یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Saturday, 30 April 2016
اسلام میں آزادی کا تصور
عقیدہِ آخرت کے دلائل اور فوائد : عقل و نقل کی روشنی میں
Thursday, 21 April 2016
اسلامی اور مغربی تہذیب کا جائزہ
Sunday, 10 April 2016
نیک وبد صحبت ودوستی کے اثرات
ماہ ِرجب کے فضائل ومسائل، واقعات و بدعات
بغیر شدید مجبوری قرض لینے کی خرابیاں اور نقصانات
دینی مدارس کی تاریخ ومقصد، افادیت واہمیت، قدر ومنزلت اور امتیازات
درس=پڑھنا(فعل)»
القرآن:
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ "پڑھتے" ہو۔
[سورۃ نمبر 68 القلم،آیت نمبر 37]
القرآن:
حالانکہ ہم نے ان(بت پرست مشرکین) کو پہلے نہ ایسی کتابیں دی تھیں جو یہ "پڑھتے پڑھاتے" ہوں اور نہ (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا (نبی) بھیجا تھا۔
[سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 44]
تفسیر:
یعنی یہ لوگ اس قرآن کو (معاذ اللہ) من گھڑت کہہ رہے ہیں، حالانکہ من گھڑت تو خود ان کا مذہب ہے، کیونکہ ان کے پاس اس سے پہلے نہ کوئی آسمان کتاب آئی ہے، نہ کوئی پیغمبر، لہذا انہوں نے جو کوئی مذہب بنایا ہے، وہ اپنے دل سے گھڑ کر بنایا ہے۔ نیز ان کو پہلی مرتبہ کتاب اور پیغمبر سے نوازا گیا ہے تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس نعمت کی قدر کرتے، لیکن یہ الٹے اس کے مخالف بن گئے ہیں۔
القرآن:
پھر ان کے بعد ان کی جگہ ایسے جانشین آئے جو کتاب (یعنی تورات) کے وارث بنے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ اس ذلیل دنیا کا سازو سامان (رشوت میں) لیتے، اور یہ کہتے کہ : ہماری بخشش ہوجائے گی۔ حالانکہ اگر اسی جیسا سازوسامان دوبارہ ان کے پاس آتا تو وہ اسے بھی (رشوت میں) لے لیتے۔ (86) کیا ان سے کتاب میں مذکور یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کریں ؟ اور اس (کتاب) میں جو کچھ لکھا تھا وہ انہوں نے باقاعدہ "پڑھا" بھی تھا۔ اور آخرت والا گھر ان لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں۔ (اے یہود) کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 169]
تفسیر:
(86) یہ ان کی اس بد عنوانی کا ذکر ہے کہ وہ رشوت لے کر اللہ کی کتاب کی غلط تفسیر کردیتے تھے، اور ساتھ ہی بڑے یقین کے ساتھ یہ بھی کہتے کہ ہمارے اس گناہ کی بخشش ہوجائے گی۔ حالانکہ بخشش تو توبہ سے ہوتی ہے، جس کا لازمی حصہ یہ ہے کہ آئندہ اس گناہ سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن ان کا حال یہ تھا کہ اگر انہیں دوبارہ رشوت کی پیشکش کی جاتی تو وہ دوبارہ لینے کو بےتکلف تیار رہتے تھے۔ اور یہ سب کچھ وہ دنیا کی خاطر کرتے تھے۔ حالانکہ اگر عقل ہوتی تو یہ دیکھتے کہ آخر کی زندگی کہیں بہتر ہے۔
درس بمعنیٰ سیکھنا۔
القرآن:
اسی طرح ہم آیتیں مختلف طریقوں سے بار بار واضح کرتے ہیں (تاکہ تم انہیں لوگوں تک پہنچا دو) اور بالآخر یہ لوگ تو یوں کہیں کہ : تم نے کسی سے "سیکھا" ہے (43) اور جو لوگ علم سے کام لیتے ہیں ان کے لیے ہم حق کو آشکار کردیں۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام،آیت نمبر 105]
تفسیر:
(43) ہٹ دھرم قسم کے کافروں کو بھی یہ کہتے ہوئے شرم آتی تھی کہ یہ کلام خو آنحضرت ﷺ نے گھڑلیا ہے کیونکہ وہ آپ کے اسلوب سے اچھی طرح واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ امی ہیں، اور کسی کتاب سے خود ٖپڑھ کر یہ کلام نہیں بناسکتے، لہذا وہ قرآن کریم کے بارے میں یہ کہا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ کلام کسی سے سیکھا ہے اور اسے اللہ کا کلام قرار دے کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ؛ لیکن کس سے سیکھا ہے وہ بھی نہیں بتاسکتے تھے، کبھی کبھی وہ ایک لوہار کا نام لیتے تھے جس کی تردید سورة نحل میں آنے والی ہے۔
درسِ قرآن کا مقصد ونتیجہ»
القرآن:
یہ کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کرے، اور وہ اس کے باوجود لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ (29) اس کے بجائے (وہ تو یہی کہے گا کہ) اللہ والے بن جاؤ، کیونکہ تم جو کتاب پڑھاتے رہے ہو اور جو کچھ "پڑھتے" رہے ہو، اس کا یہی نتیجہ ہونا چاہیے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 79]
تفسیر:
(29) یہ عیسائیوں کی تردید ہورہی ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا یا خدا کا بیٹا مان کر گویا یہ دعویٰ کرتے تھے کہ خود حضرت عیسیٰ ؑ نے ہی ان کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ یہی حال ان بعض یہودی فرقوں کا تھا جو حضرت عزیر ؑ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔
۱:- مدرسہ صحنِ ابی بکرؓ
آپ کے گھر کے سامنے ایک چبوترہ تھا، جس پر آپ نماز ادا کرتے اور قرآن پڑھا کرتے تھے۔ مشرکین کے بچے اور عورتیں آپ کے گرد جمع ہو جاتے اور قرآن کو سنتے تھے۔ کفارِ مکہ کو یہ ناگوار گزرا اور حضرت ابوبکرؓ کو اس جگہ کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
[بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، کتاب المناقب، مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ إلی المدینۃ، رقم الحدیث:۳۹۰۵ (ریاض- دارالسلام، ۲۰۰۰ء ) ص: ۳۱۷-۳۱۸]
۲:- مدرسہ دارِ ارقم ؓ
ابتدائے اسلام میں کوہِ صفا کے دامن میں واقع بن ارقمؓ کے مکان میں یہ مدرسہ قائم تھا، جس میں چالیس صحابہ کرامؓ(مرد وعورتیں) تعلیم وتعلم میں مشغول رہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود معلم تھے، حضرت ابوبکر، حضرت حمزہ وحضرت علی رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ اس کے طالب علم تھے، حضرت عمرؓ نے بھی اسی جگہ اسلام قبول کیا۔ یہاں قیام وطعام کا انتظام بھی تھا، یہ جگہ دارالاسلام کے نام سے مشہور ہوگئی تھی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہراوی ہیں کہ: مسلمان ہونے والوں کو ایک ایک دو دو کرکے رسول اللہ ﷺ کسی صاحبِ حیثیت کے پاس بھیج دیتے تھے اور یہ لوگ وہاں رہ کر کھانا کھاتے تھے۔ میرے بہنوئی کے گھر بھی دو آدمی موجود تھے، ایک خبابؓ بن ارت تھے ،جو میرے بہنوئی اور بہن کے پاس جا جا کر قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔
[ الحلبی،علی بن إبراہیم بن أحمد،أبو الفرج، المتوفٰی: ۱۰۴۴ھ، السیرۃ الحلبیۃ= إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (بیروت-دار الکتب العلمیۃ،۱۴۲۷ھ)جلد:۱،ص:۴۶۵]
۳:-مدرسہ أختِ عمرؓ
حضرت عمرؓ کے بہنوئی اور بہن(سعید بن زید اور اُمِ جمیل فاطمہ رضی اللہ عنہما) کے گھر مکتب قائم تھا، جہاں حضرت عمرؓ نے قرآن مجید کی تلاوت سنی اور مخالفت اور مارکٹائی تک نوبت پہنچنے کے بعد یہی واقعہ ان کے ایمان لانے کا باعث بنا۔
[ الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ (بیروت-۱۴۲۷ھ)جلد:۱،ص:۴۶۵]

۴:-مدرسہ مدینہ یا مدرسہ مصعب بن عمیرؓ
ہجرتِ مدینہ سے پہلے آپ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ اور ابن ام مکتومؓ کو مدینہ روانہ فرمایا، جہاں وہ مدینہ والوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔
[بخاری، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ سبح اسم ربک الاعلی، رقم الحدیث :۴۹۴۱ (ریاض، دارالسلام۲۰۰۰ء ، ص: ۴۲۶)]
۵:- مدرسہ صفہ
مدرسہ صفہ میں پڑھنے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد ۴۰۰ تک پہنچتی ہے، بیک وقت صفہ کے طلبہ کی تعداد ستر،اَسی تک ہوتی تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ بھی اس مدرسہ کے طالب علم تھے۔
[ زرقانی،أبوعبداللہ محمد بن عبدالباقی المالکی، متوفی:۱۱۲۲ھ، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیۃ(دارالکتب العلمیۃ۱۹۹۶ء )، ج:۲ ، ص۱۸۶]
عہدِ خلافتِ راشدہ
حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں مکاتب ومدارس کو وسعت دی اور باقاعدہ نظام کے تحت ان کو آگے بڑھایا۔ حضرت ابو الدرداءؓ کو جامع مسجد دمشق میں قرآن پڑھانے کے لیے مقرر کیا، جہاں ایک موقع پر ۱۶۰۰ (سولہ سو) طالب علم ان کے درس میں شریک رہے۔ حضرت عمرؓ نے درسِ حدیث کے حلقے بھی قائم فرمائے۔
یہ سلسلہ قائم رہا اور آنے والے خلفاء اورامراء نے اس کو مزید وسعت دی، ہر بستی میں مدارس ومکاتب قائم تھے۔ امیرلوگ ان مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کے قیام وطعام، اور لباس سمیت تمام ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔
دوسرا دور: قرونِ وسطیٰ
مدارس ومکاتب کی تاریخ میں دو اداروں کو اس حوالے سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ اب تک تعلیمی ادارے کی حیثیت سے قائم ہیں: ایک جامعۃ الزیتون، جو تیسری صدی ہجری میں تیونس کی جامع مسجدمیں قائم ہوا تھا۔ دوسرا جامع ازہر، جو فاطمی سلاطین کے دور میں مصر میں قائم ہوا، ۳۶۱ھ میں اس کی تکمیل ہوئی، اور چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے اس کی تعلیمی زندگی کا آغازہوا، اور آج تک قائم ہے۔ تاہم علامہ مقریزیؒ کے مطابق باقاعدہ ادارے کی شکل میں مدرسے کی بنیاد رکھنے والے اہلِ نیشاپور ہیں، جنہوں نے مدرسہ بیہقیہ کی بنیاد ڈالی۔ علامہ مقریزی نے مصر میں قائم ۷۰ سے زائد مدارس کا تعارف کرایا۔
[مقریزی،الخطط(بیروت-۱۴۱۸ھ) ج:۲ ، ص: ۳۶۲]
چند دیگر مدارس بھی ہیں جن میں سلطان محمود غزنوی اور ان کے بیٹے سلطان مسعود کے قائم کردہ مدارس، اورمدرسہ نظامیہ، بغداد‘ دولتِ سلجوقیہ کے علم دوست وزیر نظام الدین طوسی (۴۸۵ھ) کا قائم کردہ مدرسہ شامل ہیں۔ امام غزالیؒ اس نظامیہ سے فیض حاصل کرنے والوں میں سے ہیں اور ان کے استاذ امام الحرمین اس مدرسہ کے صدر مدرس تھے۔ علاوہ ازیں بغداد میں تیس بڑے مدارس تھے۔
مدارس اسلامیہ کی عظیم خدمات

[احسن الفتاویٰ:8/ 238 باب الحظر والاباحۃ]