیکی نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو)۔  


---


اہم تعلیمات اور حوالہ جات:

1. توحید کی عظمت:

   - "هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ" (وہ اللہ یکتا اور سب پر غالب ہے) (آل عمران: 6)۔  

2. انفاق کی شرائط:

   - "الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ" (جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں) (آل عمران: 134)۔  

3. سود کی تباہی:

   - "يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا" (اللہ سود کو مٹاتا ہے) (البقرہ: 276)۔  

4. دعا کی قبولیت:

   - "رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا" (اے رب! ہم سے بھول یا غلطی کی پکڑ نہ کر) (البقرہ: 286)۔  


---


پارے کا مرکزی پیغام:

تیسرا پارہ "توحید کے اثبات، مالی معاملات میں پاکیزگی، اور اہلِ کتاب کے ساتھ مکالمے" کی دعوت پر زور دیتا ہے۔ اس میں سود کی مذمت، انفاق کی ترغیب، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ "اللہ کی نصرت ہمیشہ حق کے ساتھ ہے"۔ ساتھ ہی، آیت الکُرسی اور سورۃ آل عمران کی ابتدائی آیات ایمان کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں۔  






پارہ نمبر 4

قرآن مجید کے چوتھے پارے (جزو) میں سورۃ آل عمران کی آخری آیات (93 سے 200 تک) اور سورۃ النساء کی ابتدائی آیات (1 سے 23 تک) شامل ہیں۔ یہ پارہ "اجتماعی اخلاقیات، جنگِ اُحد کے واقعات، وراثت کے احکام، اور خاندانی نظام" جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔ ذیل میں اس پارے کا خلاصہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:


---


### 1. سورۃ آل عمران (آیت 93-200): 

#### اہم موضوعات:

- آیت 93: حضرت موسیٰ علیہ السلام پر مَنّ و سَلْوَىٰ (عمدہ غذا) کے نزول کا ذکر۔  

- آیت 103: اتحاد کی تاکید: "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو)۔  

- جنگِ اُحد کا واقعہ (آیت 121-129):

  - آیت 121: غزوہ اُحد میں مسلمانوں کی نافرمانی کا نتیجہ۔  

  - آیت 152: ابتدائی فتح کے بعد آزمائش: "حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ" (جب تم ہمت ہار بیٹھے اور اختلاف کرنے لگے)۔  

- آیت 190-194: کائنات پر غوروفکر کی دعوت اور دعا: "رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ" (اے رب! جسے تو آگ میں ڈالے گا، اسے رسوا کر دے گا)۔  


---


### 2. سورۃ النساء (آیت 1-23):

#### اہم موضوعات:  

- انسانی حقوق اور عدل (آیت 1):

  "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ" (اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا)۔  

- یتیموں کے حقوق (آیت 2-6):

  "وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ" (یتیموں کو ان کے مال دے دو)۔  

- وراثت کے احکام (آیت 7-12):

  - آیت 11: مرد اور عورت کا حصہ: "لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ" (مرد کو دو حصے، عورت کو ایک)۔  

- نکاح اور مہر کے اصول (آیت 19-21): 

  "فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا" (اگر بیویاں رضامندی سے مہر کا کچھ حصہ معاف کریں تو اسے خوشی سے کھاؤ)۔  


---


### اہم تعلیمات اور حوالہ جات:

1. اتحاد اور صبر کی اہمیت:

   - "وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ" (اختلاف نہ کرو، ورنہ کمزور ہو جاؤ گے) (آل عمران: 152)۔  

2. یتیموں کے ساتھ انصاف:

   - "إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا..." (جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں...) (النساء: 10)۔  

3. خاندانی نظام کی حفاظت:

   - "وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو) (النساء: 19)۔  


---


### پارے کا مرکزی پیغام:

چوتھا پارہ "اجتماعی اخلاقیات، جنگی تجربات سے سبق، اور خاندانی قوانین" کی تفصیلات پیش کرتا ہے۔ سورۃ آل عمران میں جنگِ اُحد کے واقعے سے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ "اللہ کی اطاعت اور اتحاد" ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ سورۃ النساء کے ابتدائی احکامات میں "یتیموں، عورتوں، اور ورثاء کے حقوق" کو واضح کیا گیا ہے، جس سے اسلامی معاشرے کے عدل پر مبنی ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔  







پارہ نمبر 5

قرآن مجید کے پانچویں پارے کا آغاز سورہ النساء (آیت ۲۴) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ النساء (آیت ۱۴۷) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ مکمل طور پر سورہ النساء کے مضامین پر مشتمل ہے، جو مدنی سورت ہے اور اسلامی معاشرے کے قوانین، خاندانی نظام، اخلاقیات، اور ایمانیات کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ نکاح اور خاندانی قوانین (آیات ۲۴-۳۵)
- آیت ۲۴-۲۵: حلال و حرام نکاح کے احکام، مہر کی ادائیگی کی تاکید، اور لونڈیوں سے نکاح کے شرائط۔
- آیت ۲۸-۳۰: انسانی کمزوریوں پر رحمت کا بیان اور گناہوں سے بچنے کی ہدایت۔
- آیت ۳۴-۳۵: میاں بیوی کے حقوق و فرائض، ناشکرگزی اور بدسلوکی کی صورت میں علاج کے طور پر "وعظ"، علیحدگی، اور حَکَم مقرر کرنے کا حکم۔

---

۲۔ یتیموں اور کمزوروں کے حقوق (آیات ۳۶-۴۲)
- آیت ۳۶: والدین، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، اور ہمسایوں کے ساتھ احسان کی تاکید۔
- آیت ۳۷-۴۲: مال کی محبت اور تکبر کی مذمت، نیز یتیموں کے مال کو ناحق کھانے والوں کی سخت مذمت۔

---

### ۳۔ وراثت کے احکام (آیات ۴۳-۵۷)
- آیت ۴۳: وراثت کی تقسیم کا حکم، جس میں خواتین کو حصہ دینے کی واضح ہدایت۔
- آیت ۴۸-۵۷: شرک کی مذمت اور اہل ایمان کے لیے جنت کی بشارت۔ ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی گمراہیوں کی نشاندہی۔

---

۴۔ منافقین کی شناخت اور ان کا انجام (آیات ۶۰-۷۰)
- آیت ۶۰-۶۳: منافقین کی دوغلی پالیسی، جھوٹی قسمیں، اور ان کے دل میں بیماری کا ذکر۔
- آیت ۶۴-۷۰: منافقین کی سازشوں سے بچنے اور اللہ و رسول کی اطاعت پر زور۔

---

۵۔ جہاد اور شہداء کی فضیلت (آیات ۷۱-۱۰۰)
- آیت ۷۱-۷۶: جہاد کی تیاری کی ہدایت، نیز ایمان والوں کی بہادری اور کافروں کی بزدلی کا موازنہ۔
- آیت ۷۷-۱۰۰: شہداء کی بلند مقامت، جہاد میں ثابت قدمی، اور ہجرت کی فضیلت۔

---

۶۔ عدل اور انصاف کی تاکید (آیات ۱۰۵-۱۳۵)
- آیت ۱۰۵-۱۱۳: فیصلے کرتے وقت انصاف کی پابندی، چاہے دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
- آیت ۱۳۵: "اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو..."—عدل کی اہمیت اور گواہی میں دیانتداری۔

---

۷۔ اہل کتاب سے مکالمہ (آیات ۱۳۶-۱۴۷)
- آیت ۱۳۶: اہل کتاب کی غلط عقائد (مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا) کی تردید۔
- آیت ۱۴۰-۱۴۷: کافروں اور منافقوں کی دوستی سے پرہیز، نیز ایمان اور عمل صالح کی ترغیب۔

---

پارے کا کلیدی پیغام:
اس پارے میں خاندانی نظام، معاشرتی انصاف، اور ایمانی مضبوطی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ خاص طور پر کمزور طبقات (یتیموں، عورتوں) کے حقوق، وراثت کے منصفانہ قوانین، اور منافقت کے تباہ کن اثرات پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی، عدل اور جہاد جیسے اسلامی اصولوں کو واضح کیا گیا ہے۔

--- 

حواشی:
- سورہ النساء کا یہ حصہ اسلامی قانون (فقه) کے لیے بنیادی ماخذ ہے۔  
- آیات میں بار بار "اللہ کی رسی" (قرآن و سنت) کو تھامنے کی تلقین کی گئی ہے۔






پارہ نمبر 6

قرآن مجید کے چھٹے پارے کا آغاز سورہ النساء (آیت ۱۴۸) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ المائدہ (آیت ۸۱) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ دو سورتوں (النساء اور المائدہ) کے حصوں پر مشتمل ہے، جو دونوں مدنی سورتیں ہیں اور اسلامی معاشرتی قوانین، اخلاقیات، اور عقیدے کی بنیادی تعلیمات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ سورہ النساء (آیات ۱۴۸–۱۷۶) کے مضامین

الف۔ معاشرتی اخلاقیات اور گفتار کی پاکیزگی
- آیت ۱۴۸-۱۴۹: بری باتوں کو پھیلانے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ معاف کرنے اور درگزر کی ترغیب دی گئی ہے۔  
- آیت ۱۵۲: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور کفر سے اجتناب کی تاکید۔  

ب۔ توحید کی تصدیق اور شرک کی مذمت
- آیت ۱۵۳-۱۵۷: بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کے جھوٹے دعوے کی تردید۔  
- آیت ۱۷۱-۱۷۳: اہل کتاب کو توحید کی دعوت اور حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بندہ و رسول قرار دینے کی ہدایت۔  

ج۔ وراثت کے آخری احکام
- آیت ۱۷۶: "کلالہ" (وہ شخص جس کے والدین یا اولاد نہ ہو) کی وراثت کی تفصیلی تقسیم۔  

---

۲۔ سورہ المائدہ (آیات ۱–۸۱) کے مضامین 

الف۔ عہد و پیمان کی پاسداری
- آیت ۱: "اے ایمان والو! عہدوں کو پورا کرو" — معاہدوں، قربانیوں، اور احکام الٰہی کی پابندی کی تاکید۔  
- آیت ۲: نیکی اور تقویٰ میں تعاون کا حکم، نیز حرمت کے مہینوں اور شعائر اللہ کی تعظیم۔  

ب۔ حلال و حرام کی تفصیلات
- آیت ۳-۵: حرام گوشت کی فہرست (مثلاً مردار، خون، سور کا گوشت)، نیز اہل کتاب کے ذبیحہ اور ان کی پاکیزہ عورتوں سے نکاح کی اجازت۔  
- آیت ۶: وضو اور تیمم کے احکام۔  

ج۔ انصاف اور گواہی کی اہمیت
- آیت ۸: "اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ کھڑے رہو" — دشمنوں کے خلاف بھی عدل کی پاسداری۔  
- آیت ۱۰۶-۱۰۸: وصیت کے وقت گواہوں کی ذمہ داریوں اور دیانتداری کی ہدایت۔  

د۔ جرائم اور سزائیں
- آیت ۲۷-۳۲: قابیل و ہابیل کا واقعہ، قتل کی حرمت، اور انسانیت کی قدر۔  
- آیت ۳۳-۳۴: زمین میں فساد پھیلانے (جیسے قتل، ڈکیتی) والوں کی سخت سزائیں۔  

ہ۔ اہل کتاب کے ساتھ تعلقات
- آیت ۴۱-۵۰: یہود و نصاریٰ کی گمراہیوں (تحریفِ کتب، شرک) کی نشاندہی اور ان سے محتاط رہنے کا حکم۔  
- آیت ۵۷-۶۶: اہل کتاب کو قرآن کی طرف رجوع کرنے کی دعوت اور ان کے اعمال کی جزا کا بیان۔  

و۔ عقیدہ توحید کی توضیح
- آیت ۷۲-۷۷: تثلیث (تین خداؤں کا عقیدہ) کی تردید اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بندگی پر زور۔  
- آیت ۷۸-۸۱: کافروں اور گمراہوں کے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
یہ پارہ معاشرتی انصاف، عہد کی پاسداری، اور توحید کی خالص تعلیمات پر مرکوز ہے۔ خاص طور پر:  
1. کسی کے حقوق کو ضائع نہ کرنا (چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو)۔  
2. حلال و حرام کی حدود کو سمجھنا اور ان کی پابندی۔  
3. اہل کتاب کے ساتھ معاملات میں اعتدال اور حکمت۔  
4. جرائم کی سنگینی اور ان کے لیے اسلامی سزاؤں کا تصور۔  

نوٹ: سورہ المائدہ کو "عہد نامہ" بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں اللہ کے ساتھ بندوں کے عہد کو نمایاں کیا گیا ہے۔




پارہ نمبر 7

قرآن مجید کے ساتویں پارے کا آغاز سورہ المائدہ (آیت ۸۲) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ الانعام (آیت ۱۱۰) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ دو سورتوں (المائدہ اور الانعام) کے حصوں پر مشتمل ہے۔ سورہ المائدہ مدنی ہے اور اسلامی قانون و اخلاقیات کو واضح کرتی ہے، جبکہ سورہ الانعام مکّی ہے جو توحید، آخرت، اور کائنات کی نشانیوں پر مرکوز ہے۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

### ۱۔ سورہ المائدہ (آیات ۸۲–۱۲۰) کے مضامین

الف۔ اہل کتاب کے ساتھ تعلقات
- آیت ۸۲-۸۶: عیسائیوں کی ایک گروہ کی تعریف جو مسلمانوں کے قریب ہے، نیز کفار اور یہود کی عداوت کا ذکر۔  
- آیت ۸۷-۸۸: حلال چیزوں کو حرام قرار دینے سے منع اور اللہ کی دی ہوئی رزق سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب۔  

ب۔ حرام کردہ اعمال اور توبہ
- آیت ۹۰-۹۱: شراب، جوا، بتوں کے لیے چڑھاوے، اور فال گیری کو "نجس شیطانی کام" قرار دینا۔  
- آیت ۹۲-۹۳: نیک اعمال پر ثواب اور گناہوں سے توبہ کی اہمیت۔  

ج۔ احکامات اور وعید
- آیت ۹۴-۹۶: حج کے دوران شکار کی ممانعت اور اس کی تلافی کا طریقہ۔  
- آیت ۱۰۵-۱۰۸: گواہی اور وصیت کے وقت دیانتداری کی تاکید۔  
- آیت ۱۱۶-۱۲۰: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بندگی کا اقرار اور شرک کی تردید۔  

---

۲۔ سورہ الانعام (آیات ۱–۱۱۰) کے مضامین

الف۔ توحید اور کائنات کی نشانیاں
- آیت ۱-۳: اللہ کی تخلیق (آسمان، زمین، اندھیرا اور روشنی) کو توحید کی دلیل بنانا۔  
- آیت ۷۵-۷۹: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کہانی جو ستاروں، چاند، اور سورج کو پوجنے والوں کو توحید سکھاتے ہیں۔  
- آیت ۹۵-۹۹: بیج، پانی، اور پھلوں میں اللہ کی نشانیاں۔  

ب۔ شرک کی تردید اور رسالت کا دفاع
- آیت ۵۰-۵۴: نبی ﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ کہیں: "میں تمہیں اللہ کے خزانے نہیں دکھا سکتا... میں تو صرف وحی کی پیروی کرتا ہوں۔"  
- آیت ۱۰۰-۱۰۳: فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینے والوں کی تردید اور اللہ کی تنزیہ (پاکی بیان کرنا)۔  

ج۔ آخرت اور حساب کتاب
- آیت ۳۱-۳۲: دنیا کی زندگی کو "کھیل تماشا" قرار دینا اور آخرت کو حقیقی کامیابی کی جگہ۔  
- آیت ۶۰-۶۲: موت اور جزا کا دن، جہاں ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا۔  

د۔ انذار اور تبلیغ
- آیت ۱۹-۲۰: قرآن کو "روشن کتاب" اور نبی ﷺ کو ڈرانے والا قرار دینا۔  
- آیت ۹۱-۹۲: اہل کتاب کی تحریفِ کتب کی مذمت اور قرآن کے عالمگیر پیغام کی عظمت۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. توحید کی شہادت: کائنات کی ہر چیز اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے۔  
2. شرک کی مذمت: غیراللہ کی عبادت یا اسے شریک ٹھہرانے کو جہالت قرار دیا گیا ہے۔  
3. اخلاقی ذمہ داری: حرام اعمال (شراب، جوا) سے اجتناب اور حلال رزق کی قدر۔  
4. رسالت کی عظمت: نبی ﷺ کا کردار صرف "بشارت دینے والا" اور "ڈرانے والا" ہے۔  
5. آخرت کی تیاری: دنیا فانی ہے، اور انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔  

نوٹ: سورہ الانعام کو "توحید کی سورت" کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں ۶۰ سے زائد مرتبہ لفظ "اللہ" آیا ہے اور شرک کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا ہے۔





پارہ نمبر 8

قرآن مجید کے آٹھویں پارے کا آغاز سورہ الانعام (آیت ۱۱۱) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ الاعراف (آیت ۸۷) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ دو سورتوں (الانعام اور الاعراف) کے حصوں پر مشتمل ہے۔ سورہ الانعام مکّی ہے جو توحید، رسالت، اور آخرت پر زور دیتی ہے، جبکہ سورہ الاعراف (جو مکّی ہے) میں گزشتہ امتوں کے واقعات اور ان کے عبرت ناک انجام کو بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ سورہ الانعام (آیات ۱۱۱–۱۶۵) کے مضامین

الف۔ شرک کی تردید اور توحید کا اثبات
- آیت ۱۱۱-۱۱۵: مشرکین کے بے بنیاد شکوک کی تردید اور قرآن کے حق ہونے پر دلائل۔  
- آیت ۱۲۱-۱۲۳: شیاطین کی پیروی کرنے والوں کی مذمت اور ان کے فریب کا پردہ فاش۔  
- آیت ۱۳۶-۱۴۴: جاہلیت کے غلط عقائد (جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑنے) کی تردید۔  

ب۔ انبیاء کی دعوت اور ان کا مقام
- آیت ۱۲۴-۱۲۷: انبیاء کو علم و حکمت عطا کرنے کا ذکر اور کافروں کی ہٹ دھرمی۔  
- آیت ۱۵۱-۱۵۳: "دس احکامات" کی تفصیل: شرک نہ کرنا، والدین کے ساتھ احسان، قتل نہ کرنا، زنا سے بچنا، یتیم کا مال نہ کھانا، انصاف کرنا، اللہ کے عہد کو پورا کرنا، وغیرہ۔  

ج۔ آخرت اور حساب کتاب
- آیت ۱۵۴-۱۵۸: قرآن کو ہدایت کا سرچشمہ قرار دینا اور قیامت کے دن کا منظر۔  
- آیت ۱۶۰-۱۶۲: نیک اعمال کا اجر دس گنا تک بڑھایا جانا، نیز ہر کام میں اللہ کی رضا کو مرکوز کرنا۔  

---

۲۔ سورہ الاعراف (آیات ۱–۸۷) کے مضامین

الف۔ انسان اور شیطان کا مقابلہ
- آیت ۱۱-۲۵: حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان (ابلیس) کا واقعہ، شیطان کے وسوسے، اور انسان کو آزمائش میں ڈالنے کا بیان۔  
- آیت ۲۶-۳۰: لباس کی حقیقت (تقویٰ کو بہترین لباس قرار دینا) اور شیطان کی پیروی سے روکنا۔  

ب۔ گزشتہ قوموں کے واقعات
- آیت ۵۹-۶۴: حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی نافرمانی اور طوفان کا عذاب۔  
- آیت ۶۵-۷۲: حضرت ہود علیہ السلام اور قوم عاد کی تباہی۔  
- آیت ۷۳-۷۹: حضرت صالح علیہ السلام اور قوم ثمود کا واقعہ (اونٹنی کا معجزہ اور ان کی ہلاکت)۔  
- آیت ۸۰-۸۴: حضرت لوط علیہ السلام اور قومِ سدوم کی بدکاریوں پر عذاب۔  
- آیت ۸۵-۸۷: حضرت شعیب علیہ السلام اور اہل مَدْیَن کی سرکشی۔  

ج۔ توحید اور تبلیغ
- آیت ۳۱-۳۳: تکبر اور فضول خرچی سے منع، نیز اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا۔  
- آیت ۴۴-۵۱: کافروں کے دلائل کا جواب اور آخرت میں ان کی رسوائی کا ذکر۔  
- آیت ۵۴-۵۸: اللہ کی قدرت کی نشانیاں (موسم کی تبدیلی، زمین سے نکلنے والی نباتات)۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام
1. توحید کا اعلان: ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے، اور شرک تمام برائیوں کی جڑ۔  
2. انبیاء کا مشن: ہر نبی نے اپنی قوم کو ایک ہی دعوت دی: "اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں"۔  
3. تاریخ کے سبق: گزشتہ قوموں کی تباہی کا سبب صرف ان کا تکبر اور انبیاء کو جھٹلانا تھا۔  
4. انسانی آزمائش: شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، اور اس کے وسوسوں سے بچنے کے لیے تقویٰ ضروری ہے۔  
5. اخلاقی ذمہ داری: والدین کے حقوق، یتیموں کے ساتھ انصاف، اور معاشرتی برائیوں سے اجتناب۔  

نوٹ: سورہ الاعراف کو "آدم اور شیطان کی سورت" بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں انسان کی تخلیق، آزمائش، اور شیطان کے مقابلے میں اس کی کمزوریوں کو واضح کیا گیا ہے۔


پارہ نمبر 9

قرآن مجید کے نویں پارے کا آغاز **سورہ الاعراف (آیت ۸۸)** سے ہوتا ہے اور یہ **سورہ الانفال (آیت ۴۰)** پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ دو سورتوں (الاعراف اور الانفال) کے حصوں پر مشتمل ہے۔ سورہ الاعراف مکّی ہے جو گزشتہ امتوں کے واقعات اور توحید کے مضامین کو بیان کرتی ہے، جبکہ سورہ الانفال مدنی ہے جس میں جہاد، غنائم، اور اسلامی ریاست کے اصولوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ سورہ الاعراف (آیات ۸۸–۲۰۶) کے مضامین

الف۔ گزشتہ قوموں کے واقعات اور عبرت
- آیت ۸۸-۹۳: حضرت شعیب علیہ السلام اور قومِ مَدْیَن کی سرکشی، ان پر عذاب کا نزول، اور مومنوں کی نجات۔  
- آیت ۱۰۳-۱۳۷: حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ: فرعون کی ضد، بنی اسرائیل کی نجات، اور دریائے نیل کو پار کرنے کا معجزہ۔  
- آیت ۱۳۸-۱۴۱: بنی اسرائیل کا گوسالہ پرستی کی طرف مائل ہونا اور اس کی سزا۔  
- آیت ۱۵۶-۱۵۸: اللہ کی رحمت کے دروازے کھولنے کا وعدہ اور نبی ﷺ کی بعثت کا ذکر۔  

ب۔ توحید اور آخرت کا بیان
- آیت ۱۷۲-۱۷۴: "میثاقِ الست" کا واقعہ (جب تمام انسانوں سے اللہ نے پوچھا: "کیا میں تمہارا رب نہیں؟" اور انہوں نے اقرار کیا)۔  
- آیت ۱۷۵-۱۷۹: شیطان کے فریب اور انسان کی آزمائش کا تذکرہ۔  
- آیت ۱۸۰-۲۰۶: اللہ کے اسماء الحسنیٰ کی عظمت، شرک کی مذمت، اور عبادت میں خشوع کی تاکید۔  

---

### ۲۔ سورہ الانفال (آیات ۱–۴۰) کے مضامین

الف۔ غنائمِ جنگ اور جہاد کے احکام
- آیت ۱-۴: جنگِ بدر کے غنائم کی تقسیم کے اصول، نیز ایمان والوں کی صفات (خشوع، اطاعت، خرچ کرنا)۔  
- آیت ۵-۱۹: جنگِ بدر کا واقعہ، جہاں تھوڑے مسلمانوں نے کفار کی بڑی فوج کو شکست دی۔ اللہ کی مدد کا ذکر: "تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے قتل کیا" (آیت ۱۷)۔  

ب۔ اطاعتِ الٰہی اور اجتماعی نظم
- آیت ۲۰-۲۸: اللہ اور رسول کی اطاعت کی تاکید، نیز منافقوں کی سازشوں سے خبردار۔  
- آیت ۲۹-۳۷: تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے "فرقان" (حق و باطل میں تمیز) کا وعدہ، نیز کافروں کی تباہی کا بیان۔  
- آیت ۳۸-۴۰: کفار سے مقابلے کی ہدایت: "ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے" (آیت ۳۹)۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. توحید کی مضبوطی: ہر نبی نے اپنی قوم کو صرف اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔  
2. تاریخ کے سبق: سرکش قوموں کی تباہی کا سبب صرف ان کا تکبر اور انبیاء کو جھٹلانا تھا۔  
3. جہاد کی اہمیت: اسلامی ریاست کے تحفظ اور حق کی سربلندی کے لیے جہاد ضروری ہے۔  
4. اجتماعی اطاعت: مسلم معاشرے کی کامیابی اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔  
5. آخرت کا یقین: دنیا کی زندگی عارضی ہے، اور ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا۔  

نوٹ:
- سورہ الاعراف کے آخر میں سجدۂ تلاوت کا حکم ہے (آیت ۲۰۶)۔  
- سورہ الانفال کو "جہاد کی سورت" کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں جنگِ بدر کی تفصیلات اور اسلامی ریاست کے قوانین بیان ہوئے ہیں۔







پارہ نمبر 10

قرآن مجید کے دسویں پارے کا آغاز سورہ الانفال (آیت ۴۱) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ التوبہ (آیت ۹۲) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ دو سورتوں (الانفال اور التوبہ) کے حصوں پر مشتمل ہے۔ سورہ الانفال مدنی ہے جس میں جہاد، غنائم، اور اسلامی معاشرے کے اصولوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جبکہ سورہ التوبہ (جسے "براءت" بھی کہا جاتا ہے) بھی مدنی ہے اور اس میں کفار و منافقین کے ساتھ تعلقات، جہاد کی اہمیت، اور ایمان کی سچائی کو واضح کیا گیا ہے۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---


۱۔ سورہ الانفال (آیات ۴۱–۷۵) کے مضامین

الف۔ غنائم کی تقسیم اور اسلامی اخلاقیات
- آیت ۴۱: "خُمس" (مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ) کی تقسیم کا حکم، جو اللہ، رسول، یتیموں، مسکینوں، اور مسافروں کے لیے مخصوص ہے۔  
- آیت ۴۵-۴۶: جہاد میں صبر اور اللہ پر بھروسے کی تاکید: "اے ایمان والو! جب تم کافروں سے مقابلے پر ہو تو ثابت قدم رہو"۔  
- آیت ۶۰-۶۲: دشمنوں کے خلاف تیاری اور امن کی خاطر صلح کی گنجائش۔  

ب۔ مسلمانوں کی ذمہ داریاں
- آیت ۷۲-۷۵: مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارے کا بیان اور منافقوں کی مکاری کی مذمت۔  

---

۲۔ سورہ التوبہ (آیات ۱–۹۲) کے مضامین

الف۔ کفار و مشرکین کے ساتھ تعلقات
- آیت ۱-۵: مشرکین کے ساتھ معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان اور انہیں چار ماہ کی مہلت دینا۔ "آیت السیف" (آیت ۵) میں حکم: "مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو"۔  
- آیت ۶-۱۲: اگر مشرکین امان مانگیں تو انہیں پناہ دینے کا حکم، نیز ان کی عہد شکنی کی سزا۔  

ب۔ جہاد اور منافقین کی چالوں کا پردہ فاش
- آیت ۱۶-۲۹: جہاد کی فضیلت اور کافروں کے خلاف کارروائی کی شرائط۔ آیت ۲۹ میں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سے جزیہ لینے کا حکم۔  
- آیت ۳۰-۳۵: عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کی تردید اور بیت المقدس کی طرف قبلہ تبدیل کرنے کے جھوٹے دعووں کا رد۔  
- آیت ۳۸-۴۸: "جنگِ تبوک" کے موقع پر منافقین کی بہانہ سازی اور کمزور ایمان کی مذمت۔

ج۔ ایمان کی سچائی اور زکوٰۃ کی اہمیت
- آیت ۶۰-۶۳: زکوٰۃ کے مصارف (فقیر، مسکین، عاملین زکوٰۃ، وغیرہ) کی تفصیل۔  
- آیت ۷۱-۷۲: مومن مرد و عورتوں کی صفات (نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا)۔  
- آیت ۸۱-۹۲: جنگِ تبوک میں پیچھے رہنے والوں کی مذمت، البتہ معذور افراد کے لیے رخصت۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:  
1. جہاد کی ضرورت: اسلامی ریاست کے تحفظ اور حق کی بالادستی کے لیے جہاد ناگزیر ہے۔  
2. منافقت کی تباہی: منافقین کی چالوں سے بچنے اور ایمان کی سچائی پر کاربند رہنے کی تاکید۔  
3. مالی ذمہ داری: زکوٰۃ کی ادائیگی اور معاشرتی انصاف کو یقینی بنانا۔  
4. عہد کی پاسداری: مشرکین کے ساتھ معاہدوں کی شرائط پر عمل کرنا یا انہیں ختم کرنا۔  
5. توحید کا اعلان: تمام تر عبادات اور قربانیاں صرف اللہ کے لیے ہونی چاہئیں۔  

نوٹ: 
- سورہ التوبہ کو "سورۃ البراءۃ" بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کا آغاز مشرکین سے براءت (الگ تھلگ ہونے) کے اعلان سے ہوتا ہے۔  
- آیت ۵ ("آیت السیف") کو جہاد کے احکام کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔  
- آیت ۲۹ میں "جزیہ" کا ذکر اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی کرتا ہے۔


پارہ نمبر 11

قرآن مجید کے گیارہویں پارے کا آغاز سورہ التوبہ (آیت ۹۳) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ یونس (آیت ۲۵) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ دو سورتوں (التوبہ اور یونس) کے حصوں پر مشتمل ہے۔ سورہ التوبہ مدنی ہے جو منافقین، جہاد، اور اسلامی معاشرے کے اصولوں پر مرکوز ہے، جبکہ سورہ یونس مکّی ہے جو توحید، رسالت، اور کائنات کی نشانیوں کو بیان کرتی ہے۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ سورہ التوبہ (آیات ۹۳–۱۲۹) کے مضامین

الف۔ منافقین کی مذمت اور توبہ کی قبولیت
- آیت ۹۳-۹۶: جنگِ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کے بہانوں کی تردید اور ان کے منافقت پر تنقید۔  
- آیت ۹۷-۹۹: دیہاتیوں کی سختی اور جہالت کا ذکر، البتہ توبہ کرنے والوں کے لیے رحمت کی امید۔  
- آیت ۱۰۰: مہاجرین و انصار کی فضیلت اور ان کے لیے جنت کی بشارت۔  

ب۔ جہاد اور مالی قربانی کی اہمیت
- آیت ۱۱۱: "اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلے خرید لیا" — جہاد و قربانی کو عظیم سودا قرار دینا۔  
- آیت ۱۲۲: علم کی اہمیت — ہر گروہ میں سے کچھ لوگوں کا دین سیکھنے اور لوگوں کو تنبیہ کرنے کے لیے نکلنا۔  

ج۔ رسول اللہ ﷺ کی شفقت اور اختتامی دعا
- آیت ۱۲۸-۱۲۹: نبی ﷺ کی امت کے لیے درد مندی کا اظہار اور اللہ پر توکل کی تعلیم: "کافی ہے اللہ تمہارے لیے"۔  

---

۲۔ سورہ یونس (آیات ۱–۲۵) کے مضامین

الف۔ توحید اور قرآن کی حقانیت
- آیت ۱-۲: قرآن کے حکمت آمیز ہونے پر تعجب کرنے والوں کو چیلنج: "کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے ایک انسان کی طرف وحی بھیجی؟"۔  
- آیت ۵-۶: چاند، سورج، اور رات و دن کی گردش کو اللہ کی نشانیاں بتانا۔  

ب۔ گزشتہ قوموں کے واقعات
- آیت ۷۱-۷۳: حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی تباہی اور کشتی کا واقعہ۔  
- آیت ۷۵-۸۲: حضرت موسیٰ اور فرعون کا مقابلہ، نیز جادوگروں کا ایمان لانا۔  

ج۔ انسانی فطرت اور آزمائش
- آیت ۱۲: انسان کی عادت کا ذکر — مصیبت میں اللہ کو پکارنا، پھر نعمت ملنے پر بھول جانا۔  
- آیت ۲۴: دنیا کی زندگی کی مثال — بارش اور پھر سبزہ جو خشک ہو جاتا ہے۔  

د۔ اللہ کی رحمت اور نشانیاں:
- آیت ۲۵: اللہ "صلح کی طرف بلاتا ہے" اور ہدایت چاہنے والوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. منافقت کی تباہی: منافقین کے بہانوں کی بے وزنی اور ایمان کی سچائی پر زور۔  
2. جہاد کی عظمت: جان و مال کی قربانی کو جنت کا راستہ قرار دینا۔  
3. توحید کی دعوت: کائنات کی ہر نشانی اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے۔  
4. انسانی آزمائش: دنیا کی فانی زندگی اور آخرت کی تیاری کی ترغیب۔  
5. رسول کی شفقت: نبی ﷺ کی امت کے لیے درد مندی اور اللہ پر بھروسے کا سبق۔  

نوٹ:
- سورہ التوبہ کے آخر میں "حسبنا اللہ ونعم الوکیل" کی دعا (آیت ۱۲۹) ایمان والوں کے لیے تسکین کا ذریعہ ہے۔  
- سورہ یونس میں "فطرت کی نشانیوں" پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے، جو مکّی سورتوں کا خاصہ ہے۔



پارہ نمبر 12

قرآن مجید کے بارہویں پارے کا آغاز سورہ ہود (آیت ۶) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ یوسف (آیت ۵۲) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ دو مکّی سورتوں (ہود اور یوسف) پر مشتمل ہے، جو توحید، رسالت، اور انبیاء کے واقعات کو بیان کرتی ہیں۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ سورہ ہود (آیات ۶–۱۲۳) کے مضامین

الف۔ توحید اور رسالت پر دلائل
- آیت ۶: ہر جاندار کی روزی اللہ کے ذمے ہونے کا بیان۔  
- **آیت ۸-۱۲**: کفار کے اعتراضات (قرآن جادو ہے یا افسانہ) کا جواب اور نبی ﷺ کو صبر کی تلقین۔  

ب۔ انبیاء کے واقعات اور ان کی قوموں کی ہلاکت
- آیت ۲۵-۴۹: حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا واقعہ، ان کی قوم کی سرکشی، اور طوفان کا عذاب۔  
- آیت ۵۰-۶۰: حضرت ہود علیہ السلام اور قوم عاد کی تباہی (تند ہوا کا عذاب)۔  
- آیت ۶۱-۶۸: حضرت صالح علیہ السلام اور قوم ثمود کا واقعہ (اونٹنی کا معجزہ اور زلزلے کا عذاب)۔  
- آیت ۶۹-۸۳: حضرت لوط علیہ السلام اور قوم سدوم کی تباہی (پتھروں کی بارش)۔  
- آیت ۸۴-۹۵: حضرت شعیب علیہ السلام اور قوم مدین کے انجام کی تفصیل۔  

ج۔ آخرت اور حساب کتاب کی یاددہانی
- آیت ۱۰۳-۱۰۸: قیامت کے دن کی ہولناکی اور نیک و بد اعمال کا حساب۔  
- آیت ۱۱۲-۱۲۳: ہر نبی کو آزمائشوں سے گزارا گیا، لہٰذا اے نبی! صبر کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔  

---

۲۔ سورہ یوسف (آیات ۱–۵۲) کے مضامین

الف۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ (پہلا حصہ)
- آیت ۴-۶: یوسف علیہ السلام کا خواب (سورج، چاند، اور گیارہ ستارے انہیں سجدہ کرتے ہیں)۔  
- آیت ۷-۱۸: بھائیوں کی حسد، کنویں میں پھینکنا، اور کارواں والوں کا انہیں غلام بنا کر مصر لے جانا۔  
- آیت ۱۹-۲۸: عزیز مصر کی بیوی (زلیخا) کا یوسف کو بہکانے کی کوشش اور بے گناہی ثابت ہونا۔  
- آیت ۳۶-۴۲: جیل میں دو قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر۔  
- آیت ۴۳-۵۲: بادشاہ کا خواب (سات دبلی گائیں، سات موٹی گائیں) اور یوسف کی تعبیر سے ان کی رہائی۔  

ب۔ اخلاقی سبق اور اللہ کی تدبیر
- آیت ۱۸: یعقوب علیہ السلام کا صبر اور اللہ پر توکل۔  
- آیت ۲۱: اللہ کی حکمت — یوسف کو غلام بنا کر مصر میں عزت دینا۔  
- آیت ۵۲: یوسف کی پاکدامنی کا اعلان: "میں اپنی جان کو بری نہیں ٹھہرا سکتا، بے شک نفس بُری ترغیب دیتا ہے"۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. توحید کی دعوت: ہر نبی نے اپنی قوم کو صرف اللہ کی عبادت کی طرف بلایا۔  
2. صبر اور توکل: مصائب میں اللہ پر بھروسہ اور اُس کی حکمت پر یقین رکھنا۔  
3. اللہ کی تدبیر: یوسف کے واقعے میں ظاہری مصیبتیں درحقیقت عظمت کی راہ ہیں۔  
4. اخلاقی مضبوطی: فتنوں (جیسے زلیخا کا آزمائش) کے مقابلے میں پاکدامنی کی اہمیت۔  
5. انسان کی آزمائش: ہر نبی اور مومن کو مشکلات سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کی loyalty آزمائی جائے۔  

نوٹ:
- سورہ یوسف کو "احسن القصص" (بہترین کہانی) کہا گیا ہے، جو ایک مسلسل اور سبق آموز واقعہ پر مبنی ہے۔  
- سورہ ہود میں "أَلَا إِنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا..." (آیت ۱۰۳) جیسی آیات قیامت کے منظر کو زندہ کرتی ہیں۔



پارہ نمبر 13

قرآن مجید کے تیرہویں پارے کا آغاز سورہ یوسف (آیت ۵۳) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ ابراہیم (آیت ۵۲) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ تین مکّی سورتوں (یوسف، الرعد، اور ابراہیم) کے حصوں پر مشتمل ہے، جو توحید، رسالت، اور انسانی آزمائشوں کے مضامین کو اجاگر کرتی ہیں۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ سورہ یوسف (آیات ۵۳–۱۱۱) کے مضامین

الف۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ (آخری حصہ)
- آیت ۵۳-۵۷: یوسف کی بے گناہی ثابت ہونے پر عزیز مصر کی بیوی (زلیخا) کا اعتراف، اور یوسف کی عزت بحال ہونا۔  
- آیت ۵۸-۶۸: یوسف کے بھائیوں کا مصر آنا اور بنیامین کو روکے جانے کا واقعہ۔  
- آیت ۶۹-۹۳: بھائیوں کا یعقوب علیہ السلام سے معافی مانگنا، اور یوسف کا اپنا تعارف کروانا۔  
- آیت ۹۴-۱۰۱: یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی واپسی اور خاندان کا اجتماع۔  
- آیت ۱۰۵-۱۱۱: واقعہ یوسف سے سبق — اللہ کی تدبیر پر بھروسا اور صبر کی اہمیت۔  

ب۔ اخلاقی سبق
- آیت ۵۳: "نفس امّارہ" (برائی کی ترغیب دینے والا نفس) کی حقیقت کا بیان۔  
- آیت ۸۷: یعقوب علیہ السلام کا مشہور قول: "اے میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کا پتا لگاؤ، اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو"۔  

---

۲۔ سورہ الرعد (آیات ۱–۴۳) کے مضامین

الف۔ کائنات کی نشانیاں اور توحید
- آیت ۲-۴: بجلی، پہاڑ، پانی، اور پھلوں میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں۔  
- آیت ۸: "اللہ ہر چیز کو اس کے مقررہ وقت پر لاتا ہے" — تقدیر پر ایمان۔  

ب۔ قرآن کی حقانیت اور انذار
- آیت ۱۹-۲۴: قرآن کو ہدایت قرار دینا، نیز اہل ایمان و کفر کے انجام کا فرق۔  
- آیت ۲۸: "یقیناً اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے" — ذکر الٰہی کی برکت۔  

ج۔ آخرت کا بیان
- آیت ۳۴-۳۵: جنت کی نعمتوں اور دوزخ کے عذاب کی تفصیل۔  
- آیت ۴۳: کفار کا چیلنج — "کہہ دو: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ"۔  

---

۳۔ سورہ ابراہیم (آیات ۱–۵۲) کے مضامین

الف۔ انبیاء کی دعوت اور قوموں کا ردِ عمل
- آیت ۹-۱۲: حضرت موسیٰ، نوح، اور دیگر انبیاء کی قوموں کی سرکشی۔  
- آیت ۱۳-۱۷: کفار کے لیے دوزخ کی ہولناکی اور مومنوں کے لیے جنت کی خوشخبری۔  

ب۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر
- آیت ۷: "اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور دوں گا" — شکرگزاری کی اہمیت۔  
- آیت ۳۲-۳۴: سورج، چاند، رات اور دن کو اللہ کی نعمتیں قرار دینا۔  

ج۔ شیطانی فریب اور انسان کی کمزوری
- آیت ۲۲: شیطان کا اعتراف — "میں نے تمہیں بہکایا تو میں تمہارا ذمہ دار نہیں"۔  
- آیت ۴۳-۴۶: تکبر اور دنیا پرستی کے نتائج سے خبردار کرنا۔  

د۔ دعا اور توکل
- آیت ۴۰-۴۱: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا — "اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا، اور میری اولاد کو بھی"۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. اللہ کی تدبیر: یوسف کے واقعے میں ظاہری مصیبتیں درحقیقت عظمت کی راہ ہیں۔  
2. توحید کی نشانیاں: کائنات کی ہر چیز اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے۔  
3. شکرگزاری: نعمتوں کا اعتراف اور اللہ کے احسانات کو یاد رکھنا۔  
4. آخرت کی تیاری: دنیا کی فانی زندگی کے مقابلے میں جنت کی نعمتوں کی امید۔  
5. دعا کی قوت: انبیاء کی دعاؤں سے رہنمائی حاصل کرنا۔  

نوٹ:
- سورہ الرعد کی آیت ۲۸ ("الذین آمنوا وتطمئن قلوبهم بذکر اللہ") ایمان والوں کے لیے تسکین کا ذریعہ ہے۔  
- سورہ ابراہیم میں "کلمۃ طیبہ" (پاکیزہ کلمہ) اور "کلمۃ خبیثہ" (گندی بات) کی مثال دی گئی ہے (آیت ۲۴-۲۶)۔  
- یوسف کے واقعے کا اختتام "إن فی ذلک لآیات للسائلین" (آیت ۱۱۱) پر ہوتا ہے، جو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔






پارہ نمبر 14


قرآن مجید کے چودہویں پارے کا آغاز سورہ الحجر (آیت ۱) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ النحل (آیت ۱۲۸) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ دو مکّی سورتوں (الحجر اور النحل) پر مشتمل ہے، جو توحید، کائنات کی نشانیوں، اور انبیاء کے واقعات کو بیان کرتی ہیں۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ سورہ الحجر (آیات ۱–۹۹) کے مضامین

الف۔ قرآن کی حفاظت اور کفار کے اعتراضات
- آیت ۹: "بے شک ہم نے ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں" — قرآن کی حفاظت کا وعدہ۔  
- آیت ۶-۱۵: کفار کا قرآن کو جادو یا افسانہ قرار دینا اور ان کے لیے عذاب کی وعید۔  

ب۔ انبیاء کے واقعات اور عبرت
- آیت ۲۶-۴۴: حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان کا واقعہ: شیطان کا تکبر اور انسان کو گمراہ کرنے کا عہد۔  
- آیت ۵۷-۷۷: قومِ لوط کی تباہی (پتھروں کی بارش) اور قومِ اصحاب الحجر (ثمود) کے کفر کا انجام۔  
- آیت ۸۰-۸۴: حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی سرکشی اور عذاب۔  

ج۔ توحید اور قدرتِ الٰہی
- آیت ۱۶-۲۵: آسمان، ستارے، ہواؤں، اور بارش کو اللہ کی نشانیاں بتانا۔  
- آیت ۸۵-۸۶: "اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا" — تخلیق کائنات پر غور کی دعوت۔  

---

۲۔ سورہ النحل (آیات ۱–۱۲۸) کے مضامین

الف۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر
- آیت ۵-۸: جانوروں، دودھ، اور سواری کی نعمتوں کا ذکر۔  
- آیت ۱۰-۱۶: بارش، پھل، سمندر، اور ستاروں کو رہنمائی کا ذریعہ بنانا۔  
- آیت ۶۶-۶۹: شہد کی مکھی اور شہد میں شفا کو اللہ کی حکمت کی نشانی۔  

ب۔ توحید اور رسالت
- آیت ۳۶: ہر امت میں رسول بھیجا گیا — "اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو"۔  
- آیت ۴۳-۴۴: انبیاء کو بشیر و نذیر اور قرآن کو واضح کتاب قرار دینا۔  

ج۔ اخلاقی ہدایات
- آیت ۹۰: "اللہ انصاف، احسان، اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے" — جامع اخلاقی تعلیم۔  
- آیت ۹۷: نیک اعمال کرنے والے مرد و عورت کو پاکیزہ زندگی کی بشارت۔  

د۔ کفار کے مقابلے میں صبر
- آیت ۱۲۶-۱۲۸: "اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے" — ظلم کا بدلہ لینے میں اعتدال کی تلقین۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام: 
1. توحید کی گواہی: کائنات کی ہر نعمت اور نظام اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتا ہے۔  
2. قرآن کی عظمت: اس کی حفاظت کا وعدہ اور اسے زندگی کی رہنمائی کا سرچشمہ قرار دینا۔  
3. شکرگزاری: اللہ کی نعمتوں (پانی، جانور، شہد، وغیرہ) کو پہچاننا اور ان کا صحیح استعمال۔  
4. تاریخ کے سبق: سرکش قوموں کی تباہی انسان کو غلط راستے سے روکنے کے لیے عبرت ہے۔  
5. صبر اور عدل: مصائب میں ثابت قدمی اور معاشرتی انصاف کو فروغ دینا۔  

نوٹ: 
- سورہ النحل کو "سورۃ النعم" (نعمتوں کی سورت) کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں ۶۰ سے زائد نعمتوں کا ذکر ہے۔  
- آیت ۹۰ ("إن اللہ یأمر بالعدل...") کو اسلامی اخلاقیات کا سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔  
- آیت ۶۹ میں شہد کی مکھی کی تخلیق اور شہد کی شفا کو سائنسی اعجاز کی مثال پیش کیا گیا ہے۔


پارہ نمبر 15
قرآن مجید کے پندرہویں پارے کا آغاز سورہ بنی اسرائیل (آیت ۱) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ الکہف (آیت ۷۴) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ دو مکّی سورتوں (بنی اسرائیل اور الکہف) پر مشتمل ہے، جو توحید، رسالت، اخلاقیات، اور عبرت انگیز واقعات کو اجاگر کرتی ہیں۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ سورہ بنی اسرائیل (آیات ۱–۱۱۱) کے مضامین

الف۔ معراجِ نبوی اور قرآن کی عظمت
- آیت ۱: "پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی" — معراج کے واقعہ کا اجمالی ذکر۔  
- آیت ۹-۱۰: قرآن کو ہدایت اور بشارت/خوف دینے والا قرار دینا۔  

ب۔ اخلاقی ہدایات اور انسانی حقوق
- آیت ۲۳-۳۹: "دس اخلاقی احکامات" کی تفصیل:  
  - والدین کے ساتھ احسان (آیت ۲۳)۔  
  - رشتہ داروں، مسکینوں، اور مسافروں کے حقوق (آیت ۲۶)۔  
  - فضول خرچی، بخل، قتل، زنا، اور یتیموں کے مال کی حفاظت (آیت ۲۹-۳۴)۔  
  - اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا (آیت ۳۹)۔  

ج۔ بنی اسرائیل کی تاریخ اور عبرت 
- آیت ۴-۸: بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور زمین میں فساد پھیلانے پر عذاب کا ذکر۔  
- آیت ۱۰۴: قیامت کے دن ہر امت کو اپنے نبی کے ساتھ اٹھایا جانا۔  

د۔ آخرت اور انسانی آزمائش
- آیت ۴۹-۵۵: منکرینِ آخرت کے اعتراضات کا جواب اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کی دلیل۔  
- آیت ۸۵: روح کی حقیقت — "روح میرے رب کے حکم سے ہے، تمہیں تھوڑا ہی علم دیا گیا ہے"۔  

---

۲۔ سورہ الکہف (آیات ۱–۷۴) کے مضامین

الف۔ اصحابِ کہف کا واقعہ
- آیت ۹-۲۶: چند نوجوانوں کا کفار سے بچنے کے لیے غار میں پناہ لینا، اللہ کا انہیں ۳۰۹ سال تک سلا دینا، اور ان کے کتے کی علامت۔ عبرت: "اللہ کی قدرت اور مومنوں کی حفاظت"۔  

ب۔ دو باغوں والے کی مثال
- آیت ۳۲-۴۴: ایک مالدار اور غریب کی کہانی — تکبر اور دنیا پرستی کی مذمت، نیز اللہ کی نعمتوں کا شکر۔  

ج۔ موسیٰ علیہ السلام اور خضر کا واقعہ
- آیت ۶۰-۸۲: موسیٰ کا خضر کے ساتھ سفر اور تین معجزاتی واقعات (کشتی کا ٹوٹنا، لڑکے کا قتل، دیوار کی مرمت)۔ سبق: "اللہ کی حکمت ظاہری نقصان میں بھی پوشیدہ ہوتی ہے"۔  

د۔ ذوالقرنین کا تذکرہ 
- آیت ۸۳-۹۸: ایک عادل بادشاہ کی کہانی جو یأجوج و مأجوج کے فتنے کو روکتا ہے۔ عبرت: "طاقت کا صحیح استعمال اور عدل کی فرماں روائی"۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. توحید اور عبادت: ہر حکم کا مرکز اللہ کی رضا ہے۔  
2. اخلاقی ذمہ داری: والدین، معاشرے، اور کمزوروں کے حقوق کی پاسداری۔  
3. آزمائشوں میں صبر: اصحابِ کہف اور موسیٰ و خضر کے واقعات سے سبق۔  
4. دنیا کی فانی حیثیت: مال و دولت پر تکبر نہ کرنا۔  
5.اللہ کی حکمت: ظاہری نقصان میں بھی بڑی مصلحت چھپی ہوتی ہے۔  

نوٹ:
- سورہ بنی اسرائیل کو "سورۃ الاسراء" بھی کہا جاتا ہے، جس میں معراج کے علاوہ آیت ۷۰ ("ہم نے بنی آدم کو کرامت بخشی") انسانی وقار کی نشاندہی کرتی ہے۔  
- سورہ الکہف جمعہ کے دن پڑھنے کی خاص فضیلت رکھتی ہے۔ اور"اصحابِ کہف" کا واقعہ ایمان کی مضبوطی کی علامت ہے۔  
- آیت ۱۰۹ (بنی اسرائیل) میں "کہہ دو! اگر سمندر روشنائی بن جائے تو میرے رب کے کلمات ختم نہ ہوں" — اللہ کے علم کی لامحدودیت کا بیان۔




پارہ نمبر 16
قرآن مجید کے سولہویں پارے کا آغاز سورہ الکہف (آیت ۷۵) سے ہوتا ہے اور یہ سورہ طہ (آیت ۱۳۵) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پارہ تین مکّی سورتوں (الکہف، مریم، اور طہ) کے حصوں پر مشتمل ہے، جو توحید، رسالت، اور انبیاء کے واقعات کو اجاگر کرتی ہیں۔ ذیل میں پارے کے اہم مضامین کا باحوالہ خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

۱۔ سورہ الکہف (آیات ۷۵–۱۱۰) کے مضامین

الف۔ موسیٰ علیہ السلام اور خضر کا واقعہ (اختتام)
- آیت ۷۸-۸۲: خضر کے تین اقدامات کی حکمتوں کی وضاحت:  
  1. کشتی کو نقصان پہنچانا (تاکہ ظالم بادشاہ سے بچ جائے)۔  
  2. لڑکے کا قتل (کیونکہ وہ بڑا ہو کر کافر بنتا)۔  
  3. دیوار کی مرمت (یتیموں کے خزانے کی حفاظت کے لیے)۔  
- سبق: ظاہری نقصان میں بھی اللہ کی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔  

ب۔ ذوالقرنین کا واقعہ
- آیت ۸۳-۹۸: ایک عادل بادشاہ کا تذکرہ جو یأجوج و مأجوج کے فتنے کو روکتا ہے۔  
  - لوہے کی دیوار بنانا اور اللہ کی مدد پر بھروسا۔  
  - عبرت: طاقت کا صحیح استعمال اور عدل کی فرماں روائی۔  

ج۔ آخرت کی تیاری
- آیت ۱۰۹-۱۱۰: دنیا کی زندگی کو فانی اور آخرت کو حقیقی کامیابی کا گھر قرار دینا۔  

---

۲۔ سورہ مریم (آیت ۱–۹۸) کے مضامین

الف۔ انبیاء اور صالحین کے واقعات
- آیت ۲-۱۵: حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش۔  
- آیت ۱۶-۳۴: حضرت مریم علیہا السلام کا معجزاتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دینا۔  
  - عیسیٰ علیہ السلام کا گہوارے میں بولنا: "میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے" (آیت ۳۰)۔  
- آیت ۴۱-۵۰: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم کو توحید کی دعوت۔  
- آیت ۵۱-۵۸: حضرت موسیٰ، اسماعیل، اور ادریس علیہم السلام کی مختصر سرگزشتیں۔  

ب۔ توحید کی دعوت اور شرک کی تردید
- آیت ۸۸-۹۵: عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا کہنے والوں کی تردید۔  
- آیت ۹۶: ایمان والوں کے لیے اللہ کی محبت کی بشارت۔  

---

۳۔ سورہ طہ (آیت ۱–۱۳۵) کے مضامین

الف۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ
- آیت ۹-۲۴: کوہِ طور پر اللہ کا کلام اور نبوت عطا ہونا۔  
- آیت ۲۵-۳۶: فرعون کے پاس جانے کا حکم اور ہارون علیہ السلام کی معاونت۔  
- آیت ۴۷-۷۶: فرعون اور جادوگروں کا مقابلہ، عصا کا اژدھا بننا، اور جادوگروں کا ایمان لانا۔  
- آیت ۸۰-۸۲: بنی اسرائیل کو دریائے نیل سے نجات اور فرعون کی غرقابی۔  

ب۔ حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ
- آیت ۱۱۵-۱۲۳: شیطان کے بہکاوے میں آکر جنت سے نکلنے کا بیان، پھر توبہ کی قبولیت۔  

ج۔ آخرت کی یاددہانی
- آیت ۱۲۴-۱۲۷: قرآن سے منہ موڑنے والوں کے لیے تاریک زندگی کی وعید۔  
- آیت ۱۳۲: "اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر قائم رہو"۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. توحید کا اعلان: ہر نبی نے اپنی قوم کو صرف اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔  
2. معجزات اور حکمتیں: موسیٰ کا عصا، مریم کا معجزہ، اور خضر کے اقدامات میں اللہ کی حکمت۔  
3. آخرت کی تیاری: دنیا کی فانی زندگی کے مقابلے میں جنت کی نعمتوں کی امید۔  
4. صبر اور عدل: مصائب میں ثابت قدمی اور طاقت کا صحیح استعمال۔  
5. اخلاقی ذمہ داری: نماز، زکوٰۃ، اور خاندانی حقوق کی پاسداری۔  

نوٹ: 
- سورہ مریم میں "کہیں! میرا رب رحم کرنے والا ہے، جس نے مجھے صرف ایک ہی بار حکم دیا" (آیت ۲۷) عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے کی نشاندہی کرتا ہے۔  
- سورہ طہ کی آیت ۴۴ ("اس سے نرمی سے بات کرو، شاید وہ نصیحت قبول کرے") فرعون کے ساتھ نرم گفتاری کا حکم دیتی ہے۔  
- سورہ الکہف کے آخر میں "کہہ دو! کیا ہم تمہیں بتائیں کہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے کون ہیں؟" (آیت ۱۰۳-۱۰۴) دنیا کی محبت میں آخرت کو بھلانے والوں کی مذمت کرتی ہے۔



پارہ نمبر 17
قرآن مجید کے سترہویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

قرآن مجید کا سترہواں پارہ
شروع: سورہ الانبیاء (21:1)  
اختتام: سورہ الحج (22:78)  

---

سورہ الانبیاء (21:1–112)
مرکزی مضامین:
1. توحید اور قیامت کا اثبات:
   - اللہ کی وحدانیت پر دلائل:"اگر زمین و آسمان میں کوئی اور معبود ہوتا تو دونوں فاسد ہو جاتے" (21:22)۔  
   - قیامت کی حقیقت: "ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے" (21:47)۔  

2. انبیاء کے واقعات اور سبق:
   - حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنا اور آگ سے نجات (21:51-70)۔  
   - حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش اور شفا (21:83-84)۔  
   - حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں رہنا اور توبہ کی قبولیت (21:87-88)۔  

3. رسول اللہ ﷺ کی تسلی:
   - "ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے" (21:107)۔  

---

سورہ الحج (22:1–78)
مرکزی مضامین:
1. حج اور قربانی کی اہمیت:
   - حج کے احکام اور کعبہ کی تعظیم (22:26-30)۔  
   - قربانی کا مقصد: "اللہ تک تقویٰ پہنچتا ہے، نہ گوشت اور نہ خون" (22:37)۔  

2. جہاد اور دفاع کی اجازت:
   - "جن سے جنگ کی جائے، انہیں دفاع کی اجازت ہے" (22:39)۔  

3. قیامت اور تخلیقِ انسان:
   - انسان کی تخلیق مٹی سے اور دوبارہ زندہ کرنا (22:5-7)۔  
   - "قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں" (22:7)۔  

4. توحید اور عبادت کی دعوت:
   - "اللہ کی سجدہ کرو اور نیکی کرو" (22:77)۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. توحید کا اعلان: کائنات کی ہر شے اللہ کی وحدانیت کی گواہ ہے۔  
2. انبیاء کی جدوجہد: ہر نبی نے اپنی قوم کو صرف اللہ کی عبادت کی طرف بلایا۔  
3. آخرت کا یقین: موت کے بعد جزا و سزا کا نظام عدل پر مبنی ہوگا۔  
4. عبادات کی حکمت: حج اور قربانی انسان کو تقویٰ اور ایثار سکھاتی ہیں۔  
5. دفاع کا حق: ظلم کے خلاف کھڑے ہونا ایمان کا تقاضا ہے۔  

نوٹ:
- سورہ الحج میں "حج اکبر" (22:3) کی اصطلاح حج کے عظیم اجتماع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔  
- سورہ الانبیاء میں "قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ" (21:45) رسول اللہ ﷺ کے مشن کی وضاحت کرتی ہے۔  
- آیت الکرسی (2:255) کی طرح سورہ الحج کی آیت "اللہُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ" (22:62) توحید کا جامع بیان ہے۔  

---  
یہ پارہ ایمان، عمل، اور اجتماعی ذمہ داریوں کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔


پارہ نمبر 18
قرآن مجید کے اٹھارویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

قرآن مجید کا اٹھارواں پارہ
شروع: سورہ المؤمنون (23:1) 
اختتام: سورہ الفرقان (25:20)  

---

۱۔ سورہ المؤمنون (23:1–118)
مرکزی مضامین:
1. مومنوں کی صفات:
   - آیت 1-11: کامیاب مومنوں کی خصوصیات: نماز میں خشوع، بے کار باتوں سے اجتناب، زکوٰۃ کی ادائیگی، اور عفت کی حفاظت۔  
   - آیت 57-61: اللہ کے خوف اور اس کی رحمت پر یقین رکھنے والوں کی تعریف۔  

2. انسانی تخلیق اور حیاتِ بعد الموت:
   - آیت 12-16: انسان کی تخلیق کے مراحل (مٹی، نطفہ، علقہ، مضغہ) اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا بیان۔  
   - آیت 99-100: موت کے وقت کافروں کی حسرت: "اے کاش! میں نے دنیا میں نیک اعمال کیے ہوتے"۔  

3. انبیاء کے واقعات:
   - حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اور طوفان کا عذاب (23:23-30)۔  
   - حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی فرعون سے جدوجہد (23:45-49)۔  
   - حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزات عطا ہونا (23:50)۔  

4. توحید کی دعوت:
   - آیت 84-89: اللہ کی وحدانیت پر سوالات: "بتاؤ! زمین اور آسمان کا مالک کون ہے؟"۔  

---

۲۔ سورہ النور (24:1–64)
مرکزی مضامین:
1. اخلاقی اور سماجی قوانین:
   - آیت 2-3: زنا کی سزا (100 کوڑے) اور شادی کے لیے اخلاقی پابندیاں۔  
   - آیت 11-20: "حادثۂ افک" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹا الزام) اور غلط خبروں کی تحقیق کی تاکید۔  
   - آیت 30-31: حجاب اور نگاہوں کی حفاظت کا حکم۔  

2. اللہ کی روشنی کی مثال:
   - آیت 35 (آیت النور): "اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے..." — ایمان کو روشنی اور کفر کو تاریکی سے تشبیہ۔  

3. گھریلو آداب:
   - آیت 27-29: گھروں میں داخل ہونے کے لیے اجازت لینا۔  
   - آیت 58-59: گھر کے اندر خصوصی اوقات (صبح، دوپہر، رات) میں رازداری۔  

4. اجتماعی ذمہ داری:
   - آیت 62: رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو کامیابی کی شرط قرار دینا۔  

---

۳۔ سورہ الفرقان (25:1–20)
مرکزی مضامین: 
1. قرآن کی عظمت:
   - آیت 1: قرآن کو "فرقان" (حق و باطل میں فرق کرنے والا) قرار دینا۔  
   - آیت 6: کفار کا اعتراض: "یہ قرآن ایک انسان نے گھڑ لیا ہے" — اس کا رد۔  

2. رسول اللہ ﷺ کی تسلی:
   - آیت 20: نبی ﷺ کو پیغمبروں کی طرح آزمائشوں سے گزارا گیا۔  

3. کفار کے اعتراضات: 
   - آیت 7-8: کفار کا کہنا: "یہ رسول کیوں کھاتا پیتا ہے؟ کیوں بازاروں میں چلتا ہے؟"۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. مومن کی شناخت: نماز، زکوٰۃ، اور اخلاقی پاکیزگی سے مضبوط تعلق۔  
2. سماجی نظام: گھریلو آداب، پردہ، اور غلط افواہوں سے بچاؤ۔  
3. توحید کا اثبات: تخلیقِ کائنات اور انبیاء کے واقعات اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں۔  
4. قرآن کی حقانیت: ہر شکوک کا منطقی جواب اور اسے زندگی کی رہنمائی کا سرچشمہ قرار دینا۔  

نوٹ:
- سورہ النور کی آیت 35 (آیت النور) کو قرآن کی سب سے خوبصورت آیات میں شمار کیا جاتا ہے۔  
- سورہ المؤمنون کی آیت 14 میں انسانی تخلیق کے مراحل جدید سائنس سے مطابقت رکھتے ہیں۔  
- سورہ الفرقان میں "عبادالرحمن" (رحمٰن کے بندے) کی صفات بعد کی آیات (25:63-76) میں بیان ہوتی ہیں۔  

---  
یہ پارہ ایمان، اخلاق، اور سماجی نظام کا جامع خاکہ پیش کرتا ہے۔

پارہ نمبر 19
قرآن مجید کے انیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

قرآن مجید کا انیسواں پارہ
شروع: سورہ الفرقان (25:21)  
اختتام: سورہ النمل (27:55)  

---

۱۔ سورہ الفرقان (25:21–77)
مرکزی مضامین:
1. "عبادالرحمٰن" (رحمٰن کے بندوں) کی صفات:
   - آیت 63-76: ان کی خصوصیات:  
     - خاکساری سے چلنا، بے کار باتوں سے اجتناب۔  
     - رات کو سجدے اور قیام میں گزارنا۔  
     - خرچ کرتے وقت اعتدال، نہ فضول خرچی نہ بخل۔  
     - شرک، قتل، اور زنا سے بچنا۔  
     - دعا: "اے رب! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا" (25:65)۔  

2. کفار کے اعتراضات کا رد: 
   - آیت 21: کفار کا کہنا: "کیوں نہیں آتا فرشتہ یا دکھائی دیتا کوئی خزانہ؟"
   - آیت 60: بتوں کو سجدہ کرنے والوں کی مذمت۔  

---

۲۔ سورہ الشعراء (26:1–227)
مرکزی مضامین:
1. انبیاء کے واقعات اور ان کی قوموں کا ردِ عمل:
   - حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا مقابلہ (26:10-68): عصا کا اژدھا بننا، دریائے نیل کا پھٹنا۔  
   - حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنا (26:69-89): "تم اپنے بنائے ہوئے بتوں کو پوجتے ہو؟"۔  
   - حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اور طوفان (26:105-122)۔  
   - حضرت ہود علیہ السلام اور قوم عاد کی تباہی (26:123-140)۔  
   - حضرت صالح علیہ السلام اور اونٹنی کا معجزہ (26:141-159)۔  
   - حضرت لوط علیہ السلام اور قوم سدوم کا انجام (26:160-175)۔  
   - حضرت شعیب علیہ السلام اور قوم مدین کی سرکشی (26:176-189)۔  

2. قرآن کی حقانیت:
   - آیت 192-195: قرآن کی وحی کا ذکر: "اسے روح الامین (جبرائیل) لے کر اترے ہیں"۔  

---

۳۔ سورہ النمل (27:1–55)
مرکزی مضامین:
1. حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کا واقعہ:
   - آیت 15-44: سلیمان علیہ السلام کی حکمت، ہدہد کا ملکہ سبا کو اسلام کی دعوت دینا، اور عرش کا منتقل ہونا۔  
   - سبق: اللہ کی نعمتوں (حیوانات، جنات، بادشاہت) کا شکر ادا کرنا۔  

2. توحید کی نشانیاں:
   - آیت 60-64: زمین، آسمان، اور بارش میں اللہ کی قدرت۔  

3. قیامت کا بیان:
   - آیت 87-88: صور پھونکے جانے کا منظر اور پہاڑوں کا اڑ جانا۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. مومن کا کردار: عبادالرحمٰن کی صفات پر عمل پیرا ہونا۔  
2. توحید کی دعوت: ہر نبی نے اپنی قوم کو صرف اللہ کی عبادت کی طرف بلایا۔  
3. تاریخ کے سبق: سرکش قوموں کی تباہی اور انبیاء کی ثابت قدمی۔  
4. قرآن کی عظمت: یہ اللہ کا کلام ہے جو ہدایت کا سرچشمہ ہے۔  
5. آخرت کا یقین: موت کے بعد جزا و سزا کا نظام۔  

نوٹ:
- سورہ الشعراء میں ہر نبی کا ایک ہی جملہ: "کیا تم پرہیزگاری نہیں اختیار کرو گے؟" (26:106, 124, 142, 161, 177)۔  
- سورہ النمل کی آیت 30 میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کا ذکر ہے، جو ملکہ سبا کے خط کا حصہ ہے۔  
- سورہ الفرقان کی آیت 73 ("وہ کہتے ہیں: اے رب! ہماری بیویوں اور اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا...") مومنوں کی دعا کی عکاسی کرتی ہے۔  

---  
یہ پارہ ایمان، عمل، اور تاریخی عبرتوں کا گہرا مرقع پیش کرتا ہے۔



پارہ نمبر 20
قرآن مجید کے بیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

### قرآن مجید کا بیسواں پارہ
شروع: سورہ النمل (27:56)  
اختتام: سورہ العنکبوت (29:45)  

---

۱۔ سورہ النمل (27:56–93)
مرکزی مضامین: 
1. حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی تباہی:
   - آیت 56-58: قومِ لوط کی بدکاریوں پر عذاب (پتھروں کی بارش) اور مومنوں کی نجات۔  

2. حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ:
   - آیت 7-12: آگ کا درخت اور نبوت کا اعلان، عصا کا اژدھا بننا۔  

3. ملکہ سبا کا اسلام قبول کرنا:
   - آیت 20-44: ہدہد کی اطلاع، ملکہ کا سلیمان علیہ السلام کو تحفہ بھیجنا، اور آخر میں اسلام قبول کرنا۔  
   -سبق: حکمت اور منطق سے دعوتِ اسلام۔  

4. توحید اور آخرت کا اثبات:
   - آیت 88: پہاڑوں کی حرکت کو اللہ کی قدرت کی نشانی قرار دینا۔  

---

۲۔ سورہ القصص (28:1–88)
مرکزی مضامین
1. حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تفصیلی سرگزشت:
   - آیت 3-43: پیدائش، دریائے نیل میں ڈالے جانے، فرعون کے گھر پرورش، قبطی کو قتل، مدین کی طرف ہجرت، اور نبوت کا اعلان۔  
   - آیت 76-82: قارون کا تکبر اور اس کی زمین میں دھنس جانے کا واقعہ۔ عبرت: "مال و دولت فخر کا سبب نہیں"۔  

2. دعوتِ توحید:
   - آیت 50: "اگر یہ لوگ حق کو نہیں مانتے تو کیا ہم تمہیں ان کے پیچھے جبراً لگا دیں؟" — اکراہ کی ممانعت۔  

3. مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی تسلی:
   - آیت 85: "بے شک جس نے قرآن کو فرض کیا، وہ تمہیں واپس لوٹائے گا" — فتح مکہ کی بشارت۔  

---

۳۔ سورہ العنکبوت (29:1–45)
مرکزی مضامین:
1. آزمائشوں کی حقیقت:
   - آیت 2-3: "کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف یہ کہہ دینے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے، اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟"

2. انبیاء کے صبر کی داستانیں: 
   - حضرت نوح علیہ السلام کی 950 سالہ دعوت (29:14-15)۔  
   - حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنا اور آگ سے نجات (29:16-27)۔  

3. عنکبوت کی مثال:
   - آیت 41: "جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو کارساز بنایا، ان کی مثال عنکبوت جیسی ہے جس نے گھر بنایا، اور سب سے کمزور گھر عنکبوت کا گھر ہے"۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. توحید کا اثبات: ہر واقعہ اور مثال اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے۔  
2. صبر کی اہمیت: انبیاء کی زندگیاں آزمائشوں میں ثابت قدمی کی عملی تصویر ہیں۔  
3. دنیا کی فریب کاری: قارون اور عنکبوت کی مثال سے مال و دولت کی بے ثباتی کا سبق۔  
4. دعوت کی حکمت: ملکہ سبا کے واقعے میں نرمی اور منطق سے کام لینا۔  
5. آخرت کا یقین: ہر عمل کا حساب اور جزا کا دن آنے والا ہے۔  

نوٹ:
- سورہ القصص کی آیت 5 ("اور ہم چاہتے ہیں کہ زمین کے کمزوروں پر احسان کریں...") میں مظلوموں کی نصرت کی بشارت ہے۔  
- سورہ العنکبوت کی آیت 45 میں نماز کی اہمیت: "نماز قائم کرو، بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے"۔  
- سورہ النمل کی آیت 93 ("کہہ دو! سب تعریف اللہ کے لیے ہے، وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم انہیں پہچان لو گے") توحید کا جامع بیان ہے۔  

---  
یہ پارہ ایمان، صبر، اور توکل کا گہرا پیغام دیتا ہے، جس میں تاریخی واقعات کے ذریعے انسان کو راہِ راست کی طرف راغب کیا گیا ہے۔






پارہ نمبر 21
قرآن مجید کے اکیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

قرآن مجید کا اکیسواں پارہ
شروع: سورہ العنکبوت (29:46)  
اختتام: سورہ الاحزاب (33:30)  

---

۱۔ سورہ العنکبوت (29:46–69)
مرکزی مضامین:
1. اہل کتاب کے ساتھ مکالمہ:
   - آیت 46: "اہل کتاب سے بہتر طریقے سے بحث کرو" — نرمی اور حکمت کی تلقین۔  
   - آیت 47: قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب قرار دینا۔  

2. آزمائشوں کی حکمت:
   - آیت 57: ہر شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔  
   - آیت 69: "جو ہماری راہ میں کوشش کریں گے، ہم انہیں اپنے راستے دکھائیں گے" — مجاہدہ کی فضیلت۔  

---

۲۔ سورہ الروم (30:1–60)
مرکزی مضامین:
1. رومیوں کی فتح کی پیشین گوئی:
   - آیت 2-4: "روم مغلوب ہوا، لیکن چند سالوں میں غالب آئے گا" — قرآن کا علمی اعجاز۔  

2. کائنات کی نشانیاں:
   - آیت 20: انسان کی تخلیق، شادیوں کا نظام، اور آسمان و زمین کی ساخت۔  
   - آیت 22: زبانوں اور رنگوں کا اختلاف اللہ کی نشانی۔  

3. توحید کی دعوت:
   - آیت 30: فطرتِ سلیمہ پر چلنے کی ہدایت: "دینِ حنیف (توحید) پر قائم رہو"۔ 

---

۳۔ سورہ لقمان (31:1–34)
مرکزی مضامین:
1. حکیم لقمان کی نصیحتیں:
   - آیت 13: اپنے بیٹے کو شرک سے روکنا: "اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا"۔  
   - آیت 17-19: نماز قائم کرنا، نیکی کی تلقین، تکبر سے بچنا، اور چال میں اعتدال۔  

2. اللہ کی قدرت:
   - آیت 34: "قیامت کا علم صرف اللہ کے پاس ہے" — غیب کی پانچ باتوں کا ذکر۔  

---

۴۔ سورہ السجدہ (32:1–30)
مرکزی مضامین:
1. تخلیقِ انسان اور آخرت:
   - آیت 7-9: انسان کی مٹی سے تخلیق، روح کا پھونکنا، اور حواس کا عطا کرنا۔  
   - آیت 17: جنت کی نعمتیں: "آنکھوں نے نہ دیکھیں، کانوں نے نہ سنیں"۔  

2. قرآن کی عظمت:
   - آیت 23: موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا کرنا اور محمد ﷺ کو قرآن دینا۔  

---

۵۔ سورہ الاحزاب (33:1–30)
مرکزی مضامین:
1. غزوہ احزاب (خندق کی جنگ):
   - آیت 9-11: مسلمانوں کی آزمائش اور منافقین کی بزدلی۔  
   - آیت 25-27: اللہ کی مدد سے فتح اور یہودِ بنی قریظہ کے انجام کا ذکر۔  

2. ازواجِ مطہرات کی ذمہ داریاں:
   - آیت 28-30: نبی ﷺ کی بیویوں کو اختیار: دنیا کی زینت چاہو یا اللہ اور رسول کی رضا؟  

---

پارے کا کلیدی پیغام:
1. توحید کی دعوت: ہر سورت اللہ کی وحدانیت اور انسان کی ذمہ داری کو اجاگر کرتی ہے۔  
2. آزمائشوں کا مقصد: ایمان کو پختہ کرنا اور صبر کی تربیت۔  
3. اخلاقی تعلیمات: لقمان کی نصیحتیں انسانی معاشرے کے لیے رہنما اصول۔  
4. تاریخی عبرتیں: غزوہ احزاب میں مومنوں کی ثابت قدمی اور منافقین کی رسوائی۔  
5. آخرت کا یقین: موت اور قیامت کو یاد رکھنا زندگی کو سنوارنے کا ذریعہ۔  

نوٹ: 
- سورہ الروم کی آیت 21 ("تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں...") شادی کے مقدس رشتے کی عظمت کو واضح کرتی ہے۔  
- سورہ لقمان کی آیت 27 ("اگر زمین کے درخت قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی...") اللہ کے علم کی لامحدودیت پر دلالت کرتی ہے۔  
- سورہ السجدہ کی آیت 15 میں سجدۂ تلاوت کا حکم ہے۔  

---  
یہ پارہ ایمان، عمل، اور سماجی ذمہ داریوں کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے، جس میں تاریخ، فلسفہ، اور اخلاقیات کے گہرے سبق پنہاں ہیں۔







پارہ نمبر 22

قرآن مجید کے بائیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

### قرآن مجید کا بائیسواں پارہ   
 شروع: سورہ الاحزاب (33:31)  
 اختتام: سورہ یٰسین (36:27)  

---

### ۱۔ سورہ الاحزاب (33:31–73)   
 مرکزی مضامین:   
1. ازواجِ مطہرات کی ذمہ داریاں:   
   - آیت 32-34: نبی ﷺ کی بیویوں کو خصوصی احکام: گھر میں رہنا، زینت نہ دکھانا، اور تقویٰ اختیار کرنا۔  
   - آیت 35: مومن مرد و عورتوں کی صفات: ایمان، صدق، صبر، اور خشوع۔  

2. غزوہ احزاب (خندق) کے بعد کے واقعات:   
   - آیت 50-52: نبی ﷺ کے ازواج اور رضاعتی رشتوں کے احکام۔  
   - آیت 59: پردے کا حکم: "اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں، اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادروں کا اڑھاؤ کرلیا کریں" ۔  

3. منافقین کی مذمت:   
   - آیت 60-62: مدینہ کے منافقوں کی سازشوں اور جھوٹی افواہوں کی تردید۔  

4. قیامت کا منظر:   
   - آیت 72: انسان کو امانت (اختیارِ ارادہ) کا بوجھ اٹھانے کا ذکر۔  

---

### ۲۔ سورہ سبا (34:1–54)   
 مرکزی مضامین:   
1. قومِ سبا کی عبرت انگیز کہانی:   
   - آیت 15-17: یمن کی سرسبز وادی میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر، لیکن ناشکری پر سیلابِ عرم کا عذاب۔  

2. حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کی حکمتیں:   
   - آیت 10-14: داؤد علیہ السلام کو لوہے کو نرم کرنے کا علم، اور سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت۔  

3. توحید اور آخرت کا اثبات:   
   - آیت 3: "کفار کہتے ہیں قیامت نہیں آئے گی۔ کہہ دو: کیوں نہیں! میرے رب کی قسم، وہ ضرور آئے گی" ۔  

---

### ۳۔ سورہ فاطر (35:1–45)   
 مرکزی مضامین:   
1. اللہ کی قدرت کی نشانیاں:   
   - آیت 1: فرشتوں کو بھیجنے کا ذکر: "تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے" ۔  
   - آیت 27-28: پہاڑوں کے مختلف رنگ، اور علماء کا اللہ سے ڈرنا۔  

2. انسانی آزمائش:   
   - آیت 15: "اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز اور قابلِ تعریف ہے" ۔  

3. دعوتِ توحید:   
   - آیت 5: دنیا کی زندگی کو فریبِ نظر قرار دینا۔  

---

### ۴۔ سورہ یٰسین (36:1–27)   
 مرکزی مضامین:   
1. رسالت کی صداقت:   
   - آیت 1-7: قرآن کو حکمت بھری کتاب قرار دینا اور مکہ کے کفار کی ہٹ دھرمی۔  

2. تین رسولوں کی کہانی:   
   - آیت 13-27: ایک شہر میں تین رسولوں کی دعوت، ایک مومن کی حمایت، اور اس کی شہادت کے بعد جنت کی بشارت۔  

3. توحید کی دعوت:   
   - آیت 22: "میں اس کی عبادت کیوں نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا؟" ۔  

---

### پارے کا کلیدی پیغام:   
1. خاندانی اخلاقیات: ازواجِ مطہرات کے لیے رہنما اصول اور پردے کی اہمیت۔  
2. تاریخی عبرتیں: قومِ سبا اور دیگر ماضی کی قوموں کی تباہی کا سبق۔  
3. توحید کا اثبات: کائنات کی ہر شے اللہ کی قدرت کی گواہی دیتی ہے۔  
4. آخرت کا یقین: موت کے بعد جزا و سزا کا نظام عدل پر مبنی ہوگا۔  
5. دعوت کی ذمہ داری: رسولوں کی ثابت قدمی اور مومن کی شہادت کی عظمت۔  

 نوٹ:   
- سورہ الاحزاب کی آیت 33 ( "اے اہلِ بیت! اللہ تم سے ناپاکی کو دور کرنا چاہتا ہے...") میں اہلِ بیت کی طہارت کا ذکر ہے۔  
- سورہ یٰسین کی آیت 12 ( "ہم مردہ زمین کو زندہ کرتے ہیں...") میں قیامت کے دن اٹھائے جانے کی دلیل دی گئی ہے۔  
- سورہ فاطر کی آیت 28 ( "اللہ سے اس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں") علم کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہے۔  

---  
یہ پارہ ایمان، عمل، اور سماجی نظام کا جامع مرقع پیش کرتا ہے، جس میں تاریخی واقعات، اخلاقی تعلیمات، اور کائناتی نشانیوں کے ذریعے انسان کو اللہ کی طرف بلایا گیا ہے۔قرآن مجید کے بائیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

قرآن مجید کا بائیسواں پارہ   
 شروع: سورہ الاحزاب (33:31)  
 اختتام: سورہ یٰسین (36:27)  

---

۱۔ سورہ الاحزاب (33:31–73)   
 مرکزی مضامین:   
1. ازواجِ مطہرات کی ذمہ داریاں:   
   - آیت 32-34: نبی ﷺ کی بیویوں کو خصوصی احکام: گھر میں رہنا، زینت نہ دکھانا، اور تقویٰ اختیار کرنا۔  
   - آیت 35: مومن مرد و عورتوں کی صفات: ایمان، صدق، صبر، اور خشوع۔  

2. غزوہ احزاب (خندق) کے بعد کے واقعات:   
   - آیت 50-52: نبی ﷺ کے ازواج اور رضاعتی رشتوں کے احکام۔  
   - آیت 59: پردے کا حکم: "اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں، اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادروں کا اڑھاؤ کرلیا کریں" ۔  

3. منافقین کی مذمت:   
   - آیت 60-62: مدینہ کے منافقوں کی سازشوں اور جھوٹی افواہوں کی تردید۔  

4. قیامت کا منظر:   
   - آیت 72: انسان کو امانت (اختیارِ ارادہ) کا بوجھ اٹھانے کا ذکر۔  

---

۲۔ سورہ سبا (34:1–54)   
 مرکزی مضامین:   
1. قومِ سبا کی عبرت انگیز کہانی:   
   - آیت 15-17: یمن کی سرسبز وادی میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر، لیکن ناشکری پر سیلابِ عرم کا عذاب۔  

2. حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کی حکمتیں:   
   - آیت 10-14: داؤد علیہ السلام کو لوہے کو نرم کرنے کا علم، اور سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت۔  

3. توحید اور آخرت کا اثبات:   
   - آیت 3: "کفار کہتے ہیں قیامت نہیں آئے گی۔ کہہ دو: کیوں نہیں! میرے رب کی قسم، وہ ضرور آئے گی" ۔  

---

۳۔ سورہ فاطر (35:1–45)   
 مرکزی مضامین:   
1. اللہ کی قدرت کی نشانیاں:   
   - آیت 1: فرشتوں کو بھیجنے کا ذکر: "تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے" ۔  
   - آیت 27-28: پہاڑوں کے مختلف رنگ، اور علماء کا اللہ سے ڈرنا۔  

2. انسانی آزمائش:   
   - آیت 15: "اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز اور قابلِ تعریف ہے" ۔  

3. دعوتِ توحید:   
   - آیت 5: دنیا کی زندگی کو فریبِ نظر قرار دینا۔  

---

۴۔ سورہ یٰسین (36:1–27)   
 مرکزی مضامین:   
1. رسالت کی صداقت:   
   - آیت 1-7: قرآن کو حکمت بھری کتاب قرار دینا اور مکہ کے کفار کی ہٹ دھرمی۔  

2. تین رسولوں کی کہانی:   
   - آیت 13-27: ایک شہر میں تین رسولوں کی دعوت، ایک مومن کی حمایت، اور اس کی شہادت کے بعد جنت کی بشارت۔  

3. توحید کی دعوت:   
   - آیت 22: "میں اس کی عبادت کیوں نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا؟" ۔  

---

پارے کا کلیدی پیغام:   
1. خاندانی اخلاقیات: ازواجِ مطہرات کے لیے رہنما اصول اور پردے کی اہمیت۔  
2. تاریخی عبرتیں: قومِ سبا اور دیگر ماضی کی قوموں کی تباہی کا سبق۔  
3. توحید کا اثبات: کائنات کی ہر شے اللہ کی قدرت کی گواہی دیتی ہے۔  
4. آخرت کا یقین: موت کے بعد جزا و سزا کا نظام عدل پر مبنی ہوگا۔  
5. دعوت کی ذمہ داری: رسولوں کی ثابت قدمی اور مومن کی شہادت کی عظمت۔  

 نوٹ:   
- سورہ الاحزاب کی آیت 33 ( "اے اہلِ بیت! اللہ تم سے ناپاکی کو دور کرنا چاہتا ہے...") میں اہلِ بیت کی طہارت کا ذکر ہے۔  
- سورہ یٰسین کی آیت 12 ( "ہم مردہ زمین کو زندہ کرتے ہیں...") میں قیامت کے دن اٹھائے جانے کی دلیل دی گئی ہے۔  
- سورہ فاطر کی آیت 28 ( "اللہ سے اس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں") علم کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہے۔  

---  
یہ پارہ ایمان، عمل، اور سماجی نظام کا جامع مرقع پیش کرتا ہے، جس میں تاریخی واقعات، اخلاقی تعلیمات، اور کائناتی نشانیوں کے ذریعے انسان کو اللہ کی طرف بلایا گیا ہے۔







پارہ نمبر 23
قرآن مجید کے تئیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

    قرآن مجید کا تئیسواں پارہ   
 شروع: سورہ یٰسین (36:28)  
 اختتام: سو
رہ الزمر (39:31)  

---

    ۱۔ سورہ یٰسین (36:28–83)   
 مرکزی مضامین:   
1. قیامت اور تخلیق کائنات:   
   - آیت 33-35: مردہ زمین کو زندہ کرنے کی مثال: "ہم نے اس میں اناج اُگایا، انگور، سبزیاں..." ۔  
   - آیت 78-83: منکرینِ قیامت کے اعتراضات کا جواب: "کیا وہ نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا؟ پھر وہ کھلم کھلا جھگڑالو بن گیا" ۔  

2. توحید کی دعوت:   
   - آیت 60-61: شیطان کی پیروی سے روکنا: "اے بنی آدم! کیا میں نے تمہیں شیطان کی عبادت نہ کرنے کا عہد نہیں لیا؟" ۔  

---

    ۲۔ سورہ الصافات (37:1–182)   
 مرکزی مضامین:   
1. توحید اور ملائکہ کی گواہی:   
   - آیت 1-7: فرشتوں کی صف بندی اور کائنات کی حفاظت کا ذکر۔  
   - آیت 164-166: فرشتوں کا اقرار: "ہم میں سے ہر ایک کا مقررہ مقام ہے" ۔  

2. انبیاء کے واقعات:   
   - حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اور طوفان (37:75-82)۔  
   - حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ سے نجات (37:97-113)۔  
   - حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی فرعون سے جدوجہد (37:114-122)۔  
   - حضرت الیاس اور یونس علیہما السلام کی دعوت (37:123-148)۔  

3. قیامت کا بیان:   
   - آیت 19-20: صور پھونکے جانے کا منظر: "یہ ایک ہی چنگھاڑ ہوگی، پھر وہ سب دیکھ رہے ہوں گے" ۔  

---

    ۳۔ سورہ ص (38:1–88)   
 مرکزی مضامین:   
1. حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کی حکمتیں:   
   - آیت 17-26: داؤد علیہ السلام کا انصاف: دو فریقوں کا اختلاف اور فیصلہ۔  
   - آیت 30-40: سلیمان علیہ السلام کو حیوانات اور جنات پر اختیار: "یہ ہمارا فضل ہے، تو چاہے تو دے دے یا روک لے" ۔  

2. شیطان کی سرکشی:   
   - آیت 71-85: شیطان کا آدم کو سجدہ نہ کرنا اور اس کا انسان کو گمراہ کرنے کا عہد۔  

3. توحید کا اثبات:   
   - آیت 5: "کیا وہ تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیتا ہے؟ یہ تو بہت عجیب بات ہے!" ۔  

---
    ۴۔ سورہ الزمر (39:1–31)   
 مرکزی مضامین:   
1. اللہ کی وحدانیت:   
   - آیت 4: "اگر اللہ کو اولاد ہوتی تو وہ اپنے بندوں میں سے کسی کو چن لیتا" ۔  
   - آیت 6: انسان کی تخلیق کے مراحل: "تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا" ۔  

2. جزا و سزا کا نظام:   
   - آیت 15-16: کفار کی رسوائی: "جہنم میں داخل ہو کر کہیں گے: کاش! ہم اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے" ۔  
   - آیت 24: "کیا وہ شخص جس کا چہرہ آگ میں الٹا جائے گا، کامیاب ہوگا؟" ۔  

---

    پارے کا کلیدی پیغام:   
1. توحید کا اعلان: کائنات کی ہر شے اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے۔  
2. آخرت کا یقین: موت کے بعد جزا و سزا کا نظام عدل پر مبنی ہوگا۔  
3. انبیاء کی ثابت قدمی: ہر نبی نے اپنی قوم کو صرف اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔  
4. شیطانی فریب سے بچاؤ: تکبر اور گمراہی کے نتائج سے خبردار کرنا۔  
5. انسانی تخلیق کی حکمت: انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا، مگر اس کی آزمائش جاری ہے۔  

 نوٹ:   
- سورہ الصافات کی آیت 130 ( "سلام ہو الیاسین پر!") میں حضرت الیاس علیہ السلام کی تعظیم کی گئی ہے۔  
- سورہ ص کی آیت 29 ( "یہ قرآن نصیحت ہے تاکہ دلوں کو ٹھیس پہنچے...") قرآن کے اثر کی نشاندہی کرتی ہے۔  
- سورہ الزمر کی آیت 18 ( "جو لوگ میری بات سنتے ہیں اور بہترین راہ اختیار کرتے ہیں...") ہدایت پانے والوں کی صفات بیان کرتی ہے۔  

---  
یہ پارہ توحید، رسالت، اور آخرت کے مضامین کو گہرائی سے اجاگر کرتا ہے، جس میں تاریخی واقعات اور کائناتی نشانیوں کے ذریعے انسان کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔






پارہ نمبر 24

قرآن مجید کے چوبیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---


     قرآن مجید کا چوبیسواں پارہ    
  شروع: سورہ الزمر (39:32)  
  اختتام: سورہ حٰم السجدہ (41:46)  

---

     ۱۔ سورہ الزمر (39:32–75)    
  مرکزی مضامین:    
1. توحید اور شرک کی مذمت:    
   - آیت 53: "اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے" — توبہ کی قبولیت کی بشارت۔  
   - آیت 67: اللہ کی عظمت کا بیان: "آسمان اور زمین اللہ کی مٹھی میں ہیں" ۔  

2. قیامت کا منظر:    
   - آیت 68: صور پھونکا جائے گا، اور سب بے ہوش ہو جائیں گے۔  
   - آیت 73-75: جنت میں داخل ہونے والوں کی خوشی اور جہنم والوں کا پچھتانا۔  

3. اللہ کی رحمت اور عدل:    
   - آیت 62: "اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز کا نگران ہے" ۔  

---

     ۲۔ سورہ غافر (40:1–85)    
  مرکزی مضامین:    
1. فرعون کے زمانے کا مومن:    
   - آیت 28-45: فرعون کے خلاف ایک گمنام مومن کی دلیرانہ دعوت، جو موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرتا ہے۔ عبرت: "اللہ ظالموں کی چال کو ناکام کر دیتا ہے" ۔  

2. اللہ کی قدرت اور نشانیاں:    
   - آیت 13: "وہی ہے جو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سیدھے راستے پر آ جاؤ" ۔  
   - آیت 61-62: رات اور دن کی گردش، سورج اور چاند کی حرکت۔  

3. انبیاء کی دعوت اور قوموں کا ردِ عمل:    
   - آیت 5: نوح، ہود، اور صالح علیہم السلام کی قوموں کی ہٹ دھرمی۔  

---
     ۳۔ سورہ حٰم السجدہ (41:1–46)    
  مرکزی مضامین:    
1. قرآن کی عظمت اور ہدایت:    
   - آیت 1-3: قرآن کو عربی زبان میں نازل کرنے کی حکمت۔  
   - آیت 44: "اگر ہم اسے غیر عربی قرآن بناتے تو کہتے: اس کی آیات کیوں واضح نہیں؟" ۔  

2. کائنات کی تخلیق:    
   - آیت 9-12: زمین، آسمانوں، اور کائنات کی تخلیق کے مراحل۔  
   - آیت 53: "ہم اپنی نشانیاں کائنات اور ان کے اندر (انسانوں میں) دکھائیں گے" ۔  

3. انسان کی آزمائش:    
   - آیت 30-32: فرشتوں کا مومنوں کو تسلی دینا: "نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور جنت کی خوشخبری سنو" ۔  

---

     پارے کا کلیدی پیغام:    
1. توحید کا اثبات: ہر سورت اللہ کی وحدانیت اور اس کی مخلوقات پر حکمرانی کو اجاگر کرتی ہے۔  
2. توبہ کی قبولیت: گناہگاروں کے لیے اللہ کی رحمت کی امید۔  
3. آخرت کا یقین: قیامت کے دن نیک و بد اعمال کا حساب۔  
4. تاریخی سبق: فرعون اور سابقہ قوموں کی تباہی سے عبرت حاصل کرنا۔  
5. قرآن کی ہدایت: اسے زندگی کا راہنما بنانے کی ترغیب۔  

  نوٹ:    
- سورہ الزمر کی آیت 53 ( "اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو") گناہگاروں کے لیے امید کی کرن ہے۔  
- سورہ غافر کی آیت 60 ( "تمہارا رب فرماتا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا") دعا کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔  
- سورہ حٰم السجدہ کی آیت 34 ( "بھلائی اور برائی یکساں نہیں۔ تم برائی کو بہترین طریقے سے دور کرو") اخلاقی تعلیم کا خلاصہ پیش کرتی ہے۔  

---  
یہ پارہ ایمان، توکل، اور آخرت کی تیاری کا گہرا پیغام دیتا ہے، جس میں کائناتی نشانیوں اور تاریخی واقعات کے ذریعے انسان کو اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔







پارہ نمبر 25

قرآن مجید کے پچیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

   قرآن مجید کا پچیسواں پارہ  
 شروع: سورہ فصّلت (41:47)  
 ا
ختتام: سورہ الجاثیہ (45:37)  

---

   ۱۔ سورہ فصّلت (41:47–54)  
 مرکزی مضامین:  
1. توحید اور قیامت کا اثبات:  
   - آیت 53: "ہم اپنی نشانیاں کائنات اور ان کے اندر (انسانوں میں) دکھائیں گے تاکہ حق ان پر واضح ہو جائے" ۔  
   - آیت 54: منکرین کا شک: "کیا وہ اپنے رب کے بارے میں شک میں ہیں؟ حالانکہ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے" ۔  

2. قرآن کی حقانیت:  
   - آیت 44: قرآن کو عربی زبان میں نازل کرنے کی حکمت۔  

---

   ۲۔ سورہ الشوریٰ (42:1–53)  
 مرکزی مضامین:  
1. مشورے کی اہمیت:  
   - آیت 38: "جو اپنے رب کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے معاملات میں مشورہ کرتے ہیں" — اجتماعی فیصلوں میں شوریٰ کی فضیلت۔  

2. توحید اور انبیاء کا مشن:  
   - آیت 13: تمام انبیاء کی دعوت کا مرکز: "اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو" ۔  
   - آیت 23: اہلِ بیت سے محبت کا حکم: "کہہ دو: میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے رشتہ داری کے مودت کے" ۔  

3. اللہ کی رحمت اور عدل:  
   - آیت 30: "تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور تمہیں جنت میں داخل کرے گا" ۔  

---
   ۳۔ سورہ الزخرف (43:1–89)  
 مرکزی مضامین:  
1. دنیا کی فریب کاری:  
   - آیت 32-35: مال و اولاد کو آزمائش قرار دینا: "یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہے" ۔  

2. حضرت ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کی دعوت:  
   - آیت 26-28: ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنا اور توحید کا اعلان۔  
   - آیت 46-56: موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا مقابلہ، دریائے نیل کا پھٹنا۔  

3. عیسیٰ علیہ السلام کی توضیح:  
   - آیت 59: "وہ اللہ کے بندے ہیں جنہیں ہم نے نعمت دی" — تثلیث کی تردید۔  

---

   ۴۔ سورہ الدخان (44:1–59)  
 مرکزی مضامین:  
1. قیامت کی نشانیاں:  
   - آیت 10-11: "دھویں والا دن" — قیامت سے پہلے کا ایک عذاب۔  

2. فرعون اور بنی اسرائیل کا واقعہ:  
   - آیت 17-33: موسیٰ علیہ السلام کی معجزات اور فرعون کی ہلاکت۔  

3. جنت کی نعمتیں:  
   - آیت 51-57: پر سکون زندگی، ہر قسم کے پھل، اور اللہ کی رضا۔  

---

   ۵۔ سورہ الجاثیہ (45:1–37)  
 مرکزی مضامین:  
1. کائنات کی نشانیاں:  
   - آیت 3-5: آسمان، زمین، اور جانداروں کی تخلیق میں اللہ کی حکمت۔  

2. انسانی آزمائش:  
   - آیت 23: "کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنا معبود اپنی خواہش کو بنا لیا؟" — ہوائے نفس کی پیروی کی مذمت۔  

3. جزا و سزا:  
   - آیت 33-35: کافروں کے اعمال خاکستر ہو جائیں گے، جبکہ مومن جنت میں ہوں گے۔  

---
   پارے کا کلیدی پیغام:  
1. توحید کا اثبات: کائنات کی ہر شے اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے۔  
2. آخرت کا یقین: نیک اعمال کا اجر اور بداعمالی کی سزا۔  
3. تاریخی سبق: فرعون اور سابقہ قوموں کی تباہی سے عبرت۔  
4. اخلاقی ذمہ داری: شوریٰ، عدل، اور ہوائے نفس سے اجتناب۔  
5. قرآن کی ہدایت: اسے زندگی کا راہنما بنانے کی ترغیب۔  

 نوٹ:  
- سورہ الشوریٰ کی آیت 38 اسلامی جمہوریت کی بنیاد ہے۔  
- سورہ الدخان کی آیت 54 ( "بے شک متقین محفوظ جگہوں اور چشموں میں ہوں گے" ) جنت کی نعمتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔  
- سورہ الجاثیہ کی آیت 13 ( "اس نے تمہارے لیے زمین اور آسمان کی ہر چیز مسخر کر دی" ) انسان کی کرامت کو واضح کرتی ہے۔  

---  
یہ پارہ توحید، عدل، اور آخرت کے مضامین کو گہرائی سے بیان کرتا ہے، جس میں کائناتی نشانیوں اور تاریخی واقعات کے ذریعے انسان کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔








پارہ نمبر 26
قرآن مجید کے چھبیسویں پارے
 کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

   قرآن مجید کا چھبیسواں پارہ   
 شروع: سورہ الاحقاف (46:1)  
 اختتام: سورہ الذاریات (51:30)  

---

   ۱۔ سورہ الاحقاف (46:1–35)   
 مرکزی مضامین:   
1. توحید اور رسالت:   
   - آیت 2: قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب قرار دینا۔  
   - آیت 21-26: قومِ عاد اور حضرت ہود علیہ السلام کا واقعہ — سرکشی پر عذاب کی وعید۔  

2. والدین کے حقوق:   
   - آیت 15: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید: "ان کے سامنے اف تک نہ کہو" ۔  

---

   ۲۔ سورہ محمد (47:1–38)   
 مرکزی مضامین:   
1. جہاد اور ایمان کی آزمائش:   
   - آیت 4: جنگ کے دوران کفار کے ساتھ سلوک کے احکام۔  
   - آیت 7: "اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا" ۔  

2. جنت اور جہنم کا بیان:   
   - آیت 15: جنت کی نہروں اور پھلوں کی تفصیل۔  

---
   ۳۔ سورہ الفتح (48:1–29)   
 مرکزی مضامین:   
1. فتحِ مبین (معاہدہ حدیبیہ):   
   - آیت 1: "بے شک ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا کی" — صلح حدیبیہ کی بشارت۔  
   - آیت 18: صحابہ کی بیعتِ رضوان کی تعریف۔  

2. مسلمانوں کی ذمہ داریاں:   
   - آیت 29: رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی مثال: "وہ زمین میں گہرائی اور بلندی میں یکساں ہیں" ۔  

---

   ۴۔ سورہ الحجرات (49:1–18)   
 مرکزی مضامین:   
1. اخلاقی ہدایات:   
   - آیت 1-5: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ادب: "اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو" ۔  
   - آیت 6: غلط خبروں کی تحقیق: "اگر کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو" ۔  

2. اخوت اور مساوات:   
   - آیت 13: "تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے" ۔  

---

   ۵۔ سورہ قٓ (50:1–45)   
 مرکزی مضامین:   
1. قیامت کا اثبات:   
   - آیت 15: "کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے عاجز ہو گئے؟" — دوبارہ زندہ کرنے پر دلیل۔  
   - آیت 20: صور پھونکا جانا: "اور صور پھونک دیا جائے گا، یہ وہ دن ہے جس کا وعدہ دیا گیا تھا" ۔  

2. تخلیقِ کائنات:   
   - آیت 6-11: آسمان، زمین، اور پہاڑوں کی تخلیق پر غور کی دعوت۔  

---
   ۶۔ سورہ الذاریات (51:1–30)   
 مرکزی مضامین:   
1. توحید اور انبیاء کے واقعات:   
   - آیت 24-30: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمان (فرشتے) اور ان کی اولاد (اسحاق) کی بشارت۔  
   - آیت 31-46: قومِ لوط، فرعون، اور قومِ نوح کے عذاب کا ذکر۔  

2. انسانی فطرت:   
   - آیت 20-21: "زمین میں نشانیاں ہیں یقین رکھنے والوں کے لیے، اور تمہارے اپنے وجود میں بھی۔ کیا تم دیکھتے نہیں؟" ۔  

---

   پارے کا کلیدی پیغام:   
1. توحید اور رسالت: ہر نبی نے اپنی قوم کو صرف اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔  
2. اخلاقی ذمہ داری: والدین، رسول، اور معاشرے کے حقوق کا خیال رکھنا۔  
3. جہاد اور صبر: ایمان کی حفاظت کے لیے کوشش اور ثابت قدمی۔  
4. آخرت کا یقین: موت کے بعد جزا و سزا کا نظام عدل پر مبنی ہوگا۔  
5. تاریخی عبرتیں: سرکش قوموں کی تباہی اور انبیاء کی ثابت قدمی۔  

 نوٹ:   
- سورہ الحجرات کی آیت 13 انسانی مساوات کا بنیادی اسلامی اصول بیان کرتی ہے۔  
- سورہ الفتح کی آیت 18 میں بیعتِ رضوان (حدیبیہ) کو اللہ کی رضا سے جوڑا گیا ہے۔  
- سورہ قٓ کی آیت 16 ( "ہم انسان کی رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں") اللہ کی قربت کی نشاندہی کرتی ہے۔  

---  
یہ پارہ ایمان، اخلاق، اور سماجی نظام کی گہری تعلیمات پیش کرتا ہے، جس میں جہاد کی حکمت، معاشرتی آداب، اور کائناتی نشانیوں کے ذریعے اللہ کی قدرت کو اجاگر کیا گیا ہے۔







پارہ نمبر 27
قرآن مجید کے ستائیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---


   قرآن مجید کا ستائیسواں پارہ   
 شروع: سورہ الذاریات (51:31)  
 اختتام: سورہ الحديد (57:29)  

---

   ۱۔ سورہ الذاریات (51:31–60)   
 مرکزی مضامین:   
1. حضرت ابراہیم علیہ السلام اور فرشتوں کا واقعہ:   
   - آیت 24-30: فرشتوں کی بشارت (حضرت اسحاق کی پیدائش) اور قومِ لوط کی تباہی کی پیشین گوئی۔  
2. تخلیقِ کائنات اور توحید:   
   - آیت 47: "ہم نے آسمان کو اپنی قدرت سے بنایا، اور ہم ہی اسے وسعت دیتے ہیں" ۔  
   - آیت 56: انسانوں اور جنوں کی تخلیق کا مقصد: "صرف میری عبادت کریں" ۔  

---

   ۲۔ سورہ الطور (52:1–49)   
 مرکزی مضامین:   
1. قیامت کی ہولناکیاں:   
   - آیت 1-8: کوہِ طور، لکھی ہوئی کتاب، اور بیت المعمور کی قسمیں۔  
   - آیت 11-16: جہنم کا عذاب اور کافروں کی بے چارگی۔  
2. مومنوں کی جزا:   
   - آیت 17-28: جنت کی نعمتیں: "انہیں ہر قسم کے پھل اور امن دیا جائے گا" ۔  

---

   ۳۔ سورہ النجم (53:1–62)   
 مرکزی مضامین:   
1. معراجِ نبوی کی گواہی:   
   - آیت 1-18: نبی ﷺ کا آسمانوں کا سفر اور وحی کی حقیقت۔  
2. بت پرستی کی تردید:   
   - آیت 19-23: لات، عزیٰ، اور منات جیسے بتوں کی بے بسی۔  
   - آیت 42: "آخرت ہی اصل منزل ہے" ۔  

---
   ۴۔ سورہ القمر (54:1–55)   
 مرکزی مضامین:   
1. چاند کے پھٹنے کا معجزہ:   
   - آیت 1-2: "قیامت قریب آ گئی، اور چاند پھٹ گیا" ۔  
2. سابقہ قوموں کے عذاب:   
   - آیت 9-42: نوح، عاد، ثمود، لوط، اور فرعون کی قوموں کی تباہی۔  
   - آیت 43: "کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں؟" ۔  

---

   ۵۔ سورہ الرحمٰن (55:1–78)   
 مرکزی مضامین:   
1. اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ:   
   - آیت 1-25: زمین، آسمان، درخت، سمندر، اور جواہرات کی تخلیق۔  
   - آیت 26-30: انسان اور جن کی آزمائش: "تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟" ۔  
2. جنت کی تفصیلات:   
   - آیت 46-78: دو جنتوں کا بیان، پھل، چشمے، اور حوروں کی نعمتیں۔  

---

   ۶۔ سورہ الواقعہ (56:1–96)   
 مرکزی مضامین:   
1. قیامت کے تین گروہ:   
   - آیت 7-10: "اصحاب المیمنہ"، "اصحاب المشئمہ"، اور "السابقون"۔  
   - آیت 35-40: جنت میں پاکیزہ بیویاں اور نعمتیں۔  
2. قرآن کی عظمت:   
   - آیت 77-80: قرآن کو "لوحِ محفوظ" سے نازل کیا گیا۔  

---

   ۷۔ سورہ الحديد (57:1–29)   
 مرکزی مضامین:   
1. اللہ کی قدرت اور حکمت:   
   - آیت 1-3: "آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، اللہ کی تسبیح کرتا ہے" ۔  
2. مال کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب:   
   - آیت 7-11: "اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کی مدد کرو" ۔  
3. دنیا کی فانی حیثیت:   
   - آیت 20: "دنیا کی زندگی کھیل تماشے اور فریبِ نظر ہے" ۔  

---
   پارے کا کلیدی پیغام:   
1. توحید کا اثبات: کائنات کی ہر شے اللہ کی وحدانیت کی گواہ ہے۔  
2. آخرت کا یقین: نیک اعمال کا اجر اور سرکشی کی سزا۔  
3. تاریخی عبرتیں: سابقہ قوموں کی تباہی سے سبق حاصل کرنا۔  
4. قرآن کی عظمت: اسے زندگی کا راہنما بنانے کی دعوت۔  
5. اخلاقی ذمہ داری: ایمان، انفاق، اور عدل پر عمل۔  

 نوٹ:   
- سورہ الرحمٰن کی آیت 26 ( "ہر چیز فنا ہونے والی ہے، صرف تیرے رب کی ذات باقی رہے گی") دنیا کی بے ثباتی کو واضح کرتی ہے۔  
- سورہ الواقعہ کی آیت 95 ( "بے شک یہ حق الیقین ہے") قرآن کی صداقت پر زور دیتی ہے۔  
- سورہ الحديد کی آیت 4 ( "وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا") تخلیقِ کائنات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔  

---  
یہ پارہ توحید، آخرت، اور انسانی ذمہ داریوں کو گہرائی سے بیان کرتا ہے، جس میں کائناتی نشانیوں اور تاریخی واقعات کے ذریعے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔








پارہ نمبر 28
قرآن مجید کے اٹھائیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

   قرآن مجید کا اٹھائیسواں پارہ   
 شروع: سورہ المجادلہ (58:1)  
 اختتام: سورہ التحریم (66:12)  

---

   ۱۔ سورہ المجادلہ (58:1–22)   
 مرکزی مضامین:   
1. "مجادلہ" کا واقعہ:   
   - آیت 1-4: ایک خاتون (خولہ بنت ثعلبہ) کا نبی ﷺ سے اپنے شوہر کے ظلم کی شکایت اور اسلام میں "ظہار" کی حرمت کا حکم۔  
2. مجلسِ نبوی کے آداب:   
   - آیت 11: "تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں، جب تمہیں کہا جائے کہ مجلس میں جگہ کشادہ کرو تو کشادہ کرو، اللہ تمہارے لیے کشادگی کرے گا" ۔  

---

   ۲۔ سورہ الحشر (59:1–24)   
 مرکزی مضامین:   
1. بنو نضیر کی جلاوطنی:   
   - آیت 2-5: یہودِ بنو نضیر کی سازش اور ان کے قلعوں کی تباہی۔  
2. مالِ غنیمت کی تقسیم:   
   - آیت 7-10: فئی (غیر جنگی مال) کے اصول، نیز مہاجرین و انصار کی مدد۔  
3. اللہ کے اسماء الحسنیٰ:   
   - آیت 22-24: اللہ کی صفات کا جامع بیان: "وہی اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں..." ۔  

---

   ۳۔ سورہ الممتحنہ (60:1–13)   
 مرکزی مضامین:   
1. غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات:   
   - آیت 8-9: "اللہ تمہیں ان سے دوستی کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے معاملے میں نہیں لڑے" — انصاف کی تلقین۔  
2. حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت:   
   - آیت 4: کفار سے بیزاری کا اعلان: "تمہارے اور ہمارے درمیان عداوت ہمیشہ کے لیے ہے" ۔  

---
   ۴۔ سورہ الصف (61:1–14)   
 مرکزی مضامین:   
1. جہاد کی ترغیب:   
   - آیت 10-11: "اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے" ۔  
2. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی:   
   - آیت 6: "میں تمہارے لیے ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہوگا" ۔  

---

   ۵۔ سورہ الجمعہ (62:1–11)   
 مرکزی مضامین:   
1. جمعہ کی نماز کی اہمیت:   
   - آیت 9-10: "اے ایمان والو! جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو" ۔  
2. علم کی فضیلت:   
   - آیت 2: "وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں سے ایک رسول بھیجا" ۔  

---

   ۶۔ سورہ المنافقون (63:1–11)   
 مرکزی مضامین:   
1. منافقین کی چالاکیاں:   
   - آیت 1-4: منافقوں کے جھوٹے دعوے اور دل میں بیماری۔  
   - آیت 9-11: "تمہارا مال اور اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دے" ۔  

---

   ۷۔ سورہ التغابن (64:1–18)   
 مرکزی مضامین:   
1. قیامت کا دن:   
   - آیت 9: "جس دن تم سب جمع کیے جاؤ گے، وہ نقصان کا دن ہوگا" ۔  
2. اللہ پر توکل:   
   - آیت 11: "کوئی مصیبت نہیں آتی مگر اللہ کے حکم سے" ۔  

---

   ۸۔ سورہ الطلاق (65:1–12)   
 مرکزی مضامین:   
1. طلاق کے احکام:   
   - آیت 1-7: عدت، رہائش، اور نان و نفقہ کے قوانین۔  
2. تقویٰ کی ترغیب:   
   - آیت 2-3: "جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا" ۔  

---
   ۹۔ سورہ التحریم (66:1–12)   
 مرکزی مضامین:   
1. نبی ﷺ کے گھریلو معاملات:   
   - آیت 1-5: شہد کی واقعہ اور ازواجِ مطہرات کو تنبیہ۔  
2. ایمان والی خواتین کی مثالیں:   
   - آیت 10-12: فرعون کی بیوی (آسیہ) اور مریم علیہا السلام کی عظمت۔  

---

   پارے کا کلیدی پیغام:   
1. سماجی انصاف: خواتین کے حقوق، طلاق کے احکام، اور معاشرتی حقوق کی پاسداری۔  
2. اخلاقی ذمہ داری: منافقت سے بچاؤ، جمعہ کی نماز کی پابندی، اور اللہ پر توکل۔  
3. تاریخی سبق: یہودِ بنو نضیر کی سازشوں اور ان کے انجام سے عبرت۔  
4. جہاد کی اہمیت: مال و جان سے اللہ کی راہ میں کوشش۔  
5. آخرت کی تیاری: قیامت کے دن اعمال کا حساب۔  

 نوٹ:   
- سورہ الحشر کی آیت 21 ( "اگر ہم قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا") قرآن کے عظمت کی نشاندہی کرتی ہے۔  
- سورہ التغابن کی آیت 16 ( "اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو") ایمان کی شرط بتاتی ہے۔  
- سورہ التحریم کی آیت 8 ( "اے ایمان والو! اللہ کی طرف سچے توبہ کی طرف لوٹو") توبہ کی قبولیت کی امید دلاتی ہے۔  

---  
یہ پارہ سماجی قوانین، اخلاقی تعلیمات، اور ایمانی جذبے کو مضبوط کرنے کا جامع مرقع پیش کرتا ہے، جس میں خاندانی نظام سے لے کر اجتماعی ذمہ داریوں تک ہر پہلو کو قرآن کی روشنی میں اجاگر کیا گیا ہے۔









پارہ نمبر 29
قرآن مجید کے انتیسویں پارے کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

   قرآن مجید کا انتیسواں پارہ   
 شروع: سورہ الملک (67:1)  
 اختتام: سورہ المرسلات (77:50)  

---

   ۱۔ سورہ الملک (67:1–30)   
 مرکزی مضامین:   
1. اللہ کی بادشاہت اور حکمت:   
   - آیت 1: "بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے" ۔  
   - آیت 2: زندگی اور موت کی تخلیق کا مقصد: "تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے" ۔  
   - آیت 15: زمین کو مسخر کرنے کی حکمت: "اللہ نے تمہارے لیے زمین کو تابعدار بنا دیا" ۔  

2. آخرت کی تیاری:   
   - آیت 16-18: کائنات کی حفاظت اور انسان کی بے بسی: "کیا تم اس سے محفوظ ہو کہ آسمان تم پر گر پڑے؟" ۔  

---

   ۲۔ سورہ القلم (68:1–52)   
 مرکزی مضامین:   
1. رسول اللہ ﷺ کی صداقت:   
   - آیت 1-7: نبی ﷺ کو "مجنون" کہنے والوں کی تردید اور قرآن کی عظمت۔  
   - آیت 17-33: باغ والوں کی کہانی — لالچ اور ناشکری کا انجام۔  

2. صبر کی تلقین:   
   - آیت 48: "اپنے رب کے فیصلے کا انتظار کرو، جیسا مچھلی والے (یونس) نے کیا" ۔  

---

   ۳۔ سورہ الحاقہ (69:1–52)   
 مرکزی مضامین:   
1. قیامت کی ہولناکیاں:   
   - آیت 13-18: صور پھونکا جانا، زمین کا اُٹھنا، اور اعمال کا وزن۔  
   - آیت 25-37: کافروں کی رسوائی: "کاش! میں نے اپنی زندگی کے لیے کچھ بھیج لیا ہوتا" ۔  

2. قرآن کی حقانیت:   
   - آیت 40-43: "یہ قرآن کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہیں، بلکہ رب العالمین کا وحی کردہ ہے" ۔  

---
   ۴۔ سورہ المعارج (70:1–44)   
 مرکزی مضامین:   
1. قیامت کا دن:   
   - آیت 1-4: "ایک سوالی نے عذاب کا مطالبہ کیا جو کافروں پر آنے والا ہے" ۔  
   - آیت 8-18: اس دن آسمان پگھلے گا، اور انسان اپنے بھائی سے بھاگے گا۔  

2. انسانی فطرت:   
   - آیت 19-21: "بے شک انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے" ۔  

---

   ۵۔ سورہ نوح (71:1–28)   
 مرکزی مضامین:   
1. حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت:   
   - آیت 5-12: 950 سال تک اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش، لیکن انکار۔  
   - آیت 26-28: نوح کی دعا: "اے رب! زمین پر کوئی کافر نہ چھوڑ" ۔  

---

   ۶۔ سورہ الجن (72:1–28)   
 مرکزی مضامین:   
1. جنات کا ایمان لانا:   
   - آیت 1-15: جنات کا قرآن سننا، اس پر ایمان لانا، اور شرک سے توبہ۔  
   - آیت 18: "مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارو" ۔  

---

   ۷۔ سورہ المزمل (73:1–20)   
 مرکزی مضامین:   
1. عبادت کی تلقین:   
   - آیت 1-4: نبی ﷺ کو رات کی نماز اور قرآن کی تلاوت کا حکم۔  
   - آیت 20: "تم جو کچھ بھلائی آگے بھیجو گے، اپنے لیے بہتر پاؤ گے" ۔  

---

   ۸۔ سورہ المدثر (74:1–56)   
 مرکزی مضامین:   
1. دعوتِ اسلام کا آغاز:   
   - آیت 1-7: "اے کپڑا اوڑھنے والے! اٹھیں اور ڈرائیں" — نبی ﷺ کو تبلیغ کا حکم۔  
   - آیت 38-47: جہنم میں جانے والوں کا اعتراف: "ہم نماز نہیں پڑھتے تھے" ۔  

---
   ۹۔ سورہ القیامہ (75:1–40)   
 مرکزی مضامین:   
1. قیامت کا یقین:   
   - آیت 1-15: انسان کا انکار: "کیا انسان سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کریں گے؟" ۔  
   - آیت 16-19: قرآن کی حفاظت: "اس کو جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے" ۔  

---

   ۱۰۔ سورہ الدہر (76:1–31)   
 مرکزی مضامین:   
1. انسان کی تخلیق اور آزمائش:   
   - آیت 2-3: "ہم نے انسان کو مشکلات میں گھیرا، پھر اسے سننے اور دیکھنے کی طاقت دی" ۔  
2. جنت کی نعمتیں:   
   - آیت 12-22: مومنوں کو سونے کے کپ، سبز ریشمی لباس، اور حوروں کی نوید۔  

---

   ۱۱۔ سورہ المرسلات (77:1–50)   
 مرکزی مضامین:   
1. قیامت کی نشانیاں:   
   - آیت 1-15: ہواؤں، بادلوں، اور فرشتوں کی قسمیں کہ قیامت برحق ہے۔  
   - آیت 16-28: گذشتہ قوموں (عاد، ثمود) کی تباہی کا ذکر۔  

---

   پارے کا کلیدی پیغام:   
1. توحید کا اثبات: کائنات کی ہر شے اللہ کی بادشاہت کی گواہ ہے۔  
2. آخرت کا یقین: اعمال کا حساب اور جنت/جہنم کی حقیقت۔  
3. تاریخی سبق: نوح، عاد، اور ثمود جیسی قوموں کی تباہی سے عبرت۔  
4. قرآن کی عظمت: یہ اللہ کا کلام ہے جو ہدایت کا سرچشمہ ہے۔  
5. انسانی ذمہ داری: صبر، شکر، اور اللہ کی اطاعت۔  

 نوٹ:   
- سورہ الملک کی آیت 14 ( "کیا جو پیدا کرتا ہے وہ نہیں جانتا؟ حالانکہ وہ بڑا باریک بین ہے") اللہ کے علم کی وسعت کو ظاہر کرتی ہے۔  
- سورہ الجن کی آیت 18 ( "مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارو") توحید کی واضح دلیل ہے۔  
- سورہ الدہر کی آیت 9 ( "ہم انہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں") ایثار کی اعلیٰ مثال پیش کرتی ہے۔  

---  
یہ پارہ انسان کو اللہ کی عظمت، آخرت کی تیاری، اور قرآن کی پیروی کی ترغیب دیتا ہے، جس میں کائناتی نشانیوں اور تاریخی واقعات کے ذریعے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔











پارہ نمبر 30
قرآن مجید کے تیسویں پارے (جزء عم) کا تفصیلی خلاصہ درج ذیل ہے:

---

   قرآن مجید کا تیسواں پارہ (جزء عم)   
 شروع: سورہ النبأ (78:1)  
 اختتام: سورہ الناس (114:6)  

یہ پارہ مکمل طور پر مکی سورتوں پر مشتمل ہے اور قرآن کے آخری 37 سورتیں شامل ہیں۔ یہ سورتیں عام طور پر مختصر ہیں اور ان میں توحید، قیامت، اخلاقیات، اور روزمرہ زندگی کے لیے رہنمائی کے مضامین پر زور دیا گیا ہے۔ ذیل میں اہم سورتوں کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

---

   1. سورہ النبأ (78:1–40)   
 کلیدی مضامین:   
- قیامت کی حقیقت اور اس کے ہولناک مناظر۔  
- اللہ کی قدرت کی نشانیاں: زمین، پہاڑ، رات اور دن کا نظام۔  
- آیت 35: جنت کی نعمتوں کا ذکر: "وہاں نہ کوئی فضول بات سنیں گے نہ جھوٹ" ۔  

---

   2. سورہ النازعات (79:1–46)   
 کلیدی مضامین:   
- فرشتوں کا انسانوں کی روحیں قبض کرنا۔  
- فرعون کی سرکشی اور عبرت ناک انجام۔  
- آیت 46: قیامت کا دن "جس دن وہ اسے دیکھیں گے، ایسا لگے گا کہ وہ صرف ایک شام یا ایک صحر گزار چکے ہیں" ۔  

---

   3. سورہ عبس (80:1–42)   
 کلیدی مضامین:   
- ایک نابینا صحابی (عبداللہ بن ام مکتوم) کی طرف سے علم سیکھنے کی کوشش پر نبی ﷺ کی توجہ کا واقعہ۔  
- انسان کی ناشکری اور اللہ کی نعمتوں کا ذکر۔  

---

   4. سورہ التکویر (81:1–29)   
 کلیدی مضامین:   
- قیامت کے دن کائناتی تبدیلیاں: سورج کا بجھنا، ستاروں کا گرنا۔  
- آیت 27: قرآن کی عظمت: "یہ تو سارے جہان کے لیے نصیحت ہے" ۔  

---

   5. سورہ الانفطار (82:1–19)   
 کلیدی مضامین:   
- قیامت کے دن آسمان کے پھٹنے اور اعمال کے ریکارڈ (کتاب) کا کھولنا۔  
- آیت 6: انسان کی بے وقوفی: "اے انسان! تجھے اپنے ربِ کریم نے کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟"   

---
   6. سورہ المطففین (83:1–36)   
 کلیدی مضامین:   
- ناپ تول میں کمی کی مذمت۔  
- نیکوکاروں کے لیے جنت کی خوشخبری اور بدکاروں کے لیے جہنم کی وعید۔  

---

   7. سورہ الانشقاق (84:1–25)   
 کلیدی مضامین:   
- زمین کے پھٹنے اور انسانوں کے اپنے اعمال دیکھنے کا منظر۔  
- آیت 6: "اے انسان! تو اپنے رب کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہے، تو اس سے جا ملے گا" ۔  

---

   8. سورہ البروج (85:1–22)   
 کلیدی مضامین:   
- اصحاب الاخدود (گڑھے والوں) کا واقعہ، جو ایمان کی خاطر شہید کیے گئے۔  
- اللہ کی طرف سے ظالموں کو سزا اور مومنین کو اجر۔  

---

   9. سورہ الطارق (86:1–17)   
 کلیدی مضامین:   
- رات کو آنے والے تارے (طارق) کی قسم، جو انسان کی تخلیق اور اللہ کی قدرت کی نشانی ہے۔  
- آیت 4: "ہر شخص پر ایک نگہبان مقرر ہے" ۔  

---

   10. سورہ الاعلیٰ (87:1–19)   
 کلیدی مضامین:   
- اللہ کی پاکی بیان کرنا، نماز اور تزکیہ نفس کی اہمیت۔  
- حضرت ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کے صحیفوں کا ذکر۔  

---

   11. سورہ الغاشیہ (88:1–26)   
 کلیدی مضامین:   
- قیامت کا "ڈھانپ لینے والا" واقعہ۔  
- انسان کو اونٹ، آسمان، پہاڑ، اور زمین پر غور کرنے کی دعوت۔  

---
   12. سورہ الفجر (89:1–30)   
 کلیدی مضامین:   
- گذشتہ قوموں (عاد، ثمود، فرعون) کی تباہی سے سبق۔  
- آیت 27–28: "اے مطمئن نفس! لوٹ اپنے رب کی طرف، تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی" ۔  

---

   13. سورہ البلد (90:1–20)   
 کلیدی مضامین:   
- انسان کی آزمائش: "ہم نے اسے مشکلات میں گھیر رکھا ہے" ۔  
- غلام آزاد کرنے، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کی ترغیب۔  

---

   14. سورہ الشمس (91:1–15)   
 کلیدی مضامین:   
- سورج، چاند، دن اور رات کی قسمیں۔  
- قوم ثمود اور ان کی اونٹنی کو مارنے کا واقعہ۔  

---

   15. سورہ اللیل (92:1–21)   
 کلیدی مضامین:   
- نیکی اور بدی کا فرق: "جو دے اور پرہیزگاری اختیار کرے، ہم اسے آسانی کی راہ دکھائیں گے" ۔  

---

   16. سورہ الضحیٰ (93:1–11)   
 کلیدی مضامین:   
- نبی ﷺ کو تسلی: "تمہارا رب نہ چھوڑے گا اور نہ ناراض ہوا" ۔  
- یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین۔  

---

   17. سورہ الشرح (94:1–8)   
 کلیدی مضامین:   
- نبی ﷺ کے سینے کو کشادہ کرنے اور مشکل کے بعد آسانی کا وعدہ۔  

---

   18. سورہ التین (95:1–8)   
 کلیدی مضامین:   
- انجیر اور زیتون (مقدس مقامات) کی قسم۔  
- انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا، لیکن اس کی ناشکری۔  

---

   19. سورہ العلق (96:1–19)   
 کلیدی مضامین:   
- پہلی وحی: "پڑھ اپنے رب کے نام سے" ۔  
- علم کی فضیلت اور انسان کے تکبر کی مذمت۔  

---
   20. سورہ القدر (97:1–5)   
 کلیدی مضامین:   
- شب قدر کی عظمت: "یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے" ۔  

---

   21. سورہ البینہ (98:1–8)   
 کلیدی مضامین:   
- اہل کتاب اور مشرکین کے لیے قرآن واضح دلیل۔  
- نیک اعمال کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت۔  

---

   22. سورہ الزلزال (99:1–8)   
 کلیدی مضامین:   
- قیامت کے دن زمین کا ہلنا اور اعمال کا ظاہر ہونا۔  
- آیت 7–8: "جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا" ۔  

---

   23. سورہ العادیات (100:1–11)   
 کلیدی مضامین:   
- گھوڑوں کی قسم جو جنگ میں دوڑتے ہیں۔  
- انسان کی لالچ اور ناشکری۔  

---

   24. سورہ القارعہ (101:1–11)   
 کلیدی مضامین:   
- قیامت کا خوفناک واقعہ (القارعہ)۔  
- اعمال کے تولنے کا بیان۔  

---

   25. سورہ التکاثر (102:1–8)   
 کلیدی مضامین:   
- مال و اولاد کی کثرت پر فخر کی مذمت۔  
- آیت 8: "تم ضرور اس دن نعمتوں کے بارے میں پوچھے جاؤ گے" ۔  

---

   26. سورہ العصر (103:1–3)   
 کلیدی مضامین:   
- وقت کی قسم: "انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے" ۔  

---

   27. سورہ الہمزہ (104:1–9)   
 کلیدی مضامین:   
- چغل خوری اور طعنہ زنی کرنے والوں کی مذمت۔  

---

   28. سورہ الفیل (105:1–5)   
 کلیدی مضامین:   
- ابرہہ اور ہاتھی والوں کی تباہی کا واقعہ۔  

---
   29. سورہ قریش (106:1–4)   
 کلیدی مضامین:   
- قریش کو تجارتی امن کی نعمت یاد دلانا۔  
- آیت 3–4: "وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک سے بچایا اور خوف سے امن دیا" ۔  

---

   30. سورہ الماعون (107:1–7)   
 کلیدی مضامین:   
- نماز سے غفلت اور مسکینوں کی مدد نہ کرنے والوں کی مذمت۔  

---

   31. سورہ الکوثر (108:1–3)   
 کلیدی مضامین:   
- نبی ﷺ کو بے پناہ خیر (کوثر) کی بشارت۔  
- "تمہارا دشمن ہی بے نام و نشان ہوگا" ۔  

---

   32. سورہ الکافرون (109:1–6)   
 کلیدی مضامین:   
- کفر اور ایمان کے درمیان واضح تفریق: "تم اپنے دین پر، میں اپنے دین پر" ۔  

---

   33. سورہ النصر (110:1–3)   
 کلیدی مضامین:   
- فتح مکہ کی بشارت اور توبہ کی دعوت۔  

---

   34. سورہ المسد (111:1–5)   
 کلیدی مضامین:   
- ابو لہب اور اس کی بیوی کی مذمت۔  

---

   35. سورہ الاخلاص (112:1–4)   
 کلیدی مضامین:   
- توحید کا جامع بیان: "وہ اللہ ایک ہے، بے نیاز ہے" ۔  

---

   36. سورہ الفلق (113:1–5)   
 کلیدی مضامین:   
- ہر قسم کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنا۔  

---

   37. سورہ الناس (114:1–6)   
 کلیدی مضامین:   
- شیطان کے وسوسوں اور شریروں کے شر سے اللہ کی پناہ۔  

---
   پارے کا کلیدی پیغام:   
1. توحید اور آخرت: ہر سورت اللہ کی وحدانیت اور قیامت کے یقین کو مضبوط کرتی ہے۔  
2. اخلاقیات: ایمان، صدقہ، اور معاشرتی ذمہ داریوں پر زور۔  
3. تاریخی سبق: گذشتہ قوموں کی تباہی سے عبرت۔  
4. انسانی فطرت: لالچ، تکبر، اور ناشکری کی مذمت۔  
5. رہنمائی: قرآن کو زندگی کا راستہ بنانے کی دعوت۔  

 نوٹ:   
- سورہ العلق قرآن کی پہلی وحی ہے، جو علم کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔  
- سورہ الاخلاص کو "توحید کی بنیاد" کہا جاتا ہے۔  
- سورہ الفلق اور الناس کو "معوذتین" کہا جاتا ہے، جو شیطانی اثرات سے تحفظ کے لیے پڑھی جاتی ہیں۔  

---  
یہ پارہ ایمان، عمل، اور اخلاق کی تعلیمات کا نچوڑ ہے، جو مختصر سورتوں میں گہرے معانی پنہاں رکھتا ہے۔














گگگ




No comments:

Post a Comment