Monday 9 April 2012

O Ye who believe! (Ay Iman Walo)



يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقولوا رٰعِنا وَقولُوا انظُرنا وَاسمَعوا ۗ وَلِلكٰفِرينَ عَذابٌ أَليمٌ {2:104}
اے ایمان والو تم نہ کہو راعنا اور کہو انظرنا اور سنتے رہو اور کافروں کو عذاب ہے دردناک [۱۵۰]
O O Ye who believe! say not: Ra'ina, but say: Unzurna, and hearken; and unto the infidel shall be a torment afflictive.
یہودی آ کر آپ کی مجلس میں بیٹھتے اور حضرت کی باتیں سنتے۔ بعضی بات جو اچھی طرح نہ سنتے اس کو مکرر تحقیق کرنا چاہتے تو کہتے { راعنا } (یعنی ہماری طرف متوجہ ہو اور ہماری رعایت کرو) یہ کلمہ ان سے سن کر کبھی مسلمان بھی کہہ دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ یہ لفظ نہ کہو اگر کہنا ہو تو { اُنظرنا } کہو (اس کے معنی بھی یہی ہیں) اور ابتداء ہی سے متوجہ ہو کر سنتے رہو تو مکرر پوچھنا ہی نہ پڑے۔ یہود اس لفظ کو بدنیتی اور فریب سے کہتے تھے اس لفظ کو زبان دبا کر کہتے تو { رَاعیْنا } ہو جاتا (یعنی ہمارا چرواہا) اور یہود کی زبان میں راعنا احمق کو بھی کہتے ہیں۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا استَعينوا بِالصَّبرِ وَالصَّلوٰةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّٰبِرينَ {2:153}
اے مسلمانو مدد لو صبر اور نماز سے بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے [۲۱۸]
O O Ye who believe! seek help in patience and prayer; verily Allah is with the patient.
چونکہ ذکر اور شکر اور ترک کفران جو پہلے مذکور ہوئے اور تمام طاعات اور منہیات شرعیہ کو محیط ہیں جن کا انجام دینا دشوار امر ہے اس کی سہولت کے لئے یہ طریقہ بتلایا گیا کہ صبر اور صلوٰۃ سے مدد لو کہ ان کی مداومت سے تمام امور تم پر سہل کر دئیے جائیں گے اور اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جہاد میں محنت اٹھاؤ جس کا ذکر آگے آتا ہے کہ اس میں صبر اعلیٰ درجے کا ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُلوا مِن طَيِّبٰتِ ما رَزَقنٰكُم وَاشكُروا لِلَّهِ إِن كُنتُم إِيّاهُ تَعبُدونَ {2:172}
اے ایمان والو کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو روزی دی ہم نے تم کو اور شکر کرو اللہ کا اگر تم اسی کےبندے ہو [۲۴۲]
O O Ye who believe! eat of the clean things wherewith We have provided you, and return thanks unto Allah, if Him indeed ye are wont to worship.
اکل طیبات کا حکم اوپر گذر چکا تھا لیکن مشرکین چونکہ شیطان کی پیروی سے باز نہیں آتے اور احکام اپنی طرف سے بنا کر اللہ کے اوپر لگاتے ہیں اور اپنے رسوم باطلہ آبائی کو نہیں چھوڑتے اور حق بات سمجھنے کی ان میں گنجائش ہی نہیں تو اب ان سے اعراض فرما کر خاص مسلمانوں کو اکل طیبات کا حکم فرمایا گیا اور اپنا انعام ظاہر کر کے ادائے شکر کا امر کیا گیا اس میں اہل ایمان کے مقبول اور مطیع ہونے کی جانب اور مشرکین کے مردود و معتوب و نافرمان ہونے کی طرف اشارہ ہو گیا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ القِصاصُ فِى القَتلَى ۖ الحُرُّ بِالحُرِّ وَالعَبدُ بِالعَبدِ وَالأُنثىٰ بِالأُنثىٰ ۚ فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَيءٌ فَاتِّباعٌ بِالمَعروفِ وَأَداءٌ إِلَيهِ بِإِحسٰنٍ ۗ ذٰلِكَ تَخفيفٌ مِن رَبِّكُم وَرَحمَةٌ ۗ فَمَنِ اعتَدىٰ بَعدَ ذٰلِكَ فَلَهُ عَذابٌ أَليمٌ {2:178}
اے ایمان والو فرض ہوا تم پر [قصاص] برابری کرنا مقتولوں میں [۲۵۹] آزاد کے بدلے آزاد [۲۶۰] اور غلام کے بدلے غلام [۲۶۱] اور عورت کےبدلے عورت [۲۶۲] پھر جس کو معاف کیا جائے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی تو تابعداری کرنی چاہیئے موافق دستور کے اور ادا کرنا چاہئے اس کو خوبی کے ساتھ [۲۶۳] یہ آسانی ہوئی تمہارے رب کی طرف سے اور مہربانی [۲۶۴] پھر جو زیادتی کرے اس فیصلہ کے بعد تو اس کے لئے ہے عذاب دردناک [۲۶۵]
O O Ye who believe! prescribed unto you is retaliation for the slain; the free for the free, and a bondsman for a bondsman, and a woman for a woman; yet unto whomsoever is pardoned aught by his brother, then a serving with lenity and payments with kindness. That is an alleviation from your Lord and a mercy so whosoever shall transgress thereafter, for him there shall be a torment afflictive.
یعنی ہر غلام کے بدلے میں وہی غلام قتل کیا جائے گا جو قاتل ہے یہ نہ ہوگا کہ کسی شریف کے غلام کے قصاص میں قاتل کو جو کہ غلام ہے اس کو چھوڑ کر ان رذیل لوگوں میں سے کہ جن کے غلام نے قتل کیا ہے کسی آزاد کو قتل کیا جائے۔
یہ توضیح ہے اس برابری کی جس کا حکم ہوا مطلب یہ ہے کہ ہر مرد آزاد کے قصاص میں صرف وہی ایک آزاد مرد قتل کیا جا سکتا ہے جو اس کا قاتل ہے یہ نہیں کہ ایک کے عوض قاتل کے قبیلہ سے کیف ما اتفق دو کو یا زیادہ کو قتل کرنے لگو۔
یعنی اس تخفیف اور رحمت کے بعد بھی اگر کوئی خلاف ورزی کرے گا اور دستور جاہلیت پر چلے گا یا معافی اور دیت قبول کر لینے کے بعد قاتل کو قتل کرے گا تو اس کے لئے سخت عذاب ہے آخرت میں یا ابھی اس کو قتل کیا جائے گا۔
یعنی ہر ایک عورت کے قصاص میں صرف وہی عورت قتل کی جاسکتی ہے جس نے اس کو قتل کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ شریف النسب عورت کے قصاص میں رذیل عورت کو چھوڑ کر جو کہ قاتلہ ہے کسی مرد کو ان میں سے قتل کرنے لگیں ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ہر آزاد دوسرے آزاد کے اور ہر غلام دوسرے غلام کے برابر ہے سو حکم قصاص میں مساوات چاہیئے اور تعدی جو اہل کتاب اور جہال عرب کرتے تھے ممنوع ہے۔ {فائدہ} اب باقی رہا یہ امر کہ آزاد کسی غلام کو یا مرد کسی عورت کو قتل کر دے تو قصاص لیا جائے گا یا نہیں سو یہ آیہ کریمہ اس سے ساکت ہے اور ائمہ کا اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہؒ آیہ { اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ } اور حدیث { المسلمون تتکا فؤاد ماءھم } سے اس کے قائل ہیں کہ ہر دو صورت مذکورہ میں قصاص ہو گا اور جیسے قوی اور ضعیف صحیح اور مریض معذور اور غیر معذور وغیرہ حکم قصاص میں برابر ہیں ایسے ہی آزاد اور غلام مرد اور عورت کو امام ابو حنیفہؒ قصاص میں برابر فرماتے ہیں بشرطیکہ غلام مقتول قاتل کا غلام نہ ہو کہ وہ حکم قصاص سے ان کے نزدیک مستثنٰی ہے اور اگر کوئی مسلمان کافر ذمی کو قتل کر ڈالے تو اس پر بھی قصاص ہو گا ۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک البتہ مسلمان اور کافر حربی میں کوئی قصاص کا قائل نہیں۔
یہ اجازت کہ قتل عمد میں چاہو تو قصاص لو چاہو دیت لو چاہو معاف کر دو اللہ کی طرف سے سہولت اور مہربانی ہے قاتل اور وارثان مقتول دونوں پر جو پہلے لوگوں پر نہ ہوئی تھی کہ یہود پر خاص قصاص اور نصاریٰ پر دیت یا عفو مقرر تھا۔
زمانہ جاہلیت میں یہود اور اہل عرب نے یہ دستور کر رکھا تھا کہ شریف النسب لوگوں کے غلام کے بدلے رذیل لوگوں کے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک آزاد کے بدلے دو کو قصاص میں قتل کرتے تھے حق تعالیٰ نے اس آیہ میں حکم دیا کہ اے ایمان والو ہم نے تم پر مقتولین میں برابری اور مساوات کو فرض کر دیا قصاص کے معنی لغت میں برابری اور مساوات کے ہیں تم نے یہ دستور نکالا ہے کہ شریف اور رذیل میں امتیاز کرتے ہو یہ لغو ہے جانیں سب کی برابر ہیں غریب ہو یا امیر شریف ہو یا رذیل عالم و فاضل ہو یا جاہل جوان ہو یا بوڑھا اور بچہ تندرست ہو یا بیمار قریب المرگ صحیح الاعضا ہو یا اندھا لنگڑا ۔ فائدہ پہلی آیہ میں نیکی اور برّ کے اصول مذکور تھے جن پر مدار ہدایت و مغفرت تھا اور اس طرف بھی اشارہ تھا کہ اہل کتاب ان خوبیوں سے بےبہرہ ہیں اور بالتصریح فرما دیا تھا کہ دین میں سچا اور متقی بدون ان خوبیوں کے کوئی نہیں ہو سکتا تو اب اہل اسلام کے سوا نہ اہل کتاب اس کے مصداق بن سکتے ہیں نہ جہال عرب، اس لئے اب سب سے اعراض فرما کر خاص اہل ایمان کو مخاطب بنایا جاتا ہے اور نیکی و برّ کے مختلف فروع عبادات جانی و مالی اور معاملات مختلفہ ان کو بتلاتے ہیں کہ ان فروع کو وہی کر سکتا ہے جو اصول مذکورہ سابقہ پر پختہ ہو گویا اور لوگ اس خطاب کے قابل بھی نہ سمجھے گئے جو ان کو سخت عار کا باعث ہونا چاہئے اب جو احکام فروعی بالتفصیل بیان کئے جاتے ہیں ۔ درحقیقت تو ان سے اہل ایمان کی ہدایت اور تعلیم مقصود ہے مگر ضمنًا کہیں صاف کہیں تعریضًا دوسروں کی خرابی پر بھی متنبہ کیا جائے گا مثلًا { کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی } میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہود وغیرہ نے جو قصاص میں دستور کر لیا ہے یہ ان کا ایجاد بے بنیاد خلاف حکم الہٰی ہے جس سے ظاہر ہو گیا کہ اصول فرمودہ سابقہ میں سے نہ ان کو ایمان بالکتاب صحیح طور سے حاصل ہے نہ ایمان بالانبیاء نہ عہد خداوندی کو انہوں نے وفا کیا اور نہ سختی اور مصیبت کی حالت میں انہوں نے صبر سے کام لیا ورنہ اپنے کسی عزیز و قریب کے مقتول ہو نے پر اس قدر بےصبری اور نفسانیت نہ کرتے کہ فرمان خداوندی اور ارشاد انبیاء اور حکم کتاب سب کو چھوڑ کر بےگناہوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے۔
یعنی مقتول کے وارثوں میں سے اگر بعض بھی خون کو معاف کر دیں تو اب قاتل کو قصاص میں قتل تو نہیں کر سکتے بلکہ دیکھیں گے کہ ان وارثوں نے معاف کس طرح پر کیا ہے بلا معاوضہ مالی محض ثواب کی غرض سے معاف کیا ہے یا دیت شرعی اور بطور مصالحت کسی مقدار مال پر راضی ہو کر صرف قصاص سے دست برداری کی ہے اول صورت میں قاتل ان وارثوں کے مطالبہ سے بالکل سبکدوش ہو جائے گا اور دوسری صورت میں قاتل کو چاہیئے کہ وہ معاوضہ اچھی طرح ممونیت اور خوشدلی کے ساتھ ادا کرے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ {2:183}
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر [۲۷۲] تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ [۲۷۳]
O ye who believe! prescribed unto you is fasting even as it was prescribed unto those before you, that haply ye may fear God.
یعنی روزہ سے نفس کو اس کی مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑے گی تو پھر اس کو ان مرغوبات سے جو شرعًا حرام ہیں روک سکو گے اور روزہ سے نفس کی قوت و شہوت میں ضعف آئے گا تو اب تم متقی ہو جاؤ گے بڑی حکمت روزہ میں یہی ہے کہ نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے احکام جو نفس کو بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کا کرنا سہل ہو جائے اور متقی بن جاؤ ، جاننا چاہیئے کہ یہود و نصاریٰ پر بھی رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے مگر انہوں نے اپنی خواہشات کے موافق ان میں اپنی رائے سے تغیر و تبدل کیا تو { لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ } میں ان پر تعریض ہے معنی یہ ہونگے کہ اے مسلمانو تم نافرمانی سے بچو یعنی مثل یہود و نصاریٰ کے اس حکم میں خلل نہ ڈالو۔
یہ حکم روزہ کے متعلق ہے جو ارکان اسلام میں داخل ہے اور نفس کے بندوں ہوا پرستوں کو نہایت ہی شاق ہوتا ہے اس لئے تاکید اور اہتمام کے الفاظ سے بیان کیا گیا اور یہ حکم حضرت آدمؑ کے زمانہ سے اب تک برابر جاری ہے گو تعین ایام میں ہو اور اصول مذکورہ سابقہ میں جو صبر کا حکم تھا روزہ اس کا ایک بڑا رکن ہے حدیث میں روزہ کو نصف صبر فرمایا ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً وَلا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ ۚ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ {2:208}
اے ایمان والو داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے [۲۲۸] اور مت چلو قدموں پر شیطان کے بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے [۳۲۹]
O Ye who believe! enter into Islam wholly, and follow not the foot steps of the Satan, verily he is unto you an enemy manifest.
کہ اپنے وسوسہ سے بےاصل چیزوں کو تمہارے دلنشیں کر دیتا ہے اور دین میں بدعات کو شامل کرا کر تمہارے دین کو خراب کرتا ہے اور تم اس کو پسند کرتے ہو۔
پہلی آیت میں مومن مخلص کی مدح فرمائی تھی جس سے نفاق کا ابطال منظور تھا اب فرماتے ہیں کہ اسلام کو پورا پورا قبول کرو یعنی ظاہر اور باطن اور عقیدہ اور عمل میں صرف احکام اسلام کا اتباع کرو یہ نہ ہو کہ اپنی عقل یا کسی دوسرے کے کہنے سے کوئی حکم تسلیم کر لو یا کوئی عمل کرنے لگو سو اس سے بدعت کا قلع قمع مقصود ہے کیونکہ بدعت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی عقیدہ یا کسی عمل کو کسی وجہ سے مستحسن سمجھ کر اپنی طرف سے دین میں شمار کر لیا جائے مثلًا نماز اور روزہ جو کہ افضل عبادات ہیں اگر بدون حکم شریعت کوئی اپنی طرف سے مقرر کرنے لگے جیسے عید کے دن عیدگاہ میں نوافل کو پڑھنا یا ہزارہ روزہ رکھنا یہ بدعت ہو گا خلاصہ ان آیات کا یہ ہوا کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لاؤ اور بدعات سے بچتے رہو چند حضرات یہود سے مشرف با اسلام ہو ئے مگر احکام اسلام کے ساتھ احکام تورات کی بھی رعایت کرنی چاہتے تھے مثلًا ہفتہ کے دن کو معظم سمجھنا اور اونٹ کے گوشت اور دودھ کو حرام ماننا اور تورات کی تلاوت کرنا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے بدعت کا انسداد کامل فرمایا گیا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِمّا رَزَقنٰكُم مِن قَبلِ أَن يَأتِىَ يَومٌ لا بَيعٌ فيهِ وَلا خُلَّةٌ وَلا شَفٰعَةٌ ۗ وَالكٰفِرونَ هُمُ الظّٰلِمونَ {2:254}
اے ایمان والو خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تم کو روزی دی پہلے اس دن کے آنے سے کہ جس میں نہ خرید و فرخت ہے اور نہ آشنائی اور نہ سفارش [۴۱۴] اور جو کافر ہیں وہی ہیں ظالم [۴۱۵]
O O Ye who believe: expend of that which We have provided you ere the Day cometh wherein there will be neither bargain nor friendship nor intercession. And the infidels - they are the wrong-doers.
اس سورت میں عبادات و معاملات کے متعلق احکام کثیرہ بیان فرمائے جن سب کی تعمیل نفس کو ناگوار اور بھاری ہے اور تمام اعمال میں زیادہ دشوار انسان کو جان اور مال کا خرچ کرنا ہوتا ہے اور احکام الہٰی اکثر جو دیکھے جاتے ہیں یا جان کے متعلق ہیں یا مال کے اور گناہ میں بندہ کو جان یا مال کی محبت اور رعایت ہی اکثر مبتلا کرتی ہے گویا ان دونوں کی محبت گناہوں کی جڑ اور اس سے نجات جملہ طاعات کی سہولت کا منشاء ہے اس لئے ان احکامات کو بیان فرما کر قتال اور انفاق کو بیان فرمانا مناسب ہوا { وَقَاتِلُوْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ } الخ اول کا بیان تھا تو { مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ } دوسرے کا ذکر ہے اس کے بعد قصہ طالوت سے اول کی تاکید ہوئی تو اب { اَنْفِقُوْ مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ } الخ سے دوسرے کی تاکید منظور ہے اور چونکہ انفاق مال پر بہت سے امور عبادات و معاملات کے موقوف ہیں تو اس کے بیان میں زیادہ تفصیل اور تاکید سے کام لیا چنانچہ اب جو رکوع آتے ہیں ان میں اکثروں میں امر ثانی یعنی انفاق مال کا ذکر ہے۔ خلاصہ معنی یہ ہوا کہ عمل کا وقت ابھی ہے آخرت میں تو نہ عمل بکتے ہیں نہ کوئی آشنائی سے دیتا ہے نہ کوئی سفارش سے چھڑا سکتا ہے جب تک پکڑنے والا نہ چھوڑے۔
یعنی کفار نے اپنے اوپر ظلم کیا جس کی شامت سے ایسے ہوگئے کہ آخرت میں نہ کسی کی دوستی سے ان کو نفع ہو سکے اور نہ سفارش سے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُبطِلوا صَدَقٰتِكُم بِالمَنِّ وَالأَذىٰ كَالَّذى يُنفِقُ مالَهُ رِئاءَ النّاسِ وَلا يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفوانٍ عَلَيهِ تُرابٌ فَأَصابَهُ وابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلدًا ۖ لا يَقدِرونَ عَلىٰ شَيءٍ مِمّا كَسَبوا ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الكٰفِرينَ {2:264}
اے ایمان والو مت ضائع کرو اپنی خیرات احسان رکھ کر اور ایذا دے کر اس شخص کی طرح جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کے دکھانے کو اور یقین نہیں رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر [۴۳۱] سو اس کی مثال ایسی ہے جیسے صاف پتھر کہ اس پر پڑی ہے کچھ مٹی پھر برسا اس پر زور کا مینہ تو کر چھوڑا اس کو بالکل صاف کچھ ہاتھ نہیں لگتا ایسے لوگوں کے ثواب اس چیز کا جو انہوں نےکمایا اور اللہ نہیں دکھاتا سیدھی راہ کافروں کو [۴۳۲]
O O Ye who believe! make not your alms void by laying an obligation and by hurt, like unto him who expendeth his substance to be seen of men, and believeth not in Allah and the Last Day. The likeness of him is as the likeness of a smooth stone whereon is dust; a heavy rain falleth upon it, and leaveth it bare. They shall not have power over aught of that which they have earned and Allah shall not guide the disbelieving people.
یعنی صدقہ دے کر محتاج کو ستانے اور اس پر احسان رکھنے سے صدقہ کا ثواب جاتا رہتا ہے یا اوروں کو دکھا کر اس لئے صدقہ دیتا ہے کہ لوگ سخی جانیں اس طرح کی بھی خیرات کا ثواب کچھ نہیں ہوتا باقی یہ فرمانا کہ وہ یقین نہیں رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ ابطال صدقہ کے لئے قید و شرط نہیں ہیں کیونکہ صدقہ تو صرف ریا سے ہی باطل ہو سکتا ہے اگرچہ خرچ کرنے والا مومن ہی کیوں نہ ہو مگر اس قید کو صرف اس نفع کی غرض سے بڑھایا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ ریاکاری مومن کی شان سے بعید ہے بلکہ یہ امر منفافقین کے مناسب حال ہے۔
اوپر مثال بیان فرمائی تھی خیرات کی کہ ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا اور اس سے سات سو دانے پیدا ہو گئے اب فرماتے ہیں کہ نیت شرط ہے اگر کسی نے ریا اور دکھاوے کی نیت سے صدقہ کیا تو اس کی مثال ایسی سمجھو کہ کسی نے دانہ بویا ایسے پتھر پر کہ جس پر تھوڑی سی مٹی نظر آتی تھی جب مینہ برسا تو بالکل صاف رہ گیا اب اس پر دانہ کیا اگے گا ایسے ہی صدقات میں ریاکاروں کو کیا ثواب ملے گا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ ۖ وَلا تَيَمَّمُوا الخَبيثَ مِنهُ تُنفِقونَ وَلَستُم بِـٔاخِذيهِ إِلّا أَن تُغمِضوا فيهِ ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ حَميدٌ {2:267}
اے ایمان والو خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے اور اس چیز میں سے کہ جو ہم نے پیدا کیا تمہارے واسطے زمین سے اور قصد نہ کرو گندی چیز کا اس میں سے کہ اس کو خرچ کرو حالانکہ تم اس کو کبھی نہ لو گے مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ اور جان رکھو کہ اللہ بے پروا ہے خوبیوں والا [۴۳۵]
O O Ye who believe expend out of the good things which! ye have earned and out of that which We have brought forth for you from the earth, and seek not the vile thereof to expend, where as ye yourselves would not accept such except ye connived thereat. And know that Allah Self-Sufficient, Praiseworthy.
یعنی عنداللہ صدقہ کے مقبول ہونے کی یہ بھی شرط ہے کہ مال حلال کمائی کا ہو۔ حرام کا مال اور شبہ کا مال نہ ہو اور اچھی سے اچھی چیز اللہ کی راہ میں دے بری چیز خیرات میں نہ لگائے کہ اگر کوئی ایسی ویسی چیز دے تو جی نہ چاہے لینے کو مگر شرما شرمائی ۔ پر خوشی سے ہرگز نہ لے اور جان لو کہ اللہ بےپرواہ ہے تمہارا محتاج نہیں اور خوبیوں والا ہے اگر بہتر سے بہتر چیز دل کے شوق اور محبت سے دے تو پسند فرماتا ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبوٰا۟ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ {2:278}
اے ایمان والو ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سود اگر تم کو یقین ہے اللہ کے فرمانے کا [۴۴۹]
O O Ye who believe: fear Allah and leave that which remainoth of usury if ye are believers.
یعنی ممانعت سے پہلے جو سود لے چکے سو لے چکے لیکن ممانعت کے بعد جو چڑھا اس کو ہرگز نہ مانگو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكتُبوهُ ۚ وَليَكتُب بَينَكُم كاتِبٌ بِالعَدلِ ۚ وَلا يَأبَ كاتِبٌ أَن يَكتُبَ كَما عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَليَكتُب وَليُملِلِ الَّذى عَلَيهِ الحَقُّ وَليَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلا يَبخَس مِنهُ شَيـًٔا ۚ فَإِن كانَ الَّذى عَلَيهِ الحَقُّ سَفيهًا أَو ضَعيفًا أَو لا يَستَطيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَليُملِل وَلِيُّهُ بِالعَدلِ ۚ وَاستَشهِدوا شَهيدَينِ مِن رِجالِكُم ۖ فَإِن لَم يَكونا رَجُلَينِ فَرَجُلٌ وَامرَأَتانِ مِمَّن تَرضَونَ مِنَ الشُّهَداءِ أَن تَضِلَّ إِحدىٰهُما فَتُذَكِّرَ إِحدىٰهُمَا الأُخرىٰ ۚ وَلا يَأبَ الشُّهَداءُ إِذا ما دُعوا ۚ وَلا تَسـَٔموا أَن تَكتُبوهُ صَغيرًا أَو كَبيرًا إِلىٰ أَجَلِهِ ۚ ذٰلِكُم أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقوَمُ لِلشَّهٰدَةِ وَأَدنىٰ أَلّا تَرتابوا ۖ إِلّا أَن تَكونَ تِجٰرَةً حاضِرَةً تُديرونَها بَينَكُم فَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَلّا تَكتُبوها ۗ وَأَشهِدوا إِذا تَبايَعتُم ۚ وَلا يُضارَّ كاتِبٌ وَلا شَهيدٌ ۚ وَإِن تَفعَلوا فَإِنَّهُ فُسوقٌ بِكُم ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {2:282}
اے ایمان والو جب تم آپس میں معاملہ کرو ادھار کا کسی وقت مقرر تک تو اس کو لکھ لیا کرو اور چاہئے کہ لکھ دے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف سے اور انکار نہ کرے لکھنے والا اس سے کہ لکھ دیوے جیسا سکھایا اس کو اللہ نے سو اس کو چاہئے کہ لکھ دے اور بتلاتا جاوے وہ شخص کہ جس پر قرض ہے اور ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے اور کم نہ کرے اس میں سےکچھ [۴۵۳] پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے عقل ہے یا ضعیف ہے یا آپ نہیں بتلا سکتا تو بتلاوے کارگذار اس کا انصاف سے [۴۵۴] اور گواہ کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے کہ جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلاوے اس کو وہ دوسری [۴۵۵] اور انکار نہ کریں گواہ جس وقت بلائے جاویں اور کاہلی نہ کرو اس کے لکھنے سے چھوٹا ہو معاملہ یا بڑا اس کی میعاد تک اس میں پورا انصاف ہے اللہ کے نزدیک اور بہت درست رکھنے والا ہے گواہی کو اور نزدیک ہے کہ شبہ میں نہ پڑو [۴۵۶] مگر یہ کہ سودا ہو ہاتھوں ہاتھ لیتے دیتے ہو اس کو آپس میں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اگر اس کو نہ لکھو اور گواہ کر لیا کرو جب تم سودا کرو اور نقصان نہ کرےلکھنے والا اور نہ گواہ [۴۵۷] اور اگر ایسا کرو تو یہ گناہ کی بات ہے تمہارے اندر اور ڈرتے رہو اللہ سے اور اللہ تم کو سکھلاتا ہے اور اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے
O ye who believe! when ye deal, one with anot her, in lending for a term named, write it down, and let a scribe write it down justly between you, and let not the scribe refuse to write according as Allah hath taught him. Let him write them, and let him who oweth dictate, and let him fear Allah, his Lord, and diminish not aught thereof. But if he who oweth be witless or infirm or unable himself to dictate, then let his guardian dictate justly. And call to witness two witnesses of your men, but if both be not men, then a man and two women of those ye agree upon as witnesses, so that if one of the twain err, the one thereof shall remind the other: and let not the witnesses refuse When they are called on And be not Weary of writing it down, be it small or big, with the term thereof. This is the most equitable in the sight of Allah and the most confirmatory of testimony and nearest that ye may not doubt, except when it be a ready merchandise that ye circulate between you, for then there Shall be no blame on you if ye write it not down. And call witnesses when ye bargain With one anot her; and let not the scribe eome to harm nor the witness; and if ye do, verily it will be wickedness in you. Fear Allah; and Allah teacheth you Knower; and Allah is of everything Knower.
یعنی گواہ کو جس وقت گواہ بنانےکے لئے یا ادائے شہادت کے لئے بلائیں تو اس کو کنارہ یا انکار نہ کرنا چاہیئے اور کاہلی اور سستی نہ کرو اس کے لکھنے لکھانے میں معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا کہ انصاف پورا اس میں ہے اور گواہی پر بھی کامل اعتماد اسی لکھ لینے میں ہے اور بھول چوک اور کسی کے حق ضائع ہونے سے اطمینان بھی اس میں ہے۔
یعنی جو دیندار اور مدیون ہے وہ اگر بےعقل بھولا یا سست اور ضعیف ہے مثلًا بچہ ہے یا بہت بوڑھا ہے کہ معاملہ کو سمجھنے کی سمجھ ہی نہیں ہے یا معاملہ کو کاتب کو بتلا نہیں سکتا تو ایسی صورتوں میں مدیون کے مختار اور وارث اور کارگذار کو چاہیئے کہ معاملہ کو انصاف سے بلا کم و کاست لکھوا دے۔
اور تم کو چاہیئے کہ اس معاملہ پر کم سے کم دو گواہ مردوں میں سے یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائی جائیں اور گواہ قابل پسند یعنی لائق اعتبار اور اعتماد ہوں۔
پہلے صدقہ خیرات کی فضیلت اور اس کے احکام بیان فرمائے اس کے بعد ربٰو اور اس کی حرمت اور برائی مذکور ہوئی اب اس معاملہ کا ذکر ہے جس میں قرض ہو اور آئندہ کسی مدت کا وعدہ ہو اس کی نسبت یہ معلوم ہوا کہ ایسا معاملہ جائز ہے مگر چونکہ معاملہ آئندہ مدت کے لئے ہوا ہے بھول چوک خلاف نزاع کا احتمال ہے اس لئے یہ ضرور ہے کہ اس کا تعین اور اہتمام ایسا کیا جائے کہ آئندہ کوئی قضیہ اور خلاف نہ ہو اس کی صورت یہی ہے کہ ایک کاغذ لکھو جس میں مدت کا تقرر ہو اور دونوں معاملہ والوں کا نام اور معاملہ کی تفصیل سب باتیں صاف صاف کھول کر لکھی جاویں کاتب کو چاہیئے بلا انکار جس طرح شرع کا حکم ہے اس کے موافق انصاف میں کوتاہی نہ کرے اور چاہئے کہ مدیون اپنے ہاتھ سےلکھے یا کاتب کو اپنی زبان سے بتلائے اور دوسرے کے حق میں ذرا نقصان نہ ڈالے۔
یعنی اگر سوداگری کا معاملہ دست بدست ہو جنس کے بدلے جنس یا نقد کی طرح معاملہ ہو مگر ادھار کا قصہ نہ ہو تو اب نہ لکھنے میں گناہ نہیں مگر گواہ بنا لینا اس وقت بھی چاہیئے کہ اس معاملہ کے متعلق کوئی نزاع آئندہ پیش آئے تو کام آئے اور لکھنے والا اور گواہ نقصان نہ کرے یعنی مدعی اور مدعا علیہ میں سے کسی کا بھی نقصان نہ کرے بلکہ جو حق واجبی ہو وہ ہی ادا کریں۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تُطيعوا فَريقًا مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتٰبَ يَرُدّوكُم بَعدَ إيمٰنِكُم كٰفِرينَ {3:100}
اے ایمان والو اگر تم کہا مانو گے بعضے اہل کتاب کا تو پھر کر دیں گے وہ تم کو ایمان لائے پیچھے کافر [۱۵۰]
O Ye who believe! were ye to obey any party amongst those that have been vouchsafed the Book, they would, after your having believed, render you Infidels.
پہلے اہل کتاب کو ڈانٹا گیا تھا کہ جان بوجھ کر کیوں لوگوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہو ۔یہاں مسلمانوں کو نصیحت کی گئ کہ تم ان مفسدین کے بھرے میں نہ آنا، اگر ان کے اشاروں پر چلو گے تو اندیشہ ہے کہ آہستہ آہستہ نور ایمان سے نکل کر کفر کے تاریک گڑھے میں دوبارہ نہ جا گرو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَلا تَموتُنَّ إِلّا وَأَنتُم مُسلِمونَ {3:102}
اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے جیسا چاہیئے اس سے ڈرنا اور نہ مریو مگر مسلمان [۱۵۲]
O Ye who believe! fear Allah with fear due to Him, and die not except ye be Muslims.
یعنی ہر مسلمان کے دل میں پورا ڈر خدا کا ہونا چاہیئے کہ اپنے مقدور بھر پرہیزگاری و تقویٰ کی راہ سے نہ ہٹے اور ہمیشہ اس سے استقامت کا طالب رہے۔ شیاطین چاہتے ہیں کہ تمہارا قدم اسلام کے راستہ سے ڈگمگا دیں۔ تم کو چاہئے کہ انہیں مایوس کر دو۔ اور مرتے دم تک کوئی حرکت مسلمانی کے خلاف نہ کرو۔ تمہارا جینا اور مرنا خالص اسلام پر ہونا چاہئے۔


وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا ۚ وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخوٰنًا وَكُنتُم عَلىٰ شَفا حُفرَةٍ مِنَ النّارِ فَأَنقَذَكُم مِنها ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم ءايٰتِهِ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ {3:103}
اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو [۱۵۳] اور یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر جب کہ تھے تم آپس میں دشمن پھر الفت دی تمہارے دلوں میں اب ہو گئے اس کے فضل سے بھائی [۱۵۴] اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے پھر تم کو اس سے نجات دی [۱۵۵] اسی طرح کھولتا ہے اللہ تم پر آیتیں تاکہ تم راہ پاؤ [۱۵۶]
And hold ye fast, all of you, to the cord of Allah, so and separate not. And remember Allah's favour unto you in that ye were enemies and He joined your hearts together, so ye became by His favour brethren; and ye were on the brink of an abyss of the Fire and He rescued you therefrom. In this wise Allah expoundeth unto you His revelations that haply ye may remain guided.
یعنی صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر خدا نے نبی کریم ﷺ کی برکات سے تم کو بھائی بھائی بنا دیا۔ جس سے تمہارا دین اور دنیا دونوں درست ہوئے۔ اور ایسی ساکھ قائم ہو گئ جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوتے ہیں یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسر نہ آ سکتی تھی۔
یعنی سب مل کر قرآن کو مضبوط تھامے رہو جو خدا کی مضبوط رسی ہے یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی ہاں چھوٹ سکتی ہے۔ اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شرانگیزی میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔ اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل اختلال ہو جائے گی۔ قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرتی ہے۔ لیکن تمسک بالقرآن کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو اپنی آراء و ہواء کا تختہ مشق بنا لیا جائے بلکہ قرآن کریم کا مطلب وہ ہی معتبر ہوگا جو احادیث صحیحہ اور سلف صالحین کی متفقہ تصریحات کے خلاف نہ ہو۔
یعنی کفرو عصیان کی بدولت دوزخ کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے کہ موت آئی اور اس میں گرے۔ خدا نے تمہارا ہاتھ پکڑ کر اس سے بچایا اور نبی کریم ﷺ کے ذریعے سے ایمان و ایقان کی روشنی سینوں میں ڈالی۔ حق تعالیٰ کے ان عظیم الشان دینی و دنیوی احسانات کو یاد رکھو گے تو کبھی گمراہی کی طرف واپس نہ جاؤ گے۔
یعنی یہ باتیں اس قدر کھول کھول کر سنانے سے مقصود یہ ہے کہ ہمیشہ ٹھیک راستہ پر چلتے رہو۔ ایسی مہلک و خطرناک غلطی کا پھر اعادہ نہ کرو اور کسی شیطان کے اغواء سے استقامت کی راہ نہ چھوڑو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَةً مِن دونِكُم لا يَألونَكُم خَبالًا وَدّوا ما عَنِتُّم قَد بَدَتِ البَغضاءُ مِن أَفوٰهِهِم وَما تُخفى صُدورُهُم أَكبَرُ ۚ قَد بَيَّنّا لَكُمُ الءايٰتِ ۖ إِن كُنتُم تَعقِلونَ {3:118}
اے ایمان والو نہ بناؤ بھیدی کسی کو اپنوں کےسوا وہ کمی نہیں کرتےتمہاری خرابی میں انکی خوشی ہےتم جس قدر تکلیف میں رہو نکلی پڑتی ہےدشمنی انکی زبان سےاور جو کچھ مخفی ہے انکے جی میں وہ اس سے بہت زیادہ ہے ہم نےبتا دیےتم کو پتے اگر تم کو عقل ہے [۱۷۶]
O Ye who believe! take not for an intimate anyone besides yourselves; they shall not be remiss in doing you mischief. Fain would they that which distresseth you. Surely their malice hath shewn itself by their mouths, and that which their breasts conceal is greater still. Surely We have expounded unto you the signs, if ye will but reflect.
یہ آیتیں بعض کہتے ہیں یہود کے متعلق نازل ہوئیں کیونکہ بعض مسلمان جوار (ہمسائیگی) حلف (دوستانہ معاہدہ) وغیرہ کی بناء پر جو تعلقات قبل از اسلام ان سے رکھتے چلے آ رہے تھے، بعد از اسلام بھی بدستور ان پر قائم رہے اور دوستی پر اعتماد کر کے ان سے مسلمانوں کے بعض رازدارانہ مشوروں کے اخفاء کا بھی اہتمام نہ کیا اور بعض کے نزدیک یہ آیتیں منفافقین کے حق میں نازل ہوئیں، کیونکہ عام طور پر لوگ ظاہر میں مسلمان سمجھ کر ان سے پوری احتیاط نہ کرتے تھے جس سے سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا حق تعالیٰ نے یہاں صاف صاف آگاہ کر دیا کہ مسلمان اپنے اسلامی بھائیوں کے سوا کسی کو بھیدی اور رازدار نہ بنائیں کیونکہ یہود ہوں یا نصاریٰ منافقین ہوں یا مشرکین، ان میں کوئی جماعت تمہاری حقیقی خیر خواہ نہیں ۔ بلکہ ہمیشہ یہ لوگ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ تمہیں پاگل بنا کر نقصان پہنچائیں اور دینی و دنیوی خرابیوں میں مبتلا کریں۔ ان کی خواہش اسی میں ہے کہ تم تکلیف میں رہو اور کسی نہ کسی تدبیر سے تم کو دینی یا دنیوی ضرر پہنچ جائے جو دشمنی اور بغض ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت ہی زیادہ ہے۔ لیکن بسا اوقات عداوت و غیظ کے جذبات سے مغلوب ہو کر کھلم کھلا ایسی باتیں کر گزرتے ہیں جو ان کی گہری دشمنی کا صاف پتہ دیتی ہیں۔ مارے دشمنی اور حسد کے ان کی زبان قابو میں نہیں رہتی۔ پس عقلمند آدمی کا کام نہیں کہ ایسے خبیث باطن دشمنوں کو اپنا رازدار بنائے۔ خدا تعالیٰ نے دوست و دشمن کے پتے اور موالات وغیرہ کے احکام کھول کر بتلا دیے ہیں جس میں عقل ہو گی ان سے کام لے گا۔ (موالات کفار کے متعلق کچھ تفصیل پہلے اسی سورت میں گذر چکی اور کچھ مائدہ وغیرہ میں آئے گی)


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلُوا الرِّبوٰا۟ أَضعٰفًا مُضٰعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {3:130}
اے ایمان والو مت کھاؤ سود [۱۹۱] دونے پر دونا [۱۹۲] اور ڈرو اللہ سے تاکہ تمہارا بھلا ہو [۱۹۳]
O Ye who believe! devour not multiplied manifold; and fear usury, Allah, haply ye may fare well.
جنگ احد کے تذکرہ میں سود کی ممانعت کا ذکر بظاہر بےتعلق معلوم ہوتا ہے۔ مگر شاید یہ مناسبت ہو کہ اوپر { اِذْ ھَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلا } میں "جہاد" کے موقع پر نامردی دکھلانے کا ذکر ہوا تھا۔ اور سود کھانے سے نامردی پیدا ہوتی ہے دو سبب سے۔ ایک یہ کہ مال حرام کھانے سے توفیق طاعت کم ہوتی ہے اور بڑی طاعت جہاد ہے، دوسرے یہ کو سود لینا انتہائی بخل پر دلالت کرتا ہے کیونکہ سود خوار چاہتا ہے کہ اپنا مال جتنا دیا تھا لے لے اور بیچ میں کسی کا کام نکلا۔ یہ بھی مفت نہ چھوڑے اس کا علیحدہ معاوضہ وصول کر ے۔ تو جس کو مال میں اتنا بخل ہو کہ خدا کے لئے کسی کی ذرہ بھر ہمدردی نہ کر سکے۔ وہ خدا کی راہ میں جان کب دے سکے گا ابو حیان نے لکھا ہے کہ اس وقت یہود وغیرہ سے مسلمانوں کے سودی معاملات اکثر ہوتے رہتے تھے۔ اسی لئے ان سے تعلقات قطع کرنا مشکل تھا۔ چونکہ پہلے { لاتتخذ وابطانۃً } کا حکم ہو چکا ہے اور احد کے قصہ میں بھی منافقین یہود کی حرکات کو بہت دخل تھا اس لئے متنبہ فرمایا کہ سودی لین دین ترک کرو۔ ورنہ اسکی وجہ سے خواہی نہ خواہی ان ملعونوں کے ساتھ تعلقات قائم رہیں گے جو آئندہ تقصان اٹھانے کا موجب ہونگے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ تھوڑا سود لے لیا کرو دونے پر دونا مت لو۔ بات یہ ہے کہ جاہلیت میں سود اسی طرح لیا جاتا تھا۔ جیسے ہمارے یہاں کے بنیے لیتے ہیں۔ سو روپے دیے اور سود در سود بڑھاتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ سو روپے میں ہزاروں روپیہ کی جائدادوں کے مالک بن بیٹھے۔ اسی صورت کو یہاں { اَضْعَافًا مُضَاعَفَۃً } سے تعبیر فرمایا۔ یعنی اول تو سود مطلقًا حرام و قبیح، اور یہ صورت تو بہت ہی زیادہ شنیع و قبیح ہے جیسے کوئی کہے میاں مسجد میں گالیاں مت بکو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسجد سے باہر بکنے کی اجازت ہے بلکہ مزید تقبیح و تشنیع کے موقع پر ایسے الفاظ بولتے ہیں۔
یعنی سود کھانے میں بھلا نہیں۔ بلکہ تمہار بھلا اس میں ہے کہ خدا سے ڈر کر سود کھانا چھوڑ دو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تُطيعُوا الَّذينَ كَفَروا يَرُدّوكُم عَلىٰ أَعقٰبِكُم فَتَنقَلِبوا خٰسِرينَ {3:149}
اے ایمان والو اگر تم کہا مانو گے کافروں کا تو وہ تم کو پھیر دیں گے الٹے پاؤں پھر جا پڑو گے تم نقصان میں [۲۱۹]
O O Ye who believe! if ye obey those who disbelieve, they will send you back on your heels, and ye will turn back losers.
یعنی جنگ احد میں مسلمانوں کے دل ٹوٹے تو کافروں اور منافقوں نے موقع پایا۔ بعض الزام اور طعنے دینے لگے۔ بعض خیرخواہی کے پردہ میں سمجھانے لگے تا آئندہ لڑائی پر دلیری نہ کریں حق تعالیٰ خبردار کرتا ہے کہ دشمن کے فریب مت کھاؤ۔ اگر خدا نہ کردہ ان کے چکموں میں آؤ گے تو جس ظلمت سے خدا نے نکالا ہے پھر الٹے پاؤں اسی میں جا گرو گے اور رفتہ رفتہ دین حق کا دامن ہاتھ سےچھوٹ جائے گا۔ جس کا نتیجہ دنیا و آخرت کےخسارے کے سوا کچھ نہیں۔ پہلے اللہ والوں کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی تھی۔ یہاں بد باطن شریروں کا کہا ماننے سے منع کیا تا مسلمان ہو شیار رہیں اور اپنا نفع نقصان سمجھ سکیں۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَكونوا كَالَّذينَ كَفَروا وَقالوا لِإِخوٰنِهِم إِذا ضَرَبوا فِى الأَرضِ أَو كانوا غُزًّى لَو كانوا عِندَنا ما ماتوا وَما قُتِلوا لِيَجعَلَ اللَّهُ ذٰلِكَ حَسرَةً فى قُلوبِهِم ۗ وَاللَّهُ يُحيۦ وَيُميتُ ۗ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ {3:156}
اے ایمان والو تم نہ ہو ان کی طرح جو کافر ہوئے  اور کہتےہیں اپنے بھائیوں کو  جب وہ سفر کو نکلیں ملک میں یا ہوں جہاد میں اگر رہتے ہمارے پاس تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے تاکہ اللہ ڈالے اس گمان سے افسوس ان کے دلوں میں  اور اللہ ہی جلاتا ہے اور مارتا ہے  اور اللہ تمہارے سب کام دیکھتا ہے 
O O Ye who believe! be not like unto those who disbelieve and say of their brethren when they journey in the land or go to religious war: had they been with, they had not died nor had they been slain; this is in order that Allah may cause an anguish in their hearts. And it is Allah who maketh alive and causeth to die, and Allah is of that which ye work Beholder.
یعنی تم ان کافر منافقوں کی طرح ایسے لغو خیالات کو زنہار دل میں جگہ نہ دینا کہ گھر میں بیٹھے رہتے تو نہ موت آتی نہ مارےجاتے۔
کہ منافقین و کفار کس راستہ پرجا رہے ہیں اور مسلمان کہاں تک ان کے تشبہ اور پیروی سے علیحدہ رہتے ہیں۔ ہر ایک کو اس کی حالت کے مناسب بدلہ دے گا۔
یعنی مارنا جلانا اللہ کا کام ہے۔ بہتیرے آدمی عمر بھر سفر کرتے لڑائیوں میں جاتے ہیں مگر موت گھر میں بستر پر آتی ہے اور کتنے ہی آدمی گھر کے کونے میں پڑے رہنے کے خوگر ہیں، لیکن اخیر میں خدا کوئی سبب کھڑا کر دیتا ہے کہ وہ باہر نکلیں اور وہیں مریں یا مارےجائیں۔ بندہ کی روک تھام سے یہ چیز ٹلنے اور بدلنے والی نہیں۔ حضرت خالد بن الولیدؓ نے وفات کے وقت فرمایا کہ میرے بدن پر ایک بالشت جگہ تلوار یا نیزہ کے زخم سے خالی نہیں، مگر آج میں ایک اونٹ کی طرح (گھر میں) مر رہا ہوں { فلا نامنت اعین الجبناء } (خدا کرے یہ دیکھ کر نامردوں کی آنکھیں کھلیں)
چونکہ منافقین ظاہر میں مسلمان بنے ہوئے تھے اس لئے مسلمانوں کو اپنا بھائی کہا، یا اس لئے کہ نسبی طور پر وہ اور انصار مدینہ برادری کے بھائی بند تھے۔ اور چونکہ یہ بات خیر خواہی و ہمدردی کے پیرایہ میں کہتے تھے اس لئے لفظ اخوان سے تعبیر کیا گیا۔
یعنی خواہ مخواہ باہر نکل کر مرے، ہمارے پاس اپنے گھر پڑے رہتے تو کیوں مرتے یا کیوں مارے جاتے، یہ کہنا اس غرض سےتھا کہ سننے والے مسلمانوں کے دل میں حسرت و افسوس پیدا ہو کہ واقعی بے سوچے سمجھے نکل کھڑے ہونے اور لڑائی کی آگ میں کود پڑنے کا یہ نتیجہ ہوا۔ گھر رہتے تو یہ مصیبت کیوں دیکھنی پڑتی۔ مگر مسلمان ایسے کچے نہ تھے جو ان چکموں میں آ جاتے، ان باتوں سے الٹا منافقین کا بھرم کھل گیا۔ بعض مفسرین نے { لِیَجْعَلَ اللہُ ذٰالِکَ حَسْرَۃً فِیْ قُلُوْبِھِمْ } میں "لام عاقبت" لے کر یوں معنی کئے ہیں کہ منافقین کے زبان اور دل پر یہ باتیں اس لئے جاری کی گئیں کہ خدا ان کو ہمیشہ اسی حسرت و افسوس کی آگ میں جلتا چھوڑ دے۔ اور دوسری حسرت ان کو یہ رہے کہ مسلمان ہماری طرح نہ ہوئے اور ہماری باتوں پر کسی نے کان نہ دھرا، گویا اس طرح لیجعل کا تعلق لا تکونوا سے بھی ہو سکتا ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اصبِروا وَصابِروا وَرابِطوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {3:200}
اے ایمان والو صبر کرو اور مقابلہ میں مضبوط رہو اور لگے رہو اور ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم اپنی مراد کو پہنچو [۳۰۵]
O Ye who believe! persevere, and excel in perseverance and be ever ready, and fear Allah that haply ye may thrive.
خاتمہ پر مسلمانوں کو ایک نہایت جامع و مانع نصیحت فرما دی جو گویا ساری سورت کا ماحصل ہے یعنی اگر کامیاب ہونا اور دنیا آخرت میں مراد کو پہنچنا چاہتے ہو تو سختیاں اٹھا کر بھی طاعت پر جمے رہو معصیت سے رکو دشمن کے مقابلہ میں مضبوطی اور ثابت قدمی دکھلاؤ اسلام اور حدود اسلام کی حفاظت میں لگے رہو جہاں سے دشمن کے حملہ آور ہونے کا خطرہ ہو وہاں آہنی دیوار کی طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ جاؤ۔ { وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّکُمْ } (انفال رکوع ۸) اور ہر وقت ہر کام میں خدا سے ڈرتے رہو۔ یہ کر لیا تو سمجھو مراد کو پہنچ گئے۔ { اللھم اجعلنا مفلحین و فائزین بفضلک و رحمتک فی الدنیا والا خرۃ اٰمین } حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ تہجد کے لئے اٹھتے تو آسمان کی طرف نظر اٹھا کر یہ گیارہ آیتیں { اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } سے ختم سورۃ تک تلاوت کرتے تھے ۔ تم سورۂ آل عمران بمنہ و حسن توفیقہ ۔ فلہ الحمد والمنہ وعلیٰ رسولہ الف الف سلام و تحیہ۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَحِلُّ لَكُم أَن تَرِثُوا النِّساءَ كَرهًا ۖ وَلا تَعضُلوهُنَّ لِتَذهَبوا بِبَعضِ ما ءاتَيتُموهُنَّ إِلّا أَن يَأتينَ بِفٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَعاشِروهُنَّ بِالمَعروفِ ۚ فَإِن كَرِهتُموهُنَّ فَعَسىٰ أَن تَكرَهوا شَيـًٔا وَيَجعَلَ اللَّهُ فيهِ خَيرًا كَثيرًا {4:19}
اے ایمان والو حلال نہیں تم کو کہ میراث میں لے لو عورتوں کو زبردستی اور نہ روکے رکھو ان کو اس واسطے کہ لے لو ان سے کچھ اپنا دیا ہوا مگر کہ وہ کریں بے حیائی صریح [۳۷] اور گذران کرو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پھر اگر وہ تم کو نہ بھاویں تو شاید تم کو پسند نہ آوے ایک چیز اور اللہ نے رکھی ہو اس میں بہت خوبی [۳۸]
O Ye who believe! it is not allowed unto you that ye may heir the women forcibly; nor shut them up that ye may take away from them part of that which ye had given them, except when they be guilty of manifest enormity. And live with them reputably if ye detest them, belike ye detest a thing and yet Allah hath placed therein abundant good.
حسب بیان سابق عورتوں کی بد افعالی کی بابت تادیب و سیاست کا حکم دے کر اب اہل جاہلیت کے اس ظلم و تعدی کو روکا جاتا ہے جو تعدی عورتوں پر وہ طرح طرح سے کیا کرتے تھے سو منجملہ ان صورتوں کے ایک صورت یہ ہوتی تھی کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی عورت کو میت کا سوتیلا بیٹا یا بھائی یا اور کوئی وارث لے لیتا پھر چاہتا تو اس سے نکاح کر لیتا یا بغیر نکاح ہی اپنے گھر میں رکھتا یا کسی دوسرے سے نکاح کر کے اس کا مہر کل یا بعض لے لیتا یا ساری عمر اس کو اپنی قید میں رکھتا اور اس کے مال کا وارث ہوتا اس کی بابت یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی مر جائے تو اس کی عورت اپنے نکاح کی مختار ہے میت کے بھائی اور اس کے کسی وارث کو یہ اختیار نہیں کہ زبردستی اپنے نکاح میں لے لے نہ وہ عورت کو نکاح سے روک سکتے ہیں کہ وہ مجبور ہو کر خاوند کے ورثہ سے جو اس کو ملا تھا کچھ پھیر دے ہاں اگر صریح بدچلنی کریں تو ان کو روکنا چاہئے۔
یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں اخلاق اور سلوک سے معاملہ رکھو جاہلیت میں جیسا ذلت اور سختی کا برتاؤ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اس کو چھوڑ دو پھر اگر تم کو کسی عورت کی کوئی خو اور عادت خوش نہ آئے تو صبر کرو شاید اس میں کوئی خوبی بھی ہو اور ممکن ہے کہ تم کو ناپسندیدہ ہو کو ئی چیز اور اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے لئے کوئی بڑی منفعت دینی یا دنیوی رکھ دے سو تم کو تحمل کرنا چاہئے اور بدخو کے ساتھ بدخوئی نہ چاہئے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلوا أَموٰلَكُم بَينَكُم بِالبٰطِلِ إِلّا أَن تَكونَ تِجٰرَةً عَن تَراضٍ مِنكُم ۚ وَلا تَقتُلوا أَنفُسَكُم ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُم رَحيمًا {4:29}
اے ایمان والو نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے [۵۷] اور نہ خون کرو آپس میں بیشک اللہ تم پر مہربان ہے [۵۸]
O Ye who believe! devour not your substance among yourselves unlawfully, but let it be a trading among you by mutual agreement. And slay not yourselves, verily Allah is unto you ever Merciful.
مطلب یہ ہے کہ کسی کو کسی کا مال ناحق کھا لینا مثلًا جھوٹ بول کر یا دغابازی سے یا چوری سےہرگز درست نہیں ہاں اگر سوداگری یعنی بیع و شراء کرو تم باہمی رضامندی سے تو اس میں کچھ حرج نہیں اس مال کو کھالو جس کا خلاصہ یہی نکلا کہ جائز طریقہ سے لینے کی ممانعت نہیں جو مال کو ترک کرنا تم پر دشوار ہو۔
یعنی آپس میں ایک دوسرے کو قتل بھی مت کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے کہ بلاوجہ کسی کے مال یا جان میں تصرف کرنے کو منع فرما دیا اور تم پر ایسے احکام بھیجے جن میں سراسر تمہارے لئے بہبودی اور خیریت ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقرَبُوا الصَّلوٰةَ وَأَنتُم سُكٰرىٰ حَتّىٰ تَعلَموا ما تَقولونَ وَلا جُنُبًا إِلّا عابِرى سَبيلٍ حَتّىٰ تَغتَسِلوا ۚ وَإِن كُنتُم مَرضىٰ أَو عَلىٰ سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لٰمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم ۗ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفورًا {4:43}
اے ایمان والو نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ اس وقت کہ غسل کی حاجت ہو مگر راہ چلتے ہوئے یہاں تک کہ غسل کر لو [۷۸] اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں یا آیا ہے کوئی شخص جائے ضرور سے یا پاس گئے ہو عورتوں کے پھر نہ ملا تم کو پانی تو ارادہ کرو زمین پاک کا پھر ملو اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو [۷۹] بیشک اللہ ہے معاف کرنے والا بخشنے والا [۸۰]
O Ye who believe! approach not prayer while ye are intoxicated until ye know that which ye say, nor yet while ye are polluted, save when ye be way faring, until ye have washed your selves. And if ye be ailing or on a journey, or one of you cometh from the privy have touched women, or ye and ye find not water, then betake your selves to clean earth and wipe your faces and your hands therewith; verily Allah is ever Pardoning, Forgiving.
پہلی آیات میں مسلمانوں کو خطاب تھا { واعبدوا اللہ ولا تشرکو بہ شیئا } الی آخر الآیات اور اسی کے ذیل میں کفار کی مذمت بیان فرمائی تھی جو کہ امور مذکورہ سابقہ کی مخالفت کرتے تھے اب اس کے بعد پھر مسلمانوں کو دربارہ صلوٰۃ بعض خاص ہدایتیں کی جاتی ہیں اور ان ہدایات کو ماقبل کے ساتھ یہ مناسبت ہے کہ اس سے پہلے کفار اور اہل کتاب کی دو خرابیوں کا خاص طور پر ذکر تھا ایک اللہ پر ایمان نہ لانا دوسرے اپنا مال اللہ کے لئے خرچ نہ کرنا بلکہ لوگوں کے دکھانے کو اور اپنی عزت بڑھانے کو مال خرچ کرنا اور ظاہر ہے کہ پہلی خرابی کا منشاء تو علم کا نقصان اور جہل کا غلبہ ہے اور دوسری خرابی کی وجہ ہوائے نفس اور اپنی خواہش ہے جس سے معلوم ہو گیا کہ گمراہی کے بڑے سبب دو ہیں اول جہل جس میں حق و باطل کی تمیز ہی نہیں ہوتی دوسرے خواہش و شہوت جس سے باوجود تمیز حق و باطل حق کے موافق عمل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ شہوات سے قوت ملکی ضعیف اور قوت بہیمیہ قوی ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ ملائکہ سے بعد اور شیاطین سے قرب ہے جو بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے تو اب اس مناسبت سےحق تعالیٰ شانہ نے مسلمانوں کو نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے اول منع فرمایا کہ یہ جہل کی حالت ہے اس کے بعد جنابت میں نماز پڑھنے سے روکا کہ یہ حالت ملائکہ سے بعد اور شیاطین سےقرب کی حالت ہے حدیث میں وارد ہے کہ جہاں جنبی ہوتا ہے وہاں ملائکہ نہیں آتے واللہ اعلم اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اے ایمان والو جب تم کو کفر اور ریا کی خرابی معلوم ہو چکی اور ان کے اضداد کی خوبی واضح ہو چکی تو اس سے نشہ اور جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے کی خرابی کو بھی خوب سمجھ لو کہ ان کا منشاء بھی وہی ہے جو کفر و ریا کا منشا تھا اس لئے نشہ میں نماز کے نزدیک نہ جانا چاہئے تاوقتیکہ تم کو اس قدر ہوش نہ آ جائے کہ جو منہ سے کہو اس کو سمجھ بھی سکو اور نہ حالت جنابت میں نماز کے نزدیک جانا چاہیئے تاوقتیکہ غسل نہ کر لو مگر حالت سفر میں اس کا حکم آگے مذکور ہے۔ {فائدہ} یہ حکم اس وقت تھا کہ نشہ اس وقت تک حرام نہ ہوا تھا۔ لیکن نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت کر دی گئ تھی روایات میں منقول ہے کہ ایک جماعت صحابہ کی دعوت میں جمع تھی چونکہ شراب اس وقت تک حرام نہ ہوئی تھی اس لئے انہوں نے شراب پی تھی مغرب کا وقت آ گیا تو سب اسی حالت میں نماز کو کھڑے ہو گئے امام نے سورۂ { قُلْ یٰٓاَ یُّھَاالْکٰفِرُوْنَ } میں { لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ } کی جگہ { اعبد ما تعبدون } بے ہوشی میں پڑھ دیا جس سے معنی بالکل خلاف اور غلط ہو گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اب اگر نیند یا غلبہ یا بیماری کی وجہ سے کسی کا ایسا حال ہو جائے کہ اس کی خبر نہ رہے کہ میں نے کیا کہا تو ایسی حالت کی نماز بھی درست نہ ہوگی جب ہوش آئے تو اس کی قضا ضرور کر لے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے وقت تیمم کی اجازت دیدی اور مٹی کو پانی کے قائم مقام کر دیا اس لئے کہ وہ سہولت اور معافی دینے والا ہے اوربندوں کی خطائیں بخشنے والا ہے اپنے بندوں کے نفع و آسائش کو پسند فرماتا ہے جس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ نماز میں نشہ کی حالت میں جو کچھ کا کچھ پڑھا گیا تھا وہ بھی معاف کر دیا گیا۔ جس سے یہ خلجان نہ رہا کہ آئندہ کو تو ایسی حالت میں نماز نہ پڑھیں گے مگر جو پہلے غلطی ہو گئ شاید اس کی نسبت مواخذہ ہو۔
یعنی حالت جنابت میں نماز کا پڑھنا تاوقتیکہ غسل نہ کر لے یہ حکم جب ہے کہ کوئی عذر نہ ہو اور اگر کوئی ایسا عذر پیش آئے کہ پانی کے استعمال سے معذوری ہو اور طہارت کا حاصل کرنا ضروری ہو تو ایسے وقت زمین سے تیمم کر لینا کافی ہے۔ اب پانی کےاستعمال سےمعذوری کی تین صورتیں بتلائیں ایک بیماری کہ اس میں پانی ضرر کرتا ہے۔ دوسری یہ کہ سفر درپیش ہے اور پانی اتنا موجود ہے کہ وضو کر لے تو پیاس سے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے دور دور تک پانی نہ ملے گا۔ تیسری یہ کہ پانی بالکل موجود ہی نہیں اس پانی پر موجود نہ ہونے کی صورت کے ساتھ دو صورتیں طہارت کے ضروری ہونے کی بیان فرمائیں ایک یہ کہ کوئی جائے ضرور سے فارغ ہو کر آیا اس کو وضو کی حاجت ہے دوسری یہ کہ عورت سے صحبت کی ہو تو اس کو غسل کی ضرورت ہے۔ {فائدہ} تیمم کی صورت یہ ہے کہ پاک زمین پر دونوں ہاتھ مارے پھر سارے منہ پر اچھی طرح مل لیوے پھر دونوں ہاتھ زمین پر مار کر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک مل لے مٹی طاہر ہے اور بعض چیزوں کے لئے مثل پانی کے مطہر بھی ہے مثلا خُف، تلوار، آئینہ وغیرہ اور جو نجاست زمین پر گر کر خاک ہو جاتی ہے وہ بھی پاک ہو جاتی ہے اور نیز ہاتھ اور چہرہ پر مٹی ملنے میں تذلل اور عجز بھی پورا ہے جو گناہوں سے معافی مانگنے کی اعلیٰ صورت ہے۔ سو جب مٹی ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی نجاست کو زائل کر تی ہے تو اس لئے بوقت معذوری پانی کی قائم مقام کی گئ اس کے سوا مقتضائے آسانی و سہولت جس پر حکم تیمم مبنی ہے یہ ہے کہ پانی کی قائم مقام ایسی چیز کی جائے جو پانی سے زیادہ سہل الوصول ہو سو زمین کا ایسا ہونا ظاہر ہے کیونکہ وہ سب جگہ موجود ہے۔ معٰہذا خاک انسان کی اصل ہے اور اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے میں گناہوں اور خرابیوں سے بچاؤ ہے۔ کافر بھی آرزو کریں گے کہ کسی طرح خاک میں مل جائیں جیسا پہلی آیت میں مذکور ہوا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا {4:59}
اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور حاکموں کا جو تم میں سے ہوں [۱۰۳] پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر [۱۰۴] یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام [۱۰۵]
O Ye who believe! obey Allah and obey the apostle and owners of authority from amongst you. then if dispute in aught refer it Unto ye Allah and the apostle if ye indeed believe in Allah and the Last Day. That is the best and fairest interpretation.
پہلی آیت میں حکام کو عدل کا حکم فرما کر اب اوروں کو حکام کی متابعت کا حکم دیا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکام کی اطاعت جبھی واجب ہو گی جب وہ حق کی اطاعت کریں گے۔ {فائدہ} حاکم اسلام بادشاہ یا اسکا صوبہ دار یا قاضی یا سردار لشکر جو کوئی کسی کام پر مقرر ہو ان کے حکم کاماننا ضروری ہے جب تک وہ خدا اور رسول کے حکم کے خلاف حکم نہ دیں اگر خدا اور رسول کے حکم کے صریح خلاف کرے تو اس حکم کو ہر گز نہ مانے۔
یعنی اور اگر تم میں اور اولوالامر میں باہم اختلاف ہو جائے کہ حاکم کا یہ حکم اللہ اور رسول کے حکم کے موافق ہے یا مخالف تو اس کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف رجوع کر کے طے کر لیا کرو کہ وہ حکم فی الحقیقت اللہ اور رسول کے حکم کےموافق ہے یا مخالف اور جو بات محقق ہو جائے اسکو کو بلاتفاق مسلم اور معمول بہ سمجھنا چاہئے اور اختلاف کو دور کر دینا چاہئے اگر تم کو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان ہے کیونکہ جس کو اللہ اور قیامت پر ایمان ہو گا وہ ضرور اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول کے حکم کی طرف رجوع کرے گا اور ان کے حکم کی مخالفت سے بےحد ڈرے گا جس سے معلوم ہو گیا کہ جو اللہ اور رسول کے حکم سے بھاگے گا وہ مسلمان نہیں اس لئے اگر دو مسلمان آپس میں جھگڑیں ایک نے کہا چلو شرع کی طرف رجوع کریں دوسرے نے کہا میں شرع کو نہیں سمجھتا یا مجھ کو شرع سے کام نہیں تو اس کو بیشک کافر کہیں گے۔
یعنی اپنے متنازعات اور اختلافات کو اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنا اور اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرنی مفید ہے آپس میں جھگڑنے یا اپنی رائے کے موافق فیصلہ کرنے سے اس رجوع کا انجام بہتر ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا خُذوا حِذرَكُم فَانفِروا ثُباتٍ أَوِ انفِروا جَميعًا {4:71}
اے ایمان والو لے لو اپنے ہتھیار پھر نکلو جدی جدی فوج ہو کر یا سب اکھٹے [۱۱۵]
O Ye who believe! take your precaution then sally forth in detachment or sally forth all together.
یہاں سے جہاد کا ذکر ہے اس سے پہلی آیت میں یہ ذکر تھا کہ جو اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرے گا اس کو انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین کی رفاقت انعام میں ملے گی اور احکام خداوندی میں حکم جہاد چونکہ شاق اور دشوار ہے خصوصًا منافقین پر جن کا ذکر اوپر سے آ رہا ہے اس لئے جہاد کا حکم فرمایا کہ ہر کوئی حضرات انبیاء صدیقین وغیرہ ہم کی رفاقت اور معیت کی امید نہ کرنے لگے منقول ہے کہ شرو ع اسلام میں بہت سے ضعیف الاسلام بھی دعوت اسلامی کو قبول کر چکے تھے پھر جب جہاد فرض ہو گیا تو بعض متزلزل ہو گئے اور بعض کفار کے ہمزبان ہو کر آپ ﷺ کی مخالفت کرنے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو منافقوں کی کیفیت تو تم کو پہلے سے معلوم ہو چکی اب خیر اسی میں ہے کہ تم اپنا ہر طرح سے بچاؤ اور اپنی خبرداری اور احتیاط کر لو ہتھیاروں سے ہو یا تدبیر سے عقل سے ہو یا سامان سے اور دشمنوں کے مقابلہ اور مقاتلہ کے لئے گھر سے باہر نکلو متفرق طور پر یا سب اکٹھے ہو کر جیسا موقع ہو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا ضَرَبتُم فى سَبيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنوا وَلا تَقولوا لِمَن أَلقىٰ إِلَيكُمُ السَّلٰمَ لَستَ مُؤمِنًا تَبتَغونَ عَرَضَ الحَيوٰةِ الدُّنيا فَعِندَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثيرَةٌ ۚ كَذٰلِكَ كُنتُم مِن قَبلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيكُم فَتَبَيَّنوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعمَلونَ خَبيرًا {4:94}
اے ایمان والو جب سفر کرو اللہ کی راہ میں تو تحقیق کر لیا کرو اور مت کہو اس شخص کو جو تم سے سلام علیک کرے کہ تو مسلمان نہیں تم چاہتے ہو اسباب دنیا کی زندگی کا سو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں [۱۴۹] تم بھی تو ایسے ہی تھے اس سے پہلے پھر اللہ نے تم پر فضل کیا سو اب تحقیق کر لو [۱۵۰] بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے [۱۵۱]
O Ye who believe! when ye march forth in the way of Allah, make things clear and say not unto one who giveth you a salutation: thou art none of a believer, seeking the perishable goods of the life of the world; for with Allah are spoils abundant. Even Thus were ye aforetime, then Allah favoured you. So make things clear; verily Allah is of that which ye work ever Aware.
حضرت ﷺ نے ایک فوج کو ایک قوم پر جہاد کےلئے بھیجا اس قوم میں ایک شخص مسلمان تھا جو اپنامال و اسباب اور مواشی ان میں سےنکال کر علیحدہ کھڑا ہو گیا تھا اس نے مسلمانوں کو دیکھ کر السلام علیکم کہا مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ یہ کافر ہے اپنی جان اور مال بچانے کی غرض سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اس لئے اس کو مار ڈالا اور اس کے مواشی اور اسباب سب لے لیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو تنبیہ اور تاکید فرمائی گئ کہ جب تم جہاد کے لئے سفر کرو تو تحقیق سے کام لو بے سوچے سمجھے کام مت کرو جو تمہارے سامنے اسلام ظاہر کرے اس کے مسلمان ہونے کا ہرگز انکار مت کرو اللہ کے پاس بہت کچھ غنیمتیں ہیں ایسے حقیر سامان پر نظر نہ کرنی چاہئے۔
یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہر اعمال اور دلی اغراض سب پر مطلع ہے تو اب جس کو قتل کرو محض اللہ کے حکم کے موافق قتل کرو اپنی کسی غرض کا اصلًا دخل نہ ہو اور یہ بھی مقصد ہے کہ اگر کوئی کافر فقط اپنے جان و مال کے خوف سے تمہارے روبرو اسلام ظاہر کرے اور دھوکا دے کر اپنی جان بچالے تو اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے اس کے عذاب سے نہیں بچ سکتا مگر تم اس کو کچھ مت کہو یہ تمہارے کرنے کی بات نہیں ہم دیکھ لیں گے۔
تم ایسے ہی تھے اس سے پہلے یعنی اسلام سے پہلے دنیاکی غرض سے ناحق خون کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان ہو کر ہر گز ایسا نہ کرنا چاہئے بلکہ جس پر مسلمان ہونے کا احتمال بھی ہو تو اس کے قتل سے بچو یا یہ مطلب ہے کہ اس سے پہلے شروع زمانہ اسلام میں تم بھی کافروں کے شہر میں رہتے تھے تمہاری مسقتل حکومت اور مستقل بودوباش نہ تھی تو جیسا اس حالت میں تمہارا اسلام معتبر سمجھا گیا اور تمہارے جان و مال کی حفاظت و رعایت کی گئ ایسا ہی اب تم کو بھی اس طرح کے مسلمانوں کی رعایت و حفاظت لازم ہے بلا تحقیق ان کو قتل مت کرو احتیاط اور غور سے کام کرنا چاہئے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كونوا قَوّٰمينَ بِالقِسطِ شُهَداءَ لِلَّهِ وَلَو عَلىٰ أَنفُسِكُم أَوِ الوٰلِدَينِ وَالأَقرَبينَ ۚ إِن يَكُن غَنِيًّا أَو فَقيرًا فَاللَّهُ أَولىٰ بِهِما ۖ فَلا تَتَّبِعُوا الهَوىٰ أَن تَعدِلوا ۚ وَإِن تَلوۥا أَو تُعرِضوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعمَلونَ خَبيرًا {4:135}
اے ایمان والو قائم رہو انصاف پر گواہی دو اللہ کی طرف کی اگرچہ نقصان ہو تمہارا یا ماں باپ کا یا قرابت والوں کا [۱۹۵] اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیرخواہ تم سے زیادہ ہے سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں [۱۹۶] اور اگر تم زبان ملو گے یا بچا جاؤ گے تو اللہ تمہاے سب کاموں سے واقف ہے [۱۹۷]
O Ye who believe! be ye maintainers of justice, bearers of testimony for Allah's sake, though it be against yourselves or your parents or kindred. Be he rich or poor, Allah is nigher unto either wherefore follow not the passion, lest ye deviate. If ye incline or turn away, then verily of that which ye work Allah is ever Aware.
یعنی گواہی سچی اور اللہ کے حکم کے موافق دینی چاہئے اگرچہ اس میں تمہارا یا تمہارے کسی عزیز قریب کا نقصان ہوتا ہو جو حق ہو اس کو صاف ظاہر کر دینا چاہئے دنیوی نفع کے لئے آخرت کا نقصان نہ لو۔
زبان ملنا یہ کہ سچی بات تو کہی مگر زبان داب کر اور پیچ سے کہ سننے والے کو شبہ پڑ جائے یعنی صاف صاف سچ نہ بولا اور بچا جانا یہ کہ پوری بات نہ کہی بلکہ کچھ بات کام کی رکھ لی سو ان دونوں صورتوں میں گو جھوٹ تو نہیں بولا مگر بوجہ عدم اظہار حق گنہگار ہو گا۔ گواہی سچی اور صاف اور پوری دینی چاہئے۔
یعنی سچی گواہی دینے میں اپنی کسی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ مالدار کی رعایت کر کے یا محتاج پر ترس کھا کر سچ کو چھوڑ بیٹھو جو حق ہو سو کہو اللہ تعالیٰ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ اور ان کے مصالح سے واقف ہے اور اس کے یہاں کس چیز کی کمی ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا ءامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ وَالكِتٰبِ الَّذى نَزَّلَ عَلىٰ رَسولِهِ وَالكِتٰبِ الَّذى أَنزَلَ مِن قَبلُ ۚ وَمَن يَكفُر بِاللَّهِ وَمَلٰئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَاليَومِ الءاخِرِ فَقَد ضَلَّ ضَلٰلًا بَعيدًا {4:136}
ایمان والو یقین لاؤ اللہ پر اور اسکے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی ہے اپنے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی تھی پہلے اور جو کوئی یقین نہ رکھے اللہ پر اور اسکے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور قیامت کےدن پر وہ بہک کر دور جا پڑا [۱۹۸]
O Ye who believe believe in Allah's and His apostle and the Book He hath sent down unto His apostle and the Book He sent down aforetime; and whosoever disbelieveth in Allah and His angels and His Books and His Apostles and the Last Day, hath surely strayed away a far straying.
یعنی جو اسلام قبول کرے اس کو ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر دل سے یقین لائے اس کے ارشادات میں سے اگر کسی ایک ارشاد پر بھی یقین نہ لائے گا تو وہ مسلمان نہیں صرف ظاہری اور زبانی بات کا اعتبار نہیں۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا الكٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ ۚ أَتُريدونَ أَن تَجعَلوا لِلَّهِ عَلَيكُم سُلطٰنًا مُبينًا {4:144}
اے ایمان والو نہ بناؤ کافروں کو اپنا رفیق مسلمانوں کو چھوڑ کر کیا لیا چاہتے ہو اپنے اوپر اللہ کا الزام صریح
O Ye who believe! take not infidels for friends, instead of believers. Would ye give Allah against you a manifest warranty!


بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَوفوا بِالعُقودِ ۚ أُحِلَّت لَكُم بَهيمَةُ الأَنعٰمِ إِلّا ما يُتلىٰ عَلَيكُم غَيرَ مُحِلِّى الصَّيدِ وَأَنتُم حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحكُمُ ما يُريدُ {5:1}
اے ایمان والو پورا کرو عہدوں کو [۱] حلا ل ہوئے تمہارے لئے چوپائے مویشی [۲] سو اے انکے جو تم کو آگے سنائےجاویں گے [۳] مگر حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں [۴] اللہ حکم کرتا ہے جو چاہے [۵]
O ye who believe! fulfil the compacts. Allowed unto you is the beast of the flock except that which is rehearsed unto you, not allowing the chase while ye are in a state of sanctity. Verily Allah ordaineth whatsoever He will.
"سورہ نساء" میں گزر چکا کہ یہود کو ظلم و بد عہدی کی سزا میں بعض حلال و طیب چیزوں سےمحروم کر دیا گیا تھا۔ { فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیِّبٰتٍ } (نساء رکوع ۲۲) جن کی تفصیل "سورہ انعام" میں ہے جس امۃ مرحومہ کو ایفائے عہد کی ہدایت کےساتھ ان چیزوں سے بھی منتفع ہونے کی اجازت دے دی گئ ۔ یعنی اونٹ، گائے، بکری اور اسی جنس کے تمام اہل اور وحشی (پالتو اور جنگلی) چوپائے مثلًا ہرن، نیل گائے وغیرہ تمہارے لئے ہر حالت میں حلال کئے گئے بجز ان حیوانات یا حالات کے جن کے متعلق حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں یا نبی کریم ﷺ کی زبانی تمہاری جسمانی یا روحانی یا اخلاقی مصلحت کے لئے ممانعت فرما دی ہے۔
غالبًا اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو اسی رکوع کی تیسری آیت میں بیان کی گئ ہیں۔ یعنی { حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ } سے { ذٰلِکُمْ فِسْقٌ } تک۔
محرم کو صرف خشکی کے جانور کا شکار جائز نہیں۔ دریائی شکار کی اجازت ہے۔ اور جب حالت احرام کی رعایت اس قدر ہے کہ اس میں شکار کرنا ممنوع ٹھہرا تو خود حرم شریف کی حرمت کا لحاظ اس سے کہیں زیادہ ہونا چاہئے۔ یعنی حرم کے جانور کا شکار محرم وغیرہ سب کے لئے حرام ہو گا۔ جیسا کہ { لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللہِ } کے عموم سے مترشح ہوتا ہے۔
جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا پھر کمال حکمت سے ان میں باہم فرق مراتب رکھا ہر نوع میں اس کی استعداد کے موافق جدا جدا فطری خواص و قویٰ ودیعت کئے۔ زندگی اور موت کی مختلف صورتیں تجویز کیں بلاشبہ اسی خدا کو اپنی مخلوقات میں یہ حق حاصل ہے کہ اپنے اختیار کامل، علم محیط، اور حکمت بالغہ کے اقتضا سے جس چیز کو جس کے لئے جن حالات میں چاہے، حلال یا حرام کر دے { لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْألُوْنَ }
ایمان شرعی دو چیزوں کا نام ہے صحیح معرفت اور تسلیم و انقیاد یعنی خدا اور رسول کے جملہ ارشادات کو صحیح و صادق سمجھ کر تسلیم و قبول کے لئے اخلاص سے گردن جھکا دینا۔ اس تسلیمی جزء کے لحاظ سے ایمان فی الحقیقۃ تمام قوانین و احکام الہٰیہ کے ماننے اور جملہ حقوق ادا کرنے کا ایک مضبوط عہد و اقرار ہے گویا حق تعالیٰ کی ربوبیۃ کاملہ کا وہ اقرار جو عہد الست کے سلسلہ میں لیا گیا تھا جس کا نمایاں اثر انسان کی فطرت اور سرشت میں آج تک موجود ہے۔ اسی کی تجدید و تشریح ایمان شرعی سے ہوتی ہے پھر ایمان شرعی میں جو کچھ اجمالی عہد و پیمان تھا اسی کی تفصیل پورے قرآن و سنت میں دکھلائی گئ ہے اس صورت میں دعویٰ ایمان کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ تمام احکام الہٰیہ میں خواہ ان کا تعلق براہ راست خدا سے ہو یا بندوں سے، جسمانی تربیت سے ہو یا روحانی اصلاح سے، دنیوی مفاد سے ہو یا اخروی فلاح سے، شخصی زندگی سے ہو یا حیات اجتماعی سے، صلح سے ہو یا جنگ سے، اس کا عہد کرتا ہے کہ ہر نہج سے اپنے مالک کا وفادار رہے گا۔ نبی کریم ﷺ جو عہد ایمانی کی ایک محسوس صورت تھی۔ اور چونکہ ایمان کے ضمن میں بندہ کو حق تعالیٰ کے جلال و جبروت کی صحیح معرفت اور اس کی شان انصاف و انتقام اور وعدوں کی سچائی کا پورا پورا یقین بھی حاصل ہو چکا ہے، اس کا مقتضا یہ ہے کہ وہ بد عہدی اور غداری کے مہلک عواقب سے ڈر کر اپنے تمام عہدوں کو جو خدا سے یا بندوں سے یا خود اپنے نفس سے کئے ہوں، اس طرح پورا کرے کہ مالک حقیقی کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آنے پائے اس تقریر کے موافق عقود (عہدوں) کی تفسیر میں جو مختلف چیزیں سلف سے منقول ہیں ان سب میں تطبیق ہو جاتی ہے اور آیت میں "ایمان والو" کے لفظ سے خطاب فرمانے کا لطف مزید حاصل ہوتا ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُحِلّوا شَعٰئِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهرَ الحَرامَ وَلَا الهَدىَ وَلَا القَلٰئِدَ وَلا ءامّينَ البَيتَ الحَرامَ يَبتَغونَ فَضلًا مِن رَبِّهِم وَرِضوٰنًا ۚ وَإِذا حَلَلتُم فَاصطادوا ۚ وَلا يَجرِمَنَّكُم شَنَـٔانُ قَومٍ أَن صَدّوكُم عَنِ المَسجِدِ الحَرامِ أَن تَعتَدوا ۘ وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ {5:2}
اے ایمان والو حلال نہ سمجھو اللہ کی نشانیوں کو [۶] اور نہ ادب والے مہینہ کو [۷] اور نہ اس جانور کو جو نیاز کعبہ کی ہو اور نہ جنکے گلے میں پٹا ڈال کر لیجاویں کعبہ کو [۸] اور نہ آنے والوں کو حرمت والے گھر کی طرف جو ڈھونڈتے ہیں فضل اپنے رب کا اور اسکی خوشی [۹] اور جب احرام سے نکلو تو شکار کر لو [۱۰] اور باعث نہ ہو تم کو اس قوم کی دشمنی جو کہ تم کو روکتی تھی حرمت والی مسجد سے اس پر کہ زیادتی کرنے لگو [۱۱] اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر [۱۲] اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے [۱۳]
O ye who believe! profane not the landmarks of Allah nor any sacred month nor the offering nor the victims with the garlands nor those repairing to the Sacred House seeking the grace of their Lord and His goodwill. And when ye have put off the state of sanctity, ye may chase. And let not the hatred against a people, because they kept you from the Sacred Mosque, incite you to trespass. Assist each other to virtue and piety, and assist not each other to sin and transgression, Fear Allah: verily Allah is Severe in chastising.
یعنی حق پرستی انصاف پسندی اور تمام عمدہ اخلاق کی جڑ خدا کا خوف ہے۔ اور اگر خدا سے ڈر کر نیکی سے تعاون اور بدی سے ترک تعاون نہ کیا گیا تو عام عذاب کا اندیشہ ہے۔
یعنی جو چیزیں حق تعالیٰ کی عظمت و معبودیت کے لئے علامات اور نشانات خاص قرار دی گئ ہیں ان کی بےحرمتی مت کرو۔ ان میں حرم محترم، بیت اللہ شریف، جمرات، صفا مروہ، ہدی، احرام، مساجد، کتب سماویہ وغیرہ تمامی حدود و فرائض اور احکام دینیہ شامل ہیں۔ آگے ان نشانیوں میں سے بعض مخصوص چیزوں کا جو مناسک سے متعلق ہیں۔ ذکر فرماتے ہیں جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں بھی محرم کے بعض احکام ذکر کئے گئے تھے۔
ادب والے مہینے چار ہیں { مِنْھا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ } (توبہ رکوع ۵) ذوالقعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب ان کی تعظیم و احترام یہ ہے کہ دوسرے مہینوں سے بڑھ کر ان میں نیکی اور تقویٰ کو لازم پکڑے اور شر و فساد سے بچنے کا اہتمام کیا جائے خصوصًا حجاج کو ستا کر اور دق کر کے حج بیت اللہ سے نہ روکا جائے۔ گو یہ امور سال کے بارہ مہینوں میں واجب العمل ہیں لیکن ان محترم مہینوں میں بالخصوص بہت زیادہ موکد قرار دیے گئے۔ باقی دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ہاجمانہ اقدام، تو جمہور کا مذہب یہ ہی ہے بلکہ ابن جریر نے اجماع نقل کیا ہے کہ اس کی ان مہینوں میں ممانعت نہیں رہی اس کا بیان سورہ توبہ میں آئے گا ان شاء اللہ۔
اگر کوئی شخص بالفرض جوش انتقام میں زیادتی کر بیٹھے تو اس کے روکنے کی تدبیر یہ ہے کہ جماعت اسلام اس کے ظلم و عدوان کی اعانت نہ کرے۔ بلکہ سب مل کر نیکی اور پرہیزگاری کا مظاہرہ کریں۔ اور اشخاص کی زیادتیوں اور بے اعتدالیوں کو روکیں۔
یعنی حالت احرام میں شکار کی جو ممانعت کی گئ تھی وہ احرام کھول دینے کے بعد باقی نہیں رہی۔
پچھلی آیت میں جن شعائر کو حق تعالیٰ نے معظم و محترم قرار دیا تھا ۶ ہجری میں مشرکین مکہ نے ان سب کی اہانت کی نبی کریم ﷺ اور تقریبًا ڈیڑھ ہزار صحابہ ماہ ذیقعدہ میں محض عمرہ ادا کرنے کے لئے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر مشرکین نے اس مذہبی وظیفہ کی بجا آوری سے روک دیا۔ نہ حالت احرام کا خیال کیا، نہ کعبہ کی حرمت کا نہ محترم مہینہ کا، نہ ہدی و قلائد کا مسلمان شعائر اللہ کی اس توہین اور مذہبی فرائض سے روک دیئے جانے پر ایسی ظالم اور وحشی قوم کے مقابلہ میں جس قدر بھی غیظ و غضب اور بغض و عداوت کا اظہار کرتے وہ حق بجانب تھے اور جوش انتقام سے برافروختہ ہو کر جو کارروائی بھی کر بیٹھتے وہ ممکن تھی۔ لیکن اسلام کی محبت و عداوت دونوں جچی تلی ہیں۔ قرآن کریم نے ایسے جابر و ظالم دشمن کے مقابلہ پر بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کا حکم دیا۔ عمومًا آدمی زیادہ محبت یا زیادہ عداوت کے جوش میں حد سے گزر جاتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ سخت سے سخت دشمنی تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہو کہ تم زیادتی کر بیٹھو اور عدل و انصاف کو ہاتھ سے چھو ڑ دو۔
بظاہر یہ شان صرف مسلمانوں کی ہے ۔ یعنی جو مخلص مسلمان حج و عمرہ کے لئے جائیں ان کی تعظیم و احترام کرو۔ اور ان کی راہ میں روڑے مت اٹکاؤ۔ اور جو مشرکین حج بیت اللہ کے لئے آتے تھے، اگر وہ بھی اس آیت کے عموم میں داخل ہوں کیونکہ وہ بھی اپنے زعم اور عقیدہ کے موافق خدا کے فضل و قرب اور خوشنودی کے طالب ہوتے تھے، تو کہنا پڑے گا کہ یہ حکم اس وقت سے پہلے کا ہے جبکہ { اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا } کی منادی کرائی گئ۔
"قلائد" قلادہ کی جمع ہے۔ جس سے مراد وہ ہار یا پٹا ہے جو ہدی کے جانور کے گلے میں نشان کے طور پر ڈالتے تھے تاکہ ہدی کا جانور سمجھ کر اس سے تعرض نہ کیا جائے اور دیکھنے والوں کو اسی جیسا عمل کرنے کی ترغیب بھی ہو قرآن کریم نے ان چیزوں کی تعظیم و حرمت کو باقی رکھا۔ اور ہدی یا اس کی علامات سے تعرض کرنے کو ممنوع قرار دیا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ ۚ وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا ۚ وَإِن كُنتُم مَرضىٰ أَو عَلىٰ سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لٰمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم مِنهُ ۚ ما يُريدُ اللَّهُ لِيَجعَلَ عَلَيكُم مِن حَرَجٍ وَلٰكِن يُريدُ لِيُطَهِّرَكُم وَلِيُتِمَّ نِعمَتَهُ عَلَيكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ {5:6}
اے ایمان والو [۳۴] جب تم اٹھو [۳۵] نماز کو تو دھو لو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک اور مل لو اپنے سر کو [۳۶] اور پاؤں ٹخنوں تک [۳۷] اور اگر تم کو جنابت ہو تو خوب طرح پاک ہو [۳۸] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں یا کوئی تم میں آیا ہے جائے ضرور سے یا پاس گئے ہو عورتوں کے پھر نہ پاؤ تم پانی تو قصد کرو مٹی پاک کا اور مل لو اپنے منہ اور ہاتھ اس سے [۳۹] اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی کرے [۴۰] لیکن چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے [۴۱] اور پورا کرے اپنا احسان تم پر تاکہ تم احسان مانو [۴۲]
O ye who believe! when ye stand up for the prayer wash your faces and your hands unto the elbows, and wipe your heads, and wash your feet unto the ankles. And if ye be polluted, then purify yourselves And if ye be ailing or on a journey or one of you cometh from the privy or ye have touched women, and ye find not water, then betake yourselves to clean earth and wipe your faces and hands therewith. Allah intendeth not to lay upon you a hardship, but intendeth to purify you and to complete His favour upon you, that haply ye may return thanks.
پچھلے رکوع میں جو نعمائے عظیمہ بیان ہوئی تھیں ان کو سن کر بندہ کے دل میں جوش اٹھا کہ اس منعم حقیقی کی بندگی کے لئے فوراً اٹھ کھڑا ہو جائے۔ اسے بتلا دیا کہ ہماری طرف آؤ تو کس طریقہ سے پاک ہو کر آؤ۔ یہ بتلانا خود ایک نعمت ہوئی اور بدن کی سطح ظاہر پر پانی ڈالنے یا مٹی لگانے سے اندرونی پاکی عطا فرما دینا۔ یہ دوسری نعمت ہوئی۔ بندہ ابھی پچھلی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکا تھا قصد ہی کر رہا تھا کہ یہ جدید انعامات فائض ہو گئے۔ اس لئے ارشاد ہوا { لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ } یعنی ان پہلی نعمتوں کو یاد کرنے سے پہلے ان جدید نعمتوں کا جو "احکام وضو" وغیرہ کے ضمن میں مبذول ہوئیں، شکر ادا کرنا چاہئے۔ شاید اسی { لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ } سے حضرت بلالؓ نے تحیۃ الوضو کا سراغ لگایا ہو۔ اس درمیانی نعمت کے شکریہ پر متوجہ کرنے کے بعد اگلی آیت میں ان سابق نعمتوں اور احسانات عظیمہ کو پھر اجمالًا یاد دلاتے ہیں جن کی شکر گذاری کے لئے بندہ اپنے مولا کے حضور میں کھڑا ہونا چاہتا تھا، چنانچہ فرماتے ہیں { وَاذْکُرُوْانِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ } الخ
یعنی سو کر اٹھو یا دنیا کے مشاغل چھوڑ کر نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہو تو پہلے وضو کر لو ۔ لیکن وضو کرنا ضروری اس وقت ہے جبکہ پیشتر سے باوضو نہ ہو۔ آیت کے آخر میں ان احکام کی جو غرض و غایت { وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ } سے بیان فرمائی ہے اس سے معلوم ہو گیا کہ ہاتھ منہ وغیرہ دھونے کا وجوب اسی لئے ہے کہ حق تعالیٰ تم کو پاک کر کے اپنے دربار میں جگہ دے۔ اگر یہ پاکی پہلے سے حاصل ہے اور کوئی ناقص وضو پیش نہیں آیا تو پاک کو پاک کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کو ضروری قرار دینے سے "امت" حرج میں پڑتی ہے جس کی نفی { مَایُرِیْدُ اللہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ } میں کی گئ۔ ہاں مزید نظافت، نورانیت اور نشاط حاصل کرنے کے لئے اگر تازہ وضو کر لیا جائے تو مستحب ہوگا۔ شاید اسی لئے { اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ } الآیۃ میں سطح کلام کی ایسی رکھی ہے جس سے ہر مرتبہ نماز کی طرف جانے کے وقت تازہ وضو کی ترغیب ہوتی ہے۔
امت محمدیہ پر جو عظیم الشان احسانات کئے گئے ان کا بیان سن کر ایک شریف اور حق شناس مومن کا دل شکر گذاری اور اظہار وفاداری کے جذبات سے لبریز ہو جائے گا اور فطری طور پر اس کی یہ خواہش ہو گی کہ اس منعم حقیقی کی بارگاہ رفیع میں دست بستہ حاضر ہو کر جبین نیاز خم کرے اور اپنی غلامانہ منت پذیری اور انتہائی عبودیت کا عملی ثبوت دے۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ جب ہمارے دربار میں حاضری کا ارادہ کرو یعنی نماز کے لئے اٹھو تو پاک و صاف ہو کر آؤ۔ جن لذائذ دنیوی اور مرغوبات طبیعی سےمتمتع ہونے کی آیت وضو سے پہلی آیت میں اجازت دی گئ۔ (یعنی طیبات اور محصنات) وہ ایک حد تک انسان کو ملکوتی صفات سے دور اور بہیمیت سے نزدیک کرنے والی چیزیں اور کل احداث (موجبات وضو و غسل) ان ہی کے استعمال سے لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا مرغوبات نفسانی سے یکسو ہو کر جب ہماری طرف آنے کا قصد کرو تو پہلے بہیمیت کے اثرات اور "اکل و شرب" وغیرہ کے پیدا کئے ہوئے تکدرات سےپاک ہو جاؤ یہ پاکی "وضو" اور "غسل" سے حاصل ہوتی ہے ۔ نہ صرف یہ کہ وضو کرنے سے مومن کا بدن پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ بلکہ جب وضو باقاعدہ کیا جائے تو پانی کے قطرات کے ساتھ گناہ بھی جھڑ جاتے ہیں۔
یعنی مرض کی وجہ سے پانی کا استعمال مضر ہو یا سفر میں پانی بقدر کفایت نہ ملے یا مثلًا کوئی قضائےحاجت کر کے آیا اور وضو کی ضرورت ہے یا جنابت کی وجہ سےغسل ناگزیر ہے مگر پانی کے حاصل کرنے یا استعمال کرنے پر کسی وجہ سےقادر نہیں تو ان صورتوں میں وضو یا غسل کی جگہ پر تیمم کر لے۔ وضو اور غسل دونوں کے تیمم میں کوئ فرق نہیں۔ کیونکہ تیمم کی مشروعیت سے جو غرض ہے۔ وہ بہرصورت یکساں طور پر حاصل ہوتی ہے "تیمم" کے اسرار و مسائل اور اس آیت کے فوائد "سورہ نساء" کے ساتویں رکوع میں مفصل گذر چکے۔ (تنبیہ) مترجم محقق قدس سرہ نے { لٰمستم النساء } کا جو ترجمہ کیا ہے (پاس گئے ہو عورتوں کے) وہ محاورہ کے اعتبار سے حالت جنابت ہی پر دلالت کر تا ہے۔ یہ ترجمہ ابن عباسؓ اور ابوموسٰی اشعریؓ کی تفیسر کے موافق ہے جسے ابن مسعودؓ نے بھی سکوتًا تسلیم کیا ہے (کما فی البخاری) نیز مترجم علام نے { فتیموا } کے ترجمہ میں "قصد کرو" کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ اصل لغت کے اعتبار سے "تیمم" کے معنی میں "قصد" معتبر ہے اور اس لغوی معنیٰ کی مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے "تیمم شرعی" میں بھی قصد یعنی نیت کو علماء نے ضروری قرار دیا ہے۔
یعنی جنابت سے پاک ہونے میں صرف اعضائے اربعہ کا دھونا او رمسح کرنا کافی نہیں۔ سطح بدن کے جس حصہ تک پانی بدون تضرر کے پہنچ سکتا ہو وہاں تک پہنچانا ضروری ہے۔ اسی لئے حنفیہ غسل میں "مضمضہ" اور "استنشاق" (کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا) کو بھی ضروری کہتے ہیں۔ وضو میں ضروری نہیں۔ سنت ہے۔
یعنی تر ہاتھ سر پر پھیر لو۔ نبی کریم ﷺ سے مدۃ العمر میں مقدار ناصیہ سے کم کا مسح ثابت نہیں ہوتا۔ "مقدار ناصیہ" چوتھائی سر کے قریب ہے۔ حنفیہ اس قدر "مسح" کو فرض کہتےہیں۔ باقی اختلافات اور دلائل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
کیونکہ وہ خود پاک ہے تو پاکی ہی پسند کر تا ہے۔
مترجم محقق نے پاؤں کے بعد لفظ "کو" نہ لکھ کر نہایت لطیف اشارہ فرما دیا کہ "ارجلکم" کا عطف مغسولات پر ہے یعنی جس طرح منہ ہاتھ دھونے کا حکم ہے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھونے چاہئیں سر کی طرح مسح کافی نہیں۔ چنانچہ اہل السنت و الجماعت کا اس پر اجماع ہے اور احادیث کثیرہ سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر پاؤں میں موزے نہ ہوں تو دھونا فرض ہے۔ ہاں"موزوں" پر ان شرائط کے موافق جو کتب فقہ میں مذکو رہیں مقیم ایک دن رات اور مسافر تین دن تک مسح کر سکتا ہے۔
اسی لئے جو احداث کثیر الوقوع تھے ان میں سارےجسم کا دھونا ضروری نہ رکھا۔ صرف وہ اعضا (منہ، ہاتھ، پاؤں، سر) جن کو اکثر بلاد متمدنہ کے رہنے والے عمومًا کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے ان کا دھونا اور مسح کرنا ضروری بتلایا تاکہ کوئی تنگی اور دقت نہ ہو۔ ہاں "حدث اکبر" یعنی "جنابت" جو احیانًا پیش آتی ہے اور اس حالت میں نفس کو ملکوتی خصال کی طرف ابھارنے کے لئے کسی غیر معمولی تنبیہ کی ضرورت ہے۔ اس کے ازالہ کے لئے تمام بدن کا دھونا فرض کیا۔ پھر "مرض" اور "سفر" وغیرہ حالات میں کسی قدر آسانی فرما دی۔ اول تو پانی کی جگہ "مٹی" کو مطہر بنا دیا۔ پھر اعضائے وضو میں سے نصف کی تخفیف اس طرح کر دی کہ جہاں پہلے ہی سے تخفیف تھی یعنی سر کا مسح اسے بالکل اڑا دیا اور پاؤں کو شاید اس لئے ساقط کر دیا کہ وہ عمومًا مٹی میں یا مٹی کے قریب رہتے ہیں اور تمام اعضائے بدن کی نسبت سے گردوغبار میں ان کا تلوث شدید تر ہے۔ لہذا ان پر مٹی کا ہاتھ پھیرنا بیکار سا تھا۔ بس دو عضو رہ گئے "منہ" اور "ہاتھ" ان ہی کو ملنے سے وضو اور غسل دونوں کا "تیمم" ہو جاتا ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كونوا قَوّٰمينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالقِسطِ ۖ وَلا يَجرِمَنَّكُم شَنَـٔانُ قَومٍ عَلىٰ أَلّا تَعدِلُوا ۚ اعدِلوا هُوَ أَقرَبُ لِلتَّقوىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما تَعمَلونَ {5:8}
اے ایمان والو کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی [۴۵] اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو [۴۶] عدل کرو یہ بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے [۴۷] اور ڈرتے رہو اللہ سے اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو [۴۸]
O ye who believe! be maintainers of your pact with Allah and witnesses in equity, and let not the hatred of a people incite you not to act fairly; act fairly; that is highest unto piety. And fear Allah; verily Allah is Aware of that which ye work.
"عدل" کا مطلب ہے کسی شخص کے ساتھ بدون افراط و تفریط کے وہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے۔ عدل و انصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہئے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلوں میں سے کسی پلہ کو جھکا نہ سکے۔
جو چیزیں شرعًا مہلک یا کسی درجہ میں مضر ہیں ان سے بچاؤ کرتے رہنے سے جو ایک خاص نورانی کیفیت آدمی کے دل میں راسخ ہو جاتی ہے اس کا نام "تقویٰ" ہے ۔ تحصیل تقویٰ کے اسباب قریبہ و بعیدہ بہت سےہیں۔ تمام اعمال حسنہ اور خصال خیر کو اس کے اسباب و معدات میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ "عدل و قسط" یعنی دوست و دشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق کے معاملہ میں جذبات محبت و عداوت سے قطعًا مغلوب نہ ہونا، یہ خصلت حصول تقویٰ کے موثر ترین اور قریب ترین اسباب میں سے ہے۔ اسی لئے { ھُوَاَقْرَبُ لَلتَّقْوٰی } فرمایا (یعنی عدل جس کا حکم دیا گیا تقویٰ سے نزدیک تر ہے) کہ اس کی مزاولت کے بعد تقویٰ کی کیفیت بہت جلد حاصل ہو جاتی ہے۔
اس سے پہلی آیت میں مومنین کو حق تعالیٰ کے احسانات اور اپنا عہدو پیمان یاد کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہاں بتلا دیا کہ صرف زبان سے یاد کرنا نہیں، بلکہ عملی رنگ میں ان سے اس کا ثبوت مطلوب ہے۔ اس آیت میں اسی پر تنبیہ کی گئ ہے کہ اگر تم نے خدا کے بےشمار احسانات اور اپنے عہدو اقرار کو بھلا نہیں دیا تو لازم ہے کہ اس محسن حقیقی کے حقوق ادا کرنے اور اپنے عہد کو سچا کر دکھانے کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہو اور جب کوئی حکم اپنے آقائے ولی نعمت کی طرف سے ملے تو فورًا تعمیل حکم کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔ اور خدا کے حقوق کے ساتھ مخلوق کے حقوق ادا کرنے میں بھی پوری جدوجہد اور اہتمام کرو۔ چنانچہ { قَوّٰمِیْنَ لِلہِ } میں حقوق اللہ کی اور { شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ } میں حقوق العباد کی طرف اشارہ ہے۔ اسی قسم کی ایک آیت والمحصنات کے آخر میں گذر چکی ہے صرف اس قدر فرق ہے کہ وہاں "بالقسط" کو "للہ" پر مقدم کر دیا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہاں دور سے "حقوق العباد" کا ذکر چلا آ رہا تھا اور یہاں پہلے سے "حقوق اللہ" پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے وہاں "بالقسط" کی اور یہاں "للہ" کی تقدیم مناسب ہوئی۔ نیز یہاں لحاق میں مبغوض دشمن سے معاملہ کرنے کا ذکر ہے جس کے ساتھ "قسط" کو یاد دلانے کی ضرورت ہے اور "سورۂ نساء" کے لحاق میں محبوب چیزوں کا ذکر ہے اس لئے وہاں سب سے بڑے محبوب (اللہ) کو یاد دلایا گیا۔
یعنی ایسا عدل و انصاف جسے کوئی دوستی یا دشمنی نہ روک سکے اور جس کے اختیار کرنے سے آدمی کو متقی بننا سہل ہو جاتا ہے۔ اس کے حصول کا واحد ذریعہ خدا کا ڈر اور اس کی شان انتقام کا خوف ہے۔ اور یہ خوف { اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ } کے مضمون کا بار بار مراقبہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ جب کسی مومن کے دل میں یہ یقین مستحضر ہو گا کہ ہماری کوئی چھپی یا کھلی حرکت حق تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔ تو اس کا قلب خشیہ الہٰی سے لرزنے لگے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ تمام معاملات میں عدل و انصاف کا راستہ اختیار کر ے گا۔ اور احکام الہٰیہ کے امنتثال کے لئے غلامانہ تیار رہے گا۔ پھر اس نتیجہ پر ثمرہ وہ ملے گا جسے اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔ { وَعَدَاللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } الخ


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ هَمَّ قَومٌ أَن يَبسُطوا إِلَيكُم أَيدِيَهُم فَكَفَّ أَيدِيَهُم عَنكُم ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ {5:11}
اے ایمان والو یاد رکھو احسان اللہ کا اپنے اوپر جب قصد کیا لوگوں نے کہ تم پر ہاتھ چلاویں پھر روک دیے تم سے ان کے ہاتھ اور ڈرتے رہو اللہ سے اور اللہ ہی پر چاہئے بھروسہ ایمان والوں کو [۵۱]
O ye who believe! remember Allah's favour on you when a people determined to stretch forth their hands against you, but he withheld their hands from you, And fear Allah, and in Allah let the believers trust.
عمومی احسانات یاد دلانےکے بعد بعض خصوصی احسان یاد دلاتے ہیں یعنی قریش مکہ اور ان کے پٹھوؤں نے حضور پر نور ﷺ کو صدمہ پہنچانے اور اسلام کو مٹانے کے لئےکس قدر ہاتھ پاؤں مارے مگر حق تعالیٰ کے فضل و رحمت نے ان کا کوئی داؤ چلنے نہ دیا۔ اس احسان عظیم کا اثر یہ ہونا چاہئے کہ مسلمان غلبہ اور قابو حاصل کر لینے کے باوجود اپنے دشمنوں کو ہر قسم کے ظلم اور زیادتی سے محفوظ رکھیں اور جوش انتقام میں عدل و انصاف کا رشتہ ہاتھ سے نہ چھوڑیں جیسا کہ پچھلی آیات میں اس کی تاکید کی گئ ہے۔ ممکن ہے کسی کو یہ شبہ گذرے کہ ایسے معاند دشمنوں کے حق میں اس قدر رواداری کی تعلیم کہیں اصول سیاست کے خلاف تو نہ ہو گی کیونکہ ایسا نرم برتاؤ دیکھ کر مسلمانوں کے خلاف شریروں اور بد باطنوں کی جرأت بڑھ جانے کا قوی احتمال ہے اس کا ازالہ { وَاتَّقُوااللہَ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ } سے فرما دیا یعنی مومن کی سب سے بڑی سیاست "تقویٰ" اور "توکل علی اللہ" (خدا سے ڈرنا اور اسی پر بھروسہ کرنا) ہے خدا سےڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں اس سے اپنا معاملہ صاف رکھو اور جو عہد و اقرار کئے ہیں ان میں پوری وفاداری دکھلاتے رہو۔ پھر بحمد اللہ کسی سےکوئی خطرہ نہیں۔ اگلی آیت میں ہماری عبرت کے لئے ایک ایسی قوم کا ذکر فرما دیا۔ جس نے خدا سے نڈر ہو کر بد عہدی اور غداری کی تھی، وہ کس طرح ذلیل و خوار ہوئی۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابتَغوا إِلَيهِ الوَسيلَةَ وَجٰهِدوا فى سَبيلِهِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {5:35}
اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے اور ڈھونڈو اس تک وسیلہ [۱۲۱] اور جہاد کرو اس کی راہ میں تاکہ تمہارا بھلا ہو [۱۲۲]
O ye who believe! fear Allah and seek approach unto Him and strive hard in His way, that haply ye may fare well.
پچھلے رکوع کے آخر میں ان لوگوں کی دنیوی و اخروی سزا بیان فرمائی تھی جو خدا اور رسول سے جنگ کرتے اور ملک میں بدامنی اور فساد پھیلاتے ہیں۔ اس رکوع میں مسلمانوں کو ان سزاؤں سے ڈرا کر بتلایا گیا کہ جب شقی اور بدبخت لوگ خدا اور رسول سے جنگ کریں تو تم خدا اور رسول کی طرف ہو کر جہاد کرو۔ وہ اگر زمین پر فساد پھیلاتے ہیں تو تم اپنی کوشش اور حسن عمل سے امن و سکون قائم کرنے کی فکر کرو۔
وسیلہ کی تفسیر ابن عباس، مجاہد، ابو وائل، حسن وغیرہ ہم اکابر سلف نے قربت سے کی ہے۔ تو وسیلہ ڈھونڈنے کے معنی یہ ہونگے کہ اس کا قرب و وصول تلاش کرو۔ قتادہ نے کہا { ای تقربوا الیہ بطاعۃ والعمل بما یرضیہ } خدا کی نزدیکی حاصل کرو اس کی فرمانبرداری اور پسندیدہ عمل کے ذریعہ سے ایک شاعر کہتا ہے ؂ اذا غفل الواشون عدنا لو صلنا۔ وعاد التصافی بیننا والو سائل۔ اس میں یہ ہی معنی قرب و اتصال کے مراد ہیں۔ اور وہ جو حدیث میں آیا ہے کہ وسیلہ جنت میں ایک نہایت ہی اعلیٰ منزل ہے جو دنیا میں سے کسی ایک بندہ کو ملے گی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اذان کے بعد میرے لئے خدا سے وہی مقام طلب کیا کرو۔ تو اس مقام کا نام بھی وسیلہ اسی لئے رکھا گیا کہ جنت کی تمام منزلوں میں وہ سب سے زیادہ عرش رحمٰن کے قریب ہے اور حق تعالیٰ کے مقامات قرب میں سب سے بلند واقع ہوا ہے ۔ بہرحال پہلے فرمایا کہ ڈرتے رہو اللہ سے لیکن یہ ڈر ایسا نہیں جیسے آدمی سانب بچھو یا شیر بھیڑیے سے ڈر کر دور بھاگتا ہے۔ بلکہ اس بات سے ڈرنا کہ کہیں اس کی خوشنودی اور رحمت سے دور نہ جا پڑو۔ اسی لئے { اتَّقُوااللہَ } کے بعد { وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ } فرمایا یعنی اس کی ناخوشی اور بعد و ہجر سے ڈر کر قرب و وصول حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور ظاہر ہے کہ کسی چیز سے قریب ہم اسی وقت ہو سکتے ہیں جبکہ درمیانی راستہ قطع کر لیں جس پر چل کر اس کے پاس پہنچ سکتے ہوں۔ اسی کو فرمایا { وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہ ٖ} جہاد کرو اس کی راہ میں۔ یعنی اس پر چلنے کی پوری پوری کوشش کرو۔ { لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ } تاکہ تم اس کی نزدیکی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصٰرىٰ أَولِياءَ ۘ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم ۗ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الظّٰلِمينَ {5:51}
اے ایمان والو مت بناؤ یہود اور نصاریٰ کو دوست [۱۶۲] وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے [۱۶۳] اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں ہے [۱۶۴] اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو [۱۶۵]
O ye who believe! take not the Jews and the Nazarenes as friends: friends they are to each other: and whosoever of you befriendeth them, verily he is of them; verily Allah guideth not a wrong-doing people.
یعنی ان ہی کے زمرہ میں شامل ہے یہ آیتیں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے باب میں نازل ہوئی تھیں۔ یہود سے اس کا بہت دوستانہ تھا اس کا گمان تھا کہ اگر مسلمانوں پر کوئی افتاد پڑی اور پیغمبر ﷺ کی جماعت مغلوب ہو گئ تو یہود سے ہماری یہ دوستی کام آئے گی۔ اسی واقعہ کی طرف اگلی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ تو فی الحقیقت یہود کے ساتھ منافقین کی موالات کا اصلی منشا یہ تھا کہ یہود جماعت اسلام کے مد مقابل اور مذہب اسلام کے بدترین دشمن تھے ظاہر ہے کہ جو شخص یہود و نصاریٰ یا کسی جماعت کفار کے ساتھ اس نیت اور حیثیت سےموالات کرے کہ وہ دشمن اسلام ہے۔ اس کے کفر میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ منافقین میں کچھ لوگ اور بھی تھے جنہوں نے جنگ احد میں لڑائی کا پانسہ بدلا ہوا دیکھ کر کہنا شروع کیا تھا کہ ہم تو اب فلاں یہودی یا فلاں نصرانی سے دوستانہ گانٹھیں گے اور ضرورت پیش آنے پر ان ہی کا مذہب اختیار کر لیں گے اس قماش کے لوگوں کی نسبت بھی { وَمَنْ یَّتَوَ لَّھُمْ مَّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ } کا ظاہری مدلول علانیہ صادق ہے۔ رہے وہ مسلمان جو اس قسم کی نیت اور منشا سے خالی ہو کر یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کریں چونکہ ان کی نسبت بھی قوی خطرہ رہتا ہے کہ وہ کفار کی حد سے زیادہ ہم نشینی اور اختلاط سے متاثر ہو کر رفتہ رفتہ ان ہی کا مذہب اختیار کر لیں۔ یا کم از کم شعائر کفر اور رسوم شرکیہ سے کارہ اور نفور نہ رہیں۔ اس اعتبار سے فانہ منھم کا اطلاق ان کے حق میں بھی ہو سکتا ہے جیساکہ حدیث المرأمع من احب نے اس مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے۔
اولیاء ولی کی جمع ہے ولی دوست کو بھی کہتےہیں قریب کو بھی ناصر اور مددگار کو بھی غرض یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ بلکہ تمام کفار سے جیسا کہ سورہ نساء میں تصریح کی گئ ہے مسلمان دوستانہ تعلقات قائم نہ کریں اس موقع پر یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ موالات مروت و حسن سلوک، مصالحت، رواداری اور عدل و انصاف یہ سب چیزیں الگ الگ ہیں۔ اہل اسلام اگر مصلحت سمجھیں تو ہر کافر سےصلح اور عہد و پیمان مشروع طریقہ پر کر سکتے ہیں۔ { وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللہِ } (انفال رکوع ۸) عدل و انصاف کا حکم جیسا کہ گذشتہ آیات سے معلوم ہو چکا مسلم و کافر ہر فرد بشر کے حق میں ہے۔ مروت اور حسن سلوک یا رواداری کا برتاؤ ان کفار کے ساتھ ہو سکتا ہے جو جماعت اسلام کے مقابلہ میں دشمنی اور عناد کا مظاہرہ نہ کریں۔ جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں تصریح ہے۔ باقی موالات یعنی دوستانہ اعتماد اور برادرانہ مناصرت و معاونت تو کسی مسلمان کو حق نہیں کہ یہ تعلق کسی غیر مسلم سے قائم کرے۔ البتہ صوری موالات جو { الا ان تتقو ا منھم تقاہ } کے تحت میں داخل ہو اور عام تعاون جس کا اسلام اور مسلمانوں کی پوزیشن پر کوئی برا اثر نہ پڑے اس کی اجازت ہے۔ بعض خلفائے راشدین سے اس بارہ میں جو غیر معمولی تشدید و تضیق منقول ہے اس کو محض سد ذرائع اور مزدی احتیاط پر مبنی سمجھنا چاہئے۔
یعنی مذہبی فرقہ بندی اور اندرونی بغض و عداوت کے باوجود باہم ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں یہودی یہودی کا، نصرانی نصرانی کا دوست بن سکتا ہے اور جماعت اسلام کے مقابلہ میں سب کفار ایک دوسرے کے دوست اور معاون بن جاتے ہیں۔ الکفر ملۃ واحدۃ۔
یعنی جو لوگ کہ دشمنان اسلام سےموالات کر کے خود اپنی جان پر اور مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں اور جماعت اسلام کے مغلوب و مقہور ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ایسی بدبخت معاند اور دغاباز قوم کی نسبت یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کبھی راہ ہدایت پر آئے گی۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا مَن يَرتَدَّ مِنكُم عَن دينِهِ فَسَوفَ يَأتِى اللَّهُ بِقَومٍ يُحِبُّهُم وَيُحِبّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى المُؤمِنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الكٰفِرينَ يُجٰهِدونَ فى سَبيلِ اللَّهِ وَلا يَخافونَ لَومَةَ لائِمٍ ۚ ذٰلِكَ فَضلُ اللَّهِ يُؤتيهِ مَن يَشاءُ ۚ وَاللَّهُ وٰسِعٌ عَليمٌ {5:54}
اے ایمان والو جو کوئی تم میں پھرے گا اپنے دین سے تو اللہ عنقریب لاوے گا ایسی قوم کو کہ اللہ انکو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں نرم دل ہیں مسلمانوں پر زبردست ہیں کافروں پر لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں اور ڈرتے نہیں کسی کے الزام سے [۱۶۸] یہ فضل ہے اللہ کا دے گا جس کو چاہے اور اللہ کشائش والا ہے خبردار [۱۶۹]
O ye who believe! whosoever of you apostateth from his religion, then presently Allah shall bring a people whom He shall love and who shall love Him, gentle toward the believers, stern toward the infidels, striving hard in the way of Allah, and fearing not the reproof of any reprover. This is the grace of Allah; He bestoweth it on whomsoever He will. And Allah is Bountiful, Knowing.
انسان پر بڑی سعادت اور اس پر خدا کا بڑا فضل یہ ہے کہ وہ فتنہ کے وقت خود جادہ حق پر ثابت قدم رہ کر دوسروں کو ہلاکت سے بچانے کی فکر کرے۔ خدا جن بندوں کو چاہے اس سعادت کبریٰ اور فضل عظیم سے حصہ وافر عطا فرماتا ہے۔ اس کا فضل غیر محدود ہے اور وہ ہی خوب جانتا ہے کہ کون سا بندہ اس کا اہل اور مستحق ہے۔
اس آیت میں اسلام کی ابدی بقا اور حفاظت کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی کی گئ ہے۔ پچھلی آیات میں کفار کی موالات سے منع کیا گیا تھا۔ ممکن تھا کہ کوئی شخص یا قوم موالات کفار کی بدولت صریحًا اسلام سے پھر جائے جیسا کہ { وَمَنْ یَّتَوَ لَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ } میں تنبیہ کی گئ ہے قرآن کریم نے نہایت قوت اور صفائی سے آگاہ کر دیا کہ ایسے لوگ اسلام سے پھر کر کچھ اپنا ہی نقصان کریں گے اسلام کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے حق تعالیٰ مرتدین کے بدلے میں یا ان کے مقابلہ پر ایسی قوم لے آئے گا جن کو خدا کا عشق ہو اور خدا ان سے محبت کرے وہ مسلمانوں پر شفیق و مہربان اور دشمنان اسلام کے مقابلہ میں غالب اور زبردست ہوں گے۔ یہ پیشن گوئی بحول اللہ و قوتہ ہر قرن میں پوری ہوتی رہی۔ ارتداد کا سب سے بڑا فتنہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد صدیق اکبرؓ کے دور میں پھیلا۔ کئ طرح کے مرتدین اسلام کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے۔ مگر صدیق اکبرؓ کی ایمانی جرأت اور اعلیٰ تدبر اور مخلص مسلمانوں کی سرفروشانہ اور عاشقانہ خدمات اسلام نے اس آگ کو بجھایا اور سارے عرب کو متحد کر کے ازسرنو اخلاص و ایمان کے راستہ پر گامزن کر دیا۔ آج بھی ہم مشاہدہ کر تے رہتے ہیں کہ جب کبھی چند جاہل اور طامع افراد اسلام کے حلقہ سے نکلنے لگتے ہیں تو ان سے زیادہ اور ان سے بہتر تعلیم یافتہ اور محقق غیر مسلموں کو اسلام فطری کشش سے اپنی طرف جذب کر لیتا ہے اور مرتدین کی سرکوبی کے لئے خدا ایسے وفادار اور جان نثار مسلمانوں کو کھڑا کر دیتا ہے جنہیں خدا کے راستہ میں کسی کی ملامت اور طعن و تشنیع کی پروا نہیں ہوتی۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا الَّذينَ اتَّخَذوا دينَكُم هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتٰبَ مِن قَبلِكُم وَالكُفّارَ أَولِياءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ {5:57}
اے ایمان والو مت بناؤ ان لوگوں کو جو ٹھہراتے ہیں تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل وہ لوگ جو کتاب دیے گئے تم سے پہلے اور نہ کافروں کو [۱۷۲] اپنا دوست اور ڈرو اللہ سے اگر ہو تم ایمان والے [۱۷۳]
O ye who believe! take not as friends those who make a mockery and fun of your religion from among those who have been vouchsafed the Book before you and other infidels. And fear Allah if ye are believers.
کفار سے مراد یہاں مشرکین ہیں۔ جیسا کہ عطف سے ظاہر ہے۔
گذشتہ آیات میں مسلمانوں کو موالات کفار سے منع فرمایا تھا۔ اس آیت میں ایک خاص موثر عنوان سے اسی ممانعت کی تاکید کی گئ اور موالات سے نفرت دلائی گئ ہے۔ ایک مسلمان کی نظر میں کوئی چیز اپنے مذہب سے زیادہ معظم و محترم نہیں ہو سکتی۔ لہذا اسے بتایا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین تمہارے مذہب پر طعن و استہزاء کرتے ہیں اور شعائر اللہ (اذان وغیرہ) کا مذاق اڑاتے ہیں اور جو ان میں خاموش ہیں وہ بھی ان افعال شنعیہ کو دیکھ کر اظہار نفرت نہیں کرتے۔ بلکہ خوش ہوتے ہیں۔ کفار کی ان احمقانہ اور کمینہ حرکات پر مطلع ہو کر کوئی فرد مسلم جس کے دل میں خشئیہ الہٰی اور غیرت ایمانی کا ذرا سا شائبہ ہو کیا ایسی قوم سے موالات اور دوستانہ راہ و رسم پیدا کرنے یا قائم رکھنے کو ایک منٹ کے لئے گوارا کرے گا۔ اگر ان کے کفر و عناد اور عداوت اسلام سے بھی قطع نظر کر لی جائے تو دین قیم کےساتھ ان کا یہ تمسخر و استہزاء ہی علاوہ دوسرےاسباب کے ایک مستقل سبب ترک موالات کا ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُحَرِّموا طَيِّبٰتِ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكُم وَلا تَعتَدوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ {5:87}
اے ایمان والو مت حرام ٹھہراؤ وہ لذیذ چیزیں جو اللہ نے تمہارے لئےحلال کردیں اور حد سے نہ بڑھو بیشک اللہ پسند نہیں کرتا حد سے بڑھنے والوں کو
O ye who believe! forbid not the clean things of that which Allah hath allowed unto you, and trespass not verily Allah approveth not the trespassers.


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {5:90}
اے ایمان والو یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے [۲۲۳] سب گندے کام ہیں شیطان کے سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ [۲۲۴]
O ye who believe! wine and gambling and stone altars and divining arrows are only an abomination, a handiwork of Satan, shun it wherefore, that haply ye may fare well.
"انصاب" و "ازلام" کی تفسیر اسی سورت کی ابتداء میں { وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْابِالْاَزْلَامِ } کے تحت میں گذر چکی۔
اس آیت سے پہلے بھی بعض آیات خمر (شراب) کے بارہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ اول یہ آیت نازل ہوئی۔ { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِؕ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا } (بقرہ رکوع ۲۷) گو اس سے نہایت واضح اشارہ تحریم خمر کی طرف کیا جا رہا تھا مگر چونکہ صاف طور پر اس کے چھوڑنے کا حکم نہ تھا اس لئےحضرت عمرؓ نے سن کر کہا { اللّٰھم بَیِّنْ لَنَا بَیَانًا شافیًا } اس کے بعد دوسری آیت آئی { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی } (نساء رکوع ۶) اس میں بھی تحریم خمر کی تصریح نہ تھی گو نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت ہوئی اور یہ قرینہ اسی کا ذکر تھا کہ غالبًا یہ چیز عنقریب کلیۃً حرام ہونے والی ہے۔ مگر چونکہ عرب میں شراب کا رواج انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اس کا دفعۃً چھڑا دینا مخاطبین کے لحاظ سےسہل نہ تھا اس لئے نہایت حکیمانہ تدریج سے اولًا قلوب میں اس کی نفرت بٹھلائی گئ اور آہستہ آہستہ حکم تحریم سے مانوس کیا گیا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس دوسری آیت کو سن کر پھر وہ ہی لفط کہے { اللّٰھم بَیِّنْ لَنَا بَیَانًا شافیًا } آخرکار "مائدہ" کی یہ آیتیں جو اس وقت ہمارےسامنے ہیں { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } سے {ف َھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ } تک نازل کی گئیں۔ جس میں صاف صاف بت پرستی کی طرح اس گندی چیز سےبھی اجتناب کرنے کی ہدایت تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ { فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ } سنتے ہی چلا اٹھے { اِنْتَھَیْنَا اِنْتَھَیْنَا } لوگوں نےشراب کے مٹکے توڑ ڈالے، خم خانے برباد کر دیے۔ مدینہ کی گلی کوچوں میں شراب پانی کی طرح بہتی پھرتی تھی۔ سارا عرب اس گندی شراب کو چھوڑ کر معرفت ربانی اور محبت و اطاعت نبوی کی شراب طہور سے مخمور ہو گیا اور ام الخبائث کے مقابلہ پر حضور ﷺ کا یہ جہاد ایسا کامیاب ہوا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ خدا کی قدرت دیکھو کہ جس چیز کو قرآن کریم نے اتنا پہلےاتنی شدت سے روکا تھا آج سب سے بڑےشراب خوار ملک امریکہ وغیرہ اس کی خرابیوں اور نقصانات کو محسوس کر کے اس کے مٹا دینے پر تلے ہوئےہیں فللہ الحمد و المنتہ۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لَيَبلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيءٍ مِنَ الصَّيدِ تَنالُهُ أَيديكُم وَرِماحُكُم لِيَعلَمَ اللَّهُ مَن يَخافُهُ بِالغَيبِ ۚ فَمَنِ اعتَدىٰ بَعدَ ذٰلِكَ فَلَهُ عَذابٌ أَليمٌ {5:94}
اے ایمان والو البتہ تم کو آزماوے گا اللہ ایک بات سے اس شکار میں کہ جس پر پہنچے ہیں ہاتھ تمہارے اور نیزےتمہارے [۲۲۸] تاکہ معلوم کرے اللہ کون اس سے ڈرتا ہے بن دیکھے [۲۲۹] پھر جس نے زیادتی کی اس کے بعد تو اس کے لئے عذاب دردناک ہے
O ye who believe! Allah shall surely prove you with aught of the chases which your hands and your lances may reach, in order that Allah may know whosoever feareth Him unseen; so whosoever shall trespass thereafter, for him is a torment afflictive.
لیعلم اللہ کے لفظ سےجو حدوث علم باری کا وہم گذرتا ہے اس کےازالہ کے لئے پارہ سیقول کے شروع میں { اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ } کا فائدہ ملاحظہ کرو۔
پچھلے رکوع میں تحریم طیبات اور اعتداء سے منع فرما کر بعض چیزوں سے اجتناب کا حکم دیا تھا جو دائمی طور پر حرام ہیں اس رکوع میں بعض ایسی اشیاء کے ارتکاب سےمنع کیا گیا ہے جن کی حرمت دائمی نہیں بلکہ بعض احوال و اوضاع سے مخصوص ہے، یعنی بحالت احرام شکار کرنا مطلب یہ ہے کہ خدا کی طرف سے مطیع و فرمانبردار بندوں کا یہ امتحان ہےکہ وہ حالت احرام میں جبکہ شکار ان کےسامنے ہو اور بسہولت اس کے مارنے یا پکڑنے پر بھی قادر ہوں کون ہے جو بن دیکھے خدا سے ڈر کر اس کے حکم کا امتثال کرتا اور اعتداء (احکام خداوندی سے تجاوز کرنے) کی خدائی سزا سےخوف کھاتا ہے۔ اصحاب سبت کا قصہ سورہ بقرہ میں گذر چکا کہ ان کو حق تعالیٰ نے خاص شنبہ کے دن مچھلی کے شکار کی ممانعت فرمائی تھی۔ مگر انہوں نے مکاری اور حیلہ بازی سے اس حکم کی مخالفت کی اور حد سے تجاوز کر گئے۔ خدا نےان پر نہایت رسوا کن عذاب نازل فرمایا اسی طرح حق تعالیٰ نے امت محمدیہ کا تھوڑا سا امتحان اس مسئلہ میں لیا کہ حالت احرام میں شکار نہ کریں۔ حدیبیہ کے موقع پر جب یہ حکم بھیجا گیا تو شکار اس قدر کثیر اور قریب تھا کہ ہاتھوں اور نیزوں سے مار سکتے تھے۔ مگر اصحاب رسول اللہ ﷺ نےثابت کر دکھایا کہ خدا کے امتحان میں ان کے برابر دنیا کی کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکی۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقتُلُوا الصَّيدَ وَأَنتُم حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُتَعَمِّدًا فَجَزاءٌ مِثلُ ما قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحكُمُ بِهِ ذَوا عَدلٍ مِنكُم هَديًا بٰلِغَ الكَعبَةِ أَو كَفّٰرَةٌ طَعامُ مَسٰكينَ أَو عَدلُ ذٰلِكَ صِيامًا لِيَذوقَ وَبالَ أَمرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمّا سَلَفَ ۚ وَمَن عادَ فَيَنتَقِمُ اللَّهُ مِنهُ ۗ وَاللَّهُ عَزيزٌ ذُو انتِقامٍ {5:95}
اے ایمان والو نہ مارو شکار جس وقت تم ہو احرام میں [۲۳۰] اور جو کوئی تم میں اس کو مارے جان کر [۲۳۱] تو اس پر بدلا ہے اس مارے ہوئے کے برابر مویشی میں سے جو تجویز کریں دو آدمی معتبر تم میں سے اس طرح سے کہ وہ جانور بدلے کا بطور نیاز پہنچایا جاوے کعبہ تک یا اس پر کفارہ ہے چند محتاجوں کو کھلانا یا اس کےبرابر روزے تاکہ چکھے سزا اپنے کام کی [۲۳۲] اللہ نے معاف کیا جو کچھ ہو چکا [۲۳۳] اور جو کوئی پھر کرے گا اس سے بدلا لے گا اللہ اور اللہ زبردست ہے بدلا لینے والا [۲۳۴]
O ye who believe! slay not chase while ye are in a state of sanctity; and whosoever of you slayeth it wittingly, his compensation is the like of that which he hath slain, in domestic flocks, which two equitable persons among you shall judge: an offering brought to the Ka'ba; or as an expiation the feeding of the needy, or the equivalent thereof in fasts, that he may taste the grievousness of his deed. Allah hath pardoned that which is past, but whosoever returnoth, Allah shall take retribution from him; verily Allah is Mighty, Lord of Retribution
یعنی نہ کوئی مجرم اس کےقبضہ قدرت سےنکل کر بھاگ سکتا ہے۔ اور بہ مقتضائے عدل و حکمت جو جرائم سزا دینے کےقابل ہیں نہ خدا ان سے درگذر کرنے والا ہے۔
حنفیہ کے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اگر احرام میں شکار پکڑا تو فرض ہے کہ چھوڑ دے۔ اگر مار دیا تو دو صاحب بصیرت اور تجربہ کار معتبر آدمیوں سےاس جانور کی قیمت لگوائے۔ اسی قدرو قیمت کا مواشی میں سے ایک جانور لےکر (مثلًا بکری، گائے، اونٹ وغیرہ) کعبہ کے نزدیک یعنی حدود حرم میں پہنچا کر ذبح کر ے اور خود اس میں سے نہ کھائے۔ یا اسی قیمت کا غلہ لے کر محتاجوں کو فی محتاج صدقۃ الفطر کی مقدار تقسیم کر دے یا جس قدر محتاجوں کو پہنچتا، اتنے ہی دنوں کے روزے رکھ لے۔
یعنی نزول حکم سے پہلے یا اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں کسی نے یہ حرکت کی تھی تو اس سے اب خدا تعرض نہیں کرتا۔ حالانکہ اسلام سے پہلے بھی عرب حالت احرام میں شکار کو نہایت برا جانتے تھے اس لئے اس پر مواخذہ ہونا بےجا نہ تھا کہ جو چیز تمہارے زعم کے موافق جرائم میں داخل تھی اس کا ارتکاب کیوں کیا گیا۔
جان کر مارنے کا یہ مطلب ہے کہ اپنا محرم ہونا یاد ہو اور یہ بھی مستحضر ہو کہ حالت احرام میں شکار جائز نہیں۔ یہاں صرف "متعمد" کا حکم بیان فرمایا کہ اس کےفعل کی جزا یہ ہے اور خدا جو انتقام لے گا وہ الگ رہا۔ جیسا کہ { وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللہُ مِنْہُ } سےتنبیہ فرمائی۔ اور اگر بھول کر شکار کیا تو جزا تو یہ ہی رہے گی یعنی ہدی یا طعام یا صیام البتہ خدا اس سے انتقامی سزا اٹھا لے گا۔
اس کے متعلق بعض احکام سورہ مائدہ کے شروع میں گذر چکے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَسـَٔلوا عَن أَشياءَ إِن تُبدَ لَكُم تَسُؤكُم وَإِن تَسـَٔلوا عَنها حينَ يُنَزَّلُ القُرءانُ تُبدَ لَكُم عَفَا اللَّهُ عَنها ۗ وَاللَّهُ غَفورٌ حَليمٌ {5:101}
اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں تو تم کو بری لگیں اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جاویں گی [۲۴۱] اللہ نے ان سے درگذر کی ہے [۲۴۲] اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے
O ye who believe! ask not about things which if disclosed to you, may annoy you; and if ye ask about them while the Qur'an is being revealed, they may be disclosed to you. Allah hath pardoned that; and Allah is Forgiving, Forbearing.
پچھلے دو رکوع کا حاصل احکام دینیہ میں غلو اور تساہل سے روکنا تھا یعنی جو طیبات خدا نےحلال کی ہیں انکو اپنے اوپر حرام مت ٹھہراؤ۔ اور جو چیزیں خبیث و حرام ہیں خواہ دائمی طور پر یا خاص احوال و اوقات میں ان سے پوری طرح اجتناب کرو۔ ان آیات میں تنبیہ فرما دی کہ جو چیزیں شارع نے تصریحًا بیان نہیں فرمائیں ان کے متعلق فضول اور دورازکار سوالات مت کیا کرو۔ جس طرح تحلیل و تحریم کے سلسلہ میں شارع کا بیان موجب ہدایت و بصیرت ہے۔ اس کا سکوت بھی ذریعہ رحمت و سہولت ہے۔ خدا نے جس چیز کو کمال حکمت و عدل سے حلال یا حرام کر دیا وہ حلال یا حرام ہو گئ اور جس سے سکوت کیا اس میں گنجائش اور توسیع رہی مجتہدین کو اجتہاد کا موقع ملا عمل کرنے والے اس کے فعل و ترک میں آزاد رہے۔ اب اگر ایسی چیزوں کی نسبت خواہ مخواہ کھود کرید او ر بحث و سوال کا دروازہ کھولا جائے گا۔ بحالیکہ قرآن شریف نازل ہو رہا ہے اور تشریح کا بات مفتوح ہے۔ تو بہت ممکن ہے کہ سوالات کے جواب میں بعض ایسے احکام نازل ہو جائیں جن کے بعد تمہاری یہ آزادی اور گنجائش اجتہاد باقی نہ رہے۔ پھر یہ سخت شرم کی بات ہو گی کہ جو چیز خود مانگ کر لی ہے اس کو نبھا نہ سکیں۔ سنت اللہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب کسی معاملہ میں بکثرت سوال اور کھود کرید کی جائے اور خواہ مخواہ شقوق و احتمالات نکالے جائیں تو ادھر سے تشدیدی (سختی) بڑھتی جاتی ہے۔ کیونکہ اس طرح کے سوالات ظاہر کرتے ہیں کہ گویا سائلین کو اپنے نفس پر بھروسہ ہے اور جو حکم ملے گا اس کے اٹھانے کے لئے وہ بہمہ وجوہ تیار ہیں۔ اس قسم کا دعویٰ جو بندہ کے ضعف و افتقار کے مناسب نہیں مستحق بنا دیتا ہے کہ ادھر سے حکم میں کچھ سختی ہو اور جتنا یہ اپنےکو قابل ظاہر کرتا ہے اسی کے موافق امتحان بھی سخت ہو چنانچہ بنی اسرائیل کے "ذبح بقرہ" والےقصہ میں ایسا ہی ہوا حدیث میں ہےکہ نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا کہ اے لوگو خدا نے تم پر حج فرض کیا ہے ایک شخص بول اٹھا کیا ہر سال یا رسول اللہ فرمایا اگر میں (ہاں) کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا پھر تم ادا نہ کر سکتے۔ جس چیز میں میں تم کو آزاد چھوڑ دوں تم بھی مجھ کو چھوڑ دو ایک حدیث میں مسلمانوں میں وہ شخص بڑا مجرم ہے جس کےسوالات کی بدولت ایسی چیز حرام کی گئ جو حرام نہ تھی۔ بہرحال یہ آیت احکام شرعیہ کے باب میں اس طرح کے دورازکار اور بےضرورت سوالات کا دروازہ بند کرتی ہے۔ باقی بعض احادیث میں جو یہ مذکو رہے کہ کچھ لوگ نبی کریم ﷺ سےجزئی واقعات کے متعلق لغو سوال کرتے تھے ان کو روکا گیا وہ ہماری تقریر کےمخالف نہیں۔ ہم { لا تسئلوا عن اشیاء } میں "اشیاء" کو عام رکھتے ہیں جو واقعات و احکام دونوں کو شامل ہے اور "تسئوکم" میں بھی جو برا لگنے کے معنی پر مشتمل ہے تعمیم رکھی جائے۔ حاصل یہ ہوگا کہ نہ احکام کے باب میں فضول سوالات کیا کرو اور نہ واقعات کے سلسلہ میں کیونکہ ممکن ہے جو جواب آئے وہ تم کو ناگوار ہو مثلًا کوئی سخت حکم آیا یا کوئی قید بڑھ گئ یا ایسے واقعہ کا اظہار ہوا جس سے تمہاری فضیحت ہو یا بیہودہ سوالات پر ڈانٹ بتلائی گئ یہ سب احتمالات تسئوکم کےتحت میں داخل ہیں۔ باقی ضروری بات پوچھنے یا شبہ ناشی عند دلیل کے رفع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
یا تو مراد یہ ہے کہ ان اشیاء سے درگذر کی یعنی جب خدا نے انکے متعلق کوئی حکم نہ دیا تو انسان ان کے بارہ میں آزاد ہے خدا ایسی چیزوں پر گرفت نہ کرے گا۔ چنانچہ اسی سے بعض علمائے اصول نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے اور یا یہ کہ ان فضول سوالات سے جو پہلے کر چکے ہو اللہ نے درگذر کی آیندہ احتیاط رکھو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا عَلَيكُم أَنفُسَكُم ۖ لا يَضُرُّكُم مَن ضَلَّ إِذَا اهتَدَيتُم ۚ إِلَى اللَّهِ مَرجِعُكُم جَميعًا فَيُنَبِّئُكُم بِما كُنتُم تَعمَلونَ {5:105}
اے ایمان والو تم پر لازم ہے فکر اپنی جان کا تمہارا کچھ نہیں بگاڑتا جو کوئی گمراہ ہوا جبکہ تم ہوئے راہ پر [۲۴۶] اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے تم سب کو پھر وہ جتلاوے گا تمکو جو کچھ تم کرتےتھے [۲۴۷]
O ye who believe! on you resteth the case of yourselves; it can hurt you not as to whosoever strayeth so long as ye keep yourselves guided. Unto Allah is the return of you all; then He shall declare unto you that which ye were wont to work.
یعنی جو گمراہ رہا اور جس نے راہ پائی سب کےنیک و بد اعمال اور ان کے نتائج سامنے کر دیے جائیں گے۔
یعنی اگر کفار رسوم شرکیہ اور آباء اجداد کی اندھی تقلید سے باوجود اس قدر نصیحت و فہمائش کے باز نہیں آتے تو تم زیادہ اس غم میں مت پڑو۔ کسی کی گمراہی سے تمہارا کوئی نقصان نہیں بشرطیکہ تم سیدھی راہ پر چل رہے ہو۔ سیدھی راہ یہ ہی ہے کہ آدمی ایمان و تقویٰ اختیار کرے خود برائی سے رکے اور دوسروں کو روکنے کی امکانی کوشش کرے۔ پھر بھی اگر لوگ برائی سےنہ رکیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں۔ اس آیت سے یہ سمجھ لینا کہ جب ایک شخص اپنا نماز روزہ ٹھیک کر لے تو "امر بالمعروف" چھوڑ دینے سے اسے کوئی مضرت نہیں ہوتی، سخت غلطی ہے لفظ "اہتداء" امر بالمعروف وغیرہ تمام وظائف ہدایت کو شامل ہے۔ اس آیت میں گو روئے سخن بظاہر مسلمانوں کی طرف ہے۔ لیکن ان کفار کو بھی متنبہ کرنا ہے جو باپ دادا کی کورانہ تقلید پر اڑے ہوئے تھے۔ یعنی اگر تمہارے باپ دادا راہ حق سے بھٹک گئے تو ان کی تقلید میں اپنے کو جان بوجھ کر کیوں ہلاک کرتے ہو۔ انہیں چھوڑ کر تم اپنی عاقبت کی فکر کرو۔ اور نفع و نقصان کو سمجھو۔ باپ دادا اگر گمراہ ہوں اور اولاد ان کےخلاف راہ حق پر چلنے لگے تو آبا ؤ اجداد کی یہ مخالفت اولاد کو قطعًا مضر نہیں۔ یہ خیالات محض جہالت کے ہیں کہ کسی حال بھی آدمی باپ دادا کے طریقہ سے قدم باہر نہ رکھے۔ رکھے گا تو ناک کٹ جائے۔ عقلمندکو چاہیئےکہ انجام کا خیال کرے سب اگلے پچھلے جب خدا کے سامنے اکٹھے پیش ہوں گے تب ہر ایک کو اپنا عمل اور انجام نظر آ جائے گا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا شَهٰدَةُ بَينِكُم إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوتُ حينَ الوَصِيَّةِ اثنانِ ذَوا عَدلٍ مِنكُم أَو ءاخَرانِ مِن غَيرِكُم إِن أَنتُم ضَرَبتُم فِى الأَرضِ فَأَصٰبَتكُم مُصيبَةُ المَوتِ ۚ تَحبِسونَهُما مِن بَعدِ الصَّلوٰةِ فَيُقسِمانِ بِاللَّهِ إِنِ ارتَبتُم لا نَشتَرى بِهِ ثَمَنًا وَلَو كانَ ذا قُربىٰ ۙ وَلا نَكتُمُ شَهٰدَةَ اللَّهِ إِنّا إِذًا لَمِنَ الءاثِمينَ {5:106}
اے ایمان والو گواہ درمیان تمہارے جبکہ پہنچے کسی کو تم میں موت وصیت کے وقت دو شخص معتبر ہونے چاہئیں [۲۴۸] تم میں سے [۲۴۹] یا دو شاہد اور ہوں تمہارے سوا [۲۵۰] اگر تم نے سفر کیا ہو ملک میں پھرپہنچے تم کو مصیبت موت کی تو کھڑا کرو ان دونوں کو بعد نماز کے [۲۵۱] وہ دونوں قسم کھاویں اللہ کی اگر تم کو شبہ پڑے کہیں کہ ہم نہیں لیتے قسم کے بدلے مال اگرچہ کسی کو ہم سے قرابت بھی ہو اور ہم نہیں چھپاتے اللہ کی گواہی نہیں تو ہم بیشک گنہگار ہیں [۲۵۲]
O ye who believe! the testimony amongst you, when death presenteth itself to you, at the making of a bequest shall be that of two equitable persons from amongst you, or two others from amongst those not of you, if ye be journeying in the earth and the affliction of death afflicteth you. O Ye shall detain the twain after the prayer, if ye be in doubt, and they shall swear by Allah affirming: we shall not barter it for a price, even though he be a kinsman, and we shall not hide the testimony of Allah, for then verily we shall be of the sinners.
یعنی مسلمانوں میں سے۔
یعنی غیر مسلم۔
یعنی نماز عصر کے بعد کہ وہ وقت اجتماع اور قبول کا ہے شاید ڈر کر جھوٹی قسم نہ کھائیں۔ یا کسی نماز کے بعد یا وصی جس مذہب کے ہوں ان کی نماز کے بعد۔
یعنی جب خدا کے پاس سب کو جانا ہے تو جانے سے پہلے سب کام ٹھیک کر لو۔ اسی میں سے ایک اہم کام ضروری امور کی وصیت اور اس کےمتعلقات ہیں۔ ان آیات میں وصیت کا بہترین طریقہ تلقین فرمایا ہے۔ یعنی مسلمان اگر مرتے وقت کسی کو اپنا مال وغیرہ حوالہ کرے تو بہتر ہے کہ دو معتبر مسلمانوں کو گواہ کرے۔ مسلمان اگر نہ ملیں جیسےسفر وغیرہ میں اتفاق ہو جاتا ہے تو دو کافروں کو وصی بنائے۔ پھر اگر وارثوں کو شبہ پڑ جائے کہ ان شخصوں نے کچھ مال چھپا لیا اور وارث دعویٰ کر دیں اور دعویٰ کے ساتھ شاہد موجود نہ ہو تو وہ دونوں شخص قسم کھائیں کہ ہم نے نہیں چھپایا اور ہم کسی طمع یا قرابت کی وجہ سےجھوٹ نہیں کہہ سکتے اگر کہیں تو گنہگار ہیں۔
یعنی بہتر یہ ہے ۔ باقی اگر دو نہ ہوں یا معتبر نہ ہوں تب بھی وصی بنا سکتا ہے اور گواہ سے مراد یہاں وصی ہے اس کےاقرار و اظہار کو گواہی سے تعبیر فرما دیا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا لَقيتُمُ الَّذينَ كَفَروا زَحفًا فَلا تُوَلّوهُمُ الأَدبارَ {8:15}
اے ایمان والو جب بھڑو تم کافروں سے میدان جنگ میں تو مت پھیرو ان سے پیٹھ [۸]
O Ye who believe! whenever ye those who disbelieve matching meet slowly turn to them not your backs.
{ فرار مِنَ الزَّحْف } (جہاد میں سے نکل کر بھاگنا اور لڑائی میں کفار کو پیٹھ دکھانا) بہت سخت گناہ اکبرالکبائر میں سے ہے۔ اگر کافر تعداد میں مسلمانوں سے دگنے ہوں اس وقت تک فقہاء نے پیٹھ پھیرنے کی اجازت نہیں دی۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَرَسولَهُ وَلا تَوَلَّوا عَنهُ وَأَنتُم تَسمَعونَ {8:20}
اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور اسکے رسول کا اور اس سے مت پھرو سن کر [۱۳]
O Ye who believe! obey Allah and His apostle and turn not away therefrom while ye hearken.
پہلے فرمایا تھا کہ "اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے" اب ایمان والوں کو ہدایت فرماتے ہیں کہ ان کا معاملہ خدا و رسول کے ساتھ کیسا ہونا چاہئے؟ جس سے وہ خدا کی نصرت و حمایت کے مستحق ہوں۔ سو بتلا دیا کہ ایک مومن صادق کا کام یہ ہے کہ وہ ہمہ تن خدا اور رسول کا فرمانبردار ہو۔ احوال و حوادث خواہ کتنا ہی اس کا منہ پھیرنا چاہیں مگر خدا کی باتوں کو جب وہ سن کر سمجھ چکا اور تسلیم کر چکا۔ تو قولاً و فعلاً کسی حال ان سے منہ نہ پھیرے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا استَجيبوا لِلَّهِ وَلِلرَّسولِ إِذا دَعاكُم لِما يُحييكُم ۖ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ يَحولُ بَينَ المَرءِ وَقَلبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيهِ تُحشَرونَ {8:24}
اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور رسول کا جس وقت بلائے تم کو اس کام کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے [۱۷] اور جان لو کہ اللہ روک لیتا ہے آدمی سے اس کے دل کو اور یہ کہ اسی کے پاس تم جمع ہو گے [۱۸]
O Ye who believe! answer Allah and the apostle when he calleth you to that which quickeneth you, and know that verily Allah interposeth between a man and his heart, and that verily unto Him ye all shall be gathered.
یعنی خدا اور رسول تم کو جس کام کی طرف دعوت دیتے ہیں (مثلاً جہاد وغیرہ) اس میں از سرتاپا تمہاری بھلائی ہے ان کا دعوتی پیغام تمہارے لئے دنیا میں عزت و اطمینان کی زندگی اور آخرت میں حیات ابدی کا پیغام ہے۔ پس مومنین کی شان یہ ہے کہ خدا اور رسول کی پکار پر فورًا لبیک کہیں۔ جس وقت اور جدھر وہ بلائیں سب اشغال چھوڑ کر ادھر ہی پہنچیں۔
یعنی حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو۔ شاید تھوڑی دیر بعد دل ایسا نہ رہے اپنے دل پر آدمی کا قبضہ نہیں بلکہ دل خدا کے ہاتھ میں ہے جدھر چاہے پھیر دے۔ بیشک وہ اپنی رحمت سے کسی کا دل ابتداءً نہیں روکتا نہ اس پر مہر کرتا ہے۔ ہاں جب بندہ امتثال احکام میں سستی اور کاہلی کرتا رہے تو اس کی جزاء میں روک دیتا ہے۔ یاحق پرستی چھوڑ کر ضد و عناد کو شیوہ بنالے تو مہر کر دیتا ہے۔ کذا فی الموضح۔ بعض نے { یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہ } کو بیان قرب کے لئے لیا ہے۔ یعنی حق تعالیٰ بندہ سے اس قدر قریب ہے کہ اس کا دل بھی اتنا قریب نہیں۔ { نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ } (ق رکوع۲) تو خدا کی حکم برداری سچے دل سے کرو۔ خدا تم سے بڑھ کر تمہارے دلوں کے احوال و سرائر پر مطلع ہے۔ خیانت اس کے آگے نہیں چل سکے گی۔ اسی کے پاس سب کو جمع ہونا ہے وہاں سارے مکنونات و سرائر کھول کر رکھ دئے جائیں گے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَخونُوا اللَّهَ وَالرَّسولَ وَتَخونوا أَمٰنٰتِكُم وَأَنتُم تَعلَمونَ {8:27}
اے ایمان والو خیانت نہ کرو اللہ سے اور رسول سے اور خیانت نہ کرو آپس کی امانتوں میں جان کر [۲۱]
O Ye who believe! defraud not Allah and the apostle, nor defraud your trusts while ye know.
خدا اور رسول کی خیانت یہ ہے کہ ان کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے۔ زبان سے اپنے کو مسلمان کہیں اور کام کفار کے کریں۔ یا جس کام پر خدا و رسول نے مامور کیا ہو اس میں وغل فصل کیا جائے۔ یا مال غنیمت میں چوری کی جائے۔ ونحوذ لک۔ بہرحال ان تمام امانتوں میں جو خدا و رسول یا بندوں کی طرف سے تمہارے سپرد کی جائیں۔ خیانت سے بچو۔ اس میں ہر قسم کے حقوق اللہ و حقوق العباد آ گئے۔ حضرت ابو لبابہ اور بنی قریظہ: روایات میں ہے کہ یہود بنی قریظہ نے جب حضور ﷺ سے صلح کی درخواست کی اور یہ کہ ان کے ساتھ وہ ہی معاملہ کیا جائے جو بنی النضیر کے ساتھ ہوا ہے۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا نہیں، میں تم کو اتنا حق دیتا ہوں کہ سعد بن معاذ کو حکم بنا لو جو فیصلہ وہ تمہاری نسبت کردیں وہ منظور ہونا چاہئے۔ انہوں نے حضرت ابو لبابہ کو حضور ﷺ سے اجازت لے کر اپنے یہاں بلایا اور دریافت کیا کہ تمہاری اس معاملہ میں کیا رائے ہے؟ ہم سعد بن معاذ کی تحکیم منظور کریں یا نہ کریں۔ ابو لبابہ کے اموال اور اہل و عیال بنی قریظہ کے یہاں تھے اس لئے وہ ان کی خیر خواہی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے حلقوم کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا یعنی اگر سعد بن معاذ کی تحکیم قبول کی تو ذبح ہو جاؤ گے۔ ابو لبابہ اشارہ تو کر گذرے مگر معًا متنبہ ہوا کہ میں نے خدا و رسول کی خیانت کی۔ واپس آ کر اپنے کو ایک ستون سے باندھ دیا اور عہد کیا کہ نہ کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا حتٰی کہ موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ سات آٹھ دن یوں ہی بندھے رہے فاقہ سے غشی طاری ہو گئ۔ آخر بشارت پہنچی کہ حق تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کی۔ کہا خدا کی قسم میں اپنے کو نہ کھولوں گا جب تک خود نبی کریم ﷺ اپنے دست مبارک سے میری رسی نہ کھولیں۔ آپ تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے اپنے قیدی کو آزاد کیا۔ الی آخر القصۃ (ابن عبدالبر کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے کی بناء پر پیش آیا تھا۔ واللہ اعلم۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجعَل لَكُم فُرقانًا وَيُكَفِّر عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيَغفِر لَكُم ۗ وَاللَّهُ ذُو الفَضلِ العَظيمِ {8:29}
اے ایمان والو اگر تم ڈرتے رہو گے اللہ سے تو کر دے گا تم میں فیصلہ [۲۳] اور دور کر دے گا تم سے تمہارے گناہ اور تم کو بخش دے گا اور اللہ کا فضل بڑا ہے
O Ye who believe! if ye fear Allah He will make for you a distinction and will expiate for you your misdeeds, and forgive you; and Allah is Owner of Mighty Grace.
یعنی اگر خدا سے ڈر کو راہ تقویٰ اختیار کرو گے تو خدا تم میں اور تمہارے مخالفوں میں فیصلہ کر دے گا۔ دنیا میں بھی کہ تم کو عزت دے گا اور ان کو ذلیل یا ہلاک کرے گا جیسے بدر میں کیا اور آخرت میں بھی کہ تم نعیم دائم میں رہو گے اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا۔ { وَامْتَا زُو الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ } (یٰس رکوع ۴) { ھٰذا یَوْمُ الفَصْلِ } (المرسلات رکوع۱) دوسری بات یہ ہے کہ تقویٰ کی برکت سے حق تعالیٰ تمہارے دل میں ایک نور ڈال دے گا جس سے تم ذوقًا و وجدانًا حق و باطل اور نیک و بد کا فیصلہ کر سکو گے اس کے علاوہ ایک بات حضرت شاہ صاحبؒ نے لکھی ہے کہ "شاید فتح بدر میں مسلمانوں کے دل میں آیا ہو کہ یہ فتح اتفاقی ہے حضرت سے مخفی کافروں پر احسان کریں کہ ہمارےگھر بار اور اہل و عیال کو مکہ میں نہ ستاویں، سو پہلی آیت میں خیانت کو منع فرمایا اور دوسری آیت میں تسلی دی کہ آگے فیصلہ ہو جاوے گا۔ تمہارے گھر بار کافروں میں گرفتار نہ رہیں گے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا لَقيتُم فِئَةً فَاثبُتوا وَاذكُرُوا اللَّهَ كَثيرًا لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {8:45}
اے ایمان والو جب بھڑو کسی فوج سے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو [۵۲] تاکہ تم مراد پاؤ
O Ye who believe! when ye meet a party, stand firm and remember Allah much, that haply ye may fare well.
اس میں نماز، دعاء ، تکبیر، اور ہر قسم کا ذکر اللہ شامل ہے۔ "ذکر اللہ" کی تاثیر یہ ہے کہ ذاکر کا دل مضبوط اور مطمئن ہوتا ہے جس کی جہاد میں سب سے زیادہ ضرورت ہے صحابہؓ کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہی تھا { اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللہِ ؕ اَلَابِذِکْرِاللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ } (رعد رکوع۴)


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا ءاباءَكُم وَإِخوٰنَكُم أَولِياءَ إِنِ استَحَبُّوا الكُفرَ عَلَى الإيمٰنِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَأُولٰئِكَ هُمُ الظّٰلِمونَ {9:23}
اےایمان والو مت پکڑو اپنے باپوں کو اور بھائیوں کو رفیق اگر وہ عزیز رکھیں کفر کو ایمان سے اور جو تم میں انکی رفاقت کرے سو وہی لوگ ہیں گنہگار [۲۰]
O Ye who believe! take not your fathers and your brothers for friends if they love infidelity above faith. Whosoever of you then befriendeth them then those! they are the wrong-doers.
پچھلی آیات میں بتلایا تھا کہ جہاد و ہجرت اعظم و افضل ترین اعمال ہیں۔ بسا اوقات ان دونوں اعمال میں خویش و اقارب ، کنبہ اور برادری کے تعلقات خلل انداز ہوتے ہیں۔ اس لئے فرما دیا کہ جن لوگوں کو ایمان سے زیادہ کفر عزیز ہے ۔ ایک مومن انہیں کیسے عزیز رکھ سکتا ہے ۔ مسلمان کی شان نہیں کہ ان سے رفاقت اور دوستی کا دم بھرے حتٰی کہ یہ تعلقات اس کو جہاد و ہجرت سے مانع ہو جائیں ایسا کرنے والے گنہگار بن کر اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا المُشرِكونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَبُوا المَسجِدَ الحَرامَ بَعدَ عامِهِم هٰذا ۚ وَإِن خِفتُم عَيلَةً فَسَوفَ يُغنيكُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ إِن شاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ حَكيمٌ {9:28}
اے ایمان والو مشرک جو ہیں سو پلید ہیں سو نزدیک نہ آنے پائیں مسجدالحرام کے اس برس کے بعد [۲۴] اور اگر تم ڈرتے ہو فقر سے تو آئندہ غنی کر دے گا تم کو اللہ اپنے فضل سے اگر چاہے بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے [۲۵]
O Ye who believe! the associators are simply filthy; so let them not approach the Sacred Mosque after this their year; and if ye fear poverty, Allah shall presently enrich you out of His grace, if He will. Verily Allah is grace. Knowing, Wise.
حرم میں مشرکین کی آمدورفت بند کر دینے سے مسلمانوں کو اندیشہ ہوا کہ تجارت وغیرہ کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ اور جو سامان تجارت یہ لوگ لاتے تھے وہ نہیں آئے گا۔ اس لئے تسلی کر دی کہ اس سے مت گھبراؤ ، تم کو غنا عطا فرمانا محض اس کی مشیت پر موقوف ہے ۔ وہ چاہے گا تو کچھ دیر نہ لگے گی ۔ چنانچہ یہ ہی ہوا ۔ خدا نے سارا ملک مسلمان کر دیا ۔ مختلف بلاد و امصار سے تجارتی سامان آنے لگا۔ بارشیں خوب ہوئیں جس سے پیداوار بڑھ گئ، فتوحات و غنائم کے دروازے کھول دیے۔ اہل کتاب وغیرہ سے جزیہ کی رقوم وصول ہونے لگیں ، غرض مختلف طرح سے حق تعالیٰ نے اسباب غناء جمع کر دیے ۔ بیشک خدا کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔
جب حق تعالیٰ نےشرک کی قوت کو توڑ کر جزیرۃ العرب کا صدر مقام (مکہ معظمہ) فتح کرا دیا اور قبائل عرب جوق جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے تب ۹ ہجری میں یہ اعلان کرایا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک (یا کافر) مسجد حرام میں داخل نہ ہو بلکہ اس کے نزدیک یعنی حدود حرم میں بھی نہ آنے پائے ۔ کیونکہ ان کے قلوب شرک و کفر کی نجاست سے اس قدر پلید اور گندے ہیں کہ اس سب سے بڑے مقدس مقام اور مرکز توحید ایمان میں داخل ہونے کے لائق نہیں۔ اس کے بعد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے جزیرۃ العرب سے مشرکین اور یہود و نصاریٰ سب کے نکال دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضور ﷺ کی آخری وصیت کے موافق حضرت عمرؓ کے زمانہ میں یہ حکم عملاً نافذ ہوا ۔ اب بطور استیلاء یا توطن کفار کے وہاں رہنے پر مسلمانوں کو رضامند ہونا جائز نہیں۔ بلکہ تطہیر جزیرۃ العرب بقدر استطاعت ان کا فریضہ ہے ۔ ہاں حنفیہ کے نزدیک کوئی کافر مسافرانہ عارضی طور پر امام کی اجازت سے وہاں جا سکتا ہے ۔ بشرطیکہ امام اتنی اجازت دینا خلاف مصلحت نہ سمجھے ۔ باقی حج و عمرہ کی غرض سے داخل ہونے کی کسی کافر کو اجازت نہیں ۔ کما درد فی الحدیث { اَلَا لَا یُحُجّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ }۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّ كَثيرًا مِنَ الأَحبارِ وَالرُّهبانِ لَيَأكُلونَ أَموٰلَ النّاسِ بِالبٰطِلِ وَيَصُدّونَ عَن سَبيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ فَبَشِّرهُم بِعَذابٍ أَليمٍ {9:34}
اے ایمان والو بہت سے عالم اور درویش اہل کتاب کے کھاتے ہیں مال لوگوں کے ناحق اور روکتے ہیں اللہ کی راہ سے [۳۳] اور جو لوگ گاڑھ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسکو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں سو انکو خوشخبری سنا دے عذاب دردناک کی [۳۴]
O Ye who believe! verily many of the priests and the monks devour the substances of men in falsehood and hinder People from the way of Allah. And those who treasure up gold and silver and expend them not in the way of Allah -announce thou unto them a torment afflictive.
جو لوگ دولت اکٹھی کریں خواہ حلال طریقہ سے ہو مگر خدا کے راستہ میں خرچ نہ کریں (مثلاً زکوٰۃ نہ دیں اور حقوق واجبہ نہ نکالیں) ان کی یہ سزا ہے تو اسی سے ان احبار و رہبان کا انجام معلوم کر لو جو حق کو چھپا کر یا بدل کر روپیہ بٹورتے ہیں۔ اور ریاست قائم رکھنے کی حرص میں عوام کو خدا کے راستہ سے روکتے پھرتے ہیں۔ بہرحال دولت وہ اچھی ہے جو آخرت میں وبال نہ بنے۔
یعنی روپیہ لے کر احکام شرعیہ اور اخبار الہٰیہ کو بدل ڈالتے ہیں۔ ادھر عوام الناس نے انہیں جیسے پہلے گذرا خدائی کا مرتبہ دے رکھا ہے۔ جو کچھ غلط سلط کہہ دیں وہ ہی ان کے نزدیک حجت ہے ۔ اس طرح یہ علماء و مشائخ نذرانے وصول کرنے ، ٹکے بٹورنے اور اپنی سیادت و ریاست قائم رکھنے کے لئے عوام کو مکروفریب کے جال میں پھنسا کر راہ حق سے روکتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ عوام اگر ان کے جال سے نکل جائیں اور دین حق اختیار کر لیں تو ساری آمدنی بند ہو جائے ۔ یہ حال مسلمانوں کو سنایا تاکہ متنبہ ہو جائیں کہ امتوں کی خرابی اور تباہی کا بڑا سبب تین جماعتوں کا خراب و بے راہ ہونا اور اپنے فرائض کو چھوڑ دینا ہے علماء مشائخ اور اغنیاء و رؤسا ۔ ان میں سے دو کا ذکر تو ہو چکا۔ تیسری جماعت (رؤسا) کا آگے آتا ہے۔ ابن المبارکؒ نے خوب فرمایا { وَھَلْ اَفْسَدَ الدِّیْنَ اِلَّا الملوکُ وَ اَحْبَا رُسُوْءٍ وَرُھْبَانُھَا } ۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا ما لَكُم إِذا قيلَ لَكُمُ انفِروا فى سَبيلِ اللَّهِ اثّاقَلتُم إِلَى الأَرضِ ۚ أَرَضيتُم بِالحَيوٰةِ الدُّنيا مِنَ الءاخِرَةِ ۚ فَما مَتٰعُ الحَيوٰةِ الدُّنيا فِى الءاخِرَةِ إِلّا قَليلٌ {9:38}
اے ایمان والو تم کو کیا ہوا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ کوچ کرو اللہ کی راہ میں تو گرے جاتے ہو زمین پر کیا خوش ہو گئے دنیا کی زندگی پر آخرت کو چھوڑ کر سو کچھ نہیں نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا آخرت کے مقابلہ میں مگر بہت تھوڑا [۳۹]
O Ye who believe! what aileth you that when it is said unto you: march forth in the way of Allah, ye are weighed down earthward? Are ye pleased with the life of the world rather than the Hereafter? whereas the enjoyment of the life of the world by the side of the Hereafter is but little.
یہاں سے غزوہ تبوک کے لئے مومنین کو ابھارا گیا ہے گذشتہ رکوع سے پہلے رکوع میں { قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ } الخ سےاہل کتاب کے مقابلہ میں جہاد کرنے کی ترغیب دی گئ تھی۔ درمیان میں جو ذیلی مضامین آئے ان کا ربط موقع بہ موقع ظاہر ہوتا رہا ہے گویا وہ سب رکوع حاضر کی تمہید تھی۔ اور رکوع حاضر غزوہ تبوک کے بیان کی تمہید ہے۔ فتح مکہ و غزوہ حنین کے بعد ۹ ہجری میں نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ شام کا نصرانی بادشاہ (ملک غسان) قیصر روم کی مدد سے مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ حضور ﷺ نے مناسب سمجھا کہ ہم خود حدود شام پر اقدام کر کے اس کا جواب دیں۔ اس کے لئے آپ نے عام طور پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ جہاد کے لئے تیار ہو جائیں۔ گرمی سخت تھی۔ قحط سالی کا زمانہ تھا۔ کھجور کی فصل پک رہی تھی، سایہ خوشگوار تھا۔ پھر اس قدر بعید مسافت طے کر کےجانا ، اور نہ صرف ملک غسان بلکہ قیصر روم کی باقاعدہ اور سروسامان سے آراستہ افواج سے نبرد آزما ہونا کوئی کھیل تماشا نہ تھا۔ ایسی مہم میں مومنین مخلصین کے سوا کس کا حوصلہ تھا کہ جان بازانہ قدم اٹھا سکتا۔ چنانچہ منافقین جھوٹے حیلے بہانے تراش کر کھسکنے لگے۔ بعض مسلمان بھی ایسے سخت وقت میں اس طویل و صعب سفر سے کترا رہے تھے جن میں بہت تو آخر کار ساتھ ہو لئے اور گنے چنے آدمی رہ گئے جن کو کسل و تقاعد نے اس شرف عظیم کی شرکت سے محروم رکھا۔ نبی کریم ﷺ تقریباً تیس ہزار سرفروش مجاہدین کا لشکر جرار لے کر حدود شام کی طرف روانہ ہو گئے اور مقام تبوک میں ڈیرے ڈال دیے۔ ادھر قیصر روم کے نام نامہ مبارک لکھا جس میں اسلام کی طرف دعوت دی گئ تھی۔ حضور ﷺ کی صداقت اس کے دل میں گھر کر گئ مگر قوم نے موافقت نہ کی اس لئے قبول اسلام سے محروم رہا۔ شام والوں کو جب حضور ﷺ کے ارادے کی اطلاع ہوئی قیصر روم سے ظاہر کیا۔ اس نےمدد نہ کی ان لوگوں نے اطاعت کی مگر اسلام نہ لائے ۔ تھوڑی مدت کے بعد حضور ﷺ کی وفات ہوئی اور فاروق اعظمؓ کے عہد خلافت میں تمام ملک شام فتح ہوا۔ جب حضور ﷺ تبوک سے غالب و منصور واپس تشریف لائے اور خدا نے بڑی بڑی سلطنتوں پر اسلام کی دھاک بٹھلا دی تو منافقین مدینہ بہت فضیحت ہوئے ۔ نیز چند سچے مسلمان جو محض سستی اور کسل کی بناء پر نہ گئے تھے بیحد نادم و متحسر تھے۔ اس رکوع کے شروع سے بہت دور تک ان ہی واقعات کا ذکر ہے ۔ مگر زیادہ منافقین کی حرکات بیان ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں مسلمانوں کو خطاب اور ان کے احوال سےتعرض کیا گیا ہے۔ آیت حاضرہ میں مسلمانوں کو بڑی شدت سے جہاد کی طرف ابھارا اور بتلایا ہے کہ تھوڑے سے عیش و آرام میں پھنس کر جہاد کو چھوڑنا گویا بلندی سے پستی کی طرف گر جانے کا مرادف ہے۔ مومن صادق کی نظر میں دنیا کے عیش و آرام کی آخرت کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہ ہونی چاہئے۔ حدیث میں ہے کہ اگر خدا کے نزدیک دنیا کی وقعت پر پشہ کی برابر ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكونوا مَعَ الصّٰدِقينَ {9:119}
اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے اور رہو ساتھ سچوں کے [۱۳۸]
O Ye who believe! fear Allah, and be with the truthful.
یعنی سچوں کی صحبت رکھو اور انہی جیسے کام کرو۔ دیکھ لو یہ تین شخص سچ کی بدولت بخشے گئے اور مقبول ٹھہرے منافقین نے جھوٹ بولا اور خدا کا ڈر دل سے نکال دیا تو "درک اسفل" کے مستحق بنے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قٰتِلُوا الَّذينَ يَلونَكُم مِنَ الكُفّارِ وَليَجِدوا فيكُم غِلظَةً ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ مَعَ المُتَّقينَ {9:123}
اے ایمان والو لڑتے جاؤ اپنے نزدیک کے کافروں سے [۱۴۴] اور چاہئے کہ ان پر معلوم ہو تمہارے اندر سختی [۱۴۵] اور جانو کہ اللہ ساتھ ہے ڈر والوں کے [۱۴۶]
O Ye who believe! fight the infidels who are near unto you, and surely let them find in you sternness, and know that Allah is with the God-fearing,
جہاد فرض کفایہ ہے جو ترتیب طبعی کے موافق اول ان کفار سے ہونا چاہئے جو مسلمانوں سے قریب تر ہوں بعدہٗ ان کے قریب رہنے والوں سے اسی طرح درجہ بدرجہ حلقہ جہاد کو وسیع کرنا چاہئے۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے جہاد اسی ترتیب سے ہوئے "دفاعی جہاد" میں بھی فقہاء نے یہ ہی ترتیب رکھی ہے کہ جس اسلامی ملک پر کفار حملہ آور ہوں وہاں کے مسلمانوں پر دفاع واجب ہے اگر وہ کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے متصل رہنے والوں پر ۔ وہ کافی نہ ہوں تو پھر جو ان سے متصل ہیں۔ اسی طرح اگر ضرورت پڑے تو درجہ بدرجہ مشرق سے مغرب تک جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔
یعنی خدا سے ڈرنے والے کو کسی کافر قوم سے ڈرنے اور دبنے کی کوئی وجہ نہیں جب تک اور جس قدر مسلمان خدا سے ڈرتے رہے اسی وقت تک اور اسی قدر ان کو کفار پر غلبہ حاصل ہوتا رہا۔ حق تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنا ڈر پیدا کر دے۔
مومن کی شان یہ ہے کہ اپنے بھائی کے حق میں نرم اور دشمنان خدا و رسول کے معاملہ میں سخت و شدید ہو ۔ تاکہ اس کی نرمی اور ڈھیلا پن دیکھ کر دشمن جری نہ ہو جائے۔ { اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ } (مائدہ رکوع۸) { وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ } (الفتح۔رکوع۴) { جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ } (توبہ۔رکوع۱۰) وفی الحدیث انہ صلی اللہ علیہ وسلم قال { انا الضَّحُوْکُ القَتَّال }


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اركَعوا وَاسجُدوا وَاعبُدوا رَبَّكُم وَافعَلُوا الخَيرَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ۩ {22:77}
اے ایمان والو رکوع کرو اور سجدہ کرو اور بندگی کرو اپنے رب کی اور بھلائی کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو [۱۱۴]
O Ye who believe! bow down and prostrate yourselves and worship your Lord, and do the good, that haply ye may thrive.
شرک کی تقبیح اور مشرکین کی تفضیح کے بعد مومنین کو خطاب فرماتے ہیں کہ تم اکیلے اپنے رب کی بندگی پر لگے رہو اسی کے آگے جھکو ، اسی کے حضور میں پیشانی ٹیکو، اور اسی کے لئے دوسرے بھلائی کے کام کرو ۔ تاکہ دنیا اور آخرت میں تمہارا بھلا ہو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ ۚ وَمَن يَتَّبِع خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ فَإِنَّهُ يَأمُرُ بِالفَحشاءِ وَالمُنكَرِ ۚ وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكُم وَرَحمَتُهُ ما زَكىٰ مِنكُم مِن أَحَدٍ أَبَدًا وَلٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكّى مَن يَشاءُ ۗ وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ {24:21}
اے ایمان والو نہ چلو قدموں پر شیطان کے اور جو کوئی چلے گا قدموں پر شیطان کےسو وہ تو یہی بتلائے گا بیحائی اور بری بات [۲۹] اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت تو نہ سنورتا تم میں ایک شخص بھی کبھی و لیکن اللہ سنوارتا ہے جس کو چاہے اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے [۳۰]
O Ye who believe! follow not the footsteps of the Satan. And whosoever followeth the footsteps of the Satan, then he only urgeth to indecency and abomination. And had there not been the grace of Allah upon you and His mercy, not one of you would ever have been cleansed; but Allah cleanseth whomsoever He Will and Allah is Hearing, Knowing.
یعنی شیطان کی چالوں سے ہشیار رہا کرو۔ مسلمان کا یہ کام نہیں ہونا چاہئے کہ شیاطین الانس و الجن کے قدم بقدم چلنے لگے۔ ان ملعونوں کا تو مشن ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بے حیائی اور برائی کی طرف لے جائیں تم جان بوجھ کر کیوں ان کے بھرّے میں آتے ہو۔ دیکھ لو شیطان نے ذرا سا چرکہ لگا کر کتنا بڑا طوفان کھڑا کر دیا اور کئی سیدھے سادھے مسلمان کس طرح اس کے قدم پر چل پڑے۔
یعنی شیطان تو سب کو بگاڑ کر چھوڑتا ایک کو بھی سیدھے راستہ پر نہ رہنے دیتا۔ یہ تو خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ وہ اپنے مخلص بندوں کی دستگیری فرما کر بہتیروں کو محفوظ رکھتا ہے اور بعض کو مبتلا ہو جانے کے بعد توبہ کی توفیق دے کر درست کر دیتا ہے۔ یہ بات اسی خدائے واحد کے اختیار میں ہے اور وہ ہی اپنے علم محیط اور حکمت کاملہ سے جانتا ہے کہ کون بندہ سنوارے جانے کے قابل ہے اور کس کی توبہ قبول ہونی چاہئے۔ وہ سب کی توبہ وغیرہ کو سنتا اور ان کی قلبی کیفیات سے پوری طرح آگاہ ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَدخُلوا بُيوتًا غَيرَ بُيوتِكُم حَتّىٰ تَستَأنِسوا وَتُسَلِّموا عَلىٰ أَهلِها ۚ ذٰلِكُم خَيرٌ لَكُم لَعَلَّكُم تَذَكَّرونَ {24:27}
اے ایمان والو مت جایا کرو کسی گھر میں اپنے گھروں کے سوائے جب تک بول چال نہ کر لو اور سلام کر لو ان گھر والوں پر یہ بہتر ہے تمہارے حق میں تاکہ تم یاد رکھو [۳۸]
O Ye who believe! enter not houses other than your own until ye have asked leave and invoked peace on the inmates thereof. That is better for you, haply ye may take heed.
یعنی خاص اپنے ہی رہنے کا جو گھر ہو اس کے سوا کسی دوسرے کے رہنے کے گھر میں یوں ہی بے خبر نہ گھس جائے کیا جانے وہ کس حال میں ہو اور اس وقت کسی کا اندر آنا پسند کرتا ہے یا نہیں۔ لہذا اندر جانے سے پہلے آواز دے کر اجازت حاصل کرے اور سب سے بہتر آواز سلام کی، حدیث میں ہے کہ تین مرتبہ سلام کرے اور اجازت داخل ہونے کی لے۔ اگر تین بار سلام کرنے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ فی الحقیقت یہ ایسی حکیمانہ تعلیم ہے کہ اگر اس کی پابندی کی جائے تو صاحب خانہ اور ملاقاتی دونوں کے حق میں بہتر ہے۔ مگر افسوس آج مسلمان ان مفید ہدایات کو ترک کرتے جاتے ہیں جن کو دوسری قومیں ان ہی سے سیکھ کر ترقی کر رہی ہیں (ربط) شروع سورت سے احکام زنا و قذف وغیرہ بیان ہوئے تھے۔ چونکہ بسا اوقات بلا اجازت کسی کےگھر میں چلا جانا ان امور کی طرف مفضی ہو جاتا ہے، اس لئے ان آیات میں مسائل استئذان کو بیان فرما دیا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لِيَستَـٔذِنكُمُ الَّذينَ مَلَكَت أَيمٰنُكُم وَالَّذينَ لَم يَبلُغُوا الحُلُمَ مِنكُم ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ۚ مِن قَبلِ صَلوٰةِ الفَجرِ وَحينَ تَضَعونَ ثِيابَكُم مِنَ الظَّهيرَةِ وَمِن بَعدِ صَلوٰةِ العِشاءِ ۚ ثَلٰثُ عَورٰتٍ لَكُم ۚ لَيسَ عَلَيكُم وَلا عَلَيهِم جُناحٌ بَعدَهُنَّ ۚ طَوّٰفونَ عَلَيكُم بَعضُكُم عَلىٰ بَعضٍ ۚ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الءايٰتِ ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ {24:58}
اے ایمان والو اجازت لیکر آئیں تم سے جو تمہارےہاتھ کے مال ہیں [۱۰۶] اور جو کہ نہیں پہنچے تم میں عقل کی حد کو تین بار فجر کی نماز سے پہلے اور جب اتار رکھتے ہو اپنے کپڑے دوپہر میں اور عشاء کی نماز سے پیچھے یہ تین وقت بدن کھلنے کے ہیں تمہارے [۱۰۷] کچھ تنگی نہیں تم پر اور ان پر ان وقتوں کے پیچھے پھرا ہی کرتے ہو ایک دوسرے کے پاس [۱۰۸] یوں کھولتا ہے اللہ تمہارے آگے باتیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے
O Ye who believe! let those whom your right hands own and those of you who have not attained puberty ask leave of you three times before the dawn prayer, and when ye lay aside your garments noonday, and after the night-prayer: three at times of privacy for you. NO fault there is upon you or upon them beyond these times going round upon you, some of you upon some others. In this wise Allah expoundeth unto you the commandments; and Allah is Knowing, Wise.
یعنی لونڈی غلام، چار رکوع پہلے مسئلہ استیذان (اجازت لینے) کا ذکر تھا۔ یہ اسی کا تتمہ ہے درمیان میں خاص خاص منابستوں سے دوسرے مضامیں آ گئے۔
ان تین وقتوں میں عمومًا زائد کپڑے اتار دیے جاتے ہیں یا سونے جاگنے کا لباس تبدیل کیا جاتا ہے اور بیوی کے ساتھ مخالطت بھی بیشتر ان ہی اوقات میں ہوتی ہے کبھی فجر سے قبل یا دوپہر کے وقت آدمی غسل کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی مطلع نہ ہو۔ اس لئے حکم دیا کہ ان تین وقتوں میں نابالغ لڑکوں اور لونڈی غلام کو بھی اجازت لے کر آنا چاہئے۔ باقی وقتوں میں ان کو اجانب کی طرح اجازت طلب کرنے کی حاجت نہیں۔ الّا یہ کہ کوئی شخص اپنی مصلحت سے دوسرے اوقات میں بھی استیذان کی پابندی عائد کر دے۔
یعنی اوقات مذکورہ بالا کو چھوڑ کر باقی جن اوقات میں عادۃً ایک دوسرے کے پاس بے روک ٹوک آتے جاتے ہیں ان میں نابالغ لڑکوں یا لونڈی غلام کو ہر مرتبہ اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ایسا پابند کرنے میں بہت تنگی اور کاروبار کا تعطل ہے جو حق تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اذكُروا نِعمَةَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ جاءَتكُم جُنودٌ فَأَرسَلنا عَلَيهِم ريحًا وَجُنودًا لَم تَرَوها ۚ وَكانَ اللَّهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرًا {33:9}
اے ایمان والو یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر جب چڑھ آئیں تم پر فوجیں پھر ہم نے بھیجدی ان پر ہوا اور وہ فوجیں جو تم نے نہیں دیکھیں [۱۲] اور ہے اللہ جو کچھ کرتے ہو دیکھنے والا [۱۳]
O Ye who believe! remember Allah's favour unto you when there came unto you hosts, and We sent against them a wind and hosts which ye saw not, and Allah was of that which ye were working a Beholder.
یعنی فرشتوں کی فوجیں جو کفار کے دلوں میں رعب ڈال رہی تھیں۔
ہجرت کے چوتھے پانچویں سال یہود بنی نضیر جو مدینہ سے نکالے گئے تھے (اس کا ذکر سورہ "حشر" میں آئے گا) ہر قوم میں پھرے۔ اور ابھار اکسا کر قریش مکہ بنی فزارہ اور غطفان وغیرہ قبائل عرب کی متحدہ طاقت کو مدینہ پر چڑھا لانے میں کامیاب ہو گئے۔ تقریبًا بارہ ہزار کا لشکر جرار پورے سازو سامان سے آراستہ اور طاقت کے نشہ میں چور تھا، یہود "بنی قریظہ" جن کا ایک مضبوط قلعہ مدینہ کی شرقی جانب تھا پہلے سے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کئے ہوئے تھے۔ نضیری یہود کی ترغیب و ترہیب سے آخرکار وہ بھی معاہدات کو بالائے طاق رکھ کر حملہ آوروں کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے۔ مسلمانوں کی جمعیت کل تین ہزار تھی۔ جن میں ایک بڑی تعداد ان دغاباز منافقوں کی تھی جو سختی کا وقت آنے پر جھوٹے حیلے بہانے کر کے میدان جنگ سے کھسکنے لگے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے مشورہ فرمایا آخر حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے شہر کے گرد جدھر سے حملہ کا اندیشہ تھا خندق کھودی گئ۔ سخت جاڑے کا موسم تھا غلہ کی گرانی تھی بھوک کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عہنم اور خود سرور عالم ﷺ کے پیٹ کو پتھر بندھے تھے۔ مگر عشق الہٰی کے نشہ میں سرشار سپاہی اور ان کے سالار اعظم اس سنگلاخ زمین کی کھدائی میں حیرت انگیز قوت اور ہمت مردانہ کے ساتھ مشغول تھے مجاہدین پتھریلی زمین پر کدال مارتے اور کہتے { نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْ امُحَمَّدًا، عَلی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنًا اَبَدًا }۔ ادھر سرکار محمدی ﷺ سے جواب ملتا { اَللّٰھُمَّ لَا عَیْشَ اِلَّا عَیْشَ الْاٰخِرَۃ، فَاغْفِرِا لْاَ نْصَارَ وَ الْمَھَاجِرَہ } خندق تیار ہو گئ تو اسلامی لشکر نے دشمن کے مقابل مورچے جما دیے۔ تقریبًا بیس پچیس روز تک دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑی رہیں۔ درمیان میں خندق حائل تھی باوجود کثرت تعداد کے کفار سے بن نہ پڑ اکہ شہر پر عام حملہ کر دیتے۔ البتہ دور سے تیر اندازی ہوتی تھی اور گاہ بگاہ فریقین کے خاص خاص افراد میدان مبارزت مین دو دو ہاتھ دکھانے لگتے تھے۔ مشرکین اور یہود بنی قریظہ کے درمیان مسلمانوں کی جمعیت محصورین کی حیثیت رکھتی تھی تاہم انہوں نے سب عورتوں بچوں کو شہر کی مضبوط و محفوظ حویلیوں میں پہنچا کر خود بڑی پامردی اور استقامت کے ساتھ شہر کی حفاظت و مدافعت کا فرض انجام دیا۔ آخر کار نعیم ابن مسعود الاشجعیؓ کی ایک عاقلانہ اور لطیف تدبیر سے مشرکین اور یہود بنی قریظہ میں پھوٹ پڑ گئ، ادھر کفار کے دلوں کو خدا تعالیٰ کا غیر مرئی لشکر مرعوب کر رہا تھا۔ اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے ایک رات سخت خوفناک جھکڑ ہوا کا چلا دیا۔ پُروا ہوا سے ریت اور سنگریزے اڑ کر کفار کے منہ پر لگتے تھے۔ ان کے چولھے بجھ گئے، دیگچے زمین پر جا پڑے، کھانے پکانے کی کوئی صورت نہ تھی۔ ہوا کے زور سے خیمے اکھڑ گئے گھوڑے چھوٹ کر بھاگ گئے لشکر پریشان ہو گیا، سردی اور اندھیری ناقابل برداشت بن گئ آخر ابو سفیان نے جن کے ہاتھ میں تمام لشکروں کی اعلیٰ کمان تھی طبل رحیل بجا دیا۔ ناچار سب اٹھ کر بے نیل و مرام واپس چل دیے۔ { وَکَفَی اللہُ الْمُؤْمِنِیْنَ القتالَ وَ کَانَ اللہُ قویًّا عزیزا } یہ جنگ "احزاب" کہلاتی ہے اور "جنگ خندق" بھی کہتے ہیں۔ سخت جاڑے کے موسم اور فاقہ کشی کی حالت میں خندق کھودنا اور اتنے دشمنوں کے بیچ میں گھر کر لڑائی لڑنا، یہ وہ حالات تھے جن میں منافق دل کی باتیں بولنے لگے اور مومن ثابت قدم رہے۔ اسی جنگ میں حضورﷺ نے فرمایا کہ اب آئندہ ہم کفار پر چڑھائی کریں گے وہ ہم پر چڑھ کر نہ آ سکیں گے۔ چنانچہ یہ ہی ہوا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اذكُرُوا اللَّهَ ذِكرًا كَثيرًا {33:41}
اے ایمان والو یاد کرو اللہ کی بہت سی یاد
O Ye who believe! remember Allah with much remembrance.

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نَكَحتُمُ المُؤمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ فَما لَكُم عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدّونَها ۖ فَمَتِّعوهُنَّ وَسَرِّحوهُنَّ سَراحًا جَميلًا {33:49}
اے ایمان والوں جب تم نکاح میں لاؤ مسلمان عورتوں کو پھر ان کو چھوڑ دو پہلے اس سے کہ ان کو ہاتھ لگاؤ سو ان پر تم کو حق نہیں عدت میں بٹھلانا کہ گنتی پوری کراؤ سو ان کو دو کچھ فائدہ اور رخصت کرو بھلی طرح سے [۷۰]
O Ye who believe! when ye marry believing women and then divorce them before ye have touched them, then there is no waiting-period from you incumbent on them that ye should count. So make provision for them and release them with a seemly release.
جو مرد اپنی عورت کو بغیر صحبت طلاق دے، اگر اس کا مہر بندھا تھا تو نصف مہر دینا ہو گا ورنہ کچھ فائدہ پہنچا کر (یعنی عرف اور حیثیت کے موافق ایک جوڑا پوشاک دے کر ) خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دے۔ اور عورت اسی وقت چاہے تو نکاح کر لے۔ اس صورت میں عدت نہیں۔ (حنفیہ کے نزدیک خلوت صحیحہ بھی صحبت کے حکم میں ہے تفصیل فقہ میں دیکھ لی جائے) یہ مسئلہ یہاں بیان فرمایا حضرت کی ازواج کے ذکر میں جس کا سلسلہ دور سے چلا آتا تھا۔ درمیان میں چند آیات ضمنی مناسبت سے آ گئ تھیں۔ یہاں سے پھر مضمون سابق کی طرف عود کیا گیا ہے۔ روایات میں ہے کہ حضرت نے ایک عورت سے نکاح کیا جب اس کے نزدیک گئے تو کہنے لگی اللہ تجھ سے پناہ دے، حضرت نے اس کو جواب دیا کہ تو نے بڑے کی پناہ پکڑ لی۔ اس پر یہ حکم فرمایا اور خطاب فرمایا ایمان والوں کو تا معلوم ہو کہ پیغمبر کا خاص حکم نہیں، سب مسلمانوں پر یہ ہی حکم ہے۔ اسی کے موافق حضرت نے اس کو جوڑا دے کر رخصت کر دیا۔ پھر وہ ساری عمر اپنی محرومی پر پچتاتی رہی۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَدخُلوا بُيوتَ النَّبِىِّ إِلّا أَن يُؤذَنَ لَكُم إِلىٰ طَعامٍ غَيرَ نٰظِرينَ إِنىٰهُ وَلٰكِن إِذا دُعيتُم فَادخُلوا فَإِذا طَعِمتُم فَانتَشِروا وَلا مُستَـٔنِسينَ لِحَديثٍ ۚ إِنَّ ذٰلِكُم كانَ يُؤذِى النَّبِىَّ فَيَستَحيۦ مِنكُم ۖ وَاللَّهُ لا يَستَحيۦ مِنَ الحَقِّ ۚ وَإِذا سَأَلتُموهُنَّ مَتٰعًا فَسـَٔلوهُنَّ مِن وَراءِ حِجابٍ ۚ ذٰلِكُم أَطهَرُ لِقُلوبِكُم وَقُلوبِهِنَّ ۚ وَما كانَ لَكُم أَن تُؤذوا رَسولَ اللَّهِ وَلا أَن تَنكِحوا أَزوٰجَهُ مِن بَعدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذٰلِكُم كانَ عِندَ اللَّهِ عَظيمًا {33:53}
اے ایمان والو مت جاؤ نبی کے گھروں میں مگر جو تم کو حکم ہو کھانے کے واسطے نہ راہ دیکھنے والے اس کے پکنے کی لیکن جب تم کو بلائے تب جا ؤ [۷۸] پھر جب کھا چکو تو آپ آپ کو چلے جاؤ اور نہ آپس میں جی لگا کر بیٹھو باتوں میں [۷۹] اس بات سے تمہاری تکلیف تھی نبی کو پھر تم سے شرم کرتا ہے اور اللہ شرم نہیں کرتا ٹھیک بات بتلانے میں [۸۰] اور جب مانگنے جاؤ بیبیوں سے کچھ چیز کام کی تو مانگ لو پردہ کے باہر سے اس میں خوب ستھرائی ہے تمہارے دل کو اور ان کے دل کو [۸۱] اور تم کو نہیں پہنچتا کہ تکلیف دو اللہ کے رسول کو اور نہ یہ کہ نکاح کرو اسکی عورتوں سے اس کے پیچھے کبھی البتہ یہ تمہاری بات اللہ کے یہاں بڑا گناہ ہے [۸۲]
O Ye who believe! enter not the houses of the Prophet, except when leave is given you, for a meal and at a time that ye will have to wait for its preparation; but when ye are invited, then enter, and when ye have eaten, then disperse, without lingering to enter into familiar discourse. Verily that incommodeth the Prophet, and he is shy of asking you to depart, bur Allah is not shy of the truth. And when ye ask of them aught, ask it of them from behind a curtain. That shall be purer for your hearts and for their hearts. And it is not lawful for you that ye should cause annoyance to the apostle of Allah, nor that ye should ever marry his wives after him; verily that in the sight of Allah shall be an enormity.
یعنی بدون حکم و اجازت کے دعوت میں مت جاؤ۔ اور جب تک بلائیں نہیں پہلے سے جا کر نہ بیٹھو کہ وہاں بیٹھ کر انتظار کرنا پڑے۔ اور گھر والوں کے کام کاج میں ہرج واقع ہو۔
یعنی آپ حیا کی وجہ سے اپنے نفس پر تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ لحاظ کی وجہ سے صاف نہیں فرماتے کہ اٹھ جاؤ۔ مجھے کلفت ہوتی ہے۔ یہ تو آپ کے اخلاق اور مروت کی بات ہوئی۔ مگر اللہ تعالیٰ کو تمہاری تادیب و اصلاح میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے اس نے بہرحال پیغمبر ہی کی زبان سے اپنے احکام سنا دیے۔
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ادب سکھلائے کبھی کھانے کو حضرت کے گھر میں جمع ہوتے تو پیچھے باتیں کرنے لگ جاتے۔ حضرت کا مکان آرام کا وہ ہی تھا شرم سے نہ فرماتے کہ اٹھ جاؤ۔ ان کے واسطے اللہ نےفرما دیا، اور اس آیت میں حکم ہوا پردہ کا کہ مرد حضرت کی ازواج کے سامنے نہ جائیں" کوئی چیز مانگنی ہو تو وہ بھی پردہ کے پیچھے سے مانگیں اس میں جانبین کے دل ستھرے اور صاف رہتے ہیں اور شیطانی وساوس کا استیصال ہوجاتا ہے۔
یعنی کھانے سے فارغ ہو کر اپنے اپنے گھر کا رستہ لینا چاہئے۔ وہاں مجلس جمانے سے میزبان اور دوسرے مکان والوں کو تکلیف ہوتی ہے یہ باتیں گو نبی کے مکانوں کے متعلق فرمائی ہیں کیونکہ شان نزول کا تعلق ان ہی سے تھا۔ مگر مقصود ایک عام ادب سکھلانا ہے۔ بے دعوت کسی کے یہاں کھانا کھانے کی غرض سے جا بیٹھنا یا طفیلی بن کر جانا، یا کھانے سے قبل یوں ہی مجلس جمانا، یا فارغ ہونے کے بعد گپ شپ لڑانا درست نہیں۔
یعنی کافر منافق جو چاہیں بکتے پھریں اور ایذا رسانی کریں، مومنین جو دلائل و براہین کی روشنی میں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی انتہائی راستبازی اور پاکبازی کو معلوم کر چکے ہیں، انہیں لائق نہیں کہ حضور ﷺ کی حیات میں یا وفات کے بعد کوئی بات ایسی کہیں یا کریں جو خفیف سے خفیف درجہ میں آپ کی ایذاء کا سبب بن جائے۔ لازم ہے کہ مومنین اپنے محبوب و مقدس پیغمبر کی عظمت شان کو ہمیشہ مرعی رکھیں۔مبادا غفلت یا تساہل سے کوئی تکلیف دہ حرکت صادر ہو جائے اور دنیا و آخرت کا خسارہ اٹھانا پڑے ان تکلیف دہ حرکات میں سے ایک بہت سخت اور بڑا بھاری گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص ازواج مطہرات سے آپ کے بعد نکاح کرنا چاہے یا ایسے نالائق ارادہ کا حضور ﷺ کی موجودگی میں اظہار کرے ظاہر ہے کہ ازواج مطہرات کی مخصوص عظمت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے قائم ہوئی ہے کہ روحانی حیثیت سے وہ تمام مومنین کی محترم مائیں قرار دی گئیں۔ کیا کسی امتی کے عقد نکاح میں آنے کے بعد ان کا یہ احترام کماحقہ ملحوظ رہ سکتا ہے یا آپ کے بعد وہ خانگی بکھیڑوں میں پڑ کر تعلیم و تلقین دین کی اس اعلیٰ غرض کو آزادی کے ساتھ پورا کر سکتی ہیں جس کے لئے ہی فی الحقیقت قدرت نے نبی کی زوجیت کے لئے ان کو چنا تھا۔ اور کیا کوئی پرلے درجہ کا بیحس و بے شعور انسان بھی باور کر سکتا ہے کہ سید البشر امام المتقین اور پیکر خلق عظیم کی خدمت میں عمر گذارنے والی خاتون ایک لمحہ کے لئے بھی کسی دوسری جگہ رہ کر قلبی مسرت و سکون حاصل کرنے کی امید رکھ سکے گی۔ خصوصًا جبکہ معلوم ہو چکا ہے کہ یہ وہ منتخب خواتین تھیں جن کے سامنے دنیا و آخرت کے دو راستوں میں سے ایک راستہ انتخاب کے لیے پیش کیا گیا تو انہوں نے بڑی خوشی اور آزادی سے دنیا کے عیش و بہار پر لات مار کر اللہ و رسول کی خوشنودی اور آخرت کا راستہ اختیار کر لینے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ تاریخ بتلاتی ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد کیسے عدیم النظیر زہد و ورع اور صبر و توکل کے ساتھ ان مقدس خواتین جنت نے عبادت الہٰی میں اپنی زندگیاں گذاریں اور احکام دین کی اشاعت اور اسلام کی خدمات مہمہ کے لیے اپنے کو وقف کیے رکھا ان میں سے کسی ایک کو بھی بھول کر بھی دنیا کی لذتوں کا خیال نہیں آیا۔ اور کیسے آسکتا تھا جبکہ پہلے ہی حق تعالیٰ نے { یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا } فرما کر ان کے تزکیہ و تطہیر کی کفالت فرمائی تھی۔فرضی اللہ عنہن وارضا ہن وجعلنا ممن یعظہن حق تعظیمہن فوق ما نعظم امہاتنا التی ولد ننا، آمین۔ اس مسئلہ کی نہایت محققانہ بحث حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ کی کتاب آب حیات میں ہے۔


إِنَّ اللَّهَ وَمَلٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا {33:56}
اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بیجھتے ہیں رسول پر اے ایمان والو رحمت بھیجو اس پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر [۸۶]
Verily Allah and His angels send their benedictions upon the prophet. O ye who believe! send your benedictions upon him and salute him with a goodly Salutation.
"صلوٰۃ النبی" کا مطلب ہے "نبی کی ثناء و تعظیم رحمت و عطوفت کے ساتھ" پھر جس کی طرف "صلوٰۃ" منسوب ہو گی اسی کی شان و مرتبہ کے لائق ثناء و تعظیم اور رحمت و عطوفت مراد لیں گے، جیسے کہتے کہ باپ بیٹے پر، بیٹا باپ پر اور بھائی بھائی پر مہربان ہے یا ہر ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے تو ظاہر ہے جس طرح کی محبت اور مہربانی باپ کی بیٹے پر ہے اس نوعیت کی بیٹے کی باپ پر نہیں۔ اور بھائی کی بھائی پر ان دونوں سے جداگانہ ہوتی ہے۔ ایسے ہی یہاں سمجھ لو۔ اللہ بھی نبی کریم ﷺ پر صلوٰۃ بھیجتا ہے یعنی رحمت و شفقت کےساتھ آپ کی ثناء اور اعزاز و اکرام کرتا ہے۔ اور فرشتے بھی بھیجتےہیں، مگر ہر ایک کی صلوٰۃ اور رحمت و تکریم اپنی شان و مرتبہ کے موافق ہو گی۔ آنحضرت ﷺ پر مومنین کی صلوٰۃ: آگے مومنین کو حکم ہے کہ تم بھی صلوٰۃ و رحمت بھیجو۔ اس کی حیثیت ان دونوں سے علیحدہ ہونی چاہئے۔ علماء نے کہا کہ اللہ کی صلوٰۃ رحمت بھیجنا اور فرشتوں کی صلوٰۃ استغفار کرنا اور مومنین کی صلوٰۃ دعا کرنا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب آیت نازل ہوئی صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا یا رسول اللہ! "سلام" کا طریقہ تو ہم کو معلوم ہو چکا (یعنی نماز کے تشہد میں جو پڑھا جاتا ہے { اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ } ) "صلوٰۃ" کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیجئے جو نماز میں پڑھا کریں۔ آپ نے یہ درود شریف تلقین کیا { اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بِارِکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ } غرض یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے مومنین کو حکم دیا کہ تم بھی نبی پر صلوٰۃ (رحمت) بھیجو۔ نبی نے بتلاد یا کہ تمہارا بھیجنا یہ ہی کہ اللہ سے درخواست کرو کہ وہ اپنی بیش از بیش رحمتیں ابدالآباد تک نبی پر نازل فرماتا رہے۔ کیونکہ اس کی رحمتوں کی کوئی حد و نہایت نہیں یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس درخواست پر جو مزید رحمتیں نازل فرمائے وہ ہم عاجز و ناچیز بندوں کی طرف منسوب کر دی جائیں ۔ گویا ہم نے بھیجی ہیں۔ حالانکہ ہر حال میں رحمت بھیجنے والا وہ ہی اکیلا ہے کسی بندے کی کیا طاقت تھی کہ سید الانبیاء کی بارگاہ میں ان کے رتبہ کے لائق تحفہ پیش کر سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "اللہ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر پر اور ان کے ساتھ ان کے گھرانے پر بڑی قبولیت رکھتی ہے۔ ان پر ان کے لائق رحمت اترتی ہے، اور ایک دفعہ مانگنے سے دس رحمتیں اترتی ہیں مانگنے والے پر۔ اب جس کا جتنا جی چاہے اتنا حاصل کر لے۔ (تنبیہ) صلوٰۃ علی النبی کے متعقل مزید تفصیلات ان مختصر فوائد میں سما نہیں سکتیں۔ شروح حدیث میں مطالعہ کی جائیں۔ اور اس باب میں شیخ شمس الدین سخاویؒ کا رسالہ "القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع" قابل دید ہے۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں بقدر کفایت لکھ دیا ہے فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَكونوا كَالَّذينَ ءاذَوا موسىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمّا قالوا ۚ وَكانَ عِندَ اللَّهِ وَجيهًا {33:69}
اے ایمان والو تم مت ہو ان جیسے جنہوں نے ستایا موسٰی کو پھر بے عیب دکھلا دیا اسکو اللہ نے انکے کہنے سے اور تھا اللہ کے یہاں آبرو والا [۱۰۰]
O Ye who believe! be not like unto those who annoyed Musa; but Allah cleared him of that which they said, and he was in the sight of Allah illustrious.
یعنی تم ایسا کوئی کام یا کوئی بات نہ کرنا جس سے تمہارے نبی کو ایذا پہنچے۔ نبی کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ اللہ کے ہاں ان کی بڑی آبرو ہے وہ سب اذیت دہ باتوں کو رد کر دے گا۔ ہاں تمہاری عاقبت خراب ہو گی۔ دیکھو حضر ت موسٰیؑ کی نسبت ان لوگوں نے کیسی اذیت دہ باتیں کیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی وجاہت و مقبولیت کی وجہ سے سب کا ابطال فرما دیا اور موسٰیؑ کا بے خطا اور بے داغ ہونا ثابت کر دیا۔ روایات میں ہے کہ بعضے مفسد حضرت موسٰیؑ کو تہمت لگانے لگے کہ حضرت ہارونؑ کو جنگل میں لیجا کر قتل کر آئے ہیں۔ اللہ نے ایک خارق عادت طریقہ سے اس کی تردید کر دی۔ حضرت موسٰیؑ اور پتھر کا واقعہ: اور صحیحین میں ہے کہ حضرت موسٰیؑ حیاء کی وجہ سے (ابنائے زمانہ کے دستور کے خلاف) چھپ کر غسل کرتے تھے، لوگوں نے کہا کہ ان کے بدن میں کچھ عیب ہے، برص کا داغ یا خصیہ پھولا ہوا۔ ایک روز حضرت موسٰیؑ اکیلے نہانے لگے۔ کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے وہ پتھر کپڑے لے کر بھاگا حضرت موسٰیؑ عصا لیکر اس کے پیچھے دوڑے، جہاں سب لوگ دیکھتے تھے،پتھر کھڑا ہو گیا۔ سب نے برہنہ دیکھ کر معلوم کر لیا کہ بے عیب ہیں کسی نے خوب کہا ہے "پوشاند لباس ہر کر اعیبے دید، بے عیباں را لباس عریانی داد۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قارون نے ایک عورت کو کچھ دے دلا کر مجمع میں کہلا دیا کہ موسٰیؑ (العیاذ باللہ) اس کے ساتھ مبتلا ہیں۔ حق تعالیٰ نے آخر قارون کو زمین میں دھنسا دیا اور اسی عورت کی زبان سے اس تہمت کی تردید کرائی جیسا کہ سورہ "قصص" میں گذرا۔ (تنبیہ) موسٰیؑ کا پتھر کے تعاقب میں برہنہ چلے جانا مجبوری کی وجہ سے تھا اور شاید یہ خیال بھی نہ ہو کہ پتھر مجمع میں لیجا کر کھڑا کر دے گا رہی پتھر کی یہ حرکت وہ بطور خرق عادت ہے۔ خوارق عادات پر ہم نے ایک مستقل مضمون لکھا ہے اسے پڑھ لینے کے بعد اس قسم کی جزئیات میں الجھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ بہرحال اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں انبیاء علیہم السلام کو جسمانی و روحانی عیوب سے پاک ثابت کرنے کا کس قدر اہتمام ہے تا لوگوں کے دلوں میں ان کی طرف سے تنفر اور استخفاف کے جذبات پیدا ہو کر قبول حق میں رکاوٹ نہ ہو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقولوا قَولًا سَديدًا {33:70}
اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے اور کہو بات سیدھی
O Ye who believe! fear Allah, and speak a straight speech.

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُركُم وَيُثَبِّت أَقدامَكُم {47:7}
اے ایمان والو اگر تم مدد کر و گے اللہ کی [۱۰] تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور جما دے گا تمہارے پاؤں [۱۱]
O ye who believe! if ye and shall succour Allah, He shall succour you make firm your feet.
یعنی جہاد میں اللہ کی مدد سے تمہارے قدم نہیں ڈگمگائیں گے اور اسلام و طاعت پر ثابت قدم رہو گے جس کے نتیجہ میں "صراط" پر ثابت قدمی نصیب ہو گی۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "اللہ چاہے تو خود ہی کافروں کو مسلمان کر ڈالے۔ پر یہ بھی منظور نہیں۔ جانچنا منظور ہے۔ سو بندہ کی طرف سے کمر باندھنا اور اللہ کی طرف سے کام بنانا"۔
یعنی اللہ کے دین کی اور اسکے پیغمبر کی۔

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَلا تُبطِلوا أَعمٰلَكُم {47:33}
اے ایمان والو حکم پر چلو اللہ کے اور حکم پر چلو رسول کے اور ضائع مت کرو اپنے کئے ہوئے کام [۴۹]
Ye who believe! obey Allah and obey the apostle, and render not Your works vain.
یعنی جہاد، یا اللہ کی راہ میں اور کوئی محنت و ریاضت کرنا اس وقت مقبول ہے جب اللہ و رسول کے حکم کے موافق ہو۔ محض اپنی طبیعت کے شوق یا نفس کی خواہش پر کام نہ کرو۔ ورنہ ایسا عمل یوں ہی بیکار ضائع ہو جائے گا۔ مسلمان کا کام نہیں کہ جو نیک کام کر چکا یا کر رہا ہے اسکو کسی صورت سے ضائع ہونے دے۔ نیک کام کو نہ بیچ میں چھوڑو، نہ ریاء و نمود اور اعجاب و غرور وغیرہ سے اسکو برباد کرو۔ بھلا ارتداد کا تو ذکر کیا ہے جو ایک دم تمام اعمال کو حبط کر دیتا ہے ۔ العیاذ باللہ۔


بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُقَدِّموا بَينَ يَدَىِ اللَّهِ وَرَسولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ {49:1}
اے ایمان والو آگے نہ بڑھو اللہ سے اور اسکے رسول سے [۱] اور ڈرتے رہو اللہ سے اللہ سنتا ہے جانتا ہے [۲]
O ye who believe! be not forward in the presence of Allah and His apostle, and fear Allah; verily Allah is Hearing, Knowing.
یعنی جس معاملہ میں اللہ و رسول کی طرف سے حکم ملنے کی توقع ہو۔ اس کا فیصلہ پہلے ہی آگے بڑھ کر اپنی رائے سے نہ کر بیٹھو۔ بلکہ حکم الٰہی کا انتظار کرو۔ جس وقت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کچھ ارشاد فرمائیں خاموشی سے کان لگا کر سنو۔ ان کے بولنے سے پہلے خود بولنے کی جرأت نہ کرو۔ جو حکم ادھر سے ملے اس پر بے چون چران اور بلا پس و پیش عامل بن جاؤ۔ اپنی اغراض اور اہواء و آراء کو انکے احکام پر مقدم نہ رکھو۔ بلکہ اپنی خواہشات و جذبات کو احکام سماوی کے تابع بناؤ۔ (تنبیہ) اس سورت میں مسلمانوں کو نبی کریم ﷺ کے آداب و حقوق اور اپنے بھائی مسلمانوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم رکھنے کے طریقے سکھلائے ہیں۔ اور یہ کہ مسلمانوں کا جماعتی نظام کن اصول پر کاربند ہونے سے مضبوط و مستحکم رہ سکتا ہے اور اگر کبھی اس میں خرابی اور اختلال پیدا ہو تو اس کا علاج کیا ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ بیشتر نزاعات و مناقشات خودرائی اور غرض پرستی کے ماتحت وقوع پذیر ہوتے ہیں جس کا واحد علاج یہ ہے کہ مسلمان اپنی شخصی رایوں اور غرضوں کو کسی ایک بلند معیار کے تابع کر دیں۔ ظاہر ہے کہ اللہ و رسول کے ارشادات سے بلند کوئی معیار نہیں ہو سکتا۔ ایسا کرنے میں خواہ وقتی اور عارضی طور پر کتنی ہی تکلیف اٹھانی پڑے لیکن اس کا آخری انجام یقینی طور پر دارین کی سرخروئی اور کامیابی ہے۔
یعنی اللہ و رسول کی سچی فرمانبرداری اور تعظیم اسی وقت میسر ہو سکتی ہے جب خدا کا خوف دل میں ہو۔ اگر دل میں ڈر نہیں تو بظاہر دعوائے اسلام کو نباہنے کے لئے اللہ و رسول کا نام باربار زبان پر لائے گا اور بظاہر انکے احکام کو آگے رکھے گا۔ لیکن فی الحقیقیت انکو اپنی اندرونی خواہشات و اغراض کی تحصیل کے لئے ایک حیلہ اور آلہ کار بنائے گا۔ سو یاد رہے کہ جو زبان پر ہے اللہ اسے سنتا ہے اور جو دل میں ہے اسے جانتا ہے ۔ پھر اس کے سامنے یہ فریب کیسے چلے گا چاہئے کہ آدمی اس سے ڈر کر کام کرے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَرفَعوا أَصوٰتَكُم فَوقَ صَوتِ النَّبِىِّ وَلا تَجهَروا لَهُ بِالقَولِ كَجَهرِ بَعضِكُم لِبَعضٍ أَن تَحبَطَ أَعمٰلُكُم وَأَنتُم لا تَشعُرونَ {49:2}
اے ایمان والو بلند نہ کرو اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر اور اس سے نہ بولو تڑخ کر جیسے تڑختے ہو ایک دوسرے پر کہیں اکارت نہ ہو جائیں تمہارے کام اور تم کو خبر بھی نہ ہو [۳]
Ye who believe raise not your voices above the voice of the prophet, nor shout loud Unto him in discourse as ye shout loud Unto one another, lest your works may be rendered of non-effect, while ye perceive not.
یعنی حضورﷺ کی مجلس میں شور نہ کرو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بے تکلف چہک کر یا تڑخ کر بات کرتے ہو، حضور ﷺ کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنا خلاف ادب ہے۔ آپ سےخطاب کرو تو نرم آواز سے تعظیم و احترام کے لہجہ میں ادب و شائستگی کے ساتھ۔ دیکھو ایک مہذب بیٹا اپنے باپ سے، لائق شاگرد استاد سے، مخلص مرید پیر و مرشد سے اور ایک سپاہی اپنے افسر سے کس طرح بات کرتا ہے۔ پیغمبر کا مرتبہ تو ان سب سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ سےگفتگو کرتے وقت پوری احتیاط رکھنی چاہئے۔ مبادا بے ادبی ہو جائے اور آپ کو تکدر پیش آئے۔ تو حضور ﷺ کی ناخوشی کے بعد مسلمان کا ٹھکانا کہاں ہے۔ ایسی صورت میں تمام اعمال ضائع ہونے اور ساری محنت اکارت جانے کا اندیشہ ہے۔ (تنبیہ) بزرگان دین کے آداب: حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضور ﷺ کی احادیث سننے اور پڑھنے کے وقت بھی یہ ہی ادب چاہئے اور قبر شریف کے پاس حاضر ہو وہاں بھی ان آداب کو ملحوظ رکھے۔ نیز آپ کے خلفاء، علمائے ربانیین اور اولوالامر کے ساتھ درجہ بدرجہ اسی ادب سے پیش آنا چاہئے۔ تا جماعتی نظام قائم رہے۔ فرق مراتب نہ کرنے سے بہت مفاسد اور فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهٰلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم نٰدِمينَ {49:6}
اے ایمان والو اگر آئے تمہارے پاس کوئی گنہگار خبر لے کر تو تحقیق کر لو کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچتانے [۷]
ye who believe! if an evil-doer Came Unto you with a report, then inquire strictly, lest ye hurt a people in ignorance and repent thereafter of that which ye have done.
اکثر نزاعات و مناقشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے ۔ اس لئے اول اختلاف و تفریق کے اسی سرچشمہ کر بند کرنے کی تعلیم دی۔ یعنی کسی خبرکو یوں ہی بے تحقیق قبول نہ کرو۔ فرض کیجئے ایک بے راہ رو اور تکلیف دہ آدمی نے اپنے کسی خیال اور جذبہ سے بے قابو ہو کر کسی قوم کی شکایت کی۔ تم محض اسکے بیان پر اعتماد کر کے اس قوم پر چڑھ دوڑے، بعدہٗ ظاہر ہو اکہ اس شخص نے غلط کہا تھا، تو خیال کرو۔ اس وقت کس قدر پچتانا پڑے گا۔ اور اپنی جلدبازی پر کیا کچھ ندامت ہو گی اور اس کا نتیجہ جماعت اسلام کے حق میں کیسا خراب ہو گا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ عَسىٰ أَن يَكونوا خَيرًا مِنهُم وَلا نِساءٌ مِن نِساءٍ عَسىٰ أَن يَكُنَّ خَيرًا مِنهُنَّ ۖ وَلا تَلمِزوا أَنفُسَكُم وَلا تَنابَزوا بِالأَلقٰبِ ۖ بِئسَ الِاسمُ الفُسوقُ بَعدَ الإيمٰنِ ۚ وَمَن لَم يَتُب فَأُولٰئِكَ هُمُ الظّٰلِمونَ {49:11}
اے ایمان والون ٹھٹھا نہ کریں ایک لوگ دوسروں سے شاید وہ بہتر ہوں ان سے اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے شیاد وہ بہتر ہوں ان سے اور عیب نہ لگاؤ ایک دوسرےکو اور نام نہ ڈالو چڑانے کو ایک دوسرے کے [۱۳] برا نام ہے گنہگاری پیچھے ایمان کے [۱۴] اور جو کوئی توبہ نہ کرے تو وہی ہیں بے انصاف [۱۵]
O ye who believe! let not one group scoff at another group, belike they may be better than they are, nor let some women scoff at other women, belike they may be better than they are. And traduce not one another, nor revile one another by odious appellations! ill is the name of sin after belief. And whosoever will not repent, then those, they are the wrong-doers.
اول مسلمانوں میں نزاع و اختلاف کو روکنے کی تدابیر بتلائی تھی۔ پھر بتلایا کہ اگر اتفاقًا اختلاف رونما ہو جائے تو پرزور اور مؤثر طریقہ سے اس کو مٹایا جائے۔ لیکن جب تک نزاع کا خاتمہ نہ ہو کوشش ہونی چاہئے کہ کم از کم جذبات منافرت و مخالفت زیادہ تیز اور مشتعل نہ ہونے پائیں۔ عمومًا دیکھا جاتا ہے کہ جہاں دو شخصوں یا دو جماعتوں میں اختلاف رونما ہوا۔ بس ایک دوسرے کا تمسخر اور استہزاء کرنے لگتا ہے۔ ذرا سی بات ہاتھ لگ گئ اور ہنسی مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ حالانکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید جس کا مذاق اڑا رہا ہے وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔ بکہ بسا اوقات یہ خود بھی اختلاف سے پہلے اسکو بہتر سمجھتا ہوتا ہے۔ مگر ضد ونفسانیت میں دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ اس طریقہ سے نفرت و عداوت کی خلیج روز بروز وسیع ہوتی رہتی ہے۔ اور قلوب میں اس قدر بُعد ہو جاتا ہے کہ صلح وائتلاف کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ آیۂ ہذا میں خداوند قدوس نے اسی قسم کی باتوں سے منع فرمایا ہے۔ یعنی ایک جماعت دوسری جماعت کے ساتھ مسخرا پن نہ کرے نہ ایک دوسرے پر آوازے کسے جائیں نہ کھوج لگا کر عیب نکالے جائیں اور نہ برے ناموں اور برے القاب سے فریق مقابل کو یاد کیا جائے، کیونکہ ان باتوں سے دشمنی اور نفرت میں ترقی ہوتی اور فتنہ و فساد کی آگ اور تیزی سے پھیلتی ہے۔ سبحان اللہ! کیسی بیش بہا ہدایت ہیں۔ آج اگر مسلمان سمجھیں تو ان کے سب سے بڑے مرض کا مکمل علاج اسی ایک سورہ حجرات میں موجود ہے۔
یعنی جو پہلے ہو چکا ہو چکا اب توبہ کر لو۔ اگر یہ احکام و ہدایات سننے کے بعد بھی ان جرائم سے توبہ نہ کی تو اللہ کے نزدیک اصلی ظالم یہ ہی ہوں گے۔
یعنی کسی کو برا نام ڈالنے سے آدمی خود گنہگار ہو تا ہے۔ اُسے تو واقع میں عیب لگا یا نہ لگا لیکن اس کا نام بدتہذیب، فاسق گنہگار، مرد آزار پڑ گیا۔ خیال کرو۔ "مومن" کے بہترین لقب کے بعد یہ نام کیا اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب ایک شخص ایمان لا چکا اور مسلمان ہو گیا اسکو مسلمانی سے پہلے کی باتوں پرطعن دینا یا اس وقت کے بدترین القاب سے یاد کرنا مثلًا یہودی یا نصرانی وغیرہ کہہ کر پکارنا نہایت مذموم حرکت ہے۔ اسی طرح جو شخص عیب میں مبتلا ہوا اور وہ اس کا اختیاری نہ ہو، یا ایک گناہ سے فرض کیجئے توبہ کر چکا ہے، چڑانے کے لئے اس کا ذکر کرنا بھی جائز نہیں۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اجتَنِبوا كَثيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ ۖ وَلا تَجَسَّسوا وَلا يَغتَب بَعضُكُم بَعضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُم أَن يَأكُلَ لَحمَ أَخيهِ مَيتًا فَكَرِهتُموهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوّابٌ رَحيمٌ {49:12}
اے ایمان والو بچتے رہو بہت تہمتیں کرنے سے مقرر بعضی تہمت گناہ ہے اور بھید نہ ٹٹولو کسی کا اور برا نہ کہیو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو [۱۶] بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو سو گھن آتا ہے تم کو اس سے [۱۷] اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ معاف کرنے والا ہے مہربان [۱۸]
O ye who believe! avoid much suspicion; verily some suspicion is a sin. And espy not, nor backbite one another: would any of you love to eat the flesh of his dead brother? Ye detest that. And fear Allah verily Allah is Relenting, Merciful.
یعنی ان نصیحتوں پر کاربند وہ ہی ہو گا جس کے دل میں خدا کا ڈر ہو۔ یہ نہیں تو کچھ نہیں۔ چاہئے کہ ایمان و اسلام کا دعوٰی رکھنے والے واقعی طور پر اس خداوند قہار کے غضب سے ڈریں اور ایسی ناشائستہ حرکتوں کے قریب نہ جائیں۔ اگر پہلے کچھ غلطیاں اور کمزوریاں سرزد ہوئی ہوں، اللہ کے سامنے صدق دل سے توبہ کریں وہ اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا۔
اختلاف و تفریق باہمی کے بڑھانے میں ان امور کو خصوصیت سے دخل ہے۔ ایک فریق دوسرے فریق سے ایسا بدگمان ہو جاتا ہے کہ حسن ظن کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ مخالف کی کوئی بات ہو اس کا محل اپنے خلاف نکال لیتا ہے ۔ اس کی بات میں ہزار احتمال بھلائی کے ہوں اور اور صرف ایک پہلو برائی کا نکلتا ہو۔ ہمیشہ اس کی طبیعت برے پہلو کی طرف چلے گی اور اسی برے اور کمزور پہلو کو قطعی اور یقینی قرار دے کر فریق مقابل پر تہمتیں اور الزام لگانا شروع کر دے گا۔ پھر نہ صرف یہ ہی کہ ایک بات حسب اتفاق پہنچ گئ، بدگمانی سے اسکو غلط معنی پہنچا دیے گئے، نہیں، اس جستجو میں رہتا ہے کہ دوسری طرف کے اندرونی بھید معلوم ہوں جس پر ہم خوب حاشیے چڑھائیں۔ اور اسکی غیبت سے اپنی مجلس گرم کریں۔ ان تمام خرافات سے قرآن کریم منع کرتا ہے۔ اگر مسلمان اس پرعمل کریں تو جو اختلافات بدقسمتی سے پیش آ جاتے ہیں وہ اپنی حد سے آگے نہ بڑھیں اور ان کا ضرر بہت محدود ہو جائے۔ بلکہ چند روز میں نفسانی اختلافات کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتےہیں "الزام لگانا اور بھید ٹٹولنا اور پیٹھ پیچھے برا کہنا کسی جگہ بہتر نہیں۔ مگر جہاں اس میں کچھ دین کا فائدہ ہو اور نفسانیت کی غرض نہ ہو"۔ وہاں اجازت ہے جیسے رجال حدیث کی نسبت ائمہ جرع و تعدیل کا معمول رہا ہے کیونکہ اس کے بدون دین کا محفوظ رکھنا محال تھا۔
یعنی مسلمان بھائی کی غیبت کرنا ایسا گندہ اور گھناؤنا کام ہے جیسے کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کاگوشت نوچ نوچ کر کھائے۔ کیا اس کو کوئی انسان پسندکرے گا؟ بس سمجھ لو غیبت اس سے بھی زیادہ شنیع حرکت ہے۔



يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَءامِنوا بِرَسولِهِ يُؤتِكُم كِفلَينِ مِن رَحمَتِهِ وَيَجعَل لَكُم نورًا تَمشونَ بِهِ وَيَغفِر لَكُم ۚ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ {57:28}
اے یمان والو ڈرتے رہو اللہ سے اور یقین لاؤ اُسکے رسول پر دے گا تم کو دو حصے اپنی رحمت سے اور رکھ دے گا تم میں روشنی جس کو لئے پھرو اور تم کو معاف کرے گا اور اللہ معاف کرنے والا ہے مہربان [۵۴]
O ye who believe! fear Aliah and believe in His apostle; He will vouch safe Unto you two portions of His mercy and will appoint for you a light wherewith ye will walk,and He will forgive you. And Allah is Forgiving, Merciful.
یعنی اس رسول کے تابع رہو کہ یہ نعمتیں پاؤ۔ گذشتہ خطاؤں کی معافی اور ہر عمل کا دونا ثواب، اور روشنی لئے پھرو۔ یعنی تمہارا وجود ایمان و تقوٰی سے نورانی ہو جائے۔ اور آخرت میں یہ ہی نور تمہاے آگے اور داہنی طرف چلے۔ (تنبیہ) احقر کے خیال میں یہ خطاب ان اہل کتاب کو ہے جو حضور ﷺ پر ایمان لا چکے تھے۔ اس تقریر پر { وَاٰمِنُوْ بِرَسُوْلِہٖ } سے ایمان پر ثابت و مستقیم رہنا مراد ہو گا۔ باقی اہل کتاب کو دونا ثواب ملنے کا کچھ بیان سورہ "قصص" میں گذر چکا ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَنٰجَيتُم فَلا تَتَنٰجَوا بِالإِثمِ وَالعُدوٰنِ وَمَعصِيَتِ الرَّسولِ وَتَنٰجَوا بِالبِرِّ وَالتَّقوىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذى إِلَيهِ تُحشَرونَ {58:9}
اے ایمان والو جب تم کان میں بات کرو تو مت کرو بات گناہ کی اور زیادتی کی اور رسول کی نافرمانی کی اور بات کرو احسان کی اور پرہیزگاری کی [۱۷] اور ڈرتے رہو اللہ سے جسکے پاس تم کو جمع ہو نا ہے [۱۸]
O ye who believe! when ye whisper together, whisper not of sin, transgression and disobedience toward the apostle; but whisper for virtue and piety. And fear Allah Unto Whom ye will be gathered.
یعنی سچے مسلمانوں کو منافقین کی خو سے بچنا چاہیئے۔ ان کی سرگوشیاں اور مشورے ظلم و عدوان اور اللہ و رسول کی نافرمانی کے لئے نہیں، بلکہ نیکی اور تقویٰ اور معقول باتوں کی اشاعت کیلئے ہونے چاہئیں جیسا کہ سورۃ "النساء "میں گذرا { لَاخَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوَاھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ } (النساء رکوع۱۷)۔
یعنی سب کو اللہ کے سامنے جمع ہو کر ذرّہ ذرّہ کا حساب دینا ہے۔ اس سے کسی کا ظاہر و باطن پوشیدہ نہیں۔ لھٰذا اس سے ڈر کر نیکی اور پرہیزگاری کی بات کرو۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قيلَ لَكُم تَفَسَّحوا فِى المَجٰلِسِ فَافسَحوا يَفسَحِ اللَّهُ لَكُم ۖ وَإِذا قيلَ انشُزوا فَانشُزوا يَرفَعِ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَالَّذينَ أوتُوا العِلمَ دَرَجٰتٍ ۚ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ {58:11}
اے ایمان والو جب کوئی تم کو کہے کہ کھل کر بیٹھو [۲۰] مجلسوں میں تو کھل جاؤ اللہ کشادگی دے تم کو [۲۱] اور جب کوئی کہے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہو [۲۲] اللہ بلند کرے گا اُنکے لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں تم میں سے اور علم انکے درجے [۲۳] اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو [۲۴]
O ye who believe! when it is said Unto you: make room in your assemblies, then make room; Allah will make room for you. And when it is said: rise up, then rise up; Allah will exalt those who believe among you and those who are vouchsafed knowledge, in degrees. And Allah is of whatsoever ye work Aware.
یعنی اس طرح بیٹھو کہ جگہ کھل جائے اور دوسروں کو بھی موقع بیٹھنے کا ملے۔
یعنی ہر ایک کو اس کے کام اور لیاقت کے موافق درجے عطا کرتا ہے اور وہ وہی جانتا ہے کہ کون واقعی ایماندار اور اہل علم ہیں۔
یعنی حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔ "یہ آداب ہیں مجلس کے۔ کوئی آئے اور جگہ نہ پائے تو چاہیئے سب تھوڑا تھوڑا ہٹیں تا مکان حلقہ کشادہ ہو جائے۔ یا (اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوں اور) پرے ہٹ کر حلقہ کرلیں۔ (یا بالکل چلے جانے کو کہا جائے تو چلے جائیں) اتنی حرکت میں غرور (یا بخل) نہ کریں۔ خوئے نیک پر اللہ مہربان ہے اور خوئے بد سے بیزار"۔ (تنبیہ) حضور ﷺ پر نور کی مجلس میں ہر شخص آپ ﷺ کا قرب چاہتا تھا جس سے کبھی مجلس میں تنگی پیش آتی تھی۔ حتّٰی کہ بعض مرتبہ اکابر صحابہؓ کو حضور ﷺ کے قریب جگہ نہ ملتی۔ اس لئے یہ احکام دیئے گئے۔ تا ہر ایک کو درجہ بدرجہ استفادہ کا موقع ملے، اور نظم و ضبط قائم رہے۔ اب بھی اس قوم کی انتظامی چیزوں میں صدر مجلس کے احکام کی اطاعت کرنا چاہیئے۔ اسلام ابتری اور بدنظمی نہیں سکھلاتا۔ بلکہ انتہائی نظم و شائستگی سکھلاتا ہے۔ اور جب عام مجالس میں یہ حکم ہے تو میدانِ جہاد اور صفوفِ جنگ میں تو اس سے کہیں بڑھ کر ہو گا۔
یعنی اللہ تمہاری تنگیوں کو دور کریگا اور اپنی رحمت کے دروارے کشادہ کر دیگا۔
یعنی سچّا ایمان اور صحیح علم انسان کو ادب و تہذیب سکھلاتا اور متواضع بناتا ہے۔ اہل علم و ایمان جس قدر کمالات و مراتب میں ترقی کرتے ہیں، اسی قدر جھکتے اور اپنے کو ناچیز سمجھتے جاتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ ان کے درجے اور زیادہ بلند کرتا ہے { مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ }۔ یہ متکبربددین یا جاہل گنوار کاکام ہے کہ اتنی سی بات پر لڑے کہ مجھے یہاں سے کیوں اٹھادیا اور وہاں کیوں بٹھا دیا۔ یا مجلس سے اٹھ کر جانے کو کیوں کہا۔ افسوس کہ آج بہت سے بزرگ اور عالم کہلانے والے اسی خیالی اعزاز کے سلسلہ میں غیر مختتم جنگ آزمائی اور مورچہ بندی شروع کر دیتے ہیں { اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن }۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نٰجَيتُمُ الرَّسولَ فَقَدِّموا بَينَ يَدَى نَجوىٰكُم صَدَقَةً ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ لَكُم وَأَطهَرُ ۚ فَإِن لَم تَجِدوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ {58:12}
اے ایمان والو جب تم کان میں بات کہنا چاہو رسول سے تو آگے بھیجو اپنی بات کہنے سے پہلے خیرات یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اور بہت ستھرا پھر اگر نہ پاؤ تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے [۲۵]
O ye who believe! when ye go to whisper with the apostle, offer alms before your whispering; that is better for you and purer. Then if ye find not the wherewith, then verily Allah is Forgiving, Merciful.
یعنی منافق بے فائدہ باتیں حضرت ﷺ سے کان میں کرتے کہ لوگوں میں اپنی بڑائی جتائیں اور بعض مسلمان غیر مبہم باتوں میں سرگوشی کرکے اتنا وقت لے لیتے تھے کہ دوسروں کو حضور ﷺ سے مستفید ہونے کا موقع نہ ملتا تھا، یا کسی وقت آپﷺ خلوت چاہتے تو اس میں بھی تنگی ہوتی تھی لیکن مروت و اخلاق کے سبب کسی کو منع نہ فرماتے۔ اس وقت یہ حکم ہوا کہ جو مقدرت والا آدمی حضور ﷺ سے سرگوشی کرنا چاہے وہ اس سے پہلے کچھ خیرات کرکے آیا کرے۔ اس میں کئی فائدے ہیں۔ غریبوں کی خدمت، صدقہ کرنے والے کے نفس کا تزکیہ، مخلص و منافق کی تمیز، سرگوشی کرنیوالوں کی تقلیل، وغیر ذٰلک۔ ہاں جس کے پاس خیرات کرنے کو کچھ نہ ہو، اس سے یہ قید معاف ہے۔ جب یہ حکم اترا منافقین نے مارے بخل کے وہ عادت چھوڑ دی اور مسلمان بھی سمجھ گئے کہ زیادہ سرگوشیاں کرنا اللہ کو پسند نہیں۔ اسی لئے یہ قید لگائی گئ ہے۔ آخر یہ حکم اگلی آیت سے منسوخ فرما دیا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلتَنظُر نَفسٌ ما قَدَّمَت لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما تَعمَلونَ {59:18}
اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے اور چاہیے کہ دیکھ لے ہر ایک جی کیا بھیجتا ہے کل کے واسطے [۳۴] اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو [۳۵]
O ye who believe! fear Allah, and let every soul look to that which it sendeth forward for the morrow. And fear Allah; veril Allah is Aware of that which ye work.
یعنی اللہ سے ڈر کر طاعات اور نیکیوں کا ذخیرہ فراہم کرو اور سوچو کہ کل کے لئے کیا سامان تم نے آگے بھیجا ہے جو مرنے کے بعد وہاں پہنچ کر تمہارے کام آئے۔
یعنی تمہارا کوئی کام اللہ سے پوشیدہ نہیں لہٰذا اس سے ڈر کرتقویٰ کاراستہ اختیار کرو اور معاصی سے پرہیز رکھو۔


بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ تُلقونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَقَد كَفَروا بِما جاءَكُم مِنَ الحَقِّ يُخرِجونَ الرَّسولَ وَإِيّاكُم ۙ أَن تُؤمِنوا بِاللَّهِ رَبِّكُم إِن كُنتُم خَرَجتُم جِهٰدًا فى سَبيلى وَابتِغاءَ مَرضاتى ۚ تُسِرّونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَأَنا۠ أَعلَمُ بِما أَخفَيتُم وَما أَعلَنتُم ۚ وَمَن يَفعَلهُ مِنكُم فَقَد ضَلَّ سَواءَ السَّبيلِ {60:1}
[ا] اے ایمان والو نہ پکڑو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست تم اُنکو پیغام بھیجتےہو دوستی سے [۲] اور وہ منکر ہوئے ہیں اُس سے جو تمہارے پاس آیا سچا دین [۳] نکالتے ہیں رسول کو اور تم کو اس بات پر کہ تم مانتے ہو اللہ کو جو رب ہے تمہارا [۴] اگر تم نکلے ہو لڑنے کو میری راہ میں اور طلب کرنے کو میری رضامندی [۵] تم اُنکو چھپا کر بھیجتے ہو دوستی کے پیغام اور مجھ کو خوب معلوم ہے جو چھپایا تم نے اور جو ظاہر کیا تم نے [۶] اور جو کوئی تم میں یہ کام کرے تو وہ بھول گیا سیدھی راہ [۷]
O ye who believe! take not Mine enemy and your enemy for friends, showing affection toward them, whilst they of a surety disbelieve in that which hath come Unto you of the truth, and have driven forth the apostle and yourselves because ye believe in Allah, your Lord, if ye have come forth to strive in My way and to seek My goodwill. Ye secretly show them affection, while I am best Knower of that which ye conceal and that which ya make known! And whosoever of you doth this, he hath surely strayed from the straight path.
یعنی تمہارا گھر سے نکلنا اگر میری خوشنودی اور میری راہ میں جہاد کرنے کے لئے ہے اور خالص میری رضا کے واسطے تم نے سب کو دشمن بنایا ہے تو پھر انہی دشمنوں سے دوستی گانٹھنے کا کیا مطلب، کیا جنہیں ناراض کرکے اللہ کو راضی کیا تھا اب انہیں راضی کرکے اللہ کو ناراض کرنا چاہتے ہو؟ العیاذ باللہ۔
اس لئے اللہ کے دشمن ہوئے۔
یعنی مسلمان ہو کر کوئی ایسا کام کرے اور یہ سمجھے کہ میں اس کے پوشیدہ رکھنے میں کامیاب ہوجاؤنگا سخت غلطی اور بہت بڑی بھول ہے۔
یعنی آنحضرت ﷺ کی صلح مکہ والوں سے ہوئی تھی جس کا ذکر { انا فتحنا } میں آچکا۔ دو برس یہ صلح قائم رہی، پھر کافروں کی طرف سے ٹوٹی۔ تب حضرت ﷺ نے خاموشی کے ساتھ فوج جمع کر کے مکہ فتح کرنے کا ارادہ کیا۔ خبروں کی بندش کردی گئ۔ مبادا کفار مکہ آپ ﷺ کی تیاریوں سے آگاہ ہو کر لڑائی کا سامان شروع کر دیں۔ اور اس طرح حرم شریف میں جنگ کرنا ناگزیر ہو جائے۔ ایک مسلمان حاطب بن ابی بلتعہؓ نے (جو مہاجرین بدریین میں سے تھے) مکہ والوں کو خط بھیجا کہ محمد ﷺ کا لشکر اندھیری رات اور سیل بے پناہ کی طرح تم پر ٹوٹنے والا ہے۔ حضرت ﷺ کو وحی سے معلوم ہوگیا۔ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ وغیرہ چند صحابہؓ کو حکم دیا کہ ایک عورت مکہ کے راستہ میں سفر کرتی ہوئی فلاں مقام پر ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے، وہ حاصل کر کے لاؤ۔ یہ لوگ تیزی سے روانہ ہوئے اور عورت کو ٹھیک اسی مقام پر پالیا۔ اس نے بہت لیت و لیل اور ردّو کد کے بعد خط ان کے حوالے کیا۔ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ حاطب بن ابی بلتعہؓ کی طرف سے کفار مکہ کے نام ہے اور مسلمانوں کے حملہ کی اطلاع دی گئ ہے۔ آپ ﷺ نے حاطبؓ کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا حرکت ہے۔ بولے یارسول اللہ ﷺ نہ میں نے کفر اختیار کیا ہے نہ اسلام سے پھرا ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ میرے اہل وعیال مکہ میں ہیں۔ وہاں ان کی حمایت کرنیوالا کوئی نہیں۔ میں نے کافروں پرا یک احسان کرکے یہ چاہا کہ وہ لوگ اس کے معاوضہ میں میرے اہل و عیال کی خبر لیتے رہیں اور ان سے اچھا سلوک کریں (میں نے سمجھا کہ اس سے میرا کچھ فائدہ ہو جائے گا اور اسلام کو کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا) فتح و نصرت کے جو وعدے اللہ نے آپ ﷺ سے کئے ہیں وہ یقیناً پورے ہو کر رہیں گے۔ کسی کے روکے رک نہیں سکتے۔ (چناچہ نفس خط میں بھی یہ مضمون تھا کہ"خدا کی قسم ! اگر رسول اللہ ﷺ تن تنہا بھی تم پر حملہ آور ہوں تو اللہ ان کی مدد کریگا اور جو وعدے ان سے کئے ہیں پورے کرکے چھوڑیگا" بلاشبہ حاطبؓ سے بہت بڑی خطا ہوئی لیکن رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا { لاتقولو الہ الا خیرا } بھلائی کے سوا اس کو کچھ مت کہو۔ اور فرمایا حاطبؓ بدریین میں سے ہے تمہیں کیا معلوم ہے کہ اللہ نے بدریین کی خطائیں معاف فرمادیں۔ سورۃ ہذا کا بڑا حصہ اسی قصہ میں نازل ہوا۔
یعنی کفار مکہ اللہ کے دشمن ہیں اور تمہارے بھی۔ ان سے دوستانہ برتاؤ کرنا اور دوستانہ پیغام ان کی طرف بھیجنا ایمان والوں کو زیبا نہیں۔
یعنی پیغمبر کو اور تم کو کیسی کیسی ایذائیں دے کر ترک وطن پر مجبور کیا۔ محض اس قصور پر کہ تم ایک اللہ کو جو تمہارا سب کا رب ہے، کیوں مانتے ہو۔ اس سے بڑی دشمنی اور ظلم کیا ہوگا۔ تعجب ہے کہ ایسوں کی طرف تم دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہو۔
یعنی آدمی ایک کام تمام دنیا سے چھپا کرکرنا چاہے تو کیا اسکو اللہ سے چھپا لیگا؟ دیکھو! حاطبؓ نے کس قدر کوشش کی کہ خط کی اطلاع کسی کو نہ ہو۔ مگر اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو مطلع فرمادیا۔ اور راز قبل از وقت فاش ہوگیا۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا جاءَكُمُ المُؤمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامتَحِنوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعلَمُ بِإيمٰنِهِنَّ ۖ فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنٰتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ ۖ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ ۖ وَءاتوهُم ما أَنفَقوا ۚ وَلا جُناحَ عَلَيكُم أَن تَنكِحوهُنَّ إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَهُنَّ ۚ وَلا تُمسِكوا بِعِصَمِ الكَوافِرِ وَسـَٔلوا ما أَنفَقتُم وَليَسـَٔلوا ما أَنفَقوا ۚ ذٰلِكُم حُكمُ اللَّهِ ۖ يَحكُمُ بَينَكُم ۚ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ {60:10}
اے ایمان والو جب آئیں تمہارے پاس ایمان والی عورتیں وطن چھوڑ کر تو ان کو جانچ لو اللہ خوب جانتا ہے انکے ایمان کو [۲۲] پھر اگر جانو کہ وہ ایمان پر ہیں تو مت پھیرو اُنکو کافروں کی طرف نہ یہ عورتیں حلال ہیں اُن کافروں کو اور نہ وہ کافر حلال ہیں ان عورتوں کو اور دیدو اُن کافروں کو جو ان کا خرچ ہوا ہو اور گناہ نہیں تم کو کہ نکاح کر لو اُن عورتوں سے جب اُنکو دو انُکے مہر [۲۳] اور نہ رکھو اپنے قبضہ میں ناموس کافر عورتوں کے اور تم مانگ لو جو تم نے خرچ کیا اور وہ کافر مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا یہ اللہ کا فیصلہ ہے تم میں فیصلہ کرتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے [۲۴]
O ye who believe! when believing women come Unto you as emigrants examine them. Allah is the best Knower of their faith. Then if ye know them to be true believers, send them not back Unto the infidels; they are not lawful Unto them, nor are they lawful Unto them. And give them that which they have expended. Nor is it any crime in you if ye marry them when ye have given their hires. And hold not to the ties of the infidel women, and ask back that which ye have expended, and let them ask back that which they have expended. That is the judgment of Allah; He judgeth between you, And Allah is Knowing, Wise.
یہ حکم ہوا کہ زوجین میں اگر ایک مسلمان اور دوسرا مشرک ہو تو اختلاف دارین کے بعد تعلق نکاح قائم نہیں رہتا۔ پس اگر کسی کافر کی عورت مسلمان ہو کر "دارالاسلام" میں آجائے تو جو مسلمان اس سے نکاح کرے اس کے ذمہ ہے کہ اس کافر نے جتنا مہر عورت پر خرچ کیا تھا وہ اسے واپس کردے۔ اور اب عورت کا جو مہر قرار پائے وہ جدا اپنے ذمہ رکھے تب نکاح میں لاسکتا ہے۔
یعنی دل کا حال تو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لیکن ظاہری طور سے ان عورتوں کی جانچ کرلیا کرو۔ آیا واقعی وہ مسلمان ہیں اور محض اسلام کی خاطر وطن چھوڑ کر آئی ہیں۔ کوئی دنیوی یا نفسانی غرض تو ہجرت کا سبب نہیں ہوا۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمرؓ ان کا امتحان کرتے تھے۔ اور حضورﷺ کی طرف سے ان سے بیعت لیتے تھے۔ اور کبھی حضور ﷺ خود بہ نفسِ نفیس بیعت لیا کرتے تھے جو آگے { یٰٓاَ اَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَاجَآءَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ } الخ میں مذکور ہے۔
پہلے حکم کے مقابل دوسری طرف یہ حکم ہوا کہ جس مسلمان کی عورت کافر رہ گئ ہے وہ اس کو چھوڑ دے۔ پھر جو کافر اس سے نکاح کرے اس مسلمان کا خرچ کیا ہوا مہر واپس کرے۔ اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے سے اپنا حق طلب کرلیں۔ جب یہ حکم اترا تو مسلمان تیار ہوئے دینے کو بھی اور لینے کو بھی لیکن کافروں نے دینا قبول نہ کیا۔ تب اگلی آیت نازل ہوئی۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَوَلَّوا قَومًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِم قَد يَئِسوا مِنَ الءاخِرَةِ كَما يَئِسَ الكُفّارُ مِن أَصحٰبِ القُبورِ {60:13}
اے ایمان والو مت دوستی کرو اُن لوگوں سے کہ غصہ ہوا ہے اللہ اُن پر [۳۰] وہ آس توڑ چکے ہیں پچھلے گھر سے جیسے آس توڑی منکروں نے قبر والوں سے [۳۱]
O ye who believe! befriend not a people against whom Allah is Wroth. Surely they have despaired of tHe Hereafter even as have despaired the entombed of the infidels. S
شروع سورت میں جو مضمون تھا، خاتمہ پر پھر یاد دلادیا یعنی مؤمن کی شان نہیں کہ جس پر خدا ناراض ہو اس سے دوستی اور رفاقت کا معاملہ کرے۔ جس پر خدا کا غصہ ہو، خدا کے دوستوں کا بھی غصہ ہونا چاہیئے۔
یعنی منکروں کو توقع نہیں کہ قبر سے کوئی اٹھیگا اور پھر دوسری زندگی میں ایک دوسرے سے ملیں گے۔ یہ کافر بھی ویسے ہی ناامید ہیں۔ (تنبیہ) بعض مفسرین کے نزدیک { مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ } کفار کا بیان ہے یعنی جس طرح کافر جو قبر میں پہنچ چکے وہاں کا حال دیکھ کر اللہ کی مہربانی اور خوشنودی سے بالکلیہ مایوس ہوچکے ہیں اسی طرح یہ کافر بھی آخرت کی طرف سے مایوس ہیں۔ تم سورۃ الممتحنہ۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لِمَ تَقولونَ ما لا تَفعَلونَ {61:2}
اے ایمان والو کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے
O ye who believe! wherefore say ye that which ye do not?

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا هَل أَدُلُّكُم عَلىٰ تِجٰرَةٍ تُنجيكُم مِن عَذابٍ أَليمٍ {61:10}
اے ایمان والو میں بتلاؤں تم کو ایسی سوداگری جو بچائے تم کو ایک عذاب دردناک سے
O ye who believe! shall direct you to a merchandise that will deliver you from a torment afflictive?

تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَرَسولِهِ وَتُجٰهِدونَ فى سَبيلِ اللَّهِ بِأَموٰلِكُم وَأَنفُسِكُم ۚ ذٰلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ {61:11}
ایمان لاؤ اللہ پر اور اُسکے رسول پر اور لڑو اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور اپنی جان سے یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم سمجھ رکھتے ہو
It is that ye should believe in Allah and His apostle and strive in the way of Allah with your riches and Your lives That is best for you, if ye only knew!


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كونوا أَنصارَ اللَّهِ كَما قالَ عيسَى ابنُ مَريَمَ لِلحَوارِيّۦنَ مَن أَنصارى إِلَى اللَّهِ ۖ قالَ الحَوارِيّونَ نَحنُ أَنصارُ اللَّهِ ۖ فَـٔامَنَت طائِفَةٌ مِن بَنى إِسرٰءيلَ وَكَفَرَت طائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدنَا الَّذينَ ءامَنوا عَلىٰ عَدُوِّهِم فَأَصبَحوا ظٰهِرينَ {61:14}
اے ایمان والو تم ہو جاؤ مددگار اللہ کے [۱۵] جیسے کہا عیسٰی مریم کے بیٹے نے اپنے یاروں کو کون ہے کہ مدد کرے میری اللہ کی راہ میں بولے یار ہم ہیں مددگار اللہ کے [۱۶] پھر ایمان لایا ایک فرقہ بنی اسرائیل سے اور منکر ہوا ایک فرقہ پھر قوت دی ہم نے اُنکو جو ایمان لائے تھے اُنکے دشمنوں پر پھر ہو رہے غالب [۱۷]
O ye who believe! be Allah's helpers, even as 'Isa, son of Maryam, said Unto the disciples: who shall be my helpers Unto Allah? The disciples said: we are Allah's helpers. Then a part of the Children of Israil believed, and part disbelieved. Then We strengthened those who believed against their foe; wherefore they became triumphant.
یعنی اس کے دین اور اس کے پیغمبر کے مددگار بن جاؤ۔ اس حکم کی تعمیل خدا کے فضل و توفیق سے مسلمانوں نے ایسی کی کہ ان میں سے ایک جماعت کا تو نام ہی "انصار" پڑگیا۔
"حواریین" (یاران مسیحؑ) تھوڑے سے تو گنے چنے آدمی تھے جو اپنے نسب و حسب کے اعتبار سے کچھ معزز نہیں سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیحؑ کو قبول کیا اور ان کی دعوت کو بڑی قربانیاں کر کے دیاروامصار میں پھیلایا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "حضرت عیسیٰؑ کے بعد ان کے یاروں نے بڑی محنتیں کی ہیں تب ان کا دین نشر ہوا۔ ہمارے حضرت ﷺ کے پیچھے بھی خلفاءؓ نے اس سے زیادہ کیا"۔ والحمد للہ علیٰ ذلک۔
یعنی "بنی اسرائیل" میں دو فرقے ہوگئے۔ ایک ایمان پر قائم ہوا۔ دوسرے نے انکار کیا۔ پھر حضرت مسیحؑ کے بعد آپس میں دست و گریبان رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس بحث ومناظرہ اور خانہ جنگیوں میں مؤمنین کو منکرین پر غالب کیا۔ حضرت مسیحؑ کے نام لیوا (نصارٰی) یہود پر غالب رہے اور نصارٰی میں سے ان کی عام گمراہی کے بعد جو بچے کھچے افراد صحیح عقیدہ پر قائم رہ گئے تھے ان کو حق تعالیٰ نے نبی آخرالزماں ﷺ کے ذریعہ سے دوسروں پر غلبہ عنایت فرمایا۔ حجت و برہان کے اعتبار سے بھی اور قوت و سلطنت کے حیثیت سے بھی۔ فللہ الحمد والمنۃ۔ تم سورۃ الصف وللّٰہ الحمد والمنہ۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نودِىَ لِلصَّلوٰةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ وَذَرُوا البَيعَ ۚ ذٰلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ {62:9}
اے ایمان والو جب اذان ہو نماز کی جمعہ کے دن تو دوڑو اللہ کی یاد کو اور چھوڑ دو خرید و فروخت [۱۱] یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم کو سمجھ ہے [۱۲]
O ye who believe! when the call to prayer is made on the day of Friday then repair Unto the remembrance of Allah and leave off bargaining. That is better for you if ye know
ظاہر ہے کہ منافع آخرت کے سامنے دنیوی فوائد کیا حقیقت رکھتے ہیں۔
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "ہر اذان کا یہ حکم نہیں، کیونکہ جماعت پھر بھی ملیگی۔ اور جمعہ ایک ہی جگہ ہوتا تھا پھر کہاں ملیگا"۔ اور اللہ کی یاد سے مراد خطبہ ہے اور نماز بھی اس کے عموم میں داخل ہے۔ یعنی ایسے وقت جائے کہ خطبہ سنے۔ اس وقت خریدوفروخت حرام ہے۔ اور "دوڑنے" سے مراد پورے اہتمام اور مستعدی کے ساتھ جانا ہے۔ بھاگنا مراد نہیں۔ (تنبیہ) { نُوْدِیَ } سے مراد قرآن میں وہ اذان ہے جو نزول آیت کے وقت تھی یعنی جو امام کے سامنے ہوتی ہے۔ کیونکہ اس سے پہلی اذان بعد کو حضرت عثمانؓ کے عہد میں صحابہؓ کے اجماع سے مقرر ہوئی ہے۔ لکین حرمت بیع میں اس اذان کا حکم بھی مثل حکم اذان قدیم کے ہے کیونکہ اشتراک علت سے حکم میں اشتراک ہوتا ہے۔ البتہ اذان قدیم میں یہ حکم منصوص و قطعی ہوگا اور اذان حادث میں یہ حکم مجتہد فیہ اور ظنی رہیگا۔ اس تقریر سے تمام علمی اشکالات مرتفع ہوگئے۔ نیز واضح رہے کہ { یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ } یہاں "عام مخصوص منہ البعض" ہے، کیونکہ بالاجماع بعض مسلمانوں (مثلاً مسافر و مریض وغیرہ) پر جمعہ فرض نہیں۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُلهِكُم أَموٰلُكُم وَلا أَولٰدُكُم عَن ذِكرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ فَأُولٰئِكَ هُمُ الخٰسِرونَ {63:9}
اے ایمان والو غافل نہ کردیں تم کو تمہاے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے اور جو کوئی یہ کام کرے تو وہی لوگ ہیں ٹوٹے میں [۱۶]
O ye who believe let not your riches or your children divert you from the remembrance of Allah. And whosoever doth that then those! they are the losers.
یعنی آدمی کے لئے بڑے خسارے اور ٹوٹے کی بات ہے کہ باقی کو چھوڑ کر فانی میں مشغول ہو اور اعلیٰ سے ہٹ کر ادنیٰ میں پھنس جائے مال و اولاد وہ ہی اچھی ہے جو اللہ کی یاد اور اس کی عبادت سے غافل نہ کرے۔ اگر ان دھندوں میں پڑ کر خدا کی یاد سے غافل ہوگیا تو آخرت بھی کھوئی اور دنیا میں قلبی سکون و اطمینان نصیب نہ ہوا۔ { وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی }۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّ مِن أَزوٰجِكُم وَأَولٰدِكُم عَدُوًّا لَكُم فَاحذَروهُم ۚ وَإِن تَعفوا وَتَصفَحوا وَتَغفِروا فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ {64:14}
اے ایمان والو تمہاری بعض جوروئیں اور اولاد دشمن ہیں تمہارے [۱۸] سو اُن سے بچتے رہو اور اگر معاف کرو اور درگزرو اور بخشو تو اللہ ہے بخشنے والا مہربان [۱۹]
O ye who believe! verily of your wives and your children there is an enemy Unto you; wherefore beware of them. And if ye pardon and pass over and forgive, then verily Allah is Forgiving, Merciful.
یعنی اگر انہوں نے تمہارے ساتھ دشمنی کی اور تم کو دینی یا دنیوی نقصان پہنچ گیا تو اس کا اثر یہ نہ ہونا چاہیئے کہ تم انتقام کے درپے ہو جاؤ۔ اور ان پر نامناسب سختی شروع کر دو۔ ایسا کرنے سے دنیا کا انتظام درہم برہم ہوجائے گا۔ جہاں تک عقلًا و شرعًا گنجائش ہو ان کی حماقتوں اور کوتاہیوں کو معاف کرو اور عفودرگذر سے کام لو۔ ان مکارم اخلاق پر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ مہربانی کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو معاف فرمائے گا۔
بہت مرتبہ آدمی بیوی بچوں کی محبت اور فکر میں پھنس کر اللہ کو اور اس کے احکام کو بھلا دیتا ہے۔ ان تعلقات کے پیچھے کتنی برائیوں کا ارتکاب کرتا اور کتنی بھلائیوں سے محروم رہتا ہے۔ بیوی اور اولاد کی فرمائشیں اور رضا جوئی اسے کسی وقت دم نہیں لینے دیتی۔ اس چکر میں پڑ کر آخرت سے غافل ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے جو اہل وعیال اتنے بڑے خسارے اور نقصان کا سبب بنیں۔ وہ حقیقۃً اس کے دوست نہیں کہلا سکتے بلکہ بدترین دشمن ہیں۔ جن کی دشمنی کا احساس بھی بسا اوقات انسان کو نہیں ہوتا۔ اسی لئے حق تعالیٰ نے متنبہ فرما دیا کہ ان دشمنوں سے ہشیار رہو اور ایسا رویہ اختیار کرنے سے بچو جس کا نتیجہ ان کی دنیا سنوارنے کی خاطر اپنا دین برباد کرنے کے سوا کچھ نہ ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں سب بیویاں اور ساری اولاد اسی قماش کی ہوتی ہے۔ بہت اللہ کی بندیاں ہیں جو اپنے شوہروں کے دین کی حفاظت کرتی اور نیک کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں، اور کتنی ہی سعادتمند اولاد ہے جو اپنے والدین کے لئے باقیات صالحات بنتی ہے ۔جعلنا اللہ منھم بفضلہ ومنہ۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارًا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَةُ عَلَيها مَلٰئِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَرونَ {66:6}
اے ایمان والو بچاؤ اپنی جان کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے جسکی چھپٹیاں ہیں آدمی اور پتھر [۹] اُس پر مقرر ہیں فرشتے تندخو زبردست [۱۰] نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے اُنکو اور وہی کام کرتے ہیں جو اُنکو حکم ہو [۱۱]
O ye who believe! protect yourselves and your households from a Fire the fuel whereof is mankind and stones, over which are angels, stern, strong; they disobey not Allah in that which He commandeth them, and do that which they are commanded.
یعنی مجرموں کو نہ رحم کھا کر چھوڑیں نہ ان کی زبردست گرفت سے کوئی چھوٹ کر بھاگ سکے۔
ہر مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی دین کی راہ پر لائے سمجھا کر، ڈرا کر ، پیار سے، مار سے، جس طرح ہو سکے دیندار بنانے کی کوشش کرے۔ اس پر بھی اگر وہ راہ راست پر نہ آئیں تو ان کی کمبختی، یہ بے قصور ہے { وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ } کی تفسیر پارہ "الم" کے شروع میں گذر چکی۔
یعنی نہ حکم الہٰی کی خلاف ورزی کرتے ہیں نہ اسکے احکام بجالانے میں سستی اور دیر ہوتی ہے نہ امتثال حکم سے عاجز ہیں۔


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا عَسىٰ رَبُّكُم أَن يُكَفِّرَ عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيُدخِلَكُم جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ يَومَ لا يُخزِى اللَّهُ النَّبِىَّ وَالَّذينَ ءامَنوا مَعَهُ ۖ نورُهُم يَسعىٰ بَينَ أَيديهِم وَبِأَيمٰنِهِم يَقولونَ رَبَّنا أَتمِم لَنا نورَنا وَاغفِر لَنا ۖ إِنَّكَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {66:8}
اے ایمان والو توبہ کرو اللہ کی طرف صاف دل کی توبہ [۱۳] امید ہے تمہارا رب اتار دے تم پر سے تمہاری برائیاں اور داخل کرے تم کو باغوں میں جنکے نیچے بہتی ہیں نہریں جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور اُن لوگوں کو جو یقین لاتے ہیں اُسکے ساتھ [۱۴] اُنکی روشنی دوڑتی ہے اُنکے آگے اور اُنکے داہنے [۱۵] کہتے ہیں اے رب ہمارے پوری کر دے ہماری روشنی اور معاف کر ہم کو بیشک تو سب کچھ کر سکتا ہے [۱۶]
O ye who believe! turn Unto Allah with a sincere repentance. Belike your Lord will expiate from you your misdeeds and cause you to enter Gardens whereunder rivers flow, on the Day whereon Allah will not humiliate the prophet and those who believe with him. Their light will be running before them and on their right hands, and they will say: our Lord! perfect for us our light, and forgive us; verily Thou art over everything Potent.
یعنی ہماری روشنی آخر تک قائم رکھیے، بجھنے نہ دیجئے۔ جیسے منافقین کی نسبت سورۃ "حدید" میں بیان ہوچکا کہ روشنی بجھ جائیگی اور اندھیرے میں کھڑے رہ جائیں گے۔ مفسرین نے عمومًا یہ ہی لکھا ہے لیکن حضرت شاہ صاحبؒ { اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا } کی مراد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "روشنی ایمان کی دل میں ہے، دل سے بڑھے تو سارے بدن میں، پھر گوشت پوست میں "(سرایت کرے)۔
اس کا بیان سورۃ "حدید" میں ہو چکا۔
یعنی نبی ﷺ کا کہنا کیا۔ اس کے ساتھیوں کو بھی ذلیل نہ کریگا۔ بلکہ نہایت اعزارواکرام سے فضل و شرف کے بلند مناصب پر سرفراز فرمائے گا۔
صاف دل کی توبہ یہ کہ دل میں پھر گناہ کا خیال نہ رہے۔ اگر توبہ کے بعد ان ہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئ ہے۔ اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی { رزقنا اللہ منھا حظا وافرابفضلہ وعونہ وھو علٰی کل شئی قدیر }۔

No comments:

Post a Comment