یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
اہلِ حدیث کا عنوان دواصطلاحوں میں مختلف معانی کا حامل ہے:
(۱)اہلحدیث باصطلاح قدیم
(۲)اہلحدیث باصطلاحِ جدید۔
اصطلاحِ قدیم میں اس سے مراد وہ لوگ تھے جوحدیث روایت کرنے، پڑھانے، اس کے راویوں کی جانچ پڑتال کرنے اور اس کی شرح میں مشتغل رہتے تھے، انہیں محدثین بھی کہا جاتا تھا اور وہ واقعی اس فن کے اہل سمجھے جاتے تھے؛ سواہلِ علم کی اصطلاح قدیم میں اہلِ حدیث سے مراد حدیث کے اہل لوگ تھے، اہلِ ادب، اہلِ حدیث، اہلِ تفسیر سب اسی طرح کی اصطلاحیں ہیںـــــ حافظ محمد بن ابراہیم الوزیر رح (775-840 ہجری)لکھتے ہیں:
"من المعلوم أنّ أهل الحديث اسم لمن عني به, وانقطع في طلبه...... فهؤلاء هم من أهل الحديث من أي مذهب كانوا"۔
ترجمہ:یہ بات معلوم ہے کہ اہلِ حدیث اس طبقے کا نام ہے جو اس فن کے درپے ہو اس کی طلب میں منہمک رہے...... ایسے سب لوگ اہلِ حدیث ہیں؛ خواہ وہ کسی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس طبقہ علمی کے لحاظ سے اہلحدیث [محدثین] کسی ایک فرقہ مذہبی سے متعلق نہیں ، جیسے اہل قرآن بمعنی مفسرین کسی ایک فرقہ سے متعلق نہیں. زمحشری ، بیضاوی مفسر ہیں مگر(مذهباً) معتزلی ہیی - قمی مفسر ہے مگر(مذهباً) شیعہ ہے - اس طرح ابوبکر دارمی اہلحدیث اور محدث ہے مگر(مذهباً) شیعہ ہے - [تذکرہ الحفاظ ص884] ابن جریج اہلحدیث اور محدث ہے مگر نوے عورتوں سے متعہ کرنے والا ہے - [تذکرہ الحفاظ ص149] ابو احمد الزبیری اہلحدیث ہے مگر (مذهباً) جلا بھنا شیعہ ہے - [تذکرہ الحفاظ ج1 ص322] محمد بن فضیل بن غزوان المحدث اہلحدیث الحافظ تھے مگر (مذهباً) جلے بھنے شیعہ تھے - [تذکرہ الحفاظ ج1 ص290] محدث حاکم ابو عبدالله اہلحدیث بھی محدث ہیں مگر تذکرہ الحفاظ میں رافضی خبیث لکھا ہے - اسماعیل بن علی السمان اہلحدیث کے امام تھے ، مگر(مذهباً) متعزلی تھے - [تذکرہ الحفاظ ج3 ص300] بہت سے محدثین حنفی تھے جن کے حالات میں محدثین نے [الجواہر المضیتہ فی تراجم الحنفیہ اور الفوائد البہیہ فی تراجم الحنفیہ اور مفتاح سعادۃ الدارین] وغیرہ ، مستقل اور ضحیم کتابیں لکھی ہیں - بہت سے محدثین شافعی ، مالکی ، حنبلی تھے جن کے حالات میں طبقات شافعیہ ، طبقات مالکیہ ، طبقات جنابلہ کتابیں لکھی گئی ہیں - اس سے معلوم ہوا کہ اہلحدیث(مذهباً) معتزلی بھی ہوتے ہیں - شیعہ بھی ، خارجی بھی ، قدری بھی ، حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی بھی ، کیونکہ یہ علمی طبقہ ہے نہ کہ کسی فرقہ مذہبی کا نام ان حنفی ، شافعی ، محدثین نے اپنے طبقات کی کتابیں لکھی ہیں - شیعہ معتزلہ نے بھی ایسی کتابیی جن میں ان کے محدثین کا ذکر ہے لکھی ہیں -
اس سے واضح ہوتا ہے کہ محدثین خواہ وہ کسی بھی فقہی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اس فن کے اعتبار سے اہلحدیث کہلاتے تھے،
نوٹ :
مذھب کی لغوی معنی "شاہراہ" ہے، یعنی جس پر چلا جاۓ. یہ عربی لفظ "ذ - ھ - ب" سے مشتق ہے، جس کی معنی جانا (چلنا)، گزرنا یا مرنا ہے، جیسے ...الأمر: ختم ہونا، ...على الشئ: بھول جانا، ....به: لے جانا، ساتھ جانا، جگہ سے ہٹانا اور اسی سے ہے "ذهبت به الخيلاء" اس کو تکبر لے گیا یعنی اس کو اس کے مرتبہ سے گرادیا.
في المسئلة إلى كذا : (کسی مسئلہ میں) فلاں راۓ اختیار کرنا
اسی لئے ائمہ اسلام کے اصطلاح میں لفظ مذھب "راۓ یا مسلک" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے.
جیسے علم حدیث کے امام مسلمؒ ، اپنی کتاب صحیح مسلم کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:
شرحنا من مذهب الحديث وأهله بعض ما يتوجه به من أراد سبيل القوم
[صحیح مسلم:جلد اول: مقدمہ مسلم ، حدیث نمبر 1 : ثقات سے روایت کرنے کے وجوب اور جھوٹے لوگوں کی روایات کے ترک میں]
ترجمہ :
ہم نے حدیث اور اس کے اہل (یعنی محدثین) کے مذھب (طریقہ و راۓ) کی تشریح کردی ہے تاکہ اس کی جانب وہ شخص (جو اصولِ روایتِ حدیث سے ناواقف ہے) متوجہ ہو سکے جو اس قوم (محدثین) کی سبیل (راہ و طریقہ) اختیار کرنا چاہتا ہے.
"بعض جگہ توان کا ذکرلفظِ اہل حدیث سے ہوا ہے اور بعض جگہ اصحاب حدیث سے، بعض جگہ اہل اثر کے نام سے اور بعض جگہ محدثین کے نام سے، مرجع ہرلقب کا یہی ہے"۔
(تاریخ اہلحدیث:۱۲۸)
اصطلاح جدید میں اہلِ حدیث سے مراد اہلِ علم کا کوئی طبقہ نہیں؛ بلکہ ایک خاص فقہی مسلک ہے، جو ائمہ اربعہ میں سے کسی کی پیروی کا قائل نہیں، اہلِ حدیث کی یہ اصطلاح بہت بعد کی ہے، قرونِ وسطیٰ میں یہ کسی فقہی مسلک کا نام نہ تھا، اصطلاحِ جدید میں اس سے مراد جماعتِ اہلحدیث ہے، اس میں پڑھے ہوئے اور اَن پڑھ دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں، آج کے عنوان میں "اہل حدیث" کا لفظ اسی جدید اصطلاح میں ہے اور اس سے مراد جماعتِ اہلحدیث ہے، انہیں غیرمقلدین بھی کہتے ہیں، یہ حضرات براہِ راست حدیث سے انتساب کے مدعی ہیں؛ سویہاں اہلحدیث سے مراد حدیث کے ماننے والے نہیں؛ جیسا کہ اس کی لفظی دلالت ہے؛ کیونکہ حدیث کوتوسب مسلمان اپنے لیئے حجت مانتے ہیں اور سب فرقے اس سے تمسک کے مدعی ہیں، جوحدیث کونہیں مانتا وہ تومسلمان ہی نہیں ہے؛ سویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کا صرف ایک فرقہ اہلحدیث بمعنی حدیث کوماننے والا ہو اور باقی مسلمانوں کے بارے میں یہ سمجھاجائے کہ وہ حدیث کونہیں مانتے اور ہیں وہ بھی مسلمان "اِنَّاللہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ" یہ خود ایک بڑی غلطی ہوگی ؎
ع بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبیست
حجیت حدیث کی بحث میں ہم کہہ آئے ہیں کہ جو شخص حدیث ماننے کا قائل نہ ہو، وہ مسلمان نہیں ہے، پس یہ تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ یہاں "حدیث" "سے مراد "حدیث کے ماننے والے" نہیں لیئے جاسکتے؛ بلکہ وہ ایک خاص فرقہ ہے جوفقہی مسائل میں کسی امام کی پیروی کا قائل نہیں اور فروعات میں براہِ راست حدیث سے انتساب کا مدعی ہے، عوامی سطح پر اگر اہلحدیث کے معنی "حدیث کے ماننے والے" کیئے جائیں تو اس سے منکرین حدیث کو بہت قوت ملے گی اور وہ برملا کہیں گے کہ مسلمانوں کا صرف ایک فرقہ جو برصغیر پاک وہند میں پانچ فیصد سے زیادہ نہیں، حدیث ماننے کا قائل ہے، باقی سب مسلمان خواہ وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ان کے ہاں حدیث حجت نہیں اور اُسے ماننا ضروری نہیں، حدیث اگر سب مسلمانوں کے ہاں حجت سمجھی جاتی اور اس کا ماننا سب مسلمانوں کے نزدیک ضروری ہوتا تو ایک فرقے کا نام اہلحدیث کیوں ہوتا؟ جوابا گذارش ہے کہ مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کو "اہلحدیث" موسوم کرنا پہلے دور سے بہت بعد کی اور ایک جدید اصطلاح ہے، قرونِ وسطیٰ میں اس نام سے کوئی فقہی مسلک یافرقہ معروف نہ تھا۔
اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ اس معنی کے لحاظ سے اپنے آپ کو اہلحدیث کہنا اسی طرح صحیح نہیں جس طرح منکرین حدیث کا اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہنا صحیح نہیں؛ کیونکہ قرآن کریم کو تو سبھی مسلمان مانتے ہیں، اس میں کسی ایک فرقے کی کیا تخصیص؟ اور حدیث کو اصولاً تسلیم کیئے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتاـــــ ہاں! جب اس عنوان سے ایک مسلک اپنی جگہ معروف ہوچکا توضروری ہے کہ حدیث کے طلبہ اس سے بھی کچھ نہ کچھ تعارف ضرور رکھتے ہوں؛ لیکن ضروری ہے کہ وہ ہر دو اصطلاحوں کو پیشِ نظر بھی رکھیں۔
اہلحدیث متقدمین کی اصطلاح میں
قرونِ اُولی اور قرونِ وسطیٰ میں اہلحدیث سے مراد وہ اہلِ علم تھے، جو حدیث پڑھنے پڑھانے راویوں کی جانچ وپڑتال اور حدیث کی شرح وروایت میں مشغول رہتے ہوں، حدیث ان کا فن ہو اور وہ علمی طور پر اس کے اہل ہوں، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ ان ادوار میں اہلحدیث سے محدثین مراد لیئے جاتے تھے؛ اگرکوئی علمی طور پر اس درجے میں نہیں کہ حدیث پرکوئی فیصلہ دے یااس کے راویوں کوپہنچانے توصاف کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ اہلحدیث میں سے نہیں ہے، عامی ہے، حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) ایک مقام پر محدثین کی اس عادت پرکہ فضائل میں ضعیف حدیثیں بھی روایت کردیتے ہیں، تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"والبيهقي يروي في الفضائل أحاديث كثيرة ضعيفة بل موضوعة كما جرت عادة أمثاله من أهل العلم"۔
(منہاج السنۃ:۳/۸)
ترجمہ: بیہقی فضائل میں بہت سے ضعیف بلکہ موضوع احادیث بھی لے آتے ہیں جیسے کہ ان جیسے اہلِ علم کی عادت جاری ہے۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ جس طرح علم نحو میں نحویوں کی طرف، لغات میں علماء لغت کی طرف، شعر میں علماء ادب کی طرف اور طب میں علماء طب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اہلِ حدیث سے مراد بھی وہ علماء فن ہوں گے جن کی طرف اس فن میں رجوع کیا جاسکے:
"المنقولات فيها كثير من الصدق وكثير من الكذب والمرجع في التمييز بين هذا وهذا إلى أهل علم الحديث كما نرجع إلى النحاة في الفرق بين نحو العرب ونحو غير العرب ونرجع إلى علماء اللغة فيما هومن اللغة وماليس من اللغة وكذلك علماء الشعر والطب وغير ذلك فلكل علم رجال يعرفون به والعلماء بالحديث اجل هؤلاء قدرا وأعظمهم صدقا وأعلاهم منزلة واكثر دينا"۔
(منہاج السنۃ:۴/۱۰۔ ازالاجوبۃ الفاضلہ:۱۴۲)
ترجمہ:اس باب میں صدق وکذب پرمشتمل روایات بہت ہیں، سچی اور جھوٹی کی تمیز کے لیئے اہلحدیث کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا، جیسے نحو کے باب میں نحویوں کی طرف، لغت کے باب میں علماء لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے..... ہرعلم کے کچھ رجال ہوتے ہیں، انہیں اس علم کے پہلو سے جانا جاتا ہے، علماء حدیث ان سب سے زیادہ جلیل القدر ہیں، سب سے زیادہ سچے ہیں اور سب سے اُونچا درجہ رکھتے ہیں اور ان میں دین بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
حافظ جمال الدین الزیلعی (۷۶۲ھ) ابن دمیہ سے نقل کرتے ہیں:
ترجمہ: اہل حدیث پرلازم ہے کہ حاکم کے قول سے بچیں وہ بہت غلطیاں کرتے ہیں، ناقابل اعتماد ہیں، بہت سے لوگ جو ان کے بعد آئے اور اس میں اس کی پیروی کرتے رہے اس حقیقت سے ناواقف ہیں۔
دوسری صدی کے جلیل القدر محدث حضرت امام شافعی ایک جگہ حدیث لاوصیہ لوارث کے بارے میں لکھتے ہیں:
"أنه لايثبته أهل الحديث ولكن العامة تلقته بالقبول وعملوا به"۔
(فتح المغیث:۱/۲۸۹، شاملہ،الناشر: دار الكتب العلمية،لبنان)
ترجمہ:اہلحدیث تواسے ثابت نہیں مانتے لیکن عامۃ الناس نے اسے قبول کیا اور اس پر عمل کیا۔
محدثین میں ہلال بن یساف کے بارے میں ایک سوال اُٹھا کہ اس نے وابصہ بن معبد اسدی کوپایا ہے یانہیں؟ اور یہ روایت کس طرح ہے، اس پر امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ترجمہ:اہلحدیث کا اس میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں عمروبن مرہ کی روایت زیادہ صحیح اور بعض کہتے ہیں حصین کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
یہ عبارت بڑی وضاحت سے بتلارہی ہے کہ اہلحدیث سے مراد یہاں محدثین ہیں سند میں محدثین کے اختلاف کواختلاف اہلحدیث کہہ کر ذکر کیا گیا ہے؛ یہاں فقہی مسلک کاکوئی فرقہ مراد نہیں جس میں تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ دونوں قسم کے لوگ ہوں، یہ تیسری صدی ہجری کی تحریر صریح طور پر بتلا رہی ہے کہ ان دنوں اہلحدیث سے مراد محدثین لیئے جاتے تھے، نہ کہ کوئی فقہی مسلک یافرقہ، ابوابراہیم الانصاری المدینی کے بارے میں لکھتے ہیں:
امام ترمذی اہلحدیث کوکہیں کہیں اصحاب الحدیث کہہ کربھی ذکر کرتے ہیں، حدیث "لاتزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق" کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان سے مراد اصحاب الحدیث ہیں، امام بخاری نے بھی تصریح کی ہےکہ اس سے مراد لعم حدیث کے ماہراہل العلم ہیں۔
(بخاری:۲/۱۰۸۷)
خطیب بغدادی (۴۶۲ھ) ابوعبداللہ الحاکم کے اس زعم پرکہ حدیث طیبہ اور حدیث "من کنت مولاہ" صحیحین کی شرطوں کے مطابق ہیں، جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"فانکرعلیہ اصحاب الحدیث ذلک ولم یلتفتوا الی قولہ ولاصوبوہ علی فعلہ"۔
(تاریخ بغداد۵/۴۷۴)
ترجمہ:اصحاب الحدیث نے اس پرانکار کیا ہے اور اس کی بات پرتوجہ نہیں کی اور اسے اس کے عمل میں درست نہیں کہا۔
حافظ ابن عبدالبر مالکی (۴۶۳ھ) بھی ایک جگہ لکھتے ہیں:
"وقالت فرقة من أهل الحديث: إن وطئ في الدم فعليه دينار، وإن وطئ في انقطاعه فنصف دينار ورأت فرقہ من اھل الحدیث تطویل السجود فی ذلک"۔
ترجمہ: اہل حدیث کی ایک جماعت نے کہا ہے اگراس نے ایام میں اس سے صحبت کی تواسے ایک دینار صدقہ لازم آئے گا اور بعض اہلِ حدیث نے کہا ہے کہ اس پر دراز سجدہ اس کے ذمہ ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہلحدیث میں فقہی مسلک کے کئی فرقے تھے، اہلحدیث خود کوئی فقہی مسلک یافرقہ نہ تھا نہ ان کی کوئی علیحدہ جماعت بندی تھی، امام نووی شارح صحیح مسلم ساتویں صدی ہجری کے نامور محدث ہیں، آپ نے ایک مقام پرحذف الفاظ کی بحث کی ہے، اس میں آپ محدثین کی عادت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"جرت عادت اہل الحدیث بحذف قال ونحوہ فیمابین رجال الاسناد فی الخط وینبغی للقاری ان یلفظ بھا"۔
(مقدمہ شرح نووی:۱۹، دہلی)
ترجمہ:اہل حدیث کا طریقہ تحریری رجال اسناد میں قال وغیرہ کے الفاظ کوحذف کرتا رہا ہے؛ لیکن قاری کو چاہیے کہ وہ انہیں بولاکرے۔
ظاہر ہے کہ یہاں اہلِ حدیث سے مراد اصحابِ اہل فن علماء حدیث ہی ہوسکتے ہیں نہ کہ کسی ایک فقہی مسلک کے عوام ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ساتویں صدی ہجری تک اہلِ علم کے ہاں اہلحدیث سے مراد محدثین ہی لیئے جاتے تھے، ایک اور مقام پرلکھتے ہیں:
"یجوز عند اہل الحدیث التساہل فی الاسانید الضعیفۃ وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ"۔
(تقریب بشرح التدریب:۱۹۶)
ترجمہ:اہلِ حدیث کے ہاں اسانید ضعیفہ میں بشرطیکہ موضوع کی حد تک نہ ہوں؛ درگزر سے کام لینا اور اس پرعمل کرنا جائز رکھا گیا ہے۔
صحیح البخاری کے الفاظ "فاجازوہ" کی شرح میں حافظ ابن حجرعسقلانی (۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:
"فمعنى قول البخاري فأجازوه أي قبلوه منه ولم يقصد الاجازه المصطلحة بين أهل الحديث"۔
(فتح الباری:۱/۱۶۴)
ترجمہ:امام بخاریؒ نے "فاجازوہ" کےالفاظ اجازت کے اس معنی میں استعمال نہیں کیئے جو اہل حدیث کی اصطلاح ہے۔
حافظ ابن حجر کے ان الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ ان دنوں اہلحدیث سے کوئی فقہی مکتبِ فکرہرگز مراد نہ تھا؛ بلکہ اس سے اہلِ فن محدثین ہی مراد لیئے جاتے تھے اور ان کی اپنی اپنی اصطلاحات تھیں اور اس سے یقیناً اہلِ علم کا ہی ایک طبقہ مراد ہوتا تھا، حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک اور مقام پر حدیث "لَنْ تزال ھذہ الامۃ قائمۃ علی امراللہ" کی شرح میں لکھتے ہیں:
"وقد جزم البخاري بأن المراد بهم أهل العلم بالآثار وقال أحمد بن حنبل إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم"۔
(فتح الباری:۱/۱۶۴)
ترجمہ:امام بخاری نے پورے یقین سے کہا ہے کہ اس سے مراد احادیث کے اہلِ علم ہیں اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اگراس سے اہلحدیث مراد نہ ہوں تومیں نہیں جانتا کہ پھرکون لوگ مراد ہوں گے۔
"لَانورث ماترکناہ صدقۃ" مشہور حدیث ہے، حضورﷺ نے فرمایا: انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی، ہم جوچیز چھوڑیں وہ صدقہ میں جائے گی، شیعہ علماء نے اسے اپنے مقصد کے خلاف سمجھتے ہوئے "لَانُورث" کے الفاظ کو"لَایورث" سے بدل دیا، اب معنی یہ ہوگئے کہ ہم مسلمان جوچیز صدقہ میں چھوڑیں اسے وراثت میں نہ لایا جائے، اب یہ مسئلہ وراثت انبیاء سے نکل کر ایک عام ضابطہ میں آگیا کہ صدقہ میں دی گئی چیز پھراپنی ملکیت میں نہیں لی جاتی، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہاں دیکھنا چاہیے محدثین کی اصل روایت کیا ہے اور انہوں نے حدیث کوکن الفاظ میں ضبط کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
"والذي توارد عليه أهل الحديث في القديم والحديث لا نورث بالنون"۔
(فتح الباری کما فی حاشیۃ ابی داؤد:۲/۴۱۴)
یہاں اہلِ حدیث سے مراد فنِ حدیث کے ماہرین ہیں، اس وقت تک اہلحدیث کا لفظ انہی معنوں میں بولا جاتا تھا جوعہد قدیم میں اس لفظ کے معنی تھے، یہ لفظ اہلِ علم کے اس طبقہ کے لیئے استعمال ہوتا تھا جومحدثین تھے، یہ کسی ایک مکتبِ فکر یافرقے کا نام نہ تھا، یہ ماہرین فن سب اس پرمتفق ہیں کہ اصل روایت نون سے ہے یاسے نہیں، اہلِ حدیث الفاظ حدیث کوان کے اصل مراجع ومصادر سے پہچانتے ہیں اور وہ محدثین ہیں؛ سومیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلحدیث باصطلاح قدیم سے مراد فن حدیث کے جاننے والے تھے، اہل العلم بالآثار سے یہی مراد ہے، علامہ شامی محقق ابن ہمام (۸۶۱ھ) سے یہ بحث نقل کرتے ہیں کہ خوارج کوکافر کہا جائے یانہ؟ محقق ابنِ ہمام نے لکھا ہے:
ترجمہ: بعض محدثین ان کی تکفیر کے قائل ہیں ابن المنذر نے کہا ہے میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس پرمحدثین کی موافقت کی ہو۔
نویں صدی کے اہلحدیث میں حافظ ابن حجر عسقلانی (۸۵۲ھ) اور حافظ ابن ہمام اسکندری (۸۶۱ھ) کے ناموں سے کون واقف نہیں، پہلے بزرگ شافعی ہیں اور دوسرے حنفی اور دونوں اہلِ حدیث سے حدیث کے علماء فن مراد لیتے تھے، ان الفاظ سے کوئی خاص فقہی مسلک مراد نہیں لیا جاتا تھا۔
اہلِ فن محدثین میں پھرکئی فرقے اور مسالک تھے، ان میں حنفی بھی تھے اور شافعی بھی، اہلحدیث خود کسی فرقے کا نام نہ تھا، کسی محدث کا فقہی مسلک اس کے اہلحدیث ہونے کے خلاف نہ سمجھا جاتا تھا، محدث ہونے کے پہلو سے سب اہلِ حدیث تھے، نویں صدی کا حال اور اس دور کے علماء کی اصطلاح ابنِ ہمام کی اس تحریر سے ظاہر ہے؛ پھرعلامہ شامیؒ (۱۲۵۳ھ) اسے تیرہویں صدی ہجری میں نقل کرتے ہیں اور اس میں کہیں اختلاف ذکر نہیں کرتے کہ اہلحدیث نام سے ان دنوں کوئی غیرمقلد جماعت بھی مراد لی جاتی تھی، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک اہلحدیث سے وہ اہلِ علم ہی مراد لیئے جاتے تھے، جوفن حدیث میں حاذق اور صاحب الرائ ہوں، جس طرح تفسیر پڑھنے پڑھانے والے اہلِ تفسیر اور زبان پرکامل دسترس رکھنے والے اہل لغت کہلاتے تھے، محدثین کا یہ طبقہ اہلِ حدیث کے نام سے بھی کبھی ذکر ہوتا تھا، ہندوستان میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی سے حدیث کی باقاعدہ اشاعت ہوئی، آپ کے دور تک لفظ اہل الحدیث اسی پرانی اصطلاح سے جاری تھا، حضرت شیخ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
ترجمہ:تابعین اور تبع تابعین میں ان کے کئی ساتھی تھے اور وہ سب اہلحدیث وفقہ وزہدورع تھے۔
اہلحدیث سے مراد ترک تقلید کے نام سے ایک فقہی مسلک ہوا یہ جدید اصطلاح اسلام کی پہلی تیرہ صدیوں میں کہیں نہیں ملتی، اس کا آغاز چودھویں صدی ہجری سے ہوتا ہے؛ یایوں سمجھ لیجئے کہ تیرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں اس کے لیئے کچھ حالات سازگار ہوگئے تھے۔
اہل حدیث باصطلاح دورِ جدید
اس اصطلاح جدید میں جماعت اہلحدیث سے مراد پاک وہند کا ایک معروف دینی حلقہ ہے جوجمہور اہل السنۃ مسلمانوں سے ترکِ تقلید پرمختلف ہے؛ لیکن بنیادی عقائد میں یہ حضرات زیادہ تراہل السنۃ ہی ہیں، ان کے حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ سے تقریباً اسی قسم کے فروعی اختلافات ہیں جس طرح کے اختلافات مذاہب اربعہ میں آپس میں ہیں، کچھ ایسے اختلافات بھی ہیں جن میں یہ چاروں اماموں کے خلاف ہیں، جیسے "طلاقِ ثلاثہ ایک مجلس میں" اسے یہ ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں اور چاروں اماموں میں سے ایک بھی اس طلاق کے ایک ہونے کا قائل نہیں، امام نوویؒ شارح صحیح مسلم لکھتے ہیں:
ترجمہ:ائمہ اربعہ ہی نہیں سلف وخلف کے جمہور علماء کہتے ہیں طلاقیں تین واقع ہوجاتی ہیں۔
اسی طرح یہ حضرات آٹھ رکعت تراویح کے قائل ہیں؛ حالانکہ چاروں اماموں میں سے ایک بھی بیس سے کم کا قائل نہیں، مسجد حرام اور مسجد نبوی میں آج تک بیس رکعت تراویح ہی پڑھی جارہی ہیں اور یہی حنابلہ کا مؤقف ہے، امام شافعیؒ بھی اس میں جمہور اُمت کے ساتھ ہیں، امام ترمذی لکھتے ہیں:
اس قسم کے چند مسائل ہیں جن میں غیرمقلدین حضرات جمہور اہل السنۃ والجماعت سے مختلف ہیں؛ لیکن ان جزوی اختلافات کودبایا جائے اور دیگرفروعی اختلافات کوتوسع عمل پرمحمول کیا جائے تواختلاف مسلک کے باوجود یہ حضرات خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کے موضوع پرجمہور اہل السنۃ کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوسکتے ہیں، شیعہ یامعتزلہ یاخوارج کے بالمقابل سنی کا لفظ آئے تواس سنی دائرہ میں جماعت اہل حدیث بھی شامل ہوگی، ہاں ان میں جولوگ ائمہ کرام کے گستاخ ہوں یافقہ حنفی کے بعض باریک مسائل پر تمسخر اور استہزاء کا انداز اختیار کرتے ہوں وہ اہلحدیث ہونے کے مدعی ہونے کے باوجود اس دائرہ میں جواحترام سلف پرقائم ہے شامل نہ رہیں گے، انہیں اہلحدیث کہنا یقیناً غلط ہوگا اور اس میں توکوئی شبہ نہیں کہ وہ اہل سنت میں داخل نہیں ہیں۔
سنہ۱۹۵۶ھ میں پاکستان میں سکندرمرزا کا دور تھا، پنجاب میں نواب مظفر علی قزلباش برسراقتدارتھے، شیعہ سنی آویزش زور پر تھی، پولیس افسران شیعوں کودھڑادھڑ ماتمی جلوسوں کے لائسنس دے رہے تھے، جہاں جہاں نئے لائسنس جاری ہوتے فرقہ وارانہ اختلافات کی آگ اور بھڑکتی جاتی، محسوس ہوتا کہ یہ لائسنس ایک فرقے کے مطالبہ کوپورا کرنے کے لیے بلکہ فرقہ وارانہ فضا کوگرم نے کے لیئے ہی جاری کیئے جارہے ہیں، سنی دائروں میں ان حالات کے باعث سخت اضطراب تھا، ان دنوں حقوق اہل السنۃ کے تحفظ کے لیئے "سنی بورڈ" کا قیام عمل میں آیا تھا جس میں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی قادریؒ، مولانا سیدمحمد داؤد غزنویؒ، مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری، مولانا عبدالستار خاں نیازی اور احقر خالد محمود عفااللہ عنہ سب اس سنی بورڈ کے رکن تھے، اُن دنوں سنی دائرہ ان سب مسالک عمل کومحیط سمجھا گیا تھا۔
سواس اصطلاح جدید میں اہلحدیث سے مراد اسلام کے بنیادی عقائد پرکوئی مختلف گروہ نہیں، چند فروعی امتیازات کا حامل ایک طبقہ عمل ہے، جوترک تقلید کے عنوان سے حدیث سے براہِ راست نسبت کا مدعی ہے، جن مسائل میں اختلاف ہے وہ زیادہ تروہی ہیں جوائمہ اربعہ کے مابین بھی مختلف فیہ ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ انسان حق سے تبھی نکلتا ہے جب ان چاروں مذاہب کے دائرہ عمل سے باہر آجائے اور ایسے مواقع اس باب میں کم ہیں اور جو ہیں ان میں واقعی اُصولی اختلاف ہے، تقلید ہمیشہ سے جائز رہی ہے اسے حرام کہنا یقیناً حرام ہے۔
ہندوستان میں جماعت اہلحدیث "بہ اصطلاح جدید"کا قیام اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ کی وفات کے بہت بعد شروع ہوا ہے، فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کے وقت ہندوستان کے کسی گوشہ میں فقہی اختلاف مسلک کی آواز نہ اُٹھی تھی، سب اہل السنۃ والجماعت ایک ہی فقہی مسلک کے پیرو تھے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم اس عظیم علمی خدمت میں شریک تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
"خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے؛ چونکہ اکثرلوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کوپسند کرتے ہیں، اس وقت سے آج تک یہ لوگ (ہندوستان کے مسلمان) مذہب حنفی پرقائم رہے اور ہیں اور اسی مذہب کے عالم اور فاضل اور قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے؛ یہاں تک کہ ایک جمِ غفیر نے مل کر فتاویٰ ہندیہ جمع کیا اور اس میں شاہ عبدالرحیم صاحب والدِ بزرگوار شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی بھی شریک تھے"۔
مغلیہ سلطنت کے زوال پرمسلمانوں پرکوئی اجتماعی گرفت نہ رہی توعام ذہن کچھ آزادی فکر کی طرف مائل ہوئے، نواب صدیق خان صاحب اس سے پہلے لکھ آئے ہیں:
"کتب تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوامن وآسائش وآزادگی اس حکومت انگریزی میں تمام خلق کونصیب ہوئی کسی حکومت میں بھی نہ تھی اور وجہ اس کی سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھی گئی کہ گورنمنٹ نے آزادی کامل ہرمذہب کودی"۔
عہد جدید کی اس آزادی میں تقلید کا بندٹوٹا اور پھردیکھتے دیکھتے کچھ لوگ مختلف کشتیوں میں بہہ نکلے اور تاریخ نے مسلمانوں کا وہی حال کیا جومنتشراقوام کا ہوتا ہے، پیشتراس کے کہ اہلحدیث باصطلاح جدید پر کچھ تاریخی بحث کی جائے کہ اس نام سے ایک فقہی مسلک کی ابتدا کب سے ہوئی اور اس نام سے ایک فرقہ عمل کب سے موسوم ہوا، مناسب ہوگا کہ مختصرطور پر یہ بتلادیا جائے کہ اورنگ زیبؒ سے بہت پہلے ہندوستان میں علم حدیث آچکا تھا اور اس وقت تک لفظ اہلحدیث اصطلاح قدیم کے مطابق ہی چلا آرہا تھا۔
ہندوستان میں نامور محدثین کی آمد
علماء حدیث کی یہاں تشریف آوری مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہوچکی تھی، پانچویں صدی ہجری میں علم حدیث لاہور میں آچکا تھا، یہ عہدِ غزنوی کی بات ہے، شیخ اسماعیل کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں: "اوّل کہ علم حدیث بلاہور آوردہ اوبود" پھر شیخ صنعانی لاہور (۶۵۰ھ) آئے اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی قولی احادیث مجموعہ مشارق الانوار کے نام سے جمع کیں، یہ کوششیں ان دنوں کے مسلمانوں کے ذوقِ حدیث کا پتہ دے رہی ہیں، شیخ نورالدین شیرازیؒ (۸۱۶ھ) احمد شاہ اوّل کے عہد میں ہندوستان کے علاقہ گجرات میں آچکے تھے، اُن کی صحیح بخاری کی سند بہت عالی تھی اور دُور دُور سے علماء آپ سے سند لینے آتے تھے، مولانا سیدالاوّل چشتی جونپوری کی خدماتِ حدیث کوکون بھلاسکتا ہے، یہ صحیح نہیں کہ چشتی حضرات علمی پہلوسے اہلِ حدیث نہ تھے، آخر یہ محدث جلیل بھی توسلسلہ چشتیہ سے ہی تھے؛ پھرشیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی کے شاگرد حافظ شمس الدین سخاوی کے دوشاگرد شیخ وجیہ الدین مالکی (۹۲۹ھ) اور شیخ جمال الدین محمدبن عمر حضرمی (۹۳۰ھ) ہندوستان آئے؛ پھرشیخ محمدطیب سندھی (۹۶۸ھ)، شیخ علاؤ الدین علی المتقی (۹۷۵ھ)، پٹنہ کے شیخ طاہر صاحب مجمع البحار (۹۸۶ھ)، شیخ عبدالوہاب المتقی اور ان کے شاگرد شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (۱۰۵۳ھ)، شیخ علی بن احمد (۱۰۴۳ھ)، "صاحب السراج المنیر فی شرح الجامع الصغیر" شیخ نورالحق محدث دہلویؒ (۱۰۷۳ھ) شارح بخاری کو دیکھئے یہ سب حضرات اپنے اپنے وقت میں اپنی اپنی جگہ حدیث کی بڑی خدمات سرانجام دے چکے تھے، شیخ ابوالحسن سندھی (۱۱۳۹ھ) کے صحاحِ ستہ پرحواشی اب تک اہلِ علم کا عظیم سرمایۂ حدیث سمجھے جاتے ہیں، فقہی پہلو سے ان میں سے بیشتر محدثین حنفی تھے؛ مگرفن کے لحاظ سے بلاشبہ وہ اہلحدیث تھے اور انہوں نے پوری عمر حدیث کی خدمت میں گزاری؛ سواس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ علم حدیث ہندوستان میں بہت پہلے دور میں آچکا تھا۔
پھر بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری میں حدیث کی نہضت علمی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ محمداسحاق محدث دہلوی کے ہاں جمع ہوچکی تھی، یہ سب حضرات محدث کے نام سے معروف تھے اور پورے ہندوستان میں انہی محدثین دہلی کی سند چلتی تھی، حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی تھے اور محدثین کا یہ سارا گھرانہ علم حنفیہ کامرکز سمجھا جاتا تھا، جناب نواب صدیق حسن خان صاحب (۱۳۰۷ھ) اس خاندان کوبیت علم الحنفیہ کہا کرتے تھے، اس سے واضح ہے کہ ان دنوں مقلد ہونے اور محدث ہونے میں کوئی تباین کی نسبت نہ تھی ان میں تفاوت نہ سمجھا جاتا تھا، تقلید سے ان کے مسلک کااظہار ہوتا تھا اور حدیث سے ان کے فن کا پتہ چلتا تھا اور حق یہ ہے کہ ان دنوں تک ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے "اہلحدیث" نام سے کوئی فقہی مسلک معروف وموسوم نہ تھا۔
شاہ محمداسحاق صاحب محدث دہلوی (۱۲۶۲ھ) کے شاگردوں میں جناب میاں نذیرحسین صاحب (۱۳۳۰ھ) سب سے پہلے اس باب میں نمایاں ہوئے ان سے پہلے بنارس کے نومسلم عبدالحق نامی تقلید کے خلاف کچھ کام کرچکے تھے، صادق پور کے مولانا ولایت علی بھی کچھ اس طرف مائل ہوئے تھے؛ مگرصحیح یہ ہے کہ اس سلسلہ کے شیخ الکل جنھوں نے ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے ایک علیحدہ فقہی مسلک کی بنیاد رکھی، وہ جناب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی ہی تھے، جناب میاں صاحب بھی کلیۃً فقہ حنفی کے خلاف نہ تھے، اُن کا موقف یہ تھا کہ جہاں تک حدیث سے براہِ راست مسئلہ لے سکیں، فقہ کی طرف رجوع نہ کیا جائے اور جومسائل حدیث میں نہ مل سکیں ان میں فقہ حنفی پراعتماد کرلیا جائے، فتاوےٰ نذیریہ میں میاں صاحب کی یہی روش کارفرما رہی ہے اور جگہ جگہ فقہ حنفی سے استناد کیا گیا ہے۔
اہلحدیث ایک فرقہ کی صورت میں
ابتداء میں اس جماعت کے لوگ کہیں اہلحدیث کہیں محمدی اور کہیں موحد کہلاتے تھے، جماعت کسی ایک نام سے متعارف نہ تھی اُن کے مخالفین انہیں وہابی یاغیرمقلد کے نام سے موسوم کرتے تھے، مولانا محمدحسین بٹالوی صاحب نے انگریزی حکومت کودرخواست دی کہ اُن کے ہم خیال لوگوں کوسرکاری طور پر اہلحدیث کا نام دیا جائے، اس کے بعد اس اصطلاح جدید میں اہلحدیث سامنے آئے اور ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے ایک مستقل مکتبِ فکر کی بنیاد پڑگئی؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ برصغیر پاک وہند کے باہر اس نام سے (اہلحدیث باصطلاح جدید) اب تک کوئی فرقہ موجود نہیں ہے۔
ہندوستان کے مشہور عالمِ دین مولانا محمدشاہ صاحب شاہجہانپوری لکھتے ہیں:
"پچھلے زمانہ میں شاذ ونادر اس خیال کے لوگ کہیں ہوں توہوں؛ مگراس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے؛ بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں سے سنا ہے، اپنے آپ کوتووہ اہلحدیث یامحمدی یاموحد کہتے ہیں؛ مگرمخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یاوہابی یالامذہب لیا جاتا ہے"۔
(الارشاد الی سبیل الرشاد:۱۳)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تک جماعت کسی ایک نام سے موسوم نہ تھی مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی کوششوں سے یہ جماعت اہلحدیث (باصطلاح جدید) کے نام سے موسوم ہوئی، مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی لکھتے ہیں:
"مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے اشاعۃ السنۃ کے ذریعہ اہلحدیث کی بہت خدمت کی، لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا"۔
(سیرت ثنائی:۳۷۲)
سرچارلس ایچی سن صاحب جو اس وقت پنجاب کے لفٹیننٹ گورنر تھے آپ کے خیرخواہ تھے؛ انہوں نے گورنمنٹ ہند کواس طرف توجہ دلاکر اس درخواست کومنظور کرایا اور پھرمولانا محمدحسین صاحب نے سیکریٹری گورنمنٹ کوجودرخواست دی اس کے آخری الفاظ یہ تھے:
"استعمال لفظ وہابی کی مخالفت اور اجراء نام اہلحدیث کا حکم پنجاب میں نافذ کیا جائے"۔
(اشاعۃ السنۃ:۱۱/ شمارہ نمبر:۲/ صفحہ نمبر:۲۶)
وہابی نام سے اختلاف کی وجہ
وہابی نام سے اس کی اسمی مناسبت کے سبب شیخ محمدبن عبدالوہاب نجدی کے پیرو مرادلیئے جاتے ہیں اور چونکہ یہ سب حضرات مقلد تھے اور امام احمدبن حنبل کی تقلید کرتے تھے اس لیئے اہلحدیث جوترک تقلید کے عنوان سے جمہور اہلسنت سے علیحدہ سمجھے جاتے ہیں مقلدین کی طرف اپنی نسبت پسند نہ کرتے تھے، اس لیئے وہ لفظ وہابی کواپنے لیئے پسند نہ کرتے تھے، مقلدین سے غیرمقلدین کواصولی اختلاف رہا ہے، نواب صدیق حسن خان صاحب شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"سومذہب نجدی مذکور کا حنبلی تھا اور اس نے بوہروں اور بدوؤں پرچڑھائی کی تھی، اس مذہب (حنبلی مذہب) کی کتابیں ہندوستان میں رائج نہیں ہیں"۔
"محمدبن عبدالوہاب نجد میں پیدا ہوا تھا جومذہب حنبلی کا پیرو تھا، محمدبن عبدالوہاب مقلد تھا اور اہلحدیث کے نزدیک تقلید جائز نہیں، اہلحدیث کواس سے مسئلہ تقلید میں اختلاف تھا اور اب بھی ہے"۔
موجودہ اہلحدیث اب شیخ کی مخالفت نہیں کرتے تاکہ سعودی عرب سے مالی امداد بند نہ ہوجائے، شیخ محمدبن عبدالوہاب خود لکھتے ہیں:
"ونحن ایضا فی الفروع علی مذہب الامام احمد بن حنبل ولاننکر علی من قلد الائمۃ الاربعۃ دون غیرھم لعدم ضبط مذاھب الغیر"۔
(سیرۃ الشیخ محمدبن عبدالوہاب:۵۶)
ترجمہ:ہم فروعات میں امام احمد کے مذہب پرہیں اور مذاہب اربعہ میں سے کوئی کسی کی تقلید کرے ہم اس پرکوئی نکیر نہیں کرتے۔
یہ توشیخ کے الفاظ تھے، اب سوانح نگار کے الفاظ بھی سن لیجئے:
"وانھم الحنابلۃ متعصبون لمذھب الامام احمد فی فروعہ بکل اتباع المذاھب الاخریٰ فھم لایدعون لابالقول ولابالکتابۃ ان الشیخ اتی بمذھب جدید ولااخترع علماً غیرماکان عندالسلف"۔
(سیرۃ الشیخ محمدبن عبدالوہاب:۹۰)
ترجمہ:اور یہ سب حنبلی المذہب تھے امام احمد کے مذہب پرسختی سے کاربند تھے جیسے کہ دوسرے مذاہب کے پیرواپنے اپنے امام کے طریقے پرکاربند ہیں، زبانی اور تحریری انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ شیخ محمدبن عبدالوہاب کوئی نیا دین لائے اور انہوں نے کوئی نیا علم دریافت کیا جوپہلوں کے پاس نہ تھا۔
شیخ محمدبن عبدالوہاب سے لاتعلقی
غیرمقلد ہونے کی وجہ سے یہ حضرات اس میں حق بجانب تھے کہ انہیں وہابی نہ کہا جائے، اس میں انہوں نے سرتوڑ کوشش کی اور انگریزی حکومت نے اُنہیں لفظ اہلحدیث سے موسوم کردیا اس وقت سے جماعت اہلحدیث اس نام سے باضابطہ طور پر موسوم ہوئی؛ تاہم اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اس سے پہلے ہندوستان میں ایک حلقے میں ترکِ تقلید کی فضا پیدا ہوچکی تھی؛ گویا نام ابھی طے نہ ہوا تھا، میاں نذیر حسین صاحب دہلوی جو اس جماعت کے بانی یاشیخ الکل کہلاتے ہیں، اُن کے استاذ اور خسر مولانا عبدالخالق صاحب (۱۲۶۱ھ) لکھتے ہیں:
"سوبانی مبانی اس فرقہ نواحداث کا عبدالحق ہے اور چند دنوں سے بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیرالمؤمنین (سیداحمدشہید، شیخ مولانا اسماعیل شہید) نے ایسی ہی حرکاتِ ناشائستہ کے باعث اپنی جماعت سے اس کونکال دیا تھا"۔
(دیکھئے تنبیہ الضالین:۱۳)
مولانا اسماعیل شہیدؒ اور ان کے شیخ سیداحمدشہیدؒ غیرمقلدوں کے سخت خلاف تھے، تقلید کے خلاف جوشخص بات کرے اسے اپنی جماعت سے نکال دیتے تھے۔
وہابیوں کے خلاف انگریزوں کی برہمی
شیخ محمدبن عبدالوہاب کے پیروؤں اور شریف مکہ کے مابین نجد اور حجاز کی سرحد پرجھڑپیں ہوتی تھیں، انگریزوں کے شریف مکہ سے گہرے تعلقات تھے، وہ اسے ترکوں کے خلاف استعمال کرنے کی سوچ رہے تھے؛ لیکن اس وقت نجد اور حجاز کی سرحد پران کی ہمدردیاں شریف مکہ کے ساتھ تھیں؛ سوان کا وہابیوں کے خلاف ہونا ایک لازمی امر تھا، انگریزوں کے ہاں آل شیخ (وہابیوں) کا یہی تصور تھا کہ وہ ایک جنگجو حملہ آور گروہ ہے، جوگاہے گاہے اُن پرحملہ آور رہتا ہے؛ سوجہاں کسی نے جہاد کا نام لیا انگریز اس پربڑی آسانی سے لفظ وہابی سیٹ کردیتے تھے۔
انگریز ہندوستان میں آئے تویہاں بھی انہوں نے جسے ذراسراٹھاتے دیکھا اسے وہابی کا نام دے دیا قطع نظر اس سے کہ اس کا شیخ محمد بن عبدالوہاب سے کوئی علمی یارُوحانی رشتہ ہے یانہیں، عربی نہ جاننے کے باعث انگریز نہ جان سکے کہ شیخ کی نسبت کے بغیر کسی کووہابی کانام دینا علمی اعتبار سے درست نہیں، وہ اس لفظ کوجنگجو اور مجاہد کے معنی میں لے کر ہرآزادی پسند اور بہادر مسلمان کووہابی کہتے رہے اور جہاں کہیں آزادی کی کوئی تحریک چلتی، وہ اسے وہابیوں کی یلغار بتلاتے؛ اگرچہ ان کا شیخ محمد بن عبدالوہاب سے کوئی بھی تعلق نہ ہوتا تھا۔
ہندوستان میں لفظ وہابی کا استعمال
مجاہد کبیر حضرت سیداحمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے روحانی خلیفہ اور شاگرد تھے، محدثین دہلی کا یہ گھرانہ بقول نواب صدیق حسن خان صاحب "بیت علم الحنفیہ" (حنفیوں کے علم کا گھر) سمجھا جاتا تھا؛ مگرچونکہ انہوں نے سکھوں کے خلاف جہاد کیا اور سکھ ان دنوں انگریزوں کے حلیف تھے توانگریزوں نے انہیں بھی باوجود حنفی ہونے کے وہابی کہا، ہندوستان میں لفظ وہابی کا یہ پہلا استعمال تھا، انگریز مؤرخ ڈاکٹر اسٹارڈ Stuard لکھتا ہے:
"شمالی ہند میں ایک وہابی جانباز سیداحمد نے پنجابی مسلمانوں کواُبھار کرحقیقۃً ایک مذہبی سلطنت قائم کرلی؛ مگراُن کی ناگہانی موت سے شمالی ہند میں وہابی فتوحات کا امکان جاتا رہا ،اس سلطنت کوسکھوں نے سنہ۱۸۳۰ھ میں برباد کیا؛ لیکن جب انگریزوں نے اس ملک کوفتح کیا تب وہابی عقائد کی سلگتی ہوئی چنگاریوں نے بہت کچھ پریشان کیا یہ خیالات عرصہ تک باقی رہے اور اسباب غدر میں ممدہوئے اور انہی عقائد نے افغانستان اور شمال مغربی سرحد کے وحشی قبائل کوہمیشہ کے لیئے مذہبی تعصب میں رنگ دیا"۔
یہاں وہابی عقائد سے مراد لڑنا اور حملہ آور ہونا ہے؛ یہاں اس کا معنی مخالفین سے صف بندی کے سوا اور کچھ نہیں؛ ورنہ حضرت سیداحمد شہیدؒ توحنفی تھے آل شیخ کی طرح حنبلی نہ تھےاور مقلدین ہونے کے باوجود دونوں میں بہت سے مسائل میں اختلاف تھا، کوئی رشتہ تلمذوتعلق بھی نہ تھا، حضرت سیداحمد شہید امیرمجاہدین بالاکوٹ اپنے عقائد کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ایں فقیر وخاندان ایں فقیردربلادِ ہندوستان گمنام نیست الوف الوف انام ازخواص وعوام ایں فقیرواسلاف ایس فقیر را مے دانند کہ مذہب ایس فقیرا باعن جد حنفی است"۔
(مکاتیب سیداحمد شہید:۱۱۶)
اس حقیقت کے ہوتے ہوئے مجاہدین بالاکوٹ کووہابی کہنا کسی پہلو سے درست نہ تھا، انگریز چونکہ عربی زبان سے ناواقف تھے، اس لیئے وہ یہ جانے بغیر کہ نام اپنے معنی کے اعتبار سے اپنے مسمی پرکسی نہ کسی طرح منطبق ضرور ہونا چاہیے بے محابا یہ لفظ بولتے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ لفظ آزادی کی تحریکوں میں حصہ لینے والوں کے لیئے زیادہ سے زیادہ استعمال ہو ان لوگوں کووہ وہابی کہتے جوکبھی ان کے سامنے آزادی کا دم مارتے یاکسی تحریک کا نام لیتے اور لفظ وہابی کا یہ تصور ان کے ذہن میں خود نواب صدیق حسن خان صاحب نے ہی ڈالا تھا، موصوف لکھتے ہیں:
"اصل وہابی وہی لوگ ہیں جوپیرو محمد بن عبدالوہاب کے ہیں جس نے سنہ۱۲۱۲ھ میں نشان مخالفت کا ملک بخد عرب میں قائم کیا تھا اور خود یہ ایک غریب جنگ جوتھا اس کے جومقلد ہیں وہی وہابی مشہور ہیں"۔
اس عبارت میں وہابی کا یہی معنی بتلایا گیا ہے کہ وہ جنگ جواور حملہ آور قسم کے لوگوں کا نام ہے اور غیرمقلدین ایسے ہرگز نہیں؛ پھرانگریزوں نے اس لفظ کوجتنا بدنام کرنے کی کوشش کی لوگوں نے ان کی مخالفت میں کچھ اچھے معنی بھی تلاش کرلیئے اور پھریہ لفظ اتنا عام ہوگیا کہ بعض لوگ اس کی تاریخ سے کسی قسم کے تعارف رکھے بغیر اسے اللہ کے نام "الوہاب"سے جوڑنے لگے، اس تاویل سے البتہ اس میں کوئی غلطی نہ تھی؛ لیکن اس کا تاریخی پس منظر اس کے حلاف ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ہندوستان میں یہ لفظ سب سے پہلے مقلدین پربغیر کسی جوڑ کے آزمایا گیا؛ کیونکہ عرب میں بھی یہ لقب مقلدین کوہی دیا گیا تھا، جب یہ سکہ وہاں نہ چلا توپھراسے ہندوستان کے غیرمقلدین پراستعمال کیا گیا اور اس میں صرف یہ نسبت ملحوظ رکھی گئی کہ تمام فروعی مسائل میں ان غیرمقلدین کا طریقہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کے پیروؤں کے طریقہ سے ملتا جلتا تھا؛ گووہ مقلدین ہیں اور یہ غیرمقلدین؛ لیکن چونکہ نماز کی ہیئت ترکیبی دونوں میں ایک سی تھی، اس لیئے ان پر بھی یہ نام چسپاں کردیا گیا، وہابی ہونے کے لیئے گویہاں کوئی نسبت نہ تھی؛ مگرایک مناسبت ضرور تھی؛ سوان پرتاریخی پہلو سے نہ سہی علمی پہلو سے یہ لفظ بولا جانے لگا، موحدین ہند نے اسے بہت برا منایا اور ہرممکن کوشش کی کہ کسی طرح انہیں اس لفظ سے رہائی ملے اور انگریز انہیں اپنا مخالف نہ جانیں۔
غیرمقلدین کا وہابیوں سے لاتعلقی کا اظہار
لفظ وہابی انگریزی سیاست میں کسی نہ کسی طبقے پرتوآنا ہی تھا، غیرمقلدین نہ چاہتے تھے کہ انہیں ایک جنگجو یاجانباز قوم سمجھا جائے، وہ صرف ترکِ تقلید کے عنوان سے ایک علیحدہ مکتبِ فکر قائم کرنا چاہتے تھے یادوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ وہ اپنے آپ کومیدانِ جنگ میں نہیں صرف ایک مذہبی دائرہ میں رکھنا چاہتے تھے، ان حالات میں ضروری تھا کہ وہ مولانا اسماعیل شہیدؒ سے اور ان کی جماعت مجاہدین سے پوری لاتعلقی کا اظہار کریں اور لوگوں کوبتائیں کہ اُن کا وہابیانِ ہزارہ سے کوئی تعلق نہیں، انگریز اس جماعت مجاہدین کوحنفی ہونے کے باوجود وہابی کا ٹائٹل دے چکے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ لوگ ہندوستان میں حکومت حاصل کرنے کی سعی میں ان کے خلاف ایک خطرہ ہیں، نواب صدیق حسن خان صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:
"بخلاف ان لوگوں کے جولفظ وہابی کوپسند نہیں کرتے اور اہلسنت وحدیث ہیں ان کے دین میں حکومت حاصل کرنے کی تگ ودوکرنا اور زمین میں فساد پھیلانا اور مذہبی تعصب کورونق دینا اور ہرکسی پرنفسانیت وعداوت سے مدعی ہونا سخت گناہ اور حرام ہے"۔
نواب صدیق حسن خان صاحب نہ چاہتے تھے کہ ان کی جماعت کسی پہلو سے حکومت کی نظر میں معتوب ٹھہرے، اس لیئے وہ لفظ وہابی سے لاتعلقی کے ساتھ شیخ محمد بن عبدالوہاب سے بھی کلیۃً لاتعلقی چاہتے تھے، آپ لکھتے ہیں:
"اور سچ تو یہ ہے کہ وہابی ہونا عبارت ہے مقلد مذاہب خاص ہونے سے؛ کیونکہ پیشوا وہابیوں کا محمدبن عبدالوہاب مقلد مذہب حنبلی تھا اور تابعین حدیث کسی مذہب کے مذاہب مقلدین میں سے مقلد نہیں؛ پس وہابیہ اور اہلحدیث میں زمین وآسمان کا فرق ہے"۔
اصل وہابی وہی لوگ ہیں جوپیرومحمد بن عبدالوہاب کے ہیں جس نے سنہ۱۲۱۲ھ میں نشان مخالفت کا ملک نجد عرب میں قائم کیا تھا اور خود یہ ایک غریب جنگجو تھا اس کے جومقلد ہیں وہی وہابی مشہور ہیں۔
شیخ محمدبن عبدالوہاب سے اس کھلی مخالفت کے باعث غیرمقلدین حضرات لفظ وہابی کواپنے لیئے گالی سے کم نہ سمجھتے تھے اور نہ چاہتے تھے کہ ان کی شیخ عبدالوہاب سے کوئی نسبت ہو، نواب صاحب مرحوم ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
"ہم کو وہابی کہنا ایسا ہے جیسا کوئی کسی کوگالی دے"۔
"وہ مذہب خاص رکھتا تھا اور یہ لوگ (نواب صاحب کے گروہ کے) مذہب خاص نہیں رکھتے، قرآن وحدیث پرعمل کرتے ہیں؛ یہی ان کا مذہب ہے اور ہرفساد کی بات سے ہزاروں کوس بھاگتے ہیں اور نام سے وہابی کے انکار وتعجب کرتے ہیں اور وہابیت کودین میں ایک بدعت جانتے ہیں"۔
نواب صاحب مرحوم کاملکی آزادی کی تگ ودوکوفساد سمجھنا ان کا سیاسی موقف ہوسکتا ہے؛ ہمیں اس سے بحث نہیں؛ لیکن آل شیخ کے مسلک کوبدعت قرار دینا یہ ہمیں کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا، شیخ محمدبن عبدالوہاب کے بارے میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی رائے یہ ہے، اس وقت کی سیاسی فضا میں یہ جرأت مندانہ بیان دیکھئے:
"محمدبن عبدالوہاب کے مقتدیوں کووہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے اور مذہب ان کا حنبلی تھا؛ البتہ ان کے مزاج میں شدت تھی"۔
(فتاویٰ رشیدیہ:۳۷۴)
سوغیرمقلدین حضرات کا شیخ محمدبن عبدالوہاب کے طریقے کوبدعت قرار دینا اور وہابیوں کوبدعتی سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں، یہ مقلدین حقیقت میں حدیث کے ہی پیرو ہیں، تقلید کرنے والے کوبدعتی کہنا اور آلِ شیخ کوبھی مبتدعین قرار دینا یہ ایک زیادتی ہے، مقلدین ائمہ کی پیروی سے حدیث کی پیروی ہی مراد لیتے ہیں، امام کی ذاتی پیروی ان کے پیشِ نظرنہیں ہوتی وہ اس لیئے اُن کی بات مان رہے ہوتے ہیں کہ وہ امام حدیث کے مطابق یامراد حدیث کے مطابق بات کہتے ہوں گے، حضرت مولانا اسماعیل شہید کے ساتھی حضرت شاہ محمداسحاق صاحب محدث دہلوی جومیاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے شیخ حدیث تھے، لکھتے ہیں:
اس وقت یہ تاریخی موضوع پیشِ نظر نہیں کہ ہندوستان میں لفظ وہابی کی آمد کیسے ہوئی کس طرح یہ لفظ "وہابیان ہزارہ" (جومذہب حنفی کے مقلد تھے) پر آزمایا گیا؛ پھرکس طرح یہ لفظ غیرمقلدین ہند پر (اس مناسبت سے کہ ان کی ہیئتِ نماز آل شیخ کی ہیئتِ نماز سے ملتی جلتی تھی) لایا گیا اور پھر اس لیئےکہ جن لوگوں میں اس لقب کا سیاسی مفہوم کارفرما نہ تھا، یہ لقب اُن سے واپس لے کرانہیں اہلحدیث سے موسوم کیاگیا، یہ مباحث اس وقت موضوع گفتگو نہیں، اس وقت صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ہندوستان میں جماعت اہلحدیث کا قیام کب سے عمل میں آیا اور ترکِ تقلید کے عنوان سے اس دور میں یہ جماعت کیسے بنی، مذکورہ تفصیلات سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ترکِ تقلید کے عنوان سے جماعت کے شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب دہلوی تھے؛ لیکن ان کے عہد تک جماعت مختلف ناموں سے معروف تھی کہیں یہ حضرات محمدی کہلاتے تھے کہیں انہیں موحدین کہا جاتا تھا اور کہیں انہیں اہلحدیث بھی کہہ دیتے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب کے دور تک کچھ اسی طرح کی کیفیت رہی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی پہلے شخص ہیں جنھوں نے بڑی تگ ودو سے اپنے گروہ کے لیئے حکومت سے یہ ٹائٹل منظور کرایا اور اِسی وقت سے جماعت اہل حدیث کے نام سے چل رہی ہے، یہ صحیح ہے کہ ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے جس شخص نے پہلے زبان کھولی وہ عبدالحق بنارسی تھا؛ لیکن علمی پہلو سے اس کی کوئی خاص حیثیت نہ تھی؛ سوجماعت کے شیخ الکل جناب میاں نذیر حسین صاحب ہی سمجھ گئے انہی سے اس سلسلے کا باقاعدہ آغاز ہوا اس گروہ کے چند اکابر کا کچھ مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے، ان متقدمین سے اُن کے متاخرین کوسمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔
میاں نذیر حسین صاحب دہلوی (بانی مسلک جنھیں جماعت شیخ الکل کہتی ہے)
آپ سنہ۱۲۲۰ھ کوموضع سورج گڑھ ضلع مونگیر (بہار) میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۳۲۰ھ میں سوسال کی عمرپاکر وفات پائی، آپ کے استاد خسر مولانا عبدالخالق صاحب (متوفی:۱۲۶۱ھ) آپ کے سخت خلاف ہوگئے تھے، آپ پہلے رفع یدین نہ کرتے تھے؛ حالانکہ آپ حدیث پڑھ چکے تھے، سرسیداحمد خان سنہ۱۸۵۵ھ کی تحریک سے آپ نے رفع یدین شروع کی اور ایک مسلک کی بنیاد ڈالی، سرسیدایک خط میں لکھتے ہیں:
"جناب مولوی سیدنذیر حسین صاحب دہلوی کو میں نے ہی نیم چڑھا وہابی بنایا ہے، وہ نماز میں رفع یدین نہیں کرتے تھے؛ مگراس کو "سنت ہدیٰ" جانتے تھے میں نے عرض کیا کہ نہایت افسوس ہے کہ جس بات کوآپ نیک جانتے ہیں لوگوں کے خیال سے اس کونہیں کرتے، میرے پاس سے اُٹھ کرجامع مسجد میں نماز عصر پڑھنے گئے اور اس وقت سے رفع یدین کرنے لگے"۔
(موجِ کوثر:۵۱، مؤلفہ: شیخ محمداکرم صاحب)
پھرحکومت نے آپ کوشمس العلماء کا خطاب دے دیا، مولوی فضل حسین صاحب بہاری نے "الحیاۃ بعدالمماۃ" کے نام سے ایک پرایک کتاب لکھی ہے، اس میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز سرکار آپ کے بارے میں کس طرح سوچتی تھی، کسے پتہ نہیں کہ سرسیداحمد خان کے حکومت سے کیا روابط تھے، ان کے کہنے سے رکوع کے وقت رفع یدین کرنا اور حکومت سے سنہ۱۸۹۷ء میں شمس العلماء کا خطاب پانا اس پورے پس منظر کوواضح کررہا ہے، رہی یہ بات کہ حضرت شاہ محمداسحاق نے پھرانہیں سندِحدیث کیوں دی؛ سویہ خود محل بحث ہے، مولوی فضل حسین بہاری لکھتے ہیں:
"آپ نے میاں صاحب کوصرف اطراف صحاح کی سند دی تھی، میاں صاحب نے استیعاباً نہ آپ سے صحاح ستہ پڑھیں نہ ان کی سند لی، میاں صاحب خود اس سند کوچپٹراس کہتے تھے"۔
(دیکھئے، الحیات بعدالممات:۶۸)
آپ مطلق تقلید کے قائل تھے، فقہ حنفی سے فتویٰ دینا جائز سمجھتے تھے، ائمہ کی شان میں گستاخ نہ تھے اور اس پہلو سے آپ کا احترام ہرحلقے میں موجود تھا، غیرمقلدحلقوں میں گستاخ اور تفرقہ انگیز انداز کے داعی عبدالحق بنارسی اور ابوالحسن محی الدین تھے، یہ دونوں نومسلم تھے، جومسلمانوں کی صفوں میں انتشار پھیلانے کے لیے داخل کئے گئے تھے، اصلاً یہ ہندو تھے، عبدالحق بنارسی کا عقیدہ ملاحظہ کیجئے، میاں صاحب کے شاگرد قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی ان سے نقل کرتے ہیں، عبدالحق نے کہا:
"عائشہ علی سے لڑی اگرتوبہ نہ کی تومرتد مری"۔ (معاذ اللہ)
(کشف الحجاب:۴۲)
زبان اور زندقہ دونوں ملاخطہ ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے شیعہ بھی ترک تقلید کی اس تحریک کے پیچھے بڑی سرگرمی سے کام کررہے تھے اور اہلِ سنت نہ جانتے تھے کہ ان کے حلقوں میں آزاد خیالی کی ہوا کہاں سے تیز کی جارہی ہے، ابوالحسن محی الدین جس نے "الظفرالمبین" لکھ کراس آگ کواور بھڑکایا اس کا اصل نام ہری چند تھا، یہ دیوان چند قوم کتھری سکنہ علی پور ضلع گوجرانوالہ کا بیٹا تھا، اس کے اثرات اب تک علی پور چھٹہ میں موجود ہیں، وہاں منکرینِ حدیث کافی تعداد میں پیدا ہوچکے ہیں اور ترکِ تقلید کی یہ روش اب انہیں کفر کی سرحد کے بہت قریب لاچکی ہے، تفسیرالقرآن بالقرآن وہیں لکھی گئی ہے، جس پرمؤلف کا نام نہیں ہے۔
نواب صدیق حسن خان صاحبؒ
میاں نذیرحسین صاحب کے بعد جماعت کے بڑے بزرگ جناب نواب صدیق حسن صاحب سمجھے جاتے ہیں، سنہ۱۲۵۰ھ میں بانس بریلی میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۳۰۷ھ میں وفات پائی، آپ کی وفات کے وقت میاں نذیر حسین صاحب زندہ تھے، نواب صاحب مفتی صدرالدین صاحب دہلوی، تلمیذ حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز کے شاگرد تھے، ان کے ذریعہ ہندوستان میں ترکِ تقلید کی ہوا بڑی تیزی سے چلی؛ ملکہ بھوپال شاہ جہاں بیگم سے آپ کی شادی ہوئی تھی، اس دولت کی بدولت آپ کومسلک کی اشاعت اور علمی خدمات کا خوب موقع ملا، آپ امت کے کثیرالتصنیف علماء میں شمار ہوتے ہیں، آپ اپنے آپ کوموحد اور اپنے گروہ کوموحدین ہند کہتے تھے، جماعت کے لفظ اہلحدیث کا تعین اس وقت تک نہ ہوا تھا، ریاست بھوپال سے تعلق کی وجہ سے آپ چاہتے تھے کہ موحدین ہند ہراس تحریک سے نفرت کریں جوانگریزوں کے خلاف ہو؛ چنانچہ مجاہدینِ بالاکوٹ جن کی قیادت حضرت سیداحمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید نے کی تھی، آپ نے ان سے ان الفاظ میں لاتعلقی ظاہر کی ہے:
"گورنمنٹِ ہند کے دیگر فرقِ اسلام نے یہ دلنشین کردیا ہے کہ فرقہ موحدین ہند مثل وہابیان ملک ہزارہ ایک بدخواہ فرقہ ہے اور یہ لوگ (موحدینِ ہند) ویسے ہی دشمن وفسادی ملک گورنمنٹ برٹش ہند کے ہیں، جیسے کہ دیگرشریر اقوام سرحدی (مجاہدین بالاکوٹ وغیرہ) بمقابلہ حکومت ہند سوچا کرتے تھے"۔
لفظ وہابی کے بارے میں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ
ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ "لڑنے والوں" کے لیئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لیئے ان سے متمائز نام "موحدین ہند" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:
"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہو"۔
موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لیئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔
نواب صاحب کی جماعتی فکر
ترکِ تقلید کی فضا ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ آپ شیخ عبدالوہاب نجدی اور ان کے پیروؤں کے بھی سخت خلاف تھے، لفظ وہابی سے سخت نفرت تھی، انگریزوں کوبار بار یاد دلاتے کہ ہم وہابی نہیں ہیں اور وہابیوں سے ہمار کوئی تعلق نہیں ہے۔
نجد کے شیخ محمدبن عبدالوہاب اور عرب کے وہابی امام احمد کے مقلد ہیں اور ہم غیرمقلد ہیں۔
وقت کی سیاسی فضا میں مسلمانوں میں آزادی پیدا کرنے کی ان خدمات کے باعث آپ کی انگریزی سرکار میں بہت قدر ومنزلت تھی، آپ کوایک لاکھ چوبیس ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ ملتا تھا (الحطہ:۱۵۱) آپ کی صاحبزادی شمس الامراء کوبھی حکومت سے باون لاکھ کی جاگیر ملی تھی (دیکھئے:ماثرصدیقی:۱/۴۷، مولانا حسن علی) اِن مراعات کے ہوتے ہوئے ان کی وفاداری کسی پہلو سے بھی محل شبہ میں نہ تھی۔
موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت
نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:
"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیں"۔
(الحطہ:۱۵۱)
نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لیئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:
پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی
مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:
"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا"۔
(مآثرصدیقی:۱/۳)
یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواس مکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔
مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ "الاقتصاد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لیئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔
پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے "اثبات الالہام والبیعۃ" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:
"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھی"۔
(تحریک ریشمی رومال "انگریزوں کی اپنی ڈائری")
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لیئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ "تنسیخِ جہاد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔
مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی
آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹ"۔
مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لیئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔
(تحریک ریشمی رومال "انگریزوں کی اپنی ڈائری")
جنگِ طرابلس، جنگ بلقان اور کان پور کی مسجد کے واقعہ پراس نے سیالکوٹ میں کافی بے چینی اور شورش پھیلادی تھی، ایم ابراہیم کے بارے میں شبہ ہے کہ برطانیہ کے خلاف مسلم پراپگینڈے میں اس کا ہاتھ ہے۔
(تحریک ریشمی رومال "انگریزوں کی اپنی ڈائری")
کیا ستم ظریفی ہے کہ جماعت اہل حدیث کے جس فرد نے کسی قومی کام یاتحریک آزادی میں حصہ لیا، انگریز پھرسے اس کے لیئے لفظ وہابی لوٹالائے اور باوجود یکہ شمس العلماء میاں نذیرحسین صاحب، نواب صدیق حسن صاحب اور مولانا محمدحسین بٹالوی نے ہرممکن کوشش کی تھی کہ ان کوئی تعلق مولانا اسماعیل سے ثابت نہ ہو اور وہ اپنے ماحول میں وہابیانِ ہزارہ سے ہرگونہ اظہار نفرت بھی کرتے رہے؛ مگروہابی کا ٹائٹل جماعت سےپھربھی کلیۃً اٹھ نہ سکا اور ان سے تعلق کا داغ دھل نہ سکا۔
یہاں تک گفتگو اس موضوع میں تھی کہ جماعت اہلِ حدیث (بہ اصطلاحِ جدید) کب سے قائم ہوئی اور اس کے موسسین کون کون حضرات تھے، اس ضمن میں لفظ وہابی بھی زیرِبحث آگیا اور ہم نے اختصار وقت کی رعایت کرتے ہوئے اس پربھی کچھ تاریخی بحث کی ہے؛ لیکن یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ بنیادی عقائد میں جماعت اہلحدیث عام مسلمانوں سے الگ کوئی جماعت نہیں، ترکِ تقلید کی تحریک میں جولوگ حد سے بڑھنے والے تھے وہ اپنی اپنی جگہ خود ہی جماعت سے نکل گئے، کوئی مرزائیت میں چلا گیا، کوئی انکارِ حدیث کی لہروں میں جاڈوبا، کسی نے نیچریت کی قبا زیب تن کرلی اور جماعت اہلِ حدیث نے اپنی موجودہ شکل میں اپنے لیئے سلفی کا عنوان اختیار کرلیا، یہ مذاہب باطلہ سے دوری کی ایک اچھی تعبیر ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تبدیلی ان میں سعودی عرب سے وابستگی کے بعد آئی ہے، چونکہ علماء آل سعود زیادہ ترمقلدین ہیں، یہ اس لیئے سلفی ہوئے کہ ان سے رابطہ اس کے بغیر نہ ہوسکتا تھا، حقیقت میں یہ سلف کے پیرو ہیں یانہیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے،انکارِبدگمانی ہے جوبلاشہادت جائز نہیں، جوبات وفاق واتفاق کے قریب ہو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیےجب تک بات اس کے خلاف کھل کرسامنے نہ آجائے۔
ترکِ تقلید کے نتیجہ میں نئے نئے مذاہب
ہندوستان میں مغلیہ عہد میں صرف دوہی فرقے پائے جاتے تھے، سنی تھے یاشیعہ، نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
"ہندوستان کے مسلمان ہمیشہ سے مذہب شیعی یاحنفی رکھتے ہیں"۔
انگریزوں نے جب یہاں مذہبی آزادی کا اعلان کیا توسلاطینِ مغلیہ کی وہ گرفت جوعام مسلمانوں کوایک ہی مذہب پر رکھے ہوئے تھی ڈھیلی پڑگئی، نواب صاحب گورنمنٹ کی پالیسی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"جوامن وآسائش وآزادگی اس حکومت انگریزی میں تمام خلق کونصیب ہوئی کسی حکومت میں بھی نہ تھی اور وجہ اس کی سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھی گئی کہ گورنمنٹ نے آزادی کامل ہرمذہب والے کو دی ہے"۔
شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب نے اس آزادی سے فائدہ اُٹھایا توسرسیداحمد خان نے کل اسلاف سے ہی علمی بغاوت کردی اور نیچری فرقہ کے عنوان سے معتزلہ ایک نئی شکل میں سامنے آئے، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی اور مرزا غلام احمد قادیانی جومدتوں اہلِ حدیث مسلک پر اکٹھے کام کرتے رہے تھے، ان میں سے مرزا غلام احمد کل پرانے اسلام سے بغاوت کرگئے اور قادیانی مذہب وجود میں آیا، میاں نذیر حسین صاحب کے شاگرد مولانا سلامت اللہ جیراجپوری اہلِ حدیث (باصطلاح جدید) کے نامور عالم تھے؛ مگر اُن سے ان کے بیٹے حافظ اسلم جیراپوری ترکِ تقلید میں آگے بڑھ کرترکِ حدیث کی سرحد پر آگئے، ڈپٹی نذیراحمد صاحب کے شاگرد مولوی عبداللہ چکڑالوی جولاہور میں جماعت اہلِ حدیث کی پہلی مسجد (چینیاں والی) کے امام اور خطیب تھے، رفتہ رفتہ منکرینِ حدیث کے پیشوا بنے اور برطانوی ہندوستان میں قادیانی، نیچری، چکڑالوی سب اپنے اپنے محاذوں پرآکھڑے ہوئے، اس تلخ تجربے نے علمائے "اہلِ حدیث" کوپھر سوچنے پر مجبور کیا کہ ترکِ تقلید کا یہ انداز آخر کہاں تک چلتا رہے گا، کہیں یہ ساری جماعت کوہی اسلام سے لاباہر نہ کرے۔
اکابر جماعت اہلِ حدیث کے بیانات
مرزا غلام احمد قادیانی کے پرانے دوست مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:
"پچیس برس کے تجربہ سے ہم کویہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جولوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کوسلام کربیٹھتے ہیں"۔
(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)
پھرآپ یہ بھی لکھتے ہیں:
"اگروہ اہلِ حدیث میں جو بے علم یاکم علم ہوکر ترکِ تقلید کے مدعی ہیں وہ اِن نتائج سے ڈریں، اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوئے جاتے ہیں"۔
(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)
مولانا سیدعلی میاں ندویؒ کے والد مولانا سیدعبد الحیی مرحوم "نزہتہ الخواطر" کی آٹھویں جلد میں مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے ذکر میں لکھتے ہیں:
"وشدد النکیر علی مقلدی الائمۃ الاربعۃ لاسیما الاحناف وتعصب فی ذلک تعصباً غیرمحمود فثارت بہ الفتن وازدادت المخالفۃ بین الاحناف واھل الحدیث ورجعت المناظرہ الی المکابرۃ والمجادلۃ والمقاتلۃ لماکبرت سنہ ورای ان ھذہ المنازعۃ کانت سبباً لوھن الاسلام ورجع المسلمون الیٰ غایۃ من النکبۃ والمذلۃ رجع الی ماھواصلح لھم فی ھذہ الحالۃــــــ واماماکان علیہ من المعتقد والعمل فھو علی ماقال فی بعض الرسائل ان معتقدہ معتقد السلف الصالح مماورد بہ الاخبار وجاءفی صحاج الاخبار ولایخرج مماعلیہ اھل السنۃ والجماعۃ ومذہبہ فی الفروع مذہب اہل الحدیث التمسکین بظواھر النصوص"۔
ترجمہ: مولانا بٹالوی نے مقلدین ائمہ اربعہ خصوصاً احناف کے خلاف شدت اختیار کی اور اس میں ایسے تعصب سے چلے کہ اسے اچھا نہیں کہہ سکتا؛ پس اس سے بھڑک اُٹھے اور احناف اور فرقہ اہلِ حدیث کے مابین مخالفت زیادہ ہوگئی مناظرے، مکابرہ، مجادلہ؛ بلکہ مقاتلہ تک پہنچے؛ پھرجب آپ بڑی عمرکو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ مقلدین سے یہ کھچاؤ ضعف اسلام کا سبب ہوگیا ہے اور مسلمان رسوائی اور بدبختی کے گڑھے میں جارہے ہیں، آپ پھر اس طرف لوٹے جومسلمانوں کے لیئے اس حالت میں بہتر تھاــــــ ہاں جہاں تک آپ کے اعتقاد اور عمل کا تعلق ہے وہ اس پر تھے جیسا کہ آپ نے اپنے بعض رسالوں میں کہا ہے کہ ان کا اعتقاد سلف صالحین کا سا ہے جو اخبار اور صحیح احادیث میں آیا ہے اور وہ اس حد سے نہیں نکلیں گے جواہلِ السنۃ والجماعت کی راہ ہے، رہیں فروعات تواس میں وہ ان اہلِ حدیث کے طریقے پر رہیں گے جونصوص کے ظواہر سے تمسک کرتے ہیں۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی فکری کروٹ پرپوری جماعت اہلِ حدیث کی روش بدل جانی چاہیے تھی؛ لیکن افسوس کہ وہ لفظ حنفی اور شافعی وغیرہ سے اسی طرح سیخ پارہے کہ کسی درجہ میں وہ فقہ کے قریب آنے کے لیئے تیار نہ ہوئے، یہ شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولانا محمدحسین بٹالوی کے مسلک کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت کی ایک لہر تھی جو جماعت کے بیشتر علماء کولے ڈوبی، بہت کم تھے جومعتدل مزاج رہے اور اہلِ السنۃ والجماعت کے دائرہ کے اندر رہے، غالباً سنہ۱۳۲۶ھ کا واقعہ ہے کہ جماعت اہلِ حدیث کے اعیان وارکان لا ہور میں جمع ہوئے اور انجمن اہلِ حدیث کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے صدر مولانا محمدحسین بٹالوی قرار پائے، مولانا بٹالوی مرزا غلام احمد قادیانی کاحال دیکھ کر ضرور سمجھتے تھے کہ غیرمقلدین فقہ اور مقلدین سے جونفرت بڑھا رہے ہیں، اس سے اندیشہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت یہ لوگ (غیرمقلدین) پورے اسلام سے ہی منحرف نہ ہوجائیں، انہوں نے اہلِ حدیث کے ساتھ اپنے کوحنفی کہنے کی بھی راہ نکالی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:
"لاہور میں ایک مجلس اہلحدیث کے نام سے نامزد ہوکر قائم ہوئی ہے (یہ مجلس نامزد ہوکر قائم ہوئی تھی حکومت برطانیہ نے یہ نام اہلِ حدیث انہیں الاٹ کیا تھا ) صدر ہونے کی عزت اس ناچیز کوبخشی گئی ہے، اس میں یہ امربحث میں آیا تھا کہ اہلِ حدیث (جس کی طرف یہ انجمن منسوب ہوئی ہے) کی کیا تعریف ہے اور اہلِ حدیث سے کون شخص موسوم ہوسکتا ہے (جواس انجمن کے ارکان اور مجلس منتظمہ میں داخل ہونے کا استحقاق رکھتا ہو) اس کا تصفیہ رسالہ اشاعۃ السنۃ، جلد:۲۰ کے صفحہ نمبر۱۵۹ (جواہلِ حدیث کی قوم کا اور گورنمنٹ میں مہتمم ایڈوکیٹRepresentative ریپریزنٹیٹیو ہے) کے اس بیان سے ہوگیا کہ اہلِ حدیث وہ ہے جواپنا دستور العمل والاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کوبنادے (احادیث کے ساتھ آثار سلفیہ کوماننے کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے ارشادات کوبھی اپنے لیےسند سمجھے) اور جب اس کے نزدیک ثابت ومحقق ہوجائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یااس سے قوی پایا نہیں جاتا تووہ ان احادیث وآثار پرعمل کرنے کومستعد ہوجاوے اور اس عمل سے اس کوکسی امام یامجتہدکا قول بلادلیل مانع نہ ہو"۔
(غیرمقلدین علماء لفظ بلادلیل کوہمیشہ قول کی صفت بتاتے ہیں، یعنی وہ بات جس پر شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو ظاہر ہے کہ اس کا ماننا کسی کے ہاں معتبر نہیں، مقلدین اسے قول کی صفت نہیں ماننے کی صفت بتلاتے ہیں کہ کسی مجتہد کی بات کواس سے دلیل طلب کیئے بغیر اس کے اعتماد پر مان لینا کہ قرآن وحدیث کے مطابق ہی بتلارہا ہوگا)۔
ازآنجا کہ اس تعریف کی رُو سے بے تعصب ومنصف مزاج مقلدین مذاہب اربعہ حنفیہ وغیرہ جوعمل بالحدیث کوجائزرکھتے اور سعادت سمجھتے، تقلید مذہب ان کواس عمل بالحدیث سے مانع نہ ہوتی، داخل ہوسکتے ہیں، نظر برآں اس انجمن کے صدر خاکسار کی یہ رائے قرار پائی کہ اس انجمن کے نام میں ایسی تعمیم وتوسیع ہوجانی چاہیے کہ اس کا نام سنتے ہی وہ مقلدین جوعمل بالحدیث کوسعادت سمجھتے ہیں داخل سمجھے جائیں بناءً علیہ اس کے تجویز یہ ہوئی کہ لفظ انجمن اہلِ حدیث کے ساتھ بریکٹ میں حنفیہ وغیرہ بڑھادیا جائے۔
پھرمولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی اپنی رائے ملاحظہ کیجئے:
"صدرانجمن خاکسار چونکہ باوجود اہلِ حدیث ہونے کے حنفی بھی کہلانا جائز رکھتا تھا؛ لہٰذا اس امر کا اظہار اپنے ماہوار رسالہ اشاعۃ السنۃ اور "سراج الاخبار" کے ذریعہ کردیا، یہ امرہمارے رُوحانی فرزند (مولانا ثناء اللہ امرتسری جوان دنوں پرچہ اہلِ حدیث کے ایڈیٹر تھے)نوجوانوں کوجوصرف اہلِ حدیث کہلاتے ہیں اور وہ حنفی وغیرہ کہلانا پسند نہیں کرتے ناگوار گزرا اور انہوں نے خاکسار کے اس اظہار کے خلاف اپنے اخبار اہلِ حدیث میں یہ نوٹ شائع کرادیا....الخ"۔
مولانا ثناء اللہ صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا ؎
کسی کا ہورہے کوئی نبی کے ہورہیں گے ہم
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اس کے جواب میں لکھا ؎
نبی کے ہیں سبھی حنفی نہ مرزائی نہ چکڑالی نہ معتزلی جوجاحظ کی کرتے ہیں شاگردی
لفظ اہلِ حدیث ماضی میں ایک علمی شان رکھتا تھا، فرقہ اہلِ حدیث میں جب جاہل بھی اہلِ حدیث کہلانے لگے توپوری کی پوری جماعت نت نئے نئے اُٹھنے والے فتنوں کا دروازہ بن گئی، مرزا غلام احمد کے پہلے جانشین حکیم نورالدین بھی پہلے اہلِ حدیث بنے تھے (تاریخ احمدیت، جلد چہارم، صفحہ:۶۹،۷۰، حرمین سے واپسی پر نورالدین نے وہابیت اختیار کی اور ترکِ تقلید پروعظ کیئے اور عدم جوازِ تقلید پرکتابیں تصنیف کیں، بھیرہ میں ہیجانِ عظیم پیدا ہوگیاـــــ چودھری ظفراللہ خان قادیانی بھی اپنے دادا چودھری سکندرخان کے بارے میں لکھتے ہیں: "جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ہے وہ اہلِ حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھے" تحدیثِ نعمت:۳) پھرمرزائی بنے۔
قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری کی رائے
ان خیالات سے متأثر ہوکر جماعت اہلِ حدیث کے مقتدر عالم قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری نے اپنی جماعت کوجھنجھوڑا اور کہا:
"اس زمانہ کے جھوٹے اہلِ حدیث مبتدعین، مخالفین، سلفِ صالحین جوحقیقت ماجاء بہ الرسول سے جاہل ہیں وہ اس صفت میں وارث اور خلیفہ ہوئے شیعہ وروافض کےـــــ جس طرح شیعہ پہلے زمانوں میں باب ودہلیز کفرونفاق کے تھے اور مدخل ملاحدہ اور زنادقہ کا تھے؛ اسی طرح یہ جاہل، بدعتی اہلِ حدیث اس زمانہ میں باب اور دہلیز اور مدخل ہیں ملاحدہ اور زنادقہ منافقین کے بعینہ مثل اہل التشیع کے"۔
(کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعۃ:۲۶۲)
اس عبارت سے واضح ہے کہ اَن پڑھ جاہلوں کا اہلِ حدیث کہلانا کس طرح آیندہ دینی فتنوں کی اساس بنتا رہا ہے اور یہ بھی عیاں ہے کہ اس جماعت غیرمقلدین کے اعتدال پسند علماء کتنی دردمندی سے ترکِ تقلید کے کڑوے پھل چکھتے رہے ہیں اور ان کا ذائقہ بھی ساتھ ساتھ بتاتے رہے ہیں، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اچھا کیا جواپنے آپ کواہلِ حدیث حنفی کہنے لگے، یہ کسی نہ کسی دائرہ میں فقہ کی طرف لوٹنے کا ایک قدم تھا، اس پر دیگرعلماء فرقہ ہذا بہت سیخ پا ہوئے؛ تاہم مرزا غلام احمد کے انجام کا یہ ایک طبعی اثر تھا، جواس کے پرانے دوست مولانا محمدحسین صاحب پر اس تبدیلی کی شکل میں ظاہر ہوا، مشہور غیرمقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں:
"اربابِ فہم وذکاء اصحاب صدق وصفا کی خدمت میں عرض ہے کہ کچھ عرصہ سے جناب مولوی ابوسعید محمدحسین بٹالوی نے اپنے آپ کواہلِ حدیث حنفی لکھا ہے، آپ کے اس لقب پرمولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار اہلِ حدیث نے ایک نوٹ لکھا ہے"۔
(الانصاف رفع الاختلاف:۱، مصنفہ مولانا عبدالحق، مطبوعہ سنہ۱۹۱۰ء رفاہِ عام اسٹیم پریس، لاہور)
اس سے واضح ہے کہ مولانا محمدحسین بٹالوی میں یہ تبدیلی بعد میں آئی، اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی دینی تباہی آنکھوں سے دیکھی تھی۔
مولانا وحیدالزماں کی رائے
غیرمقلدین کا گروہ جواپنے تئیں اہلِ حدیث کہلاتے ہیں، اُنھوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماعی کی پرواہ نہیں کرتے نہ سلفِ صالحین اور صحابہؓ اور تابعین کیــــ قرآن کی تفسیر صرف لغت سےـــــ اپنی من مانی کرلیتے ہیں، حدیث شریف میں جوتفسیر آچکی ہے اس کوبھی نہیں مانتے۔
(وحیداللغات مادہشعب، حیات وحیدالزماں:۱۰۲)
مولانا عبدالعزیز سیکرٹری جمعیت مرکزیہ اہلِ حدیث ہند
اہلِ حدیث جواپنے ایمانیات وعقائد کی پختگی میں ضرب المثل تھےــــــ معتزلہ اور متکلمین کی شریعت کودوبارہ زندہ کرنے والے حضرات ہم میں پیدا ہوگئے او راُن کی حوصلہ افزائی کی گئیــــــ نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج جمعیت اہلِ حدیث ایک جسم بلاروح رہ گئی؛ بلکہ جسم کہتے ہوئے بھی قلم رُکتا ہے، آج ہم میں تفرق وتشتت کی یہ حالت ہے کہ شاید ہی کسی جماعت میں اس قدر اختلاف وافتراق ہو۔
(فیصلہ مکہ:۳،۲)
ترکِ تقلید کا یہ نتیجہ ان حضرات کے اپنے قلم سے آپ کے سامنے ہے، کاش کہ یہ حضرات مولانا محمدحسین بٹالوی کی بات مان لیتے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اس وقت تواپنے استاد مولانا بٹالوی کی مخالفت کی؛ لیکن ترکِ فقہ کے نتیجہ میں جب ترکِ حدیث کی اُٹھتی ہوئی لہردیکھی تواُن کے ذہن نے بھی پھرپلٹا کھایا، مرزا غلام احمد کے ترکِ تقلید نے مولانا محمدحسین بٹالوی میں فکری تبدیلی پیدا کی تومولوی عبداللہ چکڑالوی کی تحریک ترکِ حدیث نے مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کوسوچنے پرمجبور کیا کہ ترکِ حدیث کی ان لہروں کا پسِ منظرکیا ہے؟ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری، مولوی عبداللہ چکڑالوی امام مسجد چینیاں والی لاہور کے بارے میں رقمطراز ہیں:
"جب انہوں نے دیکھا کہ اب لوگ فقہ کی بندش سے تقریباً آزاد ہوگئے ہیں توانہوں نے احادیث پرنکتہ چینی شروع کردی اور جب کچھ دنوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے گا تووہ جمع وتدوینِ قرآن میں رخنے نکالنا شروع کردیں گے اور جب تک لوگوں کواس عیاری کا پتہ نہ چلے گا وہ عوام اور نئے تعلیم یافتہ طبقے کےدل ودماغ کواتنا مسموم کرچکے ہوں گے کہ ان کا تدارک کسی سے نہ ہوسکے گا"۔
میاں نذیر حسین صاحب سے لے کر مولانا محمدحسین بٹالوی تک ہندوستان میں مطلق تقلید کا انکار کہیں نہ تھا، غیرمقلدین بھی صرف تقلید شخصی کے خلاف تھے اور جملہ موحدینِ ہند اجتہادی مسائل میں فقہ حنفی کا فیصلہ لیتے تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کے عہد سے غیرمقلدین مطلق تقلید کے انکار کے درپے ہوئے؛ پھرانہی کے عہد میں ترکِ تقلید کی فضا اپنی پوری بہار پر آئی، غیرمقلدین نہ صرف مقلدین سے برسرِپیکار ہوئے؛ بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء ہوگئے۔
قاضی عبدالاحد صاحب خانپوری نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف ایک کتاب لکھی اور اس کا نام "کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعہ" رکھا اور اسے "اظہارِ کفر ثناء اللہ بجمیع اصول آمنت اللہ"(دیکھئے: سیرت ثنائی:۳۷۲۔ ہندوستان میں پہلی اسلامی تحریک:۳۹، مؤلفہ:مسعود عالم ندوی) سے ملقب کیا کہ مولوی ثناء اللہ ایمان کی تمام بنیادوں کا منکر ہے۔
غزنوی حضرات نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف اربعین لکھی اور اس پر چالیس کے قریب علماء اہلِ حدیث (باصطلاحِ جدید) نے دستخط کیئے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کواہلِ حدیث سے خارج قرار دیا، مولانا ثناء اللہ صاحب نے"مظالم روپڑی برمظلوم امرتسری" لکھ کر جماعت کی اندرونی حالت پوری طرح بے نقاب کی۔
(مظالم روپڑی:۴۸، تالیف:مولانا ثناء اللہ امرتسری)
مولانا عبدالوہاب ملتانی کے خلاف بانوے علماء اہلِ حدیث نے دستخط کیئے اورکہا کہ مدعی امامت (مولانا عبدالوہاب ملتانی) گمراہ ہے، اہلِ حدیث سے خارج ہے اور حدیث "مَنْ لَمْ یَعْرِفْ امام زَمَانِہ" کونہیں سمجھا؛ پھرمولانا عبدالوہاب کے شاگرد خصوصی مولانا محمدجوناگڑھی نے مولانا عبداللہ روپڑی کے بارے میں لکھا ہے:
"یہ مولوی صاحب جھوٹے ہیں بدعقیدہ ہیں اسے علمِ دین سے بلکہ خود دین سے بھی مس نہیںـــــ اس کا وعظ ہرگز نہ سنو؛بلکہ اگربس ہوتو وعظ کہنے بھی نہ دو، نہ اس کے پیچھے جمعہ جماعت پڑھو"۔
مولوی محمدیونس مدرسِ اوّل مدرسہ میاں نذیر حسین صاحب دہلوی نے حافظ عبداللہ صاحب روپڑی کے بارے میں فرمایا:
"شحص مذکور ملحد ہےـــــ ایسے لوگوں سے قطع تعلق ضروری ہے"۔
ان حضرات کی یہ نبردآزمائی صرف اپنے علماء تک محدود نہ تھی، مولانا عبدالوہاب صاحب نے عوام اہلِ حدیث کوبھی اپنے اس فتوےٰ میں گھسیٹ لیا، مولانا عبدالجبار صاحب کھنڈیلوی، مولانا عبدالوہاب سے نقل کرتے ہیں:
"جب تک مسلمان امام کونہیں مانتا اس کااسلام ہی معتبر نہیں"
(مقاصد الامامۃ:۱۶)
"کوئی کام نکاح ہو یاطلاق بغیر اجازتِ امامِ وقت جائز نہیں"۔
(مقاصد الامامۃ:۱۶)
ان حضرات کے اخبار محمدی کی ایک سُرخی ملاحظہ ہو "روپڑ کا خوفناک بھیڑیا"۔
(اخبار محمدی، دہلی، یکم جون سنہ۱۹۳۹ء)
ان کتابوں اور عنوانوں سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ترکِ تقلید کے جوش میں یہ لوگ اپنے گھر میں کیسی خوفناک آگ سے دوچار تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات اہلِ حدیث پران کے ہمنوا علماء انہیں سردارِ اہلِ حدیث کہتے تھے، مولانا عبداللہ روپڑی کوان کی یہ حیثیت پسند نہ تھی، آپ نے مولانا ثناء اللہ صاحب کومخاطب کرکے فرمایا:
"ٹھیلے تلے کتا چل رہا تھا وہ سمجھا کہ ٹھیلے کومیں کھینچ رہا ہوں تمہاری مثال یہ ہے"۔
(ثنائی نزاع، تالیف:عبداللہ روپڑی صاحب)
غیرمقلدین کی اس سرد جنگ سے یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ ترکِ تقلید کی تحریک اس وقت کس مرحلہ میں داخل ہوچکی تھی۔
اِن بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ائمہ دین اور سلفِ صالحین سے بے نیازی کی روش جماعتِ اہلِ حدیث میں کہاں تک آزادی پیدا کرچکی تھی؛ تاہم یہ غنیمت ہے کہ جماعت کے بعض حضرات کواس کا شدت سے احساس ہوا اور جولوگ ترکِ تقلید میں حد سے بڑھتے جارہے تھے وہ اپنی اپنی جگہ خود ہی جماعت سے نکل گئے اور اہلِ حدیث (بہ اصطلاح جدید) اپنی موجودہ شکل میں کچھ نہ کچھ سنبھل گئے اور اُنہوں نے صحابہ کرامؓ سے تمسک کرنے کواپنے اصولوں میں داخل کرلیا
مسلکِ اہلِ حدیث میں اقوالِ صحابہؓ کا درجہ
اہل السنۃ والجماعت کی بنیاد ہی صحابہ کرامؓ سے وابستگی پرہے اوریہی جماعت ہے جس کی طرف منسوب ہوکر وہ اہل السنۃ والجماعت کہلاتے ہیں، جب تک ان کے قول وفعل سے تمسک رہے غیرمقلدین بھی جماعت اہلِ حدیث (بہ اصطلاح جدید) کے دائرہ میں رہیں گے اور اس گروہ کے جولوگ حضراتِ صحابہؓ سے علیحدگی کوہی سچائی کا نشان سمجھیں وہ انجام کاراسلام کی سرحد کوہی پارکرجائیں گے، جماعت کے مقتدر عالم حافظ محمدعبداللہ صاحب روپڑی لکھتے ہیں:
"جب انسان کوکوئی مسئلہ قرآن وحدیث سے صراحۃ نہیں ملتا تووہ قرآن وحدیث میں اجتہاد واستنباط کرتا ہے اور وہ اجتہاد واستنباط قرآن وحدیث سے الگ نہیں کہلاتا؛ اسی طرح صحابی کے اس قول کوجواجتہاد واستنباط کی قسم سے ہو اس کوقرآن وحدیث سے الگ نہ سمجھنا چاہیے؛ بلکہ قرآن وحدیث میں داخل سمجھنا چاہیے"۔
(ضمیمہ رسالہ اہلِ حدیث:۷)
اوریہ بات بھی ظاہر ہے کہ صحابہ کے اقوال میں اوّل تورفع یعنی رسولﷺ کی حدیث ہونے کا احتمال قوی ہے اور اگر کہیں فہم کا دخل ہوتوبھی رسول اللہﷺ کی روش کی طرف زیادہ نزدیک ہیں؛ کیونکہ صحابہؓ آپ کی طرزِ استدلال کودیکھتے تھے اور آپ کے کنایہ اور اشارے سے خوب سمجھتے تھے اور جتنی باتیں مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہیں اُن سے خوب واقف تھے اور بعد کے لوگ اُن باتوں سے محروم ہیں، اس لیئے پچھلوں کے اجتہاد پرصحابہؓ کے اقوال کومقدم کرنا لازم ہے اور صحابہؓ چونکہ ان باتوں میں برابر ہیں اس لیئے ان کے اقوال آپس میں ایک دوسرے کوماننے لازم نہیں۔
(ضمیمہ رسالہ اہلِ حدیث:۸)
مولانا حافظ محمدعبداللہ صاحب روپڑی اس سے پہلے ساری بحث کا حاصل ان لفظوں میں لکھ آئے ہیں:
"اقوالِ صحابہؓ کے ساتھ استدلال کرنا ٹھیٹھ اسلام میں داخل ہے"۔
(ضمیمہ رسالہ اہلِ حدیث:۳)
کتنا اچھا ہوکہ گروہِ اہلِ حدیث کے دیگر حضرات بھی صحابہؓ کے قول وعمل سے استناد کرنا جائز سمجھیں اور اسے اپنی رائے پر ہرحال میں مقدم کریں، یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتباع اور پیروی کا عقیدہ ہے جواہلِ حدیث حضرات کو اہل السنۃ والجماعت میں داخل کرتا ہے، اس کے ساتھ ائمہ کرام کا اکرام واحترام بھی ضروری ہے، ان کے کسی فیصلے سے اختلاف اور بات ہے اور مجموعی طور پر اُن کی جلالتِ قدر سے کھیلنا اور ان کی علمی امامت کے انکار سے پورے اکابرِ امت کی تجہیل کرنا یہ وہ خوفناک روش ہے کہ اس راہ پر چلنے والا کبھی اہل السنۃ والجماعۃ میں نہیں رہ سکتا، جماعت اہلِ حدیث کے جوعلماء ائمہ حدیث وفقہ اور مجمع علیہم مجتہدین ائمہ اربعہ کا اکرام واحترام کرتے ہیں انہیں چند فروعی اختلافات کی بناء پراہل السنت کے دائرہ حقہ سے باہر نہ سمجھنا چا ہیے۔
"علماء اہلِ حدیث" کے ہاں امام ابوحنیفہؒ کا مقام
مولانا محمدابراہیم سیالکوٹی، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کے بہت قریبی دوست ہونے کے باعث علماء دیوبند سے بھی اتنے ہی قریب تھے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بہت معتقد تھے؛ اکثر فرماتے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا احترام مجھے رُوحانی طور پر بتلایا گیا ہے، میں اُن شخصوں کو جن کوحضرت امام سے حسنِ عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں "أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَايَرَى"(النجم:۱۲) میں نے جوکچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے ۔
(تاریخ اہلِ حدیث:۷۹)
جوشخص ائمہ دین اور خصوصاً امام ابوحنیفہ کی بے ادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا۔
(تاریخ اہلِ حدیث:۴۲۸، نقلا عن الحافظ عبدالمنان)
آپ نے تاریخ اہلِ حدیث کے نام سے محدثین اور اپنے اکابر جماعت کی ایک تاریخ لکھی، اس میں آپ نے امام ابوحنیفہ کا بھی ذکر کیا، آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس دہلی اس کوشائع کرنا چاہتی تھی؛ لیکن وہ لوگ اس پررضامند نہ تھے کہ امام ابوحنیفہ کومحدثین میں ذکر کیا جائے انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ حضرت امام صاحب کا ذکر اس کتاب سے نکال دیں مولانا ابراہیم صاحب نے کتاب ان سے واپس لے لی؛ مگرامام صاحب کا نام اس کتاب سے نہ نکالا اور فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ کا نام محدثین سے کبھی الگ نہیں ہوسکتا۔
غزنوی خاندان کے علماء بھی حضرت امام صاحب کی شان میں بہت مؤدب رہے ہیں، سیدابوبکر غزنوی نے اپنے والد مولانا محمدداؤد غزنوی کے سوانح حیات میں مولانا محمداسحاق بھٹی کا ایک مقالہ بھی درج کیا ہے، اس میں آپ سیدمحمدداؤد غزنوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ائمہ کرام کا اُن کے دل میں انتہائی احترام تھا، حضرت امام ابوحنیفہؒ کا اسمِ گرامی بے حد عزت سے لیتے، ایک دن میں اُن کی خدمت میں حاضر تھا کہ جماعت اہلِ حدیث کی تنظیم سے متعلق گفتگو شروع ہوئی، بڑے دردناک لہجہ میں فرمایا: مولوی اسحاق! جماعت اہلِ حدیث کوحضرت امام ابوحنیفہؒ کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے ہرشخص ابوحنیفہ ابوحنیفہ کررہا ہے، کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے توامام ابوحنیفہ کہہ دیتا ہے؛ پھراُن کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے یازیادہ سے زیادہ گیارہ؛ اگرکوئی بڑا احسان کرے تووہ اُنہیں سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے، جولوگ اتنےجلیل القدر امام کے بارے میں یہ نقطۂ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد اور یک جہتی کیوں کرپیدا ہوسکتی ہے"۔
(مولانا داؤد غزنوی:۱۳۶)
ان دنوں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت جوآپ نے اپے بیٹے حماد کے نام لکھی، نئی نئی طبع ہوکر آئی تھی، آپ اسے آنے جانے والوں کودکھاتے اور فرماتے، حضرت امام ابوحنیفہ کی نظر کم از کم پانچ لاکھ احادیث پر تھی، اب بھی جماعت اہلِ حدیث میں اچھے خاصے لوگ ملیں گے جوائمہ کرام اور فقہاء اسلام کا خاصا احترام کرتے ہیں؛ لیکن افسوس کہ چند ناعاقبت اندیش متعصب افراد کی جسارت اور دوسروں کی اس پر مصلحت کیش خاموشی پوری جماعت کواہل السنت والجماعت سے باہر کھڑا کرتی ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون؛ لیکن افسو س کہ ان کے خطیب قسم کے علماء اور جماعت میں اپنی جھوٹی شخصیت اُبھارنے والے فقہ حنفی سے برسرِعام کھیلتے ہیں، حضرت امام کے علم حدیث کاتمسخراڑاتے ہیں اور یہ مسخرے نہیں جانتے کہ حضرت امام کی بددعا جس کے بھی شاملِ حال ہوئی وہ قادیانی ہوکرمرا یارفض کی گود میں گیا یااسے منکرینِ حدیث میں جگہ ملی اور یاوہ پاگل ہوگیا، سلامتی سے اُسے یہاں سے رخصتی نہیں ہوی، "اعاذنا اللہ من سوء الادب فی الائمۃ المجتھدین"۔
یہ درست ہے کہ اس حلقے میں بعض حضرات معتدل مزاج بھی تھے؛ انہوں نے کوشش کی کہ جماعت کومطلق العنان ہونے سے بچایا جائے اور انہیں پابند کیا جائے کہ کسی مسئلہ میں سلف کی حدود سے نہ نکلیں، اس جذبہ سے بہت سے لوگ سلفی کہلائےپہلے جولوگ قال اللہ اور قال الرسول کے سوا کچھ نہ سنتے تھے، اب سلف کی پیروی میں فخر محسوس کرنے لگے، یہ اِن لوگوں میں پہلی نظریاتی تبدیلی ہے جوعمل میں آئی ہے ؎
زاجتہادِ عالماں کوتاہ نظر
اقتادء رفتگاں محفوظ ت
ہمیں پورا احساس ہے کہ موضوعِ زیربحث اہلِ حدیث (باصطلاحِ جدید) کا تعارف ہے، یہ چند باتیں ہم نے صرف تاریخی پہلو سے کہی ہیں، کسی فریق کے کسی موقف کا اثبات یاابطال ہرگز پیشِ نظر نہیں، حدیث کے طلبہ کے لیئے حدیث سے متعلق جملہ مباحث لائقِ مطالعہ ہوتے ہیں، ہم نے ضرورت کے مطابق یہ تاریخی نقشہ آپ کے سامنے پیش کردیا ہے، کسی عزیز نے کسی بات پرکوئی گرانی محسوس کی ہوتو ہم اس سے معذرت خواہ ہیں، تاریخی حقائق سے صرفِ نظر توکی جاسکتی ہے؛ لیکن انہیں مٹایا نہیں جاسکتا، یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ جودرخت تقریباً ایک صدی پہلے ترکِ تقلید کے نام سے بویا گیا تھا اس کے نکیلے کانٹوں سے خود اس کے داعی بھی خون آلودہ ہوئے بغیر نہ رہے سکے، غزنوی حضرات اس لیے ان مفاسد سے بچےرہے کہ وہ سلوک واحسان کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی کی کتاب "اثبات الالہام والبیعۃ" کا ذکر پہلے آچکا ہے، یہ کتاب مولوی غلام علی قصوری کی ایک کتاب کے جواب میں لکھی گئی تھی، مقلدین کے بارے میں آپ کا نظریہ تھا:
"مذاہب اربعہ حق ہیں اور ان کا آپس کا اختلاف ایسا ہے جیسا صحابہ کرامؓ میں بعض مسائل کا اختلاف ہوا کرتا تھا، باوجود اختلاف کے ایک دوسرے بغض وعداوت نہیں رکھتے اور باہم سب وشتم نہیں کرتے مثل خوارج وروافض کے، صلحاء اور ائمہ دین کی محبت جزوِ ایمان ہے"۔
(اثبات الالہام والبیعۃ:۶، طبع دوم)
مولانا عبدالجبار غزنوی مولانا عبداللہ غزنوی کے بیٹے تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا محمدداؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبداللہ غزنوی کے ایک دوسرے پوتے مولانا اسماعیل غزنوی تھے، جوسعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے مقربین میں سے تھے، ان کے باعث سعودی حکومت اور موحدینِ ہند میں خاصے روابط پیدا ہوئے اور اب تک یہ روابط قائم ہیں، اس مناسبت سے پھر سے لفظ وہابی ان حلقو میں عام ہوگیا ہے، یہ حضرات اب اس لفظ سے نفرت نہیں کرتے، سعودی عرب سے تعلقات رکھنے کے لیئے انہیں اب اس نام کی ضرورت ہے؛ ورنہ علماء آلِ سعود تومقلدین ہیں اور حنبلی مذہب رکھتے ہیں۔
مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء
شی کا نہیں رہا ـــــ محرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔
(مادہ عود:۱/۵، طبع: بنگلور)
ان خیالات کے باوجود جماعت اہلِ حدیث انہیں اپنے بزرگوں میں سے سمجھے تواسے وہ جانیں، جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں، مولانا وحیدالزماں شیعہ کتبِ حدیث کواہلِ سنت کتب حدیث کی کتابوں کے قریب لانا چاہتے تھے اور اسی لیے انہوں نے مسلکِ اہلِ حدیث اختیار کیا تھا؛ حالانکہ شیعہ کتبِ حدیث ہمارے ہاں اصولاً ثابت نہیں ہیں، آپ کی لغاتِ حدیث اسی فکر پرمرتب ہوئی ہے، ملاحظہ کیجئے، آپ خود لکھتے ہیں:
"انواراللغۃ جوجامع لغات احادیث مع احادیث فریقین یعنی امامیہ واہلِ سنت ہے، بڑی محنت اور جانفشانی سے مرتب کی ہے"۔
(مادہ عود:۱/۲، طبع: بنگلور)
انواراللغۃ، اسراراللغۃ، وحیداللغات ایک ہی کتاب کے نام ہیں۔
مبحثِ اہلِ حدیث یہاں ختم ہوتا ہے۔
اہل حدیث كا صحیح مطلب كیا ہے؟
اسلامی علوم، حدیث وفقہ اور تاریخ وتراجم وغیرہ موضوعات پر لکھی گئی کتابوں میں اصحابِ حدیث، اہل حدیث، علمائے حدیث، جیسے الفاظ طلبہٴ حدیث اور حدیث کی روایت اور درس وتصنیف کے ذریعہ اس کی خدمت میں مشغول رہنے والوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں، نیز قدیم مصنَّفات میں امام مالک، امام شافعی رحمہما اللہ کے مذہب ومسلک کی پیروی کرنے والے علما کا تعارف بھی اہلِ حدیث کے لقب سے کیاگیا ہے۔ اسی طرح اہل السنہ والجماعہ کا ذکر بھی اہلُ الحدیث کے عنوان سے کتابوں میں ملتا ہے؛ جبکہ آج کل ”اہل حدیث“ کا لفظ اس فرقہ پر بولا جاتا ہے، جو عامی یعنی غیرمجتہد کے لیے بھی کسی امام وفقیہ اور مجتہد کی پیروی کو ناجائز بتاتا ہے، ”اہل حدیث“ ایک ایسی جدید اور نوپید اصطلاح ہے، جس کا اسلام کی تاریخ میں کوئی سراغ نہیں ملتا؛ اس لیے اس کا حادث وبدعت ہونا بالکل ظاہر ہے، صرف الفاظ میں یکسانیت کے علاوہ قدیم اہل حدیث واصحاب حدیث سے کوئی معنوی و حقیقی ربط و تعلق نہیں ہے۔ پھریہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ اس فرقہ کے رکنِ رکین مولانا محمدحسین کی درخواست پر برٹش حکومت نے ”اہلِ حدیث“ نام ان کے لیے الاٹ کیا تھا؛ چنانچہ ایک مشہور غیرمقلد عالم مولانا عبدالمجید لکھتے ہیں: ”مولوی محمدحسین بٹالوی نے اشاعتُ السنہ کے ذریعہ اہل حدیث کی بہت خدمت کی، لفظ ”وہابی“ آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغدات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہل حدیث کے نام سے موسوم کیاگیا۔ (اہل حدیث اور انگریز ص ۸۷ بحوالہ سیرتِ ثنائی ص ۳۷۲) یہی مولانا محمدحسین وہ بزرگ ہیں، جنھوں نے حکومتِ برطانیہ کی حمایت میں ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ نامی کتابچہ کے ذریعہ جہاد کی منسوخی کا فتویٰ جاری کیا تھا؛ چنانچہ پروفیسر محمد ایوب قادری مرحوم لکھتے ہیں:
”مولوی محمد حسین بٹالوی نے سرکارِ برطایہ کی وفاداری میں جہاد کی منسوخی پر مستقل رسالہ ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ ۱۲۹۲ھ میں لکھا، انگریزی اور عربی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، یہ رسالہ ”سرچارلس ایجی“ اور سرجیمس لائل گورنر انِ پنجاب کے نام معنون کیاگیا۔ مولوی محمدحسین نے اپنی جماعت کے علماء سے رائے لینے کے بعد ۱۲۹۶ھ میں یہ رسالہ اشاعتُ السنہ کی جلد دوم شمارہ گیارہ میں بطورِ ضمیمہ شائع کیا، پھر مزید مشورہ وتحقیق کے بعد ۱۳۰۶ھ میں باضابطہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ (جنگ آزادی ۱۸۵۷/ ص۶۴)
یہ ہے اس فرقہ کا دینی پہلو جو ”اہلِ حدیث“ کے نام سے عام مسلمانوں کو فریب دے کر ان کو عامةُ الموٴمنین اور سوادِ اعظم سے برگشتہ کررہی ہے۔
برصغیر میں انگریزوں کے تسلط سے پہلے ترک تقلید اور فقہ وفقہاء کی مخالفت میں کوئی آواز بلند ہوئی ہو، تاریخ کے صفحات میں اس کا ثبوت تلاش نہیں کیا جاسکتا ہے ، اوروں کو چھوڑیے خود جماعت اہل حدیث کے سب سے بڑے بزرگ -جناب نواب صدیق حسن خاں- جن کی زبان وقلم ہی نہیں دولت اور نوابی نے اس شجرئہ نورُس کی آبیاری میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے، لکھتے ہیں:
”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے؛ چونکہ اکثر لوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کو پسند کرتے ہیں، اس وقت سے آج تک لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اورہیں، اور اسی مذہب کے عالم اور فاضل قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے۔“ (ترجمان وہابیہ ص۱۰ مطبوعہ ۱۳۱۲ھ)
میری معلومات کے مطابق سرزمین ہند میں اس اجنبی دعوت کی آواز بلند کرنے والوں میں قابل ذکر پہلے شخص مولوی عبدالحق بنارسی متوفی ۱۲۸۶ھ ہیں مسند ہند حضرت مولانا محمداسحاق محدث دہلوی مہاجر مکی متوفی ۱۲۶۲ھ کے تلمیذ رشید صاحب مظاہر حق شرح مشکوٰة حضرت مولانا نواب قطب الدین دہلوی متوفی ۱۲۸۹ھ اپنے رسالہ تحفة العرب والعجم کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
”عرصہ تخمیناً چالیس بیالیس برس کا گذرا کہ بعد تشریف لے جانے حضرت سید احمد صاحب ومولانا محمداسماعیل صاحب ومولانا عبدالحئی صاحب کے طرف پنجاب کے بعض مفسد مزاجوں کے خیال میں کچھ انکار تقلیدِ ائمہٴ دینِ متین علیہم الرحمہ کا آیا تھا اور تخمِ عناد کا فقہاء وفقہ کی طرف سے خصوصاً جناب امامِ اعظم کی طرف سے ان کے دل میں جماتھا۔ من جملہ ان کے مولوی عبدالحق بنارسی نے مدعی خلافت حضرت سیداحمد بن کر اس پردہ میں داد خوب لامذہبی کی دے کر بہت سے مسلمانوں کو بہکایا اور فساد احداث مذہب نو کا پھیلایا۔“ (بحوالہ شرعی فیصلے ص۲۷)
حضرت سیداحمد شہید اپنے رفقا اور لشکر کے ساتھ ۱۲۴۲ھ میں علاقہٴ پنجاب میں پہنچے اور ۱۲۴۶ھ میں مشہد بالاکوٹ میں جامِ شہادت سے سرشار ہوئے، اسی چار سالہ مدت کے درمیان ترکِ تقلیداور فقہ وفقہاء بیزاری کی دعوت کا آغاز کیاگیا، جس کا صاف معنی یہ نکلا کہ اس فرقہ کی عمر پورے دوسوسال بھی نہیں ہے۔
صاحبِ مظاہر حق یہ اطلاع بھی دیتے ہیں کہ ترکِ تقلید وغیرہ کی اس تبلیغ ودعوت کی ابتداء ؛ چونکہ علاقہٴ مشرق سے کی گئی تھی؛ اس لیے دیار پورب کے دین دار بالخصوص حضرت سیداحمد شہید کے ارادت مندوں اور ان کے خلفاء نے حرمین شریفین کے علماء سے فتویٰ طلب کیا، جس کے جواب میں وہاں کے علماء جن میں بطور خاص محدث عابد سندھی بھی شامل تھے، ایسے لوگوں کو ضال ومضل ہونے کا فتویٰ دیا، پھر اسی زمانہ میں مدرسہ کلکتہ کے مدرس اوّل مولوی محمد وجیہہ الدین نے اس فتنہٴ نو کی شرعی حیثیت سے عام مسلمانوں کو آگاہ کرنے کی غرض سے ”نظام الاسلام“ نام سے ایک رسالہ لکھا جس میں قوی دلائل سے ان کا رد کیا، اس رسالہ پر اس دیار کے علما بالخصوص حضرت سیداحمد شہید کے خلفا نے بھی اپنے دستخط ثبت کیے، اس رسالہ کا بفضلہ تعالیٰ اچھا اثر ہوا جس کا ذکر صاحب مظاہر حق ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”تب لامذہب خائب وخاسر ہوئے، بعضے ساکت ہوئے اور بعضوں نے تقیہ پر کام فرمایا؛ مگر شور وفساد کا جو چرچا تھا وہ مٹ گیا اور نابود ہوا۔“ (شرعی فیصلے ص۲۸)
آگے لکھتے ہیں:
”پھر ایک عرصہ کے بعد ایک شخص عبداللہ صفی پوری کے دماغ میں خلل پیدا ہوا، اور مکہ میں وہ اسی جرم میں قید ہوا، اور اظہارِ توبہ کے بعد اسے رہائی ملی اور وہاں سے ہندوستان واپس لوٹا اور گھومتے پھرتے دہلی میں رک کر ”وہی فساد لامذہبی کا پھیلانا شروع کیا“ یہ وہ زمانہ ہے کہ حضرت شاہ اسحاق صاحب دہلی میں موجود تھے اور ان کے علاوہ دیگر بڑے علماء بھی تھے، یہ سارے علماء عبداللہ صفی پوری اور اس کے ہم نواؤں سے سخت نالاں وبیزار تھے، آخر مولانا سید نذیرحسین اور مولوی خواجہ ضیاء الدین وغیرہ علماء کے مشورہ سے ان لوگوں کے متعلق حضرت شاہ اسحاق رحمہ اللہ سے استفتاء کیاگیا، انھوں نے اس کے جواب میں تقلیدِ امام معین کی واجب مخیر اور اس کے منکر کو ضال اور گمراہ لکھا، اس فتویٰ پر دیگر علماء دہلی نے بھی اپنے دستخط کیے جن میں چند معروف لوگوں کے اسماء یہ ہیں:
مفتی صدرالدین، مفتی اکرام الدین، مفتی رحمت علی، مولوی عبدالخالق استاذ (مولانا) سیدنذیرحسین صاحب، مولوی مملوک العلی (نانوتوی) میاں شاہ احمد سعید صاحب سجادہ نشین شاہ غلام العلی صاحب مرحوم، مولوی محمد علی صاحب رام پوری خلیفہ سیداحمد صاحب، مولوی محبوب العلی جعفری تلمیذ خاص حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب وغیرہ۔
مولانا قطب الدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”اس بلا کے دفع میں (مولانا) سید نذیرحسین صاحب بہ جان ودل ہمارے ساتھ تھے حتیٰ کہ ”تنویرالعینین“ کے مضامین کے رد میں جس کو لوگ منسوب مولانا اسماعیل کی طرف کرتے ہیں مدلل ایک رسالہ عربی زبان میں لکھا۔“
آگے لکھتے ہیں کہ علماء اور دین دار لوگوں کی اس سعیِ مسلسل سے، لامذہبی کا چرچا بظاہر ختم ہوگیا؛ لیکن خفیہ طور پر یہ لوگ اپنا کام کرتے رہے، بالخصوص مولانا سیدنذیرحسین صاحب کو اپنا ہم نوا بنانے میں انھوں نے بڑی سعی اور جدوجہد کی جس کا انجام کیا ہوا، صاحبِ مظاہر حق کی زبان قلم سے سنیے۔
اور سید صاحب کو ایسا ورغلایا اور اپنے ساتھ سانٹھا کہ سید بھی ان کے ممنون ومشکور ہوکر اور لٹوبن کر ان کی حمایت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ میں تو بیس بائیس برس سے ایسا ہی تھا پر کسی کو معلوم نہ تھا اور میں کیا کروں مجھ کو تو یونہی سوجھتی ہے۔ (ایضاً ص۳۲)
لا مذہبیت کے برپا اس فتنے کے آگے بندھ لگانے کے لیے مولانا نواب قطب الدین دہلوی نے تنویرالحق، توقیر الحق، تحفة ابعرب والعجم وغیرہ متعدد رسالے تحریر کیے، جس کے جواب میں مولانا سیدنذیرحسین صاحب نے ”معیار الحق“ تصنیف کی۔
اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح آشکارا ہوگئی کہ ہمارے پیش رو اکابر رحمہم اللہ نے اس بدعتِ جدیدہ سے اسلامیانِ ہند کو بچانے کے لیے اپنی جیسی سعی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور دلائل سے حق کو پوری طرح واضح کردیا؛ لیکن جب آدمی کی نیت ہی میں فساد پیدا ہوجائے تو پھر اس کے آگے دلیل وحجت سب بے کار ہوجاتی ہے، اسی کی شکایت صاحبِ مظاہرِ حق نے اپنے الفاظ میں یوں کی ہے اور اسی پر اپنے طویل مقدمہ کو ختم کردیا ہے کہ:
”یا وقت یہ دیکھا کہ․․․ جو روایت فقہِ ظاہر میں مخالفِ حدیث معلوم ہوئی تو وہ توجیہہ و تاویل جو شارحینِ مقبول الٰہی لکھ گئے ہیں کو قبول نہ کرکے، اور فقہاء کو مخالف حدیث کا ٹھہراکر پڑھنے والے کو خلجان میں ڈال کر اور اپنے اجتہاد کو دخل دے کر شاگرد کو منکرِ فقہ اور فقہاء بناکر، تقلیدِ مذہب سے نفرت دلاکر اپنی تقلید کے جال میں پھنساکر لامذہب بنایا، مثل مشہور ہے کہ ”بڑی بہو کو بلاؤ کہ کھیر میں نون ڈالے“ حال آنکہ غیرمجتہد کو اپنی راے سے فتویٰ دینا درست نہیں، جیساکہ علماء نے اکثر اصول اور فروع میں تصریح فرمائی ہے، افسوس صد افسوس ان لوگوں پر کہ وہ مذہب مجتہدین خیرالقرون کا چھوڑ کر تابع داری غیرمجتہد، نافہم، فساد انگیز کی کرتے ہیں اور زبانِ طعن اکابرینِ دین پر دن رات جاری رکھتے ہیں (ایضاً ص۳۶)
اس فتنہٴ نوخیز سے اسلامیانِ ہند کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ صرف علمائے دہلی اور خانوادئہ ولی اللّٰہی سے منسلک بزرگوں کی خدمات کا ایک مختصراور سرسری تذکرہ ہے، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ یہ فرقہ جب سے برصغیر میں وجود پذیر ہوا،اسی وقت سے علمائے حق اس کا تعاقب کرتے رہے ہیں، جس کی تفصیل اس مختصر تحریر میں پیش نہیں کی جاسکتی ہے، تفصیل کے طالب، کتاب ”شرعی فیصلے“ مرتبہ مولانا منیراحمد صاحب استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ باب العلوم پاکستان کا مطالعہ کریں، جس سے بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے پیش رو اکابر علماء کی نظر میں اس نوپید فرقہ کی مذہبی حیثیت کیا ہے؟
***
------------------------------------
اہل حدیث سے مراد محدثین ہیں نا کہ فرقہ اہل حدیث ۔ اپنے فرقے کے عالم زبیر علی زئی صآحب سے ثبوت لے لو۔۔۔
اور اگر اہل حدیث کا معنی فرقہ اہل حدیث لیا جائے تو اس عبارت کا مطلب ہوگا کہ ان کے حافظہ سے فرقہ اہل حدیث خوش نہیں تھے ۔۔۔ جب کہ امام مالک رح کے زمانے میں تو فرقہ اہل حدیث کا نام و نشان ہی نہیں سلف کی نظر میں اہلِ حدیث سے کون مراد ہیں؟
قرونِ اُولٰی اور قرونِ وسطیٰ میں اہلحدیث سے مراد وہ اہلِ علم تھے، جو حدیث پڑھنے پڑھانے راویوں کی جانچ وپڑتال اور حدیث کی شرح وروایت میں مشغول رہتے ہوں، حدیث ان کا فن ہو اور وہ علمی طور پر اس کے اہل ہوں، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ ان ادوار میں اہلحدیث سے محدثین مراد لئے جاتے تھے؛ اگرکوئی علمی طور پر اس درجے میں نہیں کہ حدیث پرکوئی فیصلہ دے یااس کے راویوں کوپہچانے توصاف کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ اہلحدیث میں سے نہیں ہے، عامی ہے، حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) ایک مقام پر محدثین کی اس عادت پر کہ فضائل میں ضعیف حدیثیں بھی روایت کردیتے ہیں، تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"والبيهقي يروي في الفضائل أحاديث كثيرة ضعيفة بل موضوعة كما جرت عادة أمثاله من أهل العلم"
(منہاج السنۃ:۳/۸)
ترجمہ:بیہقی فضائل میں بہت سے ضعیف بلکہ موضوع احادیث بھی لے آتے ہیں جیسے کہ ان جیسے اہلِ علم کی عادت جاری ہے۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ جس طرح علم نحو میں نحویوں کی طرف، لغات میں علماء لغت کی طرف، شعر میں علماء ادب کی طرف اور طب میں علماء طب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اہلِ حدیث سے مراد بھی وہ علماء فن ہوں گے جن کی طرف اس فن میں رجوع کیا جاسکے:
"المنقولات فيها كثير من الصدق وكثير من الكذب والمرجع في التمييز بين هذا وهذا إلى أهل علم الحديث كما نرجع إلى النحاة في الفرق بين نحو العرب ونحو غير العرب ونرجع إلى علماء اللغة فيما هومن اللغة وماليس من اللغة وكذلك علماء الشعر والطب وغير ذلك فلكل علم رجال يعرفون به والعلماء بالحديث اجل هؤلاء قدرا وأعظمهم صدقا وأعلاهم منزلة واكثر دينا"
(منہاج السنۃ:۴/۱۰۔ ازالاجوبۃ الفاضلہ:۱۴۲)
ترجمہ: اس باب میں صدق وکذب پرمشتمل روایات بہت ہیں، سچی اور جھوٹی کی تمیز کے لیے اہلحدیث کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا، جیسے نحو کے باب میں نحویوں کی طرف، لغت کے باب میں علماء لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے..... ہرعلم کے کچھ رجال ہوتے ہیں، انہیں اس علم کے پہلو سے جانا جاتا ہے، علماء حدیث ان سب سے زیادہ جلیل القدر ہیں، سب سے زیادہ سچے ہیں اور سب سے اُونچا درجہ رکھتے ہیں اور ان میں دین بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
حافظ جمال الدین الزیلعی (۷۶۲ھ) ابن دمیہ سے نقل کرتے ہیں:
ترجمہ:اہل حدیث پرلازم ہے کہ حاکم کے قول سے بچیں وہ بہت غلطیاں کرتے ہیں، ناقابل اعتماد ہیں، بہت سے لوگ جو ان کے بعد آئے اور اس میں اس کی پیروی کرتے رہے اس حقیقت سے ناواقف ہیں۔
دوسری صدی کے جلیل القدر محدث حضرت امام شافعی ایک جگہ حدیث " لاوصیہ لوارث" کے بارے میں لکھتے ہیں:
"أنه لايثبته أهل الحديث ولكن العامة تلقته بالقبول وعملوا به
(فتح المغیث:۱/۲۸۹، شاملہ،الناشر: دار الكتب العلمية،لبنان)
ترجمہ: اہلحدیث تواسے ثابت نہیں مانتے لیکن عامۃ الناس نے اسے قبول کیا اور اس پر عمل کیا۔
محدثین میں ہلال بن یساف کے بارے میں ایک سوال اُٹھا کہ اس نے وابصہ بن معبد اسدی کو پایا ہے یانہیں؟ اور یہ روایت کس طرح ہے، اس پر امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ترجمہ: اہلحدیث کا اس میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں عمروبن مرہ کی روایت زیادہ صحیح اور بعض کہتے ہیں حصین کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
یہ عبارت بڑی وضاحت سے بتلا رہی ہے کہ اہلحدیث سے مراد یہاں محدثین ہیں سند میں محدثین کے اختلاف کواختلاف اہلحدیث کہہ کر ذکر کیا گیا ہے؛ یہاں فقہی مسلک کا کوئی فرقہ مراد نہیں جس میں تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ دونوں قسم کے لوگ ہوں، یہ تیسری صدی ہجری کی تحریر صریح طور پر بتلا رہی ہے کہ ان دنوں اہلحدیث سے مراد محدثین لیے جاتے تھے، نہ کہ کوئی فقہی مسلک یا فرقہ، ابوابراہیم الانصاری المدینی کے بارے میں لکھتے ہیں:
امام ترمذی اہلحدیث کوکہیں کہیں اصحاب الحدیث کہہ کربھی ذکر کرتے ہیں، حدیث "لاتزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق" کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان سے مراد اصحاب الحدیث ہیں، امام بخاری نے بھی تصریح کی ہےکہ اس سے مراد علم حدیث کے ماہراہل العلم ہیں۔
(بخاری:۲/۱۰۸۷)
خطیب بغدادی (۴۶۲ھ) ابوعبداللہ الحاکم کے اس زعم پرکہ حدیث طیبہ اور حدیث "من کنت مولاہ" صحیحین کی شرطوں کے مطابق ہیں، جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"فانکرعلیہ اصحاب الحدیث ذلک ولم یلتفتوا الی قولہ ولاصوبوہ علی فعلہ"
(تاریخ بغداد۵/۴۷۴)
ترجمہ: اصحاب الحدیث نے اس پرانکار کیا ہے اور اس کی بات پرتوجہ نہیں کی اور اسے اس کے عمل میں درست نہیں کہا۔
حافظ ابن عبدالبر مالکی (۴۶۳ھ) بھی ایک جگہ لکھتے ہیں:
"وقالت فرقة من أهل الحديث: إن وطئ في الدم فعليه دينار، وإن وطئ في انقطاعه فنصف دينار ورأت فرقہ من اھل الحدیث تطویل السجود فی ذلک"
(تمہید:۳/۱۷۶)
ترجمہ: اہل حدیث کی ایک جماعت نے کہا ہے اگراس نے ایام میں اس سے صحبت کی تواسے ایک دینار صدقہ لازم آئے گا اور بعض اہلِ حدیث نے کہا ہے کہ اس پر دراز سجدہ اس کے ذمہ ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہلحدیث میں فقہی مسلک کے کئی فرقے تھے، اہلحدیث خود کوئی فقہی مسلک یا فرقہ نہ تھا نہ ان کی کوئی علیحدہ جماعت بندی تھی، امام نووی شارح صحیح مسلم ساتویں صدی ہجری کے نامور محدث ہیں، آپ نے ایک مقام پرحذف الفاظ کی بحث کی ہے، اس میں آپ محدثین کی عادت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" جرت عادت اہل الحدیث بحذف قال ونحوہ فیمابین رجال الاسناد فی الخط وینبغی للقاری ان یلفظ بھا "
(مقدمہ شرح نووی:۱۹، دہلی)
ترجمہ:اہل حدیث کا طریقہ تحریری رجال اسناد میں قال وغیرہ کے الفاظ کوحذف کرتا رہا ہے؛ لیکن قاری کو چاہیے کہ وہ انہیں بولا کرے۔
ظاہر ہے کہ یہاں اہلِ حدیث سے مراد اصحابِ اہل فن علماء حدیث ہی ہوسکتے ہیں نہ کہ کسی ایک فقہی مسلک کے عوام ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ساتویں صدی ہجری تک اہلِ علم کے ہاں اہلحدیث سے مراد محدثین ہی لیے جاتے تھے، ایک اور مقام پرلکھتے ہیں:
" یجوز عند اہل الحدیث التساہل فی الاسانید الضعیفۃ وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ"۔
(تقریب بشرح التدریب:۱۹۶)
ترجمہ: اہلِ حدیث کے ہاں اسانید ضعیفہ میں بشرطیکہ موضوع کی حد تک نہ ہوں؛ درگزر سے کام لینا اور اس پرعمل کرنا جائز رکھا گیا ہے۔
صحیح البخاری کے الفاظ د"فاجازوہد" کی شرح میں حافظ ابن حجرعسقلانی (۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:
" فمعنى قول البخاري فأجازوه أي قبلوه منه ولم يقصد الاجازه المصطلحة بين أهل الحديث "۔
(فتح الباری:۱/۱۶۴)
ترجمہ:امام بخاریؒ نے " فا جازوہ" کےالفاظ اجازت کے اس معنی میں استعمال نہیں کیے جو اہل حدیث کی اصطلاح ہے۔
حافظ ابن حجر کے ان الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ ان دنوں اہلحدیث سے کوئی فقہی مکتبِ فکرہرگز مراد نہ تھا؛ بلکہ اس سے اہلِ فن محدثین ہی مراد لیے جاتے تھے اور ان کی اپنی اپنی اصطلاحات تھیں اور اس سے یقیناً اہلِ علم کا ہی ایک طبقہ مراد ہوتا تھا، حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک اور مقام پر حدیث "لَنْ تزال ھذہ الامۃ قائمۃ علی امراللہ" کی شرح میں لکھتے ہیں:
"وقد جزم البخاري بأن المراد بهم أهل العلم بالآثار وقال أحمد بن حنبل إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم"۔
(فتح الباری:۱/۱۶۴)
ترجمہ:امام بخاری نے پورے یقین سے کہا ہے کہ اس سے مراد احادیث کے اہلِ علم ہیں اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اگراس سے اہلحدیث مراد نہ ہوں تومیں نہیں جانتا کہ پھرکون لوگ مراد ہوں گے۔
"لَا نورث ماترکناہ صدقۃ"
مشہور حدیث ہے، حضورﷺ نے فرمایا: انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی، ہم جوچیز چھوڑیں وہ صدقہ میں جائے گی، شیعہ علماء نے اسے اپنے مقصد کے خلاف سمجھتے ہوئے "لَا نُورث" کے الفاظ کو د"لَایورثد" سے بدل دیا، اب معنی یہ ہوگئے کہ ہم مسلمان جوچیز صدقہ میں چھوڑیں اسے وراثت میں نہ لایا جائے، اب یہ مسئلہ وراثت انبیاء سے نکل کر ایک عام ضابطہ میں آگیا کہ صدقہ میں دی گئی چیز پھراپنی ملکیت میں نہیں لی جاتی، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہاں دیکھنا چاہیے محدثین کی اصل روایت کیا ہے اور انہوں نے حدیث کوکن الفاظ میں ضبط کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
"والذي توارد عليه أهل الحديث في القديم والحديث لا نورث بالنون"۔
(فتح الباری کما فی حاشیۃ ابی داؤد:۲/۴۱۴)
یہاں اہلِ حدیث سے مراد فنِ حدیث کے ماہرین ہیں، اس وقت تک اہلحدیث کا لفظ انہی معنوں میں بولا جاتا تھا جوعہد قدیم میں اس لفظ کے معنی تھے، یہ لفظ اہلِ علم کے اس طبقہ کے لیے استعمال ہوتا تھا جومحدثین تھے، یہ کسی ایک مکتبِ فکر یافرقے کا نام نہ تھا، یہ ماہرین فن سب اس پرمتفق ہیں کہ اصل روایت نون سے ہے یاسے نہیں، اہلِ حدیث الفاظ حدیث کوان کے اصل مراجع ومصادر سے پہچانتے ہیں اور وہ محدثین ہیں؛ سو اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلحدیث باصطلاح قدیم سے مراد فن حدیث کے جاننے والے تھے، اہل العلم بالآثار سے یہی مراد ہے، علامہ شامی محقق ابن ہمام (۸۶۱ھ) سے یہ بحث نقل کرتے ہیں کہ خوارج کوکافر کہا جائے یا نہ؟ محقق ابنِ ہمام نے لکھا ہے:
ترجمہ: بعض محدثین ان کی تکفیر کے قائل ہیں ابن المنذر نے کہا ہے میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس پرمحدثین کی موافقت کی ہو۔
نویں صدی کے اہلحدیث میں حافظ ابن حجر عسقلانی (۸۵۲ھ) اور حافظ ابن ہمام اسکندری (۸۶۱ھ) کے ناموں سے کون واقف نہیں، پہلے بزرگ شافعی ہیں اور دوسرے حنفی اور دونوں اہلِ حدیث سے حدیث کے علماء فن مراد لیتے تھے، ان الفاظ سے کوئی خاص فقہی مسلک مراد نہیں لیا جاتا تھا۔
اہلِ فن محدثین میں پھرکئی فرقے اور مسالک تھے، ان میں حنفی بھی تھے اور شافعی بھی، اہلحدیث خود کسی فرقے کا نام نہ تھا، کسی محدث کا فقہی مسلک اس کے اہلحدیث ہونے کے خلاف نہ سمجھا جاتا تھا، محدث ہونے کے پہلو سے سب اہلِ حدیث تھے، نویں صدی کا حال اور اس دور کے علماء کی اصطلاح ابنِ ہمام کی اس تحریر سے ظاہر ہے؛ پھرعلامہ شامیؒ (۱۲۵۳ھ) اسے تیرہویں صدی ہجری میں نقل کرتے ہیں اور اس میں کہیں اختلاف ذکر نہیں کرتے کہ اہلحدیث نام سے ان دنوں کوئی غیرمقلد جماعت بھی مراد لی جاتی تھی، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک اہلحدیث سے وہ اہلِ علم ہی مراد لیے جاتے تھے، جوفن حدیث میں حاذق اور صاحب الرائے ہوں، جس طرح تفسیر پڑھنے پڑھانے والے اہلِ تفسیر اور زبان پرکامل دسترس رکھنے والے اہل لغت کہلاتے تھے، محدثین کا یہ طبقہ اہلِ حدیث کے نام سے بھی کبھی ذکر ہوتا تھا، ہندوستان میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی سے حدیث کی باقاعدہ اشاعت ہوئی، آپ کے دور تک لفظ اہل الحدیث اسی پرانی اصطلاح سے جاری تھا، حضرت شیخ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
ترجمہ: تابعین اور تبع تابعین میں ان کے کئی ساتھی تھے اور وہ سب اہلحدیث وفقہ وزہدورع تھے۔
اہلحدیث سے مراد ترک تقلید کے نام سے ایک فقہی مسلک ہوا یہ جدید اصطلاح اسلام کی پہلی تیرہ صدیوں میں کہیں نہیں ملتی، اس کا آغاز چودھویں صدی ہجری سے ہوتا ہے؛ یا یوں سمجھ لیجئے کہ تیرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں اس کے لیے کچھ حالات سازگار ہوگئے تھے۔تھا۔۔۔