Tuesday 3 September 2013

آمین آھستہ کہنے کے دلائل


علماءِ امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت" سے ثابت ہیں، ان میں عمل خواہ ایک صورت پر ہو مگر تمام صورتوں کو شرعآ درست سمجھنا ضروری ہے. اگر کوئی فرد یا جماعت ان مسائل میں اپنے مسلک_مختار (اختیار شدہ راستہ) کا اتنا اصرار کرے، کہ دوسرے مسلک پر طنز و تعریض، دشنام طرازی اور دست درازی سے بھی باز نہ آۓ تو اس (فتنہ و فساد) کو ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے. باہم ٹکراتی اختلافی سنّتوں کے حکم میں فرق اصول حدیث و فقہ میں صرف ناسخ و منسوخ کا یا اولیٰ اور غیر اولیٰ (افضل و غیر افضل) کا ہوتا ہے.



القرآن :
ادعوا رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً {7:55}
یعنی تم دعا کرو اپنے رب سے عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے
 الحدیث :
"قال عطاء آمین دعا"
یعنی حضرت عطاءؒ نے فرمایا کہ آمین دعا ہے.
[صحیح بخاري: ۱/۱۰۷، کتاب الأذان، باب جہر الإمام بالتأمین]؛
القرآن :
وَاذْكُرْ رَبَّكَ فـي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً {7:205}
یعنی ذکر کر اپنے رب کا اپنے دل (جی)  میں عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے
الحدیث :
آمِينَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
یعنی آمین الله تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے.


التفسير الكبير للرازي : امام رازیؒ (606هـ) فرماتے ہیں:؛ 
قال أبو حنيفة رحمه الله - : إخفاء التأمين أفضل . وقال الشافعي رحمه الله - : إعلانه أفضل ، واحتج أبو حنيفة على صحة قوله ، قال : في قوله : " آمين " وجهان : أحدهما : أنه دعاء . والثاني : أنه من أسماء الله . فإن كان دعاء وجب إخفاؤه لقوله تعالى : ( ادعوا ربكم تضرعا وخفية [الأعراف : 55] وإن كان اسما من أسماء الله تعالى وجب إخفاؤه لقوله تعالى : ( واذكر ربك في نفسك تضرعا وخيفة ) [الأعراف : 205] فإن لم يثبت الوجوب فلا أقل من الندبية . ونحن بهذا القول نقول .

امام رازیؒ (606هـ) اپنی [تفسیر کبیر] میں فرماتے ہیں
ترجمہ :
فرمایا امام ابو حنیفہؒ نے کہ پوشیدہ (چھپاکر) آمین کہنا افضل ہے. اور امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اعلانیہ کہنا افضل ہے، اور دلیل قائم کی امام ابو حنیفہؒ نے اپنے قول کے صحیح ہونے پر ، فرمایا : اس قول (یعنی آمین) میں دو وجہیں ہیں : پہلی یہ کہ وہ دعا ہے اور دوسری یہ کہ وہ الله کے ناموں میں سے ہے. پس اگر وہ دعا ہو تو واجب ہے اس کا چھپانا (یعنی پوشیدہ کہنا) الله تعالیٰ کے فرمان (کے سبب) کہ : (تم دعا کرو اپنے رب سے عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے[الأعراف : 25] اور اگر وہ (آمین) ہو نام الله تعالیٰ کے ناموں میں سے تو بھی واجب ہے چھپانا (یعنی پوشیدہ کہنا) اس کا الله تعالیٰ کے فرمان کے سبب کہ (ذکر کر اپنے رب کا اپنے دل (جی)  میں عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے[الأعراف : 205] پس ثابت ہوا واجب ہونا اور مندوب (مستحب) سے کم تو پھر بھی نہیں. ہم (شافعیہ) بھی یہ قول (مندوب و مستحب ہونے) کا کہتے ہیں.؛
الحدیث :
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ ، عَنْ وَائِلٍ ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ ، أَنَّهُ " صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قَرَأَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 ، قَالَ : آمِينَ ، خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ ، وَعَنْ يَسَارِهِ ".

ترجمہ :
حضرت وائلؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز پڑھی ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے، جب آپ نے پڑھا "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ" (تو) کہا آمین پست (آہستہ) کرتے اپنی آواز کو اور رکھتے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر (اور ختم نماز پر) سلام پھیرا اپنے دائیں طرف اور (پھر) بائیں طرف.
[مسند أبي داود الطيالسي (سنة الوفاة:204ھہ) » وَحَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى ...رقم الحديث: 1108(صفحہ:138)]

تخريج الحديث:







عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ: {غَيْرِ ‌الْمَغْضُوبِ ‌عَلَيْهِمْ ‌وَلَا ‌الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] قَالَ: «آمِينَ» يَخْفِضُ بِهَا صَوْتَهُ۔
«هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
ترجمہ :
علقمہ بن وائل اپنے والد (حضرت وائلؓ) سے  مروی ہیں کہ انہوں نے فرمایا  کہ میں نے نماز پڑھی ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے، جب آپ نے پڑھا "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ" (تو) کہا آمین پست (آہستہ) کرتے اپنی آواز کو۔
(امام حاکم فرماتے ہیں کہ) یہ حدیث (سند کے اعتبار سے) صحیح ہے جسے شیخین (یعنی امام بخاری و مسلم) نے نہیں لیا.




حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ ، ثنا أَبُو الأَشْعَثِ ، ثنا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , ثنا شُعْبَةُ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , عَنْ حُجْرِ أَبِي الْعَنْبَسِ , عَنْعَلْقَمَةَ , ثنا وَائِلٌ , أَوْ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ حِينَ قَالَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 , قَالَ : " آمِينَ " , وَأَخْفَى بِهَا صَوْتَهُ ...

ترجمہ:
حضرت علقمہ بن وائل نے اپنے والد حضرت وائل بن حجر رضی الله عنه سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ" پر پہنچے تو آپ نے آمین کہی اور اس میں آواز کا اخفاء (پوشیدہ) کیا(یعنی چھپایا).

تخريج الحديث:




امام ، مقتدی اور منفرد کا آمین آہستہ کہنا:

1 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ اِنَّہٗ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّاقَرَئَ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ قَالَ اٰمِیْنَ خَفَضَ بِھَا صَوْتَہٗ۔

ترجمہ:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہا تو آمین آہستہ آواز سے کہا۔
[مسند ابی داؤد الطیالسی ج1ص577 رقم الحدیث 1117 ،مسند احمد ج14ص285 رقم الحدیث 18756،المعجم الکبیر للطبرانی ج9 ص138رقم الحدیث 17472]




:2 عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ رضی اللہ عنہما قَالَ کَانَ عُمَرُوَعَلِیٌّ رضی اللہ عنہ لَا یَجْھَرَانِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَلَابِالتَّعَوُّذِ وَلَابِالتَّامِیْنِ۔
ترجمہ:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بسم اللہ الرحمن الرحیم، تعوذ اور آمین اونچی آواز میں نہیں کہتے تھے۔
[شرح معانی الآثار ج 1ص 150باب قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلوٰۃ ]




:3 عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ خَمْسٌ یُخْفِیْنَ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَالتَّعَوُّذُ وَبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَاٰمِیْنَ وَاَللّٰھُمَّ رَبَّنَالَکَ الْحَمْدُ۔

ترجمہ:
حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہی جائیں۔

سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِک، تعوذ ، َبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ، آمین اور اَللّٰھُمَّ رَبَّنَالَکَ الْحَمْد۔

[مصنف عبد الرزاق ج 2ص57 باب ما یخفی الامام]


==============
============================
عَنْ ‌أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا قَالَ الْإِمَامُ: {غَيْرِ ‌الْمَغْضُوبِ ‌عَلَيْهِمْ ‌وَلا ‌الضَّالِّينَ} فَقُولُوا: ‌آمِينَ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ»۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب امام {غَيْرِ ‌الْمَغْضُوبِ ‌عَلَيْهِمْ ‌وَلا ‌الضَّالِّينَ} کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کی «آمين» ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہو گئی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
[صحيح البخاري:782+4475]
تشریح:
اس حدیث میں مقتدی کے آمین کہنے کو امام کے [ولا الضالین] کہنے پر معلق (لٹکایا-پابند) کیا ہے، نہ کہ امام کے [آمین] کہنے پر، اس سے امام کا ”آمین“ آہستہ کہنا معلوم ہوا، جسے مقتدی نہیں سن سکیں گے ، البتہ ولا الضالین کو جہر(آواز) کی وجہ سے سب مقتدی سن لیں گے؛ اسی وجہ سے امام کے ولا الضالین کہنے پر مقتدیوں کو آمین کہنے کا حکم ہوا۔
(اوجز المسالک:۱/۲۵۲)
اس بات کی تائید نسائی کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے، جس کو علامہ نیموی نے صحیح کہا ہے ، جس میں ”وإن الإمام یقول آمین“ کا اضافہ ہے، اس سے امام کے آہستہ آمین کہنے کا پتہ چلتا ہے؛ کیوں کہ امام اگر جہراً کہتا تو مقتدیوں کو خود ہی پتہ چل جاتا اس جملے کے کہنے کی حاجت ہی نہ تھی۔


==========================================
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا قَالَ الْإِمَامُ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] ، فَقُولُوا: آمِينَ، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَقُولُ : ‌آمِينَ، ‌وَإِنَّ ‌الْإِمَامَ ‌يَقُولُ: آمِينَ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب امام {غَيْرِ ‌الْمَغْضُوبِ ‌عَلَيْهِمْ ‌وَلا ‌الضَّالِّينَ} کہے تو تم آمین کہو، اور امام بھی کہتا ہے: آمین، کیونکہ جس کی «آمين» ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہو گئی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
[صحيح البخاري:782+4475]
تشریح:
اور امام بھی کہتا ہے: آمین سے پتہ چلتا ہے کہ امام آمین آہستہ کہے گا ورنہ اس جملے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔



==========================================


عَنْ سَمُرَةَ ، قَالَ : " سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فِيهِ : قَالَ سَعِيدٌ : قُلْنَا لِقَتَادَةَ : مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ ؟ قَالَ : إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ : وَإِذَا قَالَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية ٧."
ترجمہ:
حضرت سمرہ بن جندب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو سکتے یاد رکھے ہیں، سعیدؒ کہتے ہیں: ہم نے قتادہؒ سے پوچھا: یہ دو سکتے کون کون سے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: جب آپ ﷺ نماز میں داخل ہوتے اور جب آپ ﷺ قرات سے فارغ ہوتے، پھر اس کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا: جب آپ ﷺ غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہہ لیتے۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ، رقم الحديث: 780]

حضرت سمرہ بن جندب ؓ کہتے ہیں کہ مجھے نماز میں دو سکتے یاد ہیں: ایک امام کے تکبیر تحریمہ کہنے سے، قرأت شروع کرنے اور دوسرا جب فاتحہ اور سورت کی قرأت سے فارغ ہو کر رکوع میں جانے کے قریب ہوا۔ اس پر حضرت عمران بن حصین ؓ نے اس کا انکار کیا، تو لوگوں نے اس سلسلے میں مدینہ میں حضرت ابی بن کعب ؓ کو خط لکھا، تو انہوں نے حضرت سمرہؓ کی تصدیق کی۔
امام ابوداؤد کہتے ہیں: حمید نے بھی اس حدیث میں اسی طرح کہا ہے کہ دوسرا سکتہ اس وقت کرتے جب آپ قرآت سے فارغ ہوتے۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ، رقم الحديث: 777]

حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ حضرت سمرہ ؓ نے کہا کہ میں نے نماز میں دو سکتے یاد کئے، ایک سکتہ قراءت سے پہلے اور ایک سکتہ رکوع کے وقت، اس پر حضرت عمران بن حصین ؓ نے ان کا انکار کیا تو لوگوں نے مدینہ حضرت ابی بن کعب ؓ کو لکھا تو انہوں نے حضرت سمرہ ؓ کی تصدیق کی۔
[سنن ابنِ ماجہ:845]





حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ ، قَالَ : " سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ ، وَقَالَ : حَفِظْنَا سَكْتَةً ، فَكَتَبْنَا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ ، فَكَتَبَ أُبَيٌّ أَنْ حَفِظَ سَمُرَةُ ، قَالَ سَعِيدٌ : فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ : مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ ؟ قَالَ : إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ ، وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ ، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ : وَإِذَا قَرَأَ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 قَالَ : وَكَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّى يَتَرَادَّ إِلَيْهِ نَفَسُهُ ، قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ ، يَسْتَحِبُّونَ لِلْإِمَامِ أَنْ يَسْكُتَ بَعْدَمَا يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الْقِرَاءَةِ ، وَبِهِ يَقُولُ : أَحْمَدُ وَإِسْحَاق وَأَصْحَابُنَا .
[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ ... رقم الحديث: 233]
ترجمہ:
حضرت سمرہؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو سکتے یاد کئے ہیں اس پر عمران بن حصین نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو ایک ہی سکتہ یاد ہے پھر ہم نے ابی بن کعب کو مدینہ لکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ سمرہ کو صحیح یاد ہے سعید نے کہا ہم نے قتادہ سے پوچھا کہ دو سکتے کیا ہیں تو آپ نے فرمایا جب نماز شروع کرتے اور جب قرأت سے فارغ ہوتے پھر بعد میں فرمایا جب (وَلَا الضَّالِّينَ) پڑھتے۔ راوی کہتے ہیں انہیں یہ قرأت سے فارغ ہونے کے بعد والا سکتہ بہت پسند آیا تھا یہاں تک کہ سانس ٹھہر جائے اس باب میں حضرت ابوہریرہؓ بھی روایت ہے کہ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث سمرہ حسن ہے اور یہ کئی اہل علم کا قول ہے کہ نماز شروع کرنے کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہنا اور قرأت سے فارغ ہونے کے تھوڑی دیر سکوت کرنا مستحب ہے یہ احمد اسحاق اور ہمارے اصحاب کا قول ہے.
[جامع ترمذی: حدیث نمبر 242  - نماز کا بیان : نماز میں دو مرتبہ خاموشی اختیار کرنا]؛

=========================
خلفاء راشدین اور اکثر صحابہ کی سنت:
امیر المومنین حضرت عمر فاروق اورعلی رضی اللہ عنہما آہستہ آمین کہتے تھے
”عن أبي وائل قال:لم یکن عمر وعلی یجہران ببسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم ولا التعوذ ولا آمین“
ترجمہ:
حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما تسمیہ تعوذ اور آمین بالجہر نہیں کہتے تھے۔
[طحاوی:۱/۹۹]
حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود  بھی آہستہ آمین کہتے تھے۔
”عن أبي وائل قال:کان علی وعبد اللّٰہ لا یجہران ․․․․․․․․․․․ بالتامین“
[المعجم الکبیر: رقم: ۹۲۰۷، مکتب العلوم والحکم]۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ سے معلوم ہوا کہ نماز میں آہستہ آمین کہی جائے گی، جہر کے سلسلے کی جو روایتیں آئی ہیں، ان میں سب سے قوی روایت حضرت وائل بن حجرؓ کی ہے جس میں آمین بالجہر کی صراحت ہے:
:(جب کہ یہ روایت بھی اپنے مستدل پر تام نہیں) وقرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین، فقال آمین ومد بہا صوتَہ(ترمذی:۲۴۸) ترجمہ:آپ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضّالین پڑھ کر آواز تیز کرتے ہوئے آمین کہی ، اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ :اس میں آمین جہراً کہنا تعلیماً ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مستقل عمل نہیں ؛چنانچہ بعض روایتوں میں اس کی صراحت ہے :ما أراہ إلایعلمنا میرا گمان یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو تعلیم دے رہے تھے۔ (اعلاء السنن :۲/۱۸۲)، تعلیم پر محمول کرنے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ کرام روزانہ پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے تھے ،اگر آمین بالجہر کا عام معمول ہوتا تو اس کو بیان کرنے والی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی ،مگر صورتِ حال یہ ہے کہ صحیحین کی کسی روایت میں آمین بالجہر کا صریح تذکرہ موجود نہیں، صحیحین کے علاوہ جن احادیث میں آمین بالجہر کا تذکرہ ہے، ان میں سے ایک حدیث حضرت وائل بن حجر t کی ہے جس کے بارے میں ابھی معلوم ہوا کہ آمین جہراً کہنا تعلیماً ہوا ہے ،نیز اضطراب کی وجہ سے حضرت وائل کی حدیث ضعیف ہے ،تفصیل اعلاء السنن: ۲/۲۲۳میں مذکور ہے ، اس کے علاوہ جو دیگر روایات ہیں، وہ بھی ضعف اور علت سے خالی نہیں (۴)۔ مذکورہ بالا احادیث نبویہ اور آثارِ صحابہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ احناف کا آہستہ آمین کہنے کا مذہب قوی دلائل سے ثابت اور مبرہن ہے ،موجودہ زمانہ کے اہلِ حدیث (غیرمقلدین)جو الزام لگاتے ہیں کہ احناف آمین کے سلسلے میں احادیث کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، ان کا یہ قول سراسر غلط اور ذخیرہٴ احادیث سے نا واقفیت پر مبنی ہے۔

(۱) والثناء والتعوذ والتسمیة والتأمین وکونہن سِرّاً۔ الدّرّالمختار۔
واضح رہے کہ جہری نمازوں میں آمین کے آہستہ یا بلند آواز دونوں طریقے سے کہنے کے جواز پر سب کا اتفاق ہے؛ البتہ احناف ومالکیہ کے نزدیک آہستہ کہنا زیادہ بہتر ہے اور شوافع وحنابلہ کے یہاں زور سے کہنا زیادہ بہتر ہے ؛ لہذا اختلاف اولیٰ وغیراولیٰ کا ہے، جواز و عدم جواز کا نہیں۔
(۲) ففي مجمع البحار: معناہ: استجب لي: ۱/۱۰۵۔
(۳)صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کی زیادہ تعداد آمین آہستہ کہتی تھی، امام طبری فرماتے ہیں: ”إن أکثر الصّحابة والتّابعین- رضياللّٰہ عنہم -کانوا یخفون بہا“
(اعلاء السنن: ۲/۲۲۳)
البتہ صغارِ صحابہ کے زمانے میں خاص طور سے حضرت عبد اللہ بن زبیر نے جہراً آمین کہنے کا رواج ڈالا، اُن کا دارالسلطنت مکہ تھا؛ اس لیے مکہ مکرمہ میں جہراً آمین کہنا رائج تھا؛ اسی وجہ سے امام شافعی نے - جن کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی - آمین بالجہر کو اختیار کیا؛مگر مدینہ منورہ کی صورت حال دوسری تھی چنانچہ امام مالک نے -جن کے یہاں تعاملِ مدینہ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے - سراً آمین کہنے کو اختیار فرمایا۔
(ادلہٴ کاملہ: ۴۳)
(۴) چنانچہ محدث ابو بشر دولابی نے ”کتاب الأسماء والکنی“ میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کی ہے: فقال آمین یمد بہا صوتہ ، ما أراہ إلا لیُعَلِّمِنَا۔
(معارف السنن: ۲/۴۰۶)



======================

اس طریقے سے آمین کے بارے میں دو حدیثیں ہیں کہ آمین اونچی ہونی چاہیے یا آہستہ ہونی چاہیے تو ہمارے امام صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو سامنے رکھا کہ اس میں اتفاق ہے کہ آمین "دعا" ہے اور یہ بات قرآن پاک سے ثابت ہے. سورہ یونس میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے لیے ایک بد دعا فرمائی وہاں "یا موسی" صیغہ واحد سے لفظ شروع ہوتے ہیں اور جب دعا مکمل ہوگئی تو اب اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے دعا کی قبولیت کا حکم نازل ہوا لیکن اس میں تثنیہ کا صیغہ ہے فرمایا: "قد اجبیت دعوتکما" کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی. اب تلاوت کرنے والا سوچتا ہے کہ دعا کرنے والے تو ایک موسی علیہ السلام ہیں واحد کا صیغہ ہے اب یہ قبولیت کے وقت "دو" کا صغیہ کہاں سے آگیا؟ دوسرا کون ہے؟ تو اس بات پر سب مفسرین کا اتفاق و اجماع ہے کہ وہ دوسرے حضرت ہارون علیہ السلام تھے۔

اور پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی دعا کیا تھی اور کہاں ہے؟ تو سب کا اتفاق ہے کہ انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعا پر آمین کہ دی تھی تو اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول ہوگئی ۔
---------------
آمین دعا/ذکر ہے:
اس سے ثابت ہوا کہ آمین دعا ہے اور صحیح بخاری شر یف میں بھی ہے کہ "قال عطاء آ مین دعا" عطاء نے کہا کہ آمین دعا ہے[صحیح بخاري: ۱/۱۰۷، کتاب الأذان، باب جہر الإمام بالتأمین]. اس کا معنی ہے کہ اے اللہ قبو ل فرما! یہ بھی دعا ہی کا معنی ہے، اب دعا کے بارے میں قرآن پاک کا فیصلہ یہ ہے کہ "ادعوا رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً " {7:55} کہ تم دعا کرو اللہ سے عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے" بلکہ پہلے انبیاء کا طریقہ یہی بیا ن کیا کہ "ذکر رحمة ربک عبدہ زکریا اذ ناءدی ربہ ندا خفیا" کہ اللہ کے بندے زکریا کا یہاں ذکر کرو انہوں نے اللہ تعالی سے خفیہ (دبی) آواز میں دعا مانگی ۔

تو جب آمین دعا ہے اور دعا میں اصل اخفاء ہے اس سے ان احادیث کو ترجیح دی جا ئے گی جن میں آمیں آہستہ کہنا ثابت ہوتا ہے کیو نکہ وہ قرآن پا ک کے موافق ہیں اور یہ جو میں نے عرض کیا کہ اصل اخفا ہے اس کا مطلب ہے کہ کبھی کبھی عارضہ کی وجہ سے اصل کی مخالفت کی جاسکتی ہے تو جہاں آمین اونچی کہنے کی روایت تھی تو وہ اصل سے متعلق نہیں بلکہ تعلیم وغیرہ سے متعلق ہے کی نکہ رسول اقدس صلی اللہ علیہِ وسَلم کے زمانہ میں نہ تو پریس تھا کہ چھپی ہوئی نماز سب کو مل جائے اور ترتیب سے لکھی ہوئی سب کو مل جائے اس لئے آپ صلی اللہ علیہِ وسَلم اسی طریقہ سے نماز سکھاتے تھے تو جس طرح ہمارے ہاں مدارس میں بچوں کو نماز سکھائی جاتی ہے کہ ایک بچہ پوری نماز اونچی اونچی پڑھتا ہے اور پچھلے بھی اونچی اونچی پڑھتے ہیں ۔

اسی طرح لئے رسول اقدس صلی اللہ علیہِ وسَلم نماز سکھانے کے لئے بعض چیزیں اونچی بھی بیان کر دیتے تھے کہ جو اصل میں آہسة پڑھنے والی تھیں ۔

علامہ عینی عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں کہ آمین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ دو ہی قول ہیں ایک تو یہ ہے کہ یہ "دعا" ہے اور دعا کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے "ادعوا ربکم تضرعا و خفیة" کہ تم دعا کرو اللہ سے عاجزی سے گڑگڑاکر اور خفیہ آہستہ آ واز سے, اور بعض کا ایک قول یہ ہے کہ یہ "اللہ پاک کے ناموں میں سے ایک نام ہے" تو پھر بھی حکم یہی ہے کہ "واذکر ربک فی نفسک" کہ اپنے رب کا ذکر اپنے دل اور جی میں کرنا چاہئے, تو اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی طرف سے کوئی قاعدہ نہیں گھڑا بلکہ جو کچھ رسول اقدس صلی اللہ علیہِ وسَلم نے قاعدہ بتایا تھا کہ جب احادیث میں اختلاف نظر آئے تو اس حدیث کو اختیار کرو جو کتاب اللہ کے موافق ہو ۔
==========================================
امام عبداللہ بن مبارکؒ کا قول:
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں جس مسئلہ میں دو امام تحقیق کرلیں پھر اس پر اتفاق کر لیں پھر اگر پوری دنیا اس میں اختلاف کر لے لےکن میں اس کو نہیں چھوڑتا. پوچھا کون سے? فرمایا: امام سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ, کیونکہ سفیان ثوری حدیث زیادہ یاد کر تے تھے اور امام ابوحنیفہ مسائل زیادہ نکالتے تھے حدیث سے ۔

آج غیر مقلدین نے جن مسائل میں بڑے فتنے ڈال رکھے ہیں (مثلاً)آمین آہسة کہتے ہیں سفیان ثوری امام ابو حنیفہ اکٹھے ہیں اور امام محمدؒ امام ابو یو سفؒ اکٹھے ہیں ترک رفع یدین میں سفیان ثوری امام صاحب کے ساتھ ہیں دوسرے دوامام بھی امام صاحب کے ساتھ ہیں تو امام صاحب نے جب یہ بیٹھ کر تحقیق کہ اس حدث کا مطلب کیا ہے تو اکیلے بیٹھ کر نہیں کی امام شافعی نے اکیلے بیٹھ کر تحقیق کی اور یہ امام شافعی کی شخصی تحقیق ہے امام مالک کی تحقیق شخصی ہے امام احمد بن حنبل کی شخصی تحقیق ہے لیکن امام اعظمؒ کی شخصی تحقیق نہیں ہے بلکہ جماعت بنائی اور اس نے تحقیق کی ۔
جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ, رقم الحديث: 231(248)
العلل الكبير للترمذي » أَبْوَابُ الصَّلاةِرقم الحديث: 56(98)


====================================
"آمین سے مسجد گونج اٹھی" والی روایت کی تحقیق:
1. اس روایت [ابن ماجہ:853] کی سند کا راوی "بشر بن رافع" ہے، امام ذہبیؒ نے [میزان الاعتدال:١/١٤٧ پر امام بخاری، امام احمد، امام ابن معین اور امام نسائی (رحمہم الله) سے اس کا ضعیف ہونا نقل کر کے پھر ابن حبان سے تو یہ نقل کیا ہے کہ "یروی اشیاء موضوعہ" یعنی وہ بلکل جھوٹی حدیثیں روایت کیا کرتا تھا۔ اور علامہ ابن عبد البر نے "کتاب الانصاف" میں لکھا ہے کہ محدثین کا اتفاق ہے کہ اس کی روایت کا شدت سے انکار کیا جاۓ اور اٹھا کر پھینک دیا جاۓ۔

2. یہی روایت ابوداود:934، مسند ابو يعلى:6220 (آثار السنن: ١/٩٤) پر بھی موجود ہے، مگر وہاں گونج پیدا ہونے والا جملہ نہیں۔

اختلافی روایتِ حضرت وائل بن حجر (رضی الله عنہ) کا فیصلہ ان ہی سے:
١. فرمایا:
"قَالَ: «‌آمِينَ» ‌ثَلَاثَ ‌مَرَّاتٍ"
یعنی آپ نے ساری عمر میں صرف تین مرتبہ آمین سنی۔
وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ۔[مجمع الزوائد:2667]



٢. "مَا أَرَاهُ إِلا يُعَلِّمُنَا"
ترجمہ :
نہیں میں نے دیکھا انھیں (آواز کھینچتے آمین کہتے ہوئے) سوائے ہماری تعلیم کرنے کو.
 يعنى یہ بلند آواز میں آمین ہماری تعلیم کے لئے کہی تھی۔


+++++++++++++++++++++++++++++++++++++++
كَمَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ شُعَيْبٍ الْكَيْسَانِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ : " كَانَ عُمَرُ ، وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لا يَجْهَرَانِ بِ " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ " وَلا بِالتَّعَوُّذِ ، وَلا بِالتَّأْمِينِ " .


ترجمہ:
حضرت وائل بن حجر رضی الله عنه سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علي رضی الله عنہ وہ دونوں نہ بَسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بلند آواز میں پڑھا کرتے تھے، اور نہ تعوذ اور نہ ہی آمین.




عن ابن مسعود قال : يخفي الإمام ثلاثا : التعوذ ، وبسم الله الرحمن الرحيم ، وآمين.

ترجمہ :
حضرت عبدالله بن مسعود نے فرمایا : امام پوشیدہ رکھے تین باتیں : تعوذ (یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) کو ، اور بسم الله الرحمٰن الرحیم کو ، اور آمین کو۔
[المحلي بالاثار، لامام ابن حزم : كتاب الصلاة ، أوقات الصلاة ، مسالة الركوع في الصلاة ولطمانية فيه : 2//280(295)]




حضرت حماد حضرت ابراہیم نخعي سے مروی ہیں کہ انہوں نے فرمایا : (نماز میں) چار باتیں آھستہ کرنی ہیں امام کو؛ (١) سبحانك اللهم وبحمدك، اور (٢) پناہ پکڑنا (یعنی أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ)، اور (٣) آمین ، اور (٤) جب کہے : سمع الله لمن حمدہ، تو (آھستہ) کہے: ربنا لک الحمد.
[مصنف عبد الرزاق  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » بَابُ مَا يُخْفِي الْإِمَامُ، رقم الحديث: 2509]

 دوسری روایت میں
حضرت منصور حضرت ابراہیم نخعي سے مروی ہیں کہ انہوں نے فرمایا : (نماز میں) پانچ باتیں آھستہ کرنی ہیں؛ (١) سبحانك اللهم وبحمدك، اور (٢) پناہ پکڑنا (یعنی أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ)، اور (٣) بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ، اور (٤) آمین ، اور (٥) اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ.

[مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ مَا يُخْفِي الْإِمَامُ، رقم الحديث: 2510]














































No comments:

Post a Comment