Wednesday, 25 April 2012

Brain-Washing By Our Creator ALLAH


القرآن : أَم حَسِبتُم أَن تَدخُلُوا الجَنَّةَ وَلَمّا يَأتِكُم مَثَلُ الَّذينَ خَلَوا مِن قَبلِكُم ۖ مَسَّتهُمُ البَأساءُ وَالضَّرّاءُ وَزُلزِلوا حَتّىٰ يَقولَ الرَّسولُ وَالَّذينَ ءامَنوا مَعَهُ مَتىٰ نَصرُ اللَّهِ ۗ أَلا إِنَّ نَصرَ اللَّهِ قَريبٌ {2:214}

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعوبتوں میں) ہلا ہلا دیئے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب خدا کی مدد آئے گی ۔ دیکھو خدا کی مدد (عن) قریب (آيا چاہتی) ہے


تفسیر: پہلے مذکور ہوا کہ دشمنوں کے ہاتھ سے انبیاء اور ان کی امتوں کو ہمیشہ ایذائیں ہوئیں تو اب اہل اسلام کو ارشاد ہے کہ کیا تم کو اس بات کی طمع ہے کہ جنت میں داخل ہو جاؤ حالانکہ اگلی امتوں کو جو ایذائیں پیش آئیں وہ تم کو پیش نہیں آئیں کہ ان کو فقروفاقہ اور مرض اور خوف کفار اس درجہ کو پیش آئے کہ مجبور اور عاجز ہو کر نبی اور ان کی امت بول اٹھی کہ دیکھئے اللہ نے جس مدد اور اعانت کا وعدہ فرمایا تھا وہ کب آئے گی یعنی بمقتضائے بشریت پریشانی کی حالت میں مایوسانہ کلمات سرزد ہونے لگے ۔ انبیاء اور مومنین کا یہ کہنا کچھ شک کی وجہ سے نہ تھا حضرت مولانا اسی کی بابت مثنوی میں فرماتے ہیں ؎ درگماں اُفتاوجان انبیاء زاتفاق منکری اشقیاء۔ بلکہ بحالت اضطرار بقتضائے بشریت اس کی نوبت آئی جس میں کوئی ان پر الزام نہیں جب نوبت یہاں تک پہنچی تو رحمت الہٰی متوجہ ہوئی اور ارشاد ہوا کہ ہو شیار ہو جاؤ اللہ کی مدد آ گئ گبھراؤ نہیں سو اے مسلمانو تکالیف دنیوی سے اور دشمنوں کے غلبہ سے گھبراؤ نہیں تحمل کرو اور ثابت قدم رہو۔



Deem ye that ye will enter the Garden while ye hath not come upon you the like of that which came upon those who have passed away before you There touched them adversity and distress, and shaken were they, until the apostle and those who believed with him said; when cometh the succour of Allah! Lo! verily Allah's succour is nigh.

The following was revealed after the Muslims suffered a trying experience: Or did you suppose that you should enter Paradise without there having come upon you the like of, what came upon, those, believers, who passed away before you?, of trials, so that you may endure as they did; a new sentence begins here, explaining the previous one: They were afflicted by misery, extreme poverty, and hardship, illness, and were so convulsed, by all types of tribulations, that the Messenger and those who believed with him said (read yaqūla or yaqūlu), not expecting to see any help, on account of the extreme hardship afflicting them, ‘When will God’s help come?’, [the help] which we were promised; and God responded to them: Ah, but surely God’s help is nigh, in coming.
==============================================

القرآن : لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَطيعونَ ضَربًا فِى الأَرضِ يَحسَبُهُمُ الجاهِلُ أَغنِياءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعرِفُهُم بِسيمٰهُم لا يَسـَٔلونَ النّاسَ إِلحافًا ۗ وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليمٌ {2:273}

خیرات ان فقیروں کے لئے ہے جو رکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں چل پھر نہیں سکتے ملک میں سمجھے ان کو ناواقف مالدار ان کے سوال نہ کرنے سے تو پہچانتا ہے ان کو انکے چہرہ سے نہیں سوال کرتے لوگوں سے لپٹ کر [۴۴۱] اور جو کچھ خرچ کرو گے کام کی چیز وہ بیشک اللہ کو معلوم ہے [۴۴۲]

[441] یعنی ایسوں کو دینا بڑا ثواب ہے جو اللہ کی راہ اور اس کے دین کے کام میں مقید ہو کر چلنے پھرنے کھانے کمانے سے رک رہے ہیں اور کسی پر اپنی حاجت ظاہر نہیں کرتے جیسے حضرت ﷺ کے اصحاب تھے اہل صفہ نے گھر بار چھوڑ کر حضرت ﷺ کی صحبت اختیار کی تھی علم دین سیکھنے کو اور مفسدین فتنہ پر جہاد کرنے کو اسی طرح اب بھی جو کوئی قرآن کو حفظ کرے یا علم دین میں مشغول ہو تو لوگوں پر لازم ہے کہ ان کی مدد کریں اور چہرہ سے ان کو پہچاننا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے چہرے زرد اور بدن دبلے ہو رہے ہیں اور آثار جدوجہد ان کی صورت سے نمودار ہیں۔
[442] علی العموم اور خاص کر ایسے لوگوں پر جن کا ذکر ہوا۔


Alms are for the poor who are restricted in the way of Allah, disabled from going about in the land. The (unknowing taketh them for the affluent because of their modesty thou I wouldst recognise them by their appearance: they ask not of men with importunity. And whatsoever ye shall expend of good, verily Allah is thereof Knower 
For the poor (this is the predicate of the missing subject, al-sadaqāt, ‘voluntary almsgiving’), who are constrained in the way of God, those who have confined themselves [in preparation] for the struggle: this was revealed concerning the people of Suffa, consisting in some four hundred of the Emigrants (muhājirūn), set apart [from the other Muslims] for the study of the Qur’ān and to take part in raids; and they are unable to journey (darban, means safaran) in the land, to engage in commerce and earn their living, since they are fully engaged in the struggle; the ignorant man supposes them, on account of the way they behave, rich because of their abstinence, that is, their refraining from asking for things; but you, the one being addressed, shall know them by their mark, by the signs of their humility and exertion; they do not beg of men, and make urgent demands, importunately, that is to say, they do not beg in the first place, so there is no question of persistence. And whatever good you expend, surely God has knowledge of it, and will requite it accordingly.
==============================================
القرآن : أَم حَسِبتُم أَن تَدخُلُوا الجَنَّةَ وَلَمّا يَعلَمِ اللَّهُ الَّذينَ جٰهَدوا مِنكُم وَيَعلَمَ الصّٰبِرينَ {3:142}

 کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (بےآزمائش) بہشت میں جا داخل ہو گے حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں اور (یہ بھی مقصود ہے) کہ وہ ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم کرے


تفسیر: یعنی جنت کےجن اعلیٰ مقامات اور بلند درجات پر خدا تم کو پہنچانا چاہتا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ بس یونہی آرام سے وہاں جا پہنچیں گے اور خدا تمہارا امتحان لے کر یہ نہ دیکھے گا کہ تم میں کتنے خدا کی راہ میں لڑنے والے اور کتنے لڑائی کے وقت ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ ایسا خیال نہ کرنا۔ مقامات عالیہ پر وہ ہی لوگ فائز کئے جاتے ہیں جو خدا کے راستہ میں ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں ؂ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ۔ ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں۔


 Or, deem ye that ye shall enter the Garden while yet Allah hath not known those of you who have striven hard nor yet known the steadfast! 

Or, nay, did you suppose you should enter Paradise without God knowing, through knowledge manifested outwardly, who among you have struggled and who are patient, in [times of] hardship?
==============================================
القرآن : وَلا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا فى سَبيلِ اللَّهِ أَموٰتًا ۚ بَل أَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ {3:169}

 جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے


 And reckon not thou those slain in the way of Allah to be dead. Nay, they are alive, and with their Lord, and provided for.

The following was revealed regarding martyrs: Count not those who were slain (read qutilū or quttilū) in God’s way, that is, for the sake of His religion, as dead, but rather, that they are, living with their Lord, their spirits inside green birds that take wing freely wherever they wish in Paradise, as reported in a hadīth); provided for [by Him], with the fruits of Paradise.
==============================================

القرآن : وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ كَفَروا أَنَّما نُملى لَهُم خَيرٌ لِأَنفُسِهِم ۚ إِنَّما نُملى لَهُم لِيَزدادوا إِثمًا ۚ وَلَهُم عَذابٌ مُهينٌ {3:178}

اور یہ نہ سمجھیں کافر کہ ہم جو مہلت دیتے ہیں ان کو کچھ بھلا ہے ان کے حق میں ہم تو مہلت دیتے ہیں ان کو تاکہ ترقی کریں وہ گناہ میں اور ان کے لئے عذاب ہے خوار کرنے والا [۲۶۹]
یعنی ممکن ہے کافروں کو اپنی لمبی عمریں، خوشحالی اور دولت و ثروت وغیرہ کی فراوانی دیکھ کر خیال گزرے کہ ایسے مغضوب و مطرود ہوتے تو ہم کو اتنی فراخی اور مہلت کیوں دی جاتی اور ایسی بھلی حالت میں کیوں رکھے جاتے؟ سو واضح رہے کہ یہ مہلت دینا ان کے حق میں کچھ بھلی بات نہیں، مہلت دینے کا نتیجہ تو یہ ہی ہو گا کہ جن کو گناہ سمیٹ کر کفر پر مرنا ہے وہ اپنے اختیار اور آزادی سے خوب جی بھر کر ارمان نکال لیں اور گناہوں کا ذخیرہ فراہم کر لیں وہ سمجھتے رہیں کہ ہم بڑی عزت سے ہیں حالانکہ ذلیل و خوار کرنے والا عذاب ان کے لئے تیار ہے اب سوچ لیں کہ مہلت دینا ان جیسوں کے حق میں بھلا ہوا یا برا۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا۔


And let not those who disbelieve deem that We respite them for their good: We respite them only that they may increase in sin; and theirs shall be a torment ignominious.
And let not the disbelievers suppose (read lā yahsabanna, ‘let them not suppose’, or lā tahsabanna, ‘do not suppose’) that what We indulge them in, that is, [that] Our indulging [them], in extending their [terms of] life and deferring them [their death], is better for their souls (in the case of the reading yahsabanna, ‘let them [not] suppose’, anna [of anna-mā] and its two operators stand in place of the two objects, but only in place of the second in the case of the other reading [tahsabanna], ‘do [not] suppose’). We grant them indulgence, We give [them] respite, only that they may increase in sinfulness, through frequent disobedience, and theirs is a humbling chastisement, one of humiliation, in the Hereafter.
================================================  
وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ يَبخَلونَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ هُوَ خَيرًا لَهُم ۖ بَل هُوَ شَرٌّ لَهُم ۖ سَيُطَوَّقونَ ما بَخِلوا بِهِ يَومَ القِيٰمَةِ ۗ وَلِلَّهِ ميرٰثُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۗ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ {3:180}

 جو لوگ مال میں جو خدا نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمایا ہے بخل کرتے ہیں وہ اس بخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں۔ (وہ اچھا نہیں) بلکہ ان کے لئے برا ہے وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔ اور آسمانوں اور زمین کا وارث خدا ہی ہے۔ اور جو عمل تم کرتے ہوخدا کو معلوم ہے


بخیل کا مال قیامت میں اس کے گلے کا طوق ہو گا:
ابتدائے سورت کا بڑا حصہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سے متعلق تھا۔ درمیان میں خاص مناسبات وجوہ کی بنا پر غزوہ احد کی تفصیلات آ گئیں۔ انہیں بقدر کفایت تمام کر کے یہاں سے پھر اہل کتاب کی شنائع بیان کی جاتی ہیں۔ چونکہ ان میں سے یہود کا معاملہ بہت مضرت رساں اور تکلیف دہ تھا، منافقین بھی اکثر ان ہی میں کے تھے اور اوپر کی آیت میں آگاہ کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ اب خبیث کو طیب سے جدا کر کے رہے گا سو یہ جدائی جس طرح جانی و بدنی جہاد کے وقت ظاہر ہوتی تھی اسی طرح مالی جہاد کے وقت بھی کھرا کھوٹا اور کچا پکا صاف طور پر الگ ہو جاتا تھا۔ اس لئے بتلادیا کہ یہود منافقین جیسے جہاد کے موقع سے بھاگے ہیں، مال خرچ کرنے سے بھی جی چراتے ہیں لیکن جس طرح جہاد سے بچ کر دنیا میں چند روز کی مہلت حاصل کر لینا ان کے حق میں کچھ بہتر نہیں ایسے ہی بخل کر کے بہت مال اکھٹا کر لینا بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اگر دنیا میں فرض کر و کوئی مصیبت پیش نہ بھی آئی تو قیامت کے دن یقینًا یہ جمع کیا ہوا مال عذاب کی صورت میں ان کے گلے کا ہار بن کر رہے گا۔ اس میں مسلمانوں کو بھی کھٹکھٹا دیا کہ زکوٰۃ دینے اور ضروری مصارف میں خرچ کرنے سے کبھی جی نہ چرائیں، ورنہ جو شخص بخل و حرص وغیرہ رذیل خصلتوں میں یہود منافقین کی روش اختیار کرے گا، اسے بھی اپنے درجہ کے موافق اسی طرح کی سزا کا منتظر رہنا چاہئے۔ چنانچہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مانعین زکوٰۃ کا مال سخت زہریلے اژدہے کی صورت میں متمثل کر کے ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ نعوذ باللہ منہ۔
[۲۷۳]یعنی آخر تم مر جاؤ گے اور سب مال اسی کا ہو رہے گا جس کا حقیقت میں پہلے سے تھا انسان اپنے اختیار سے دے تو ثواب پائے۔
[۲۷۴]یعنی بخل یا سخاوت جو کچھ کرو گے اور جیسی نیت سے کرو گے خدا تعالیٰ سب کی خبر رکھتا ہے اسی کے موافق بدلہ دے گا۔


And let not those who stint with that which Allah hath vouchsafed them in His grace deem that this is good for them: nay! it is bad for them; anon shall that wherewith they stint be hung round their necks on the Day of Judgement. And Allah's is the heritage of the heavens and the earth; and Allah is of that which ye work Aware.
Let them not suppose (read lā yahsabanna, ‘let them not suppose’, or lā tahsabanna, ‘do not suppose’) those who are niggardly with what God has given them of His bounty, that is, with His obligatory almsgiving, that it, their niggardliness, is better for them (khayrun lahum, is the second direct object; the pronoun [huwa, ‘[that] it is’] is used to separate [the two statements]; the first [direct object] is bukhlahum ‘their niggardliness’ implicit before the relative clause [alladhīna] in the case of the reading tahsabanna [sc. wa-lā tahsabanna bukhlahum, ‘do not suppose their niggardliness…’], or before the pronoun [huwa, ‘it is’] in the case of the reading yahsabanna [sc. wa-lā yahsabanna lladhīna…bukhlahum huwa khayran lahum, ‘let them not suppose, those who…that their niggardliness is better for them’]); nay, it is worse for them; what they were niggardly with, namely, the obligatory almsgiving of their wealth, they shall have hung around their necks on the Day of Resurrection, when he will have a snake around his neck biting viciously at him, as reported in a hadīth; and to God belongs the inheritance of the heavens and the earth, inheriting them after the annihilation of their inhabitants. And God is aware of what you do (ta‘malūna, also read ya‘malūna, ‘they do’), and will requite you for it.
=============================================
لا تَحسَبَنَّ الَّذينَ يَفرَحونَ بِما أَتَوا وَيُحِبّونَ أَن يُحمَدوا بِما لَم يَفعَلوا فَلا تَحسَبَنَّهُم بِمَفازَةٍ مِنَ العَذابِ ۖ وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ {3:188}

جو لوگ اپنے (ناپسند) کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور پسندیدہ کام) جو کرتے نہیں ان کے لئے چاہتے ہیں کہ ان ک تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے رستگار ہوجائیں گے۔ اور انہیں درد دینے والا عذاب ہوگا


تفسیر: یہود مسئلے غلط بتاتے، رشوتیں کھاتے اور پیغمبر ﷺ کی صفات و بشارات جان بوجھ کر چھپاتے تھے پھر خوش ہوتے کہ ہماری چالاکیوں کو کوئی پکڑ نہیں سکتا اور امید رکھتے کہ لوگ ہماری تعریف کریں کہ بڑے عالم اور دیندار حق پرست ہیں دوسری طرف منافقین کا حال بھی ان کے مشابہ تھا۔ جب جہاد کا موقع آتا گھر میں چھپ کر بیٹھ رہتے اور اپنی اس حرکت سے خوش ہوتے کہ دیکھو کیسے جان بچائی۔ جب حضور ﷺ جہاد سے واپس تشریف لاتے تو غیر حاضری کے جھوٹے عذر پیش کر کے چاہتے کہ آپ سے اپنی تعریف کرائیں۔ ان سب کو بتلا دیا گیا کہ یہ باتیں دنیا و آخرت میں خدا کے عذاب سے چھڑا نہیں سکتیں۔ اول تو ایسے لوگ دنیا ہی میں فضیحت ہوتے ہیں اور کسی وجہ سے یہاں بچ گئے تو وہاں کسی تدبیر سے نہیں چھوٹ سکتے۔ (تنبیہ) آیت میں گو تذکرہ یہود یا منافقین کا ہے لیکن مسلمانوں کو بھی سنانا ہے کہ برا کام کر کے خوش نہ ہوں، بھلا کر کے اترائیں نہیں اور جو کچھ اچھا کام کیا نہیں اس پر تعریف کے امیدوار نہ رہیں ۔ بلکہ کرنے کے بعد بھی مدح سرائی کی ہوس نہ رکھیں۔


Bethink not thou that those who exult in that which they have brought and love to De praised for that which they have not done, - bethink not thou that they shall be in security from the torment! And theirs shall be a torment afflictive.
Do not reckon that (lā tahsabanna, or read lā yahsabanna, ‘let them not reckon’) those who rejoice in what they have brought, that is, [in what] they have done by leading people astray, and who love to be praised for what they have not done, in the way of adherence to the truth, being [themselves] misguided — do not reckon them (fa-lā tahsabannahum, is for emphasis [in the case of both readings above]) secure, in a place where they can escape, from the chastisement, in the Hereafter; but instead they shall be in a place of wherein they shall be tortured, and that is Hell; there shall be a painful chastisement for them, in it (alīm means mu’lim, ‘painful’). (If one reads yahsabanna, ‘let them [not] reckon’, the two direct objects of the first h-s-b verb would be indicated by the two direct objects of the second h-s-b verb; but if one reads tahsabanna, ‘do [not] reckon’, then only second direct object would be omitted).
===============================================
وَحَسِبوا أَلّا تَكونَ فِتنَةٌ فَعَموا وَصَمّوا ثُمَّ تابَ اللَّهُ عَلَيهِم ثُمَّ عَموا وَصَمّوا كَثيرٌ مِنهُم ۚ وَاللَّهُ بَصيرٌ بِما يَعمَلونَ {5:71}

 اور خیال کرتے تھے کہ (اس سے ان پر) کوئی آفت نہیں آنے کی تو وہ اندھے اور بہرے ہو گئے پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی (لیکن) پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہو گئے اور خدا ان کے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے



تفسیر: یعنی پختہ عہد وپیمان توڑ کر خدا سے غداری کی اس کےسفراء میں سے کسی کو جھٹلایا کسی کو قتل کیا۔ یہ تو ان کے ایمان باللہ اور عمل صالح کا حال تھا۔ ایمان بالیوم الآخر کا اندازہ اس سے کر لو کہ اس قدر شدید مظالم اور باغیانہ جرائم کا ارتکاب کر کے بالکل بےفکر ہو بیٹھے۔ گویا ان حرکات کا کوئی خمیازہ بھگتنا نہیں پڑے گا اور ظلم و بغاوت کے خراب نتائج کبھی سامنے نہ آئیں گے۔ یہ خیال کر کے خدائی نشانات اور خدائی کلام کی طرف سے بالکل ہی اندھے اور بہرے ہو گئے اور جو ناکردنی کام تھے وہ کئے حتیٰ کی بعض انبیاء کو قتل اور بعض کو قید کیا۔ آخر خدا تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط فرمایا۔ پھر ایک مدت دراز کے بعد بعض ملوک فارس نے بخت نصر کی قید ذلت و رسوائی سےچھڑا کر بابل سے بیت المقدس کو واپس کیا اس وقت ان لوگوں نے توبہ کی اور اصلاح حال کی طرف متوجہ ہوئے۔ خدا نے توبہ قبول کی۔ لکین کچھ زمانہ کے بعد پھر وہی شرارتیں سوجھیں اور بالکل اندھے بہرے ہو کر حضرت زکریاؑ اور حضرت یحیٰیؑ کے قتل کی جرات کی اور حضرت عیسٰیؑ کے قتل پر تیار ہو گئے ۔
 یعنی وہ اگرچہ خدا کے غضب و قہر کی طرف سےاندھے ہو گئے ہیں لیکن خدا ان کی تمام حرکات کو برابر دیکھتا رہا ہے چنانچہ ان حرکات کی سزا اب امت محمدیہ کے ہاتھوں سے دلوا رہا ہے۔


 And they imagined that there would be no trial; so they blinded and deafened themselves. Thereafter Allah relented toward them, then they again blinded and deafened themselves. And Allah is Beholder of that which they Work.
And they thought, they presumed that, there would be no (read as an lā takūnu, where an has been softened; or read an lā takūna, where it [an] requires a [following] subjunctive, that is to say, ‘that there would [not] befall [them]’) trial, a punishment against them, for their denial of the messengers and their slaying of them; and so they were wilfully blind, to the truth and could not see it, and deaf, [unable] to hear it. Then God relented to them, when they repented, then they were wilfully blind and deaf, a second time, many of them (kathīrun minhum substitutes for the [third] person [‘they’]); and God sees what they do, and will requite them for it.
=========================================
وَإِذا قيلَ لَهُم تَعالَوا إِلىٰ ما أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسولِ قالوا حَسبُنا ما وَجَدنا عَلَيهِ ءاباءَنا ۚ أَوَلَو كانَ ءاباؤُهُم لا يَعلَمونَ شَيـًٔا وَلا يَهتَدونَ {5:104}

اور جب کہا جاتا ہے ان کو آؤ اسکی طرف جو کہ اللہ نے نازل کیا اور رسول کی طرف تو کہتے ہیں ہم کو کافی ہے وہ جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو بھلا اگر انکے باپ دادے نہ کچھ علم رکھتے ہوں اور نہ راہ جانتے ہوں تو بھی ایسا ہی کریں گے [۲۴۵]


جاہلوں کی سب سے بڑی حجت یہ ہی ہوتی ہے کہ جو کام باپ دادا سے ہوتا آیا ہے اس کا خلاف کیسے کریں۔ ان کو بتلایا گیا کہ اگر تمہارےاسلاف بےعقلی یا بےراہی سےقعر ہلاکت میں جا گرے ہوں تو کیا پھر بھی تم ان ہی کی راہ چلو گے؟ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "باپ کا حال معلوم ہو کہ حق کا تابع اور صاحب علم تھا تو اس کی راہ پکڑے نہیں تو عبث ہے"۔ یعنی کیف ما اتفق ہر کسی کی کورانہ تقلید جائز نہیں۔


And when it is said unto them: come to that which Allah hath sent down and to the apostle, they say: enough for us is that whereon we found our fathers. What! even though their fathers knew not aught nor were guided.
And when it is said to them, ‘Come to what God has revealed and to the Messenger’, that is, to His ruling concerning the permitting of what you have forbidden, they say, ‘What we have found our fathers following suffices us’, in the way of religion and laws. God, exalted be He, says: What, does that suffice them, even if their fathers knew nothing and were not guided?, to any truth (the interrogative is meant as a disavowal).
========================================
وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ كَفَروا سَبَقوا ۚ إِنَّهُم لا يُعجِزونَ {8:59}

اور یہ نہ سمجھیں کافر لوگ کہ وہ بھاگ نکلے وہ ہرگز تھکا نہ سکیں گے ہم کو [۶۵]
نبذ عہد کا جو حکم اوپر مذکور ہوا ممکن تھا کہ کفار اس کو مسلمانوں کی سادہ لوحی پر حمل کر کے خوش ہوتے کہ جب ان کے یہاں خیانت و غدر جائز نہیں تو ہم کو خبردار اور بیدار ہونے کے بعد پورا موقع اپنے بچاؤ اور مسلمانوں کے خلاف تیاری کرنے کا ملے۔ اس کا جواب دے دیا کہ کتنی ہی تیاری اور انتظامات کر لو۔ جب مسلمانوں کے ہاتھوں خدا تم کو مغلوب و رسوا کرنا اور دنیا یا آخرت میں سزا دینا چاہے گا تو تم کسی تدبیر سے اس کو عاجز نہ کر سکو گے۔ نہ اس کے احاطہ قدرت و تسلط سےنکل کر بھاگ سکو گے۔ گویا مسلمانوں کی تسلی کر دی کہ وہ خدا پر بھروسہ کر کے اس کے احکام کا امتثال کریں تو سب پر غالب آئیں گے۔
Let not those who disbelieve deem that they have escaped, verily they cannot frustrate.
The following was revealed regarding those who escaped capture on the day of Badr: And do not, O Muhammad (s), let those who disbelieve suppose that they have outstripped, God, that is, [that] they have eluded Him: indeed they cannot escape, they cannot elude Him (a variant reading has wa-lā yahsabanna, ‘and do not let them suppose’, so that the first direct object is omitted, actually being [an implied] anfusahum, ‘themselves’ [sc. ‘and do not let them suppose themselves to have outstripped’]; and according to another [variant reading] anna is read [instead of inna] with an implicit lām [sc. ‘because they cannot escape’]).
=========================================
الله کا مومنوں پر منافقوں کو ظاہر کرنے کا معیار:
أَم حَسِبتُم أَن تُترَكوا وَلَمّا يَعلَمِ اللَّهُ الَّذينَ جٰهَدوا مِنكُم وَلَم يَتَّخِذوا مِن دونِ اللَّهِ وَلا رَسولِهِ وَلَا المُؤمِنينَ وَليجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبيرٌ بِما تَعمَلونَ {9:16}
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ چھوٹ جاؤ گے اور حالانکہ ابھی معلوم نہیں کیا اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے جہاد کیا ہے اور نہیں پکڑا انہوں نے سوا اللہ کے اور اسکے رسول کے اور مسلمانوں کے کسی کو بھیدی اور اللہ کو خبر ہے جو تم کر رہے ہو [۱۶]
مشروعیت جہاد کی یہاں ایک اور حکمت بیان فرمائی ۔ یعنی ایمان اور بندگی کے زبانی دعوے کرنے والے تو بہت ہیں لیکن امتحان کی کسوٹی پر جب تک کسا نہ جائے کھرا اور کھوٹا ظاہر نہیں ہوتا ۔ جہاد کے ذریعہ سے خدا دیکھنا چاہتا ہے کہ کتنے مسلمان ہیں جو اس کی راہ میں جان و مال نثار کرنے کو تیار ہیں اور خدا اور رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا رازدار یا خصوصی دوست بنانا نہیں چاہتے خواہ وہ ان کا کتنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو۔ یہ معیار ہے جس پر مومنین کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ جب تک عملی جہاد نہ ہو صرف زبانی جمع خرچ سے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ پھر عمل بھی جو کچھ کیا جائے اس کی خبر خدا کو ہے کہ صدق و اخلاص سے کیا یا نمود و ریا سے جیسا عمل ہو گا ادھر سے اسی کے موافق پھل ملے گا۔
Deem ye that ye would be left alone while yet Allah hath not known those of you who have striven hard and have not taken an ally besides Allah and His apostle and the believers? And Allah is Aware of that which ye work.
Or (am has the meaning of the [initial a-] hamza used to express disavowal) did you suppose that you would be left [in peace] when God does not yet know, that is, through knowledge outwardly manifested, those of you who have struggled, sincerely, and have not taken, besides God and His Messenger and the believers, an intimate friend?, as a confidant or an ally? In other words: when it has not yet become manifest who the sincere ones are — those described in the exclusive way mentioned. And God is aware of what you do.
=========================================
وَلا تَحسَبَنَّ اللَّهَ غٰفِلًا عَمّا يَعمَلُ الظّٰلِمونَ ۚ إِنَّما يُؤَخِّرُهُم لِيَومٍ تَشخَصُ فيهِ الأَبصٰرُ {14:42}

اور ہرگز مت خیال کر کہ اللہ بیخبر ہے ان کاموں سے جو کرتے ہیں بے انصاف [۷۲] ان کو تو ڈھیل دے رکھی ہے (چھوڑ رکھا ہے) اس دن کے لئے کہ پتھرا جائیں گی (کھلی رہ جائیں گی) آنکھیں [۷۳]
یعنی قیامت کے دل ہول اور دہشت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
ایک رکوع پہلے بہت سے نعمائے عظیمہ کا ذکر کر کے فرمایا تھا ۔ { اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفّار } (انسان بڑا ظالم اور نا شکر گذار ہے) بعدہٗ حضرت ابراہیمؑ کا قصہ سنا کر کفار مکہ کو بعض خصوصی نعمتیں یاد دلائیں۔ اور ان کے ظلم و شرک کی طرف اشارہ کیا۔ کفار کے اعمال سے اللہ غافل نہیں ہے: اس رکوع میں متنبہ فرماتےہیں کہ اگر ظالموں کو سزا ملنے میں کچھ دیر ہو تو یہ مت سمجھو کہ خدا ان کی حرکات سے بے خبر ہے ، یاد رکھو ان کا کوئی چھوٹا بڑا کام خدا سے پوشیدہ نہیں۔ البتہ اس کی عادت نہیں ہے کہ مجرم کو فورًا پکڑ کر تباہ کر دے وہ بڑے سے بڑے ظالم کو مہلت دیتا ہے کہ یا اپنے جرائم سے باز آ جائے یا ارتکاب جرائم میں اس حد پر پہنچ جائے کہ قانونی حیثیت سے اس کے مستحق سزا ہونے میں کسی طرح کا خِفا باقی نہ رہے۔ (تنبیہ) { لَا تَحْسَبَنَّ } کا خطاب ہر اس شخص کو ہے جسے ایسا خیال گذر سکتا ہو ، اور اگر حضور ﷺ کو خطاب ہے تو آپ کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہو گا۔ کہ جب حضور ﷺ کو فرمایا کہ ایسا خیال مت کرو۔ حالانکہ ایسا خیال آپ کے قریب بھی نہ آسکتا تھا۔ تو دوسروں کے حق میں اس طرح کا خیال کس قدر واجب الاحتراز ہونا چاہئے۔
And deem not Allah negligent of that which the wrong-doers work: He only deferreth them to a Day whereon the sighthall remain staring.
And do not suppose that God is heedless of what the evildoers, the disbelievers from among the people of Mecca, do. He but gives them respite, without chastisement, until a day when eyes shall stare wide-open, because of the terror of what they see (one says shakhasa basaru fulān to mean ‘he opened them [his eyes] and did not shut them’);
=========================================
فَلا تَحسَبَنَّ اللَّهَ مُخلِفَ وَعدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ ذُو انتِقامٍ {14:47}

سو خیال مت کر کہ اللہ خلاف کرے گا اپنا وعدہ اپنے رسولوں سے [۸۱] بیشک اللہ زبردست ہے بدلہ لینے والا [۸۲]
یعنی وہ وعدہ جو { اِنَّالَنَنصُرُ رُسُلَنَا } اور { کَتَبَ اللہُ لَا غْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ } وغیرہ آیات میں کیا گیا ہے۔
نہ مجرم اس سے چھوٹ کر بھاگ سکتا ہے نہ وہ خود ایسے مجرموں کو سزا دیے بدون چھوڑ سکتا ہے۔
So deem not thouthat Allah is going to fail His promise to His apostles; verily Allah is Mighty, Lord of vengeance
So do not suppose that God will fail [to keep] His promise, of victory, to His messengers. Truly God is Mighty, Victor, nothing able to escape Him, Lord of Retribution, against those who disobey Him.
=========================================
أَم حَسِبتَ أَنَّ أَصحٰبَ الكَهفِ وَالرَّقيمِ كانوا مِن ءايٰتِنا عَجَبًا {18:9}

کیا تو خیال کرتا ہے کہ غار اور کھوہ کے رہنے والے ہماری قدرتوں میں عجب اچنبھا تھے [۹]


یعنی حق تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کے لحاظ سے اصحاب کہف کا قصہ جو آگے مذکور ہے کوئی اچنھبا نہیں جسے حد سے زیادہ عجیب سمجھا جائے۔ زمین آسمان ، چاند سورج وغیرہ کا پیدا کرنا ، ان کا محکم نظام قائم رکھنا انسان ضعیف البنیان کو سب پر فضیلت دینا ، انسانوں میں انبیاء کا بھیجنا ، ان کی قلیل و بے سرو سامان جماعتوں کو بڑے بڑے متکبرین کے مقابلہ میں کامیاب بنانا ، خاتم الانبیاء اور رفیق غار حضرت ابوبکر صدیقؓ کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال کر "غار ثور" میں تین روز ٹھہرانا ، کفار کا غار کے منہ تک تعاقب کرنا پھر ان کو بے نیل و مرام واپس لوٹانا ، آخر گھر بار چھوڑنے والے مٹھی بھر بے سروسامانوں کو تمام جزیرۃ العرب بلکہ مشرق و مغرب میں اس قدر قلیل مدت کے اندر غالب و منصور کرنا ، کیا یہ اور اس قسم کی بے شمار چیزیں "اصحاب کہف" کے قصہ سے کم عجیب ہیں ؟ اصل یہ ہے کہ یہود نے قریش کو مشورہ دیا تھا کہ محمد ﷺ سے آزمائش کے لئے تین سوال کریں ۔ روح کیا ہے ؟ اصحاب کہف کا قصہ کیا تھا ؟ اور ذوالقرنین کی سرگزشت کیا تھی ؟ اصحاب کہف کے قصہ کو عجیب ہونے کی حیثیت سے انہوں نے خاص اہمیت دی تھی۔ اسی لئے اس آیت میں بتلایا گیا کہ وہ اتنا عجیب نہیں ۔ جیسے تم سمجھے ہو ، اس سے کہیں بڑھ کر عجیب و غریب نشانات قدرت موجود ہیں۔ اصحاب کہف کی جرأت و استقلال: آگے "اصحاب کہف" کا قصہ اول مجملاً پھر مفصلاً بیان فرمایا ہے کہتے ہیں کہ یہ چند نوجوان روم کے کسی ظالم و جبار بادشاہ کے عہد میں تھے ، جس کا نام بعض نے "دقیانوس" بتلایا ہے۔ بادشاہ سخت غالی بت پرست تھا اور جبرواکراہ سے بت پرستی کی اشاعت کرتا تھا۔ عام لوگ سختی اور تکلیف کے خوف اور چند روزہ دنیوی منافع کی طمع سے اپنے مذاہب کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کرنے لگے اس وقت چند نوجوانوں کےدلوں میں جن کا تعلق عمائد سلطنت سے تھا ، خیال آیا کہ ایک مخلوق کی خاطر خالق کو ناراض کرنا ٹھیک نہیں ۔ ان کے دل خشیت الہٰی اور نور تقویٰ سے بھرپور تھے۔ حق تعالیٰ نے صبرو استقلال اور توکل و تبتل کی دولت سے مالامال کیا تھا۔ بادشاہ کے روبرو جا کر بھی انہوں نے { لَنْ نَدْعُوَا مِنْ دُوْنِہٖ اِلٰھًا لَقَدْ قُلْنَا اذًا شَطَطًا } کا نعرہ مستانہ لگایا اور ایمانی جراءت و استقلال کا مظاہرہ کر کے دیکھنے والوں کو مبہوت و حیرت زدہ کر دیا۔ بادشاہ کو کچھ ان کی نوجوانی پر رحم آیا اور کچھ دوسرے مشاغل و مصالح مانع ہوئے کہ انہیں فورًا قتل کر دے۔ چند روز کی مہلت دی کہ وہ اپنےمعاملہ میں غور و نظر ثانی کر لیں ۔ انہوں نےمشورہ کر کے طے کیا کہ ایسے فتنہ کے وقت جبکہ جبرو تشدد سے عاجز ہو کر قدم ڈگمگا جانے کا بہرحال خطرہ ہے مناسب ہو گا کہ شہر کے قریب کسی پہاڑ میں روپوش ہو جائیں (اور واپسی کے لئے مناسب موقع کا انتظار کریں) دعا کی کہ خداوندا ! تو اپنی خصوصی رحمت سے ہمارا کام بنا دے اور رشد و ہدایت کی جادہ پیمائی میں ہمارا سب انتظام درست کر دے۔ آخر شہر سے نکل کر کسی قریبی پہاڑ میں پناہ لی اور اپنے میں سے ایک کو مامور کیا کہ بھیس بدل کر کسی وقت شہر میں جایا کرے تا ضروریات خرید کر لاسکے اور شہر کے احوال و اخبار سے سب کو مطلع کرتا رہے جو شخص اس کام پر مامور تھا اس نے ایک روز اطلاع دی کہ آج شہر میں سرکاری طور پر ہماری تلاش ہے اور ہمارے اقارب و اعزہ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہمارا پتہ بتلائیں ۔ یہ مذاکرہ ہو رہا تھا کہ حق تعالیٰ نے ان سب پر دفعۃً نیند طاری کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری آدمیوں نے بہت تلاش کیا پتہ نہ لگا۔ تھک کر بیٹھ رہے اور بادشاہ کی رائے سے ایک سیسہ کی تختی پر ان نوجوانوں کے نام اور مناسب حالات لکھ کر خزانہ میں ڈال دیے گئے تاکہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں کہ ایک جماعت حیرت انگیز طریقہ سے لاپتہ ہو گئ ہے۔ ممکن ہے آگے چل کر اس کا کچھ سراغ نکلے ۔ اور بعض عجیب واقعات کا انکشاف ہو ۔ اصحاب کہف کون تھے: یہ نوجوان کس مذہب پر تھے ؟ اس میں اختلاف ہوا ہے بعض نے کہا کہ نصرانی یعنی اصل دین مسیحی کے پیرو تھے ۔ لیکن ابن کثیر نے قرائن سے اس کو ترجیح دی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ حضرت مسیحؑ سے پہلے کا ہے ۔ واللہ اعلم۔ (تنبیہ) "رقیم" پہاڑ کی کھوہ کو کہتے ہیں اور بمعنی "مرقوم" بھی آتا ہے یعنی لکھی ہوئی چیز۔ مسند عبد بن حمید کی ایک روایت میں جسے حافظ نے علیٰ شرط البخاری کہا ہے ، ابن عباس سے "رقیم" کے دوسرے معنی منقول ہیں یعنی "اصحاب کہف" اور "اصحاب رقیم" ایک ہی جماعت کے دو لقب ہیں۔ غار میں رہنے کہ وجہ سے "اصحاب کہف" کہلاتے ہیں اور چونکہ ان کے نام و صفت وغیرہ کی تختی لکھ کر رکھ دی گئ تھی۔ اس لئے "اصحاب رقیم" کہلائے۔ اصحاب رقیم اور اصحاب کہف: مگر مترجمؒ نے پہلے معنی لئے ہیں اور بہرصورت "اصحاب کہف" و "اصحاب رقیم" کو ایک ہی قرار دیا ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ "اصحاب رقیم" کا قصہ قرآن میں مذکور نہیں ہوا ، محض عجیب ہونے کے لحاظ سے اصحاب کہف کے تذکرہ میں اس کا حوالہ دے دیا گیا۔ اور فی الحقیقت اصحاب رقیم (کھوہ والے) وہ تین شخص ہیں جو بارش سے بھاگ کر ایک غار میں پناہ گزین ہوئے تھے ، اوپر سے ایک بڑا پتھر آ پڑا ، جس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ اس وقت ان میں سے ہر ایک شخص نے اپنی عمر کے مقبول ترین عمل کا حوالہ دے کر حق تعالیٰ سے فریاد کی اور بتدریج غار کا منہ کھل گیا۔ امام بخاریؒ نے اصحاب کہف کا ترجمہ منعقد کرنے کے بعد حدیث الغار کا مسقتل عنوان قائم کیا ہے اور اس میں ان تین شخصوں کا قصہ مفصل درج کر کے شاید اسی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ "اصحاب رقیم" یہ لوگ ہیں طبرانی اور بزاز نے باسناد حسن نعمان بن بشیر سے مرفوعًا روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ "رقیم" کا ذکر فرماتے تھے اور یہ قصہ تین شخصوں کا بیان کیا۔ واللہ اعلم۔


Deemest thou that the people of the cave and the inscription were of Our signs a wonder?
Or did you think, did you suppose, that the Companions of the Cave, the cavern in the mountain, and the Inscription, the tablet wherein their names and lineages had been inscribed — the Prophet (s) had been asked about their tale — were, with regard to their tale, a [unique] marvel from among, the entirety [of], Our signs? (‘ajaban, ‘a marvel’ is the predicate of [the defective verb] kāna [sc. kānū], the preceding [min āyātinā, ‘from among Our signs’] being a circumstantial qualifier). In other words, [did you suppose] that they were a marvel exclusively from among all [Our] other signs, or that they were the most marvellous among them? Not so.
=========================================
أَفَحَسِبَ الَّذينَ كَفَروا أَن يَتَّخِذوا عِبادى مِن دونى أَولِياءَ ۚ إِنّا أَعتَدنا جَهَنَّمَ لِلكٰفِرينَ نُزُلًا {18:102}

اب کیا سمجھتے ہیں منکر کہ ٹھہرائیں میرے بندوں کو میرے سوا حمایتی [۱۲۴] ہم نے تیار کیا ہے دوزخ کو کافروں کی مہمانی [۱۲۵]
یعنی اس دھوکہ میں مت رہنا ! وہاں تم کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ ہاں ہم تمہاری مہمانی کریں گے۔ دوزخ کی آگ اور قسم قسم کےعذاب سے (اعاذنا اللہ منہا)۔
یعنی کیا منکرین یہ گمان کرتے ہیں کہ میرے خاص بندوں (مسیحؑ ، عزیرؑ ، روح القدس ، فرشتوں) کی پرستش کر کے اپنی حمایت میں کھڑا کر لیں گے۔ { کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِھِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدَّا } (ہر گز نہیں ! وہ خود تمہاری حرکات سے بیزاری کا اظہار فرمائیں گے اور تمہارے مقابل مدعی بن کر کھڑے ہوں گے)۔



Deem then those who disbelieve that they may take My bondmen, instead of Me, as patrons! Verily We have gotten ready the Hell for the infidels as an entertainment.
Do the disbelievers reckon that they can take My servants, namely, My angels, [as well as] Jesus and Ezra, as patrons, as lords, beside Me? (awliyā’a, ‘as patrons’, constitutes the second [direct] object of [the verb] yattakhidhū, ‘that they can take’; the second direct object of [the verb] hasiba, ‘reckon’, has been omitted). The meaning is: do they suppose that the mentioned ‘taking [as patrons]’ will not incur My wrath and that I will not punish them for this? No! Truly We have prepared Hell for the disbelievers, these [the ones mentioned above] and others, as [a place of] hospitality, in other words, it has been prepared for them just as a house is prepared for a guest.
=================================================


الَّذينَ ضَلَّ سَعيُهُم فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا وَهُم يَحسَبونَ أَنَّهُم يُحسِنونَ صُنعًا {18:104}

وہ لوگ جن کی کوشش بھٹکتی رہی دنیا کی زندگی میں اور وہ سمجھتے رہے کہ خوب بناتے ہیں کام [۱۲۶]

یعنی قیامت کے دن سے سے زیادہ خسارہ میں وہ لوگ ہوں گے جن کی ساری دوڑ دھوپ دنیا کے لئے تھی۔ آخرت کا کبھی خیال نہ آیا ، محض دنیا کی ترقیات اور مادی کامیابیوں کو بڑی معراج سمجھتے رہے (کذا یفہم من الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ دنیوی زندگی میں جو کام انہوں نے اپنے نزدیک اچھے سمجھ کر کئے تھے خواہ واقع میں اچھے تھے یا نہیں وہ سب کفر کی نحوست سے وہاں بیکار ثابت ہوئے اور تمام محنت برباد گئ۔

They are those whose effort is wasted in the life of the world, and they deem that they are doing well in performance.
Those whose effort goes astray in the life of this world, [those] whose deeds are invalid, while they reckon, they think, that they are doing good work, [good] deeds for which they will be rewarded.
========================================
اقتَرَبَ لِلنّاسِ حِسابُهُم وَهُم فى غَفلَةٍ مُعرِضونَ {21:1}

نزدیک آ گیا لوگوں کے اُنکے حساب کا وقت اور وہ بیخبر ٹلا رہے ہیں [۱]


یعنی حساب و کتاب اور مجازات کی گھڑی سر پر کھڑی ہے۔ لیکن یہ لوگ (مشرکین وغیرہ) سخت غفلت و جہالت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی تیاری قیامت کی جوابدہی کےلئے نہیں کرتے ۔ اور جب آیات اللہ سنا کر خواب غلفت سے چونکائے جاتے ہیں تو نصیحت سن کر نہایت لاپروائی کےساتھ ٹلا دیتے ہیں۔ گویا کبھی ان کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونا اور حساب دینا ہی نہیں۔ سچ ہے { الناس فی غفلا تھم و رحا المنیۃ تطحن }۔


There hath approached unto mankind their reckoning, while they in neglect are turning away.
Nigh has drawn for mankind, the people of Mecca, the deniers of the Resurrection, their reckoning, [on] the Day of Resurrection, yet they are heedless, of it, disregardful, of the preparation [required] for it by way of [embracing] faith.



There does not come to them any new reminder from their Lord, [revealed] gradually, in other words, [new] words of the Qur’ān, but they listen to it as they play, [as they] engage in mockery,
========================================

أَيَحسَبونَ أَنَّما نُمِدُّهُم بِهِ مِن مالٍ وَبَنينَ {23:55} نُسارِعُ لَهُم فِى الخَيرٰتِ ۚ بَل لا يَشعُرونَ {23:56} 
کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ جو ہم اُنکو دیے جاتے ہیں مال اور اولاد. سو دوڑ دوڑ کر پہنچا رہے ہیں ہم اُنکو بھلائیاں [۶۱] یہ بات نہیں وہ سمجھتے نہیں [۶۲]

یہ ہی خیال ان کا تھا۔ چنانچہ کہتے تھے { نحن اکثرُ اموالًا و اولادًا وَمَانَحْنُ بِمُعَذِّبِیْنَ } (سبا رکوع۴) یعنی ہم اگر خدا کے ہاں مردود و مبغوض ہوتے تو یہ مال و دولت اور اولاد وغیرہ کی بہتات کیوں ہوتی۔ 

یعنی سمجھتے ہی نہیں کہ مال و اولاد کی یہ افراط ان کی فضیلت و کرامت کی وجہ سے نہیں امہال و استدراج کی بناء پر ہے۔ جتنی ڈھیل دی جا رہی ہے اسی قدر ان کی شقاوت کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ { سَنَسْتَدْرِ جُھُمْ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ } (اعراف رکوع۲۳)




Deem they that in the wealth and sons wherewith We enlarge them.
We are hastening them on to good things? Aye! they perceive not.


Do they suppose that in the wealth and children with which We provide them, in the life of this world,  We are hastening to [provide] them with good things? No. Rather, they are not aware, that this is a way of gradually drawing them [into their punishment].

========================================
إِنَّ الَّذينَ جاءو بِالإِفكِ عُصبَةٌ مِنكُم ۚ لا تَحسَبوهُ شَرًّا لَكُم ۖ بَل هُوَ خَيرٌ لَكُم ۚ لِكُلِّ امرِئٍ مِنهُم مَا اكتَسَبَ مِنَ الإِثمِ ۚ وَالَّذى تَوَلّىٰ كِبرَهُ مِنهُم لَهُ عَذابٌ عَظيمٌ {24:11}

جو لوگ لائے ہیں یہ طوفان [۱۴] تمہیں میں ایک جماعت ہیں [۱۵] تم اس کو نہ سمجھو برا اپنے حق میں بلکہ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں [۱۶] ہر آدمی کے لئے ان میں سے وہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا اور جس نے اٹھایا ہے اس کا بڑا بوجھ اس کے واسطے بڑا عذاب ہے [۱۷]


یعنی طوفان اٹھانے والے خیر سے وہ لوگ ہیں جو جھوٹ یا سچ اسلام کا نام لیتےاور اپنے کو مسلمان بتلاتے ہیں ان میں سےچند آدمیوں نے مل کر یہ سازش کی اور کچھ لوگ نادانستہ انکی عیارانہ سازش کا شکار ہو



یہاں سے اس طوفان کا ذکر ہے جو حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اٹھایا گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ۶ہجری میں غزوہ بنی المصطلق سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے، حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی ہمراہ تھیں، ان کی سواری کا اونٹ علیحدہ تھا، وہ ہودہ میں پردہ چھوڑ کر بیٹھ جاتیں۔ جمال ہودے کو اونٹ پر باندھ دیتے۔ ایک منزل پر قافلہ ٹھہرا ہوا تھا، کوچ سے ذرا پہلے حضرت عائشہؓ کو قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی۔ جس کے لئے قافلہ سے علیحدہ ہو کر جنگل کی طرف تشریف لے گئیں، وہاں اتفاق سے ان کا ہار ٹوٹ گیا۔ اس کی تلاش میں دیر لگ گئ یہاں پیچھے کوچ ہو گیا۔ جمال حسب عادت اونٹ پر ہودہ باندھنے آئے اور اس کے پردے پڑے رہنے سے گمان کیا کہ حضرت عائشہؓ اس میں تشریف رکھتی ہیں۔ اٹھاتے وقت بھی شبہ نہ ہوا کیونکہ ان کی عمر تھوڑی تھی اور بدن بہت ہلکا پھلا تھا۔ غرض جمالوں نے ہودہ باندھ کر اونٹ کو چلتا کر دیا۔ حضرت عائشہؓ واپس آئیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ نہایت استقلال سے انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ یہاں سے اب جانا خلاف مصلحت ہے۔ جب آگے جا کر میں نہ ملوں گی تو یہیں تلاش کرنے آئیں گے۔ آخر وہیں قیام کیا، رات کا وقت تھا، نیند کا غلبہ ہوا وہیں لیٹ گئیں۔ حضرت صفوان بن معطلؓ: حضرت صفوان بن معطلؓ گرے پڑے کی خبر گیری کی غرض سے قافلہ کے پیچھے کچھ فاصلہ سے رہا کرتے تھے، وہ اس موقع پر صبح کے وقت پہنچے۔ دیکھا کوئی آدمی پڑ اسوتا ہے۔ قریب آ کر پہچانا کہ حضرت عائشہؓ ہیں (کیونکہ پردہ کا حکم آنے سے پہلے انہوں نے ان کو دیکھا تھا) دیکھ کر گھبرا گئے اور { اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ } پڑھا جس سے ان کی آنکھ کھل گئ۔ فورًا چہرہ چادر سے ڈھانک لیا۔ حضرت صفوانؓ نے اونٹ ان کے قریب لا کر بٹھلا دیا۔ یہ اس پر پردہ کے ساتھ سوار ہو گئیں۔ انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر دوپہر کے وقت قافلہ میں جا ملایا۔ عبداللہ بن اُبی کی شرارت: عبداللہ بن اُبی بڑا خبیث بد باطن اور دشمن رسول اللہ ﷺ تھا، اسے ایک بات ہاتھ آ گئ اور بدبخت نے واہی تباہی بکنا شروع کیا۔ اور بعض بھولے بھالے مسلمان بھی (مثلاً مردوں میں سے حضرت حسان، حضرت مسطح اور عورتوں میں سے حضرت حمنہ بنت حجش) منافقین کے مغویانہ پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر اس قسم کے افسوسناک تذکرے کرنے لگے۔ عموماً مسلمانوں کو اور خود جناب رسول کریم ﷺ کو اس قسم کے واہیات تذکروں اور شہرتوں سے سخت صدمہ تھا۔ ایک مہینہ تک یہ ہی چرچا رہا حضور سنتے اور بغیر تحقیق کچھ نہ کہتے مگر دل میں خفا رہتے۔ ایک ماہ بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو اس شہرت کی اطلاع ہوئی شدت غم سے بیتاب ہو گئیں اور بیمار پڑ گئیں۔ شب و روز روتی تھیں۔ ایک منٹ کے لئے آنسو نہ تھمتے تھے۔ اسی دوران میں بہت سے واقعات پیش آئے اور گفتگوئیں ہوئیں جو صحیح بخاری میں مذکور ہیں اور پڑھنے کے قابل ہیں۔ آخر حضرت صدیقہؓ کی برأت میں خود حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۂ "نور" کی یہ آیتیں { اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وْبِالْاِ فْکِ } الخ سے دور تک نازل فرمائیں۔ جس پر عائشہ صدیقہؓ فخر کیا کرتی تھیں اور بلاشبہ جتنا فخر کرتیں تھوڑا تھا۔



یعنی طوفان اٹھانے والے خیر سے وہ لوگ ہیں جو جھوٹ یا سچ اسلام کا نام لیتےاور اپنے کو مسلمان بتلاتے ہیں ان میں سےچند آدمیوں نے مل کر یہ سازش کی اور کچھ لوگ نادانستہ انکی عیارانہ سازش کا شکار ہو گئے تاہم خدا کا احسان ہے کہ جمہور مسلمان ان کےجال میں نہیں پھنسے۔



یہ خطاب ان مسلمانوں کی تسلی کےلئے ہے جنہیں اس واقعہ سےصدمہ پہنچا تھا بالخصوص عائشہ صدیقہؓ اور ان کا گھرانہ کہ ظاہر ہے وہ سخت غمزدہ اور پریشان تھے۔ یعنی گو بظاہر یہ چرچا بہت مکروہ، رنجیدہ اور ناخوشگوار تھا۔ لیکن فی الحقیقت تمہارےلئے اس کی تہ میں بڑی بہتری چھپی ہوئی تھی۔ آخر اتنی مدت تک ایسےجگر خراش حملوں اور ایذاؤں پر صبر کرنا کیا خالی جا سکتا ہے۔ کیا یہ شرف تھوڑا ہے کہ خود حق تعالیٰ نے اپنے کلام میں تمہاری نزاہت و برأت اتاری۔ اور دشمنوں کو رسوا کیا اور قیامت تک کے لئے تمہارا ذکر خیر قرآن پڑھنے والوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ اور مسلمانوں کو پیغمبر علیہ السلام کی ازواج و اہل بیت کا حق پہچاننے کے لئے ایسا سبق دیا جو کبھی فراموش نہ ہو سکے۔ فللہ الحمد علیٰ ذلک۔



یعنی طوفان اٹھانے والے خیر سے وہ لوگ ہیں جو جھوٹ یا سچ اسلام کا نام لیتےاور اپنے کو مسلمان بتلاتے ہیں ان میں سےچند آدمیوں نے مل کر یہ سازش کی اور کچھ لوگ نادانستہ انکی عیارانہ سازش کا شکار ہو گئے تاہم خدا کا احسان ہے کہ جمہور مسلمان ان کےجال میں نہیں پھنسے۔


Verily those who brought forward the calumny were a small band among Deem it not an evil for you; nay, it was good for you. Unto every one of them shall be that which he hath earned of the sin, and he among them who undertook the bulk of it---for him shall be a torment mighty.
Truly those who initiated the slander, the worst calumny against ‘Ā’isha — mother of the believers, may God be pleased with her — accusing her [of fornication], are a band from among yourselves, a group from among the believers. She said [that these were] Hassān b. Thābit, ‘Abd Allāh b. Ubayy, Mistah [b. Uthātha], and Hamna bt. Jahsh. Do not suppose, O you believers other than the [mentioned] band, that it is bad for you; rather it is good for you, for God will reward you for it and reveal ‘Ā’isha’s innocence and [the innocence of] the one who [is supposed to have] committed it with her, namely, Safwān [b. al-Mu‘attal]. She [‘Ā’isha] related: ‘I accompanied the Prophet (s) during a raid, and this was after the [requirement to wear the] veil had been revealed. When he was through with it [the raid], he headed back [to the campsite] and one night, having drawn close to Medina, he announced that all should march off [home]. So I walked a distance [away from the campsite] and relieved myself. But when I came back to the campsite, [I realised that] my necklace (‘iqd meaning qilāda) had snapped. So I went back to look for it. In the meantime they had strapped my litter’ — in which one rides — ‘thinking that I was inside, for in those days women were slight and ate very small portions (‘ulqa). [Finally] I found my necklace, but when I went back to where I had been staying overnight, they had already departed. I sat in the place where I had camped; I assumed that the group would notice my absence and come back for me. But my eyes were overcome [by drowsiness] and I fell asleep. Safwān had pitched camp behind the army to rest for some of the night (‘arrasa), then set off while it was still night until he reached the site of the camp. He saw what looked like a person sleeping and recognised me when he [eventually] saw me, having seen me on numerous occasions before the [requirement of the] veil. I woke up to the sound of him saying, ‘To God we belong and to Him we shall surely return’ (innā li’Llāhi wa-innā ilayhi rāji‘ūn), for he had recognised me. So I concealed my face with my gown (jilbāb) — in other words, I covered it up with my wrap (mulā’a).
=========================================
إِذ تَلَقَّونَهُ بِأَلسِنَتِكُم وَتَقولونَ بِأَفواهِكُم ما لَيسَ لَكُم بِهِ عِلمٌ وَتَحسَبونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظيمٌ {24:15}

جب لینے لگے تم اس کو اپنی زبانوں پر اور بولنے لگے اپنے منہ سے جس چیز کی تم کو خبر نہیں اور تم سمجھتے ہو اسکو ہلکی بات اور یہ اللہ کے یہاں بہت بڑی بات ہے [۲۱]
یعنی عذاب عظیم کے مستحق کیوں نہ ہوتے جبکہ تم ایسی بے تحقیق اور ظاہر البطلان بات کو ایک دوسرے کی طرف چلتا کر رہے تھے۔ اور زبان سے وہ اٹکل پچو باتیں نکالتے تھے جن کی واقعیت کی تمہیں کچھ بھی خبر نہ تھی۔ پھر طرفہ یہ ہے کہ ایسی سخت بات کو (یعنی کسی محصنہ خصوصًا پیغمبر علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ اور مومنین کی روحانی والدہ کو متہم کرنا) جو اللہ کے نزدیک بہت بڑا سنگین جرم ہے، محض ایک ہلکی اور معمولی بات سمجھنا، یہ اصل جرم سے بھی بڑھ کر جرم تھا۔
When ye were publishing it with your tongues and saying that with your mouths of which ye had no knowledge. Ye deemed it light, and it was with Allah mighty!
when you were receiving it [welcomingly] with your tongues, that is to say, [when] you were reporting it one from the other (one of the two letters tā’ has been omitted from the verb [tatalaqqawnahu, ‘you were receiving it’]; idh, ‘when’, is dependent because of massakum, ‘befallen you’, or afadtum, ‘engaged in’) and were uttering with your mouths that whereof you had no knowledge, supposing it to be a light matter, a sinless [act], while with God it was grave, in sinfulness.
=======================================
وَالَّذينَ كَفَروا أَعمٰلُهُم كَسَرابٍ بِقيعَةٍ يَحسَبُهُ الظَّمـٔانُ ماءً حَتّىٰ إِذا جاءَهُ لَم يَجِدهُ شَيـًٔا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفّىٰهُ حِسابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَريعُ الحِسابِ {24:39}

اور جو لوگ منکر ہیں ان کے کام جیسے ریت جنگل میں پیاسا جانے اس کو پانی یہاں تک کہ جب پہنچا اس پر اس کو کچھ نہ پایا اور اللہ کو پایا اپنے پاس پھر اسکو پورا پہنچا دیا اس کا لکھا اور اللہ جلد لینے والا ہے حساب [۷۵]

کافر دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اپنے زعم اور عقیدہ کے موافق کچھ اچھے کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کام آئیں گے، حالانکہ اگر کوئی کام بظاہر اچھا بھی ہو تو کفر کی شامت سے وہ عنداللہ مقبول و معتبر نہیں۔ ان فریب خوردہ کافروں کی مثال ایسی سمجھو کہ دوپہر کے وقت جنگل میں ایک پیاسے کو دور سے پانی دکھائی دیا اور وہ حقیقت میں چمکتی ہوئی ریت تھی۔ پیاسا شدت تشنگی سے بیتاب ہو کر وہاں پہنچا، دیکھا تو پانی وانی کچھ نہ تھا، ہاں ہلاکت کی گھڑی سامنے کھڑی تھی اور اللہ تعالیٰ عمر بھر کا حساب لینے کے لئے موجود تھا، چنانچہ اسی اضطراب و حسرت کے وقت اللہ نے اس کا سب حساب ایک دم میں چکا دیا۔ کیونکہ وہاں حساب کرتے کیا دیر لگتی ہے۔ ہاتھوں ہاتھ عمر بھر کی شرارتوں اور غفلتوں کا بھگتان کر دیا گیا۔ دوسرے وہ ہیں جو سر سے پاؤں تک دنیا کے مزوں میں غرق اور جہل و کفر، ظلم و عصیان کی اندھیریوں میں پڑے غوطے کھا رہے ہیں ان کی مثال آگے بیان فرمائی، ان کے پاس روشنی کی اتنی بھی چمک نہیں جتنی سراب پر دھوکہ کھانے والے کو نظر آتی تھی۔ یہ لوگ خالص اندھیریوں اور تہ بر تہ ظلمات میں بند ہیں۔ کسی طرف سے روشنی کی شعاع اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔ نعوذ باللہ۔

And those who disbelieve--their works are like a mirage in a desert which the thirsty deemeth to be water, until when he cometh thereto he findeth not aught, and findeth Allahs with himself, and He payeth him his account in full; and Allah is swift at reckoning.
And as for those who disbelieve, their works are like a mirage in a plain (qī‘a is the plural of qā‘, that is to say, fulāt, ‘an open space’). [A mirage is] a kind of radiation which one might observe therein at midday during extreme heat, resembling running water — which the thirsty man supposes to be water until he comes to it and finds it to be nothing, like what he had supposed. Likewise is [the case of] the disbeliever who supposes that his deeds, such as some voluntary alms, will benefit him; but when he dies and comes before his Lord he will not find his deed, in other words, it will be of no benefit to him; and he finds God there, namely, in the place of his deeds, Who pays him his account in full, that is, He requites him for it in this world; and God is swift at reckoning, that is, at requiting.
========================================
لا تَحسَبَنَّ الَّذينَ كَفَروا مُعجِزينَ فِى الأَرضِ ۚ وَمَأوىٰهُمُ النّارُ ۖ وَلَبِئسَ المَصيرُ {24:57}

نہ خیال کر کہ یہ جو کافر ہیں تھکا دیں گے بھاگ کر ملک میں اور ان کا ٹھکانہ آگ ہے اور وہ بری جگہ ہے پھر جانے کی [۱۰۵]

یہ نیک بندوں ے کے بالمقابل مردود و مغضوب لوگوں کا انجام بتلایا۔ یعنی جبکہ نیکوں کو ملک کی حکومت اور زمین کی خلافت عطا کیجاتی ہے ، کافروں اور بدکاروں کی ساری مکاریاں اور تدبیریں شکست ہو جاتی ہیں۔ اللہ کے ارادہ کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اگر تمام خدائی میں ادھر ادھر بھاگتے پھریں تب بھی وہ خدائی سزا سے اپنے کو نہیں بچا سکتے۔ یقینًا ان کو جہنم کے جیل خانہ میں جانا پڑے گا۔

Deem not those who disbelieve able to frustrate His Purpose on the earth; and their abode shall be the Fire--an ill retreat!
And do not suppose (read tahsabanna or yahsabanna, the subject of the verb being the Messenger) that those who disbelieve can escape, Us, in the land, by eluding us. For their abode will be, their return will be [to], the Fire, and it is surely an evil destination, it is an [evil] place of return.
========================================
أَم تَحسَبُ أَنَّ أَكثَرَهُم يَسمَعونَ أَو يَعقِلونَ ۚ إِن هُم إِلّا كَالأَنعٰمِ ۖ بَل هُم أَضَلُّ سَبيلًا {25:44}

یا تو خیال رکھتا ہے کہ بہت سے ان میں سنتے یا سمجھتے ہیں اور کچھ نہیں وہ برابر ہیں چوپایوں کے بلکہ وہ زیادہ بہکے ہوئے ہیں راہ سے [۵۹]


یعنی کیسی ہی نصیحتیں سنائیے، یہ تو چوپائے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، انہیں سننے یا سمجھنے سے کیا واسطہ۔ چوپائے تو بہرحال اپنے پرورش کرنے والے مالک کے سامنے گردن جھکا دیتے ہیں۔ اپنے محسن کو پہچانتے ہیں، نافع و مضر کی کچھ شناخت رکھتے ہیں۔ کھلا چھوڑ دو تو اپنی چراگاہ اور پانی پینے کی جگہ پہنچ جاتے ہیں، لیکن ان بدبختوں کا حال یہ ہے کہ نہ اپنے خالق و رازق کا حق پہچانا نہ اس کے احسانات کو سمجھا نہ بھلے برے کی تمیز کی، نہ دوست دشمن  میں فرق کیا، نہ غذائے روحانی اور چشمہ ہدایت کی طرف قدم اٹھایا۔ بلکہ اس سے کوسوں دور بھاگے اور جو قوتیں خدا تعالیٰ نے عطا کی تھیں ان کو معطل کئے رکھا بلکہ بے موقع صرف کیا۔ اگر ذرا بھی عقل و فہم سے کام لیتے تو اس کارخانہ قدرت میں بے شمار نشانیاں موجود تھیں جو نہایت واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی توحید و تنزیہہ اور اصول دین کی صداقت و حقانیت کی طرف رہبری کر رہی ہیں جن میں سے بعض نشانوں کا ذکر آئندہ آیات میں کیا گیا ہے۔


Or deemest thou that most of them hear or understand? They are but like unto the cattle; nay, they are even farther astray from the path.
Or do you suppose that most of them listen, listening so as to understand, or comprehend?, what you say to them? They are but as the cattle — nay, but they are further astray from the way, further from these [cattle] upon the path of misguidance, for at least they [cattle] yield to the person who looks after them, whereas these [disbelievers] do not obey their Master, Who is gracious to them.
========================================
أَحَسِبَ النّاسُ أَن يُترَكوا أَن يَقولوا ءامَنّا وَهُم لا يُفتَنونَ {29:2}
وَلَقَد فَتَنَّا الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۖ فَلَيَعلَمَنَّ اللَّهُ الَّذينَ صَدَقوا وَلَيَعلَمَنَّ الكٰذِبينَ {29:3
أَم حَسِبَ الَّذينَ يَعمَلونَ السَّيِّـٔاتِ أَن يَسبِقونا ۚ ساءَ ما يَحكُمونَ {29:4}
کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہہ کر کہ ہم یقین لائے اور ان کو جانچ نہ لیں گے [۱]
اور جو لوگ اُن سے پہلے ہو چکے ہیں ہم نے اُن کو بھی آزمایا تھا (اور ان کو بھی آزمائیں گے) سو خدا اُن کو ضرور معلوم کریں گے جو (اپنے ایمان میں) سچے ہیں اور اُن کو بھی جو جھوٹے ہیں
کیا یہ سمجھتے ہیں جو لوگ کہ کرتے ہیں برائیاں کہ ہم سے بچ جائیں بری بات طے کرتے ہیں [۴]


یعنی زبان سے ایمان کا دعویٰ کرنا کچھ سہل نہیں جو دعویٰ کرے امتحان و ابتلا کے لئے تیار ہو جائے یہ ہی کسوٹی ہے جس پر کھرا کھوٹا کہا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ سب سے سخت امتحان انبیاء کا ہے، ان کے بعد صالحین کا، پھر درجہ بدرجہ ان لوگوں کا جو ان کے ساتھ مشابہت رکھتے ہوں۔ نیز امتحان آدمی کا اس کی دینی حیثیت کے موافق ہوتا ہے۔ جس قدر کوئی شخص دین میں مضبوط اور سخت ہو گا اسی قدر امتحان میں سختی کی جائے گی۔


یعنی پہلے نبیوں کے متبعین بڑے بڑے سخت امتحانوں میں ڈالے جا چکے ہیں۔ بخاری میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں فریاد کی کہ حضرت! ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کیجئے اور دعا فرمائیے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر سختی اور ظلم و ستم کی انتہا کر رکھی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے ایک (زندہ) آدمی کو زمین کھود کر (کھڑا) گاڑ دیا جاتا تھا۔ پھر اس کے سر پر آرہ چلا کر بیچ سے دو ٹکڑے کر دیتے تھے۔ بعضوں کے بدن میں لوہے کی کنگھیاں پھرا کر چمڑا اور گوشت ادھیڑ دیا جاتا تھا۔ تاہم یہ سختیاں انکو دین سےنہ ہٹا سکیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ علانیہ ظاہر کر دے گا اور دیکھ لے گا کہ دعوئے ایمان میں کون سچا نکلتا ہے اور کون جھوٹا، اسی کے موافق ہر ایک کو جزا دی جائے گی۔ (تنبیہ) { فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ } الخ سے جو حدوث علم باری کا وہم ہوتا ہے اس کا نہایت محققانہ جواب مترجم علام قدس سرہٗ نے دیا ہے۔ ملاحظہ کیا جائے پارہ دوم رکوع اول { اِلَّا لَنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعّ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ } کے تحت میں۔ ہم نے یہاں ان توجیہات کی طرف اشارہ کر دیا ہے جو مفسرین نے لکھی ہیں۔



حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "پہلی دو آیتیں مسلمانوں کے متعلق تھیں جو کافروں کی ایذاؤں میں گرفتار تھے، اور یہ آیت ان کافروں سے متعلق ہے جو مسلمانوں کو ستا رہے تھے"۔ (موضح) یعنی مومنین کے امتحانات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ ہم مزے سے ظلم کرتے رہیں گے اور سختیوں سے بچے رہیں گے، وہ ہم سےبچ کر کہاں جا سکتے ہیں۔ جو سخت ترین سزا ان کو ملنے والی ہے اس کے سامنے مسلمانوں کے امتحان کی سختی کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی اگر اس وقت کی عارضی مہلت سے انہوں نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ ہم ہمیشہ مامون رہیں گے اور سزا دہی کے وقت خدا کے ہاتھ نہ آئیں گے؟ تو حقیقت میں بہت ہی بری بات طے کی ایسا احمقانہ فیصلہ آنے والی مصیبت کو روک نہیں سکتا۔


Bethink men that they shall be left alone because they say: we believe; and that they shall not be tempted?
And assuredly We have tempted those who were before them. So Allah will surely know those who are true and He will surely know the liars.
Or bethink those who work ill deeds that they shall outstrip Us? lll do they judge! 


Do people suppose that they will be left to say, that is, [that they will be left alone] because of their saying, ‘We believe’, and they will not be tried?, tested with that which will reveal the sincerity of their belief. This [verse] was revealed regarding a group of individuals who when they became believers endured suffering at the hands of the idolaters.

And certainly We tried those who were before them. So God shall surely know those who are sincere, in their faith — a knowledge of direct vision — and He shall surely know those who are liars, regarding it.

Or do those who commit evil deeds, idolatry and acts of disobedience, suppose that they can elude Us?, so that We will not be able to requite them. Evil is that, judgement of theirs, which they judge!

========================================
يَحسَبونَ الأَحزابَ لَم يَذهَبوا ۖ وَإِن يَأتِ الأَحزابُ يَوَدّوا لَو أَنَّهُم بادونَ فِى الأَعرابِ يَسـَٔلونَ عَن أَنبائِكُم ۖ وَلَو كانوا فيكُم ما قٰتَلوا إِلّا قَليلًا {33:20}

سمجھتے ہیں کہ فوجیں کفار کی نہیں پھر گئیں اور اگر آجائیں وہ فوجیں تو آرزو کریں کسی طرح ہم باہر نکلے ہوئے ہوں گاؤں میں پوچھ لیا کریں تمہاری خبریں [۳۱] اور اگر ہوں تم میں لڑائی نہ کریں مگر بہت تھوڑی [۳۲]
یعنی کفار کی فوجیں ناکامیاب واپس جا چکیں لیکن ان ڈرپوک منافقوں کو ان کے چلے جانے کا یقین نہیں آتا اور فرض کیجئے کفار کی فوجیں پھر لوٹ کر حملہ کر دیں تو ان کی تمنا یہ ہوگی کہ اب وہ شہر میں بھی نہ ٹھہریں جب تک لڑائی رہے کسی گاؤں میں رہنے لگیں اور وہیں دور بیٹھے آنے جانے والوں سے پوچھ لیا کریں کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے لڑائی کا نقشہ کیسا ہے۔
یعنی باتوں میں تمہاری خیرخواہی جتائیں اور لڑائی میں زیادہ کام نہ دیں محض مجبوری کو برائے نام شرکت کریں۔

They deem that the confederates have not yet departed; and if the confederates should come, they would fain to be in the desert with the wandering Arabs inquiring for tidings of you. And if they happen to be amongst you, they would fight but little.
They suppose that the confederates, of disbelievers, have not [yet] departed, to Mecca, because of their fear of them, and were the confederates to come, a second time, they would wish that they were in the desert with the Bedouins asking about your news, your encounters with the disbelievers. And if they were among you, this second time, they would fight but a little, for show and for fear of being reviled.
========================================
وَلَو أَنَّ لِلَّذينَ ظَلَموا ما فِى الأَرضِ جَميعًا وَمِثلَهُ مَعَهُ لَافتَدَوا بِهِ مِن سوءِ العَذابِ يَومَ القِيٰمَةِ ۚ وَبَدا لَهُم مِنَ اللَّهِ ما لَم يَكونوا يَحتَسِبونَ {39:47}

اور اگر گنہگاروں کے پاس ہو جتنا کچھ کہ زمین میں ہے سارا اور اتنا ہی اور اسکے ساتھ تو سب دے ڈالیں اپنے چھڑوانے میں بری طرح کے عذاب سے دن قیامت کے اور نظر آئے انکو اللہ کی طرف سے جو خیال بھی نہ رکھتے تھے

And were those who did wrong to own all that is in the earth, and there with as much again, they shall surely seek to ransom themselves therewith from the evil of the torment on the Day of Judgment; and there shall appear Unto them from Allah that whereon they had not been reckoning,
And [even] if the evildoers possessed all that is in the earth, and as much of it besides, they would surely offer it to ransom themselves from the terrible chastisement on the Day of Resurrection. And there will appear, [there will become] manifest, to them from God that which they had never reckoned, [what they never] supposed [they would see].
========================================
وَإِنَّهُم لَيَصُدّونَهُم عَنِ السَّبيلِ وَيَحسَبونَ أَنَّهُم مُهتَدونَ {43:37}

اور وہ اُنکو روکتے رہتے ہیں راہ سے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم راہ پر ہیں [۳۴]

یعنی شیاطین انکو نیکی کی راہ سے روکتے رہتے ہیں ، مگر ان کی علقیں ایسی مسخ ہو جاتی ہیں کہ اسی کو ٹھیک راستہ سمجھتے ہیں ۔بدی اور نیکی کی تمیز بھی باقی نہیں رہتی۔

And verily they hinder them from the way, whilst they deem that they are rightly guided.
And indeed they, that is, the devils, bar them, the blind, from the way, [from] the path of guidance, while they suppose that they are [rightly] guided (the plural [muhtadūna] takes into account the [potentially plural] sense of man, ‘whoever’, [of the previous verse]),
========================================
أَم يَحسَبونَ أَنّا لا نَسمَعُ سِرَّهُم وَنَجوىٰهُم ۚ بَلىٰ وَرُسُلُنا لَدَيهِم يَكتُبونَ {43:80}

کیا خیال رکھتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے ان کا بھید اور ان کا مشورہ کیوں نہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے انکے پاس لکھتے رہتے ہیں [۷۶]
یعنی انکے دلوں کے بھید ہم جانتے اور انکے خفیہ مشورے ہم سنتے ہیں۔ اور حکومت کے انتظامی ضابطہ کے موافق ہمارے فرشتے (کرامًا کاتبین) انکے سب اعمال و افعال لکھتے جاتے ہیں۔ یہ ساری مِسل قیامت میں پیش ہو گی۔
Bethink they that We hear not their secrets and whispers? Yea! We do, and Our messengers present with them write down.
Or do they reckon that We do not hear their secret thoughts and their conspiring?, that is to say, what they secretly communicate to others and what they openly conspire about among themselves. Yes indeed!, We hear [all of] that, and Our messengers, the guardians, are with them keeping a record, of that.
 ========================================
أَم حَسِبَ الَّذينَ اجتَرَحُوا السَّيِّـٔاتِ أَن نَجعَلَهُم كَالَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَواءً مَحياهُم وَمَماتُهُم ۚ ساءَ ما يَحكُمونَ {45:21}

کیا خیال رکھتے ہیں جنہوں نے کمائی ہیں برائیاں کہ ہم کر دیں گے انکو برابر ان لوگوں کی جو کہ یقین لائے اور کیے بھلے کام ایک سا ہے ان کا جینا اور مرنا برے دعوے ہیں جو کرتے ہیں [۲۶]

یعنی اللہ تعالٰی کی شئون حکمت پر نظر کرتے ہوئے کیا کوئی عقلمند یہ گمان کر سکتا ہے کہ ایک بدمعاش آدمی، اور ایک مرد صالح کے ساتھ خداوند یکساں معاملہ کرے گا۔ اور دونوں کا انجام برابر کر دے گا؟ ہرگز نہیں نہ اس زندگی میں دونوں برابر ہو سکتے ہیں نہ مرنے کے بعد جو حیات طیبہ مومنین صالح کو یہاں نصیب ہوتی ہے اور جس نصرت اور عُلو و رفعت کے وعدے دنیا میں اس سے کئے گئے وہ ایک کافر بدکار کو کہاں میسر ہیں۔ اسکے لئے دنیا میں معیشت ضنک اور آخرت میں لعنت و خسران کے سوا کچھ نہیں۔ الغرض یہ دعوٰی بالکل غلط اور یہ خیال بالکل مہمل ہے کہ اللہ تعالٰی نیکوں اور بدوں کا مرنا اور جینا برابر کر دے گا۔ اسکی حکمت اسکو مقتضی نہیں۔ بلکہ ضرورت ہے کہ دونوں کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک نتیجہ ظاہر ہو کر رہے۔ اور ہر ایک کی نیکی یا بدی کے آثار فی الجملہ یہاں بھی مشاہد ہوں اور ان کا پوری طرح مکمل معائنہ موت کے بعد ہو۔

Deem those who commit ill deeds that We shall make them as those who believe and work righteous Works? Equal is their life and their death! How ill they judge!
Or (am has the significance of the [rhetorical] hamza of denial) do those who have perpetrated evil acts, [such as] disbelief and disobedience, suppose that We shall treat them as those who believe and perform righteous deeds, equally (sawā’an is the predicate) in their life and in their death? (mahyāhum wa-mamātuhum, [this clause] constitutes the subject and a supplement; the sentence [itself] is a substitution for the kāf [of ka’lladhīna, ‘as those’], and both [suffixed] pronouns [-hum] refer to the disbelievers). The meaning is: do they suppose that in the Hereafter We will assign them [a] good [fate] like believers, [that they will enjoy] a life of plenty, one equal to their life in this world, as when they said to the believers: ‘Surely if we were to be resurrected, we will be given the same good things that you will be given!’ God, exalted be He, says, in accordance with His denial [implicit] in the [rhetorical interrogative] hamza: How evil is that judgement which they make! In other words, it will not be so, for in the Hereafter they will be [suffering] in the chastisement, in contrast to their lives in this world; the believers, on the other hand, will be [delighting] in the Reward in the Hereafter because of their righteous deeds in this world, such as [their observance of] prayers, [their] alms-giving, fasting and otherwise (the mā, ‘that … which’, relates to the verbal action, that is to say, ba’isa hukman hukmuhum hādhā, ‘awful as a judgement is this judgement of theirs’).
========================================
أَم حَسِبَ الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ أَن لَن يُخرِجَ اللَّهُ أَضغٰنَهُم {47:29}

کیا خیال رکھتے ہیں وہ لوگ جنکے دلوں میں روگ ہے کہ اللہ ظاہر نہ کر دے گا اُنکے کینے [۴۳]
یعنی منافقین اپنے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جو حاسدانہ عداوتیں اور کینے رکھتے ہیں، کیا یہ خیال ہے کہ وہ دلوں میں پنہاں ہی رہیں گے؟ اللہ انکو طشت از بام نہ کرے گا؟ اور مسلمان انکے مکر و فریب پر مطلع نہ ہوں گے؟ ہر گز نہیں۔ ان کا خبث باطن ضرور ظاہر ہو کر رہے گا اور ایسے امتحان کی بھٹی میں ڈالے جائیں گے جہاں کھوٹا کھرا بالکل الگ ہو جائے گا۔

Deem those in whose hearts is a disease that Allah will never bring to light their secret malevolence?
Or did those in whose hearts is a sickness suppose that God would not expose their rancour?, [that] He would [not] bring to light their spite against the Prophet (s) and the believers.
=======================================
يَومَ يَبعَثُهُمُ اللَّهُ جَميعًا فَيَحلِفونَ لَهُ كَما يَحلِفونَ لَكُم ۖ وَيَحسَبونَ أَنَّهُم عَلىٰ شَيءٍ ۚ أَلا إِنَّهُم هُمُ الكٰذِبونَ {58:18}

جس دن جمع کرے گا اللہ اُن سب کو پھر قسمیں کھائیں گے اُسکے آگے جیسے کھاتے ہیں تمہارے آگے اور خیال کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھلی راہ پر ہیں [۳۳] سنتا ہے وہی ہیں اصل جھوٹے [۳۴]
بیشک اصل اور ڈبل جھوٹا وہ ہی ہے جو خدا کے سامنے بھی جھوٹ کہنے سے نہ شرمائے۔
یعنی یہاں کی عادت پڑی ہوئی وہاں بھی نہ جائیگی۔ جس طرح تمہارے سامنے جھوٹ بول کر بچ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہوشیار ہیں اور بڑی اچھی چال چل رہے ہیں، اللہ کے سامنے بھی جھوٹی قسمیں کھانے کو تیار ہو جائیں گے کہ پروردگار! ہم تو ایسے نہ تھے، ویسے تھے۔ شاید وہاں بھی خیال ہو کہ اتنا کہہ دینے سے رہائی ہوجائیگی۔

This shall befall on a Day whereon Allah shall raise them all together; then they will swear Unto Him even as they swear Unto you, deeming themselves up on aught. Lo! verily they! they are the liars.
Mention, the day when God will raise them all together, whereupon they will swear to Him, that they are believers, just as they swear to you [now], and suppose that they are [standing] on something, beneficial by swearing in Hereafter just as [they supposed it to have been beneficial for them] in this world. Yet assuredly it is they who are the liars!
=========================================
هُوَ الَّذى أَخرَجَ الَّذينَ كَفَروا مِن أَهلِ الكِتٰبِ مِن دِيٰرِهِم لِأَوَّلِ الحَشرِ ۚ ما ظَنَنتُم أَن يَخرُجوا ۖ وَظَنّوا أَنَّهُم مانِعَتُهُم حُصونُهُم مِنَ اللَّهِ فَأَتىٰهُمُ اللَّهُ مِن حَيثُ لَم يَحتَسِبوا ۖ وَقَذَفَ فى قُلوبِهِمُ الرُّعبَ ۚ يُخرِبونَ بُيوتَهُم بِأَيديهِم وَأَيدِى المُؤمِنينَ فَاعتَبِروا يٰأُولِى الأَبصٰرِ {59:2}

وہی ہے جس نے نکال دیا اُنکو جو منکر ہیں کتاب والوں میں اُنکے گھروں سے [۲] پہلے ہی اجتماع پر لشکر کے [۳] تم نہ اٹکل کرتے تھے کہ نکلیں گے اور وہ خیال کرتے تھے کہ اُنکو بچا لیں گے اُنکے قلعے اللہ کے ہاتھ سے پھر پہنچا اُن پر اللہ جہاں سے اُنکو خیال نہ تھا اور ڈال دی اُنکے دلوں میں دھاک [۴] اجاڑنے لگے اپنے گھر اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں [۵] سو عبرت پکڑو اے آنکھ والو [۶]


مدینہ سے مشرقی جانب چند میل کے فاصلہ پر ایک قوم یہود بستی تھی جس کو "بنی نضیر" کہتے تھے۔ یہ لوگ بڑے جتھے والے اور سرمایہ دار تھے، اپنے مضبوط قلعوں پر ان کو ناز تھا۔ حضورﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو شروع میں انہوں نے آپﷺ سے صلح کا معاہدہ کرلیا، کہ ہم آپ کے مقابلہ پر کسی کی مدد نہ کریں گے۔ پھر مکہ کے کافروں سے نامہ و پیام کرنے لگے۔ حتّٰی کہ ان کے ایک بڑے سردارکعب بن اشرف نے چالیس سواروں کے ساتھ مکہ پہنچ کر بیت اللہ شریف کے سامنے مسلمانوں کے خلاف قریش سے عہدوپیمان باندھا۔ آخر چند روز بعد اللہ و رسول کے حکم سے محمد بن مسلمہ نے اس غدار کاکام تمام کردیا۔ پھر بھی "بنی نضیر" کی طرف سے بدعہدی کا سلسلہ جاری رہا۔ کبھی دغابازی سے حضور ﷺ کو چند رفیقوں کے ساتھ بلا کر اچانک قتل کرنا چاہا۔ ایک مرتبہ حضور ﷺجہاں بیٹھے تھے اوپر سے بھاری چکی کا پاٹ ڈال دیا، اگر لگے تو آدمی مر جائے۔ مگر سب مواقع پر اللہ کے فضل نے حفاظت فرمائی۔ آخر حضور ﷺ نے مسلمانوں کو جمع کیا۔ ارادہ یہ کہ ان سے لڑیں۔ جب مسلمانوں نے نہایت سرعت و مستعدی سے مکانوں اور قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ وہ مرعوب و خوفزدہ ہوگئے۔ عام لڑائی کو نوبت نہ آئی۔ انہوں نے گھبرا کر صلح کی التجا کی۔ آخر یہ قرار پایا کہ وہ مدینہ خالی کر دیں۔ ان کی جانوں سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اور جو مال اسباب اٹھا کر لے جاسکتے ہیں، لے جائیں۔ باقی مکان زمین، باغ وغیرہ پر مسلمان قابض ہوئے۔ حق تعالیٰ نے وہ زمین مالِ غنیمت کی طرح تقسیم نہ کرائی۔ صرف حضرت کے اختیار پر رکھی۔ حضرت ﷺ نے اکثر اراضی مہاجرین پر تقسیم کر دی۔ اس طرح انصار پر سے ان کا خرچ ہلکا ہوا۔ اور مہاجرین و انصار دونوں کو فائدہ پہنچا۔ نیز حضرت ﷺ اپنے گھر کا اور واردوصادر کا سالانہ خرچ بھی اسی سے لیتے تھے اور جو بچ رہتا اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے تھے۔ اس سورت میں یہ ہی قصہ مذکور ہے۔

یعنی ایک ہی ہلّہ میں گھبراگئےاور پہلی ہی مڈبھیڑ پر مکان اور قلعے چھوڑ کر نکل بھاگنے کو تیار ہو بیٹھے۔ کچھ بھی ثابت قدمی نہ دکھلائی۔ (تنبیہ) "اوّل الحشر" سے بعض مفسرین کے نزدیک یہ مراد ہے کہ اس قوم کے لئے اس طرح ترکِ وطن کرنے کا یہ پہلا ہی موقع تھا۔ قبل ازیں ایسا واقعہ پیش نہ آیا تھا۔ یا "اوّل الحشر" میں اس طرف اشارہ ہو کہ ان یہود کا پہلا حشر یہ ہے کہ مدینہ چھوڑ کر بہت سے خیبر وغیرہ چلے گئے اور دوسرا حشر وہ ہو گا جو حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں پیش آیا۔ یعنی دوسرے یہودونصارٰی کی معیت میں یہ لوگ بھی خیبر سے ملک شام کی طرف نکالے گئے جہاں آخری حشر بھی ہونا ہے۔ اسی لئے "شام" کو "ارض المحشر" بھی کہتے ہیں۔

یعنی ان کے سازوسامن مضبوط قلعے اور جنگجو یانہ اطوار دیکھ کر نہ تم کو اندازہ تھا کہ اس قدر جلد اتنی آسانی سے وہ ہتھیار ڈال دیں گے۔ اور نہ ان کو خیال تھا کہ مٹھی بھر بے سروسامان لوگ اس طرح قافیہ تنگ کر دیں گے۔ وہ اسی خواب خرگوش میں تھے کہ مسلمان (جن کے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے) ہمارے قلعوں تک پہنچنے کا حوصلہ نہ کرسکیں گے۔ اور اس طرح گویا اللہ کے ہاتھ سے بچ نکلیں گے۔ مگر انہوں نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت اللہ کے حکم کو نہ روک سکی۔ ان کے اوپر اللہ کا حکم وہاں سے پہنچا جہاں سے ان کو خیال و گمان بھی نہ تھا۔ یعنی دل کے اندر سے خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اور بے سروسامان مسلمانوں کی دھاک بٹھلادی۔ ایک تو پہلے ہی اپنے سردار کعب بن اشرف کے ناگہانی قتل سے مرعوب و خوفزدہ ہو رہے تھے۔ اب مسلمانوں کے اچانک حملہ نے رہے سہے حواس بھے کھو دیئے۔

یعنی حرص اور غیظ و غضب کے جوش میں مکانوں کے کڑی، تختے کواڑ اکھاڑنے لگے تا کوئی چیز جو ساتھ لے جاسکتے ہیں رہ نہ جائے اور مسلمانوں کے ہاتھ نہ لگے۔ اس کام میں مسلمانوں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا۔ ایک طرف سے وہ خود گراتے تھے دوسری طرف سے مسلمان۔ اور غور سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے ہاتھوں جو تباہی و ویرانی عمل میں  آئی وہ بھی ان ہی بدبختوں کی بد عہدیوں اور شرارتوں کا نتیجہ تھی۔

یعنی اہلِ بصیرت کے لئے اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دکھلادیا کہ کفر، ظلم، شرارت اور بدعہدی کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ محض ظاہری اسباب پر تکیہ کرکے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے غافل ہو جانا عقلمند کاکام نہیں۔

He it is that drave forth those of the people of the Book who disbelieved from their homes at the first gathering, Ye imagined no that they would go -forth; and they imagined that their fortresses would protect them against Allah. Wherefore Allah came upon them whence they reckoned not, and cast terror in their hearts so that they made their houses desolate with their own hands and the hands of the believers. So learn a lesson. O ye endued with insight! 
It is He Who expelled those who disbelieved of the People of the Scripture, namely, the Jews of the Banū al-Nadīr, from their homelands, [from] their dwellings at Medina, at the first exile, that is, their exile to Syria, the last [exile] being their banishment to Khaybar by ‘Umar during his caliphate. You did not think, O believers, that they would go forth, and they thought that they would be protected (māni‘atuhum is the predicate of an, ‘that’) by their fortresses (husūnuhum, the agent of the verb [māni‘atuhum], with which the predication is completed) from God, from His chastisement. But God, His command and His chastisement, came at them from whence they had not reckoned, [from whence] had never occurred to them, from the part of the believers, and He cast terror (ru‘b or ru‘ub) into their hearts, by having their chief Ka‘b b. al-Ashraf slain, destroying [as they did] (read yukharribūna; or yukhribūna, [derived] from [4th form] akhraba) their houses, in order to take away with them what they valued of wood and so on, with their own hands and the hands of the believers. So take heed, O you who have eyes!
=========================================
لا يُقٰتِلونَكُم جَميعًا إِلّا فى قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَو مِن وَراءِ جُدُرٍ ۚ بَأسُهُم بَينَهُم شَديدٌ ۚ تَحسَبُهُم جَميعًا وَقُلوبُهُم شَتّىٰ ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم قَومٌ لا يَعقِلونَ {59:14}

لڑ نہ سکیں گے تم سے سب مل کر مگر بستیوں کےکوٹ میں یا دیواروں کی اوٹ میں [۲۹] اُنکی لڑائی آپس میں سخت ہے [۳۰] تو سمجھے وہ اکھٹے ہیں اور اُنکے دل جدا جدا ہو رہے ہیں یہ اس لئے کہ وہ لوگ عقل نہیں رکھتے [۳۱]

یعنی چونکہ ان لوگوں کے دل مسلمانوں سے مرعوب اور خوفزدہ ہیں، اس لئے کھلے میدان میں جنگ نہیں کرسکتے۔ ہاں گنجان بستیوں میں قلعہ نشین ہو کر یا دیواروں اور درختوں کی آڑ میں چھپ کر لڑ سکتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے، کہ یورپ نے مسلمانوں کی تلوار سے عاجز ہو کر قسم قسم کے آتشبار اسلحہ اور طریق جنگ ایجاد کئے ہیں۔ تاہم اب بھی اگر کسی وقت دست بدست جنگ کی نوبت آجاتی ہے تو چند ہی منٹ میں دنیا { لایقاتلونکم جمیعًا الّا فی قری محصّنۃٍ اومن ورآء جدر } کا مشاہدہ کرلیتی ہے۔ باقی اس قوم کا تو کہنا ہی کیا جس کے نزدیک چھتوں پر چڑھ کر اینٹ پتھر پھینکنا اور تیزاب کی پچکاریاں چلانا ہی سب سے بڑی علامت بہادری کی ہے۔

یعنی آپس کی لڑائی میں بڑے تیز اور سخت ہیں جیسا کہ اسلام سے پہلے "اوس" و "خزرج" کی جنگ میں تجربہ ہو چکا، مگر مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی ساری بہادری اور شیخی کرکری ہوجاتی ہے۔

یعنی مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کے ظاہری اتفاق و اتحاد سے دھوکہ مت کھاؤ۔ ان کے دل اندر سے پھٹے ہوئے ہیں، ہر ایک اپنی غرض و خواہش کا بندہ، اور خیالات میں ایک دوسرے سے جدا ہے پھر حقیقی یکجہتی کہاں میّسر آسکتی ہے۔ اگر عقل ہو تو سمجھیں کہ یہ نمائشی اتحاد کس کام کا۔ اتحاد اسے کہتے ہیں جو مومنین قانتین میں پایا جاتا ہے کہ تمام اغراض و خواہشات سے یکسو ہو کر سب نے ایک اللہ کی رسی کو تھام رکھا ہے، اور ان سب کا مرنا جینا اسی خدائے واحد کے لئے ہے۔

They shall not fight against you, not even together, except in fenced townships or from behind walls. Their violence among themselves is strong; thou deemest them enjoined, whereas their hearts are diverse. That is because they are a people who reflect not.
They, that is, the Jews, will not fight against you together, [all] in a [single] body, except in fortified towns or from behind some wall (jidār: a variant reading has [plural] judur, ‘walls’), some [kind of protective] fence. Their might, their belligerence, is great among themselves. You [would] suppose them to be all together, united as a [single] body, but their hearts are disunited, scattered, contrary to supposition. That is because they are a people who have no sense;
=========================================
وَإِذا رَأَيتَهُم تُعجِبُكَ أَجسامُهُم ۖ وَإِن يَقولوا تَسمَع لِقَولِهِم ۖ كَأَنَّهُم خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ ۖ يَحسَبونَ كُلَّ صَيحَةٍ عَلَيهِم ۚ هُمُ العَدُوُّ فَاحذَرهُم ۚ قٰتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنّىٰ يُؤفَكونَ {63:4}

اور جب تم ان (کے تناسب اعضا) کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں (کیا ہی) اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو تم ان کی تقریر کو توجہ سے سنتے ہو (مگر فہم وادراک سے خالی) گویا لکڑیاں ہیں جو دیواروں سے لگائی گئی ہیں۔ (بزدل ایسے کہ) ہر زور کی آواز کو سمجھیں (کہ) ان پر بلا آئی۔ یہ (تمہارے) دشمن ہیں ان سے بےخوف نہ رہنا۔ خدا ان کو ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں
 یعنی دل تو مسخ ہو چکے ہیں لیکن جسم دیکھو تو بہت ڈیل ڈول کے، چکنے چپڑے، بات کریں تو بہت فصاحت اور چرب زبانی سے، نہایت لچھے دار کہ خواہ مخواہ سننے والا ادھر متوجہ ہو۔ اور کلام کی ظاہری سطح دیکھ کر قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ کسی نے خوب کہا ہے؎ ازبروں چوں گورکافر پرخلل واندروں قہر خدائے عزوجل ازبروں طعنہ زنی بربایزید وازدرونت ننگ میداردیزید

خشک اور بیکار لکڑی جو دیوار سے لگا کر کھڑی کردی جائے محض بیجان اور لایعقل، دیکھنے میں کتنی موٹی، مگر ایک منٹ بھی بدون سہارے کے کھڑی نہیں رہ سکتی۔ ہاں ضرورت پڑے تو جلانے کے کام آسکتی ہے۔ یہ ہی حال ان لوگوں کا ہے۔ ان کے موٹے فربہ جسم، اور تن و توش سب ظاہری خول ہیں، اندر سے خالی اور بیجان، محض دوزخ کا ایندھن بننے کے لائق۔

یعنی بزدل ، نامرد ڈرپوک، ذرا کہیں شوروغل ہو تو دل دہل جائے۔ سمجھیں کہ ہم ہی پر کوئی بلا آئی۔ سنگین جرموں اور بے ایمانیوں کی وجہ سے ہر وقت ان کے دل میں دغدغہ لگا رہتا ہے کہ دیکھیے کہیں ہماری دغابازیوں کا پردہ تو چاک نہیں ہوگیا۔ یا ہماری حرکات کی پاداش میں کوئی افتاد تو پڑنے والی نہیں۔

یعنی بڑے خطرناک دشمن یہ ہی ہیں ان کی چالوں سے ہشیار رہو۔

یعنی ایمان کا اظہار کرکے یہ بے ایمانی، اور حق و صداقت کی روشنی آچکنے کے بعد یہ ظلمت پسندی کس قدر عجیب ہے۔
And when thou beholdest them, their persons please thee: and if they speak, thou listenest to their discourse; they are as though they were blocks of wood propped up. They deem every shout to be against them. They are the enemy; so beware of them. Perish them Allah! whither are they deviating!
And when you see them, their figures please you, on account of their fairness; and if they speak, you listen to their speech, because of its eloquence. [Yet] they are, by virtue of the enormous size of their figures, [yet] in their lack of comprehension, like blocks of timber (read khushbun or khushubun) [that have been] propped-up, set reclining against a wall. They assume that every cry, made, like a battle-cry or one made to [retrieve] a lost camel, is [directed] against them, because of the [extent of] terror in their hearts, lest something should be revealed deeming their blood licit. They are the enemy, so beware of them, for they communicate your secrets to the disbelievers. May God assail them!, destroy them! How can they deviate?, how can they be turned away from faith after the proofs [for it] have been established?
=========================================
أَيَحسَبُ الإِنسٰنُ أَلَّن نَجمَعَ عِظامَهُ {75:3}

بَلىٰ قٰدِرينَ عَلىٰ أَن نُسَوِّىَ بَنانَهُ {75:4}

بَل يُريدُ الإِنسٰنُ لِيَفجُرَ أَمامَهُ {75:5}

کیا خیال رکھتا ہے آدمی کہ جمع نہ کریں گے ہم اُسکی ہڈیاں
ضرور کریں گے (اور) ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کردیں
بلکہ چاہتا ہے آدمی کہ ڈھٹائی کرے اُسکے سامنے



Deemest man that We shall not assemble his bones?
Yea! WE are Able to put together evenly his finger-tips.
Aye! man desireth that he may sin before him. 
Does man, that is, [does] the disbeliever, suppose that We shall not assemble his bones?, for the raising [from the graves] and [for] the bringing back to life.
Yes, indeed!, We shall assemble them. We are able, in addition to assembling them, to reshape [even] his fingers, that is to say, to restore their bones just as they had been, despite their smallness: so how much more so [are We able to restore] the larger ones!
Nay, but man desires to deny (li-yafjura: the lām is extra, and the subjunctive mood is because of an implied [preceding] an, ‘that’) what lies ahead of him, namely, the Day of Resurrection, as is indicated by:
==============================================
أَيَحسَبُ الإِنسٰنُ أَن يُترَكَ سُدًى {75:36}

کیا انسان خیال کرتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟

یعنی کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس کو یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ اور امرونہی کی کوئی قید اس پر نہ ہوگی؟ یا مرے پیچھے اٹھایا نہ جائے گا؟ اور سب نیک و بد کا حساب نہ لیں گے؟

Deemest man that he is to be left uncontrolled?
Was he not — that is, [indeed] he was — a drop of emitted semen? (read yumnā or tumnā) deposited into the womb.
====================================
أَيَحسَبُ أَن لَن يَقدِرَ عَلَيهِ أَحَدٌ {90:5}
يَقولُ أَهلَكتُ مالًا لُبَدًا {90:6}

أَيَحسَبُ أَن لَم يَرَهُ أَحَدٌ {90:7}



کیا وہ خیال رکھتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پائے گا
کہتا ہے کہ میں نے بہت سا مال برباد کیا

کیا اسے یہ گمان ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں



یعنی انسان جن سختیوں اور محنت و مشقت کی راہوں سے گزرتا ہے اس کا مقتضا تو یہ تھا کہ اس میں عجز و درماندگی پیدا ہوتی اور اپنے کو بستہ حکم و قضا سمجھ کر مطیع امروتابع رضا ہوتا اور ہر وقت اپنی احتیاج و افتقار کو پیش نظر رکھتا۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ بالکل بھول میں پڑا ہے۔ تو کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی ہستی ایسی نہیں جو اس پر قابو پاسکے اور اس کی سرکشی کی سزا دے سکے۔

یعنی اللہ سب دیکھ رہا ہے۔ جتنا مال جس جگہ جس نیت سے خرچ کیا ہے۔ جھوٹی شیخی بگھارنے سے کچھ فائدہ نہیں۔

یعنی رسول کی عداوت، اسلام کی مخالفت ، اور معصیت کے مواقع میں یونہی بے تکے پن سے مال خرچ کرنے کو ہنر سمجھتا ہے پھر اسے بڑھا چڑھا کر فخر سے کہتا ہے کہ میں اتنا کثیر مال خرچ کرچکا ہوں۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی میرے مقابلہ میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن آگے چل کر پتہ لگے گا کہ یہ سب خرچ کیا ہوا مال یونہی برباد گیا۔ بلکہ الٹا وبال جان ہوا۔

Deemest he that none will overpower him?
He saith: 'I have wasted riches plenteous.

Deemest he that none beholdeth him?


Does he suppose, does the strong man of Quraysh, namely, Abū’l-Ashadd b. Kalada, presume, on account of his strength, that (an: softened in place of the hardened form, its subject omitted, that is to say, annahu) no one will have power over him? Yet God has power over him.
==============================
يَحسَبُ أَنَّ مالَهُ أَخلَدَهُ {104:3}

(اور) خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کی ہمیشہ کی زندگی کا موجب ہو گا
یعنی اس کے برتاؤ سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ مال کبھی اس سے جدا نہ ہوگا۔ بلکہ ہمیشہ اس کو آفات ارضی و سماوی سے بچاتا رہیگا۔
He bethinketh that his wealth shall abide for him.
He thinks, in his ignorance, that his wealth will make him immortal, never to die.
==============================================



No comments:

Post a Comment