Thursday, 12 September 2013

اللہ ان سے راضی اور وہ الله سے راضی...


قالَ اللَّهُ هٰذا يَومُ يَنفَعُ الصّٰدِقينَ صِدقُهُم ۚ لَهُم جَنّٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۚ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ ۚ ذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ {5:119}؛
خدا فرمائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ راست بازوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ابدالآباد ان میں بستے رہیں گے خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں یہ بڑی کامیابی ہے
Their reward, with their Lord, is gardens of eternity beneath which rivers flow, in which they will be abiding forever. Allah is well pleased with them, and they are well pleased with Him. That (reward) is for him who has awe of his Lord.

ظاہر و باطن میں سچے: جو لوگ اعتقادًا اور قولًا و عملًا سچے رہے ہیں (جیسے حضرت مسیحؑ) ان کی سچائی کا پھل آج ملے گا۔
بڑی کامیابی حق تعالیٰ کی رضا ہے اور جنت بھی اسی لئے مطلوب ہے کہ وہ محل رضائے الہٰی ہے۔

God says, ‘This, namely, the Day of Resurrection, is the day those who were truthful, in the world, like Jesus, shall profit by their truthfulness, because this is the Day of Requital. Theirs will be Gardens underneath which rivers flow, wherein they shall abide forever. God is well-pleased with them, because of their obedience to Him, and they are well-pleased with Him, with His reward — that is the great triumph’. The sincerity of those who were liars in this world shall not avail them on that Day, just as [it shall not avail] the disbelievers when they believe upon seeing the chastisement.
*******************************************

وَالسّٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهٰجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّٰتٍ تَجرى تَحتَهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۚ ذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ {9:100}؛
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے

As for the first and foremost of the Emigrants (Muhājirīn) and the Supporters (AnSār) and those who followed them in goodness, Allah is pleased with them and they are pleased with Allah, and He has prepared for them gardens beneath which rivers flow, where they will live for ever. That is the supreme achievement.

سابقین اولین کے فضائل: "اعراب مومنین" کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ زعماء و اعیان مومنین کا کچھ ذکر کیا جائے۔ یعنی جن مہاجرین نے ہجرت میں سبقت و اولیت کا شرف حاصل کیا اور جن انصار نے نصرت و اعانت میں پہل کی غرض جن لوگوں نے قبول حق اور خدمت اسلام میں جس قدر آگے بڑھ بڑھ کر حصے لئے پھر جو لوگ نیکوکاری اور حسن نیت سے ان پیش روان اسلام کی پیروی کرتے رہے ان سب کو درجہ بدرجہ خدا کی خوشنودی اور حقیقی کامیابی حاصل ہو چکی۔ جیسےانہوں نے پوری خوش دلی اور انشراح قلب کے ساتھ حق تعالیٰ کے احکام تشریعی اور قضاء تکوینی کے سامنے گردنیں جھکا دیں اسی طرح خدا نے ان کو اپنی رضاء و خوشنودی کا پروانہ دے کر غیر محدود انعام و اکرام سے سرفراز فرمایا۔ (تنبیہ) مفسرین سلف کے اقوال { اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ } کے تعین میں مختلف ہیں بعض نے کہا ہے کہ وہ مہاجرین و انصار مراد ہیں جو ہجرت سے پہلے مشرف با سلام ہوئے۔ بعض کے نزدیک وہ مراد ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں (کعبہ و بیت المقدس) کی طرف نماز پڑھی۔بعض کہتے ہیں کہ جنگ بدر تک کے مسلمان "سابقین اولین" ہیں۔ بعض حدیبیہ تک اسلام لانے والوں کو اس کا مصداق قرار دیتے ہیں اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ تمام مہاجرین و انصار اطراف کے مسلمانوں اور پیچھے آنے والی نسلوں کے اعتبار سے "سابقین اولین" ہیں۔ ہمارے نزدیک ان اقوال میں چنداں تعارض نہیں "سبقت" و "اولیت" اضافی چیزیں ہیں۔ ایک ہی شخص یا جماعت کسی کے اعتبار سے سابق اور دوسرے کی نسبت سے لاحق بن سکتی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے "فائدہ" میں اشارہ کیا۔ جو شخص یا جماعت جس درجہ میں سابق و اول ہو گی اسی قدر رضائے الہٰی اور حقیقی کامیابی سے حصہ پائے گی۔ کیونکہ سبقت و اولیت کی طرح رضاء و کامیابی کے بھی مدارج بہت سے ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

And the first to lead the way, of the Emigrants and the Helpers, namely, those who were present at [the battle of] Badr, or [it means] all the Companions, and those who follow them, up to the Day of Resurrection, by being virtuous, in deeds, God will be pleased with them, for their obedience of Him, and they will be pleased with Him, for His reward [to them]; and He has prepared for them Gardens — with rivers flowing beneath them (a variant reading adds min [min tahtihā, ‘beneath which’]) — to abide therein forever: that is the supreme triumph.
***********************************************

لا تَجِدُ قَومًا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ يُوادّونَ مَن حادَّ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَلَو كانوا ءاباءَهُم أَو أَبناءَهُم أَو إِخوٰنَهُم أَو عَشيرَتَهُم ۚ أُولٰئِكَ كَتَبَ فى قُلوبِهِمُ الإيمٰنَ وَأَيَّدَهُم بِروحٍ مِنهُ ۖ وَيُدخِلُهُم جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها ۚ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ ۚ أُولٰئِكَ حِزبُ اللَّهِ ۚ أَلا إِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ المُفلِحونَ {58:22}؛
جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے۔ (اور) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے

You will not find those who believe in Allah and in the Hereafter having friendship with those who oppose Allah and His Messenger, even though they may be their fathers or their sons or their brothers or their clan. They are such that Allah has inscribed faith on their hearts, and has supported them with a spirit from Him. He will admit them to gardens beneath which rivers flow, in which they will live forever. Allah is pleased with them, and they are pleased with Allah. Those are the party of Allah. Be assured that it is (the members of) the party of Allah that are the successful.

اللہ کا گروہ
 یعنی ایمان ان کے دلوں میں جما دیا اور پتھر کی لکیر کی طرح ثبت کردیا۔
یعنی غیبی نور عطا فرمادیا جس سے قلب کو ایک خاص قسم کی معنوی حیات ملتی ہے یا روح القدوس (جبریلؑ) سے ان کی مدد فرمائی۔
یعنی یہ لوگ اللہ کے واسطے سب سے ناراض ہوئے تو اللہ ان سے راضی ہوا۔ پھر جس سے اللہ راضی ہو اسے اور کیا چاہیئے۔
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔ "یعنی جو دوستی نہیں رکھتے اللہ کے مخالف سے اگرچہ باپ بیٹے ہوں وہ ہی سچے ایمان والے ہیں۔ ان کو یہ درجے ملتے ہیں"۔ صحابہؓ کی شان یہ ہی تھی کہ اللہ و رسول کے معاملہ میں کسی چیز اور کسی شخص کی پروا نہیں کی، اسی سلسلہ میں ابو عبیدہؓ نے اپنے باپ کو قتل کردیا۔ جنگ "احد" میں ابوبکر صدیقؓ اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے مقابلہ میں نکلنے کو تیار ہوگئے، مصعبؓ بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو، عمرؓ بن الخطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، علیؓ بن ابی طالب، حمزہ، عبیدۃ بن الحارث نے اپنے اقارب عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ نے جو مخلص مسلمان تھے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر آپ حکم دیں تو اپنے باپ کا سر کاٹ کر خدمت میں حاضر کروں۔ آپﷺ نے منع فرمادیا۔ فرضی اللہ تعالٰی عنہم ورضو اعنہ ورزقنا اللہ جہم واتباعہم واماتناعلیہ۔ آمین۔ تم سورۃ المجادلۃ فللّٰہ الحمد والمنہ۔

You will not find a people who believe in God and the Last Day loving, befriending, those who oppose God and His Messenger, even though they, the opposers, were their fathers, that is to say, the believers’ [fathers], or their sons or their brothers or their clan, rather [you will find that] they intend to do them harm and they fight them over [the question of] faith, as occurred on one occasion with some Companions, may God be pleased with them. [For] those, the ones who are not loving of them, He has inscribed, He has established, faith upon their hearts and reinforced them with a spirit, a light, from Him, exalted be He, and He will admit them into gardens underneath which rivers flow, wherein they will abide, God being pleased with them, for their obedience of Him, and they being pleased with Him, because of His reward. Those [they] are God’s confederates, following His command and refraining from what He has forbidden. Assuredly it is God’s confederates who are the successful, the winners.

**************************************************

إِنَّ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ أُولٰئِكَ هُم خَيرُ البَرِيَّةِ {98:7} جَزاؤُهُم عِندَ رَبِّهِم جَنّٰتُ عَدنٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۖ  رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ ۚ ذٰلِكَ لِمَن خَشِىَ رَبَّهُ {98:8}؛
(اور) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ تمام خلقت سے بہتر ہیں
ان کا صلہ ان کے پروردگار کے ہاں ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ابدالاباد ان میں رہیں گے۔ خدا ان سے خوش اور وہ اس سے خوش۔ یہ (صلہ) اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا رہا

As for those who believed and did righteous deeds, they are the best of all human beings. Their reward, with their Lord, is gardens of eternity beneath which rivers flow, in which they will be abiding forever. Allah is well pleased with them, and they are well pleased with Him. That (reward) is for him who has awe of his Lord.

صالح مومنین مخلوق میں سب سے بہتر ہیں: یعنی جو لوگ سب رسولوں اور کتابوں پر یقین لائے اور بھلے کاموں میں لگے رہے وہی بہترین خلائق ہیں حتّٰی کہ ان میں کے بعض افراد بعض فرشتوں سے آگے نکل جاتے ہیں۔
اللہ کی رضا جنّت سے بھی بڑی نعمت ہے: یعنی جنّت کے باغوں اور نہروں سے بڑھ کر رضا مولٰی کی دولت ہے۔ بلکہ جنت کی تمام نعمتوں کی اصلی روح یہی ہے۔
یہ نعمت اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے ہے: یعنی یہ مقام بلند ہر ایک کو نہیں ملتا۔ صرف ان بندوں کا حصّہ ہے جو اپنے رب کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں، اور اس کی نافرمانی کے پاس نہیں جاتے۔

Their reward with their Lord will be Gardens of Eden, as a residence, underneath which rivers flow, wherein they shall abide forever. God is pleased with them, because of [their] obedience of Him, and they are pleased with Him, because of His reward. That is [the reward] for him who fears his Lord, [for him] who fears His punishment and hence desists from disobeying Him, exalted be He.
=================================================================
وَمِنَ النّاسِ مَن يَشرى نَفسَهُ ابتِغاءَ مَرضاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءوفٌ بِالعِبادِ {2:207}؛
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں پر بہت مہربان ہے
پہلی آیت میں اس منافق کا ذکر تھا جو دین کے بدلے دنیا لیتا تھا اس کے مقابلے میں اب اس آیت میں اس مخلص کامل الایمان کا ذکر ہے جو دنیا اور جان و مال کو طلب دین میں صرف کرتا ہے ۔ کہتے ہیں حضرت صہیب رومیؓ با ارادہ ہجرت آپ ﷺ کی خدمت میں آتے تھے ۔ رستہ میں مشرکین نے ان کو گھیر لیا صہیبؓ نے کہا کہ میں اپنا گھر اور تمام مال تم کو اس شرط پر دیتا ہوں کہ مجھ کو مدینہ جانے دو اور ہجرت سے نہ روکو اس پر وہ راضی ہو گئے اور صہیبؓ آپ ﷺ کی خدمت میں چلے گئے اس پر یہ آیت مخلصین کی تعریف میں نازل ہوئی۔
اُس کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ اپنے بندوں کو توفیق دی جو اس کی خوشی میں اپنی جان اور مال حاضر کر دیتے ہیں نیز ہر ایک کی جان و مال تو اللہ کی مِلک ہے پھر جنت کے بدلے اس کو خریدنا یہ محض اس کا احسان ہے۔


وَمَثَلُ الَّذينَ يُنفِقونَ أَموٰلَهُمُ ابتِغاءَ مَرضاتِ اللَّهِ وَتَثبيتًا مِن أَنفُسِهِم كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبوَةٍ أَصابَها وابِلٌ فَـٔاتَت أُكُلَها ضِعفَينِ فَإِن لَم يُصِبها وابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ {2:265}
اور جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو(جب) اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے۔ اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے
زور کے مینہ سے مراد بہت مال خرچ کرنا اور پھوار سے مراد تھوڑا مال خرچ کرنا اور دلوں کو ثابت کرنے سے مراد یہ ہے کہ ثابت کریں دلوں کو ثواب پانے میں یعنی ان کو یقین ہے کہ خیرات کا ثواب ضرور ملے گا سو اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنے میں بہت ثواب ملے گا اور تھوڑی خیرات میں بھی فائدہ ہوگا جیسے خالص زمیں پر باغ ہے تو جتنا مینہ برسے گا اتنا ہی باغ کو فائدہ پہنچے گا اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے اتنا ہی مال ضائع ہو گا اور نقصان پہنچے گا کیونکہ زیادہ مال دینے میں ریا اور دکھاوا بھی زیادہ ہو گا ۔ جیسا پتھر پر دانہ اگے گا تو جتنا زور کا مینہ برسے گا اتنا ہی ضرر زیادہ ہو گا۔


قُل أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيرٍ مِن ذٰلِكُم ۚ لِلَّذينَ اتَّقَوا عِندَ رَبِّهِم جَنّٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها وَأَزوٰجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضوٰنٌ مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ بَصيرٌ بِالعِبادِ {3:15}
(اے پیغمبر ان سے) کہو کہ بھلا میں تم کو ایسی چیز بتاؤں جو ان چیزوں سے کہیں اچھی ہو (سنو) جو لوگ پرہیزگار ہیں ان کے لیے خدا کے ہاں باغات (بہشت) ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ عورتیں ہیں اور (سب سے بڑھ کر) خدا کی خوشنودی اور خدا (اپنے نیک) بندوں کو دیکھ رہا ہے



أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضوٰنَ اللَّهِ كَمَن باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأوىٰهُ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئسَ المَصيرُ {3:162}
بھلا جو شخص خدا کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح(مرتکب خیانت) ہوسکتا ہے جو خدا کی ناخوشی میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اور وہ برا ٹھکانا ہے
یعنی جو پیغمبر ہر حال میں خدا کی مرضی کا تابع بلکہ دوسروں کو بھی اس کی مرضی کا تابع بنانا چاہتا ہے، کیا ان لوگوں کے ایسے کام کر سکتا ہے جو خدا کے غضب کے نیچے اور دوزخ کے مستحق ہیں؟ ممکن نہیں۔



لا خَيرَ فى كَثيرٍ مِن نَجوىٰهُم إِلّا مَن أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَو مَعروفٍ أَو إِصلٰحٍ بَينَ النّاسِ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ ابتِغاءَ مَرضاتِ اللَّهِ فَسَوفَ نُؤتيهِ أَجرًا عَظيمًا {4:114}
ان لوگوں کی بہت سی مشورتیں اچھی نہیں ہاں (اس شخص کی مشورت اچھی ہوسکتی ہے) جو خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرنے کو کہے اور جو ایسے کام خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے
منافق اور حیلہ گر آ کر آپ سے کان میں باتیں کرتے تاکہ لوگوں میں اپنا اعتبار بڑھائیں اور مجلس میں بیٹھ کر آپس میں بیہودہ سرگوشی کیا کرتے کسی کی عیب جوئی کسی کی غیبت کسی کی شکایت کرتے اس پر ارشاد ہوا کہ جو لوگ باہم کانوں میں مشورت کرتے ہیں اکثر مشورے خیر سے خالی ہوتے ہیں صاف اور سچی بات کو چھپانے کی حاجت نہیں نہ اُس میں کوئی فریب ہوتا ہے البتہ چھپاوے تو صدقہ اور خیرات کی بات کو چھپائے تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو یا کسی ناواقف کو غلطی سے بچائے اور اس کو اچھی بات اور صحیح مسئلہ بتائے تو چھپا کر بتائے تاکہ اس کو ندامت نہ ہو یا دو میں لڑائی ہو اور غصہ والا جوش میں صلح نہیں کرتا تو اول کوئی تدبیر بنا کر پھر اس کو سمجھائے حتٰی کہ توریہ کی بھی اجازت ہے۔ آخر میں فرما دیا کہ جو کوئی امور مذکورہ کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کرے گا اس کو بڑا عظیم الشان ثواب عنایت ہو گا یعنی ریاکاری یا کسی اور غرض دنیاوی کے لئے نہ ہونا چاہئے۔



يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُحِلّوا شَعٰئِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهرَ الحَرامَ وَلَا الهَدىَ وَلَا القَلٰئِدَ وَلا ءامّينَ البَيتَ الحَرامَ يَبتَغونَ فَضلًا مِن رَبِّهِم وَرِضوٰنًا ۚ وَإِذا حَلَلتُم فَاصطادوا ۚ وَلا يَجرِمَنَّكُم شَنَـٔانُ قَومٍ أَن صَدّوكُم عَنِ المَسجِدِ الحَرامِ أَن تَعتَدوا ۘ وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ {5:2}
مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت الله) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے



حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ وَالمُنخَنِقَةُ وَالمَوقوذَةُ وَالمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطيحَةُ وَما أَكَلَ السَّبُعُ إِلّا ما ذَكَّيتُم وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَستَقسِموا بِالأَزلٰمِ ۚ ذٰلِكُم فِسقٌ ۗ اليَومَ يَئِسَ الَّذينَ كَفَروا مِن دينِكُم فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونِ ۚ اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلٰمَ دينًا ۚ فَمَنِ اضطُرَّ فى مَخمَصَةٍ غَيرَ مُتَجانِفٍ لِإِثمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ {5:3}
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے



يَهدى بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضوٰنَهُ سُبُلَ السَّلٰمِ وَيُخرِجُهُم مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلَى النّورِ بِإِذنِهِ وَيَهديهِم إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {5:16}
جس (قرآن) سے خدا اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے اور اپنے حکم سے اندھیرے میں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا اور ان کو سیدھے رستہ پر چلاتا ہے






وَعَدَ اللَّهُ المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فى جَنّٰتِ عَدنٍ ۚ وَرِضوٰنٌ مِنَ اللَّهِ أَكبَرُ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ {9:72}
خدا نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے بہشتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بہشت ہائے جاودانی میں نفیس مکانات کا (وعدہ کیا ہے) اور خدا کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے یہی بڑی کامیابی ہے
یعنی تمام نعمائے دنیوی و اخروی سے بڑھ کر حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ جنت بھی اسی لئے مطلوب ہے کہ وہ رضائے الہٰی کا مقام ہے۔ حق تعالیٰ مومنین کو جنت میں ہر قسم کی جسمانی و روحانی نعمتیں اور مسرتیں عطا فرمائے گا۔ مگر سب سے بڑی نعمت محبوب حقیقی کی دائمی رضا ہو گی۔ حدیث صحیح میں ہے کہ حق تعالیٰ اہل جنت کو پکارے گا جنتی "لبیک" کہیں گے۔ دریافت فرمائے گا { ھَلْ رَضِیْتُمْ } یعنی اب تم خوش ہو گئے ۔ جواب دیں گے کہ پروردگار ! خوش نہ ہونے کی کیا وجہ؟ جبکہ آپ نے ہم پر انتہائی انعام فرمایا ہے ۔ ارشاد ہو گا { ھَلْ اُعْطِیْکُمْ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ } یعنی جو کچھ اب تک دیا گیا ہے کیا اس سے بڑھ کر ایک چیز لینا چاہتے ہو؟ جنتی سوال کریں گے کہ اے پروردگار ! اس سے افضل اور کیا چیز ہو گی؟ اس وقت فرمائیں گے { اُحِلَّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِی فَلَا اَسْخَطُ عَلَیْکُمْ بَعْدَہٗ اَبَدًا } اپنی دائمی رضا اور خوشنودی تم پر اتارتا ہوں جس کے بعد کبھی خفگی اور ناخوشی نہ ہو گی { رزقنا اللہ وسائر المومنین ھذہ الکرامۃ العظیمۃ الباھیرۃ }۔





وَكانَ يَأمُرُ أَهلَهُ بِالصَّلوٰةِ وَالزَّكوٰةِ وَكانَ عِندَ رَبِّهِ مَرضِيًّا {19:55}
اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰة کا حکم کرتے تھے اور اپنے پروردگار کے ہاں پسندیدہ (وبرگزیدہ) تھے
کیونکہ گھر والے قریب ہونے کی وجہ سے ہدایت کے اول مستحق ہیں۔ ان سے آگے کو سلسلہ چلتا ہے۔ اسی لئے دوسری جگہ فرمایا { وَأمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا } (طٰہ رکوع۸) اور { یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓ اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا } (تحریم رکوع۱) خود نبی کریم ﷺ کو بھی یہ ہی ارشاد ہوا۔ { وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَ قْرَبِیْنَ} (شعراء رکوع۱۱) بعض کہتے ہیں کہ یہاں "اہل" سے ان کی ساری قوم مراد ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعودؓ کے مصحف میں "اَہْلَہ" کی جگہ "قومَہٗ" تھا ۔ واللہ اعلم۔
یعنی دوسروں کو ہدایت کرنا اور خود اپنے اقوال و افعال میں پسندیدہ مستقیم الحال اور مرضی الخصال تھا۔

قالَ هُم أُولاءِ عَلىٰ أَثَرى وَعَجِلتُ إِلَيكَ رَبِّ لِتَرضىٰ {20:84}
کہا وہ میرے پیچھے (آ رہے) ہیں اور اے پروردگار میں نے تیری طرف (آنے کی) جلدی اس لئے کی کہ تو خوش ہو
حضرت موسٰیؑ حسب وعدہ نہایت اشتیاق کے ساتھ کوہ طور پہنچے۔ شاید قوم کے بعض نقباء کو بھی ہمراہ لیجانے کا حکم ہو گا۔ وہ ذرا پیچھے رہ گئے۔ حضرت موسٰیؑ شوق میں آگے بڑھے چلے گئے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا موسٰیؑ! ایسی جلدی کیوں کی کہ قوم کو پیچھے چھوڑ آئے ۔ عرض کیا کہ اے پروردگار ! تیری خوشنودی کے لئے جلد حاضر ہو گیا اور قوم بھی کچھ زیادہ دور نہیں یہ میرے پیچھے چلی آ رہی ہے ۔ کذا فی التفاسیر ویحتمل غیر ذٰلک واللہ اعلم۔


إِن تَكفُروا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ عَنكُم ۖ وَلا يَرضىٰ لِعِبادِهِ الكُفرَ ۖ وَإِن تَشكُروا يَرضَهُ لَكُم ۗ وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرىٰ ۗ ثُمَّ إِلىٰ رَبِّكُم مَرجِعُكُم فَيُنَبِّئُكُم بِما كُنتُم تَعمَلونَ ۚ إِنَّهُ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدورِ {39:7}
اگر ناشکری کرو گے تو خدا تم سے بےپروا ہے۔ اور وہ اپنے بندوں کے لئے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر شکر کرو گے تو وہ اس کو تمہارے لئے پسند کرے گا۔ اور کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے وہ تم کو بتائے گا۔ وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں تک سے آگاہ ہے



لَقَد رَضِىَ اللَّهُ عَنِ المُؤمِنينَ إِذ يُبايِعونَكَ تَحتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ ما فى قُلوبِهِم فَأَنزَلَ السَّكينَةَ عَلَيهِم وَأَثٰبَهُم فَتحًا قَريبًا {48:18}
(اے پیغمبر) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا۔ اور جو (صدق وخلوص) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا۔ تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی
وہ کیکر کا درخت تھا حُدیبیہ میں۔ غالبًا { لَقَدْ رَضِی اللہُ } فرمانے کی وجہ سے اسی بیعت کو "بیعت الرضوان" کہتے ہیں۔ شروع سورت میں اس کا مفصل قصہ گذر چکا۔
یعنی ظاہر کا اندیشہ اور دل کا توکل، حسن نیت، صدق و اخلاص اور حُب اسلام وغیرہ۔ عمومًا مفسرین نے { مَافِیْ قُلُوْبِھِمْ } سے یہ ہی مراد لیا ہے۔ مگر ابو حیان کہتے ہیں کہ صلح اور شرائط صلح کی طرف سے دلوں میں جو رنج و اضطراب تھا وہ مراد ہے اور آگے { فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ } اس پر زیادہ چسپاں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔


مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم ۖ تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا ۖ سيماهُم فى وُجوهِهِم مِن أَثَرِ السُّجودِ ۚ ذٰلِكَ مَثَلُهُم فِى التَّورىٰةِ ۚ وَمَثَلُهُم فِى الإِنجيلِ كَزَرعٍ أَخرَجَ شَطـَٔهُ فَـٔازَرَهُ فَاستَغلَظَ فَاستَوىٰ عَلىٰ سوقِهِ يُعجِبُ الزُّرّاعَ لِيَغيظَ بِهِمُ الكُفّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنهُم مَغفِرَةً وَأَجرًا عَظيمًا {48:29}
محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے





لِلفُقَراءِ المُهٰجِرينَ الَّذينَ أُخرِجوا مِن دِيٰرِهِم وَأَموٰلِهِم يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا وَيَنصُرونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ ۚ أُولٰئِكَ هُمُ الصّٰدِقونَ {59:8}
(اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دیئے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں۔ یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں
یعنی یوں تو اس مال سے عام مسلمانوں کی ضروریات و حوائج متعلق ہیں لیکن خصوصی طور پر ان ایثار پیشہ جاں نثاروں اور سچے مسلمانوں کا حق مقدم ہے جنہوں نے محض اللہ کی خوشنودی اور رسول کی محبت و اطاعت میں اپنے گھر بار اور مال و دولت سب کو خیر باد کہا اور بالکل خالی ہاتھ ہو کر وطن سے نکل آئے تا اللہ و رسول کے کاموں میں آزادا نہ مدد کرسکیں۔

===========================================================
يَحلِفونَ بِاللَّهِ لَكُم لِيُرضوكُم وَاللَّهُ وَرَسولُهُ أَحَقُّ أَن يُرضوهُ إِن كانوا مُؤمِنينَ {9:62}
مومنو! یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کر دیں۔ حالانکہ اگر یہ (دل سے) مومن ہوتے تو خدا اور اس کے پیغمبر خوش کرنے کے زیادہ مستحق ہیں
حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ "کسی وقت حضرت ان کی دغابازی پکڑتے تو مسلمانوں کے روبرو قسمیں کھاتےکہ ہمارے دل میں بری نیت نہ تھی ۔ تاکہ ان کو راضی کر کے اپنی طرف کر لیں۔ نہ سمجھے کہ یہ فریب بازی خدا اور رسول کے ساتھ کام نہیں آتی" اگر دعوئے ایمان میں واقعی سچے ہیں تو دوسروں کو چھوڑ کر خدا و رسول کو راضی کرنے کی فکر کریں۔

يَحلِفونَ لَكُم لِتَرضَوا عَنهُم ۖ فَإِن تَرضَوا عَنهُم فَإِنَّ اللَّهَ لا يَرضىٰ عَنِ القَومِ الفٰسِقينَ {9:96}
یہ تمہارے آگے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے خوش ہو جاؤ لیکن اگر تم اُن سے خوش ہو جاؤ گے تو خدا تو نافرمان لوگوں سے خوش نہیں ہوتا
بڑی کوشش یہ ہے کہ مکروفریب اور کذب و دروغ سے مسلمانوں کو خوش کر لیں فرض کیجئے اگر چکنی چپڑی باتوں سے مخلوق راضی ہو جائے تو کیا نفع پہنچ سکتا ہے جبکہ خدا ان سے راضی نہ ہو ۔ خدا کے آگے تو کوئی چالاکی اور دغابازی نہیں چل سکتی۔ گویا متنبہ فرما دیا کہ جس قوم سے خدا راضی نہ ہو کوئی مومن قانت کیسے راضی ہو سکتا ہے۔ لہذا جھوٹی باتوں سے پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کو خوش کر لینے کا خبط انہیں دماغوں سے نکال دینا چاہئے اگر ان کے ساتھ تغافل و اعراض کا معاملہ کیا گیا ہے تو یہ اس کی دلیل نہیں کہ مسلمان ان سے خوش اور مطمئن ہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "جس شخص کا حال معلوم ہو کہ منافق ہے اس کی طرف سے تغافل روا ہے ۔ لیکن دوستی اور محبت و یگانگت روا نہیں"۔

No comments:

Post a Comment