اخلاصِ نیت اور اصلاحِ عمل
وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ وَيُقيمُوا الصَّلوٰةَ وَيُؤتُوا الزَّكوٰةَ ۚ وَذٰلِكَ دينُ القَيِّمَةِ {98:5} |
اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل
کے ساتھ خدا کی عبادت کریں (اور) یکسو ہو کراورنماز پڑھیں اور زکوٰة دیں اور یہی
سچا دین ہے |
امام ابو حنیفہ رح روایت کرتے ہیں یحییٰ بن سعید رح سے، وہ محمد بن ابراہیم التیمی رح سے، وہ علقمہ بن وقاص الليثي رح سے، وہ حضرت عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی، چناچہ جس شخص کی ہجرت الله اور اس
کے رسول کی طرف ہو تو (وہ سمجھ لے کہ) اس کی ہجرت الله اور اس کے رسول
ہی کی طرف ہوئی، اور جس کی ہجرت حصولِ دنیا یا کسی عورت سے شادی کی خاطر ہو تو اس
کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی.
تخريج الحديث: صحيح البخاري: ١ ، ٥٤ ، ٢٣٥٧ ، ٤٧٠٩ ، ٦٢٢٥ ؛ صحيح مسلم: (٤٩٠٤)٣٥٣٧ ؛ سنن أبي داود » (٢٢٠١)١٨٨٦ ؛ جامع الترمذي » ١٥٧٠ (١٦٤٧)؛ السنن الكبرى للنسائي » ٧٦ ، ٤٦٠٧ ، ٥٤٤١ ؛ سنن ابن ماجه » ،٤٢٢٥(٤٢٢٧)؛ مسند أحمد بن حنبل » (١٦٨)١٦٦ ، ٢٩١(٢٩٣)؛ صحيح ابن خزيمة » ١٤٨(١٤٣)، ١٤٩(١٤٤)؛ ٤٤٩(٤٤٢)؛ شرح معاني الآثار للطحاوي » ٢٩٩٩ (٣٠٠٢)؛
عمل کی اصلاح کیسے ہو؟؟؟
کسی حکیم کا قول ہے کہ عمل کی اصلاح کے لئے چار (٤) چیزوں کی ضرورت ہے:
١) شروع کرنے سے پہلے علم کی(کہ یہ عمل الله تعالیٰ کی عبادات میں شامل ہے)، کیونکہ بسا اوقات بے علمی میں کوئی عمل کرلینا نقصان کا باعث ہوتا ہے.
٢) آغاز میں نیت کی، کیونکہ بغیر نیت کے عمل درست نہیں ہوسکتا. لہذا نماز و روزہ، حج و زكوة اور دوسری تمام قسم کی عبادتیں نیت کے بغیر درست نہیں ہوتیں. بس اصلاحِ عمل کے لئے آغاز میں نیت ضروری ہے.
٣) دورانِ عمل صبر کی، تاکہ عمل سکون و اطمینان سے انجام پاسکے
٤) اخلاص کی، یعنی عمل کا صرف الله کے لئے ہونا. جب عمل اخلاص سے کیا جاۓ گا الله اسے قبول فرماۓ گا اور عام مخلوق کے دلوں کو بھی اس بندہ (عابد) کی طرف پھیردے گا.
[تنبیہ الغافلین: باب # ١ -اخلاص]
**************************************
دین
ما تَعبُدونَ مِن دونِهِ إِلّا أَسماءً
سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطٰنٍ ۚ إِنِ
الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ
{12:40}
|
جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ
صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ خدا نے ان کی
کوئی سند نازل نہیں کی۔ (سن رکھو کہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے ارشاد
فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں
جانتے
|
امام ابو حنیفہ رح روایت کرتے ہیں علقمہ بن مرثد رح سے، وہ یحییٰ بن یعمر رح سے، انہوں نے کہا :کہ ایک بار میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ رسول الله کے شہر (مدینہ) میں چلا جارہا تھا کہ اچانک ہماری نگاہ حضرت عبدالله بن عمر (رضی الله عنہ) پر جا پڑی، میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کیا خیال ہے، ان کے پاس جاکر تقدیر کے متعلق سوال کریں؟ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں کہا کہ پھر سوال مجھے ہی کرنے دینا کیونکہ میں ان کی طبیعت کو زیادہ جانتا ہوں.
یحییٰ ہیں کہ پھر ہم حضرت عبدالله بن عمر (رضی الله عنہ) کے پاس پہنچے، وہاں پہنچ کر میں نے عرض کیا: اے ابو عبدالرحمٰن (یہ حضرت ابنِ عمرؓ کی کنیت تھی)! ہم لوگ زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، اس دوران بعض اوقات ہمارا ایسے شہروں میں بھی آنا جانا ہوتا ہے جہاں کے لوگ تقدیر کو نہیں مانتے، ایسے لوگوں کو ہم کیا جواب دیا کریں؟
انہوں نے فرمایا کہ میری طرف سے انھیں یہ بات پہنچادو کہ میں ان سے بیزار ہوں اور اگر مجھے کچھ مددگار میسر آگئے تو میں ان سے ضرور جہاد کروں گا. اس کے بعد حضرت عبدالله بنِ عمرؓ نے ہمیں یہ حدیث سنانا شروع کی کہ ایک مرتبہ ہم الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوتے تھے اور آپ کے پاس صحابہ کا بھی ایک گروہ تھا، اچانک سامنے سے ایک خوبصورت نوجوان آیا جس کا رنگ سفید اور بال خوبصورت تھے، اس سے انتہائی عمدہ خوشبو مہک رہی تھی اور اس نے سفید کپڑے زیب بدن کیے ہوتے تھے، اس نے (آتے ہی سلام کرتے) کہا "سلامتی ہو آپ پر اے الله کے رسول" (پھر سب کو مخاطب ہوکر) سلامتی ہو آپ سب پر"(سلام) کہا. (حضرت عمر) فرماتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے بھی سلام کا جواب دیا اور ہم نے بھی.
اس نے عرض کیا: اے الله کے رسول! کیا میں قریب ہوسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہوجاؤ چناچہ وہ ایک دو قدم آگے ہوگیا، پھر وہ ان کے سامنے تعظیماً کھڑا ہوگیا، اور دوبارہ عرض کیا: اے الله کے رسول! کیا میں قریب آسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: آجاؤ چناچہ اس مرتبہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اپنے گھٹنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملالیے اور کہنے لگا کہ مجھے "ایمان" کے بارے بتائیے؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ الله پراور اس کے فرشتوں، اس کے کتابوں اور اس کے پیغمبروں اور اس سے ملنے پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی تقدیر کے الله کی طرف سے ہونے پر یقین رکھیں، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا. حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس کے نبی کی تصدیق کرنے اور "صدقت" کہنے کہنے سے ہمیں تعجب ہوا، جیسے وہ (پہلے سے) یہ بات جانتا ہو.
پھر اس نے کہا کہ مجھے احکامِ اسلام کے بارے بتائیے کہ وہ کیا کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: نماز قائم کرنا، زكوة ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا بشرطیکہ وہاں پہنچنے کی استطاعت بھی ہو، اور رمضان کے روزے رکھنا اور غسلِ جنابت کرنا. (یہ سن کر اس نے) کہا: آپ نے سچ فرمایا. تو پھر ہمیں اس کے اس قول پر تعجب ہوا.
اس کے بعد اس نے کہا کہ مجھے "احسان" کے بارے میں کچھ بتائے کہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ آپ ہر عمل الله کے لئے اس طرح کریں کہ گویا کہ آپ الله کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ رہیں ہیں، اگر یہ تصور نہیں کر سکتے تو یہ تصور کرلیجئے کہ الله تو آپ کو دیکھ رہا ہے. اس نے پوچھا کہ اگر میں اس طرح کرنا شروع کردوں تو کیا ہم "محسن" کہلائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں. اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا.
پھر اس نے کہا کہ مجھے "قیامت" کے بارے میں بتائیے کہ وہ کب آۓ گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے یہ سوال پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی دونوں ہی کو معلوم نہیں)، البتہ قیامت کی کچھ علامات ہیں، پھر (سورہ لقمان: کی آخری آیت:٣٤ کی تلاوت فرماکر قیامت کا وقت ہمیں کیوں معلوم نہیں) فرمایا: بیشک الله ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش برستا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے دن وہ کیا کماۓ گا اور کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا، بیشک الله ئی علیم و خبیر ہے. اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا. اور واپس چلا گیا.
ہم اسے جاتے ہوتے دیکھ رہی تھے، پھر (تھوڑی در بعد) نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا اس آدمی کو میرے پاس بلاکر لانا. ہم اس کے پیچھے پیچھے گئےتو ہمیں کچھ پتا نہ چل سکا کہ وہ کہاں گیا اور ہمیں کچھ نظر نہیں آیا. ہم نے آخر سارا ماجرا نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردیا آپ نے فرمایا: یہ جبرئیل علیہ السلام تھے، تمہارے پاس دین کی بنیادی باتیں تمہیں سکھانے آۓ تھے. الله کی قسم! وہ جب بھی میرے پاس کسی بھی صورت میں آتے تھے، میں انھیں پہچان لیتا تھا، مگر اس (دفعہ کی) صورت میں. (نہ پہچان سکا)؛
تخريج الحديث: صحيح مسلم » ١٢(١١)؛ سنن أبي داود » ٤٠٧٨(٤٦٩٥)؛ السنن الكبرى للنسائي » ٥٦٨٧(٥٨٥٢)؛ مسند أحمد بن حنبل » ١٨٢(١٨٥)؛ ٣٦٥(٣٧٦)؛ ٥٦٩٨(٥٨٢٢)؛ صحيح ابن خزيمة » ٢٨٦٥(٢٨٧٠)؛المعجم الكبير للطبراني » ١٣٤١٧(١٣٥٨١)؛ سنن الدارقطني » ٢٣٧٧(٢٦٨٢)؛ مصنف ابن أبي شيبة » ٢٩٨٣٥(٣٠٩٤٦)؛
==================================
امام ابو حنیفہ رح روایت کرتے ہیں حماد رح سے، وہ ابراھیم رح سے، وہ علقمہ رح سے، وہ حضرت عبدالله بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے (کہ انہوں نے فرمایا): ایک مرتبہ حضرت جبرئیل نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایسے نوجوان کی صورت میں حاضر ہوۓ جس نے سفید لباس زیب تن کر رکھا تھا، اس نے آکر (سلام) کہا "سلامتی ہو آپ پر اۓ الله کے رسول"، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے (جواباً) فرمایا: "اور تم پر بھی (الله کی) سلامتی ہو"، پھر اس نے عرض کیا: "اے الله کے رسول! کیا میں قریب آسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: آجاؤ(چناچہ وہ قریب آگیا)؛
اب اس نے پوچھا: اے الله کے رسول! "ایمان" کیا ہے؟ فرمایا: "الله پر، اور اس کے فرشتوں پر، اور اس کی کتابوں پر، اور اس کے پیغمبروں پر، اور اچھی یا بری تقدیر (کے الله کی طرف سے ہونے) پر یقین رکھو. اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا.
اس کے بعد اس نے عرض کیا کہ یا رسول الله! احکامِ اسلام کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: نماز قائم کرنا، زكوة ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، غسلِ جنابت کرنا. اس نے پھر تصدیق کی اور ہمیں اس کی تصدیق پر تعجب ہوا.
پھر اس نے پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہر عمل الله کے لئے اس طرح کرنا کہ گویا تم اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ تصور نہ ہوسکے تو کم از کم یہی تصور کرلو کہ الله تمہیں دیکھ رہا ہے. اس نے نبی کی تصدیق کی.
پھر کہنے لگا: قیامت کب آۓ گی؟ فرمایا: جس سے سوال پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا. یہ سن کر اس نے پیٹھ فری اور چلا گیا. اس کے جانے کے بعد نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس بلاکر لاؤ، ہم نے اسے تلاش کیا لیکن ہمیں اس کا کوئی نشان نظر نہ آیا. ہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: یہ جبرئیل تھے جو تمہارے پاس اس لئے آۓ تھے کہ تمہیں تمہارے دین کی بنیادی باتیں سکھائیں.
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْقَدَرِ وَالشَّفَاعَة ...،رقم الحديث: 2]
==================================
توحید و رسالت کا بیان
امام ابو حنیفہ رح روایت کرتے ہیں عَطَاء رح سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے کی صحابہ نے ان سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبدالله بن رواحہ کی ایک باندی تھی جو ان کی بکریوں کی حفاظت و دیکھ بھال کیا کرتی تھی. انہیں نے اسے ایک خاص بکری پر توجہ دینے کا حکم دے رکھا تھا، چناچہ وہ بندی اس بکری کا زیادہ خیال رکھتی تھی، جس کی وجہ سے وہ بکری خوب صحت مند ہوگی.
ایک دیں وہ بندی دوسری بکریوں کی دیکھ بھال میں مشغول تھی کہ اچانک ایک بھیڑیا آیا اور اسی بکری کو اچک کر لے گیا اور اسے مار ڈالا، جب حضرت عبدالله گھر واپس آۓ تو بکری کو نہ پایا (بندی سے پوچھا) اس نے سارا واقعہ سنا دیا، انہوں نے غصہ میں آکر اس کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ماردیا، بعد میں انھیں اس پر ندامت ہوئی، اور انہوں نےرسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا، نبی صلی الله علیہ وسلم کو یہ بات بہت گراں گزری، آپ نے فرمایا: تم نے ایک مومن عورت کے چہرے پر مارا؟ انہوں نے کہا: یہ تو حبشن ہے، اس "ایمان" سے متعلق کچھ نہیں پتہ(وہ مومنہ نہیں ہے).
نبی صلی الله علیہ وسلم نے انھیں بلوایا اور اس سے پوچھا کہ: الله کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان میں. پھر پوچھا کہ: میں کون ہوں؟ اس نے کہا کہ: الله کے پیغمبر. رسول الله نے فرمایا: یہ مومنہ ہے اس لئے تم اسے آزاد کردو. چناچہ انہوں نے اسے آزاد کردیا.
------------
توضیح: اس حدیث پاک میں ظاہری ایمان کے لئے "زبانی اقرار" رسالت سے پہلے توحید کا ثبوت، زمینی خداؤں (بتوں) کا انکار آسمانی حقیقی واحد معبود سے کرانا مقصود تھا، ورنہ الله تعالیٰ کی ذات و تجلیات تو ہر جگہ ہے، آسمان میں بھی ہے، اوپر عرش پر بھی ہے، ہمارے ساتھ بھی ہے بلکہ ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے. اس لئے کہ الله تعالیٰ کی ذات لامحدود اور لامکان ہے. جبکہ مکان اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود "محدود" ہوتا ہے
الله تعالیٰ کہاں ہیں؟
قرآن میں ایک جگہ فرمایا؛
١) وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا. (طه:٥)؛
٢) خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔(السجده:٤، الحديد:٤)؛
اور دوسری جگہ فرمایا؛
١) مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں ہوں۔ (الحديد:٤)؛
٢)...مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں...(المجادلة:٧)؛
٣) اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں
تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول
کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک
رستہ پائیں.(البقرہ:١٨٦ )؛
٤)...اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں.(ق:١٦)؛
------------
تخريج الحديث:
خلق أفعال العباد للبخاري : ٢٦
==================================
توحید و رسالت کا بیان
:قرآن مجید
وَالَّذينَ ءامَنوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَم يُفَرِّقوا بَينَ أَحَدٍ مِنهُم أُولٰئِكَ سَوفَ يُؤتيهِم أُجورَهُم ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا {4:152}؛ | ||
اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان
سب (پیغمبروں
) میں سے کسی میں فرق نہ کیا (یعنی سب کو مان کر کسی کا انکار نہ کیا) ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں) کے صلے عطا فرمائے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
|
امام ابو حنیفہ رح روایت کرتے ہیں علقمہ (بن مرثد) رح سے، وہ (سلیمان) ابنِ بریدہؒ سے، وہ اپنے والد (حضرت حصیب رض) سے کہ ایک مرتبہ ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوۓ تھے کہ آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ : آؤ ذرا ہم اپنے اپنے یہودی ہمسایہ کی عیادت (بیمار پرسی) کر آئیں. (راوی کہتے ہیں کہ) پھر وہ (نبی) اس(کے گھر) میں داخل ہوۓ تو اسے حالتِ نزع میں پایا، آپ نے ان کا حال دریافت کرنے کے بعد فرمایا: الله کے سوا کسی معبود کے نہ ہونے اور میرے پیغمبرِ خدا ہونے کی گواہی دوں، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا لیکن اس نے کوئی بات نہیں کی، نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پھر یہی فرمایا: الله کے سوا کسی معبود کے نہ ہونے اور میرے پیغمبرِ خدا ہونے کی گواہی دوں، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، تو اس کے باپ نے کہا: اس کی شہدی دے دے، پس اس نوجوان (کلمہ پڑھتے) کہا:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ. یہ (سن کر) نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله کا شکر ہے کہ اس نے میرے ذریعہ ایک انسان کو (جہنم کی) آگ سے بچایا.
اسی مضمون کی) ایک دوسری روایت میں (یہ واقعہ اس طرح مذکور) ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا : آؤ ذرا ہم اپنے ایک یہودی پڑوسی کی عیادت کریں. (راوی نے) کہا (کہ جب آپ ان کے قریب پہنچے) تو انہوں نے اس کو حالتِ نزع میں پایا. پس آپ (صلی الله علیہ وسلم) نے (اس سے پوچھتے) فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو نہیں ہے کوئی معبود سواۓ الله کے؟ اس نے کہا جی ہاں. (پھر) آپ نے (پوچھتے) فرمایا: کیا تم اس بات کی بھی گواہی دیتے ہو کہ میں الله کا پیغمبر ہوں؟ تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، (راوی)) کہتا ہے کہ آپ نے پھر (پوچھتے اپنا کلام) دہرایا، اس حدیث میں تین بار دہرانا ہے باقی آخر تک (حدیث) اسی طرح ہے. پس اس (نوجوان یہودی مریض نے) کہا کہ : میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ الله کے پیغمبر ہیں. یہ (سن کر) نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله کا شکر ہے کہ اس نے میرے ذریعہ ایک انسان کو (جہنم کی) آگ سے بچایا.
توضیح : پڑوسی کی عیادت (بیمار پرسی) کرنا، چاہے کافر ہو، ساتھیوں کے ساتھ، دعوتِ اسلام پوچھنے کے انداز سے، کلمہ توحید "اور" رسالتِ محمدیہ کے اقرار سے (مومن ہونے پر) جہنم سے بچنے کی بشارت کا "اظہار"، کافر و مشرک کو اس کی موت تک نظرِ حقارت سے دیکھنے کی بجاۓ قبولیتِ اسلام کی امید رکھتے دعوت جاری رکھنا، دعوتی عمل کی قبولیت پر خوشی کا اظہار (عجب یعنی اپنے عمل پر ناز کرنے اور ناچنے کی بجاۓ) الله کا تعریفی ذکر سے کرنا آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق اور سنّت ہیں.
صحیح بخاری میں حضرت انس (رض) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس یہودی نوجوان کی نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ عیادت کی، وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اور کام کاج کیا کرتا تھا، جس کا نام ابن بشکول نے "عبد القدوس" نقل کیا ہے.
تخريج الحديث:
البخاری : ١٣٥٦ ، ٥٦٥٧ ؛ ابو داود : ٣٠٩٥ ؛ عمل اليوم والليلة لابن السني : ٥٤٩(٥٥٥)؛ عبدالرزاق ؛ ابن حبان : ٢٩٦٠؛ مسند احمد : ١٢٨٢٣؛ حاکم؛ مسند أبي حنيفة لابن يعقوب : ٥٢٨، ٥٢٩، ٥٦٣؛
الشواهد الحديث:
|
==============================
فطرتِ صحیحہ سلیمہ
فَأَقِم وَجهَكَ لِلدّينِ حَنيفًا ۚ فِطرَتَ اللَّهِ الَّتى فَطَرَ النّاسَ عَلَيها ۚ لا تَبديلَ لِخَلقِ اللَّهِ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ {30:30}؛ |
تو تم ایک طرف کے ہوکر دین (خدا کے رستے) پر سیدھا منہ کئے چلے جاؤ (اور) خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے |
امام ابو حنیفہ رح روایت کرتے ہیں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الْأَعْرَجِ رح سے، وہ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر بچا فطرت (صحیحہ سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے، اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی بنادیتے ہیں. کسی نے پوچھا: یا رسول الله! جو بچپن میں مرجائیں (ان کا کیا حکم ہے)؟ فرمایا کہ : انہوں نے بڑے ہوکر جو کام سرانجام دینے تھے، الله کو ان کا زیادہ علم ہے.
توضیح : فطرت یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے ہر شخص میں یہ پیدائشی استعداد رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سنے اور سمجھنا چاہے تو سمجھ میں آجاتا ہے، اس قبولیتِ حق کی پیدائشی قابلیت و استعداد میں کوئی تبدیلی نہیں، لہذا اس قابلیت و استعداد سے کام لے اور حق کو سمجھ کر عمل کرے. جو شخص والدین یا ماحول میں کسی دوسرے کے گمراہ کرنے سے سادہ طبیعت سے ہٹ کر منکرِ حق بنا، اس میں قبولیتِ حق کی "استعداد و قابلیت" بلکل ختم نہیں ہوتی، بس مغلوب و مستور ہوجاتی ہے.
کفار و مشرکین کے بچوں کا آخرت میں انجام (نیکیاں کرتے) جنت ہوگا یا (برائیاں کرتے) جہنم؟ اس کا جواب حدیث کے آخر جملہ میں دیا گیا کہ "الله ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے". لہذا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، توقف بہتر ہے.
الشواهد الحديث:
|
تقدیر پر ایمان
ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًۭا وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ شَرِيكٌۭ فِى ٱلْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍۢ فَقَدَّرَهُۥ تَقْدِيرًۭا {25:2}؛ |
وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا |
He whose is the dominion of the heavens and the earth, and who hath not taken a son, and for whom there is not an associate in the dominion, and who hath created everything, and measured it according to a measurement. |
یعنی ہر چیز کو ایک خاص اندازہ میں رکھا کہ
اس سے وہ ہی خواص و افعال ظاہر ہوتے ہیں جن کے لئے پید اکی گئ ہے۔ اپنے دائرہ سے
باہر قدم نہیں نکال سکتی نہ اپنی حدود میں عمل و تصرف کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ غرض ہر
چیز کو ایسا ماپ تول کر پیدا فرمایا کہ اسی کی فطری موزونیت کے لحاظ سے ذرا کمی
بیشی یا انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ بڑے بڑے سائنس داں حکمت کے دریا میں
غوطہ لگاتے ہیں اور آخرکار ان کو یہ ہی کہنا پڑتا ہے { صُنْعَ اللہِ الَّذِیْ
اَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ } اور { تَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ }۔ امام ابو حنیفہ رح روایت کرتے ہیں ابی زبیر رح سے، وہ حضرت جابر (رض) سے کہ حضرت سراقہ بن مالک (رض) نے پوچھتے ہوتے عرض کیا یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم! ہمیں ہمارے دین کے بارے میں ایسی بات ارشاد فرمائیے جس پر ہمیں ایسا اطمینان ہو کہ گویا یہ ہمارا پیدائشی دین ہے، کیا ہم جو کام اور عمل کرتے ہیں تقدیر ان پر چل چکی ہوتی ہے؟ اور قلم ان کو لکھ کر خشک ہو چکے ہوتے ہیں ؟ یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے ؟ نبی نے فرمایا : ہمارے اعمال ان چیزوں میں سے ہیں جن پر تقدیر چل چکی اور قلم انھیں لکھ کر خشک ہوچکے. انہوں نے عرض کیا کہ پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا کہ : تم عمل کرتے رہو اس لئے کہ ہر انسان جن کاموں کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اس کے لئے وہ کام آسان بھی کردے گۓ ہیں، چناچہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : جو شخص اپنا مال راہِ خدا میں دیتا ہے، الله سے ڈرتا ہے اور اچھی باتوں کی تصدیق کرتا ہے، ہم اس کے لئے آسانیاں مہیا کردیں گے، اور جو شخص بخل کرتا ہے، بے نیازی برتتا ہے اور اچھی باتوں کی تکذیب کرتا ہے، ہم اس کے لئے مشکلات کو مہیا کردیں گے. [ مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْقَدَرِ وَالشَّفَاعَة ...، رقم الحديث: 12 (14)] |
تخريج الحديث
|
===============================================
إِلَّا مَنْ أَتَى ٱللَّهَ بِقَلْبٍۢ سَلِيمٍۢ {26:89}؛ مگر جو کوئی آیا اللہ کے پاس لیکر دل چنگا (پاک)
إِذْ جَآءَ رَبَّهُۥ بِقَلْبٍۢ سَلِيمٍ {37:84}؛ جب وہ اپنے پروردگار کے پاس (عیب سے) پاک دل لے کر آئے
یعنی ہر قسم کے اعتقادی و اخلاقی روگ سے دل کو پاک کر کے اور دنیوی خرخشوں سے آزاد ہو کر انکسار و تواضع کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھک پڑا۔ اور اپنی قوم کو بھی بت پرستی سے باز رہنے کی نصیحت کی۔ نرے مال و اولاد کچھ کام نہ آئیں گے اگر کافر چاہے کہ قیامت میں مال و اولاد فدیہ دے کر جان چھڑا لے، تو ممکن نہیں۔ یہاں کے صدقات و خیرات اور نیک اولاد سے بھی کچھ نفع کی توقع اسی وقت ہے جب اپنا دل کفر کی پلیدی سے پاک ہو۔
عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ فِي الْإِنْسَانِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ بِهَا سَائِرُ الْجَسَدِ ، وَإِذَا سَقِمْتَ سَقِمَ بِهَا سَائِرُ الْجَسَدِ ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ " .
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الرِّقَاقِ، رقم الحديث: 474]
امام ابو حنیفہ رح روایت کرتے ہیں حسن رح سے، وہ شعبی رح سے، وہ حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انسانی جسم میں ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ اگر وہ صحیح ہوجاۓ تو سارا جسم صحیح ہوجاتا ہے، اور اگر وہ بیمار پڑ جاۓ تو سارا جسم بیمار پڑجاتا ہے، یاد رکھو! وہ ٹکڑا دل ہے؛
تخريج الحديث
|
===============================================
استغفار کی فضیلت:
تو میں نے کہا استغفار کرو (گناہ بخشواؤ) اپنے رب سے بیشک وہ ہے بخشنے والا...وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار مینہ برسائے گا۔...اور تمہارے مال اور بیٹوں میں اضافہ کرے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا۔(نوح:١٠-١٢)
ترجمہ : حضرت ابو حنیفہ رح حضرت جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی خدمات میں آکر کہنے لگا کہ اے الله کے رسول! میرے یہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی، نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے فرمایا : (تو) تم کثرت استغفار اور صدقہ (و خیرات کرنے) سے کہاں غفلت میں رہے ؟ اس کی برکت سے تمہیں اولاد نصیب ہوگی . اس آدمی نے کثرت سے صدقہ دینا اور استغفار کرنا شروع کردیا. حضرت جابر (رضی الله عنہ) کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے اس کے ہاں نو (٩) لڑکے پیدا ہوۓ.[مسند امام اعظم : حدیث # ٤٤٦]
ظالم ابھی ہے فرصت_توبہ نہ دیر کے،
وہ بھی گرا نہیں، جو گرا پھر سنبھل گیا.
ہم نے طے کیں اس طرح منزلیں،
گر پڑے، گر کر اٹھے، اٹھ کے چلے.
==============================
================================================
١) قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ - سورة المائدة آية105
اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔
[مسند احمد: جلد اول: حدیث نمبر 1, الحمیدی: ٣، ابو-داود: ٤٣٣٨، ترمذی: ٢١٦٨]
٢) حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی علیہ السلام سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا، اور جب کوئی دوسرا شخص مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اس سے اس پر قسم لیتا، جب وہ قسم کھا لیتا کہ یہ حدیث اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تب کہیں جا کر میں اس کی بات کو سچا تسلیم کرتا تھا ۔
مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرمادے گا۔
[مسند احمد: جلد اول: حدیث نمبر ٢، طیالسی : ١-٢، ابو داود: ١٥٢١، ترمذی: ٤٠٦]
No comments:
Post a Comment