Saturday, 30 April 2016

اسلام میں آزادی کا تصور

ہر چیز کے خالق، مالک، خوب قدرت وعلم رکھنے والے سب کے پالنہار اللہ نے اپنے پیغمبروں علیہم السلام کو بھیجا تاکہ وہ اس کے بندوں کو مخلوق سے آزادی دلائیں:
اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ۔
(حضرت موسٰیؑ نے یہ کہا) کہ اللہ کے بندوں (یعنی بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کر دو تمہاری طرف (خدا کا) پیغمبر (ہوکر آیا ) ہوں دیانت دار ہوں۔
saying, “Deliver to me the servants of Allah. I am an honest messenger to you,”
[القرآن - سورۃ الدخان:18]

یعنی خدا کے بندوں کو اپنا بندہ مت بناؤ۔ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزادی دو اور میرے حوالہ کرو۔ میں جہاں چاہوں لے جاؤں۔
[saying], ‘Give over to me, what I summon you to in the way of faith, that is, manifest your faith to me, O, servants of God; indeed I am for you a messenger [who is] faithful’, in what he has been sent with,


حضرت موسیٰ کا فرعون سے اللہ کے بندوں کو آزاد کرنے کا مطالبہ:
سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰؑ کو قومِ فرعون کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ تم لوگ میرے حوالے کردو اللہ کے بندوں کو ۔ سو اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کے بندو اللہ کا رسول ہونے کے اعتبار سے جو میرا حقِّ اطاعت و اِتباع تم پر واجب ہوتا ہے اس کو میرے لئے ادا کرو کہ یہ میرا حقِّ واجب ہے۔ اور اسی میں خود تم لوگوں کا بھلا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں احتمالوں کا نتیجہ و مآل ایک ہی نکلتا ہے۔ چونکہ پیغمبر کا حق اِطاعت و اِتباع ہی ہوتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کا حکم و ارشاد اور آپ علیہ السلام کا مطالبہ یہی تھا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو اور انکو عذاب مت دو ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:-
{ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلاَ تُعَذِّبْہُمْ }
ترجمہ:
اس لئے بنو اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو، اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ۔
[سورۃ طٰہٓ: 47]
البتہ یہاں پر حضرت موسیٰؑ نے اپنے مطالبہ کے حق میں ایک اہم اور ٹھوس دلیل بھی دے دی کہ یہ اللہ کے بندے ہیں ۔ لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انکو اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ پس تم لوگ اللہ کے بندوں کو اپنی غلامی کی جکڑبندیوں سے آزاد کر کے ہمارے ساتھ روانہ کر دو کہ تم کو ان کے غلام بنائے رکھنے کا کوئی حق نہیں ۔
22 حضرت موسیٰ کا اپنی شان امانت و دیانت کا اِعلان و اِظہار :
سو حضرت موسیٰؑ نے ان لوگوں سے کہا اور اسلوبِ تاکید میں کہا کہ " یقینا میں تم لوگوں کے لیے ایک امانتدار رسول ہوں " ۔ پس میں چونکہ رسول ہوں اس لئے میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ بلکہ اپنے رب کا پیغام تمہیں سناتا ہوں اور بس۔ اور چونکہ میں امانت دار ہوں اس لئے اپنے رب کا پیغام بدوں کسی کم و کاست کے پوری امانت داری کے ساتھ تمہیں پہنچا رہا ہوں ۔ پس تم پر میری اطاعت لازم ہے۔ اسی میں تمہارا بھلا اور بہتری ہے۔ اور اس کے برعکس اگر تم لوگوں نے مجھے مفتری قرار دے کر میری تکذیب کی تو اس کے نتائج نہایت مہلک اور خطرناک ہوں گے۔ اور جس ذات نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے وہ تم سے ضرور انتقام لے گی - والعیاذ باللہ جل وعلا - سو پیغمبر ہر اچھائی اور خوبی میں اعلی اور عمدہ نمونہ ہوتا ہے - علیہم الصلاۃ والسلام -

عقیدہِ آخرت کے دلائل اور فوائد : عقل و نقل کی روشنی میں

رب کی ہدایت پر قائم لوگوں کی "چھٹی" بنیادی نشانی» (6) آخرت پر یقین رکھنا ہے۔
القرآن:
۔۔۔اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:4]



قرآن میں آخرت سے مراد:
(1) دن ہے۔۔۔
[البقرۃ:8، 62، 126، 177، 228، 232، 264]

(یعنی)

قبروں سے نکلنے کا
[ق:42]

۔۔۔(موت کے بعد) اُٹھنے کا
[(البقرۃ:56)الروم:56، الاعراف:14، الحجر:36، الانعام:36، النحل:38، 84، 89، (مریم:15) 33، الحج:5،7 المؤمنون:16 (المؤمنون:100) الشعراء:87، الصافات:144، ص:79، المجادلہ:6، 18]

قیامت (یعنی کھڑے ہونے) کا
[البقرۃ:85، 113، 174، 212]

سب کو جمع کرنے کا
[الشوریٰ:7]

حشر۔۔۔یعنی مجرموں کو گھیرنے کا
[طٰہٰ:102، الانعام:22، 128، یونس:28، 45، مریم:85، الفرقان:17]

کسی ایک کو بھی نہ چھوڑنے کا
[الکھف:47]

حساب کا
[سورۃ ص:16، 26، 53، غافر:27]

فیصلے کا
[السجدہ:29، الصافات:37، الدخان:40]

بدلہ کا
[الفاتحہ:4، الحجر:35، الشعراء:82]

اپنی (نجات کی) فکر میں اپنوں سے "فرار" کا
[عبس:34 -37 (المعارج:14)]
دل اور نگاہیں پھر جائیں گی۔
[النور:37]
جس دن (الله کے مقابلہ میں) نہ کوئی رشتہ کسی کے کام آئے گا
[لقمان:33]
نہ سودا اور نہ دوستی
[البقرۃ:254]
نہ بدلہ لیا جائے گا، اور نہ شفاعت نفع دے گی، اور نہ ہی کوئی مدد پہنچے گی۔
[البقرۃ:48،123]
اور نہ ہی کوئی چھڑا سکے گا۔۔۔اگر رحمن ارادہ کرے نقصان(سزا دینے)کا۔
[یٰس:23]
کافر ﴿اور ظالم سے﴾نہ فدیہ قبول ہوگا دنیا بھر کا(اور نہ اتنا مزید)
[آل عمران:91، (المائدۃ:36)﴿الزمر:47﴾]
جس دن کے برے اثرات ہر طرف پھیلے ہوں گے۔
[الانسان/الدھر:7]
جس دن چہرے بری طرح بگڑے ہوئے ہوں گے۔
[الانسان/الدھر:10]

(وہ دن ہوگا)حق کا
[النبا:39]
یعنی رحمان ہی کی بادشاہی کا
[الفرقان:26]

وعید کا۔۔۔یعنی جس سے ڈرایا جارہا ہے
[ق:20]
موعود کا۔۔۔یعنی جس دن کا وعدہ کیا جارہا ہے
[المعارج:44، البروج:2]

(جہنمیوں کیلئے)دردناک عذاب کا
[ھود:26، الزخرف:65]
کافروں پر بہت سختی کا
[الفرقان:26]
چیخ وپکار کا
[غافر:32]
حسرت (پچھتاوے) کا
[مریم:39]
خسارے (گھاٹے) کا
[التغابن:9]

سچے لوگوں کیلئے نفع کا
[المائدۃ:119]
ابدی زندگی کا۔۔۔جنت میں۔۔۔پرہیزگاروں کیلئے۔
[ق:31-34]
جس دن ایمان والے بےایمانوں پر ہنس رہے ہوں گے
[المطففین:34]

(یہ)قریب آنے والا دن ہے
[غافر:18]
جس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔
[آل عمران:9، 25]



آخرت سے مراد:
(2)مرنے کے بعد کی "زندگی" ہے۔
[حوالہ سورۃ العنکبوت:64،۔یونس:64،ابراھیم:3]

M



Thursday, 21 April 2016

اسلامی اور مغربی تہذیب کا جائزہ


اسلامی تہذیب- حقائق اور خصوصیات

                                                                                                                               
                انسان کی مدنی زندگی اور اجتماعی زندگی کے لیے، تہذیب ایک فطری اور لابدی چیز ہے، دو آدمیوں کے باہمی ملاپ سے جو بچہ عالمِ وجود میں آتا ہے، اس کے پروان چڑھنے کے لیے ماں کی گود ضروری ہے، نیز اس کی نشونما کے لیے خاندان، معاشرہ اور تعلیم گاہ بھی ضروری ہے، مدنیت انسان کی فطرت ہے اور تہذیب اس کی اساس ہے، سویلائزیشن (تہذیب) کو آپ خواہ لفظی اعتبار سے دیکھیں خواہ تاریخی اعتبار سے اس کا مطالعہ کریں، ہر دو اعتبار سے اس کا تعلق سماجی اور اجتماعی زندگی سے جڑا ہوا نظر آئے گا، عربی زبان میں اس کے لیے مدنیت، حضارت اور ثقافت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور انگریزی میں بھی Civic, City, Civil یہ سب Civilization  کے مصدر کے طور پر مستعمل ہیں۔
تہذیب کیا ہے؟
                یہ ایک ایسا گہوارہ ہے، جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے، انسان کا تشخص قائم ہوتا ہے، اس کے لیے ترقی کی راہیں وا ہوتی ہیں اور اس کو اپنا کر زندگی کے ہر موڑ پر انسان کامیاب وکامران ہوتا ہے۔ انسانوں کے درمیان خیالات، اقدار، ادارے، تعلقات اور نظام ہائے زندگی یہ سب اس کا نتیجہ ہیں۔
ثقافت اور تہذیب
                ثقافت (کلچر) اور تہذیب (سویلائزیشن) کی اصطلاحیں عمرانیات (سوشیالوجی)، تاریخ اور فلسفے کے مباحث میں استعمال ہوتی ہیں؛ البتہ ان کی تکنیکی تعریف میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے، نیز بعض دفعہ ان دونوں کو مترادف بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
                عقیدے، اقدار اور اصولِ حیات کی بنیادی قدریں، جو کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا جماعت کو معاشرے میں ایک متمیز تشخص اور شناخت حاصل ہو، وہ کلچر کہلاتا ہے؛ لیکن واضح رہے کہ کلچر عقیدہ، فکر، عادات اور اخلاق واطوار کے ساتھ ساتھ سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی اداروں؛ حتیٰ کہ بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنے آثار چھوڑتا ہے، جس کے نتیجے کے طور پر مختلف علوم وفنون وجود پذیر ہوتے ہیں، آرٹ کی متنوع شکلیں معرضِ ظہور میں آتی ہیں، فن تعمیر کے گوناگوں شاہ کار انسانی نگاہوں کو خیرہ کیے دیتے ہیں، معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں؛ اسی مجموعی تشخص کو تہذیب، حضارت اور سویلائزیشن کا نام دیا جاتا ہے اور علوم عُمرانی کی اصطلاح میں ایک کو Mentifacts (ذہنی تشکیل) کہا جاتا ہے اور دوسرے کو Artifacts (سماجی مظاہر) لیکن یہ دونوں باہم مربوط ہوتے ہیں اور ایک کا تصور دوسرے کے بدون غیرممکن ہے۔
تہذیب کے عناصرِ ترکیبی
                کسی بھی تہذیب کے بنیادی طور پر چار عناصر ہوتے ہیں: (۱) اقتصادی ذرائع (۲) سیاسی نظام (۳) اخلاقی اقدار وروایات (۴) مختلف علوم وفنون پر گہری نظر، نیز جس طرح کسی بھی تہذیب کے آگے بڑھنے اور ترقی کے منازل طے کرنے کے متعدد عوامل ہوتے ہیں: کچھ جغرافیائی، کچھ اقتصادی اور کچھ نفسیاتی جیسے: مذہب، زبان اور اصول تعلیم وتربیت، بالکل اسی طرح کسی بھی تہذیب کے نیرِ اقبال کے گہنانے کے بھی چند ایک اسباب ہوتے ہیں، جو اس کی بقا اور ترقی کی راہوں میں گامزن کرنے کے ذرائع سے معارض ہوتے ہیں مثلا: اخلاقی وفکری زبوںحالی، بدنظمی، ظلم وجور اور فقر وتنگدستی کا شیوع، مستقبل کے تئیں لاپروائی اور باصلاحیت راہ نما اور مخلص قائدین کی نایابی۔
تہذیبِ انسانی کی تاریخ
                انسانی تہذیب کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنا قدیم اس خاک دان ارضی میں خود انسان کا وجود ہے ، دراصل یہ سلسلہ ایسا ہے جو اوّل دن سے تا امروز دراز ہے۔
تہذیبِ انسانی کا حیطۂ عمل
کسی بھی تہذیب کا تعلق کسی خاص خطۂ ارضی یا کسی خاص نسلِ انسانی سے نہیں ہوتا؛ بل کہ وہ تمام دنیا اور دنیا کی تمام نسلوں کو محیط ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ظہور پزیر ہونے والی ہر قوم تہذیب وتمدن کے باب میں کچھ نہ کچھ صفحات رقم کرتی ہے، گو بعض تہذیبیں اپنی ٹھوس بنیادیں، زبردست اثر انگیزی اورافادئہ عام کی بنا پر دیگر تہذیبوں سے ممتاز ہوجاتی ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہر وہ تہذیب جس کا پیغام عالم گیر ہو،جس کا خمیر انسانیت نوازی پر اٹھا ہو، جس کی ہدایات وتوجیہات اخلاقی قدروں کے پاسدار ہوں اور جس کے اصول وضوابط حقیقت پسندی پر مبنی ہوں؛ تاریخ میں ایسی تہذیب کو بقائے دوام حاصل ہوتی ہے، مرورِ ایام کے باوصف انسانی زبانیں اس کے ذکر میں سرگرم رہتی ہیں اور ہر زمانے میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
اسلامی تہذیب
                اسلامی تہذیب بھی، انسانی تہذیبوں کے دراز سلسلہ کی ایک کڑی ہے، اس سے قبل بھی بہت سی تہذیبیں رونما ہوئیں اور اس کے بعد بھی تاقیامت ابھرتی رہیں گی۔
                ہماری تہذیب کے ابھرنے، چمکنے اور عالم پر چھاجانے کے متعدد محرکات تھے اوراس کے گمنام وبے نشان ہونے کے بھی مختلف اسباب ہیں، جن کی تفصیل میں جانا ہمارے موضوع سے خارج ہے، ہمارا مقصد تو صرف انسانی ارتقاء کی تاریخ میں اسلامی تہذیب کے عظیم الشان کردار اور دنیا کے مختلف اقوام پر علوم وفنون، عقائد، اخلاقیات، فلسفہ وحکمت اور ادب کے باب میں اس کے ناقابلِ فراموش احسانات کو ذکر کرنا ہے۔
اسلامی تہذیب کی خصوصیات
                یوں تو اسلامی تہذیب اپنے جلو میں ہزارہا خوبیوں اور خصوصیات کو سموئے ہوئے ہے؛ مگر ہم صرف اس کی اہم، مرکزی اور بنیادی خصوصیات کو سپردِ قرطاس کریں گے اور ان شاء اللہ اسی سے تہذیبِ اسلامی کی تمام اگلی وپچھلی تہذیبوں پر برتری وبہتری عالم آشکارا ہوجائے گی۔
پہلی خصوصیت:
                اسلامی تہذیب کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اساس کامل وحدانیت پر ہے، یہی ایک ایسی تہذیب ہے، جو یہ تصور پیش کرتی ہے کہ کائنات کی ایک ایک شئی صرف اور صرف ایک ذات کی خلق کردہ ہے،اسی کے لیے عبادت اور پرستش ہے اور اسی سے اپنی حاجات وضروریات بیان کرنا چاہیے (ایاک نعبد وایاک نستعین)  وہی عزت عطا کرتا ہے اور اسی کے ہاتھ میں کسی کو بھی ذلیل وخوار کردینا ہے، وہی دیتا ہے اور وہی محروم بھی رکھتا ہے اور زمین کی بے کراں وسعتوں اور آسمان کی بے پایاں بلندیوں پر جو کچھ ہے سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔  (وہو علی کل شيء قدیر)
                عقیدے کے حوالے سے فکر کی اس بلند آہنگی کا طبقۂ انسانیت کو اونچا اٹھانے، عوام کو بادشاہوں، سربراہانِ مملکت، شہ زوروں اور مذہب کے اجارہ داروں کے جور وقہر سے نجات دلوانے، حاکم ومحکوم کے درمیان صدیوں سے پائی جانے والی خلا کو پاٹنے اور انسانی ذہنوں کو ایک مالک حقیقی، کائنات کے خالق اور عالمین کے حقیقی رب کی طرف پھیرنے میں زبردست اثر رہا، نیز اسی عقیدے کی وجہ سے اسلامی تہذیب گزشتہ تمام تہذیبوں میں نمایاں رہی اور آئندہ بھی اس کی انفرادیت باقی رہے گی (انشاء اللہ)؛ کیوںکہ اس کے عقیدے میں، طریقۂ جہاں بانی میں، علوم وفنون اور شعروادب میں غرضیکہ معاشرتِ انسانی کے ہر شعبے میں بت پرستی، اس کے آداب اور اس کی پیچیدہ روایات کی ادنیٰ جھلک بھی نہیں پائی جاتی۔
                اسلامی تہذیب میں رومن لٹریچر کے ترجمے سے اعراض اور بت پرست یونان کے ادبی شہ پاروں سے پہلوتہی کاراز یہی ہے اور اسی وجہ سے ہماری تہذیب فن سنگ تراشی اور صورت گری میں دیگر تہذیبوں سے علیحدہ رہی؛ جب کہ نقش ونگاری اور تعمیری مہارت میں اس کی نمائندگی قابل لحاظ ہے۔
                اسلام ہی یکہ وتنہا ایسا مذہب ہے جس نے بت پرستی اور اس کے تمام تر مظاہر کے خلاف کھلے بندوں جنگ چھیڑی اور بت پرستی کی ہر جھلک اور اس کے باقیات پر خط نسخ پھیر ڈالا، مثلاً: انبیائ، اولیائ، اصحابِ علم وفضل اور فاتحین کی تصویریں بہ طور یادگار رکھنے کو منع کیا، واضح رہے کہ یہ رسم قدیم وجدید ہر دوتہذیب میں رواجِ عام رکھتا ہے؛ اس لیے کہ ان تہذیبوں میں خدائے واحد کے حوالے سے وہ تصور مفقود ہے جو اسلامی تہذیب نے پیش کیا ہے۔
                پھر اسی عقیدئہ وحدانیت کے زیر اثر وہ تمام قواعد وضوابطِ حیات وجود پزیر ہوئے جن پر اسلامی تہذیب مشتمل ہے؛ چناںچہ اس کے پیغام اس کے قوانینِ تشریعی، اس کے مقاصد واہداف، اس کے ذرائعِ معیشت اور طرز ہائے فکر، ہر ایک میں وحدت کا رنگ غالب ہے۔
دوسری خصوصیت:
                اسلامی تہذیب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اہداف اور پیغامات تمام کے تمام آفاقی ہیں، ارشاد ربانی ہے:  یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ (حجرات:۱۳) قرآن کریم نے تمام عالم کے انسانوں کو حق، بھلائی اور خلقی شرافت وکرامت کی بنیاد پر ایک کنبہ قرار دیا، پھر اس نے اپنی لائی ہوئی تہذیب کو ایک قلادے کے درجہ میں رکھا، جس میں ان تمام قبائل واقوام کے عمدہ گراںمایہ جواہر کو پرودیا جنھوں نے مذہب اسلام قبول کیا، پھر اس کی اشاعت و ترویج میں کوشاں رہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام تہذیبیں کسی ایک نسل اور قوم کے مردانِ کارپرناز کرتی ہیں، مگر تہذیبِ اسلامی میں وہ تمام افراد مایۂ افتخار ہیں، جنھوں نے اس کے قصر عظمت کو بلند کیا؛ چناںچہ ابوحنیفہؒ، شافعیؒ، واحمدؒ، خلیلؒ وسیبویہؒ، کندیؒ وغزالیؒ اور فارابی وابن رشدؒ (جن کی نسلیں بھی مختلف تھیں اور جائے سکونت بھی الگ) کے ذریعہ اسلامی تہذیب نے پورے عالم کو انسانی فکر سلیم کے عمدہ نتائج سے ہم کنار کیا۔
تیسری خصوصیت:
                اسلامی تہذیب کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اپنے تمام ضابطہ ہائے حیات اور زندگی کی سرگرمیوں میں اولیت کا مقام عطا کیا اور ان قدروں سے کبھی بھی خالی نہ رہی؛ چناںچہ علم وحکمت، قوانین شرعیہ، جنگ، مصالحت، اقتصادیات اور خاندانی نظام، ہر ایک میں ان کی قانوناً بھی رعایت کی گئی اور عملاً بھی اوراس معاملے میں بھی اسلامی تہذیب کا پلڑا تمام جدید وقدیم تہذیبوں پر بھاری نظر آتا ہے؛ کیوںکہ اس میدان میں ہماری تہذیب نے قابل فخر آثار چھوڑے ہیں اور دیگر تمام تہذیبوں سے انسانیت نوازی میں سبقت لے گئی ہے۔
چوتھی خصوصیت:
                ہماری تہذیب کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سچے اصولوں پر مبنی علم کو خوش آمدید کہا اور پکے مبادیات پر مبنی عقائد کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا؛ چناںچہ عقل وقلب دونوں اس کے مخاطب ہیں اور فکر وشعور دونوں اس کی جولان گاہ اور یہ بھی تہذیبِ اسلامی کی ایسی خصوصیت ہے جس میں پوری انسانی تاریخ میں اس کا کوئی سہیم وشریک نظر نہیں آتا، اس کے باعثِ افتخار ہونے کا راز یہ ہے کہ اسی کے ذریعہ سے اسلامی تہذیب نے ایسا نظام حکومت قائم کیا جو حق وانصاف پر مبنی ہو اور دین وعقیدے کی پختگی جس کا محور ہو، ایسا نہیں کیاکہ دین کو حکومت اور تہذیب کی ترقیات سے الگ رکھے؛ بل کہ ہر قسم کی ترقی میں دین کو اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی؛ چناںچہ بغداد، دمشق، قاہرہ، قرطبہ اور غرناطہ کے منارہ ہائے مسجد سے علم ودانش کی کرنیں پھوٹیں اور عالم کے گوشے گوشے کو منور کرگئیں، اسلامی تہذیب تنہا ایسی تہذیب ہے جس میں دین وسیاست کا امتزاج بھی رہا؛ مگر وہ اس امتزاج کی زیاں کاریوں سے یکسر محفوظ رہی، حکمراں، خلیفہ اور امیر المومنین ہوا کرتا تھا؛ لیکن فیصلہ ہمہ دم حق کے موافق ہوتا، شرعی فتاوے وہی لوگ صادر کرتے جو فقہ وفتاویٰ پر اتھارٹی ہوتے اور ہرکہ ومہ قانون اور فیصلے کے سامنے برابر ہوتا، کسی کو کسی پر وجہ امتیاز حاصل نہ ہوتی سوائے تقویٰ اور لوگوں کی عام نفع رسانی کے، نبی پاکﷺ کا ارشاد ہے:  ’’وَاللّٰہِ لَو اَنَّ فاطمۃَ بنتَ محمدٍ سَرِقَتْ لَقَطَعَ محمدٌ یدَھا‘‘(رواہ الشیخان)  دوسری جگہ فرمایا:  ’’الخلقُ کلُّہم عِیالُ اللّٰہِ فأحبُہم إلیہ أنفعُہم لِعِیالہ‘‘ (رواہ البخاری) اس مذہب پر ہماری تہذیب کی اساس ہے، جس میں عام طبقۂ انسانی پر نہ تو کسی حکمراں کو کوئی برتری حاصل ہے، نہ کسی عالمِ شریعت کو، نہ کسی اعلیٰ نسب والے کو اور نا ہی تونگر و زورآور کو  (قُل إنَّما أنا بشرٌ مِثْلُکُمْ)
پانچویں خصوصیت:
                ہماری تہذیب کی ایک اور اہم ترین خصوصیت اس کی کشادہ ظرفی اور انتہا سے زیادہ مسامحت ہے، جو مذہب کی بنیاد پر قائم کسی بھی تہذیب میں ناپید ہے۔ کسی ایسے شخص کا جو نہ کسی مذہب کا پیرو ہو اور نہ کسی معبود کی پرستش کرتا ہو، تمام مذاہبِ عالم کو ایک نگاہ سے دیکھنا اور ان کے اَتباع کے ساتھ معاملۂ عدل کرنا، کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے؛ لیکن ایک ایسا شخص جس کو اپنے دین کے برحق اور اپنے عقیدے کے مبنی بر صحت ہونے کا کامل یقین ہو، پھر اسے شمشیربہ کف ہونے، اقطارِ عالم کو فتح کرنے، ان پر حکومت کرنے اور وہاں کے باشندوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا بھی موقع ملے؛ مگر اپنے دین کی حقانیت وصحت اسے فیصلے میں ظلم وجور کرنے، یا عدالت کی راہوں سے منحرف ہونے یا لوگوں کو اپنے دین کے سامنے سرِ تسلیم خم کردینے پر مجبور کرنے پر برانگیختہ نہ کرے، تاریخ میں ایسا شخص یقینا عجیب وغریب ہی شمار کیاجائے گا۔
                خیر یہ تو کسی ایک شخص کی بات ہے ؛ مگر ہماری تو پوری تہذیب کی بنیاد ہی مذہب اور اس کے وضع کردہ اصولوں پر ہے؛ لیکن یہ ایک ناقابل انکار سچائی ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ مسامحت، انصاف، رحم وکرم اور انسانیت کی علمبردار صرف اور صرف ہماری تہذیب ہے اور ہمارے لیے یہ موجبِ صد افتخار ہے کہ ہماری تہذیب کا قِوام صرف ایک مذہب پر ہے؛ مگر اس کی لامحدود وسعتوں میں مذاہبِ عالم کی تہذیب کی سمائی ممکن ہے۔
                عالمی تہذیبوں کی تاریخ میں ہماری تہذیب کی یہ چند امتیازی خصوصیات ہیں، جب دنیا حکومت وسلطنت، علم وحکمت اور قیادت وسیادت ہر میدان میں ہمارے زیر نگیں تھی، تو انھیں خصوصیات کی بنا پر ہماری تہذیب ہر قوم ومذہب کے باشعور اور ذہنِ رسا رکھنے والے افراد کے قلوب کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھی؛ لیکن جب اس کا زور جاتا رہا، اس کو گلے لگانے والے اپنی سیہ کاریوں کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہوگئے اور اس کے بالمقابل دوسری تہذیبیں رونما ہوئیں، تو ہماری تہذیب کی قدر وقیمت پر دنیا کی نگاہیں مختلف انداز سے اٹھنے لگیں؛ چناںچہ کچھ لوگ اس کی ہرزہ سرائی کرنے لگے، تو کچھ مدح سرائی اور کچھ لوگ اس کے فضائل شما رکرانے لگے تو کچھ لوگ اس کے رذائل؛ غرضیکہ جتنے منھ اتنی باتیں۔
ایسا کیوں ہوا؟
                اگر تہذیبوں کو پرکھنے کا آلہ فرمانروایانِ مغرب کے ہاتھوں میں نہ ہوتا اور وہ دنیا کی رنگا رنگ طاقت وقوت کے مالک نہ ہوتے، تو وہ کبھی بھی اس دریدہ دہنی کی جرأت نہ کرسکتے تھے؛ کیوںکہ دنیا کا یہ اصول ہے کہ جب کوئی قوم اور اس کی تہذیب وتمدن کسی دوسری قوم کے زیر تسلط ہوتی ہے، تو وہ قوم اپنے تئیں انتہائی ناتواں اور کمزور ہوجاتی ہے اور اس پر فتح یاب قوم پورے نادیدے پن کے ساتھ اس کے منافع پر ہاتھ صاف کرتی اور ان پر حکومت کرتی ہے اور یہ بھی زمانے کا دستور رہا ہے کہ طاقت ور کمزور کی تحقیر وتنقیص کرتا ہے اور ہمہ دن اس کو ذلیل وخوار کرتا رہتا ہے؛ چناںچہ تہذیبِ جدید کے علمبرداروں نے مسلمانوں اور اسلامی تہذیب کے ساتھ اسی روایت کو دہرایا اور دہرارہے ہیں۔
                حالاںکہ تاریخ شاہد ہے کہ جب خطہ ہائے عالم پر ہماری فتح مندی کے پرچم لہرارہے تھے اور ہم دنیا کے سوپر پاور کی حیثیت میں تھے، تو ہم نے کمزور وشہ زور کے ساتھ انصاف کیا اور ہر صاحب فضل وکمال کے رتبے کو پہچانا اوراسے اس کے لائق مقام ومرتبہ عطا کیا، خواہ وہ دنیا کے مغربی خطے کا ہو یا مشرقی خطے کا اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ انسانی ہم جیسا منصف اور عدل گستر حکمراں اور پاکباز وصاف دل انسان پیش کرنے سے قاصر اور درماندہ ہے۔
لمحۂ فکریہ
                قابل افسوس امریہ ہے کہ ہم اب تک بہ تمام وجوہ نہ سمجھ پائے کہ دنیا کی طاقت ور قومیں ہمارے خلاف کتنا متعصبانہ رویہ رکھتی ہیں اور کس طرح ہماری روشن اور بے غبار تہذیب کو اپنے ظلم وتعدی کا نشانہ بناتی ہیں، ان میں سے بہت سے افراد تو وہ ہیں جو اپنے دین کے تئیں عصبیت بے جا کے شکار ہیں اور ان کے دیدے حق بینی سے محروم ہوچکے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو قومی عصبیت میں مبتلا ہیں اور قومیت کے کبر وفخر کی وجہ سے وہ دوسری قوم کے فضل وکمال کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے؛ لیکن اُس وقت ہمیں مہر بہ لب ہونا پڑتا ہے اور ہمارے پاس کوئی عذر نہیں ہوتا، جب ہم مسلمانوں ہی میں سے بعض سرپھروں کو دانایانِ فرنگ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ہم سے اس سوال کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا کہ آخر چند ایک فرزندانِ اسلام بھی اس اسلامی تہذیب کی تحقیر کرتے ہوئے کیوں نظر آتے ہیں، جس کے سامنے دنیا نے صدیوں اپنے گھٹنے ٹیکے رکھے تھے؟
                تہذیبِ اسلامی کا استخفاف کرنے والے ان نام نہاد مسلمانوں کا جواب شاید یہ ہو کہ تہذیبِ نو کے نقوش، جدید علوم کی دنیا میں اس کی نت نئی ایجادات اور فتوحات کے مقابلے میں ہماری تہذیب ہیچ ہے؛ لیکن ان کا یہ جواب کسی حد تک درست ہوتب بھی دو وجہوں سے اسلامی تہذیب کا استخفاف کسی بھی طرح درست نہیں ہوسکتا۔
پہلی وجہ
                یہ ہے کہ ہر تہذیب کے دو عنصر ہوتے ہیں: ایک اخلاقی، دوسرا مادی، جہاں تک مادی عنصر کی بات ہے، تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ ہر بعد کی تہذیب پہلے کی تہذیب سے اس باب میں سبقت رکھتی ہے، زندگی اور اس کے وسائل کی ترقی کے حوالے سے سنت اللہ یہی رہی ہے؛ لہذا تہذیبِ گزشتہ سے ان ترقیات کا مطالبہ کرنا، جو تہذیبِ حاضر کو حاصل ہیں فعل عبث ہے اوراگر یہ درست ہوتو، پھر ہمارے لیے اس بات کی پوری گنجائش ہے کہ ہم اسلامی تہذیب کے پیدا کردہ ان وسائلِ معیشت اور مظاہرِ تمدن کے باب میں جوگزری ہوئی تمام تہذیبوں میں نابود تھیں، ان کی تحقیر و تنقیص کریں؛ لہٰذا اس صداقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ دنیا کی تہذیبوں کے مابین فرق مراتب کے لیے مادی عنصر کو کبھی بھی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔
                رہا اخلاقی عنصر، تو حقیقت یہ ہے کہ یہی عنصر تہذیبوں کو حیاتِ جاوداں عطا کرتا ہے اور اسی کو اپنا کر کوئی بھی تہذیب انسانیت کو خوش بختی سے ہم کنار کرنے اور اسے زندگی کے مصائب اور ہلاکت کے اندیشوں سے نجات دلانے کا فریضہ انجام دے سکتی ہے اوراس میدان میں ہماری تہذیب تمام تہذیبِ رفتہ وآئندہ پر سبقت رکھتی ہے اور کامیابی کی اس معراج پر پہنچی ہوئی ہے کہ تاریخ کے کسی بھی موڑ پر اس کی نظیر نایاب ہے اور ہماری تہذیب کو خلود بخشنے کے لیے کافی ہے؛ کیوںکہ کسی بھی تہذیب کا آخری مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کی سعادت کا ہر ممکن سامان فراہم کرے اوریہ کام ہماری تہذیب نے ایسے احسن واکمل طریقے پر انجام دیے ہیں کہ شرق وغرب اور شمال وجنوب کی کوئی بھی تہذیب اس کے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچ سکی۔
دوسری وجہ
                ان مغرب زدہ ذہنوں کے جواب کے لچر اورنامعقول ہونے اوراس کی بنا پر اسلامی تہذیب کی تحقیر کے درست نہ ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تقابل کے لیے نہ تو مادی پیمانہ اختیار کرنا چاہیے، نہ کم وکیف اور عدد ومساحت کو معیار بنانا چاہیے اور نا ہی خوراک وپوشاک ومعاش کو؛ بل کہ ان کے درمیان تقابل ان کے آثار کے ذریعہ کیا جانا چاہیے، جو انسانی تاریخ میں اس تہذیب کی باقیات ہیں۔
                تہذیبوں کے درمیان تقابل ایسا ہی ہے جیسے مختلف ملکوں اور حکومتوں کے درمیان باہمی آویزش؛ چناںچہ ان کے درمیان مقابلہ حدود مملکت کی وسعت اور شہریوں اور افواج کی تعداد سے نہیں ہوتا؛ یہی وجہ ہے کہ قرونِ قدیمہ ووسطیٰ کی فیصلہ کن جنگوں کو لشکر اور آلاتِ حرب کے اعتبار سے اگر دوسری عالم گیر جنگ پر قیاس کیا جائے، تو گزشتہ جنگیں بالکل ہیچ معلوم ہوںگی؛ لیکن اس کے باوجود ان جنگوں کو اپنے دور رس نتائج کی وجہ سے تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔
                چنانچہ تاریخ کی مشہور زمانہ جنگ جس میں قرطاجنی (Carthajion) سپہ سالار ’’ہنیپال‘‘ نے رومیوں کو شرمناک شکست دی تھی، اس کے واقعات اب بھی یورپ کی تعلیم گاہوں میں زیر تدریس ہیں، اسی طرح حضرت خالد بن ولیدؓ کی شام کی فتوحاتی مہم کے معرکے تاہنوز مغربی ماہرینِ جنگ کی تحقیق کا میدان اور ان کی حیرت وتعجب کا باعث ہیں، نیز یہ معرکے ہماری تہذیب کی جنگی فتوحات کی تاریخ کے سنہرے صفحات کی حیثیت رکھتے ہیں۔

٭           ٭           ٭



نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار

اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مغربی تہذیب و تمدن کی خامیوں پر نکتہ چینی کی ہے اور مسلم معاشرے کو ان کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔ بعض نقادوں کے خیال میں اقبال نے مغربی تہذیب پر اعتراضات کرکے انصاف سے کام نہیں لیا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اس بارے میں لکھتے ہیں۔
” اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ملتی ہے۔ اور یہ مخالفت اس کے رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اکثر نظموں میں جا و بے جا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔“
یہ کہنا کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا کلام اقبال سے سطحی واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے تہذیب ِ مغرب کے صرف انہی پہلو ئوں پر تنقید کی ہے جنہیں وہ مسلم معاشرے کے لئے مضر سمجھتے تھے۔ ورنہ جہاں تک اچھے پہلوئوں کا تعلق ہے اقبال اس سے کبھی منکر نہیں ہوئے۔
اپنی ایک لیکچر میں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی اہمیت جتانے کے بعد کھل کر کہا ہے۔ ” میری ان باتوں سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ میں مغربی تہذیب کا مخالف ہوں ۔ اسلامی تاریخ کے ہر مبصر کو لامحالہ اس امر کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہمارے عقلی و ادراکی گہوارے کو جھلانے کی خدمت مغرب نے ہی انجام دی ہے۔“
اسی طرح ایک اور جگہ وہ صاف صاف کہتے ہیں،

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا ہے ارشاد کہ ہر شب کو سحر کر


انگریزی پڑھ کے لڑکا بڑا تیز ہوگیا،

تہذیب اپنی بھول کے انگریز ہوگیا۔












مغربی تہذیب وثقافت اور مسلمان خواتین!




کیا کبھی آپ کسی معروف ڈپارٹمینٹل اسٹور گئے ہیں؟ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ اپنی اشیا ضرورت کی خریداری میں مصروف ہوں، ایسے میں کسی ”بنت حوا“ کی آواز سوچ وفکر کا دائرہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے۔ متعلقہ کمپنی کی مصنوعات کی خوبیوں، فوائد اور ثمرات کی تسبیح میں گنواتی زبان لمحہ بھر کے لئے آپ کو ذہنی وقلبی تذبذب سے دوچار کردیتی ہے۔ کشش صوت سے لے کر ہیئت لباس تک کا ”وصف اور ڈھنگ“ ابلیسی تیر بن کر آپ کی ایمانی و روحانی نظر وفکر کے قالب کو زخمی کرتا نظر آئے گا۔

قارئین! یہ رونا اور یہ دکھڑا کسی خاص مقام، مکان اور جگہ کا نہیں ہے۔ شامت اعمال کی یہ مشاہداتی تصویریں مسلم معاشرے میں ہر نشیب وفراز اور قدم قدم پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جاہلیت قدیمہ اور جاہلیت جدیدہ صنف نازک کی تذلیل، تحقیر اور عدم توقیر کے حوالہ سے سرموکوئی فرق وامتیاز نہیں رکھتیں۔ حوا کی بیٹی ماضی قدیم میں یونانیوں کے ہاں برائیوں کا منبع، عرب کے ہاں ذلت ورسوائی کی علامت اور اہل کلیسا کے ہاں لونڈیوں سے بدتر حیثیت کی حامل گردانی جاتی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ نصرانیت باوجود ایک مذہب سماوی کا دعویدار ہونے کے تحریف وتبدل کی رنگ آمیزی سے اس قدر کھوکھلا ہوچکا تھا کہ، عورتوں کے لئے کلام مقدس کو چھونا اور گرجے میں داخلہ تک ممنوع قرار دیا جاچکا تھا۔ اس کے برخلاف اسلام نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی صورت میں عورت کے حقوق بیان اور بحال کیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات تو صنف اناث کو ”آبگینوں“ کی مانند نازک بتلاتی اور ان کی حفاظت کا حکم دیتی ہیں۔

فی زمانہ حقوق نسواں کی بحالی اور تحفظ کے نام پر ٹڈی دل مغرب زدہ این جی اوز کا وجود نامسعود مسلمان خواتین کو دین سے برگشتہٴ خاطر کرنے کے لئے کیا کیاطریقے اورحربے اپنارہا ہے؟ آئیے! ایک اچٹتی نظر اس کھلی حقیقت پر ڈالتے ہیں:

(۱) معاشرے کے مستحکم اور فیصلہ کن اہمیت وحیثیت رکھنے والے افراد کار سے ربط وضبط بڑھانا تاکہ راستے کی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔

(۲) اشتہارات کی تشہیر اور لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ رائے عامہ کی ہمواری۔

(۳) باقاعدہ اور منظم طریقہ کار کے تحت عدالتوں میں ”عورتوں کے لئے جنسی فیصلوں کی آزادی“ کے عنوان سے من پسند شادی کرنے والے جوڑوں کے مقدمات عدالت میں ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر اس طرز عمل کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی ہوسکے۔

(۴) جنسی بے راہ روی کو ہوا دینے کے لئے مخلوط تعلیمی اداروں کے قیام کی بھرپور حوصلہ افزائی۔

(۵) دفاتر، فیکٹریوں اور کارخانوں میں مرد وعورت کے اختلاطی ماحول کی نشوونما۔ نوبت بایں جا رسید کہ بعض مسلم ممالک میں مخلوط ماحول پیدا کرنے کے لیے ایجوکیشن، انجینئرنگ، اکاؤنٹس اور دیگر دفتری امور کے لئے خواتین کیڈٹس کی بھرتی جاری وساری ہے۔

(۶) ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مخلوط محفلوں کی خبریں، کہانیاں اور رپورتاژ منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا سے پیش کیے جانے والے پروگراموں میں جنسی آزادی اور خاندانی منصوبہ بندی کے مقاصد کو خصوصی طور پر اجاگر اور نمایاں کیا جارہا ہے۔“

اس صورت حال پر حفیظ جالندھری کے اشعار جاندار اور خوبصورت تجزیہ وتبصرہ معلوم ہوتے ہیں:

اب مسلماں میں بھی نکلے ہیں کچھ روشن خیال
جن کی نظروں میں حجات صنف نازک ہے وبال
چاہتے ہیں بیٹیوں، بہنوں کو عریاں دیکھنا
محفلیں آباد لیکن گھر کو ویراں دیکھنا

یہ بات اب طشت از بام ہوچکی ہے کہ ان این جی اوز کے پشت پناہ اقوام متحدہ، امریکہ اور صہیونی گماشتے ہیں، جن کا مطمح نظر اور مقصد حیات ہی اسلام کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا ہے۔

تسلیم کہ ”معاش“ بعض مخصوص حالات وکیفیات میں کچھ خواتین کی اقتصادی مجبوری ہے۔ لیکن اس کے لئے حدود شرع کو پامال کرنا، اسلامی تعلیمات کا سرعام ”عملی استہزا“ کرنا اور مشرقی روایات واقدار کو پس پشت ڈالنا کہاں کی دانشمندی، روشن خیالی اور تہذیب یافتہ ہونے کی علامت ونشانی ہے؟ اسلام دین فطرت ہے۔ اس کی روشن، واضح اور غیر مبہم تعلیمات ہر دور وزمانہ میں چھوٹے سے لے کر بڑے تک، عورت سے لے کر مرد تک، بچہ سے لے کر بوڑھے تک، جاہل سے لے کر عالم تک، فقیر سے لے کر غنی تک غرض ہر ایک کے لئے یکساں قابل قبول وعمل تھیں، ہیں اور رہیں گی۔ کمی اور نقص انسان کی کمزوری اور خامی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے مسلمان خواتین اپنی متاع عفت وایمان کی حفاظت، اہمیت اور ضرورت کو اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سعی بلیغ کریں۔

سردست صاحب ایمان خاتون کا لباس اسلام کی نگاہ میں کیا اہمیت وحیثیت رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب ”دین مبین“ کی تعلیم کردہ ہدایات کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔

٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں (مکہ سے مدینہ) ہجرت کی۔ جب اللہ پاک نے ”ولیضربن بخمرہنّ علی جیوبہنّ“ کاحکم نازل فرمایا تو انھوں نے اپنی موٹی چادروں کو کاٹ کر دوپٹے بنالیئے۔“ مفسرین لکھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں مشرک عورتیں سرپردوپٹہ کرکے بقیہ حصہ کمر پر ڈال دیا کرتی تھیں۔ اس کے برعکس مسلمان عورتوں کو حکم ہوا کہ سرسمیت سینہ اور گلے پر بھی دوپٹہ ڈالیں۔ یہ حکم سن کر صحابیات نے موٹی چادروں کو کاٹ کر اپنے دوپٹے بنالئے، کیونکہ باریک کپڑے سے سر اور بدن کا پردہ نہ ہوسکتا تھا۔ ”تحفہٴ خواتین“ میں مولانا عاشق الٰہی رحمہ اللہ حدیث مذکور کے ذیل میں رقمطراز ہیں: ”آج کل کی عورتیں سر چھپانے کو عیب سمجھتی ہیں اور ڈوپٹہ اوڑھتی بھی ہیں تو اس قدر باریک ہوتاہے کہ سرکے بال اور مواقع حسن وجمال اس سے پوشیدہ نہیں ہوتے، دوسرے اس قسم کا ڈوپٹہ بناتی ہیں کہ سرپر ٹھہرتا ہی نہیں چکناہٹ کی وجہ سے بار بار سرکتا ہے اور پردہ کے مقصد کو فوت کردیتا ہے۔“

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ پاک ایسے مرد پر لعنت فرماتے ہیں جو عورت کا لباس پہنے اور ایسی عورت بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت کی سزاوار ٹھہرتی ہے جو مرد کا پہناوا زیب تن کرے۔“ اس حدیث مبارک کی روشنی میں اپنے گرد وپیش پر نظر ڈالیے! فیشن پرستی کا ماحول، موسم اور فضا اباحیت پسندی، جنسی بے راہ روی، فحاشی وعریانی اور مادیت کی یورش ہر سوبپا کئے ہوئے ہے۔ نادانی خود فریبی اور نفس پرستی کا شکار مسلمان ”غیروں“ کی نقالی میں اس قدر منہمک ہوچکا ہے کہ مرد وزن کے ہیئت لباس، نوعیت کار اور پیدائشی فرق تک کو ختم کردینے پہ تلاہوا ہے۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اہل جہنم کے دو طبقے ایسے ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ان دو گروہوں میں سے ایک تو وہ قوم ہوگی جن کے پاس کوڑے ہونگے گائے کی دم کی طرح اور اس سے وہ لوگوں کو (ناحق) ماریں گے۔ دوسرا طبقہ ان عورتوں کا ہے جو بظاہر کپڑے پہنے ہوں گی لیکن پھر بھی ننگی ہوں گی، مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود ان کی جانب میلان رکھنے والی ہوں گی۔“ ان کے سرخوب بڑے بڑے اونٹوں کے کوہان کی طرح ہوں گے۔ وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پاسکیں گی۔ حالانکہ اس کی خوشبو اتنی اتنی دور سے آرہی ہوگی۔“ کتنی سخت وعید ہے ان دختران ملت کے واسطے جو اسلامی معاشرت اور اوضاع واطوار سے صرف نظر کرکے جدت پسندی اور باطل رسوم ورواج کو اپنی کامیابی کی کلید اور ترقی کا زینہ سمجھ بیٹھی ہیں۔ کیا آج مغرب کی مادہ پرستی نے عورت کو زمانہ جاہلیت کی طرح عزت کی اوج ثریا سے خاکِ ذلت پر نہیں دے مارا؟ کیا آج امت مسلمہ کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں مغربی استعمار کے دام تزویر کا شکار نہیں؟ فیصلہ آپ پر ہے!!

فطرت سے بغاوت کے نتیجے میں خود اس یورپ کی معاشرتی ٹوٹ پھوٹ اور خانگی زندگی کی زبوں حالی کیا صورت وشکل اختیار کرچکی ہے؟ اس ضمن میں سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف کا یہ ”اعتراف جرم“ سند کے طورپر پیش کرنے کے لئے کافی ہے، جس میں انھوں نے کہا: ”ہم نے عورتوں کو گھر سے نکال کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس سے اگرچہ ہماری مصنوعات بڑھ گئیں لیکن ہم معاشرتی ابتری کا شکار ہوگئے ہیں۔“

٭٭٭






تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی


کوئی بھی چیز جب تک اپنے دائرہ میں ہوتی ہے ؛تبھی تک وہ اچھی ہوتی ہے۔ خدانخواستہ وہ چیز اگر اپنے حدو داور دائرے سے نکل گئی؛تو وہی چیزبعض مرتبہ بدترین” شر“ کی صورت اختیار کرلیتی ہے؛اسی لیے کہا گیا ہے کہ” ہروہ خیر جو اپنے حدسے نکل جائے ؛شرہے“۔ چنانچہ بچہ سے محبت رکھنافطری جذبہ اور طبعی عمل ہے ؛لیکن محبت میں آکر” دوا“ بچے کو نہ پلانا، یاحصول علم کے لیے اسے اسکول ومدرسہ نہ بھیجنا یہ خیر نہیں؛ شرہے ، بچہ کے ساتھ بھلائی نہیں؛ برائی ہے، محبت نہیں؛ ظلم ہے۔ چونکہ یہ وہ محبت ہے ؛جو اپنے حدوداور دائرہ سے باہر ہے ۔
تہذیب جدید کے ٹھیکہ داروں نے بے حیائی اوربے غیرتی کو فروغ دینے کے لیے عورتوں کے حقوق کے عنوان سے ایسے پرًفریب سبزباغ تیار کردئے ہیں ؛جونہ صرف اپنے دائرہ وحدود سے باہر ہیں؛بلکہ ان کے اسباب بھی اپنے دائرہ سے باہر ہیں؛جس کی وجہ سے انسانی نظام زندگی میں شدید قسم کی بے چینی اور بدنظمی پیداہوتی چلی جارہی ہے ۔
مردو عورت کو اللہ تعالی نے ایک دوسرے کے لیے پیدافرمایا ہے ،دونوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے آئندہ آنے والی نسل کی نہ صرف بقاکا سامان کریں ؛بلکہ ان کو بہترسے بہتر انسان بنانے اوران کی تہذیب وتعلیم کی راہ میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دیں؛ اسی لیے اللہ تعالی نے ان کی جسمانی ساخت جدارکھی ۔مرد کو سخت مشقت اور محنت کے کام تفویض ہوئے ؛اس لیے اس کو جسم کی صلابت اور عقل کی پختگی عطاہوئی ؛عورتوں کے ذمہ نرم ونازک کام متعین ہوئے ؛اس لیے اس کو لطیف جسم ،نرم طبیعت اورعقلی ضعف ملا۔یہی نہیں ؛بلکہ مردووں اورعورتوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے انتہائی کشش اور جذب کا مادہ بھی رکھا؛تاکہ یہ مشکل ترین مرحلہ بحسن وخوبی انجام پزیر ہو ؛ البتہ اس کشش اورجذب سے متمتع و لطف اندوز ہونے کے لیے نکاح اورشادی کی حد متعین کردی اورعورت کو حکم دے دیا کہ وہ اپنے حسن وجمال کو اسی حد کے اندر ظاہر کریں؛ورنہ یہ حسن وجمال ان کے استحصال کا سبب بن جائے گا ۔
مگر جنسی تاجروں نے عورتوں کو لاکر بازار میں کھڑاکردیا اور بے حیائی وبے غیرتی کا طوفان برپا کردیا؛چنانچہ جب اس طرف سے حدود کی خلاف ورزی ہوئی اور قدم دائرہ سے باہر نکلا، پھر کشش و جذب نے اپنا رنگ دکھایا؛تو جانب مخالف کی طرف سے بھی حدود سے تجاوز ہوا۔مگر ظالموں نے قانون یکطرفہ بنایا اورکہاکہ عورتیں چاہے جتنی حدیں پار کرجائیں؛ ان پر کوئی داروگیر نہیں ؛البتہ اگر مردوں نے اپنے کو قابو میں نہیں رکھا ؛توان کے خلاف کاروائی ہوگی ۔اس غیر منصفانہ فیصلہ اور ظالمانہ کاروائی کی وجہ سے مردوعورت ایک دوسرے کے لیے وبالِ جان اور ہلاکت کا باعث بن گئے ، جن کو اللہ نے ایک دوسرے کے انس کے لیے پیدا کیا تھا؛ وہ ایک دوسرے کے لیے باعثِ وحشت بنتے جارہے ہیں۔اور یہ ایک ایساانسانی المیہ ہے ؛جس پر اگر قابو نہ پایا گیا ؛تو انسانیت تباہ ہوجائے گی ۔پچھلے دنوں اس سلسلے میں ایک اہم خبر یہ آئی تھی:
دست دارزی کے الزام کا خوف مرد پائلٹوں کو کام کے مقررہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر مجبور کررہاہے ؛جس کی وجہ سے مسافروں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔ ضابطے کے مطابق پائلٹ یا معاون پائلٹ اسی وقت ”کاک پیٹ“سے نکل سکتا ہے ؛جب عملے کا کم ازکم ایک رکن کاک پیٹ میں موجود ہو۔اس کا مقصد یہ ہے کہ جہاز اڑانے والاشخص اگراچانک بیمار پڑ جائے تو وہاں کوئی شخص موجود ہو ؛جو حالات کو سنبھال سکے اوردوسرے پائلٹ کو فور ی طور پر بلاسکے ۔مگر دیکھایہ جارہا ہے کہ خانگی” ایئر لائنس“ کے مرد پائلٹ ”ایئر ہوسٹس“(میز بان خواتین) کو باہرہی رکھتے ہیں۔انھیں ڈر ہے کہ کہیں کوئی ایئر ہوسٹس ان پر کوئی الزام نہ لگا دے اورانھیں بدنامی اور جوابدہی کا سامنا کرنا پڑے۔ان کے مطابق ”اگر الزام غلط ہواتب بھی صفائی دینے اور اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے میں کافی پریشانی کا سامنا کرپڑسکتا ہے۔کئی پائلٹوں نے جسٹس گنگولی اور ترون تیج پال جیسے ہائی پروفائل معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاان واقعات نے انھیں اپنے ”تحفظ“ پر مجبورکردیا؛ بھلے ہی اس کی وجہ سے کچھ دیر کے لیے مسافروں کی خان خطرے میں پڑجائے (انقلاب بمبئی:۹/۱/۱۴ء)
آپ حیران نہ ہوں ؛درحقیقت یہ نتیجہ ہے اس عریانی وبے حیائی کے طوفان کا؛ جو انسانی فطرت اوراسلامی طبیعت سے بغاوت کرتے ہوئے آزادی اور روشن خیالی کے نام پر برپاکیا گیا تھا۔اورجسے آج مسلمان بھی ترقی کا راز سمجھ کر درآمد کرنے کی کوشش کررہاہے ۔
      معاشرے میں بے حیائی اور بے شرمی کے سد باب کے لیے پچھلے سال ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی نونین کی پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ پیش ہوئی تھی ،یہ رپورٹ ڈچ ممبر ”کارتیکا تمارا“نے تیار کی تھی۔انھوں نے کہا :”میرے پاس اس بات کا کوئی جواب موجود نہیں کہ ہم کس طرح عورت کو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس دلاسکیں گے یا اپنے بچوں کو بے حیائی کے اس چنگل سے کیسے آزاد کراسکیں گے “۔بے حیائی کی یلغار پر برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی گزشتہ سال چیخ اٹھے تھے ۔انھوں نے برطانیہ کے تمام گھروں میں تمام فحش ویب سائٹس پر پابندی اور اس مقصد کے لیے” فیملی فرینڈلی فلٹرز“سمیت مختلف تدابیر اختیار کیے جانے کا اعلان کیا تھا ۔
ان واقعات اورحالات سے یہ حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ فطری اور طبعی حدود سے تجاوز کے نتیجہ میں پیدا شدہ بے حیائی کے کلچر نے جو سنگین صورت حال اختیارکرلی ہے ؛اس کا شدید احساس ہونے کے باجود اس سے نجاب پانا اب مشکل ثابت ہورہا ہے ۔ ہرمعقول شخص سمجھ سکتا ہے کہ صنفی معاملات میں فطر ت کے منافی یہ رویہ معاشرہ کو مکمل طور پر تباہ کررہا ہے اورمغربی تہذیب کے بارے میں اقبال مرحوم کی یہ پیش گوئی حقیقت بنتی نظر آرہی ہے :
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا
$ $ $




مغربی تہذیب عورت کے آسان حصول کو مقاصد حیات میں سے ایک بہت بڑا مقصد قرار دیتی ہے۔ جس میں عورت عام بازاری اشیاء کی طرح ہر قیمت پر ہر کام کے لیے میسر ہوتی ہے، جبکہ دوسری طرف اسلامی تہذیب ہے، جس میں عورت جنس بازار نہیں ہے، وہ اشرف المخلوقات انسان ہی کی ایک صنف ہے۔
انسان کی زندگی میں اور حیوانات کی زندگی میں واحد فرق ضابطوں کا ہے۔ انسانی زندگی جس طرح اپنے تمام دیگر پہلوئوں میں ضابطوں کی پابند ہے اور اس پابندی میں ہی انسانیت مضمر ہے، اسی طرح انسان کے صنفی تعلقات بھی لازماً ضابطوں کے پابند ہوں گے۔ یہ انسانیت اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اس لیے اسلام عورت کے احترام اور تکریم پر زور دیتا ہے۔
عورت کی بے لباسی، اس کی توہین اور تحقیر ہے۔ عورت کا آوارگی میں استعمال انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔ اسلام اس کو برداشت نہیں کرتا۔ ان دو تہذیبوں میں ٹکرائو دراصل اسی نکتے پر قائم ہے۔ یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مغربی تہذیب اور سیکولرازم کا اگر اسلام سے تصادم ہے تو محض اسی نکتے پر ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی عنوانات میں اختلاف نظر آتا ہے، وہ اسی اساسی نکتے سے ہی مربوط ہیں۔ مثلاً تعلیم، ترقی، معیشت، تجارت، سیاست، کسی چیز میں اسلامی تعلیمات اور تصورات انسان کی حقیقی ضرورتوں کی نفی بالکل نہیں کرتیں، بلکہ زندگی کے تمام مراحل میں اسلام مغربی تہذیب سے زیادہ پختہ اور پائیدار ضابطے پیش کرتا ہے۔ 
ایک مثال دیکھیے! کہا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کو تعلیم کا حق نہیں دیا جاتا جبکہ تعلیم ترقی کی بنیاد ہے، حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اسلامی تعلیمات میں تعلیم کی نفی نہیں، ہاں البتہ مخلوط تعلیم کی نفی ہے اور مخلوط تعلیم بے حیائی اور آوارگی کا سبب ہے۔ اسی طرح اسلام تجارت سے بھی قطعاً منع نہیں کرتا، بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بڑے بڑے صحابہ کرامؓ تاجر ہی تھے، لیکن تجارت میں دھوکہ، فراڈ اور ایڈورٹائزنگ کے نام پر عورت فروشی سے منع کرتا ہے۔ عریاں تصاویر اور دیگر اخلاق باختہ طریقے سے تجارت سے منع کرتا ہے۔ اسلام میں مضبوط معیشت ایک اہمیت کی چیز ہے۔ اسلام اس سے انکار نہیں کرتا، لیکن اجارہ داری، ارتکاز دولت اور معاشی ناانصافی سے منع کرتا ہے۔ آج کی سرمایہ دارانہ دنیا میں تقسیم دولت میں جو قباحتیں، جو ظلم و استحصال نظر آتا ہے، وہ اسلامی نظریہ معیشت کی مخالفت کی وجہ سے ہی ہے۔ اسلام بین الاقوامی سیاست اور سفارت کاری سے انکار نہیں کرتا بلکہ اسلام کے بین الاقوامی سفارت کے اصول ہی آج کے منافقانہ اندازِ سیاست سے دنیا کو نجات دلاسکتے ہیں۔ اسلام کے اصولوں میں کھرا پن ہے۔ اندر باہر ایک ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ دُشمن کے ساتھ معاہدہ ہو، اس کی پاسداری بھی ایک شرعی فریضہ ہے، جبکہ آج کی بڑی بڑی طاقتیں معاہدات میں درپردہ خیانت ہی کو کامیاب سیاست سمجھتی ہیں۔







مسنون سلام اسلامی تہذیب کا اٹوٹ حصہ



اسلام ایک ایسا آفاقی اور ہمہ گیر مذہب ہے، جس کی ہر تعلیم کی بنیاد فلاح وکامیابی اور خیر وبرکت پر ہے، اس کی عالمگیر تعلیمات میں معاشرے کی بھلائی، سماج کا سدھار، کلچر کا حسن اور سارے جہاں کا امن وامان پنہاں ہے؛ اور یہ ایسی بات ہے جس کی گواہی اپنے پرائے سب نے دی ہے، اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس کی تعلیمات ابدی ہیں، جن میں قیامت تک کے آنے والے انسانوں کا خیال یکساں رکھا گیا ہے؛ ایسی ہی ابدی اور عالمگیر تعلیم کا ایک اٹوٹ حصہ، ”اسلامی سلام“ ہے۔
           اسلام میں، اتحاد و اتفاق اور اخوت والفت کو پوری انسانیت کے لیے بالعموم اور سارے مسلمانوں کے لیے بالخصوص ضروری قرار دیاگیاہے، انفرادیت، اختلاف اور انتشار وخلفشار کو ناپسندیدہ بتایاگیا ہے، خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”انَّمَا الْمُوٴْمِنُوْنَ اخْوَةٌ فَأصْلِحُوْا بَیْنَ أخَوَیْکُمْ“ (الحجرات) دوسری جگہ ہے: ”وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا“ (آل عمران) اسی اتحاد واتفاق کو مضبوط سے مضبوط کرنے، باہمی قلبی ربط، آپسی مواسات ومساوات اور محبتِ دینی کو پختہ اور کامل ومکمل کرنے کے لیے اسلام نے ایک دوسرے کو ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ“ کے ذریعہ سلام کرنے کی تعلیم وتلقین کی اور مسلمانوں پر ضروری قرار دیاگیا کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملیں تو ایک دوسرے کو امن وسلامتی کی دعادیں؛ تاکہ یہ آپسی دل جمعی اور باہمی ربط و محبت کا ذریعہ بنے؛ اور یہ جملہ اتنا گراں قدر ہے کہ اگر اس کو اخلاص کے ساتھ برتا جائے تو اس کی وجہ سے معاشرے کی برائی، ایک دوسرے سے دوری، ناراضگی، غلط فہمی، بغض وکینہ اور عداوت وحسد نہ صرف کم ہوں گے؛ بلکہ ان شاء اللہ ختم ہوجائیں گے اور انسان کو ایک ایسا معاشرہ نصیب ہوگا، جس کی معطر فضا میں وہ کھل کر سانس لے سکے گا۔
          اسلامی سلام کی خوبی، مثبت نتیجہ خیزی اوراس کی جامعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد شفیع صاحب رقم طراز ہیں:
          ”دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس کا رواج ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہارِ محبت کے لیے کہیں؛ لیکن موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ” اسلامی سلام“ جتنا جامع ہے، کوئی دوسرا ایسا جامع نہیں؛ کیوں کہ اس میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حقِ محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کو تمام آفات اور آلام سے سلامت رکھیں، پھر دعا بھی عربِ جاہلیت کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں؛ بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعا ہے یعنی تمام آفات اور آلام سے محفوظ رہنے کی، اسی کے ساتھ اس کا بھی اظہار ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو کوئی نفع بغیر اس کے اذن کے نہیں پہنچاسکتا، اس معنی کے اعتبار سے یہ کلمہ ایک عبادت بھی ہے اور اپنے بھائی مسلمان کو خدا تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔
          اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھی کو تمام آفات اور تکالیف سے محفوظ فرمادے، تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ کررہا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال، آبرو کا میں محافظ ہوں۔ (معارف القرآن:۲/۵۰۳)
مسنون سلام کو رواج دیجیے
          ”سلام“ چوں کہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی ادائیگی میں کبھی ناواقفیت کی وجہ سے غلطیاں ہوجاتی ہیں؛ اس لیے ذیل میں صحیح اور مسنون طریقہ درج کیا جارہا ہے:
          افضل اور مسنون یہ ہے کہ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ “ کہا جائے اور ادنیٰ درجہ کا سلام ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ“ ہے، اس پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور ”رحمةُ اللّٰہ“ کے اضافہ پر دس نیکیاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور ”وبَرَکاتُہ“ کا اضافہ کرنا بہتر ہے اور زیادتی ثواب کے سلسلے میں اس کا حکم وہی ہے جو سلام کرنے والے کے لیے ہے(مظاہرِحق ۵/۳۴۵، ردالمحتار ۹/۵۹۳، فتاویٰ رحیمیہ ۱۰/۱۳۳)
          قرآن کی آیت ”وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّواْ بِاَحْسَنَ مِنْہَا“ اور حضور علیہ السلام کے طرزِ عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دیا جائے، جس کی صورت یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے الفاظ سے بڑھا کر جواب دیا جائے، مثلاً جس نے کہا: ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ“ تو آپ جواب دیں: ”وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللّٰہ“ اور اس نے کہا: ”السَّلامُ عَلَیْکُمُ وَرَحْمَةُ اللّٰہ“ تو آپ جواب دیں: ”وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللّٰہ وَبَرَکَاتُہ “ کلمات کی زیادتی صرف تین کلمات تک مسنون ہے، اس سے زیادہ کرنا مسنون نہیں؛ اسی لیے جب ایک صاحب نے اپنے ابتدائی سلام میں ہی تینوں کلمے جمع کردیے تو حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے اور زیادتی سے احتراز فرمایا۔
چند ضروری مسائل
          ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں جائے تو اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ اس سے اس کے لیے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لیے بھی، ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان سے بار بار ملاقات ہوتو ہر مرتبہ سلام کرنا چاہیے اور جس طرح اوّل ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنون ہے، اسی طرح رخصت کے وقت بھی سلام کرنا مسنون اور ثواب ہے؛ البتہ چند حالات مستثنیٰ ہیں، جو شخص نماز پڑھ رہا ہے؛ اگر کوئی اس کو سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں؛ بلکہ مفسدِ نماز ہے، اسی طرح جو شخص خطبہ دے رہا ہے یا قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہے یا اذان یا اقامت کہہ رہا ہے، یا دینی کتابوں کا درس سے دے رہا ہے، یا انسانی ضروریات استنجاء وغیرہ میں مشغول ہے، اس کو اس حالت میں سلام کرنا بھی جائز نہیں اوراس کے ذمہ جواب دینا بھی واجب نہیں، نامحرم اوراجنبی عورتوں کو سلام کرنا مکروہ ہے، (ردالمحتار ۹/۵۹۳، مظاہر حق ۵/۳۵۹، رحیمہ ۱۰/۱۳۰، معارف ۲/۵۰۵)
تنبیہ
          (۱)      سَلَامْ عَلَیْکُمْ (بغیر الف لام اور میم کے سکون کے ساتھ) یا سَلاَمَالیکم اور سلامْ لیکم وغیرہ جو ہمارے دیار میں رائج ہیں؛ بہ قول علامہ شامی: یہ سلام مسنون نہیں ہیں، صحیح اور مسنون سلام السلامُ عَلیکم ہے۔
          (۲)      صرف ہاتھ کے اشارہ پر اکتفا کرنا بدعت ہے؛ البتہ سلام اوراشارہ دونوں کو جمع کرنے کی گنجائش ہے، اگرچہ بہتر نہیں ہے، ہاں! اگر سامنے والا دُور ہوتو الفاظ کے ساتھ ہاتھ کا اشارہ بھی کرنا چاہیے۔
          مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
          کاش مسلمان اس کلمہ کو عام لوگوں کی رسم کی طرح ادا نہ کرے؛ بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کرے، تو شاید پوری قوم کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہم سلام کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی اوراس کو افضلُ الاعمال قرار دیا اور اس کے فضائل وبرکات اوراجر وثواب بیان فرمائے، ایک حدیث میں سلام کو محبت میں اضافہ کا سبب بتایاگیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں ابتداء کرے، دوسری حدیث میں ہے کہ وہ آدمی بڑا بخیل ہے، جو سلام میں بخل کرے۔ (معارف القرآن ۲/۵۰۳)
مصافحہ تکملہٴ سلام ہے
          مصافحہ یعنی دو آدمیوں کا باہم ایک دوسرے سے ہاتھ ملاکر مغفرت کی دعائیں دینا، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں، ان کے جدا ہونے سے پہلے خدا ان کو بخش دیتا ہے، دوسری حدیث میں ہے تمہارا پورا سلام جو تم آپس میں کرتے ہو، مصافحہ ہے، معلوم ہوا کہ مصافحہ تکملہٴ سلام اوراس کا تتمہ ہے؛ لہٰذا پہلے سلام کرے پھر مصافحہ کرے اور مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا چاہیے، محض ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا، جیساکہ بعض ناواقف لوگ کرتے ہیں غیرمسنون ہے۔ (مظاہر۵/۳۶۷، فتاویٰ رحیمیہ ۱۰/۱۲۵) اور مصافحہ کے وقت ”یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ“ پڑھنا مسنون ہے۔
لمحہٴ فکریہ
          غور فرمائیں! مسلمان چاہے جس علاقہ کا ہو، اس کی زبان چاہے جو بھی ہو، اس کا تعلق چاہے جس خاندان سے ہو، اسلام نے اس کو یہی سکھلایا کہ وہ ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ“ ہی کہے، اس روشن تعلیم میں اجتماع و ارتباط کا کیسا جامع اور حسین مفید نسخہ مضمر ہے، ہر مذہب میں، مذہب والوں کے لیے کچھ مخصوص علامتیں ہوتی ہیں، جس سے امتیاز ہوتا ہے کہ فلاں کس مذہب کا ماننے والا ہے، اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کے لیے کچھ مخصوص علامتیں مقرر کیں اور اپنی ایک الگ شناخت بنائی؛ تاکہ اسلام وکفر میں فرق ہوسکے،سلام بھی انھیں علامتوں میں سے ایک اسلامی علامت ہے، اس سے بندگانِ خدا اور باغیانِ خدا کے درمیان امتیاز وفرق ہوتا ہے؛ لیکن اس کا دوسرا رخ بڑا ہی مہیب اور تاریک وتلخ ہے، وہ یہ کہ آج اسلامی معاشرے سے پیغمبرِاسلام کی یہ سنت اور اس کی اشاعت کم ہوتی جارہی ہے، اسلام نے شناسا وغیر شناسا، ہر ایک کو سلام کرنے کی تعلیم دی ہے؛ لیکن آج اولاً سلام ہی نہیں کیا جاتا اور اگر کیا جاتا ہے تو اکثر جان پہچان ہی کے لوگوں کو، یہ ہمارے لیے لمحہٴ فکریہ ہے اوراسی کا منفی نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ باہمی الفت، دلی درد اور اخوت ومواسات کی عمارت کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔
          موجودہ ماحول جو یورپی تہذیب سے متاثر ہے، اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنا اور اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں اوراس سلسلے کی جو کوتاہیاں اور کمیاں، ہماری زندگیوں میں درآئی ہیں انھیں دور کریں، سلام کو خوب رواج دیں کہ سلام اسلامی تہذیب کا اٹوٹ حصہ ہے، غیروں کی تہذیب (ہیلو، گڈبائی، نمستے، پرنام، بائے وغیرہ) سے پرہیز کریں؛ لہٰذا ہمیں اپنی تہذیب کی اشاعت اوراسے بروئے کار لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
          شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے بڑی اچھی بات لکھی ہے، اسی پر مضمون ختم کرتا ہوں۔
          جو قوم اپنے یونیفارم کی محافظ نہیں رہی، وہ بہت جلد دوسری قوموں میں منجذب ہوگئی، مسلمان جب سے ہندوستان میں ہیں، اگر اپنا یونیفارم باقی نہ رکھتے تو کب کے مٹ چکے ہوتے، انھوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ کرتا، پاجامہ، عبا، قبا اور دستار محفوظ رکھا؛ بلکہ مذہب اور اسماء الرجال، تہذیب وکلچر، رسم ورواج اور زبان وعمارت وغیرہ جملہ اشیاء محفوظ رکھے؛ اس لیے ان کی مستقل ہستی قائم رہی اور جب تک اس کی مراعات ہوتی رہے گی، رہیں گی، لہٰذا ایک محمدی کو حسبِ اقتضاء فطرت اور عقل لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آقا کا سارنگ ڈھنگ، چال چلن، صورت وسیرت، فیشن وکلچر وغیرہ بنائے اور اپنے محبوب آقا کے دشمنوں کے فیشن سے پرہیز کرے۔ (خلاصہ مکتوباتِ شیخ الاسلام ۲/۱۳۰)
          اللہ رب العزت ہم تمام مسلمانوں کو سلام کی اشاعت وترویج اور اس پر صد فیصد عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز اسلامی تعلیمات میں ہی پوشیدہ ہے۔
***

”ننگے سر“ رہنا، اسلامی تہذیب کے خلاف ہے
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان بالخصوص نوجوانوں میں دینی احکام اور اسلامی تہذیب کا احترام دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے، اس کے برخلاف مغربی تہذیب کو عام کرنے کی کوششیں چاروں طرف سے او رمختلف ذرائع سے عام ہوتی جارہی ہیں ، نتیجتاً ایک ٹوپی ہی کیا، سارا لباس، بلکہ پوری معاشرت ہی اسلامی خصوصیات وامتیازات سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ یہ صورت حال افسوس ناک ضرور ہے، مگر تہذیبی تصادم او رمغرب کے ناحق دباؤ، نیز عالم اسلام کی تہذیبی مغلوبیت کے مدنظر تعجب خیز بالکل نہیں ہے، تعجب صرف اس پر ہوتا ہے کہ بعض جدیدوغیر معتبر افکار کے حاملین ان یورپ سے درآمدہ فیشنوں کو کلین چٹ، بلکہ اسلامک لیبل کس طرح دیتے ہیں ؟ بیماری حد سے بڑھ جائے اور بد عملی قابو سے نکل جائے تو اسے صحت او رنیکی کا نام دے کر قبول کر لینا او ربڑھاوا دینا کسی عقل مند کے نزدیک صحیح نہیں ہو سکتا۔

ننگے سر رہنے یا نماز پڑھنے کا چلن انگریزوں کی آمد سے پہلے مسلم معاشرے میں کہیں نظر نہیں آتا، علماء وصلحاء تو سر ڈھانک کر رہتے ہی تھے، عام شرفاء بھی اسے تہذیب وشرافت کا لازمہ سمجھتے تھے، امام ابن جوزی  تلبیس ابلیس میں فرماتے ہیں:” سمجھ دار آدمی سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ سرکا کھلا رکھنابری بات اور ناپسندیدہ حرکت ہے ، کیوں کہ اس میں ترک ادب اور شرافت کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے۔“

شیخ عبدالقادر جیلانی  غنیة الطالبین میں فرماتے ہیں:
”ننگے سر لوگوں میں گھومنا پھرنا( مسلمانوں کے لیے) مکروہ ہے۔“ (بحوالہ فتاوی رحیمیہ:150/8)

ہندوستانی مسلمانوں میں ننگے سر پھرنا انگریزوں کی آمد کے بعد اورعالم عرب میں مغربی ممالک سے تعلقات کے بعد وجود میں آیا ہے، لیکن یہ تقلید فرنگ شروع میں صرف دفتروں ، کالجوں اور بازاروں تک محدود تھی، مذہبی مجلسوں مسجدوں میں لوگ اس طرح شرکت کو سخت معیوب سمجھتے او راس سے احتزار کرتے تھے ، گویا یہ پہلا مرحلہ تھا، جب مسلمانوں نے اسلامی تہذیب کو اسلامی سرگرمیوں کے ساتھ مخصوص کرکے انگریزی تہذیب کو زندگی کے بقیہ مرحلوں میں اختیار کر لیا تھا، پھر جب طبیعتیں اس اجنبی تہذیب سے مانوس ہو گئیں او رایک نسل گزر گئی تو اگلی نسل کے لیے یہ جدید کلچر ہی پسندیدہ کلچر بن گیا اور سابقہ تہذیب اجنبی سی ہو گئی۔

اب جدید تعلیم یافتہ طبقے میں ٹوپی پہننا ایسا ہی معیوب ہو گیا ہے جیسے چند سال قبل ننگے سر رہنا معیوب تھا، یہ سب تہذیب جدید یہودیوں کی عالمی واحد تہذیب ( یعنی گلوبلائزیشن) کی کوششوں کی دین ہے ، لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ علمائے دین او رامت کے مصلحین کا کام بہر صورت اسلامی ثقافت اور تہذیب کا تحفظ کرنا اور قوم کے اندر اس کے شعور کو باقی رکھنے کی فکر کرتے رہنا ہے، چاہے قوم اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے ، ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے، بلکہ جب ایسا نہ ہو االله تعالیٰ نے سخت پکڑ فرمائی، قرآن کریم میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، اس لیے بطور اتمام حجت کے یہ چند سطریں تحریر کی جارہی ہیں:

قرآن کریم میں نماز وعبادت کے لیے مکمل لباس اور کامل زینت اختیار کرنے کی ترغیب موجود ہے ، سورة الاعراف میں ارشاد ربانی ہے: ﴿یبنی ادم خذوا زینتکم عندکل مسجد﴾ (الاعراف:31) ، ”اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! جب کبھی مسجد میں آؤ تو اپنی خوش نمائی کا سامان( یعنی لباس جسم پر) لے کر آؤ۔“ یہ اگرچہ ننگے بدن کعبة الله کا طواف کرنے والوں کو دی گئی ہدایت ہے، مگر مفسرین کرام نے” کل مسجد“ کے عموم سے یہی سمجھا ہے کہ اس میں نمازوں اور دیگر عبادات کے ادا کرنے اور مقدس مقامات پر جانے کے لیے بھی مکمل لباس اختیار کرنا داخل وشامل ہے او رکل لباس میں جہاں کرتا پاجامہ داخل ہے ، وہیں ٹوپی یا عمامہ بھی شامل ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ننگے سر رہنا یا نماز پڑھانا ثابت نہیں ہے ، حسن سلمان نے ”الدین الخالص“ سے نقل کیا ہے کہ ”نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے حالت احرام کے علاوہ ننگے سر نماز پڑھانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، اگر آپ نے پڑھائی ہوتی تو احادیث میں ضرور منقول ہوتا، اگر کسی کو اس کے ثبوت کا دعویٰ ہے تو دلیل اس کے ذمہ ہے ۔ والحق أحق ان یتبع“․ (القول امبین، ص:57)

متعدد روایتوں میں آپ کے سر مبارک کا عمامہ یا ٹوپی سے آراستہ ہونا مروی ہے ، حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ سفید ٹوپی استعمال فرماتے تھے۔ ( شعب الایمان:256/13)

حضرت عائشہ سے بھی اس طرح منقول ہے۔(جامع صغیر:120/2)

حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ آپ ا ٹوپی عمامے کے تحت بھی او ربغیر عمامے کے بھی استعمال فرماتے تھے۔ ( جامع صغیر:120/2)

حضرت ابو قرصافہ سے مروی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں ایک ٹوپی دے کر اس کے استعمال کی ہدایت دی تھی۔ ( فتح الباری:223/10)

جب آپ صلی الله علیہ وسلم مرض الوفاة میں آخری خطبہ دینے کے لیے مسجد میں تشریف لائے تھے ، تو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا سر مبارک عمامہ یا سرخ پٹی سے ڈھکا ہوا تھا۔ (بخاری:536/1)

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تین ٹوپیاں تھیں، ایک کنٹوپ بھی تھی، جسے سفر میں استعمال فرماتے تھے۔ (تخریج احادیث الاحیاء:110/6)

ابن قیم  فرماتے ہیں: ”آپ صلی الله علیہ وسلم عمامہ باندھتے تھے، اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، کبھی بغیر ٹوپی کے بھی عمامہ باندھتے تھے، کبھی بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی پہن لیتے تھے۔“ (زادالمعاد:51)

یہی بات حضرت ابن عباس سے روایتاً بھی منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ٹوپی استعمال فرماتے تھے، عمامے کے ساتھ بھی، بلاعمامے کے بھی۔ (جامع صغیر120/2)

یہ تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا معمول او رعادت شریفہ تھی، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں صحابہ کرام کا رواج بھی یہی تھا اور کیوں نہ ہوتا؟ وہ لوگ تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہر ہر ادا کے عاشق اور اس کے متبع تھے، بخاری شریف میں ہے کہ جب حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم سے مُحرِم کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کون کون سے کپڑے پہن سکتا ہے ؟ تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” قمیص، شلوار، عمامہ اور ٹوپی نہ پہنے۔“ (بخاری:24/2)

معلوم ہوا کہ ٹوپی او رعمامہ کا پہننا صحابہ کرام کے معاشرے کی عام بات تھی، تب ہی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دوسرے لباس کے ساتھ اس کا بھی ذکر فرمایا۔ ا بن عاصم سے مروی ہے کہ جب وہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے ملنے کے لیے پہنچے تھے تو صحابہ کرام کو کپڑوں اور ٹوپیوں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ ( مجمع الزوائد:184/2)

اسی طرح ترمذی میں ہے کہ حضرت عمر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے شہید کے فضیلت بیان کرتے ہوئے بتلا رہے تھے کہ ” اس کے بلند ترین مقام کو یوں سر اٹھا کر دیکھا جائے گا، جب آپ نے سر پیچھے کیا تو ٹوپی سر سے گر گئی۔“ (ترمذی:241/3)

اس کے علاوہ متعدد صحابہ کرام او رتابعین عظام کے بارے میں روایات موجود ہیں کہ وہ ٹوپی کا استعمال فرمایا کرتے تھے ، بخاری شریف میں ہے ، حضرت انس ریشم کی ٹوپی پہنے ہوئے دیکھے گئے۔ (270/4) اسی طرح ابو اسحاق کے بارے میں ہے کہ انہوں نے نماز کی حالت میں ٹوپی نکال کے رکھی، پھر اٹھا کر پہن لی۔ (515/1)

مصنف ابن ابی شیبہ میں تو متعدد احادیث موجود ہیں، مثلاً جلد دوم کتاب الصلوٰة میں حضرت شریح، اسود، عبدالله بن زید، سعید بن جبیر، علقمہ، مسروق رحمہم الله کے بارے میں اور جلد(12) کتاب اللباس میں حضرت علی بن حسین، حضرت عبدالله بن زبیر، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت انس بن مالک اور ابراہیم نخعی اور ضحاک کے بارے میں ٹوپیوں کا استعمال کرنا منقول ہے، اسی طرح حضرت حسن بصری سے بخاری شریف میں مروی ہے کہ صحابہ کرام ٹوپیوں او رعمامے کی کوروں پر سجدہ کر لیا کرتے تھے۔ (بخاری:232/1)

اس سے تو صحابہ کرام کا عمومِ استعمال صراحتاً معلوم ہو گیا، فتح الباری میں عبدالله بن ابی بکر سے مروی ہے کہ قرآن کریم کے تمام قراء( صحابہ) کے پاس ٹوپیاں ہوا کرتی تھیں۔ (34/16)

اسی لیے ابن عربی  فرماتے ہیں:
”ٹوپی انبیا ، صالحین واولیا کے لباس میں داخل ہے، سر کی حفاظت کرتی ہے او رعمامہ کو جماتی ہے ، جو کہ سنت ہے ، البتہ سر سے چمٹی ہوئی ہو بلند نہ ہو، البتہ اگر آدمی بخارات دماغ کے خروج کی ضرورت محسوس کرے تو سوراخ دار بلند ٹوپی بھی پہن سکتا ہے ۔“ ( فیض القدیر:299/5)

فتح الباری کتاب الحج(186/5) میں محرم کے لیے سر ڈھانکنے کے متعدد طریقوں کا ذکر کرکے ان کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ جس سے اتنا تو معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ سر ڈھانکنا قدیم رواج ہے۔

مذکورہ بالا احادیث وآثار، جن میں بعض صحیح اور بعض ان کی مؤید ہیں، یہ بتلا رہی ہیں کہ سر کو ڈھکنا یعنی ٹوپی یا عمامہ سے آراستہ رکھنا، بالخصوص نماز کے اندر ننگے سر ہونے سے بچنا اسلامی تہذیب کا حصہ اور مسنون لباس میں داخل وشامل ہے ، اس کے برخلاف ٹوپی نہ پہننے یا ننگے سر رہنے کی ترغیب وفضیلت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، نہ صحیح حدیثوں میں، نہ ہی ضعیف روایتوں میں ۔معلوم ہوا کہ موجودہ زمانے کا یہ فیشن اور آزادی چاہنے والوں کا چلایا ہوا چلن غیر اسلامی اورناپسندیدہ ہے، جس سے احتیاط ضروری ہے۔

جہاں تک ان لوگوں کا ان روایتوں سے استدلال کرنے کا تعلق ہے جن میں ایک اور دو کپڑوں میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے وہ یا تو وقتی ضرورت پر محمول ہے یا بیان جواز کے لیے ہے ، ورنہ دائمی معمول نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا سر ڈھانک کر رہنا ہی ہے ، بالخصوص نمازوں میں تو کبھی ننگے سرامامت فرمائی ہی نہیں۔

شیخ ناصر الدین البانی ایک بڑے عالم گزرے ہیں (غیر مقلد) علماء اور عوام کا ایک طبقہ انہیں خاتمة المحدثین سمجھتا ہے ، چوں کہ ننگے سر کا کلچر عام ہو رہا ہے، بلکہ باقاعدہ عام کیا جارہا ہے، ان کی چشم کشائی کے واسطے شیخ کی تحقیق ذیل میں نقل کی جارہی ہے، وہ فرماتے ہیں:

”جہاں تک ہمار ی تحقیق کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس لیے کہ نماز کا مکمل ہیئت اسلامی میں ادا کرنے کا پسندیدہ ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے ، کیوں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” الله تعالیٰ اس بات کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لیے اپنے آپ کو سنوارا جائے “، نیز ننگے سررہنے کی عادت ڈال لینا ،یا بازاروں میں ننگے سر گھومنا یا مقامات عبادت میں ننگے سر داخل ہونا، سلف صالحین کے مبارک عرف میں ہئیت حسنہ کے خلاف اور غیر اسلامی تہذیب کا امتیاز ہے ، جو کفار کے بلاد اسلامی میں داخل ہونے کے بعد شائع ہوا ہے، وہاں کے مسلمانوں نے بلاد لیل شرعی ان بری عادتوں کو قبول کرکے اس مسئلے میں اسی طرح بعض او رتہذیبی مسائل میں بھی اپنے بڑوں کی تقلید ترک کر دی ہے ، پس یہ نئی رسم اس لائق نہیں ہے کہ اسلام کے سابقہ عرف اور طریقے کے مقابل بن سکے اور نہ ہی اس رسم کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز نکالا جاسکتا ہے۔“

اس کے بعد بعض علماء کے غلط استدلال کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جہاں تک مصر کے بعض علماء کا حج کے دوران سر کھلے رکھنے اور اسی طرح نماز پڑھ لینے سے استدلال کا تعلق ہے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کا یہ قیاس، قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے فاسد ہے، اس لیے کہ اولاً تو وہ مناسک حج کے ساتھ خاص ہے اور شعائر حج میں سے ہے، اس کو عام نہیں کیا جاسکتا او راگر اس سے ہر حال میں سرکھلے رکھ کر نماز پڑھنے کا ثبوت نکل سکتا ہے تو پھر وجوباً ماننا پڑے گا، جوازاً نہیں، کیوں کہ احرام میں سرکھلا رکھنا واجب ہے ، یعنی ننگے سر نماز پڑھنے کو واجب کہنا پڑے گا جوکوئی نہیں کہتا، پس یہ ایسا الزام ہے کہ ان لوگوں کو اپنے قیاس فاسد سے رجوع کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ، ہمیں امید ہے کہ یہ علماء اپنی غلطی سے رجوع کر لیں گے۔“ (تمام المنہ فی التعلیق علی فقہ السنة:164/65)