Tuesday, 10 September 2013

ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے



القرآن:
کیا انسان کو ہر اس چیز کا حق پہنچتا ہے جس کی وہ تمنا کرے؟
[سورہ النجم:٢٤]
یہ مشرک لوگ اپنے من گھڑت خداؤں کے بارے میں یہ کہا کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے ہماری سفارش کریں گے۔[دیکھئے سورة یونس:18] یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ تمہاری تمنا ضرور ہوگی لیکن انسان کو ہر وہ چیز نہیں ملا کرتی جس کی وہ تمنا کرے.
============================

مشية الله (الله کی چاہت):


القرآن:
اور تم چاہو گے نہیں، جب تک کہ خود اللہ چاہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
[سورۃ نمبر 81 التكوير، آیت نمبر 29]

یعنی فی نفسہ قرآن نصیحت ہے، لیکن اس کی تاثیر مشیتِ الہٰی پر موقوف ہے جو بعض لوگوں کے لئے متعلق ہوتی ہے اور بعض کے لئے کسی حکمت سے ان کے سُوء اِستعداد کی بناء پر متعلق نہیں ہوتی۔



القرآن:
۔۔۔اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
[سورۃ نمبر 76 الانسان، آیت نمبر 30]


یعنی تمہارا چاہنا بھی اللہ کے چاہے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بندہ کی مشیت(چاہت) اللہ کی مشیت(چاہت) کے تابع ہے وہ جانتا ہے کہ کس کی استعداد و قابلیت کس قسم کی ہے اسی کے موافق اس کی مشیت(چاہت) کام کرتی ہے۔ پھر وہ جس کو اپنی مشیت(چاہت) سے راہ راست پر لائے، اور جس کو گمراہی میں پڑا چھوڑدے عین صواب وحکمت ہے۔
[آسان ترجمہ قرآن]

تفسیر عثمانی:
یعنی تمہارا چاہنا بھی اللہ کے چاہے بدون نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بندہ کی مشیت اللہ کی مشیت کے تابع ہے وہ جانتا ہے کہ کس کی استعداد و قابلیت کس قسم کی ہے اسی کے موافق اس کی مشیت کام کرتی ہے۔ پھر وہ جس کو اپنی مشیت سے راہ راست پر لائے، اور جس کو گمراہی میں پڑا چھوڑدے عین صواب وحکمت ہے۔

مگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت(چاہت) کے وقت اللہ تعالیٰ اس کو اس کیلئے چاہیں گے جس کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ اس نے اس راستہ کو اختیار وپسند کرلیا۔ ایک قول یہ ہے یہ فرمانبرداری و نافرمانی اور کفر و ایمان میں عموم مشیت کو ظاہر کرنے کیلئے ہے۔ اس صورت میں یہ معتزلہ کے خلاف ہم اہل سنت کی دلیل ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا (بیشک اللہ تعالیٰ بڑا علم والا) ان احوال کے متعلق جو ان سے پیش آئیں گے۔ حَکِیْمًا (حکمت والا ہے) افعال و اقوال میں مُصِیْب ہے۔
[مدارک التنزیل-امام نسفی (م710ھ)]
































مشية الإنسان في الہدایہ (یعنی) انسانی چاہت ہدایت پانے میں:


وَقُلِ الحَقُّ مِن رَبِّكُم ۖ فَمَن شاءَ فَليُؤمِن وَمَن شاءَ فَليَكفُر ۚ إِنّا أَعتَدنا لِلظّٰلِمينَ نارًا أَحاطَ بِهِم سُرادِقُها ۚ وَإِن يَستَغيثوا يُغاثوا بِماءٍ كَالمُهلِ يَشوِى الوُجوهَ ۚ بِئسَ الشَّرابُ وَساءَت مُرتَفَقًا {18:29}

ترجمہ:
اور کہہ دو کہ : حق تو تمہارے رب کی طرف سے آچکا ہے۔ اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔ (23) ہم نے بیشک (ایسے) ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیرے میں لے لیں گی، اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد کا جواب ایسے پانی سے دیا جائے گا جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا، (اور) چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ کیسا بدترین پانی، اور کیسی بری آرام گاہ !۔
[سورۃ نمبر 18 الكهف،آیت نمبر 29]

تفسیر:
(23)یعنی حق کے واضح ہوجانے کے بعد دنیا میں کسی کو ایمان لانے پر زبردستی مجبور نہیں کیا جاسکتا، البتہ جو شخص ایمان نہیں لائے گا، اس کو آخرت میں بیشک ایک خوفناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔


تفسیر عثمانی:
یعنی گرمی کی شدت سے پیاس لگے گی تو العطش پکاریں گے ۔ تب تیل کی تلچھٹ یا پیپ کی طرح کا پانی دیا جائے گا۔ جو سخت حرارت اور تیزی کی وجہ سے منہ بھون ڈالے گا۔
وہ قناتیں بھی آگ کی ہوں گی۔
یعنی خدا کی طرف سے سچی باتیں سنا دی گئیں ، کسی کے ماننےکی اسے کچھ پروا نہیں جو کچھ نفع نقصان ہو گا صرف تمہارا ہو گا۔ ماننے اور نہ ماننے والے دنوں اپنا اپنا انجام سوچ لیں جو آگے بیان کیا جاتا ہے دنیا کہ چہل پہل محض ہیچ اور فانی ہے۔ اس کا لطف جب ہی ہے کہ فلاح آخرت کا ذریعہ بنے ۔ وہاں محض دنیا کا تمول کام نہ دے گا۔ بلکہ جو یہاں شکستہ حال تھے بہت سے وہاں عیش و آرام میں ہوں گے۔






إِنَّ هٰذِهِ تَذكِرَةٌ ۖ فَمَن شاءَ اتَّخَذَ إِلىٰ رَبِّهِ سَبيلًا {73:19}
یہ (قرآن) تو نصیحت ہے۔ سو جو چاہے اپنے پروردگار تک (پہنچنے کا) رستہ اختیار کرلے۔
[سورۃ المزمل:19]

یعنی نصیحت کر دی گئی اب جو اپنا فائدہ چاہے اس نصیحت پر عمل کر کے اپنے رب سے مل جائے۔ راستہ کھلا پڑا ہے کوئی روک ٹوک نہیں نہ خدا کا کچھ فائدہ ہے۔ سمجھو تو سیدھے چلے آؤ۔




لِمَن شاءَ مِنكُم أَن يَتَقَدَّمَ أَو يَتَأَخَّرَ {74:37}
ترجمہ:
تم میں سے ہر اس شخص کو جو آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا چاہے۔
[سورۃ نمبر 74 المدثر، آیت نمبر 37]
تفسیر:
یعنی یہ اس شخص کو بھی خبردار کرتا ہے جو بھلائی کی طرف آگے بڑھے، اور اس کو بھی جو بھلائی سے پیچھے ہٹے۔

آگے بڑھے نیکی یا جنت کی طرف اور پیچھے رہے برائی میں پھنسا ہوا یا دوزخ میں پڑا ہوا۔ بہر حال مقصود یہ ہے کہ دوزخ سب مکلفین کے حق میں برے ڈراوے کی چیز ہے اور چونکہ اس ڈرانے کے عواقب و نتائج قیامت میں ظاہر ہونگے۔ اس لئے قسم ایسی چیزوں کی کھائی جو قیامت کے بہت ہی مناسب ہے چنانچہ چاند کا اوّل بڑھنا پھر گھٹنا نمونہ ہے اس عالم کے نشوونما اور اضمحلال و فنا کا اسی طرح اس عالم دنیا کو عالم آخرت کے ساتھ حقائق کے اختفاء واکتشاف میں ایسی نسبت ہے جیسے رات کو دن کے ساتھ۔ گویا اس عالم کا ختم ہو جانا رات کے گذر جانے اور اس عالم کا ظہور نورصبح کے پھیل جانے کے مشابہ ہے۔ واللہ اعلم۔




فَمَن شاءَ ذَكَرَهُ {74:55}
تو جو چاہے اسے یاد رکھے۔

حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔"یعنی (یہ قرآن) ایک پر اتری تو کیا ہوا، کام تو سب کے آتی ہے"۔





إِنَّ هٰذِهِ تَذكِرَةٌ ۖ فَمَن شاءَ اتَّخَذَ إِلىٰ رَبِّهِ سَبيلًا {76:29}
یہ (قرآن) تو نصیحت ہے۔ جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف پہنچنے کا رستہ اختیار کرے۔

یعنی جبر و زور سے منوا دینا (اے نبی!) آپ کا کام نہیں، قرآن کے ذریعہ نصیحت کر دیجئے۔ آگے ہر ایک کو اختیار ہے جس کا جی چاہے اپنے رب کی خوشنودی تک پہنچنے کا راستہ بنا رکھے۔






ذٰلِكَ اليَومُ الحَقُّ ۖ فَمَن شاءَ اتَّخَذَ إِلىٰ رَبِّهِ مَـٔابًا {78:39}
یہ دن برحق ہے۔ پس جو شخص چاہے اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانہ بنا ئے۔

یعنی وہ دن آنا تو ضروری ہے۔اب جو کوئی اپنی بہتری چاہے اس وقت کی تیاری کر رکھے۔






فَمَن شاءَ ذَكَرَهُ {80:12}
پس جو چاہے اسے یاد رکھے۔

یعنی متکبر اغنیاء(مالدار) اگر قرآن کو نہ پڑھیں اور اس نصیحت پر کان نہ دھریں تو اپنا ہی برا کریں گے۔ قرآن کو ان کی کچھ پروا نہیں۔ نہ آپ کو اس درجہ ان کے درپے ہونے کی ضرورت ہے ایک عام نصیحت تھی سو کر دی گئی جو اپنا فائدہ چاہے اس کو پڑھے اور سمجھے۔






لِمَن شاءَ مِنكُم أَن يَستَقيمَ {81:28}
(یعنی) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے۔

یعنی بالخصوص ان کے لئے نصیحت ہے جو سیدھا چلنا چاہیں۔ عناد اور کجروی اختیار نہ کریں۔ کیونکہ ایسے ہی لوگ اس نصیحت سے منتفع ہونگے۔



مشية الإنسان في العبادة (یعنی) انسانی چاہت عبادت میں:


فَاعبُدوا ما شِئتُم مِن دونِهِ ۗ قُل إِنَّ الخٰسِرينَ الَّذينَ خَسِروا أَنفُسَهُم وَأَهليهِم يَومَ القِيٰمَةِ ۗ أَلا ذٰلِكَ هُوَ الخُسرانُ المُبينُ {39:15}
تو تم اس کے سوا جس کی چاہو پرستش کرو۔ کہہ دو کہ نقصان اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈالا۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے۔

یعنی میں تو خدا کے حکم کے موافق نہایت اخلاص سے اسی اکیلے کی بندگی کرتا ہوں۔ تم کو اختیار ہے ۔ جس کی چاہو پوجا کرتے پھرو۔ ہاں اتنا سوچ لینا کہ انجام کیا ہوگا۔ آگے اسے کھولتے ہیں۔
یعنی مشرکین نہ اپنی جان کو عذابِ الہٰی سے بچا سکے نہ اپنے گھر والوں کو سب کو جہنم کے شعلوں کی نذر کر دیا۔ اس سے زیادہ خسارہ کیا ہو گا۔



القرآن:
اب تم اسے چھوڑ کر جس کی چاہو، عبادت کرو۔ (8) کہہ دو کہ : گھاٹے کا سودا کرنے والے تو وہ ہیں جو قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں سب کو ہرا بیٹھیں گے۔ یاد رکھو کہ کھلا ہوا گھاٹا یہی ہے۔
[سورۃ نمبر 39 الزمر، آیت نمبر 15]
تفسیر:
(8) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کافروں کو کفر کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، کیونکہ اگلے ہی جملے میں صاف فرما دیا گیا ہے کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے، اور پیچھے (آیت نمبر 7) میں فرما دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر کو پسند نہیں فرماتا۔ لہٰذا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اس بات کی طاقت ضرور دی گئی ہے کہ تم اگر کفر اختیار کرنا چاہو تو کرسکو، تمہیں ایمان لانے پر زبردستی مجبور نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن اپنا سب کچھ ہار بیٹھو گے۔



مشية الإنسان في العمل (یعنی) انسانی چاہت عمل میں:




قالوا يٰشُعَيبُ أَصَلوٰتُكَ تَأمُرُكَ أَن نَترُكَ ما يَعبُدُ ءاباؤُنا أَو أَن نَفعَلَ فى أَموٰلِنا ما نَشٰؤُا۟ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الحَليمُ الرَّشيدُ {11:87}
ترجمہ:
وہ کہنے لگے : اے شعیب ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہمارے باپ دادا جن کی عبادت کرتے آئے تھے، ہم انہیں بھی چھوڑ دیں اور اپنے مال و دولت کے بارے میں جو کچھ ہم چاہیں، وہ بھی نہ کریں۔ (54) ؟ واقعی تم تو بڑے عقل مند، نیک چلن آدمی ہو۔ (55)
[سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 87]

تفسیر:
(54) یہ در حقیقت وہ سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے کہ جو کچھ مال ہے وہ ہماری مکمل ملکیت میں ہے، اس لیے ہمیں پورا پورا اختیار حاصل ہے کہ اس میں جو چاہیں تصرف کریں، کسی کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اس کے برعکس قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے کہ ہر مال پر اصل ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ البتہ اس نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو عارضی ملکیت عطا فرمائی ہے۔ دیکھئے سورة یس (آیت 71) لہذا اسی کو یہ حق ہے کہ وہ اس ملکیت پر کچھ پابندیاں عائد کرے۔ دیکھئے سورة قصص (آیت 77) اور جہاں مناسب سمجھے وہاں خرچ کرنے کا حکم دے۔ دیکھئے (سورة نور آیت 33) اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پابندیاں اس لیے عائد کی جاتی ہیں تاکہ ہر شخص اپنی دولت کا حصول اور خرچ ایسے صحت مند طریقے پر کرے کہ معاشرے میں ہر ایک کو یکساں مواقع حاصل ہوں کوئی کسی پر ظلم نہ کرے سکے اور معاشرے میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہوسکے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے اسلام کا نظام تقسیم دولت۔ از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ۔
(55) یہ جملہ انہوں نے طنز کے طور پر بولا تھا البہ بعض مفسرین نے اسے حقیقی معنوں میں قرار دے کر اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ تم تو ہمارے درمیان ایک عقل مند اور نیک چلن آدمی کی حیثیت سے مشہور ہو تم نے ایسی باتیں کیوں شروع کردی ہیں۔


تفسیر عثمانی:
یہ بطور استہزاء و تمسخر کہہ رہے تھے کہ بس زیادہ بزرگ نہ بنئے کیا ساری قوم میں ایک آپ ہی بڑے عقلمند ، باوقار اور نیک چلن رہ گئے ہیں ؟ باقی ہم اور ہمارے بزرگ سب جاہل اور احمق ہی رہے ؟ حضرت شعیبؑ نماز بہت کثرت سے پڑھتے تھے کہنے لگے کہ شاید آپ کی نماز یہ حکم دیتی ہےکہ ہم سے باپ دادوں کا پرانا دین چھڑوا دیں اور ہمارے اموال میں ہمارا مالکانہ اختیار نہ رہنے دیں۔ بس آپ اپنی نماز پڑھے جائیے ، ہمارے مذہبی و دنیوی معاملات اور ماپ تول کے قصوں میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں ۔ "جاہلوں کا دستور ہے کہ نیکوں کے کام آپ نہ کر سکیں تو انہی کو چڑانے لگیں۔ یہ ہی خصلت ہے کفر کی" ۔ بعض مفسرین نے { اِنَّکَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ } کو استہزاء پر نہیں۔ واقعیت پر حمل کیا ہے۔ یعنی تو ایک سمجھدار ، باوقار اور نیک چلن آدمی ہے۔ پھر ایسی بے موقع باتیں کیوں کرنے لگا۔ جیسے صالحؑ کو کہا تھا۔ { قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَا اَتَنْھَا اَنْ نَعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَاؤُنَا } الخ۔






يَعمَلونَ لَهُ ما يَشاءُ مِن مَحٰريبَ وَتَمٰثيلَ وَجِفانٍ كَالجَوابِ وَقُدورٍ راسِيٰتٍ ۚ اعمَلوا ءالَ داوۥدَ شُكرًا ۚ وَقَليلٌ مِن عِبادِىَ الشَّكورُ {34:13}
ترجمہ:
وہ جنات سلیمان کے لیے جو وہ چاہتے بنادیا کرتے تھے، اونچی اونچی عمارتیں، تصویریں (8) حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور زمین میں جمی ہوئی دیگیں۔ اے داؤد کے خاندان والو ! تم ایسے عمل کیا کرو جن سے شکر ظاہر ہو۔ اور میرے بندوں میں کم لوگ ہیں جو شکر گزار ہوں۔
[سورۃ نمبر 34 سبإ ، آیت نمبر 13]

تفسیر:
(8)ظاہر یہ ہے کہ تصویریں بےجان چیزوں کی ہوتی تھیں، جیسے درختوں اور عمارتوں وغیرہ کی، اس لئے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ جانداروں کی تصویریں بنانا حضرت سلیمان ؑ کی شریعت میں بھی ناجائز تھا۔
 ان عظیم الشان انعامات و احسانات کا شکر ادا کرتے رہو، محض زبان سے نہیں بلکہ عمل سے وہ کام کرو جن سے حق تعالیٰ کی شکر گزاری ٹپکتی ہو۔ بات یہ ہے کہ احسان تو خدا کم و بیش سب پر کرتا ہے لیکن پورے شکر گزار بندے بہت تھوڑے ہیں، جب تھوڑے ہیں تو قدر زیادہ ہوگی۔ لہٰذا کامل شکر گزار بن کر اپنی قدر و منزلت بڑھاؤ۔ یہ خطاب داؤد کے کنبے اور گھرانے کو ہے، کیونکہ علاوہ مستقل احسانات کے داؤد پر احسان من وجہ سب پر احسان۔ کہتے ہیں کہ داؤد ؑ نے تمام گھر والوں پر اوقات تقسیم کردیئے تھے۔ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہ تھا جب ان کے گھر میں کوئی نہ کوئی شخص عبادت الٰہی میں مشغول نہ رہتا ہو۔

تفسیر عثمانی:
یعنی بڑے بڑے محل، مسجدیں اور قلعے جنات تعمیر کرتے اور مجسم تصویریں بناتے (جو ان کی شریعت میں ممنوع نہیں ہوں گی، شریعت محمدیہ نے منع کر دیا) اور تانبے کے بڑے بڑے لگن بناتے جیسے حوض یا تالاب اور دیگیں تیار کرتے جو اپنی جگہ سے ہل نہ سکتی تھیں۔ ایک ہی جگہ رکھی رہتیں۔
یعنی ان عظیم الشان انعامات و احسانات کا شکر ادا کرتے رہو، محض زبان سےنہیں بلکہ عمل سے وہ کام کرو جن سے حق تعالیٰ کی شکرگذاری ٹپکتی ہو۔ بات یہ ہے کہ احسان تو خدا کم و بیش سب پر کرتا ہے لیکن پورے شکرگذار بندے بہت تھوڑے ہیں۔ جب تھوڑے ہیں تو قدر زیادہ ہو گی۔ لہذا شکرگذار بن کر اپنی قدر و منزلت بڑھاؤ۔ یہ خطاب داؤدؑ کےکنبے اور گھرانے کو ہے، کیونکہ علاوہ مستقل احسانات کے داؤدؑ پر احسان من وجہ سب پر احسان ہے۔ کہتے ہیں کہ داؤدؑ نے تمام گھر والوں پر اوقات تقسیم کر دیے تھے۔ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہ تھا جب ان کے گھر میں کوئی نہ کوئی شخص عبادت الہٰی میں مشغول نہ رہتا ہو۔




إِنَّ الَّذينَ يُلحِدونَ فى ءايٰتِنا لا يَخفَونَ عَلَينا ۗ أَفَمَن يُلقىٰ فِى النّارِ خَيرٌ أَم مَن يَأتى ءامِنًا يَومَ القِيٰمَةِ ۚ اعمَلوا ما شِئتُم ۖ إِنَّهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ {41:40}
ترجمہ:
جو لوگ ہماری آیتوں کے بارے میں ٹیڑھا راستہ اختیار کرتے ہیں (17) وہ ہم سے چھپ نہیں سکتے۔ بھلا بتاؤ کہ جس شخص کو آگ میں ڈال دیا جائے، وہ بہتر ہے، یا وہ شخص جو قیامت کے دن بےخوف و خطر آئے گا (اچھا) جو چاہو کرلو یقین جانو کہ وہ تمہارے ہر کام کو خوب دیکھ رہا ہے۔
[سورۃ نمبر 41 فصلت،آیت نمبر 40]

تفسیر:
(17) ٹیڑھا راستہ اختیار کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان آیتوں کو ماننے سے انکار کیا جائے، اور یہ بھی کہ انہیں غلط سلط معنی پہنائے جائیں۔ آیت کی وعید دونوں صورتوں کو شامل ہے۔

تفسیر عثمانی:
یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کی زبان سے آیات تنزیلیہ سن کر اور قرطاس دہر پر خدا کی آیات کونیہ کو دیکھ کر بھی جو لوگ کجروی سے باز نہیں آتے اور سیدھی سیدھی باتوں کو واہی تباہی شہادت پیدا کر کے ٹیڑھی بناتے ہیں، یا خواہ مخواہ توڑ مروڑ کر ان کا مطلب غلط لیتے ہیں، یا یوں ہی جھوٹ موٹ کے عذر اور بہانے تراش کر ان آیات کے ماننے میں ہیر پھیر کرتے ہیں۔ ایسے ٹیڑھی چال چلنے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ ممکن ہے وہ لوگ اپنی مکاریوں اور چالاکیوں پر مغرور ہوں مگر خدا سے ان کی کوئی چال پوشیدہ نہیں۔ جس وقت سامنے جائیں گے دیکھ لیں گے۔ فی الحال اس نے ڈھیل دے رکھی ہے۔ مجرم کو ایک دم نہیں پکڑتا۔ اسی لئے آگے فرما دیا۔ { اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ } یعنی اچھا جو تمہاری سمجھ میں آئے کئے جاؤ مگر یاد رہے کہ تمہاری سب حرکات اس کی نظر میں ہیں ایک دن ان کا اکٹھا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اب خود سوچ لو کہ ایک شخص جو اپنی شرارتوں کی بدولت جلتی آگ میں گرے، اور ایک جو اپنی شرافت و سلامت روی کی بدولت ہمیشہ امن چین سے رہے۔ دونوں میں کون بہتر ہے؟




مشية الإنسان في القول (یعنی) انسانی چاہت بات میں:
وَإِذا تُتلىٰ عَلَيهِم ءايٰتُنا قالوا قَد سَمِعنا لَو نَشاءُ لَقُلنا مِثلَ هٰذا ۙ إِن هٰذا إِلّا أَسٰطيرُ الأَوَّلينَ {8:31}
اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں (یہ کلام) ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا (کلام) ہم بھی کہہ دیں اور یہ ہے ہی کیا صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں۔

نضر بن الحارث کہا کرتا تھا کہ ہم چاہیں تو قرآن جیسا کلام بنا لائیں۔ اس میں قصے کہانیوں کےسوا کیا رکھا ہے۔ مگر قرآن تو سب جھگڑوں کا فیصلہ اسی بات پر رکھتا تھا۔ پھر چاہا کیوں نہیں؟ کسی نے کہا تھا کہ میرا گھوڑا اگر چلے تو ایک دن میں لندن پہنچے، مگر چلتا ہی نہیں۔ بہرحال پچھلی قوموں کے احوال سن کر کہا کرتے تھے کہ سب قصے کہانیاں ہیں۔ اب بدر میں دیکھ لیا کہ محض افسانے نہ تھے، وعدہ عذاب تم پر بھی آیا جیسے پہلوں پر آیا تھا۔




مشية الإنسان في الکفر (یعنی) انسانی چاہت کفر میں:
وَقُلِ الحَقُّ مِن رَبِّكُم ۖ فَمَن شاءَ فَليُؤمِن وَمَن شاءَ فَليَكفُر ۚ إِنّا أَعتَدنا لِلظّٰلِمينَ نارًا أَحاطَ بِهِم سُرادِقُها ۚ وَإِن يَستَغيثوا يُغاثوا بِماءٍ كَالمُهلِ يَشوِى الوُجوهَ ۚ بِئسَ الشَّرابُ وَساءَت مُرتَفَقًا {18:29}
ترجمہ:
اور کہہ دو کہ : حق تو تمہارے رب کی طرف سے آچکا ہے۔ اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔ (23) ہم نے بیشک (ایسے) ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیرے میں لے لیں گی، اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد کا جواب ایسے پانی سے دیا جائے گا جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا، (اور) چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ کیسا بدترین پانی، اور کیسی بری آرام گاہ !۔
[سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 29]

تفسیر:
(23) یعنی حق کے واضح ہوجانے کے بعد دنیا میں کسی کو ایمان لانے پر زبردستی مجبور نہیں کیا جاسکتا، البتہ جو شخص ایمان نہیں لائے گا، اس کو آخرت میں بیشک ایک خوفناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تفسیر عثمانی:
یعنی خدا کی طرف سے سچی باتیں سنا دی گئیں ، کسی کے ماننےکی اسے کچھ پروا نہیں جو کچھ نفع نقصان ہو گا صرف تمہارا ہو گا۔ ماننے اور نہ ماننے والے دنوں اپنا اپنا انجام سوچ لیں جو آگے بیان کیا جاتا ہے دنیا کہ چہل پہل محض ہیچ اور فانی ہے۔ اس کا لطف جب ہی ہے کہ فلاح آخرت کا ذریعہ بنے ۔ وہاں محض دنیا کا تمول کام نہ دے گا۔ بلکہ جو یہاں شکستہ حال تھے بہت سے وہاں عیش و آرام میں ہوں گے۔
وہ قناتیں بھی آگ کی ہوں گی۔
یعنی گرمی کی شدت سے پیاس لگے گی تو العطش پکاریں گے ۔ تب تیل کی تلچھٹ یا پیپ کی طرح کا پانی دیا جائے گا۔ جو سخت حرارت اور تیزی کی وجہ سے منہ بھون ڈالے گا۔






















يَكادُ البَرقُ يَخطَفُ أَبصٰرَهُم ۖ كُلَّما أَضاءَ لَهُم مَشَوا فيهِ وَإِذا أَظلَمَ عَلَيهِم قاموا ۚ وَلَو شاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمعِهِم وَأَبصٰرِهِم ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {2:20}
قریب ہے کہ بجلی (کی چمک) ان کی آنکھوں (کی بصارت) کو اچک لے جائے۔ جب بجلی (چمکتی اور) ان پر روشنی ڈالی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر الله چاہتا تو ان کے کانوں (کی شنوائی) اور آنکھوں (کی بینائی دونوں) کو زائل کر دیتا ہے۔ بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر عثمانی:
حاصل یہ ہے کہ منافقین اپنی ضلالت(گمراہی) اور ظلماتی خیال میں مبتلا ہیں لیکن جب غلبہ نورِ اسلام اور ظہورِ معجزات کو یہ دیکھتے ہیں اور تاکید و تہدیدِ شرع سنتے ہیں تو متنبہ ہو کر ظاہر میں صراطِ مستقیم کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور جب کوئی اذیت و مشقت دینوی نظر آتی ہے تو کفر پر اڑ جاتے ہیں، جیسے شدتِ باراں اور تاریکی میں بجلی چمکی تو قدم رکھ لیا پھر کھڑے ہو گئے مگر چونکہ اللہ کو سب کا علم ہے اور اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں تو ایسے حیلوں اور تدبیروں سے کیا کام نکل سکتا ہے۔
فائدہ:
سورت کے اول سے یہاں تک تین طرح کے لوگوں کا ذکر فرمایا: اول مومنوں کا، پھر کافروں کا (جن کے دلوں پر مہر ہے کہ ہر گز ایمان نہ لائیں گے)، تیسرے منافقوں کا جو دیکھنے میں مسلمان ہیں مگر دل اُن کا ایک طرف نہیں۔








ما يَوَدُّ الَّذينَ كَفَروا مِن أَهلِ الكِتٰبِ وَلَا المُشرِكينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيكُم مِن خَيرٍ مِن رَبِّكُم ۗ وَاللَّهُ يَختَصُّ بِرَحمَتِهِ مَن يَشاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الفَضلِ العَظيمِ {2:105}
جو لوگ کافر ہیں، اہل کتاب یا مشرک وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے خیر (وبرکت) نازل ہو۔ اور خدا تو جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر لیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے۔

یعنی کفار (یہود ہوں یا مشرکین مکہ) قرآن کے نزول کو تم پر ہر گز پسند نہیں کرتے بلکہ یہود تمنا کرتے ہیں کہ نبی آخرالزمان بنی اسرائیل میں پیدا ہوں اور مشرکین مکہ چاہتے ہیں کہ ہماری قوم میں سے ہو مگر یہ تو اللہ کے فضل کی بات ہے کہ اُمّی لوگوں میں نبی آخرالزماں کو پیدا فرمایا۔







إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَدِ افتَرىٰ إِثمًا عَظيمًا {4:48}
اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کردے اور جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا۔

تفسیر:
یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے ؛ لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرکے توحید پر ایمان لے آئے۔

تفسیر عثمانی:
یعنی مشرک کبھی نہیں بخشا جاتا بلکہ اس کی سزا دائمی ہے البتہ شرک سےنیچے جو گناہ ہیں صغیرہ ہوں یا کبیرہ وہ سب قابل مغفرت ہیں اللہ تعالیٰ جس کی مغفرت چاہے اس کے صغیرہ کبیرہ گناہ بخش دیتا ہے کچھ عذاب دے کر یا بلا عذاب دیے اشارہ اس کی طرف ہے کہ یہود چونکہ کفر اور شرک میں مبتلا ہیں وہ مغفرت کی توقع نہ رکھیں۔







وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يَمسَسكَ بِخَيرٍ فَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {6:17}

اور اگر اللہ تم کو کوئی سختی پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر نعمت (وراحت) عطا کرے تو (کوئی اس کو روکنے والا نہیں) وہ ہر چیز پر قادر ہے۔










مشية الله المطلقة (الله کی آزاد چاہت):
یہ سب رسول فضیلت دی ہم نے ان میں بعض کو بعض سے کوئی تو وہ ہے کہ کلام فرمایا اس سے اللہ نے اور بلند کئے بعضوں کے درجے اور دیے ہم نے عیسٰیؑ مریم کے بیٹے کو معجزے صریح اور قوت دی اس کو روح القدس یعنی جبریل سے [۴۱۲] اور اگر اللہ چاہتا تو نہ لڑتے وہ لوگ جو ہوئے ان پیغمبروں کے پیچھے بعد اس کے کہ پہنچ چکے ان کے پاس صاف حکم لیکن ان میں اختلاف پڑ گیا پھر کوئی تو ان میں ایمان لایا اور کوئی کافر رہا اور اگر چاہتا اللہ تو وہ باہم نہ لڑتے لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہے [۴۱۳]

اس کے سوا کوئی معبود نہں زندہ ہے سب کا تھامنے والا [۴۱۶] نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے جانتا ہے جو کچھ خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ انکے پیچھے ہے اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا [۴۱۷]



اللہ ہی کا ہے جو کچھ کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اگر ظاہر کرو گے اپنے جی کی بات یا چھپاؤ گے اس کو حساب لے گا اس کا تم سے اللہ پھر بخشے گا جس کو چاہے اور عذاب کرے گا جس کو چاہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے [۴۵۹]
Allah's is whatsoever is in the heavens and Whatsoever is in the earth, and whether ye disclose that which is in your soul or conceal it, Allah will reckon with you therefor, then He will forgive whomsoever He will, and torment whomsoever He will, And Allah is over everything Potent.




وہی تمہارا نقشہ بناتا ہے ماں کے پیٹ میں جس طرح چاہے کسی کی بندگی نہیں اسکے سوا زبردست ہے حکمت والا [۷] He it is Who fashionoth You in the Wombs as He will: there is no god but He, the Mighty, the Wise.

ابھی گذر چکا ہے تمہارے سامنے ایک نمونہ دو فوجوں میں جن میں مقابلہ ہوا ایک فوج ہے کہ لڑتی ہے اللہ کی راہ میں اور دوسری فوج کافروں کی ہے دیکھتے ہیں یہ ان کو اپنے سے دو چند صریح آنکھوں سے اور اللہ زور دیتا ہے اپنی مدد کا جس کو چاہے اسی میں عبرت ہے دیکھنے والوں کو [۱۴]
Of a surety there hath been unto you a sign, the two hosts that met, one host fighting in the way of Allah, and the other disbelieving, beholding themselves, with their own eyes, twice as many as they. And Allah aideth with His succour whomsoever He will. Verily herein is a lesson for men of insight.




تو کہہ یا اللہ مالک سلطنت کے تو سلطنت دیوے جس کو چاہے اور سلطنت چھین لیوے جس سے چاہے اور عزت دیوے جس کو چاہے اور ذلیل کرے جس کو چاہے تیرے ہاتھ ہے سب خوبی بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے [۳۸]
Say thou: O Allah! sovereign of the dominion: Thou givest dominion unto whomsoever Thou wilt, and Thou takest away dominion from whomsoever Thou wilt; Thou honourest whomsoever Thou wilt, and Thou abasest whomsoever Thou wilt; and in Thine hand is good. And verily Thou art over every thing Potent.




کہا اے رب کہاں سے ہو گا میرے لڑکا اور پہنچ چکا مجھ کو بڑھاپا اور عورت میری بانجھ ہے فرمایا اسی طرح اللہ کرتا ہے جو چاہے [۶۵]
He said: my Lord! in what wise shall there be unto me a youth whereas age hath overtaken me and my wife is barren. Allah said: even so: Allah doeth whatsoever He listeth.



بولی اے رب کہاں سے ہو گا میرے لڑکا اور مجھ کو ہاتھ نہیں لگایا کسی آدمی نے [۷۶] فرمایا اسی طرح اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہے جب ارادہ کرتا ہے کسی کام کا تو یہی کہتا ہے اس کو کہ ہو جا سو وہ ہو جاتا ہے [۷۷]
She said: my Lord! in what wise shall there be unto me a son whereas no human being hath touched me. Allah said: even so. Allah createth whatsoever He will, When He hath decreed a thing, He only saith to it: Be, and it becometh;


اور اللہ ہی کا مال ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ کہ زمین میں ہے بخش دے جس کو چاہے اور عذاب کرے جس کو چاہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے [۱۹۰]
Allah's is whatsoever is in the heavens and whatsoever is in the earth. He forgiveth whomsoever He listeth, and tormenteth whomsoever He listeth. And Allah is Forgiving, Merciful.



اگر چاہے تو تم کو دور کر دے اے لوگو اور لے آئے اور لوگوں کو اور اللہ کو یہ قدرت ہے [۱۹۲]
If He will, He will take you away, O mankind! and bring forward others; and over that Allah is ever Potent.



تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ ہی کے واسطے ہے سلطنت آسمان اور زمین کی عذاب کرے جس کو چاہے اور بخشے جس کو چاہے اور اللہ سب چیز پر قادر ہے [۱۲۹]
Knowest thou not that Allah! - verily His is the dominion of the heavens and the earth; He chastiseth whomsoever He will and forgiveth whomsoever He will; and Allah is over everything Potent.



مشية الإنسان (انسان کی چاہت):




وَكَذٰلِكَ مَكَّنّا لِيوسُفَ فِى الأَرضِ يَتَبَوَّأُ مِنها حَيثُ يَشاءُ ۚ نُصيبُ بِرَحمَتِنا مَن نَشاءُ ۖ وَلا نُضيعُ أَجرَ المُحسِنينَ {12:56}
اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے۔ ہم اپنی رحمت جس پر چاہتے ہیں کرتے ہیں اور نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے
Thus We established Yusuf in the land so that he might settle therein wherever he listed. We bestow of Our mercy on whomsoever We will, and We waste not the hire of the well-doers.
جہاں چاہتے اترتے اور جو چاہتے تصرف کرتے۔ گویا ریان بن الولید برائے نام بادشاہ تھا حقیقت میں یوسفؑ بادشاہی کر رہے تھے اور "عزیز" کہہ کر پکارے جاتے تھے۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ بادشاہ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ نیز اسی زمانہ میں عزیز مصر کا انتقال ہوا تو اس کی عورت زلیخا نے آپ سے شادی کر لی۔ واللہ اعلم۔ محدثین اس پر اعتماد نہیں کرتے۔






جَنّٰتُ عَدنٍ يَدخُلونَها تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ ۖ لَهُم فيها ما يَشاءونَ ۚ كَذٰلِكَ يَجزِى اللَّهُ المُتَّقينَ {16:31}
(وہ) بہشت جاودانی (ہیں) جن میں وہ داخل ہوں گے ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہاں جو چاہیں گے ان کے لیے میسر ہوگا۔ خدا پرہیزگاروں کو ایسا ہی بدلہ دیتا ہے
Gardens Everlasting which they shall enter, whereunder rivers flow; theirs therein shall be whatsoever they list; Thus Allah recompenseth the God-fearing-
یعنی ان تمام لوگوں کو جو کفر و شرک اور فسوق و عصیان سے پرہیز کرتے ہیں ۔ ایسا اچھا بدلہ ملے گا۔
یعنی جنتی جس قسم کی جسمانی راحت اور روحانی مسرت چاہیں گے وہاں حاصل ہو گی ۔ { وَفِیْھَا مَا تَشْتَھِیْہِ الْاَ نْفُسُ وَتَلذُّ الْاَعْیُنُ وَاَنْتُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ }۔






لَهُم فيها ما يَشاءونَ خٰلِدينَ ۚ كانَ عَلىٰ رَبِّكَ وَعدًا مَسـٔولًا {25:16}
وہاں جو چاہیں گے ان کے لئے میسر ہوگا ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ وعدہ خدا کو (پورا کرنا) لازم ہے اور اس لائق ہے کہ مانگ لیا جائے
Theirs therein shall be all that they wish for, as abiders; a promise from thy Lord to be asked for.
اور چاہیں گے وہ ہی جو ان کے مرتبہ کے مناسب ہو گا۔
{ وَعْدًامَسْئُوْلًا } سے مراد حتمی وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ نے محض فضل و عنایت سے اپنے ذمہ لازم کر لیا۔ یا یہ مطلب کہ اس وعدہ کا ایفاء کا متقین سوال کریں گے۔ جو یقینًا پورا کیا جائے گا۔ جیسا کہ دعا میں ہے } رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ }۔






لَهُم ما يَشاءونَ عِندَ رَبِّهِم ۚ ذٰلِكَ جَزاءُ المُحسِنينَ {39:34}
وہ جو چاہیں گے ان کے لئے ان کے پروردگار کے پاس (موجود) ہے۔ نیکوکاروں کا یہی بدلہ ہے
Theirs will be whatsoever they will desire with their Lord: that is the hire of the well-doers.






وَقالُوا الحَمدُ لِلَّهِ الَّذى صَدَقَنا وَعدَهُ وَأَورَثَنَا الأَرضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الجَنَّةِ حَيثُ نَشاءُ ۖ فَنِعمَ أَجرُ العٰمِلينَ {39:74}
وہ کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے اپنے وعدہ کو ہم سے سچا کردیا اور ہم کو اس زمین کا وارث بنا دیا ہم بہشت میں جس مکان میں چاہیں رہیں تو (اچھے) عمل کرنے والوں کا بدلہ بھی کیسا خوب ہے
And they Will say: all praise Unto Allah, who hath fulfilled His promise Unto us and made us inherit this land, so that we may dwell in the Garden whereever we will! Excellent then is the hire of the workers!
یعنی جنت کی زمین کا۔
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "ان کو حکم ہے جہاں چاہیں رہیں۔ لیکن ہر کوئی وہ ہی جگہ چاہے گا جو اس کے واسطے پہلے سے رکھی ہے"۔ اور بعض کے نزدیک مراد یہ ہے کہ جنت میں سیر و ملاقات کے لئے کہیں آنے جانے کی روک ٹوک نہ ہو گی۔
یعنی خدا کا شکر جو وعدے انبیاء کی زبانی دنیا میں کئے گئے تھے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے۔







تَرَى الظّٰلِمينَ مُشفِقينَ مِمّا كَسَبوا وَهُوَ واقِعٌ بِهِم ۗ وَالَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فى رَوضاتِ الجَنّاتِ ۖ لَهُم ما يَشاءونَ عِندَ رَبِّهِم ۚ ذٰلِكَ هُوَ الفَضلُ الكَبيرُ {42:22}
تم دیکھو گے کہ ظالم اپنے اعمال (کے وبال) سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ ان پر پڑے گا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے۔ وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس (موجود) ہوگا۔ یہی بڑا فضل ہے
Thou shalt see the wrong-doers fearful on account of that which they have earned, and it is sure to befall them. And those who believe and work righteous works will be in meadows of the Gardens theirs will be whatsoever they list, in the presence of their Lord. That! that is the supreme grace.
یعنی جنت میں ہر قسم کی جسمانی و روحانی راحتیں اور اپنے رب کا قرب، یہ ہی بڑا فضل ہے۔ دنیا کے عیش اسکے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں۔
یعنی اپنی کرتوت کے نتائج سے خوا آج نہ ڈریں مگر اس دن ڈرتے ہوں گے اور یہ ڈر ان پر ضرور پڑ کر رہے گا۔ کوئی سبیل رہائی اور فرار کی نہ ہوگی۔







لَهُم ما يَشاءونَ فيها وَلَدَينا مَزيدٌ {50:35}
وہاں وہ جو چاہیں گے ان کے لئے حاضر ہے اور ہمارے ہاں اور بھی (بہت کچھ) ہے
Theirs therein will be whatsoever they list; and with Us will be yet more.
یعنی جو چاہیں گے وہ ملے گا اور اس کے علاوہ وہ نعمتیں ملیں گی جو اُن کے خیال میں بھی نہیں۔ مثلًا دیدار الٰہی کی لذت بے قیاس اور ممکن ہے{ وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ } سے یہ غرض ہو کہ ہمارے پاس بہت ہیں جنتی کتنا ہی مانگیں سب دیا جائے گا۔ اللہ کے ہاں اتنا دینے پر بھی کوئی کمی نہیں آتی۔ نہ اسکے لئے کوئی رکاوٹ ہے۔ پس اتنی بے حساب و بے شمار عطایا کو مستبعد نہ سمجھو۔ واللہ سبحانہ و تعالٰی اعلم۔



=============================


ارادہ

تُريدونَ عَرَضَ الدُّنيا وَاللَّهُ يُريدُ الءاخِرَةَ

تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور اللہ آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔




مَن كانَ يُريدُ ثَوابَ الدُّنيا فَعِندَ اللَّهِ ثَوابُ الدُّنيا وَالءاخِرَةِ ۚ وَكانَ اللَّهُ سَميعًا بَصيرًا {4:134}
جو شخص دنیا (میں عملوں) کی جزا کا طالب ہو تو خدا کے پاس دنیا اور آخرت (دونوں) کے لئے اجر (موجود) ہیں۔ اور خدا سنتا دیکھتا ہے۔




مَن كانَ يُريدُ العاجِلَةَ عَجَّلنا لَهُ فيها ما نَشاءُ لِمَن نُريدُ ثُمَّ جَعَلنا لَهُ جَهَنَّمَ يَصلىٰها مَذمومًا مَدحورًا {17:18}
جو شخص دنیا (کی آسودگی) کا خواہشمند ہو تو ہم اس میں سے جسے چاہتے ہیں اور جتنا چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں۔ پھر اس کے لئے جہنم کو (ٹھکانا) مقرر کر رکھا ہے۔ جس میں وہ نفرین سن کر اور (درگاہ خدا سے) راندہ ہو کر داخل ہوگا۔




مَن كانَ يُريدُ العِزَّةَ فَلِلَّهِ العِزَّةُ جَميعًا ۚ إِلَيهِ يَصعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَمَلُ الصّٰلِحُ يَرفَعُهُ ۚ وَالَّذينَ يَمكُرونَ السَّيِّـٔاتِ لَهُم عَذابٌ شَديدٌ ۖ وَمَكرُ أُولٰئِكَ هُوَ يَبورُ {35:10}
جو شخص عزت کا طلب گار ہے تو عزت تو سب خدا ہی کی ہے۔ اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتے ہیں۔ اور جو لوگ برے برے مکر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ اور ان کا مکر نابود ہوجائے گا۔

مَن كانَ يُريدُ حَرثَ الءاخِرَةِ نَزِد لَهُ فى حَرثِهِ ۖ وَمَن كانَ يُريدُ حَرثَ الدُّنيا نُؤتِهِ مِنها وَما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن نَصيبٍ {42:20}
جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دیں گے۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے۔ اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا۔



إِنَّ اللَّهَ يُدخِلُ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفعَلُ ما يُريدُ {22:14}
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چل رہیں ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

وَكَذٰلِكَ أَنزَلنٰهُ ءايٰتٍ بَيِّنٰتٍ وَأَنَّ اللَّهَ يَهدى مَن يُريدُ {22:16}
اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو اُتارا ہے (جس کی تمام) باتیں کھلی ہوئی (ہیں) اور یہ (یاد رکھو) کہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایات دیتا ہے۔


فَعّالٌ لِما يُريدُ {85:16}
جو چاہتا ہے کر دیتا ہے






يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ {2:185}
خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا


وَاللَّهُ يُريدُ أَن يَتوبَ عَلَيكُم وَيُريدُ الَّذينَ يَتَّبِعونَ الشَّهَوٰتِ أَن تَميلوا مَيلًا عَظيمًا {4:27}
اور خدا تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے اور جو لوگ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سے بھٹک کر دور جا پڑو

يُريدُ اللَّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُم ۚ وَخُلِقَ الإِنسٰنُ ضَعيفًا {4:28}
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے



ما يُريدُ اللَّهُ لِيَجعَلَ عَلَيكُم مِن حَرَجٍ وَلٰكِن يُريدُ لِيُطَهِّرَكُم وَلِيُتِمَّ نِعمَتَهُ عَلَيكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ {5:6}
اللہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو





يا ابن آدم: تريد وأريد فتتعب فيما تريد ولا يكون إلا ما أريد.
اے ابنِ آدم ! ایک میری چاہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔
[تفسير ابن عطية (المتوفى: 542هـ) : جلد 5 / صفحہ 445]
فتح الرحمن(المتوفى: 927 هـ):جلد 7 / صفحہ 301
روح البيان(المتوفى: 1127هـ):جلد 10 / صفحہ 354
تفسير حدائق الروح والريحان:جلد 31 / صفحہ 177






یہ روایت کو حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ ( المتوفی 505ھ ) نے اپنی شہرہ آفاق تالیف ”احیاء علوم الدین“ پر بالفاظ ذیل نقل فرمایا ہے:


اے داؤدؑ! بےشک ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے ، اور ہوگا وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو اُس کے جو میری چاہت ہے،تو وہ بھی تجھے دے دوں گا جو تیری چاہت ہے،اگر تو نے مخالفت کی اُس کی جو میری چاہت ہےتو میں تھکا دوں گا تجھ کو اُس میں جو تیری چاہت ہے، ہوگا پھر وہی جو میری چاہت ہے۔
[نوادر الأصول في أحاديث الرسولﷺ (المتوفى: نحو 320هـ) : (2/107) فِي أَن سَعَادَة ابْن آدم الاستخارة والرضى بِالْقضَاءِ، (4/215) فِي تَمْثِيل الْحِرْص والسرف بالذئبين۔]


تشریح:
یہ خبر اس خیال کو اجاگر کر رہی ہے کہ ایک اعلیٰ طاقت یا خدائی مرضی ہے (جس کی نمائندگی مقرر کی خواہش سے ہوتی ہے) جو بالآخر غالب آتی ہے۔ یہ ہتھیار ڈالنے اور اس خدائی مرضی کو قبول کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، یہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر ہم خود کو اس کے ساتھ ہم آہنگ کریں گے تو ہماری اپنی خواہشات بھی پوری ہوں گی۔ تاہم، اگر ہم اس خدائی ارادے کی مخالفت کرتے ہیں، تو ہم بالآخر تھک جائیں گے اور پھر بھی، خدا ہی غالب رہے گا۔

اس منظوم کلام کو ایک روحانی رہنمائی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو ہمیں اپنی انا اور اپنی خواہشات کو چھوڑنے اور خدائی منصوبوں پر بھروسہ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ ہماری خواہشات ہی اہم نہیں ہیں، اور یہ کہ ایک بڑا کائناتی منصوبہ چل رہا ہے۔


یہ منظوم کلام خواہش کی فطرت، آزاد مرضی اور خدائی منصوبے پر ایک روحانی اور فلسفیانہ عکاسی ہے۔ یہ انسانی حالت کی باریک بینی اور خود شناسی سے متعلق تحقیق پیش کرتا ہے، قاری کو ایک اعلیٰ طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور خدائی مرضی پر بھروسہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

پہلی سطر، "ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے"، انفرادی خواہشات اور خواہشات کے وجود کو تسلیم کرتی ہے۔ اسپیکر تسلیم کرتا ہے کہ فرد ("آپ کی خواہش" سے ظاہر ہوتا ہے) اور الہی ("میری خواہش" سے ظاہر ہوتا ہے) دونوں کی اپنی خواہشات اور ارادے ہوتے ہیں۔

دوسری سطر (اور وہی ہوگا جو میں چاہتا ہوں) بتاتی ہے کہ خدا بالآخر غالب ہوگا۔ اس لائن کو ایک اعلیٰ طاقت کے سامنے بھروسے اور ہتھیار ڈالنے کے اظہار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ خدائی منصوبہ انفرادی خواہشات سے زیادہ گہرا اور دور رس ہے۔

تیسری سطر، "پس اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو جو میری چاہت ہے" ، یہ ایک مشروط وعدہ پیش کرتا ہے۔ اگر فرد اپنی مرضی خدا کے سپرد کردے تو وہ وہی حاصل کرے گا جو وہ چاہتا ہے۔ یہ سطر قارئین کو حوصلہ دیتی ہے کہ وہ اپنی انا کو چھوڑ دیں اور خدائی منصوبے پر بھروسہ کریں۔

چوتھی سطر، "تو وہ بھی تجھے دوں گا جو تیری چاہت ہے"، اس خیال کو تقویت بخشتی ہے کہ خدا کی چاہت کے سامنے ہتھیار ڈالنا بالآخر انفرادی خواہشات کی تکمیل کا باعث بنے گا۔

پانچویں سطر، "اگر تو مخالفت کی اُس کی جو میری چاہت ہے" ، یہ ایک تضاد پیش کرتا ہے کہ اگر فرد رضائے الٰہی کے خلاف مزاحمت یا مخالفت کرتا ہے تو اسے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چھٹی سطر، "تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اُس میں جو تیری چاہت ہے"، یہ بات بتاتی ہے کہ خدا کے خلاف مسلسل مزاحمت بالآخر تھکن اور مایوسی کا باعث بنے گی۔

آخری سطر، "پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے"، یہ اس خیال کو دہراتی ہے کہ خدا ہی غالب رہے گا، انفرادی خواہشات یا مزاحمت سے قطع نظر۔

مجموعی طور پر، یہ کلام خواہش کی نوعیت، آزاد مرضی، اور خدائی منصوبے پر ایک روحانی اور فلسفیانہ عکاسی پیش کرتی ہے۔ یہ مخاطب کو ایک اعلیٰ طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے، خدائی مرضی پر بھروسہ کرنے اور اپنی خواہشات کو خدائی منصوبے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔


حدیث کے مزید حوالہ جات:

الانصاف للقاضی محمد بن الطیب الباقلانی (المتوفى: 403هـ) : 1/63

التمثيل والمحاضرة (أبو منصور الثعالبي، المتوفى: 429هـ) : 13

إحياء علوم الدين (الامام الغزالي، المتوفى: 505هـ) : 4/346، كتاب المحبة، بيان فضيلة الرضا۔


تفسير ابن عطية (المتوفى: 542هـ) : 5/445

شرح الطيبي على مشكاة المصابيح (743هـ) : 6/1779، مكتبة نزار مصطفى الباز - الرياض

حياة الحيوان الكبرى (المتوفى: 808هـ) : 2/535، باب الواو (وحش)، تتمة مشتملة على فوائد حسنة


فتح الرحمن (المتوفى: 927 هـ) :7/301


تفسیر روح البيان (المتوفى: 1127هـ) : (1/389) سورۃ البقرۃ آیۃ 249، (4/232) سورۃ یوسف آیۃ 22


مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (المتوفى : 1014هـ) : 4/1566، كِتَابُ أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى

جمع الوسائل في شرح الشمائل (المتوفى : 1014هـ) : 1/49

منتهى السؤل على وسائل الوصول إلى شمائل الرسولﷺ (المتوفى: 1410هـ) : 1/272، الباب الثّاني في صفة خلقة رسولﷺ، الفصل الأوّل في جمال صورته]

یعنی یہ مضمون حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف پیغام ربانی اور وحی الٰہی کا مضمون ہے۔ یہ روایت حسب استطاعت جستجو اور تلاش کے باوجود کتب احادیث میں ہم کو نہیں ملی جبکہ احادیث وروایات ضعیفہ وموضوعہ کے مجموعات وموسوعات میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا اس لئے ممکن ہے کہ یہ اسرائیلی روایات میں سے ہو اور وہی امام غزالیؒ کا ماخذ ومرجع ہو۔


یہ حدیث قدسی جن کتابوں میں ہے ان میں سب سے قدیم تالیف ”نوادر الأصول“ ہے بعد کی کتابوں میں یہ حدیث شاید اسی کتاب کے حوالہ سے آئی ہے۔”نوادر الاصول“ حکیم ترمذی کی تالیف ہے حکیم ترمذی کا نام سن کر یا پڑھ کر بعض حضرات کو اس سے شبہ لگ جاتا ہوگا کہ اس سے مراد مشہور محدث امام ترمذی ہے جن کی کتاب ”الجامع السنن“ پڑھی پڑھائی جاتی ہے لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں مشہور محدث کا نام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی ہے اور حکیم ترمذی کا نام ابو عبد اللہ محمد بن علی بن الحسن الحکیم الترمذی ہے ان کا انتقال سن: ۲۸۵ھ اور ۲۹۰ھ کے درمیان ہوا ہے۔
(ملاحظہ ہو:لسان المیزان ۷/۳۸۷)
جس کے الفاظ یہ ہیں:
"حدثنا عمر بن أبي عمر قال: حدثنا عبد الوهاببن نافع عن مبارک بن فضالة عن الحسن قال: قال الله تعالى: (لداود عليه السلام) یا داؤد! تريد وأريد ويكون ما أريد، فإذا أردت ماأريد كفيتك ما تريد، ويكون ما أريد، وإذا أردت غير ما أريد عنيتك فيما تريد ويكون ما أريد".
ترجمہ:
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا : اے داؤد ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تم اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کردو تو میں تمہاری چاہت کے لیے بھی کافی ہوجاؤں گا (یعنی تمہاری چاہت بھی پوری کردوں گا)، اور بہرحال ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا، اور اگر تمہاری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تمہیں تمہاری چاہت میں تھکا دوں گا (یعنی پوری کوشش کے باوجود تمہاری چاہت پوری نہیں ہوگی) اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔
[نوادر الأصول في أحاديث الرسول، الأصل الخامس و العشرون و المائة في أن سعادة ابن آدم الاستخارة و الرضیٰ بالقضاء (2/ 107)ط:دار الجیل، بیروت]
لیکن مذکورہ روایت کو حدیثِ قدسی تسلیم کرنے سے دو باتیں مانع ہیں، ایک یہ کہ اس روایت میں مذکورہ فقرہ رسول اللہﷺسے نقل نہیں کیا گیا ہے، بلکہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے؛ اس لیے اس فقرہ کو حدیثِ قدسی نہیں مانا جاسکتا، مزید یہ کہ اس روایت کی سند بھی انتہائی کمزور ہے؛ کیوں کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تک کی سند میں مذکور تینوں راوی متکلم فیہ ہیں۔ (عمر ابن ابی عمر اور عبد الوھاب بن نافع انتہائی درجہ کے ضعیف راوی ہیں، جب کہ مبارک ابن فضالہ مدلس ہیں اور یہ روایت ان سے ’’عن‘‘ کے ساتھ منقول ہے)، لہٰذا اس روایت کا خود حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے ثابت ہونا بھی محل نظر ہے۔


البتہ اس روایت کو معنیً درست قرار دیا جاسکتا ہے،کیوں کہ یہ روایت سند کے بغیر بعض شروحِ حدیث اور زہد و تصوف کی کتب میں مذکور ہے۔ جیسے:


۱)قوت القلوب(۲؍۱۴ )لابی طالب مکی (المتوفیٰ:۳۸۶ھ)


۲)احیاء علوم الدین(۴؍۳۴۶ )للامام الغزالی (المتوفیٰ:۵۰۵ھ)


۳)مرقاۃ المفاتیح شرح المشکوٰۃ (۴؍۱۵۶۶ )ملا علی القاری ( المتوفیٰ:۱۰۱۴ھ)


لیکن ان کتب میں مذکور ہونے کے باوجود روایت کے الفاظ کا ضعف ختم نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک تو ان کتب میں یہ روایت سند کے بغیر مذکور ہے، دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ مصنفین حضرات حکیم ترمذی رحمہ اللہ سے متأخر ہیں، اس لیے ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے حکیم ترمذی ہی کی روایت کو سند اور حوالہ کے بغیر نقل کیا ہے۔


خلاصہ یہ ہوا کہ چوں کہ اس روایت میں حدیثِ قدسی ہونے کی شرائط بھی مکمل نہیں ہیں، اور سند بھی انتہائی درجے کی ضعیف ہے،اس لیے اس روایت کو حدیثِ قدسی کہنا اور حدیثِ قدسی کے عنوان سے آگے نقل کرنا درست نہیں ہے، البتہ مذکورہ مشائخؒ کا اس عبارت کو ذکر کرنا، اس کے معنی اور مضمون کے درست ہونے کی علامت ہے، چنانچہ اس عبارت یا جملوں کو انہی حضرات کی طرف منسوب کرکے ان کے حوالہ سے ذکر کیا جائے تو اس میں حرج نہیں ، لیکن حدیثِ قدسی کہہ کر نقل کرنا جائز نہیں۔


منهج النقد في علوم الحديث (ص: 323):


"الحديث القدسي: هو ما أضيف إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأسنده إلى ربه عز وجل. مثل: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وأسنده إلى ربه عز وجل، مثل: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يروى عن ربه"، أو"قال الله تعالى فيما رواه عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم". ويقال له أيضاً: الحديث الإلهي، أو الرباني.


ومناسبة تسميته "قدسياً" هي التكريم لهذه الأحاديث من حيث إضافتها إلى الله تعالى، كما أنها واردة في تقديس الذات الإلهية، قلما تتعرض لأحكام الحلال والحرام، إنما هي من علوم الروح في الحق سبحانه وتعالى".


حاشیة نوادر الأصول ( ص:۳۴۶ ) میں ہے:


’’هذا إسناد مسلسل بالعلل:


أولاً: شیخ المصنف واه، کما تقدم التنبیه علیه.


ثانیاً: عبد الوهاب ضعیف جداً، کما في ’’اللسان‘‘ (۴؍۹۲ )، و مبارک صدوق مدلس، و قد عنعن". فقط واللہ اعلم







بہرحال یہ مضمون نفس الامر میں بلا شک وشبہ صحیح اور ناقابل نکیر ہے اس لیے اس کو بطورِ تمثیل وحکایت بیان کرنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس کو بغیر حوالہ کے صراحت کے ساتھ حدیثِ قدسی کے نام سے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔

اسرئیلی روایات جو مخالفِ قرآن و سنت نہ ہوں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
دلیلِ حدیث:
بلغوا عنى ولو آية وحدثوا عن بنى إسرائيل ولا حرج ومن كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار (أحمد، والبخارى، والترمذى، وابن حبان عن ابن عمرو)
پہنچاؤ میری طرف سے اگرچہ ایک آیت (بات) ہی ہو، اور بیان کرو بنی اسرئیل سے(جو قصے سنو، اس میں)کوئی گناہ نہیں، اور جو قصدًا مجھ پر جھوٹی بات منسوب کرے اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں ڈھونڈ لے۔
[أخرجه أحمد (2/159، رقم 6486) ، والبخارى (3/1275، رقم 3274) ، والترمذى (5/40، رقم 2669) وقال: حسن صحيح. وابن حبان (14/149، رقم 6256) . وأخرجه أيضًا: الدارمى (1/145، رقم 542) ، والقضاعى (1/387، رقم 662) ، والديلمى (2/9، رقم 2081) .]


No comments:

Post a Comment