یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Monday, 30 April 2012
الله کے خوبصورت ناموں سے پکارنے کی فضیلت
اللہ کے وہ حسین نام جن سے اسے پکارا جائے تو جنت واجب ہوجاتی ہے:
حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِن لله تِسْعَة وَتِسْعين اسْما مائَة غير وَاحِد مَا مِنْ عَبْدٍ يَدْعُو بِهَذِهِ الْأَسْمَاءِ إِلَّا وَجَبت لَهُ الْجنَّة۔
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ہیں، نہیں ہے کوئی بندہ جو پکارے ان ناموں سے لیکن اس کیلئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
[طبقات الصوفية للسلمي(م412ھ) : صفحہ331]
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء-أبو نعيم الأصبهاني (م430ھ): ج10 / ص380، حديث إن لله تسعة وتسعين اسما لأبي نعيم الأصبهاني(م430ھ): حدیث نمبر 91]
[تقريب البغية-الهيثمي (م807ھ) : حدیث نمبر4210]
[العجالة في الأحاديث المسلسلة-علم الدين الفاداني (م1411ھ) : ص108]
شمار | نام | ترجمہ |
---|---|---|
1 | الرحمن | سب پر مہربان |
2 | الرحيم | خصوصی رحم کرنے والا |
3 | الملك | حقیقی بادشاہ |
4 | القدوس | نہایت مقدس اور پاک |
5 | السلام | جس کی ذاتی صفت سلامتی ہے |
6 | المؤمن | امن و امان عطا کرنے والا |
7 | المهيمن | پوری نگہبانی کرنے والا |
8 | العزيز | غلبہ اور عزت والا، جو سب پر غالب ہے |
9 | الجبار | صاحب جبروت، ساری مخلوق اس کے زیرِ تصرف ہے |
10 | المتكبر | کبریائی اور بڑائی اس کا حق ہے |
11 | الخالق | پیدا فرمانے والا |
12 | البارئ | ٹھیک بنانے والا |
13 | المصور | صورت گری کرنے والا |
14 | الغفار | گناہوں کا بہت زیادہ بخشنے والا |
15 | القهار | سب پر پوری طرح غالب، جس کے سامنے سب مغلوب اور عاجز ہیں |
16 | الوهاب | بغیر کسی منفعت کے خوب عطا کرنے والا |
17 | الرزاق | سب کو روزی دینے والا |
18 | الفتاح | سب کے لیے رحمت و رزق کے دروازے کھولنے والا |
19 | العليم | سب کچھ جاننے والا |
20 | القابض | تنگی کرنے والا |
21 | الباسط | فراخی کرنے والا |
22 | الخافض | پست کرنے والا |
23 | الرافع | بلند کرنے والا |
24 | المعز | عزت دینے والا |
25 | المذل | ذلت دینے والا |
26 | السميع | سب کچھ سننے والا |
27 | البصير | سب کچھ دیکھنے والا |
28 | الحكم | حاکمِ حقیقی |
29 | العدل | سراپا عدل و انصاف |
30 | اللطيف | لطافت اور لطف و کرم جس کی ذاتی صفت ہے |
31 | الخبير | ہر بات سے با خبر |
32 | الحليم | نہائت بردبار |
33 | العظيم | بڑی عظمت والا، سب سے بزرگ و برتر |
34 | الغفور | بہت بخشنے والا |
35 | الشكور | حسنِ عمل کی قدر کرنے والا، بہتر سے بہتر جزا دینے والا |
36 | العلي | سب سے بالا |
37 | الكبير | سب سے بڑا |
38 | الحفيظ | سب کا نگہبان |
39 | المقيت | سب کو سامانِ حیات فراہم کرنے والا |
40 | الحسيب | سب کے لیے کفایت کرنے والا |
41 | الجليل | عظیم القدر |
42 | الكريم | صاحبِ کرم |
43 | الرقيب | نگہدار اور محافظ |
44 | المجيب | قبول کرنے والا |
45 | الواسع | وسعت رکھنے والا |
46 | الحكيم | سب کام حکمت سے کرنے والا |
47 | الودود | اپنے بندوں کو چاہنے والا |
48 | المجيد | بزرگی والا |
49 | الباعث | اٹھانے والا، موت کے بعد مردوں کو زندہ کرنے والا |
50 | الشهيد | حاضر، جو سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے |
51 | الحق | جس کی ذات و وجود اصلاً حق ہے |
52 | الوكيل | کارسازِ حقیقی |
53 | القوى | صاحبِ قوت |
54 | المتين | بہت مضبوط |
55 | الولى | سرپرست و مددگار |
56 | الحميد | مستحقِ حمد و ستائش |
57 | المحصى | سب مخلوقات کے بارے میں پوری معلومات رکھنے والا |
58 | المبدئ | پہلا وجود بخشنے والا |
59 | المعيد | دوبارہ زندگی دینے والا |
60 | المحيى | زندگی بخشنے والا |
61 | المميت | موت دینے والا |
62 | الحي | زندہ و جاوید، زندگی جس کی ذاتی صفت ہے |
63 | القيوم | خود قائم رہنے والا، سب مخلوق کو اپنی مشیئت کے مطابق قائم رکھنے والا |
64 | الواجد | سب کچھ اپنے پاس رکھنے والا |
65 | الماجد | بزرگی اور عظمت والا |
66 | الواحد | ایک اپنی ذات میں |
67 | الاحد | اپنی صفات میں یکتا |
68 | الصمد | سب سے بے نیاز اور سب اس کے محتاج |
69 | القادر | قدرت والا |
70 | المقتدر | سب پر کامل اقتدار رکھنے والا |
71 | المقدم | جسے چاہے آگے کر دینے والا |
72 | المؤخر | جسے چاہے پیچھے کر دینے والا |
73 | الأول | سب سے پہلے وجود رکھنے والا |
74 | الأخر | سب کے بعد وجود رکھنے والا |
75 | الظاهر | بالکل آشکار |
76 | الباطن | بالکل مخفی |
77 | الوالي | مالک و کارساز |
78 | المتعالي | بہت بلند و بالا |
79 | البر | بڑا محسن |
80 | التواب | توبہ کی توفیق دینے والا، توبہ قبول کرنے والا |
81 | المنتقم | مجرمین کو کیفرِ کردار کو پہنچانے والا |
82 | العفو | بہت معافی دینے والا |
83 | الرؤوف | بہت مہربان |
84 | مالك الملك | سارے جہاں کا مالک |
85 | ذو الجلال و الإكرام | صاحبِ جلال اور بہت کرم فرمانے والا۔۔۔جس کے جلال سے بندے ہمیشہ خائف ہوں اور جس کے کرم کی بندے ہمیشہ امید رکھیں |
86 | المقسط | حقدار کو حق عطا کرنے والا، عادل و منصف |
87 | الجامع | ساری مخلوقات کو قیامت کے دن یکجا کرنے والا |
88 | الغنى | خود بے نیاز جس کو کسی سے کوئی حاجت نہیں |
89 | المغنى | اپنی عطا کے ذریعے بندوں کو بے نیاز کرنے والا |
90 | المانع | روک دینے والا |
91 | الضار | اپنی حکمت اور مشیئت کے تحت ضرر پہنچانے والا |
92 | النافع | نفع پہنچانے والا |
93 | النور | سراپا نور |
94 | الهادي | ہدائت دینے والا |
95 | البديع | بغیر مثالِ سابق کے مخلوق کا پیدا کرنے والا |
96 | الباقي | ہمیشہ رہنے والا، جسے کبھی فنا نہیں |
97 | الوارث | سب کے فنا ہونے کے بعد باقی رہنے والا |
98 | الرشيد | صاحبِ رشد و حکمت جس کا ہر فعل درست ہے |
99 | الصبور | بڑا صابر کہ بندوں کی بڑی سے بڑی نافرمانیاں دیکھتا ہے اور فوراً عذاب بھیج کر تہس نہس نہیں کرتا۔ |
الله پاک نے ارشاد فرمایا:
وَلِلَّهِ الأَسماءُ الحُسنىٰ فَادعوهُ بِها ۖ وَذَرُوا الَّذينَ يُلحِدونَ فى أَسمٰئِهِ ۚ سَيُجزَونَ ما كانوا يَعمَلونَ
ترجمہ :
اور اسمائے حسنی (اچھے اچھے نام) اللہ ہی کے ہیں۔ لہذا اس کو انہی ناموں سے پکارو۔ (92) اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں ٹیڑھا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ (93) وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کا بدلہ انہیں دیا جائے گا۔
[سورۃ الاعراف:180]
(92) اس سے پہلی آیت میں نافرمانوں کی بنیادی بیماری یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے سامنے جواب دہی کے احساس سے غافل ہیں۔ اور غور کیا جائے تو اس دنیا میں ہر قسم کی برائی کا اصل سبب ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ اس لیے اب اس بیماری کا علاج بتایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور اپنی ہر حاجت اسی سے مانگی جائے۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے کا جو لفظ یہاں استعمال ہوا ہے، وہ دونوں باتوں کو شامل ہے، اس کی تسبیح و تقدیس کے ذریعے اس کا ذکر کرنا، اور اس سے دعائیں مانگنا۔ غفلت کے دور ہونے کا یہی راستہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کو دونوں طریقوں سے پکارے۔ البتہ اس کو پکارنے کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو اچھے اچھے نام (اسمائے حسنی) خود اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول ﷺ نے بتا دئیے ہیں، انہی ناموں سے اس کو پکارا جائے۔ ان اسمائے حسنی کی طرف قرآن کریم نے کئی مقامات پر اشارہ فرمایا ہے.
(دیکھئے سورة بنی اسرائیل 110:17 و سورة طہ 8:20 و سورة حشر 24:59)
اور صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ یہ ننانوے نام ترمذی اور حاکم نے روایت کیے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر انہی اسمائے حسنی میں سے کسی اسم مبارک کے ساتھ کرنا چاہیے اور اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نام نہیں گھڑ لینا چاہیے۔
(93) بہت سے کافروں کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کا جو ناقص، ادھورا یا غلط تصور تھا اس کے مطابق انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کوئی نام یا کوئی صفت بنالی تھی یہ آیت متنبہ کررہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پیروی میں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا وہ نام یا صفت استعمال کرنا شروع کردیں۔
تفسیر ابن کثیر:-
کچھ کمی زیادتی کے ساتھ اسی طرح یہ نام ابن ماجہ کی حدیث میں بھی وارد ہیں ۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ یہ نام راویوں نے قرآن میں چھانٹ لئے ہیں ۔ واللہ اعلم۔ یہ یاد رہے کہ یہی ننانوے نام اللہ کے ہوں اور نہ ہوں یہ بات نہیں ۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جسے کبھی بھی کوئی غم و رنج پہنچے اور وہ یہ دعا کرے:
(اللھم انی عبدک ابن عبدک ابن امتک ناصیتی بیدک ماض فی حکمک عدل فی قصاوک اسالک بکل اسم ھولک سمیت بہ نفسک وانزلتہ فی کتابک اوعلمتہ احد امن خقک اواستاثرت بہ فی علم الغیب عندک ان تجعل القران العظیم ربیع قلبی ونور صدری و جلاء حزنی و ذھاب ہمی) ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے غم و رنج کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ راحت و خوشی عطا فرمائے گا۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہم اسے اوروں کو بھی سکھائیں؟ آپ نے فرمایا ہاں بیشک جو اسے سنے اسے چاہئے کہ دوسروں کو بھی سکھائے ۔
امام ابن ابی حاتم اور ابن حبان بستی بھی اس روایت کو اسی طرح اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔
امام ابو بکر بن عربی بھی اپنی کتاب الاحوذی فی شرح الترمذی میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کتاب و سنت سے جمع کئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے ، واللہ اعلم ۔
اللہ کے ناموں سے الحاد کرنے والوں کو چھوڑ دو جیسے کہ لفظ اللہ سے کافروں نے اپنے بت کا نام لات رکھا اور عزیز سے مشتق کر کے عُزیٰ نام رکھا ۔ یہ بھی معنیٰ ہیں کہ جو اللہ کے ناموں میں شریک کرتے ہیں انہیں چھوڑو۔ جو انہیں جھٹلاتے ہیں ان سے منہ موڑ لو۔
الحاد کے لفظی معنیٰ ہیں درمیانہ سیدھے راستے سے ہٹ جانا اور گھوم جانا ۔ اسی لئے بغلی قبر کو لحد کہتے ہیں کیونکہ سیدھی کھدائی سے ہٹا کر بنائی جاتی ہے ۔
تفسیر معارف القرآن:- خلاصہ تفسیر اور اچھے اچھے ( مخصوص) نام اللہ ہی کے لئے ( خاص) ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور (دوسروں پر ان ناموں کا اطلاق مت کیا کرو بلکہ) ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے (مذکورہ) ناموں میں کج روی کرتے ہیں (اس طرح سے کہ غیر اللہ پر ان کا اطلاق کرتے ہیں جیسا وہ لوگ ان کو معبود اور الہ اعتقاد کے ساتھ کہتے تھے) ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔ معارف ومسائل پچھلی آیات میں اہل جہنم کا ذکر تھا جنہوں نے اپنی عقل و حواس کو اللہ تعالی کی نشانیوں کے دیکھنے، سننے اور سمجھنے سوچنے میں صرف نہیں کیا اور آخرت کی دائمی اور لازوال زندگی کے لئے کوئی سامان فراہم نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوگیا کہ وہ خداداد عقل و بصیرت کو ضائع کرکے ذکر اللہ کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح و فلاح سے غافل ہوگئے اور جانوروں سے زیادہ گمراہی اور بے وقوفی میں مبتلا ہوگئے۔ مذکورہ آیت میں ان کے مرض کا علاج اور درد کی دوا بتلائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا اور ذکر اللہ کی کثرت ہے، فرمایا (آیت) وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا، یعنی اللہ ہی کے لئے ہیں اچھے نام، تو تم پکارو اس کو انہی ناموں سے۔ اسماء حسنی کی تشریح: اچھے نام سے مراد وہ نام ہیں جو صفات کمال کے اعلی درجہ پر دلالت کرنے والے ہیں، اور ظاہر ہے کہ کسی کمال کا اعلی درجہ جس سے اوپر کوئی درجہ نہ ہوسکے وہ صرف خالق کائنات جل و عل شانہ ہی کو حاصل ہے اس کے سوا کسی مخلوق کو یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہر کامل سے دوسرا شخص اکمل اور فاضل سے افضل ہوسکتا ہے (آیت) فَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ، کا یہی مطلب ہے کہ ہر ذی علم سے بڑھ کر کوئی دوسرا علیم ہوسکتا ہے ۔ اسی لئے اس آیت میں ایسی عبارت اختیار کی گئی جس سے معلوم ہو کہ یہ اسماء حسنی صرف اللہ ہی کی خصوصیت ہے دوسروں کو حاصل نہیں،(آیت) فَادْعُوْهُ بِهَا، یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالی کے لئے اسماء حسنی ہیں اور وہ اسماء اسی کی ذات کے ساتھ خاص ہیں تو لازم ہے کہ اللہ تعالی ہی کو پکارو اور انہی اسماء حسنی کے ساتھ پکارو ۔ پکارنا یا بلانا دعا کا ترجمہ ہے، اور دعا کا لفظ قرآن میں دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے، ایک اللہ تعالی کا ذکر اس کی حمد و ثنا، تسبیح و تمجید کے ساتھ، دوسرے حاجات و مشلات کے وقت اللہ تعالی سے اپنی حاجت طلب کرنا اور مصائب وآفات سے نجات اور مشکلات کی آسانی کی درخواست کرنا، اس آیت میں فَادْعُوْهُ بِهَا کا لفظ دونوں معنی کو شامل ہے تو معنی آیت کے یہ ہوئے کہ حمد و ثنا اور تسبیح کے لائق بھی صرف اسی کی ذات پاک ہے اور مشکلات و مصائب سے نجات اور حاجت روائی بھی صرف اسی کے قبضہ میں ہے، اس لئے حمد و ثنا کرو تو اسی کی کرو اور حاجت روائی، مشکل کشائی کے لئے پکارو تو اسی کو پکارو ۔ اور پکارنے کا طریقہ بھی یہ بتلا دیا کہ انہی اسماء حسنی کے ساتھ پکارو جو اللہ تعالی کے لئے ثابت ہیں ۔ دعا کے بعض آداب: اس لئے اس آیت سے دو ہدایتیں امت کو ملیں، ایک یہ کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ذات حقیقی حمد و ثنا یا مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لئے پکارنے کے لائق نہیں، دوسرے یہ کہ اس کے پکارنے کے لئے بھی ہر شخص آزاد نہیں کہ جو الفاظ چاہے اختیار کرلے بلکہ اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں وہ الفاظ بھی بتلا دیئے جو اس کے شایاں ہیں اور ہمیں پابند کردیا کہ انہی الفاظ کے ساتھ اس کو پکاریں، اپنی تجویز سے دوسرے الفاظ نہ بدلیں کیونکہ انسان کی قدرت نہیں کہ تمام پہلوؤں کی رعایت کرکے شایان شان الفاظ بنا سکے ۔ بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے ننانوے (99) نام ہیں جو شخص ان کو محفوظ کرلے وہ جنت میں داخل ہوگیا ، یہ ننانوے نام امام ترمزی اور حاکم نے تفصیل کے ساتھ بتلائے ہیں ۔ اللہ تعالی کے یہ ننانوے نام پڑھ کر جس مقصد کے لئے دعا کی جائے قبول ہوتی ہے اللہ تعالی کا وعدہ ہے (آیت) ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی تم مجھے پکارو توں میں تمہاری دعا قبول کروں گا، حاجات و مشکلات کے لئے دعا سے بڑھ کر کوئی تدبیر ایسی نہیں جس میں کسی ضرر کا خطرہ نہ ، ہو اور نفع یقینی ہو ، اپنی حاجات کے لئے اللہ جل شانہ سے دعا کرنے میں کسی نقصان کا تو کوئی احتمال ہی نہین، اور ایک نفع نقد ہے کہ دعا ایک عبادت ہے ، اس کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ، حدیث میں ہے الد عاء مخ العبادة یعنی دعا کرنا عبادت کا مغز ہے اور جس مقصد کے لئے اس نے دعا کی ہے اکثر تو وہ مقصد بعینہ پورا ہو جاتا ہے ، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو اس نے اپنا مقصد بنایا تھا وہ اس کے حق میں مفید نہ تھی ، اللہ تعالی اپنے فضل سے اس کی دعا کو دوسری طرف پھیر دیتے ہیں جو اس کے لئے مفید ہو ، اور حمد و ثنا کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر کرنا ایمان کی غذا ہے جس کے نیتجہ میں انسان کی رغبت و محبت اللہ تعالی سے وابستہ ہوجاتی ہے اور دنیا کی تکلیفیں اگر پیش بھی آویں تو حقیر اور آسان ہوجاتی ہیں ۔ اسی لئے بخاری ، مسلم ، ترمذی نسائی کی صحیح احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو کوئی غم یا بے چینی یا مہم کام پیش آئے اس کو چاہئے کہ یہ کلمات پڑھے ، سب مشکلات آسان ہو جائیں گی وہ کلمات یہ ہیں : لآ الہ الا اللہ العظیم الحلیم ، لآ الہ الا الہ اللہ رب العرش العظیم، لآ الہ الا الہ اللہ رب السموب والارض ورب العرش الکریم، اور مستدرک حاکم میں بروایت انس رضی اللہ عنہ مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہراء سے فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے کیا چیز مانع ہے کہ تم میری وصیت کو سن لو ( اور اس پر عمل کیا کرو) وہ وصیت یہ ہے کہ صبح شام یہ دعا کر لیا کرو: یا حی یاقیوم برحمتک استغیث اصلح لی شانی کلہ ولا تکلنی الی نفسی طرفة عین۔ یہ دعا بھی تمام حاجت و مشکلات کے لئے بے نظیر ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ کے اس جملہ میں دو ہدایتیں امت کو دی گئیں ، ایک یہ کہ حمد و ثنا اور مشکلات و حاجات کے لئے صرف اللہ تعالی کو پکارو مخلوقات کو نہیں ، دوسرے یہ کہ اس کو انہی ناموں سے پکارو جو اللہ تعالی کے لئے ثابت ہیں، اس کے الفاظ نہ بدلو ۔ آیت کے اگلے جملہ میں اسی کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ، یعنی چھوڑ یے ان لوگوں کو جو اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں الحاد یعنی کجروی کرتے ہیں، ان کو ان کی کجروی کا بدلہ مل جائے گا ، الحاد کے معنی لغت میں میلان اور درمیانی راہ سے ہٹ جانے کے آتے ہیں ، اسی لئے قبر کی لحد کو لحد کہا جاتا ہے کیونکہ وہ درمیانی راہ ہٹی ہوئی ہوتی ہے، قرآن کریم میں لفظ الحاد قرآن کریم کے صحیح معانی کو چھوڑ کر ادھرا دھر کی تاویل و تحریف کرنے کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے تعلق بھی چھوڑدیں جو اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں الحاد یعنی تحریف اور کجروی سے کام لیتے ہیں ۔ اسماء الہیہ میں کجروی کی ممانعت اور اس کی مختلف صورتیں: اسماء الہیہ میں تحریف یا کجروی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں وہ سب اس آیت کے مضمون میں داخل ہیں: اول یہ کہ اللہ تعالی کے لئے وہ نام استعمال کیا جائے جو قرآن وحدیث میں اللہ تعالی کے لئے ثابت نہیں، علماء حق کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالی کے نام اور صفات میں کسی کو یہ اختیار نہیں کہ جو چاہے نام رکھ دے یا جس صفت کے ساتھ چاہے اس کی حمد و ثنا کرے بکہ صرف وہی الفاظ ہونا ضروری ہیں جو قرآن وسنت میں اللہ تعالی کے لئے بطور نام یا صفت کے ذکر کئے گئے ہیں، مثلا اللہ تعالی کو کریم کہہ سکتے ہیں، سخی نہیں کہہ سکتے ، نور کہہ سکتے ہیں ابیض نہیں کہہ سکتے ، شافی کہہ سکتے ہیں طبیب نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ یہ دوسرے الفاظ منقول نہیں، اگرچہ انہی الفاظ کے ہم معنی ہیں ۔ دوسری صورت الحاد فی الاسماء کی یہ ہے کہ اللہ تعالی کے جو نام قرآن وسنت سے ثابت ہیں ان میں سے کسی نام کو نامناسب سمجھ کر چھوڑ دے، اس کا بے ادبی ہونا ظاہر ہے ۔ کسی شخص کو اللہ تعالی کے مخصوص نام سے موسوم یا مخاطب کرنا جائز نہیں: تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے مخصوص ناموں کو کسی دوسرے شخص کے لئے استعمال کرے ، مگر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اسماء حسنی میں سے بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو خود قرآن و حدیث میں دوسرے لوگوں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالی کے اور کسی کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، تو جن ناموں کا استعمال غیر اللہ کے لئے قرآن و حدیث سے ثابت ہے وہ نام تو اوروں کے لئے بھی استعمال ہوسکتے ہیں جیسے رحیم ، رشید ، علی ، کریم، عزیز وغیرہ ، اور اسماء حسنی میں سے وہ نام جن کا غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، وہ صرف اللہ تعالی کے لئے مخصوص ہیں ان کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا الحاد مذکور میں داخل اور ناجائز وحرام ہے مثلا رحمن، سبحان، رزاق ، خالق، غفار ، قدوس وغیرہ۔ پھر ان مخصوص ناموں کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا اگر کسی غلط عقیدہ کی بناء پر ہے کہ اس کو ہی خالق یا رازق سمجھ کر ان الفاظ سے خطاب کررہا ہے تب تو ایسا کہنا کفر ہے اور اگر عقیدہ غلط نہیں محض بے فکری یا بے سمجھی سے کسی شخص کو خالق ، رازق یا رحمن ، سبحان کہہ دیا تو یہ اگرچہ کفر نہیں مگر مشرکانہ الفاظ ہو نے کی وجہ سے گناہ شدید ہے ۔ افسوس ہے کہ آج کل عام مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں، کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑ دیئے ، ان کی صورت و سیرت سے تو پہلے بھی مسلمان سمجھنا ان کا مشکل تھا، نام سے پتہ چل جاتا تھا ، اب نئے نام انگریزی طرز کے رکھے جانے لگے ، لڑکیوں کے نام خواتین اسلام کے طرز کے خلاف خدیجہ ، عائشہ ، فاطمہ کے بجائے نسیم ، شمیم ، شہناز ، نجمہ ، پروین ہونے لگے ، اس سے زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ جن لوگوں کے اسلامی نام ہیں ، عبدالرحمن ، عبدالخالق عبدالرزاق ، عبدالغفار ، عبدالقدوس وغیرہ، ان میں تخفیف کا یہ غلط طریقہ اختیار کرلیا گیا کہ صرف آخری لفظ ان کے نام کی جگہ پکارا جاتاہے، رحمن ، خالق، رزاق، غفار کا خطاب انسانوں کو دیا جارہا ہے اور اس سے زیادہ غضب کی بات یہ ہے کہ قدرت اللہ کو اللہ صاحب اور قدرت خدا کو خدا صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے یہ سب ناجائز وحرام اور گناہ کبیرہ ہے ، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں رہتا۔ یہ گناہ بے لذت اور بے فائدہ ایسا ہے جس کو ہمارے ہزاروں بھائی اپنے شب و روز کا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں اور کوئی فکر نہیں کرتے کہ اس ذرا سی حرکت کا انجام کتنا خطرناک ہے جس کی طرف آیت مذکورہ کے آخری جملہ میں تنبیہ فرمائی گئی ہے ، (آیت) سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ، یعنی ان کو اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا، اس بدلہ کی تعیین نہیں کی گئی ، اس ابہام سے عذاب شدید کی طرف اشارہ ہے۔ جن گناہوں میں کوئی دنیوی فائدہ یا لذت و راحت ہے ان میں تو کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی خواہش یا ضرورت سے مجبور ہوگیا ، مگر افسوس یہ ہے کہ آج مسلمان ایسے بہت سے فضول گناہوں میں بھی اپنی جہالت یا غفلت سے مبتلا نظر آتے ہیں جن میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہے نہ ادنی درجہ کی کوئی راحت ولذت ہے وجہ یہ ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی طرف دھیان ہی نہ رہا ۔ نعوذبا للہ منہ۔ |
Subscribe to:
Posts (Atom)