Friday, 14 February 2025

لعنت کے معانی، اعمال و احکام

«لعن» یعنی کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا۔

خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق کے اثر پذیر ہونے سے محروم ہوجائے اور آخرت میں عقوبت(سزا) کا مستحق قرار پائے۔

اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنیٰ بددعا کے ہوتے ہیں۔ قرآن میں ہے:

أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ

[سورۃ هود:18]

سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

[المفردات فی غریب القرآن: ص741]




Wednesday, 12 February 2025

حکمت کے معانی، فضائل واحادیث


حِکْمَت کے اردو معانی

اسم، مؤنث

  • عقل و دانش، دانائی
  • مصلحت، خوبی، بھلائی، بہتری
  • (طب) طبابت، علاج معالجے کا علم
  • (کسی چیز کی) حقیقت، ماہیت، اصل
  • تدبیر، چال، ترکیب

    مثالسپہ سالار نے کچھ دلیرجنگجوؤں کو اپنی حکمت عملی سے واقف کرایا

  • علم جس میں مشاہدہ، غور و فکر، دلیل و برہان سے حقائق کو معلوم کیا جائے، (مراد) منطق، فلسفہ، سائنس
  • عاقلانہ مقولہ، حکیمانہ قول، عقل و دانش کی بات
  • ڈھنگ، طور طریقہ
  • مطلب
  • انتظام، کفایت شعاری
  • معجزہ، راز، بھید
  • (تصوّف) حقائق و اوصاف و خواص و احکام اشیا کا جاننا جیسا کہ وہ نفس الامر میں ہیں اور جاننا ارتباطِ اسباب کا مسبب کے ساتھ اور حقایق الٰہی اور علم عرفان کے اصول کا جاننا







لفظ "حکمت" قرآن پاک میں بیس بار آیا ہے ، اور خدا تعالی نے اس آسمانی کتاب میں 91 مرتبہ "حکمت" کی صفت کے ساتھ اپنی تعریف کی ہے۔ (صفت "حکیم" قرآن میں 36 مرتبہ صفت "علیم" کے ساتھ، 47 مرتبہ صفت " عزیز " کے ساتھ، چار مرتبہ صفت "خبیر" کے ساتھ اور ایک ایک صفت "تواب"، "حامد"، "علی" اور "وصی" کے ساتھ آئی ہے۔)





Sunday, 9 February 2025

اصول فقہ»احکام کے درجات


دین کا ضروری علم نہ ہونا 'عذر' نہیں بلکہ 'جرم' ہے۔


واضح رہے کہ جیسے زندگی کے ہر شعبہ میں دینی احکام پر چلنا لازم ہے، ایسے ہی دینی احکام سیکھنا بھی لازم ہے؛ لہذا جس عبادت یا معاملہ سے کسی کا واسطہ پڑتا ہے، اس کے ضروری مسائل سیکھنا اس پر فرض ہوجاتا ہے، یہی محمل ہے اس حدیث کا جس میں نبی کریمﷺ نے علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے۔


اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حلال یا حرام کا علم نہ ہونا، یا کسی مسئلہ کا علم نہ ہونا، یہ 'عذر' نہیں بلکہ 'جرم' ہے۔


تاہم کچھ مسائل جن کا تعلق الفاظِ کفر یا عقوبات یا کفار کے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے بعض خصوصی احوال سے ہے، ان میں جہل کی وجہ سے حکم پر فرق آتا ہے، جو کہ فقہاء نے اپنے مواقع پر تصریح کے ساتھ بیان کیے ہیں۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 42):


"قال العلامي في فصوله: من فرائض الإسلام تعلمه ما يحتاج إليه العبد في إقامة دينه وإخلاص عمله لله تعالى ومعاشرة عباده. وفرض على كل مكلف ومكلفة بعد تعلمه علم الدين والهداية تعلم علم الوضوء والغسل والصلاة والصوم، وعلم الزكاة لمن له نصاب، والحج لمن وجب عليه والبيوع على التجار ليحترزوا عن الشبهات والمكروهات في سائر المعاملات. وكذا أهل الحرف، وكل من اشتغل بشيء يفرض عليه علمه وحكمه ليمتنع عن الحرام فيه اهـ.


مطلب في فرض الكفاية وفرض العين:


وفي تبيين المحارم: لا شك في فرضية علم الفرائض الخمس وعلم الإخلاص؛ لأن صحة العمل موقوفة عليه وعلم الحلال والحرام وعلم الرياء؛ لأن العابد محروم من ثواب عمله بالرياء، وعلم الحسد والعجب إذ هما يأكلان العمل كما تأكل النار الحطب، وعلم البيع والشراء والنكاح والطلاق لمن أراد الدخول في هذه الأشياء وعلم الألفاظ المحرمة أو المكفرة، ولعمري هذا من أهم المهمات في هذا الزمان؛ لأنك تسمع كثيرا من العوام يتكلمون بما يكفر وهم عنها غافلون، والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير."


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 297):


"(قوله: لا جاهلًا إلخ) هو على سبيل اللف والنشر المشوش. والظاهر أن الجهل إنما ينفي كونه كبيرة لا أصل الحرمة إذ لا عذر بالجهل بالأحكام في دار الإسلام، أفاده ط."


تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5 / 257):


أما قبل البيع فلا يسقط به لأن إسقاط الحق قبل وجوبه لا يصح وبعده يسقط بالإسقاط علم بالسقوط، أو لم يعلم؛ لأنه لا يعذر بالجهل بالأحكام في دار الإسلام


البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2 / 282):


"فإنّ الجهل بالأحكام في دار الإسلام ليس بمعتبر."


شرح القواعد الفقهية (1 / 482):


"الجهل بالأحكام في دار الإسلام ليس عذرًا "، فمن باشر عملًا مدنيًا أو جنائيًا، ثم أراد التخلص من المسؤولية بحجة جهله الحكم الشرعي المرتب على هذا الفعل فجهله لايعفيه من النتائج المدنية _ أي المالية _ مطلقًا. أما النتائج الجزائية فللجهل فيها إذا تحقق تأثيره ضمن حدود تعرف في مواطنها من مباحث العقوبات.


وهذه أيضًا قاعدة تتبناها النظريات القانونية الحديثة، فإن من المقرر فيها أن الجهل بالقانون ليس عذرا، لأن الرعية مكلفة أن تعلم به بعد إعلانه، وإلا لتذرع كل إنسان بالجهل للتخلص من طائلة القانون.


ويستثنى من هذه القاعدة ما إذا تكلم الإنسان بما يكفر جاهلا أنه مكفر، فإنه لايحكم عليه بالكفر."


فقط واللہ اعلم




Monday, 13 January 2025

تحقیقِ حدیث» ماں باپ کو دفنانے کے بعد یہ بات یاد رکھنا

 تحقیقِ حدیث»

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ» .

ترجمہ:

میت قبر میں، ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہے، وہ باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچنے والی دعا کی منتظر رہتی ہے، جب وہ اسے پہنچ جاتی ہے تو وہ اس کے لیے دنیا اور جو کچھ اس(دنیا) میں ہے سے بہتر ہوتی ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ (دنیا) والوں کی دعاؤں سے اہلِ قبور پر پہاڑوں جتنی رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور زندوں کا مردوں کے لئے تحفہ ان کے لئے مغفرت طلب کرنا ہے۔

[مسند الدیلمي:6232، کنزالعمال:42796، مشكاة:2355]


حکم الحدیث:

امام بیھقی نے فرمایا کہ:

اس(روایت) کی سند بہت کمزور بلکل منکر ہے۔

[شعب الإيمان:7905، نسخة محققة: 7526]

امام ذھبی نے فرمایا کہ:

اس میں راوی ﴿الفضل بن محمد بن عبد الله بن الحارث بن سليمان الانطاکي﴾ ہے جو مجروح متھم ہے۔

[ميزان الاعتدال: 396/3]


ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط:

جمہور کے مطابق ثابت شدہ اعمال مثلاً: دعا واستغفار اور صدقہ وغیرہ کے شوق دلانے میں ضعیف روایات بیان (کرکے اللہ کی رحمت سے ثواب کی امید)کی جاسکتی ہیں۔

اور بعض ائمہ کے مطابق حدیث کے کمزور ثبوت کو واضح کرکے بیان کرنا جائز ہے، تاکہ اس روایت(خبر) پر پختہ یقین(عقیدہ) نہ بن جائے۔

http://raahedaleel.blogspot.com/p/blog-page.html


نوٹ:

اس پوسٹ کردہ منگھڑت حدیث میں»

(1)قبر کے قریب بیٹھ کر ذکر کرنے

(2)اونٹ ذبح کرنے جتنا وقت بیٹھنے

(3)صرف والدین کیلئے کرنے

(4)حق ادا ہو جانے جیسی منگھڑت باتیں رسول اللہ ﷺ کے نام پھیلائی جارہی ہیں۔



Monday, 30 December 2024

شمسی اور قمری سال


نئے سال کی اسلامی دعا»
عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے کہ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نئے سال یا مہینے کی آمد پہ یہ دعا سکھاتے تھے:
اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ
ترجمہ:
اے اللہ! داخل فرما ہم پر (اس مہینہ/سال کو) امن، ایمان، سلامتی، اسلام، رحمٰن کی رضا اور شیطان سے پناہ کے ساتھ۔
[المعجم الاوسط-امام الطبراني» حديث#6241][معجم الصحابة-البغوي:1539]






شمسی اور قمری، دونوں اسلامی سال ہیں»
القرآن:
اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا، اور چاند کو سراپا نور، اور اس کے (سفر) کے لیے منزلیں مقرر کردیں، تاکہ تم برسوں کی گنتی اور (مہینوں کا) حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بغیر کسی صحیح مقصد کے پیدا نہیں کردیا  وہ یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 5]



Friday, 27 December 2024

خلیفہ اول، صحابی رسول حضرت ابوبکر صدیق، عتیق، یارِ غار، ارحم امت۔

نام،کنیت اور نسب

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ﴿عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب﴾ ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔

[المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، 1:1]


آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔

عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔

[مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، 8: 347]

سیرت حلبیہ میں ہے کہ ﴿کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ﴾ ’’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔




Thursday, 19 December 2024

پہلی تکبیر تحریمہ میں مرد کا"کانوں"تک ہاتھ اٹھانا



(1)عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا کَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ۔۔۔

ترجمہ:

حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ وہ کانوں کے برابر ہوجاتے۔۔۔

[صحیح مسلم:865، السنن الکبریٰ للبیھقی:2306]


عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّهُ رَأَی نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ

ترجمہ:

قتادہ سے دوسری سند سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو کے برابر اٹھاتے۔

[صحیح مسلم:866، سنن ابوداؤد:745، سنن النسائی:1057، السنن الکبریٰ للبیھقی:2306، معجم الکبیر للطبرانی:630]



آدابِ زندگی»اجازت لینا۔

القرآن:

مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (47) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 24 النور ، آیت نمبر 62]

تفسیر:

(47) یہ آیت غزوہ ٔ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کرجاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔


Monday, 9 December 2024

بڑی بڑی مونچھیں رکھنا گناہ ہے۔

 القرآن:

(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 31]


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مخالفت کرو مشرکین کی،(لہٰذا)داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں گھٹاؤ۔

[صحیح بخاری:5892]


مونچھوں کو نہ چھوڑو اور ڈاڑھی کو نہ چھیڑو۔

[صحیح مسلم:259(601-603)]


جو نہ کاٹے اپنی مونچھیں تو وہ ہم میں سے نہیں.

[سنن الترمذی:2761، امن النسائی:13]



Wednesday, 27 November 2024

غائبانہ نمازِجنازہ کی شرعی حیثیت

 

غائبانہ نمازِجنازہ کی شرعی حیثیت»
قرآن مجید میں نمازِجنازہ کے بارے میں کوئی واضح حکم نہیں ہے، تو "غائبانہ" نمازِجنازہ کا بھی نہیں۔ تاہم، قرآن مجید میں وفات کے بعد میت کے لیے دعا کرنے کا حکم ہے۔ لہٰذا جب کوئی شخص مر جائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے استغفار کرنا اصل(بنیادی حکم) ہے۔
[قرآنی حوالہ» سورہ ابراھیم:41 الحشر:7 نوح:28 غافر:7 محمد:19]

نمازِ جنازہ کیلئے میت کا سامنے ہونا شرط ہے، لہٰذا احناف اور مالکیہ کے نزدیک "غائبانہ" نمازِ جنازہ جائز نہیں۔

امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی نمازِ جنازہ پڑھائی، جبکہ وہ سرزمینِ عرب میں نہ تھے۔
حوالہ
جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
...مَاتَ بِغَيْرِ أَرْضِكُمْ...
ترجمہ:
...ان کی موت تمہارے زمین سے باہر ہوگئی ہے...
[سنن ابن ماجہ:1537]
نوٹ:
لیکن اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو دوسری زمین(ملک) میں ہو اور یہ یقین ہو کہ اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں ہوئی تو غائبانہ پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے۔
لہٰذا
حنفیہ ومالکیہ کی دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی شاہ حبشہ رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی
لیکن وہاں درحقیقت تمام حجابات اٹھا دیئے گئے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے "معجزہ" کے طور پر نجاشی کا جنازہ کردیا گیا تھا تو ایسی صورت میں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ نہ تھی۔
حوالہ
...وَهُمْ لَا يَظُنُّونَ  إِلَاّ أَنَّ جِنَازَتَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ.
ترجمہ:
۔۔۔اور وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ اس کا جنازہ آپ کے آگے ہے۔
[صحیح ابن حبان:7212(3102)]
تفصیل کے لیے دلائل کے ساتھ ابوداوٴد شریف کی شرح بذل المجہود ملاحظہ کرلیں۔

اور یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار واقعاتِ وفات پیش آئے بہت سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت و وفات کے واقعات ہوئے مگر ثابت نہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ کا معمول اور عادتِ شریفہ رہی ہو۔

خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں مقیم تھے مگر ثابت نہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔

خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں بھی غائبانہ نماز جنازہ کا معمول کہیں منقول(نقل شدہ وثابت) نہیں ملتا۔

خلاصہ:
(1)اکیلا شخص یعنی بغیرجماعت کسی کیلئے غائبانہ نمازِجنازہ پڑھنا خلافِ سنت ہے۔ اگر جماعت میں شریک نہ ہوسکے تو دعائے بخشش کرنا چاہئے۔
(2)جنازہ "حاضر" ہو تو "جماعت" سے نمازِجنازہ پڑھنا سنت ہے۔
(3)اور غائبانہ نمازِجنازہ خاص نجاشی کیلئے ثابت ہے، لہٰذا یہ سنتِ خاصہ ہے، سنتِ عامہ(عادت وشریعت) نہیں۔
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
ایصالِ ثواب کیا، کیسے، کب اور کیوں؟