یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
ترجمہ: اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ خدا کی عبادت کریں (اور) یکسو ہو کراورنماز پڑھیں اور زکوٰة دیں اور یہی سچا دین ہے۔
امام ابو حنیفہؒروایت کرتے ہیں یحییٰ بن سعیدؒ سے، وہ محمد بن ابراہیم التیمیؒ سے، وہ علقمہ بن وقاص الليثيؒ سے، وہ حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی، چناچہ جس شخص کی ہجرت الله اور اس
کے رسول کی طرف ہو تو (وہ سمجھ لے کہ) اس کی ہجرت الله اور اس کے رسول
ہی کی طرف ہوئی، اور جس کی ہجرت حصولِ دنیا یا کسی عورت سے شادی کی خاطر ہو تو اس
کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی.
کسی حکیم کا قول ہے کہ عمل کی اصلاح کے لئے چار (٤) چیزوں کی ضرورت ہے:
١) شروع کرنے سے پہلے علم کی(کہ یہ عمل الله تعالیٰ کی عبادات میں شامل ہے)، کیونکہ بسا اوقات بے علمی میں کوئی عمل کرلینا نقصان کا باعث ہوتا ہے.
٢) آغاز میں نیت کی، کیونکہ بغیر نیت کے عمل درست نہیں ہوسکتا. لہذا نماز و روزہ، حج و زكوة اور دوسری تمام قسم کی عبادتیں نیت کے بغیر درست نہیں ہوتیں. بس اصلاحِ عمل کے لئے آغاز میں نیت ضروری ہے.
٣) دورانِ عمل صبر کی، تاکہ عمل سکون و اطمینان سے انجام پاسکے
٤) اخلاص کی، یعنی عمل کا صرف الله کے لئے ہونا. جب عمل اخلاص سے کیا جاۓ گا الله اسے قبول فرماۓ گا اور عام مخلوق کے دلوں کو بھی اس بندہ (عابد) کی طرف پھیردے گا.
جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ
صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ خدا نے ان کی
کوئی سند نازل نہیں کی۔ (سن رکھو کہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے ارشاد
فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں
جانتے۔
امام ابو حنیفہؒ روایت کرتے ہیں علقمہ بن مرثدؒ سے، وہ یحییٰ بن یعمرؒ سے، انہوں نے کہا: کہ ایک بار میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ رسول الله کے شہر (مدینہ) میں چلا جارہا تھا کہ اچانک ہماری نگاہ حضرت عبدالله بن عمر (رضی الله عنہ) پر جا پڑی، میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کیا خیال ہے، ان کے پاس جاکر تقدیر کے متعلق سوال کریں؟ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں کہا کہ پھر سوال مجھے ہی کرنے دینا کیونکہ میں ان کی طبیعت کو زیادہ جانتا ہوں.
یحییٰ ہیں کہ پھر ہم حضرت عبدالله بن عمرؓ کے پاس پہنچے، وہاں پہنچ کر میں نے عرض کیا: اے ابو عبدالرحمٰن (یہ حضرت ابنِ عمرؓ کی کنیت تھی)! ہم لوگ زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، اس دوران بعض اوقات ہمارا ایسے شہروں میں بھی آنا جانا ہوتا ہے جہاں کے لوگ تقدیر کو نہیں مانتے، ایسے لوگوں کو ہم کیا جواب دیا کریں؟
انہوں نے فرمایا کہ میری طرف سے انھیں یہ بات پہنچادو کہ میں ان سے بیزار ہوں اور اگر مجھے کچھ مددگار میسر آگئے تو میں ان سے ضرور جہاد کروں گا. اس کے بعد حضرت عبدالله بنِ عمرؓ نے ہمیں یہ حدیث سنانا شروع کی کہایک مرتبہ ہم الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوتے تھے اور آپ کے پاس صحابہ کا بھی ایک گروہ تھا، اچانک سامنے سے ایک خوبصورت نوجوان آیا جس کا رنگ سفید اور بال خوبصورت تھے، اس سے انتہائی عمدہ خوشبو مہک رہی تھی اور اس نے سفید کپڑے زیب بدن کیے ہوتے تھے، اس نے (آتے ہی سلام کرتے) کہا "سلامتی ہو آپ پر اے الله کے رسول" (پھر سب کو مخاطب ہوکر) سلامتی ہو آپ سب پر"(سلام) کہا. (حضرت عمر) فرماتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے بھی سلام کا جواب دیا اور ہم نے بھی.
اس نے عرض کیا: اے الله کے رسول! کیا میں قریب ہوسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہوجاؤ چناچہ وہ ایک دو قدم آگے ہوگیا، پھر وہ ان کے سامنے تعظیماً کھڑا ہوگیا، اور دوبارہ عرض کیا: اے الله کے رسول! کیا میں قریب آسکتا ہوں؟آپ نے فرمایا: آجاؤ چناچہ اس مرتبہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اپنے گھٹنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملالیے اور کہنے لگا کہ مجھے "ایمان" کے بارے بتائیے؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ الله پراور اس کے فرشتوں، اس کے کتابوں اور اس کے پیغمبروں اور اس سے ملنے پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی تقدیر کے الله کی طرف سے ہونے پر یقین رکھیں، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا. حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس کے نبی کی تصدیق کرنے اور "صدقت" کہنے کہنے سے ہمیں تعجب ہوا، جیسے وہ (پہلے سے) یہ بات جانتا ہو.
پھر اس نے کہا کہ مجھے احکامِ اسلام کے بارے بتائیے کہ وہ کیا کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: نماز قائم کرنا، زكوة ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا بشرطیکہ وہاں پہنچنے کی استطاعت بھی ہو، اور رمضان کے روزے رکھنا اور غسلِ جنابت کرنا. (یہ سن کر اس نے) کہا: آپ نے سچ فرمایا. تو پھر ہمیں اس کے اس قول پر تعجب ہوا.
اس کے بعد اس نے کہا کہ مجھے "احسان" کے بارے میں کچھ بتائے کہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ آپ ہر عمل الله کے لئے اس طرح کریں کہ گویا کہ آپ الله کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ رہیں ہیں، اگر یہ تصور نہیں کر سکتے تو یہ تصور کرلیجئے کہ الله تو آپ کو دیکھ رہا ہے. اس نے پوچھا کہ اگر میں اس طرح کرنا شروع کردوں تو کیا ہم "محسن" کہلائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں. اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا.
پھر اس نے کہا کہ مجھے "قیامت" کے بارے میں بتائیے کہ وہ کب آۓ گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے یہ سوال پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی دونوں ہی کو معلوم نہیں)، البتہ قیامت کی کچھ علامات ہیں، پھر (سورہ لقمان: کی آخری آیت:٣٤ کی تلاوت فرماکر قیامت کا وقت ہمیں کیوں معلوم نہیں) فرمایا: بیشک الله ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش برستا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے دن وہ کیا کماۓ گا اور کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا، بیشک الله ئی علیم و خبیر ہے. اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا. اور واپس چلا گیا.
ہم اسے جاتے ہوتے دیکھ رہی تھے، پھر (تھوڑی در بعد) نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا اس آدمی کو میرے پاس بلاکر لانا. ہم اس کے پیچھے پیچھے گئےتو ہمیں کچھ پتا نہ چل سکا کہ وہ کہاں گیا اور ہمیں کچھ نظر نہیں آیا. ہم نے آخر سارا ماجرا نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردیا آپ نے فرمایا: یہ جبرئیل علیہ السلام تھے، تمہارے پاس دین کی بنیادی باتیں تمہیں سکھانے آۓ تھے. الله کی قسم! وہ جب بھی میرے پاس کسی بھی صورت میں آتے تھے، میں انھیں پہچان لیتا تھا، مگر اس (دفعہ کی) صورت میں. (نہ پہچان سکا)؛
امام ابو حنیفہؒ روایت کرتے ہیں حمادؒ سے، وہ ابراھیمؒ سے، وہ علقمہؒ سے، وہ حضرت عبدالله بن مسعودؓ سے (کہ انہوں نے فرمایا): ایک مرتبہ حضرت جبرئیل نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایسے نوجوان کی صورت میں حاضر ہوۓ جس نے سفید لباس زیب تن کر رکھا تھا، اس نے آکر (سلام) کہا "سلامتی ہو آپ پر اۓ الله کے رسول"، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے (جواباً) فرمایا: "اور تم پر بھی (الله کی) سلامتی ہو"، پھر اس نے عرض کیا: "اے الله کے رسول! کیا میں قریب آسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: آجاؤ(چناچہ وہ قریب آگیا)؛
اب اس نے پوچھا: اے الله کے رسول! "ایمان" کیا ہے؟ فرمایا: "الله پر، اور اس کے فرشتوں پر، اور اس کی کتابوں پر، اور اس کے پیغمبروں پر، اور اچھی یا بری تقدیر (کے الله کی طرف سے ہونے) پر یقین رکھو. اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا.
اس کے بعد اس نے عرض کیا کہ یا رسول الله! احکامِ اسلام کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: نماز قائم کرنا،زكوة ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، غسلِ جنابت کرنا. اس نے پھر تصدیق کی اور ہمیں اس کی تصدیق پر تعجب ہوا.
پھر اس نے پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہر عمل الله کے لئے اس طرح کرنا کہ گویا تم اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ تصور نہ ہوسکے تو کم از کم یہی تصور کرلو کہ الله تمہیں دیکھ رہا ہے. اس نے نبی کی تصدیق کی.
پھر کہنے لگا: قیامت کب آۓ گی؟ فرمایا: جس سے سوال پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا. یہ سن کر اس نے پیٹھ فری اور چلا گیا. اس کے جانے کے بعد نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس بلاکر لاؤ، ہم نے اسے تلاش کیا لیکن ہمیں اس کا کوئی نشان نظر نہ آیا. ہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: یہ جبرئیل تھے جو تمہارے پاس اس لئے آۓ تھے کہ تمہیں تمہارے دین کی بنیادی باتیں سکھائیں.
امام ابو حنیفہؒ روایت کرتے ہیں عَطَاءؒ سے کہ نبی ﷺ کے کی صحابہ نے ان سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہحضرت عبدالله بن رواحہ کی ایک باندی تھی جو ان کی بکریوں کی حفاظت و دیکھ بھال کیا کرتی تھی. انہیں نے اسے ایک خاص بکری پر توجہ دینے کا حکم دے رکھا تھا، چناچہ وہ بندی اس بکری کا زیادہ خیال رکھتی تھی، جس کی وجہ سے وہ بکری خوب صحت مند ہوگی.
ایک دیں وہ بندی دوسری بکریوں کی دیکھ بھال میں مشغول تھی کہ اچانک ایک بھیڑیا آیا اور اسی بکری کو اچک کر لے گیا اور اسے مار ڈالا، جب حضرت عبدالله گھر واپس آۓ تو بکری کو نہ پایا (بندی سے پوچھا) اس نے سارا واقعہ سنا دیا، انہوں نے غصہ میں آکر اس کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ماردیا، بعد میں انھیں اس پر ندامت ہوئی، اور انہوں نےرسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا، نبی صلی الله علیہ وسلم کو یہ بات بہت گراں گزری، آپ نے فرمایا: تم نے ایک مومن عورت کے چہرے پر مارا؟ انہوں نے کہا: یہ تو حبشن ہے، اس "ایمان" سے متعلق کچھ نہیں پتہ(وہ مومنہ نہیں ہے).
نبی صلی الله علیہ وسلم نے انھیں بلوایا اور اس سے پوچھا کہ: الله کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان میں. پھر پوچھا کہ: میں کون ہوں؟ اس نے کہا کہ: الله کے پیغمبر. رسول الله نے فرمایا: یہ مومنہ ہے اس لئے تم اسے آزاد کردو. چناچہ انہوں نے اسے آزاد کردیا.
اس حدیث پاک میں ظاہری ایمان کے لئے "زبانی اقرار" رسالت سے پہلے توحید کا ثبوت، زمینی خداؤں (بتوں) کا انکار آسمانی حقیقی واحد معبود سے کرانا مقصود تھا، ورنہ الله تعالیٰ کی ذات و تجلیات تو ہر جگہ ہے، آسمان میں بھی ہے، اوپر عرش پر بھی ہے، ہمارے ساتھ بھی ہے بلکہ ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے. اس لئے کہ الله تعالیٰ کی ذات لامحدود اور لامکان ہے. جبکہ مکان اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود "محدود" ہوتا ہے۔
الله تعالیٰ کہاں ہیں؟
قرآن میں ایک جگہ فرمایا:
١) وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا. (طه:٥)
٢) خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔(السجده:٤، الحديد:٤)
اور دوسری جگہ فرمایا:
١) مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں ہوں۔ (الحديد:٤)
٢)...مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں...(المجادلة:٧)
٣) اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں
تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول
کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک
رستہ پائیں.(البقرہ:١٨٦ )
٤)...اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں.(ق:١٦)
اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان سب(پیغمبروں)میں سے کسی میں فرق نہ کیا (یعنی سب کو مان کر کسی کا انکار نہ کیا) ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں) کے صلے عطا فرمائے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمہ: اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان
لائے یہی اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ ان کے لئے ان (کے اعمال) کا
صلہ ہوگا۔ اور ان (کے ایمان) کی روشنی۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو
جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں۔
امام ابو حنیفہؒروایت کرتے ہیں علقمہ (بن مرثد)ؒ سے، وہ (سلیمان) ابنِ بریدہؒ سے، وہ اپنے والد (حضرت حصیبؓ) سے کہایک مرتبہ ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوۓ تھے کہ آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ : آؤ ذرا ہم اپنے اپنے یہودی ہمسایہ کی عیادت (بیمار پرسی) کر آئیں. (راوی کہتے ہیں کہ) پھر وہ (نبی) اس(کے گھر) میں داخل ہوۓ تو اسے حالتِ نزع میں پایا، آپ نے ان کا حال دریافت کرنے کے بعد فرمایا: الله کے سوا کسی معبود کے نہ ہونے اور میرے پیغمبرِ خدا ہونے کی گواہی دوں، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا لیکن اس نے کوئی بات نہیں کی، نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس سے پھر یہی فرمایا: الله کے سوا کسی معبود کے نہ ہونے اور میرے پیغمبرِ خدا ہونے کی گواہی دوں، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، تو اس کے باپ نے کہا: اس کی شہدی دے دے، پس اس نوجوان (کلمہ پڑھتے) کہا:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ. یہ (سن کر) نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله کا شکر ہے کہ اس نے میرے ذریعہ ایک انسان کو (جہنم کی) آگ سے بچایا.
اسی مضمون کی (ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ اس طرح مذکور) ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا : آؤ ذرا ہم اپنے ایک یہودی پڑوسی کی عیادت کریں. (راوی نے) کہا (کہ جب آپ ان کے قریب پہنچے) تو انہوں نے اس کو حالتِ نزع میں پایا. پس آپ (صلی الله علیہ وسلم) نے (اس سے پوچھتے) فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو نہیں ہے کوئی معبود سواۓ الله کے؟ اس نے کہا جی ہاں. (پھر) آپ نے (پوچھتے) فرمایا: کیا تم اس بات کی بھی گواہی دیتے ہو کہ میں الله کا پیغمبر ہوں؟ تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، (راوی)) کہتا ہے کہ آپ نے پھر (پوچھتے اپنا کلام) دہرایا، اس حدیث میں تین بار دہرانا ہے باقی آخر تک (حدیث) اسی طرح ہے. پس اس (نوجوان یہودی مریض نے) کہا کہ : میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ الله کے پیغمبر ہیں. یہ (سن کر) نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله کا شکر ہے کہ اس نے میرے ذریعہ ایک انسان کو (جہنم کی) آگ سے بچایا.
پڑوسی کی عیادت (بیمار پرسی) کرنا، چاہے کافر ہو، ساتھیوں کے ساتھ، دعوتِ اسلام پوچھنے کے انداز سے، کلمہ توحید "اور" رسالتِ محمدیہ کے اقرار سے (مومن ہونے پر) جہنم سے بچنے کی بشارت کا "اظہار"، کافر و مشرک کو اس کی موت تک نظرِ حقارت سے دیکھنے کی بجاۓ قبولیتِ اسلام کی امید رکھتےدعوت جاری رکھنا، دعوتی عمل کی قبولیت پر خوشی کا اظہار (عجب یعنی اپنے عمل پر ناز کرنے اور ناچنے کی بجاۓ) الله کا تعریفی ذکر سے کرنا آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق اور سنّت ہیں.
صحیح بخاری میں حضرت انس (رض) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس یہودی نوجوان کی نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ عیادت کی، وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اور کام کاج کیا کرتا تھا، جس کا نام ابن بشکول نے "عبد القدوس" نقل کیا ہے۔
ترجمہ: تو تم ایک طرف کے ہوکر دین (خدا کے رستے) پر
سیدھا منہ کئے چلے جاؤ (اور) خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے
(اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا
دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
امام ابو حنیفہؒ روایت کرتے ہیں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الْأَعْرَجِؒ سے، وہ حضرت ابو ہریرہؓ سے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:ہر بچا فطرت (صحیحہ سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے، اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی بنادیتے ہیں. کسی نے پوچھا: یا رسول الله! جو بچپن میں مرجائیں (ان کا کیا حکم ہے)؟ فرمایا کہ : انہوں نے بڑے ہوکر جو کام سرانجام دینے تھے، الله کو ان کا زیادہ علم ہے۔
فطرت یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے ہر شخص میں یہ پیدائشی استعداد رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سنے اور سمجھنا چاہے تو سمجھ میں آجاتا ہے، اس قبولیتِ حق کی پیدائشی قابلیت و استعداد میں کوئی تبدیلی نہیں، لہذا اس قابلیت و استعداد سے کام لے اور حق کو سمجھ کر عمل کرے. جو شخص والدین یا ماحول میں کسی دوسرے کے گمراہ کرنے سے سادہ طبیعت سے ہٹ کر منکرِ حق بنا، اس میں قبولیتِ حق کی "استعداد و قابلیت" بلکل ختم نہیں ہوتی، بس مغلوب و مستور ہوجاتی ہے.
کفار و مشرکین کے بچوں کا آخرت میں انجام (نیکیاں کرتے) جنت ہوگا یا (برائیاں کرتے) جہنم؟ اس کا جواب حدیث کے آخر جملہ میں دیا گیا کہ "الله ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے". لہذا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، توقف بہتر ہے.
وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے
اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس
نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا
یعنی ہر چیز کو ایک خاص اندازہ میں رکھا کہ
اس سے وہ ہی خواص و افعال ظاہر ہوتے ہیں جن کے لئے پید اکی گئ ہے۔ اپنے دائرہ سے
باہر قدم نہیں نکال سکتی نہ اپنی حدود میں عمل و تصرف کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ غرض ہر
چیز کو ایسا ماپ تول کر پیدا فرمایا کہ اسی کی فطری موزونیت کے لحاظ سے ذرا کمی
بیشی یا انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ بڑے بڑے سائنس داں حکمت کے دریا میں
غوطہ لگاتے ہیں اور آخرکار ان کو یہ ہی کہنا پڑتا ہے { صُنْعَ اللہِ الَّذِیْ
اَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ } اور { تَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ }۔
امام ابو حنیفہؒ روایت کرتے ہیں ابی زبیرؒ سے، وہ حضرت جابرؓ سے کہ حضرت سراقہ بن مالکؓ نے پوچھتے ہوتے عرض کیا یا رسول الله ﷺ! ہمیں ہمارے دین کے بارے میں ایسی بات ارشاد فرمائیے جس پر ہمیں ایسا اطمینان ہو کہ گویا یہ ہمارا پیدائشی دین ہے، کیا ہم جو کام اور عمل کرتے ہیں تقدیر ان پر چل چکی ہوتی ہے؟ اور قلم ان کو لکھ کر خشک ہو چکے ہوتے ہیں ؟ یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا : ہمارے اعمال ان چیزوں میں سے ہیں جن پر تقدیر چل چکی اور قلم انھیں لکھ کر خشک ہوچکے. انہوں نے عرض کیا کہ پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا کہ :تم عمل کرتے رہو اس لئے کہ ہر انسان جن کاموں کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اس کے لئے وہ کام آسان بھی کردے گۓ ہیں، چناچہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : جو شخص اپنا مال راہِ خدا میں دیتا ہے، الله سے ڈرتا ہے اور اچھی باتوں کی تصدیق کرتا ہے، ہم اس کے لئے آسانیاں مہیا کردیں گے، اور جو شخص بخل کرتا ہے، بے نیازی برتتا ہے اور اچھی باتوں کی تکذیب کرتا ہے، ہم اس کے لئے مشکلات کو مہیا کردیں گے۔ [ مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْقَدَرِ وَالشَّفَاعَة ...، رقم الحديث: 12 (14)]
جب وہ اپنے پروردگار کے پاس (عیب سے) پاک دل لے کر آئے۔
یعنی ہر قسم کے اعتقادی و اخلاقی روگ سے دل کو پاک کر کے اور دنیوی خرخشوں سے آزاد ہو کر انکسار و تواضع کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھک پڑا۔ اور اپنی قوم کو بھی بت پرستی سے باز رہنے کی نصیحت کی۔ نرے مال و اولاد کچھ کام نہ آئیں گے اگر کافر چاہے کہ قیامت میں مال و اولاد فدیہ دے کر جان چھڑا لے، تو ممکن نہیں۔ یہاں کے صدقات و خیرات اور نیک اولاد سے بھی کچھ نفع کی توقع اسی وقت ہے جب اپنا دل کفر کی پلیدی سے پاک ہو۔
امام ابو حنیفہؒروایت کرتے ہیں حسنؒ سے، وہ شعبیؒ سے، وہ حضرت نعمان بن بشیرؓ سے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:انسانی جسم میں ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ اگر وہ صحیح ہوجاۓ تو سارا جسم صحیح ہوجاتا ہے، اور اگر وہ بیمار پڑ جاۓ تو سارا جسم بیمار پڑجاتا ہے، یاد رکھو! وہ ٹکڑا دل ہے۔
تو میں نے کہا استغفار کرو (گناہ بخشواؤ) اپنے رب سے بیشک وہ ہے بخشنے والا...وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار مینہ برسائے گا۔...اور تمہارے مال اور بیٹوں میں اضافہ کرے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا۔
امام ابو حنیفہؒ حضرت جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی نبی ﷺ کی خدمات میں آکر کہنے لگا کہ اے الله کے رسول! میرے یہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی، نبی ﷺ نے فرمایا : (تو) تم کثرت استغفار اور صدقہ (و خیرات کرنے) سے کہاں غفلت میں رہے ؟ اس کی برکت سے تمہیں اولاد نصیب ہوگی۔ اس آدمی نے کثرت سے صدقہ دینا اور استغفار کرنا شروع کردیا۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے اس کے ہاں نو (9) لڑکے پیدا ہوۓ۔
خلاصة حكم : يدل عليه الآيات [النوح : 10-12] والآثار ، وأما بهذا السياق فلم أجده ، وهو من الوحدانيات لابي حنيفة الإمام
تشریح:
1. حدیث کا تاریخی پس منظر:
یہ حدیث امام ابو حنیفہؒ نے حضرت جابر بن عبداللہؓ (صحابی رسول) سے روایت کی ہے۔
واقعہ میں ایک انصاری صحابی کا ذکر ہے جو بے اولاد تھے اور رسول اللہ ﷺ سے دعا کی درخواست کی۔
2. الفاظ کی وضاحت:
"كَثْرَةِ الِاسْتِغْفَارِ": "کثرت سے استغفار کرنا"
(یعنی "أستغفر اللہ" کہہ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور اللہ سے توبہ کرنا)
"كَثْرَةِ الصَّدَقَةِ": "کثرت سے صدقہ دینا"
(خیرات، مالی تعاون، یا کسی بھی شکل میں اللہ کی رضا کے لیے دینا)
3. حدیث کا بنیادی پیغام:
استغفار اور صدقہ رزق میں برکت کا ذریعہ ہیں:
اللہ تعالیٰ نے ان دو اعمال کو اولاد جیسے رزق کے حصول کا سبب بنایا۔
اللہ کی رضا کے لیے عمل کرنا:
انصاری صحابی نے نبی ﷺ کی ہدایت پر عمل کیا اور صرف اللہ کے لیے صدقہ و استغفار کیا۔
اللہ کا وعدہ سچا ہے:
اس شخص نے نو بیٹوں کی صورت میں اللہ کے فضل کا مشاہدہ کیا۔
قرآنی شواہد:
استغفار کی فضیلت:
سورہ نوح (71:10-12):
"تو میں نے کہا کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا، اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دے گا۔"
تعلق: استغفار سے بارش، مال اور اولاد جیسے رزق ملتے ہیں۔
صدقہ کی برکت:
سورہ البقرہ (2:261):
"جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں نکلیں۔"
تعلق: صدقہ دینے والے کو اللہ کئی گنا زیادہ عطا کرتا ہے۔
اولاد اللہ کی عطا ہے:
سورہ الشوریٰ (42:49-50):
"آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے، یا دونوں ملا دیتا ہے۔"
تعلق: اولاد اللہ کی خاص عطا ہے، جو وہ اپنے فضل سے دیتا ہے۔
دیگر احادیث سے تائید:
استغفار کے فوائد:
سنن ابن ماجہ:
"جو شخص ہمیشہ استغفار کرتا رہے، اللہ تعالیٰ اسے ہر تنگی سے نجات دے گا، ہر پریشانی سے چھٹکارا دے گا، اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو۔"
صدقہ کی اہمیت:
صحیح بخاری:
"صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔"
عملی رہنمائی:
استغفار کی عادت بنائیں:
روزانہ "أستغفر اللہ و أتوب إليه" 100 بار پڑھیں۔
صدقہ دیں:
چھوٹے یا بڑے صدقے کی عادت ڈالیں، خواہ روزانہ تھوڑی سی رقم ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ پر توکل رکھیں:
اولاد، رزق، یا کسی بھی حاجت کے لیے اللہ سے دعا کریں اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کریں۔
خلاصہ:
یہ حدیث ہمیں دو اہم اعمال (استغفار اور صدقہ) کی ترغیب دیتی ہے جو رزق میں برکت اور اولاد جیسی نعمتوں کا سبب بنتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ان دونوں چیزوں کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اس حدیث کو نقل کرنا بھی ان کے علم و عمل کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ان سنتوں پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی رحمت کے مستحق بنیں۔
ظالم ابھی ہے فرصت_توبہ نہ دیر کے،
وہ بھی گرا نہیں، جو گرا پھر سنبھل گیا.
ہم نے طے کیں اس طرح منزلیں،
گر پڑے، گر کر اٹھے، اٹھ کے چلے.
==============================
امام ابو حنیفہؒ کی تابعیت اور وحدانیات:
وحدانیات وہ احادیث ہیں جس میں نبی ﷺ تک امام صاحب کے درمیان "ایک راوی" ہو۔ یہ مرتبہ ان کے بعد کسی اور محدث کو حاصل نہیں۔
(امام ابو حنیفہ نے فرمایا:) میں سن 80 ہجری میں پیدا ہوا۔ میں نے سن 96 ہجری میں، جب میں سولہ سال کا تھا، اپنے والد کے ساتھ حج کیا۔ جب میں مسجد الحرام (کعبہ) میں داخل ہوا تو میں نے ایک حلقه (علمی مجلس) دیکھا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا: یہ کس کی مجلس ہے؟ انہوں نے کہا: یہ عبداللہ بن الحارث بن جزء رضی اللہ عنہ کی مجلس ہے جو رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں۔ میں آگے بڑھا اور میں نے انہیں یہ کہتے سنا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
"جس نے اللہ کے دین میں فقہ (گہری سمجھ) حاصل کی، اللہ تعالیٰ اس کی (دنیا و آخرت کی) تمام ضروریات کا کفیل ہو جائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔"
* امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ (80-150 ہجری) فقہ حنفی کے بانی اور ائمہ اربعہ میں سے پہلے امام ہیں۔
* امام ابو حنیفہؒ کی تابعیت: یہ حدیث بھی امام صاحب کے تابعی ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ آپ نے خود اللہ کے رسول ﷺ کو نہ صرف دیکھا، بلکہ ان سے حدیث سننے کا شرف بھی حاصل کیا۔
* وحدانی روایت یعنی وہ حدیث جس میں نبی ﷺ تک امام صاحب کے درمیان "ایک راوی" ہو، یہ مرتبہ ان کے بعد کسی اور محدث کو حاصل نہیں.
* ان کا یہ بیان ان کی پیدائش (80 ہجری) اور 16 سال کی عمر میں (96 ہجری) والد کے ساتھ پہلے حج کے موقع کا احوال ہے۔ یہ واقعہ ان کی علمی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔
* اس وقت تک بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حیات تھے یا ان کے تلامذہ زندہ تھے۔ عبداللہ بن الحارث بن جزء رضی اللہ عنہ کا تعلق انہی جلیل القدر صحابہ سے تھا۔ [حوالہ: تاریخ بغداد للخطیب البغدادی، سیر اعلام النبلاء للذہبی]
2. مسجد الحرام میں مجلس علم: * مسجد الحرام ہمیشہ سے علم و عبادت کا مرکز رہا ہے۔ حج کے موقع پر دنیا بھر کے علماء اور طلباء جمع ہوتے تھے، یہاں علمی حلقے (درس گاہیں) لگا کرتے تھے۔ * نوجوان ابو حنیفہ کا ایک "حلقه" (علمی دائرہ) دیکھنا اور اس کے بارے میں جاننا ان کی علم کے تئیں فطری دلچسپی اور جستجو کی علامت ہے۔ * ان کے والد نے انہیں بتایا کہ یہ مجلس عبداللہ بن الحارث بن جزء رضی اللہ عنہ کی ہے، جو براہ راست نبی ﷺ کے صحابی ہیں۔ یہ بات اس مجلس کی سند اور اہمیت کو چار چاند لگا دیتی ہے۔
3. صحابی عبداللہ بن الحارث بن جزء رضی اللہ عنہ: * یہ جلیل القدر صحابی رسول اللہ ﷺ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ ان کا تذکرہ کتب رجال و تاریخ میں ملتا ہے۔ * انہوں نے براہ راست نبی ﷺ سے احادیث سنیں اور آپ کی خدمت میں رہے۔ [حوالہ: الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر، اسد الغابۃ لابن الاثیر]
4. سنائی جانے والی حدیث مبارکہ کا مفہوم: * "مَنْ تَفَقَّهَ فِي دِينِ اللَّهِ": "جس نے اللہ کے دین میں فقہ حاصل کی۔" * "تفقہ" کا مطلب محض معلومات جمع کرنا نہیں، بلکہ دین اسلام (قرآن و سنت) کو گہرائی سے سمجھنا، اس کے اصولوں، احکامات، حکمتوں اور مقاصد کو جاننا ہے۔ یہ علم کی گہرائی اور سمجھ بوجھ (فہم) پر دلالت کرتا ہے۔ * "دین اللہ" سے مراد وہ دین ہے جو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے انسانیت کے لیے مکمل فرمایا۔ * "كَفَاهُ اللَّهُ مَهَمَّهُ": "اللہ تعالیٰ اس کی (دنیا و آخرت کی) تمام ضروریات کا کفیل ہو جائے گا۔" * "مھم" سے مراد وہ تمام اہم معاملات، پریشانیاں، فکریں، حاجات اور ضروریات ہیں جو انسان کو درپیش ہوتی ہیں۔ * "کفایت" کا مطلب ہے کفالت کرنا، ذمہ داری لینا، پورا کر دینا۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی دنیاوی مشکلات (رزق، صحت، تحفظ وغیرہ) اور اخروی فکروں (حساب، جہنم سے نجات، جنت کی طلب) کو بہتر طریقے سے نمٹا دے گا یا ان سے بچا لے گا۔ * "وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ": "اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔" * "رزق" صرف مال و دولت تک محدود نہیں، بلکہ ہر قسم کی روزی، برکت، علم، صحت، اولاد، اطمینان قلب اور ہر وہ نعمت شامل ہے جو انسان کی بھلائی کا باعث ہو۔ * "مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ" اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فقہ حاصل کرنے والے بندے کو ایسے ذرائع، مواقع اور راستوں سے رزق عطا فرماتا ہے جن کا اس نے کبھی تصور یا توقع بھی نہیں کی ہوتی۔ یہ اللہ کی خاص عنایت اور فضل ہوتا ہے۔
5. اس واقعہ اور حدیث کا امام ابو حنیفہؒ پر اثر: * یہ واقعہ، خاص طور پر ایک صحابی کی زبانی براہ راست سنی گئی یہ حدیث، نوجوان ابو حنیفہ کے دل پر گہرا اثر کر گئی۔ * یہ ان کی علمی زندگی کا ایک اہم محرک ثابت ہوئی۔ اس حدیث نے ان کے اندر دین کی گہری سمجھ (فقہ) حاصل کرنے کا عزم پیدا کیا۔ * انہوں نے اپنی پوری زندگی دین کی تعلیم، تفقہ اور احکام شرعیہ کو سمجھنے، سکھانے اور ان پر عمل کرنے میں صرف کر دی۔ * خود امام صاحب کی زندگی اس حدیث کی عملی تفسیر بن گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ علم، عزت، شہرت، صاحبین (امام ابو یوسف، امام محمد) جیسے شاگرد اور ایک ایسا فقہی مذہب عطا فرمایا جو آج بھی دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی رہنمائی کر رہا ہے – یہ سب ان کی توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا، "مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ" کی عملی تصویر۔
خلاصہ اور سبق: امام ابو حنیفہ کا یہ بیان نہ صرف ان کی سوانح حیات کا ایک اہم واقعہ ہے بلکہ اس میں بیان کردہ حدیث مبارکہ تمام مسلمانوں کے لیے ایک عظیم پیغام ہے:
*علم دین کی فضیلت: دین کی گہری سمجھ (فقہ) حاصل کرنا ایک عظیم عبادت اور اللہ کے نزدیک بہت پسندیدہ عمل ہے۔
*اللہ کی کفالت کا وعدہ: جو شخص خلوص نیت کے ساتھ دین سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی دنیا و آخرت کی تمام اہم ضروریات اور پریشانیوں کو دور فرما دیتا ہے۔
*غیر متوقع رزق: اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ایسے راستوں اور ذرائع سے رزق عطا فرماتا ہے جن کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ یہ رزق مادی بھی ہو سکتا ہے اور معنوی (جیسے علم، حکمت، عزت، لوگوں کی محبت) بھی۔
*نوجوانوں کے لیے مشعل راہ: نوجوان امام ابو حنیفہ کا صحابی کی مجلس علم کی طرف راغب ہونا اور حدیث سننا نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہے کہ وہ بھی علم دین حاصل کرنے کی طرف توجہ دیں۔
یہ حدیث علم دین کی اہمیت، اس کے دنیوی و اخروی فوائد اور اللہ تعالیٰ کی خاص مدد کا واضح بیان ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی زندگی اس حدیث کی زندہ تفسیر تھی۔
(امام ابو حنیفہؒ) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ کو فرماتے ہوۓ سنا کہ میں نے رسول الله ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ : جو شخص تعمیر مسجد میں حصہ لے ، اگرچہ قطاة (بھڑ، تیتر) پرندے کے گھونسلے کے برابر ہی ہو ، الله تعالیٰ اس کے لئے جنّت میں گھر بنائیں گے۔
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:13، لتدوين في أخبار قزوين للرافعي:305]
شواھد:
سنن ابن ماجهؒ:738، تحفة الأشراف: 2421، ومصباح الزجاجة: 276
صحيح البخاري:450، صحيح مسلم:533(7471)-1189-1190، جامع الترمذي318، سنن ابن ماجهؒ:736
راوی اول: امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ (80-150 ہجری)، فقہ حنفی کے امام اور ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں۔
راوی دوم: عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ، ایک جلیل القدر صحابی ہیں جو غزوہ بدر سمیت متعدد غزوات میں شریک ہوئے۔ ان سے 70 احادیث مروی ہیں۔ (حوالہ: الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب لابن عبد البر)
متن حدیث: یہ حدیث مسجد بنانے کی فضیلت بیان کرتی ہے اور اس کا تعلق اللہ کی رضا کے لیے عبادت گاہیں تعمیر کرنے کے اجر سے ہے۔
2. الفاظ کی وضاحت:
"مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا": "جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی"
یہاں "لِلَّهِ" (اللہ کے لیے) کی قید اخلاص کی طرف اشارہ کرتی ہے، یعنی مسجد صرف اللہ کی رضا کے لیے بنائی جائے، ریاکاری یا دنیاوی مفاد کے لیے نہ ہو۔
"وَلَوْ كَمِفْحَصِ قَطَاةٍ": "خواہ وہ چڑیا کے انڈے رکھنے کی جگہ کے برابر ہی ہو"
"مِفْحَصُ القَطَاةِ" وہ چھوٹا سا گڑھا یا جگہ جہاں جنگلی کبوتر یا چڑیا انڈے دیتی ہے۔ اس سے مراد انتہائی چھوٹی مسجد ہے، جیسے کوئی چھوٹا سا کمرہ یا جگہ مختص کر دے۔
"بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ": "اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا"
یہ اجر آخرت ہے، جو دنیا میں کی گئی نیکی کا بدلہ ہے۔ جنت کا گھر دنیا کے تمام محلات سے بہتر ہوگا۔
3. حدیث کی تفسیر و فوائد:
مسجد کی تعمیر کی فضیلت:
مسجد اللہ کا گھر ہے، اس کی تعمیر میں حصہ لینا بہت بڑی سعادت ہے۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی مسجد بنانے پر بھی اجر عظیم ہے، تاکہ لوگ اس نیک کام سے محروم نہ رہیں۔
اخلاص کی شرط:
مسجد صرف اللہ کی رضا کے لیے بنانی چاہیے، نام و نمود یا دنیاوی مفاد کے لیے نہیں۔ اگر ریا کاری ہو تو اجر ضائع ہو سکتا ہے۔
جنت میں گھر کا وعدہ:
جنت کا گھر دنیا کی تمام عمارتوں سے بہتر ہوگا، جیسے اللہ نے فرمایا:
"جس نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائی، اللہ اس کے لیے جنت میں اسی جیسی عمارت بنائے گا۔"
خلاصہ اور سبق:
مسجد بنانا عظیم اجر کا کام ہے، خواہ وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا ضروری ہے، دکھاوے یا دنیاوی مفاد سے بچنا چاہیے۔
جنت میں گھر کا وعدہ اس عمل کی برکت ہے، جو مومن کے لیے بہترین انعام ہے۔
مساجد کی تعمیر و حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، کیونکہ یہ دین کی نشانی ہیں۔
نتیجہ: یہ حدیث مسلمانوں کو اللہ کے لیے مساجد بنانے کی ترغیب دیتی ہے اور اس کے عظیم اجر سے آگاہ کرتی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اس حدیث کو نقل کرنا بھی ان کے علم و عمل کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
(امام ابو حنیفہؒ) فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضرت عائشہ بنت عجرد رضی الله عنہا سے یہ فرماتے کہ فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے : الله کا سب سے بڑا لشکر زمین میں " ٹڈی دل " ہے ، میں اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام قرار دیتا ہوں.
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:9، مصنف ابن أبي شيبة:24949، جزء محمد بن عبد الله الأنصاري:7-90]
شواہد:
[سنن ابن ماجه:3219، سنن أبي داود:3813-381، مسند البزار:2509، السنن الكبرى-البيهقي-ط العلمية:1899، جامع الأحاديث-السيوطي:4277]
یہاں ٹڈیوں کو فرعون اور اس کی قوم پر اللہ کے عذاب کے طور پر بھیجا گیا۔
اللہ کے لشکروں کے بارے میں:
سورہ الفتح (48:4):
"وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ"
"اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے لیے ہیں"
ٹڈیاں زمینی لشکروں میں سے ہیں۔
حلت کے اصول:
سورہ البقرہ (2:173):
"إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ..."
"اس نے تم پر صرف مردار حرام کیا ہے..."
جو چیزیں صریحاً حرام نہ ہوں، وہ حلال ہیں۔
حدیث میں حلت:
ابویعفور کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے ٹڈی کے مارنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ جنگیں کی ہیں، ہم (ان میں) ٹڈی کھاتے تھے۔
[سنن نسائي:4362، صحيح البخاري:5495-5045، سنن أبي داود:3812، سنن النسائى:4361ْ، مسندالحميدي:730]
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الْجَرَادُ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ
ٹڈیاں سمندر کے شکار میں سے ہیں۔
[سنن ابو داؤد:1853]
وضاحت:
یعنی جس طرح سمندر کا شکار محرم کے لئے جائز ہے اسی طرح ٹڈی کا شکار بھی جائز ہے
فقہی نقطہ نظر:
حنفی مسلک: امام ابو حنیفہ کے نزدیک ٹڈی حلال ہے اگر ذبح کیا جائے۔
دیگر مذاہب: بعض فقہا اسے بغیر ذبح کے بھی حلال سمجھتے ہیں۔
نبی ﷺ کا رویہ: ذاتی عدم رغبت کو شرعی حکم پر منطبق نہ کرنا۔
سائنسی حقائق:
ٹڈی دل ایک پروٹین سے بھرپور غذا ہے۔
آج بھی بعض عرب ممالک میں پسندیدہ غذا ہے۔
بڑی تعداد میں حملہ آور ہونے کی صلاحیت (فی مربع میل 5 کروڑ تک)۔
حدیث سے اخذ کردہ اسباق:
اللہ کی مخلوقات میں حکمتوں کی تفکر: ہر چیز کے وجود میں مصلحت ہے۔
شرعی احکام میں اعتدال: ذاتی ترجیحات اور شرعی احکام میں فرق۔
حلال و حرام کے اصول: جو چیز صریحاً حرام نہ ہو، وہ حلال ہے۔
خلاصہ:
یہ حدیث ہمیں اللہ کی قدرت، اس کے لشکروں کی عظمت، اور حلال و حرام کے اصولوں سے آگاہ کرتی ہے۔ امام ابو حنیفہ کا اسے نقل کرنا فقہی نقطہ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ٹڈیوں کو اللہ کے عذاب اور لشکر کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جبکہ شریعت نے انہیں حلال قرار دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کی مخلوقات میں غور وفکر کریں اور شرعی احکام کو سمجھیں۔
راوی اول: امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ (80-150 ہجری)، فقہ حنفی کے امام اور ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں۔
راوی دوم: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص اور جلیل القدر صحابی ہیں۔ ان سے 2286 احادیث مروی ہیں۔ (حوالہ: تہذیب الکمال للمزی)
متن حدیث: یہ حدیث خیر کے کاموں کی ترغیب دینے اور ان کی طرف رہنمائی کرنے کی فضیلت بیان کرتی ہے۔
2. الفاظ کی وضاحت:
"الدَّالُّ عَلَى الْخَيْرِ": "خیر کے کام کی طرف راہنمائی کرنے والا"
"دال" سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کو نیکی کی طرف راغب کرے، راستہ بتائے، یا موقع فراہم کرے۔
"خیر" سے مراد ہر وہ نیک عمل ہے جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے، چاہے وہ نماز، روزہ، صدقہ، علم دین سیکھنا یا کسی مصیبت زدہ کی مدد کرنا ہو۔
"كَفَاعِلِهِ": "خود اسے کرنے والے کے برابر"
یعنی جو شخص کسی کو نیکی کی ترغیب دے یا اس کا طریقہ سکھائے، وہ اس نیکی کو خود کرنے والے کے برابر اجر پائے گا، بشرطیکہ اس کا مقصد اللہ کی رضا ہو۔
3۔ آیات واحادیث سے تائید:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
.....میرا اجر تو صرف اللہ(رب العالمین)(جس نے مجھے پیدا کیا اس) پر ہے.....
[سورۃ یونس:72 ھود:29 (الشعراء:109)]
.....اور انہیں پورا دے گا ان کے اجر(بدلہ) اور انہیں زیادہ دے گا اپنے فضل سے.....
[سورۃ النساء:173 فاطر:30]
(1) ۔۔۔نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو۔۔۔
"جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، مفید علم، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔"
اس حدیث کے مطابق، اگر کوئی شخص کسی کو نیکی سکھائے اور وہ اس پر عمل کرتا رہے، تو سکھانے والے کو بھی مسلسل ثواب ملتا رہے گا۔
خلاصہ اور سبق:
خیر کی طرف بلانا بھی عظیم اجر کا کام ہے، اور یہ خود نیکی کرنے کے برابر ہے۔
ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کو بھی نیکی کی ترغیب دے۔
اخلاص کے ساتھ دعوت دینا ضروری ہے، ریاکاری سے بچنا چاہیے۔
معاشرے میں نیکیوں کا فروغ اسی طرح ممکن ہے جب لوگ ایک دوسرے کی مدد کریں۔
نتیجہ:
یہ حدیث ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ صرف اپنی نیکیوں پر اکتفا نہ کریں، بلکہ دوسروں کو بھی خیر کی طرف راغب کریں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اس حدیث کو نقل کرنا بھی ان کے علم و عمل کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں خیر کی دعوت دینے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
"إِغَاثَةَ": فوری مدد،救助، کسی مصیبت زدہ یا ضرورت مند کی مشکل کو دور کرنا۔
"اللَّهْفَانِ": وہ شخص جو سخت پریشانی، تکلیف یا حاجت میں گھرا ہو، بے چین اور بے قرار ہو۔
2. حدیث کا مفہوم:
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی مدد کرنا، خاص طور پر ان کی جو سخت مشکلات میں گھرے ہوں، بہت پسند ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کی محبت کا سبب بنتا ہے۔
"اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔"
5. عملی تطبیق:
ہنگامی مدد: کسی حادثے، بیماری یا قدرتی آفت میں متاثرین کی فوری مدد کرنا۔
مالی تعاون: غریبوں، یتیموں اور قرض داروں کی مالی مدد کرنا۔
جذباتی مدد: پریشان یا اداس افراد کو تسلی دینا اور ان کا ہمت بندھانا۔
علمی مدد: جہالت یا الجھن میں پڑے افراد کو صحیح رہنمائی فراہم کرنا۔
6. فوائد و ثمرات:
اللہ کی محبت: حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو پسند فرماتا ہے۔
دنیاوی و اخروی کامیابی: مدد کرنے والے کی خود اللہ مدد فرماتا ہے۔
معاشرتی ہم آہنگی: باہمی مدد سے معاشرے میں محبت اور اتحاد بڑھتا ہے۔
خلاصہ:
یہ حدیث ہمیں درس دیتی ہے کہ ہمیں ہر پریشان حال انسان کی مدد کے لیے تیار رہنا چاہیے، خواہ وہ مالی، جسمانی، یا جذباتی مدد ہو۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند فرماتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس عمل کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، اور یہ ایمان کی تکمیل کا بھی ایک ذریعہ ہے۔
امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میری پیدائش 80 ہجری میں ہوئی اور حضرت عبدالله بن انیسؓ، جو صحابی رسول ہیں، 94 ہجری میں کوفہ تشریف لاۓ، میں نے ان کی زیارت بھی کی، اور ان سے حدیث کی سماعت (سننا) بھی کی ہے، اور اس وقت میری عمر 14 سال تھی، میں نے ان سے سنا کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی چیز کی محبت تمہیں اندھا بھرا کر سکتی ہے.
"کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا، اور اللہ نے اسے جان بوجھ کر گمراہی میں ڈال دیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔"
تعلق: حدیث میں بیان کردہ "اندھا اور بہرا" ہونے کی کیفیت کی وضاحت۔
"اور میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہراتا، بے شک نفس برائی کا بہت حکم دینے والا ہے۔"
تعلق: نفسانی محبت کے خطرات سے آگاہی۔
دیگر احادیث سے تائید:
صحیح بخاری(6435) میں ہے:
"تعس عبدالدینار، تعس عبدالدرہم"
ترجمہ:
"تباہ ہو وہ بندہ جو درہم و دینار کا غلام بن جائے۔"
تعلق: مال و دولت کی محبت کے تباہ کن نتائج۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"حب الدنیا رأس كل خطيئة"
ترجمہ:
"دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔"
[مشکاۃ:5213، ذم الدنيا-ابن أبي الدنيا:90ْ، شعب الإيمان:10501، نسخة محققة: 10019]
تعلق: ناجائز محبت کے گناہ میں تبدیل ہونے کا عمل۔
عملی تطبیق:
محبت کی حدود: ہر محبت اللہ کی محبت کے تابع ہونی چاہیے۔
تنقیدی نظر: اپنے دل کے رجحانات پر تنقیدی نظر رکھنا۔
توازن: دنیاوی محبتوں میں اعتدال برتنا۔
فوائد و ثمرات:
قلبی بصیرت: باطنی بصیرت کی حفاظت۔
حق کی شناخت: حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت۔
اخروی کامیابی: اللہ کی رضا کا حصول۔
خلاصہ:
یہ حدیث ہمیں کسی بھی چیز کے ساتھ حد سے زیادہ لگاؤ کے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اس حدیث کو اپنے استاد (ایک صحابی) سے نقل کرنا اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس طرح کی محبت کو روحانی بصیرت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں اپنی تمام محبتوں کو اللہ کی محبت کے تابع رکھنا چاہیے۔
امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن اسقعؓ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ میں نے رسول الله ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ : اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار کبھی نہ کرنا ، ہو سکتا ہے الله تعالیٰ اسے عافیت دیدے اور تمہیں اس (مصیبت) میں مبتلا کردے.
[سنن ترمذي:2506، جزء القاسم بن موسى الأشيب:54، الديباج للختلي:61(1/105)، معجم ابن الأعرابي:1612، اعتلال القلوب للخرائطي:813، حديث أبي علي الشعراني:82، المعجم الكبير للطبراني:127، مسند الشاميين للطبراني:384-3379، المعجم الأوسط للطبراني:3739، أمثال الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني:201، حديث أبي الفضل الزهري:602، مسند الشهاب:917-919، حلية الأولياء لأبي نعيم:6982، الاحادیث المختارۃ-القضاعى:919، شعب الإيمان-لبيهقى:6777، مصابيح السنة-البغوي:3784، جامع الأصول-ابن الأثير:9397]
یہ حدیث نبی کریم ﷺ کا ایک اہم اخلاقی درس ہے جو مسلمانوں کو ہمدردی، اخوت اور صبر کی تلقین کرتی ہے۔ اس میں دو بڑے پہلو نمایاں ہیں:
شَماتَة (خوشی ظاہر کرنا) کی مذمت:
کسی دوسرے مسلمان بھائی کی مصیبت یا تکلیف پر خوشی ظاہر کرنا انتہائی مذموم عمل ہے۔ یہ عمل انسان کی خودغرضی، کینہ پروری اور بے حسی کو ظاہر کرتا ہے، جو اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔
اللہ کی سنتِ اِبتلا:
حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ایک اصول کی طرف اشارہ ہے کہ وہ مصیبت زدہ بندے کو شفا دے سکتا ہے اور شماتت کرنے والے کو اُسی طرح کی آزمائش میں ڈال سکتا ہے۔ یہ اُس عدلِ الٰہی کا مظہر ہے جو قرآن میں بھی بار بار بیان ہوا ہے۔
"اور اگر تم سزا دو تو اُتنی ہی دو جتنی تمہیں دی گئی تھی، لیکن اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔"
اس میں انتقامی جذبات کی بجائے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔
اخلاقی سبق:
کسی کی مصیبت پر خوشی ظاہر کرنا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔
اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ ظالم کو اُسی طرح کی آزمائش میں ڈال سکتا ہے۔
مسلمان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے دکھ میں ہمدردی کا رویہ اپنائے، کیونکہ یہی اسلامی اخوت کا تقاضا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
===========================
================================================
١) قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ - سورة المائدة آية105
اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔
٢) حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی علیہ السلام سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا، اور جب کوئی دوسرا شخص مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اس سے اس پر قسم لیتا، جب وہ قسم کھا لیتا کہ یہ حدیث اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تب کہیں جا کر میں اس کی بات کو سچا تسلیم کرتا تھا ۔
مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرمادے گا۔
No comments:
Post a Comment