Monday, 30 April 2012

Mutafarriq

الله کے خوبصورت ناموں سے پکارنے کی فضیلت


اللہ کے وہ حسین نام جن سے اسے پکارا جائے تو جنت واجب ہوجاتی ہے:
حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِن ‌لله ‌تِسْعَة ‌وَتِسْعين ‌اسْما مائَة غير وَاحِد مَا مِنْ عَبْدٍ يَدْعُو بِهَذِهِ الْأَسْمَاءِ إِلَّا وَجَبت لَهُ الْجنَّة۔
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ہیں، نہیں ہے کوئی بندہ جو پکارے ان ناموں سے لیکن اس کیلئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
[طبقات الصوفية للسلمي(م412ھ) : صفحہ331]
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء-أبو نعيم الأصبهاني (م430ھ): ج10 / ص380، حديث إن لله تسعة وتسعين اسما لأبي نعيم الأصبهاني(م430ھ): حدیث نمبر 91]
[تقريب البغية-الهيثمي (م807ھ) : حدیث نمبر4210]
[العجالة في الأحاديث المسلسلة-علم الدين الفاداني (م1411ھ) : ص108]


شمارنامترجمہ
1الرحمنسب پر مہربان
2الرحيمخصوصی رحم کرنے والا
3الملكحقیقی بادشاہ
4القدوسنہایت مقدس اور پاک
5السلامجس کی ذاتی صفت سلامتی ہے
6المؤمنامن و امان عطا کرنے والا
7المهيمنپوری نگہبانی کرنے والا
8العزيزغلبہ اور عزت والا، جو سب پر غالب ہے
9الجبارصاحب جبروت، ساری مخلوق اس کے زیرِ تصرف ہے
10المتكبرکبریائی اور بڑائی اس کا حق ہے
11الخالقپیدا فرمانے والا
12البارئٹھیک بنانے والا
13المصورصورت گری کرنے والا
14الغفارگناہوں کا بہت زیادہ بخشنے والا
15القهارسب پر پوری طرح غالب، جس کے سامنے سب مغلوب اور عاجز ہیں
16الوهاببغیر کسی منفعت کے خوب عطا کرنے والا
17الرزاقسب کو روزی دینے والا
18الفتاحسب کے لیے رحمت و رزق کے دروازے کھولنے والا
19العليمسب کچھ جاننے والا
20القابضتنگی کرنے والا
21الباسطفراخی کرنے والا
22الخافضپست کرنے والا
23الرافعبلند کرنے والا
24المعزعزت دینے والا
25المذلذلت دینے والا
26السميعسب کچھ سننے والا
27البصيرسب کچھ دیکھنے والا
28الحكمحاکمِ حقیقی
29العدلسراپا عدل و انصاف
30اللطيفلطافت اور لطف و کرم جس کی ذاتی صفت ہے
31الخبيرہر بات سے با خبر
32الحليمنہائت بردبار
33العظيمبڑی عظمت والا، سب سے بزرگ و برتر
34الغفوربہت بخشنے والا
35الشكورحسنِ عمل کی قدر کرنے والا، بہتر سے بہتر جزا دینے والا
36العليسب سے بالا
37الكبيرسب سے بڑا
38الحفيظسب کا نگہبان
39المقيتسب کو سامانِ حیات فراہم کرنے والا
40الحسيبسب کے لیے کفایت کرنے والا
41الجليلعظیم القدر
42الكريمصاحبِ کرم
43الرقيبنگہدار اور محافظ
44المجيبقبول کرنے والا
45الواسعوسعت رکھنے والا
46الحكيمسب کام حکمت سے کرنے والا
47الودوداپنے بندوں کو چاہنے والا
48المجيدبزرگی والا
49الباعثاٹھانے والا، موت کے بعد مردوں کو زندہ کرنے والا
50الشهيدحاضر، جو سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے
51الحقجس کی ذات و وجود اصلاً حق ہے
52الوكيلکارسازِ حقیقی
53القوىصاحبِ قوت
54المتينبہت مضبوط
55الولىسرپرست و مددگار
56الحميدمستحقِ حمد و ستائش
57المحصىسب مخلوقات کے بارے میں پوری معلومات رکھنے والا
58المبدئپہلا وجود بخشنے والا
59المعيددوبارہ زندگی دینے والا
60المحيىزندگی بخشنے والا
61المميتموت دینے والا
62الحيزندہ و جاوید، زندگی جس کی ذاتی صفت ہے
63القيومخود قائم رہنے والا، سب مخلوق کو اپنی مشیئت کے مطابق قائم رکھنے والا
64الواجدسب کچھ اپنے پاس رکھنے والا
65الماجدبزرگی اور عظمت والا
66الواحدایک اپنی ذات میں
67الاحداپنی صفات میں یکتا
68الصمدسب سے بے نیاز اور سب اس کے محتاج
69القادرقدرت والا
70المقتدرسب پر کامل اقتدار رکھنے والا
71المقدمجسے چاہے آگے کر دینے والا
72المؤخرجسے چاہے پیچھے کر دینے والا
73الأولسب سے پہلے وجود رکھنے والا
74الأخرسب کے بعد وجود رکھنے والا
75الظاهربالکل آشکار
76الباطنبالکل مخفی
77الواليمالک و کارساز
78المتعاليبہت بلند و بالا
79البربڑا محسن
80التوابتوبہ کی توفیق دینے والا، توبہ قبول کرنے والا
81المنتقممجرمین کو کیفرِ کردار کو پہنچانے والا
82العفوبہت معافی دینے والا
83الرؤوفبہت مہربان
84مالك الملكسارے جہاں کا مالک
85ذو الجلال و الإكرامصاحبِ جلال اور بہت کرم فرمانے والا۔۔۔جس کے جلال سے بندے ہمیشہ خائف ہوں اور جس کے کرم کی بندے ہمیشہ امید رکھیں
86المقسطحقدار کو حق عطا کرنے والا، عادل و منصف
87الجامعساری مخلوقات کو قیامت کے دن یکجا کرنے والا
88الغنىخود بے نیاز جس کو کسی سے کوئی حاجت نہیں
89المغنىاپنی عطا کے ذریعے بندوں کو بے نیاز کرنے والا
90المانعروک دینے والا
91الضاراپنی حکمت اور مشیئت کے تحت ضرر پہنچانے والا
92النافعنفع پہنچانے والا
93النورسراپا نور
94الهاديہدائت دینے والا
95البديعبغیر مثالِ سابق کے مخلوق کا پیدا کرنے والا
96الباقيہمیشہ رہنے والا، جسے کبھی فنا نہیں
97الوارثسب کے فنا ہونے کے بعد باقی رہنے والا
98الرشيدصاحبِ رشد و حکمت جس کا ہر فعل درست ہے
99الصبوربڑا صابر کہ بندوں کی بڑی سے بڑی نافرمانیاں دیکھتا ہے اور فوراً عذاب بھیج کر تہس نہس نہیں کرتا۔




الله پاک نے ارشاد فرمایا:
وَلِلَّهِ الأَسماءُ الحُسنىٰ فَادعوهُ بِها ۖ وَذَرُوا الَّذينَ يُلحِدونَ فى أَسمٰئِهِ ۚ سَيُجزَونَ ما كانوا يَعمَلونَ 
ترجمہ :
اور اسمائے حسنی (اچھے اچھے نام) اللہ ہی کے ہیں۔ لہذا اس کو انہی ناموں سے پکارو۔ (92) اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں ٹیڑھا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ (93) وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کا بدلہ انہیں دیا جائے گا۔
[سورۃ الاعراف:180]

(92) اس سے پہلی آیت میں نافرمانوں کی بنیادی بیماری یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے سامنے جواب دہی کے احساس سے غافل ہیں۔ اور غور کیا جائے تو اس دنیا میں ہر قسم کی برائی کا اصل سبب ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ اس لیے اب اس بیماری کا علاج بتایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور اپنی ہر حاجت اسی سے مانگی جائے۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے کا جو لفظ یہاں استعمال ہوا ہے، وہ دونوں باتوں کو شامل ہے، اس کی تسبیح و تقدیس کے ذریعے اس کا ذکر کرنا، اور اس سے دعائیں مانگنا۔ غفلت کے دور ہونے کا یہی راستہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کو دونوں طریقوں سے پکارے۔ البتہ اس کو پکارنے کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو اچھے اچھے نام (اسمائے حسنی) خود اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول ﷺ نے بتا دئیے ہیں، انہی ناموں سے اس کو پکارا جائے۔ ان اسمائے حسنی کی طرف قرآن کریم نے کئی مقامات پر اشارہ فرمایا ہے.
(دیکھئے سورة بنی اسرائیل 110:17 و سورة طہ 8:20 و سورة حشر 24:59)
اور صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ یہ ننانوے نام ترمذی اور حاکم نے روایت کیے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر انہی اسمائے حسنی میں سے کسی اسم مبارک کے ساتھ کرنا چاہیے اور اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نام نہیں گھڑ لینا چاہیے۔
(93) بہت سے کافروں کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کا جو ناقص، ادھورا یا غلط تصور تھا اس کے مطابق انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کوئی نام یا کوئی صفت بنالی تھی یہ آیت متنبہ کررہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پیروی میں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا وہ نام یا صفت استعمال کرنا شروع کردیں۔



تفسیر ابن کثیر:-
کچھ کمی زیادتی کے ساتھ اسی طرح یہ نام ابن ماجہ کی حدیث میں بھی وارد ہیں ۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ یہ نام راویوں نے قرآن میں چھانٹ لئے ہیں ۔ واللہ اعلم۔ یہ یاد رہے کہ یہی ننانوے نام اللہ کے ہوں اور نہ ہوں یہ بات نہیں ۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جسے کبھی بھی کوئی غم و رنج پہنچے اور وہ یہ دعا کرے:
(اللھم انی عبدک ابن عبدک ابن امتک ناصیتی بیدک ماض فی حکمک عدل فی قصاوک اسالک بکل اسم ھولک سمیت بہ نفسک وانزلتہ فی کتابک اوعلمتہ احد امن خقک اواستاثرت بہ فی علم الغیب عندک ان تجعل القران العظیم ربیع قلبی ونور صدری و جلاء حزنی و ذھاب ہمی) ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے غم و رنج کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ راحت و خوشی عطا فرمائے گا۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہم اسے اوروں کو بھی سکھائیں؟ آپ نے فرمایا ہاں بیشک جو اسے سنے اسے چاہئے کہ دوسروں کو بھی سکھائے ۔
امام ابن ابی حاتم اور ابن حبان بستی بھی اس روایت کو اسی طرح اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔
امام ابو بکر بن عربی بھی اپنی کتاب الاحوذی فی شرح الترمذی میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کتاب و سنت سے جمع کئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے ، واللہ اعلم ۔
اللہ کے ناموں سے الحاد کرنے والوں کو چھوڑ دو جیسے کہ لفظ اللہ سے کافروں نے اپنے بت کا نام لات رکھا اور عزیز سے مشتق کر کے عُزیٰ نام رکھا ۔ یہ بھی معنیٰ ہیں کہ جو اللہ کے ناموں میں شریک کرتے ہیں انہیں چھوڑو۔ جو انہیں جھٹلاتے ہیں ان سے منہ موڑ لو۔
الحاد کے لفظی معنیٰ ہیں درمیانہ سیدھے راستے سے ہٹ جانا اور گھوم جانا ۔ اسی لئے بغلی قبر کو لحد کہتے ہیں کیونکہ سیدھی کھدائی سے ہٹا کر بنائی جاتی ہے ۔


تفسیر معارف القرآن:- 
خلاصہ تفسیر اور اچھے اچھے ( مخصوص) نام اللہ ہی کے لئے ( خاص) ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور (دوسروں پر ان ناموں کا اطلاق مت کیا کرو بلکہ) ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے (مذکورہ) ناموں میں کج روی کرتے ہیں (اس طرح سے کہ غیر اللہ پر ان کا اطلاق کرتے ہیں جیسا وہ لوگ ان کو معبود اور الہ اعتقاد کے ساتھ کہتے تھے) ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔ معارف ومسائل پچھلی آیات میں اہل جہنم کا ذکر تھا جنہوں نے اپنی عقل و حواس کو اللہ تعالی کی نشانیوں کے دیکھنے، سننے اور سمجھنے سوچنے میں صرف نہیں کیا اور آخرت کی دائمی اور لازوال زندگی کے لئے کوئی سامان فراہم نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوگیا کہ وہ خداداد عقل و بصیرت کو ضائع کرکے ذکر اللہ کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح و فلاح سے غافل ہوگئے اور جانوروں سے زیادہ گمراہی اور بے وقوفی میں مبتلا ہوگئے۔ مذکورہ آیت میں ان کے مرض کا علاج اور درد کی دوا بتلائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا اور ذکر اللہ کی کثرت ہے، فرمایا (آیت) وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا، یعنی اللہ ہی کے لئے ہیں اچھے نام، تو تم پکارو اس کو انہی ناموں سے۔ اسماء حسنی کی تشریح: اچھے نام سے مراد وہ نام ہیں جو صفات کمال کے اعلی درجہ پر دلالت کرنے والے ہیں، اور ظاہر ہے کہ کسی کمال کا اعلی درجہ جس سے اوپر کوئی درجہ نہ ہوسکے وہ صرف خالق کائنات جل و عل شانہ ہی کو حاصل ہے اس کے سوا کسی مخلوق کو یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہر کامل سے دوسرا شخص اکمل اور فاضل سے افضل ہوسکتا ہے (آیت) فَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ، کا یہی مطلب ہے کہ ہر ذی علم سے بڑھ کر کوئی دوسرا علیم ہوسکتا ہے ۔ اسی لئے اس آیت میں ایسی عبارت اختیار کی گئی جس سے معلوم ہو کہ یہ اسماء حسنی صرف اللہ ہی کی خصوصیت ہے دوسروں کو حاصل نہیں،(آیت) فَادْعُوْهُ بِهَا، یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالی کے لئے اسماء حسنی ہیں اور وہ اسماء اسی کی ذات کے ساتھ خاص ہیں تو لازم ہے کہ اللہ تعالی ہی کو پکارو اور انہی اسماء حسنی کے ساتھ پکارو ۔ پکارنا یا بلانا دعا کا ترجمہ ہے، اور دعا کا لفظ قرآن میں دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے، ایک اللہ تعالی کا ذکر اس کی حمد و ثنا، تسبیح و تمجید کے ساتھ، دوسرے حاجات و مشلات کے وقت اللہ تعالی سے اپنی حاجت طلب کرنا اور مصائب وآفات سے نجات اور مشکلات کی آسانی کی درخواست کرنا، اس آیت میں فَادْعُوْهُ بِهَا کا لفظ دونوں معنی کو شامل ہے تو معنی آیت کے یہ ہوئے کہ حمد و ثنا اور تسبیح کے لائق بھی صرف اسی کی ذات پاک ہے اور مشکلات و مصائب سے نجات اور حاجت روائی بھی صرف اسی کے قبضہ میں ہے، اس لئے حمد و ثنا کرو تو اسی کی کرو اور حاجت روائی، مشکل کشائی کے لئے پکارو تو اسی کو پکارو ۔ اور پکارنے کا طریقہ بھی یہ بتلا دیا کہ انہی اسماء حسنی کے ساتھ پکارو جو اللہ تعالی کے لئے ثابت ہیں ۔ دعا کے بعض آداب: اس لئے اس آیت سے دو ہدایتیں امت کو ملیں، ایک یہ کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ذات حقیقی حمد و ثنا یا مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لئے پکارنے کے لائق نہیں، دوسرے یہ کہ اس کے پکارنے کے لئے بھی ہر شخص آزاد نہیں کہ جو الفاظ چاہے اختیار کرلے بلکہ اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں وہ الفاظ بھی بتلا دیئے جو اس کے شایاں ہیں اور ہمیں پابند کردیا کہ انہی الفاظ کے ساتھ اس کو پکاریں، اپنی تجویز سے دوسرے الفاظ نہ بدلیں کیونکہ انسان کی قدرت نہیں کہ تمام پہلوؤں کی رعایت کرکے شایان شان الفاظ بنا سکے ۔ بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے ننانوے (99) نام ہیں جو شخص ان کو محفوظ کرلے وہ جنت میں داخل ہوگیا ، یہ ننانوے نام امام ترمزی اور حاکم نے تفصیل کے ساتھ بتلائے ہیں ۔ اللہ تعالی کے یہ ننانوے نام پڑھ کر جس مقصد کے لئے دعا کی جائے قبول ہوتی ہے اللہ تعالی کا وعدہ ہے (آیت) ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی تم مجھے پکارو توں میں تمہاری دعا قبول کروں گا، حاجات و مشکلات کے لئے دعا سے بڑھ کر کوئی تدبیر ایسی نہیں جس میں کسی ضرر کا خطرہ نہ ، ہو اور نفع یقینی ہو ، اپنی حاجات کے لئے اللہ جل شانہ سے دعا کرنے میں کسی نقصان کا تو کوئی احتمال ہی نہین، اور ایک نفع نقد ہے کہ دعا ایک عبادت ہے ، اس کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ، حدیث میں ہے الد عاء مخ العبادة یعنی دعا کرنا عبادت کا مغز ہے اور جس مقصد کے لئے اس نے دعا کی ہے اکثر تو وہ مقصد بعینہ پورا ہو جاتا ہے ، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو اس نے اپنا مقصد بنایا تھا وہ اس کے حق میں مفید نہ تھی ، اللہ تعالی اپنے فضل سے اس کی دعا کو دوسری طرف پھیر دیتے ہیں جو اس کے لئے مفید ہو ، اور حمد و ثنا کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر کرنا ایمان کی غذا ہے جس کے نیتجہ میں انسان کی رغبت و محبت اللہ تعالی سے وابستہ ہوجاتی ہے اور دنیا کی تکلیفیں اگر پیش بھی آویں تو حقیر اور آسان ہوجاتی ہیں ۔ اسی لئے بخاری ، مسلم ، ترمذی نسائی کی صحیح احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو کوئی غم یا بے چینی یا مہم کام پیش آئے اس کو چاہئے کہ یہ کلمات پڑھے ، سب مشکلات آسان ہو جائیں گی وہ کلمات یہ ہیں : لآ الہ الا اللہ العظیم الحلیم ، لآ الہ الا الہ اللہ رب العرش العظیم، لآ الہ الا الہ اللہ رب السموب والارض ورب العرش الکریم، اور مستدرک حاکم میں بروایت انس رضی اللہ عنہ مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہراء سے فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے کیا چیز مانع ہے کہ تم میری وصیت کو سن لو ( اور اس پر عمل کیا کرو) وہ وصیت یہ ہے کہ صبح شام یہ دعا کر لیا کرو: یا حی یاقیوم برحمتک استغیث اصلح لی شانی کلہ ولا تکلنی الی نفسی طرفة عین۔ یہ دعا بھی تمام حاجت و مشکلات کے لئے بے نظیر ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ کے اس جملہ میں دو ہدایتیں امت کو دی گئیں ، ایک یہ کہ حمد و ثنا اور مشکلات و حاجات کے لئے صرف اللہ تعالی کو پکارو مخلوقات کو نہیں ، دوسرے یہ کہ اس کو انہی ناموں سے پکارو جو اللہ تعالی کے لئے ثابت ہیں، اس کے الفاظ نہ بدلو ۔ آیت کے اگلے جملہ میں اسی کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ، یعنی چھوڑ یے ان لوگوں کو جو اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں الحاد یعنی کجروی کرتے ہیں، ان کو ان کی کجروی کا بدلہ مل جائے گا ، الحاد کے معنی لغت میں میلان اور درمیانی راہ سے ہٹ جانے کے آتے ہیں ، اسی لئے قبر کی لحد کو لحد کہا جاتا ہے کیونکہ وہ درمیانی راہ ہٹی ہوئی ہوتی ہے، قرآن کریم میں لفظ الحاد قرآن کریم کے صحیح معانی کو چھوڑ کر ادھرا دھر کی تاویل و تحریف کرنے کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے تعلق بھی چھوڑدیں جو اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں الحاد یعنی تحریف اور کجروی سے کام لیتے ہیں ۔ اسماء الہیہ میں کجروی کی ممانعت اور اس کی مختلف صورتیں: اسماء الہیہ میں تحریف یا کجروی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں وہ سب اس آیت کے مضمون میں داخل ہیں: اول یہ کہ اللہ تعالی کے لئے وہ نام استعمال کیا جائے جو قرآن وحدیث میں اللہ تعالی کے لئے ثابت نہیں، علماء حق کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالی کے نام اور صفات میں کسی کو یہ اختیار نہیں کہ جو چاہے نام رکھ دے یا جس صفت کے ساتھ چاہے اس کی حمد و ثنا کرے بکہ صرف وہی الفاظ ہونا ضروری ہیں جو قرآن وسنت میں اللہ تعالی کے لئے بطور نام یا صفت کے ذکر کئے گئے ہیں، مثلا اللہ تعالی کو کریم کہہ سکتے ہیں، سخی نہیں کہہ سکتے ، نور کہہ سکتے ہیں ابیض نہیں کہہ سکتے ، شافی کہہ سکتے ہیں طبیب نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ یہ دوسرے الفاظ منقول نہیں، اگرچہ انہی الفاظ کے ہم معنی ہیں ۔ دوسری صورت الحاد فی الاسماء کی یہ ہے کہ اللہ تعالی کے جو نام قرآن وسنت سے ثابت ہیں ان میں سے کسی نام کو نامناسب سمجھ کر چھوڑ دے، اس کا بے ادبی ہونا ظاہر ہے ۔ کسی شخص کو اللہ تعالی کے مخصوص نام سے موسوم یا مخاطب کرنا جائز نہیں: تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے مخصوص ناموں کو کسی دوسرے شخص کے لئے استعمال کرے ، مگر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اسماء حسنی میں سے بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو خود قرآن و حدیث میں دوسرے لوگوں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالی کے اور کسی کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، تو جن ناموں کا استعمال غیر اللہ کے لئے قرآن و حدیث سے ثابت ہے وہ نام تو اوروں کے لئے بھی استعمال ہوسکتے ہیں جیسے رحیم ، رشید ، علی ، کریم، عزیز وغیرہ ، اور اسماء حسنی میں سے وہ نام جن کا غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، وہ صرف اللہ تعالی کے لئے مخصوص ہیں ان کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا الحاد مذکور میں داخل اور ناجائز وحرام ہے مثلا رحمن، سبحان، رزاق ، خالق، غفار ، قدوس وغیرہ۔ پھر ان مخصوص ناموں کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا اگر کسی غلط عقیدہ کی بناء پر ہے کہ اس کو ہی خالق یا رازق سمجھ کر ان الفاظ سے خطاب کررہا ہے تب تو ایسا کہنا کفر ہے اور اگر عقیدہ غلط نہیں محض بے فکری یا بے سمجھی سے کسی شخص کو خالق ، رازق یا رحمن ، سبحان کہہ دیا تو یہ اگرچہ کفر نہیں مگر مشرکانہ الفاظ ہو نے کی وجہ سے گناہ شدید ہے ۔ افسوس ہے کہ آج کل عام مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں، کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑ دیئے ، ان کی صورت و سیرت سے تو پہلے بھی مسلمان سمجھنا ان کا مشکل تھا، نام سے پتہ چل جاتا تھا ، اب نئے نام انگریزی طرز کے رکھے جانے لگے ، لڑکیوں کے نام خواتین اسلام کے طرز کے خلاف خدیجہ ، عائشہ ، فاطمہ کے بجائے نسیم ، شمیم ، شہناز ، نجمہ ، پروین ہونے لگے ، اس سے زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ جن لوگوں کے اسلامی نام ہیں ، عبدالرحمن ، عبدالخالق عبدالرزاق ، عبدالغفار ، عبدالقدوس وغیرہ، ان میں تخفیف کا یہ غلط طریقہ اختیار کرلیا گیا کہ صرف آخری لفظ ان کے نام کی جگہ پکارا جاتاہے، رحمن ، خالق، رزاق، غفار کا خطاب انسانوں کو دیا جارہا ہے اور اس سے زیادہ غضب کی بات یہ ہے کہ قدرت اللہ کو اللہ صاحب اور قدرت خدا کو خدا صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے یہ سب ناجائز وحرام اور گناہ کبیرہ ہے ، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں رہتا۔ یہ گناہ بے لذت اور بے فائدہ ایسا ہے جس کو ہمارے ہزاروں بھائی اپنے شب و روز کا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں اور کوئی فکر نہیں کرتے کہ اس ذرا سی حرکت کا انجام کتنا خطرناک ہے جس کی طرف آیت مذکورہ کے آخری جملہ میں تنبیہ فرمائی گئی ہے ، (آیت) سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ، یعنی ان کو اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا، اس بدلہ کی تعیین نہیں کی گئی ، اس ابہام سے عذاب شدید کی طرف اشارہ ہے۔ جن گناہوں میں کوئی دنیوی فائدہ یا لذت و راحت ہے ان میں تو کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی خواہش یا ضرورت سے مجبور ہوگیا ، مگر افسوس یہ ہے کہ آج مسلمان ایسے بہت سے فضول گناہوں میں بھی اپنی جہالت یا غفلت سے مبتلا نظر آتے ہیں جن میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہے نہ ادنی درجہ کی کوئی راحت ولذت ہے وجہ یہ ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی طرف دھیان ہی نہ رہا ۔ نعوذبا للہ منہ۔