اے ایمان والو! کہا مانو اللہ کا اور کہا مانو رسول کا۔۔۔
[سورۃ محمد:33، التغابن:12 النور:54-56 المائدۃ:92]
سن رکھو! مجھے قرآن بھی دیا گیا اور قرآن کے ساتھ اس کے مثل بھی.........سن رکھو! قریب ہے کہ کوئی پیٹ بھرا تکیہ لگائے ہوئے یہ کہنے لگے کہ لوگوں! تمہیں یہ قرآن کافی ہے بس جو چیز اس میں حلال ملے اسی کو حلال سمجھو! حالانکہ اللہ کے رسول کی حرام بتلائی ہوئی چیزیں بھی ویسی ہیں جیسی اللہ تعالیٰ کی حرام بتلائی ہوئی۔
[مسند احمد:17174، سنن ابوداؤد:4604، السنة للمروزي:244-403، الإبانة الكبرى-لإبن بطة:62، شرح السنة للبغوي:101]
[سنن الترمذي:2664، سنن ابوداؤد:4604، سنن ابن ماجہ:12]
اللہ نے (1)کتاب اور (2)حکمت(طریقہ) نازل کی ہے۔
[حوالہ«سورۃ البقرۃ:236، النساء:113]
رسول ﷺ کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دینے کیلئے بھیجا گیا۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:129+151، آل عمران:164، الجمعۃ:2]
پچھلے انبیاء کو بھی کتاب اور حکمت عطا کی گئی تھی۔
[حوالہ»سورۃ الانعام:89، الجاثیۃ:16، آل عمران:48، النساء:54، المائدۃ:110]
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے جہاں اپنی کتاب نازل فرمائی ،وہیں اس کی تشریح و توضیح بھی فرمائی اور اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے اپنے پیغمبروں اور رسولوں کو بھیجا،انبیاء کی حیثیت مرضیاتِ خداوندی کے ترجمان کی ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کی اطاعت وفرماں برداری اور اتباع و پیروی کی جائے ،رسول کی نسبت سے امت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے،رسول بھیجے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید نے صاف طور پر کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اہل ایمان کے لیے سراپا نمونہ ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ہے۔ (الاحزاب:21)، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی اللہ کو محبوب رکھنے کا معیار اور خود اللہ کے محبوب بننے کا ذریعہ ووسیلہ بھی ہے۔(آلِ عمران:31)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی ہماری اتباع سے چارہ نہ ہوتا”لو أن موسیٰ کان حیا ما وسعہ اِلا أن یتبعنی․“(مسند احمد :3/387)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و نافرمانی ہی جنت میں داخل ہونے اور اس سے محروم ہونے کی بنیاد ہے ،چناں چہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری پوری امت جنت میں داخل ہوگی، سوائے انکار کرنے والوں کے ،لوگوں نے عرض کیا کہ انکار کرنے والے کون ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”من أطاعنی دخل الجنة، ومن عصانی فقد ابیٰ“جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو ا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔“(بخاری مع الفتح،حدیث نمبر :7280)؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی خود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک خواب ذکر کرتے ہوئے اس کی تعبیر بیان فرمائی اور ا س تعبیر میں واضح طور پر بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔” من أطاع محمداً فقد أطاع الله، ومن عصیٰ محمداً فقد عصیٰ الله“․(بخاری مع الفتح ،حدیث نمبر :7281) اتباع نبوی کا ایک پہلو فکری اعتبار سے ”حدیث“ کو حجت و دلیل تسلیم کرنا ہے ،قرآن کو ہدایت کے لیے کافی سمجھنا اور اتباع قرآن کے نام پر حدیث کا انکار کرجانا نہایت ہی سنگین قسم کی گم راہی ہے، حضرت ابو رافع سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا نہ ہو کہ میں تم میں سے کسی کو اپنی مسہری پر ٹیک لیا ہوا پاؤں کہ جب اس کے پاس میرا کوئی حکم یا میری کوئی ممانعت آئے تو کہے کہ مجھے یہ نہیں معلوم ، ہم تو اس کی پیروی کرتے ہیں، جو کتاب الله میں ہے،”ماوجدناہ فی کتاب الله اتبعناہ“ (أبوداود،حدیث نمبر:4065)اسی طرح حدیث کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے لیے انسان اپنی عقل کو تاہ کو پیمانہ بنائے ،بلکہ جب بھی کوئی بات حدیث کے ذریعہ پہنچے اسے سرمہٴ چشم بنائے،اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے سیدنا حضرت علی نے فرمایا کہ دین کی بنیاد رائے پر ہوتی تو موزے کے نیچے کے حصہ کا مسح قابل ترجیح ہوتا بمقابلہ اوپر کے حصہ کے ؛لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے (أبوداود،حدیث نمبر162)،کیوں کہ انسان کا علم اور اس کی عقل کو تاہ ہے اور رسول کے علم کا ماخذ اور سر چشمہ علم الہٰی ہے،جس میں نقص اور کوتاہی کا کوئی امکان نہیں! اتباع نبوی کا ایک پہلو یہ ہے کہ زندگی کے تمام مسائل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور و طریق کے مطابق عمل کیا جائے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُصولی طور پر بھی اس کی ترغیب دی کہ میرے طریقہ کو اختیار کرو”علیکم بسنتی“(أبو داود،حدیث نمبر:4067)،اور مختلف مسائل کے بارے میں بھی اس کی تلقین فرمائی،چناں چہ ارشاد فرمایا کہ جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھو اسی طرح نماز پڑھو”صلواکما رأیتمونی أصلی“(بخاری مع الفتح،حدیث نمبر :6008)،یا جیسے حج کے بارے میں فرمایا کہ شاید پھر اس کے بعد میں حج نہ کر سکوں،اس لیے مجھ سے طریقہٴ حج سیکھ لو”لتاخذو وامناسککم“ (مسلم، حدیث نمبر :1297)،ائمہ مجتہدین اور فقہاء ومحدثین نے جو محنتیں کی ہیں ،ان کا ماحصل یہی ہے کہ انہوں نے اپنی جستجو وتحقیق کے مطابق سنتِ نبوی کو دریافت کرنے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور جو اختلاف رائے واقع ہوا ہے وہ سنت کے مقابلہ میں اپنی رائے کی اتباع نہیں ہے،بلکہ بعض افعال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ طریقے منقول ہیں،فقہاء نے اپنے ذوق اور تحقیق کے مطابق ان میں سے کسی ایک طریقہ کو اختیار کیا ہے ،اس لیے یہ اختلاف بھی اتباعِ سنت کے دائرہ میں ہی ہے، نہ کہ اس سے باہر۔ اتباع سنت کا کا دوسر ا پہلو یہ ہے کہ کہ معاملات و اخلاق اور زندگی کے دوسرے مسائل میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اختیار کیا جائے،صحابہ کے جذبہٴ اتباع کا حال یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی فعل طبعی طور پر ثابت ہوتا تو اس کی بھی اتباع کرنے کی کوشش کرتے،حضرت علی نے سواری پر سوار ہونے کے بعد سواری کی دعا پڑھی اور دعا پوری ہونے کے بعد ہنسنے لگے،دریافت کیا گیا کہ آپ کے ہنسنے کا باعث کیا ہوا؟حضرت علی کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہنسے تھے۔(ترمذی،حدیث نمبر:3146)، حضرت عبداللہ بن عمر سے بخاری میں طویل روایت منقول ہے،اس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ان تمام مقامات پر اُتر اُتر کر نماز ادا کرتے تھے،جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ سفر نماز ادا فرمائی تھی۔ گو سنت نبوی کی مخالفت مقصود نہ ہوتی،لیکن بظاہر احترام سنت کے خلاف کوئی عمل محسوس ہوتا تو یہ بات بھی صحابہ کرام کو برداشت نہ ہوتی ،عبد اللہ بن عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ اگر تمہاری عورتیں مسجد جانا چاہیں تو تم انہیں نہ روکو،ان کے صاحب زادے بلال کہنے لگے کہ لیکن ہم تو انہیں روکیں گے ،بلال کا مقصد حدیث نبوی کی مخالفت نہیں تھی؛بلکہ مقصود یہ تھا کہ اخلاقی حالات میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے ،اس کے پیش نظر میں مسجد جانے سے منع کروں گا،لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر سخت ناراض ہوئے اور راوی کہتے ہیں کہ اس بات پر انہیں اتنا برا بھلا کہاکہ کہ اتنا برا بھلا کہتے ہوئے انہیں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ (مسلم،حدیث نمبر :1259)،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا،امام ابو یوسف نے اپنے صاحب زادے سے نقل کیا،انہوں نے کہا کہ مجھے کدو زیادہ پسند نہیں ہے،حالاں کہ اس کا تعلق طبعی پسند و ناپسند سے ہے ،لیکن پھر بھی امام ابو یوسف کو یہ بات پسند نہ آئی اور ان سے گفتگو کرنا چھوڑ دیا۔ صحابہ کرام کے عمل کرنے کے لیے یہ بات کافی ہوتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا ہو،حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں سونے کی انگوٹھی بنائی،لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنائی،پھر جب آپ نے اس کے حرام ہونے کا اعلان فرمایا اور اپنی انگوٹھی پھینک دی تو تمام صحابہ کرام نے اپنی انگوٹھیاں پھینک دی۔ (بخاری مع الفتح،حدیث نمبر 7298)،اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کو احساس تھا کہ یہ صورت اہل مکہ کے حق میں ہورہی ہے اور مسلمانوں کو گر کر صلح کرنی پڑرہی ہے،اس لیے صحابہ احرام کھولنے اور سر منڈانے کو تیار نہیں تھے،ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ کے مشورے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیمہ سے باہر نکلے،قربانی فرمائی اور بال منڈایا،یہ دیکھتے ہی صحابہ کرام نے بھی اپنے بال منڈا لیے۔(بخاری مع الفتح ،حدیث نمبر :2731) صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا اس قدر لحاظ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معمولی سی ناگواری ان کو متنبہ کرنے کے لیے کافی ہوتی تھی،حضرت عبداللہ وبن عمر بن العاص کے جسم پر کسم کے رنگ کی ایک چادر تھی،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کسی قدر ناگواری کا اظہار فرمایا، گھر واپس آئے تو چولہا سلگا ہوا تھا، چناں چہ اسی چولہے میں چادر ڈال دی، دوسرے روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عورتوں کو دے دیا ہوتا ،کیوں کہ ان کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (ابوداؤد:کتاب اللباس ،حدیث نمبر :4068)، ایک انصاری کے مکان کے پاس سے گذر ہوا ،جنہوں نے اونچا گنبد نما حجرہ بنا رکھا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ مکان کس کا ہے؟لوگوں نے ان انصاری صحابی کا ذکر کیا ،پھر جب وہ صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ نے یک گونہ بے رخی برتی ،دوسرے صحابہ سے وجہ دریافت کی،معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گنبد نما تعمیر کی وجہ سے گرانی برتی ہوئی ہے ،وہ گھر گئے،اس عمارت کو ڈھا کر زمین کے برابر کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر بھی نہیں کیا،اتفاق سے چند دنوں بعد پھر وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وہ گنبد والی تعمیر نہیں دیکھی تو وجہ دریافت کی، صحابہ نے صورتِ حال عرض کردی،آپ نے ارشاد فرمایا کہ ضرورت و مجبوری کی تعمیر کے علاوہ ہر تعمیر آدمی کے لیے وبال ہے۔ (ابن ماجہ:ابو اب الزھد،باب فی البناء والخراب،حدیث نمبر:4161) اس طرح کی کتنی مثالیں صحابہ کی زندگی میں موجود ہیں ،لیکن آج مسلمانوں کی صورتِ حال کیا ہے؟زندگی کے ہر شعبہ میں سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھوٹا ہوا ہے ،ہماری زبان حب نبی کے دعوی سے سرشار ہے ؛مگر ہماری عملی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع سے خالی ہے ،ہماری عبادتیں بے روح ہیں،ہماری اخلاقی پستی غیر مسلم معاشرہ کو بھی شرمندہ کرتی ہے،معاملات میں ہم اس قدر کھوئے اور حلال و حرام کی سرحدوں سے بے پروا ہیں ،دوسری قومیں ہم سے معاملات کرنے میں تأمل کرتی ہیں ،غرض ہمارا دین کتابوں میں ہے، نہ کہ ہماری زندگی میں، قول و فعل کا یہی تضاد دوسری قوموں کے دامن اسلام میں آنے سے رکاوٹ بنا ہوا ہے،اس لیے اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ ہم عملی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا راستہ اختیار کریں اور دوسری قوموں کی اتباع اور ان کی نقل سے اپنے آپ کو بچائیں!! |

فرقہ منکرینِ حدیث(پرویزیت)کاتعارف
فرقہ منکرینِ حدیث (پرویزیت) کا پس منظر
الا یوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول علیکم بھذا القرآن فما وجدتم
من حلال فاحلوہ و ما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ۔
(مشکوٰۃ:۲۹)
ترجمہ: قریب ہے کہ ایک امیر آدمی اپنے صوفہ پر بیٹھے یہ کہے گا کہ تمہیں
قرآن کافی ہے، تم اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جس چیز کو حرام پاؤ اُسے
حرام کہو۔
انکارِ حدیث کی چند کی وجوہات
ان عمر بن الخطابؓ کان یقول اصحاب الرأی اعداءُ السنن اعیتھم
الاحادیث ان یحفظوھا و تفلّتت منھم ان یعوھا و استحیوا حین سئلوا ان یقولوا لا
نعلم فعارضوا السنن برأیھم فایکم و ایاھم۔
(اعلام الموقعین:۱/۸۰)
ترجمہ: حضرت
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ عقل کی اتباع کرنے والے حدیث کے دشمن ہوا کرتے
ہیں، احادیث یاد کرنے کی ان کو توفیق نہیں ہوتی اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو
وہ یہ کہتے ہوئے شرماتے ہیں کہ ہمیں علم نہیں، لہٰذا وہ اپنی رائے سے جواب دیتے
ہیں اور احادیث کا عقل سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں، تم ایسے لولگوں سے بچتے رہنا۔
إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى o عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى o
(نجم:۳،۴)
ترجمہ: نبی
اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتے، وہ تو تمام وحی ہی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔
خَتَمَ اللہ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى
أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ o
(بقرہ:۷)
ترجمہ: اللہ
نے ان کے دلوں پر مہر اور کانور پر اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے لئے
درد ناک عذاب ہے۔ ............مصداق ہیں۔
فرقہ منکرین حدیث کے بانی مولوی عبد اللہ چکڑالوی کے حالات
عبد اللہ چکڑالوی کا انکارِ حدیث
(اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۷۳)
(اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۷۳)
قرآن کی تفسیر
(ترجمۃ القرآن:۴۲۔ مطبوعہ ۱۳۲۰ھ، لاہور)
موت کا عبرتناک واقعہ
(اسلامی
انسائیکلوپیڈیا:۱۷۳)
غلام احمد پرویز کے حالات
(غلام احمد پرویز، از قاسم نوری:۷۲۔۷۴)
(قاسم نوری غلام احمد پرویز:۱۲۹)
(قاسم نوری غلام احمد پرویز:۱۲۹)
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللہ
عَلَى عِلْمٍ ۔
(جاثیہ:۲۳)
ترجمہ: بھلا
دیکھ تو جس نے ٹہرالیا اپنا حاکم اپنی خواہش کو اور راہ سے بچلادیا اس کو اللہ نے
جانتا بوجھتا۔
(ترجمۃ القرآن محمود الحق)
(قاسم نوری:۲۸)
(مقام حدیث:۱/۴۲۱۔ ادارہ طلوع اسلام
کراچی)
(مقام حدیث:۱/۳۹۱۔ ادارہ طلوع اسلام
کراچی)
(اسلامی نظام:۸۶۔ ادارہ طلوع اسلام
کراچی۔ معارف القرآن:۴/۶۲۶)
(معارف القرآن:۴/۶۲۶)
(اسلامی نظام:۱۱۰)
(سلیم کے نام (پرویز):۲/۳۴، ادارہ طلوعِ اسلام
کراچی)
(سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)
(سلیم کے نام (۱۵واں خط) ۲۵۰۔ خط نمبر۲۰۔۲۱ میں بھی یہی مضمون ہے)
(قرآنی فیصلے:۳۰۱۔ ادارہ طلوعِ اسلام
کراچی)
(معارف القرآن:۴/۴۲۰)
(سلیم کے نام ۲۱واں خط:۲/۱۲۴)
(لغات القرآن:۱/۲۱۴)
(سلیم کے نام خط:۳/۳۶۔۳/۹۱۔ معارف القرآن:۴/۷۳۱)
(قرآن فیصلے:۲۶۔ معارف القرآن:۴/۳۲۸۔ نظامِ ربوبیت:۸۷)
(لغات القرآن:۳/۱۰۴۳)
(قرآنی فیصلے:۳۷۔ سلیم کے نام ۵واں خط:۱/۷۷)
(نظامِ ربوبیت:۷۸)
(لغات القرآن:۲/۴۷۴)
(رسالہ قربانی:۳۔ قرآنی فیصلے:۵۵/۱۰۴)
(سلیم کے نام ۳۵واں خطا:۳/۱۹۷)
(حلال و حرام کی تحقیق)
(لغات القرآن:۱/۴۴۹، ادارہ طلوع اسلام
لاہور)
فرقہ پرویزیت کے عقائد و نظریات اور قرآن و حدیث سے ان کے جوابات
(مقامِ
حدیث:۱/۴۲۱)
۱۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو
عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ
وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ o
(جمعہ:۲)
ترجمہ: اللہ
وہی ہے جس نے امیین میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرمایا کہ وہ ان کو اس کی
آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھلاتا
ہے اور اس سے پہلے وہ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔
۲۔ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً
بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللہ ۔
(مائدہ:۳۸)
ترجمہ: چوری
کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو، ان کی کمائی کی
سزا ہے یہ تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے۔
۳۔ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى
أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللہ ۔
(حشر:۵)
ترجمہ: تم
نے کھجور کا جو درحت کاٹا یا اپنی جڑ پر کھڑا رہنے دیا یہ اللہ کے حکم سے کیا۔
لو لا السنۃ ما فھم احد منا القرآن۔
(میزان شعرانی:۲۵)
ترجمہ: اگر
سنت (حدیث) نہ ہوتی تو ہم میں سے کوئی شخص قرآن نہیں سمجھ سکتا تھا۔
(مقامِ حدیث:۱/۳۹۱0)
(اسلامی نظام:۸۶، ادارہ طلوع اسلام
کراچی۔معارف القرآن:۴/۶۲۶)
إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ
عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ
الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌo
(حٰمٓ سجدہ:۴۰)
ترجمہ: بیشک
وہ لوگ جو ہماری آیات میں الحاد کی راہیں نکالتے ہیں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں،
بھلا جو آدمی ؤگ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن سے ہوں گے،
جو چاہو کرو، بیشک جو کچھ تم کرتے ہو وہ دیکھتا ہے۔
(معارف القرآن:۴/۶۳۱)
قُلْ أَطِيعُوا اللہ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللہ
لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ o
(اٰل عمران:۳۲)
ترجمہ: آپ
کہہ دیجئے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، پس اگر تم اس سے اعراض کروگے تو
اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
(اسلامی
نظام:۱۱۰)
اھل الفقہ و الدین و اھل طاعۃ اللہ الذین یعلمون الناس معانی دینھم
ویأمرونھم بالمعروف و ینھون عن المنکر فاوجب اللہ طاعتھم علی العباد۔
(تفسیر الدر المنثور:۲/۱۷۶)
ترجمہ: وہ
حضرات ہیں جو فقہ اور دین کے ماننے والے ہیں اور اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں اور
نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی
اطاعت اپنے بندوں پر فرض کی ہے۔ (یہی تفسیر تقریباً تمام ہی مفسرین رحمہم اللہ نے
بیان کی ہے)
(سلیم کے نام خط:۲/۳۴)
(۱) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ
آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۔
(بقرہ:۱۲۹)
ترجمہ: اے
ہمارے پروردگار! ان لوگوں میں خود انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری
آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔
(۲) إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ
بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللہ ۔
(نساء:۱۰۵)
ترجمہ: بیشک
ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف حق کے ساتھ نازل کی ہے، تاکہ لوگوں کے درمیان جو کچھ
اللہ تمہیں سمجھائے اس سے تم فیصلہ کرو۔
(۳) وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللہ ۔
(نساء:۶۴)
ترجمہ: ہم
نے رسول کو بھیجا اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے۔
(درمختار:۴۰۱)
ترجمہ: امام
ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحابؒ یہ فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی نبی پاک ﷺسے بیزاری کا اظہار کرے یا آپﷺ کو جھٹلائے تو وہ مرتد ہے۔
۱۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہ ۔
(نساء:۸۰)
ترجمہ: جس
نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
۲۔ وَأَطِيعُوا اللہ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ o
(اٰل عمران:۱۳۲)
ترجمہ: اور
اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی تاکہ تم پر رحم ہو۔
۳۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہ وَأَطِيعُوا
الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ o
(محمد:۳۳)
ترجمہ: اے
ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔
۴۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہ وَرَسُولَهُ وَلَا
تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ o
(انفال:۲۰)
ترجمہ: اے
ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور مت پِھرو اس سے سننے کے بعد۔
۱۔ عن ابی ھریرۃؓ عنہ قال قال رسول اللہﷺ کل امتی یدخلون الجنۃ الا من ابی قیل و من ابی قال من اطاعنی دخل
الجنۃ و من عصانی فقد ابی۔
(بخاری و کذا فی مشکوٰۃ:۲۷)
ترجمہ: حضرت
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری ساری امت جنت میں جائے گی
سوائے ان لوگوں کے جو انکار کرے، عرض کیا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا جس نے
میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے نافرمانی کی تو اس نے انکار کیا(وہ
جہنم میں داخل ہوگا)۔
۲۔ عن مالک بن انس مرسلاً قال قال رسول اللہ ﷺ ترکتُ فیکم امرین لن تضلّوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنۃ رسولہ۔
(مؤطا مالک: وکذا مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے اندر دوچیزیں میں چھوڑ
رہا ہوں، جب تک تم اس پر عمل کرتے رہو گے تو گمراہ نہیں ہوگے: (۱) اللہ کی کتاب۔ (۲)اس کے رسول کی سنت(احادیث)۔
۳۔ و عن جابرؓ قال قال رسول اللہ ﷺ والذی نفسی بیدہ لو بدالکم موسیٰ فاتبعتموہ و ترکتمونی لضللتم عن
سواء السبیل و لو کان حیّا و ادرک نبوّتی لاتبعنی۔
(سنن دارمی و کذا مشکوٰۃ:۳۲)
ترجمہ: حضرت
جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں
محمدؐ کی جان ہے! اگر تمہارے سامنے موسیٰ علیہ السلام تشری لے آئیں اور تم ان کی
اتباع کرنے لگو مجھ کو چھوڑ کر تو یقیناً تم گمراہ ہوجاؤ گے اور اگر وہ زندہ ہوتے
اور وہ میری نبوت کو پاتے تو وہ میری ہی اتباع کرتے۔
۱۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللہ الْإِسْلَامُ ۔
(اٰل عمران:۱۹)
ترجمہ: اللہ
کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔
۲۔ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ
مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ o
(اٰل عمران:۸۵)
ترجمہ: اور
جو کوئی دین اسلام کے سواء اور کوئی دین کو چاہے گا تو اس سے ہرگز قبول نہیں ہوگا۔
۳۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللہ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ
كَانَ يَرْجُو اللہ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۔
(احزاب ۲۱)
ترجمہ: بیشک
تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے جو اللہ اور روز
آخرت کی امید رکھتا ہو۔
(معارف القرآن:۴/۴۲۰)
۱۔ وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ
الرَّحِيمُ o
(بقرہ:۱۶۳)
ترجمہ: اور
تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے کوئی معبود نہیں اس کے سواء جو برا مہربان نہایت
رحم والا ہے۔
۲۔ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ
وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللہ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ o
(عنکبوت:۶۱)
ترجمہ: اور
اگر لوگوں سے سوال کرو کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے وار کس نے کام میں
لگایا سورج وار چاند کو؟ تو وہ کہیں گے اللہ، پھر کدھر الٹے چلے جارہے ہیں۔
۳۔ قُلْ هُوَ اللہ أَحَدٌ o اللہ الصَّمَدُ o لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ o وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ o
(سورۂ اخلاص)
ترجمہ: کہدیجئے
کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا، نہ اس کو کسی نے جنا اور
نہیں کوئی اس کے برابر۔
۱۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ
فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ۔
(حج:۵)
ترجمہ: اے
لوگو! اگر تم کو دوبارہ زندہ ہونے میں شک ہے تو تحقیق ہم نے تم کو مٹی سے پید کیا
پھر نطفہ سے پیدا کیا۔
۲۔ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ o قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ
بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ o
(یٰسین:۷۸،۷۹)
ترجمہ: کافر
کہتے ہیں کہ بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ ای نبی! آپ ان سے کہدیجئے کہ جس ذات
نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا وہی ان کو دوبارہ پیدا کرےگا، وہ تو ہر چیز کو
جاننے والا ہے۔
۱۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ۔
(بقرہ:۳۱)
ترجمہ: ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام
چیزوں کے نام سکھائے۔
۱۔ انا سیدُ ولد آدمؑ ۔
(مشکوٰۃ:۵۱۱)
۲۔ أَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
تَحْتَهُ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ۔
(مشکوٰۃ:۵۱۳)
ترجمہ: میں قیامت کے حمد کا جھنڈا اٹھایا ہوا
ہوں گا اور حضرت آدم علیہ اور ان کے علاوہ سب اس کے نیچے ہوں گے۔
۱۔ بقولہ لا اعلم ان آدم علیہ السلام نبیٌّ اولا۔
(بحر الرائق:۵/۱۳۰)
ترجمہ: اس
کو کافر کہا جائے گا جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ حضرت آدم علیہ السلام نبی تھے
یا نہیں۔
۲۔ اول الانبیاء آدم و آخرھم محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اما نبوۃ آدم
علیہ السلام فبالکتاب الدال علی انہ قد امر و نُھی ...... کذا السنۃ و الاجماع
فانکار نبوتہٖ علی ما نقل عن البعض یکون کفراً ۔
(شرح عقائد:۱۲۵)
ترجمہ: سب
سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آخری نبی محمد ﷺ ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے نبوت کا ثبوت
قرآن مجید سے ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اوامر و نواہی کے احکامات دئے گئے
تھے۔ ....... اسی طرح سنت اور اجماع سے بھی حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت ثابت ہے،
اس کا انکار کرنا جیسے کہ بعض لوگ کرتے ہیں یہ کفر ہے۔
(سلیم کے نام خط:۳/۳۶۔۳/۹۱۔ معارف القرآن:۴/۷۳۱)
(المسامرۃ، عقائد الاسلام)
ولا ترتاب بذٰلک بعد و المرتاب فی ذٰلک المعلوم من الدین بالضرورۃ
و المنکر لذالک بعد البحث عنہ و صحبۃ المسلمین کافرًا بالاتفاق۔
(نسیم الریاض:۴/۵۵۳)
ترجمہ: نمازکے
معروف و مشہور طریقہ کا انکار یا اس میں شک نہیں کرنا چاہئے اور جو شخص شک کرے وہ
امور جو ضروریاتِ دین میں سے ہیں اس کو علم بھی ہو اور پھر وہ مسلمانوں کے ساتھ
رہنے کے باوجود اس کا انکار کرے تو وہ بالاتفاق کافر ہے۔
(لغات القرآن:۳/۱۰۴۳)
و کذالک علی کفر من قال من الخوارج ان الصلوٰۃ الواجبۃ طرفی النھار
فقط و المراد بطرفی النھار اولہ و آخرہ۔
(نسیم الریاض:۴/۵۵۰)
ترجمہ: اسی
طرح اجماع ہے ان خوارج کے کفر پر جو یہ کہتے ہیں کہ نماز صرف دن کے دونوں سروں پر
فرض ہے، یعنی دن کے ابتداء اور انتہاء میں۔
۱۔ و اقیموا الصلوۃ و اٰتُوا الزکوٰۃ۔
(قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے)
ترجمہ: نماز
کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔
۲۔ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ
بِهَا ۔
(توبہ:۱۰۳)
ترجمہ: آپ
ان کے مالوں سے زکوٰۃ لیجئے، جس کے ذریعہ ان کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔
(فتح الملہم:۲/۱۔ بذل المجہود:۴/۱۔ تعلیق الصبیح:۲/۲۷۵ وغیرہم)
(نظامِ ربوبیت:۸۷)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ
وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ۔
(توبہ:۶۰)
ترجمہ: بیشک
زکوٰۃ کے مصارف فقراء، مساکین اور اس پر کام کرنے والے ہیں۔
(لغات القرآن:۲/۴۷۴)
۱۔ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ
إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللہ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ o
(اٰل عمران:۹۷)
ترجمہ: اور
اللہ کے لئے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے یعنی اس شخص کے لئے جو طاقت رکھے
وہاں تک جانے کی اور جس شحص نے ناشکری کی تو وہ اللہ تعالیٰ تمام جہاں والوں سے بے
پرواہ ہے۔
۲۔ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۔
(بقرہ:۱۹۶)
ترجمہ: اللہ
کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔
و کذالک یحکم بکفرہ ان انکر مکۃ او البیت او المسجد الحرام او انکر
صفۃ الحج التی ذکھا الفقہاء و من واجباتہ و ارکانہ و نحوھا او قال الحج واجب فی
القرآن و استقبال القبلۃ و کذٰلک و لکن کونہ ای المذکور منالحج و الاستقبال علی
ھذہ الھیئۃ المتعارفۃ شرعاً عند سائر الناس و ان تلک المعروفۃ ھی حکم و البیت
والمسجد الحرام لا ادری۔
(نسیم الریاض)
ترجمہ: اور
اسی طرح اگر کسی شخص نے مکہ یا بیت اللہ یا مسجد حرام کا انکار کیا یا حج کے کسی
ایسے طریقہ کا انکار کیا جس کو فقہاء نے واجبات حج یا ارکان حج وغیرہ میں ذکر کیا
ہے یا یوں کہا کہ حج قرآن میں فرض ہے اور اسی طرح قبلہ کی طرف منہ کرنا بھی لیکن
شریعت کی اس مشہور کو جو لوگوں نے راسخ ہے اور اسی مشہور مقام کو جو کہ مکہ بیت
اللہ اور مسجد حرام ہے میں نہیں جانتا۔
فھذا القائل و مثلہ من یشک فی معانی النصوص
المتواترۃ لا مریۃ فی تکفیرہ ای المکّۃ بکفرہ لانکارہ ما علم من الدین بالضرورۃ و
ابطالہ الشرع و تکذیبہ للہ و رسولہ ۔
(نسیم الریاض:۴/۵۵۳)
ترجمہ: اس طرح کہنے والا اور وہ شخص جو کہ نصوص کے
ان معانی میں شک کرتا ہو کہ جو متواتر ہیں اس کے کفر میں کوئی شک کرتا ہے تو اس کے
بھی کفر میں کچھ شک نہیں، کیونکہ وہ ضروریات دین کا منکر ہے اور شریعت کا ابطال
کرنے والا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلاتا ہے (اس لئے ایسا شخص کافر ہوگا)۔
(رسالہ قربانی:۳۔ قرآنی فیصلے ۵۵،۱۰۴)
۱۔ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ
رَبِّ الْعَالَمِينَ o
(انعام:۱۶۲)
ترجمہ: آپ
فرمادیجئے کہ بلاشبہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا یہ سب اللہ
کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔
۲۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْo
ترجمہ: پس
اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے؟
و یکفر بانکارہ اصل الوتر و الاضحیۃ۔
(بحراالرائق:۵/۱۳۱)
ترجمہ: اور
وہ شخص جو وتر یا قربانی کا انکار کرے کافر ہوجائے گا۔
(سلیم کے نام ۳۵واں خط:۳/۱۹۷)
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ
وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللہ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ
وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ ۔
(مائدہ:۳)
(لغات القرآن:۱/۴۴۹، ادارہ طلوع اسلام
لاہور)
۱۔ قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَبِئْسَ
مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ o
(زمر:۷۲)
ترجمہ: کہا
جائے گا کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ رہوےگ اس میں اور وہ متکبرین کا
بُرا ٹھکانہ ہے۔
۲۔ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا o
(فرقان:۶۶)
ترجمہ: بیشک
جہنم بہت بُری جگہ ہے ٹہرنے کی اور بُری جگہ ہے رہنے کی۔
۱۔ قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۔
(یٰسین:۲۶)
ترجمہ: کہا
جائے گا جنت میں داخل ہوجاؤ
۲۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۔
(زمر:۷۳)
ترجمہ: اور جو متقی ہیں وہ جنت کی طرف گروہ گروہ بناکر ہانکے جائیں گے۔
ان الجنۃ و النار مخلوقتان۔
(شرح عقائد نسفی)
ترجمہ: بیشک
جنت اور جہنم پیدا ہوچکے ہیں۔
(عقائد اسلام:۸۹)
و کذٰلک نکفر من انکر الجنۃ و النار نفسھما اور محلّھما۔
(نسیم الریاض:۴/۵۵۵)
ترجمہ: اور
اسی طرح ہم اس کو بھی کافر کہیں گے جو جنت اور جہنم کا انکار کرے یا ان کے مقامات
کا انکار کرے۔
فرقہ پرویزیت، فرقہ چکڑالوی اور منکرین حدیث کی مزید تحقیق کے لئے
ان کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسولَ فَأُولٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّۦنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولٰئِكَ رَفيقًا {4:69} |
اور جو کوئی حکم مانے اللہ کا اور اس کے رسول کا سو وہ ان کے ساتھ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا کہ وہ نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت ہیں اور اچھی ہے ان کی رفاقت [۱۱۳] |
And whosoever obeyeth Allah and the apostle, then those shall be with them whom Allah hath blessed --from among the prophets, the saints, the martyrs, and the righteous. Excellent are these as a company! |
No comments:
Post a Comment