=
============
وَالسّٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهٰجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّٰتٍ تَجرى تَحتَهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۚ ذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ {9:100} |
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے |
"اعراب مومنین" کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ زعماء و اعیان مومنین کا کچھ ذکر کیا جائے۔ یعنی جن مہاجرین نے ہجرت میں سبقت و اولیت کا شرف حاصل کیا اور جن انصار نے نصرت و اعانت میں پہل کی غرض جن لوگوں نے قبول حق اور خدمت اسلام میں جس قدر آگے بڑھ بڑھ کر حصے لئے پھر جو لوگ نیکوکاری اور حسن نیت سے ان پیش روان اسلام کی پیروی کرتے رہے ان سب کو درجہ بدرجہ خدا کی خوشنودی اور حقیقی کامیابی حاصل ہو چکی۔ جیسےانہوں نے پوری خوش دلی اور انشراح قلب کے ساتھ حق تعالیٰ کے احکام تشریعی اور قضاء تکوینی کے سامنے گردنیں جھکا دیں اسی طرح خدا نے ان کو اپنی رضاء و خوشنودی کا پروانہ دے کر غیر محدود انعام و اکرام سے سرفراز فرمایا۔ (تنبیہ) مفسرین سلف کے اقوال { اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ } کے تعین میں مختلف ہیں بعض نے کہا ہے کہ وہ مہاجرین و انصار مراد ہیں جو ہجرت سے پہلے مشرف با سلام ہوئے۔ بعض کے نزدیک وہ مراد ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں (کعبہ و بیت المقدس) کی طرف نماز پڑھی۔بعض کہتے ہیں کہ جنگ بدر تک کے مسلمان "سابقین اولین" ہیں۔ بعض حدیبیہ تک اسلام لانے والوں کو اس کا مصداق قرار دیتے ہیں اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ تمام مہاجرین و انصار اطراف کے مسلمانوں اور پیچھے آنے والی نسلوں کے اعتبار سے "سابقین اولین" ہیں۔ ہمارے نزدیک ان اقوال میں چنداں تعارض نہیں "سبقت" و "اولیت" اضافی چیزیں ہیں۔ ایک ہی شخص یا جماعت کسی کے اعتبار سے سابق اور دوسرے کی نسبت سے لاحق بن سکتی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے "فائدہ" میں اشارہ کیا۔ جو شخص یا جماعت جس درجہ میں سابق و اول ہو گی اسی قدر رضائے الہٰی اور حقیقی کامیابی سے حصہ پائے گی۔ کیونکہ سبقت و اولیت کی طرح رضاء و کامیابی کے بھی مدارج بہت سے ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ |
****************************
لا تَجِدُ قَومًا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ يُوادّونَ مَن حادَّ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَلَو كانوا ءاباءَهُم أَو أَبناءَهُم أَو إِخوٰنَهُم أَو عَشيرَتَهُم ۚ أُولٰئِكَ كَتَبَ فى قُلوبِهِمُ الإيمٰنَ وَأَيَّدَهُم بِروحٍ مِنهُ ۖ وَيُدخِلُهُم جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها ۚ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ ۚ أُولٰئِكَ حِزبُ اللَّهِ ۚ أَلا إِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ المُفلِحونَ {58:22} |
جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے۔ (اور) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے۔
اللہ کا گروہ:
|
یعنی ایمان ان کے دلوں میں جما دیا اور پتھر کی لکیر کی طرح ثبت کردیا۔ |
یعنی غیبی نور عطا فرمادیا جس سے قلب کو ایک خاص قسم کی معنوی حیات ملتی ہے یا روح القدوس (جبریلؑ) سے ان کی مدد فرمائی۔ |
یعنی یہ لوگ اللہ کے واسطے سب سے ناراض ہوئے تو اللہ ان سے راضی ہوا۔ پھر جس سے اللہ راضی ہو اسے اور کیا چاہیئے۔ |
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔ "یعنی جو دوستی نہیں رکھتے اللہ کے مخالف سے اگرچہ باپ بیٹے ہوں وہ ہی سچے ایمان والے ہیں۔ ان کو یہ درجے ملتے ہیں"۔ صحابہؓ کی شان یہ ہی تھی کہ اللہ و رسول کے معاملہ میں کسی چیز اور کسی شخص کی پروا نہیں کی، اسی سلسلہ میں ابو عبیدہؓ نے اپنے باپ کو قتل کردیا۔ جنگ "احد" میں ابوبکر صدیقؓ اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے مقابلہ میں نکلنے کو تیار ہوگئے، مصعبؓ بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو، عمرؓ بن الخطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، علیؓ بن ابی طالب، حمزہ، عبیدۃ بن الحارث نے اپنے اقارب عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ نے جو مخلص مسلمان تھے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر آپ حکم دیں تو اپنے باپ کا سر کاٹ کر خدمت میں حاضر کروں۔ آپﷺ نے منع فرمادیا۔ فرضی اللہ تعالٰی عنہم ورضو اعنہ ورزقنا اللہ جہم واتباعہم واماتناعلیہ۔ آمین۔ تم سورۃ المجادلۃ فللّٰہ الحمد والمنہ۔ |
**************************
=============================
وَمِنَ النّاسِ مَن يَشرى نَفسَهُ ابتِغاءَ مَرضاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءوفٌ بِالعِبادِ {2:207} |
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی
حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں پر بہت مہربان ہے۔ |
پہلی آیت میں اس منافق کا ذکر تھا جو دین کے بدلے دنیا لیتا تھا اس کے مقابلے میں اب اس آیت میں اس مخلص کامل الایمان کا ذکر ہے جو دنیا اور جان و مال کو طلب دین میں صرف کرتا ہے ۔ کہتے ہیں حضرت صہیب رومیؓ با ارادہ ہجرت آپ ﷺ کی خدمت میں آتے تھے ۔ رستہ میں مشرکین نے ان کو گھیر لیا صہیبؓ نے کہا کہ میں اپنا گھر اور تمام مال تم کو اس شرط پر دیتا ہوں کہ مجھ کو مدینہ جانے دو اور ہجرت سے نہ روکو اس پر وہ راضی ہو گئے اور صہیبؓ آپ ﷺ کی خدمت میں چلے گئے اس پر یہ آیت مخلصین کی تعریف میں نازل ہوئی۔ |
اُس کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ اپنے بندوں کو
توفیق دی جو اس کی خوشی میں اپنی جان اور مال حاضر کر دیتے ہیں نیز ہر ایک کی جان و
مال تو اللہ کی مِلک ہے پھر جنت کے بدلے اس کو خریدنا یہ محض اس کا احسان
ہے۔ |
وَمَثَلُ الَّذينَ يُنفِقونَ أَموٰلَهُمُ ابتِغاءَ مَرضاتِ اللَّهِ وَتَثبيتًا مِن أَنفُسِهِم كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبوَةٍ أَصابَها وابِلٌ فَـٔاتَت أُكُلَها ضِعفَينِ فَإِن لَم يُصِبها وابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ {2:265} |
اور جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو(جب) اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے۔ اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ |
زور کے مینہ سے مراد بہت مال خرچ کرنا اور
پھوار سے مراد تھوڑا مال خرچ کرنا اور دلوں کو ثابت کرنے سے مراد یہ ہے کہ ثابت
کریں دلوں کو ثواب پانے میں یعنی ان کو یقین ہے کہ خیرات کا ثواب ضرور ملے گا سو
اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنے میں بہت ثواب ملے گا اور تھوڑی خیرات میں بھی
فائدہ ہوگا جیسے خالص زمیں پر باغ ہے تو جتنا مینہ برسے گا اتنا ہی باغ کو فائدہ
پہنچے گا اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے اتنا ہی مال ضائع ہو گا اور
نقصان پہنچے گا کیونکہ زیادہ مال دینے میں ریا اور دکھاوا بھی زیادہ ہو گا ۔ جیسا
پتھر پر دانہ اگے گا تو جتنا زور کا مینہ برسے گا اتنا ہی ضرر زیادہ ہو گا۔ |
قُل أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيرٍ مِن ذٰلِكُم ۚ لِلَّذينَ اتَّقَوا عِندَ رَبِّهِم جَنّٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها وَأَزوٰجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضوٰنٌ مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ بَصيرٌ بِالعِبادِ {3:15} |
(اے پیغمبر ان سے) کہو کہ بھلا میں تم کو ایسی چیز بتاؤں جو ان چیزوں سے کہیں اچھی ہو (سنو) جو لوگ پرہیزگار ہیں ان کے لیے خدا کے ہاں باغات (بہشت) ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ عورتیں ہیں اور (سب سے بڑھ کر) خدا کی خوشنودی اور خدا (اپنے نیک) بندوں کو دیکھ رہا ہے |
أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضوٰنَ اللَّهِ كَمَن باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأوىٰهُ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئسَ المَصيرُ {3:162} |
بھلا جو شخص خدا کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح(مرتکب خیانت) ہوسکتا ہے جو خدا کی ناخوشی میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اور وہ برا ٹھکانا ہے |
یعنی جو پیغمبر ہر حال میں خدا کی مرضی کا تابع بلکہ دوسروں کو بھی اس کی مرضی کا تابع بنانا چاہتا ہے، کیا ان لوگوں کے ایسے کام کر سکتا ہے جو خدا کے غضب کے نیچے اور دوزخ کے مستحق ہیں؟ ممکن نہیں۔ |
لا خَيرَ فى كَثيرٍ مِن نَجوىٰهُم إِلّا مَن أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَو مَعروفٍ أَو إِصلٰحٍ بَينَ النّاسِ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ ابتِغاءَ مَرضاتِ اللَّهِ فَسَوفَ نُؤتيهِ أَجرًا عَظيمًا {4:114} |
ان لوگوں کی بہت سی مشورتیں اچھی نہیں ہاں (اس شخص کی مشورت اچھی ہوسکتی ہے) جو خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرنے کو کہے اور جو ایسے کام خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے |
منافق اور حیلہ گر آ کر آپ سے کان میں باتیں کرتے تاکہ لوگوں میں اپنا اعتبار بڑھائیں اور مجلس میں بیٹھ کر آپس میں بیہودہ سرگوشی کیا کرتے کسی کی عیب جوئی کسی کی غیبت کسی کی شکایت کرتے اس پر ارشاد ہوا کہ جو لوگ باہم کانوں میں مشورت کرتے ہیں اکثر مشورے خیر سے خالی ہوتے ہیں صاف اور سچی بات کو چھپانے کی حاجت نہیں نہ اُس میں کوئی فریب ہوتا ہے البتہ چھپاوے تو صدقہ اور خیرات کی بات کو چھپائے تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو یا کسی ناواقف کو غلطی سے بچائے اور اس کو اچھی بات اور صحیح مسئلہ بتائے تو چھپا کر بتائے تاکہ اس کو ندامت نہ ہو یا دو میں لڑائی ہو اور غصہ والا جوش میں صلح نہیں کرتا تو اول کوئی تدبیر بنا کر پھر اس کو سمجھائے حتٰی کہ توریہ کی بھی اجازت ہے۔ آخر میں فرما دیا کہ جو کوئی امور مذکورہ کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کرے گا اس کو بڑا عظیم الشان ثواب عنایت ہو گا یعنی ریاکاری یا کسی اور غرض دنیاوی کے لئے نہ ہونا چاہئے۔ |
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُحِلّوا شَعٰئِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهرَ الحَرامَ وَلَا الهَدىَ وَلَا القَلٰئِدَ وَلا ءامّينَ البَيتَ الحَرامَ يَبتَغونَ فَضلًا مِن رَبِّهِم وَرِضوٰنًا ۚ وَإِذا حَلَلتُم فَاصطادوا ۚ وَلا يَجرِمَنَّكُم شَنَـٔانُ قَومٍ أَن صَدّوكُم عَنِ المَسجِدِ الحَرامِ أَن تَعتَدوا ۘ وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ {5:2} |
مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت الله) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے |
حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ وَالمُنخَنِقَةُ وَالمَوقوذَةُ وَالمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطيحَةُ وَما أَكَلَ السَّبُعُ إِلّا ما ذَكَّيتُم وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَستَقسِموا بِالأَزلٰمِ ۚ ذٰلِكُم فِسقٌ ۗ اليَومَ يَئِسَ الَّذينَ كَفَروا مِن دينِكُم فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونِ ۚ اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلٰمَ دينًا ۚ فَمَنِ اضطُرَّ فى مَخمَصَةٍ غَيرَ مُتَجانِفٍ لِإِثمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ {5:3} |
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے |
يَهدى بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضوٰنَهُ سُبُلَ السَّلٰمِ وَيُخرِجُهُم مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلَى النّورِ بِإِذنِهِ وَيَهديهِم إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {5:16} |
جس (قرآن) سے خدا اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے اور اپنے حکم سے اندھیرے میں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا اور ان کو سیدھے رستہ پر چلاتا ہے |
|
No comments:
Post a Comment