Saturday, 21 April 2012

He is not one of us ... وہ ہم میں سے نہیں

ليس منا = وہ ہم میں سے نہیں

حدیث (1):
امام زید بن علیؒ اپنے والد سے ، وہ اپنے دادا حضرت علی بن ابی طالبؓ سے رسول الله  ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ " وہ ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں جس نے (سوگ میں) بال منڈاۓ ، چیخ و پکار کی ، گریبان پھاڑا اور ہلاکت و موت کو پکارا. 

[مسند زید : صفحہ # ١٥٦ ، حدیث # ١٨٧ ، سنة الوفاة : ١٢٢ ھ ]

تشریح
 یہاں رخساروں کو پیٹنے اور گریبان چاک کرنے والے کے لیے جو وعید فرمائی جا رہی ہے یہی وعید اس شخص کے لیے بھی ہے جو سر سے پگڑی و ٹوپی اتار پھینکے یا سر اور داڑھی کے بال نوچنے لگے کیونکہ ان سب چیزوں کا ایک ہی حکم ہے۔



 شواہد:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الجَاهِلِيَّةِ».
ترجمہ: 
حضرت عبداللہؓ(بن مسعود) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے (غمی و ماتم میں) اپنے چہرے کو پیٹا اور گریبان چاک کیا اور جاہلیت کی سی پکار پکارے۔
Narrated 'Abdullah:
the Prophet said, "He who slaps his cheeks, tears his clothes and follows the ways and traditions of the Days of Ignorance is not one of us." 

[صحیح بخاری: حدیث نمبر 1227(1225)+1228+1225 + 748- جنازوں کا بیان : وہ شخص ہم میں سے نہیں جو گریبان چاک کرے۔]

حديث ابن مسعود: أخرجه أحمد:4361، بخارى:1294، مسلم:103، نسائى :1862، ابن ماجه:1584.

حديث أبى هريرة: أخرجه أيضًا: الطبرانى فى الأوسط (4/199، رقم 3967) . قال الهيثمى (3/15) : فيه عبد الله بن عبد القدوس، وفيه كلام، وقد وثق.


ليس منا = وہ ہم میں سے نہیں
احادیث مبارکہ میں ہے:
(۱)قَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ: مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا» يَقُولُ: لَيْسَ مِنْ سُنَّتِنَا، لَيْسَ مِنْ أَدَبِنَا، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ المَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يُنْكِرُ هَذَا التَّفْسِيرَ: «لَيْسَ مِنَّا» يَقُولُ: لَيْسَ مِثْلَنَا
ترجمہ:
بعض اہل علم نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ کے قول کہ وہ ہم میں سے نہیں کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری سنت اور طریقے پر نہیں۔ علی بن مدینی، یحیی بن سعید سے نقل کرتے ہیں کہ سفیان ثوری اس تفسیر کا انکار کرتے تھے۔ ہم میں سے نہیں، یعنی ہماری ملت (امت) سے نہیں۔
[جامع ترمذی: حدیث نمبر 1921]



(۲)حدثنا الحسن بن الصباح عن علي عن يحيی قال کان سفيان يکره هذا التفسير ليس منا ليس مثلنا
ترجمہ:
حضرت سفیان ثوریؒ ناپسند سمجھتے تھے، "وہ ہم میں سے نہیں" کی اس تفسیر کو کہ وہ ہماری طرح نہیں ہے۔
[جامع الاحادیث:42605]
[سنن ابوداؤد: جلد سوم:حدیث نمبر 60 (18129) خرید وفروخت کا بیان : ملاوٹ کی ممانعت کا بیان]



(‌۳)لَيْسَ ‌منا ‌أَي لَيْسَ من أهل ديننَا يَعْنِي أَنه لَيْسَ من أهل الْإِسْلَام۔
ترجمہ:
وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی ہمارے دین والوں میں سے نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہل اسلام میں سے نہیں ہے۔
[غريب الحديث - أبو عبيد - ط الهندية : جلد3 / صفحہ 191]


(۴)‌لَيْسَ ‌منا ‌أَي لَيْسَ هَذَا من أَخْلَاقنَا وَلَا من فعلنَا
ترجمہ:
وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی وہ ہمارے اخلاق پر نہیں اور نہ ہی وہ ہمارے اعمال پر ہے۔
[غريب الحديث - أبو عبيد - ط الهندية : جلد3 / صفحہ 192]


(۵)‌لَيْسَ ‌مِنَّا ‌أَيْ هَذِهِ الأَفْعَالُ وَالأَخْلاقُ هِيَ الَّتِي عَلَيْهَا الْكُفَّارُ لَيْسَ مِنْ أَفْعَالِنَا۔
ترجمہ:
وہ ہم میں سے نہیں یعنی یہ اعمال اور اخلاق جو کافروں کے ہوتے ہیں وہ ہمارے اعمال میں سے نہیں ہیں۔
[المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم:283]



وَهَذِهِ كُلُّهَا إِنَّمَا هِيَ فِعْلُ الْجَاهِلِيَّةِ
ترجمہ:
اور یہ سب جاہلیت کے کام ہیں۔
[الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة : 3 / 276]
[السنة لأبي بكر بن الخلال: 3 / 578]

قال المهلب: قوله: (‌ليس ‌منا) ‌أى ليس متأسيًا بسنتنا، ولا مقتديًا بنا، ولا ممتثلاً لطريقتنا التى نحن عليها۔
ترجمہ:
المہلب نے کہا: اس قول کہ: (وہ ہم میں سے نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری سنت کی پیروی نہیں کر رہا، وہ ہمارے نمونے کی پیروی نہیں کر رہا اور جس طرح ہم چل رہے ہیں اس پر عمل نہیں کر رہا۔
[شرح صحيح البخارى لابن بطال: 3 / 277]


اب غور کیجئے! یھاں تو امام الانبیاء ﷺ فرما رہے ہیں کہ اگر میرا امتی فلاں برائی کا ارتکاب کرے تو اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں (اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس گناہ کا مرتکب دین سے خارج ہوجاتا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان امور کا مرتکب راہِ ہدایت سے اعراض کرنے والا اور نبی کو ناراض کرنے والا ہے. لہذا یہ سوچنا چاہیے کہ درج ذیل احادیث میں جو اعمال ذکر کے گئے ہیں کیا ان اعمال کی وجہ سے کہیں نبی ﷺ سے ہمارا تعلق تو نہیں ٹوٹ رہا. اگر ایسا ہے تو فوراً ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا چاہیے اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے تعلق و نسبت والی گھنی چھاؤں میں زندگی بسر کرنی چاہیے.
*********************

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: جَاءَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا، فَقَالُوا: وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: «أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي»
ترجمہ:
 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تین آدمی آپ کی عبادت کا حال پوچھنے آئے، جب ان سے بیان کیا گیا تو انہوں نے آپ کی عبادت بہت کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی برابری کس طرح کرسکتے ہیں، آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ سب معاف ہوگئے ہیں، ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، تیسرے نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا اور عورت سے ہمیشہ الگ رہوں گا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم لوگوں نے یوں یوں کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں، پھر روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، یاد رکھو جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ نہیں (رکھتا تعلق) مجھ سے.۔
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 57(4768)، نکاح کا بیان : نکاح کی ترغیب کا بیان، کیوں کہ فرمان الہٰی ہے فانکحوا ماطاب لکم من النسائ]

[أخرجه أحمد:13558، عبد بن حميد:1318، بخارى:5063، مسلم:1401، ابوداؤد:1369، نسائى:3217، ابن حبان:14]
Narrated By Anas bin Malik : A group of three men came to the houses of the wives of the Prophet asking how the Prophet worshipped (Allah), and when they were informed about that, they considered their worship insufficient and said, "Where are we from the Prophet as his past and future sins have been forgiven." Then one of them said, "I will offer the prayer throughout the night forever." The other said, "I will fast throughout the year and will not break my fast." The third said, "I will keep away from the women and will not marry forever." Allah's Apostle came to them and said, "Are you the same people who said so-and-so? By Allah, I am more submissive to Allah and more afraid of Him than you; yet I fast and break my fast, I do sleep and I also marry women. So he who does not follow my tradition in religion, is not from me (not one of my followers)."


________________________________________


حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاَحَ فَلَيْسَ مِنَّا» رَوَاهُ أَبُو مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ہم (یعنی مسلمانوں) پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے اسکو حضرت ابوموسیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
[حديث ابن عمرؓ: أخرجه الطيالسى:1828، عبد الرزاق:17199، بخارى:6874، ومسلم من طريق مالك:98، نسائى:4100، ابن ماجه:2576. وأخرجه أيضًا: أحمد :4467 ، ابن حبان:4590]
Narrated 'Abdullah:
The Prophet said, "Whoever carries arms against us, is not from us."

فإنه لا يدري لعل الشيطان ينزع في يده فيقع في حفرة من النار
 اس لیے کہ اس کو نہیں معلوم کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ سے ہتھیار کھینچ لے اور اس کی وجہ سے وہ ہتھیار کا مالک دوزخ کی ا گ میں ڈال دیا جائے۔
تشریح
شیطان تو تاک میں رہتا ہی ہے کہ جہاں کوئی انسان چوکا اور اس لعین نے اس کو گناہ میں مبتلا کیا اسی لئے فرمایا گیا کہ کسی مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرو کہ مبادا شیطان تم پر اثر انداز ہو جائے اور وہ ہتھیار اشارے اشارے میں مسلمان بھائی کے جا لگے اور اس کی وجہ سے تم دوزخ کے سزا وار بنو۔ 
________________________________________
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالقُرْآنِ»، وَزَادَ غَيْرُهُ: «يَجْهَرُ بِهِ»۔

اسحاق، ابوعاصم، ابن جریج، ابن شہاب، ابوسلمہ، ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کو خوش آوازی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں اور دوسرے لوگوں نے اتنا زیادہ بیان کیا کہ اس کو زور سے نہیں پڑھتا۔
[حديث أبى هريرة: أخرجه البخارى:7527، الخطيب (1/395)، البيهقى:20835، وابن عساكر (51/242) .]
Narrated By Abu Salama : Abu Huraira said, "Allah's Apostle said, 'Whoever does not recite Qur'an in a nice voice is not from us,' and others said extra," (that means) to recite it aloud."
--------------------------------------------------------------
حدثنا عبد الله بن أحمد بن بشير بن ذکوان الدمشقي حدثنا الوليد بن مسلم حدثنا أبو رافع عن ابن أبي مليکة عن عبد الرحمن بن الساب قال قدم علينا سعد بن أبي وقاص وقد کف بصره فسلمت عليه فقال من أنت فأخبرته فقال مرحبا بابن أخي بلغني أنک حسن الصوت بالقرآن سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول إن هذا القرآن نزل بحزن فإذا قرأتموه فابکوا فإن لم تبکوا فتباکوا وتغنوا به فمن لم يتغن به فليس منا

عبداللہ بن احمد بن بشیر بن ذکوان دمشقی، ولید بن مسلم، ابورافع، ابن ملیکہ، حضرت عبدالرحمن بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ہمارے ہاں تشریف لائے انکی بینائی ختم ہو چکی تھی۔ میں نے ان کو سلام کیا۔ فرمایا کون ؟ میں نے بتایا تو فرمایا مرحبا بھیتجے ! مجھے معلوم ہوا کہ تم خوش آوازی سے قرآن پڑھتے ہو میں نے رسول ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ یہ قرآن ایک فکر آخرت کی لے کر اترا ہے اس لئے جب تم تلاوت (فکر آخرت سے) روّ اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو اور قرآن کو خوش آوازی سے پڑھو جو قرآن کو خوش آوازی سے نہ پڑھے (یعنی قواعدِ تجوید کی رو سے غلط پڑھے) تو وہ ہم میں سے نہیں۔
[أخرجه ابن ماجه:1337، بيهقى فى شعب الإيمان:2051. وأخرجه أيضًا: أبو يعلى:689]
تشریح
 مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو خوش گوئی اور خوش آوازی کے ساتھ پڑھنا چاہئے بشرطیکہ حروف، حرکات مد، تشدید یا اسی طرح اور کسی چیز میں تغیر پیدا نہ ہو، اسی طرح راگ کے طور پر بھی نہ ہو، بلکہ اس بارہ میں تو مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص قصدا قرآن کریم راگ کے انداز میں پڑھے گا وہ فعل حرام کا مرتکب ہو گا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

It was narrated that 'Abdur-Rahman bin Sa'ib said: "Sa'd bin Abu Waqqas came to us when he had become blind. I greeted him with Salam and he said: 'Who are you?' So I told him, and he said: 'Welcome, 0 son of my brother. I have heard that you recite Qur'an in a beautiful voice. I heard the Messenger of Allah say: "This Qur'an was revealed with sorrow, so when you recite it, then weep. If you cannot weep then pretend to weep, and make your voice melodious in reciting it. Whoever does not make his voice melodious, he is not one of us."
________________________________________
وَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ، وَمَنِ ادَّعَى مَا ليْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ، أَوْ قَالَ: عَدُوُّ اللهِ وَلَيْسَ كَذَلِكَ إِلَّا حَارَ عَلَيْهِ۔

 زہیر بن حرب، عبدالصمد بن عبدالوارث، حسین ابن بریدہ، یحیی بن یعمر، ابواسود، حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔
[أخرجه أحمد:21465، بخارى:3508، مسلم:61]
Narrated Abu Salama: 
Abu Huraira said, "Allah's Apostle said, 'Whoever does not recite Qur'an in a nice voice is not from us,' and others said extra," (that means) to recite it aloud."
________________________________________
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ ح، وَحَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ مُحَمَّدُ بْنُ حَيَّانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، كِلَاهُمَا عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا»۔

قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن قاری، ابوالاحوص محمد بن حیان، ابن ابوحازم ، سہیل بن ابی صالح، ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ہم پر (مسلمانوں پر) ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے۔
[أخرجه مسلم:101، ابن ماجه:2575، بخارى فى الأدب المفرد:1280]
It is narrated on the authority of Abu Huraira that the Messenger of Allah (may peace be upon him) observed: He who took up arms against us is not of us and he who acted dishonestly towards us is not of us.

________________________________________
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَعْقُوبَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ، أَنَّ فُقَيْمًا اللَّخْمِيَّ، قَالَ لِعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: تَخْتَلِفُ بَيْنَ هَذَيْنِ الْغَرَضَيْنِ وَأَنْتَ كَبِيرٌ يَشُقُّ عَلَيْكَ، قَالَ عُقْبَةُ: لَوْلَا كَلَامٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أُعَانِيهِ، قَالَ الْحَارِثُ: فَقُلْتُ لِابْنِ شَمَاسَةَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: إِنَّهُ قَالَ: «مَنْ عَلِمَ الرَّمْيَ، ثُمَّ تَرَكَهُ، فَلَيْسَ مِنَّا» أَوْ «قَدْ عَصَى»۔

حضرت عبدالرحمن بن شماسہؓ سے روایت ہے کہ فقیم لخمی نے حضرت عقبہ بن عامرؓ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ ان دو نشانیوں کے درمیان آتے جاتے ہیں حالانکہ آپ بوڑھے ہیں اس وجہ سے آپ پر یہ دشوار ہوتا ہوگا تو عقبہ نے کہا اگر میں رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں حدیث نہ سنی ہوتی تو میں کبھی دشواری برداشت نہ کرتا حارث نے کہا میں نے ابن شماسہ سے کہا وہ حدیث کیا ہے انہوں نے کہا حضرت عقبہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے تیراندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے یا اس نے  نافرمانی کی۔
[مسلم:1919، أبو عوانة :7494، احمد:17336، الروياني:192، الطبراني:882، البيهقي:19729]
تشریح : 
 وہ ہم میں سے نہیں ہے " کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہم سے قریب نہیں ہے اور ایک ایسے شخص کی مانند ہے جس کا شمار ہمارے زمرے میں نہیں ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک تو یہ کہ تیر اندازی سیکھے ہی نہیں لیکن اس کو سیکھ کر پھر چھوڑ دینا نہ سیکھنے کی بہ نسبت کہیں زیادہ برا ہے کیونکہ جس شخص نے تیر اندازی نہیں سیکھی وہ تو گویا آپ ﷺ کے زمرے میں داخل ہی نہیں ہوا لیکن یہ تو وہ شخص ہے جو آپ ﷺ کے زمرے میں داخل ہو اور پھر نکل گیا گویا اس نے اس کام میں کوئی نقصان دیکھا یا اس کو کوئی برائی محسوس ہوئی اور یا اس نے ایسا استہزاء کے طور پر کیا اور ظاہر ہے کہ یہ سب چیزیں ایک بڑی نعمت کا کفران کرنے کا مرادف ہیں ۔

It has been reported by 'Abd al-Rahman b. Shamasa that Fuqaim al- Lakhmi said to Uqba b. Amir: You frequent between these two targets and you are an old man, so you will be finding it very hard. 'Uqba said: But for a thing I heard from the Holy Prophet (may peace be upon him), I would not strain myself. Harith (one of the narrators in the chain of transmitters) said: I asked Ibn Shamasa: What was that? He said that he (the Holy Prophet) said: Who learnt archery and then gave it up is not from us. or he has been guilty of disobedience (to Allah's Apostle).
________________________________________
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الطَّالْقَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْعَتَكِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا»۔

ابن مثنی، ابواسحاق ، فضل بن موسی، عبیداللہ بن عبداللہ بن بریدہ، حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے وتر حق ہے پس جو وتر نہ پڑھے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں وتر حق ہے بس جو وتر نہ پڑھے اس کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
[أبوداود:1419 (عبد الرزاق:4579) ابن أبى شيبة:6863، (إسحاق بن راهويه:97) أحمد:23019، ، الحاكم:1146، البيهقى:4251]

Narrated Buraydah ibn al-Hasib: 
I heard the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) say: The witr is a duty, so he who does not observe it does not belong to us; the witr is a duty, so he who does not observe it does not belong to us; the witr is a duty, so he who does not observe it does not belong to us.
________________________________________
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا، أَوْ عَبْدًا عَلَى سَيِّدِهِ»

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام کو اس کے آقا سے برگشتہ کرے (خلاف بھڑکاۓ) وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[أبوداود:2175، الجامع - معمر بن راشد: 20994، البزار:4425، الحاكم:2795 وقال: صحيح على شرط البخارى. والبيهقى فى شعب الإيمان:5433]
تشریح : 

 کسی بیوی کو اس کے خاوند کے خلاف یا کسی غلام ولونڈی کو اس کے مالک کے خلاف گمراہ کرنا انتہائی نازیبا فعل ہے چنانچہ اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ وہ شخص ہمارے تابعداروں میں سے نہیں ہے جو کسی بیوی کا دل اس کے خاوند کی طرف سے برا کرے مثلا بیوی کے سامنے اس کے خاوند کی برائی کرے یا اس کے سامنے کسی اجنبی شخص کی خوبیاں اور بڑائیں بیان کرے ۔ یا اس کو بہکائے کہ اپنے خاوند سے زیادہ مال واسباب کا مطالبہ کرو یا اپنے شوہر کی خدمت واطاعت نہ کرو اسی طرح کسی غلام و نوکر کو بہکائے کہ تم اپنے مالک کا گھر چھوڑ کرچلے جاؤ یا اس کی خدمت میں کوتاہی کرو اسی طرح بیوی کے خلاف خاوند کو یا لونڈی کو اس کے مالک کے خلاف یا مالک کو اس کے غلام ولونڈی کے خلاف بہکانا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔

Narrated AbuHurayrah: 
AbuNadrah reported: An old man of Tufawah said to me: I was a guest of AbuHurayrah at Medina. I did not find any one of the companions of the Prophet (peace_be_upon_him) more devoted to worship and more hospitable than AbuHurayrah. 
One day I was with him when he was sitting on his bed. He had a purse which contained pebbles or kernels. A black slave-girl of his was sitting below. Counting them he was glorifying Allah. When the pebbles or the kernels in the purse were finished, she gathered them and put them again in the purse, and gave it to him. He said: Should I not tell you about me and about the Apostle of Allah (peace_be_upon_him)? 
I said: Yes. He said: Once when I was laid up with fever in the mosque, the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) came and entered the mosque, and said: Who saw the youth of ad-Daws. He said this three times. 
A man said: Apostle of Allah, there he is, laid up with fever on one side of the mosque. He moved, walking forward till he reached me. He placed his hand on me. He had a kind talk with me, and I rose. He then began to walk till he reached the place where he used to offer his prayer. He paid his attention to the people. There were two rows of men and one row of women, or two rows of women and one row of men (the narrator is doubtful). 
He then said: If Satan makes me forget anything during the prayer, the men should glorify Allah, and the women should clap their hands. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) then prayed and he did not forget anything during the prayer. 
He said: Be seated in your places, be seated in your places. The narrator, Musa, added the word "here". He then praised Allah and exalted Him, and said: Now to our topic. 
The agreed version begins: He then said: Is there any man among you who approaches his wife, closes the door, covers himself with a curtain, and he is concealed with the curtain of Allah? 
They replied: Yes. He said: later he sits and says: I did so-and-so; I did so-and-so. The people kept silence. He then turned to the women and said (to them): Is there any woman among you who narrates it? They kept silence. Then a girl fell on one of her knees. The narrator, Mu'ammil, said in his version: a buxom girl. She raised her head before the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) so that he could see her and listen to her. 
She said: Apostle of Allah, they (the men) describe the secrets (of intercourse) and they (the women) also describe the secrets (of intercourse) to the people. 
He said: Do you know what the similitude is? He said: The likeness of this act is the likeness of a female Satan who meets the male Satan on the roadside; he fulfils his desire with her while the people are looking at him. Beware! The perfume of men is that whose smell becomes visible and its colour does not appear. Beware! The perfume of women is that whose colour becomes visible and whose smell is not obvious. 
AbuDawud said: From here I remembered this tradition from Mu'ammil and Musa: Beware! No man should lie with another man, no woman should lie with another woman except with one's child or father. He also mentioned a third which I have forgotten. This has been mentioned in the version of Musaddad, but I do not remember it as precisely as I like. 
The narrator, Musa, said: Hammad narrated this tradition from al-Jarir from AbuNadrah from at-Tufawi.
________________________________________
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى وَهُوَ ثَقِيلٌ، فَذَهَبَتِ امْرَأَتُهُ لِتَبْكِيَ، أَوْ تَهُمَّ بِهِ، فَقَالَ لَهَا أَبُو مُوسَى: أَمَا سَمِعْتِ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَسَكَتَتْ فَلَمَّا مَاتَ أَبُو مُوسَى، قَالَ يَزِيدُ: لَقِيتُ الْمَرْأَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: مَا قَوْلُ أَبِي مُوسَى لَكِ أَمَا سَمِعْتِ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سَكَتِّ؟ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ حَلَقَ وَمَنْ سَلَقَ وَمَنْ خَرَقَ»

حضرت یزید بن اوس سے روایت ہے کہ میں ابوموسی کے پاس گیا وہ بیمار تھے۔ ان کی عورت نے رونے کا قصد کیا ابوموسی نے اس سے کہا کہ کیا تو نے وہ نہیں سنا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ وہ بولی کیوں نہیں۔ پھر وہ خاموش ہو گئی۔ جب ابوموسی کا انتقال ہو گیا تو (یزید کہتے ہیں کہ) میں ان کی بیوی سے ملا اور ان سے پوچھا کہ وہ کیا تھا جو ابوموسی نے تم سے کہا تھا کیا تو نے وہ نہیں سنا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اور پھر تم خاموش ہوگئی تھیں اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ہے ہم میں سے وہ شخص (جو میت کے غم میں) اپنا سر منڈا دے یا چلا کر روئے یا اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔
[أبي داود:3130، نسائي:1861+1866، ابن أبي شيبة:11345، أحمد:19690، أخرجه ابن سعد(3/18) . وأخرجه عبد الرزاق:6684]

Narrated AbuMusa: 
Yazid ibn Aws said: I entered upon AbuMusa while he was at the point of death. His wife began to weep or was going to weep. AbuMusa said to her: Did you not hear what the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said? She said: Yes. The narrator said: She then kept silence. When AbuMusa died, Yazid said: I met the woman and asked her: What did AbuMusa mean when he said to you: Did you not hear what the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) and the you kept silence? She replied: The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: He who shaves (his head), shouts and tears his clothing does not belong to us.
________________________________________
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ ثَعْلَبَةَ الطَّائِيُّ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ بِالْأَمَانَةِ فَلَيْسَ مِنَّا»۔

حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص لفظ امانت کی قسم کھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[أبوداود:3253، احمد:22980، الروياني:7، السُّنَّة لأبي بكر بن الخلال:1457، صحيح ابن حبان:4363، الحاكم:7816، البيهقى:19836]

Narrated Buraydah ibn al-Hasib: 
The Prophet (peace_be_upon_him) said: He who swears by Amanah (faithfulness) is not one of our number.
________________________________________
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ يَبِيعُ طَعَامًا فَسَأَلَهُ كَيْفَ تَبِيعُ؟ فَأَخْبَرَهُ فَأُوحِيَ إِلَيْهِ أَنْ أَدْخِلْ يَدَكَ فِيهِ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ مَبْلُولٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ»

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ ایک ایسے آدمی کے پاس گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا آپ نے اس سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح فروخت کرتے ہو اس نے آپ کو بتلا دیا (لیکن کچھ غلط بیانی سے بیان کیا) اس دوران آپ پر وحی نازل ہوئی کہ اپنا دست مبارک اس غلہ کے اندر داخل کریں جب حضور نے اپنا دست مبارک اس غلہ میں داخل کیا تو وہ اندر سے گیلا اور تر نکلا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے دھوکہ دہی (ملاوٹ) سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[حديث أبى هريرة: أخرجه أحمد:7292، أبوداود:3452، ابن ماجه:2224، الترمذي:1315، الحاكم :2153 وقال: صحيح على شرط مسلم. والبيهقى فى شعب الإيمان:5305 فى الحديث أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مر برجل يبيع طعاما فسأله كيف تبيع؟ فأخبره فأوحى إليه أدخل يدك فيه فأدخل يده فإذا هو مبلول. فذكره.
حديث أبى بردة بن نيار: أخرجه أحمد:16489، السُّنَّة لأبي بكر بن الخلال:1662، الطبرانى:521. وأخرجه أيضًا: البزار:3797]
________________________________________

 عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ أَوْ تُطُيِّرَ لَهُ، أَوْ تَكَهَّنَ أَوْ تُكُهِّنَ لَهُ، أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَهُ، وَمَنْ عَقَدَ عُقْدَةً - أَوْ قَالَ: مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً - وَمَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

’’جس نے بد فالی لی یا جس کے لئے بد فالی لی گئی،جس نے کہانت کی یا جس کے لئے کہانت کی گئی،جس نے جادو کیا یا جس کے لئے جادو کیا گیاوہ ہم میں سے نہیں ہے،اورجو شخص کاہن کے پاس گیا اور اس کی تصدیق کی ،اس نے نبی کریم ﷺ پر نازل کردہ شریعت کا انکار کردیا۔‘‘

[مسند البزار:3578، المعجم الكبير للطبراني:355 ( صَحِيح الْجَامِع: 5435 , الصَّحِيحَة: 2650 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 3041)]

________________________________________
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ عَلَى الْمُنْتَهِبِ قَطْعٌ، وَمَنْ انْتَهَبَ نُهْبَةً مَشْهُورَةً فَلَيْسَ مِنَّا»۔

حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مال لوٹنے (علانیہ زبردستی مال چھیننے یا اچکنے پر) ہاتھ نہیں کٹے گا اور جس شخص نے علانیہ (دھڑلے سے) کوئی چیز چھینی (یعنی ڈاکہ ڈالے) وہ ہم میں سے نہیں۔
[ابوداؤد:4391، احمد:14351، عبد الرزاق:18844]
اور اسی سند سے یہ بھی مروی ہے کہ خیانت کرنے والے پر قطع نہیں ہے کیونکہ اس پر چوری کی تعریف نہیں صادق آتی لیکن ہاتھ نہ کٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے کچھ سزا بھی نہیں ملے گی یا یہ جرم نہیں ہے ایسا بلکہ بدترین جرم ہے ایک آدمی نے آپ پر اعتماد کیا اور اپنا مال آپ کے پاس رکھوایا اور آپ نے اس کے مال کو ہضم کرلیا اس پر مختلف تعزیر دی جا سکتی ہے۔

تشریح : 

 " لٹیرا " (لوٹنے والا ) اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کا مال زبردستی حاصل کرے اس طرح لوگوں کا مال لوٹنا اگرچہ چوری چھپے مال اڑانے سے بدتر ہے لیکن ایسے شخص پر " چور " کا اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے اس کو قطع ید کی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ چور اس شخص کو کہتے ہیں جو چھپ چھپا کر لوگوں کا مال اڑائے۔
Narrated Jabir ibn Abdullah: 
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Cutting of hand is not to be inflicted on one who plunders, but he who plunders conspicuously does not belong to us.
________________________________________
حدثنا أبو بکر محمد بن أبان حدثنا يزيد بن هارون عن شريک عن ليث عن عکرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويوقر کبيرنا ويأمر بالمعروف وينه عن المنکر 

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے نہ روکے۔ 
[ترمذی:1921، احمد:2329، صحيح ابن حبان:458، المعجم الكبير للطبراني:11083]
Abu Bakr Muhammad ibn Absan reported from Yazid ibn Harun, from Shank, from Layth, from Ikrimah from Ibn Abbas that Allah’s Messenger said, “He is not one of us who does not show mercy to our young and respect our old and enjoin piety and forbid evil.”
[Ahmed 2329]


==========


























حدثنا هارون حدثنا ابن وهب حدثني مالك بن الخير الزيادي عن أبي قبيل المعافري عن عبادة بن الصامت أن رسول الله ﷺ قال ليس من أمتي من لم يجل كبيرنا ويرحم صغيرنا ويعرف لعالمنا حقه قال عبد الله وسمعته أنا من هارون


حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت چھوٹوں پر شفقت اور عالم کا مقام نہ پہچانے ۔

 
حضرت علیؓ نے فرمایا : عالم کے تمہارے اوپر بہت سارے حقوق ہیں، منجملہ ان میں سے یہ ہے کہ تم لوگوں کو عمومی سلام کرو اور عالم کو عمومی سلام کے علاوہ خصوصی سلام کرو، عالم کے سامنے بیٹھو، اس کے سامنے بیٹھ کر ہاتھ سے اشارے مت کرو آنکھوں سے اشارے مت کرو، اس کی مجلس میں کسی سے سرگوشی (کانوں میں باتیں) مت کرو، اس کے کپڑے مت پکڑو، جب وہ اکتاتا ہو تو اس کے پاس مت بیٹھ جاؤ اس کی طویل (لمبی) صحبت سے پہلو تھی مت کرو چونکہ وہ کھجور کے کے مانند ہے تو اس کے انتظار میں ہے کہ کب تجھ پر گرے گی. مومن عالم کا اجر و ثواب روزہ دار قاری قرآن، غازی فی سبیل الله سے کہیں زیادہ ہے، جب عالم مرجاتا ہے اسلام میں دراڑ پڑجاتی ہے جسے تاقیامت پر نہیں کیا جا سکتا.

علماء کا حق یہ ہے کہ دین و آخرت کے سلسلہ میں ان کی جانب رجوع کیا جاۓ. اگر وہ دین و علم کی خدمت اور اشاعت کریں تو دینی معاملہ میں ان کی مدد و نصرت کی جاۓ تاکہ وہ دین کی خدمت کرکے دین کو باقی رکھ سکیں اور آنے والی نسلوں میں اس کا سلسلہ جاری رہ سکے. دین کی خدمت اور اس کی ہمہ تن مشغولی سے اگر وہ دنیا نہ کما سکیں تو ان کی دنیوی ضرورتوں کا خیال رکھیں. ان کی توقیر و تعظیم کی جاۓ، دینی امور میں ان کی اطاعت کی جاۓ. معمولی معمولی باتوں پر ان سے بدگمانی نہ کی جاۓ، ان پر طعن و ملامت نہ کی جاۓ. ایسا کرنے کی صورت میں عوام کا دین جاتا رہیگا. آخر وہ دین کس سے حاصل کریں گے. اس لئے حتى المقدور ان سے حسن_ظن اور بہتر تعلق رکھا جاۓ اور قابل_اعتراض معاملہ پر دل میں کچھ پیدا ہو تو توجیہ کرتے ہوے ان کا معاملہ خدا کے حوالے کردیا جاۓ.
[علماء کا علماء سے اختلاف تو علم کی بنیاد پر ہو سکتا ہے، مگر عامی(کم-علم عوام) کا اختلاف علماء سے اکثر کم-علمی کی بناء پر ہوتا ہے.]
(عام مسلمانوں کے حقوق سے علماء کے حقوق کی عظمت اور درجہ زیادہ، بڑا اور مقدم ہے. تو ان سے عام مسلمانوں جیسا رویہ بھی نہ رکھنا رسول الله صلے الله علیہ وسلم کی نافرمانی کی انتہا نہیں؟)


اللَّهُمَّ لا يُدْرِكُنِي زَمَانٌ ، أَوْ لا أُدْرِكُ زَمَانَ قَوْمٍ ، لا يَتَّبِعُونَ الْعِلْمَ ، وَلا يَسْتَحْيُونَ مِنَ الْحَلِيمِ ، قُلُوبِهُمُ الأَعَاجِمُ ، وَأَلْسِنَتُهُمْ أَلْسِنَةُ الْعَرَبِ

اے الله! مجھے وہ زمانہ نہ ملے جس میں علماء کی اتباع (پیروی) نہ کی جاۓ (اپنی نفس و مزاج کی مانی جاۓ)، اور کسی بردبار سے حیا نہ کی جاۓ، لوگوں کے دل تو عجم کی طرح ہوں اور زبان عرب کی طرح ہو (یعنی چرب زبان محبت سے خالی دل ہوں). آمین


الشواهد
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1اللهم لا يدركني زمان و لا تدركوا زمانا لا يتبع فيه العليم ولا يستحيى فيه من الحليم قلوبهم قلوب الأعاجم وألسنتهم ألسنة العربسهل بن سعدمسند أحمد بن حنبل2228422371أحمد بن حنبل241
2اللهم لا يدركني زمان لا يتبع فيه العليم ولا يستحيا فيه من الحليم قلوبهم قلوب العجم وألسنتهم ألسنة العربسهل بن سعدمسند الروياني11111116محمد بن هارون الروياني307
3اللهم لا تدركني زمانا فيه قوم لا يتبعون العليم ولا يستحيون الحليم قلوبهم قلوب العجم وألسنتهم ألسنة العربسهل بن سعدالعلل لابن أبي حاتم22492288ابن أبي حاتم الرازي327
4لا يدركني زمان ولا أدركه زمان لا ينفع فيه العليم ولا يستحيا فيه من الحليم قلوبهم قلوب العجم وألسنتهم ألسنة العربسهل بن سعدالعلل لابن أبي حاتم27272755ابن أبي حاتم الرازي327
5اللهم لا يدركني زمان أو لا تدركوا زمانا لا يتبع العليم ولا يستحيا فيه من الحليم قلوبهم قلوب الأعاجم وألسنتهم ألسنة العربسهل بن سعدإتحاف المهرة6001---ابن حجر العسقلاني852
6اللهم لا يدركني زمان ولا أدركه لا يتبع فيه العالم ولا يستحيا فيه من الحليم قلوبهم قلوب العجم ألسنتهم ألسنة العربسهل بن سعدأخلاق حملة القرآن للآجري611 : 68الآجري360
7اللهم لا يدركني زمان ولا أدركه لا يتبع فيه العالم ولا يستحيى فيه من الحليم قلوبهم قلوب العجم وألسنتهم ألسنة العربسهل بن سعدالسنن الواردة في الفتن للداني224221عثمان بن سعيد الداني444
8اللهم لا تدركني أو لا أدرك زمان قوم لا يتبعون العليم ولا يستحيون من الحليم قوم قلوبهم قلوب الأعاجم وألسنتهم ألسنة العربعبد الرحمن بن صخرشعب الإيمان للبيهقي7228---البيهقي458
9اللهم لا يدركني زمان قوم لا يتبعون العلم ولا يستحيون من الحليم قلوبهم الأعاجم وألسنتهم ألسنة العربعبد الرحمن بن صخرالمستدرك على الصحيحين86724:510الحاكم النيسابوري405


























________________________________________

عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ»۔
ترجمہ:
حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ً نے فرمایا کہ جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت پر لڑائی کی وہ ہم میں سے نہیں جس کی موت عصبیت پر ہوئی وہ ہم میں سے نہیں۔
[سنن أبي داود:5121 ، الآداب للبيهقي:170، شرح السنة:3543]
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ عصبیت میں مبتلا ہونا یعنی اس شخص و قوم کی حمایت کرنا جو باطل پر ہو، ہر حالت میں مذموم و ممنوع ہے بشرطیکہ اس عصبیت کا تعلق کسی دینی مصلحت سے نہ ہو بلکہ محض ظلم و تعدی کے طور پر ہو۔


عن أبي هريرة عن النبي صلی الله عليه وسلم أنه قال من خرج من الطاعة وفارق الجماعة فمات مات ميتة جاهلية ومن قاتل تحت راية عمية يغضب لعصبة أو يدعو إلی عصبة أو ينصر عصبة فقتل فقتلة جاهلية ومن خرج علی أمتي يضرب برها وفاجرها ولا يتحاشی من مؤمنها ولا يفي لذي عهد عهده فليس مني ولست منه۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص امام (سربراہ مملکت ) کی اطاعت و فرمانبرداری سے نکل جائے اور اسلام کی جماعت (ملت کی اجتماعی ہیت ) سے علیحدگی اختیار کرے اور پھر اس حالت میں مر جائے تو اس کا مرنا جاہلیت پر مرنے کے مرادف ہوگا ، جو شخص کسی ایسے جھنڈے کے نیچے (یعنی ایسے مقصد کے لئے ) لڑا جس کا حق وباطل ہونا ظاہر نہ ہو درآنحالیکہ وہ تعصب سے غضبناک ہوا اور متعصب ہوا اور تعصب کی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف بلایا یا تعصب کی وجہ سے کسی کی مدد کی (یعنی اس کا لڑنا غضبناک ہونا لوگوں کو اپنی مدد کے لئے بلانا یا کسی کی مدد کرنا اعلاء کلمۃ الحق اور دین سے اظہار کے لئے نہیں تھا بلکہ محض تعصب یعنی اپنی قوم کے ظلم کی حمایت اور اس کی ناروا جانب داری کی بنیاد پر تھا ) اور اسی حالت میں وہ مارا گیا تو اس کا مرنا جاہلیت پر مرنے کے مترادف ہوگا اور جس شخص نے میری امت کے خلاف تلوار اٹھائی اور اس کے ذریعہ میری امت کے اچھے اور برے آدمیوں کو مارا اور میری امت کے مسلمان کی پرواہ نہیں کی (یعنی اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ ایک مسلمان کو مارنا کتنا بڑا جرم ہے اور اس کا وبال وعذاب کتنا سخت ہے ) اور نہ اس نے عہد والے کے عہد کو پورا کیا تو نہ وہ میری امت میں سے ہے (یعنی میرے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 289 امارت اور خلافت کا بیان : فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
11919
It has been narrated on the authority of Abu Huraira that the Messenger of Allah (may peace be upon him) said: One who defected from obedience (to the Amir) and separated from the main body of the Muslims-if he died in that state-would die the death of one belonging to the days of Jahiliyya (i. e. would not die as a Muslim). One who fights under the banner of a people who ate blind (to the cause for which they are fighting. i. e. do not know whether their cause is just or otherwise), who gets flared up with family pride, calls, (people) to fight for their. family honour, and supports his kith and kin (i. e. fignts not for the cause of Allah but for the sake of this family or tribe) -if he is killed (in this fight), he dies as one belonging to the days of Jhiliyya. Whoso attacks my Umma (indiscriminately) killing the righteous and the wicked of them, sparing not (even) those staunch in faith and fulfilling not his promise made with those who have been given a pledge of security-he has nothing to do with me and I have nothing to do with him.
________________________________________
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاهُنَّ وَمَنْ تَرَكَ شَيْئًا مِنْهُنَّ خِيفَةً، فَلَيْسَ مِنَّا» يَعْنِي الْحَيَّاتِ

اسحاق بن اسماعیل، سفیان، ابن عجلان، ، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے سانپوں سے صلح نہیں کی جب سے ہم نے ان سے جنگ شروع کی اور جو ان میں سے کسی سانپ کو چھوڑے ڈر کر وہ ہم میں سے نہیں۔
[سنن أبي داود:5248 ، مسند أحمد:9588 ، مسند البزار:8372، صحيح ابن حبان:5644]

تشریح :
" بدلے کے خوف " کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس ڈر کی وجہ سے سانپ کو نہ مارے کہ کہیں اس کا جوڑا مجھ سے انتقام نہ لے ، چنانچھ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کسی سانپ کو مار ڈالا اور پھر اس کے جوڑے نے آ کر اس شخص کو کاٹ لیا اور بدلہ لیا ، مارا جانے والا سانپ اگر نر ہوتا ہے تو اس کی مادہ انتقام لینے آتی ہے اور اگر وہ مادہ تھی تو اس کا نر بدلہ لینے آتا ہے ، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے ہاں یہ خوف ایک عقیدے کی حد تک تھا وہ کہا کرتے تھے کہ سانپ کو ہرگز نہیں مارنا چاہئے ، اگر اس کو مارا جائے گا تو اس کا جوڑا آ کر انتقام لے گا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے قول و اعتقاد سے منع فرمایا ۔
Narrated AbuHurayrah: 
The Prophet (peace_be_upon_him) said: We have not made peace with them since we fought with them, so he who leaves any of them alone through fear does not belong to us.

وقال ابن عباس إن الجان مسيخ الجن كما مسخت القردة من بني إسرايل
مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 1344
49183
ہے اور فرماتے تھے کہ سانپ جنات کی بدلی ہوئی شکل ہوتے ہیں ، جیسے بنی اسرائیل کو بندروں کی شکل میں بدل دیا گیا تھا۔



قال حدثني أبي سمعته وحدي قال حدثنا عباد بن عباد عن هشام بن عروة عن أبيه عن عاشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن قتل حيات البيوت إلا الأبتر وذا الطفيتين فإنهما يختطفان أو قال يطمسان الأبصار ويطرحان الحمل من بطون النسا ومن تركهما فليس منا

مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3997 ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مرویات

69026   

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے گھروں میں رہنے والے سانپوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، سوائے ان سانپوں کے جو دم کٹے ہوں یا دو دھاری ہوں کیونکہ ایسے سانپ بینائی کو زائل کر دیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ سے حمل ضائع کر دیتے ہیں اور جو شخص ان سانپوں کو چھو ڑ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

أخبرنا أبو محمد موسی بن محمد هو الشامي قال حدثنا ميمون بن الأصبغ قال حدثنا يزيد بن هارون قال أنبأنا شريک عن أبي إسحق عن القاسم بن عبد الرحمن عن أبيه عن عبد الله رضي الله عنه عن رسول الله صلی الله عليه وسلم أنه أمر بقتل الحيات وقال من خاف ثأرهن فليس منا

سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 1106 جہاد سے متعلقہ احادیث :  جو شخص مجاہد کے گھر والوں کے ساتھ خیانت کرے

23132 

 ابومحمد موسیٰ بن محمد، میمون بن اصبغ، یزید بن ہارون، شریک، ابواسحاق، قاسم بن عبدالرحمن ، ابیہ ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سانپوں کو ہلاک کر ڈالنے کا حکم کیا اور فرمایا جو کوئی ان کے بدلہ سے خوف کرے گا اس کا ہم میں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔


تشریح 

 ایک دوسری روایت میں منذ حار بناہم کے بجائے منذ عا دینا ہم کے الفاظ منقول ہیں ۔ " یعنی جب سے ہمارے اور سانپوں کے درمیان لڑائی اور دشمنی واقع ہوئی ہے " بہر حال مراد یہ ہے کہ انسان اور سانپ کے درمیان دشمنی اور لڑائی ایک طبعی اور جبلی چیز ہے کہ ہر ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے ، اگر انسان سانپ کو دیکھتا ہے تو اس کو ضرور مار ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر سانپ موقع پاتا ہے تو اس کو کاٹے اور ڈسے بغیر نہیں رہتا ، بلکہ بعض علماء نے تو یہ کہا ہے کہ اس لڑائی اور دشمنی سے مراد دراصل وہ عداوت ہے جو اولاد آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور سانپ کے درمیان قائم ہوئی تھی ، جیسا کہ ایک روایت میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب ابلیس لعین نے حضرت آدم علیہ السلام کو بہکانے کے لئے جنت میں داخل ہونا چاہا ، تو جنت کے داروغہ نے اس کو روک دیا چنانچہ یہ سانپ ہی تھا جو ابلیس کا کام آیا اس نے ابلیس کو اپنے منہ کے اندر لے کر جنت میں پہنچا دیا اور پھر ابلیس لعین نے حضرت آدم علیہ السلام و حوا کے لئے اپنے مکر و فریب کا جال پھیلا کر ان کو وسوسہ میں ڈال دیا اور ان دونوں نے جنت کے اس درخت سے کھا لیا ، جس کے پاس جانے سے بھی ان کو منع کر دیا تھا اور آخر کار ان دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا اور حق تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام و حوا علیھا ، اور ابلیس و سانپ کو خطاب کر کے فرمایا ا یت (اھبطوا بعضکم لبعض عدو )۔ 

بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے سانپ کی شکل و صورت بہت اچھی اور خوشنما تھی مگر اس کے اس سخت جرم کے عذاب میں کہ وہ ابلیس کا آلہ کار بنا اس کی صورت مسخ کر دی گئی ، لہٰذا سانپ اس کے مستحق ہے کہ اس کے تئیں یہ عداوت و نفرت ہمیشہ باقی رکھی جائے ۔ 

واضح رہے کہ ما سلمانھم منذ حاربنا ہم میں سانپوں کے لئے ذوی العقول کی ضمیر اس لئے استعمال ہوئی ہے کہ ان کی طرف صلح کی نسبت کی گئی ہے جو ذوی العقول کے افعال میں سے ہے ۔ جیسے کہ اس آیت کریمہ ( وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ) 12۔یوسف : 4) میں سورج اور چاند کے لئے ذوی العقول کی ضمیر لائی گئی ہے ورنہ قاعدے کے اعتبار سے ان کے لئے غیر ذوی العقول کی ضمیر استعمال کرتے ہوئے یہ کہنا چاہئے تھا ما سالمنا ہن منذ حاربناہن ۔

It was narrated from ‘Abduflah bin ‘Abdullah bin Jabr, from his father, that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  visited Jabr (when he was sick). When he entered he heard the women crying and saying: “We thought that your death would come when fighting in the cause of Allah.” He said: “You think that martyrdom only comes when one is killed in the cause of Allah. In that case your martyrs would be few. Being killed in the cause of Allah is martyrdom, dying of an abdominal complaint is martyrdom, being burned to death is martyrdom, drowning is martyrdom, being crushed beneath a falling wall is martyrdom, dying of pleurisy is martyrdom, and the woman who dies along with her fetus is a martyr.” A man said: “Are you weeping when the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم is sitting here?” He said: “Let them be, but if he dies no one should weep for him.” (Sahih)
________________________________________
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ لَمْ يَأْخُذْ مِنْ شَارِبِهِ فَلَيْسَ مِنَّا» وَفِي البَابِ عَنْ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»۔

علی بن حجر، عبیدة بن حمید، یوسف بن صہیب، حبیب بن یسار، زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مونچھ کے بال نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں۔ (یعنی مونچھیں نہ کتروائے بلکہ ہونٹوں سے بڑھائے ان کا یہ عمل ہمارے طریقہ کے خلاف ہے۔
[سنن الترمذي:2761، السنن الصغرى للنسائي:13، مسند أحمد:19263، المنتخب من مسند عبد بن حميد:264، صحيح ابن حبان:5477، المعجم الكبير للطبراني:5033]

Sayyidina Zayd ibn Arqam (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “He who does not clip (some of) his moustache is not among us.”
تشریح

 وہ ہم میں سے نہیں ہے " کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری سنت اور ہمارے طریقے پر عمل پیرا نہیں ہے ۔ اور ملا علی قاری، کے مطابق اس جملہ کے زیادہ صحیح معنی یہ ہیں کہ ایسا شخص ہماری سنت اور ہمارے طریق کو ماننے والوں میں کامل ترین نہیں ہے، یا اس جملہ کے ذریعہ اس سنت کو ترک کرنے والے کی تہدید مقصود ہے، یا ایسے شخص کو اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ اس سنت کا تارک ہوتے ہوئے مرنا گویا امت مسلمہ کے خلاف طریقے پر مرنا ہے ۔

________________________________________
أخبرنا عمرو بن علي قال حدثنا يحيی عن سفيان عن أبي حصين عن الشعبي عن عاصم العدوي عن کعب بن عجرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وسلم ونحن تسعة فقال إنه ستکون بعدي أمرا من صدقهم بکذبهم وأعانهم علی ظلمهم فليس مني ولست منه وليس بوارد علي الحوض ومن لم يصدقهم بکذبهم ولم يعنهم علی ظلمهم فهو مني وأنا منه وهو وارد علي الحوض

حضرت کعب بن عجزةؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور ہم نو شخص تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دیکھو میرے بعد حکمران ہوں گے جو شخص ان کی جھوٹی بات کو سچ کہے (خوشامد اور چاپلوسی کی وجہ سے اور حق کو باطل قرار دے) اور ظلم و زیادتی کرنے میں اس کی مدد کرے تو وہ مجھ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا نہ میں ان سے کچھ تعلق رکھتا ہوں وہ قیامت کے دن میری حوض (یعنی حوض کوثر) پر بھی نہ آئے گا اور جو شخص ان کے جھوٹ کو سچ کہے (بلکہ اس طرح کہے جھوٹ ہے یا خاموش رہے اور ظلم کرنے میں اس کی مدد نہ کرے تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور وہ میرے حوض پر آئے گا۔

________________________________________
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ انْتَهَبَ فَلَيْسَ مِنَّا»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ۔

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، معمر، ثابت، حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ لے لیا وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ حدیث حضرت انسؓ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
[سنن الترمذي:1601، مسند أحمد:12422، مسند ابن الجعد:2655 +2983 ، السُّنَّة لأبي بكر بن الخلال:1448، صَحِيح الْجَامِع: 6105]

Sayyidina Anas (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “If anyone takes away anything from the spoils before they aredistributed then he is not one of us.” 
[Ahmed:14357]
________________________________________
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ [ص:57] تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا تَشَبَّهُوا بِاليَهُودِ وَلَا بِالنَّصَارَى، فَإِنَّ تَسْلِيمَ اليَهُودِ الإِشَارَةُ بِالأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الإِشَارَةُ بِالأَكُفِّ»: «هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ» وَرَوَى ابْنُ المُبَارَكِ، هَذَا الحَدِيثَ عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ، «فَلَمْ يَرْفَعْهُ»۔

قتیبہ ، ابن لہیعة، حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے ہمارے علاوہ کسی اور کی مشابہت اختیار کی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ یہودیوں کا سلام انگلیوں کے اشارے سے اور عیسائیوں کا سلام ہاتھ سے اشارہ کرنا ہے۔
[سنن الترمذي:2695 ، المعجم الأوسط للطبراني:7380 ، مسند الشهاب:1191 ، الفردوس بمأثور الخطاب:7323 (صَحِيح الْجَامِع: 5434، الصَّحِيحَة: 2194 ، صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب:2723)]

تشریح

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے کسی بھی فعل و طریقہ اور خاص طور پر سلام کرنے کے ان دونوں طریقوں کی مشابہت اختیار نہ کرنی چاہیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی سلام کرنے یا سلام کرنے کا جواب دینے کے لیے اور یا دونوں محض مذکروہ اشاروں ہی پر اکتفا کر لیتے تھے، سلام کا لفظ نہیں کہتے تھے۔ جو حضرت آدم اور ان کی ذریت میں سے انبیاء و اولیاء کی سنت و طریقہ ہے چنانچہ نبی کو گویا مکاشفہ ہوا کہ میری امت کے کچھ لوگ بے راہ روی کا شکار ہو کر سلام کرنے کا وہ طریقہ اختیار کریں گے جو یہودیوں، عیسائیوں اور دوسری غیر اقوام کا ہے جیسے انگلیوں یا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنا ہاتھ جوڑ لینا، کمر یا سر کو جھکانا اور صرف سلام کرنے پر اکتفا کر لینا وغیرہ وغیرہ۔ لہذا آپ نے پوری امت کو مخاطب کرتے ہوئے اس بارے میں تنبیہ بیان فرمائی اور یہ وعید بیان کی کہ جو شخص سلام کے ان رسوم و رواج کو اپنائے گا جو اسلامی شریعت اور ہماری سنت کے خلاف ہیں تو اس کو سمجھ لینا چاہیے، کہ اس کا شمار ہماری امت کے لوگوں میں نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ اس حدیث کی اسناد کو امام ترمذی نے ضعیف کہا ہے لیکن یہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی منقول ہے اور وہ ضعیف نہیں ہے جس کو جامع صغیر میں نقل کیا گیا ہے۔
Amr ibn Shu’ayb reported from his father who from his grandfather that Allah’s Messenger (SAW) said “He is not of us who assumes resemblance to those other that us. Do not imitate the Jews and the Christions. The greeting of the Jews is a gesture of the fingures and the greeting of the Christiansis a gesture of the palm.”

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ حَوْشَبٍ، - رَجُلٌ صَالِحٌ - أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ هُذَيْلٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَمَنْزِلُهُ فِي الْحِلِّ ، وَمَسْجِدُهُ فِي الْحَرَمِ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا عِنْدَهُ رَأَى أُمَّ سَعِيدٍ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ مُتَقَلِّدَةً قَوْسًا، وَهِيَ تَمْشِي مِشْيَةَ الرَّجُلِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَ الْهُذَلِيُّ: فَقُلْتُ: هَذِهِ أُمُّ سَعِيدٍ بِنْتُ أَبِي جَهْلٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِالرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ، وَلَا مَنْ تَشَبَّهَ بِالنِّسَاءِ مِنَ الرِّجَالِ»۔

بنوہذیل کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمروؓ کو دیکھا ان کا گھر حرم سے باہر اور مسجد حرم کے اندر تھی میں ان کے پاس ہی تھا کہ ان کی نظر ابوجہل کی بیٹی ام سعیدہ پر پڑی جس نے گلے میں کمان لٹکا رکھی تھی اور وہ مردانہ چال چل رہی تھی حضرت عبداللہ کہنے لگے یہ کون عورت ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ یہ ابوجہل کی بیٹی ام سعیدہ ہے اس پر انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مرد ہم میں سے نہیں ہیں ۔
[مسند أحمد:6875، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:3/321، صحيح الجامع الصغير:5433
(صحيح البخاري:5885، سنن ابن ماجه:1904، سنن أبي داود:4097، سنن الترمذي:2784 ، مسند أبي داود الطيالسي:2801 ، مسند ابن الجعد:958 ، مسند أحمد:2263، المعجم الكبير للطبراني:11647 )]
________________________________________

حدثنا عبد الوارث بن عبد الصمد بن عبد الوارث بن سعيد أبو عبيدة حدثني أبي عن أبيه حدثني الحسين بن ذکوان عن عبد الله بن بريدة قال حدثني يحيی بن يعمر أن أبا الأسود الديلي حدثه عن أبي ذر أنه سمع رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول من ادعی ما ليس له فليس منا وليتبوأ مقعده من النار
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 477 فیصلوں کا بیان : پرائی چیز کا دعوی کرنا اور اس میں جھگڑا کرنا
32245 
 عبدالوارث بن عبدالصمد، ابن عبدالوارث بن سعید، ابوعبیدہ، حسین بن ذکوان، عبداللہ بن بریدہ، یحییٰ بن یعمر، حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ایسی چیز کا دعوی کیا جو اس کی نہیں تھی تو وہ ہم میں سے نہیں اور وہ دوزخ کو اپنا ٹھکانہ بنالے۔
It was narrated from Abu Dharr that he heard the Messenger of Allah say: "Whoever claims something that does not belong to him; he is not one of us, so let him take his place in Hell."
________________________________________
نَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي الْمُفْلِسِ، عَنْ أَبِي نَجِيحٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ مُوسِرًا لَأَنْ يَنْكِحَ فَلَمْ يَنْكِحْ فَلَيْسَ مِنَّا»
    
 حضرت ابونجیح روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص نکاح کی قدرت رکھنے کے باوجود نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:15904، مسند الدارمي:2210، مراسيل أبي داود:202، مسند الحارث:482، الكنى والأسماء للدولابي:491، السُّنَّة لأبي بكر بن الخلالؒ:1447، السنن الكبرى للبيهقي:13455]
________________________________________
وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ وَطِئَ حُبْلَى.
    
 اور نبی ﷺ نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو کسی حاملہ عورت سے ہم بستری کرے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:17458، مسند أحمد:2318، مسند أبي يعلى:2522، المعجم الكبير للطبراني:]
________________________________________
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ رَمَانَا بِاللَّيْلِ فَلَيْسَ مِنَّا "۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص رات کو ہم پر تیر اندازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[مسند أحمد:8270، الأدب المفرد للبخاري:1279، مسند البزار:4460]
________________________________________
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ عَنْ غَيْرِهِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّهَا سَتَكُونُ أُمَرَاءُ يَكْذِبُونَ وَيَظْلِمُونَ، فَمَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَلَيْسَ مِنَّي، وَلَسْتُ مِنْهُ (1) ، وَلَا يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ، وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَهُوَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ، وَسَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ

حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے بعد کچھ ایسے امراء بھی آئیں گے جو دروغ بیانی سے کام لیں گے اور ظلم کریں گے سو جو آدمی ان کے پاس جا کر ان کے جھوٹ کو سچ قرار دے گا اور ظلم پر ان کی مدد کرے گا اس کا مجھ سے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ میرے پاس حوض کوثر پر بھی نہیں آسکے گا اور جو شخص ان کے جھوٹ کو سچ اور ظلم پر ان کی مدد کرے تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے پاس حوض کوثر بھی آئے گا۔
[مسند احمد:23260 ، السنة لابن أبي عاصم:759، مسند البزار:2832، المعجم الكبير للطبراني:3020]
________________________________________
حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي غِفَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ لَمْ يَحْلِقْ عَانَتَهُ، وَيُقَلِّمْ أَظْفَارَهُ، وَيَجُزَّ شَارِبَهُ فَلَيْسَ مِنَّا»۔

ایک غفاری صحابیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے زیر ناف بال نہ کاٹے ناخن نہ تراشے اور مونچھیں نہ کاٹے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[مسند أحمد:23480، جامع المسانيد، لابن الجوزي:6816]
________________________________________
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ، حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عُتْبَةَ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِئٍ الْعَنْسِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ، فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ؟ قَالَ: " هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ، ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ، دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي، وَلَيْسَ مِنِّي، وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ، ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ، ثُمَّ فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ، لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً، فَإِذَا قِيلَ: انْقَضَتْ، تَمَادَتْ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا، حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ، فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ، فَإِذَا كَانَ ذَاكُمْ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ، مِنْ يَوْمِهِ، أَوْ مِنْ غَدِهِ۔

یحیی بن عثمان، سعید بن خمصی، ابومغیرہ، عبدللہ بن سالم، حضرت عمیر بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی مجلس مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺنے آخر زمانہ میں ظاہر ہونے والے فتنوں کا ذکر شروع فرمایا اور بہت سارے فتنوں کو بیان کیا، یہاں تک کہ فتہ احلاس کا ذکر فرمایا۔ ایک شخص نے پوچھا کہ احلاس کا فتنہ کیا ہے (یعنی اس فتنہ کی نوعیت کیا ہوگی اور وہ کس صورتحال میں ظاہر ہوگا؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا: وہ بھاگنا، اور مال کا ناحق لینا ہے (یعنی اس فتنہ کی صورت یہ ہوگی کہ لوگ آپس میں سخت بغض وعداوت رکھنے اور باہمی نفرت و دشمنی کی وجہ سے ایک دوسرے سے بھاگیں گے ، کوئی کسی کی صورت دیکھنے اور کسی کے ساتھ نباہ کرنے کا روادار نہیں ہوگا، ایک دوسرے کے مال کو زبردستی چھین لینے اور ایک دوسرے کو ہڑپ کر لینے کا بازار گرم ہوگا اور پھر سراء کا فتنہ ہے، اس فتنہ کی تاریکی اور تباہی اس شخص کے قدموں کے نیچے سے نکلے گی (یعنی اس فتنہ کا بانی وہ شخص ہوگا) جو میرے اہل بیت میں سے ہوگا، اس شخص کا گمان تو یہ ہوگا کہ وہ فعل و کردار کے اعتبار سے بھی میرے اہل بیت میں سے ہے لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ وہ خواہ نسب کے اعتبار سے بھلے ہی میرے اہل بیت میں سے ہو مگر فعل وکردار کے اعتبار سے میرے اپنوں میں سے ہرگز نہیں ہوگا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میرے دوست اور میرے اپنے تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو پرہیز گار ہوں۔ پھر اس فتنہ کے بعد لوگ ایسے شخص کی بیعت پر اتفاق کریں گے جو پسلی کے اوپر کولہے کی مانند ہوگا، پھر دہیماء کا فتنہ ظاہر ہوگا۔ اور وہ فتنہ اس امت میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑے گا جس پر اس کا طمانچہ، طمانچہ کے طور پر نہ لگے (یعنی وہ فتنہ اتنا وسیع اور ہمہ گیر ہوگا کہ امت کے شخص تک اس کے برے اثرات پہنچیں گے اور ہر مسلمان اس کے ضرر و نقصان میں مبتلا ہوگا) اور جب کہا جائے گا کہ یہ فتنہ ختم ہو گیا ہے تو اس کی مدت کچھ اور بڑھ جائے گی یعنی لوگ یہ گمان کریں گے کہ فتنہ ختم ہو گیا ہے مگر حقیقت میں وہ ختم کی حد تک پہنچا ہوا نہیں ہوگا بلکہ کچھ اور طویل ہو گیا ہوگا، یہ اور بات ہے کہ کسی وقت اس کا اثر کچھ خم ہو جائے، جس سے لوگ اس کے ختم ہو جانے کا گمان کرنے لگیں لیکن بعد میں پھر بڑھ جائے گا اس وقت آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر ہو جائے گا (یعنی اس فتنہ کے اثرات سے لوگوں کے دل ودماغ کی حالت کیفیت میں اس قدر تیزی کے ساتھ تبدیلی پیدا ہوتی رہے گی کہ مثلا ایک شخص صبح کو اٹھے گا تو اس کا ایمان وعقیدہ صحیح ہوگا اور اس پختہ اعتقاد کا حامل ہوگا کہ کسی مسلمان بھائی کا خون بہانا یا اس کی آبروریزی کرنا اور یا اس کے مال واسباب کو ہڑپ کرنا ونقصان پہنچانا مطلقاً حلال نہیں ہے مگر شام ہوتے ہوتے اس کے ایمان وعقیدہ میں تبدیلی آ جائے گی اور وہ اپنے قول وفعل سے یہ ثابت کرنے لگے گا یہ گویا اس کے نزدیک کسی مسلمان بھائی کا خون بہانا، اس کی آبروریزی کرنا، اور اس کے مال وجائیداد کو ہڑپ کرنا نقصان پہنچانا جائز وحلال ہے، اس طرح جو صبح کے وقت مومن تھا شام کو اس عقیدے کی تبدیلی کی وجہ سے کافر ہو جائے گا، اور یہ صورت حال جاری رہے گی تاکہ لوگ خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے ۔ ایک خیمہ ایمان کا ہوگا کہ اس میں نفاق ہوگا اور ایک خیمہ نفاق کا ہوگا کہ اس میں ایمان نہیں ہوگا۔ جب یہ بات ظہور میں آ جائے تو پھر اس دن یا اس کے اگلے دن ، دجال کے ظاہر ہونے کے منتظر رہنا۔
[سنن أبي داود:4242، مسند احمد:6168،المستدرك على الصحيحين للحاكم:8354]

تشریح
 " فتنہ احلاس" سے مراد یہ ہے کہ وہ فتنہ عرصہ دراز تک قائم رہے گا اور اس کے اثرات امت کے لوگوں کو بہت طویل عرصے تک مختلف آفات اور پریشانیوں میں مبتلا رکھیں گے۔ واضح رہے کہ احلاس اصل میں حلس کی جمع ہے اور حلس اس ٹاٹ کو کہتے ہیں جو کسی عمدہ فرش جیسے قالین وغیرہ کے نیچے زمین پر بچھا رہتا ہے اور وہ ہمیشہ اپنی جگہ پر پڑا رہتا ہے ۔ یا حلس اس کملی کو کہتے ہیں جو پالان کے نیچے اونٹ کی پیٹھ پر ڈالی جاتی ہے ۔ پس اس فتنہ کو فتنہ احلاس کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کسی اچھے فرش کے نیچے کا ٹاٹ مستقل طور پر اپنی جگہ پڑا رہتا ہے وہاں سے اٹھایا نہیں جاتا اسی طرح وہ فتنہ بھی لوگوں کو چھوڑنے والا نہیں۔ بلکہ برابر قائم رہے گا اور اس کے برے اثرات بہت دنوں تک لوگوں کو مبتلا رکھیں گے۔ یا یہ کہ اس فتنہ کو ظلمت وتاریکی اور برائی کے طور پر حلس سے تشبیہ دی گئی ہے اور یا یہ کہ اس فتنہ کو فتنہ احلاس فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح ٹاٹ ہمیشہ بچھا رہتا ہے اور اس کو اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جاتا اسی طرح لوگوں کو بھی چاہئے کہ اس فتنہ کے دوران اپنے گھروں میں پڑے رہنے کو لازم کر لیں اور گوشہ نشینی اختیار کر لیں۔ 
 لفظ فتنۃ السراء رفع کے ساتھ ہے اور اس اعتبار سے یہ لفظ " ہرب" پر عطف ہے ، یعنی جب کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ پوچھا کہ فتنہ احلاس کی نوعیت وصورت کیا ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا یہ فرمایا کہ وہ فتنہ ہرب وحرب اور سراء کی صورت میں ہوگا ہرب اور حرب کے معنی تو اوپر ترجمے میں واضح کئے جا چکے ہیں، یعنی باہمی عداوت ودشمنی اور بغض ونفرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور بھاگنا اور کسی کا مال لوٹ لینا۔ اور سراء کے معنی یہ ہیں کہ وہ فتنہ اندر ہی اندر اسلام کی بیخ کنی کرے گا، یعنی کچھ لوگ ایسے پیدا ہو جائیں گے جو ظاہر میں اسلام اور مسلمانوں کی ہمدردی کا دعویٰ کریں گے مگر باطن میں اسلام اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی چاہیں گے اور اپنی اس ناپاک خواہش کی تکمیل کے لئے طرح طرح کی سازشوں کے جال پھیلا کر مسلمانوں کو فتنہ وفساد میں مبتلا کریں گے۔ نہایہ میں لکھا ہے کہ سراء سے کنکریلا پتھریلا میدان مراد ہے ، اس صورت میں فتنہ سراء سے واقعہ حرا کی طرف اشارہ مراد ہوگا جو یزید کی حکومت میں ہوا اور اس کی وجہ سے اہل مدینہ کا قتل عام ہوا، سینکڑوں صحابہ اور تابعین کو جام شہادت نوش کرنا پڑا اور حرم محترم کی سخت بربادی ہوئی یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب کہ سراء کو پوشیدہ کے مفہوم میں لیا جائے اگر یہ لفظ سرور وشادمانی کے مفہوم میں ہو تو اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ وہ فتنہ ایسے حالات پیدا کر دے گا جس میں عیش وعشرت کی چیزوں کی فراوانی ہو جائے گی، اور لوگ اسراف وتنعم کے ذریعے راحت و آرام اور سرور وشادمانی کی زندگی میں پڑ کر خدا اور آخرت کے خوف سے بے نیاز ہو جائیں گے۔ یا یہ کہ اس فتنہ کی وجہ سے چونکہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت کو دھچکا لگے گا اور ملت اسلامیہ بہت زیادہ نقصان وتباہی میں مبتلا ہو جائے گی لہٰذا یہ صورت حال اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے لئے خوشی وشادمانی کا باعث بنے گی۔ اور ایک نسخے میں " فتنۃ السراء" کا لفظ نصب کے ساتھ ہے، اس صورت میں اس کا عطف فتنہ الاحلاس پر ہوگا اور معنی یہ ہوں گے کہ آپ نے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا اور اس کے بعد فتنہ اسراء کا ذکر کیا۔ 
 " مگر وہ میرے اپنوں میں سے نہیں ہوگا " کا مطلب یہ ہے کہ خواہ وہ میرے اہل بیت میں سے ہونے کا کتنا ہی گمان رکھے اور اگرچہ نسب اور خاندان کے اعتبار سے وہ واقعۃً میرے اہل بیت میں سے کیوں نہ ہو لیکن وہ اپنے طور طریقوں اور اپنے فعل و کردار کے لحاظ سے میرے اپنوں میں سے یقینا نہیں ہوگا کیونکہ وہ میرے اپنوں میں سے ہوتا تو روئے زمین پر فتنہ وفساد کے ذریعے میری امت کو نقصان وضرر میں مبتلا نہیں کرتا۔ اس ارشاد گرامی کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ا یت (انہ لیس من اہلک)۔ یقینا وہ تمہارے اپنوں میں سے نہیں ہے۔ یا یہ کہ اس جملے کا یہ مطلب ہے کہ وہ شخص خواہ نسب کے اعتبار سے میرے خاندان سے کوئی تعلق کیوں نہ رکھے لییکن حقیقت کے اعتبار سے وہ میرے محبوب اور دوستوں میں سے ہوگا کیونکہ میرا محبوب اور دوست صرف وہی مسلمان ہو سکتا ہے جو تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرے اور کبھی بھی ایسے قول وفعل کا ارتکاب نہ کرے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اس کی تائید حدیث کے اگلے جملے سے بھی ہوتی ہے۔
 " جو پسلی کے اوپر کولہے کی مانند ہوگا " اس جملے کے ذریعے گویا اس شخص کو ذہنی وعملی کج روی اور غیر پائیداری کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح اگر کولہے کی ہڈی کو پسلی کی ہڈی پر چڑھا دیا جائے تو وہ کولہا اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ سکتا اور پسلی کی ہڈی کے ساتھ اس کا جوڑ نہیں بیٹھ سکتا اسی طرح اگرچہ لوگ اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کو اپنا امیر وحکمران تسلیم کر لیں گے لیکن حقیقت میں وہ امارت وسرداری کے لائق نہیں ہوگا کیونکہ وہ علم ودانائی سے محروم ہوگا ، آئین حکمرانی سے بے بہرہ نہ ہوگا، قوت فیصلہ کی کمی اور رائے کی کمزوری میں مبتلا ہوگا، پس اس کا کوئی حکم اور کوئی فیصلہ ، محل موقع کے مطابق نہیں ہوگا اور جب یہ صورت حال ہوگی تو سلطنت ومملکت کا سارا نظام انتشار وبد امنی اور سستی وکمزوری کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ 
 " پھر دہیما کا فتنہ ظاہر ہوگا " کے سلسلے میں پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ جس طرح فتنہ الاحلاس کے دونوں اعراب ، یعنی رفع اور نصب ذکر کئے گئے تھے اور ان میں سے ہر ایک کے مطابق معنی بیان کئے گئے تھے، اسی طرح فتنۃ الدہیما میں بھی فتنہ کے لفظ کے دونوں اعراب یعنی رفع اور نصب میں دہیماء (دال کے پیش اور ہا کے زبر کے ساتھ) اصل میں لفظ دہماء کی تصغیر ہے جس کے معنی سیاہی اور تاریکی کے ہیں اور یہاں تصغیر کا اظہار مذمت وبرائی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔ حاصل یہ کہ فتنہ احلاس کے بعد جو فتنہ ظاہر ہوگا وہ اپنے اثرات کی ظلمت اور قتل وغارت گری کی شدت کے اعتبار سے ایک سیاہ اور تاریک شب کی مانند ہوگا اور جس کی سیاہ رات کی تاریکی ہر شخص کو اندھیرے میں مبتلا کر دیتی ہے اس طرح اس فتنہ کی ظلمت ہر شخص کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوگی اور ہر ایک کے قوائے فکر و عمل پر تاریک سایہ بن کر چھا جائے گی۔
 " تآنکہ لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے" کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ کے لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایک گروہ تو خالص ایمان والوں کا ہوگا کہ جن میں کفر اور نفاق کا نام نہ ہوگا اور ایک گروہ خالص کفر والوں کا ہوگا اور ان میں ایمان واخلاص کا نام نہ ہوگا۔ اور بعض حضرات نے یہاں فسطاط کا ترجمہ خیمہ کے بجائے شہر کیا ہے یعنی اس زمانے کے لوگ دو شہر یا دو ملکوں میں تقسیم ہو جائیں گے کہ ایک شہر یا ایک ملک میں صرف خالص مسلمانوں اہل ایمان ہوں گے اور ایک شہر یا ملک میں خالص کافر ہوں گے۔ واضح رہے کہ فسطاط اصل میں تو خیمے کو کہتے ہیں لیکن شہر پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور حدیث میں اس لفظ کا استعمال گویا اس اسلوب کے طور پر ہے کہ ذکر تو محل رہنے کی جگہ کا ہوا، لیکن مراد حال یعنی رہنے والوں کی حالت وکیفیت ہو ۔ پس " لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے " کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کے لوگ واضح طور پر دو طبقوں میں تقسیم ہو جائیں گے، ایک طبقہ اہل ایمان کا ہوگا اور ایک طبقہ اہل کفر کا ہوگا، اور ان دونوں طبقوں کے لوگ خواہ دنیا کے کسی حصے میں اور شہر میں سکونت پذیر ہوں اس موقع پر ایک بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک خیمہ نفاق کا ہوگا کہ اس میں ایمان نہیں ہوگا۔ تو اس خیمہ یا اس طبقہ کے لوگوں میں سے ایمان کی نفی یا تو اصل کے اعتبار سے ہے یعنی اس خیمہ کے لوگوں میں سرے سے ایمان نہیں ہوگا یا کمال ایمان کی نفی بھی مراد ہے یعنی اس خیمہ یا اس طبقہ میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ظاہر کے اعتبار سے ایمان رکھتے ہوں، مگر اہل نفاق کے سے اعمال اختیار کرنے، یعنی جھوٹ بولنے، خیانت کرنے اور عہد شکنی وغیرہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے مخلص اہل ایمان کے زمرے سے خارج ہوں گے۔ 
 " دجال کے ظاہر ہونے کے منتظر رہنا " کا مطلب یہ ہے کہ جب فتنہ دہیما ظاہر ہو جائے تو سمجھنا کہ دجال کا ظہور ہوا ہی چاہتا ہے، چنانچہ اس فتنہ کے فورا بعد دجال ظاہر ہوگا، اس وقت حضرت مہدی دمشق میں ہوگا، دجال دمشق کے شہر کو گھیر لے گا، پھر حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال ان کے مقابلے میں پر اس طرح گھل جائے گا، جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے، حضرت عیسی علیہ السلام اس کو اپنے نیزے سے موت کے گھاٹ اتار دیں گے اور اس کی موت سے ان کو بہت زیادہ خوشی ہوگی ۔
 طیبی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ " فسطاط" شہر یا خیمے کو کہتے ہیں جس میں لوگ جمع ہوتے اور رہتے ہیں، نیز حدیث کے اس آخری جزو سے کہ جس میں فسطاط کا ذکر ہے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ فتنہ آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا لیکن علماء نے پہلے ذکر کئے گئے فتنوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا اور کہا ہے کہ یہ فتنے کب ظاہر ہوں گے اور کون سے واقعات ان کا مصداق ہیں خصوصا فتنہ سراء کے بارے میں تو مکمل سکوت اختیار کیا ہے اور اس طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے کہ اہل بیت نبوی میں سے وہ کون شخص ہے جس کو اس فتنہ کا بانی کہا گیا ہے۔

Narrated Abdullah ibn Umar: 
When we were sitting with the Apostle of Allah (peace_be_upon_him), he talked about periods of trial (fitnahs), mentioning many of them. 
When he mentioned the one when people should stay in their houses, some asked him: Apostle of Allah, what is the trial (fitnah) of staying at home? 
He replied: It will be flight and plunder. Then will come a test which is pleasant. Its murkiness is due to the fact that it is produced by a man from the people of my house, who will assert that he belongs to me, whereas he does not, for my friends are only the God-fearing. Then the people will unite under a man who will be like a hip-bone on a rib. Then there will be the little black trial which will leave none of this community without giving him a slap, and when people say that it is finished, it will be extended. During it a man will be a believer in the morning and an infidel in the evening, so that the people will be in two camps: the camp of faith which will contain no hypocrisy, and the camp of hypocrisy which will contain no faith. When that happens, expect the Antichrist (Dajjal) that day or the next.
________________________________________
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ، إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الْإِيمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:226]، يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ قَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ " يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ مَاتَ عَلَى غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي»

جعفر بن مسافر ہذلی، حسان، ابولولید، ابورباح، ابراہیم بن ابوعلبہ، ابوحفصہ کہتے ہیں کہ حضرت عبادہؓ بن صامت نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! تو ہرگز ایمان کی حقیقت کی حلاوت نہیں پائے گا یہاں تک کہ تو یہ جان لے کہ تجھے جو کچھ (تکلیف یا مال وغیرہ) پہنچا وہ تجھ سے ہرگز چھٹنے والا نہ تھا اور جو تجھ سے رہ گیا وہ ہرگز تجھے ملنے والا تھا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ پہلی چیز جو اللہ نے پیداکی وہ قلم ہے پھر اس سے فرمایا کہ لکھ اس نے کہا کہ اے میرے رب میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر چیز کی تقدیر لکھ یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے اے میرے بیٹے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو اس (اعتقاد و یقین کے بغیر) مر گیا تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔
[سنن أبي داود:4700، مسند الشاميين للطبراني:59، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:5/248، الاعتقاد للبيهقي:ص136، السنن الكبرى للبيهقي:20875، الأحاديث المختارة:336]














سنتوں سے انحراف کرنے والے کا رسول صلی الله علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں
الحمدلله رب العالمین، والصلاة والسلام علی سید المرسلین، وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، ومن تبعھم باحسان، ودعا بدعوتھم الی یوم الدین، اما بعد!

ہمارے حضورحضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے ہر کام میں اعتدال کا طریقہ اختیار کرنے کو پسند فرمایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”خیر الأمور اوسطھا“ یعنی معاملات میں بہتر وہ ہیں جو درمیانی ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر از خود اپنے عمل سے بتایا اور توجہ دلائی ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے تین صحابی بڑے ایمانی جذبے کے ساتھ آپ کے پاس آئے ،ایک نے کہا: رات رات بھرمیں عبادت کیا کروں گا۔ دوسرے نے کہا: میں روزہ رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا: میں کبھی شادی نہ کروں گا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میں تم میں سب سے زیادہ متقی اور الله سے ڈرنے والا ہوں اور رات کو عبادت بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور روزے رکھتا ہوں اور روزے سے خالی دن بھی چھوڑتا ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں، جو میرے طریقہ پر نہیں، وہ ہم میں سے نہیں ۔ یہ تھی وہ اعتدال اور درمیان کی راہ جس پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے امت کو ڈالا تھا اور اس کی تربیت بھی پوری طرح کر دی تھی کہ اپنی دنیاوی زندگی کی فکر حسب ضرورت رکھو اور اپنے دین کے حق کو پوری طرح ادا کرو ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”الدین یسر“ کہ مذہب آسان ہے، الله پاک نے امت محمدیہ کے لیے مذہب کو آسان بنا دیاہے، اس پر پوری طرح عمل کرنا آسان ہے، دین پر پورا عمل کرنے سے برکت ہوتی ہے اور الله کی نصرت کے وعدے پورے ہوتے ہیں، امت محمدیہ کے لیے اس میں آسانی ہے اور یہی اس کے لیے فلاح وکامرانی کی راہ ہے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا کہ سجدوں سے یعنی پروردگار کی عبادت کرنے سے میری مدد کرو۔ یعنی میری دعا کو تقویت پہنچاؤ ، ایک حدیث میں فرمایا: ایسا بھی شخص لایا جائے گا جس نے خوب عبادت کی ہو گی، لیکن لوگوں کی دل آزاری کی ہو گی، کسی کو مارا ہو گا، کسی پر الزام لگایا ہو گا ، جب اس کا حساب ہو گا تو جس کی اس نے دل آزاری کی ہو گی ، اس کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی، حتی کہ اس کا دامن اس کی نیکیوں سے خالی ہو جائے گا اوراس کو آگ میں جانا پڑے گا۔ ہم کو حضور صلی الله علیہ وسلم سے سچی محبت کا ثبوت دینا چاہیے او راتباع سنت کو اختیار کرنا چاہیے۔

اتباع سنت کا معیار وتقاضا
اتباع سنت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خوشی کا کام کیا جائے او رناخوشی سے بچا جائے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی پیروی کی جائے اورزندگیوں کو اس پیمانے میں ڈھالا جائے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے شب وروز کیحالات سے او رتکلیف وراحت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے طرز وطریقہ سے ، عبادات ومعاملات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت سے بنتا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم سے سچی محبت کا یہی معیار ہے کہ دیکھا جائے کہ ہماری زندگی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ وسنت کی پیروی کہاں تک ہے؟ دعویٰ کرنا آسان ہے ، محبت وتعلق کا لفظی اور دکھاوے کا اظہار آسان ہے ، آدمی جس طرح اپنی بہت سی خواہشوں پر پیسے صرف کر دیتا ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم سے محبت کے دعوے او ردکھاوے پر بھی صرف کر دیتا ہے، روشنی، جلسہ، جلوس بھی آسان کام ہیں ، اس میں دل بھی لگتا ہے اور مزہ آتا ہے، لیکن جس میں جی لگتا ہو اور معلوم ہو جائے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ طریقہ نہیں پھر اس کو آدمی چھوڑ دے او راس کے مزے سے اپنے کو بچائے، یہی وہ مشکل کام ہے جو ہمار ی زندگی سے نکلتا جارہا ہے او رجو سنت ہے جس سے الله کے رسول خوش ہوں گے، اسی کو اختیار کرے، خواہ اس میں کوئی مزہ نہ ہو ، کوئی دکھاوانہ ہو۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کی خوشی اور خوش نودی آپ صلی الله علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرکے دکھانے سے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی پیروی سے ہو گی ، ہم دیکھیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم خوشی کے موقعوں پر کیا کرتے تھے ، رنج کے موقعوں پر کیا کرتے تھے ، اپنے پروردگار کی عبادت او راس کے احکام کی بجا آوری کیسے کرتے تھے، پھر بیویوں سے کیسے پیش آتے تھے ،بچوں کے ساتھ کیسا سلوک تھا، ساتھیوں اور رفقاء کا کیسا خیال کرتے تھے ، پڑوسیوں کے ساتھ کیا معاملہ تھا، کیسی رحم دلی تھی، کیسا اخلاق تھا؟ قرآن مجید میں فرماگیا ہے ﴿ لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة لمن کان یرجو الله والیوم الآخر وذکر الله کثیراً﴾․

یعنی” تمہارے لیے الله کے رسول میں اچھا نمونہ ہے، یہ اس شخص کے لیے جو الله سے امید قائم کرتا ہے اور آخرت میں امید کرتا ہے اور اس نے الله کو بہت یاد کیا ہے ۔“

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت واطاعت او ران کے اعمال واخلاق کو اپنی رندگی کے لیے نمونہ بنانا ہی الله پاک وبرتر سے محبت اور مقبولیت کا ذریعہ قرار دیاگیا ہے، قرآن مجید میں فرمایا گیا:﴿قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله﴾․ اس لیے ہم مسلمانوں کو اپنی اپنی زندگی کا جائز ہ لیتے رہنا چاہے کہ ہم الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے واقعی محبت کرتے ہیں یا ہم کو شیطان دھوکا دے رہا ہے او رہم سب انسانوں کو ہمارے پروردگار نے حکم دیا کہ اس عظیم اورر حمة للعالمین رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کریں، اس میں ہمار ی کامیابی اور نجات ہے ۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک جامع ترین نصیحت
”عن ابی نجیح العرباض بن ساریة رضی الله عنہ قال: وعظنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم موعظةً بلیغةً، جلت منھا القلوب وذرفت منھا العیون، فقلنا یا رسول الله، کأنھا موعظة مودِّع فأوصنا․ قال: اوصیکم بتقوی الله، والسمع، والطةعة، وان تأمَّر علیکم عبد حبشی، وانہ من یعش منکم فسیریٰ اختلافاً کثیراً، فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ، وایاکم ومحدثات الامور، فان کل بدعة ضلالة․“ (رواہ ابوداؤد، والترمذی)

ترجمہ:” حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں نہایت موثر وعظ ارشاد فرمایا کہ ہمارے دل ڈر گئے او رہماری آنکھیں اشکبار ہو گئیں ، تو ہم نے عرض کیا یا رسول الله ! یہ تو گویا آخری نصیحت معلوم ہوتی ہے ، لہٰذا ہمیں کچھ اور نصیحت فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا میں تمہیں الله سے ڈرنے کی او رسمع وطاعت ( یعنی امیر کی بات سننے اور اس پر عمل کرنے) کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام مقرر کیا جائے۔ (یاد رکھو !) تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، ایسی حالت میں تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑے رہنا، ان کو دانتوں سے مضبوط پکڑے رہنا اور دین میں نئے نئے کام( بدعات) ایجاد کرنے سے بچنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے او رہر بدعت گمراہی ہے۔“

اس حدیث کو دیکھیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کتنا مؤثر وعظ فرمایا ہے کہ سب کی آنکھیں بہنے لگیں اور سب لرز اٹھے، روایت میں آتا ہے ”وجلت منھا القلوب وذرفت منھا العیون“، وجل“ اسی خوف کو کہتے ہیں جو دل میں لرزہ پیدا کر دے ، خوف کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ، عربی میں اس کے مختلف الفاظ ہیں ” خوف“ کا لفظ آتا ہے ، ” حذر“ اور ” ذعر“ کا بھی لفظ آتا ہے ”وجل“ اور ”خشیت“ کا بھی لفظ آتا ہے، ان سب میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے اور ان کے مواقع استعمال بھی الگ الگ ہیں کہ کس کیفیت میں کون سا لفظ زیادہ بہتر ہے، عام خوف کو خوف کہتے ہیں،لیکن جب کسی چیز کو دیکھ کر اچانک خوف آجائے اس کو ”ذعر“ کہتے ہیں، خشیت اس خوف کو کہتے ہیں جو دل میں احترام کے جذبہ کے ساتھ ہو ، وجل اس خوف کو کہتے ہیں کہ جس میں آدمی لرزجائے، توصحابہ کرام کا ایمان اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم سے جنت او رجہنم کی باتیں سنتے تھے تو لرز جاتے تھے، ان کا ایمان اتنا قوی تھا کہ جنت کا ذکر ہوتا تھا تو گویا جنت ان کو نظر آرہی ہے اور اگر دوزخ کا ذکر ہوتا تو گویا دوزخ نظر آرہی ہے، آگ لپکتی ہوئی نظر آرہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ آگ ہماری طرف بڑھ رہی ہے اور کہیں ہمیں چھونہ لے ، یہ کیفیت صحابہ کرام کی ہوتی تھی، اس کیفیت کے بعد کیا دل ان کا لرز نہیں جائے گا، آپ سو رہے ہوں اور آگ لگ گئی اور اچانک آپ نے دیکھا کہ وہ آپ کی طرف بڑھ رہی ہے اور بھاگنے کا کوئی راستہ نہ ہو تو آپ کا دل لرز جائے گا، معلوم ہو گا کہ موت سامنے ہے۔

یہ کیفیت صحابہ کی ہو جاتی تھی، اس لیے کہ ان کا ایمان اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جو چیزیں ہم پڑھتے ہیں اور اس کو علمی طور پر مان لیتے ہیں، دل کی گہرائیوں میں نہیں اترتا، لیکن ان کو اس پراتنا یقین ہوتاتھا کہ جیسے وہ آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں، اس لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے جو بات ارشاد فرمائی وہ مؤثر تھی، سننے والے آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ تھے، ایسے ایمان والے تھے کہ سن کر بے حد متاثر ہوئے اور ڈر گئے کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور لوگوں نے کہا کہ یا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم)! آپ نے ایسا وعظ فرمایا جیسے کہ آپ آخری وعظ فرمارہے ہوں اور اتمام حجت کر رہے ہوں اور جس کے بعد کچھ کہنا نہیں کہ یہ آخری بات ہے، جو کہہ رہے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کچھ نصیحت کیجیے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اوصیکم بتقویٰ الله والسمع والطاعة، وان تأمرعلیکم عبد حبشی…“ یعنی میں تم کو نصیحت کرتا ہوں، ہدایت دیتا ہوں کہ دل میں خدا کا ڈر پیدا کرو اور بات سنا کرو اور مانا کرو، جس طرح وہ شخص کرتا ہے جو کسی بااختیار آقا کا غلام ہو۔

یہ ایسی حدیث ہے کہ خاص طور پر اس زمانہ کے لیے اس میں بہت ہی روشنی ہے ، یہ زمانہ ایسا ہے کہ خود غرضی اور آپس میں تعلقات کی خرابی اور ایک دوسرے سے کشکمش اور لڑائی اور ایک دوسرے کی مخالفت مسلمانوں میں نہایت عام ہو گئی ہے ، لیڈر لیڈر سے لڑ رہے ہیں ، واعظین وعلماء تک آپس میں لڑ رہے ہیں ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے وہ اسی لیے فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو الله پاک کی طرف سے یہ بتلا دیا گیا تھا کہ اس امت پر ایسے دور آئیں گے اور یہ بات اسی زمانہ میں نہیں، بلکہ اس سے پہلے سے ہوتی رہی ہے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کو الله کی طرف سے یہ بات بتلا دی گئی تھی کہ امت ان حالات سے گزرے گی، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے خبردار کیا کہ دیکھو! ایسے حالات پیش آسکتے ہیں، اس میں تم کو کیا کرنا چاہیے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله سے ڈرو اور جو شخص خدا سے ڈرے گا جس کو واقعی ڈرنا کہتے ہیں، جیسا کہ صحابہ کرام ڈرتے تھے تو وہ اس طرح کی چیزوں میں نہیں پڑے گا، مثال کے طور پر آگ سے آپ ڈر رہے ہیں، خدانخواستہ آگ لگ گئی ، آپ آگ کے سامنے کھڑے ہیں، اس وقت وہاں آپ کا مخالف بھی پہنچ گیا ہے تو کیا ایسے موقع پر آپ اپنے مخالف سے دشمنی کریں گے ؟ نہیں کریں گے، بلکہ دونوں مل کر بچنے کی کوشش کریں گے اور اس وقت دونوں دوست ہو جائیں گے ، دونوں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے کہ بھائی! آگ لگ رہی ہے ، اس کو بجھانے کی کوشش کریں گے، اس وقت ہم اپنے اختلاف نہیں دیکھیں گے، اس وقت ہم دونوں مل جائیں گے۔

صحیح مومن الله کے غضب وناراضی سے اسی طرح ڈرتا ہے اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہے ، اس کی پکڑ سے ڈرتا ہے او رالله سے اس طرح ڈرنے کا سبب یہ بنتا ہے کہ الله نے کہا کہ قیامت کے دن ہم تمہارا حساب لیں گے اور تمہارے اعمال کے مطابق جزا وسزا دیں گے، اگر برے اعمال ہیں تو جہنم او راگر اچھے اعمال ہیں توجنت دیں گے، اس میں پورا پورا معاملہ ہو گا، وہاں رعایت نہیں ، ہاں! اگر بعد میں الله رحم فرما دے تو اس کا فضل ہے، کوئی اسے روک نہیں سکتا توجب ہم کو اس پر واقعتاً یقین ہو گا اورخدا سے واقعتاً ڈر ہو گا تو ہمیں بے حد فکر اس کی ہو گی کہ الله پاک ہم سے ناراض نہ ہوں ، جب الله پاک کی رضا مندی یا ناراضگی کی فکر ہو گی تو یہ سب چیزیں چھوٹ جائیں گی کہ فلاں نے ایسا کرد یا، فلاں نے ایسا کہا، مومن سوچتا ہے کہ فلاں نے ایسا ویسا کر دیا تو کتنا نقصان ہو گا، اس سے زیادہ نقصان تو اس میں ہے کہ آدمی اپنے عمل کے نتیجے میں جہنم میں پہنچ جائے ، ہماری دنیا کتنی ہے اور کیا اہمیت رکھتی ہے؟ وہ اگر برباد ہو جائے تو کتنا نقصان ہے؟ الله سے ڈرنے والا یہ دیکھتا ہے ہماری دنیا برباد ہو جائے، لیکن ہماری آخرت سنور جائے ، جہاں ابدالآباد کی زندگی گزارنی ہے، صحابہ کرام کے دل کی کیفیت یہی بن گئی تھی، جب ان کو جہنم سے ڈرایا جاتا تھا تو وہ واقعی ڈرتے تھے اور خوف زدہ ہو جاتے تھے اور آنسو جاری ہو جاتے تھے اور ان باتوں میں پڑنے یاکرنے سے دور بھاگتے تھے جن کے کرنے سے الله تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں تلقین آئی ہے کہ الله سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ فرمایا: ﴿اتقوا لله حق تقاتہ﴾ او رایسا ڈرواقعی پیدا ہوتا ہے ، ہمارے حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت کے بعد ارشاد فرمایا کہ امیر کی بات سنو اور مانو اور جب مومن حضور صلی الله علیہ وسلم کی بات کو خوب مانتا ہو گا تو یہ حکم بھی مانے گا اور سب لوگ امیر کی باتیں ماننے لگیں تو جھگڑا ختم ہو جائے گا اور غلط کام بھی ختم ہو جائے گا فرمایا:”انہ من یعش منکم فسیریٰ اختلافاً کثیراً“ کہ بعد میں جو زندہ رہیں گے جب کہ ایمان کی کمزوری آجانے پر اختلافات اثر انداز ہونے لگیں گے تو وہ لوگ بڑا اختلاف دیکھیں گے، ایک دوسرے سے مخالفت اور نفرت رکھنے والے لوگ ہونے لگیں گے، ایسے وقت میں تم کو وصیت کرتا ہوں ”علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین“ کہ میرا طریقہ اور خلفائے راشدین کا طریقہ اختیار کر و اور اس پر نظر رکھو کہ میں نے کیا کیا اور ایسے موقع پر صحابہ  نے کیا کیا ، خاص طور پر خلفائے راشدین کو دیکھو۔

سنت کے کیا معنی ہیں؟
سنت کے معنی طریقہ عمل کے ہیں اور ”السنة“ سے مراد سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہے اور سنت کی اضافت جس کی طرف کی جائے اس کا طریقہ ہو جاتا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میری سنت پر عمل اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرو یعنی میرے طریقہ کو دیکھو اور اس کو اختیار کرو اور صحابہ کے طریقہ کو دیکھو اور اس کو اختیار کرو، اگر میرے طریقہ پر عمل کرو گے اور خلفائے راشدین کے طریقہ کو سامنے رکھو گے تو آپسی اختلافات وکشمکش اور مصیبت وآفت سے بچ جاؤگے اور فرمایا کہ ”عضوا علیھا بالنواجد“ یعنی اس کو دانتوں سے پکڑو۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری سنت اور صحابہ کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو، اگر ایسا کروگے تو خطرہ سے بچ جاؤ گے۔”وایاکم ومحدثات الامور“ یعنی دین کے معاملہ میں نئی نئی باتیں ایجاد ہوں تو ان سے بچو ”وإیاکم ومحدثات الامور“ اپنے کو بچاؤ او ربچو، یعنی لوگ اپنے فائدوں کی غرض سے محض اندازوں سے دین کے اندر نئی باتیں کرتے رہتے ہیں ان سے بچو اور یہ دین کے معاملہ میں ہے ، دنیا کے معاملہ میں نہیں ، دنیا کے معاملہ میں آدمی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق کام کرے، لیکن دین کے معاملہ میں جہاں الله تعالیٰ کی رضا کا معاملہ ہوتا ہے اس میں اگر کوئی نئی بات ایجاد کی جاتی ہے جو حضور صلی الله علیہ وسلم نینہیں بتائی تو وہ ”محدث“ ہے، یعنی نئی کر دی گئی ہے ، نئے نئے اختیار کردہ معاملات سے بچو، جن کو لوگ دین بناتے ہیں حالاں کہ وہ دین نہیں ہے ، جس کو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بتایا او رکہا یا کیا ہے یا صحابہ کرام نے کہا اور کیا ہے، اس کے علاوہ جو نئی چیز اختیار کی جائے گی اور وہ دین نہیں بلکہ بدعت ہے یا بدعت کامطلب دین میں نئی بات ایجاد کرنا ہے اور دین کے اندر نئی بات کا ایجاد کرنا کسی کا حق نہیں، کیوں کہ دین مکمل کر دیا گیا او راعلان کر دیا گیا ﴿الیوم اکملت لکم دینکم﴾ میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، دین مکمل ہو گیا، اب کوئی نئی بات دین میں داخل نہیں ہو گی۔

کل بدعة ضلالة
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر نئی بات اور نئی ایجاد یعنی جو بات حضور صلی الله علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں سے الگ ہو گی ، گمراہی ہو گی، ہدایت وہ ہے جو الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ہم کو ملی ،گمراہی وہ ہے جو دین میں نئی بات اختیار کی گئی ہے ، جس کی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے یہاں کوئی سند نہیں اور راہ نمائی نہیں ملتی وہ بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت وگمراہی ہے۔

ہمیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنا ہے، تاکہ آخرت میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے اگر ملاقات مقدر ہو تو آپ یہ نہ فرمائیں کہ تم نے تو ہم کو خوش نہیں کیا، صرف اپنے کو خوش کرتے رہے اور شان وشکوہ سے اپنا دل بہلاتے رہے اور ہماری سنتیں مٹتی رہیں ، ہمیں سیرت پاک کے جلسوں میں اتباع سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ضرور سامنے لانا چاہیے ، الله پاک ہم سب کو اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

وصلی الله علی سیدنا ومولانا محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین




قرآن مجید میں ہے:

 فَلَمّا فَصَلَ طالوتُ بِالجُنودِ قالَ إِنَّ اللَّهَ مُبتَليكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنهُ فَلَيسَ مِنّى وَمَن لَم يَطعَمهُ فَإِنَّهُ مِنّى إِلّا مَنِ اغتَرَفَ غُرفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبوا مِنهُ إِلّا قَليلًا مِنهُم ۚ فَلَمّا جاوَزَهُ هُوَ وَالَّذينَ ءامَنوا مَعَهُ قالوا لا طاقَةَ لَنَا اليَومَ بِجالوتَ وَجُنودِهِ ۚ قالَ الَّذينَ يَظُنّونَ أَنَّهُم مُلٰقُوا اللَّهِ كَم مِن فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَت فِئَةً كَثيرَةً بِإِذنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصّٰبِرينَ {2:249}


 پھر جب باہر نکلا طالوت فوجیں لے کر کہا بیشک اللہ تمہاری آزمائش کرتا ہے ایک نہر سے سو جس نے پانی پیا اس نہر کا تو وہ میرا نہیں اور جس نے اس کو نہ چکھا تو وہ بیشک میرا ہے مگر جو کوئی بھرےایک چلو اپنے ہاتھ سے پھر پی لیا سب نے اس کا پانی مگر تھوڑوں نے ان میں سے پھر جب پار ہوا طالوت اور ایمان والے ساتھ اس کے تو کہنےلگے طاقت نہیں ہم کو آج جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی کہنے لگے وہ لوگ جن کو خیال تھا کہ ان کو اللہ سےملنا ہے بارہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی ہے بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے .

یعنی ہوس سے طالوت کے ساتھ چلنے کو سب تیار ہو گئے طالوت نے کہ دیا کہ جو کوئی جوان زورآور اور بےفکر ہو وہ چلے ایسے بھی اسی ہزار نکلے پھر طالوت نے ان کو آزمانا چاہا ایک منزل میں پانی نہ ملا دوسری میں ایک نہر ملی طالوت نے حکم کر دیا کہ جو ایک چلو سے زیادہ پانی پیوے وہ میرے ساتھ نہ چلے صرف تین سو تیرہ ان کے ساتھ رہ گئے اور سب جدا ہو گئے ۔ جنہوں نے ایک چلو سے زیادہ نہ پیا ان کی پیاس بھجی اور جنہوں نےزیادہ پیا ان کو اور پیاس لگی اور آگے نہ چل سکے۔


Then when Talut sallied forth with the hosts, he said, verily God will prove you with a river: then whosoever drinketh thereof shall be none of mine, and whosoever tasteth it not, verily shall be mine, excepting him who ladeth a lading with his hand. But they drank thereof, save a few of them. Then when he had crossed it, he,and those who believe with him, they said: We have no strength to-day against Jalut and his hosts. But those who imagined that they were going to meet Allah Said how oft hath a small party prevailed against a large party by God's leave! And Allah is with the patiently persevering.

And when Saul went forth with the hosts, from the Holy House [sc. Jerusalem], the heat was intense and so they asked him for water; he said, ‘God will try, test, you, in order to distinguish the obedient among you from the disobedient, with a river, between Jordan and Palestine, whoever drinks of it, of its water, is not of me, is not of my followers, and whoever tastes it not, he is of me, except for him who scoops up with his hand’ (ghurfa, or gharfa, ‘a scoop’), satisfying himself therewith and not taking more, he is also of my followers. But they drank of it, when they reached it and saw that it was abundant, except a few of them, who restricted themselves to a scoop: it is reported that one scoop was enough for each man and his horse, and they numbered over three hundred; and when he crossed it, with those who believed, the ones who confined themselves to the one scoop, they, the ones that drank profusely, said, ‘We have no power today against Goliath and his troops’, that is, [no power] to fight them, and they were cowardly and did not cross it. Those who thought, with certainty that, they would meet God, at the Resurrection, and these were the ones that crossed it, said, ‘How often (kam, ‘how’, functions as a predicate, meaning kathīr, ‘many’) a little company, group of men, has overcome a numerous one, by God’s leave, by His will; and God is with the patient’, [providing them] with help and assistance.
_______________________________________________________

 لا يَتَّخِذِ المُؤمِنونَ الكٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ ۖ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ فَلَيسَ مِنَ اللَّهِ فى شَيءٍ إِلّا أَن تَتَّقوا مِنهُم تُقىٰةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ المَصيرُ {3:28}

 نہ بناویں مسلمان کافروں کو دوست مسلمانوں کو چھوڑ کر اور جو کوئی یہ کام کرے تو نہیں اس کو اللہ سے کوئی تعلق مگر اس حالت میں کہ کرنا چاہو تم ان سے بچاؤ [۴۲] اور اللہ تم کو ڈراتا ہے اپنے سے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے [۴۳]

[۴۲] کفار سے مسلمانوں کی دوستی کی مذمت:
یعنی جب حکومت و سلطنت، جاہ و عزت، اور ہر قسم کے تقلبات و تصرفات کی زمام اکیلے خداوند قدوس کے ہاتھ میں ہوئی تو مسلمانوں کو جو صحیح معنی میں اس پر یقین رکھتے ہیں، شایاں نہیں کہ اپنے اسلامی بھائیوں کی اخوۃ و دوستی پر اکتفا نہ کر کے خواہ مخواہ دشمنان خدا کی موالاۃ و مدارات کی طرف قدم بڑھائیں خدا اور رسول کے دشمن ان کے دوست کبھی نہیں بن سکتے۔ جو اس خبط میں پڑے گا سمجھ لو کہ خدا کی محبت و موالات سے اسے کچھ سروکار نہیں۔ ایک مسلمان کی سب امیدیں اور خوف صرف خداوند رب العزت سے وابستہ ہونے چاہئیں۔ اور اس کے اعتماد و وثوق اور محبت و مناصرت کے مستحق وہ ہی لوگ ہیں جو حق تعالیٰ سے اسی قسم کا تعلق رکھتے ہوں۔ ہاں تدبیر و انتظام کے درجہ میں کفار کے ضرر عظیم سے اپنے ضروی بچاؤ کے پہلو اور حفاظت کی صورتیں معقول و مشروع طریقہ پر اختیار کرنا، ترک موالات کے حکم سے اسی طرح مستثنٰی ہیں جیسے سورۂ انفال میں وَ مَنۡ یُّوَلِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ دُبُرَہٗۤ (الانفال۔۲۶) سے مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ کو مستثنٰی کیا گیا ہے۔ جس طرح وہاں تحرف و تحیز کی حالت میں حقیقۃً فرار من الزحف نہیں ہوتا، محض صورۃً ہوتا ہے، یہاں بھی اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً کو حقیقت موالات نہیں، فقط صورت موالات سمجھنا چاہئیے۔ جس کو ہم مدارات کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل سورۂ مائدہ کی آیت یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ (المائدۃ۔۵۱) الخ کے فوائد میں ملاحظہ کر لی جائے۔ اور بندہ کا مستقل رسالہ بھی اس موضوع پر چھپا ہوا ہے جو حضرت الاستاذ (مترجم محقق) قدس اللہ روحہٗ کی ایما پر لکھا گیا تھا۔ فلیر اجع۔

[۴۳]یعنی مومن کے دل میں اصلی ڈر خدا کا ہونا چاہئیے۔ کوئی ایسی بات نہ کرے جو اس کی ناراضی کا سبب ہو، مثلًا جماعت اسلام سے تجاوز کر کے بےضرورت کفار کے ساتھ ظاہری یا باطنی موالات کرے یا ضرورت کے وقت صورت اختیالات اختیار کرنے میں حدود شرع سے گذر جائے۔ یا محض موہوم و حقیر خطرات کو یقینی اور اہم خطرات ثابت کرنے لگے اور اسی قسم کی مستثنیات یا شرعی رخصتوں کو ہوائے نفس کہ پیروی کا حیلہ بنالے۔ اسے یاد رکھنا چاہئیے کہ سب کو خداوند قدوس کی عدالت عالیہ میں حاضر ہونا ہے وہاں جھوٹے حیلے حوالے کچھ پیش نہ جائیں گے۔ مومن قوی کی شان تو یہ ہونی چاہئیے کہ رخصت سے گذر کر عزیمت پر عمل پیرا ہو۔ اور مخلوق سے زیادہ خالق سے خوف کھائے۔

Let not the believers take unto themselves the infidels as friends, beside the believers: and whosoever doth that, then he is not in respect of Allah in aught, unless indeed ye fear from them a danger. And Allah maketh ye beware of Himself; and unto Allah is the last wending. 


Let not the believers take the disbelievers as patrons, rather than, that is, instead of, the believers — for whoever does that, that is, [whoever] takes them as patrons, does not belong to, the religion of, God in anyway — unless you protect yourselves against them, as a safeguard (tuqātan, ‘as a safeguard’, is the verbal noun from taqiyyatan), that is to say, [unless] you fear something, in which case you may show patronage to them through words, but not in your hearts: this was before the hegemony of Islam and [the dispensation] applies to any individual residing in a land with no say in it. God warns you, He instills fear in you, of His Self, [warning] that He may be wrathful with you if you take them as patrons; and to God is the journey’s end, the return, and He will requite you.


No comments:

Post a Comment