Monday, 16 April 2012

شفاعت کا بیان


شفاعتِ رسول ﷺ یا شکایتِ رسول ﷺ:

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا [سورہ الفرقان:٣٠]
ترجمہ:
اور پیغمبر (روزِ قيامت) کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا.

توضیح :
اصل میں لفظ مھجور استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ اگر اسے ھَجْر سے مشتق مانا جائے تو معنی ہوں گے متروک ، یعنی ان لوگوں نے قرآن کو قابل التفات ہی نہ سمجھا، نہ اسے قبول کیا اور نہ اس سے کوئی اثر لیا ۔ اور اگر ھُجْر سے مشتق مانا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسے ہذیان اور بکواس سمجھا۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اسے اپنے ہذیان اور اپنی بکواس کا ہدف بنا لیا اور اس پر طرح طرح کی باتیں چھانٹتے رہے۔

And the Messenger, Muhammad (s), says, ‘O my Lord, lo! my people, the [tribe of] Quraysh, consider this  Qur’ān as something to be shunned’, to be disregarded.{25/30}

TAFSEER_IBN_ABBAAS: (And the messenger) Muhammad (pbuh) (saith: O my Lord! Lo! mine own folk make this Qur'an of no account) they speak ill of it, they do not believe in it and do not act upon its teachings.

TAFSEER_JALAALAIN: And the Messenger, Muhammad (s), says, ‘O my Lord, lo! my people, the [tribe of] Quraysh, consider this Qur’ān as something to be shunned’, to be disregarded.

-------------------------------

حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تمہارے نبی ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، ‌وَيَضَعُ ‌بِهِ ‌آخَرِينَ»
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعہ (اعلانیہ انکار کرنے والے کافر) لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعہ (ماننے والے مومن) لوگوں کو پست و ذلیل کرتا ہے۔
[صحیح مسلم: حدیث نمبر 817، فضائل قرآن کا بیان :قرآن مجید پر عمل کرنے والوں اور اسکے سکھانے والوں کی فضلیت کے بیان میں]


-------------------------------

قرآن پاک کے حقوق:

١) اس پر ایمان لانا

٢) تجوید و ترتیل سے پڑھنا سیکھنا

٣) (اس میں) تدبر و تفکر کرنا

٤) اس پر عمل کرے

٥) تبلیغ کرے (اس کے پیغام کو عام کرے)۔






وَاتَّقوا يَومًا لا تَجزى نَفسٌ عَن نَفسٍ شَيـًٔا وَلا يُقبَلُ مِنها شَفٰعَةٌ وَلا يُؤخَذُ مِنها عَدلٌ وَلا هُم يُنصَرونَ {2:48}
اور ڈرو اس دن سے کہ کام نہ آئے کوئی شخص کسی کے کچھ بھی اور قبول نہ ہو اسکی طرف سے سفارش اور نہ لیا جائے اس کی طرف سے بدلہ اور نہ ان کو مدد پہنچے [۷۴]
And fear a Day whereon not in aught shall a soul satisfy for a soul, nor shall intercession be accepted thereof, shall compensation be received therefor, nor shall they be succoured.
جب کوئی کسی بلا میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے رفیق اکثر یہی کیا کرتے ہیں کہ اول تو اس کے ادائے حق لازم میں کوشش کرتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا تو سعی سفارش سے بچانے کی تدبیر کرتے ہیں یہ بھی نہ ہو سکے تو پھر تاوان و فدیہ دے کر چھڑاتے ہیں اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو بالآخر اپنے مددگاروں کو جمع کر کے بزور پرخاش اس کی نجات کی فکر کرتے ہیں حق تعالیٰ نے اسی ترتیب کے موافق ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص گو کیسا ہی مقرب خداوندی ہو مگر کسی نافرمان عدواللہ کافر کو منجملہ چاروں صورتوں کے کسی صورت سے نفع نہیں پہنچا سکتا ۔ بنی اسرائیل کہتے تھے کہ ہم کیسے ہی گناہ کریں ہم پر عذاب نہ ہو گا ۔ ہمارے باپ دادا جو پیغمبر ہیں ہمیں بخشوا لیں گے سو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خیال تمہارا غلط ہے اس سے اس شفاعت کا انکار نہیں نکلتا جس کے اہل سنت قائل ہیں اور جو دیگر آیات میں مذکور ہے۔



وَاتَّقوا يَومًا لا تَجزى نَفسٌ عَن نَفسٍ شَيـًٔا وَلا يُقبَلُ مِنها عَدلٌ وَلا تَنفَعُها شَفٰعَةٌ وَلا هُم يُنصَرونَ {2:123}
اور ڈرو اس دن سے کہ نہ کام آوے کوئی شخص کسی کی طرف سے ذرا بھی اور نہ قبول کیا جاوے گا اس کی طرف سے بدلہ اور نہ کام آوے اس کو سفارش اور نہ ان کو مدد پہنے [۱۷۶]
And fear a Day whereon not in aught shall a soul satisfy for a soul, nor shall compensation be accepted therefor, nor shall intercession profit it, nor shall they be succoured.
بنی اسرائیل کو جو باتیں شروع میں یاد دلائی گئیں تھیں اب ان کے سب حالات ذکر کرنے کے بعد پھر وہی امور بغرض تاکید و تنبیہ یاد دلائے گئے کہ خوب دلنشین ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں اور معلوم ہو جائے کہ اصل مقصود اس قصہ سے یہ ہے ۔



يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِمّا رَزَقنٰكُم مِن قَبلِ أَن يَأتِىَ يَومٌ لا بَيعٌ فيهِ وَلا خُلَّةٌ وَلا شَفٰعَةٌ ۗ وَالكٰفِرونَ هُمُ الظّٰلِمونَ {2:254}
اے ایمان والو خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تم کو روزی دی پہلے اس دن کے آنے سے کہ جس میں نہ خرید و فرخت ہے اور نہ آشنائی اور نہ سفارش [۴۱۴] اور جو کافر ہیں وہی ہیں ظالم [۴۱۵]
O O Ye who believe: expend of that which We have provided you ere the Day cometh wherein there will be neither bargain nor friendship nor intercession. And the infidels - they are the wrong-doers.
اس سورت میں عبادات و معاملات کے متعلق احکام کثیرہ بیان فرمائے جن سب کی تعمیل نفس کو ناگوار اور بھاری ہے اور تمام اعمال میں زیادہ دشوار انسان کو جان اور مال کا خرچ کرنا ہوتا ہے اور احکام الہٰی اکثر جو دیکھے جاتے ہیں یا جان کے متعلق ہیں یا مال کے اور گناہ میں بندہ کو جان یا مال کی محبت اور رعایت ہی اکثر مبتلا کرتی ہے گویا ان دونوں کی محبت گناہوں کی جڑ اور اس سے نجات جملہ طاعات کی سہولت کا منشاء ہے اس لئے ان احکامات کو بیان فرما کر قتال اور انفاق کو بیان فرمانا مناسب ہوا { وَقَاتِلُوْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ } الخ اول کا بیان تھا تو { مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ } دوسرے کا ذکر ہے اس کے بعد قصہ طالوت سے اول کی تاکید ہوئی تو اب { اَنْفِقُوْ مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ } الخ سے دوسرے کی تاکید منظور ہے اور چونکہ انفاق مال پر بہت سے امور عبادات و معاملات کے موقوف ہیں تو اس کے بیان میں زیادہ تفصیل اور تاکید سے کام لیا چنانچہ اب جو رکوع آتے ہیں ان میں اکثروں میں امر ثانی یعنی انفاق مال کا ذکر ہے۔ خلاصہ معنی یہ ہوا کہ عمل کا وقت ابھی ہے آخرت میں تو نہ عمل بکتے ہیں نہ کوئی آشنائی سے دیتا ہے نہ کوئی سفارش سے چھڑا سکتا ہے جب تک پکڑنے والا نہ چھوڑے۔
یعنی کفار نے اپنے اوپر ظلم کیا جس کی شامت سے ایسے ہوگئے کہ آخرت میں نہ کسی کی دوستی سے ان کو نفع ہو سکے اور نہ سفارش سے۔



اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ الحَىُّ القَيّومُ ۚ لا تَأخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَومٌ ۚ لَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۗ مَن ذَا الَّذى يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ ۚ يَعلَمُ ما بَينَ أَيديهِم وَما خَلفَهُم ۖ وَلا يُحيطونَ بِشَيءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ ۚ وَسِعَ كُرسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ ۖ وَلا يَـٔودُهُ حِفظُهُما ۚ وَهُوَ العَلِىُّ العَظيمُ {2:255}
اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہں زندہ ہے سب کا تھامنے والا [۴۱۶] نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے جانتا ہے جو کچھ خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ انکے پیچھے ہے اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا [۴۱۷]
Allah! There is no God but he, the Living, the Sustainer Slumber taketh hold of Him not, nor sleep. His is whatsoever is in the heavens and whatsoever is on the earth. Who is he that shall intercede With Him except with His leave! He knoweth that which was before them and that which shall he after them, and they encompass not aught of His knowledge save that which He willeth. His throne comprehendeth the heavens and the earth, and the guarding of the twain wearieth Him not. And He is the High, the Supreme.
پہلی آیت سے حق سبحانہ کی عظمت شان بھی مفہوم ہو تی ہے اب اس کے بعد اس آیت کو جس میں توحید ذات اور اس کا تقدس و جلال غایت عظمت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے نازل فرمائی اور اسی کا لقب آیۃ الکرسی ہے اسی کو حدیث میں اعظم آیات کتاب اللہ فرمایا ہے اور بہت فضیلت اور ثواب منقول ہے اور اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں رلا ملا کر تین قسم کے مضمون کو جگہ جگہ بیان فرمایا ہے علم توحید و صفات، علم احکام، علم قصص و حکایات سے بھی توحید و صفات کی تقریر و تائید مقصود ہوتی ہے یا علم احکام کی تاکید و ضرورت اور علم توحید و صفات اور علم احکام بھی باہم ایسے مربوط ہیں کہ ایک دوسرے کے لئے علت اور علامت ہے صفات حق تعالیٰ احکام شرعیہ کے حق میں منشاء اور اصل ہیں تو احکام شرعیہ صفات کے لئے بمنزلہ ثمرات اور فروع ہیں تو اب ظاہر ہے کہ علم قصص اور علم احکام سے علم توحید کو ضرور اعانت اور تقویت پہنچے گی اور علم قصص اور علم توحید و صفات سے ضرور علم احکام کی تاکید اور اس کی ضرورت بلکہ حقیقت اور اصلیت ثابت ہو گی اور یہ طریقہ جو تین طریقوں سے مرکب ہے بغایت احسن اور اسہل اور قابل قبول ہے اول تو اس وجہ سے کہ ایک طریقہ کہ پابندی موجب ملال ہوتی ہے اور ایک علم سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجانا ایسا ہوجاتا ہے جیسا ایک باغ کی سیر کر کے دوسرے باغ کی سیر کرنے لگے دوسرے تینوں طریقوں سے مل کر حقیقت منشاء ثمرہ نتیجہ سب ہی معلوم ہو جائے گا اور اس میں تعمیل احکام نہایت شوق و مستعدی اور رغبت و بصیرت کے ساتھ ہو گی۔ اس لئے طریقہ مذکورہ بغایت عمدہ اور مفید اور قرآن مجید میں کثیر الاستعمال ہے اس جگہ دیکھ لیجئے کہ اول احکام کو کس کثرت و تفصیل سے بیان فرمایا اس کے بعد بقدر مصلحت قصص کو بیان کر کے تمام احکامات مذکورہ کے فوائد و نتائج گویا ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیئے ان سب کے بعد آیۃ الکرسی جو کہ دربارہ توحید و صفات ممتاز آیت ہے اس کو بیان فرما کر جملہ احکامات کی جڑ کو دلوں میں ایسا مستحکم فرما دیا کہ اکھاڑے نہ اکھڑے۔
اس آیت میں توحید ذات اور عظمت صفات حق تعالیٰ کو بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ موجود ہے ہمیشہ سے اور کوئی اس کا شریک نہیں تمام مخلوقات کا موجد وہی ہے تمام نقصان اور ہر طرح کے تبدل اور فتور سے منزہ ہے سب چیزوں کا مالک ہے تمام چیزوں کا کامل علم اور سب پر پوری قدرت اور اعلیٰ درجے کی عظمت اس کو حاصل ہے کسی کو نہ اتنا استحقاق نہ اتنی مجال کہ بغیر اس کے حکم کے کسی کی سفارش بھی اس سے کر سکے کوئی امر ایسا نہیں جس کے کرنے میں اس کو دشواری اور گرانی ہو سکے ۔ تمام چیزوں اور سب کی عقلوں سے برتر ہے اس کے مقابلہ میں سب حقیر ہیں ۔ اس سے دو مضمون اور خوب ذہن نشین ہو گئے ایک تو حق تعالیٰ کی ربوبیت اور حکومت اور اپنی محکومیت اور عبدیت جس سے حق تعالیٰ کے تمام احکامات مذکورہ اور غیر مذکورہ کا بلا چون و چراں واجب التصدیق اور واجب التعمیل ہونا اور اس کے احکام میں کسی قسم کے شک و شبہ کا معتبرنہ ہونا معلوم ہو گیا دوسرے عبادات و معاملات کثیرہ مذکورہ سابقہ کو اور ان کے ساتھ تنعیم و تعذیب کو دیکھ کر کسی کو خلجان ہو سکتا تھا کہ ہر ہر فرد کے اس قدر معاملات و عبادات کثیرہ ہیں کہ جن کا مجموعہ اتنا ہوا جاتا ہے کہ ان کا ضبط اور حساب کتاب محال معلوم ہوتا ہے پھر اس کے مقابلہ میں ثواب و عقاب یہ بھی عقل سے باہر غیر ممکن معلوم ہوتا ہے سو اس آیت میں حق سبحانہ نے چند صفات مقدسہ اپنی ایسی ذکر فرمائیں کہ وہ تمام خیالات بسہولت دور ہوگئے یعنی اس کا علم و قدرت ایسا کامل ہے کہ ایک چیز بھی ایسی نہیں جو اس سے باہر ہو جس کا علم اور قدرت ایسا غیر متناہی اور ہمیشہ یکساں رہنے والا ہو اس کو تمام جزئیات عالم کے ضبط رکھنے اور ان کاعوض عطا فرمانے میں کیا دقت ہو سکتی ہے۔




مَن يَشفَع شَفٰعَةً حَسَنَةً يَكُن لَهُ نَصيبٌ مِنها ۖ وَمَن يَشفَع شَفٰعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَهُ كِفلٌ مِنها ۗ وَكانَ اللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ مُقيتًا {4:85}
جو کوئی سفارش کرے نیک بات میں اس کو بھی ملے گا اس میں سے ایک حصہ اور جو کوئی سفارش کرے بری بات میں اس پر بھی ہے ایک بوجھ اس میں سے [۱۳۸] اور اللہ ہے ہر چیز پر قدرت رکھنے والا [۱۳۹]
Whosoever intercedeth with a goodly intercession, his shall be a portion therefrom, and whosoever intercedeth with an ill intercession his shall be a responsibility thereof; and Allah is of everything the Controller.
یعنی اگر کوئی نیک کام میں سعی سفارش کرے جیسا نبی ﷺ کا مسلمانوں کو جہاد کی تاکید فرمانا یا کوئی بری بات میں ساعی ہو جیسا منافق اور سست مسلمانوں کا جہاد سے ڈر کر دوسروں کو بھی ڈرانا تو اول صورت میں ثواب کا اور دوسری صورت میں گناہ کا حصہ ملے گا ایسے ہی اگر کوئی محتاج کی سفارش کر کے دولت مند سے کچھ دلوا دے تو یہ بھی خیرات کے ثواب میں شریک ہو گا۔ اور جو کوئی کافر مفسد یا سارق کو سفارش کر کے چھڑا دے پھر وہ فساد اور چوری کرے تو یہ بھی شریک ہو گا فساد اور چوری میں۔
یعنی خدا تعالیٰ تمام چیزوں پر قادر اور ہر چیز کا حصہ بانٹنے والا ہے تو نیکی اور بدی کے حصہ دینے میں اس کو کوئی دشواری نہیں۔




وَأَنذِر بِهِ الَّذينَ يَخافونَ أَن يُحشَروا إِلىٰ رَبِّهِم ۙ لَيسَ لَهُم مِن دونِهِ وَلِىٌّ وَلا شَفيعٌ لَعَلَّهُم يَتَّقونَ {6:51}
اور خبردار کر دے اس قرآن سے ان لوگوں کو جنکو ڈر ہے اسکا کہ وہ جمع ہونگے اپنے رب کے سامنے اس طرح پر کہ اللہ کے سوا نہ کوئی انکا حمایتی ہو گا اور نہ سفارش کرنے والا [۵۶] تاکہ وہ بچتے رہیں [۵۷]
And warn thou therewith those who fear that they shall be gathered unto their Lord, when there shall be for them no patron nor intercessor beside Him; haply they may become God-fearing.
یعنی یہ سن کر گناہ سے بچتے رہیں۔
یعنی جو لوگ فرمائشی معجزات دکھلائے جانے پر اپنے ایمان کو موقوف رکھتے اور ازراہ تعنت و عناد آیات اللہ کی تکذیب پر تلے ہوئے ہیں ان سے قطع نظر کیجئے۔ کیونکہ تبلیغ کا فرض ادا ہو چکا اور ان کے راہ راست پر آنے کی توقع نہیں اب وحی الہٰی (قرآن) کے ذریعہ سے ان لوگوں کو متنبہ کرنے کا مزید اہتمام فرمائیے جن کے دلوں میں محشر کا خوف اور عاقبت کی فکر ہے۔ کیونکہ ایسے ہی لوگوں سےامید ہو سکتی ہے کہ نصیحت سے متاثر اور ہدایات قرآنی سے منتفع ہوں۔



وَذَرِ الَّذينَ اتَّخَذوا دينَهُم لَعِبًا وَلَهوًا وَغَرَّتهُمُ الحَيوٰةُ الدُّنيا ۚ وَذَكِّر بِهِ أَن تُبسَلَ نَفسٌ بِما كَسَبَت لَيسَ لَها مِن دونِ اللَّهِ وَلِىٌّ وَلا شَفيعٌ وَإِن تَعدِل كُلَّ عَدلٍ لا يُؤخَذ مِنها ۗ أُولٰئِكَ الَّذينَ أُبسِلوا بِما كَسَبوا ۖ لَهُم شَرابٌ مِن حَميمٍ وَعَذابٌ أَليمٌ بِما كانوا يَكفُرونَ {6:70}
اور چھوڑ دے انکو جنہوں نے بنا رکھا ہے اپنے دین کو کھیل اور تماشا [۸۲] اور دھوکا دیا انکو دنیا کی زندگی نے [۸۳] اور نصیحت کر انکو قرآن سے تاکہ گرفتار نہ ہو جاوے کوئی اپنے کئے میں کہ نہ ہو اس کے لئے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ سفارش کرنے والا اور اگر بدلے میں دے سارے بدلے تو قبول نہ ہوں اس سے [۸۴] وہی لوگ ہیں جو گرفتار ہوئے اپنے کئے میں انکو پینا ہے گرم پانی اور عذاب ہے دردناک بدلے میں کفر کے [۸۵]
And let those alone who have taken their religion as a play and a sport and whom the life of the world hath beguiled. And admonish thou them therewith lest a soul be given up to perdition for that which it hath earned, when for him there shall be no friend or intercessor beside Allah, and when if he offer every equivalent it shall not be accepted of him. Those are they who are given up to perdition for that which they have earned. For them shall be drink of boiling water and a torment afflictive, for they were wont to disbelieve.
دنیا کی لذتوں میں مست ہو کر عاقبت کو بھلا بیٹھے۔
گذشتہ آیت میں خاص اس مجلس سے کنارہ کشی کا حکم تھا جہاں آیات اللہ کے متعلق طعن و استہزاء اور ناحق کے جھگڑے کئے جارہے ہوں۔ اس آیت میں ایسے لوگوں کی عام مجالست و صحبت ترک کر دینے کا ارشاد ہے۔ مگر ساتھ ہی حکم ہےکہ ان کو نصیحت کر دیا کرو۔ تاکہ وہ اپنے کئے کے انجام سے آگاہ ہو جائیں۔
یعنی اپنے اس دین کو جس کا قبول کرنا ان کے ذمہ فرض تھا اور وہ مذہب اسلام ہے۔
یعنی ایسےلوگوں کو جو تکذیب و استہزاء کی کوتوت میں پکڑے گئے ہوں نہ کوئی حمایتی ملے گا جو مدد کر کے زبردستی عذاب الہٰی سے چھڑا لے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ہو گا جو سعی و سفارش سےکام نکال دے۔ اور نہ کسی قسم کا فدیہ اور معاوضہ قبول کیا جائے گا اگر بالفرض ایک مجرم دنیا بھر کے معاوضے دے کر چھوٹنا چاہے تو نہ چھوٹ سکے گا۔




وَلَقَد جِئتُمونا فُرٰدىٰ كَما خَلَقنٰكُم أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكتُم ما خَوَّلنٰكُم وَراءَ ظُهورِكُم ۖ وَما نَرىٰ مَعَكُم شُفَعاءَكُمُ الَّذينَ زَعَمتُم أَنَّهُم فيكُم شُرَكٰؤُا۟ ۚ لَقَد تَقَطَّعَ بَينَكُم وَضَلَّ عَنكُم ما كُنتُم تَزعُمونَ {6:94}
اور البتہ تم ہمارے پاس آ گئے ایک ایک ہو کر جیسے ہم نے پیدا کیا تھا تم کو پہلی بار اور چھوڑ آئے تم جو کچھ اسباب ہم نے تم کو دیا تھا اپنی پیٹھ کے پیچھے [۱۲۵] اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ سفارش والوں کو جن کو تم بتلایا کرتے تھے کہ ان کا تم میں ساجھا ہے البتہ منقطع ہو گیا تمہاا علاقہ اور جاتے رہے جو دعوے کہ تم کیا کرتے تھے [۱۲۶]
And now ye are come unto us singly even as We had created you for the first time, and ye have left behind your backs that which We had granted unto you, and We see not along with you your intercessors who ye fancied were Our associates in respect of you as ye asserted. Now are the ties betwixt you severed and strayed from you is that which ye were wont to assert.
یعنی نہ سر پہ ٹوپی نہ پاؤں میں جوتی تہی دست چلے آ رہے ہو اور جس سازوسامان پر فخر و ناز تھا اسے ہمراہ نہیں لائے کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہو۔
یعنی جن کو تم سمجھتے تھے کہ آڑے وقت میں ہمارا ہاتھ بٹائیں گے اور مصیبت میں ساتھ ہوں گے وہ کہاں چلے گئے آج ہم ان کو تمہاری سفارش اور حمایت پر نہیں دیکھتے۔ حمایت و نصرت کے وہ علاقے آج ٹوٹ گئے اور جو لمبے چوڑے دعوے تم کیا کرتے تھے سب رفو چکر ہو گئے۔




هَل يَنظُرونَ إِلّا تَأويلَهُ ۚ يَومَ يَأتى تَأويلُهُ يَقولُ الَّذينَ نَسوهُ مِن قَبلُ قَد جاءَت رُسُلُ رَبِّنا بِالحَقِّ فَهَل لَنا مِن شُفَعاءَ فَيَشفَعوا لَنا أَو نُرَدُّ فَنَعمَلَ غَيرَ الَّذى كُنّا نَعمَلُ ۚ قَد خَسِروا أَنفُسَهُم وَضَلَّ عَنهُم ما كانوا يَفتَرونَ {7:53}
کیا اب اسی کے منتظر ہیں کہ اس کا مضمون ظاہر ہو جائے جس دن ظاہر ہو جائے گا اس کا مضمون کہنے لگیں گے وہ لوگ جو اس کو بھول رہے تھے پہلےسے بیشک لائے تھے ہمارے رب کے رسول سچی بات سو اب کوئی ہماری سفارش والے ہیں تو ہماری سفارش کریں یا ہم لوٹا دیے جائیں تو ہم عمل کریں خلاف اس کےجو ہم کر رہے تھے بیشک تباہ کیا انہوں نے اپنے آپ کو اور گم ہو جائے گا ان سے جو وہ افترا کیا کرتے تھے [۶۳]
They await only its fulfilment. The Day whereon the fulfilment thereof arriveth, those who were negligent thereof afore shall say: surely the apostles of our Lord brought the truths; are there for us any intercessors that they might intercede for us? or could we be sent back that we may work otherwise than we were wont to work? Surely they have lost themselves, and there hath strayed from them that which they were wont to fabricate.
کتاب اللہ میں جو دھمکیاں عذاب کی دی گئ ہیں کیا یہ اس کے منتظر ہیں کہ جب ان دھمکیوں کا مضمون (مصداق) سامنے آ جائے تب حق کو قبول کریں۔ حالانکہ وہ مضمون جب سامنے آ جائے گا یعنی عذاب الہٰی میں گرفتار ہوں گے تو اس وقت کا قبول کرنا کچھ کام نہ دے گا اس وقت تو سفارشیوں کی تلاش ہوگی جو خدا کی سزا سفارش کر کے معاف کرا دیں اور چونکہ ایسا سفارشی کافروں کو کوئی نہ ملے گا تو یہ تمنا کریں گے کہ ہم کو دوبارہ دنیا میں بھیج کر امتحان کر لیا جائے کہ اس مرتبہ اپنے جرائم کے خلاف ہم کیسی نیکی اور پرہیزگاری کے کام کرتے ہیں۔ لیکن اب اس تمنا سے کیا حاصل جبکہ پہلے خود اپنے ہاتھوں اپنے کو برباد کر چکے اور جو جھوٹے خیالات پکا رکھے تھے وہ سب رفو چکر ہو گئے۔




إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ۖ يُدَبِّرُ الأَمرَ ۖ ما مِن شَفيعٍ إِلّا مِن بَعدِ إِذنِهِ ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم فَاعبُدوهُ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {10:3}
تحقیق تمہارا رب اللہ ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین چھ دن میں [۴] پھر قائم ہوا عرش پر [۵] تدبیر کرتا ہے کام کی [۶] کوئی سفارش نہیں کر سکتا مگر اس کی اجازت کے بعد [۷] وہ اللہ ہے رب تمہارا سو اسکی بندگی کرو کیا تم دھیان نہیں کرتے [۸]
Verily your Lord is Allah who hath created the heavens and the earth in six days, then established Himself on the Throne disposing the affair; no in tercessor is there, except after His leave. That is Allah, your Lord; so worship Him. Would ye then not be admonished!
سورہ اعراف کے ساتویں رکوع کے شروع میں اسی طرح کی آیت گذر چکی۔ اس کا فائدہ ملاحظہ کیا جائے۔
یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے برابر تھا اور ایک دن ابن عباس کی تفسیر کے موافق ایک ہزار سال کا لیا جائے گا۔ گویا چھ ہزار سال میں زمین و آسمان وغیرہ تیار ہوئے ۔ بلاشبہ حق تعالیٰ قادر تھا کہ آن واحد میں ساری مخلوق کو پیدا کر دیتا۔ لیکن حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کی تدریجًا پیدا کیا جائے۔ شاید بندوں کو سبق دینا ہو کہ قدرت کے باوجود ہر کام سوچ سمجھ کر تأنی اور متانت سےکیا کریں۔ نیز تدریجی تخلیق کی بہ نسبت دفعۃً پیدا کرنے کے اس بات کا زیادہ اظہار ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ فاعل بالاضطرار نہیں ۔ بلکہ ہر چیز کا وجود بالکلیہ اس کی مشیت و اختیار سے وابستہ ہے جب چاہے جس طرح چاہے پیدا کرے۔
یعنی دھیان کرو کہ ایسے رب کے سوا جس کی صفات اوپر بیان ہوئیں دوسرا کون ہے جس کی بندگی اور پرستش کی جا سکے۔ پھر تم کو کیسے جرأت ہوتی ہے کہ اس خالق و مالک شہنشاہ مطلق اور حکیم برحق کے پیغاموں اور پیغامبروں کو محض اوہام و ظنون کی بنا پر جھٹلانے لگو۔
یعنی شریک اور حصہ دار تو اس کی خدائی میں کیا ہوتا ، سفارش کے لئے بھی اس کی اجازت کے بدون لب نہیں ہلا سکتا۔
یعنی مخلوق کے تمام کاموں کی تدبیر و انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔




وَيَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُم وَلا يَنفَعُهُم وَيَقولونَ هٰؤُلاءِ شُفَعٰؤُنا عِندَ اللَّهِ ۚ قُل أَتُنَبِّـٔونَ اللَّهَ بِما لا يَعلَمُ فِى السَّمٰوٰتِ وَلا فِى الأَرضِ ۚ سُبحٰنَهُ وَتَعٰلىٰ عَمّا يُشرِكونَ {10:18}
اور پرستش کرتے ہیں اللہ کےسوا اس چیز کی جو نہ نقصان پہنچا سکے ان کو نہ نفع اور کہتے ہیں یہ تو ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے پاس [۳۱] تو کہہ کیا تم اللہ کو بتلاتے ہو جو اسکو معلوم نہیں آسمانوں میں اور نہ زمین میں وہ پاک ہے اور برتر ہے اس سے جسکو شریک کرتے ہیں [۳۲]
And they worship, beside Allah, that which harmeth them not, nor profiteth them, and they say: these are our intercessors with God: Say thou: apprise ye Allah of that which He knoweth not in the heavens nor in the earth? Hallowed be He and Exalted far above that which ye associate!
وہ معاملہ تو خدا اور پیغمبر کے ساتھ تھا۔ اب ان کی خدا پرستی کا حال سنئے کہ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جن کے قبضہ قدرت میں نفع و ضرر کچھ بھی نہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ بیشک بڑا خدا تو ایک ہے جس نے آسمان زمین پیدا کئے ، مگر ان اصنام (بتوں) وغیرہ کو خوش رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ سفارش کر کے بڑے خدا سے دنیا میں ہمارے اہم کام درست کرا دیں گے اور اگر موت کے بعد دوسری زندگی کا سلسلہ ہوا تو وہاں بھی ہماری سفارش کریں گے باقی چھوٹے موٹے کام جو خود ان کے حدود اختیار میں ہیں ان کا تعلق تو صرف ان ہی سے ہے۔ بناءً علیہ ہم کو ان کی عبادت کرنی چاہئے۔
یعنی بتوں کا شفیع ہونا اور شفیع کا مستحق عبادت ہونا دونوں دعوے غلط اور بے اصل ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ خدا کے علم میں وہ ہی چیز ہو گی جو واقعی ہو۔ لہذا تعلیم الہٰی کے خلاف ان غیر واقعی اور خود تراشیدہ اصول کو حق بجانب ثابت کرنا ، گویا خدا تعالیٰ کو ایسی چیزوں کے واقعی ہونے کی خبر دینا ہے جن کا وقوع آسمان و زمین میں کہیں بھی اسے معلوم نہیں۔ یعنی کہیں ان کا وجود نہیں ، ہوتا تو اس کے علم میں ضرور ہوتا۔ پھر اس سے منع کیوں کرتا۔




لا يَملِكونَ الشَّفٰعَةَ إِلّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحمٰنِ عَهدًا {19:87}
نہیں اختیار رکھتے لوگ سفارش کا مگر جس نے لے لیا ہے رحمٰن سے وعدہ [۱۰۱]
They shall not own intercession, excepting those who have taken of the Compassionate a covenant. *Chapter:19
یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا وعدہ دیا مثلًا ملائکہ ، انبیاء ، صالحین وغیرہ ہم وہ ہی درجہ بدرجہ سفارش کریں گے بدون اجازت کسی کو زبان ہلانے کی طاقت نہ ہو گی اور سفارش بھی ان ہی لوگوں کی کر سکیں گے جن کے حق میں سفارش کئے جانے کا وعدہ دے چکے۔ کافروں کے لئے شفاعت نہ ہوگی۔




يَومَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفٰعَةُ إِلّا مَن أَذِنَ لَهُ الرَّحمٰنُ وَرَضِىَ لَهُ قَولًا {20:109}
اُس دن کام نہ آئے گی سفارش مگر جسکو اجازت رحمٰن نے دی اور پسند کی اسکی بات [۱۱۲]
That Day intercession will Profit not except him for whom the Compassionate giveth leave, and of whom He approveth the Word.
یعنی اس کی سفارش چلے گی جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سفارش کی اجازت ملے اس کا بولنا خدا کو پسند ہو ۔ اور بات ٹھکانے کی کہے اور ایسے شخص کی سفارش کرے جس کی بات (لا الٰہ الا اللہ) خدا کو پسند آ چکی ہے کافر کے حق میں کوئی سعی سفارش نہیں چلے گی۔




يَعلَمُ ما بَينَ أَيديهِم وَما خَلفَهُم وَلا يَشفَعونَ إِلّا لِمَنِ ارتَضىٰ وَهُم مِن خَشيَتِهِ مُشفِقونَ {21:28}
اُسکو معلوم ہے جو اُنکے آگے ہیں اور پیچھے [۲۷] اور وہ سفارش نہیں کرتے مگر اُسکی جس سے اللہ راضی ہو [۲۸] اور وہ اُسکی ہیبت سے ڈرتے ہیں [۲۹]
He knoweth whatsoever is before them and whatsoever is behind them; and they intercede not except for him whom He approveth, and in awe of Him they are fearful.
پھر ان کو خدا کیسے کہا جا سکتا ہے۔ جب خدا نہیں تو خدا کے بیٹے یا بیٹیاں بھی نہیں بن سکتے۔ کیونکہ صحیح اولاد جنس والدین سے ہونی چاہئے۔
یعنی اس کی مرضی معلوم کئے بدون کسی کی سفارش بھی نہیں کرتے ۔ چونکہ مومنین موحدین سےاللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اس لئے ان کے حق میں دنیا و آخرت میں استغفار کرنا ان کا وظیفہ ہے۔
حق تعالیٰ کا علم ان کے تمام ظاہری و باطنی احوال کو محیط ہے۔ ان کی کوئی حرکت اور کوئی قول و فعل اس سے پوشیدہ نہیں۔ چنانچہ مقرب بندے اسی حقیقت کو سمجھ کر ہمہ وقت اپنے احوال کا مراقبہ کرتے رہتے ہیں کہ کوئی حالت اس کی مرضی کےخلاف نہ ہو۔




فَما لَنا مِن شٰفِعينَ {26:100}
پھر کوئی نہیں ہماری سفارش کرنے والے
So none we have as intercessors.





وَلَم يَكُن لَهُم مِن شُرَكائِهِم شُفَعٰؤُا۟ وَكانوا بِشُرَكائِهِم كٰفِرينَ {30:13}
اور نہ ہوں گے ان کے شریکوں میں کوئی انکے سفارش کرنے والے اور وہ ہو جائیں گے اپنے شریکوں سے منکر [۱۳]
And not from their associate-gods, there will be intercessors for them, and unto their associate-gods they will be unbelievers.
یعنی جن کو اللہ کا شریک بناتے تھے جب وقت پر کام نہ آئیں گے تو منکر ہو کر کہنے لگیں گے کہ { وَاللہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ } (خدا کی قسم ہم مشرک نہ تھے)۔




اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ۖ ما لَكُم مِن دونِهِ مِن وَلِىٍّ وَلا شَفيعٍ ۚ أَفَلا تَتَذَكَّرونَ {32:4}
اللہ ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین اور جو کچھ انکے بیچ میں ہے چھ دن کے اندر پھر قائم ہوا عرش پر [۳] کوئی نہیں تمہارا اس کے سوائے حمایتی اور نہ سفارشی پھر تم کیا دھیان نہیں کرتے [۴]
Allah it is Who created the heavens and the earth and whatsoever is betwixt the twain in six days, and then He established Himself on the throne. No patron have ye nor an intercessor, besides Him. Will ye not then be admonished?
اس کا بیان سورہ اعراف میں آٹھویں پارہ کے اختتام کے قریب گذر چکا۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔
یعنی دھیان نہیں کرتے کہ اس کے پیغام اور پیغامبر کو جھٹلا کر کہاں جاؤ گے ۔ تمام زمین و آسمان میں عرش سے فرش تک اللہ کی حکومت ہے۔ اگر پکڑے گئے تو ا سکی اجازت و رضاء کے بدون کوئی حمایت اور سفارش کرنے والا بھی نہ ملے گا۔




وَلا تَنفَعُ الشَّفٰعَةُ عِندَهُ إِلّا لِمَن أَذِنَ لَهُ ۚ حَتّىٰ إِذا فُزِّعَ عَن قُلوبِهِم قالوا ماذا قالَ رَبُّكُم ۖ قالُوا الحَقَّ ۖ وَهُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ {34:23}
اور کام نہیں آتی سفارش اس کے پاس مگر اس کو کہ جس کے واسطے حکم کر دے [۳۴] یہاں تک کہ جب گھبراہٹ دور ہو جائے ان کے دل سےکہیں کیا فرمایا تمہارے رب نے وہ کہیں فرمایا جو واجبی ہے اور وہی ہے سب سے اوپر بڑا [۳۵]
lntercession with Him profiteth not save the intercession of him whom He giveth leave. They hold their peace until when fright is taken off from their hearts, they say: What is it that your Lord hath said? They say: the very truth. And He is the Exalted, the Great.
یعنی یہ مسکین کیا کام آتے جنہیں آسمان و زمین میں نہ ایک ذرہ کا مستقل اختیار ہے (بلکہ بتوں کو تو غیر مستقل بھی نہیں) نہ آسمان و زمین میں ان کی کچھ شرکت نہ خدا کو کسی کام میں مدد کی ضرورت، جو یہ اس کے معین و مددگار بن کر ہی کچھ حقوق جتلاتے۔ اس کی بارگاہ تو وہ ہے جہاں بڑے بڑے مقربین کی یہ بھی طاقت نہیں کہ بدون اذن و رضاء کے کسی کی نسبت ایک حرف سفارش ہی زبان سے نکال سکیں۔ انبیاء و اولیاء اور ملائکۃ اللہ کی شفاعت بھی صرف انہی کے حق میں نافع ہو گی جن کے لئے ادھر سے سفارش کا حکم مل جائے۔
یہ فرشتوں کا حال فرمایا جو ہمہ وقت اس بارگاہ کے حاضر باش ہیں۔ جب اوپر سے اللہ کا حکم اترتا ہے ایسی آواز آتی ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جائے۔ (شاید اتصال و بساطت کو قریب الی الفہم کرنے کے لئے یہ تشبیہ دی گئ) فرشتے دہشت اور خوف و رعب سے تھرا جاتے ہیں اور تسبیح کرتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ جب یہ حالت رفع ہو کر دل کو تسکین ہوئی اور کلام اتر چکا۔ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا حکم ہوا۔ اوپر والے فرشتے نیچے والوں کو درجہ بدرجہ بتلاتے ہیں کہ جو اللہ کی حکمت کے موافق ہے اور آگے سے قاعدہ معلوم ہے وہ ہی حکم ہوا۔ ظاہر ہے وہاں معقول اور واجبی بات کے سوا کیا چیز ہو سکتی ہے پس جس کےعلوّ و عظمت کی یہ کیفت ہو کہ حکم دے تو مقربین کا مارے ہیبت و جلال کے یہ حال ہو جائے وہاں کس کی ہمت ہے کہ ازخود سعی و سفارش کے لئے کھڑا ہو جائے(تنبیہ) آیت کی اور تفسیریں بھی کی گئ ہیں جن کی نسبت حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں "وجمیع ذلک مخالف لہذا الحدیث الصحیح (الذی فی البخاری) ولاحادیث کثیرۃ تویدہ (فتح الباری ۱۳۔۳۸۱)"۔




ءَأَتَّخِذُ مِن دونِهِ ءالِهَةً إِن يُرِدنِ الرَّحمٰنُ بِضُرٍّ لا تُغنِ عَنّى شَفٰعَتُهُم شَيـًٔا وَلا يُنقِذونِ {36:23}
بھلا میں پکڑوں اس کے سوائے اوروں کو پوجنا کہ اگر مجھ پر چاہے رحمٰن تکلیف تو کچھ کام نہ آئے مجھ کو ان کی سفارش اور نہ وہ مجھ کو چھڑائیں
Shall I take beside Him gods when, if the Compassionate should intend me any harm, their intercession will avail me not at all, nor would they save me?




أَمِ اتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ شُفَعاءَ ۚ قُل أَوَلَو كانوا لا يَملِكونَ شَيـًٔا وَلا يَعقِلونَ {39:43}
کیا انہوں نے پکڑے ہیں اللہ کے سوائے کوئی سفارش والے [۵۷] تو کہہ اگرچہ ان کو اختیار نہ ہو کسی چیز کا اور نہ سمجھ [۵۸]
Have they taken others for intercessors beside Allah! Say thou: What! even though they own not aught and understand not?
یعنی بتوں کی نسبت مشرکین دعویٰ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے سفارشی ہیں ۔ ان ہی کی سفارش سے کام بنتے ہیں۔ اسی لئے انکی عبادت کی جاتی ہے۔ سو اول تو شفیع ہونے سے معبود ہونا لازم نہیں آتا۔ دوسرے شفیع بھی وہ بن سکتا ہے جسے اللہ کی طرف سے شفاعت کی اجازت ہو اور صرف اس کے حق میں شفاعت کر سکتا ہے جس کو خدا پسند کرے۔ خلاصہ یہ کہ شفیع کا مأذون ہونا اور مشفوع کا مرتضٰی ہونا ضروری ہے۔ یہاں دونوں باتیں نہیں ۔ نہ اصنام (بتوں) کا ماذون ہونا ثابت ہے نہ کفار کا مرتضٰی ہونا۔ لہذا ان کا دعویٰ غلط ہوا۔
یعنی بتوں کو نہ اختیار ہے نہ سمجھ، پھر انکو شفیع ماننا عجیب ہے۔




قُل لِلَّهِ الشَّفٰعَةُ جَميعًا ۖ لَهُ مُلكُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۖ ثُمَّ إِلَيهِ تُرجَعونَ {39:44}
تو کہہ اللہ کے اختیار میں ہے ساری سفارش اسی کا راج ہے آسمان اور زمین میں پھر اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے [۵۹]
Say thou: Allah's is intercession altogether. His is the dominion of the heavens and the earth; then Unto Him shall ye be returned.
یعنی فی الحال بھی زمین و آسمان میں اسی کی سلطنت ہے اور آئندہ بھی اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے تو اس کی اجازت و خوشنودی کے بغیر کس کی مجال ہے جو زبان ہلا سکے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یعنی اللہ کے روبرو سفارش ہے پر اللہ کے حکم سے، نہ تمہاے کہے سے۔ جب موت آئے کسی کےکہے سے عزرائیل نہیں چھوڑتا۔




وَأَنذِرهُم يَومَ الءازِفَةِ إِذِ القُلوبُ لَدَى الحَناجِرِ كٰظِمينَ ۚ ما لِلظّٰلِمينَ مِن حَميمٍ وَلا شَفيعٍ يُطاعُ {40:18}
اور خبر سنا دے اُنکو اس نزدیک آنے والے دِن کی جس وقت دل پہنچیں گے گلوں کو تو وہ دبا رہے ہوں گے [۲۴] کوئی نہیں گنہگاروں کا دوست اور نہ سفارشی کہ جسکی بات مانی جائے [۲۵]
Wherefore warn them thou of the Day of portending, whereon the hearts will be in the throats, choking: then will be for the wrong- doers no ardent friend nor an intercessor to be given heed to.
یعنی ایسا کوئی سفارشی نہیں ہو گا جسکی بات ضرور ہی مانی جائے۔ سفارش وہ ہی کر سکے گا جسکو اجازت ہو اور اسی کے حق میں کرے گا جس کے لئے پسند ہو۔
یعنی خوف اور گھبراہٹ سے دل دھڑک کو گلوں تک پہنچ رہے ہوں گے اور لوگ دونوں ہاتھوں سے انکو پکڑ کر دبائیں گے کہ کہیں سانس کے ساتھ باہر نہ نکل پڑیں۔
وَلا يَملِكُ الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ الشَّفٰعَةَ إِلّا مَن شَهِدَ بِالحَقِّ وَهُم يَعلَمونَ {43:86}
اور اختیار نہیں رکھتے وہ لوگ جنکو یہ پکارتے ہیں سفارش کا مگر جس نے گواہی دی سچی اور انکو خبر تھی [۸۳]
And those whom they call upon beside Him own not the power of intercession save those who have borne witness to the truth and who know.
یعنی اتنی سفارش کر سکتے ہیں کہ جس نے انکے علم کے موافق کلمہ اسلام کہا اس کی گواہی دیں۔ بغیر کلمہ اسلام کسی کے حق میں ایک حرف سفارش کا نہیں کہہ سکتے اور اتنی سفارش بھی صالحین کریں گے جو سچائی کو جانتے اور اسکو زبان و دل سے مانتے ہیں دوسروں کو اجازت نہیں۔




وَكَم مِن مَلَكٍ فِى السَّمٰوٰتِ لا تُغنى شَفٰعَتُهُم شَيـًٔا إِلّا مِن بَعدِ أَن يَأذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشاءُ وَيَرضىٰ {53:26}
اور بہت فرشتے ہیں آسمانوں میں کچھ کام نہیں آتی اُنکی سفارش مگر جب حکم دے اللہ جسکے واسطے چاہے اور پسند کرے [۱۸]
And many soever are angels in the heavens whose intercession shall not avail at all save after Allah hath given leave for whomsoever He listeth and pleaseth.
یعنی ان بتوں کی تو حقیقت کیا ہے آسمان کے رہنے والے مقرب فرشتوں کی سفارش بھی کچھ کام نہیں دے سکتی۔ ہاں اللہ ہی جس کے حق میں سفارش کرنے کا حکم دے اور اس سے راضی ہو تو وہاں سفارش بیشک کام دے گی۔ ظاہر ہے کہ اس نے نہ بتوں کو سفارش کا حکم دیا اور نہ وہ کفار سے راضی ہے۔




فَما تَنفَعُهُم شَفٰعَةُ الشّٰفِعينَ {74:48}
پھر کام نہ آئے گی اُنکے سفارش سفارش کرنے والوں کی [۳۴]
Then there will not Profit them intercision of the interceders,
کافر کے حق میں کوئی سفارش نہ کریگا اور کریگا تو قبول نہ ہوگی۔
وَالشَّفعِ وَالوَترِ {89:3}
اور جفت اورطاق کی
And by the even and the odd,


http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=98&pid=365701



1)عبد العزيز بن عبداللہ ، سليمان، عمرو بن ابي عمرو، سعيد بن ابي سعيد مقبري ابوہريرہ رضي اللہ تعالي? عنہ سے روايت ہے کہ انہوں نے کہا يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم قيامت کے دن سب لوگوں سے زيادہ حصہ آپ کي شفاعت سے کس کو ملے گا؟ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ مجھے يقيني طور پر يہ خيال تھا کہ ابوہريرہ تم سے پہلے کوئي يہ بات مجھ سے نہ پوچھے گا، کيونکہ ميں نے تمہاري حرص حديث پر ديکھ لي تھي، سب سے زيادہ فيض ياب ميري شفاعت سے قيامت کے دن وہ شخص ہوگا جو صدق دل سے يا اپنے خالص جي سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دے?
[صحيح بخاري:جلد اول:حديث نمبر 99, - علم کا بيان : حديث (نبوي کے سننے) پر حرص کا بيان]
يعني
(حضرت انس رضي اللہ تعالي? عنہ کہتے ہيں کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا کہ  دوزخ سے وہ شخص نکل جائے گا جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہو اور اس کے قلب ميں ايک جو برابر ايمان ہوگا، پھر وہ شخص دوزخ سے نکل جائے گا، جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا اور اس کے دل ميں گہيوں برابر ايمان ہوگا، پھر دوزخ سے وہ شخص نکلے گا جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہو اور اس کے دل ميں ذرہ برابر ايمان ہو
[صحيح بخاري:جلد سوم:حديث نمبر 2281توحيد کا بيان :اللہ کا قول لما خلقت بيدي?]

ميري شفاعت ہر اس شخص کے لئے ہوگي جو خلوص دل کے ساتھ لاالہ الہ اللہ کي گواہي ديتا ہو اس کا دل اس کي زبان کي تصديق کرتا ہو اور اس کي زبان اس کے دل کي تصديق کرتي ہو?
53824

نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم يہ دعا کرتے تھے اے اللہ! ہر اس بندہ مسلم کي مغفرت فرما جو تجھ سے اس حال ميں ملے کہ وہ مجھ پر ايمان رکھتا ہو اور تيرے ساتھ کسي کو شريک نہ ٹھہراتا ہو?
55574
ہر وہ شخص بھی جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو میری شفاعت میں شامل ہے۔
69020

2)
جابر بن عبداللہ ، روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ جو شخص اذان سنتے وقت يہ دعا پڑھے اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ تو اس کو قيامت کے دن ميري شفاعت نصيب ہو گي?
[صحيح بخاري:جلد اول:حديث نمبر 587, اذان کا بيان :اذان کے وقت دعا کرنے کا بيان]
587

 محمد بن سلمہ مرادي، عبداللہ بن وہب، حيو?، سعيد بن ابي ايوب، کعب بن علقمہ، عبدالرحمن بن جبير، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روايت ہے کہ انہوں نے نبي کريم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم مؤذن سے اذان سنو تو جيسے وہ کہتا ہے تم بھي کہو پھر مجھ پر درود بھيجو جو مجھ پر درود بھيجتا ہے اللہ اس پر دس دس رحميتں نازل کرتا ہے پھر اللہ سے ميرے لئے وسيلہ مانگو کيونکہ وہ جنت کا ايک درجہ ہے اللہ کے بندوں ميں سے صرف ايک بندہ کو ملے گا اور مجھے اميد ہے کہ وہ ميں ہي ہوں گا جو اللہ سے ميرے وسيلہ کي دعا کرے گا اس کے لئے ميري شفاعت واجب ہو جائے گي?
[صحيح مسلم:جلد اول:حديث نمبر 844, نماز کا بيان : موذن کي اذن سننے والے کے لئے اسي طرح کہنے اور پھر نبي کريم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر درود بھيج کر آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے لئے وسيلہ کي دعا کرنے کے استحباب کے بيان ميں?]
7983



مسند احمد:جلد ہفتم:حديث نمبر 169    حديث متواتر حديث مرفوع
 حضرت رويفع رضي اللہ عنہ سے مروي ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا جو شخص محمد صلي اللہ عليہ وسلم پر درود بھيجے اور يوں کہے کہ ( اللَّهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ )  اے اللہ قيامت کے دن اپنے يہاں انہيں باعزت مقام عطاء فرما، تو اس کے لئے ميري شفاعت واجب ہوگئي?
62478


http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=583&pid=366026

3)
 ميري شفاعت کيلئے ايک حد مقرر کر دي جائے گي
34239

پھر اپنے رب سے عرض کروں گا کہ اب تو وہي باقي رہ گئے ہيں جن کو قرآن نے منع کيا ہے اور وہ ہميشہ کے لئے دوزخ ميں رہنے والے ہيں
4186
===========
نے حضرت ابوالدردا سے سنا وہ فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا زيادہ لعنت کرنے والے قيامت کے دن شفاعت کرنے والے نہيں ہوں گے اور نہ ہي گواہي دينے والے ہوں گے?
[صحيح مسلم:جلد سوم:حديث نمبر 2110,صلہ رحمي کا بيان :جانوروں وغيرہ پر لعنت کرنے کي ممانعت کے بيان ميں]
13740
------------
حضرت نميران بن عتبہ سے روايت ہے کہ ہم ام درداء کے پاس گئے اور ہم يتيم تھے ام درداء نے کہا خوش ہو جا ميں نے ابودرداء سے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا شہيد کي شفاعت اس کے اہل خانہ کے ستر آدميوں کے حق ميں قبول کي جائے گي?
[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حديث نمبر 757, جہاد کا بيان : شہيد کي شفاعت قبول کي جائے گي]
17209

قيامت کے دن تين لوگ شفاعت کريں گے?? انبياء يعني پيغبر?? علماء کرام?? پھر شہداء?
34241

حضرت ابن عباس سے روايت ہے کہ ميں نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمانوں کي کوئي ميت ايسي نہيں کہ جس کے جنازہ پر چاليس ايسے آدمي نماز پڑھنے کے ليے کھڑے ہوں جو اللہ کے ساتھ کسي کو شريک نہ ٹھہراتے ہوں (اور وہ اس کے حق ميں دعائے مغفرت کريں) اور اللہ تعالي? ان کي شفاعت کو قبول نہ فرمائے?
[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حديث نمبر 1402,جنازوں کا بيان :جنازے کے ساتھ جانے اور اس پر نماز پڑھنے کي فضيلت کا بيان]
17854

------------
حضرت ابوہريرہ رضي اللہ تعالي? عنہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہيں کہ آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا قرآن ميں تيس آيتوں والي ايک سورت ہے جس نے ايک شخص کي شفاعت کي اور اسے بخش ديا گيا? وہ تبارک الذي يعني سورت ملک ہے?
[جامع ترمذي:جلد دوم:حديث نمبر 816, فضائل قرآن کا بيان? :سورت ملک کي فضيلت کے متعلق]
28750

سورت تنزيل سجدہ اور سورت ملک کي فضيلت
46006
46008

حضرت نو اس بن سمعان کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا (قيامت کے دن) قرآن اور اہل قرآن جو دنيا ميں اس پر عمل کرتے تھے اس طرح آئيں گے(مراد اس پر عمل کرنے والوں کے اعمال کا اجر و ثواب ہے) کہ آگے سورت بقرہ اور پھر سورت آل عمران ہوگي? پھر نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ان دونوں سورتوں کي تين مثاليں بيان فرمائيں? ميں اس کے بعد انہيں کبھي نہيں بھولا? آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا وہ اس طرح آئيں گي (ثواب )گويا کہ وہ دو چھترياں ہيں اور ان کے درميان ايک روشني ہے? يا اس طرح آئيں گي جيسے دو سياہ بادل ہيں يا صف باندھے ہوئے پرندوں کي مانند اپنے ساتھي (يعني پڑھنے والے) کي طرف سے شفاعت کرتے ہوئے آئيں گي?
28742

حضرت ابن عمر رضي اللہ عنہ بيان کرتے ہيں قرآن آئے اور اپنے پڑھنے والوں کے ليے شفاعت کرے گا اور يہ کہے گا اے ميرے رب ہر عمل کرنے والے کو اس کے کام کا معاوضہ ملتا ہے ميں نے اس شخص کو لذت اور نيند سے روکا تو اس کو بزرگي عطاکر? اس شخص سے کہا جائے گا تم اپنے دائيں ہاتھ کو پھيلاؤ اسے اللہ کي رضامندي سے بھرديا جائے گا اور پھر يہ کہا جائے گا کہ بائيں ہاتھ کو پھيلاؤ اسے بھي اللہ کي رضامندي سے بھر ديا جائے گا? پھر اس شخص کو کرامت کا لباس پہنايا جائے گا اور کرامت کا زيور پہنايا جائے گا اور کرامت کا تاج پہنايا جائے گا?
45910
45911
45923
------------

حضرت علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا جس نے قرآن پڑھا اور اسے ياد کيا پھر اس کي حلال کي ہوئي چيزوں کو حلال اور حرام کي ہوئي چيزوں کو حرام جانا? اللہ تعالي? اسے اس کي برکت سے جنت ميں داخل فرمائے گا? اور اسے اپنے گھر والوں ميں سے ايسے دس آدميوں کي شفاعت کا اختيار دے گا جن پر جہنم واجب ہو چکي ہوگي?
[جامع ترمذي:جلد دوم:حديث نمبر 832, فضائل قرآن کا بيان?]
28766

حضرت عثمان بن حنيف رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ ايک نابينا شخص آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا کہ ميرے لئے عافيت کي دعا کريں آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا اگر چاہو تو ميں دعا کرتا ہوں اور اگر چاہو تو اسي (نابينا پن) پر صبر کرو? اور يہ تمہارے لئے بہتر ہے? اس نے عرض کيا، آپ ميرے دعا ہي کر ديجئے، چنانچہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اسے حکم ديا کہ اچھي طرح وضو کرنے کے بعد اس طرح دعا کرو اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَي رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَي لِيَ اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ (يعني اے اللہ ! ميں تجھ سے تيرے نبي محمد (صلي اللہ عليہ وسلم) کے وسيلے سے سوال کرتا ہوں? اے اللہ ! ميرے بارے ميں ان کي شفاعت قبول فرما)
[جامع ترمذي:جلد دوم:حديث نمبر 1535, دعاؤں کا بيان : باب نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کي دعا اور فرض نماز کے بعد تعوذ کے متعلق]
29469
==========

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ انور کی تعظیم
۱۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
من زار قبری، اوقال: من زارنی کنت لہ شفیعا او شھیدًا، ومن مات فی أحد الحرمین بعثہ اللہ من الآمنین یوم القیامة۔ (طیالسی۔ المسند ۱:۱۲، رقم:۵۶۔ دار قطنی ، السنن ۲:۲۷۸۔ بیہقی ، السنن الکبری ۵:۲۴۵ رقم: ۱۰۰۵۳ ۔ بیہقی ، شعب الایمان ۳:۴۸۹، رقم : ۴۱۵۳)
” جس نے میری قبر کی ، یا (راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ) نے فرمایا: جس نے میری زیارت کی تو میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا ، اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک میں فوت ہو گیا ، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن امن پانے والوں میں سے اٹھائے گا۔“
۲۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ سرورِ کائنات ﷺ نے فرمایا:
من جاء نی زائراً لا یعلمہ حاجة الا زیارتی، کان حقا علی ان أکون لہ  شفیعاً یوم القیامة (طبرانی ، المعجم الکبیر ۱۲: ۲۹۱رقم: ۱۳۱۴۹)
”جو بغیر کسی حاجت کے صرف میری زیارت کے لئے آیا تو اس کا مجھ پر حق ہے کہ میں روزِ قیامت اس کی شفاعت کروں۔“ 



حضرت ابن عمر رضي اللہ تعالي? عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا کہ جس سے ہو سکے کہ مدينہ منورہ ميں مرے تو وہي مرنے کي کوشش کرے کيونکہ جو يہاں مرے گا ميں اس کي شفاعت کروں گا?
[جامع ترمذي:جلد دوم:حديث نمبر 1889, مناقب کا بيان : باب مدينہ منورہ کي فضيلت کے بارے ميں ?]
29823

مدينہ کي تکليف اور سختيوں پر جو صبر کرے گا ميں اس کا قيامت کے روز گواہ ہوں گا يا اس کي شفاعت کروں گا?
36173
==========
حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ ميں نے نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے قيامت کے دن اپني شفاعت کي درخواست کي آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا ميں کروں گا ميں نے عرض کيا يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں آپ کو کہاں تلاش کروں آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا سب سے پہلے مجھے پل صراط پر ڈھونڈنا ميں نے عرض کيا اگر ميں آپ کو پل صراط پر نہ پاؤں آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا پھر مجھے ميزان کے پاس تلاش کرنا ميں نے عرض کيا اگر وہاں بھي نہ ہوں تو آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے پھر حوض کوثر پر ديکھ لينا کيونکہ ميں ان تين جگہوں کے علاوہ کہيں نہيں جاؤں گا يہ حديث حسن غريب ہے ہم اسے صرف اسي سند سے جانتے ہيں
28265
----------
ميري شفاعت امت کے ان افراد کے لئے ہے جنہوں نے کبيرہ گناہ کئے
28267

روز قيامت ميري شفاعت ان لوگوں کيلئے ہوگي جو ميري امت ميں سے بہت نيک پرہيزگار ہيں يعني صلحاء اور اولياء کرام کي شفاعت ترقي کے درجات کيلئے ہوگي?
34237

اور تم سمجھتے ہو کہ ميري شفاعت صرف پرہيزگاروں کيلئے ہوگي نہيں وہ ان سب سے پہلے ہوگي جو گناہگار خطاکار اور قصوروار ہوں گے?
34238
51294
==========
حضرت عبداللہ بن شقيق رضي اللہ عنہ کہتے ہيں کہ ميں ايليا کے مقام پر ايک جماعت کے ساتھ تھا کہ ايک شخص نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا يہ قول بيان کيا آپ نے فرمايا ميري امت ميں سے ايک شخص کي شفاعت سے قبيلہ بنوتميم کے لوگوں کي تعداد سے بھي زيادہ لوگ جنت ميں داخل کئے جائيں گے عرض کيا گيا يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم آپ کے علاوہ آپ نے فرمايا ہاں
28270

ميري امت ميں کوئي شخص ايسا بھي ہوگا جسکي شفاعت سے اتنے لوگ جنت ميں جائينگے کہ انکار شمار مضر کي قوم سے زيادہ ہوگا اور ميري امت ميں ايسا بھي ہوگا جو دوزخ کيلئے بڑا کيا جائيگا يہاں تک کہ وہ دوزخ کا ايک کونہ ہو جائيگا?
34251

67368
----------
حضرت عوف بن مالک اشجعي سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا ميرے رب کي طرف سے ايک آنے والا ميرے پاس آيا اور مجھے نصف امت جنت ميں داخل کرنے اور شفاعت کے درميان اختيار ديا تو ميں نے شفاعت کو اختيار کيا اور يہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو اس حال ميں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسي کو شريک نہ ٹھہرايا
28273

 حضرت عمران بن حصين رضي اللہ تعالي? عنہ سے مروي ہے کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا يقينا ميري شفاعت سے ايک قوم دوزخ سے نکلے گي? وہ "جہنمي" کہلاتے ہوں گے?
28441
65154

حضرت عثمان بن عفان رضي اللہ تعالي? عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا کہ جو عرب سے خيانت کرے گا وہ ميري شفاعت ميں داخل نہيں ہوگا اور اسے ميري محبت نصيب نہيں ہوگي?
29834
46587
===========
منکر:
ياد رکھو! تمہارے بعد کچھ لوگ آئيں گے جو رجم کي تکذيب کرتے ہوں گے، دجال، شفاعت اور عذاب قبر سے انکار کرتے ہوں گے اور اس قوم کے ہونے کو جھٹلائيں گے جنہيں جہنم ميں جل کر کوئلہ ہوجانے کے بعد نکال ليا جائے گا?46250
[مسند احمد:جلد اول:حديث نمبر 151 ، حضرت عمر فاروق عنہ کي مرويات]
===========
بلا-شفاعت الله تعالي? کا رحم و کرم:
يہ اللہ کي طرف سے آزاد کيے ہوئے لوگ ہيں
42784
تخريج الحديث:
http://www.islamweb.net/hadith/hadithServices.php?type=1&cid=3842&sid=720


مسند احمد:جلد نہم:حديث نمبر 2782, حضرت عبادہ بن صامت رضي اللہ عنہ کي مرويات
پھر ميرا پروردگار ميري بقيہ امت کو جہنم سے نکال کر جنت ميں داخل کر دے گا?
67811
http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=282&hid=677&pid=54307
السنة لابن أبي عاصم [الحكم: إسناد فيه متهم بالوضع وهو عبد الوهاب بن الضحاك السلمي]
67968

ترجمہ: ہر مذہب میں دیندار، فاسق اور کافر کے فرق کو بتایا گیا ہے۔ کافر کے لئے ہمیشہ کی جہنم اور سخت عذاب کو ثابت کیا ہے اور فاسق کے لئے ابنیاء کی شفاعت کے ذریعہ سے جہنم سے خلاصی کو صحیح بتایا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر مذہب میں دیندار کو اس مذہب کے ساتھ موسوم کیا گیا ہے۔ توریت میں یہودی کیلئے یہ مرتبہ ذکر کیا ہے اور انجیل میں نصرانی کو یہ مرتبہ دیا ہے جب کہ قرآن میں مسلمانوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے اور اس حکم کا دارومدار خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھنے اور اپنے میں مبعوث رسول کی تابعداری اور دین کے احکام کو پورا کرنے اور اس کے ممنوعات سے بچنے پر ہے نہ کہ کسی فرقہ و مذہب کی خصوصیت پر۔ پس یہودی خیال کرتے ہیں کہ جو کوئی یہودی ہے وہ یقینا جنتی ہے اور انبیاء کی شفاعت سے اس کو جہنم سے چھٹکارا مل جائے گا اگرچہ حکم کا مدار ثابت نہ ہو کہ خدا پر ایمان صحیح طور سے نہ ہو اور آخرت اور رسالت پر ایمان کا کچھ بھی حصہ حاصل نہ ہو۔ یہ تو محض خلط و جہالت ہے۔ چونکہ قرآن مجید کتب سابقہ کا نگران اور بیان ہے اس لئے یہود کے اس شبہ کو خوب وضاحت کے ساتھ یو ں دورفرمایا:
بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَةَ وَاَحَاطَتْ بِہِ خَطِیْئَتُہ ، فَاُولٰئِکَ اَصْحَابُ النّارِ ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ
کیوں نہیں جس نے گناہ کمایا اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے سو وہی ہیں دوزخ کے رہنے والے وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے ایسی کوئی بات مسلمان کے بارے میں نہیں کہی جیسی کہ مولانا سندھی کہہ رہے ہیں اور مفتی عبدالقدیر صاحب جس کی تائید کر رہے ہیں کیونکہ شاہ صاحب جس بات کے قائل ہیں وہ وہ ہے جو خود شیخ الہند نے اپنے تفسیری حاشیہ میں لکھی ہے۔
''گناہ کسی کا احاطہ کر لیں اس کا یہ مطلب ہے کہ گناہ اس پر ایسا غلبہ کر لیں کہ کوئی جانب ایسی نہ ہو کہ گناہ کا غلبہ نہ ہو حتی کہ دل میں ایمان و تصدیق باقی ہو گی تو یہ مذکور احاطہ ثابت نہ ہو گا۔ تو اب کافر پر ہی یہ صورت صادق آ سکتی ہے''۔

No comments:

Post a Comment