Tuesday, 25 March 2025

افطاری سے پہلے اور بعد کی دعائیں

 افطاری سے پہلے کی دعائیں:

(1)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ،  وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» 

ترجمہ:

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب افطاری کرتے تھے تو کہتے:  شروع اللہ کے نام سے، اے اللہ! میں نے آپ ہی کیلئے روزہ رکھا، اور آپ ہی کے رزق سے افطار کیا۔

[المعجم الاوسط للطبرانی:7549، العجم الصغیر للطبرانی:912]



(2)حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

إذا قرب إلى أحدكم طعام وهو صائم فليقل: بسم الله والحمد لله اللهم لك صمت  وعلى رزقك أفطرت وعليك توكلت سبحانك وبحمدك تقبل مني إنك أنت السميع العليم

ترجمہ:

جب تم میں سے کسی روزہ دار کے قریب کھانا لایا جائے تو وہ یہ دعا کہے۔

اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں یا اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے روزہ افطار کرتا ہوں اور تجھی پر بھروسہ کرتا ہوں تو پاک ہے اور تیری ہی حمد ہے تو میرا روزہ قبول فرما بلاشبہ تو سننے والا اور علم والا ہے۔

[سن دارقطنی:699، جامع الاحادیث -للسیوطی:2500، کنزالعمال:23873]





Tuesday, 18 March 2025

تسبیح تراویح کی تحقیق


تسبیح تراویح کی تحقیق


تراویح میں چار رکعت كے بعد جو دعاء پڑھی جاتی ہے:

( سُبحان ذی المُلک والمَلَکوت ) اس کی تحقیق مطلوب ہے بحوالہ ؟




Tuesday, 11 March 2025

کیوں اے آئی AI (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) بھی گمراہ کرسکتی ہے۔

خبردار! AI (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) غلطی ومعذرت کے باوجود قرآن کا غلط استعمال واستدلال اور منگھڑت حدیث بناکر باربار پیش کرکے، قرآن وسنت کے اصول پر مبنی راہنمائی کے نام پر اس غلطی کو دہراتی بھی رہتی ہے۔

ثبوت پیشِ خدمت ہیں:

(1)



Friday, 7 March 2025

تحقیقِ حدیث»سحری کا انتہائی وقت فجر ہے نہ کہ اذان


🔶 کیا فجر کی اذان کے وقت سحری کھاتے رہنا چاہئے؟


لوگوں میں ایک غلط فہمی عام ہے کہ اگر فجر کی اذان ہو جائے، اگر سامنے کھانا ہے، تو اذان کے بعد بھی کھا سکتے ہیں۔


اس تعلق سے ابوداؤد کی حدیث پیش کی جاتی ھے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ.

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  تم میں سے کوئی جب صبح کی اذان سنے اور   (کھانے پینے کا)  برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کئے بغیر نہ رکھے۔

[ابو داؤد#2350]








"میرا جسم، میری مرضی" کا نعرہ گمراہ کن کیوں؟


(1)ہماری ابتدا (پیدائش، رنگ، نسل، جنس، عمر) اور انتہاء(بڑھاپا،موت،بیماری) بھی ہماری مرضی سے نہیں، رب کی مرضی ہی سے ہے۔ تو پھر یہ نعرہ کہ "میرا جسم، میری مرضی" کیسے درست ہوسکتا ہے؟


(2)کسی مجمل جملہ کا مخصوص معنیٰ ومطلب مقرر نہیں کیا جاسکتا، یہ تلبیسِ ابلیس ہے کہ لفظ/جملہ کا عام معنیٰ کو رد کرنا اور اپنے من مانے معنیٰ ومطلب کا جامہ پہنایا جائے۔


(3)یہ وہ نعرہ ہے جس سے ہر طرح کی سرکشی، حدود کے خلاف ورزیاں اور شر وبگاڑ کا جواز پیدا کیا جاسکتا ہے بلکہ پھیلایا بھی جاتا رہا یے۔

جبکہ

یہ نعرہ لگانے والوں میں خیر وصلاح صرف خیالی-زبانی اور مفروضہ کے طور پر ہے۔ حیاء کی معنیٰ سے ناواقف، صرف حیاء لفظ کہنے سے حیاءدار تو نہیں ہوجاتے۔



(4)یہ نعرہ دراصل کفار کی تہذیب سے آیا ہے، کیونکہ اسلامی تہذیب اس کے خلاف یہ بات سکھاتی ہے کہ:

مومن کی جان اسکی نہیں۔

القرآن:

واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات کے بدلے خرید لیے ہیں کہ جنت انہی کی ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں، اور مرتے بھی ہیں۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے تورات اور انجیل میں بھی لی ہے، اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو ؟ لہذا اپنے اس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کرلیا ہے۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 111]


جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی،

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔


جان دے دی میں نے ان کے نام پر،

کچھ سوچا نہ انجام پر۔



Saturday, 1 March 2025

رؤیتِ ہلال(کی اہمیت)کیا ہے

 

رؤیتِ ہلال کیا ہے؟

رؤیتِ ہلال سے مراد چاند کا نظر آنا ہے، خاص طور پر اسلامی مہینوں کی ابتدا اور اختتام کے لیے نئے چاند (ہلال) کا مشاہدہ کرنا۔ اسلامی تقویم قمری ہے، جس میں ہر مہینہ چاند کے طلوع ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ رمضان المبارک، شوال (عید الفطر)، اور ذوالحجہ جیسے اہم مہینوں کی شروعات کے لیے ہلال کا مشاہدہ شرعی اہمیت رکھتا ہے۔


---


رؤیتِ ہلال کیوں ضروری ہے؟

1. قرآن و سنت کی تصریح:  

   - قرآن میں ارشاد ہے:  

     **﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ﴾** (البقرة: 185)  

     (ترجمہ: جو شخص اس مہینے کو پائے، وہ روزے رکھے)۔  

   - حدیث میں ہے:  

     "صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ" (صحیح بخاری: 1909)  

     (ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر بدلی ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کرو)۔  


2. اجتماعی نظام کی حفاظت:  

   ہلال کی رؤیت سے امت کا اتحاد قائم رہتا ہے، کیونکہ ایک ہی دن میں عبادات (جیسے روزہ، عید) کا آغاز ہوتا ہے۔  


---


اختلافات کیوں ہوتے ہیں؟ 

1. طبیعی رؤیت vs نجومی حساب:  

   - اہلِ حدیث اور بعض فقہاء کے نزدیک صرف آنکھ سے چاند دیکھنا معتبر ہے، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:  

     "لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ" (سنن نسائی: 2117)۔  

   - بعض جدید علماء (جیسے شیخ ابن عثیمین) نجومی حساب کو بھی جائز سمجھتے ہیں اگر چاند ممکنہ طور پر نظر آنے کے قابل ہو (فتح الباری: 4/123)۔  


2. مقامی vs عالمی رؤیت:  

   - "حنفیہ اور شوافع" کے نزدیک مقامی رؤیت ضروری ہے، جبکہ "امام مالک" عالمی رؤیت کو بھی کافی سمجھتے ہیں۔ (بدائع الصنائع: 2/79)۔  


3. علمی و فنی اختلافات:  

   - جدید ٹیکنالوجی (جیسے دوربین) سے مشاہدہ کرنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اسے "رؤیت" میں شامل سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے اسے "حساب" کہتے ہیں۔  


---


اختلاف کرنا کیسا ہے؟ 

1. اجتہادی اختلاف جائز ہے:  

   فقہی مسائل میں اختلاف رحمت ہے، جب تک کہ دلائل شرعیہ کی بنیاد پر ہو۔ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں:  

   "اختلافِ امت رحمت ہے جب تک کہ وہ کتاب و سنت کی طرف لوٹایا جائے۔" (مجموع الفتاوی: 20/164)۔  


2. وحدتِ امت کا خیال رہے:  

   اگرچہ اختلاف جائز ہے، لیکن اتحاد کو نقصان پہنچانے والا اختلاف ناپسندیدہ ہے۔ شیخ ابن باز فرماتے ہیں:  

   "ہر ملک کو اپنی رؤیت پر عمل کرنا چاہیے، لیکن دوسروں کے لیے تنقید نہیں کرنی چاہیے" (فتاوى نور على الدرب: 10/101)۔  


3. شرط: دلیل پر مبنی ہو:  

   اختلاف کرتے وقت قرآن و سنت کے دلائل اور فقہی اصولوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ امام  ابوحنیفہ اور امام شافعی فرماتے ہیں:  

 "جب حدیث صحیح ہو تو وہ میرا مذہب ہے۔" (کتاب الاُمّ: 7/271)


---


نتیجہ:

رؤیتِ ہلال سنتِ نبوی ﷺ اور امت کے اتحاد کا ذریعہ ہے۔ اختلافات فقہی تفریعات ہیں، جن میں نرمی اور برداشت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہر مسلم ملک یا جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے علماء اور مقامی کمیٹیوں کے فیصلوں پر عمل کرے، بشرطیکہ وہ شرعی دلائل سے ہم آہنگ ہوں۔



Friday, 14 February 2025

لعنت کے معانی، اعمال و احکام

«لعن» یعنی کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا۔

خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق کے اثر پذیر ہونے سے محروم ہوجائے اور آخرت میں عقوبت(سزا) کا مستحق قرار پائے۔

اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنیٰ "بددعا" کے ہوتے ہیں۔ قرآن میں ہے:

أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ

[سورۃ هود:18]

سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

[المفردات فی غریب القرآن: ص741]








Wednesday, 12 February 2025

حکمت کے معانی، فضائل واحادیث


حِکْمَت کے اردو معانی

اسم، مؤنث

  • عقل و دانش، دانائی
  • مصلحت، خوبی، بھلائی، بہتری
  • (طب) طبابت، علاج معالجے کا علم
  • (کسی چیز کی) حقیقت، ماہیت، اصل
  • تدبیر، چال، ترکیب

    مثالسپہ سالار نے کچھ دلیرجنگجوؤں کو اپنی حکمت عملی سے واقف کرایا

  • علم جس میں مشاہدہ، غور و فکر، دلیل و برہان سے حقائق کو معلوم کیا جائے، (مراد) منطق، فلسفہ، سائنس
  • عاقلانہ مقولہ، حکیمانہ قول، عقل و دانش کی بات
  • ڈھنگ، طور طریقہ
  • مطلب
  • انتظام، کفایت شعاری
  • معجزہ، راز، بھید
  • (تصوّف) حقائق و اوصاف و خواص و احکام اشیا کا جاننا جیسا کہ وہ نفس الامر میں ہیں اور جاننا ارتباطِ اسباب کا مسبب کے ساتھ اور حقایق الٰہی اور علم عرفان کے اصول کا جاننا







Sunday, 9 February 2025

اصول فقہ»احکام کے درجات


دین کا ضروری علم نہ ہونا 'عذر' نہیں بلکہ 'جرم' ہے۔


واضح رہے کہ جیسے زندگی کے ہر شعبہ میں دینی احکام پر چلنا لازم ہے، ایسے ہی دینی احکام سیکھنا بھی لازم ہے؛ لہذا جس عبادت یا معاملہ سے کسی کا واسطہ پڑتا ہے، اس کے ضروری مسائل سیکھنا اس پر فرض ہوجاتا ہے، یہی محمل ہے اس حدیث کا جس میں نبی کریمﷺ نے علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے۔


اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حلال یا حرام کا علم نہ ہونا، یا کسی مسئلہ کا علم نہ ہونا، یہ 'عذر' نہیں بلکہ 'جرم' ہے۔


تاہم کچھ مسائل جن کا تعلق الفاظِ کفر یا عقوبات یا کفار کے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے بعض خصوصی احوال سے ہے، ان میں جہل کی وجہ سے حکم پر فرق آتا ہے، جو کہ فقہاء نے اپنے مواقع پر تصریح کے ساتھ بیان کیے ہیں۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 42):


"قال العلامي في فصوله: من فرائض الإسلام تعلمه ما يحتاج إليه العبد في إقامة دينه وإخلاص عمله لله تعالى ومعاشرة عباده. وفرض على كل مكلف ومكلفة بعد تعلمه علم الدين والهداية تعلم علم الوضوء والغسل والصلاة والصوم، وعلم الزكاة لمن له نصاب، والحج لمن وجب عليه والبيوع على التجار ليحترزوا عن الشبهات والمكروهات في سائر المعاملات. وكذا أهل الحرف، وكل من اشتغل بشيء يفرض عليه علمه وحكمه ليمتنع عن الحرام فيه اهـ.


مطلب في فرض الكفاية وفرض العين:


وفي تبيين المحارم: لا شك في فرضية علم الفرائض الخمس وعلم الإخلاص؛ لأن صحة العمل موقوفة عليه وعلم الحلال والحرام وعلم الرياء؛ لأن العابد محروم من ثواب عمله بالرياء، وعلم الحسد والعجب إذ هما يأكلان العمل كما تأكل النار الحطب، وعلم البيع والشراء والنكاح والطلاق لمن أراد الدخول في هذه الأشياء وعلم الألفاظ المحرمة أو المكفرة، ولعمري هذا من أهم المهمات في هذا الزمان؛ لأنك تسمع كثيرا من العوام يتكلمون بما يكفر وهم عنها غافلون، والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير."


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 297):


"(قوله: لا جاهلًا إلخ) هو على سبيل اللف والنشر المشوش. والظاهر أن الجهل إنما ينفي كونه كبيرة لا أصل الحرمة إذ لا عذر بالجهل بالأحكام في دار الإسلام، أفاده ط."


تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5 / 257):


أما قبل البيع فلا يسقط به لأن إسقاط الحق قبل وجوبه لا يصح وبعده يسقط بالإسقاط علم بالسقوط، أو لم يعلم؛ لأنه لا يعذر بالجهل بالأحكام في دار الإسلام


البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2 / 282):


"فإنّ الجهل بالأحكام في دار الإسلام ليس بمعتبر."


شرح القواعد الفقهية (1 / 482):


"الجهل بالأحكام في دار الإسلام ليس عذرًا "، فمن باشر عملًا مدنيًا أو جنائيًا، ثم أراد التخلص من المسؤولية بحجة جهله الحكم الشرعي المرتب على هذا الفعل فجهله لايعفيه من النتائج المدنية _ أي المالية _ مطلقًا. أما النتائج الجزائية فللجهل فيها إذا تحقق تأثيره ضمن حدود تعرف في مواطنها من مباحث العقوبات.


وهذه أيضًا قاعدة تتبناها النظريات القانونية الحديثة، فإن من المقرر فيها أن الجهل بالقانون ليس عذرا، لأن الرعية مكلفة أن تعلم به بعد إعلانه، وإلا لتذرع كل إنسان بالجهل للتخلص من طائلة القانون.


ويستثنى من هذه القاعدة ما إذا تكلم الإنسان بما يكفر جاهلا أنه مكفر، فإنه لايحكم عليه بالكفر."


فقط واللہ اعلم