وَإِذا قيلَ لَهُمُ اتَّبِعوا ما أَنزَلَ
اللَّهُ قالوا بَل نَتَّبِعُ ما أَلفَينا عَلَيهِ ءاباءَنا ۗ أَوَلَو كانَ
ءاباؤُهُملا يَعقِلونَ شَيـًٔا وَلا يَهتَدونَ
{2:170}؛
|
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو
(کتاب) الله نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی
چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ
دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اورنہ سیدھے رستے پر ہوں (تب بھی وہ انہیں کی پیروی کئے
جائیں گے)؛
And when it is said to them, the disbelievers, ‘Follow what God has revealed’, pertaining to affirmation of God’s Oneness and the good things that He has made lawful, they say, ‘No; but we follow what we found our fathers doing’, in the way of idol-worship, deeming unlawful the camel let loose, and [practising] the slitting of the camel’s ear (sc. bahīra). God says: What? (the hamza [of a-wa-law] is for repudiation), do they follow them, Even if their fathers do not understand anything, concerning religion, and they were not guided?, to the truth.
|
وَمَثَلُ الَّذينَ كَفَروا كَمَثَلِ الَّذى
يَنعِقُ بِما لا يَسمَعُ إِلّا دُعاءً وَنِداءً ۚ صُمٌّ بُكمٌ عُمىٌ فَهُم لا
يَعقِلونَ {2:171}؛
|
جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے
جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ سن نہ سکے۔ (یہ) بہرے ہیں
گونگے ہیں اندھے ہیں کہ (کچھ) سمجھ ہی نہیں سکتے۔
The likeness, the attribute, of those who disbelieve, and the one who calls them to guidance, is as the likeness of one who shouts to that which hears nothing, save a call and a cry, only a sound, not understanding its meaning: when they listen to an admonition they are like cattle that hear the cry of their shepherd but do not understand what he is saying; they are deaf, dumb, blind — they do not comprehend, any admonition.
|
وَإِذا نادَيتُم إِلَى الصَّلوٰةِ اتَّخَذوها هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم قَومٌ لا يَعقِلونَ {5:58}؛ |
اور جب تم لوگ نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو یہ اسے بھی ہنسی اور کھیل بناتے ہیں یہ اس لیے کہ سمجھ نہیں رکھتے |
And, those who, when you make the call to prayer, take it, that is, the prayer, in mockery and as a game, mocking it and laughing at it among themselves; that, [mocking] attitude, is because they are a people who do not understand.
یعنی جب اذان کہتے ہو تو اس سے جلتے ہیں اور
ٹھٹھا کرتےہیں جو ان کی کمال حماقت اور بےعقلی کی دلیل ہے۔ کلمات اذان میں خداوند
قدوس کی عظمت و کبریا کا اظہار، توحید کا اعلان، نبی کریم ﷺ جو تمام انبیاء سابقین
اور کتب سماویہ کے مصدق ہیں ان کی رسالت کا اقرار، نماز جو تمام اوضاع عبودیت کو
جامع اور غایت درجہ کی بندگی پر دال ہے اس کی طرف دعوت، فلاح دارین اور اعلیٰ سے
اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے کے لئے بلاوا ان چیزوں کےسوا اور کیا ہوتا ہے پھر ان میں
کون سی چیز ہے جو ہنسی اڑانے کے قابل ہو۔ ایسی نیکی اور حق و صداقت کی آواز پر
مسخرا پن کر نا اسی شخص کا کام ہو سکتا ہے جس کا دماغ عقل سے یکسر خالی ہو اور جسے
نیک و بد کی قطعًا تمیز باقی نہ رہے۔ بعض روایات میں ہے کہ مدینہ میں ایک نصرانی جب
اذان میں اشہد ان محمد رسول اللہ سنتا تو کہتا "قد حرق الکاذب" (جھوٹا جل گیا یا جل
جائے) اس کی نیت تو ان الفاظ سے جو کچھ ہو مگر یہ بات بالکل اس کے حسب حال تھی
کیونکہ وہ خبیث جھوٹا تھا اور اسلام کا عروج و شیوع دیکھ کر آتش حسد میں جل جاتا
تھا اتفاقًا ایک شب میں کوئی چھوکری آگ لے کر اس کے گھر میں آئی وہ اور اس کے اہل و
عیال سو رہے تھے ذرا سی چنگاری نادانستہ اس کےہاتھ سے گر گئ۔ جس سے سارا گھر مع
سونے والوں کےجل گیا۔ او اس طرح خدا نے دکھلا دیا کہ جھوٹے لوگ دوزخ کی آگ سے پہلے
ہی دنیا کی آگ میں کس طرح جل جاتے ہیں۔ اذان کےساتھ استہزاء کرنے کا ایک اور واقعہ
صحیح روایات میں منقول ہے وہ یہ کہ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ حنین سے واپس ہو رہے تھے۔
راستہ میں حضرت بلالؓ نےاذان کہی، چند نو عمر لڑکے جن میں ابو محذورہ بھی تھے۔ اذان
کی ہنسی اور نقل کرنے لگےآپ ﷺ نے سب کو پکڑ کر بلوایا۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ابو
محذورہ کے دل میں خدا نےاسلام ڈال دیا اور حضور ﷺ نے ان کو مکہ کا موذن مقرر فرما
دیا ۔ اس طرح خدا کی قدرت نقل سے اصل بن گئ۔
|
ما جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحيرَةٍ وَلا سائِبَةٍ وَلا وَصيلَةٍ وَلا حامٍ ۙ وَلٰكِنَّ الَّذينَ كَفَروا يَفتَرونَ عَلَى اللَّهِ الكَذِبَ ۖ وَأَكثَرُهُم لا يَعقِلونَ {5:103} |
الله نے نہ تو بحیرہ کچھ چیز بنایا ہے اور نہ
سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام بلکہ کافر الله پر جھوٹ افترا کرتے ہیں اور یہ اکثر
عقل نہیں رکھتے
God has not ordained, He has not stipulated [in His Law], anything such as a Bahīra, a Sā’iba, a Wasīla or a Hām, in the way that people did at the time of paganism. Al-Bukhārī reported [in a hadīth] from Sa‘īd b. al-Musayyab, who said: ‘The bahīra is that [camel] whose milk is consecrated to idols and whom no human may milk; the sā’iba is the one they would leave to roam freely for their gods and was forbidden to bear any load; the wasīla is the young she-camel that would give birth to a young female, as its first offspring, followed by another female, bearing one after the other without a male in between: she would then be left to roam freely for their idols; the hām is the mature male camel, which after completing a certain number of copulations with a female, would then be consigned to their idols and be exempt from bearing any load, and they would call it hāmī; but the disbelievers invent lies against God, in this matter, by attributing [the sanctioning of] such [practices] to Him; and most of them do not understand, that this is mendacity, for in this they have [merely] followed the example of their forefathers.
|
بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، حامی یہ سب زمانہ جاہلیت کے رسوم و شعائر سے متعلق ہیں۔ مفسرین نے ان کی تفسیر میں بہت اختلاف کیا ہے۔ ممکن ہے ان میں سے ہر ایک لفظ کا اطلاق مختلف صورتوں پر ہوتا ہو ہم صرف سعید بن المسیب کی تفسیر صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں۔ "بحیرہ" جس جانور کا دودھ بتوں کے نام کر دیتے تھے کوئی اپنے کام میں نہ لاتا تھا۔ "سائبہ" جو جانور بتوں کے نام پر ہمارے زمانہ کے سانڈھ کی طرح چھوڑ دیا جاتا تھا۔ "وصیلہ" جو اونٹنی مسلسل مادہ بچہ جنے درمیان میں نر بچہ پیدا نہ ہوا اسے بھی بتوں کےنام پر چھوڑ دیتے تھے۔ "حامی" نر اونٹ جو ایک خاص عدد سے جفتی کر چکا ہو اسے بھی بتوں کےنام پر چھوڑ تے تھے۔ علاوہ اس کے کہ یہ چیزیں شعائر شرک میں سے تھیں جس جانور کے گوشت یا دودھ یا سواری وغیرہ سے منتفع ہونےکو حق تعالیٰ نے جائز رکھا اس کی حلت و حرمت پر اپنی طرف سے قیود لگانا گویا اپنے لئے منصب تشریع تجویز کرنا تھا اور بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ اپنی ان مشرکانہ رسوم کو حق تعالیٰ کی خوشنودی اور قربت کا ذریعہ تصور کرتے تھے اس کا جواب دیا گیا کہ اللہ نے ہرگز یہ رسوم مقرر نہیں کیں۔ ان کے بڑوں نے خدا پر یہ بہتان باندھا اور اکثر بےعقل عوام نے اسے قبول کر لیا۔ الغرض یہاں تنبیہ کی گئ کہ جس طرح فضول و بیکار سوالات کر کے احکام شرعیہ میں تنگی اور سختی کرانا جرم ہے اس سےکہیں بڑھ کی یہ جرم ہے کہ بدون حکم شارع کےمحض اپنی آراء و اہواء سے حلال و حرام تجویز کر لئےجائیں۔ |
أَم تَحسَبُ أَنَّ أَكثَرَهُم يَسمَعونَ أَو يَعقِلونَ ۚ إِن هُم إِلّا كَالأَنعٰمِ ۖ بَل هُم أَضَلُّ سَبيلًا {25:44} |
یا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ان میں اکثر سنتے
یا سمجھتے ہیں (نہیں) یہ تو چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ
ہیں
Or do you suppose that most of them listen, listening so as to understand, or comprehend?, what you say to them? They are but as the cattle — nay, but they are further astray from the way, further from these [cattle] upon the path of misguidance, for at least they [cattle] yield to the person who looks after them, whereas these [disbelievers] do not obey their Master, Who is gracious to them.
|
وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن نَزَّلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَحيا بِهِ الأَرضَ مِن بَعدِ مَوتِها لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعقِلونَ {29:63} |
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس
نے نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد (کس نے) زندہ کیا تو کہہ دیں
گے کہ الله نے۔ کہہ دو کہ الله کا شکر ہے۔ لیکن ان میں اکثر نہیں سمجھتے
And if (wa-la-in: the lām is for oaths) you were to ask them, ‘Who sends down water from the heaven, and therewith revives the earth after its death?’ They would assuredly say, ‘God’: so how can they ascribe partners to Him?! Say, to them: ‘Praise be to God!’, that the proof has been established against you. Nay, but most of them do not realise, their contradictiousness in this respect.
|
یعنی مینہ بھی ہر کسی پر برابر نہیں برستا۔ اور اسی طرح حال بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ذرا دیر میں مفلس سے دولتمند کر دے۔ |
وَمَن نُعَمِّرهُ نُنَكِّسهُ فِى الخَلقِ ۖ أَفَلا يَعقِلونَ {36:68} |
اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں تو اسے خلقت
میں اوندھا کردیتے ہیں تو کیا یہ سمجھتے نہیں؟
And whomever We give long life, by prolonging his term [of life], We cause him to regress (nankushu; a variant reading has [2nd verbal form] nunakkishu, derived from al-tankīs) in creation, that is, in terms of his physical form, so that after having enjoyed strength and youth, he becomes feeble and decrepit. Will they then not understand?, that One Who is able to effect such [a state] — with which they are familiar — is also able to resurrect, that they might then become believers? (a variant reading [for ya‘qilūna, ‘they understand’] has [the second person plural] ta‘qilūna, ‘you understand’).
|
یعنی آنکھیں چھین لینا اور صورت بگاڑ کر اپاہج بنا دینا کچھ مستبعد مت سمجھو۔ دیکھتے نہیں؟ ایک تندرست اور مضبوط آدمی زیادہ بوڑھا ہو کر کس طرح دیکھنے، سننے اور چلنے پھرنے سے معذور کر دیا جاتا ہے۔ گویا بچپن میں جیسا کمزور و ناتواں اور دوسروں کے سہارے کا محتاج تھا بڑھاپے میں پھر اسی حالت کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے۔ تو کیا جو خدا پیرانہ سالی کی حالت میں ان کی قوتیں سلب کر لیتا ہے، جوانی میں نہیں کر سکتا؟ |
أَمِ اتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ شُفَعاءَ ۚ قُل أَوَلَو كانوا لا يَملِكونَ شَيـًٔا وَلا يَعقِلونَ {39:43} |
کیا انہوں نے خدا کے سوا اور سفارشی بنالئے
ہیں۔ کہو کہ خواہ وہ کسی چیز کا بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ (کچھ) سمجھتے ہی
ہوں
Or have they — nay, but [they have] — taken besides God, idols, as gods [to act as], intercessors?, with God, as they [are wont to] allege. Say, to them: ‘What!, will they intercede, even though they have no power whatever, of intercession or otherwise, and are unable to comprehend?’, that you worship them or [to comprehend] anything else [for that matter]? Nay.
|
یعنی بتوں کو نہ اختیار ہے نہ سمجھ، پھر انکو شفیع ماننا عجیب ہے۔ |
یعنی بتوں کی نسبت مشرکین دعویٰ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے سفارشی ہیں ۔ ان ہی کی سفارش سے کام بنتے ہیں۔ اسی لئے انکی عبادت کی جاتی ہے۔ سو اول تو شفیع ہونے سے معبود ہونا لازم نہیں آتا۔ دوسرے شفیع بھی وہ بن سکتا ہے جسے اللہ کی طرف سے شفاعت کی اجازت ہو اور صرف اس کے حق میں شفاعت کر سکتا ہے جس کو خدا پسند کرے۔ خلاصہ یہ کہ شفیع کا مأذون ہونا اور مشفوع کا مرتضٰی ہونا ضروری ہے۔ یہاں دونوں باتیں نہیں ۔ نہ اصنام (بتوں) کا ماذون ہونا ثابت ہے نہ کفار کا مرتضٰی ہونا۔ لہذا ان کا دعویٰ غلط ہوا۔ |
إِنَّ الَّذينَ يُنادونَكَ مِن وَراءِ الحُجُرٰتِ أَكثَرُهُم لا يَعقِلونَ {49:4} |
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں |
لا يُقٰتِلونَكُم جَميعًا إِلّا فى قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَو مِن وَراءِ جُدُرٍ ۚ بَأسُهُم بَينَهُم شَديدٌ ۚ تَحسَبُهُم جَميعًا وَقُلوبُهُم شَتّىٰ ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم قَومٌ لا يَعقِلونَ {59:14} |
یہ سب جمع ہو کر بھی تم سے (بالمواجہہ) نہیں
لڑ سکیں گے مگر بستیوں کے قلعوں میں (پناہ لے کر) یا دیواروں کی اوٹ میں (مستور ہو
کر) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے۔ تم شاید خیال کرتے ہو کہ یہ اکھٹے (اور ایک جان) ہیں
مگر ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں یہ اس لئے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں
They, that is, the Jews, will not fight against you together, [all] in a [single] body, except in fortified towns or from behind some wall (jidār: a variant reading has [plural] judur, ‘walls’), some [kind of protective] fence. Their might, their belligerence, is great among themselves. You [would] suppose them to be all together, united as a [single] body, but their hearts are disunited, scattered, contrary to supposition. That is because they are a people who have no sense;
|
یعنی چونکہ ان لوگوں کے دل مسلمانوں سے مرعوب اور خوفزدہ ہیں، اس لئے کھلے میدان میں جنگ نہیں کرسکتے۔ ہاں گنجان بستیوں میں قلعہ نشین ہو کر یا دیواروں اور درختوں کی آڑ میں چھپ کر لڑ سکتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے، کہ یورپ نے مسلمانوں کی تلوار سے عاجز ہو کر قسم قسم کے آتشبار اسلحہ اور طریق جنگ ایجاد کئے ہیں۔ تاہم اب بھی اگر کسی وقت دست بدست جنگ کی نوبت آجاتی ہے تو چند ہی منٹ میں دنیا { لایقاتلونکم جمیعًا الّا فی قری محصّنۃٍ اومن ورآء جدر } کا مشاہدہ کرلیتی ہے۔ باقی اس قوم کا تو کہنا ہی کیا جس کے نزدیک چھتوں پر چڑھ کر اینٹ پتھر پھینکنا اور تیزاب کی پچکاریاں چلانا ہی سب سے بڑی علامت بہادری کی ہے۔ |
یعنی آپس کی لڑائی میں بڑے تیز اور سخت ہیں جیسا کہ اسلام سے پہلے "اوس" و "خزرج" کی جنگ میں تجربہ ہو چکا، مگر مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی ساری بہادری اور شیخی کرکری ہوجاتی ہے۔ |
یعنی مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کے ظاہری
اتفاق و اتحاد سے دھوکہ مت کھاؤ۔ ان کے دل اندر سے پھٹے ہوئے ہیں، ہر ایک اپنی غرض
و خواہش کا بندہ، اور خیالات میں ایک دوسرے سے جدا ہے پھر حقیقی یکجہتی کہاں میّسر
آسکتی ہے۔ اگر عقل ہو تو سمجھیں کہ یہ نمائشی اتحاد کس کام کا۔ اتحاد اسے کہتے ہیں
جو مومنین قانتین میں پایا جاتا ہے کہ تمام اغراض و خواہشات سے یکسو ہو کر سب نے
ایک اللہ کی رسی کو تھام رکھا ہے، اور ان سب کا مرنا جینا اسی خدائے واحد کے لئے ہے۔ |
No comments:
Post a Comment