Sunday, 5 October 2025

سب سے جلد قبول ہونے والی دعا

 

سب سے جلد قبول ہونے والی دعا»
اپنے مسلمان بھائی کے لئے"غائبانہ"دعا کرنا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:
إِنَّ أَسْرَعَ الدُّعَاءِ إِجَابَةً دَعْوَةُ غَائِبٍ لِغَائِبٍ.
ترجمہ:
بےشک سب سے جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو (ایک)غائب(شخص) (دوسرے)غائب(شخص) کے لیے کرے۔
[المنتخب عبد بن حميد:331، الأدب المفرد-البخارى:623، سنن أبوداود:1535، المعجم الكبير-الطبرانى:74، مكارم الأخلاق-الخرائطي:783، مسند الشهاب-القضاعي:1330]




Saturday, 4 October 2025

کفار کی نیکیاں صرف دنیا میں انکے کام آئیں گی

 

عقیدہ:- کافر کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ الْكَافِرَ إِذَا عَمِلَ حَسَنَةً أُطْعِمَ بِهَا طُعْمَةً مِنَ الدُّنْيَا، وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ، فَإِنَّ اللهَ يَدَّخِرُ لَهُ حَسَنَاتِهِ فِي الْآخِرَةِ وَيُعْقِبُهُ رِزْقًا فِي الدُّنْيَا عَلَى طَاعَتِهِ»
ترجمہ:
جب کافر کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اس کی وجہ سے دنیا سے ہی اسے لقمہ کھلا دیا جاتا ہے اور مومن کے لئے اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کو آخرت کے لئے ذخیرہ کرتا رہتا ہے اور دنیا میں اپنی اطاعت پر اسے رزق بھی عطا کرتا ہے۔
[صحیح مسلم:2808(7090)]



Tuesday, 23 September 2025

الحاسب:حساب لینے والا، الحسیب:سب کیلئے کافی ہوجانے والا

حساب کے معنیٰ گننے اور شمار کرنے کے ہیں۔ قرآن میں ہے:

لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ

[يونس:5]

تاکہ تم برسوں کا شمار اور حساب جان لو۔

[المفردات فی غریب القرآن-امام راغب اصفھانی: ج1 ص232]


اللہ کیسا حاسب (حساب لینے والا) ہے؟

القرآن:

جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب الله ہی کا ہے، اور جو باتیں تمہارے دلوں میں ہیں، خواہ تم ان کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، الله تم سے ان کا حساب لے گا (188) پھر جس کو چاہے گا معاف کردے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا (اور الله ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 284]

تفسیر:

(188) آگے آیت نمبر 286 کے پہلے جملے نے واضح کردیا کہ انسان کے اختیار کے بغیر جو خیالات اس کے دل میں "آجاتے" ہیں، ان پر کوئی گناہ نہیں ہے(لیکن ناجائز خیالات "لانے" مثلاً: چالبازی،دکھلاوے وغیرہ پر پکڑ ہے)۔ لہذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر جو غلط عقیدے دل میں رکھے، یا کسی گناہ کا سوچ سمجھ کر بالکل پکا ارادہ کرلے تو اس کا حساب ہوگا۔


اللہ کے ننانوے خوبصورت ناموں میں سے ایک نام ﴿الحسیب یعنی سب کیلئے کافی ہوجانے والا﴾ بھی ہے۔



حساب کی دو اقسام:

(1)آسان حساب (2)سخت حساب

القرآن:

پھر جس شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس سے تو آسان حساب لیا جائے گا۔

[سورۃ الإنشقاق، آیت نمبر 7-8]


القرآن:

اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت حساب لیا، اور انہیں سزا دی، ایسی بری سزا جو انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔

[سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 8]



Tuesday, 9 September 2025

بارش»دلیلِ وجود اور قدرتِ الٰہی

بارش» اللہ(کے وجود)کی نشانی اور قدرت کا شاہکار۔

القرآن:

اور وہی ہے جو لوگوں کے ناامید ہونے کے بعد بارش برساتا اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی ہے جو (سب کا) قابل تعریف رکھوالا ہے۔

[سورۃ الشورى،آیت نمبر 28]


بھلا وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں تمہیں راستہ دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت (کی بارش) سے پہلے ہوائیں بھیجتا ہے جو تمہیں (بارش کی) خوشخبری دیتی ہیں ؟ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) الله کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ (نہیں ! بلکہ) الله اس شرک سے بہت بالا و برتر ہے جس کا ارتکاب یہ لوگ کر رہے ہیں۔

[سورۃ نمبر 27 النمل،آیت نمبر 63]




القرآن:

اور وہ ہوائیں جو بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں، ہم نے بھیجی ہیں، پھر آسمان سے پانی ہم نے اتارا ہے، پھر اس سے تمہیں سیراب ہم نے کیا ہے، اور تمہارے بس میں یہ نہیں ہے کہ تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھ سکو۔

[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 22]





Saturday, 6 September 2025

محمد رسول اللہ ﷺ کی مصیبت (رحلت-وصال) کو یاد کرنا




حضرت سابطؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت (صدمہ) پہنچے (یعنی کوئی قریبی عزیز فوت ہوجائے) تو میرے دکھ (وفات) کو یاد کرلے، بےشک (میری رحلت) اس کیلئے سب سے بڑا غم ودکھ ہے۔

حوالہ

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُصِيبَ أَحَدُكُمْ بِمُصِيبَةٍ، فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي، فَإِنَّهَا أَعْظَمُ الْمَصَائِبِ عِنْدَهُ»




امام ابن الحاج(م737ھ) تشریح فرماتے ہیں:
وَهَذَا أَمْرٌ مِنْهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - لِأُمَّتِهِ وَتَسْلِيَةٌ لَهُمْ، أَمَّا الْأَمْرُ فَقَوْلُهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي، وَأَمَّا التَّسْلِيَةُ فَقَوْلُهُ: - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ، فَإِذَا تَذَكَّرَ الْمُؤْمِنُ مَا أُصِيبَ بِهِ مِنْ فَقْدِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - هَانَتْ عَلَيْهِ جَمِيعُ الْمَصَائِبِ وَاضْمَحَلَّتْ، وَلَمْ يَبْقَ لَهَا خَطَرٌ وَلَا بَالٌ.
ترجمہ:
اور یہ (بات) آپ ﷺ کی اپنی امت کے لیے ایک حکم اور ان کے لیے تسلی ہے۔ رہا حکم تو وہ آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ: "اسے چاہیے کہ وہ میری مصیبت (یعنی میرے وصال کے غم) کو یاد کرے۔" اور رہی تسلی تو وہ آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ: "بے شک وہ (یعنی میری جدائی) سب سے بڑی مصیبتوں میں سے ہے۔" پس جب ایک مومن یہ یاد کرے کہ اسے نبی ﷺ کے فراق میں کیا مصیبت پہنچی ہے تو اس پر دیگر تمام مصیبتیں آسان ہو جاتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں، اور ان (دیگر مصیبتوں) کا کوئی وزن اور غم نہیں رہتی۔



علامہ مناوی لکھتے ہیں:
یعنی اس امت کے درمیان سے میری جدائی اور وحی کے منقطع ہو جانے (کے صدمے) کو یاد کرے۔ "کیونکہ یہ (میری جدائی) بہت بڑی مصیبتوں میں سے ہے"، بلکہ وہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے (رسول اللہ ﷺ کو) دفن کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے مٹی (نہیں جھاڑی) یہاں تک کہ ہم نے اپنے دلوں میں (غم و اداس کے باعث) تبدیلی محسوس کی (یعنی دل بدل گئے)۔[ترمذي:3618]
[التیسیر بشرح الجامع الصغیر -للمناوی:1/74]


دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

اور یہ مصیبت اس لیے سب سے بڑی تھی کیونکہ اس سے وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، شر کے manifestations عربوں کے ارتداد اور منافقوں کے گروہ بندی کے ذریعے ظاہر ہوئے، اور آپ کی وفات خیر میں کمی کا پہلا سبب تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) دفن کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے مٹی (نہیں جھاڑی) یہاں تک کہ ہم نے اپنے دلوں میں (غم و اداس کے باعث) تبدیلی محسوس کی (یعنی دل بدل گئے)۔
اور اس سلسلے میں سب سے عمدہ کلام تو وہ ہے جو کسی نے اپنے بھائی کی تعزیت (اس کے بیٹے کے انتقال پر) کرتے ہوئے لکھا اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: ہر تکلیف پر صبر کر اور ثابت قدم رہ۔. . اور جان لے کہ انسان ہمیشہ رہنے والا نہیں اور جب تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کی مصیبت کو یاد کرے۔ . . تو اپنی مصیبت (یعنی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق) کو یاد کر
[فیض القدیر للمناوی: 452]





القرآن:
اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ (18) چنانچہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟
[سورۃ الأنبياء:34]
تفسیر:
(18)سورة طور:30 میں مذکور ہے کہ کفار مکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے انتقال کے موقع پر وہ خوشی منائیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اول تو موت ہر شخص کو آنی ہے، اور کیا خود یہ خوشی منانے والے موت سے بچ جائیں گے۔



سیلاب کا بیان


(1)سیلاب کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا کہ عمرو بن دینار بیان کیا کرتے تھے کہ ہم سے سعید بن مسیب نے اپنے والد سے بیان کیا، انہوں نے سعید کے دادا حزن سے بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ سیلاب آیا کہ (مکہ کی) دونوں پہاڑیوں کے درمیان پانی ہی پانی ہو گیا۔ سفیان نے بیان کیا کہ بیان کرتے تھے کہ اس حدیث کا ایک بہت بڑا قصہ ہے۔

[صحيح البخاري: كتاب مناقب الأنصار،حدیث: 3833]

حافظ ابن حجر نے کہا، موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ کعبہ میں سیلاب اس پہاڑ کی طرف سے آیا کرتا تھا جو بلند جانب میں واقع ہے ان کو ڈر ہوا کہ کہیں پانی کعبہ کے اندر نہ گھس جائے اس لیے انہوں نے عمارت کو خوب مضبوط کرنا چاہا اور پہلے جس نے کعبہ اونچا کیا اور اس میں سے کچھ گرایا وہ ولید بن مغیرہ تھا۔

پھر کعبہ کے بننے کا وہ قصہ نقل کیا کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے ہوا اور امام شافعی نے کتاب ''الأم '' میں عبد اللہ بن زبیر ؓ سے نقل کیا کہ جب وہ کعبہ بنا رہے تھے تو حضرت کعب نے ان سے کہا: خوب مضبوط بناؤ کیونکہ ہم(اہل کتاب) کتابوں میں یہ پاتے ہیں کہ آخر زمانے میں سیلاب بہت آئیں گے۔

تو قصے سے مراد یہی ہے کہ وہ اس سیلاب کو دیکھ کر جس کے برابر کبھی نہیں آیا تھا یہ سمجھ گئے کہ آخر زمانے کے سیلابوں میں یہ پہلا سیلاب ہے۔

[فتح الباري:189/7]



Friday, 5 September 2025

قیلولہ کی اہمیت وفضیلت

"قیلولہ "کے معنی ہیں: دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لیٹنا، خواہ نیند آئے یا نہ آئے. ( عمدۃ القاری للعینی)


"قیلولہ" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول رہا ہے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "دن کے سونے کے ذریعے رات کی عبادت پر قوت حاصل کرو. (شعب الایمان للبیہقی) نیز دوپہر کو سونا عقل کی زیادتی اور کھانے کے ہضم کا باعث بھی ہے. قیلولہ کی کم ازکم یا زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق تلاش کے باوجود کوئی روایت نہیں ملی.


حضرت انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قِيلُوا فَإِنَّ الشيطان لا يقيل.

ترجمہ:

قیلولہ کیا کرو؛ اس لئے کہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔

[المعجم الأوسط-للطبراني:28، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1647]





شجرکاری کی اہمیت اور فضائل


حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو جسے وہ لگا رہا ہو، تو اگر قیامت برپا ہونے سے پہلے پہلے وہ اس پودے ک ولگا سکے تو ضرور لگادے۔

حوالہ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالْكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَفِي يَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةً، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فليغرسها»

[مسند احمد:12902، مسند الطيالسي:2068، مسند عبد بن حميد:1216، الأدب المفرد-البخاري:479 ، مسند البزار:7408، معجم ابن الأعرابي:180]










Friday, 15 August 2025

اصلاح اغلاط العوام» سماجی خرابی کی اعلانیہ عملی دائمی مخالفت


القرآن:

اور (اے پیغمبر !) یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر الله نے بھی احسان کیا تھا اور تم نے بھی احسان کیا تھا (32) یہ کہہ رہے تھے کہ : اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں رہنے دو ، اور الله سے ڈرو، (33) اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے الله کھول دینے والا تھا (34) اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے، حالانکہ الله اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ پھر جب زید نے اپنی بیوی سے تعلق ختم کرلیا تو ہم نے اس سے (اے پیغمبر!) تمہارا نکاح کرادیا، تاکہ مسلمانوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے نکاح کرنے) میں اس وقت کوئی تنگی نہ رہے جب انہوں نے اپنی بیویوں سے تعلق ختم کرلیا ہو۔ اور الله نے جو حکم دیا تھا اس پر عمل تو ہو کر رہنا ہی تھا۔

[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 37]





Thursday, 14 August 2025

یومِ آزادی پاکستان ۔۔۔۔ دو قومی نظریہ


اسلامی حکومت کے بنیادی مقاصد:
القرآن:
یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ (1)نماز قائم کریں، اور (2)زکوٰۃ ادا کریں، اور لوگوں کو (3)نیکی کی تاکید کریں، اور (4)برائی سے روکیں، اور تمام کاموں کا انجام الله ہی کے قبضے میں ہے۔
[سورۃ نمبر 22 الحج،آیت نمبر 41]
تفسیر:
مسلمانوں کو مدینہ منورہ میں حکومت قائم کرنے اور کافروں کے خلاف لڑائی میں ان کی مدد کرنے کا مقصد اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ زمین میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی جان اور مال سے الله تعالیٰ کی عبادت خود بھی کریں گے، اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنے کا فریضہ انجام دیں گے۔ اس طرح یہ آیت ایک اسلامی ریاست کے بنیادی اغراض و مقاصد بیان فرما رہی ہے۔