Saturday, 30 April 2016

اسلام میں آزادی کا تصور

ہر چیز کے خالق، مالک، خوب قدرت وعلم رکھنے والے سب کے پالنہار اللہ نے اپنے پیغمبروں علیہم السلام کو بھیجا تاکہ وہ اس کے بندوں کو مخلوق سے آزادی دلائیں:
اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ۔
(حضرت موسٰیؑ نے یہ کہا) کہ اللہ کے بندوں (یعنی بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کر دو تمہاری طرف (خدا کا) پیغمبر (ہوکر آیا ) ہوں دیانت دار ہوں۔
[القرآن - سورۃ الدخان:18]

یعنی خدا کے بندوں کو اپنا بندہ مت بناؤ۔ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزادی دو اور میرے حوالہ کرو۔ میں جہاں چاہوں لے جاؤں۔
saying, “Deliver to me the servants of Allah. I am an honest messenger to you,”

[saying], ‘Give over to me, what I summon you to in the way of faith, that is, manifest your faith to me, O, servants of God; indeed I am for you a messenger [who is] faithful’, in what he has been sent with,


حضرت موسیٰ کا فرعون سے اللہ کے بندوں کو آزاد کرنے کا مطالبہ:
سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰؑ کو قومِ فرعون کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ تم لوگ میرے حوالے کردو اللہ کے بندوں کو ۔ سو اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کے بندو اللہ کا رسول ہونے کے اعتبار سے جو میرا حقِّ اطاعت و اِتباع تم پر واجب ہوتا ہے اس کو میرے لئے ادا کرو کہ یہ میرا حقِّ واجب ہے۔ اور اسی میں خود تم لوگوں کا بھلا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں احتمالوں کا نتیجہ و مآل ایک ہی نکلتا ہے۔ چونکہ پیغمبر کا حق اِطاعت و اِتباع ہی ہوتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کا حکم و ارشاد اور آپ علیہ السلام کا مطالبہ یہی تھا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو اور انکو عذاب مت دو ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:-
{ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلاَ تُعَذِّبْہُمْ }
ترجمہ:
اس لئے بنو اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو، اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ۔
[سورۃ طٰہٓ: 47]
البتہ یہاں پر حضرت موسیٰؑ نے اپنے مطالبہ کے حق میں ایک اہم اور ٹھوس دلیل بھی دے دی کہ یہ اللہ کے بندے ہیں ۔ لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انکو اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ پس تم لوگ اللہ کے بندوں کو اپنی غلامی کی جکڑبندیوں سے آزاد کر کے ہمارے ساتھ روانہ کر دو کہ تم کو ان کے غلام بنائے رکھنے کا کوئی حق نہیں ۔
22 حضرت موسیٰ کا اپنی شان امانت و دیانت کا اِعلان و اِظہار :
سو حضرت موسیٰؑ نے ان لوگوں سے کہا اور اسلوبِ تاکید میں کہا کہ " یقینا میں تم لوگوں کے لیے ایک امانتدار رسول ہوں " ۔ پس میں چونکہ رسول ہوں اس لئے میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ بلکہ اپنے رب کا پیغام تمہیں سناتا ہوں اور بس۔ اور چونکہ میں امانت دار ہوں اس لئے اپنے رب کا پیغام بدوں کسی کم و کاست کے پوری امانت داری کے ساتھ تمہیں پہنچا رہا ہوں ۔ پس تم پر میری اطاعت لازم ہے۔ اسی میں تمہارا بھلا اور بہتری ہے۔ اور اس کے برعکس اگر تم لوگوں نے مجھے مفتری قرار دے کر میری تکذیب کی تو اس کے نتائج نہایت مہلک اور خطرناک ہوں گے۔ اور جس ذات نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے وہ تم سے ضرور انتقام لے گی - والعیاذ باللہ جل وعلا - سو پیغمبر ہر اچھائی اور خوبی میں اعلی اور عمدہ نمونہ ہوتا ہے - علیہم الصلاۃ والسلام -

عقیدہِ آخرت کے دلائل اور فوائد : عقل و نقل کی روشنی میں

رب کی ہدایت پر قائم لوگوں کی "چھٹی" بنیادی نشانی» (6) آخرت پر یقین رکھنا ہے۔
القرآن:
۔۔۔اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:4]

Thursday, 21 April 2016

اسلامی اور مغربی تہذیب کا جائزہ


تہذیب کیا ہے؟
تہذیب (Civilization) انسانی معاشرے کا وہ اعلیٰ ترین اور منظم ترین روپ ہے جس میں ثقافت، علم، اخلاقیات، فنون، ٹیکنالوجی، اور سماجی تنظیم کے ذریعے انسان فطری حالت سے ترقی کرکے ایک پیچیدہ اور پائیدار نظام تشکیل دیتا ہے۔ تہذیب صرف مادی ترقی تک محدود نہیں، بلکہ یہ انسانی فکر، روحانیت، اور اقدار کا بھی عکاس ہوتی ہے۔ ذیل میں تہذیب کے مختلف پہلوؤں کو حکمتوں اور دلائل کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے۔
---

1. تہذیب کی تعریف اور بنیادی عناصر:
تہذیب کی تشکیل کے لیے درج ذیل عناصر ضروری ہیں:  
- ثقافتی شناخت: زبان، مذہب، رسم و رواج، اور فنون کا مجموعہ۔  
- معاشی نظام: زراعت، صنعت، اور تجارت کا وجود۔  
- سیاسی تنظیم: قوانین، حکومت، اور انتظامی ڈھانچہ۔  
- علمی ترقی: تعلیم، سائنس، اور فلسفہ۔  
- اخلاقی اقدار: انصاف، برداشت، اور باہمی احترام۔  

حکمت: ابن خلدون کے مطابق، تہذیب کی بنیاد "عصبیت" (Social Cohesion) اور تعاون پر ہوتی ہے۔ جب تک معاشرے میں یہ جذبہ موجود رہتا ہے، تہذیب ترقی کرتی ہے، ورنہ زوال آجاتا ہے۔

---

2. تہذیب اور فطری انسانی ضروریات:
انسانی تاریخ میں تہذیب کا ظہور بنیادی ضروریات (خوراک، تحفظ، سماجی تعلقات) کو پورا کرنے کے لیے ہوا۔ مثال کے طور پر:  
- دریاؤں کی وادیوں کی تہذیبیں (مصر، میسوپوٹیمیا): زراعت اور آبپاشی کے نظام نے معاشی استحکام دیا۔  
- شہری مراکز: تجارت اور ہنر نے معاشرتی طبقات کو جنم دیا، جس سے قانون اور انتظام کی ضرورت پیدا ہوئی۔  

حکمت: ارسطو کا کہنا ہے کہ "انسان ایک سماجی حیوان ہے"، اور تہذیب اس کی سماجی فطرت کا منطقی نتیجہ ہے۔

---

3. تہذیب کا ارتقاء: فلسفیانہ تناظر:
- مشرقی تہذیبیں: کنفیوشس ازم اور تاؤ ازم میں اخلاقیات اور کائناتی ہم آہنگی پر زور۔ مثال: چین کی ہان خاندان کی تہذیب۔  
- مغربی تہذیبیں: یونانی فلسفہ اور رومن قانون نے فرد کی آزادی اور منطق کو مرکز بنایا۔  
- اسلامی تہذیب: علم اور رواداری کی بنیاد پر (جیسے اندلس کا دور)، جہاں مذہب اور سائنس ہم آہنگ تھے۔  

حکمت: اوسوالڈ اسپینگلر نے کتاب The Decline of the West میں کہا کہ ہر تہذیب ایک زندہ وجود کی طرح پیدا ہوتی ہے، ترقی کرتی ہے، اور پھر مرجاتی ہے۔

---

4. تہذیب اور اخلاقیات کا رشتہ:
کسی بھی تہذیب کی بقا کے لیے اخلاقی اقدار بنیادی ہیں۔ مثال کے طور پر:  
- عدل: اسلامی تہذیب میں عمر بن الخطاب کا دور عدل وانصاف کی علامت ہے۔  
- برداشت: ہندوستانی تہذیب میں بدھ مت اور ہندو مت کا اشتراک۔  
- مساوات: جدید مغربی تہذیب میں انسانی حقوق کا تصور۔  

حکمت: امام غزالی فرماتے ہیں کہ "تہذیب کی عمارت اخلاقیات کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ اگر یہ بنیاد کمزور ہو، تو تہذیب بھی گر جاتی ہے۔"

---

5. تہذیب کے زوال کے اسباب:
تاریخ میں تہذیبوں کے زوال کے لیے درج ذیل عوامل ذمہ دار رہے ہیں:  
- اخلاقی انحطاط: رومن سلطنت میں عیاشی اور طبقاتی تفاوت۔  
- معاشی ناہمواری: فرعونوں کے مصر میں غلاموں کا استحصال۔  
- فکری جمود: عثمانی سلطنت کے آخری دور میں علم اور ٹیکنالوجی سے دوری۔  

حکمت: ٹائن بی (Arnold J. Toynbee) کے مطابق، تہذیبیں اس لیے گرتی ہیں کہ وہ "چیلنجوں کا جواب دینے کی صلاحیت" کھو دیتی ہیں۔

---

6. جدید دور میں تہذیب کا تصور:
آج کی عالمی تہذیب "مغربی ماڈل" پر مرکوز ہے، لیکن اسے درج ذیل چیلنجز درپیش ہیں:  
- ثقافتی تصادم: مغرب اور مشرق کے درمیان قدریں۔  
- ماحولیاتی بحران: صنعتی ترقی کا ماحول پر اثر۔  
- ڈیجیٹل انقلاب: سماجی تعلقات اور شناخت کی تبدیلی۔  

حکمت: یورگن ہیبرماس کا کہنا ہے کہ "تہذیب کی بقا کے لیے مکالمہ اور تنقیدی عقل ضروری ہے۔"

---

7. تہذیب کی تشکیلِ نو: مستقبل کے لیے سفارشات:
1. تعلیم اور علم پر سرمایہ کاری: جدید مسائل (جیسے AI, Climate Change) کا حل۔  
2. بین الثقافتی مکالمہ: مشرق و مغرب کا باہمی احترام۔  
3. پائیدار ترقی: ماحول اور معیشت کا توازن۔  

حکمت: علامہ اقبال نے کہا تھا: "تہذیب اپنے خدوخال بدلتی رہتی ہے، لیکن اس کی روح انسان کی آزادی اور خودشناسی میں پنہاں ہوتی ہے۔"

---

نتیجہ:
تہذیب صرف عمارتوں، ایجادات، یا فتوحات کا نام نہیں، بلکہ یہ انسانی شعور، اقدار، اور اجتماعی کوششوں کا مرقع ہے۔ اس کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہمیں اپنی اخلاقی، علمی، اور ثقافتی جڑوں سے وابستہ رہتے ہوئے نئے چیلنجز کو قبول کرنا ہوگا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ" (الرعد:11) — 
"اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلے۔"






Sunday, 10 April 2016

نیک وبد صحبت ودوستی کے اثرات


يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ   
ترجمہ:
اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور رہو ساتھ سچوں کے۔

[سورة التوبة:119]


تفسیر:
یہ ان تین حضرات کے واقعے سے ملنے والا سبق ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے منافقین کی طرح جھوٹے سچے بہانے نہیں بنائے، بلکہ جو حقیقت تھی، وہ سچ سچ بیان کردی کہ ان کے پاس کوئی عذر نہیں تھا۔ ان کی اس سچائی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نہ صرف توبہ قبول فرمائی، بلکہ سچے لوگوں کی حیثیت سے قیامت تک کے لیے ان کا تذکرہ قرآن کریم میں زندہ جاوید کردیا گیا۔ اس آیت میں یہ تعلیم بھی ہے کہ انسان کو اپنی صحبت سے سچے لوگوں کے ساتھ رکھنی چاہیے، جو زبان کے بھی سچے ہوں، اور عمل کے بھی سچے۔

سابقہ آیات میں جو واقعہ تخلف عن الجہاد کا بعض مخلصین سے پیش آیا پھر ان کی توبہ قبول ہوئی یہ سب نتیجہ ان کے تقوٰی اور خوف خدا کا تھا، اس لئے اس آیت میں عام مسلمانوں کو تقوٰی کیلئے ہدایت فرمائی گئی، اور كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا کہ صفتِ تقوٰی حاصل ہونے کا طریقہ صالحین و صادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے، اس میں شاید یہ اشارہ بھی ہو کہ جن حضرات سے یہ لغزش ہوئی اس میں منافقین کی صحبت مجالست اور ان کے مشورہ کو بھی دخل تھا، اللہ کے نافرمانوں کی صحبت سے بچنا چاہئے اور صادقین کی صحبت اختیار کرنا چاہئے، اس جگہ قرآن حکیم نے علماء صلحاء کے بجائے صادقین کا لفظ اختیار فرما کر عالم و صالح کی پہچان بھی بتلا دی ہے کہ صالح صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جس کا ظاہر و باطن یکساں ہو، نیت و ارادے کا بھی سچا ہو قول کا بھی سچا ہو، عمل کا بھی سچا ہو۔



نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«مَثَلُ جَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يَحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً.»
ترجمہ:
نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پردے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔
[صحيح البخاري:5534]














ماہ ِرجب کے فضائل ومسائل، واقعات و بدعات



اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاں كتاب اللہ ميں مہينوں كى گنتى بارہ ہے، اسى دن سے جب سے آسمان و زمين كو اس نے پيدا كيا ہے، ان ميں سےچار حرمت و ادب والے مہينے ہيں، يہى درست دين ہے، تم ان مہينوں ميں اپنى جانوں پر ظلم نہ كرو }.
[سورۃ التوبۃ:36]
اور يہ مہينے چاند كے طلوع ہونے كى اعتبار سے ہيں كہ سورج كے يعنى قمرى ہيں شمسى نہيں، جيسا كہ كفار نے كيا ہوا ہے.

اس آيت ميں حرمت والے مہينے مبہم بيان ہوئے ہيں اور ان كے نام كى تحديد نہيں كى گئى، ليكن ان مہينوں كے نام سنت نبويہ ميں محدد كيے گئے ہيں.

ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطاب فرمايا اور اپنے خطبہ ميں ارشاد فرمايا:
" يقينا وقت اسى دار چل رہا ہے جس حالت ميں آسمان و زمين پيدا كرنے كے دن تھا، سال ميں بارہ ماہ ہيں، جن ميں سے چار ماہ حرمت و ادب والے ہيں، تين تو مسلسل ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہيں، اور ايك جمادى اور شعبان كے مابين رجب مضر كا مہينہ ہے
[صحيح بخارى»كتاب الحج»باب الخطجبۃ ايام منى»حديث نمبر (1741)، صحيح مسلم»کتاب القسامۃ» باب تحريم الدماء»حديث نمبر (1679).]

بغیر شدید مجبوری قرض لینے کی خرابیاں اور نقصانات

بغیر شدید مجبوری قرض لینے کی خرابیاں اور نقصانات:

مقروض(1)جھوٹ بولنے(2)اور وعدہ خلافی کرنے جیسی منافقانہ عادتوں میں خود کو ڈال دیتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے: اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
[صحيح البخاري:2397]

دینی مدارس کی تاریخ ومقصد، افادیت واہمیت، قدر ومنزلت اور امتیازات

مَدْرَسَہ : جمع مدارس

درس دینے یا پڑھانے کی جگہ، درس گاہ، جائے درس، پڑھانے کی جگہ، اسکول، مکتب، تعلیم گاہ، پاٹھ شالا، دبستان۔
درس یعنی سبق، تعلیم
تدریس یعنی درس دینا، تعلیم، پڑھائی۔
مدرس یعنی پڑھانے والا معلم۔
[المفردات في غريب القرآن ص311:- سورۃ الانعام:105، الاعراف:105، سبا:44، آل عمران:79، القلم:37(أبوداود:4449.البخاري:2996-6545-2675)]

لغوی معنیٰ کے اعتبار سے مدارس یعنی پڑھنے پڑھانے کی جگہ۔ اور عرفی معنیٰ کے اعتبار سے مدارس کا سلسلہ چوتھی صدی ہجری کے بعد شروع ہوا۔ 
[المقریزی، احمد بن علی (متوفی ۸۴۵ھ۔)، المواعظ والاعتبار بذکر الخطوط والآثار، (بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۸ھ) جلد:۴، ص:۱۹۹]

درس=پڑھنا(فعل)»
القرآن:
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ "پڑھتے" ہو۔
[سورۃ نمبر 68 القلم،آیت نمبر 37]

القرآن:
حالانکہ ہم نے ان(بت پرست مشرکین) کو پہلے نہ ایسی کتابیں دی تھیں جو یہ "پڑھتے پڑھاتے" ہوں اور نہ (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا (نبی) بھیجا تھا۔
[سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 44]
تفسیر:
یعنی یہ لوگ اس قرآن کو (معاذ اللہ) من گھڑت کہہ رہے ہیں، حالانکہ من گھڑت تو خود ان کا مذہب ہے، کیونکہ ان کے پاس اس سے پہلے نہ کوئی آسمان کتاب آئی ہے، نہ کوئی پیغمبر، لہذا انہوں نے جو کوئی مذہب بنایا ہے، وہ اپنے دل سے گھڑ کر بنایا ہے۔ نیز ان کو پہلی مرتبہ کتاب اور پیغمبر سے نوازا گیا ہے تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس نعمت کی قدر کرتے، لیکن یہ الٹے اس کے مخالف بن گئے ہیں۔










Saturday, 9 April 2016

زبان کی آفتیں اور ان کا علاج


زبان اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ وہ عضو ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ انسان اسی کی وجہ سے باعزت مانا جاتا ہے اور اسی کی وجہ سے ذلت ورسوائی کا مستحق بھی ہوتا ہے۔ زبان اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت کی اہمیت کو وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس کے منہ میں زبان ہے لیکن وہ اپنا ما فی ضمیر ادا نہیں کرسکتا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے :
{أَلَمْ نَجْعَلْ لَہُ عَیْنَیْنِ ،وَلِسَانًا وَشَفَتَیْنِ }
ترجمہ:
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنایا۔
[سورۃ البلد:8-9]


کیا تم قتل کرتے ہو اسے اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب الله ہے؟؟؟

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صرف اتنی بات پر اپنے گھروں سے ناحق نکالا گیا ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔۔۔
[سورۃ الحج:40]
کیا تم لڑتے ہو اسے اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب الله ہے؟؟؟
[القرآن:-سورۃ غافر:28]
عروہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے پوچھا کہ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو سب سے بڑی ایذا کیا پہنچائی ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک دن رسول اللہ ﷺ حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کی گردن میں چادر ڈال کر بل دینے لگا، وہ بری طرح آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اس وقت ابوبکر صدیق  ؓ دوڑے دوڑے آئے، انھوں نے اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے : {أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ} [غافر/المؤمن:28] ’’کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمھارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘
[صحیح البخاری: کتاب مناقب الأنصار، باب ما لقی النبی ﷺ و أصحابہ من المشرکین بمکۃ :حدیث#3856]


Would you kill a man because he says–Allah is my Lord...
[Al-Quran, Chapter#40 Al-Ghafir , Verse#28]














مسلمان جہاں جہاں گئے وہاں وہاں اپنے ساتھ سچائی، احترام انسانیت، ایمان داری، انصاف، مساوات، حیا، محبت، فراخدلی اور خداترسی کا پیغام لے کر گئے۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے وہ جہاں کہیں گئے چند صدیوں میں اکثریت بن گئے۔ انہوں نے اپنے مثالی قول وعمل اور کردار سے دوسروں کو بھی متاثر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں، لیکن ان 100 سے زائد جنگوں میں مسلمانوں اور کفار کے صرف ایک ہزار 18 افراد قتل ہوئے۔
اس کے برعکس غیرمسلموں نے ہمیشہ انسانوں پر ظلم وستم کیا۔ 1492ء میں اسپین میں اسلامی حکومت ختم ہوئی۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں تقریباً 30 ہزار کو سزائے موت ملی اور 12000 کو زندہ جلادیا گیا۔ جنگِ عظیم اول میں دو کروڑ اور جنگِ عظیم دوم میں 5 کروڑ سے زائد انسان تہ تیغ ہوئے۔ 1945ء میں جاپان کے دو شہروں ’’ہیروشیما اور ناگاساکی‘‘ پر امریکا نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایٹم بم گرائے۔ اس سربریت سے چشم زدن میں دو لاکھ افراد پانی کے بلبلے کی طرح پگھل کر رہ گئے۔ کوئی چرند پرند نہیں بچا تھا۔ جو لوگ بچ گئے تھے وہ زندہ درگور تھے۔ 2001ء کے بعد افغانستان میں 6 لاکھ اور 2003ء کے بعد سے عراق میں 12 لاکھ عراقیوں کو بے دردی سے مارا جاچکا ہے، جبکہ اسلامی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے جب بھی علاقے فتح کیے، وہاں کے لوگوں خصوصاً خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا۔ 90 سال تک مسجد اقصیٰ عیسائیوں کے پاس رہی۔ اس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا۔ اس شاندار فتح کے بعد عیسائی یہ سمجھ رہے تھے اب ہماری خیر نہیں۔ ہمارے ظلم کا بدلہ ہمیں مل کے رہے گا، لیکن تاریخ بتاتی ہے سلطان نے عام معافی کا اعلان کردیا حتیٰ کہ پوپ اور بادشاہ تک کو معاف کردیا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا تھا: آج سب کو معاف کردیا گیا ہے۔ اپنی جان کے پیاسوں تک کو معاف کردیا۔ ہندہ، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت امیر حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا، آپ نے اس کو بھی معاف کردیا۔ وحشی جس نے حضرت امیر حمزہ کو بے دردی سے قتل کیا تھا، آپ نے ان کو بھی معاف کرنے کے بعد صرف اتنا کہا: ’’میرے سامنے نہ آیا کریں کیونکہ مجھے میرے چچا یاد آجاتے ہیں۔‘‘ یہ اسلام ہی تو ہے جس نے غیروں کی بھی حفاظت کا نہ صرف حکم دیا بلکہ عمل کرکے بھی دکھایا۔

فارس جب فتح ہوا تو بادشاہ نوشیروان کی بیٹی بھی مالِ غنیمت کے ساتھ گرفتار کرکے لائی گئی۔ اسے جب دربارِ نبوی میں پیش کیا گیا تو ان کے سر پر ڈوپٹہ نہیں تھا۔ آپ نے حکم دیا: ان کے سر پر ڈوپٹہ رکھا جائے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ تو مسلمان نہیں ہے۔ آپ فرمایا: ’’بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے خواہ کسی کی بھی ہو۔‘‘ انسان تو انسان حیوانوں کے ساتھ بھی اسلام نے اعلیٰ برتائو کیا۔ وہ واقعہ تو سب کو یاد ہوگا ایک اونٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سر رکھ کر اپنے مالک کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کا مالک اس سے کام زیادہ لیتا ہے اور اسے گھاس کم دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے۔

ظ



Friday, 8 April 2016

بےشک نماز روکتی ہے بےحیائی اور بری بات سے ... [سورۃ العنکبوت:45]


''نماز'' فارسی زبان کا لفظ ہے ، اور بطورِ اسم مُستعمِل ہے، اس کے معنیٰ بندگی، پرستش، عاجزی اور انکساری کے ہیں۔
[فیروز اللغات:ص1377، فیروز سنز]

اصطلاح میں نماز اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کرنے کا ایک خاص طریقہ ہے، جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں دیا اور رسول اللہ  ﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں اپنی امت کو سکھایا ہے۔
[التعریفات الجرجانی، ص: 174]

اردو زبان میں اس کا استعمال نون پر فتحہ (زبر) کے ساتھ ﴿نَماز﴾ ہے۔
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

عربی میں "الصّلاۃ" کے لغوی معنیٰ:
لفظ "صلاۃ" باب تفعیل کا مصدر ہے جس کا معنیٰ "(1)دعاء کرنا، (2)نماز پڑھنا اور (3)صلی اللہ علیہ، (4)برکت دینا، (5)اچھی تعریف کرنا" ہے۔
[مصباح اللغات: صفحہ 457]

اور دعاء کے معنیٰ میں اللہ تعالی کا یہ ارشاد حق ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ:
''آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجیے ، (تاکہ) آپ اس کے ذریعہ سے انہیں پاک کریں، اور ان کا تزکیہ کریں۔ اور ان کے حق میں دُعا فرمائیں، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔ اوراللہ تعالی خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے''۔
[سورۃ التوبۃ:103]

آیت کریمہ میں لفظ ''وَصَلِّ عَلَیْھِمْ'' کا معنیث یہ ہے کہ "(اے اللہ کے رسول ﷺ!) آپ ان کے لیے دُعا فرمائیں''۔ اسی طرح ایک حدیث مبارک میں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
"إذا دعي أحدكم فليجب، فإن كان صائمًا فليصلّ، وإن كان مفطرًا فليطعم"
ترجمہ:
''جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے، تو اسے قبول کرلے ، اگر روز ے سے ہے تو (صاحب خانہ کے لیے ) دُعا کرے، اور اگر مفطر ( بغیر روزہ ) ہے تو کھائے''۔

[صحیح مسلم:153، کتاب النکاح، باب :دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرنے کا حکم۔]

''صلاة خالص عربی لغت کا لفظ ہے، جب کہ اردو اور فارسی زبان میں اس کا ترجمہ لفظ ''نماز'' سے کیا جاتا ہے۔

حدیث میں وارد لفظ ''فَلْیُصَلِّ'' کا معنیٰ ہے کہ ( اور وہ روزے سے ہے) تو پھر برکت اور خیر و مغفرت کی دعا کرے۔

اور جب ''صلاة'' کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو ، تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی '' مدح و ثنائی'' بیان فرماتا ہے، اور جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف ہو ، تو مطلب یہ ہے کہ فرشتے '' دُعا'' کرتے ہیں ۔ فرمان باری تعالی ہے: 
"إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
ترجمہ:
'' بلاشبہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی (ﷺ) پر درود وصلاة بھیجتے ہیں، اے ایمان والو!تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجو''

ابو العالیہ کہتے ہیں کہ:
"صلاة الله: ثناؤه عليه عند الملائكة، وصلاة الملائكة: الدعاء"
ترجمہ:
"اللہ تعالی کا نبی ﷺ پر درود و صلاة بھیجنے سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ ﷺکے لیے (بلندی درجات  اور رحمت) کی دُعا کرتے ہیں۔

[(1)کتاب '' النہایة فی غریب الحدیث''  علامہ ابن الأثیر، باب الصاد مع اللام 3/50۔ (2)کتاب '' لسان العرب''  ابن منظور، باب اللام، فصل الصاد14/464۔ (3)کتاب '' التعریفات''  علی بن محمد الجرجانی ص174۔ (4)کتاب '' المغنی'' ابن قدامة3/5۔ (5)کتاب '' العمدة''  شیخ الاسلام ابن تیمیة]

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:  يُصَلُّونَ: يُبَرِّكُونَ.  

ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ (آیت کریمہ میں) لفظ '' یَصَلُّونَ''   ''یُبَرِّکُونَ''  کے معنیٰ میں ہے، یعنی وہ (فرشتے) برکت کی دُعا کرتے ہیں۔

[حوالہ»امام بخاری نے ابو العالیہ اور ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے ان دونوں اقوال کو اپنی صحیح بخاری: کتاب التفسیر، میں تفسیر سورة الأحزاب میں باب قولہ: "إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ" کے تحت صیغہ جزم کے ساتھ حدیث:4797 سے قبل تعلیقا ذکر کیا ہے۔]

اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کے ''صلاة'' بھیجنے کا معنیٰ ''رحمت'' اور ملائکہ کے صلاة بھیجنے کا مطلب استغفار (طلبِ مغفرت) ہے، لیکن صحیح قول یہی ہے۔

[حوالہ»(1)تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورة الأحزاب، آیت :56۔ (2) '' الشرح الممتع'' تالیف شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اﷲ : 2283۔229]

اور اس کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے، کہ اللہ تعالی (مصائب پر صبر کرنے والے بندوں کے بارے میں) فرماتے ہیں۔
"أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ"
ترجمہ:
"ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔"
[سورۃ البقرۃ:157]

''ان لوگوں پر اللہ تعالی کی طرف ''صلاة'' یعنی ثناء و تعریف اور '' رحمت'' ہے۔ 
[تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورة البقرة، آیت: 157۔/]

آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے پہلے ''صلوات'' اور پھر واو عطف کے بعد'' رحمة'' کو ذکر کیا، اور جب رحمت کو صلاة پر معطوف کردیا، تو ثابت ہوا کہ ''صلاة'' ایک الگ چیز ہے، اور "رحمت" دوسری چیز، کیونکہ عطف مغایرت (یعنی اختلافِ معنی وجنس) کا متقاضی ہے۔

[حوالہ»(1)الشرح الممتع تالیف: ابن عثیمین 2283 (2) الروض المربع:352]

غرض اللہ تعالی کی طرف سے ''صلاة'' بھیجنے کا مطلب مدح و ثناء بیان کرنا ہے، جب کہ مخلوقات: یعنی ملائکہ اور جن و انس کے درود پڑھنے کا مطلب قیام، رکوع، سجود ، دُعا اور تسبیح بیان کرنا ہے اور اگر اس کی نسبت پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی طرف ہو، تو اس اس سے بھی مراد تسبیح بیان کرنا ہی ہے۔

[لسان العرب-ابن منظور، باب الیائ، فصل الصاد، 46514]


 

⬅️ *صلاة کا شرعی مفہوم:*

شرعی اصطلاح میں لفظ ''صلاة'' ایک مخصوص طریقے پر اللہ تعالی کے لیے انجام دی جانے والی اس عبادت کا نام ہے ، جو مخصوص ومعلوم افعال اور اقوال پر مشتمل ہوتی ہے، اور اس کا آغاز تکبیرِ تحریمہ سے ہوتا ہے، اور اختتامِ سلام پھیرنے سے  اور اس عبادت کا نام ''صلاة'' اسی لیے رکھا گیا ہے، کیونکہ یہ دُعا پر مشتمل ہوتی ہے۔

[حوالہ»(1)المغنی ابن قدام:53۔ (2)الشرح الکبیر:53۔ (3)الانصاف فی معرفة الراجح من الخلاف:53۔ (4)التعریفات الجرجانی، ص: 174]

*الغرض:*
عربی لغت میں لفظ "صلاۃ" ہر قسم کی دُعا کو کہا جاتا تھا، اور پھر یہی لفظ ایک مخصوص نوعیت کی دُعا یعنی نماز کا نام قرار پایا۔ یا یہ کہیں کہ لفظ ''صلاة'' ہر قسم کی دُعا کو کہا جاتا تھا، اور پھر یہ لفظ مخصوص شرعی عبادت (یعنی نماز) کے معنیٰ میں منتقل ہوا اور وہ اس لیے ، کیونکہ لفظ ''صلاة'' اور دُعا میں باہمی مناسبت پائی جاتی ہے، اور دونوں الفاظ (معنوی لحاظ سے) ایک دوسرے سے متقارب(ملتے جلتے) ہیں، اس لیے شریعت میں جب بھی لفظ ''صلاة'' مطلقا استعمال کیا جائے، تو اس سے (عام دُعا نہیں بلکہ) مخصوص نوعیت کی شرعی عبادت یعنی نماز ہی مراد لی جائے گی۔
[حوالہ»شرح العمدة شیخ السلام ابن تیمیة ، 302۔31]

 

نماز دعاء ہی ہے اور دعاء کی قسمیں؛:
نماز پوری کی پوری دُعا ہی ہے ، ( اور چونکہ دعا دو طرح کی ہوتی ہے)

*(الف) دُعائے مسئلہ:*
دُعائے مسئلہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب سبحانہ و تعالی سے بزبانِ قال اپنی حاجات وضروریات مانگے، یا اور کوئی ایسا سوال کرے جس سے اسے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا ہو، یا کسی نقصان سے نجات مطلوب ہو۔

*(ب) دعائے عبادت:*
اور دعائے عبادت یہ ہے کہ بندہ نیک اعمال مثلاً: قیام و قعود اور رکوع و سجود کرکے اجر وثواب حاصل کرتا ہے۔ اس لیے جو شخص بھی اس قسم کی عبادات سر انجام دیتا ہے گویا کہ وہ اپنے پروردگار سے دُعا کرتا ہے، اور بزبانِ حال اس سے مغفرت اور عفو و درگزر کا سوال کرتا ہے۔

الغرض،  دُعا کی اقسام کی اس توضیح سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ، کہ نماز ساری کی ساری دعائے مسئلہ اور دعائے عبادت ہے، کیونکہ اس میں بندہ مختلف افعال سر انجام دے کر بزبانِ حال ، اور مختلف دعائیں مانگ کر بزبانِ قال اللہ تعالی سے سوال کرتا ہے۔

[حوالہ» (1)شروط الدعاء وموانع الاجابة، صفحة: 10۔11، (2)فتح المجید شرح کتاب التوحید للشیخ محمد بن صالح العثیمین:1171، (3)الروض المربع-ابن باز: 4101]

 

⬅️ *اسلام میں نماز کا حکم:*
نماز ہر عاقل و بالغ مسلمان پر لازم (واجب-فرض) ہے ۔

بالغ ، عاقل اور مسلمان ہونا نماز کی فرضیت کے لیے بنیادی شروط ہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص فاقد العقل(دیوانہ) ہے تو اس پر نماز واجب نہیں ہے اور اگر کوئی شخص مسلمان نہیں ہے تو اس پر بھی نماز واجب نہیں، بلکہ اگر وہ نماز پڑھ بھی لیتا ہے تو اسکی نماز قبول نہ ہوگی، اور یہ لزوم(وجوب-فرضیت) قرآنِ کریم ، سنتِ مطہرہ اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ البتہ وہ خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں جو حیض یا نفاس کی حالت میں ہوں۔  اگر کوئی نابالغ بچہ نماز پڑھ لیتا ہے، اگرچہ وہ نماز کی فرضیت سے مستثنیٰ ہے، لیکن اس کی نماز صحیح ہے، بلکہ جو والدین اپنی اولاد کو بچپن ہی سے اس عظیم عبادت کا عادی بنانے کے لیے انہیں نماز پڑھنے پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور ایمانی تربیت کرتے ہوئے انہیں نماز اور روزہ جیسی عبادات انجام دینے کی محبت سے تاکید کرتے ہیں، تو انہیں اس کا اجر و ثواب ضرور ملے گا، بلکہ ایسے ہی بچوں کی نیک دعائیں انہیں مرنے کے بعد بھی کام آئیں گی۔

 

⬅️ *قرآن کریم کے دلائل:*
قرآن کریم میں نماز کی فرضیت کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد عالی ہے :
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ
ترجمہ:
''اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا ، کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں ، اسی کے لیے بندگی خالص کرتے ہوئے ، (اور ) یکسو ہو کر، اور نماز کو قائم کریں ،اور زکاة دیں ، اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا''۔
[سورة البینة:5]

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
ترجمہ:
''یقینا نماز مؤمنوں پر مقررہ اوقات پر فرض ہے''۔
[سورة النساء:103]

 
نماز کی اہمیت اور انبیاء کا طرز عمل
* حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اہل و عیال کو لق و دق صحرا میں چھوڑ کر جانے لگے تو انہوں نے اس قربانی کا مقصد نماز قائم کرنا ارشاد فرمایا:
”اے ہمارے پروردگار ! میں نے اپنی اولاد کو آپ کے حرمت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں لا بسایا ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی، ہمارے پروردگار ! ( یہ میں نے اس لئے کیا) تاکہ یہ نمازیں قائم کریں۔“
(ابراھیم:37)

* حضرت موسی علیہ السلام جب جبل طور کے دامن میں وادی کوی پہنچے تو اللہ نے انہیں جو تیاں اتارنے کا حکم دیا، پھر انہیں اللہ سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا، اُس پر ہیبت و پر جلال موقع پر بھی اللہ نے سب سے پہلے نماز اور عبادت کا حکم ان الفاظ میں دیا:
”حقیقت یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس لئے میری ہی عبادت کرو۔ اور مجھے یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرو۔“
(سورة طه:17)

* بنی اسرائیل کو مشکل ترین حالات میں کا فرقوم سے نجات کے لیے نماز کے اہتمام کا حکم دیا گیا: "اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی پر وحی بھیجی کہ :
”تم دونوں اپنی قوم کو مصر ہی کے گھروں میں بساؤ اور اپنے گھروں کو نماز کی جگہ بنالو۔ اور (اس طرح) نماز قائم کرو“۔
(سورة رعد: 87)

* بڑھاپے کی حالت میں جب حضرت زکریا علیہ السلام کو فرشتوں نے حضرت یحی علیہ السلام کی خوشخبری سنائی تو وہ نماز کی حالت میں تھے:
”چنانچہ (ایک دن) جب زکریا عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، فرشتوں نے انہیں آواز دی کہ : اللہ آپ کو یحی کی (پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے۔“
(سورۃ آل عمران:39)

* اللہ نے معجزہ ظاہر فرمایا کہ والدہ محترمہ کی گود میں نو مولود اور شیر خوار حضرت عیسی علیہ السلام بول پڑے اور ارشاد فرمایا:
”اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے۔“
(سورۃ مریم: 31)

* غزوہ خندق کے موقع پر مشرکین کے حملے اور محاصرے کی وجہ سے نبی اکرم معلم کی نماز عصر قضا ہو گئی ، نماز کا قضاء ہو نار حمت للعالمین کیم کی طبیعت پر اس قدر گراں گزرا کہ آپ سلیم نے کفار کو بد دعادی اور ارشاد فرمایا:
”اللہ ان کی قبروں اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے، انہوں نے ہمیں (عصر کی نماز صلاۃ وسطی پڑھنے نہیں دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(صحیح البخاری: 2773)

* دنیا سے رحلت فرماتے وقت رسول اللہ صلی نیلم نے امت کو آخری وصیت نماز کے اہتمام کی فرمائی۔
(سنن ابن ماجه:1625)

Wednesday, 6 April 2016

صبر کا مفہوم اور اس کی اہمیت



صبر یہ نہیں کہ آدمی علاج کرنا، حلال کمانا، حق کیلئے وجدوجہد کرنا چھوڑدے اور باوجود اختیار وقدرت کے ظلم ہونے دے۔۔۔بلکہ۔۔۔صبر تو یہ ہے کہ چاہے کتنی مصیبتں و ملامتیں پہنچیں حق بات پھیلانا اور دین پر قائم رہنا نہ چھوڑے۔


ایمانی زندگی اور صبر و ثبات:
﴿یا ایھا الذین امنوا استعینوا بالصبر والصلوٰة ان الله مع الصابرین، ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل الله اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون، ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرین، الذین اذا اصابتھم مصیبة قالوا انا لله وانا الیہ راجعون، اولئک علیھم صلوات من ربھم ورحمة واولئک ھم المھتدون﴾․ ( البقرة: آیت:157-152)

”اے ایمان والو! مدد لو صبر سے او رنماز سے۔ بے شک الله صبر والوں کے ساتھ ہے اور ( دیکھو!) نہ کہو ان کو جو راہ خدا میں قتل کیے جائیں مُردہ۔ نہیں ، وہ زندہ ہیں ۔ پرتم اس کی حقیقت کو جانتے نہیں اور ( دیکھو!) ہم آزما کے رہیں گے تم کو کسی قدر خوف وخطر او ربھوک سے او رمال وجان اور پیداوار کے نقصانات سے ۔ اور خوش خبری دو ( اے نبی!) ان کو جو صبر کرکے دکھائیں، ( یعنی) وہ کہ جب بھی پہنچے ان کو، کوئی مصیبت ( اور نقصان) تو کہیں کہ ہم تو ( مع جان ومال) الله ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ جانے والے (ہی) ہیں۔ (خوش خبری دوان کو کہ) یہ وہ لوگ ہیں جن پر عنایتیں ہوں گی ان کے رب کی او ررحمت ۔ اور یہی ہیں کہ جو راہ یاب ہیں۔“

اس سے اوپر کی آیتوں کے سلسلے میں جہاں قبلے کی تبدیلی کی بات آئی تھی ۔ وہاں یہ بھی ذکر آگیا تھا کہ تبدیلیٴ قبلہ کے ایک ماہ یا زیادہ سے زیادہ دو ماہ بعد کفر او رایمان کا وہ معرکہ پیش آیا تھا جو غزوہ بدر کے نام سے اسلامی تاریخ میں یاد گار ہے ۔ آج کی یہ آیتیں جن میں قتال فی سبیل الله اور شہادت کی بات آئی ہے اور صبر وثبات سے کام لینے کی تلقین اور اس کے فضائل کا بیان ہوا ہے ، ان آیتوں کے بارے میں ایک روایت آتی ہے ، جسے تفسیر روح المعانی میں حضرت ابن عباس کے حوالے سے درج کیا گیا ہے ، کہ یہ آیتیں اسی معرکے او راس کے شہداء کے تعلق سے نازل ہوئیں۔ آیتوں کے مضمون سے یہ بات قرین قیاس بھی ہے ۔ معرکہ بدر ہی وہ پہلا موقع تھا جہاں سے کفر واسلام کے درمیان باقاعدہ صف آرائی او رجنگ وقتال کا آغاز ہوا او راب اس کا سلسلہ سالہا سال تک دراز ہونا تھا۔ نہیں، بلکہ قیامت تک پتہ نہیں کتنے معرکے تقدیر کے پردے میں تھے۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس نئے دور کے آغاز پر اس کی مناسبت سے ہدایت نازل فرمائی جائے ۔ پس فرمایا کہ اے ایمان والو! تمہیں اس موقع پر جو چیز سب سے زیادہ کام دینے والی ہے وہ ہے صبر او راس کے ساتھ پھر نماز ۔ یہ دو چیزیں ہیں ان سے تم مدد حاصل کرو تو تمہاری کمر بڑی مضبوط ہو گی۔




صبر کا مفہوم اور اس کی اہمیت
صبر کے معنی ثابت قدمی ، مضبوطی ، برداشت اور مخالف وناخوش گوار حالات میں جمے رہنے کے ہیں اور یہ چیز آدمی کی قوت ارادی اور (Will Power) پر موقوف ہے ۔ بلکہ کہیے کہ ول پاور ( قوت ارادی) سے کام لینے ہی کا نام صبر وثبات ہے اور اس طرح صبر وثبات کو آدمی کا اولین ہتھیار قرار دے کر الله تبارک وتعالیٰ نے انسانی زندگی میں قوت ارادی کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت فرما دی ہے ۔ قرآن پاک کی رو سے اس کائنات میں سب سے بڑی کار فرما قوت ارادہ الہٰی ہے اوراس کے بعد او راس کے نیچے ارادے کی وہ قوت اور طاقت ہے جو الله تبارک وتعالی نے انسان کو بخشی ہے ۔ ایک طرف وہ حقیقی معجزے ہیں جو الله تبارک وتعالیٰ کے ارادے اور حکم سے پیغمبروں کے ہاتھوں پر رونما ہوتے رہے ہیں او ردوسری طرف یہ انسانی ارادوں ہی کے ”معجزے“ ہیں جو بعض انسانوں کے محیر العقول (Astonishing) کارناموں کی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ ارادے ہی کی قوت سے دراصل آدمی آدمی ہے ۔ ورنہ فقط ایک بُلبُلا ہے، پانی کا۔

قرآن پاک میں صبر کا مادہ (Root) مختلف صرفی (Derivative) شکلوں میں غالباً ایک سو ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔ ان میں سے صرف نو یا دس جگہیں ایسی ہیں جہاں اس کا مفہوم کچھ ایسا ہے جیسے مفہوم میں یہ لفظ ہماری زبان او رہمارے محاورے میں استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی کسی زیادتی کے مقابلے میں بالارادہ یا بہ مجبوری خاموش رہ جانا، اسے سہہ جانا، یا ہر مرض اور قدرتی آفات ومصائب پر جزع فزع نہ کرنا، الله کی مرضی پر راضی رہنا ، باقی تمام مقامات پر کسی نہ کسی شکل میں اس کا مفہوم وہی ہے، مشکلات ، ناموافق حالات اورمخالف طاقتوں نیز نفسانی کمزوریوں کے مقابلے میں مضبوطی او رپامردی سے کام لینا۔ اور اس کے بارے میں ایک جگہ تو قرآن پاک میں ہمیں صاف لفظو ں میں لکھ کر دے دیا ہے کہ یہ صبر ہی وہ عامل ( Factor) ہے جو جنگ کے میدان میں ”باذن الله“ فتح کی راہ کھولتا ہے ﴿فان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ماتین﴾۔ (الانفال:65) (پس اگر تم میں بیس صبر کی صفت والے ہوں تو وہ غالب ہوں الله کے حکم سے دو سو پر) اور ایک جگہ تو اس لفظ کے استعمال کی ایسی بھی آئی ہے کہ وہاں اگر پامردی اور مضبوطی سے بھی آگے بڑھ کر دلیری اور جیوٹ کا لفظ استعمال نہ کریں تو موقع کا حق نہیں ادا ہوتا۔ دوزخ میں لے جانے والے کاموں پر دلیر لوگوں کا ذکرکرتے ہوئے بانداز تعجب فرمایا گیا ہے ۔ ﴿فما اصبرھم علی النار﴾ (البقرہ:175) (کیسے دلیر ہیں یہ لوگ آگ پر کیسی جیوٹ ان لوگوں میں رکھی ہوئی ہے آگ کی برادشت پر !) اپنے اندر کی (یعنی نفسانی) کمزوریوں کے مقابلے میں ارادے کی مضبوطی سے کام لینے کے لیے لفظ صبر کا استعمال مثال کے طور پر سورة البقرہ ہی کی اس آیت میں ہوا ہے جہاں بنی اسرائیل کو تلقین فرمائی جاری ہے کہ نفسانی خواہشات کے دباؤ سے نکل کر اسلام قبول کریں۔ فرمایا گیا ہے: ﴿واستعینوا بالصبر والصلوة وانھا لکبیرة الا علی الخاشعین﴾․(البقرہ:45)

”اور مدد لو صبر سے او رنماز سے۔ اور بے شک یہ بہت بھاری ہے، مگر ان پر جو خوف ( آخرت) رکھنے والے ہیں۔“

یہ بات کہ یہاں صبر سے مراد نفسانی خواہشات کے مقابلے میں ارادے کی قوت اور مضبوطی سے کام لینا ہے ۔ سورہ مریم کی آیت کے ذریعہ گویا منصوص (Manifest) ہو جاتا ہے ۔ فرمایا گیا ہے ﴿فخلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلوٰة واتبعوا الشھوات﴾․ ( مریم:59)

”پھر ان کے بعد وہ نسل آئی جس نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشوں کی پیروی کی۔“

اس کار زار حیات میں صبر کی صفت بڑی فیصلہ کن قوت ہے او راس میں کافر ومومن کی کوئی تفریق نہیں ۔ البتہ مومن کو چوں کہ الله سے وہ رشتہ نصیب ہوتا ہے جو اس کے یہاں معتبر ہے اس لیے جب انسان اپنی قوت صبر کے استعمال کے ساتھ الله کی طرف بھی مدد کے لیے دیکھتا اور طلب گار ہوتا ہے تو پھر مومن کے صبر کی طاقت اس ” بیرونی “ امداد کے شامل ہو جانے سے اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ : ﴿کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن الله﴾

کتنی ہی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں جو غالب آگئیں بڑی جماعتوں پر، الله کے حکم سے ۔“

کامنظر سامنے آتا ہے ۔ او رآگے یہی آیت بتارہی ہے کہ ” الله کا یہ حکم“ صبر کے ساتھ مشروط ہے ۔

﴿والله مع الصابرین﴾․ ( البقرة:249)․ ” اور الله ساتھ ہے صبر وثبات والوں کے۔“ یعنی اصل کھیل صبر ہی کا ہے ۔ بس ضرورت اس کی ہے کہ مومن اس طاقت سے کام لینے میں بھی اپنے آپ کو الله کی مدد کا محتاج سمجھے اور جب اس کے استعمال کی ضرورت کا موقع آئے تو قرآن ہی کے سکھائے ہوئے الفاظ میں الله سے یوں طلب گار ہو۔ ﴿ربنا افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین﴾․(250)

”اے ہمارے رب! انڈیل دے ہم پر صبر اور جمادے ہمارے پاؤں اور غلبہ نصیب کر ہمیں اہل کفر پر۔“

اور اس طلب کی بہترین شکل نماز کے ذریعے الله کا در کھٹکھٹانا ہے۔ بس اس لیے ہدایت فرمائی گئی:﴿ واستعینوا بالصبر والصلوٰة﴾․ او رمدد لو صبر سے اور نماز سے۔“ اور یقین دلایا گیا کہ ﴿ان الله مع الصابرین﴾․

آگے فرمایا گیا: ﴿ولا تقولوا لمن یقتل…﴾( اور راہ خدا میں کام آجانے والوں کو مردہ نہ کہو ۔ بلکہ وہ زندہ ہیں ۔ البتہ تمہیں اس حقیقت کا شعور نہیں۔) اس سے پہلی آیت میں ثابت قدمی دکھانے کی بات تھی ۔ لیکن جب یہ ثابت قدمی میدان جنگ میں ہو تو جان لیوا بھی ہو سکتی ہے ۔ پس اب بات اس مرحلے کی شروع ہوتی ہے کہ اگر الله کی راہ میں ثابت قدمی اور جواں مردی موت کی منزل سے گزار دے تو یہ موت ”موت“ کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو مردہ او رمیت (جمع اموات) مت کہو۔ کیوں کہ انہوں نے ظاہر کی موت کے اس پردے میں ایک بڑی شان دار زندگی پالی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ زندگی تمہارے ادراک (Perception) کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ تم اپنے کسی حاسے ( Sense) سے اس کا پتہ پا نہیں سکتے۔

اس زندگی کی خصوصیت
اسلامی عقیدے کے رو سے ہر موت کے بعدایک دوسری زندگی شروع ہو جاتی ہے ۔ جسے برزخی زندگی کہا جاتا ہے ، یہ موت سے قیامت تک کے دور کی ایک کیفیت ہے ۔ لیکن وہ عام کیفیت ایسی نہیں ہوتی کہ اسے واقعی ”زندگی“ کہا جاسکے۔ یہ شہدائے کرام کا اعزاز ہے کہ انہیں اس دور میں بھی زندگی کے بعض خاص آثار وعلامات والی ”زندگی“ نصیب ہوتی ہے ۔ چنا ں چہ قرآن پاک میں دوسری جگہ جہاں شہداء کی زندگی کا مضمون آتا ہے۔ وہاں ﴿بل احیاء﴾ ( نہیں ، بلکہ وہ زندہ ہیں ) کے ساتھ عندربھم یرزقون﴾ ( اپنے رب کے پاس رزق وروزی پاتے ہیں) کے الفاظ بھی آئے ہیں، جو ان کی برزخی زندگی کا دوسرے لوگوں کی زندگی سے فرق بتاتے ہیں ۔ اور یہ صرف رزق وروزی ہی نہیں اور بھی بہت کچھ وہ اس دور زندگی میں پارہے ہیں۔ اسی موقع پر آگے فرمایا گیا﴿فرحین بما آتاھم الله من فضلہ﴾․(آل عمران:169-170) ( شاداں وفرحاں ہیں ان نعمتوں پر کہ جو وہ الله کے فضل سے پار ہے ہیں) ان قرآنی اشاروں کے علاوہ حدیث میں اچھی خاصی تفصیلات بھی ان نعمتوں اور اعزاز وکرام کی آتی ہیں اور اس سب کی روشنی میں یہ کہنا بالکل حق اور بے مبالغہ نظر آتا ہے کہ راہ خدا کے یہ جاں نثار اپنے مالک کے حضور ایک اعلیٰ تر زندگی سے ہم کنار ہیں۔

بلکہ اس آسمانی معاملے کی صداقت کا تو ایسا عکس اس دنیا پر پڑا ہے کہ اسلام کے وہ نام لیوا بھی بے شمار ملیں گے جنہیں قرآن کی کوئی او ربات یاد ہو یا نہ ہو، یہ ضرور دل کی گہرائیوں سے یاد ہے کہ الله کی راہ میں جان دینے والے مردہ نہیں ہوتے۔

ایمانی زندگی اور آزمائشیں
معلوم ہوتا ہے یہ اوپر کی آیتیں تمہید تھیں آگے آنے والی آیتوں کی، جن میں فرمایا گیا اور آگاہی دی گئی کہ ایمان ہے تو اس کے ساتھ آزمائشیں لگی رہیں گی۔ (خاص طور سے اس کے ابتدائی دور میں فرمایا گیا :﴿ولنبلونکم بشیءٍ من الخوف والجوع﴾… (اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کسی قدر بھوک، پیاس، خوف وخطر او رنقصان جان ومال سے ۔) پس ان میں جو ثابت قدم رہیں گے وہ اپنے انجام کے لیے بشارت او رخوش خبری کے حق دار ہیں ۔ ﴿فبشر الصابرین﴾․

بشارت کس بات کی ؟
وہ کیا چیز ہے جو ان نقصانات او رمصیبتوں پر صبر اور ثابت قدمی کے بدلے میں یہ لوگ پائیں گے ؟ ﴿صلوات من ربھم ورحمة﴾ (اپنے رب کی عنایتیں او ررحمت اس کے صلے میں ملے گی ﴿اولئک ھم المھتدون﴾( اوران کانام ہدایت پا جانے والوں میں درج ہو گا) اور یہی وہ چیز ہے جو قرآن وحدیث کی روشنی میں انسان کی سب سے بڑی سعادت اورکام یابی ہے۔ مگر ابھی بات مکمل نہیں ہوئی ۔صبر واستقامت اور ثابت قدمی، جس پر الله کی رحمت وعنایت کا یہ صلہ مرتب ہو گا وہ جب ہو گا جب اس کی روح یہ ہو کہ : ﴿اذا اصابتھم مصیبة قالوا انا لله وانا الیہ راجعون﴾ کہ جب بھی ان پر ان آزمائشی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت پڑتی ہے تو ان کے دل وزبان سے نکلتا ہے کہ ہم تو الله ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ جانا بھی ہے۔

یعنی صرف صبر واستقامت کا خول نہ ہو، اس کے اندر للہیت اوربندگی کی روح ہونی چاہیے، ورنہ کتنا بھی مضبوط خول ہو۔ کیسی ہی بہادری اور جواں مردی آدمی دکھائے۔ اس کے حصے میں ہدایت یابی کی کیفیت نہیں آئے گی اور الله کی نظر عنایت ورحمت ا س کا نصیب نہیں ۔ ایک غزوہ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ ”بڑا زبردست رن پڑا او ربالاخر اہل اسلام اور اہل کفر دونوں اپنے اپنے پڑاؤ کی طرف پلٹے۔ مگر مسلم صف کا ایک آدمی پلٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ کفار کے منتشر افراد کا پیچھا کرنے میں سر گرم تھا۔ لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا، حضور! آج فلاں نے جو جان بازی دکھائی اس کا جواب نہیں۔ آپ نے اس کا نام سن کر فرمایا ”انہ من اھل النار“ مگر وہ دوزخی ہے۔ صحابہ چونک پڑے او رعرض گزار ہوئے کہ حضرت! اگر یہ آدمی دوزخی ہے تو پھرجتنی ہم میں سے کون ہو سکے گا؟ ایک صحابی نے خاموشی سے فیصلہ کیا کہ میں پلٹ کر جاؤں او راس آدمی کا پیچھا کرو۔ شاید کوئی ایسی بات سامنے آجائے جس سے حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کا راز کھلے! یہ پیچھے لگ گئے اور پھر پلٹ کر آئے کہ یا رسول الله! میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ الله کے رسول ہیں۔ میں اس شخص کے پیچھے لگا۔ اس کی جرأت کے کارنامے دیکھتا رہا۔حتی کہ وہ زخمی ہوا تو پھر اس کی ساری جرات جواب دے گئی۔ اس نے زخم کی تکلیف سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنی تلوار کی نوک اپنے سینے میں اتار لی “۔ ( صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہٴ خیبر) یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ، حدیث شریف کے مطابق ، الله کی رضا اورجنت کی طلب میں نہیں، بلکہ قومی اور جماعتی غیرت کے جذبے سے یامحض نام وری کے شوق میں جاں بازی دکھاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے آں حضرت صلی الله وسلم کا ارشاد ہے، جو اس واقعے کے بارے میں بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ( جنت میں تو صرف مومن ومسلم ہی جائے گا، مگر)”ان الله لیؤید الدین بالرجل الفاجر․“ ( کتاب الجھاد)

”الله تعالیٰ اپنے دین کی خدمت فاجروں اور نافرمانوں سے بھی لیتا ہے۔“

پس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ الله نے جس طرح دنیا کی کام یابیوں کا عام قانون عقل کے ساتھ صبر، محنت او راستقامت کو بنایا ہے، بالکل یہی بات دین کی بھی ہے۔ اس لیے کہ یہ دین فطرت ہے ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو 23 برس مکے کی آزمائشوں او رمدینے کی جاں بازیوں میں ہر گز نہ گزارنے پڑتے۔ دین ودنیا کے مسئلے کا فرق صرف یہ ہے کہ دین میں کام یابی کی راہ جب کھلتی ہے جب صبر ومحنت کا نشانہ صرف الله کی رضا او رجنت کی طلب ہو۔ اسی سے ﴿صلوات من ربھم ورحمة﴾ کی منزل ہاتھ آتی ہے او راسی سے ہم ﴿ھم المھتدون﴾ کا مقام ملتا ہے۔ اور اسی کا نام دین میں کام یابی ہے۔

﴿اللھم اجعلنا من المھتدین والصابرین والشاکرین، والحمد لله رب العالمین﴾․



صبر ہی ہمارا درماں ہے
اللہ رب العزت نے فطرتِ انسانی میں بہت سی چیزیں ودیعت کی ہیں ،جن کو انسان محسوس وغیر محسوس طور پر استعمال کرتا ہے اور انہیں کے ذریعہ پروان چڑھتا ہے اور اپنی منزل کی طرف گام زن رہتا ہے ۔انسان فطرةً یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی سکون اور چین سے گزرے اور وہ ہمہ تن راحت و آرام میں رہے ،اس کے لیے وہ محنت کرتا ہے ،کوشش کرتا ہے ،مجاہدہ کرتا ہے اور ریاضت اور عبادت کرتا ہے ۔انسان ہر وقت اسی جستجو میں رہتا ہے کہ وہ دنیا میں بھی خوش وخرم رہے اور آخرت میں بھی خطرات سے پاک رہے ۔انسان اپنی دھن میں مگن رہتا ہے ،مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے جو نافذ ہو کر رہتا ہے۔اللہ کا امر کبھی ٹلتا نہیں ہے ، نہ اس کی سنت کبھی بدلتی ہے ۔اسی وجہ سے مختلف اوقات میں انسان پر کوئی غم ،کوئی حادثہ ،کوئی پریشانی ،کوئی رنج،کوئی الم اور کوئی غیر ضروری ،غیر مناسب اور غیر متوقع امر پیش آجاتا ہے۔ یہ ناقابل برداشت واقعات کبھی رفع درجات ،کبھی بدیوں کو نیکوں میں بدلنے ،کبھی آزمائش اور کبھی عذاب کے لیے رونما ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے مومنوں ،مسلمانوں اور نیکوکاروں کو ایسے موقع کے لیے ایک عظیم تحفہ ”صبر“عطا کیا ہے ۔صبر کرنے سے دنیا میں راحت اور آخرت میں نعمت سے نوازا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کی تلقین کرتے ہوئے بے شمار انعامات کا وعدہ کیا ہے اور اس کا اجر بے حساب بتایا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والے کو کرم ،سلامتی اور رحمت کی خوش خبری دی ہے ،فرمایا یہی لوگ فضل والے اور ہدایت یافتہ ہیں اور ا ن کو بڑھا چڑھا کر بدلہ دیا جائے گا ۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :


آزمائش اور صبر
﴿ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء ٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ،الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیْبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ، أُولَئِکَ عَلَیْْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُون﴾․(سورہ بقرہ:157-155)

اور البتہ ہم آزمائیں گے تم کو تھوڑے سے ڈر سے او ربھوک سے اور نقصان سے مالوں کے اور جانوں کے اور میووں کے اور خوش خبری دے ان صبر کرنے والوں کو کہ جب پہنچے ان کو کوئی مصیبت تو کہیں ہم تو الله ہی کا مال ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں ایسے ہی لوگوں پر عنایتیں ہیں اپنے رب کی اور مہربانی اور وہی ہیں سیدھی راہ پر 

ربطِ آیات:گزشتہ آیات میں صبر کے بڑے بڑے مواقع یعنی جہاد وقتال کا تذکرہ تھا اور اب صبر کے چھوٹے اور عمومی مواقع کا تذکرہ کرتے ہیں کہ الله تعالیٰ کے ہاں جس طرح اعلیٰ درجہ کے صبر کی قدر ہے، اسی طرح ادنی مواقع میں بھی صبر کی قدر کی جاتی ہے۔

تفسیر : ہر مؤمن کو تکالیف دے کر آزمایا جائے گا
اس آیت میں صیغہ تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ہم تمہیں ضروربالضرور آزمائیں گے۔ لہٰذا ہر مسلمان، چاہے نیک اور صالح ہو یا بد اورفاجر، اس آزمائش سے نہیں بچ سکتا۔ اس آزمائش کا مقصد کسی کی نیکی اوربدی جاننا نہیں، کیوں کہ وہ تو الله تعالیٰ کو معلوم ہے، بلکہ اس کا مقصد اہل ایمان میں شکر گزار بندوں کا مرتبہ اورمقام لوگوں میں ظاہر کرنا اور ناشکر گزاروں کی حیرانگی ودرماندگی کو عیاں کرنا ہوتا ہے ،چناں چہ یہ آزمائش صبر کرنے والوں کے لیے رفع درجات اور قرب الہی کا ذریعہ بنتی ہے اور بے صبروں کے لیے تکلیف اور الله تعالیٰ سے مزید دوری کا ذریعہ بنتی ہے، جو تکلیف الله کے قریب کر دے وہ رحمت ہے، جو الله سے دور کردے وہ زحمت ہے ۔آیت کریمہ میں جن خاص چیزوں کو بیان کرکے بتایا گیا کہ ان کے ذریعے آزمائش ہو گی ان کے ساتھ ”بشییء“کا لفظ مذکورہے ، یعنی ان چیزوں میں سے بھی تھوڑے سے حصے کی آزمائش ہو گی۔ (تفسیر بیضاوی، البقرہ: ذیل آیت:155) ان میں پہلی چیز”خوف“ ہے ۔ خوف کا لفظ جامع ہے، جان، مال، عزت ، اولاد، ہر چیز کے متعلق اندیشہ پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔”الجوع“ بھوک کا امتحان ،ضرورت کے باوجود حرام مال سے بچنے، اسباب رزق میں حرام وسائل سے بچنے، قحط اور تنگی کی ساری صورتیں اس میں آگئی۔

﴿وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ…﴾ مالی نقصان خواہ تکوینی ہوں، جیسے چوری ہو جانا، آگ لگ جانا وغیرہ یا غیر شرعی معاملات سے دست بردار ہونے کی صورت میں ہو۔” وَالأنفُسِ“ جانوں کی کمی ،جوقریبی اعزہ کی موت ، بیماری یا جہاد میں شہادت کی شکل میں ظاہر ہو۔”وَالثَّمَرَات“ پھلوں میں کمی، اس سے اولاد کی کمی بھی مراد ہو سکتی ہے، نیز پھلوں، زراعت وتجارت میں کمی کی تمام صورتیں اس میں آگئیں۔

آیت میں چھوٹی اور بڑی پریشانیوں پر صبر کرنے کا صلہ یکساں جو بتلایا گیا وہ محض صبر کی جزا ہے، کیوں کہ نفس صبر میں سب کے سب مشترک ہیں۔لیکن چوں کہ ہر صابر کے صبر کی مقدار، کیفیت، شان اور خصوصیت جدا جدا ہے، لہٰذا ان خصوصیات کے بدلے میں جو ان سے وعدہ کیا گیا ہے ان پر وہ عنایتیں بھی جدا جدا ہوں گی۔

مصیبت کے وقت کلمہ استر جاع کی فضیلت
چھوٹی، بڑی، جانی،مالی، پریشانی کے موقع پر کلمہ استر جاع ”إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ“ کے پڑھنے کی فضیلت اور ثواب کا تذکرہ بہ کثرت احادیث میں آیا ہے ، حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضور علیہ الصلاة والسلام سے سنا: جب کسی بندے کو تکلیف پہنچے اور وہ یہ کہے ”إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ، اللَّھمَّ اجِرْنِیْ فِی مصیَبِتیْ وَاخْلف لِیْ خَیْرْاً مِنّْھا“ تو الله تعالیٰ اسے مصیبت کا اجر اور اس کا نعم البدل عطا فرماتے ہیں۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:918) حضرت سعید بن جبیر فرماتے تھے، اس امت کو مصیبت کے موقع پر جو کلمہ استر جاع دیا گیا ہے، اس سے پہلے کسی امت کو یہ نہیں ملا ۔( زاد المسیر، البقرة ذیل آیت:156)


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿مَن یَہْدِ اللّہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِیْ﴾․ (الأعراف:178)
ترجمہ:”ہدایت یافتہ وہی ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے گا“۔

یعنی ہدایت پر وہی ہوگا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا ارادہ کیا ہے، لہٰذا صبر کی تو فیق بھی اسی کو ملے گی جس کو اللہ تعالیٰ صبر دے گا۔

صبر اچھی چیز ،عمدہ عمل اور مضبوط رسی ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاتی ہے اور صبر اخلاص اور یقین کی علامت ہے ۔صبر ایک ایسی عبادت ہے جس کا انجام سعادت ہے اور اس کا اجر بے حساب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْْرِ حِسَابٍ﴾․ (الزمر:15)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ صابرین کو بغیر حساب کے اجر دے گا“۔

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:﴿وتمت کلمة ربک الحسنی علیٰ بنی اسرائیل بما صبروا﴾․ (الاعراف )
ترجمہ:”بنی اسرائیل کے صبر کرنے کی وجہ سے تمہارے رب نے اپنی اچھی بات کو پورا کردیا“۔

وہ اچھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مقتدا اور پیش وابنا دیااور فرمایا:﴿وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا﴾․ (السجدة:24)
ترجمہ:”اور ہم نے ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ان کو مقتدیٰ بنادیا اور وہ ہمارے حکم سے لوگوں کی راہ نمائی کرتے تھے“۔

جب مشرکین مکہ نے تکالیف اور اذیتوں کی انتہا کردی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کی اور بتا دیا کہ صبر بلند ہمت لوگوں کا کام ہے:﴿َلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُور﴾․ (آل عمرآن:186)
ترجمہ :”یقینا اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے آپ کوبہت زیادہ تکلیف پہنچے گی،پس اگر آپ نے صبر کیا اور تقوی اختیار کیا تو یہ بلند ہمتی والے کاموں سے ہے“۔

ایک اور جگہ فرمایا: ﴿فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل﴾․(احقاف :35)
ترجمہ:پس اولو العزم رسولوں کی طرح صبر کرو“۔

اللہ تعالیٰ نے صابر ین کی ہمت بڑھاتے ہوئے ان کی معیت کا اعلان کیا اور فرماتے ہیں: ﴿وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن﴾․ (انفال:46)

صبر حقیقت میں تمام خصوصیات کی لگام اور تمام فضائل کا مرجع ہے۔اسی کے ذریعہ بندہ دنیا و آخرت میں بلند مرتبہ اور عالی مقام پاسکتا ہے۔اسی کے نام سے موسوم کر کے جنت میں جنتیوں کو پکارا جائے گا اور کہا جائے گا کہ :”تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے تم پر سلام ہو اور تمہارا ٹھکانا کیا ہی اچھا ہے“۔اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی کر کے فرمایا:”اے داؤد!جس نے صبر کیا وہ ہم تک پہنچ گیا“۔حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں:”ہر چیز کا کوئی نہ کوئی پھل اور نتیجہ ضرور ہوتا ہے اور صبر کا پھل اور نتیجہ کام یابی ہے“۔سخت سے سخت مصیبت اور تکلیف میں صبر اور نرمی کرنا سعادت اور اچھے اخلاق کی علامت اور نشانی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عجیب و غریب انداز میں آزمایا اور آپ علیہ السلام نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ چناں چہ اللہ نے ان کو ستاروں کے ذریعہ آزمایا۔ انہوں نے صبر کیا،چاند کے ذریعہ آزمایا، انہوں نے صبر کیا،سورج کے ذریعہ آزمایا، انہوں نے صبر کیا اور بیٹے کو ذبح کروا کر آزمایا، انہوں نے پھر بھی صبر کیا۔

اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ صبر کی فضیلت بیان فرمائی کہ: ﴿اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن﴾ (البقرہ:153)
ترجمہ”صبر اور نما ز کے ذریعہ مدد طلب کرو ،بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم مدد چاہتے ہو تو صبر کرو اور نماز پڑھو اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ہے۔اس آیت سے نماز کی فضیلت کو کم کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ نماز کی فضیلت تو اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے ، تاہم صبر کی فضیلت بھی کوئی کم نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ خود صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جس کو اللہ کی معیت مل گئی تو اس کو نجات اور کام یابی کے لیے اور کس پر وانہ کی ضرورت ہے ؟

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ انصار کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ :”میرے پاس کوئی مال و دولت نہیں ہے ،نہ ہی میں نے تم سے کچھ چھپا کر رکھا ہے ۔جو عفت طلب کرنا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے عفت طلب کرے ،جو مدد طلب کرنا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے اور جو شخص صبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے اور کسی کو بھی صبر کے علاوہ کوئی خیر کی چیز نہیں دی گئی“۔ (رواہ مسلم کتاب الجنائز ،رقم الحدیث:2424، ص423،ط:دارالسلام )

حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کچھ مال تقسیم کیا ۔اس پر ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا ۔میں نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ پر یہ بات ناگوار گزری ،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کا رنگ تبدیل ہوگیا اور غصہ کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ میں نے سوچا کہ مجھے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بتانی چاہیے تھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”موسیٰ علیہ السلام کو تو مجھ سے زیادہ اذیت دی گئی “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کیا۔

ایک دفعہ ایک عورت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا ۔وہ عورت قبر پر رو رہی تھی ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ”اللہ سے ڈرو اور صبر کرو“۔اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپ کو ہر طرح کی مصیبت نہیں پہنچی ہے ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو اس عورت کو بتایا گیا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔وہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عذر پیش کیا کہ مجھ آپ کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور کہنے لگی کہ میں صبر کروں گی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انما الصبر عند الصدمة الأولیٰ․“(رواہ مسلم :ص732، کتاب الجنائز)
ترجمہ: یعنی صبر پہلے صدمہ پر ہی ہوتا ہے“۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”الصبر والسماحة“یعنی :صبر اور نرمی کرنا ۔ (ادب الدنیا والدین : ص294)،حضرت علی  فرماتے ہیں :”صبر ایک سواری ہے، جو کبھی جھکتی نہیں اور قناعت ایک تلوار ہے، جو کبھی ٹو ٹتی نہیں “،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:”صبر مصیبت کو چھپا تا اور اور سختیوں میں مدد دیتا ہے“۔ (ادب الدنیا ء الدین :ص 294)ایک اور جگہ فرمایا” صبر ایک روشنی ہے اور اس کے ذریعہ کام یابی متوقع ہے ۔“(ادب الدنیا الدین ص294)۔حضرت اکثم بن صفی فرماتے ہیں :”جس نے صبر کیا وہ کام یاب ہوگیا“۔ابن عباس  کا قول ہے کہ سب سے افضل عبادت سختی اور تنگی میں صبر کرنا ہے ۔

حضرت علی بن ابو طالب  فرماتے ہیں کہ :ایمان میں صبر کا مقام اسی طرح ہے جس طرح بدن میں سر کا مقام ہے “۔حضرت جنید بغدادی  سے پوچھا گیا کہ صبر کسے کہتے ہیں ؟جواب دیاکہ :بغیر کسی ناگواری کے ایک کڑوا گھونٹ پی جانا۔کہا جا تا ہے کہ ایک دفعہ حبیب بن ابو الحبیب نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی :﴿إنا وجدناہ صابراً نعم العبد إنہ وأب﴾(صٓ:30) ”ہم نے (ایوب )کو صابر پایا ،وہ اچھا بندہ ہے اور رجوع کرنے والا ہے“۔کہنے لگے :کیوں نہیں !!پھر فرمایا:واہ، تعجب ہے! کیا ہی دیا گیا اور کیا ہی تعریف کی گئی ہے “۔ حضرت عمر بن عبدا لعزیز  نے قاسم بن محمد  سے کہا کہ ”مجھے کوئی وصیت کریں“۔انہوں نے کہا :”تم پر لازم ہے کہ تم صبر کے مقام پر صبر کرو“۔حضرت عمر فرماتے ہیں ۔ ”اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو کر رہے گا ،اگر تم نے صبر کیا تو تم ثواب کے مستحق ہوگے، اگر تم نے بے صبری سے کام لیا تو اللہ کا فیصلہ توہو کر رہے گا، مگر تم گناہ کے مستحق ہو گے “۔جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کی بات سنی تو انہوں نے صبر کیا ۔اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے سچے صبر اور مدد طلب کرنے پر ان کو اس کا بدلہ دیا کہ ایک خوش خبری دینے والا قمیض لے کر آیا اور ان کے چہرہ پر ڈال دی تو ان کی بینائی لوٹ آئی اور اللہ تعالیٰ نے اتحاد اتفاق کے ساتھ ان کے بیٹوں کو جمع کردیا۔

حضرت ایوب علیہ السلام کو صبر کا بدلہ یہ دیا گیا کہ ان کی تکالیف دور کردی گئیں اور ان کو پہلے کی مثل اولاد بھی لوٹا دی گئی، بلکہ اس کے ساتھ رحمت اور فضل بھی عطا کیا گیا۔

”جب ایوب علیہ السلام نے اللہ کو پکارا کہ اے اللہ !مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو بہت رحم کرنے والا ہے، میری دعا قبول فرما ،پس ہم نے تکلیف دور کردی اور اس کو اولاد لوٹا دی اور اس کے ساتھ ساتھ رحمت بھی عطا فرمائی،یاد کرو میرے بندہ کو یہ ان کو دنیا میں دیا گیا ہے اورآخرت میں ان کے لیے بڑے درجات ہیں“۔

بے صبری صبر سے مشکل ہے، اس لیے کہ بے صبری میں تھکن بھی ہے اور گناہ بھی ہوتا ہے اور صبر میں راحت و آرام ہے اور ثواب بھی۔ صبر کے مقام پر صبر ہی بہتر چیز ہے ،کیوں کہ بے صبر ی سے مصیبت اور بڑھ جاتی ہے۔ جو صبر کرتا ہے نجات پالیتا ہے ،جو صبر نہیں کرتا وہ خلاصی کا راستہ نہیں پاتا۔ بعض مشائخ فرماتے ہیں صبر میں رحمت کا جلد طلب کرنا ،خوشی کا انتظار کرنا ،اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھنا اور بغیر حساب کے اجر حاصل کرنا ہے ،جب کہ بے صبری اور جزع فزع میں غم کو لانا ،بدن کو ہلاک کرنا،ناکامی اور نامرادی کو جلد طلب کرنا،اللہ تعالیٰ پر برا گمان کرنا ،گناہوں کو اٹھانا اور عاقبت کا انتظار کرنا ہے ،کیا ہی اچھا ہے کہ عقل والے اس سے اجتناب کرتے ہیں “۔

حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر کوئی انعام کرتا ہے تو اس کو چھین لیتا ہے اور اس کے بدلہ میں صبر عطا کرتا ہے ۔لیکن جب اللہ صبر کرنے کا بدلہ دیتے ہیں تو وہ اس نعمت سے افضل ہوتا ہے جو اس سے چھین لی جاتی ہے اور پھر یہ آیت پڑھی:”اللہ تعالیٰ صابرین کو بغیر حساب کے اجر دیتا ہے “۔جوصبر کرتا ہے وہ خواہش اور آرزوں کو پالیتاہے اور جو شکر کرتاہے وہ نعمتوں کو خاص کردیتا ہے ۔کسی شاعر نے کہا ہے:
        الصبر مفتاح کل خیر
        وکل شربہ یلین
        اصبر وان طالت اللیالی
        فربما سوعد الحزین
        وربما نیل باصطبار
        من قبل ھیھات لایکون
ترجمہ:صبر ہر خیر کی چابی ہے اور ہر شر اس سے نرم ہوجاتا ہے ۔صبر کرو اگر چہ راتیں لمبی ہو جائیں ۔اکثر اوقات غمگین کی مدد بھی کی جاتی ہے اور اکثر اوقات صبر کرنے کے ذریعہ سے اس دوری سے بھی پہلے پالیا جاتا ہے ۔

صبر کا تصور آتے ہی غم ،پریشانی اور حزن کا تصور آجاتا ہے ۔صبر کے نام کے ساتھ ہی کسی حادثہ ،ناقابل برداشت واقعہ اور اذیت کی صورت سامنے آجاتی ہے ۔ مگر ہمارے سکون ،راحت ،چین اور آرام میں صبر کی ضرورت پڑتی ہے، کیوں کہ ہم اپنی زندگی کے مالک ہو کر بھی مالک نہیں ،ہم مختار ہو کر بھی مختار نہیں، ہم قدرت رکھتے ہوئے بھی قادر نہیں ۔ہم اور ہماری زندگی ایک اور ذات کے ارادے کے تابع ہیں اور وہ ذات مطلق ہے ۔ اس کا امر غالب ہے ۔وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ،ہمارے ساتھ ،ہماری زندگی کے ساتھ ہمارے ظاہر کے ساتھ،ہمارے باطن کے ساتھ،ہماری تنہائی کے ساتھ، ہمارے گردوپیش کے ساتھ، ہمارے والدین کے ساتھ ہماری اولاد کے ساتھ ،ہمارے ہر ہر خیا ل کے ساتھ ۔اور وہ ذات چاہے تو ہمارے مرتبے کو عذاب بنادے ،چاہے تو ہماری غریبی اور غریب الوطنی کو سرفرازیاں عطا کردے ۔وہ ذات یتیموں کو پیغمبر بنادے ،چاہے تو مسکینوں کو مملکت عطا فرمادے ۔اس ذات کا امر اور عمل اٹل ہے ۔اس کے فیصلے آخری ہیں ۔اس کے حکم کے تابع ہیں ۔انسان کی خوشیاں، انسان کے غم ،انسان کی زندگی ،انسان کی موت ،انسان کی محبت ،انسان کا خوف، انسان کے جذبات و احسا سات ۔وہی ذات ہے ،جو انسان کو بار بار حکم فرماتی ہے کہ صبر کرو ،یعنی اپنی زندگی میں میرے حکم سے پیدا ہونے والے حال کو سمجھنے سے پہلے تسلیم کر لو ۔جو سمجھ میں نہ آسکے ،اس پر صبر کرو اور جو سمجھ میں آئے ،اس پر مزید غور کرو ۔صبر کی منزل ایک مشکل منزل ہے۔فقر میں ایک بلند مقام ہے صبر کا “۔ (دل ،دریا،سمند ر از واصف علی واصف ص 346)

صبر بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ،ان میں سے ایک یعنی ہوائے نفس کے مقابلہ میں اللہ کے حکم پر مستقل اور ثابت قدم رہنا ہے۔ انسان جب ہوش سنبھالتا ہے تو اس پر دو مخالف لشکر مسلط اور حملہ آور ہوتے ہیں ۔ہر لشکر اس کوشش میں ہوتا ہے کہ انسان پر اس کا رنگ غالب آجائے۔ ایک لشکر خدائی ہوتا ہے،اس کے شاہ سوار فرشتے اور عقل و شریعت ہیں ،ان کی کوشش اور جدوجہد یہ ہو تی ہے کہ انسان ہدایت پر رہے ،دین اسلام اور شریعت محمد یہ پر ثابت قدم رہے۔دوسرا لشکر شیطان اور اس کے متبعین کا ہے، جن کی محنت کا دائرہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خواہشات کا پجاری اور مادہ پرست بن جائے اور ہدایت خداوندی اس سے کوسوں دور بھاگے ۔اس موقع پر آکر انسان کو غور و فکر اور بصیرت سے کام لینا پڑے گا ۔انسان میں چوں کہ متضاد صفتیں موجود ہیں، یعنی خواہشات نفسانیہ بھی ہیں اور بھلا برا سمجھنے کا شعور بھی اور عقل و فطرت سلیمہ بھی موجود ہے پس ایک کو مغلوب اور دوسرے کو غالب کرنا ہی صبر ہے، دل نہ چاہتے ہوئے بھی صبر کادامن پکڑ کر نیک اعمال کر لے اور معصیت کے کاموں سے دور رہے ۔

مرنے سے پہلے زندگی بھر کے بغیرمانگے عطا کئے گئے اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرلو۔۔۔بےشک جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت(رضا) ہی سے ہوگا، لیکن اعمال ہی (1)قیامت کے حساب، (2)جہنم کے عذاب اور (3)جنت میں دائمی غریبی اور ندامت سے بچائیں گے۔


آج معاشرے پر ہر طرف کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے ،ہر طرف فتنہ فساد برپا ہے ،کوئی علاقہ ،کوئی شہر ،کوئی بستی ،کوئی کوچہ،کوئی قبیلہ ،کوئی خاندان، کوئی گھراور نہ ہی کوئی جماعت ایسی ہے جس میں لڑائی جھگڑا نہ ہوا۔حتی کہ ماں باپ،بیٹا بیٹی،بھائی بہن، بیوی اور شوہر،استاد اور شاگرد ،مالک اور نوکر ،سینئر اور جونیئر ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں ۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی بڑی لڑائیاں بن جاتی ہیں ،ذرا سی بات پر پوری زندگی کے لیے بغض و عداوت اور غیض غضب سے سینے بھرجاتے ہیں ۔بات اتنی ہوتی نہیں او رمعاملات بگاڑ بگاڑ کر کہاں سے کہاں پہنچا دیے جاتے ہیں، کسی نے کچھ کہہ دیا۔ بس آستین چڑھالیے… چہرہ غصہ سے لال پیلا ہو گیا… جو منھ میں آرہا ہے بول رہا ہے… طلاق ، طلاق، طلاق… نکل جاؤ میرے گھرسے… واپس مڑ کر بھی نہیں دیکھنا… اس کو میرے جنازہ میں شریک نہیں ہونے دینا… 

غرض کیا کیا جملہ نقل کروں، ایک بول پر ساری زندگی کا رشتہ ختم اور ساری زندگی کے لیے ناطہ توڑ دیا جاتا ہے ،افسوس صد افسوس، خونی رشتوں کوبھی نہیں دیکھا جاتا، ان سب باتوں کی اصل وجہ حد سے بڑھ کر کسی پر اعتماد کرنا ہے اور اس سے ایسی ایسی توقعات رکھنا کہ اس کو انسانوں کی فہرست سے نکال کر فرشتوں کی قطار میں داخل کر دینا ہے، جب وہ توقعات پر نہیں اترتا اور اعتماد کوٹھیس پہنچا دیتا ہے تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں لڑائی جھگڑوں سے دور رہنے کے لیے صبر کا دامن تھامنا چاہیے اور جلد بازی اور بے صبری سے کام نہیں لینا چاہیے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہمہ وقت صبر کی سواری پر سوار رہیں، مصائب، تکالیف، پریشانیاں اور غم آتے رہیں گے مگر ہر موقع پر ہمارا درماں صبر ہی ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں ہر حال میں صبر کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین!!