Wednesday, 25 June 2025

کلماتِ کفر، ایمان اور منافقت

کلمات، واضح اور ظاہری دلیل-نشانی-علامت ہوتے ہیں، دل میں ایمان اور کفر ونفاق کی۔
کلماتِ کفر:
القرآن:
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے اور کہتے ہیں کہ کچھ (رسولوں) پر تو ہم ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں، اور (اس طرح) وہ چاہتے ہیں کہ) کفر اور ایمان کے درمیان) ایک بیچ کی راہ نکال لیں۔
[سورۃ نمبر 4 النساء،آیت نمبر 150]

القرآن:
اور انہی میں سے ایک گروہ کے لوگ ایسے ہیں جو کتاب (یعنی تورات) پڑھتے وقت اپنی زبانوں کو مروڑتے ہیں تاکہ تم (ان کی مروڑ کر بنائی ہوئی) اس عبارت کو کتاب کا حصہ سمجھو، حالانکہ وہ کتاب کا حصہ نہیں ہوتی، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ (عبارت) اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جانتے بوجھتے جھوٹ باندھتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 78]

القرآن:
یہودی تو یہ کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں، (28) اور نصرانی یہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ سب ان کی منہ کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ یہ ان لوگوں کی سی باتیں کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں۔ (29) اللہ کی مار ہو ان پر ! یہ کہاں اوندھے بہکے جارہے ہیں ؟
[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 30]
تفسیر:
(28) حضرت عزیر ؑ ایک جلیل القدر پیغمبر تھے، (ان کو بائبل میں عزرا کے نام سے یاد کیا گیا ہے، اور ایک پوری کتاب ان کے نام سے منسوب ہے) اور جب بخت نصر کے حملے میں تورات کے نسخے ناپید ہوگئے تھے تو انہوں نے اپنی یادداشت سے دوبارہ لکھوایا تھا، اور شائد اسی وجہ سے بعض یہودی انہیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننے لگے تھے، یہاں یہ واضح رہے کہ ان کا بیٹا ماننے کا عقیدہ سب یہودیوں کا نہیں ہے ؛ بلکہ بعض یہودیوں کا ہے جو عرب میں بھی آباد تھے۔
 (29) اس سے مراد غالباً عرب کے مشرکین ہیں جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔


Friday, 20 June 2025

کیسے قرآن، حدیث اور دین محفوظ ہے؟

 

*علمِ الٰہی کے محافظ کون؟*

القرآن:

*بےشک ہم نے ہی یہ ذکر (نصیحت) نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کی یقیناً حفاظت کرنے والے ہیں۔*

[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 9]

قرآنی تفسیر:

اللہ نے (1)کتاب اور (2)حکمت(طریقہ) نازل کی ہے۔

[حوالہ«سورۃ البقرۃ:236، النساء:113]

رسول ﷺ کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دینے کیلئے بھیجا گیا۔

[حوالہ»سورۃ البقرۃ:129+151، آل عمران:164، الجمعۃ:2]

پچھلے انبیاء کو بھی کتاب اور حکمت عطا کی گئی تھی۔

[حوالہ»سورۃ الانعام:89، الجاثیۃ:16، آل عمران:48، النساء:54، المائدۃ:110]

تشریح:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگرچہ قرآن کریم سے پہلے بھی آسمانی کتابیں بھیجی گئی تھیں، لیکن چونکہ وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لیے آئی تھیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی، بلکہ ان کی حفاظت کا کام انہی لوگوں کو سونپ دیا گیا تھا جو ان کے مخاطب تھے، ﴿جیسا کہ سورة مائدہ:44 میں فرمایا گیا ہے﴾ لیکن قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے، چنانچہ اس میں قیامت تک کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اس طرح فرمائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سینوں میں اسے اس طرح محفوظ کردیا ہے کہ اگر بالفرض کوئی دشمن قرآن کریم کے سارے نسخے (معاذ اللہ) ختم کردے تب بھی چھوٹے چھوٹے بچے اسے دوبارہ کسی معمولی تبدیلی کے بغیر لکھوا سکتے ہیں جو بذات خود قرآن کریم کا زندہ معجزہ ہے۔




تفسیر قرآن کے محافظ کون؟

القرآن:

یقین رکھو کہ اس کو یاد کرانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پھر جب ہم اسے (جبرائیل کے واسطے سے) پڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔(7) پھر اس کی وضاحت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ (8)

[سورۃ القيامة:17-19]

تفسیر:

(7) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی توجہ الفاظ کو یاد رکھنے کے بجائے ان آیات کی عملی پیروی کرنے پر مرکوز رکھیں، اور یہ بھی کہ جس طرح حضرت جبرئیل ؑ پڑھ رہے ہیں، آئندہ آپ بھی اسی طرح پڑھا کریں۔

(8) یعنی آیاتِ کریمہ کی تشریح بھی ہم آپ کے قلب مبارک میں محفوظ کردیں گے۔




القرآن:

ہم آپ کو پڑھائیں گے، آپ بھول نہیں پائیں گے۔

[سورۃ الاعلیٰ:6]



(1)حافظِ قرآن کے فضائل»
حضرت علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَفِظَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ .
ترجمہ:
جس نے قرآن پڑھا اور اسے یاد کیا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔
[سنن ابن ماجہ:216، مسند احمد:1278، الشريعة للآجري:816، المعجم الأوسط-للطبراني:5130، الترغيب-لابن شاهين:189، شعب الایمان-للبيهقي:2436]
تشریح:

"جس نے قرآن پڑھا" یعنی زبانی یاد ہو یا نظر سے (مصحف دیکھ کر)، "اور اسے حفظ کیا" یعنی اس پر عمل کرنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ یا "حفظ" سے مراد زبانی تلاوت کرنا ہے۔ "اور" (واو) ترتیب کی طرف اشارہ نہیں کرتی، لہذا ممکن ہے کہ معنی یہ ہو کہ جس نے قرآن کو حفظ کیا اور پھر اس کی تلاوت پر مداومت کی اور اسے ترک نہیں کیا۔ یا ممکن ہے کہ معنی یہ ہو کہ جس نے اس کی تلاوت پر مداومت کی یہاں تک کہ اسے حفظ کر لیا۔ دونوں صورتوں میں اس کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ بغیر عمل کے شخص کو جاہل شمار کیا جاتا ہے۔ ترمذی کی روایت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ زبانی تلاوت معتبر ہے اور اس کی تصدیق کرتی ہے۔ 

"اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا" یعنی ابتدائی طور پر، ورنہ ہر مومن آخر کار جنت میں داخل ہوگا۔ "اور اس کی شفاعت قبول کرے گا" (شفّعہ میں فاء مشدد ہے) یعنی اس کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔ "وہ جہنم کا مستحق ہو چکا تھا" یعنی گناہوں کی وجہ سے، کفر کی وجہ سے نہیں۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجة:289]






(دوسری سند کی  روایت)


حضرت علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ ﴿تَعَلَّمَ﴾ قَرَأَ الْقُرْآنَ فاستظهره، ﴿وَحَفِظَهُ﴾ فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَشَفَّعَهُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ۔

ترجمہ:

*"جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کرلیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال مانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام مانا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (حافظِ قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی"۔

[مسند احمد:1268، سنن الترمذي:2905، شعب الایمان-للبيهقي:1795-1796]

تشریح:

'استظهره' کا مطلب ہے 'اسے حفظ کر لیا'۔

آپ کہہ سکتے ہیں: 'قَرَأْتُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِي' (میں نے قرآن اپنے دل کی پشت/یاد سے پڑھا)، یعنی میں نے اسے اپنے حفظ سے پڑھا۔"  

[جامع الاصول-ابن الاثیر:6289، قوت المغتذي على جامع الترمذي، السيوطي: 2/727]

نوٹ:

حقوقِ قرآنِ الٰہی: (1)سیکھنا (2)یاد رکھنا (3)احکام ماننا۔







حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا:

يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ:‏‏‏‏ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا.

ترجمہ:

(قیامت کے دن) قرآن والے سے کہا جائے گا:  (قرآن)  پڑھتا جا اور  (بلندی کی طرف)  چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہوگی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی۔

[سنن ابوداؤد:1464]

قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. 

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔   

[سنن الترمذي:2914، صحیح ابن حبان:766]

تخریج:

{مصنف ابن ابی شیبہ:30055-30057، مسند احمد:6799، الترغیب لابن شاھین:205، مستدرک حاکم:2030، سنن بیھقی:2425، شرح السنۃ للبغوی:1178]





Friday, 13 June 2025

پانچ اوقاتِ نماز کا ثبوت اور فضائل

نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔

کائنات کے خالق ومالک اللہ پاک نے حکم فرمایا:

.....اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا

ترجمہ:
.....بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض (مقررہ) اوقات میں۔

[سورۃ النساء:103]

حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ.....نمازوں کی حفاظت کرو۔
[سورة البقرة:238]
مفسر قرآن علامہ ابن کثیر  اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔

وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلَی صَلَوَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ.....اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
[سورة المعارج:34]
مفسر قرآن ابن کثیر  اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔

فَوَیلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ.....سو ان نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز میں کاہلی کرتے ہیں۔
[سورة الماعون:4-5]
مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔

قرآن کریم (سورة النساء آیت ۱۰۲) میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ متعدد احادیث میں نمازِ خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے؛ لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اس کی قضا کرنی ہوگی، جیسا کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہٴ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
پانچ(5)اوقاتِ نماز کا ثبوت:
(1)فجر(قبل طلوع الشمس)
[سورۃ الفجر:1، البقرۃ:187، الاسراء:78، النور:58، القدر:5 (ھود:114)(طٰہٰ:130، ق:39)]
(2)ظھر(قبل الغروب)
[سورۃ الروم:18، النور:58 (الاسراء:78)(طٰہٰ:130، ق:39)]
(3)عصر(الوسطیٰ)(قبل الغروب)
[سورۃ العصر:1 (طٰہٰ:130، ق:39)(البقرۃ:238، ھود:114، الاسراء:78)]
(4)مغرب(آناء اللیل)
[سورۃ (ھود:114، الاسراء:78)(طٰہٰ:130، ق:40)]
(5)عشاء(آناء اللیل)
[سورۃ (الاسراء:78)(طٰہٰ:130، ق:40)]

تفصیل نیچے آرہی ہے:

Tuesday, 10 June 2025

تکبیراتِ تشریق اور ایامِ تشریق


"اکثر اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ تکبیرات (تشریق) کا آغاز عرفہ (9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز کے فوراً بعد ہوتا ہے، اور اختتام ایام تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز کے بعد ہوتا ہے۔ یہی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ مکحول نے بھی اسی کو اپنایا ہے۔

[شرح السنة للبغوي:1924(7/146)]

 کیونکہ

(1)حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يكبر يوم عرفة صَلَاةَ الْغَدَاةِ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ آخِرَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ

ترجمہ:

"نبی ﷺ عرفہ(9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز سے لے کر ایام تشریق(یعنی 11-12-13 ذی الحجہ) کے آخری دن کی عصر کی نماز تک تکبیرات (تکبیرات تشریق) پڑھا کرتے تھے۔"

[بیھقی:6278]

Monday, 9 June 2025

بیماری اور عیادت کے فضائل، احکام وآداب


دنیا دار الامتحان ہے، جس طرح ایمان سے محروم انسان کو ابتلا وآزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے، اسی طرح صاحبِ ایمان کے لیے بھی ابتلا و آزمائش مقدر ہوتی ہے، اسلام کا تصور یہ ہے کہ بیماری اور شفا اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، فرماں بردار اور نافرماں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، حضرات انبیائے کرام بھی بیمار ہوئے ہیں، سیدالمرسلین اور امام الانبیاء بھی متعدد مرتبہ بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں، وفات کے موقع پر تقریباً چودہ دن بیمار رہے، بیماری مومن کے لیے امتحان وآزمائش ہے، دنیا میں آزمائشیں بخشش اور مغفرت کے لیے آتی ہیں، حقیقت میں بیماری ایک نعمت ہے، گناہوں کے لیے کفارہ اور رفع درجات کا سبب ہے، بیمار کو اللہ اور بندوں سے معافی تلافی اور حقوقی کی ادائیگی کے لیے ایک موقع دیا جاتا ہے۔

اہل ایمان دنیا میں ہمیشہ مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آخرت کی دائمی راحت پالیتے ہیں:
القرآن:

اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال اور جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155-156]

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يزال البلاء بالمؤمن أو المؤمنة في نفسه وماله وولده حتى يلقى الله تعالى وما عليه من خطيئة .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن مرد یا مؤمن عورت کی جان، اس کے مال اور اس کی اولاد کو ہمیشہ مصیبت و بلاء پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ (جب) وہ (مرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے تو اس پر (یعنی اس کے نامہ اعمال میں) کوئی گناہ نہیں ہوتا (کیونکہ مصیبت و بلاء کی وجہ سے اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں)۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1544]

Thursday, 5 June 2025

علاماتِ قیامت: قبر وحشر، جنّت وجہنّم

علاماتِ قیامت
علاماتِ قیامت کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں:
(۱)علاماتِ بعیدہ
(۲)علاماتِ متوسطہ
(۳)علاماتِ قریبہ، جن کو علاماتِ بعیدہ کہاجاتا ہےاُن کا ظہورہوچکا ہے،
مثلاً حضور اکرم    کا تشریف لانا اور چاند کا شق ہونا ،نبوت کے سلسلہ کا ختم ہوجانا وغیرہ یہ علاماتِ بعیدہ کہلاتی ہیں،اس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے:اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَر(قمر:۱) قیامت قریب آگئی اور چاند شق ہوگیا،یعنی حضور اکرم    کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے،گزشتہ کتابوں میں چاند کےشق ہونے کو علاماتِ قیامت میں شمار کیا گیا ہے۔



Wednesday, 4 June 2025

عوامی شبہات ومغالطوں کی اصلاح

(1) اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہی ہے تو کیا عبادت کیلئے فرشتے کافی نہیں تھے؟

جواب:

اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:  

*"وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ"* (الذاریات: 56)  

(ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے)۔  


سوال یہ ہے کہ اگر مقصد صرف عبادت تھا تو پہلے سے موجود فرشتے کیوں کافی نہیں تھے؟ اس کا جواب عقلی و نقلی دلائل سے درج ذیل ہے:


---


### *1. عبادت کی نوعیت میں فرق: آزاد مرضی کا امتحان:*

- **فرشتوں کی عبادت**: وہ فطری طور پر مکمل مطیع ہیں، ان میں آزاد مرضی نہیں۔ قرآن میں ہے:  

  *"لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ"* (التحریم: 6)  

  (ترجمہ: وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اور جو کچھ انہیں حکم دیا جائے وہی کرتے ہیں)۔  

  یہ عبادت "مجبوری" پر مبنی ہے۔  


- *انسان کی عبادت*: انسان کو *آزاد مرضی* دی گئی تاکہ وہ اپنے اختیار سے اللہ کی بندگی کا انتخاب کرے۔ یہ عبادت "امتحان" کی بنیاد پر ہے، جس کا مقصد ایمان و عمل کی آزمائش ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:  

  *"اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا"* (الملک: 2)  

  (ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے)۔  


*عقلی دلیل*:  

جبری عبادت (جیسے فرشتے) اور اختیاری عبادت (جیسے انسان) میں بہت فرق ہے۔ اختیاری عبادت میں *اخلاص، جدوجہد اور خدمت* شامل ہوتی ہے، جو انسان کو روحانی ترقی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اجر بھی فرشتوں سے زیادہ ہے۔  



---


### *2. انسان کی منفرد حیثیت: خلافتِ الٰہی کا منصب:*

اللہ تعالیٰ نے انسان کو **خلیفۃ اللہ فی الارض* (زمین پر اپنا نائب) بنایا، جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے:  

*"وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً"* (البقرہ: 30)  

فرشتوں نے اعتراض کیا: **"اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ"** (کیا آپ ایسے کو خلیفہ بنائیں گے جو فساد کرے گا اور خونریزی کرے گا؟)۔  

اللہ نے جواب دیا: *"اِنِّيْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ"* (بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے)۔  


*عقلی دلیل*:  

- فرشتے صرف عبادت کر سکتے ہیں، لیکن انسان کو *تخلیقی صلاحیتیں* دی گئی ہیں تاکہ وہ زمین کو آباد کرے، علم حاصل کرے اور عدل قائم کرے۔  

- انسان کا امتحان ہی اسے فرشتوں سے ممتاز کرتا ہے، کیونکہ وہ *شہوات اور شیطان کے وسوسوں* کے باوجود عبادت پر قائم رہتا ہے۔  


---


### *3. معرفتِ الٰہی کا کمال: اللہ کے اسماء و صفات کا ظہور*

انسان کو *اشرف المخلوقات* بنایا گیا، کیونکہ وہ اللہ کے اسماء و صفات (جیسے رحیم، غفور، حکیم) کو پہچاننے اور ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فرشتے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے، جیسا کہ سورۃ البقرہ (آیت 31-33) میں حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر فضیلت دینے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔  


*عقلی دلیل*:  

اگر صرف عبادت کا ہدف ہوتا تو فرشتے کافی تھے، لیکن انسان کی تخلیق کا مقصد *اللہ کی صفات کا مکمل ظہور* تھا، جو صرف آزاد مرضی، آزمائش اور اختیار کے ذریعے ممکن ہے۔  



---


### *4. نتیجہ: عبادت کا جامع تصور*

- *عبادت:* محض نماز/روزہ نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارنا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:  

  *"قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ"* (الأنعام: 162)  

  (ترجمہ: کہہ دو میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے)۔  

- فرشتے صرف *عبادتِ خاصہ* (نماز وغیرہ) کر سکتے ہیں، جبکہ انسان *عبادتِ عامہ* (تعلیم، معاشرتی خدمت واصلاح، عدل قائم کرنا) کے ذریعے بھی اللہ کو راضی کرتا ہے۔  


### *خلاصہ*:  

فرشتوں کی عبادت "فطری" ہے، جبکہ انسان کی عبادت "اختیاری اور آزمائشی" ہے، جو اسے *اعلیٰ درجے کی روحانی بلندی* پر پہنچاتی ہے۔ انسان کو خلافت، علم اور آزاد مرضی جیسے اعزازات دیے گئے، جو فرشتوں کے پاس نہیں۔ لہٰذا، انسان کی تخلیق کا مقصد محض عبادت نہیں، بلکہ *امتحان کے ذریعے کمالِ عبادت تک پہنچنا* ہے، جو فرشتوں کے لیے ممکن نہ تھا۔



Tuesday, 27 May 2025

ابراھیمی مذاہب یا ادیان اور ابراہیمی ہاوس کی حقیقت


ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے، اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزماں ﷺ اور وہ لوگ ہیں جو (ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔

[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 67-68]

اے اہل کتاب(یہود ونصاریٰ!) تم ابراہیم کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد ہی تو نازل ہوئی تھیں، کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے؟ دیکھو ! یہ تم ہی تو ہو جنہوں نے ان معاملات میں اپنی سی بحث کرلی ہے جن کا تمہیں کچھ نہ کچھ علم تھا۔ (26) اب ان معاملات میں کیوں بحث کرتے ہو جن کا تمہیں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے ؟ اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔

[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 65-66]

تفسیر:

(26)یہودی کہا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑ یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے، اول تو قرآن کریم نے فرمایا کہ یہ دونوں مذہب تورات اور انجیل کے نزول کے بعد وجود میں آئے، جبکہ حضرت ابرہیم ؑ بہت پہلے گزر چکے تھے، لہذا یہ انتہائی احمقانہ بات ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے، اس کے بعد قرآن کریم نے فرمایا کہ جب تمہارے وہ دلائل جو کسی نہ کسی صحیح حقیقت پر مبنی تھے، تمہارے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، تو حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں یہ بےبنیاد اور جاہلانہ بات کیسے تمہارے دعوے کو ثابت کرسکتی ہے، مثلاً تمہیں یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر تم نے ان کی خدائی کی دلیل پیش کرکے بحث کی مگر کامیاب نہ ہوسکے ؛ کیونکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کسی کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتا، حضرت آدم ؑ تو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے مگر انکو تم بھی خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے، جب تمہاری وہ دلیلیں بھی کام نہ آسکیں جو اس صحیح واقعے پر مبنی تھیں تو سراسر جاہلانہ بات کہ حضرت ابراہیم ؑ نصرانی یا یہودی تھے کیسے تمہارے لئے کارآمد ہوسکتی ہے ؟





Saturday, 24 May 2025

جہنم کا بیان

 جہنم۔۔۔بھڑکتی ہوئی "آگ" ہے۔

[سورۃ النساء:55]

اللہ کے غضب اور عذاب کا

[النساء:93]

طے شدہ(وعدہ گاہ) ہے

[الحجر:43]

برا ٹھکانہ

[البقرۃ:204]

بدترین مکان

[الفرقان:34]

قیدخانہ ہے

[الاسراء:8]

تکبر(حق کا انکار)کرنے والوں کیلئے

[النحل؛29]

اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے(مرنے)والے

[الجن:23]

جس سے بچنے کیلئے کوئی راہِ فرار نہیں ملے گی۔

[النساء:121]

جس میں وہ(مجرم)نہ مریں گے اور نہ جئیں گے

[طٌہٰ:74]

اور نہ ہی عذاب ہلکا کیا جائے گا

[فاطر:36]

یقیناً اسکا عذاب(وہ تباہی)ہے جو لازم ہوجانے-چمٹ کر رہ جانے والا ہے

[الفرقان:65]

Wednesday, 21 May 2025

نکاح میں"عمر"کے حد مقرر کرنے کا شرعی حکم

واضح رہے کہ شریعت میں نکاح کیلئے "عمر" کی حد(قید) نہیں لگائی گئی، اور دین مکمل ہوچکا اس میں کسی اضافے یا کمی کی گنجائش نہیں، اور انسانی عقل سے تجویز کردہ باتوں میں اختلاف ناگزیر ہے، لہٰذا انسانی عقل سے نازل شدہ حکم اور علمِ الٰہی کی ہدایت کو بدلنا نہ صرف دین سے بغاوت ہے بلکہ یہ دین میں تحریف و تبدیلی کرنا اور دین میں فساد وفتنہ پھیلانا ہے۔


لہٰذا کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکے/ لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے، بلکہ ولی کو ان کی شادی کرانے کا حق ہوتا ہے۔

نابالغ کی(شادی اور)طلاق کا حکم:

چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ}

ترجمہ:

اور تمہاری عورتوں میں سے جو ماہواری آنے سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں (ان کی عدت کے بارے میں) شک ہو تو (یاد رکھو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے، اور ان عورتوں کی (عدت) بھی (یہی ہے) جنہیں ابھی ماہواری آئی ہی نہیں۔۔۔

[سورۃ الطارق:4]


پس اس آیت کے ذیل میں امام جصاص رحمہ اللہ (م370ھ) لکھتے ہیں:

"فحكم بصحة طلاق الصغيرة التي لم تحض, والطلاق لا يقع إلا في نكاح صحيح, فتضمنت الآية جواز تزويج الصغيرة.ويدل عليه أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوج عائشة وهي بنت ست سنين۔"

ترجمہ:

"(اس آیت ميں) اس بچی جس کو ابھی حیض نہ آیا ہو اس کی طلاق کی درستگی کا حکم دیا گیا ہے اور طلاق صرف نکاح صحیح کے دوران ہوتی ہے، پس یہ آیت اس کو حکم کو بھی متضمن ہے کہ چھوٹی بچی کا نکاح کرانا درست ہے، اور اس بات پر بھی دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب وہ چھ سال کی تھیں۔"

[احکام القرآن للجصاص» سورہ آلِ عمران ،ج:،ص:69،ط:دار الکتب العلمیہ]


پس اگر لڑکی صحت مند ہو، شوہر کے قابل ہو تو رخصتی میں شرعاً کوئی حرج نہیں اور اس کا تعین لڑکی کے ولی اور سرپرست جو کہ لڑکی کے انتہائی خیر خواہ اور ذمہ دار ہیں ان کا کام ہے ،دوسرے لوگوں کو اس پر اعتراض کرنا اور اس قسم کی باتوں کو موضوع سخن بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔