Friday, 7 March 2025

"میرا جسم، میری مرضی" کا نعرہ گمراہ کن کیوں؟


(1)ہماری ابتدا (پیدائش، رنگ، نسل، جنس، عمر) اور انتہاء(بڑھاپا،موت،بیماری) بھی ہماری مرضی سے نہیں، رب کی مرضی ہی سے ہے۔ تو پھر یہ نعرہ کہ "میرا جسم، میری مرضی" کیسے درست ہوسکتا ہے؟


(2)کسی مجمل جملہ کا مخصوص معنیٰ ومطلب مقرر نہیں کیا جاسکتا، یہ تلبیسِ ابلیس ہے کہ لفظ/جملہ کا عام معنیٰ کو رد کرنا اور اپنے من مانے معنیٰ ومطلب کا جامہ پہنایا جائے۔


(3)یہ وہ نعرہ ہے جس سے ہر طرح کی سرکشی، حدود کے خلاف ورزیاں اور شر وبگاڑ کا جواز پیدا کیا جاسکتا ہے بلکہ پھیلایا بھی جاتا رہا یے۔

جبکہ

یہ نعرہ لگانے والوں میں خیر وصلاح صرف خیالی-زبانی اور مفروضہ کے طور پر ہے۔ حیاء کی معنیٰ سے ناواقف، صرف حیاء لفظ کہنے سے حیاءدار تو نہیں ہوجاتے۔



(4)یہ نعرہ دراصل کفار کی تہذیب سے آیا ہے، کیونکہ اسلامی تہذیب اس کے خلاف یہ بات سکھاتی ہے کہ:

مومن کی جان اسکی نہیں۔

القرآن:

واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات کے بدلے خرید لیے ہیں کہ جنت انہی کی ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں، اور مرتے بھی ہیں۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے تورات اور انجیل میں بھی لی ہے، اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو ؟ لہذا اپنے اس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کرلیا ہے۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 111]


جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی،

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔


جان دے دی میں نے ان کے نام پر،

کچھ سوچا نہ انجام پر۔





انسانیت کے لحاظ مرد اور عورت کے حقوق میں سے برابری ہے، لیکن جسمانی خاصیتوں ،اور صلاحیتوں کے لحاظ سے ذمہ داریوں اور میدانِ عمل میں تقسیم ہے۔

مرد اور عورت کا میدانِ عمل:
«قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنَتِهِ فَاطِمَةَ بِخِدْمَةِ الْبَيْتِ، وَقَضَى عَلَى عَلِيٍّ بِمَا كَانَ خَارِجًا مِنَ الْبَيْتِ مِنَ الْخِدْمَةِ»
ترجمہ:
فیصلہ کیا الله کے رسول (ﷺ) نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ پر گھر کی(اندرونی)خدمت کا اور حضرت علی پر گھر سے بیرونی خدمت کا۔
حوالہ
[مصنف-امام ابن ابی شیبۃ(م235ھ) » حدیث#29069(34508)]
[الزهد لهناد بن السري(م243ھ) » ج2/ صفحہ 386]
[حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني(م430ھ) : ج6/ صفحہ 104]




تاکہ زندگی میں پاکیزگی، توازن اور خوشگواری رہے۔
اس حقیقت سے کیسے انکار ممکن ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی بناوٹ، مزاج، رجحانات، اندرونی نظام اور ہارمون کانظام اور ان کے افعال سب انتہائی مختلف ہیں۔ اب یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک جیسے ہی کاموں کے لیے اتنی الگ مخلوق بنائی جاتی؟ اگر مرد اور عورت دونوں ایک جیسے کام کرسکتے ہیں یا ایک جیسی ذمہ داریاں اٹھاسکتے ہیں تو دونوں میں اتنا واضح بدنی، ذہنی ، نفسیاتی فرق کیوں ہے؟







یہ نعرہ مغربی سازش ہے۔ڈاکٹر اسرار



آزادی اور آوارگی میں فرق
"حدود" ہیں، اسلامی، اخلاقی، روحانی، معاشی، معاشرتی، سیاسی وغیرہ ہر شعبہ کے "حدود" میں رہتے ہوئے جو اختیار ہیں وہ آزادی ہے، اس سے باہر جس بات کا اختیار نہیں وہ آوارگی ہے۔









 "میرا جسم، میری مرضی" کا تصور اگرچہ جدید معاشروں میں انفرادی آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن اسلامی، اخلاقی، فطری اور روحانی اقدار کے تناظر میں یہ ایک گمراہ کن اور غیر متوازن نعرہ ہے۔ ذیل میں ہر زاویے سے اس کی غلطی کو واضح کیا گیا ہے:



---


۱۔ اسلامی نقطہ نظر: اللہ کی حاکمیت اور جسم کی امانت

- قرآنی حکم:

  اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:  

  "وَ لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ" (البقرہ: ۱۹۵)  

  "اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔" 

  یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں بلکہ امین Trusty ہے، اس لیے اُسے اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے کا حق نہیں۔


- حدیث کی روشنی میں:

  نبی ﷺ نے فرمایا:  

  "إِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقّاً" (صحیح بخاری: ۱۹۶۸)  

  "بے شک تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے۔"

  جسم کو نقصان پہنچانا (جیسے اسقاطِ حمل بلا شرعی وجہ، خودکشی، یا حرام کاموں میں استعمال) شرعاً ممنوع ہے۔


- فقہی اصول:

  "لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ" (سنن ابن ماجہ: ۲۳۴۰)  

  "نہ نقصان پہنچاؤ، نہ نقصان اٹھاؤ۔"  

  یہ اصول "میرا جسم، میری مرضی" کے نام پر دوسروں یا خود کو نقصان پہنچانے کی ممانعت کرتا ہے۔




---


۲۔ اخلاقی اعتبار سے: ذمہ داری کا فقدان

- معاشرتی اخلاقیات:

  اسلام میں انفرادی آزادی کو معاشرتی ذمہ داریوں سے الگ نہیں سمجھا جاتا۔ مثال کے طور پر، عورت کا اپنے جسم کے ساتھ کوئی فیصلہ (جیسے بےحیائی، زنا، یا غیرشرعی اسقاطِ حمل) صرف اُس تک محدود نہیں رہتا، بلکہ خاندان اور معاشرے کی اخلاقیات کو متاثر کرتا ہے۔


- انسانی وقار کا تصور:

  قرآن میں انسان کو "أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ" (التین: ۴) یعنی بہترین ساخت میں پیدا کیا گیا ہے۔ اِس وقار کو مجروح کرنا (جیسے جسم کو بےحیائی یا فحاشی کے لیے استعمال کرنا) اخلاقی گراوٹ ہے۔


---


۳۔ فطری اعتبار سے: فِطرت کی مخالفت

- فِطرت (طبیعت) کا تحفظ: 

  اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:  

  "فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا" (الروم: ۳۰)  

  "اللہ کی بنائی ہوئی فطرت جس پر اُس نے انسانوں کو پیدا کیا۔"

  فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کا مطلب ہے جسم کو اُس کے اصل مقصد (عبادت اور نیکی) کے لیے استعمال کرنا۔ "میرا جسم، میری مرضی" کا نعرہ فطرت کو نظرانداز کرکے نفسانی خواہشات کو فوقیت دیتا ہے۔


- جسمانی صحت کا تحفظ:

  طبی اعتبار سے بھی جسم کو نقصان پہنچانے والے فیصلے (جیسے غیرضروری اسقاطِ حمل، نشہ آور ادویات کا استعمال) فطرت کے خلاف ہیں، کیونکہ یہ انسانی صحت کو تباہ کرتے ہیں۔


---


۴۔ روحانی اعتبار سے: آخرت کا حساب

- روح اور جسم کا ربط:

  قرآن میں ہے:  

  "وَ إِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً... وَ لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ... وَ عَلَيْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ" (المؤمنون: ۲۱-۲۲)  

  "تمہارے لیے مویشیوں میں عبرت ہے... تمہارے لیے اُن میں فوائد ہیں... اور اُن پر اور کشتیوں پر تم سوار ہوتے ہو۔" 

  جسم بھی ایک "سواری" کی مانند ہے جو روح کو آخرت تک لے جانے کا ذریعہ ہے۔ اِسے غلط استعمال کرنا روحانی تباہی کا سبب بنتا ہے۔


- قیامت کے دن جوابدہی:

  اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:  

  "ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ" (التكاثر: ۸)  

  "پھر اُس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔"

  جسم بھی اللہ کی نعمت ہے، لہٰذا اِس کے استعمال کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا۔


---


۵۔ تاریخی و علمی تناظر:

- اسلامی تاریخ کی روشنی میں: 

  اسلامی تہذیب نے ہمیشہ عورت کے حقوق کا تحفظ کیا، لیکن یہ حقوق "بےلگام آزادی" نہیں بلکہ "شرعی ضابطوں" کے تحت تھے۔ مثلاً عورت کو مالکیت، تعلیم، اور تجارت کا حق حاصل ہے، لیکن یہ سب حدود اللہ کے دائرے میں ہیں۔


- مغربی تہذیب کا تناقض: 

  مغرب میں "میرا جسم، میری مرضی" کے نام پر اسقاطِ حمل، فحاشی، اور جنسی آزادی کو فروغ ملا، جس کے نتیجے میں خاندانی نظام تباہ ہوا اور نفسیاتی مسائل بڑھے۔ اسلام اِس کے برعکس "توازن" (Balance) کا درس دیتا ہے۔


---


٦۔ اس نعرہ کے غلط استعمالات:

- خود کو نقصان پہنچانا (Self-harm) یا نشے جیسی عادات کو جواز دیا جائے۔ نفسیات کے مطابق، ایسے رویے اکثر ذہنی پریشانیوں (جیسے ڈپریشن، بے چینی) کی علامت ہوتے ہیں اور انہیں "اختیار" کے بجائے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔  

- دوسروں کے حقوق کو نقصان پہنچایا جائے۔ مثال کے طور پر، کسی کو جسمانی طور پر تکلیف دینا یا غیررضامندی رابطہ قائم کرنا۔  

- سماجی ذمہ داریوں سے انکار کیا جائے، جیسے ویکسین لینے سے انکار جب یہ عوامی صحت کے لیے خطرہ ہو۔


---


نتیجہ:

"میرا جسم، میری مرضی" کا نعرہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر اسلامی، اخلاقی، فطری اور روحانی اقدار کے خلاف ہے:  

۱۔ یہ اللہ کی حاکمیت کو نظرانداز کرتا ہے۔  

۲۔ انسانی وقار اور معاشرتی اخلاقیات کو مجروح کرتا ہے۔  

۳۔ فطرتِ انسانی سے متصادم ہے۔  

۴۔ روحانی ذمہ داریوں کو فراموش کراتا ہے۔  


اسلام میں آزادی کا مطلب "احکامِ الٰہی کی پابندی" ہے، نہ کہ بےقید وبےلغام اختیار۔ لہٰذا، ایک مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم اور روح کو اللہ کی رضا کے تابع رکھے۔












کیا تم بلکل-آزاد ہو؟
القرآن:
پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا ہے کہ جب (کسی کی) جان گلے تک پہنچ جاتی ہے۔ اور اس وقت تم (حسرت سے اس کو) دیکھ رہے ہوتے ہو۔ اور تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں، مگر تمہیں نظر نہیں آتا۔ اگر تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے تو ایسا کیوں نہیں ہوتا۔ کہ تم اس جان کو واپس لے آؤ، اگر تم سچے ہو؟
[سورۃ نمبر 56 الواقعة، آیت نمبر 83-87]




اسلام میں آزادی کا تصور
http://raahedaleel.blogspot.com/2016/04/blog-post_1.html







کسی خاتون کا جب نکاح ہو رہا ہوتا ہے تو اس سے اس کے ”جسم کی مرضی“ہی کا سوال تو پوچھا جاتا ہے اور تین بار پوچھا جاتا ہے۔ یہ سوال نہ صرف اسلام کی ازدواجی حدود و قیود کا مرکزی نقطہ ہے بلکہ دوسرے آسمانی مذاہب (عیسائیت اور یہودیت وغیرہ) کی روایات و حدود بھی یہی ہیں۔ لیکن کسی دلھن سے بوقتِ نکاح ”میرا جسم، میری مرضی“ کا جو اقرار لیا جاتا ہے وہ ایک سیل (Cell) میں مقید ہوتا ہے۔ عورت اقرار کرتی ہے کہ اس کا جسم اس کی مرضی سے صرف ایک ہی مرد استعمال کر سکتا ہے، جو اس کو نظر آ رہا ہے اور وہ اسے خوب جانتی بھی ہے، جبکہ اس سلوگن کے وہ معانی جو آجکل مغرب میں آزادیء نسواں کے نام سے سامنے لائے جا رہے ہیں وہ کسی سیل (Cell) میں مقید نہیں۔








ہر سال 8 ؍ مارچ کو یوم خواتین پر حقوقِ نسواں کے بلند بانگ نعرے لگائے جاتے ہیں اور اب تو کچھ عرصہ سے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کالج ویونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کو اس مہم کے لئے تیار کیا جاتا اور مغربیت زدہ نعرے ان کے ہاتھوں میں تھما کر، عورت مارچ کے ذریعے معاشرے میں اپنا مذموم ایجنڈا پھیلایا جاتا ہے۔ اس سال 4 ؍ مارچ 2020ء کو ڈرامہ نگار خلیل الرحمٰن جاوید اور اباحیت وانارکیت کی پرچارک ماروی سرمد کے درمیان اس موضوع پر تلخ مباحثے نے سنگین صورتحال پیدا کردی جس کے بعد قومی سطح پر ایک مکالمہ شروع ہوگیا۔ اس کے بعد حقوقِ نسواں کے بہت سے داعی بھی اس نعرے کی حمایت میں خم ٹھونک کر سامنے آگئے۔’میرا جسم، میری مرضی ‘ میں چھپی من مانی اور مسلم معاشرے کی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں نے اس نعرے کو نئے مفاہیم پہنانے کی کوشش کی جس کا مختصر جائزہ ذیل میں لیا گیا ہے۔
یہ نعرہ لگانے والے نِت نئی تاویلوں سے سامعین کے سامنے اس نعرے کے ناروا پیغام کو اُلجھانے بلکہ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی اس نعرے کو غلط قرار دے چکا ہے اور حالیہ قومی مباحثہ بھی ٹی وی ٹاک شو میں اس نعرے کے لایعنی تکرار اور گفتگو میں بے جا مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ اس نعرے کو درست ثابت کرنے کے لئے کبھی کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد بچیوں سے بدکاری کی مذمت ہے، کبھی چھوٹی عمر اور اور کبھی جبری شادی کی مخالفت کو اس نعرے کا ہدف بتایا جاتا ہے، کبھی اس سے مراد حصولِ اولاد کے بارے میں عورت کی رائے کو نظر انداز کرنا یا اس کو ملازمت کی آزادی دینا بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ ٹی وی مباحثہ میں اس نعرے کی سب سے بڑی علم بردار ماروی سرمد نے خود ’ازدواجی تعلق میں اپنی مرضی، اور بچے پیدا کرنے میں اپنی مرضی‘ کا حوالہ دے کر ہی اپنے دعوے اور موقف کی بخوبی وضاحت کردی تھی ۔ اسی طرح اس کے ساتھ مارچ میں لگائے جانے والے نعروں: ’میں آوارہ بدچلن سہی‘... ’اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو خود لے لو‘... ’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘... ’میں طلاق یافتہ لیکن خوش ہوں‘... ’شادی نہیں، آزادی‘... ’شادی کے علاوہ اور بھی بہت کام ہیں‘... ’میری مرضی کی تسبیح روزانہ پڑھیں ‘اور ’ میرا جسم میدانِ جنگ نہیں‘ جیسے پلے کارڈ بھی اس نعرے کے غلط مقصد اور ناجائز مراد کو بخوبی واضح کردیتے ہیں۔
بعض لوگ یورپ میں اس نعرے کے پس منظر اور آغازکو اسقاطِ حمل کی حمایت میں جاری مغربی تحریک سے بھی جوڑتے ہیں۔ جب فیمنزم کے حامی مفکر جان سٹورٹ مل ’عورت کی محکومیت‘ نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’شادی غلامی کی واحد صورت ہے جو اب تک ہمارے قانون کے تحت جائز ہے۔ شادی کا بندھن قانونی بدکاری کے مترادف ہے۔‘‘ او ر عورت مارچ کے حالیہ نعروں کو ملا کر دیکھا جاتا ہے تو بلاشبہ ثابت ہوجاتا ہے کہ مغربی تحریکِ نسواں نکاح وبیاہ کی شدید مخالف ہے جو ابتداے آفرینش سے ہر انسانی معاشرے اور تمام الہامی ادیان کا اہم سماجی تقاضا رہا ہے۔
نعرہ’میرا جسم ، میری مرضی ‘کے کسی تاریخی وعلمی پس منظر سے قطع نظر، اس کے ظاہری الفاظ بہت سے غلط معانی کی نشاندہی کرتے ہیں، جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:
a جسم انسان کی ملکیت نہیں، اللّٰہ کی امانت ہے: اس نعرے میں ’جسم کو میرا‘ کہا گیا ہے، حالانکہ اگر جسم انسان کی ملکیت ہوتا تو خود کشی کرنا جائز ہوتا، اور انسان کے لئے اپنے جسمانی اعضا کی خرید وفروخت بھی جائز ہوتی، جسے ہر تہذیب ہی برا اور ناجائز قرار دیتی ہے۔ جسم تو اسی ربّ العزت کی ملکیت ہے جس نے رحم مادر سے انسان کو پیدا کرکے ، گہوارے اور کمزور بچپن کے بعد جوان کیا۔ اور ان تمام مراحل میں والدین اور عزیزوں کے دلوں میں اس سے محبت ڈالی اور ان کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ وہ امراض سے بچاؤ اور لباس کے ذریعے اس کی حفاظت کرکے اس کی تعلیم وتربیت کے فرائض انجام دیں۔ سو جسم تو انسان کا نہیں بلکہ سراسر اللّٰہ کریم کی عطا اور امانت ہے!!
b ہماری آزادی ’ہدایتِ نبوی‘ سے مشروط ہے!’میری مرضی‘ کے نظریہ کو مطلقاً درست نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ اپنے وجود اور خواہشات پر ایک مسلمان کلمہ پڑھ لینے کے بعد، اللّٰہ کی مرضی کو تسلیم کرنے کا عہد کرتا ہے۔ مسلمان کا مطلب ہی یہ ہے کہ جب اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی بات آئے تو وہ سمِعنا وأطعنا کہہ کر سر تسلیم خم کرے، اسی کو ’اسلام‘ کہتے ہیں۔ یہ بجا کہ اسلام نے بعض جگہ انسان کو مرضی کا اختیار دیا ہے، لیکن غير مشروط مرضی اور مادر پدر آزادی دراصل خالق سے بغاوت ہے جس کا کوئی مسلمان متحمل نہیں ہوسکتا۔ الغرض کلمہ طیبہ کے پہلے جز میں جب ربّ کریم کو اپنا معبود اور دوسرے جز میں اس کے رسول کی طاعت کا دم بھر کر مسلمانی کا اعتراف کیا گیا ہے تو پھر یہ پورا نعرہ ہی اس کلمہ طیبہ کی مخالفت کرتا ہے۔ اس نعرے کے مضمرات پر غور کریں تو پورا اسلام ہی اس کے نشانے پر ہے!
c نکاح سے بالاتر ، جنسی تعلقات:’میرا جسم میری مرضی‘ کا ظاہری مطلب دراصل نکاح سے بالاتر ہوکر مرضی کی بنا پر جنسی تعلقات کا فروغ ہے۔ عورت کے جسم سے ہمارے محاورے میں صنفی تعلق ہی مراد لیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر نکاح کی پابندی کی مذمت ، آوارگی اور بدچلنی کے فروغ کے نعرے کو بھی ملا لیا جائے تو اس کا واضح مطلب یہ بنتا ہے کہ جنسی تعلق کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ صرف انسانی مرضی ہونی چاہیے۔ جو مرضی اگر نکاح سے قبل موجود ہو تو وہ تعلق جائز اور اگر نکاح کے بعد بھی وقتی طور پر موجود نہ ہو تو وہ ’ازدواجی جبری زنا‘ کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نعرے کے پس منظر، ماحول، اور بنیاد کے پیش نظر اس سے وہی مفہوم لیا جائے گا جو مغربی تہذیب اور تحریکِ نسواں صنفی تعلق کو دیتی آئی ہے۔ اور مغرب کا پیش کردہ یہ صنفی تعلق نہ صرف عوامی طور پر ان نعروں کے ذریعے فروغ پاتا ہے بلکہ اس سے قبل قانونی طور پر اکثر ملکی قوانین میں نافذ بھی کیا جا چکا ہے، حتی کہ فیمنسٹ خواتین کے مطالبے کے تحت پاکستان میں بھی ’شادی کے بعد جبری زنا‘ کا قانونی تصور موجود ہے جس کو عوامی سطح پر فروغ دینے کے لئے ایسے الحادی نعرے عام کئے جاتے ہیں۔ حالانکہ ایک مسلمان کے نزدیک شادی سے قبل زنا بالرضا بڑی فحاشی اور بد ترین گناہ ہے، اور نکاح کے بعد شوہر کو جو استحقاق نبی کریمﷺ نے دیا ہے، یہ نعرہ شریعت کی ان واضح تعلیمات سے سیدھا سیدھا متصادم ہے۔ دوسری طرف اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بیوی سے حسن سلوک کی نبوی وصیت کے پیش نظر شوہر کو بیوی سے بے رحمانہ رویے سے گریز کرنا چاہیے اور بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ بے راہ روی سے رکنے میں اپنے شوہر کی مدد کرے۔
d قبل از بلوغت جنسی تعلق: کہا جاتا ہے کہ اس نعرے کے ذریعے نابالغ بچیوں سے جنسی زیادتی کی مذمت یا چھوٹی عمر میں حصولِ اولاد کی ممانعت کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر اس نعرے سے مراد صلاحیت کے بعد جنسی تعلق یا اولاد کے حصول کی مرضی ہے، تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ طبی طور پر اگر کوئی بچی یا خاتون واقعۃً اس کی متحمل نہیں تو اس سے یہ زیادتی بالکل نہیں ہونی چاہیے اور اگر کوئی عورت یا مرد عارضی طور پر اولاد سے گریز کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں کسی ایک پر انحصار کی بجائے زوجین کی مشترکہ رائے کا لحاظ ہونا چاہیے۔ اور اسلام نسلی صلاحیت کے دائمی خاتمے سے بہر حال منع کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان جائز مطالبوں کے لئے نعرے بھی ایسے موزوں ہونے چاہئیں جس میں ان معانی کی ایسی براہِ راست نشاندہی پائی جاتی ہو جو گمراہی اور خلطِ مبحث کا پیش خیمہ نہ بن سکے۔ موجودہ صورت میں یہ نعرہ اعتدال اور شوہر سے مشاورت کی بجائے اکیلی عورت کی من مانی کا عکاس ہے۔
e اسقاطِ حمل کی اجازت:جہاں تک اسقاطِ حمل کے لئے اس نعرے کے استعمال کی بات ہے، تو ابھی تک اسقاطِ حمل کے جواز پر مغرب میں بھی اتفاق نہیں ہوسکا اور یہ بیسیوں ممالک میں تاحال ایک جرم ہے اور اسلام کی رو سے ایسا کرنا تو سراسر زندہ انسان کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ فیمنسٹ موومنٹ کو اپنے نعروں میں متنازعہ اُمور کی بجائے مسلّمات سے پیش قدمی کرنی چاہیے۔ وگرنہ نظریاتی اور تحریکی شدت سے مسائل حل کی بجائے مزید اُلجھاؤ کی طرف ہی جاتے ہیں۔ ایک طرف عورت کا اختلافی حق ہے اور دوسری طرف ایک انسان کی زندگی سے کھیلنے کا مطالبہ ہے، جس کو کون ذی عقل ہوش مندی اور اعتدال قرار دے گا۔
بچیوں سے زیادتی کی مذمت :اگر اس نعرے سے مراد بچیوں سے بدکاری یا ریپRapeکا خاتمہ ہے، تو اپنے مطالبے کو نہ صرف سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیے بلکہ اس سلسلے میں اسلام کی دی گئی سزاؤں سے بھی اتفاق کرنا چاہیے۔ پہلی صورت میں اس کی سزا سفاک مجرم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور دوسری صورت میں اسے علانیہ سنگسار کرنا ہے۔ ان دونوں سزاؤں سے بڑی سزا مجرم کو دنیا کی کوئی تہذیب اور قانون نہیں دیتا اور اس کے بغیر ان جرائم کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ فیمنزم میں ’ریپ‘ کو تو جرم کہا جاتا ہے لیکن زنا کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ گویا کہ اصل خرابی فعل بد میں نہیں بلکہ عدم رضا میں ہے۔یہ نظریہ اسلامی شریعت کے سراسر منافی ہے کیونکہ اسلامی تہذیب کی اساس تحفظِ نسل پر ہے جو کہ ہر مہذب معاشرے کا تقاضا بھی ہے۔ اگر ان سنگین جرائم کا خاتمہ مقصود ہے تو سیدھے الفاظ میں اسلامی سزاؤں کو نافذ کرنے کا مطالبہ کریں، وگرنہ ایک اسلامی معاشرہ میں مغربی تہذیب کے نعرے اور استعارے دسیوں تاویلوں کے باوجود کب تک راہ پائیں گے، اور یہی عورت مارچ کی جدوجہد کا اصل محور ومدعا ہے کہ اپنے حقوق اسلام کی بجائے مغربی تہذیب کی بنا پر مانگے جائیں اور اسی بات پر ہی عالمی اداروں سے فنڈنگ اور عالمی میڈیا سے سپورٹ ملتی ہے....!! ٭٭










No comments:

Post a Comment