Sunday, 22 April 2012

ہمارے دشمن کون؟ Who is our enemies?


نفع سے محروم کرنے اور نقصان پہنچانے والے حد سے بڑھنے والے کو "دشمن" کہتے ہیں.
اور
ہماری دنیا اور آخرت کی بھلائی دین اسلام میں ہے، سو جو بھی اس سے روکنے اور پھیرنے کا سبب بنے وہ ہمارا "دشمن" ہے.
قرآن مجید میں لفظ "دشمن" کا ذکر:




فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿٢:٣٦)

Then the Satan caused the twain to slip on account thereof, and drave them forth from that which the twain were in. And We said: get ye down, one of you an enemy unto anot her, and for you on the earth shall be a resting-place and enjoyment for a season.

Then Satan, Iblīs, caused them to slip, he caused them to be removed (fa-azallahumā: a variant reading has fa-azālahumā: he caused them to be away from it) therefrom, that is, from the Garden, when he said to them, ‘Shall I point you to the tree of eternity’ [cf. Q. 20:120], and swore to them by God that he was only giving good advice to them, and so they ate of it; and brought them out of what they were in, of bliss; and We said, ‘Go down, to earth, both of you and all those comprised by your seed; some of you, of your progeny, an enemy to the other, through your wronging one another; and in the earth a dwelling, a place of settlement, shall be yours, and enjoyment, of whatever of its vegetation you may enjoy, for a while’, [until] the time your terms [of life] are concluded.

ہمارے دشمن کون؟
پھر ہلا دیا انکو شیطان نے اس جگہ سے پھر نکالا انکو اس عزت و راحت سے کہ جس میں تھے [۵۷] اور ہم نے کہا تم سب اترو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے [۵۸] اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانا ہے اور نفع اٹھانا ہے ایک وقت تک [۵۹]

[۵۷]شجر ممنوعہ:
کہتے ہیں کہ حضرت آدمؑ اور حوا بہشت میں رہنے لگے اور شیطان کو اس کی عزت کی جگہ سے نکال دیا شیطان کو اور حسد بڑھا بالآخر مور اور سانپ سے مل کر بہشت میں گیا اور بی بی حوا کو طرح طرح سے ایسا پھسلایا اور بہکایا کہ انہوں نے وہ درخت کھا لیا اور حضرت آدمؐ کو بھی کھلایا اور ان کو یقین دلا دیا تھا کہ اس کے کھانے سے اللہ کے ہمیشہ کو مقرب ہو جاؤ گے اور حق تعالیٰ نے جو ممانعت فرمائی تھی اس کی تو جہیہ گھڑ دی۔ آئندہ یہ قصہ مفصل آئے گا۔
[۵۸]ہبوط آدم علیہ السلام:
اس خطا کی سزا میں حضرت آدمؑؐ اور حوا اور جو اولاد پیدا ہونے والی تھی سب کی نسبت یہ حکم ہوا کہ بہشت سے زمین پر جا کر رہو باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے جس کی وجہ سے تکلیفیں پیش آئیں گی ۔ بہشت دارالعصیان اور دارالعداوۃ نہیں ان امور کے مناسب دار دنیا ہے جو تمہارے امتحان کے لئے بنایا گیا ہے۔
[۵۹] یعنی دنیا میں ہمیشہ نہ رہو گے بلکہ ایک وقت معین تک وہاں رہو گے اور وہاں کی چیزوں سے بہرہ مند ہو گے اور پھر ہمارے ہی روبرو آؤ گے اور وہ وقت معین ہر ہر شخص کی نسبت تو اس کی موت کا وقت ہے اور تمام عالم کے حق میں قیامت کا۔
________________________________________
قُل مَن كانَ عَدُوًّا لِجِبريلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلىٰ قَلبِكَ بِإِذنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَيهِ وَهُدًى وَبُشرىٰ لِلمُؤمِنينَ {2:97} مَن كانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلٰئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبريلَ وَميكىٰلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلكٰفِرينَ {2:98}


Say thou: whosoever is an enemy unto Jibril, ----then verily he it is Who hath brought down this Revelation, by Allah's command, to thine heart, confirming that which went before, and a guidance and glad tidings unto the believers.Whosoever is an enemy unto Allah and His angels and His apostles and Jibril and Mikail, then verily Allah is an enemy unto the infidels.



Say, to them: ‘Whoever is an enemy to Gabriel, let him die in exasperation — he it was that brought it, the Qur’ān, down upon your heart by the leave, by the command, of God, confirming what was before it, of scriptures, a guidance, from error, and good tidings, of Paradise, for the believers.

Whoever is an enemy to God and His angels and His messengers, and Gabriel (read Jibrīl or Jabrīl, Jibra’il or Jabra’il, Jibra’īl or Jabra’īl), and Michael (Mīkāl, also read Mīkā’īl, or Mīkā’il; a supplement to malā’ikatihi, ‘His angels’, an example of the specific being supplemented to the collective) — then surely God is an enemy to the disbelievers’ (He says ‘to the disbelievers’ instead of ‘to them’ in order to point out their status).

تو کہدے جو کوئی ہووے دشمن جبریل کا سو اس نے تو اتارا ہے یہ کلام تیرے دل پر اللہ کے حکم سے کہ سچا بتانے والا ہے اس کلام کو جو اسکے پہلے ہے اور راہ دکھاتا ہے اور خوش خبری سناتا ہے ایمان والوں کو
جو کوئی ہووے دشمن اللہ کا اور اسکے فرشتوں کا اور اسکے پیغمبروں کا اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے ان کافروں کا [۱۴۵]
تفسیر:
یہود کہتے تھے کہ "جبرئیل فرشتہ اس نبی کے پاس وحی لاتا ہے اور وہ ہمارا دشمن ہے ۔ ہمارے اگلے بڑوں کو اس سے بہت تکلیفیں پہنچی۔ اگر جبرئیلؑ کے بدلے اور فرشتہ وحی لائے تو ہم محمد ﷺ پر ایمان لائیں" اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے جو کچھ ہیں اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتے جو ان کا دشمن ہے اللہ بےشک ان کا دشمن ہے۔
________________________________________
 يٰأَيُّهَا النّاسُ كُلوا مِمّا فِى الأَرضِ حَلٰلًا طَيِّبًا وَلا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ ۚ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ {2:168}؛


Mankind! eat of whatsoever is, the earth, lawful, and clean and follow not the footsteps of Satan; verily he is an enemy unto you manifest.


The following was revealed when some said that it was unlawful to take a camel that has been let loose (sawā’ib): O people, eat of what is in the earth, lawful (halālan is a circumstantial qualifier) and wholesome (tayyiban is an adjective for emphasis), that is to say, what is delicious; and follow not the steps, the ways, of Satan, meaning, what he embellishes [of temptations]; he is a manifest foe to you, whose enmity is clear;




اے لوگو کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ اور پیروی نہ کرو شیطان کی [۲۳۸] بیشک وہ تمہارا دشمن ہے صریح 



اہل عرب بت پرستی کرتے تھے اور بتوں کے نام پر سانڈ بھی چھوڑتے تھے اور اُن جانوروں سے نفع اٹھانا حرام سمجھتے تھے اور یہ بھی ایک طرح کا شرک ہے کیونکہ تحلیل و تحریم کا منصب اللہ کے سوا کسی کو نہیں اس بارہ میں کسی کی بات ماننی گویا اس کو اللہ کا شریک بنانا ہے اس لئے پہلی آیات میں شرک کی خرابی بیان فرما کر اب تحریم حلال سے ممانعت کی جاتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ زمین میں پیدا ہوتا ہے اس میں سے کھاؤ بشرطیکہ وہ شرعًا حلال و طیب ہو نہ تو فی نفسہ حرام ہو جیسے مردار اور خنزیر اور مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ (جن جانوروں پر اللہ کے سوا کسی کا نام پکارا جائے اور اس کی قربت مقصود ان جانوروں کے ذبح سے ہو) اور نہ کسی امر عارضی سے اُس میں حرمت آ گئ ہو جیسے غصب چوری رشوت سود کا مال کہ ان سب سے اجتناب ضروری ہے اور شیطان کی پیروی ہر گز نہ کرو کہ جس کو چاہا حرام کر لیا جیسے بتوں کے نام کے سانڈ وغیرہ اور جس کو چاہا حلال کر لیا جیسے مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ وغیرہ۔

________________________________________
 يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً وَلا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ ۚ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ {2:208}؛

 O Ye who believe! enter into Islam wholly, and follow not the foot steps of the Satan, verily he is unto you an enemy manifest. 

The following verse was revealed regarding ‘Abd Allāh b. Salām and his companions, who after converting to Islam still observed the Sabbath with reverence and were averse to [the consumption of] camels: O you who believe, come, all of you, into submission (read al-salm or al-silm), that is, Islam; kāffatan is a circumstantial qualifier referring to al-silm, meaning, into all of its precepts; and follow not the steps, the ways, of Satan, that is, his temptations to you by way of creating divisions; he is a manifest foe to you, one whose enmity is obvious.

 اے ایمان والو داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے [۲۲۸] اور مت چلو قدموں پر شیطان کے بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے [۳۲۹]؛


اسلام پر پورا پورا عمل کرو اور بدعت سے بچو:

پہلی آیت میں مومن مخلص کی مدح فرمائی تھی جس سے نفاق کا ابطال منظور تھا اب فرماتے ہیں کہ اسلام کو پورا پورا قبول کرو یعنی ظاہر اور باطن اور عقیدہ اور عمل میں صرف احکام اسلام کا اتباع کرو یہ نہ ہو کہ اپنی عقل یا کسی دوسرے کے کہنے سے کوئی حکم تسلیم کر لو یا کوئی عمل کرنے لگو سو اس سے بدعت کا قلع قمع مقصود ہے کیونکہ بدعت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی عقیدہ یا کسی عمل کو کسی وجہ سے مستحسن سمجھ کر اپنی طرف سے دین میں شمار کر لیا جائے مثلًا نماز اور روزہ جو کہ افضل عبادات ہیں اگر بدون حکم شریعت کوئی اپنی طرف سے مقرر کرنے لگے جیسے عید کے دن عیدگاہ میں نوافل کو پڑھنا یا ہزارہ روزہ رکھنا یہ بدعت ہو گا خلاصہ ان آیات کا یہ ہوا کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لاؤ اور بدعات سے بچتے رہو چند حضرات یہود سے مشرف با اسلام ہو ئے مگر احکام اسلام کے ساتھ احکام تورات کی بھی رعایت کرنی چاہتے تھے مثلًا ہفتہ کے دن کو معظم سمجھنا اور اونٹ کے گوشت اور دودھ کو حرام ماننا اور تورات کی تلاوت کرنا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے بدعت کا انسداد کامل فرمایا گیا۔
[۳۲۹]کہ اپنے وسوسہ سے بےاصل چیزوں کو تمہارے دلنشیں کر دیتا ہے اور دین میں بدعات کو شامل کرا کر تمہارے دین کو خراب کرتا ہے اور تم اس کو پسند کرتے ہو۔
________________________________________
وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا ۚ وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخوٰنًا وَكُنتُم عَلىٰ شَفا حُفرَةٍ مِنَ النّارِ فَأَنقَذَكُم مِنها ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم ءايٰتِهِ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ {3:103}؛


And hold ye fast, all of you, to the cord of Allah, so and separate not. And remember Allah's favour unto you in that ye were enemies and He joined your hearts together, so ye became by His favour brethren; and ye were on the brink of an abyss of the Fire and He rescued you therefrom. In this wise Allah expoundeth unto you His revelations that haply ye may remain guided.

And hold fast to, clutch, God’s bond, namely, His religion, together, and do not scatter, after submitting [to Islam]; remember God’s grace, His bestowing of favours, upon you, O companies of the Aws and the Khazraj, when you were enemies, and He brought your hearts together, through Islam, so that by His grace you became brothers, in religion and comradeship; and you were upon the brink, the edge, of a pit of fire, such that to fall into it you only had to die disbelieving; but He delivered you from it, through belief. So, just as He has made clear for you what has been mentioned, God makes clear to you His signs that you might be guided.

اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو [۱۵۳] اور یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر جب کہ تھے تم آپس میں دشمن پھر الفت دی تمہارے دلوں میں اب ہو گئے اس کے فضل سے بھائی [۱۵۴] اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے پھر تم کو اس سے نجات دی [۱۵۵] اسی طرح کھولتا ہے اللہ تم پر آیتیں تاکہ تم راہ پاؤ [۱۵۶]؛


اللہ کی رسی کو تھامے رہو:

یعنی سب مل کر قرآن کو مضبوط تھامے رہو جو خدا کی مضبوط رسی ہے یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی ہاں چھوٹ سکتی ہے۔ اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شرانگیزی میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔ اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل اختلال ہو جائے گی۔ قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرتی ہے۔ لیکن تمسک بالقرآن کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو اپنی آراء و ہواء کا تختہ مشق بنا لیا جائے بلکہ قرآن کریم کا مطلب وہ ہی معتبر ہوگا جو احادیث صحیحہ اور سلف صالحین کی متفقہ تصریحات کے خلاف نہ ہو۔
________________________________________
 وَاللَّهُ أَعلَمُ بِأَعدائِكُم ۚ وَكَفىٰ بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفىٰ بِاللَّهِ نَصيرًا {4:45}؛


And Allah is Knower of your enemies. Sufficieth Allah as a Friend and sufficieth Allah as a Helper.

God has better knowledge of your enemies, than you do, and He informs you of them in order that you avoid them. God suffices as a Protector, a Preserver of you from them, God suffices as a Helper, defending you against their plotting.


 اور اللہ خوب جانتا ہے تمہارے دشمنوں کو اور اللہ کافی ہے حمایتی اور اللہ کافی ہے مددگار [۸۱]؛



 یہودیوں کے تین گستاخانہ قول:

ان آیات میں یہود کے بعض قبائح اور ان کے مکر و فریب کا بیان ہے اور ان کی ضلالت اور کفر پر خود ان کو اور نیز دوسروں کو مطلع کرنا ہے تاکہ ان سے علیحد رہیں چنانچہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا سے لےکر ٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ تک یہود کے قبائح مذکور ہو چکے ہیں۔ بیچ میں ایک خاص مناسبت سے نشہ اور جنابت میں نماز سے ممانعت فرما کر پھر یہود کے قبائح کا بیان ہے۔ یہود کو کتاب سے کچھ حصہ ملا یعنی لفظ پڑھنے کو ملے اور عمل کرنا جو اصل مقصود تھا نہیں ملا اور گمراہی خرید کرتے ہیں یعنی پیغمبر آخرالزماں ﷺ کے حالات اور اوصاف کو دنیا کی عزت اور رشوت کے واسطے چھپاتے ہیں اور جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی دین سے پھر کر گمراہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ اے مسلمانو تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے تم ایسا ہرگز نہیں جانتے سو اللہ کے فرمانے پر اطمینان کرو اس ان سے بچو اور اللہ تعالیٰ تم کو نفع پہنچانے اور نقصان سے بچانے کے لئے کافی ہے اس لئے دشمنوں سے اس قسم کا اندیشہ مت کرو اور دین پر قائم رہو۔
________________________________________
 وَما كانَ لِمُؤمِنٍ أَن يَقتُلَ مُؤمِنًا إِلّا خَطَـًٔا ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطَـًٔا فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ إِلّا أَن يَصَّدَّقوا ۚ فَإِن كانَ مِن قَومٍ عَدُوٍّ لَكُم وَهُوَ مُؤمِنٌ فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ ۖ وَإِن كانَ مِن قَومٍ بَينَكُم وَبَينَهُم ميثٰقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ وَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ ۖ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ شَهرَينِ مُتَتابِعَينِ تَوبَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَكانَ اللَّهُ عَليمًا حَكيمًا {4:92}؛

 It is not for a believer to slay a believer except by a mischance; and whosoever slayeth a believer by mischance on him is the setting free of a believing bondman and blood-wit to be delivered to his family except that they forego. Then if he be of a people hostile unto you and is himself a believer, then the setting free of a believing bondman; and if he be of a people between man whom and you is a bond, then the bloodwit to be delivered to his family and the setting free of a believing bondman. Then whosoever findeth not the wherewithal, on him is the fasting for two months in succession: a penance from Allah. And Allah is ever Knowing, Wise. 

It is not for a believer to slay a believer, in other words, no such slaying should result at his hands, except by mistake, killing him by mistake, unintentionally. He who slays a believer by mistake, when he meant to strike some other thing, as in the case of hunting or [shooting at] trees, but then happens to strike him with what in most cases would not kill, then let him set free, let him emancipate, a believing slave (raqaba denotes nasama, ‘a person’), an obligation on him, and blood-money is to be submitted, to be paid, to his family, that is, the slain person’s inheritors, unless they remit it as a charity, to him by waiving [their claim to] it. In the Sunna this [blood-money] is explained as being equivalent to one hundred camels: twenty pregnant, twenty female sucklings, twenty male sucklings, twenty mature ones and twenty young ones [not more than five years old]; and [the Sunna stipulates] that it is incumbent upon the killer’s clan, namely, his paternal relations [and not other relatives]. They share this [burden of the blood-money] over three years; the rich among them pays half a dinar, while the one of moderate means [pays] a quarter of a dinar each year; if they still cannot meet this, then it can be taken from the treasury, and if this is not possible, then from the killer himself. If he, the slain, belongs to a people at enmity, at war, with you and is a believer, then the setting free of a believing slave, is incumbent upon the slayer, as a redemption, but no bloodmoney is to be paid to his family, since they are at war [with you]. If he, the slain, belongs to a people between whom and you there is a covenant, a treaty, as is the case with the Protected People (ahl al-dhimma), then the blood-money, for him, must be paid to his family, and it constitutes a third of the blood-money for a believer, if the slain be a Jew or a Christian, and two thirds of a tenth of it, if he be a Magian; and the setting free of a believing slave, is incumbent upon the slayer. But if he has not the wherewithal, for [setting free] a slave, failing to find one, or the means to obtain one, then the fasting of two successive months, is incumbent upon him as a redemption: here God does not mention the transition to [an alternative to fasting which is] giving food [to the needy], as in the case of [repudiating one’s wife by] zihār, something which al-Shāfi‘ī advocates in the more correct of two opinions of his; a relenting from God (tawbatan, ‘relenting’, is the verbal noun, and is in the accusative because of the implied verb).



اور مسلمان کا کام نہیں کہ قتل کرے مسلمان کو مگر غلطی سے [۱۴۶] اور جو قتل کرے مسلمان کو غلطی سے تو آزاد کرے گردن ایک مسلمان کی اور خون بہا پہنچائے اسکے گھر والوں کو مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں پھر اگر مقتول تھا ایسی قوم میں سےکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور خود وہ مسلمان تھا تو آزاد کرے گردن ایک مسلمان کی اور اگر وہ تھا ایسی قوم میں سے کہ تم میں اور ان میں عہد ہے تو خون بہا پہنچائے اس کےگھر والوں کو اور آزاد کرے گردن ایک مسلمان کی پھر جس کو میسر نہ ہو تو روزے رکھے دو مہینے کے برابر گناہ بخشوانے کو اللہ سے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے [۱۴۷] ؛




مومن کے قتل خطاء کا بیان:

اس موقع پر قتل خطاء کے احکام بیان فرمائے جاتے ہیں اور یہ کہ کلمہ اسلام کہنے والے کو قتل کرنا گناہ عظیم ہے۔ ہاں اگر غلطی سے مارا گیا تو مجبوری کی بات ہے اور اس کے احکام یہ ہیں اور اسی کے ذیل میں مجاہدین کی فضیلت اور دارکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت اور سفر اور خوف کی نماز کی کیفیت بیان فرمائی جاتی ہے۔ فائدہ قتل خطا یعنی مسلمان کو غلطی سے قتل کر دینے کی کئ صورتیں ہیں مثلًا غلطی سے مسلمان کو شکار سمجھ کر مار ڈالا یا تیر اور گولی شکار پر چلائی چوک کر کسی مسلمان کے جا لگے ایک صورت قتل خطا کی یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان کافروں میں ہو اور اس کو کوئی مسلمان کافر سمجھ کر بوجہ لاعلمی قتل کر ڈالے اور یہاں اسی صورت کا بیان فرمانا مقصود ہے مجاہدین کو یہ بات اکثر پیش آ جاتی ہے اور آیات سابقہ کے یہی مناسب ہے گو قتل خطا کی اور صورتوں کا بھی حکم یہی ہے وہ صورتیں بھی اس میں آ گئیں۔
________________________________________

وَإِذا ضَرَبتُم فِى الأَرضِ فَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَقصُروا مِنَ الصَّلوٰةِ إِن خِفتُم أَن يَفتِنَكُمُ الَّذينَ كَفَروا ۚ إِنَّ الكٰفِرينَ كانوا لَكُم عَدُوًّا مُبينًا {4:101؛


And when ye are journeying in the earth there shall be no fault in you that ye shorten the prayer if ye fear that those who disbelieve shall molest you, verily the infidels are ever unto you an avowed enemy.

And when you are going forth, travelling, in the land you would not be at fault if you shorten the prayer, by making it two [genuflexions] instead of four, if you fear that you may be afflicted by those who do not believe, that is, [if you fear] that you may be harmed [by them]: this [fear of affliction at the hands of the disbelievers] is [just intended as] an explication of the reality [of the situation] at that time and the point no longer applies. In the Sunna, it is pointed out that ‘travel’ (safar) means long-distance [travel], which is [approximately] 50 miles. God’s words ‘you would not be at fault’ should be understood as [denoting] a dispensation and not a requirement, and this is the opinion of al-Shāfi‘ī; the disbelievers are a manifest foe to you, their enmity being evident.


  1. اور جب تم سفر کرو ملک میں تو تم پر گناہ نہیں کہ کچھ کم کرو نماز میں سےاگر تم کو ڈر ہو کہ ستاویں گے تم کو کافر البتہ کافر تمہارے صریح دشمن ہیں [۱۵۶]؛

  1. تفسیر:

  1. یعنی جب تم جہاد وغیرہ کے لئے سفر کرو اور کافروں سے جو کہ تمہارے صریح دشمن ہیں اس کا خوف ہو کہ وہ موقع پا کر ستائیں گے تو نماز کو مختصر رکھو یعنی جو نماز حضر میں چار رکعت کی ہو اس کی دو رکعت پڑھو۔ {فائدہ} ہماے یہاں سفر تین منزل کا ہونا ضروری ہے اس سے کم ہوگا تو قصر جائز نہ ہو گا اور کافروں کے ستانے کاڈر اس وقت موجود تھا جب یہ حکم نازل ہوا جب یہ ڈر جاتا رہا تو اس کے بعد بھی آپ سفر میں دو رکعت ہی پڑھتے رہے اور صحابہ کو بھی اسی کی تاکید فرمائی اب ہمشہ سفر میں قصر کرنے کا حکم ہے خوف مذکور ہو یا نہ ہو اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے شکریہ کے ساتھ قبول کر لینا لازم ہے جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے۔

________________________________________
 أُولٰئِكَ هُمُ الكٰفِرونَ حَقًّا ۚ وَأَعتَدنا لِلكٰفِرينَ عَذابًا مُهينًا {4:151}؛



 These: they are the infidels in very truth, and We have gotten ready for the infidels a torment ignominious.


Those are the disbelievers truly (haqqan is the verbal noun, emphasising the content of what precedes it in the sentence); and We have prepared for the disbelievers a humiliating chastisement, namely, the chastisement of the Fire.



 ایسے لوگ وہی ہیں اصل کافر اور ہم نےتیار کر رکھا ہے کافروں کے واسطے ذلت کا عذاب[۲۱۲]؛



یہودی اصل کافر ہیں:

یہاں سے ذکر ہے یہود کا چونکہ یہود میں نفاق کا مضمون بہت تھا اور آپ کے زمانہ میں جو منافق تھے وہ یہود تھے یا یہودیوں سے ربط اور محبت رکھنے والے اور ان کے مشورہ پر چلنے والے تھے اس لئے قرآن شریف میں اکثر ان دونوں فریق کا ذکر اکٹھا فرمایا ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولوں سے منکر ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں میں فرق کرنا چاہتے ہیں یعنی اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں پر ایمان نہیں لاتے اور بعض رسولوں کو تو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے بیچ میں ایک نیا مذہب اپنے لئے نکالیں ایسے ہی لوگ اصل اور ٹھیٹ کافر ہیں ان کے لئے خواری اور ذلت کا عذاب تیار ہے۔ فائدہ اللہ کا ماننا جبھی معتبر ہے کہ اپنے زمانہ کے پیغمبر کی تصدیق کرے اور اس کا حکم مانے بدون تصدیق نبی کے اللہ کا ماننا غلط ہے اس کا اعتبار نہیں بلکہ ایک نبی کی تکذیب اللہ کی اور تمام رسولوں کی تکذیب سمجھی جاتی ہے یہود نے جب رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کی تو حق تعالیٰ اور تمام انبیاء کی تکذیب کرنے والے قرار دیے گئے اور کٹر کافر سمجھے گئے۔ 
________________________________________
 وَمِنَ الَّذينَ قالوا إِنّا نَصٰرىٰ أَخَذنا ميثٰقَهُم فَنَسوا حَظًّا مِمّا ذُكِّروا بِهِ فَأَغرَينا بَينَهُمُ العَداوَةَ وَالبَغضاءَ إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ ۚ وَسَوفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِما كانوا يَصنَعونَ {5:14}؛



 And of them who say: verily we are Nazarenes, We took a bond from them, but they have abandoned a good portion of that wherewith they were admonished. Wherefore We have occasioned enmity and hatred amongst them till the Day of Judgement, and presently Allah shall declare unto them that which they have been performing. 



And with those who say ‘We are Christians’ (this is semantically connected to [what follows]) We made a covenant, just as We did with the Children of Israel, the Jews, and they have forgotten a portion of that they were reminded of, in the Gospel, pertaining to faith and other matters, and they [too] broke the covenant. So We have stirred up, We have caused, among them enmity and hatred until the Day of Resurrection, on account of their schisms and differing whims, each sect charging the other with unbelief; and God will assuredly tell them, in the Hereafter, of what they wrought, and requite them for this.


 اور وہ جو کہتے ہیں اپنے کو نصاریٰ [۶۶] ان سے بھی لیا تھا ہم نے عہد ان کا پھر بھول گئے نفعع اٹھانا اس نصیحت سے جو انکو کی گئ تھی [۶۷] پھر ہم نے لگا دی آپس میں انکی دشمنی اور کینہ [۶۸] قیامت کے دن تک [۶۹] اور آخر جتا دے گا ان کو اللہ جو کچھ کرتے تھے [۷۰] ؛




لفظ نصاریٰ کی تشریح:

"نصاریٰ" کا ماخذ یا تو "نصر" ہے جس کے معنی مدد کرنے کے ہیں اور یا "ناصرہ" کی طرف نسبت ہے۔ جو ملک شام میں اس بستی کا نام ہے جہاں حضرت مسیحؑ رہے تھے۔ اسی لئے ان کو "مسیح ناصری" کہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے کو "نصاریٰ" کہتے تھے وہ گویا اس بات کے مدعی تھے کہ ہم خدا کے سچے دین اور پیغمبروں کے حامی و ناصر اور حضرت "مسیح ناصری" کے متبع ہیں اس زبانی دعوے اور لقبی تفاخر کے باوجود دین کے معاملہ میں جو رویہ تھا وہ آگے ذکر کیا گیا ہے۔
________________________________________


 وَقالَتِ اليَهودُ يَدُ اللَّهِ مَغلولَةٌ ۚ غُلَّت أَيديهِم وَلُعِنوا بِما قالوا ۘ بَل يَداهُ مَبسوطَتانِ يُنفِقُ كَيفَ يَشاءُ ۚ وَلَيَزيدَنَّ كَثيرًا مِنهُم ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ طُغيٰنًا وَكُفرًا ۚ وَأَلقَينا بَينَهُمُ العَدٰوَةَ وَالبَغضاءَ إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ ۚ كُلَّما أَوقَدوا نارًا لِلحَربِ أَطفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسعَونَ فِى الأَرضِ فَسادًا ۚ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ المُفسِدينَ {5:64}؛




 And the Jews say: the hand of God is fettered. Fettered be their own hands, and cursed be they for that which they have said! Aye! His both hands are wide open. He expendeth howsoever He listeth. And surely that which hath been sent down to thee from thy Lord increaseth many of them in exorbitance and infidelity. And We have cast among them enmity and spite till the Day of Judgement: so oft as they kindle the fire of War Allah extinguisheth it, and they strive after corruption in the land, and Allah approveth not the corrupters. 



The Jews said, when their circumstances became straitened, on account of their denial of the Prophet (s), after having been the wealthiest of people: ‘God’s hand is fettered’, withholding the sending forth of provision upon us — this was their metaphor for niggardliness — may God be exalted above this. God, exalted be He, says: Fettered be, withheld be, their hands, from the performance of good deeds, as an invocation against them; and they are cursed for what they have said. Nay, but His hands are extended out wide — a hyperbole for the attribute of generosity — the use of [yadā] the dual for yad, ‘hand’, is intended to imply abundance, since the utmost that an affluent person can give freely of his wealth is when he gives it with both hands. He expends how He will, in giving abundantly or straitening, and there can be no objection to this. And what has been revealed to you from your Lord, of the Qur’ān, will surely increase many of them in insolence and disbelief, because of their [very] disbelief in it; and We have cast between them enmity and hatred until the Day of Resurrection, and so every sect among them is opposed to the other. Every time they light the fires of war, that is, for war against the Prophet (s), God extinguishes them, that is, every time they desire it [war], He repels them. And they hasten about the earth in corruption, that is, [they hasten about] corrupting, through acts of disobedience, and God does not love corrupters, meaning that He will punish them.



 اور یہود کہتے ہیں اللہ کا ہاتھ بند ہو گیا [۱۸۰] انہی کے ہاتھ بند ہو جاویں [۱۸۱] اور لعنت ہےانکو اس کہنے پر بلکہ اس کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں [۱۸۲] خرچ کرتا ہے جس طرح چاہے [۱۸۳] اور ان میں بہتوں کو بڑھے گی اس کلام سے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے شرارت اور انکار [۱۸۴] اور ہم نے ڈال رکھی ہے ان میں دشمنی اور بیر قیامت کے دن تک [۱۸۵] جب کبھی آگ سلگاتے ہیں لڑائی کے لئے اللہ اس کو بجھا دیتا ہے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرتے ہوئے اور اللہ پسند نہیں کرتا فساد کرنے والوں کو [۱۸۶]؛ 



حق تعالیٰ کی شان میں یہودیوں کی گستاخیاں:

نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت اہل کتاب کے قلوب انکی شرارت، کفر و طغیان، بدکاری، حرامخوری وغیرہ کی ممارست سے اس قدر مسخ ہو گئے تھے کہ بارگاہ ربوبیت میں گستاخی کرنے سے بھی ان کو کچھ باک نہ ہوتا تھا خداوند قدوس کا رتبہ انکے یہاں ایک معمولی انسان کی حیثیت سے زیادہ نہ رہا تھا۔ حق تعالیٰ کی جناب میں بےتکلف ایسے واہی تباہی کلمات بک دیتے تھے جنہیں سنکر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ کبھی کہتے "ان اللہ فقیر و نحن اغنیاء" کبھی یہ الفاظ منہ سے نکالتے "یداللہ مغلولۃ" (خدا کا ہاتھ بند ہو گیا) اس سے مراد یا تو وہ ہی ہو گی جو "ان اللہ فقیر" سے تھی کہ خدا معاذ اللہ تنگدست ہو گیا۔ اس کے خزانہ میں کچھ رہا نہیں اور یا "غل ید" کنایہ بخل و امساک سے ہو یعنی تنگدست تو نہیں مگر آج کل بخل کرنے لگا ہے (العیاذ باللہ) بہرحال کوئی معنی لو اس کلمہ کفر کا منشاء یہ تھا کہ جب تمرد و طغیان کی پاداش میں حق تعالیٰ نے ان ملاعین پر ذلت و نکبت، ضیق عیش، بدحالی اور تنگ میدانی مسلط فرما دی تو بجائے اس کے کہ اپنی سیہ کاریوں اور شرارتوں پر متنبہ اور نادم ہو تے الٹے حق تعالیٰ کی جناب میں گستاخیاں کرنے لگے۔ شاید یہ خیال ہوا ہو گا کہ ہم تو پیغمبروں کی اولاد بلکہ خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے تھے۔ پھر یہ کیا معاملہ ہونے لگا کہ آج بنی اسمٰعیلؑ تو دنیا میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ زمینی فتوحات اور آسمانی برکات ان پر کشادہ کر دی گئ ہیں اور ہم بنی اسرائیل کہ خدا صرف ہمارا اور ہم اس کے تھے۔ اس طرح ذلیل و مغلوب اور تنگ حال ہو کر دربدر بھٹکتے پھرتے ہیں۔ ہم تو وہ ہی اسرائیل کی اولاد اور "ابناء اللہ و احباءہ" آج بھی ہیں جو پہلے تھے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ جس خدا کی ہم اولاد اور محبوب تھے (معاذ اللہ) اس کے خزانے میں کمی آ گئ یا آج کل بخل و امساک نے اس کا ہاتھ بند کر دیا ہے۔ احمق اتنا تو نہ سمجھے کہ حق تعالیٰ کے خزائن تو لامحدود اور اس کے کمالات غیر متبدل اور غیر متناہی ہیں۔ اگر معاذ اللہ اس کے خزانہ میں کچھ نہ رہتا یا مخلوق کی تربیت و اعانت سے وہ ہاتھ کھینچ لیتا تو دنیا کا نظام کس طرح قائم رہ سکتا تھا اور جو روز افزوں عروج و فروغ پیغمبر ﷺ اور ان کے رفقا کا تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ یہ کس کے خزانہ اور دست کرم کا رہین منت ہوتا۔ لہذا تم کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا ہاتھ بند نہیں ہوا البتہ گستاخیوں اور شرارتوں کی نحوست سے خدا کی جو لعنت اور پھٹکار تم پر پڑی ہے اس نے تمہارے حق میں خدا کی زمین باوجود وسعت کے تنگ کر دی ہے اور آیندہ اور زیادہ تنگ ہونے والی ہے۔ اپنی تنگ حالی کو خدا کی تنگ دستی سے منسوب کرنا تمہاری انتہائی سفاہت ہے۔
[۱۸۱]یہ دعا کے رنگ میں پیشین گوئی یا ان کی حالت واقعی کی خبر دی گئ ہے۔ چنانچہ واقع میں بخل و جبن نے ان کے ہاتھ بالکل بند کر دیے تھے۔
[۱۸۲]حق تعالیٰ کے اعضائے جسمانی کی نسبت:
حق تعالیٰ کے لئے جہاں ہاتھ پاؤں، آنکھ وغیرہ نعوت ذکر کی گئ ہیں ان سے بھول کر بھی یہ وہم نہ ہونا چاہئےکہ وہ معاذا للہ مخلوق کی طرح جسم اور اعضائے جسمانی رکھتا ہے۔ بس جس طرح خدا کی ذات اور وجود، حیات، علم وغیرہ تمامی صفات کی کوئی نظیر اور مثال اور کیفیت اس کے سوا بیان نہیں ہو سکتی ؂ اے برتر از خیال و قیاس و گمان و وہم و زہر چہ گفتہ اند شنیدیم و خواندہ ایم منزل تمام گشت و بپایاں رسید عمر ماہمچناں در اول وصف تو ماندہ ایم اسی طرح ان نعوت و صفات کو خیال کرو۔ خلاصہ یہ کہ جیسے خدا کی ذات بےچون و بیچگون ہے۔ اس کے سمع، بصر، ید وغیرہ نعوت و صفات کے معانی بھی اس کی ذات اور شان اقدس کے لائق اور ہمارےکیف و کم اور تعبیر و بیان کےاحاطہ سے بالکل وراء الوراء ہیں لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (شوریٰ۔۱۱) حضرت شاہ عبدالقادرؒ نے ان آیات پر جو فائدہ لکھا ہے اس میں دو ہاتھوں سےمراد"مہر " کا اور "قہر" کا ہاتھ لیا ہے۔ یعنی آج کل خدا کی مہر کا ہاتھ "امت محمدیہ" پر اور قہر کا بنی اسرائیل پر کھلا ہوا ہے۔ جیسا کہ اگلی آیتوں میں اشارہ فرمایا۔
[۱۸۳]یعنی اس کو وہ ہی خوب جانتا ہے کہ کس وقت کس پر کس قدر خرچ کیا جائے۔ کبھی ایک وفادار کو امتحان یا اصلاح حال کی غرض سے تنگی اور عسرت میں مبتلا کر دیتا ہے اور کبھی اس کی وفاداری کےصلہ میں نعمائے آخرت سے پہلے دنیوی برکات کے دروازے بھی کھول دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل ایک مجرم متمرد پر کبھی آخرت کی سزا سے پہلے تنگ حالی، ضیق عیش اور مصائب و آفات دنیوی کی سزا بھیجتا ہے۔ اور کسی وقت دنیوی سازوسامان کو فراغ کر کے مزید مہلت دیتا ہے کہ یا خدا کے احسانات سے متاثر ہو کر اپنے فسق و فجور پر کچھ شرمائے اور یا اپنی شقاوت کا پیمانہ پوری طرح لبریز کر کے انتہائی سزا کا مستحق ہو ان مختلف احوال و اغراض اور متنوع حکمتوں کی موجودگی میں کسی شخص کے مقبول و مردود ہونے کا فیصلہ خدا کی اطلاع یا قرائن و احوال خارجیہ کی بناء پر کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ایک چور کا ہاتھ کاٹا جائے، یا ڈاکٹر کسی مریض کا ہاتھ کاٹے، دونوں کی نسبت ہم احوال خارجہ اور قرائن سے سمجھ لیتے ہیں کہ ایک بطور سزا اور دوسرا ازراہ شفقت و علاج کاٹا گیا ہے۔
[۱۸۴]ان کی گستاخی کا جواب دیا جا چکا ہے لیکن قرآن کے ایسے حکیمانہ جوابات سے ان معاندین اور سفہاء کو تسکین نہیں ہو گی بلکہ یہ کلام الہٰی سن کر شرارت اور انکار میں اور زیادہ ترقی کریں گے۔ اگر غذائے صالح ایک بیمار کے معدہ میں پہنچ کر اس کے مرض کو زیادہ کر دیتی ہےتو اس میں غذا کا قصور نہیں۔ مریض کے مزاج کی خرابی ہے۔
[۱۸۵]اگرچہ قریب میں خاص یہود کا مقولہ نقل کیا تھا۔ لیکن اَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ سے مراد غالبًا وہ اور ان کے بھائی بند سب ہیں یعنی یہود و نصاریٰ سب اہل کتاب کا حال بیان فرمایا ہے جیسا کہ پہلے اسی سورۃ میں گذر چکا اور اگلی آیت میں بھی سب اہل کتاب کو خطاب فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جوں جوں ان کی شرارت اور انکار کو ترقی ہو گی اسی قدر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور منصوبے گانٹھیں گے اور لڑائی کی آگ سلگانے کےلئے تیار ہوں گے۔ لیکن ان کے آپس میں پھوٹ پڑ چکی ہے جو مٹ نہیں سکتی۔ اس سبب سے اسلامی برادری کے خلاف ان کی جنگی تیاریاں کامیاب نہیں ہوئیں۔
[۱۸۶]اہل کتاب کی فتنہ پروری:
اس سے معلوم ہوا کہ اہل اسلام میں جب تک باہمی محبت اور اخوت مستحکم رہے گی اور رشد و صلاح کے طریق پر گامزن ہو کر فتنہ اور فساد سے مجتنب رہنے کا اہتمام رہے گا جیسا کہ صحابہؓ میں تھا۔ اس وقت تک اہل کتاب کی سب کوششیں ان کے مقابلہ میں بیکار ثابت ہوں گی۔
________________________________________
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النّاسِ عَدٰوَةً لِلَّذينَ ءامَنُوا اليَهودَ وَالَّذينَ أَشرَكوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقرَبَهُم مَوَدَّةً لِلَّذينَ ءامَنُوا الَّذينَ قالوا إِنّا نَصٰرىٰ ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّ مِنهُم قِسّيسينَ وَرُهبانًا وَأَنَّهُم لا يَستَكبِرونَ {5:82}؛


Surely thou wilt find the Jews and those who associate the bitterest of mankind in enmity toward those who believe. And surely thou wilt find the highest in affection to those who believe those who say: we are Nazarenes. That is, because among them are divines and monks and because they are not stiff-necked.


You, O Muhammad (s), will truly find the most hostile of people to those who believe to be the Jews and the idolaters, of Mecca, because of the intensity of their disbelief, ignorance and utter preoccupation with following whims; and you will truly find the nearest of them in love to those who believe to be those who say ‘Verily, we are Christians’; that, nearness of theirs in love to the believers is, because some of them are priests, scholars, and monks, devout worshippers, and because they are not disdainful, of following the truth, as the Jews and the Meccans are.


تو پاوے گا سب لگوں سے زیادہ دشمن مسلمانوں کا یہودیوں کو اور مشرکوں کو اور تو پاوے گا سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں کے ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس واسطے کہ نصاریٰ میں عالم ہیں اور درویش ہیں اور اس واسطے کہ وہ تکبر نہیں کرتے
________________________________________
 إِنَّما يُريدُ الشَّيطٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَدٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ وَالمَيسِرِ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلوٰةِ ۖ فَهَل أَنتُم مُنتَهونَ {5:91} ؛


 Satan only seeketh to breed animosity and spites among you by means of wine and gambling and would keep you from the remembrance of Allah and from prayer; will ye not then desist?

Satan desires only to precipitate enmity and hatred between you through wine and games of chance, when you partake of them, because of the evil and discord that result therefrom; and to bar you, by your being preoccupied with them, from the remembrance of God and from prayer — He has specifically mentioned it [prayer] so as to magnify it. So will you then desist?, from partaking of them? In other words: Desist!


شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ڈالے تم میں دشمنی اور بیر بذریعہ شراب اور جوئے کے اور روکےتم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے سو اب بھی تم باز آؤ گے [۲۲۵]؛



شیطانی کام:

شراب پی کر جب عقل جاتی رہتی ہے تو بعض اوقات شرابی پاگل ہو کر آپس میں لڑ پڑتے ہیں حتیٰ کہ نشہ اترنےکے بعد بھی بعض دفعہ لڑائی کا اثر باقی رہتا ہے اور باہمی عداوتیں قائم ہو جاتی ہیں۔ یہ ہی حال بلکہ کچھ بڑھ کر جوئے کا ہے اس میں ہارجیت پر سخت جھگڑے اور فساد برپا ہوتے ہیں۔ جس سے شیطان کو اودھم مچانے کا خوب موقع ملتا ہے۔ یہ تو ظاہری خرابی ہوئی او رباطنی نقصان یہ ہے کہ ان چیزوں میں مشغول ہو کو انسان خدا کی یاد اور عبادت الہٰی سے بالکل غافل ہو جاتا ہے اس کی دلیل مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ شطرنج کھیلنے والوں ہی کو دیکھ لو۔ نماز تو کیا کھانے پینے اور گھر بارکی بھی خبر نہیں رہتی۔ جب یہ چیز اس قدر ظاہری و باطنی نقصانات پر مشتمل ہے تو کیا ایک مسلمان اتنا سن کر بھی باز نہ آئے گا۔




وَقُل لِعِبادى يَقولُوا الَّتى هِىَ أَحسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيطٰنَ يَنزَغُ بَينَهُم ۚ إِنَّ الشَّيطٰنَ كانَ لِلإِنسٰنِ عَدُوًّا مُبينًا {17:53}
اور کہہ دے میرے بندوں کہ بات وہی کہیں جو بہتر ہو شیطان جھڑپ کرواتا ہے ان میں شیطان ہے انسان کا دشمن صریح [۸۰]
مشرکین کی جہالت اور طعن و تمسخر کو سن کر ممکن تھا کوئی مسلمان نصیحت و فہمائش کرتے وقت تنگدلی برتنے لگے اور سختی پر اتر آئے اس لئے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ مذاکرہ میں کوئی سخت دل آزار اور اشتعال انگیر پہلو اختیار نہ کریں۔ کیونہ اس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے۔ شیطان دوسرے کو ابھار کر لڑائی کرا دیتا ہے۔ پھر مخاطب کے دل میں ایسی ضد و عداوت قائم ہو جاتی ہے کہ سمجھتا ہو تب بھی نہ سمجھے۔
________________________________________
وَكَذٰلِكَ جَعَلنا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيٰطينَ الإِنسِ وَالجِنِّ يوحى بَعضُهُم إِلىٰ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا ۚ وَلَو شاءَ رَبُّكَ ما فَعَلوهُ ۖ فَذَرهُم وَما يَفتَرونَ {6:112}؛
And in this wises have we appointed unto every prophet an enemy-- Satans of men and of genii inspiring to each other gilded speech as a delusion. And had thy Lord willed, they could not have done so; wherefore let thou alone if them and that which they fabricate.



And so We have appointed to every Prophet an enemy, just as We have appointed these your enemies (and this [‘adūwwan, ‘an enemy’, is substituted by [the following, shayātīn, ‘devils’]) devils, the rebels, of mankind and jinn who inspire, whisper, fine speech to each other, the falsehood that is disguised as such [fine speech], in delusion, that is, in order to delude them; yet, had your Lord willed, they would never have done it, that mutual inspiration. So leave them, let the disbelievers be, with what they fabricate, of disbelief and otherwise, of what has been adorned for them — this was [revealed] before the command to fight [them].


اور اسی طرح کر دیا ہم نے [۱۵۶] ہر نبی کے لئے دشمن شریر آدمیوں کو اور جنوں کو جو کہ سکھلاتے ہیں ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی باتیں فریب دینے کے لئے اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ لوگ یہ کام نہ کرتے سو تو چھوڑ دے وہ جانیں اور انکا جھوٹ [۱۵۷]؛


[۱۵۶]فرمائشی معجزات کا مطالبہ اور اس کا جواب:

یعنی پیدا کر دیا ہم نے۔
[۱۵۷]خیر و شر کے وجود میں حکمت ہے:
چونکہ خدا کی حکمت بالغہ تکوینًا اسی کو مقتضی ہے کہ نظام عالم کو جب تک قائم رکھنا منظور ہے خیرو شر کی قوتوں میں سے کوئی قوت بھی بالکل مجبور اور نیست و نابود نہ ہو۔ اس لئے نیکی بدی اور ہدایت و ضلالت کی حریفانہ جنگ ہمیشہ سے قائم رہی ہے۔ جس طرح آج یہ مشرکین و معاندین آپ کو بیہود فرمائشوں سے دق کرتے اور بانواع حیل لوگوں کو جادہ حق سے ڈگمگانا چاہتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر کے مقابل شیطانی قوتیں کام کرتی رہی ہیں کہ پیغمبروں کو ان کے پاک مقصد (ہدایت خلق اللہ) میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ اسی غرض فاسد کے لئے شیاطین الجن اور شیاطین الانس باہم تعاون کرتے اور ایک دوسرے کو فریب دہی اور ملمع سازی کی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے ہیں اور ان کی یہ عارضی آزادی اسی عام حکمت اور نظام تکوینی کے ماتحت ہے جو تخلیق عالم میں حق تعالیٰ نے مرعی رکھی ہے اس لئے آپ اعداء اللہ کی فتنہ پردازی اور مغویانہ فریب دہی سے زیادہ فکر و غم میں نہ پڑیں۔ ان سے اور ان کے کذب و افتراء سے قطع نظر کر کے معاملہ خدا کے سپرد کیجئے۔
________________________________________


 وَمِنَ الأَنعٰمِ حَمولَةً وَفَرشًا ۚ كُلوا مِمّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ ۚ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ {6:142}؛



 And of the cattle He hath created beasts of burden and small ones. Eat of that which Allah hath provided for you; and follow not the foot-steps of the Satan; verily he is unto you a manifest foe.

And, He produces, of the cattle some for burden, fit to bear loads, such as the large [mature] camels, and some for light support, not fit for these [load-bearing tasks], such as young camels or sheep (such [cattle] are called farsh because they are like ‘bedding [farsh] spread on the ground’, on account of their [physical] closeness to it); eat of that which God has provided you and do not follow the steps of Satan, his methods of forbidding [things] or deeming [them] lawful. Surely he is a manifest foe to you, one whose enmity is evident.


 اور پیدا کئے مواشی میں بوجھ اٹھانے والے اور زمین سے لگے ہوئے [۱۹۳] کھاؤ اللہ کے رزق میں سے اور مت چلو شیطان کے قدموں پر وہ تمہارا دشمن ہے صریح [۱۹۴]؛



[۱۹۳]بوجھ اٹھانے والے جیسے اونٹ وغیرہ اور زمین سے لگے ہوئے چھوٹے قدو قامت کے جانور جسے بھیڑ بکری۔

[۱۹۴]اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے منتفع ہونا چاہیئے۔ شیطان کے قدموں پر چلنا یہ ہے کہ ان کو خواہی نخواہی بدون حجت شرعی کے حرام کر لیا جائے یا شرک و بت پرستی کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ شیطان کی اس سے زیادہ کھلی ہوئی دشمنی کیا ہوگی کہ ان نعمتوں سے تم کو دنیا میں محروم رکھا اور آخرت کا عذاب رہا سو الگ۔
________________________________________
 فَدَلّىٰهُما بِغُرورٍ ۚ فَلَمّا ذاقَا الشَّجَرَةَ بَدَت لَهُما سَوءٰتُهُما وَطَفِقا يَخصِفانِ عَلَيهِما مِن وَرَقِ الجَنَّةِ ۖ وَنادىٰهُما رَبُّهُما أَلَم أَنهَكُما عَن تِلكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَكُما إِنَّ الشَّيطٰنَ لَكُما عَدُوٌّ مُبينٌ {7:22}؛

 Thus with guile he caused the twain to fall. Then when the twain had tasted of the tree, their shame was discovered to them, and the twain began to cover themselves with leaves from the Garden; and their Lord called out unto the twain: forbade I not ye twain yonder tree, and said I not unto you, verily the Satan is unto you twain a manifest enemy?


Thus did he lead them on, [thus] did he debase them in their status, by delusion, on his part; and when they tasted of the tree, that is, [when] they ate of it, their shameful parts were manifested to them, that is, the front [private part] of each was revealed to the other, as well as their behinds — each of these parts is called saw’a, ‘shameful’, because its exposure ‘shames’ (yasū’u) that person — and they began to piece together, they began to stick, onto themselves some of the leaves of the Garden, to cover themselves up therewith. And their Lord called them: ‘Did I not prohibit you from this tree, and say to you, “Verily Satan is a manifest enemy to you”?’, one whose enmity is evident? (the interrogative is meant as an affirmative).


 پھر مائل کر لیا انکو فریب سے [۱۸] پھر جب چکھا ان دونوں نے درخت کو تو کھل گئیں ان پر شرمگاہیں انکی [۱۹] اور لگے جوڑنے اپنے اوپر بہشت کے پتے [۲۰] اور پکارا انکو انکے رب نے کیا میں نے منع نہ کیا تھا تم کو اس درخت سے اور نہ کہہ دیا تھا تم کو کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے



[۱۸]آدم علیہ السلام و حوا علیہ السلام کو اغوائے شیطانی:

آدمؑ و حواؑ شیطان کی قسموں سے متاثر ہوئے کہ خدا کا نام لے کر کون جھوٹ بولنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ شاید وہ سمجھے کہ وہ واقعی اس کے کھانے سے فرشتے بن جائیں گے یا پھر کبھی فنا نہ ہوں گے۔ اور حق تعالیٰ نے جو نہی فرمائی تھی، اس کی تعلیل یا تاویل کر لی ہو گی۔ لیکن غالبًا فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ اور اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا مِنَ الۡجَنَّۃِ فَتَشۡقٰی (طٰہٰ۔۱۱۷) وغیرہ سے نسیان ہوا، اور یہ بھی خیال نہ رہا کہ جب وہ مسجود ملائکہ بنائے جا چکے، پھر ملک بننے کی کیا ضرورت رہی۔ فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا (طہٰ ۔۱۱۵) واضح ہو کہ امر و نہی کبھی تو تشریعًا ہوتے ہیں اور کبھی شفقتًا اس کو یوں سمجھو کہ مثلًا ایک تو ریل میں بدون ٹکٹ سفر کرنے کی ممانعت ہے، یہ تو قانونی حیثیت رکھتی ہے جس کا اثر کمپنی کے حقوق پر پڑتا ہے اور ایک جو گاڑیوں میں لکھا ہوتا ہے کہ "مت تھوکو اس سے بیماری پھیلتی ہے" یہ نہی شفقتًا ہے جیسا کہ بیماری پھیلنے کی تعلیل سےظاہر ہے۔ اسی طرح خدا کے اوامر و نواہی بعض تشریعی ہیں جن کی خلاف ورزی کرنے والا قانونی مجرم سمجھا جاتا ہے اور جن کا ارتکاب کرنا ان حقوق کے منافی ہے جن کی حفاظت کرنا تشریع کا منشاء تھا۔ دوسرے وہ اوامر و نواہی ہیں جن کا منشاء تشریع نہیں محض شفقت ہے جیسا کہ طب نبوی وغیرہ کی بہت سی احادیث میں علماء نے تصریح کی ہے۔ شاید آدمؑ نےاکل شجرۃ کی ممانعت کو نہی شفقت سمجھا، اسی لئے شیطان کی وسوسہ اندازی کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنے کو زیادہ بھاری خیال نہ کیا مگر چونکہ انبیاءؑ کی چھوٹی سی لغزش بھی ان کے مرتبہ قرب کے لحاظ سےعظیم و ثقیل بن جاتی ہے اس لئے اپنی غلطی کا ظاہری نقصان اٹھانے کے علاوہ مدت دراز تک توبہ و استغفار میں مشغول گریہ و بکا رہے۔ آخرکار ثُمَّ اجۡتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیۡہِ وَ ہَدٰی (طٰہٰ۔۱۲۲) کے نتیجہ پر پہنچ گئے ؂بود آدم دیدہ نور قدیم۔ موے دریدہ بود کوہ عظیم۔
[۱۹]جنت کے لباس کا اترنا:
یعنی عدول حکمی کرا کر لباس بہشتی ان پر سے اتروا دیا۔ کیونکہ جنتی لباس حقیقت میں لباس تقویٰ کی ایک محسوس صورت ہوتی ہے کسی ممنوع کے ارتکاب سے جس قدر لباس تقویٰ میں رخنہ پڑے گا اسی قدر جنتی لباس سے محرومی ہو گی۔ غرض شیطان نے کوشش کی کہ عصیان کرا کر آدمؑ کے بدن سے بطریق مجازات جنت کا خلعت فاخرہ اتروا دے۔ یہ میرا خیال ہے۔ لیکن حضرت شاہ صاحبؒ نے نزع لباس کو اکل شجرۃ کے ایک طبعی اثر کے طور پر لیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ "حاجت استنجا اور حاجت شہوت جنت میں نہ تھی ان کے بدن پر کپڑے تھے جو کبھی اترتے نہ تھے کیونکہ حاجت اتارنے کی نہ ہوتی تھی۔ آدمؑ و حواؑ اپنے اعضاء سے واقف نہ تھے جب یہ گناہ ہوا تو لوازم بشری پیدا ہوئے اپنی حاجت سے خبردار ہوئے اور اپنے اعضاء دیکھے" گویا اس درخت کے کھانے سے جو پردہ انسانی کمزوریوں پر تھا وہ اٹھ گیا سوأۃ کے لغوی معنی میں بہت وسعت ہے قابیل ہابیل کے قصہ میں سَوۡءَۃَ اَخِیۡہِ فرمایا اور حدیث میں ہے اِحْدیٰ سَوْءَ تِکَ یا مقداد اب تک آدمؑ کی نظر میں صرف اپنی سادگی اور معصومیت تھی اور ابلیس کی نظر میں صرف اس کی خلقی کمزوریاں تھیں لیکن اکل شجرۃ کے بعد آدمؑ کو اپنی کمزوریاں پیش نظر ہو گئیں اور جب اس غلطی کے بعد انہوں نے توبہ و انابت اختیار کی تو ابلیس لعین کو ان کے اعلیٰ کمال اور انتہائی نجابت و شرافت کا مشاہدہ ہو گیا۔ اس نےسمجھ لیا کہ یہ مخلوق لغزش کھا کر بھی میری مار کھانے والی نہیں۔ اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ (الحجر۔۴۲) شاید اسی لحاظ سے تورات میں ابن قیتبہ صاحب معارف کی نقل کے موافق اس درخت کو "شجرۃ علم الخیر والشر" سے موسوم کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
[۲۰]یعنی برہنہ ہو کر شرمائے اور پتوں سے بدن ڈھانپنے لگے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ آدمی پیدائش کے وقت ننگا ہوتا ہے مگر فطری حیا مانع ہے کہ ننگا رہے۔
________________________________________
 قالَ اهبِطوا بَعضُكُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُم فِى الأَرضِ مُستَقَرٌّ وَمَتٰعٌ إِلىٰ حينٍ {7:24}؛

 Allah said: get ye down, one of you an enemy unto anot her; and for you on the earth there shall be a habitation and provision for a season.


Said He, ‘Go down, that is, Adam and Eve, with all those you comprise of your seed, each of you, each seed, an enemy to the other, on account of the wrong each does to the another. There will be for you on earth an abode, a place of settlement, and enjoyment for a while’, [until] your terms [of life] are fulfilled.


 فرمایا تم اترو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے [۲۱] اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانا اور نفع اٹھانا ہے ایک وقت تک



[۲۱]ہبوط آدم علیہ السلام:

مفسرین کے نزدیک یہ خطاب آدمؑ و حواؑ اور ابلیس سب کو ہے کیونکہ اصل عداوت آدمؑ اور ابلیس کی ہے اور اس عداوت کا دنگل ہماری زمین بنائی گئ جس کی خلافت آدمؑ کے سپرد ہوئی تھی۔
________________________________________
 قالوا أوذينا مِن قَبلِ أَن تَأتِيَنا وَمِن بَعدِ ما جِئتَنا ۚ قالَ عَسىٰ رَبُّكُم أَن يُهلِكَ عَدُوَّكُم وَيَستَخلِفَكُم فِى الأَرضِ فَيَنظُرَ كَيفَ تَعمَلونَ {7:129}؛



 They said: oppressed we have been ere thou camest unto us and since thou hast come unto us. He said: belike your Lord will destroy your enemy and establish yougs in their stead in the land, thathe may see what wise ye act.



They said, ‘We suffered harm before you came to us, and since you have come to us.’ He said, ‘Perhaps your Lord will destroy your enemy and make you successors in the land, that He may observe how you shall act’, in it.


 وہ بولے ہم پر تکلیفیں رہیں تیرے آنے سے پہلے اور تیرے آنے کے بعد [۱۴۷] کہا نزدیک ہے کہ رب تمہارا ہلاک کر دے تمہارے دشمن کو اور خلیفہ کر دے تم کو ملک میں پھر دیکھے تم کیسے کام کرتے ہو [۱۴۸]؛



[۱۴۷]حضرت موسٰی علیہ السلام کا اپنی قوم کو وعظ:

یعنی ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے۔ تمہاری تشریف آوری سے قبل ہم سے ذلیل بیگار لی جاتی تھی اور ہمارے لڑکے قتل کئے جاتے تھے۔ تمہارے آنے کے بعد طرح طرح کی سختیاں کی جا رہی ہیں۔ اور قتل ابناء کے مشورے ہو رہے ہیں دیکھئے کب ہماری مصیبتوں کا خاتمہ ہو ۔
[۱۴۸]حضرت موسٰیؑ نے تسلی دی کی زیادہ مت گھبراؤ۔ خدا کی مدد قریب آ گئ ہے۔ تم دیکھ لو گے کہ تمہارا دشمن ہلاک کر دیا جائے گا اور تم کو ان کے اموال و املاک کا مالک بنا دیا جائے گا۔ تاکہ جس طرح آج سختی و غلامی میں تمہارا امتحان ہو رہا ہے، اس وقت خوشحالی اور آزادی دے کر آزمایا جائے کہ کہاں تک اس کی نعمتوں کی قدر اور احسانات کی شکر گذاری کرتے ہو۔ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ یہ کلام مسلمانوں کے سنانے کو نقل فرمایا، یہ سورت مکی ہے، اس وقت مسلمان بھی ایسے ہی مظلوم تھے ۔ "گفتہ آید در حدیث دیگراں" کے رنگ میں یہ بشارت ان کو پہنچائی۔
________________________________________
وَأَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَمِن رِباطِ الخَيلِ تُرهِبونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُم وَءاخَرينَ مِن دونِهِم لا تَعلَمونَهُمُ اللَّهُ يَعلَمُهُم ۚ وَما تُنفِقوا مِن شَيءٍ فى سَبيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيكُم وَأَنتُم لا تُظلَمونَ {8:60}؛


And get ready against them whatsoever ye can of force and wellfed horses whereby ye may overawe the enemy of Allah and your enemy and others besides them whom ye know not Allah knoweth them. And whatsoever ye expend in the way of Allah shall be repaid to you in full; and ye shall not be wronged.


Make ready for them, for fighting them, whatever force you can, the Prophet (s) said that this refers to ‘archers’, as reported by Muslim, and of horses tethered (ribāt is a verbal noun, meaning, ‘restraining them [for use] in the way of God’) that thereby you may dismay, terrify, the enemy of God and your enemy, namely, the disbelievers of Mecca, and others besides them, that is, other than those — namely, the hypocrites or the Jews, whom you know not: God knows them. And whatever thing you expend in the way of God, its requital, shall be repaid to you in full, and you will not be wronged, [you will not] be diminished anything thereof.

اور تیار کرو انکی لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کر سکو قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے [۶۶] کہ اس سے دھاک پڑے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور دوسروں پر ان کےسوا جن کو تم نہیں جانتے اللہ ان کو جانتا ہے [۶۷] اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں وہ پورا ملے گا تم کو اور تمہار حق نہ رہ جائے گا [۶۸]
تفسیر:
یعنی یہ سب سامان اور تیاری دشمنوں پر رعب جمانے اور دھاک بٹھلانے کا ایک ظاہری سبب ہے۔ باقی فتح و ظفر کا اصلی سبب تو خدا کی مدد ہے جو پہلے بیان ہو چکا۔ اور وہ لوگ جن کو بالتعین تم نہیں جانتے منافقین ہیں جو مسلمانی کے پردہ میں تھے یا یہودی "بنی قریظہ"یا روم فارس وغیرہ وہ سب قومیں جن سے آئندہ مقابلہ ہونے والا تھا۔
یعنی خدا پر بھروسہ کرنے کے معنی یہ نہیں کہ اسباب ضروریہ مشروعہ کو ترک کر دیا جائے۔ نہیں مسلمانوں پر فرض ہے کہ جہاں تک قدرت ہو سامان جہاد فراہم کریں۔ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں گھوڑے کی سواری، شمشیر زنی اور تیراندازی وغیرہ کی مشق کرنا، سامان جہاد تھا۔ آج بندوق، توپ، ہوائی جہاز ، آبدوز کشتیاں، آہن پوش کروزر وغیرہ کا تیار کرنا اور استعمال میں لانا اور فنون حربیہ کا سیکھنا بلکہ ورزش وغیرہ کرنا سب سامان جہاد ہے۔ اسی طرح آیندہ جو اسلحہ و آلات حرب و ضرب تیار ہوں، ان شاء اللہ وہ سب آیت کے منشاء میں داخل ہیں باقی گھوڑے کی نسبت تو آپ خود ہی فرما چکے { اَلْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَواصِیْھَاالْخَیْر اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ } کہ قیامت تک کے لئے خدا نے اس کی پیشانی میں خیر رکھ دی ہے اور احادیث میں ہے کہ "جو شخص گھوڑا جہاد کی نیت سے پالتا ہے اس کے کھانے پینے بلکہ ہر قدم اٹھانے میں اجر ملتا ہے اور اس کی خوراک وغیرہ تک قیامت کے دن ترازو میں وزن کی جائے گی۔
یہ مالی جہاد کی طرف اشارہ ہے یعنی جہاد کی تیاری میں جس قدر مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ یعنی ایک درہم کےسات سو درہم { واللہ یضاعف لمن یشاء } اور بسا اوقات دنیا میں بھی اس سےکہیں زیادہ معاوضہ مل جاتا ہے۔
________________________________________
وَما كانَ استِغفارُ إِبرٰهيمَ لِأَبيهِ إِلّا عَن مَوعِدَةٍ وَعَدَها إِيّاهُ فَلَمّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنهُ ۚ إِنَّ إِبرٰهيمَ لَأَوّٰهٌ حَليمٌ {9:114}؛


And Ibrahim's asking for the forgiveness of his father was only in pursuance of a promise which he had made unto him. Then, when it became manifest unto him that he was an enemy of Allah, he declared himself quit of him. Verily Ibrahim was long-suffering, forbearing.

Abraham’s prayer for the forgiveness of his father was only because of a promise he had made to him, when he said to him, I will ask my Lord forgiveness for you [Q. 19:47], in the hope that he would submit [to God]; but when it became clear to him that he was an enemy of God, upon his death as an disbeliever, he declared himself innocent of him, and refrained from asking forgiveness for him; truly Abraham was soft of heart, making frequent entreaty and supplication [to God], forbearing, enduring harm patiently.

اور بخشش مانگنا ابراہیم کا اپنے باپ کے واسطے سو نہ تھا مگر وعدہ کے سبب کہ وعدہ کر چکا تھا اس سے پھر جب کھل گیا ابراہیم پر کہ وہ دشمن ہے اللہ کا تو اس سے بیزار ہو گیا بیشک ابراہیم بڑا نرم دل تھا تحمل کرنے والا [۱۳۱]؛
تفسیر:
سورہ مریم میں ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کے باپ نے قبول حق سے اعراض کیا اور جد و عناد سے حضرت ابراہیمؑ کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا تو آپ نے والدین کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے فرمایا { سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِی حَفِیَّا } یعنی میں خدا سے تیرے لئے استغفار کروں گا اس وعدہ کے موافق آپ برابر استغفار کرتے رہے۔ چنانچہ دوسری جگہ { وَاغْفِرْلِاَبِیْ } فرمانے کی تصریح ہے اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ابراہیمؑ ایک مشرک کی حالت شرک پر قائم رہتے ہوئے مغفرت چاہتے تھے ۔ نہیں غرض یہ تھی کہ اس کو توفیق دے کہ حالت شرک سے نکل کر آغوش اسلام میں آ جائے اور قبول اسلام اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا سبب بنے۔ { اِنَّ الَاِ سْلَامَ یَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ } ابراہیمؑ کے استغفار کو قرآن میں پڑھ کر بعض صحابہ کے دلوں میں خیال آیا کہ ہم بھی اپنے مشرک والدین کے حق میں استغفار کریں اس کا جواب حق تعالیٰ نے دیا کہ ابراہیمؑ نے وعدہ کی بنا پر صرف اس وقت تک اپنے باپ کے لئے استغفار کیا ۔ جب تک یقینی طور سے یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ اسے کفرو شرک اور خدا کی دشمنی پر مرنا ہے۔ کیونکہ مرنے سے پہلے احتمال تھا کہ توبہ کرکے مسلمان ہو جائے اور بخشا جائے پھر جب کفر و شرک پر خاتمہ ہونے سے صاف کھل گیا کہ وہ حق کی دشمنی سے باز آنے والا نہ تھا تو ابراہیمؑ اس سے بالکلیہ بیزا ہو گئے اور دعا و استغفار وغیرہ ترک کر دیا۔ پہلے نرم دلی اور شفقت سے دعا کرتے تھے ۔ جب توبہ و رجوع کے احتمالات منقطع ہو گئے تو آپ نے اس کی خیر خواہی سے ہاتھ اٹھا لیا ۔اور اس حادثہ کو پیغمبرانہ صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ حدیث میں ہے کہ محشر میں ابراہیمؑ عرض کریں گے کہ خداوندا ! تیرا وعدہ ہے کہ مجھے رسوا نہ کرے گا۔ مگر اس سے زیادہ کیا رسوائی ہو گی کہ آج میرا باپ سب کے سامنے دوزخ میں پھینکا جائے۔ اسی وقت ان کے باپ کی صورت مسخ ہو کر ضبع (کفتار) کی سی ہو جائے گی اور فرشتے گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیں گے شاید یہ اس لئے ہو کہ لوگ اسے پہچان نہ سکیں ۔ کیونکہ رسوائی کا دارومدار شناخت پر ہے ۔ جب شناخت نہ رہے گی کہ کیا چیز دوزخ میں پھینکی گئ ہے پھر بیٹے کی رسوائی کا کچھ مطلب نہیں۔
________________________________________
أَنِ اقذِفيهِ فِى التّابوتِ فَاقذِفيهِ فِى اليَمِّ فَليُلقِهِ اليَمُّ بِالسّاحِلِ يَأخُذهُ عَدُوٌّ لى وَعَدُوٌّ لَهُ ۚ وَأَلقَيتُ عَلَيكَ مَحَبَّةً مِنّى وَلِتُصنَعَ عَلىٰ عَينى {20:39}؛


Saying! cast him in the ark, and cast him into the river, and the river will throw him on the bank, and then an enemy of Mine and an enemy of his will take him up. And I cast on thee love from Me in order that thou mayest be formed under Mine eye.



“Cast him, place him, in the ark, then cast him, [while] in the ark, into the river, [into] the flow of the Nile, and then the river shall throw him up onto the shore, that is, its bank (the imperative here [fa’l-yulqihi, ‘let it throw him’] functions as a predicate); [there] an enemy of Mine and an enemy of his, namely, Pharaoh, shall take him”. And, after he took you, I cast upon you love from Me, that you may be loved by people; and indeed Pharaoh, and all who saw you, loved you; and that you might be reared under My eyes, be nurtured under My guardianship and My protection of you.


کہ ڈال اُسکو صندوق میں پھر اُسکو ڈال دے دریا میں پھر دریا اُسکو لے ڈالے کنارے پر اٹھا لے اُسکو ایک دشمن میرا اور اُس کا [۳۱] اور ڈال دی میں نے تجھ پر محبت اپنی طرف سے [۳۲] اور تاکہ پرورش پائے تو میری آنکھ کے سامنے [۳۳]؛
تفسیر:
یعنی لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دینا اس غرض سے تھا کہ ہماری نگرانی و حفاظت میں تیری پرورش کی جائے۔ ایسے سخت دشمن کےگھر میں تربیت پاتے ہوئے بھی کوئی تیرا بال بینکا نہ کر سکے۔
یعنی ہم نے اپنی طرف سےاس وقت مخلوق کےدلوں میں تیری محبت ڈال دی کہ جو دیکھے محبت اور پیار کرے یا اپنی ایک خاص محبت تجھ پر ڈال دی کہ تو محبوب خدا بن گیا۔
یعنی موسٰیؑ کو (جو اس وقت نوزائیداہ بچہ تھے) صندوق میں رکھ کر صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا کو ہمارا حکم ہے کہ اسے بحفاظت تمام ایک خاص کنارہ پر لگائے گا جہاں سے اس کو وہ شخص اٹھا لے گا جو میرا بھی دشمن ہے اور اس بچہ کا بھی واقعہ یہ ہے کہ فرعون اس سال منجموں کےکہنے سے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو چن چن کر قتل کر رہا تھا۔ جب موسٰیؑ پیدا ہوئے ان کی والدہ کو خوف ہوا کہ فرعون کے سپاہی خبر پائیں گے تو بچہ کو مار ڈالیں گے اور والدین کو بھی ستائیں گےکہ ظاہر کیوں نہیں کیا اس وقت حق تعالیٰ کی طرف سے یہ تدبیر الہام ہوئی۔ موسٰیؑ کی والدہ نے صندوق نہر میں ڈال دیا۔ دریا کی ایک شاخ فرعون کے باغ میں گذرتی تھی اس میں سے ہو کر صندوق کنارے جا لگا ، فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے (جو نہایت پاکباز اسرائیلی خاتون تھی) بچہ کو اٹھا کر فرعون کےسامنے پیش کیا کہ آؤ ہم تم اسے بیٹا بنا لیں ۔ فرعون کو بھی دیکھ کر محبت آئی۔گو اس نے بیٹا بنانے سے انکار کیا (جیسا کہ بعض روایات سےمعلوم ہوا ہے ) مگر آسیہ کی خاطر سے بیٹوں کی طرح پرورش کیا اور اس طرح حق تعالیٰ کی عجیب و غریب قدرت کا ظہور ہوا۔ (تنبیہ) فرعون کو خدا کا دشمن اس لئے کہا کہ وہ حق کا دشمن تھا اور خدا کے بالمقابل خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور موسیٰؑ کا دشمن اس لئےفرمایا کہ فی الحال تمام اسرائیلی بچوں کےساتھ سخت دشمنی کر رہا تھا۔ اور آئندہ چل کر خاص موسٰیٰؑ کے ساتھ علانیہ دشمنی کا اظہار کرنے والا تھا۔
________________________________________
؛
وَكَذٰلِكَ جَعَلنا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا مِنَ المُجرِمينَ ۗ وَكَفىٰ بِرَبِّكَ هادِيًا وَنَصيرًا {25:31}؛


And even scals We appointed unto every prophet an enemy from among the culprits. And thine Lord sufficeth as GUide and Helper.



God, exalted be He, says: So, just as We have appointed for you enemies from among the idolaters of your people, We have appointed to every prophet, before you, an enemy from among the guilty, the idolaters — so be steadfast as they were; but your Lord suffices as a Guide, for you, and a Helper, to bring you victory over your enemies.


اور اسی طرح رکھے ہیں ہم نے ہر نبی کے لئے دشمن گنہگاروں میں سے [۴۳] اور کافی ہے تیرا رب راہ دکھانے اور مدد کرنے کو [۴۴]؛
تفسیر:
جو نبی کی بات ماننے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور لوگوں کو قبول حق سے روکتے ہیں۔
یعنی کافر پڑے بہکایا کریں، جس کو اللہ چاہے گا راہ پر لے آوے گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ جس کو چاہے گا ہدایت کر دے گا اور جن کو ہدایت نصیب نہ ہو گی ان کے سب کے مقابلے میں تیری مدد کرے گا۔ یا یہ کہ حق تعالیٰ تیری مدد کر کے مقام مطلوب تک پہنچا دے گا۔ کوئی رکاوٹ مانع نہ ہو سکے گی۔
________________________________________
وَيَومَ يُحشَرُ أَعداءُ اللَّهِ إِلَى النّارِ فَهُم يوزَعونَ {41:19}؛


And warn them of the Day whereon the enemies of Allah will be gathered Unto the Fire; and they will be set in bands.




And, mention, the day when God’s enemies are gathered ([read either] yuhsharu a‘dā’u’Llāhi, or nahshuru a‘dā’a’Llāhi, ‘[when] We gather God’s enemies’) to the Fire, for they will be driven [thereto],



اور جس دن جمع ہوں گے دشمن اللہ کے دوزخ پر تو انکی جماعتیں بنائی جائیں گی [۲۸]؛
تفسیر:
یعنی ہر ایک قسم کے مجرموں کی الگ جماعت ہو گی اور یہ سب جماعتیں ایک دوسرے کے انتظار میں جہنم کے قریب روکی جائیں گی۔
________________________________________
ذٰلِكَ جَزاءُ أَعداءِ اللَّهِ النّارُ ۖ لَهُم فيها دارُ الخُلدِ ۖ جَزاءً بِما كانوا بِـٔايٰتِنا يَجحَدونَ {41:28}؛


That is the meed of the enemies of Allah: the Fire. Therein is their home of Abidence:a meed forasmuch as Our revelations they were wont to gainsay.





That, severe chastisement and worst requital, is the requital of God’s enemies (jazā’u a‘dā’i, the second hamza may be pronounced fully or replaced with a wāw) — the Fire! (al-nāru, an explicative supplement to jazā’u, ‘the requital’, alluded to by [the demonstrative] dhālika, ‘that’). Therein will be their everlasting abode, that is, as a place of [permanent] residence, from which there will be no removal, as a requital (jazā’an is in the accusative as a verbal noun from the implicit verbal action) for their denial of Our signs, [for their denial of] the Qur’ān.


یہ سزا ہے اللہ کے دشمنوں کی آگ اُن کا اسی میں گھر ہے سدا کو بدلا اس کا جو ہماری باتوں سے انکار کرتے تھے [۴۱]؛
تفسیر:
یعنی دل میں سمجھتے تھے لیکن ضد اور تعصب و عناد سے انکار ہی کرتے رہتے تھے۔


No comments:

Post a Comment