Saturday, 30 April 2016

اسلام میں آزادی کا تصور

ہر چیز کے خالق، مالک، خوب قدرت وعلم رکھنے والے سب کے پالنہار اللہ نے اپنے پیغمبروں علیہم السلام کو بھیجا تاکہ وہ اس کے بندوں کو مخلوق سے آزادی دلائیں:
اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ۔
(حضرت موسٰیؑ نے یہ کہا) کہ اللہ کے بندوں (یعنی بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کر دو تمہاری طرف (خدا کا) پیغمبر (ہوکر آیا ) ہوں دیانت دار ہوں۔
saying, “Deliver to me the servants of Allah. I am an honest messenger to you,”
[القرآن - سورۃ الدخان:18]

یعنی خدا کے بندوں کو اپنا بندہ مت بناؤ۔ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزادی دو اور میرے حوالہ کرو۔ میں جہاں چاہوں لے جاؤں۔
[saying], ‘Give over to me, what I summon you to in the way of faith, that is, manifest your faith to me, O, servants of God; indeed I am for you a messenger [who is] faithful’, in what he has been sent with,


حضرت موسیٰ کا فرعون سے اللہ کے بندوں کو آزاد کرنے کا مطالبہ:
سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰؑ کو قومِ فرعون کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ تم لوگ میرے حوالے کردو اللہ کے بندوں کو ۔ سو اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کے بندو اللہ کا رسول ہونے کے اعتبار سے جو میرا حقِّ اطاعت و اِتباع تم پر واجب ہوتا ہے اس کو میرے لئے ادا کرو کہ یہ میرا حقِّ واجب ہے۔ اور اسی میں خود تم لوگوں کا بھلا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں احتمالوں کا نتیجہ و مآل ایک ہی نکلتا ہے۔ چونکہ پیغمبر کا حق اِطاعت و اِتباع ہی ہوتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کا حکم و ارشاد اور آپ علیہ السلام کا مطالبہ یہی تھا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو اور انکو عذاب مت دو ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:-
{ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلاَ تُعَذِّبْہُمْ }
ترجمہ:
اس لئے بنو اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو، اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ۔
[سورۃ طٰہٓ: 47]
البتہ یہاں پر حضرت موسیٰؑ نے اپنے مطالبہ کے حق میں ایک اہم اور ٹھوس دلیل بھی دے دی کہ یہ اللہ کے بندے ہیں ۔ لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انکو اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ پس تم لوگ اللہ کے بندوں کو اپنی غلامی کی جکڑبندیوں سے آزاد کر کے ہمارے ساتھ روانہ کر دو کہ تم کو ان کے غلام بنائے رکھنے کا کوئی حق نہیں ۔
22 حضرت موسیٰ کا اپنی شان امانت و دیانت کا اِعلان و اِظہار :
سو حضرت موسیٰؑ نے ان لوگوں سے کہا اور اسلوبِ تاکید میں کہا کہ " یقینا میں تم لوگوں کے لیے ایک امانتدار رسول ہوں " ۔ پس میں چونکہ رسول ہوں اس لئے میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ بلکہ اپنے رب کا پیغام تمہیں سناتا ہوں اور بس۔ اور چونکہ میں امانت دار ہوں اس لئے اپنے رب کا پیغام بدوں کسی کم و کاست کے پوری امانت داری کے ساتھ تمہیں پہنچا رہا ہوں ۔ پس تم پر میری اطاعت لازم ہے۔ اسی میں تمہارا بھلا اور بہتری ہے۔ اور اس کے برعکس اگر تم لوگوں نے مجھے مفتری قرار دے کر میری تکذیب کی تو اس کے نتائج نہایت مہلک اور خطرناک ہوں گے۔ اور جس ذات نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے وہ تم سے ضرور انتقام لے گی - والعیاذ باللہ جل وعلا - سو پیغمبر ہر اچھائی اور خوبی میں اعلی اور عمدہ نمونہ ہوتا ہے - علیہم الصلاۃ والسلام -

عقیدہِ آخرت کے دلائل اور فوائد : عقل و نقل کی روشنی میں

رب کی ہدایت پر قائم لوگوں کی "چھٹی" بنیادی نشانی» (6) آخرت پر یقین رکھنا ہے۔
القرآن:
۔۔۔اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:4]



قرآن میں آخرت سے مراد:
(1) دن ہے۔۔۔
[البقرۃ:8، 62، 126، 177، 228، 232، 264]

(یعنی)

قبروں سے نکلنے کا
[ق:42]

۔۔۔(موت کے بعد) اُٹھنے کا
[(البقرۃ:56)الروم:56، الاعراف:14، الحجر:36، الانعام:36، النحل:38، 84، 89، (مریم:15) 33، الحج:5،7 المؤمنون:16 (المؤمنون:100) الشعراء:87، الصافات:144، ص:79، المجادلہ:6، 18]

قیامت (یعنی کھڑے ہونے) کا
[البقرۃ:85، 113، 174، 212]

سب کو جمع کرنے کا
[الشوریٰ:7]

حشر۔۔۔یعنی مجرموں کو گھیرنے کا
[طٰہٰ:102، الانعام:22، 128، یونس:28، 45، مریم:85، الفرقان:17]

کسی ایک کو بھی نہ چھوڑنے کا
[الکھف:47]

حساب کا
[سورۃ ص:16، 26، 53، غافر:27]

فیصلے کا
[السجدہ:29، الصافات:37، الدخان:40]

بدلہ کا
[الفاتحہ:4، الحجر:35، الشعراء:82]

اپنی (نجات کی) فکر میں اپنوں سے "فرار" کا
[عبس:34 -37 (المعارج:14)]
دل اور نگاہیں پھر جائیں گی۔
[النور:37]
جس دن (الله کے مقابلہ میں) نہ کوئی رشتہ کسی کے کام آئے گا
[لقمان:33]
نہ سودا اور نہ دوستی
[البقرۃ:254]
نہ بدلہ لیا جائے گا، اور نہ شفاعت نفع دے گی، اور نہ ہی کوئی مدد پہنچے گی۔
[البقرۃ:48،123]
اور نہ ہی کوئی چھڑا سکے گا۔۔۔اگر رحمن ارادہ کرے نقصان(سزا دینے)کا۔
[یٰس:23]
کافر ﴿اور ظالم سے﴾نہ فدیہ قبول ہوگا دنیا بھر کا(اور نہ اتنا مزید)
[آل عمران:91، (المائدۃ:36)﴿الزمر:47﴾]
جس دن کے برے اثرات ہر طرف پھیلے ہوں گے۔
[الانسان/الدھر:7]
جس دن چہرے بری طرح بگڑے ہوئے ہوں گے۔
[الانسان/الدھر:10]

(وہ دن ہوگا)حق کا
[النبا:39]
یعنی رحمان ہی کی بادشاہی کا
[الفرقان:26]

وعید کا۔۔۔یعنی جس سے ڈرایا جارہا ہے
[ق:20]
موعود کا۔۔۔یعنی جس دن کا وعدہ کیا جارہا ہے
[المعارج:44، البروج:2]

(جہنمیوں کیلئے)دردناک عذاب کا
[ھود:26، الزخرف:65]
کافروں پر بہت سختی کا
[الفرقان:26]
چیخ وپکار کا
[غافر:32]
حسرت (پچھتاوے) کا
[مریم:39]
خسارے (گھاٹے) کا
[التغابن:9]

سچے لوگوں کیلئے نفع کا
[المائدۃ:119]
ابدی زندگی کا۔۔۔جنت میں۔۔۔پرہیزگاروں کیلئے۔
[ق:31-34]
جس دن ایمان والے بےایمانوں پر ہنس رہے ہوں گے
[المطففین:34]

(یہ)قریب آنے والا دن ہے
[غافر:18]
جس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔
[آل عمران:9، 25]



آخرت سے مراد:
(2)مرنے کے بعد کی "زندگی" ہے۔
[حوالہ سورۃ العنکبوت:64،۔یونس:64،ابراھیم:3]

M



Thursday, 21 April 2016

اسلامی اور مغربی تہذیب کا جائزہ


تہذیب کیا ہے؟
تہذیب (Civilization) انسانی معاشرے کا وہ اعلیٰ ترین اور منظم ترین روپ ہے جس میں ثقافت، علم، اخلاقیات، فنون، ٹیکنالوجی، اور سماجی تنظیم کے ذریعے انسان فطری حالت سے ترقی کرکے ایک پیچیدہ اور پائیدار نظام تشکیل دیتا ہے۔ تہذیب صرف مادی ترقی تک محدود نہیں، بلکہ یہ انسانی فکر، روحانیت، اور اقدار کا بھی عکاس ہوتی ہے۔ ذیل میں تہذیب کے مختلف پہلوؤں کو حکمتوں اور دلائل کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے۔

---

1. تہذیب کی تعریف اور بنیادی عناصر:
تہذیب کی تشکیل کے لیے درج ذیل عناصر ضروری ہیں:  
- ثقافتی شناخت: زبان، مذہب، رسم و رواج، اور فنون کا مجموعہ۔  
- معاشی نظام: زراعت، صنعت، اور تجارت کا وجود۔  
- سیاسی تنظیم: قوانین، حکومت، اور انتظامی ڈھانچہ۔  
- علمی ترقی: تعلیم، سائنس، اور فلسفہ۔  
- اخلاقی اقدار: انصاف، برداشت، اور باہمی احترام۔  

حکمت: ابن خلدون کے مطابق، تہذیب کی بنیاد "عصبیت" (Social Cohesion) اور تعاون پر ہوتی ہے۔ جب تک معاشرے میں یہ جذبہ موجود رہتا ہے، تہذیب ترقی کرتی ہے، ورنہ زوال آجاتا ہے۔

---

2. تہذیب اور فطری انسانی ضروریات:
انسانی تاریخ میں تہذیب کا ظہور بنیادی ضروریات (خوراک، تحفظ، سماجی تعلقات) کو پورا کرنے کے لیے ہوا۔ مثال کے طور پر:  
- دریاؤں کی وادیوں کی تہذیبیں (مصر، میسوپوٹیمیا): زراعت اور آبپاشی کے نظام نے معاشی استحکام دیا۔  
- شہری مراکز: تجارت اور ہنر نے معاشرتی طبقات کو جنم دیا، جس سے قانون اور انتظام کی ضرورت پیدا ہوئی۔  

حکمت: ارسطو کا کہنا ہے کہ "انسان ایک سماجی حیوان ہے"، اور تہذیب اس کی سماجی فطرت کا منطقی نتیجہ ہے۔

---

3. تہذیب کا ارتقاء: فلسفیانہ تناظر:
- مشرقی تہذیبیں: کنفیوشس ازم اور تاؤ ازم میں اخلاقیات اور کائناتی ہم آہنگی پر زور۔ مثال: چین کی ہان خاندان کی تہذیب۔  
- مغربی تہذیبیں: یونانی فلسفہ اور رومن قانون نے فرد کی آزادی اور منطق کو مرکز بنایا۔  
- اسلامی تہذیب: علم اور رواداری کی بنیاد پر (جیسے اندلس کا دور)، جہاں مذہب اور سائنس ہم آہنگ تھے۔  

حکمت: اوسوالڈ اسپینگلر نے کتاب The Decline of the West میں کہا کہ ہر تہذیب ایک زندہ وجود کی طرح پیدا ہوتی ہے، ترقی کرتی ہے، اور پھر مرجاتی ہے۔

---

4. تہذیب اور اخلاقیات کا رشتہ:
کسی بھی تہذیب کی بقا کے لیے اخلاقی اقدار بنیادی ہیں۔ مثال کے طور پر:  
- عدل: اسلامی تہذیب میں عمر بن الخطاب کا دور عدل وانصاف کی علامت ہے۔  
- برداشت: ہندوستانی تہذیب میں بدھ مت اور ہندو مت کا اشتراک۔  
- مساوات: جدید مغربی تہذیب میں انسانی حقوق کا تصور۔  

حکمت: امام غزالی فرماتے ہیں کہ "تہذیب کی عمارت اخلاقیات کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ اگر یہ بنیاد کمزور ہو، تو تہذیب بھی گر جاتی ہے۔"

---

5. تہذیب کے زوال کے اسباب:
تاریخ میں تہذیبوں کے زوال کے لیے درج ذیل عوامل ذمہ دار رہے ہیں:  
- اخلاقی انحطاط: رومن سلطنت میں عیاشی اور طبقاتی تفاوت۔  
- معاشی ناہمواری: فرعونوں کے مصر میں غلاموں کا استحصال۔  
- فکری جمود: عثمانی سلطنت کے آخری دور میں علم اور ٹیکنالوجی سے دوری۔  

حکمت: ٹائن بی (Arnold J. Toynbee) کے مطابق، تہذیبیں اس لیے گرتی ہیں کہ وہ "چیلنجوں کا جواب دینے کی صلاحیت" کھو دیتی ہیں۔

---

6. جدید دور میں تہذیب کا تصور:
آج کی عالمی تہذیب "مغربی ماڈل" پر مرکوز ہے، لیکن اسے درج ذیل چیلنجز درپیش ہیں:  
- ثقافتی تصادم: مغرب اور مشرق کے درمیان قدریں۔  
- ماحولیاتی بحران: صنعتی ترقی کا ماحول پر اثر۔  
- ڈیجیٹل انقلاب: سماجی تعلقات اور شناخت کی تبدیلی۔  

حکمت: یورگن ہیبرماس کا کہنا ہے کہ "تہذیب کی بقا کے لیے مکالمہ اور تنقیدی عقل ضروری ہے۔"

---

7. تہذیب کی تشکیلِ نو: مستقبل کے لیے سفارشات:
1. تعلیم اور علم پر سرمایہ کاری: جدید مسائل (جیسے AI, Climate Change) کا حل۔  
2. بین الثقافتی مکالمہ: مشرق و مغرب کا باہمی احترام۔  
3. پائیدار ترقی: ماحول اور معیشت کا توازن۔  

حکمت: علامہ اقبال نے کہا تھا: "تہذیب اپنے خدوخال بدلتی رہتی ہے، لیکن اس کی روح انسان کی آزادی اور خودشناسی میں پنہاں ہوتی ہے۔"

---

نتیجہ:
تہذیب صرف عمارتوں، ایجادات، یا فتوحات کا نام نہیں، بلکہ یہ انسانی شعور، اقدار، اور اجتماعی کوششوں کا مرقع ہے۔ اس کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہمیں اپنی اخلاقی، علمی، اور ثقافتی جڑوں سے وابستہ رہتے ہوئے نئے چیلنجز کو قبول کرنا ہوگا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ" (الرعد:11) — 
"اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلے۔"





Sunday, 10 April 2016

نیک وبد صحبت ودوستی کے اثرات


يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ   
ترجمہ:
اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور رہو ساتھ سچوں کے۔

[سورة التوبة:119]


تفسیر:
یہ ان تین حضرات کے واقعے سے ملنے والا سبق ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے منافقین کی طرح جھوٹے سچے بہانے نہیں بنائے، بلکہ جو حقیقت تھی، وہ سچ سچ بیان کردی کہ ان کے پاس کوئی عذر نہیں تھا۔ ان کی اس سچائی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نہ صرف توبہ قبول فرمائی، بلکہ سچے لوگوں کی حیثیت سے قیامت تک کے لیے ان کا تذکرہ قرآن کریم میں زندہ جاوید کردیا گیا۔ اس آیت میں یہ تعلیم بھی ہے کہ انسان کو اپنی صحبت سے سچے لوگوں کے ساتھ رکھنی چاہیے، جو زبان کے بھی سچے ہوں، اور عمل کے بھی سچے۔

سابقہ آیات میں جو واقعہ تخلف عن الجہاد کا بعض مخلصین سے پیش آیا پھر ان کی توبہ قبول ہوئی یہ سب نتیجہ ان کے تقوٰی اور خوف خدا کا تھا، اس لئے اس آیت میں عام مسلمانوں کو تقوٰی کیلئے ہدایت فرمائی گئی، اور كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا کہ صفتِ تقوٰی حاصل ہونے کا طریقہ صالحین و صادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے، اس میں شاید یہ اشارہ بھی ہو کہ جن حضرات سے یہ لغزش ہوئی اس میں منافقین کی صحبت مجالست اور ان کے مشورہ کو بھی دخل تھا، اللہ کے نافرمانوں کی صحبت سے بچنا چاہئے اور صادقین کی صحبت اختیار کرنا چاہئے، اس جگہ قرآن حکیم نے علماء صلحاء کے بجائے صادقین کا لفظ اختیار فرما کر عالم و صالح کی پہچان بھی بتلا دی ہے کہ صالح صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جس کا ظاہر و باطن یکساں ہو، نیت و ارادے کا بھی سچا ہو قول کا بھی سچا ہو، عمل کا بھی سچا ہو۔



نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«مَثَلُ جَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يَحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً.»
ترجمہ:
نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پردے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔
[صحيح البخاري:5534]














ماہ ِرجب کے فضائل ومسائل، واقعات و بدعات

اللہ پاک وبلند كى تعريفات ہيں، اور نبی الملاحم وخاتم الانبیاء محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى پاكباز، بخشش یافتہ اور رضا یافتہ آل و اصحاب پر درود و سلام كے بعد:

اس اللہ سبحانہ و تعالى كى تعريف ہے جس كا فرمان ہے:
{ اور تيرا پروردگار جو چاہتا ہے پيدا كرتا اور اختيار كرتا ہے }.
[سورۃ آل عمران:47]
يہاں اختيار كا معنى چن لينا ہے، جو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى وحدانيت و ربوبيت اور اس كى كمال حكمت و علم اور قدرت پر دلالت كرتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كے چن لينے اور افضليت دينے ميں يہ شامل ہے كہ اللہ تعالى نے بعض ايام اورمہينوں كو بھى چن ليا اور انہيں فضيلت دى ہے، مہينوں ميں سے اللہ سبحانہ و تعالى نے چار مہينوں كو حرمت والا مہينہ بنايا اور اختيار كيا ہے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاں كتاب اللہ ميں مہينوں كى گنتى بارہ ہے، اسى دن سے جب سے آسمان و زمين كو اس نے پيدا كيا ہے، ان ميں سےچار حرمت و ادب والے مہينے ہيں، يہى درست دين ہے، تم ان مہينوں ميں اپنى جانوں پر ظلم نہ كرو }.
[سورۃ التوبۃ:36]
اور يہ مہينے چاند كے طلوع ہونے كى اعتبار سے ہيں كہ سورج كے يعنى قمرى ہيں شمسى نہيں، جيسا كہ كفار نے كيا ہوا ہے.

اس آيت ميں حرمت والے مہينے مبہم بيان ہوئے ہيں اور ان كے نام كى تحديد نہيں كى گئى، ليكن ان مہينوں كے نام سنت نبويہ ميں محدد كيے گئے ہيں.

ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطاب فرمايا اور اپنے خطبہ ميں ارشاد فرمايا:
" يقينا وقت اسى دار چل رہا ہے جس حالت ميں آسمان و زمين پيدا كرنے كے دن تھا، سال ميں بارہ ماہ ہيں، جن ميں سے چار ماہ حرمت و ادب والے ہيں، تين تو مسلسل ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہيں، اور ايك جمادى اور شعبان كے مابين رجب مضر كا مہينہ ہے
[صحيح بخارى»كتاب الحج»باب الخطجبۃ ايام منى»حديث نمبر (1741)، صحيح مسلم»کتاب القسامۃ» باب تحريم الدماء»حديث نمبر (1679).]

اسے رجب مضر كا نام اس ليے ديا گيا ہے كہ مضر قبيلہ كے لوگ اس ماہ كو تبديل نہيں كيا كرتے تھے، بلكہ اسے اسى كے وقت ميں ہى رہنے ديتے، ليكن باقى عرب لوگ حرمت والے مہينوں كو اپنى مرضى اور جنگ كى حالت كى بنا پر تبديل كر ليا كرتے تھے، اور درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں اسے نسئي كے نام سے ذكر كيا گيا ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
{ نہيں سوائے اس بات كہ كہ مہينوں كو آگے پيچھے كرنا تو كفر كى زيادتى ہے، اس سے وہ لوگ گمراہى ميں ڈالے جاتے ہيں جو كافر ہيں، ايك سال تو اسے حلال كر ليتے ہيں، اور ايك اسى كو حرمت والا قرار دے دے ديتے ہيں، كہ اللہ تعالى نے جو حرمت كر ركھى ہے اس كى گنتى ميں موافقت كر ليں }.
[سورۃ التوبۃ:37]
اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: اس ماہ كى مضر كى طرف نسبت اس ليے كى گئى كہ وہ اس ماہ كى حرمت و تعظيم زيادہ كرتے تھے، اس ليے يہ ماہ ان كى طرف منسوب كر ديا گيا.

تفسیر:
(1)چار خاص مہینے یعنی رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم۔۔۔احترام کے مہینے ہیں،یہ حساب اس طریقہ پر مستقیم ہے جس میں کسی قسم کی کمی زیادتی نہیں ہوتی،لہٰذا تم ان مہینوں یا ان خاص احترام کے مہینوں میں نافرمانی کرکے اپنا نقصان نہ کرنا۔
(2)چونکہ احکامِ شرعیہ(زکوٰۃ،روزہ،حج)کا مدار چاند کے حساب پر ہے،لہٰذا اس کی حفاظت فرض علی الکفایہ ہے،پس اگر ساری امت دوسری اصطلاح(سورج کے حساب-شمسی کیلنڈر) کو اپنا معمول بنالے جس سے قمری حساب ضائع ہوجائے تو سب گناہ گار ہوں گے،اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح(جائز)ہے،لیکن پچھلے بزرگوں کی سنت کے خلاف ضرور ہے،اور قمری حساب کا برتنا فرضِ کفایہ ہونے کی وجہ سے افضل واحسن ہے۔




بغیر شدید مجبوری قرض لینے کی خرابیاں اور نقصانات

بغیر شدید مجبوری قرض لینے کی خرابیاں اور نقصانات:

مقروض(1)جھوٹ بولنے(2)اور وعدہ خلافی کرنے جیسی منافقانہ عادتوں میں خود کو ڈال دیتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے: اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
[صحيح البخاري:2397]

(3)اگر قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی بدنیتی ہوگی تو الله پاک اس کا مال ضایع کردیتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔
[صحيح البخاري:2387]


(4)اور قیامت کے دن الله کے پاس وہ چور کی حیثیت سے حاضر کیا جائے گا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔
[سنن ابن ماجه:2040]

(5)فکر وغم میں مبتلا ہوگا،
(6)بےبس اور کمزور ہوجائے گا۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام (یعنی جس نے غلامی سے آزادی کے لیے اپنے مالک سے کسی متعین رقم کی ادائیگی کا معاہدہ کیا ہو۔) نے ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجئیے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو:
«اللهم اکفني بحلالک عن حرامک وأغنني بفضلک عمن سواک»
اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بےنیاز کر دے۔
[سنن الترمذي:3563]

(7)بزدل اور کنجوس ہوجائے گا،
(8)قرضہ اور لوگوں کا قہر بڑھتا جائے گا۔ (یعنی تعلقات بگڑتے ہیں)۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں داخل ہوئے تو اچانک آپ کی نظر ایک انصاری پر پڑی جنہیں ابوامامہ ؓ کہا جاتا تھا، آپ ﷺ نے ان سے کہا: ابوامامہ! کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں نماز کے وقت کے علاوہ بھی مسجد میں بیٹھا دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! غموں اور قرضوں نے مجھے گھیر لیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں کہ جب تم انہیں کہو تو اللہ تم سے تمہارے غم غلط اور قرض ادا کر دے ، میں نے کہا: ضرور، اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: صبح و شام یہ کہا کرو:
اللهم إني أعوذ بک من الهم والحزن، وأعوذ بک من العجز والکسل، وأعوذ بک من الجبن والبخل، وأعوذ بک من غلبة الدين وقهر الرجال۔
اے اللہ! میں غم اور حزن سے تیری پناہ مانگتا ہوں، عاجزی و سستی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بزدلی اور کنجوسی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قرض کے غلبہ اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ابوامامہ ؓ کہتے ہیں: میں نے یہ پڑھنا شروع کیا تو اللہ نے میرا غم دور کردیا اور میرا قرض ادا کروا دیا۔
[سنن أبي داود:1555]

(9)بغیر مکمل قرض کی ادائیگی کے مرنے والے کا جنازہ پرہیزگار-نیکوکاروں کو پڑھانا شرعاً منع ہوجاتا ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کے یہاں نماز پڑھنے کے لیے کسی کا جنازہ آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا۔ کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ پھر ایک اور جنازہ آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تھا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا، کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا قرض میں ادا کر دوں گا۔ تب آپ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
[صحيح البخاري:2295]
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے۔
[سنن الترمذي:1078]

(10)بغیر مکمل قرض کی ادائیگی کے مرنے والا۔۔۔اگر شہید بھی ہو تو بھی وہ جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔
محمد بن جحش ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، پھر ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھا، پھر فرمایا: سبحان اللہ! کتنی سختی نازل ہوئی ہے؟ ہم لوگ خاموش رہے اور ڈر گئے، جب دوسرا دن ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کیا سختی ہے جو نازل ہوئی؟ آپ نے فرمایا: قسم اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ایک شخص اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک اس کا قرض ادا نہ ہوجائے۔
[سنن النسائي:4684(4688) المعجم الكبير للطبراني:556+559، صحيح الجامع الصغير:3600]

جب تک کہ مقروض کی نیکیوں سے بدلہ دیا جائے یا اسکے وارث۔عزیز۔قریب ادا کردیں۔
[تفسیر»سورۃ البقرۃ:283]







دینی مدارس کی تاریخ ومقصد، افادیت واہمیت، قدر ومنزلت اور امتیازات

مَدْرَسَہ : جمع مدارس

درس دینے یا پڑھانے کی جگہ، درس گاہ، جائے درس، پڑھانے کی جگہ، اسکول، مکتب، تعلیم گاہ، پاٹھ شالا، دبستان۔
درس یعنی سبق، تعلیم
تدریس یعنی درس دینا، تعلیم، پڑھائی۔
مدرس یعنی پڑھانے والا معلم۔
[المفردات في غريب القرآن ص311:- سورۃ الانعام:105، الاعراف:105، سبا:44، آل عمران:79، القلم:37(أبوداود:4449.البخاري:2996-6545-2675)]

لغوی معنیٰ کے اعتبار سے مدارس یعنی پڑھنے پڑھانے کی جگہ۔ اور عرفی معنیٰ کے اعتبار سے مدارس کا سلسلہ چوتھی صدی ہجری کے بعد شروع ہوا۔ 
[المقریزی، احمد بن علی (متوفی ۸۴۵ھ۔)، المواعظ والاعتبار بذکر الخطوط والآثار، (بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۸ھ) جلد:۴، ص:۱۹۹]

درس=پڑھنا(فعل)»
القرآن:
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ "پڑھتے" ہو۔
[سورۃ نمبر 68 القلم،آیت نمبر 37]

القرآن:
حالانکہ ہم نے ان(بت پرست مشرکین) کو پہلے نہ ایسی کتابیں دی تھیں جو یہ "پڑھتے پڑھاتے" ہوں اور نہ (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا (نبی) بھیجا تھا۔
[سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 44]
تفسیر:
یعنی یہ لوگ اس قرآن کو (معاذ اللہ) من گھڑت کہہ رہے ہیں، حالانکہ من گھڑت تو خود ان کا مذہب ہے، کیونکہ ان کے پاس اس سے پہلے نہ کوئی آسمان کتاب آئی ہے، نہ کوئی پیغمبر، لہذا انہوں نے جو کوئی مذہب بنایا ہے، وہ اپنے دل سے گھڑ کر بنایا ہے۔ نیز ان کو پہلی مرتبہ کتاب اور پیغمبر سے نوازا گیا ہے تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس نعمت کی قدر کرتے، لیکن یہ الٹے اس کے مخالف بن گئے ہیں۔



القرآن:
پھر ان کے بعد ان کی جگہ ایسے جانشین آئے جو کتاب (یعنی تورات) کے وارث بنے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ اس ذلیل دنیا کا سازو سامان (رشوت میں) لیتے، اور یہ کہتے کہ : ہماری بخشش ہوجائے گی۔ حالانکہ اگر اسی جیسا سازوسامان دوبارہ ان کے پاس آتا تو وہ اسے بھی (رشوت میں) لے لیتے۔ (86) کیا ان سے کتاب میں مذکور یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کریں ؟ اور اس (کتاب) میں جو کچھ لکھا تھا وہ انہوں نے باقاعدہ "پڑھا" بھی تھا۔ اور آخرت والا گھر ان لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں۔ (اے یہود) کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 169]
تفسیر:
(86) یہ ان کی اس بد عنوانی کا ذکر ہے کہ وہ رشوت لے کر اللہ کی کتاب کی غلط تفسیر کردیتے تھے، اور ساتھ ہی بڑے یقین کے ساتھ یہ بھی کہتے کہ ہمارے اس گناہ کی بخشش ہوجائے گی۔ حالانکہ بخشش تو توبہ سے ہوتی ہے، جس کا لازمی حصہ یہ ہے کہ آئندہ اس گناہ سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن ان کا حال یہ تھا کہ اگر انہیں دوبارہ رشوت کی پیشکش کی جاتی تو وہ دوبارہ لینے کو بےتکلف تیار رہتے تھے۔ اور یہ سب کچھ وہ دنیا کی خاطر کرتے تھے۔ حالانکہ اگر عقل ہوتی تو یہ دیکھتے کہ آخر کی زندگی کہیں بہتر ہے۔



درس بمعنیٰ سیکھنا۔
القرآن:
اسی طرح ہم آیتیں مختلف طریقوں سے بار بار واضح کرتے ہیں (تاکہ تم انہیں لوگوں تک پہنچا دو) اور بالآخر یہ لوگ تو یوں کہیں کہ : تم نے کسی سے "سیکھا" ہے (43) اور جو لوگ علم سے کام لیتے ہیں ان کے لیے ہم حق کو آشکار کردیں۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام،آیت نمبر 105]
تفسیر:
(43) ہٹ دھرم قسم کے کافروں کو بھی یہ کہتے ہوئے شرم آتی تھی کہ یہ کلام خو آنحضرت ﷺ نے گھڑلیا ہے کیونکہ وہ آپ کے اسلوب سے اچھی طرح واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ امی ہیں، اور کسی کتاب سے خود ٖپڑھ کر یہ کلام نہیں بناسکتے، لہذا وہ قرآن کریم کے بارے میں یہ کہا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ کلام کسی سے سیکھا ہے اور اسے اللہ کا کلام قرار دے کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ؛ لیکن کس سے سیکھا ہے وہ بھی نہیں بتاسکتے تھے، کبھی کبھی وہ ایک لوہار کا نام لیتے تھے جس کی تردید سورة نحل میں آنے والی ہے۔

درسِ قرآن کا مقصد ونتیجہ»
القرآن:
یہ کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کرے، اور وہ اس کے باوجود لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ (29) اس کے بجائے (وہ تو یہی کہے گا کہ) اللہ والے بن جاؤ، کیونکہ تم جو کتاب پڑھاتے رہے ہو اور جو کچھ "پڑھتے" رہے ہو، اس کا یہی نتیجہ ہونا چاہیے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 79]
تفسیر:
(29) یہ عیسائیوں کی تردید ہورہی ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا یا خدا کا بیٹا مان کر گویا یہ دعویٰ کرتے تھے کہ خود حضرت عیسیٰ ؑ نے ہی ان کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ یہی حال ان بعض یہودی فرقوں کا تھا جو حضرت عزیر ؑ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔















بعض شروعاتی مدارس حسبِ ذیل ہیں:

۱:- مدرسہ صحنِ ابی بکرؓ

 آپ کے گھر کے سامنے ایک چبوترہ تھا، جس پر آپ نماز ادا کرتے اور قرآن پڑھا کرتے تھے۔ مشرکین کے بچے اور عورتیں آپ کے گرد جمع ہو جاتے اور قرآن کو سنتے تھے۔ کفارِ مکہ کو یہ ناگوار گزرا اور حضرت ابوبکرؓ کو اس جگہ کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

[بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، کتاب المناقب، مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ إلی المدینۃ، رقم الحدیث:۳۹۰۵ (ریاض- دارالسلام، ۲۰۰۰ء ) ص: ۳۱۷-۳۱۸]




۲:- مدرسہ دارِ ارقم  ؓ

ابتدائے اسلام میں کوہِ صفا کے دامن میں واقع بن ارقمؓ کے مکان میں یہ مدرسہ قائم تھا، جس میں چالیس صحابہ کرامؓ(مرد وعورتیں) تعلیم وتعلم میں مشغول رہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  خود معلم تھے، حضرت ابوبکر، حضرت حمزہ وحضرت علی رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ اس کے طالب علم تھے، حضرت عمرؓ نے بھی اسی جگہ اسلام قبول کیا۔ یہاں قیام وطعام کا انتظام بھی تھا، یہ جگہ دارالاسلام کے نام سے مشہور ہوگئی تھی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہراوی ہیں کہ: مسلمان ہونے والوں کو ایک ایک دو دو کرکے رسول اللہ ﷺ کسی صاحبِ حیثیت کے پاس بھیج دیتے تھے اور یہ لوگ وہاں رہ کر کھانا کھاتے تھے۔ میرے بہنوئی کے گھر بھی دو آدمی موجود تھے، ایک خبابؓ بن ارت تھے ،جو میرے بہنوئی اور بہن کے پاس جا جا کر قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔

[ الحلبی،علی بن إبراہیم بن أحمد،أبو الفرج، المتوفٰی: ۱۰۴۴ھ، السیرۃ الحلبیۃ= إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (بیروت-دار الکتب العلمیۃ،۱۴۲۷ھ)جلد:۱،ص:۴۶۵]



۳:-مدرسہ أختِ عمرؓ

حضرت عمرؓ کے بہنوئی اور بہن(سعید بن زید اور اُمِ جمیل فاطمہ رضی اللہ عنہما) کے گھر مکتب قائم تھا، جہاں حضرت عمرؓ نے قرآن مجید کی تلاوت سنی اور مخالفت اور مارکٹائی تک نوبت پہنچنے کے بعد یہی واقعہ ان کے ایمان لانے کا باعث بنا۔

[ الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ (بیروت-۱۴۲۷ھ)جلد:۱،ص:۴۶۵]







۴:-مدرسہ مدینہ یا مدرسہ مصعب بن عمیرؓ
 

ہجرتِ مدینہ سے پہلے آپ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ اور ابن ام مکتومؓ کو مدینہ روانہ فرمایا، جہاں وہ مدینہ والوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔

[بخاری، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ سبح اسم ربک الاعلی، رقم الحدیث :۴۹۴۱ (ریاض، دارالسلام۲۰۰۰ء ، ص: ۴۲۶)]








۵:- مدرسہ صفہ


مدنی مدرسہ اور اصحابِ صفہ:
صفہ کے معنی ہیں چبوترا(تھڑا)مسجد نبوی سے متصل پیچھے کی جانب تھوڑا سا چبوترا بنادیا گیا تھا جہاں مہمان اترتے تھے اور علم سیکھنے والے فقراء صحابہ وہاں مستقل طور پر رہتے تھے۔ یہ حضرات اصحابِ صفہ کہلاتے۔

مدرسہ صفہ میں پڑھنے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد ۴۰۰ تک پہنچتی ہے، بیک وقت صفہ کے طلبہ کی تعداد ستر،اَسی تک ہوتی تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ بھی اس مدرسہ کے طالب علم تھے۔ 

[ زرقانی،أبوعبداللہ محمد بن عبدالباقی المالکی، متوفی:۱۱۲۲ھ، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیۃ(دارالکتب العلمیۃ۱۹۹۶ء )، ج:۲ ، ص۱۸۶]


ان حضرات میں مشہور صحابہ کرام یہ ہیں ابو ذر غفاری، عمار ابن یاسر، سلمان فارسی، صہیب، بلال، ابوہریرہ،عقبہ ابن عامر، خباب ابن ارت، حذیفہ ابن یمان، ابو سعید خدری، بشر ابن خصاصہ، ابو موہبہ وغیرہم، انہی حضرات کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے ہٹنے نہ پائیں۔
[سورة الكهف:28]


یہ گروہ جو محض عبادت الہٰی اور صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر مہاجرین مکہ تھے اور فقر و غنا کی زندگی بسر کرتے تھے۔ مسجد نبوی کے ایک کنارے پر ایک چبوترا تھا جس پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنا دی گئی تھی۔ اسی چبوتراکا نام صفہ ہے جو صحابہ گھر بار نہیں رکھتے تھے وہ اسی چبوترا پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی لوگ اصحاب صفہ کہلاتے ہیں ۔
[ مدارج النبوت ،قسم سوم، با ب اول، ج2،ص 68 از شاہ عبد الحق]




اور جہاں کہیں تبلیغ و دعوت اسلام کی ضرورت ہوتی ان میں سے بعض‌ حضرات کو بھیج دیا جاتا۔ قرآن شریف میں بھی ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے اور احادیث میں بھی ان کا ذکر تھا۔
صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا میں نے 70 ستر اصحاب صفہ کو دیکھا جن میں سے کسی ایک کے بدن پر بھی چادر نہ تھی‘ یا لنگی (تہ بند) تھی‘ یا کمبلی‘ جس کو گلے میں انہوں نے باندھ رکھا تھا۔ کسی کے آدھی پنڈلی تک تھی‘ کسی کے ٹخنوں تک۔ اپنے ہاتھ سے وہ اس کو سمیٹے رہتا تھا تاکہ عورت نہ کھل جائے۔
[تفسیر مظہری (قاضی ثناء اللہ پانی پتی) زیر آیت نمبر 20 سورۃ الاحقاف]




قتادہ کا بیان ہے کہ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ۔۔ سے اصحاب صفہ مراد ہیں جن کی تعداد سات سو تھی یہ سب نادار لوگ تھے اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) : کی مسجد میں فروکش تھے نہ کسی کی کھیتی تھی نہ دودھ کے جانور نہ کوئی تجارت‘ نمازیں پڑھتے رہتے تھے ایک وقت کی نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں رہتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ستائش ہے اس اللہ کے لیے جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا کر دیے جن کی معیت میں مجھے جمے رہنے کا حکم دیا۔
[ تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی زیر آیت نمبر 58 سورۃ الکہف]




اہمیت:


آنحضرت اپنے اہل بیت کے مقابلے میں ان کا حق مقدم سمجھتے تھے اور ان کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرمایا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاتے اور بیچ کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی ضرورت پوری کرتے۔ جولوگ شادی کر لیتے تھے وہ اس زمرے سے نکل جاتے تھے۔ حضرت بلال، ابوذرغفاری، زید بن خطاب اسی گروہ سکے تھے اور ہر وقت رسول اللہ کی خدمت میں حاضری کے باعث زیادہ تر احادیث انہی سے مروی ہیں۔





ان کی تعداد:


علامہ سیوطیؒ نے اصحاب صفہ کے ایک سو ایک نام گنائے ہیں (جو ان کو معلوم ہو سکے) اور ایک مستقل رسالہ میں ان حضرات کے اسماء گرامی تحریر فرمائے ہیں، محدث حاکمؒ نے اپنی مشہور کتاب مستدرک میں چونتیس نام تحریر فرمائے ہیں، حافظ الحدیث ابونعیمؒ نے "حلیۃ الاولیاء" میں 43 نام لکھے ہیں، حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانیؒ کی تحریر کے موافق ابن عربی اور سلمی نے بھی ان حضرات کے اسماء گرامی جمع کیے ہیں اصحابِ صفہ کے اسمائے گرامی محمد حاکم نے مستدرک میں جن حضرات اصحاب صفہ کے اسمائے گرامی درج کیے ہیں، وہ یہ حضرات ہیں :

(1) سلمان فارسی
(2) ابوعبیدہ ابن جراح
(3) عمار بن یاسر
(4) عبد اللہ بن مسعود
(5) مقداد بن الاسود
(6) خباب بن الارت
(7) بلال بن رباح
(8) صہیب بن سنان
(9) زید بن الخطاب(عمر فاروق کے بھائی)
(10) ابو کبشہ
(11) ابو مرثد الغنوی
(12) صفوان بن بیضاء
(13) ابو عبس بن جبر
(14) سالم مولی ابی حذیفہ
(15) مسطح بن اثاثہ
(16) عکاشہ بن محصن
(17) مسعود بن الربیع
(18) عمیر بن عوف
(19) عویم بن ساعدہ
(20) ابولبابہ بن عبد المنذر
(21) سالم بن عمیر
(22) ابو الیسر کعب بن عمرو
(23) خبیب بن یساف
(24) عبد اللہ بن انیس
(25) ابو ذر غفاری
(26) عتبہ بن مسعود
(27) ابو الدرداء
(28) عبد اللہ بن زید الجہنی
(29) حجاج بن عمرو الاسلمی
(30) ابو ہریرہ دوسی
(31) ثوبان مولیٰ محمد
(32) معاذ بن حارث القاری
(33) سائب بن خلاد
(34) ثابت بن ودیعہ
حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں جن حضرات کو اصحاب صفہ میں سے تسلیم کیا ہے یا جن کے اصحاب صفہ میں سے ہونے کی تغلیط نہیں کی وہ یہ ہیں


اسماء بن حارثہ، اغر المزنی، بلال بن رباح، البراء بن مالک ، ثوبان مولیٰ رسول ﷺ، ثقیف بن عمرو ، ابو ذر غفاری، جرہد بن خویلد، جعیل بن سراقہ الضمری، جاریہ بن جمیل، حذیفہ بن اسید، حارثہ بن النعمان، حازم بن حرملہ، حنظلہ بن ابی عامر غسیل الملائکہ، الحکم بن عمیر، حرملہ بن ایاس، خباب بن الارت، خنیس بن حذافۃ السہمی، خریم بن فاتک، خریم بن اوس الطائی، خبیب بن یساف، دکین بن سعید، عبد اللہ ذو البجادین، ابو لبابہ الانصاری ، ابو رزین، زید بن الخطاب، سلمان فارسی، سعد بن ابی وقاص، سعید بن عامر، سفینہ مولی رسول اللہ، سالم مولی ابی حذیفہ، سالم بن عبید الاشجعی، سالم بن عمیر، سائب بن خلاد، شقران مولی رسول اللہ ﷺ، شداد بن اسید، صہیب بن سنان، صفوان بن بیضاء، طخفہ بن قیس، طلحہ بن عمرو، طفاوی دوسی، عبد اللہ بن مسعود، ابو ہریرہ"۔
[ صفہ اور اصحاب صفہ مفتی محمد عاشق الہٰی بلند شہری]


جہاں"مُخیر"عوام ہوتے ہیں وہاں مدارس بھی ایسے ہی مثالی جدت کے ساتھ قدیم علومِ اسلامیہ کے محافظین Guards کا باغیچہ ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر جیسا قرآن مجید یاد رکھنے والا انسان اور قرآنی معجزہ ضرور ملاحظہ فرمائیں:







عہدِ خلافتِ راشدہ

حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں مکاتب ومدارس کو وسعت دی اور باقاعدہ نظام کے تحت ان کو آگے بڑھایا۔ حضرت ابو الدرداءؓ کو جامع مسجد دمشق میں قرآن پڑھانے کے لیے مقرر کیا، جہاں ایک موقع پر ۱۶۰۰ (سولہ سو) طالب علم ان کے درس میں شریک رہے۔ حضرت عمرؓ نے درسِ حدیث کے حلقے بھی قائم فرمائے۔
یہ سلسلہ قائم رہا اور آنے والے خلفاء اورامراء نے اس کو مزید وسعت دی، ہر بستی میں مدارس ومکاتب قائم تھے۔ امیرلوگ ان مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کے قیام وطعام، اور لباس سمیت تمام ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔






دوسرا دور: قرونِ وسطیٰ

مدارس ومکاتب کی تاریخ میں دو اداروں کو اس حوالے سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ اب تک تعلیمی ادارے کی حیثیت سے قائم ہیں: ایک جامعۃ الزیتون، جو تیسری صدی ہجری میں تیونس کی جامع مسجدمیں قائم ہوا تھا۔ دوسرا جامع ازہر، جو فاطمی سلاطین کے دور میں مصر میں قائم ہوا، ۳۶۱ھ میں اس کی تکمیل ہوئی، اور چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے اس کی تعلیمی زندگی کا آغازہوا، اور آج تک قائم ہے۔ تاہم علامہ مقریزیؒ کے مطابق باقاعدہ ادارے کی شکل میں مدرسے کی بنیاد رکھنے والے اہلِ نیشاپور ہیں، جنہوں نے مدرسہ بیہقیہ کی بنیاد ڈالی۔ علامہ مقریزی نے مصر میں قائم ۷۰ سے زائد مدارس کا تعارف کرایا۔

[مقریزی،الخطط(بیروت-۱۴۱۸ھ) ج:۲ ، ص: ۳۶۲]

چند دیگر مدارس بھی ہیں جن میں سلطان محمود غزنوی اور ان کے بیٹے سلطان مسعود کے قائم کردہ مدارس، اورمدرسہ نظامیہ، بغداد‘ دولتِ سلجوقیہ کے علم دوست وزیر نظام الدین طوسی (۴۸۵ھ) کا قائم کردہ مدرسہ شامل ہیں۔ امام غزالیؒ اس نظامیہ سے فیض حاصل کرنے والوں میں سے ہیں اور ان کے استاذ امام الحرمین اس مدرسہ کے صدر مدرس تھے۔ علاوہ ازیں بغداد میں تیس بڑے مدارس تھے۔



مدارس اسلامیہ کی عظیم خدمات

تاریخ گواہ ہے کہ مدارس اسلامیہ نے امت کو دین کی بنیادوں سے جوڑے رکھا اور معاشرہ کی پاکیزگی کے لیے ایسے رجال کار پیدا کیے جو پوری ملت کے لیے نفع بخش ثابت ہوئے؛چنانچہ
(1)مدارس نے وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کوعملی نمونہ کے طور پر باقی رکھا روشن خیالی اور مادیت کے اس دور میں اسلام کے اس عظیم ورثہ کی حفاظت کی
(2)مدارس نے قرآن وسنت کی تعلیم اور دینی علوم کی اشاعت وفروغ میں کلیدی کردار اداکیا
(3)مدارس نے لاکھوں نادار اور غریب طلبہ کو تعلیم سے بہرہ ور کیا۔
(4)مدارس نے مسلمانوں میں دینی رہنمائی اور مذہبی تعلیم کے لئے رجال کار فراہم کئے،اور نہ جانے کتنے حفاظ و علماء، مؤذنین و ائمہ ،دعاۃ اور مبلغین، قضاۃ و مفتیان کرام،امت کو فراہم کیے
(5)عقائد وعبادات واخلاق اور مذہبی کردار کو تحفظ فراہم کیا ۔
(6) اسلام کے خاندانی نظام اور تہذیب وثقافت کی حفاظت کی۔
(7)مادہ پرستی ،اورخودغرضی کے اس دور میں قناعت اورایثار کو مسلمانوں میں باقی رکھنے کی کوشش کی۔
اگر ہم غور کریں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ نہ جانے مدارس اسلامیہ اپنے اپنے علاقے اور اپنے اپنے مقام پر کیسی کیسی عظیم خدمات سرانجام دے رہے ہیں،اور یہ مدارس اسلامیہ کے یہ وہ احسانات ہیں جس پر پوری امت کو ممنون و مشکور ہونا چاہیے۔

شاید علامہ اقبال محروم نے انہیں فوائد اور دور رس نتائج کو مد نظر رکھ کر کہا تھا:
ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنےدو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟جوکچھ ہوگا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح" اندلس" میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود ہوا آج "غرناطہ" اور "قرطبہ" کے کھنڈرات اور"الحمراء" کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے "تاج" اور دلی کے "لال قلعے" کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا''.
[مقالات اقبال ص ١٨٠]



اس دور کی حکومت سے ادنیٰ رعایت بھی حاصل کرنا دین کیلئے سخت مضر بلکہ مہلک ہے، جن مدارس نے حکومت سے امداد لی ہے آئندہ کیلئے ان کی زبان حق گوئی سے بند ہوگئی اور حکومت اس احسان کے عوض ان سے بہت سے خلافِ شریعت کام کرالیتی ہے۔
[احسن الفتاویٰ:8/ 238 باب الحظر والاباحۃ]