🔶 کیا فجر کی اذان کے وقت سحری کھاتے رہنا چاہئے؟
لوگوں میں ایک غلط فہمی عام ہے کہ اگر فجر کی اذان ہو جائے، اگر سامنے کھانا ہے، تو اذان کے بعد بھی کھا سکتے ہیں۔
اس تعلق سے ابوداؤد کی حدیث پیش کی جاتی ھے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ.
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی جب صبح کی اذان سنے اور (کھانے پینے کا) برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کئے بغیر نہ رکھے۔
[ابو داؤد#2350]
1️⃣ سوال یہ ہے کہ یہ کون سی فجر ہے:
کیونکہ
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فجر دو طرح کی ہیں، جو پہلی فجر ہے وہ نہ تو کھانا حرام کرتی ہے اور نہ ہی نماز کو جائز کرتی ہے، لیکن دوسری فجر کھانے کو حرام کرتی ہے اور نماز کو جائز۔
[السنن الكبري-للبيهقي:8006]
[سنن دارقطني:4، صحيح ابن خزيمة:356+1927، المستدرك الحاكم:699-1563، الصحيحة:693]
⁉️ اب یہ دو فجر کیا ہیں
جواب اس کا یہ ھے کہ
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں رمضان میں صبح دو اذانیں ہوتی تھیں ، ایک سحری کے لئے جب اذان بلالؓ دیتے تھے اور دوسری اذان صبح صادق نماز کے لئے ہوتی جب اذان ابن ام مکتوم ؓ دیتے تھے،
2️⃣ کیونکہ بخاری و مسلم کی روایات سے بتصریح ثابت ھے:
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:
”عن عبد الله بن عمر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم»“
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بے شک بلال رات میں اذان دیتے ہیں تو تم کھاو اور پیو جب تک ابن ام مکتوم ؓ اذان نہ دے ۔
[صحیح البخاری»کتاب الاذان»باب الاذان بعدالفجر،ج01،ص127»دارطوق النجاۃ]
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے ہرگز نہ روکے، کیونکہ وہ اذان یا ندا دیتے ہیں تاکہ تم میں قیام کرنے (تہجد پڑھنے) والا تہجد پڑھنا بند کر دے، اور سونے والا جاگ جائے، فجر کا وقت اس طرح نہیں ہے ۔ مسدد کہتے ہیں: راوی یحییٰ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں اکٹھی کر کے اور دونوں شہادت کی انگلیاں دراز کر کے اشارے سے سمجھایا یعنی اوپر کو چڑھنے والی روشنی صبح صادق نہیں بلکہ صبح کاذب ہے، یہاں تک اس طرح ہوجائے (یعنی روشنی لمبائی میں پھیل جائے) ۔
[سنن ابوداؤد » کتاب: روزوں کا بیان » باب: سحری کھانے کا وقت » حدیث نمبر: 2347]
ترجمہ:
ابن نمیر، عبیداللہ بن نافع، حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے دو مؤذن تھے حضرت بلال اور حضرت ابن ام مکتوم نا بینا تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بلال ؓ تو رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں لہذا تم کھاتے اور پیتے رہو یہاں تک کہ حضرت ابن ام مکتوم اذان دیں راوی نے کہا کہ ان دونوں کی اذان میں کوئی فرق نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ اذان دے کر اترتے تھے اور یہ چڑھتے تھے۔
[صحیح مسلم»کتاب:روزوں کا بیان»حدیث 2536-2538]
نیز مسلم شریف کے اس باب میں عبد اللہ بن مسعود رض کی حدیث نمبر 2541 بھی موجود ھے،جس میں تصریح ھے کہ بلال سحری کے لئے اذان دیتے تھے،
" لا يمنعن أحدا منكم أذان بلال من سحوره، فإنما ينادي ليوقظ نائمكم، ويرجع قائمكم “
ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان:"جب تم میں سے کوئی نداء سنے اوراس برتن اس کے ہاتھ میں ہو"اس میں یہ احتمال ہے کہ یہاں پہلی اذان کے متعلق بات کی گئی ہو،اوریہ احتمال اس لیے بیان کیاہے تاکہ یہ اس روایت کے موافق ہوجائے جوحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے نہ روکے کہ وہ اذان اس لیے دیتے ہیں کہ تم میں سے سونے والا جاگ جائے اور قیام کرنے والا واپس آجائے۔
[السنن الکبری للبیہقی»کتاب الصیام»ج04،ص369»دارالکتب العلمیۃ،بیروت حدیث 8019-8021]
رہی ابو داؤد شریف کی روایت جو پوسٹر میں دکھائی گئی ہے تو اس سے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی وہ اذان مراد ہیں جو صبح صادق ہونے سے پہلے رات میں اذان دیتے تھے ۔تو اب روایت کا مطلب یہ ہوگا کہ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان ہو اور تم سحری کھا رہے ہو تو سحری کھانا بند نہ کرو، بلکہ کھاتے رہو جب تک عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان نہ دے ۔پس اب بھی اگر کہیں کوئی صبح صادق سے پہلے اذان دیتا ہے اور سحری کرنے والے کو معلوم ہے کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی تو وہ کھانا پینا جاری رکھ سکتا ہے جب تک صبح صادق طلوع کا وقت ہو جائے جو اذان فجر کے ساتھ پہلے ھے ۔
لہذا عوام کے روزوں کو خراب نہ کیا جائے ۔۔۔
کیا کفارہ لازم ہوگا یا قضا کافی ہے؟
کفارہ رمضان کا روزہ رکھ کر عمدا توڑ دینے سے واجب ہوتا ہے، صورت مسؤولہ میں چونکہ وقت ختم ہونے کے بعد بھی کھانا کھانے کی وجہ سے روزہ معتبر ہی نہیں ہوا ؛ اس لئے یہاں یہ نہیں کہا جا ئے گا کہ روزہ رکھ کر عمدا توڑ دیا ؛ بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس نے روزہ رکھا ہی نہیں اور روزہ نہ رکھنا گناہ تو ہے ؛ لیکن ایک روزہ کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا ہی شرعا کافی ہوتا ہے، کفارہ واجب نہیں ہوتا؛ لہذا یہاں بھی ایک کے بدلے ایک روزہ رکھنا کافی ہوگا، کفارہ واجب نہ ہوگا۔
حوالہ
(أو لم ینو فی رمضان کلہ صوما ولا فطرا) مع الإمساک لشبہة خلاف زفر (أو أصبح غیر ناو للصوم فأکل عمدا) ولو بعد النیة قبل الزوال لشبہة خلاف الشافعی........ (أو تسحر أو أفطر یظن الیوم) أی الوقت الذی أکل فیہ (لیلا و) الحال أن (الفجر طالع والشمس لم تغرب) لف ونشر ویکفی الشک فی الأول....... (قضی) فی الصور کلہا (فقط)
[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/377 تا 382، ط: زکریا]
وکذا لا یدخل فیہ من أصبح یوم الشک مفطرا أو تسحر علی ظن اللیل أو أفطر کذلک ولذا ذکر فی البدائع الأصل المذکور ثم قال: وکذا کل من وجب علیہ الصوم لوجود سبب الوجوب والأہلیة ثم تعذر علیہ المضی بأن أفطر متعمدا أو أصبح یوم الشک مفطرا ثم تبین أنہ من رمضان أو تسحر علی ظن أن الفجرلم یطلع ثم تبین طلوعہ، فإنہ یجب علیہ الإمساک تشبہا اہ.
[الدر المختاروحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 408]
واللہ تعالیٰ اعلم
رمضان میں اذان فجر کے ختم ہونے تک کھاتے پیتے رہنا۔
سحری کا وقت صبح صادق تک ہوتا ہے،صبح صادق ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور فجر کا وقت داخل ہو جاتا ہے، صبح صادق ہوتے ہی روزے دار کو کھانا پینا بند کر دینا چاہیے فجر کی اذان کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، اصل مدار وقت پر ہے، اذان اختتام وقت کی علامت ہے ، اور عموماً رمضان المبارک میں سحری کا وقت ختم ہوتے ہی فجر کی اذان دے دی جاتی ہے، اس لیے اذان شروع ہوتے ہی روزے دار کے لیے کھاناپینے کاوقت ختم ہوجاتاہے، اذان کے دوران یا ختم ہونے تک کھانے پینے کو جاری رکھنا جائز نہیں ہے۔
لہذا جو آدمی رمضان المبارک میں فجروقت کے داخل ہونےکے باوجوداذان کے ختم ہونے تک کھاتاپیتارہے چاہے جان بوجھ کر ہویالاعلمی میں دونوں صورتوں میں ایسے شخص کا روزہ نہیں ہوگا،بلکہ اُسے بعد میں ایک روزے کی قضاکرنا لازم ہوگی۔ ایسے شخص پر دونوں صورتوں میں کفارہ نہیں ہے،اس لیے کہ کفارہ کا تعلق روزے رکھ لینے کے بعد بلاکسی عذر کے جان بوجھ کو توڑنے سے ہے، جب کہ یہاں ابھی روزہ شروع ہی نہیں کیا؛ اس لیے اس صورت میں کفارہ نہیں ہوگا، البتہ قضا ضروری ہے۔
فقط واللہ اعلم
اذان کے باوجود سحری کھانے کی اجازت والی حدیث کا مطلب
سحری کا وقت صبح صادق تک ہوتا ہے اور صبح صادق کے ساتھ سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، اس لیے فجر کا وقت داخل ہوجانے کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں باری تعالی کا فرمان ہے:
﴿ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَی الَّيْلِ ﴾
ترجمہ:
’’اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ واضح ہوجائے تم پر صبح کا سفید دھاگا کالے دھاگے (یعنی رات کی تاریکی) سے، پھر روزہ مکمل کرو رات تک۔‘‘
[سورۃ البقرة:187]
فجر کا وقت چوں کہ صبح صادق کے بعد ہوتا ہے، اور فجر کی اذان صبح صادق کے بعد دی جاتی ہے؛ لہذا اذان شروع ہونے کے بعد روزہ دار کے لیے کھانا پینا جائز نہیں ہے، لهذا اگر کسی نے اس دوران کچھ کھا پی لیا تو اس کا روزہ نہ ہوگا، بعد میں اس روزے کی قضا کرنی ہوگی۔
باقی آپ کا یہ کہنا کہ ’’ حدیث میں آتا ہے کہ جو تمہارے منہ میں ہو اسے نگل لیا کرو اگر سحر ختم ہو جائے‘‘ تو واضح رہے کہ ایسی کوئی حدیث نہیں ہے، البتہ ایک حدیث مبارک میں اذان ہوجانے کے باوجود کھانے پینے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن اس بارے میں واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رمضان المبارک میں دو اذانیں ہوا کرتی تھیں، پہلی اذان صبح صادق سے پہلی دی جاتی تھی تاکہ سونے والے جاگ جائیں، اور روزہ رکھنے والے سحری کرلیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجازت دینا اسی پہلی اذان کے بارے میں ہے اور اس کے بعد وقت داخل ہونے پر دوبارہ اذان دی جاتی تھی، آج کل چونکہ صبح صادق ہوجانے کے بعد ہی اذان دی جاتی ہے اس لیے کسی صورت اذان تک کھانے پینے کی گنجائش نہیں ہوگی۔
حوالہ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
" (فصل) :وأما بيان وقت الأذان والإقامة فوقتهما ما هو وقت الصلوات المكتوبات، حتى لو أذن قبل دخول الوقت لا يجزئه ويعيده إذا دخل الوقت في الصلوات كلها في قول أبي حنيفة ومحمد. وقد قال أبو يوسف: أخيرا لا بأس بأن يؤذن للفجر في النصف الأخير من الليل، وهو قول الشافعي. (واحتجا) بما روى سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه - رضي الله عنه - أن بلالا كان يؤذن بليل، وفي رواية قال: «لا يغرنكم أذان بلال عن السحور فإنه يؤذن بليل» ؛ ولأن وقت الفجر مشتبه، وفي مراعاته بعض الحرج بخلاف سائر الصلوات. ولأبي حنيفة ومحمد ما روى شداد مولى عياض بن عامر أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لبلال «لا تؤذن حتى يستبين لك الفجر هكذا» ، ومد يده عرضا؛ ولأن الأذان شرع للإعلام بدخول الوقت، والإعلام بالدخول قبل الدخول كذب، وكذا هو من باب الخيانة في الأمانة، والمؤذن مؤتمن على لسان رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ولهذا لم يجز في سائر الصلوات؛ ولأن الأذان قبل الفجر يؤدي إلى الضرر بالناس؛ لأن ذلك وقت نومهم خصوصا في حق من تهجد في النصف الأول من الليل، فربما يلتبس الأمر عليهم، وذلك مكروه.
وروي أن الحسن البصري كان إذا سمع من يؤذن قبل طلوع الفجر قال: علوج فراغ لا يصلون إلا في الوقت، لو أدركهم عمر لأدبهم، وبلال - رضي الله عنه - ما كان يؤذن بليل لصلاة الفجر بل لمعان أخر، لما روي عن ابن مسعود - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «لا يمنعنكم من السحور أذان بلال فإنه يؤذن بليل ليوقظ نائمكم ويرد قائمكم ويتسحر صائمكم، فعليكم بأذان ابن أم مكتوم» .
وقد كانت الصحابة - رضي الله عنهم - فرقتين: فرقة يتهجدون في النصف الأول من الليل، وفرقة في النصف الأخير، وكان الفاصل أذان بلال، والدليل على أن أذان بلال كان لهذه المعاني لا لصلاة الفجر أن ابن أم مكتوم كان يعيده ثانيا بعد طلوع الفجر، وما ذكر من المعنى غير سديد؛ لأن الفجر الصادق المستطير في الأفق مستبين لا اشتباه فيه."
[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع » كتاب الصلاة، فصل :بيان وقت الأذان والإقامة، 1/ 154 ، 155، ط: سعيد]
فیض الباری علی صحیح البخاری میں ہے:
"والخامس: أن الأذان الأول كان للفجر، أو لمعنى آخر؟ فذهب الشافعية أنه كان للوقت كالثاني على طريق الإعلام بعد الإعلام، وادعى الحنفية أنه كان للتسحير لا للوقت. وتمسك له الطحاوي بما روي عن ابن مسعود رضي الله عنه، وهو عند مسلم أيضا: «لا يمنعن أحدكم أذان بلال، أو قال: نداء بلال من سحوره، فإنه كان يؤذن ليرجع قائمكم، ويوقظ نائمكم» … إلخ فتبين منه أن أذان بلال إنما كان لأجل أن يرجع قائم الليل عن صلاته ويتسحر، ويستيقظ النائم فيتسحر، فهذا تصريح بكونه للتسحير لا للفجر. وأما للفجر، فكان ينادي به ابن أم مكتوم، ولذا كان ينتظر الفجر ويتوخاه."
[فیض الباری علی صحیح البخاری » كتاب الأذان، باب أذان الأعمى إذا كان له من يخبره، 2/ 219، ط: دارالكتب العلمية بيروت]
فقط واللہ اعلم
سحری کا انتہائی وقت»فجر۔۔۔صبح
قرآن مجید میں باری تعالی کا فرمان ہے:
﴿ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَی الَّيْلِ ﴾
ترجمہ:
’’اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ واضح ہوجائے تم پر صبح کا سفید دھاگا کالے دھاگے (یعنی رات کی تاریکی) سے، پھر روزہ مکمل کرو رات تک۔‘‘
[سورۃ البقرة:187]
حضرت عدی بن حاتم ؓ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: تاآنکہ کھل جائے تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے۔ تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دنوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا، اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے۔ جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی (صبح کاذب) اور دن کی سفیدی (صبح صادق) مراد ہے۔
[صحیح بخاری:1916، صحیح مسلم:1090، سنن ترمذی:2970، سنن ابوداؤد:2349، سنن نسائی:2169]
تشریح:
اس آیت (اور حدیث) میں رات کی تاریکی کو سیاہ خط اور صبح کی روشنی کو سفید خط کی مثال سے بتلا کر روزہ شروع ہونے اور کھانا پینا حرام ہوجانے کا صحیح وقت متعین فرمادیا، اور اس میں افراط وتفریط کے احتمالات کو ختم کرنے کے لئے ﴿حَتّٰى يَتَبَيَّنَ﴾ کا لفظ بڑھا دیا جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نہ تو وہمی مزاج لوگوں کی طرح صبح صادق سے کچھ پہلے ہی کھانے پینے وغیرہ کو حرام سمجھو اور نہ ایسی بےفکری اختیار کرو کہ صبح کی روشنی کا یقین ہوجانے کے باوجود کھاتے پیتے رہو بلکہ کھانے پینے کو حرام سمجھنا درست نہیں اور تیقن کے بعد کھانے پینے میں مشغول رہنا بھی حرام اور روزے کے لئے مفسد ہے اگرچہ ایک ہی منٹ کے لئے ہو۔ سحری کھانے میں وسعت اور گنجائش صرف اسی وقت تک ہے جب تک صبح صادق کا یقین نہ ہو بعض صحابہ کرام کے ایسے واقعات کو بعض کہنے والوں نے اس طرح بیان کیا کہ سحری کھاتے ہوئے صبح ہوگئی اور وہ بےپروائی سے کھاتے رہی یہ اسی پر مبنی تھا کہ صبح کا یقین نہیں ہوا تھا اس لئے کہنے والوں کی جلد بازی سے متاثر نہیں ہوئے۔
مسئلہ:
یہ سب کلام ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ایسے مقام پر ہیں جہاں سے صبح صادق کو بچشم خود دیکھ کر یقین حاصل کرسکتے ہیں اور مطلع بھی صاف ہے اور وہ صبح صادق کی ابتدائی روشنی کی پہچان بھی رکھتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ براہ راست افق کو دیکھ کر عمل کریں اور جہاں یہ صورت نہ ہو مثلا کھلا ہوا افق سامنے نہیں یا مطلع صاف نہیں یا اس کو صبح صادق کی پہچان نہیں اس لئے وہ دوسرے آثار وعلامات یا ریاضی حسابات کے ذریعہ وقت کا تعین کرتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کے لئے کچھ وقت ایسا آئے گا کہ صبح صادق کا ہوجانا مشکوک ہو یقینی نہ ہو، ایسے لوگوں کو مشکوک حالت میں کیا کرنا چاہئے، اس کے متعلق امام جصاص(م370ھ) نے احکام القرآن میں فرمایا کہ:
اس حالت میں اصل تو یہی ہے کہ کھانے پینے پر اقدام نہ کرے، لیکن مشکوک حالت میں تحقیق سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس وقت صبح ہوچکی تھی تو قضاء اس کے ذمہ لازم ہے، جیسے شروع رمضان میں چاند نظر نہ آیا اور لوگوں نے روزہ نہیں رکھا مگر بعد میں شہادت سے ٢٩ کا چاند ثابت ہوگیا تو جن لوگوں نے اس دن کو شعبان کی تیسویں تاریخ سمجھ کر روزہ نہیں رکھا تھا وہ گنہگار تو نہیں ہوئے مگر اس روزے کی قضاء ان پر باتفاق لازم ہے اسی طرح بادل کے دن میں غروب کے گمان پر روزہ افطار کرلیا بعد میں آفتاب نکل آیا تو یہ شخص گناہگار تو نہیں مگر قضاء اس پر واجب ہے۔
[تفسیر احکام القرآن للجصاص:1/ 70 عربی]
[احکام القرآن-اردو: ج1 / ص534]
امام جصاص کے اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص کی آنکھ دیر میں کھلی اور عام طور پر صبح کی اذان ہوئی تھی جس سے صبح ہونے کا یقین لازمی ہے وہ جان بوجھ کر اس وقت کچھ کھائے گا تو وہ گناہگار بھی ہوگا اور قضاء بھی اس پر لازم ہوگی اور مشکوک حالت میں کھائے گا تو گناہ ساقط ہوجائے گا مگر قضاء ساقط نہ ہوگی اور کسی نہ کسی درجہ میں کراہت بھی ہوگی۔
No comments:
Post a Comment