Monday 17 December 2012

اجتہاد کی معنی، شرعی حکم اور شرائط

اسلام ایک آفاقی، عالمگیر، مکمل اور آخری دین ہے، جس میں جمود وتعطل کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہے، ادھر زندگی میں نت نئے مسائل جب بھی سامنے آتے ہیں تو چونکہ نُصوص Statements محدود ہیں، وہ براہِ راست زندگی کے سارے مسائل کا احاطہ نہیں کرسکتے، اس لیے قیاس(مجتہد کی رائے) کو اختیار کرنا اسلام کی ابدیت اور اس کے حرکیاتی پہلو کے پیشِِ نظر ضروری ہے۔





لُغوی معنی

اجتہاد کے لغوی معنی ہیں: کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔ (أبوحبيب، القاموس الفقهی : 71)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَأَمَّا السُّجُودُ، فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ
[مسلم:479 ابوداؤد:876 نسائی:1045]

 اور سجود میں دعا کرنے کی کوشش کرو۔

گویا اجتہاد اس کوشش کو کہتے ہیں جو کسی کام کی تکمیل میں مشقت برداشت کرتے ہوئے کی جائے، اگر بغیر دقت اور تکلیف کے کوشش ہو گی تو اسے اجتہاد نہیں کہیں گے۔ مثلاً عرب یوں تو کہتے ہیں: فلاں نے بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں کہتے کہ ’’اجتہد فلان فی حمل خردلۃ‘‘ فلاں نے رائی کا دانہ اٹھانے کی کوشش کی۔



اِصطلاحی معنی

:علامہ زبیدیؒ(م1205ھ) فرماتے ہیں
"الإجتهاد بذل الوسع في طلب الأمر والمراد به رد القضية من طريق القياس الى الكتاب و السنة"
ترجمہ :
اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب و سنّت کی طرف لوٹانا.(یعنی اس کی کوشش کرنا)
[تاج العروس : 2/330]

بذل الطائفة من الفقيه في تحصيل حكم شرعي ظني
کسی فقیہ کا کسی حکمِ شرعی ظنی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لئے اپنی (پوری) طاقت خرچ کرنا.
[المسلم الثبوت : 2/362]




اجتہاد کا شرعی حکم

جمہور علماءِ مسلمین اجتہاد کی حجیت کے قائل ہیں، اجتہاد کی حجیت کتاب و سنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالٰیٰ ہے:


(1) يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا {4:59}

اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول ﷺ کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (تعالٰیٰ) اور رسول ﷺ کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
[سورۃ النساء:59]

اس آیت میں فقہی ادلہ اربعہ (فقہ کے چاروں دلائل) کی طرف اشارہ ہے: (1)اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، (2)اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے، (3)اور اُولِي الْاَمْرِ یعنی حکم دینے والوں سے مراد "علماء و فُقہاء" ہیں، ان میں اگر اتفاق ہو تو اسے "اجماعِ فقہاء" کہتے ہیں، لہٰذا اجماعِ علماء وفقہاء کو بھی مانو. (4)اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علماء و فُقہاء) میں اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد ماہر عالم کا اپنی راۓ سے اجتہاد کرتے اس غیرواضح جدید اختلافی مسائل کا قرآن و سنّت کی طرف ’’لوٹانا‘‘ اور ’’اِستنباط‘‘ (یعنی نکال باہر) کرنے کو "اجتہادِ شرعی" یا "قیاسِ مجتہد" کہتے ہیں.



قرآن و سنّت کی طرف لوٹانے کا اہل کون؟
مفسر امام ابو بکر جصاصؒ(م370هـ) اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ: "اُولُوا الاَمر" کی اطاعت کا حکم دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعالیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع ہو، وہ بھی قرآن و سنّت کی بعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوٹادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہوسکتا ہے، کیونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے.
[ احکام القرآن : 2/257]



اکثر مفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، امام حاکمؒ(م405ھ) نے حضرت عبداللہ ابن جابرؓ(م90ھ) کا قول نقل کیا ہے:
{أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} [النساء: 59] قَالَ: «أُولِي الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ»
ترجمہ:
کہا مانو اللہ کا اور کہا مانو رسول کا اور کہا مانو تم میں سے "أُولِي الْأَمْرِ" کا بھی ۔۔۔ یعنی ۔۔۔ فقہ وخیر والوں کا۔
[المستدرک الحاکم: حدیث422، تفسير ابن أبي حاتم:5533، مصنف ابن أبي شيبة:32533]



ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ(م68ھ) کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:
۔۔۔ يَعْنِي: «أَهْلَ الْفِقْهِ وَالدَّيْنِ، وَأَهْلِ طَاعَةِ اللَّهِ الَّذِينَ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ مَعَالِيَ دِينِهِمْ وَيَأْمُرُونَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ، وَيَنْهَوْنَهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَأَوْجَبَ اللَّهُ طَاعَتَهُمْ»
ترجمہ:
یعنی فقہ اور دین والے، جو اللہ کے فرمانبردار لوگوں کو دینی تعلیم دیتے ہیں، نیکی کا حکم کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، تو اللہ نے واجب فرمائی اطاعت ان کی بھی۔
[المستدرک الحاکم: حدیث423، تفسير ابن أبي حاتم:5534]



فن کے ماہرین کی اجتماعی رائے معتبر ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ , قَالَ : نا شَبَابٌ الْعُصْفُرِيُّ , قَالَ : نا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، عَنْ عَلِيٍّ , قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنْ نَزَلَ بِنَا أَمْرٌ لَيْسَ فِيهِ بَيَانٌ : أَمْرٌ وَلا نَهْيٌ ، فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ : " تُشَاوِرُونَ الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِينَ ، وَلا تُمْضُوا فِيهِ رَأْيَ خَاصَّةٍ " ، لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ صَالِحٍ إِلا نُوحٌ .
ترجمہ :
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسول الله ﷺ! اگر ہمیں کوئی ایسی بات (واقعہ) پیش آۓ جس کے متعلق (قرآن و سنّت میں) کوئی حکم یا ممانعت موجود نہ ہو تو میرے لئے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ایسے معاملہ میں فقہاء و عابدین سے مشورہ کرلیا کرو اور کسی خاص شخص کی راۓ کو نافذ نہ کرو.




جس طرح دنیا میں ہر فن میں اسی کی بات تحقیقی مانی جاتی ہے جو اس فن میں کامل مہارت رکھتا ہو، نہ کہ کسی فن سے نا آشنا کی۔ مثلاً ہیرے جواہرات کے بارہ میں ماہر جوہری کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ موچی کی، سونے چاندی کے بارہ میں ماہر سنار کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی کمھار کی اور قانون میں تحقیقی بات ماہر قانون دان کی ہوگی نہ کہ کسی مداری کی۔ اسی طرح دین میں دین کے ماہرین کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ ہر کندہ تراش کی۔ اسی لیے ﷲ تعالٰیٰ نے جس طرح تحقیق کا حکم دیا يہ بات بھی واضح فرما دیا کہ تحقیق کا حق کس کس کو ہے۔ فرمایا:
(2) وَإِذا جاءَهُم أَمرٌ مِنَ الأَمنِ أَوِ الخَوفِ أَذاعوا بِهِ ۖ وَلَو رَدّوهُ إِلَى الرَّسولِ وَإِلىٰ أُولِى الأَمرِ مِنهُم لَعَلِمَهُ الَّذينَ يَستَنبِطونَهُ مِنهُم ۗ وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكُم وَرَحمَتُهُ لَاتَّبَعتُمُ الشَّيطٰنَ إِلّا قَليلًا. {4:83}
ترجمہ :
اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کہ کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کر ديتے ہیں اور اگر اس کو پہنچا ديتے رسول تک اور اپنے اولوا الامر (علما و حکام) تک تو جان لیتے اس (کی حقیقت) کو جو ان میں قوتِ استنباط (تحقیق کی اہلیت) رکھتے ہیں اس کی اور اگر نہ ہوتا فضل ﷲ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پيچھے ہو ليتے شیطان کے مگر تھوڑے۔




استنباط کی اصطلاحی معنى :
والاستنباط ليس إلا استخراج المعنى من النصوص بالراي
ترجمہ :
اور استنباط صرف "نکالنا" ہے کسی حکم کو نصوص (قرآن و حدیث) میں سے راۓ کے ذریعے سے.
[اصول السر خسیؒ: ج2، ص128، طبع جدید حیدرآباد دکن]


چنانچہ امام رازیؒ(م606ھ) اس آیت کی تفسیر کے تحت تحریر فرماتے ہیں :
بس ثابت ہوا کہ استنباط حجت ہے اور قیاس یا تو بذات خود استنباط ہوتا ہے یا اسی میں داخل ہوتا ہے، لہذا وہ بھی حجت ہوا جب یہ بات طے ہوگی تو اب ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت چند امور (باتوں) کی دلیل ہے، ایک یہ کہ نت نئے مسائل میں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو نص سے (واضح) معلوم نہیں ہوتیں، بلکہ ان کا حکم معلوم کرنے کے لیے استنباط کی ضرورت پڑتی ہے، دوسرے یہ کہ استنباط حجت ہے اور تیسرے یہ کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ پیش آنے والے مسائل و احکام کے پارے میں علما کی تقلید کرے۔
[مفاتيح الغيب = التفسير الكبير : 3/272]

پھر امام رازیؒ(م606ھ) بعض حضرات کے اس اعتراض پر کہ یہ آیت جنگ کے مخصوص حالات پر مشتمل ہے، جواب دیتے ہیں کہ :
الله تعالٰیٰ کا یہ ارشاد : جب ان کے سامنے "امن" یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے۔.. بالکل عام ہے، جس میں جنگ کے حالات بھی داخل ہیں اور تمام شرعی مسائل بھی، اس لیے امن اور خوف دو ایسی چیزیں ہیں کہ تکلیفاتِ شرعیہ کا کوئی باب ان سے باہر نہیں، لہذا ثابت ہوا کہ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو اسے صرف جنگ کے حالات سے مخصوص کر دے .
[مفاتيح الغيب = التفسير الكبير : 2/273]





استنباط کا حق اور اہلیت کسے؟
درج بالا آیتِ کریمہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ استنباط کا حق اور اہلیت (1)رسول ﷺ کے بعد (2) اولوا الامر (فقہاء) ہی کو ہے، ہرعالم یا عوام کو نہیں.


اہلِ فن پر اعتماد ضروری:
رسول اللہ ﷺ اس بات پر بھی بیعت لیتے تھے:
وَأَنْ لاَ نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ ۔۔۔۔۔ اور ہم نہیں جھگڑا کریں گے اھلِ امر(حکم والوں)سے۔
[بخاری:7199 مسلم:1709 ابن ماجہ:2866 نسائی:4149]

کھجور کے شگوفوں میں پیوند کاری کے معاملہ میں فرمایا:
اگر یہ کام ان کو نفع دیتا ہے تو وہ لوگ یہ کام کریں کیونکہ میرے خیال پر تم مجھے نہ پکڑو لیکن جب میں تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تو تم اس پر عمل کرو کیونکہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا نہیں ہوں۔[مسلم:2361]
میں ایک بشر ہوں جب میں تمہیں کوئی دین کی بات کا حکم دوں تو تم اس کو اپنا لو اور جب میں اپنی رائے سے کسی چیز کے بارے میں بتاؤں تو میں بھی ایک بشر ہی ہوں۔
[صحیح مسلم:2362]
«أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ» ۔۔۔۔۔ تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو تمہارے دنیاوی کام کو۔
[صحیح مسلم:2363]

لہٰذا مسائلِ فقہ کے شعبہ میں فقہاء کا، مسائلِ نحو (عربی گرامر) میں نحوییں کا، مسائلِ اصول میں اصولیین کا اور مسائلِ کلام میں متکلمین کا قول و اجماع معتبر ہوگا.




(3) ۔۔۔ فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ
[سورة الحشر، آية 2]
۔۔۔ بس اعتبار کرو اے آنکھ والو۔

فقہی لحاظ سے "اعتبار" کا یہ مطلب بیان کیا گیا ہے:
ھُوَ حُکْمُ رَدُّ الشَّیْءِ اِلیٰ نَظِیْرِہٖ
[الفصول فی الاصول:4/31، العدۃ فی اصول الفقہ:4/1347 ، اصول السرخسی:2/125]
کسی شیء کو اس کی نظیر کی طرف "لوٹانا"۔




قیاس کیا ہے؟
یعنی جو حکم اس کی نظیر کا ہے وہی حکم اس شیء کا قرار دینا۔ تشریعِ اسلامی کی چوتھی بنیاد ’’قیاس‘‘ یعنی مجتہد کی اجتہادی رائے ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ حکمِ منصوص(یعنی جو قرآن وسنت میں واضح ہو جیسے شراب) سے اس حکم کی ’’عِلت‘‘ یعنی وجہ یا سبب(نشہ) نکال کر اس حکم(حرام ہونے) کو غیرمنصوص(یعنی جو قرآن وسنت میں بیان نہ ہو جیسے: آفیم، چرس، ہیروئین وغیرہ) میں جاری کرنا یا یوں کہئے کہ عِلت میں اتحاد(Similarity) کی بنیاد پر فرعی مسئلہ پر اصلی مسئلہ کا حکم لگادینا۔ صاحب ’’توضیح والتلویح‘‘ لکھتے ہیں:
وھو تعدیة الحکم من الأصل إلی الفرع بعلة متحدۃ لایدرك بمجرد اللغة۔
[توضیح تلویح:363]
وہ اصل سے فرع کی جانب حکم کو لے جانا ہے، ایسی مشترک علت کی وجہ سے جسے محض لغت سے نہ سمجھا جاسکے۔

اور ’’معجم لغة الفقهاء‘‘ میں قیاس کی تعریف اس طرح لکھی گئی ہے۔
القیاس: إلحاق أصل بفرع فی الحکم لاتحادهما فی العلة۔
[معجم لغه الفقہاء:372]

قیاس: وہ حکم میں اصل کو فرع کے ساتھ لاحق کردینا ہے، (دونوں میں) علت کے اشتراک کی بنا پر۔


قیاس کے لغوی معنی اندازہ کرنا، پیمائش کرنا، مطابق اور مساوی کرنا ہیں، چنانچہ ”قَاسَ الثَّوْبَ بِالذِّرَاعِ“ کے معنی ”قَدَّرَ أجْزَائَہ بِہ “ (کپڑے کی ذراع سے پیمائش کی) اسی طرح ”یُقَاسُ فُلاَنٌ بِفُلاَنٍ فِي الْعِلْمِ وَالنَّسَبِ“ کے معنی ”یُسَاوِیْہِ فِی الْعَلْمِ وَالنَّسَبِ“ (علم اور نسب میں وہ اس کے برابر ہے) ۔
[امینی، محمد تقی، اجتہاد، ص ۱۴۱۔۱۴۰]

قیاس کا لفظ دو چیزوں میں مساوات و برابری نیز دو چیزوں کے مابین موازنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
[سعید الرحمن، ڈاکٹر، استحسان ( بحیثیت ماخذ قانون) مقالہ پی۔ایچ ۔ڈی، ص ۲۰۷]

اصطلاح ِ فقہ میں قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
الْحَاقُ أمْرٍ غَیْرِ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِہ الشَّرْعِیِّ بِأمْرٍ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِہ لِاِشْتِرَاکِہِمَا فِیْ عِلَّةِ الْحُکْمِ․
[ابن قدامہ، ابو عبداللہ، شمس الدین، روضة الناظر وجنة المناظر: ج ۲، ص ۲۲۷]
ترجمہ:

”حکم کی علت میں اشتراک کے سبب اس معاملہ کو جس کے شرعی حکم کے بارے میں نص وارد نہیں ہوئی، ایسے معاملہ کے ساتھ ملحق کرنا جس کے حکم کی بابت نص وارد ہوئی ہے (فقہ کہلاتی ہے)“۔



حجیتِ قیاس:
اللہ جل شانہٗ نے آیاتِ بدء وخلق(ابتداء و تخلیق) اور آیاتِ احکام ہر دو کے ذریعہ قیاس کے حجت(دلیل) ہونے کی جانب رہنمائی فرمائی ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
"إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ"۔
ترجمہ:
بے شک حالت عجیبہ عیسی کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشابہ حالت عجیبہ آدم کے ہے کہ ان کو مٹی سے بنایا پھر ان کو حکم دیا کہ ہوجا بس وہ ہوگئے۔
(سورۃ آل عمران:۵۹)

اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام کی خلق وپیدائش کو آدمؑ کے وجود ونشاۃ پر قیاس کیا گیا، دونوں کے مابین علتِ جامعہ کمال قدرتِ خداوندی کے علاوہ دونوں پیغمبروں کا بغیر باپ کے ہونا ہے۔
(مقدمہ اعلاء السنن:۲/۷۹)

ایک اور مخصوص پس منظر میں یہ آیات نازل کی گئیں:
"وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌo قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ"۔
ترجمہ:
اور اُس(انسان)نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کیا اور اپنی اصل(قطرہ) کو بھول گیا، کہتا ہے کہ ہڈیوں کو جب کہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کردےگا؟ آپ جواب دیجئے کہ اُن کو وہ زندہ کرے گا جس نے اول بار ان کو پیدا کیا اور وہ سب طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے۔
(سورۃ یٰس:۷۸،۷۹)

ان آیات میں علتِ مشترکہ کمال قدرت کی بناء پر نشاۃ ثانیہ اور بعث بعد الموت کو نشاۃِ اُولیٰ(پہلی پیدائش) پر قیاس کرکے ثابت کیا گیا۔

آیاتِ احکام میں قیاس کا استعمال اس طرح پر ہوا ہے، سورۃ النور کی آیت 31 میں عورتوں کو بتلایا گیا کہ "آباء واجداد سے پردہ ضروری نہیں" بقیہ چچا اور ماموں کو اس فہرست میں شامل کرنے کی ذمہ داری خود بندوں کے سپرد کی گئی، سورۃ الاحزاب کی آیت 49 میں یہ احکامات دیئے گئے کہ مطلقہ مومنہ غیرمدخول بِہا پر کوئی عدت نہیں، اب لامحالہ قیاساً مطلقہ کافرہ غیرمدخول بہا بھی اس حکم میں داخل ہوں گی کہ مبنی اسقاطِ عدت ایمان نہیں؛ بلکہ عدم مسیس اور مطلقہ کا غیرمدخول بہا ہونا ہے۔
(مقدمہ اعلاء السنن:۲/۸۰۔۸۳)

واضح رہے کہ یہاں اعتبار سے قیاس ہی مراد ہے، تدبروتفکر مراد نہیں، جیسا کہ ابن حزم کا گمان ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ اعتبار "متعدی بدو مفعول" کا متقاضی ہوتا ہے اور اس کا تحقق اسی وقت ممکن ہے جب کہ اعتبار بمعنی قیاس ہو، اعتبار بمعنی "تفکر وتدبر تعدی الی المفعولین" کی مطلق صلاحیت نہیں رکھتا، بالفرض اگربتسلیم کرلیا جائے کہ یہاں اعتبار کے معنی تفکروتدبر ہی کے ہیں، جیسا کہ سیاق وسباق سے واضح ہے تو جواب یہ ہے کہ یہاں شئی میں تفکر محض کے معنی ہرگز مراد نہیں؛ بلکہ اُسے اپنی نظیر سے ملحق کرکے تدبر کرنا مقصود ہے اور قیاس اسی سے عبارت ہے۔

(مقدمہ اعلاء السنن:۲/۸۰۔۸۳)


ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ دونوں کو یمن کے الگ الگ علاقوں کا قاضی و گورنر بناکر بھیجا گیا تھا اور آپ ﷺ کے استفسار پر دونوں نے جواب دیا تھا کہ :
اِذَا لَمْ نَجِدِ الْحُکْمَ فِی السُّنَّةِ نَقِیْسُ الأَمْرَ بِالأَمْرِ فَمَا أقْرَبَ الیَ الْحَقِّ عَمِلْنَا بِہ فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ اَصَبْتُمَا․
ترجمہ:
”جب ہم سنت میں حکم نہیں پائیں گے تو ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کریں گے اور جو فیصلہ حق سے زیادہ قریب ہوگا، اسی پر عمل کریں گے۔ اس پر نبی کریم  ﷺ نے فرمایا تم دونوں کی رائے درست ہے۔“

[الفصول في الأصول - الجصاص: 4/50، المحصول - الرَّازي:5/38، نهاية السول شرح منهاج الوصول: ص308، نفائس الأصول في شرح المحصول:7/3109، الفائق في أصول الفقه:2/229]




قیاس اور اجتہاد میں فرق:
قیاس کے مقابلے میں اجتہاد کا دائرہ زیادہ وسیع ہے، پس اجتہاد کا موقع ومحل وہ مسائل ہیں جس میں کوئی نص (Statement of Quran & Hadith) موجود نہ ہو، اس طرح کہ اصل(یعنی ثابت حکم جیسے: شراب) کی عِلت(یعنی وجہ: نشہ) اس(غیرمنصوص نئے مسئلے، جیسے: آفیم، چرس وغیرہ منشیات) میں پائے جانے کی وجہ سے ثابت حکم کو اس نئے غیرمنصوص مسئلہ کےلئے ثابت کیا جائے، یہی قیاس Legal Analizing ہے۔
لیکن اجتہاد کا میدان ودائرہ یہ بھی ہے کہ قبول اور رد کے اعتبار سے نصوص Statements کے درجات معلوم کرکے نصوص کو ثابت کیا جائے، اور ان نصوص کی دلالتوں Indications کو پہچانا جائے، اور قیاس کے علاوہ دیگر دلائل سے احکام معلوم کئے جائیں، ان لوگوں کے نزدیک جو قائل ہیں: قولِ صحابی، یا عملِ اہلِ مدینہ، یا استصحاب، یا استصلاح وغیرہ کے۔

[موسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ(مترجم):1/418]







(4) آیاتِ تدبر:

نزولِ قرآن کے پہلے مقصد کے بارے میں الله پاک نے فرمایا:

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۹﴾
ترجمہ :
(یہ)ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی بڑی برکت والی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں تدبر(غور) کریں اور تاکہ عقلمند نصحیت حاصل کریں.
[سورۃ ص : آیت 29]

اَفَلَمۡ یَدَّبَّرُوا الۡقَوۡلَ اَمۡ جَآءَہُمۡ مَّا لَمۡ یَاۡتِ اٰبَآءَہُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۫۶۸﴾
ترجمہ :
کیا انہوں نے اس ارشاد میں غور ہی نہیں کیا یا ان کے پاس(عذاب سے امن کی)ایسی بات آئی ہے جو ان کے پہلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی.
[سورۃ المؤمنون : آیت 68]

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿۲۴﴾
ترجمہ :
پھر کیوں قرآن پر غور نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں.
[سورۃ محمد : آیت 24]


تدبر کی دو درجات:
(1) تدبرِ عوام: جنہیں عربی علوم، نازل کردہ تعلیم کی تفہیم(سمجھانے) اور استنباط(احکام نکالنے) کی قابلیت تو دور صرف اس کے فہم(سمجھنے)ہی کے اصول ومبادیات پُختہ یاد نہ رہتے ہوں۔۔۔ان کیلئے تین بنیادی عقائد: رب کی توحید، رسول کی صداقت اور قرآن کی حقانیت میں قرآن مجید کی "عقلی" (۱)مثالیں، لاجواب الہامی (۲)سوالات، خدائی (۳)پیشنگوئیاں اور (۴)چیلینجز ومطالبات ہی سے ’’عبرت‘‘ حاصل کرکے "ایمان" لانا ۔۔۔ اور ۔۔۔ پچھلی اقوام کے (۴)قصوں اور (۵)انجام سے ’’نصیحت‘‘ حاصل کرتے ہوئے احکام پر ’’عمل‘‘ کرنا ہی آسان اور کافی ہے۔
الله نے فرمایا:
وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿۱۷﴾
ترجمہ:
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے۔ اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟
[سورۃ القمر:17]

(2) تدبرِ خواص: جنہیں نازل کردہ "وحی،نصیحت،حکم" کے غیرواضح مسائل اور ان کے احکام کو جدید اصطلاحات میں قرآن وسنت سے افہام کے ساتھ ساتھ تفہیم کی مسلسل جدوجہد کا ذمہ دار بنایا گیا ہے کہ وہ (۱) احکام کی عِلتوں Causes کو دریافت کرنا اور (۲) ان کو پیش آمدہ مسائل پر منطبق Match کرنا (۳) مجمل compendious نصوص کی مراد کو پہونچنا اور (۴)مشترک المعنی  الفاظ synonyms کے مصداق example کی تعیین Signify کرنا بھی ہے، (۵)عربوں کے استعمال اور محاورات کے مطابق شارع کی تعبیرات Interpretations سے معنی اخذ کرنا (۶)حدیثوں کے معتبر یا نامعتبر ہونے کی تحقیق کرنا (۷)متعارض دلیلوں میں ترجیح و تطبیق دینا،  (۸) ناسخ ومنسوخ کیلئے احکام کی تاریخی ترتیب میں غور کرنا (۹) اس کےعلاوہ استنباط واعتبار اور بحث وتحقیق کے نہ جانے کتنے دشوار گذار مراحل سے گذرنا۔ یہ صرف دین میں فقہ(سمجھ) حاصل کرنے والے ’’فقہاء‘‘ کی خاصیت اور ذمہ داری ہے، اور دین میں فقہ کا حاصل کرنا ساری عوام پر فرض نہیں۔

الله نے فرمایا:


فقیہ اور ان کے اجتہاد(فقہ) کی پیروی کرنے والے مقلد:
(4) اور مسلمانوں کے لئے یہ بھی مناسب نہیں کہ وہ (ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کے لئے) نکل کھڑے ہوں، لہذا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لئے) نکلا کرے، تاکہ (جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں) وہ دین کی فقہ (سمجھ) حاصل (کرنے کے لئے محنت) کریں، اور ان کی قوم کے لوگ (جو جہاد گئے ہیں) ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو آگاہ کریں، تاکہ وہ گناہوں سے بچ سکیں۔ [التوبہ:122]
تفسیر :
اس آیت سے الله تعالیٰ نے عام لوگوں پر واجب کیا ہے کہ جب علماء ان کو (احکامِ شریعت بتاکر) ہوشیار کریں تو وہ (الله کی نافرمانی سے) بچیں اور علماء کی بات مانیں.
[تفسیر الجصاص : ٢/٢٦٣، طاعة الرسول ﷺ]

بس ڈرانے اور دعوت کی ذمہ داری فقہاء کو دی گئی ہے۔
[ المجموع: 1 / 18، نهاية المحتاج: 1 / 6، المبسوط : 1 / 2،  بدائع الصنائع: 1/1]


حضرت ہاروں العبدیؒ کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابو سعید الخدریؓ کی خدمات میں حاضر ہوتے تو وہ ہمیں مرحبا (خوش آمدید) کہتے رسول الله ﷺ کی وصیت کے موافق (اور فرماتے) کہ رسول الله  نے ہمیں فرمایا تھا کہ لوگ تمہاری پیروی کریں گے اور اطرافِ عالم سے تمہاری دین کی فقہ (گہری سمجھ) حاصل کرنے آئیں گے، تو ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت میری طرف سے قبول کرو.



حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ»
اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے گا جو ہماری بات (حدیث) سن کر اسے محفوظ (یاد) کرلے اور اسے پھر دوسرے اس شخص تک پہنچادے جس نے اسے براہ راست نہیں سنا کیونکہ بہت سے فقہ (علمِ حدیث) کے محافظ حقیقتاً فقیہ (دینی سمجھ رکھنے والا عالم) نہیں ہوتے اور بہت سے فقیہ (علمِ حدیث کی فقہ رکھنے والے) تو ہیں لیکن جن کی طرف (یہ فقہ) منتقل کر رہے ہیں وہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں  ....
[سنن ابوداؤد:3660، سنن ترمذی: 2656، سنن ابن ماجه:230]


امام حاکمؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مشہور ہے۔[معرفۃ علوم الحدیث: ص92]
امام سیوطیؒ فرماتے ہین کہ یہ متواتر ہے۔[مفتاح الجنۃ: ص5]
نواب صدیق حسن صاحب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث سولہ 16 صحابہ سے مروی ہے۔[الحرز المکنون: ص9]


اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث سے اصل غرض فقہ ہے، اور فقہ صرف الفاظِ حدیث یا لفظی ترجمہ کا نام نہیں بلکہ اس کے معنیٰ ہے ’’الشق والفتح‘‘ یعنی وہ فقہی مسائل کا استنباط واستخراج فرمائیں اور اپنے فقہی مسائل کو انذار(ڈرانے) کا واسطہ بنائیں چنانچہ فقہاء صحابہ کے ہزاروں فتاویٰ (ٓاحادیث کی کتابوں خصوصا) مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہیں، انہی فقہی فتاویٰ پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں(اور سوائے چند کے اکثر بلادلیل دئے گئے فتویٰ خود دعوتِ تقلید ہے) بہرحال اللہ ورسول کے نزدیک قرآن وحدیث میں فقیہ کا فہم حجت ہے نہ کہ عوام الناس کا۔





وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ [سورۃ الملک:10]

ترجمہ:

اور کہیں گے اگر ہم ہوتے سنتے(پیچھے چلتے) یا سمجھتے(فقہ رکھتے) تو نہ ہوتے دوزخ والوں میں۔







مزید تفصیل وتشریح کیلئے اصول الفقہ کی کتابیں دیکھئے:

الفصول في الأصول - الجصاص(م370ھ) : ج 3 ص 376

المعونة على مذهب عالم المدينة - القاضي عبد الوهاب (م422ھ) : ص46، 1728

ميزان الأصول في نتائج العقول - علاء الدين السَّمَرْقندي(م450ھ) : 1/605

الإشارة في أصول الفقه - أبو الوليد الباجي (م474ھ) : ص46

الاجتهاد - الجويني(م478ھ) : ص114، كتاب التلخيص:3/444

المستصفى - الغزالي(م505ھ) : ص370

روضة الناظر - ابن قدامة المقدسي(م:620هـ) : 2/376

قواعد الأحكام في مصالح الأنام - ابن عبد السلام(م660ھ) : 1/222

الردود والنقود - البابرتى (م786ھ) :2/570

التحقيق والبيان في شرح البرهان - الأبياري (م616ھ) : 3/374













(5) آیاتِ عقل:

وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ [الملک:10]
ترجمہ:
اور کہیں گے اگر ہم ہوتے سنتے(پیچھے چلتے) یا سمجھتے(فقہ رکھتے) تو نہ ہوتے دوزخ والوں میں۔



إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ق:37]
ترجمہ:
بیشک اس میں البتہ نصیحت ہے جس کے لیے دل ہو یا اس نے کان لگائے ہیں اور وہ (دل سے) حاضر ہو.
یعنی
دل(فقہ)والا ہو یا سننے(فقیہ کے پیچھے چلنے)والا ہو۔ کیونکہ اکثریت عقل نہیں رکھتی۔[المائدۃ:103، العنكبوت: 63، الحجرات:4]




أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [الحج:46]
ترجمہ:
کیا پس یہ لوگ نہیں چلے زمین میں پس ہوتے ان کے لیے دل وہ ان کے ذریعے سمجھتے یا کان ہوتے ان کے ساتھ وہ سنتے پس بیشک قصہ یہ ہے کہ نہیں اندھی ہوتیں آنکھیں لیکن اندھے ہوتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں.

امام الدبوسیؒ (م430ھ) لکھتے ہیں:
وبصر القلب برأيه ۔۔۔ یعنی دیکھنا دل کا اپنی ’’رائے‘‘ سے۔
[تقويم الأدلة في أصول الفقه: ص264]


عقل سے مراد فقہ ہے:
{لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا} [الاعراف:179]
ان کے دل ہیں (لیکن) فقہ نہیں رکھتے اس سے

امام الكَلْوَذَاني (م510ھ) لکھتے ہیں:
والفقه هو العلم والفهم والمعرفة، وهذه الأشياء هي العقل.
[التمهيد في أصول الفقه:1/49]
اور فقہ کہتے ہیں علم، فہم اور پہچان کو، اور انہی چیزوں کو عقل کہتے ہیں۔



إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ [الرعد: 4، النحل: 12]
ترجمہ:
بیشک اس میں البتہ کئی نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو عقل سے کام لیتی ہے.
[الوجيز في أصول الفقه الإسلامي:2/277]
یعنی نشانیاں(دلائل) عقل(فقہ)والے ہی کیلئے ہیں۔



وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ [الْعَنْكَبُوتِ: 43]
ترجمہ:
اور یہ مثالیں ہیں ہم ان کو بیان کرتے ہیں لوگ کے لیے اور نہیں سمجھتے ان مثالوں کو مگر علماء ہی۔

امام ابن قیمؒ (م751ھ) لکھتے ہیں:
فالقياس وضرب الأمثال من خاصة العقل۔
[إعلام الموقعين:2/149]
لہٰذا قیاس اور مثالوں کا بیان عقل کا خاصہ ہے۔ 

امام أبو الوفاء ابن عقيلؒ (م513هـ) لکھتے ہیں:
فإنَّ الفقيه بمعانيه الذي يُعدّي الأحكامَ بالمعاني، ويفرِّعُ على الأصولِ، أفضلُ من الحافظِ لنطقِ الأحاديثِ.
[الوَاضِح في أصُولِ الفِقه:2/372، 5/492]






لفظ اجتہاد کی اصل قرآن مجید میں:


{وَالَّذِينَ جَاهَدُوا} (اور وہ لوگ جنہوں نے کوشش کی) ۔ یہاں المجاہدۃ کو مطلقاً ذکر کیا گیا ہے۔ اس کو مفعول سے مقید نہیں کیا گیا۔ تاکہ ہر قسم کا مجاہدہ اس میں داخل ہوجائے خواہ وہ مجاہدہ نفس سے ہو یا مجاہدہ شیطان ہو یا مجاہدہ دشمنانِ دین سے ہو۔
[تفسیر المدارک،لامام النسفی(710ھ): 2/687، سورۃ العنکبوت:آیۃ69]

اسی طرح مجاہدہ حصولِ علم وتحقیقِ مسائل ہو
[المبسوط للسَّرَخْسِيّ(483هـ):16/76، تبصرة الحكام-ابن فرحون(799ھ) :1/14، معين الحكام - الطرابلسي(844ھ) :صفحہ8]

یا مجاہدہ تبلیغِ دین میں زبان وقلم سے ہو، ہاتھ وتلوار سے ہو یا دل سے اظہارِ برائی کیلئے ان کی اب برائیوں میں شرکت سے اجتناب وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔

نوٹ:
{سُبُلَنَا} یعنی اپنے راستے۔ سُبُلَ(راستے) جمع ہے سبیل(راستہ) کی۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف لے جانے والے کئی راستے ہیں، جو ملاتے ہیں منزل(رضائے الٰہی) تک پہنچانے والی شاہراہ(بڑے مین راستہ)یعنی صراطِ مستقیم سے(یعنی طریقتِ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین سے[سورۃ النساء:69])۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھئے:
بِمَعْرِفَةِ أَحْكَامِهِ وَشَرْعِهِ فَيَكُونُ بَحْثُهُمْ عَنْهُ أَتَمَّ وَاجْتِهَادُهُمْ فِيهِ أَكْمَلَ
[قواعد الأحكام في مصالح الأنام - ابن عبد السلام(660هـ) :1/28]

وبَلَغَ جِدَّه في الاجتهاد لدَرْك المَطْلب
[الوَاضِح في أصُولِ الفِقه - ابن عقيل(513ھ) :1/5]











لفظ اجتہاد کی اصل حدیثِ رسول ﷺ میں:


مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بنِ جبلؓ کو یمن کا مُعلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
"عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ "۔
ترجمہ:
جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔
[سنن ابوداؤد:3592، جامع ترمذی:1327، مسند احمد:22007، مسند ابوداؤد الطیالسی:560، مصنف ابن أبي شيبة:22988، مسند عبد بن حميد:124، سنن الدارمي:170، بیھقی:20339، جامع بيان العلم وفضله:1593، شرح السنة للبغوی:10/116، الحجة في بيان المحجة:410]

خلاصة حكم المحدث:
كل ما سكت عنه فهو صالح [رسالته لأهل مكة]
صحيح [شرح مشكل الآثار - الطحاوي:9/212]
صحيح مشهور [جامع بيان العلم - ابن عبدالبر: 2/844]
ثابت [القبس في شرح موطأ - ابن العربي: 3/870]
إسناده جيد [مجموع الفتاوى - ابن تيمية :13/364]
حسن مشهور[إرشاد الفقيه - ابن كثير: 2/396] إسناده جيد [تفسير القرآن:1/13]
حسن الإسناد ومعناه صحيح [تلخيص العلل المتناهية - الذهبي:269]
إسناده حسن [مجموع فتاوى ابن باز: 6/ 195، 229 /24]





حدیث کے فقہی نکتے:


1) قرآن میں سب مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں۔
2) سنّت میں بھی سب مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں۔ لہٰذا اجتہاد(فقہ)کے سوا صرف قرآن وحدیث سے مسئلہ کے جواب کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔
3) اجتہاد تب کیا جائے گا جب کسی مسئلے/واقعے کا واضح جواب قرآن وسنّت میں نہ ہو، لہٰذا جب قرآن وسنت میں واضح حکم ہو تو اجتہاد کرنا ناجائز ہے کہ یہ دین میں تحریف وتبدیلی کرنا ہے۔
4) اجتہاد کا کرنے کا ’’اہل‘‘ ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ کوئی معتبر علمی شخصیت اپنے کسی صحبت یافتہ شاگرد کی دینی علم و سمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد اجازت دے. چناچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو حکم دینے کے لائق ہو اور جاہل کا حکم دینا درست نہیں، اگر وہ حکم کرے گا تو گناہگار ہوگا۔
5) شرعی فیصلہ وفتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائےگا (نہ کے سنّت یا قیاس سے). قرآن کے بعد سنّت سے پھر قیاس سے۔
6) جب یمن کے عربی عوام کو بلا واسطہ معلم (تعلیم دینے والے) اور قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے بذاتِ خود قرآن و حدیث پڑھ سمجھکر عمل کرنے اور ہر ایک کا معلم اور قاضی بننے کی بجاۓ وہاں کے لئے ایک قاضی بناکر بھیجنے کی ضرورت تھی ، تو کسی انبیاء کے علم کے وارث عالم کی امامت (راہبری) کی احتیاج تو مزید بڑھ جاتی ہے، خصوصا ان عجمی عوام کیلئے جو عربی قرآن کے صحیح ترجمہ و تفسیر اور سنّتِ قائمہ (غیر منسوخہ) معلوم کرنے کو عربی احادیث میں ثابت مختلف احکام و سنّتوں میں ناسخ و منسوخ آیات اور افضل و غیر افضل احکام نہیں جانتے، اور بعد کے جھوٹے لوگوں کی ملاوٹوں سے صحیح و ثابت اور ضعیف و بناوٹی روایات کے پرکھنے کے اصول الحدیث والروایۃ اور اصولِ الجرح والتعدیل ، جن کا ذکر قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں، بلکہ یہ ائمۂِ مسلمین کی دینی فقہ کے اجتہاد سے ماخوذ ہیں۔
7) اجتہاد انفرادی ہوتا ہے، لہٰذا قوتِ قبولیت میں اجتماعی اجتہاد یعنی اجماع کے مقابلے میں مردود ہوتا ہے۔




اعتراض : یہ حدیث ضعیف ہے.
ابن حزمؒ (م452ھ) نے اس حدیث کے بارے میں بہت کچھ کہہ ڈالا ہے، مثلاً یہ حدیث حدِ احتجاج سے گِری ہوئی ہے، مجہول(نامعلوم) اور گمنام رُواۃ Unknown Transmitters کے واسطہ سے منقول ہے؛ بلکہ قرائنِ خارجیہ External Evidence اس کے موضوع Propagandiatic ہونے پر دال ہیں؛ لیکن ابن حزمؒ کے ان ہفوات کا امام ابن القیمؒ الجوزیہ(م751هـ) کی زبانی بس ایک ہی جواب ہے کہ اس حدیث کا دم بھرنے والے کوئی اور نہیں امیرالمؤمنین فی الحدیث اور تبع تابعی حضرت شعبۃ بن الحجاجؒ (م160ھ) ہیں، جن کے بارے میں محدثین کا یہ معروف تبصرہ ہے کہ جس روایت کی سند(سلسلہ) "شعبہ" سے ہوکر گذرتی ہو تو اس حدیث کا صحیح ہونا ثابت بلادلیل ہے، استدلالی جواب یہ ہے کہ اصحابِ معاذ Followers of Muaadh کی جہالت (گمنامی) صحتِ حدیث میں قادح Abusive نہیں کہ حضرت معاذؓ کے اصحاب followers اور ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے کوئی جھوٹے اور تہمت زدہ لوگ نہ تھے، اس لیے راوی حدیث حضرت حارث بن عمرو کا رجالِ سند Transmitters of chain کے ناموں کی تصریح Clearification نہ کرنا بجائے خود حدیث کی شہرت reputation کی دلیل ہے کہ یہ روایت کوئی ایک دو افراد سے نہیں کہ ان کے ناموں کو گِنایا جائے؛ پھر امام ابوبکرخطیبؒ (م463ھ) کے مطابق ایک سند میں راوی حدیث کی صراحت عبدالرحمن بن غنم کے نام سے بھی مذکور ہوئی ہے اس لیے جہالت(گمنامی) کا حکم لگانا صحیح نہیں (اعلام الموقعین:۱/۱۹۴) جہاں تک حدیثِ مذکور کی موضوع Propagandiatic ہونے پر پر پیش کردہ ابن حزم کے قرائن خارجیہ External Evidence کا سوال ہے تو نہ وہ فی نفسہ(بذاتِ خود) اس قابل ہیں کہ ان کی طرف توجہ ہی نہ کی جائے اور نہ ہی صحتِ سند کے ساتھ روایت کے ثبوت نے ان کی جوابدہی کی کوئی گنجائش چھوڑی ہے، تفصیل جسے مقصود ہو وہ (مقدمہ اعلاء السنن:۲/۱۵۷) کی طرف مراجعت کرے۔



اس حدیث پر اعتراض علامہ زرقانی(م1122ھ) نے کیا اور وجہ اعتراض یہ ہے کہ اس کی سند میں اصحاب معاذ مجہول [یعنی غیر معروف] ہیں اور انہی کی تقلید میں کچھ علماء نے اس کو ضعیف سند مانا۔ لیکن ان علماء کے اعتراض کا جواب علامہ ابن تیمیہؒ کے شاگرد رشید جناب محترم ابن القیمؒ (م751هـ) نے اعلام الموقعین جلد 1 صفحہ 175 اور 176 پر دے دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اصحاب معاذ میں سے جن سے یہ حدیث مروی ہے ان میں سے کوئی بھی مہتم کذاب اور مجروح نہیں ہے اور انہوں نے تاریخ خطیب سے اسی حدیث کا دوسرا طریق عبادۃ بن نسی عن عبدالرحمن بن غنم عن معاذ بھی ذکر کیا۔ اور لکھا هذا اسناد متصل ورجاله معروفون بالثقه اور ساتھ میں کہا یہ حدیث امت میں تلقی بالقبول کا درجہ رکھتی ہے اسی لئے صحیح ہے۔


اس کے علاوہ اس حدیث کے دوسری راوی حارث بن عمرو پر مجہول ہونے کا الزام ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے اس کو ضعیف قرار دیا لیکن شعبۃؒ بن حجاج نے فرمایا کہ” یہ مجہول نہیں ہیں بلکہ یہ مغیرہ بن شعبہ کے بھتیجے ہیں اور کبار تابعین میں سے ہیں“ ان سے اصحابِ معاذ نے روایت کی ہے اور اصحاب معاذ میں سے کوئی بھی مجہول نہیں [جیسا کہ ابن القیمؒ کا بھی دعوی ہے] کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کوئی خبر ایک جماعت سے اس میں موجود اشخاص کے ناموں کے بغیر پہنچے لہذا اس سے اس جماعت کے لوگوں کا مجہول ہونا لازم نہیں آتا اور اصحابِ معاذ کا علم، دین اور سچ بولنے کی شہرت کسی سے مخفی نہیں۔ اگر فریق ثانی کے نزدیک کسی جماعت سے یا اس کے فرد سے حدیث اس شخص کا نام بیان کئے بغیر ضعیف ہوجاتی ہے اور وہ شخص مجہول ہوجاتا ہے تو پھر ان حدیثوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟



۱۔ جو کوئی جنازہ دیکھے اور اس کی نماز ادا کرے تو اسے ایک قیراط اجر ملتا ہے [مسلم 52 اور 945] اس کی سند یہ ہے عن ابن شھاب حدثنی رجال عن ابی ہریرہ، یہاں رجال کا نام نہیں بتایا تو کیا یہ مجہول نہیں ہوگا؟ اور کیا یہ حدیث ضعیف نہیں ہوگی؟



دوسری طرف اس حدیث کی سند میں کلام کرنے والے علماء کی تعداد کم اور اس حدیث کو صحیح کہنے والے علماء کی تعداد زیادہ ہے۔ اس حدیث کو مندرجہ ذیل علماء نے صحیح کہا:



۱۔ علامہ بزدویؒ(م482ھ) نے اپنے [اصول] میں اس حدیث کو صحیح کہا۔

۲۔ علامہ جوینیؒ(م478ھ) نے اپنی کتاب [البرھان] میں اس کو صحیح کہا۔

۳۔ ابوبکر بن عربیؒ(م485ھ) نے اپنی ترمذی کی شرح [عارضۃ الاحوذی] میں اس کو صحیح کہا۔

۴۔ خطیب بغدادیؒ(م463ھ) نے [الفقیہ المتفقہ:1/397، 1/471] میں اس کو صحیح کہا۔

۵۔ ابن تیمیہؒ(م728ھ) نے [مجموع الفتاوی: جلد 13 صفحہ 364] پر اس کو صحیح کہا۔

۶۔ ابن کثیرؒ(م774ھ) نے اپنی [تفسیر القرآن:
1/13] کے مقدمے میں اس کو صحیح کہا جو آپ مولوی جونا گڑھی کے کئے ہوئے اردو ترجمے میں بھی ملاحظہ کرسکتے ہو۔

۷۔ ابن القیمؒ (م751هـ) نے بھی اس کو صحیح کہا جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔

۸۔ علامہ شوکانی (م1255ھ) غیر مقلدؒ نے بھی اس کو [فتح القدیر:
9/4485] میں نقل کیا۔

۹۔ حافظ ابن حجرعسقلانی شافعیؒ(م852ھ) نے [تلخیص الحبیر: جلد 4 صفحہ 182] پر نقل کیا ۔ اور ابی عباس بن قاص رح فقیہ شافعی کے حوالے سے اسکی تصحیح کی۔





اس حدیث کی شاہدی متفقہ حدیث سے:
اجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے نئے مسائل میں امت کی "رہنمائی" کے لیے اجتہاد و استنباط کا عمل ناگزیر تھا، اس کے بغیر دین کو دائمی شکل حاصل نہیں ہو سکتی تھی، بریں بنا ہر دور میں زمانے اور حالات کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اجتہاد کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے، اور خود رسول الله ﷺ نے امت کو اجتہاد کی "ترغیب" دی ہے اور مجتہدین کو ہر صورت سے اجر و ثواب کی بشارت سنائی ہے، چنانچہ سیدنا حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
«إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»۔
ترجمہ:
جب حاکم اجتہاد کرکے صحیح فیصلہ کرے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے اور اگر اجتہاد کے بعد غلط فیصلہ ہو جائے تو ایک اجر ہے۔
[صحیح بخاری:7352، صحیح مسلم:1716، سنن ابوداؤد:3574، سنن ابن ماجہ:2314، السنن الكبرىٰ النَّسائي:5887، مسند أحمد:17816، الأموال لابن زنجويه:12، معجم ابن الأعرابي:2250، صحيح ابن حبان:5061، سنن الدارقطني:4478، الإبانة الكبرى لابن بطة:696، السنن الكبرى للبيهقي:20366، جامع بيان العلم وفضله:1662، الفقيه و المتفقه:1/475]



صحیح مسلم کے مشہور شارح امام نوویؒ(م676ھ) اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
قَالَ الْعُلَمَاءُ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ فِي حَاكِمٍ عَالِمٍ أَهْلٍ لِلْحُكْمِ فَإِنْ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ أَجْرٌ بِاجْتِهَادِهِ وَأَجْرٌ بِإِصَابَتِهِ وَإِنْ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ بِاجْتِهَادِهِ وَفِي الْحَدِيثِ مَحْذُوفٌ تَقْدِيرُهُ إِذَا أَرَادَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ قَالُوا فَأَمَّا مَنْ لَيْسَ بِأَهْلٍ لِلْحُكْمِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ الْحُكْمُ فَإِنْ حَكَمَ فَلَا أَجْرَ لَهُ بَلْ هُوَ آثِمٌ وَلَا يَنْفُذُ حُكْمُهُ سَوَاءٌ وَافَقَ الْحَقَّ أم لا لأن إصابته اتفاقه لَيْسَتْ صَادِرَةً عَنْ أَصْلٍ شَرْعِيٍّ فَهُوَ عَاصٍ فِي جَمِيعِ أَحْكَامِهِ سَوَاءٌ وَافَقَ الصَّوَابَ أَمْ لَا وَهِيَ مَرْدُودَةٌ كُلُّهَا وَلَا يُعْذَرُ فِي شئ مِنْ ذَلِكَ وَقَدْ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ فِي السُّنَنِ الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ قَاضٍ فِي الْجَنَّةِ وَاثْنَانِ فِي النَّارِ قَاضٍ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ وَقَاضٍ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِخِلَافِهِ فَهُوَ فِي النَّارِ وَقَاضٍ قَضَى عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ۔
ترجمہ:
علماء کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ مذکورہ بالا حدیث اہلِ اجتہاد کے بارے میں ہے، بس وہ اجتہاد کرکے درست فیصلہ کرے تو دو اجر، ایک اجتہاد کا اور دوسرا درستگی کا۔ اور اگر غلطی کرے تو بھی اجتہاد پر ایک اجر ملتا ہے، لیکن جو اہل نہ ہو اور پھر اجتہاد کرے تو وہ گنہگار ہے اور اس سے کوئی اجر نہیں ملے گا خواہ درست فیصلہ ہی کیوں نہ دے اور اس کا فیصلہ مردود ہے۔
[شرح مسلم للنووی:12/14]





وقال إمام الحرمين: الذى ذهب إليه أهل التحقيق أن منكرى القياس لا يعدون من علماء الأمة وحملة الشريعة؛ لأنهم معاندون مباهتون فيما ثبت استفاضة وتواترًا، ولأن معظم الشريعة صادرة عن الاجتهاد.
ترجمہ:
امام الحرمین فرماتے ہیں کہ محققین کہتے ہیں کہ قیاس کے منکرین علماءِ امت نہیں اور حاملینِ شریعت نہیں کیونکہ وہ ایسی چیزوں کے منکر ہیں جو شہرت و تواتر سے ثابت ہے، کیونکہ شریعت کا بڑا حصہ اجتہاد سے ثابت ہے۔

[تھذیب الأسماء للنووی:1/183]



تنبیہ:
لفظ إِذَا یعنی جب یا جس وقت سے معلوم ہوا کہ (1)اجتہاد کی ’’ضرورت‘‘ کے وقت ہی اجتہاد کرنا جائز ہوگا اور (2) حکم دینے والا(اجتہاد کے قابل اور اجازت یافتہ حکم دینے والا ’’فقیہ‘‘ ہو، نہ کہ عام عالم یا عوام میں سے کوئی)ہو اور (3) اسے اس مسئلہ کا حکم قرآن، سنت اور اجماع سے نہ مل رہا ہو کہ اجتہاد کرنے کی ضرورت پڑجائے اور (4) جن صحابہ اور اماموں کا اختلاف ہوا تو وہ کسی نص Statement یا اجماع کے خلاف نہ تھا، بلکہ اجتہادی تھا، لہٰذا وہ غلطی پر بھی مأجُور مِن اللّٰه یعنی الله کی طرف سے اجر دئے ہوئے ہیں۔



اختلافِ مجتہدین کی قرآنی مثال:
اور داؤد اور سلیمان (کو بھی ہم نے حکمت اور علم عطا کیا تھا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے جھگڑے کا فیصلہ کر رہے تھے، کیونکہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت اس کھیت میں جا گھسی تھیں۔ اور ان لوگوں کے بارے میں جو فیصلہ ہوا اسے ہم خود دیکھ رہے تھے۔
چنانچہ اس فیصلے کی ’’سمجھ‘‘ ہم نے سلیمان کو دے دی، اور (ویسے) ہم نے دونوں ہی کو حکمت اور علم عطا کیا تھا۔ اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو تابع دار بنادیا تھا کہ وہ پرندوں کو ساتھ لے کر تسبیح کریں۔ اور یہ سارے کام کرنے والے ہم تھے۔ 
[سورۃ الانبیاء:78+79]
تشریح:
واقعہ یہ ہوا تھا کہ ایک شخص کی بکریوں نے رات کے وقت دوسرے کے کھیت میں گھس کر ساری فصل تباہ کردی تھی۔ کھیت والا مقدمہ لے کر حضرت داؤدؑ کے پاس آیا۔ حضرت داؤدؑ نے فیصلہ یہ فرمایا کہ بکریوں کے مالک کا فرض تھا کہ وہ رات کے وقت بکریوں کو باندھ کر رکھتا، اور چونکہ اس کی غلطی سے کھیت والے کا نقصان ہوا اس لیے بکری والا اپنی اتنی بکریاں کھیت والے کو دے جو قیمت میں تباہ ہونے والی فصل کے برابر ہوں۔ یہ فیصلہ عین شریعت کے مطابق تھا، لیکن جب یہ لوگ باہر نکلنے لگے تو دروازے پر حضرت سلیمانؑ نے ان سے پوچھا کہ میرے ’’والد‘‘ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ انہوں نے بتادیا تو حضرت سلیمانؑ نے فرمایا کہ میرے ذہن میں ایک اور صورت آرہی ہے جس میں دونوں کا فائدہ ہے۔ حضرت داؤدؑ نے ان کی یہ بات سن لی تو انہیں بلا کر پوچھا کہ وہ کیا صورت ہے؟ حضرت سلیمانؑ نے فرمایا کہ بکری والا کچھ عرصے کے لیے اپنی بکریاں کھیت والے کو دیدے جن کے دودھ وغیرہ سے کھیت والا فائدہ اٹھاتا رہے اور کھیت والا اپنا کھیت بکری والے کے حوالے کردے کہ وہ اس میں کھیتی اگائے، اور جب فصل اتنی ہی ہوجائے جتنی بکریوں کے نقصان پہنچانے سے پہلے تھی تو اس وقت بکریوں والا کھیت والے کو کھیت واپس کردے، اور کھیت والا اسے بکریاں واپس کردے۔ یہ ایک مصالحت کی صورت تھی جس میں دونوں کا فائدہ تھا، اس لیے حضرت داؤدؑ نے اسے پسند فرمایا، اور دونوں فریق بھی اس پر راضی ہوگئے۔ 


چونکہ حضرت داؤدؑ کا فیصلہ اصل قانون کے مطابق تھا۔ اور حضرت سلیمانؑ کی تجویز باہمی رضامندی سے ایک صلح کی صورت تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ ہم نے علم اور حکمت دونوں کو عطا کی تھی، لیکن مصالحت کی جو صورت حضرت سلیمانؑ نے تجویز کی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی سمجھ انہیں ہم نے عطا فرمائی تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقدمے کے دوران قانونی فیصلہ حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ فریقین آپس کی رضامندی سے مصالحت کی کوشش کرلیا کریں۔





اختلافِ اجتہادِ انبیاء» حق پر صرف ایک ہی کا ہونا ضروری نہیں»

قرآن کریم میں مذکورہ کھیتی والے قصے کے قریب قریب وہ قصہ بھی ہے، جسے سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا : 
” دو عورتیں تھیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے تھے۔ ناگاہ بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بچے کو اٹھا کرلے گیا۔ اب ایک نے کہا کہ وہ تیرے بچے کو لے گیا ہے، دوسری نے کہا، ( نہیں) وہ تیرے بیٹے کو لے گیا ہے۔ دونوں داؤد (علیہ السلام) کے یہاں اپنا مقدمہ لے گئیں، آپ نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کردیا۔ اس کے بعد وہ سلیمان بن داؤد ( علیہ السلام) کے پاس گئیں اور انھیں اپنے جھگڑے کی خبر دی، انھوں نے فرمایا، ایک چھری لاؤ، تاکہ میں اس بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان تقسیم کر دوں۔ اب چھوٹی عورت نے ( یہ سنا تو) کہا، اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ ایسا نہ کیجیے، ( میں نے مان لیا کہ) یہ لڑکا اسی بڑی کا ہے، اسی کو دے دیجیے۔ سلیمان (علیہ السلام) ( معاملے کو سمجھ گئے اور انھوں) نے لڑکا چھوٹی عورت کو دلا دیا۔ “
[ بخاری، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ووھبنا لداوٗد سلیمان۔۔ نعم الخ) : ٣٤٢٧۔ مسلم، کتاب الأقضیۃ، باب اختلاف المجتھدین : ١٧٢٠ ]







حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْل: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ۔
علم تین ہیں (١) آیت محکم (یعنی مضبوط)۔ (٢) سنت قائمہ (٣) فریضہ عادلہ۔ اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زائد ہے۔
[ابوداؤد:2885، ابن ماجہ:54، حاکم:7949، بیھقی:12172، دارقطنی:4060]

فریضہ عادلہ اشارہ ہے اجماع و قیاس کی طرف ۔ فریضہ اس کو اس لیے کہا کہ اس پر عمل واجب ہے جیسے کتاب وسنت پر اور عادل کے معنی بھی یہی ہیں (یعنی حجت ہونے میں برابر) اس حدیث کے حاصل مانا یہ ہوئے کہ دین کے اصول چار ہیں: کتاب و سنت و اجماع وقیاس اور جو علم ان کے سوا ہیں وہ زائد ہیں اور بے معنی ہیں.
[حاشیہ غزنویاں بر مشکوٰۃ: 1/66]






===================================
اجتہاد وتقلید ، احادیث کی روشنی میں:

باب : جوازِ اجتہاد (قیاس) و تقلید:
مختلف وجوہ رکھنے والے غیرمنصوص(غیرواضح) حکم میں مجتہد کے لئے اجتہاد اور غیرمجتہد کے لئے تقلید جائز ہے۔


حدیث:1

عَنْ طَارِقٍ أَنَّ رَجُلًا أَجْنَبَ فَلَمْ يُصَلِّ ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ ، فَقَالَ : " أَصَبْتَ ، فَأَجْنَبَ رَجُلٌ آخَرَ فَتَيَمَّمَ وَصَلَّى " ، فَأَتَاهُ ، فَقَالَ : نَحْوَ مَا قَالَ لِلْآخَرِ يَعْنِي أَصَبْتَ .

ترجمہ:

طارقؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو نہانے کی حاجت ہوگئی اس نے نماز نہیں پڑھی. پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے حضور میں حاضر ہوا اور اس قصہ کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: تو نے ٹھیک کیا. پھر اسی طرح ایک دوسرے شخص کو نہانے کی حاجت ہوئی، اس نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی. پھر وہ آپ کے حضور میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کو بھی ویسی ہی بات فرمائی، جو ایک شخص سے فرما چکے تھے یعنی تو نے ٹھیک کیا.
[نسائی:324]

تشریح :

اس حدیث سے اجتہاد اور قیاس کا جواز صاف ظاہر ہے، کیونکہ ان کو اگر نص کی اطلاع ہوتی تو عمل کے سوال کرنے کی ضرورت نہ تھی. اس سے معلوم ہوا کہ دونوں نے اپنے اجتہاد اور قیاس پر عمل کرکے اطلاع دی اور آپ نے دونوں کی تحسین اور تصویب فرمائی اور مُسلّم ہے کہ حضرت شارع علیہ الصلاۃ والسلام کی تقریر یعنی کسی بات کو سن کر رد وانکار نہ فرمانا بالخصوص تصریحاً اس کی مشروعیت کا اِثبات فرمانا دلیلِ شرعی ہے اس بات کی صحت پر. پس ثابت ہوا کے رسول الله ﷺ کے صحابہ نے (اپنی راۓ سے) قیاس کیا اور آپ نے اس کو جائز رکھا. پس جوازِ قیاس پر کچھ شبہ نہ رہا.
تنبیہ :

دونوں کو یہ فرمانا کہ ’’ٹھیک کیا‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کو ثواب ملا اور یہ مطلب نہیں کہ اب حکم کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ہر ایک کو اختیار ہے کہ چاہے تیمم کرے اور چاہے نہ کرے، چاہے نماز پڑھے اور چاہے نہ پڑھے.
***********************************

حدیث:2


عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاص ، قَالَ : " احْتَلَمْتُ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَشْفَقْتُ إِنِ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلِكَ ، فَتَيَمَّمْتُ ثُمَّ صَلَّيْتُ بِأَصْحَابِي الصُّبْحَ ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا عَمْرُو ، صَلَّيْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي مَنَعَنِي مِنَ الِاغْتِسَالِ ، وَقُلْتُ : إِنِّي سَمِعْتُ اللَّهَ ، يَقُولُ : وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا سورة النساء آية 29 ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا "
[سنن أبي داود : رقم الحديث: 334]

ترجمہ: حضرت عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو غزوہ ذات السلاسل سے سفر میں ایک سردی کی رات کو احتلام ہوگیا اور مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اگر غسل کرونگا تو شاید ہلاک ہوجاون گا. میں نے تیمم کر کے ہمراہیوں کو صبح کی نماز پڑھادی. ان لوگوں نے رسول الله ﷺ کے حضور میں اس قصہ کو ذکر کیا. آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمرو! تم نے جنابت کی حالت میں لوگوں کو نماز پڑھا دی. میں نے جو بات رکاوٹ تھی اس کی اطلاع دی اور عرض کیا کہ میں نے الله عزوجل کا یہ فرمان سنا کہ: ’’اپنی جانوں کو قتل مت کرو، بیشک اللہ (تعالیٰ) تم پر مہربان ہے‘‘.[سورہ النساء:29] پس رسول الله ﷺ ہنس پڑے اور کچھ نہیں فرمایا.

فائدہ:

یہ حدیث بھی اجتہاد وقیاس پر دلالت کرتی ہے. چناچہ حضور پرنور ﷺ کے دریافت فرمانے پر حضرت عمرو بن العاصؓ نے اپنی وجہ استدلال کی تقریر بھی کردی اور آپ ﷺ نے اسے (تقريرا) جائز بھی رکھا (تقریر یعنی کسی بات کو دیکھ سن کر رد وانکار نہ فرمانا)۔

تخريج :

(1) مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ الطَّهَارَةِ » بَابُ الرَّجُلِ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ فِي أَرْضٍ ... رقم الحديث: 847(878)

(2) مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ » بَقِيَّةُ حَدِيثِ عَمْروِ بْنِ الْعَاصِ ، عَنِ النَّبِيِّ ...ورقم الحديث: 17466(17356)

(3) صحيح ابن حبان » كِتَابُ الطَّهَارَةِ » بَابُ التَّيَمُّمِ , رقم الحديث: 1337(1315)

(4) تفسير القرآن لابن المنذر » سورة النساء » قوله جَلَّ وَعَزَّ : وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ... رقم الحديث: 497(1644)

(5) تفسير ابن أبي حاتم » سُورَةُ النِّسَاءِ » قَوْلُهُ تَعَالَى : وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ..., رقم الحديث: 5234(5187)

(6) سنن الدارقطني » كِتَابُ الطَّهَارَةِ » بَابُ التَّيَمُّمِ, رقم الحديث: 596(670)

(7) المستدرك على الصحيحين: ابْنُ الرَّبِيعِ, رقم الحديث: 585(1:177)
*****************************************************


حدیث:3

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، " أَنَّ رَجُلَيْنِ تَيَمَّمَا وَصَلَّيَا ثُمَّ وَجَدَا مَاءً فِي الْوَقْتِ فَتَوَضَّأَ أَحَدُهُمَا وَعَادَ لِصَلَاتِهِ مَا كَانَ فِي الْوَقْتِ وَلَمْ يُعِدِ الْآخَرُ ، فَسَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ : أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ ، وَقَالَ لِلْآخَرِ : أَمَّا أَنْتَ فَلَكَ مِثْلُ سَهْمِ جَمْعٍ " .
[سنن النسائى الصغرى » كِتَاب الطَّهَارَةِ » التَّوْقِيتُ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ لِلْمُقِيمِ ...، رقم الحديث: 433]

ترجمہ:

حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے تیمم کرکے نماز پڑھی، پھر وقت کے رہتے رہتے پانی مل گیا، سو ایک نے تو وضو کرکے نماز "لوٹالی" اور دوسرے نے نماز نہیں لوٹائی، پھر دونوں نے رسول الله ﷺسے سوال کیا. جس شخص نے نماز کا اعادہ (لوٹانا) نہیں کیا تھا، اس سے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تو نے سنّت کے موافق کیا اور وہ پہلی نماز تجھ کو کافی ہوگئی. اور دوسرے شخص کو فرمایا کہ تجھ کو پورا حصّہ ثواب کا ملا (یعنی دونوں نمازوں کا ثواب)-

فائدہ:

ظاہر ہے کہ ان دونوں صحابیوں نے اس واقعہ میں قیاس(راۓ) پر عمل کیا، اور رسول الله ﷺ نے کسی پر ملامت نہیں فرمائی. البتہ ایک کا قیاس سنّت کے مطابق صحیح نکلا اور دوسرے کا غیر-صحیح(غلط بھی نہیں)، سو یہ عین مذہب "محققین" کا ہے کہ "المجتہد مخطي ويصيب" یعنی مجتہد کبھی صحیح نکلتا ہے کبھی خطا. مگر آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تو نے قیاس پر عمل کیوں کیا. پس جوازِ قیاس کا واضح ہوگیا. یہ سب احادیث بالاشتراک جوازِ قیاس پر دلالت کرتی ہیں اور سب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نص صریح نہ ملنے کے وقت صحابہؓ باذنَِ رسول الله ﷺ سے اجتہاد(قیاس) کرتے تھے.


تخريج :

(١) سنن الدارمي » كِتَاب الطَّهَارَةِ، رقم الحديث: 744

(٢) سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ، رقم الحديث: 338

(٣) المعجم الأوسط للطبراني » بَابُ الْأَلِفِ » مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ، رقم الحديث: 1842

(٤) المعجم الأوسط للطبراني » بَابُ الْمِيمِ » بَابُ مَنِ اسْمُهُ مَحْمُودٌ، رقم الحديث: 7922

(٥) سنن الدارقطني » كِتَابُ الطَّهَارَةِ » بَابُ جَوَازِ التَّيَمُّمِ لِصَاحِبِ الْجَرَّاحِ مَعَ ...رقم الحديث: 717

(٦) المستدرك على الصحيحين، الحاکم » ابْنُ الرَّبِيعِ » رقم الحديث: ٥٨٩(١:١٧٨)

(٧) السنن الكبرى للبيهقي » جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَةِ، رقم الحديث: ١٠١٢(١:٢٣١)

(٨) الفقيه والمتفقه للخطيب » الْفَقِيهُ وَالْمُتَفَقِّهُ لِلْخَطِيبِ الْبَغْدَادِيُّ ... » بَابُ الْقَوْلِ فِي الاحْتِجَاجِ بِصَحِيحِ الْقِيَاسِ ...رقم الحديث: ٣٣٨(١:١٩٤)
*****************************************************

حدیث:4

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَسَّانَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، وَرَّثَ أُخْتًا وَابْنَةً فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَنَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ حَيٌّ .
[
سنن أبي داود » كِتَاب الْفَرَائِضِ » بَاب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الصُّلْبِ، رقم الحديث: 2893]

ترجمہ:

أسود بن يزيدؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذؓ یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا۔

تشریح:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول الله ﷺ کے زمانہِ مبارک میں تقلید جاری تھی، کیونکہ تقلید کہتے ہیں ’’کسی کا قول محض اس حسنِ ظن(اعتماد) پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلادے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا‘‘. (اسی طرح تقلیدِ شخصی بھی ثابت ہوتی ہے. کیونکہ جب رسول الله ﷺ نے تعلیمِ احکام کے لئے یمن بھیجا تو يقينا اہلِ یمن کو اجازت دی کہ ہر مسئلے میں ان سے رجوع کریں اور یہی تقلیدِ شخصی ہے.) سو قصہ مذکورہ میں گویا جواب قیاسی نہیں سو اس وجہ سے ہم نے اس سے جوازِ قیاس پر استدلال نہیں کیا لیکن سائل نے تو دلیل دریافت نہیں کی اور ان کے محض تدین(عقیدت) کے اعتماد پر قبول کرلیا اور یہی تقلید ہے اور یہ حضرت معاذ بن جبلؓ خود رسول الله ﷺ کے بھیجے ہوۓ ہیں. پھر اس جواب کے اتباع پر جو کہ رسول الله ﷺ کی حیات میں تھا، نہ حضور سے انکار ثابت نہ کسی سے اختلاف اور رد منقول. پس اس سے ’’جوازِ تقلید‘‘ کا اور حضور ﷺ کی حیات میں اس کا بلا نکیر شایع ہونا ثابت ہوگیا.

تخريج: 

صحيح البخاري » كِتَاب الْفَرَائِضِ » بَاب مِيرَاثِ الْبَنَاتِ، رقم الحديث:6234

سنن الدارمي » 2921


سنن الدارقطني » 4106


المستدرك على الصحيحين للحاكم » 8012


السنن الكبرى للبيهقي » 12331


*****************************************************


حدیث برائے جوازِ تقلید:


بلا علم فتویٰ دینا اور لینا کیسا ہے؟

حدیث:5


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ"
[سنن أبي داود » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب التَّوَقِّي فِي الْفُتْيَا، رقم الحديث:3657]

ترجمہ:


 حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے (کسی کو) بغیر علم کے فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا. سلیمان المہری نے اپنی روایات میں اتنا اضافہ اور کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے بھائی کو ایسے کام کا مشورہ دیا جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ فائدہ اس کے غیر میں ہے تو اس نے خیانت کی۔

فائدہ:


دیکھئے اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتوے پر دلیل جانے یا مانگے بغیر عمل جائز نہ ہوتا، جو حاصل ہے تقلید کا، تو گناہگار ہونے میں مفتی کی کیا تخصیص تھی؟ جیسا سیاقِ کلام سے مفہوم ہوتا ہے، بلکہ جس طرح مفتی کو غلط فتویٰ بتانے کا گناہ ہوتا ہے اسی طرح سائل کو دلیل تحقیق نہ کرنے کا گناہ ہوتا۔ پس جب شارع عليه السلام نے باوجود تحقیقِ دلیل نہ کرنے کے عاصي(گناہگار) نہیں ٹھہرتا تو جوازِ تقلید يقينا ثابت ہوگا. آگے صحابہؓ کا تعامل دیکھئے. 

تخريج:

(١) سنن الدارمي:159

(٢) الأدب المفرد للبخاري » الأدب المفرد للبخاري » بَابُ : إِثْمِ مَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِغَيْرِ ...رقم الحديث:259

(٣) سنن ابن ماجه:53

(٤) المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي: ذِكْرُ مَا يُؤْثَرُ عَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفَى ...، رقم الحديث:789

(٥) جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر » بَابُ اجْتِهَادِ الرَّأْيِ عَلَى الأُصُولِ عِنْدَ ... رقم الحديث:1625

****************************************************

حدیث:6


عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ " يَكُونُ لَهُ الدَّيْنُ عَلَى الرَّجُلِ إِلَى أَجَلٍ ، فَيَضَعُ عَنْهُ صَاحِبُ الْحَقِّ وَيُعَجِّلُهُ الْآخَرُ ، فَكَرِهَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَنَهَى عَنْهُ ".

[موطأ مالك ت الأعظمي » كِتَاب الْبُيُوعِ » بَابُ مَا جَاءَ فِي الرِّبَا فِي الدَّيْنِ، رقم الحديث:2479]

ترجمہ:


حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ کسی شخص کا دوسرے شخص پر کچھ میعادی دین (قرض) واجب ہے اور صاحبِ حق (قرض خواہ) اس میں سے کسی قدر اس شرط سے معاف کرتا ہے کہ وہ قبل از میعاد (وقتِ مقررہ سے پہلے) اس کا دین(قرض) دیدے، (تو یہ طریقہ/عمل کیسا ہے؟). آپ نے اس کو ناپسند فرمایا اور منع فرمایا.


فائدہ:


چونکہ اس مسئلہ جُزئِیہ میں کوئی حدیثِ مرفوع صریح منقول نہیں، اس لئے یہ حضرت ابنِ عمرؓ کا قیاس ہے اور چونکہ سائل نے دلیل نہیں پوچھی اس لئے اس کا قبول کرنا تقلید ہے اور حضرت ابن عمرؓ کا دلیل بیان نہ کرنا خود تقلید کو جائز رکھتا ہے. پس حضرت ابن عمرؓ کے فعل سے قیاس وتقلید دونوں کا جواز ثابت ہوگیا جیسا کہ ظاہر ہے.

*****************************************************

حدیث:7


حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ فِي رَجُلٍ : " أَسْلَفَ رَجُلًا طَعَامًا عَلَى أَنْ يُعْطِيَهُ إِيَّاهُ فِي بَلَدٍ آخَرَ " ، فَكَرِهَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ . وَقَالَ : " فَأَيْنَ الْحَمْلُ ؟ " يَعْنِي حُمْلَانَهُ .

[موطأ مالك ت الأعظمي » كِتَاب الْبُيُوعِ » بَابُ مَا لَا يَجُوزُ مِنَ السَّلَفِ، رقم الحديث:2510]


ترجمہ:


إمام مالكؒ سے مروی ہے کہ ان کو یہ خبر پہچی ہے کہ حضرت عمرؓ سے ایک شخص کے مقدمہ میں دریافت کیا گیا کہ اس نے کچھ غلہ اس شرط پر کسی کو قرض دیا کہ وہ شخص اس کو دوسرے شہر میں ادا کرے. حضرت عمرؓ نے اسے ناپسند کیا اور فرمایا کہ کرایا باربرداری کا کہاں گیا.

فائدہ:


چونکہ اس مسئلہ جُزئِیہ میں بھی کوئی حدیثِ مرفوع صریح مروی نہیں، لہذا یہ جواب قیاس سے تھا، اور چونکہ جواب کا ماخذ(دلیل) نہ آپ نے بیان فرمایا نہ سائل نے سواۓ دلیل پہچاننے کے پوچھا اور قبول کرلیا یہ تقلید ہے جیسا کہ اس سے اوپر والی حدیث کے ذیل میں بیان کیا گیا. پس دونوں کا جواز حضرت عمرؓ کے فعل سے بھی ثابت ہوگیا.
****************************************************

حدیث:8


حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ مَالِك ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ قَالَ : أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ خَرَجَ حَاجًّا حَتَّى إِذَا كَانَ بِالنَّازِيَةِ مِنْ طَرِيقِ مَكَّةَ أَضَلَّ رَوَاحِلَهُ ، وَإِنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَوْمَ النَّحْرِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ ، فَقَالَ عُمَرُ : " اصْنَعْ كَمَا يَصْنَعُ الْمُعْتَمِرُ ، ثُمَّ قَدْ حَلَلْتَ فَإِذَا أَدْرَكَكَ الْحَجُّ قَابِلًا فَاحْجُجْ ، وَأَهْدِ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ " .


[موطأ مالك ت الأعظمي » كِتَاب الْحَجِّ » بَابُ هَدْيِ مَنْ فَاتَهُ الْحَجُّ، رقم الحديث:1428]
ترجمہ:

سلیمان بن یسارؒ سے روایت ہے کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ حج کرنے کو نکلے جب نازیہ میں پہنچے مکہ کے راستے میں تو وہ اپنی اونٹنیاں کھو بیٹھے اور یوم النحر(دسویں تاریخ ذی الحجہ) میں جبکہ حج ہو چکا تھا حضرت عمرؓ کے پاس آۓ اور یہ سارا قصہ بیان کیا. آپ نے فرمایا: جو عمرہ والا کیا کرتا ہے اب تم بھی وہی کرو، پھر تمہارا احرام کھل جاوے گا، پھر جب آئندہ سال حج کا زمانہ آوے تو حج کرو اور جو کچھ میسر ہو قربانی ذبح کرو.

فائدہ:


اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو صحابہؓ اجتہاد نہ کر سکتے تھے، وہ مجتہدین صحابہؓ کی تقلید کرتے تھے، کیونکہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی صحابی تھے اور انہوں نے حضرت عمرؓ سے دلیل فتویٰ کی نہیں پوچھی. اب تابعین کی روایتِ تقلید جانیں گے.
*****************************************************

حدیث:9


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ ، وَعِكْرِمَةَ ، أَنَّهُمَا كَانَا يَكْرَهَانِ الْبُسْرَ وَحْدَهُ وَيَأْخُذَانِ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " أَخْشَى أَنْ يَكُونَ الْمُزَّاءُ الَّذِي نُهِيَتْ عَنْهُ عَبْدُ القَيْسِ " ، فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ : مَا الْمُزَّاءُ ؟ ، قَالَ : النَّبِيذُ فِي الْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ .

[سنن أبي داود » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » بَاب فِي نَبِيذِ الْبُسْرِ،رقم الحديث:3225]

ترجمہ:


حضرت جابر بن زیدؓ اور حضرت عکرمہؓ (بن ابی جہل) دونوں (خیساندہ کے لئے) خرماۓ نیم پختہ (یعنی صرف خشک کھجور کی نبیذ) کو ناپسند کرتے تھے اور اس (فتویٰ) کو حضرت ابن عباسؓ سے لیتے تھے، اور حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خدشہ ہوا کہ کہیں یہ خشک (کھجور کی نبیذ) مزا نہ ہو جس سے عبدالقیس کے وفد کو منع کیا گیا تھا (ہشام کہتے ہیں) میں نے حضرت قتادہؓ سے پوچھا کہ مزا کیا ہے؟ فرمایا کہ حنتم اور مزفت میں بنی ہوئی نبیذ۔

فائدہ:

صرف حضرت ابن عباسؓ کے قول سے احتجاج کرنا تقلید ہے.


****************************************************
حدیث:10


حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ مَالِك ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى السَّفَّاحِ ، أَنَّهُ قَالَ : " بِعْتُ برامن (او بَزًّالِي ) مِنْ أَهْلِ دَارِ نَخْلَةَ إِلَى أَجَلٍ ، ثُمَّ أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى الْكُوفَةِ ، فَعَرَضُوا عَلَيَّ أَنْ أَضَعَ عَنْهُمْ بَعْضَ الثَّمَنِ وَيَنْقُدُونِي ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ ، فَقَالَ : " لَا آمُرُكَ أَنْ تَأْكُلَ هَذَا وَلَا تُوكِلَهُ " .

[موطأ مالك ت الأعظمي » كِتَاب الْبُيُوعِ » بَابُ مَا جَاءَ فِي الرِّبَا فِي الدَّيْنِ، رقم الحديث:2478]

ترجمہ:


عبید بن ابی صالح سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے دار نخلہ والوں کے ہاتھوں کچھ گیہوں (یا اپنا کپڑا) فروخت کیے اور داموں کے لئے ایک میعاد(مقررہ وقت) دیدی, پھر میں نے کوفہ جانا چاہا تو ان لوگوں نے مجھ سے اس بات کی درخواست کی کہ میں ان کو کچھ دام چھوڑدوں اور وہ لوگ مجھے نقد (ابھی) گِن(کر)دیں. میں نے حضرت زید بن ثابتؓ سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: کہ نہ میں اس فعل کی تم کو اجازت دیتا ہوں اور نہ اس کے کھانے کی اور نہ اس کے کھلانے کی.


فائدہ:


اس واقعہ میں بھی عبید بن ابی صالح نے حضرت زید بن ثابتؓ سے مسئلہ کی دلیل نہیں پوچھی یہی تقلید ہے اور صحابہؓ و تابعین ؒ سے اس قسم کے آثار اسی طرح خود جنابِ رسالت ﷺ کے عہدِ مبارک میں روایت استفتاء و افتاء بلا نقلِ دلیل کے باہم صحابہ میں یا تابعین و صحابہ میں اس کثرت سے منقول ہیں کہ حصر ان کا دشوار ہے اور کتبِ حدیث (خصوصاً مصنفات : مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبد الرزاق) دیکھنے والوں پر مخفی نہیں.

==============================================

مقصدِ دوم :

اجتہاد سے جس طرح حکم کا استنباط جائز ہے، اسی طرح حدیث کو معلل سمجھ کر مقتضاۓ علت پر عمل کرنا، جس کا حاصل احکامِ وضعية کی تعیین ہے مثل احکامِ تكليفيہ کے، یا احد الوجوہ پر محمول کرنا، یا مطلق کو مقید کرلینا اور ظاہر الفاظ پر عمل نہ کرنا، حدیث کی مخالفت یا ترک نہیں. اس لئے ایسا اجتہاد بھی جائز ہے اور ایسے اجتہاد کی تقلید بھی جائز ہے.

حدیث:1


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ , حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ : " لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ " , فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ , فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا , وَقَالَ بَعْضُهُمْ : بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ , فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ .

[صحيح البخاري » كِتَاب الْمَغَازِي » بَاب مَرْجِعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ...،رقم الحديث:4119]

ترجمہ:


حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے یوم الحزاب میں صحابہ ؓ سے فرمایا کہ عصر کی نماز بنی قریظہ سے پہنچنے سے ادھر کوئی نہ پڑھے اور بعض صحابہ کو راہ میں عصر کا وقت آگیا تو باہم راۓ مختلف ہوئی. بعض نے کہا کہ ہم نماز نہ پڑھیں گے جب تک ہم اس جگہ نہ پہنچ جائیں اور بعض نے کہا کہ نہیں ہم تو پڑھیں گے، رسول الله ﷺ کا یہ مطلب نہیں (بلکہ مقصود تاکید ہے جلدی پہنچنے کی، کہ ایسی کوشش کرو کہ عصر سے قبل وہاں پہنچ جاؤ)، پھر یہ قصہ آپ کے حضور میں ذکر کیا، آپنے کسی پر بھی ملامت و سزائیں نہیں فرمائیں.


فائدہ:


اس واقعہ میں بعض نے قوتِ اجتہادیہ سے اصلی غرض سمجھ کر جو کہ احد الوجھیں المحتملين ہے نماز پڑھ لی، مگر آپ ﷺ نے ان پر یہ ملامت نہیں فرمائی کہ تم نے ظاہر معنى کے خلاف کیوں عمل کیا اور ان کو بھی عمل بالحدیث کا تارک نہیں قرار دیا۔

تخریج:


(١) صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ، رقم الحديث: ٩٠٠(٩٤٦)

(٢) صحيح مسلم » كِتَاب الْجِهَاد وَالسِّيَرِ » بَاب مَنْ لَزمَهُ فَدَخَلَ عَلَيه أَمْرًا آخَرُ، رقم الحديث: ٣٣٢٣(١٧٧٢)

(٣) الطبقات الكبرى لابن سعد » ذِكْرُ عَدَدِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ..، رقم الحديث: ١٦٤٦(٢:٢٨٧)

(٤) معجم أبي يعلى الموصلي » بَابُ الْعَيْنِ، رقم الحديث: ٢٠٨(٢٠٩)

(٥) مستخرج أبي عوانة » كِتَابُ الْحُدُودِ » بَابُ الْخَبَرِ المُوجِبِ قَتْلَ الثَّيِّبِ الزَّانِي ...، رقم الحديث: ٥٢٩٦(٦٧٢٢)

(٦) صحيح ابن حبان » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ الْوَعِيدِ عَلَى تَرْكِ الصَّلاةِ، رقم الحديث: ١٤٩٢(١٤٦٢)

(٧) دلائل النبوة للبيهقي » الْمَدْخَلُ إِلَى دَلائِلِ النُّبُوَّةِ وَمَعْرِفَةِ ... » جِمَاعُ أبْوَابِ غَزْوَةِ الْخَنْدَقِ , وَهِيَ الأَحْزَابِ ...رقم الحديث: ١٣٨٥(٤:٦)

(٨) السنن الكبرى للبيهقي » كِتَابُ النَّفَقَاتِ » جِمَاعُ أَبْوَابِ قَطْعِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ فِي السَّرِقَةِ ...رقم الحديث: ١٨٧٥٢(١٠:١١٩)

(٩) جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر » بَابٌ : نُكْتَةٌ يُسْتَدَلُّ بِهَا عَلَى اسْتِعْمَالِ ...رقم الحديث: ١٠١٣(١٦٣٥)

(١٠) الفقيه والمتفقه للخطيب » الْفَقِيهُ وَالْمُتَفَقِّهُ لِلْخَطِيبِ الْبَغْدَادِيُّ ... » بَابُ الْقَوْلِ فِي الاحْتِجَاجِ بِصَحِيحِ الْقِيَاسِ ...رقم الحديث: ٣٣٥(١:١٩٣)

(١١) تاريخ الإسلام الذهبي » السَّنَةُ الْخَامِسَةُ، رقم الحديث: ٩٣٥(٢:٣٠٨)

 **************************************

ظاہری الفاظِ حدیث کے خلاف عمل کرنے کی جائز صورت کون سی اور کسی ہوتی ہے:
حدیث:2


حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يُتَّهَمُ بِأُمِّ وَلَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لِعَلِيٍّ اذْهَبْ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ " ، فَأَتَاهُ عَلِيٌّ ، فَإِذَا هُوَ فِي رَكِيٍّ يَتَبَرَّدُ فِيهَا ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : اخْرُجْ فَنَاوَلَهُ يَدَهُ فَأَخْرَجَهُ ، فَإِذَا هُوَ مَجْبُوبٌ لَيْسَ لَهُ ذَكَرٌ فَكَفَّ عَلِيٌّ عَنْهُ ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّهُ لَمَجْبُوبٌ مَا لَهُ ذَكَرٌ " .

[صحيح مسلم » كِتَاب التَّوْبَةِ » بَاب بَرَاءَةِ حَرَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ... رقم الحديث: 2774]

ترجمہ: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ایک لونڈی امِ ولد سے متہم تھا. آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ جاؤ اس کی گردن مارو. حضرت علیؓ جب اس کے پاس تشریف لاۓ تو اس کو دیکھا کہ ایک کنویں میں اترا ہوا بدن ٹھنڈا کر رہا ہے. آپ نے فرمایا: کہ باہر نکل. اس نے اپنا ہاتھ دے دیا. آپ نے اسے نکالا تو وہ مقطوع الذکر (یعنی اس کا عضو تناسل کٹا ہوا) نظر آیا. آپ اس کو سزا دینے سے رک گئے اور رسول اللہ ﷺ کو (اس بات کی) خبر دی. آپ ﷺ نے ان کے (اس سزا نہ دینے والے) فعل کو مستحسن (پسند) فرمایا. اور ایک روایت میں مزید یہ بھی آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پاس والا وہ ایسی بات دیکھ سکتا ہے، جو دور والا نہیں دیکھ سکتا.

فائدہ:

اس واقعہ میں رسول الله ﷺ کا خاص اور صاف حکم موجود تھا، حضرت علی ؓ نے اسے معلل بعلت (حکمِ سزا کو کسی خاص علت و وجہ زنا کرنے پر موقوف) سمجھا اور چونکہ اس علت و وجہ کا وجود (عضوِ تناسل) نہ پایا اس لئے سزا نہیں دی اور حضور نے اس کو جائز اور پسند فرمایا حالانکہ یہ عمل ظاہر اطلاقِ حدیث کے خلاف تھا. اس سے معلوم ہوا کے حدیث کی لم اور علت سمجھ کر اس کے موافق عمل کرنا گو بظاھر الفاظ سے بعید(دور) معلوم ہو مگر عمل بالحدیث کے خلاف نہیں.


تخريج :

(١) مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ، رقم الحديث: ١٣٧١٠(١٣٥٧٧)

(٢) أحاديث عفان بن مسلم: رقم الحديث: ٢٤١(٣٠٣)

(٣) المستدرك على الصحيحين » كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ... » ذِكْرُ سَرَارِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ...رقم الحديث: ٦٨٩٣(٤:٣٩)

(٤) المستدرك على الصحيحين » كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ... » ذِكْرُ سَرَارِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ...رقم الحديث: ٦٨٩٤(٤:٣٩)

(٥) الطبقات الكبرى لابن سعد » طَبَقَاتُ الْكُوفِيِّينَ » ذِكْرُ مَارِيَةَ أُمِّ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ رَسُولِ ...رقم الحديث: ١٠٣٢٨(٨:٣٥٦)

(٦) الاستيعاب في معرفة الأصحاب لابن عبد البر » كتاب النساء وكناهن » باب الميم،رقم الحديث: ٣٨٦(٣٥٢٥)

(٧) غوامض الأسماء المبهمة لابن بشكوال » مأبور مولى النبي ﷺ ... رقم الحديث: ٤٤١(١:٤٩٧)
****************************************************

حدیث:3


حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنَ مَالِكٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ ، قَالَ : يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ، قَالَ : يَا مُعَاذُ ، قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا ، قَالَ : " مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا ، قَالَ : إِذًا يَتَّكِلُوا " ، وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا . (متفق عليه)

[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ ...رقم الحديث:128]

ترجمہ:

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ حضرت معاذؓ (ایک مرتبہ) آپ ﷺ کے ہمراہ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے حضور اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ ﷺ وسعدیک. آپ نے (پھر) فرمایا: اے معاذ! انہوں نے (بھی پھر) عرض کیا لبیک یا رسول اللہ وسعدیک ۔ تین مرتبہ (ایسا ہی ہوا) آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سوا الله کے کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اللہ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے۔ معاذؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کردوں؟ تاکہ وہ خوش ہوجائیں. آپ نے فرمایا کہ اس وقت جب کہ تم خبر کر دوگے لوگ (اسی پر) بھروسہ کرلیں گے اور عمل سے باز رہیں گے۔ (یعنی عمل کو چھوڑدینگے). حضرت معاذ نے یہ حدیث اپنی موت کے وقت اس خوف سے بیان کردی کہ کہیں (حدیث کے چھپانے پر ان سے) مواخذہ نہ ہوجاۓ.

فائدہ:


دیکھئے یہ حدیث لفظ کے اعتبار سے نہی عن الاخبار (خبر دینے سے روکنے) میں صریح اور مطلق ہے. مگر حضرت معاذؓ نے قوتِ اجتہادیہ سے اول بمشورہ و مقید بزمان احتمالِ اتکال سمجھا اس لئے آخر عمر میں اس حدیث کو ظاہر کردیا. اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ نصوص کے ساتھ ایسا معاملہ کرنے کو مذموم نہ جانتے تھے، ورنہ ایسے واقعات میں ظاہر یہ تھا کہ ان احکام کو مقصود بالذات سمجھ کر علت و قید سے بحث نہ کرتے اور ان نصوصِ جزئیہ کی وجہ سے اپنے دوسرے دلائلِ متعارضہ علمیہ سے مخصوص جان لیتے۔

تخريج :

(١) مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِو رقم الحديث: ١٢٣٦٧(١٢١٩٥)

(٢) صحيح مسلم » كِتَاب الإِيمَانِ » بَاب مَنْ لَقِيَ اللَّهِ بَالإِيمَانِ وَهُوَ غَيْرُ ...ورقم الحديث: ٥٠(٣٥)

(٣) السنن الكبرى للنسائي » كِتَابِ عِشْرَةِ النِّسَاءِ » أَبْوَابُ الْمُلاعِبَةِ، رقم الحديث: ١٠٤٧٢(١٠٩٠٨)

(٤) التوحيد لابن خزيمة » أَبْوَابُ : إِثْبَاتِ صِفَةِ الْكَلامِ لِلَّهِ عَزَّ ...رقم الحديث: ٤٩٠-٤٩١ (٥١٥-٥١٦)

(٥) المعجم الكبير للطبراني » بَقِيَّةُ الْمِيمِ » مَنِ اسْمُهُ مُعَاذٌ، رقم الحديث: ١٦٥٣٧+١٦٥٤٠(٧٥+٧٨)

(٦) الإيمان لابن منده » رقم الحديث: ٩١+٩٧

(٧) المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم » كِتَابُ الإِيمَانِ » بَابُ قَوْلِهِ : مَنْ شَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ...رقم الحديث: ١٢٠(١٤٢)

(٨) شرح السنة » كِتَابُ الإِيمَانِ » بَابُ بَيَانِ أَعْمَالِ الإِسْلامِ وَثَوَابِ إِقَامَتِهَا ...رقم الحديث: ٤٧(٤٩)

(٩) شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي » بَابُ جُمَّاعِ الْكَلامِ فِي الإِيمَانِ » جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، رقم الحديث: ١٢٦٥(١٥٦٤)

(١٠) مجلس من أمالي أبي موسى المديني » بَابُ مَا يُسِّرَ لَهُ فِي النِّعْمَةِ مِنْ كَوْنِهِ ...رقم الحديث: ٦

(١١) أحاديث الشيرازي » مَا جَاءَ فِيمَنْ حَفَرَ بِئْرًا أَوْ سَرَبًا لِلْمَاءِ ...رقم الحديث: ١

(١٢) جزء أبي العباس بن عصم » رقم الحديث: ٦١

(١٣) سير أعلام النبلاء الذهبي » رقم الحديث: ٢٥٥

(١٤) إثارة الفوائد » تصانيف الإمام أَبِي بكر عَبْد اللَّه بْن مُحَمَّد ... رقم الحديث: ١٩٦

(١٥) أمالي أبي سعد البصروي » تَعْجِيلُ إِخْرَاجِ الْفَيْءِ وَقِسْمَتُهُ بَيْنَ ... رقم الحديث: ٩٢

(١٦) الأربعون الكيلانية » أَبْوَابُ الزِّيَارَاتِ » رقم الحديث: ١٥(١:٣١)


*************************************************

حدیث:4


عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ أَيُّمَا عَبْدٍ وَأَمَةٍ فَجَرَا فَأَقِيمُوا عَلَيْهِمَا الْحَدَّ، وَإِنْ زَنَيَا فَاجْلُدُوهُمَا الْحَدَّ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ خَادِمًا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَدَتْ مِنَ الزِّنَا فَبَعَثَنِي لِأَجْلِدَهَا فَوَجَدْتُهَا حَدِيثَةَ عَهْدٍ بِنِفَاسِهَا، فَخَشِيتُ أَنْ أَقْتُلَهَا، فَقَالَ: " أَحْسَنْتَ، اتْرُكْهَا حَتَّى تَمَاثَلَ۔

ترجمہ:

عبدالرحمٰن سلمیؒ سے روایت ہے کہ سیدنا علیؓ نے خطبہ پڑھا اور اس میں پھر یہ بھی آپ نے فرمایا: ایک لونڈی نے بدکاری کی تھی مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ میں اسے دُرے لگاؤں، میں جب اس کے پاس آیا تو معلوم ہوا کہ قریب ہی بچہ پیدا ہوا ہے۔ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اسے دُرے مارون گا تو مر ہی جائے گی۔ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بہت اچھا کیا، ابھی اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ درست ہوجائے۔

[السنن الكبرىٰ للبيهقي : كِتَابُ الْحُدُودِ، بَابُ حَدِّ الرَّجُلِ أَمَتَهُ إِذَا زَنَتْ، رقم الحدیث:17104]

فائدہ:


باوجود یہ کہ حدیث میں کوئی قید نہ تھی مگر سیدنا علیؓ نے دوسری دلیل کلیہ پر نظر کرکے قرتِ اجتہادیہ سے اس کو مقید بقیدِ قدرتِ تحمل سمجھا اور اسی پر عمل کیا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی تحسین فرمائی۔ اسی کی نظیر ہے امام کے پیچھے قرأۃ کو چھوڑنے والوں کا مقید سمجھنا اس حدیث [نہیں نماز کتاب کی فاتحہ کے سوا] کو انفرادی حالت والے نمازی کے ساتھ ابوداودٔ کی(دوسری)حدیث کے قرینہ سے جس کی تصریح سفیان سے خاتمہ میں آئے گی۔ پس ان لوگوں کو بھی حدیث کا تارک(چھوڑنے والا) کہنا صحیح نہ ہوگا۔

تخریج الحدیث:

صحیح مسلم:1705، سنن ابوداؤد:4473، سنن ترمذی:1441، مسند ابوداؤد الطیالسی:114، مسند احمد:1341، مسند ابویعلیٰ:326، سنن الدارقطنی:3327 المستدرک الحاکم:8106، السنن الکبریٰ للبیھقی:15803


*************************************************

حدیث:5


أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ الْأَنْصَارِيَّ ، قَالَ : " يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَجِدُ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا ، قَالَ سَعْدٌ : بَلَى ، وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ " .

[صحيح مسلم » كِتَاب اللِّعَانِ، رقم الحديث:1499]

ترجمہ:


حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ایک مرد اپنی بیوی کے پاس ایک غیر مرد کو دیکھتا ہے (حرام کاری کرتے ہوئے)، تو کیا اسے قتل کردے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ سعد بن عبادہؓ نے کہا کیوں نہیں؟ یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ عزت عطا فرمائی میں تو اسے قتل کردوں گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سنو تمہارے "سردار" کیا کہتے ہیں۔

فائدہ:


ظاہر بینوں کو بلکل یہ یقین ہوسکتا ہے ان صحابی نے نعوذ بالله حدیث کو رد کردیا مگر حاشا و کلا ورنہ رسول الله صلے الله علیہ وسلم انھیں زجر فرماتے نہ یہ کہ الٹی ان کی تعریف فرماویں اور تعظیمی لفظ "سید" سے ان کو مزین فرمائیں، کیونکہ دوسری حدیث میں منافق کو "سید" کہنے کی ممانعت آئی ہے.(مشكوة انصاری، جلد ثانی، صفحہ#٤٠١)

اور دعویٰ اسلام کے ساتھ حدیث کے رد کرنے والے کے منافق ہونے میں کیا شبہ ہے تو آپ ان کو "سید" کیوں فرماتے. اس سے معلوم ہوا کہ وہ حضور ﷺ کے اس ارشاد کا (کہ قتل نہ کرے) کا یہ مطلب سمجھے کہ اگر قصاص سے بچنا چاہے تو قتل نہ کرے بلکہ گواہ لاوے، نہ یہ کہ قتل جائز نہیں. پس ان کی غرض کا مطلب یہ تھا کہ گو میں قصاص میں مارا جاؤں، کیونکہ عند الحاكم (حاكم کے نزدیک) میرے دعوی پر کوئی دلیل نہیں، لیکن اس کی کچھ پرواہ نہیں، میں اس کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا، کیونکہ اس حالت میں قتل تو "فی نفسه" جائز ہی ہے. بس یہ حدیث کا رد-و-انکار نہیں ہے. اس سے معلوم ہوا کہ مجتہد اپنی قوت_اجتہادیہ سے کسی حدیث کی مدلولِ ظاہری کے خلاف کوئی معنى دقیق سمجه جاوے تو اس پر عمل جائز ہے اور اس کو ترکِ حدیث نہ کہیں گے.


تخريج :

(١) سنن أبي داود » كِتَاب الدِّيَاتِ » بَاب فِي مَنْ وَجَدَ مَعَ أَهْلِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ ...رقم الحديث:4532

(٢) سنن ابن ماجه » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ، رقم الحديث: 2605

(٣) مستخرج أبي عوانة » مُبْتَدَأُ كِتَابِ الطَّلاقِ » بَابُ الْخَبَرِ النَّاهِي عَنْ قَتْلِ الرَّجُلِ الزَّانِي ...رقم الحديث:4719

(٤) بحر الفوائد المسمى بمعاني الأخيار للكلاباذي » وقوله عزَّ وجلَّ : يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ... رقم الحديث:149

****************************************************

حدیث:6


عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : " لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْءٍ ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".

[صحيح البخاري » كِتَاب الْحَجِّ » بَاب الْمُحَصَّبِ، رقم الحديث:1766]

ترجمہ:


حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ تحصیب (یعنی حاجی کا محصور میں اترنا) کوئی (لازمی) چیز نہیں، وہ صرف ایک منزل تھی کہ رسول الله ﷺ اس میں ٹھہر گئے تھے.

فائدہ:


ایک فعل جو رسول الله ﷺ سے صادر ہوا جو ظاهرا دلیل ہے سنّت ہونے کی. چناچہ ابن عمرؓ اسی بنا پر اسے سنّت کہتے ہیں. اس کی نسبت ایک جلیل القدر صحابی (غالباً حضرت عائشہؓ) محض اپنی قوتِ اجتہادیہ سے فرماتے ہیں کہ یہ فعل سنّت نہیں، اتفاقاً وہاں ٹھہرگئے تھے. اس سے معلوم ہوا کہ ایسے اجتہاد کو صحابہ ؓ مقابلہ حدیث کا نہ سمجھتے تھے. اس کی نظیر ہے حنفیہ کا یہ قول کہ نمازِ جنازہ میں جو فاتحہ پڑھنا منقول ہے، یہ سنّتِ مقصودہ نہیں، اتفاقاً بطورِ ثنا و دعاء کے پڑھ دی تھی یا ان کا یہ قول کہ جنازہ کی وسط کے محاذاة میں کھڑا ہونا قاصدا نہ تھا بلکہ اتفاقاً کسی مصلحت سے تھا تو یہ حضرت بھی قابلِ ملامت نہیں ہیں.

تخريج :

(١) مسند الحميدي » أَحَادِيثُ رِجَالِ الأَنْصَارِ » أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا ...، رقم الحديث: ٤٨٣(٥٠٦)

(٢) مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الزَّكَاةِ » أَبْوَابُ إِخْرَاجِ الزَّكَاةِ، رقم الحديث: ١٣٠٩٤(١٣٤٩٧)

(٣) مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ، رقم الحديث: ١٨٥٢(١٩٢٦)

(٤) سنن الدارمي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْعِيدَيْنِ، رقم الحديث: ١٨١٥(١٨٧٠)

(٥) صحيح مسلم » كِتَاب الْحَجِّ » بَاب اسْتِحْبَابِ النُّزُولِ بِالْمُحَصَّبِ يَوْمَ ...، رقم الحديث: ٢٣٢١(١٣١٤)

(٦) جامع الترمذي » كِتَاب الْجُمُعَةِ » أَبْوَابُ السَّفَرِ، رقم الحديث: ٨٤٤(٩٢٢)

(٧) السنن الكبرى للنسائي » كتاب الحج » أَبْوَابُ النَّحْرِ، رقم الحديث: ٤٠٩٨(٤١٩٥)

(٨) مسند أبي يعلى الموصلي » أَوَّلُ مُسْنَدِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رقم الحديث: ٢٣٦٩(٢٣٩٧)

(٩) صحيح ابن خزيمة » كِتَابُ الْمَنَاسِكِ » جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ ...، رقم الحديث: ٢٧٩٧(٢٧٩٩)

(١٠) شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ » بَابُ الإِهْلالِ مِنْ أَيْنَ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ ...، رقم الحديث: ٢٢٦٨(٢٢٦٩)

(١١) المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الظَّاءِ » الاخْتِلافُ عَنِ الأَعْمَشِ فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ ...، رقم الحديث: ١١٢٢٨(١١٣٨٢)

****************************************************

حدیث:7


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ غَسَّلَتْ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ حِينَ تُوُفِّيَ ، ثُمَّ خَرَجَتْ فَسَأَلَتْ مَنْ حَضَرَهَا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ ، فَقَالَتْ : " إِنِّي صَائِمَةٌ وَإِنَّ هَذَا يَوْمٌ شَدِيدُ الْبَرْدِ فَهَلْ عَلَيَّ مِنْ غُسْلٍ ؟ " ، فَقَالُوا : لَا.

[موطأ مالك ت الأعظمي » كِتَاب الْجَنَائِزِ » بَابُ غُسْلِ الْمَيِّتِ، رقم الحديث:753]

ترجمہ:


عبدالله سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بن عمیس (زوجہ ابوبکرؓ) نے حضرت ابوبکرؓ کو بعد وفات کے غسل دیا، پس باہر آکر اس وقت جو مہاجرین موجود تھے، ان سے پوچھا کہ (میرا) روزہ ہے اور آج دیں بھی بہت سردی کا ہے. کیا میرے ذمہ غسل واجب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں.

فائدہ:

دیکھئے حدیث میں مردے کو غسل دیکر غسل کرنے کا حکم بصیغہِ امر "فلیغتسل" آیا ہے [أبي داود »3161]، جو ظاهرا وجوب کے لئے ہے مگر مہاجرینِ صحابہ ؓ نے قوتِ اجتہادیہ سے اس (حکم) کو استحباب (مستحب، پسندیدہ عمل ہونے) پر محمول Bearable فرمایا ورنہ وجوب کی صورت میں معذور ہونے کے وقت اس کا بدل یعنی تیمم واجب کیا جاتا حالانکہ اس کا بھی امر(حکم) نہیں کیا، اور اس حمل کو اس حدیث کی مخالفت بھی نہیں سمجھا. اس کی نظیر ہے حنفیہ کا یہ قول کہ حدیث: نمازی کے سامنے سے گذرنے والے کے بارے میں حکم "فلیقاتله" یعنی اس سے لڑائی کرے[بخاری:509، مسلم:505] سے وُجوب کے لئے نہیں ہے بلکہ زجر و سیاست(انتظامی حکمت) پر محمول ہے. اسی طرح یہ بھی حدیث کے خلاف نہیں اور اس قسم کی روایات بکثرت کتبِ حدیث میں موجود ہیں.

******************************

مقصدِ سوم : اجتہاد کی قابلیت
جس شخص کو قوتِ اجتہادیہ حاصل نہ ہو اور مجتہد نہ ہو اس کو اجتہاد کرنے کی اجازت نہیں، اور ممکن ہے کہ ایک شخص حافظِ حدیث (محدث) ہو اور مجتہد نہ ہو اس لئے صرف جمعِ روایات (احادیث) سے قابلِ تقلید ہونا ضروری نہیں اور قوتِ اجتہادیہ کے معنیٰ کا بیان.

حدیث:1

 عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " أَصَابَ رَجُلًا جُرْحٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ احْتَلَمَ ، فَأُمِرَ بِالِاغْتِسَالِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : " قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا ، فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ ،(وفي رواية) إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ أَوْ يَعْصِبَ شَكَّ مُوسَى عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ "
[سنن أبي داود  » كِتَاب الطَّهَارَةِ  » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث:336]

ترجمہ: 
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ کے زمانے میں ایک شخص کے کہیں زخم ہو گیا، ساتھیوں نے اس کو غسل کا حکم کیا. اس نے غسل کیا اور مرگیا. یہ خبر رسول الله ﷺ کو پہنچی. آپ نے ارشاد فرمایا: ان لوگوں نے اس کو قتل کیا الله ان کو قتل کریں، نا واقفیت کا علاج دریافت (سوال) کرنا نہ تھا؟ اس کو تو اس قدر کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا پھر اس پر مسح کرلیتا اور باقی بدن دھولیتا.

فائدہ:
ان ہمراہیوں نے اپنی راۓ سے آیتِ قرآنیہ: وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا...(المائدۃ:6)...اور اگر ہوجاؤ تم جنبی تو طہارت(غسل)کرلیا کرو ، کو معذور و غیرمعذور کے حق میں عام سمجھا اور (اس) آیت: وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى...(النساء:43)...اور اگر ہوجاؤ تم مریض کو حدثِ اصغر(یعنی بےوضو ہونے کی حالت) کے ساتھ خاص سمجھ کر یہ فتویٰ دے دیا, رسول الله ﷺ کا اس فتویٰ پر رد و انکار فرمانا اس وجہ سے تو ہو نہیں سکتا کہ اجتہاد و قیاس حجتِ شرعیہ نہیں، اس کا حجت اور معتبر ہونا اور خود رسول الله ﷺ کا اس کو جائز رکھنا مقصدِ اول میں ثابت ہو چکا ہے, بس معلوم ہوا کہ یہ فتویٰ دینے والے اجتہاد کی صلاحیت و قوت نہ رکھتے تھے، اس لئے ان کے لئے فتویٰ قیاس سے دینا جائز نہیں رکھا گیا.



تخريج الحديث : 

(١) مسند أحمد بن حنبل  » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ...  » وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ، رقم الحديث: ٢٩٣٦(٣٠٤٨)

(٢) سنن الدارمي  » كِتَاب الطَّهَارَةِ  » بَاب الْمَجْرُوحِ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ، رقم الحديث: ٧٤٧(٧٥٢)

(٣) سنن ابن ماجه  » كِتَاب الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا  » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ فَيَخَافُ ...،رقم الحديث: ٥٦٥(٥٧٢)

(٤) مسند أبي يعلى الموصلي  » أَوَّلُ مُسْنَدِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رقم الحديث: ٢٣٩١(٢٤٢٠)

(٥) المعجم الكبير للطبراني  » بَابُ الظَّاءِ  » الاخْتِلافُ عَنِ الأَعْمَشِ فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ ...  » أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ ...رقم الحديث: ١١٣١٩(١١٤٧٢)

(٦) سنن الدارقطني  » كِتَابُ الطَّهَارَةِ  » بَابُ جَوَازِ التَّيَمُّمِ لِصَاحِبِ الْجَرَّاحِ مَعَ ...، رقم الحديث: ٦٤١+٦٤٢(٧٢٠+٧٢٣)

(٧) المستدرك على الصحيحين » ابْنُ الرَّبِيعِ » رقم الحديث: ٥٨٧+٥٨٨(١:١٧٨)

(٨) مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ الطَّهَارَةِ  » بَابُ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ، رقم الحديث: ٨٣٤+٨٣٥(٨٦٦+٨٦٧)

(٩) حلية الأولياء لأبي نعيم » مَا ذَكَرَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ...رقم الحديث: ٤٣٩٧(٤٣٩٩)

(١٠) جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر  » بَابُ حَمْدِ السُّؤَالِ وَالإِلْحَاحِ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ ...رقم الحديث: ٣٩٤(٥٢٦)


(١١) الفقيه والمتفقه للخطيب  » الْفَقِيهُ وَالْمُتَفَقِّهُ لِلْخَطِيبِ الْبَغْدَادِيُّ ...  » باب القول فيمن يسوغ له التقليد ومن لا يسوغ، رقم الحديث: ٤٤٥(٢:٦٨)

***************************************
حدیث:2

عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187 ، قَالَ لَهُ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِي عِقَالَيْنِ : عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ ، أَعْرِفُ اللَّيْلَ مِنَ النَّهَارِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِيضٌ ، إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ ، وَبَيَاضُ النَّهَارِ " .كَانَ بَعْضُ اللَّيْلِ نَظَرَ ، فَلَمْ يَسْتَبِينَا فَلَمَّا أَصْبَحَ , قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، جَعَلْتُ تَحْتَ وِسَادِي عِقَالَيْنِ , قَالَ : " إِنَّ وِسَادَكَ إِذًا لَعَرِيضٌ أَنْ كَانَ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ تَحْتَ وِسَادَتِكَ " .

[صحيح مسلم  » كِتَاب الصِّيَامِ  » بَاب بَيَانِ أَنَّ الدُّخُولَ فِي الصَّوْمِ يَحْصُلُ ...رقم الحديث:1092]

ترجمہ: 
حضرت عدی بن حاتمؓ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: "حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ[البقرة:١٨٧] تو انہوں نے ایک ڈورا سفید اور ایک ڈورا سیاہ لےکر رکھ لیا اور رات کے کسی حصہ میں جو اس کو دیکھا تو وو ڈورے تمیز نہ ہوئے. جب صبح ہوئی تو رسول الله ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اپنے تکیہ کے نیچے ایک ڈورا سفید اور ایک ڈورا سیاہ رکھ لیا. آپ نے فرمایا: تمہارا تکیہ بہت ہی چوڑا ہے، اگر سفید اور سیاہ ڈورے (جن سے مراد دن اور رات ہے) تمہارے تکیہ کے نیچے آگئے۔

فائدہ:
باوجود یہ کہ یہ صحابی اہلِ زبان (عربی) تھے مگر بوجھ قوت_اجتہادیہ نہ ہونے کے فہمِ مرادِ قرآن میں غلطی کی، کیونکہ ان کی غلطی پر رسول الله ﷺ نے بعنوانِ مزاح انکار فرمایا. اور مقصدِ اول میں اجتہاد پر انکار نہ فرمانا گو وہ خطا ہی کیوں نہ ہو گزر چکا(ہے). اس سے معلوم ہوا کہ ان میں قوتِ اجتہادیہ نہ تھی، اسی لئے آپ نے ان کی راۓ و فہم کو معتبر نہیں فرمایا.


تخريج الحديث: 

(١) مسند أحمد بن حنبل  » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ...  » تتمة مسند الكوفيين، رقم الحديث: ١٨٩٣٩(١٨٨٧٩)

(٢) صحيح البخاري  » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ  » سُورَةُ الْبَقَرَةِ، رقم الحديث: ٤١٧٦(٤٥٠٩)

(٣) سنن أبي داود  » كِتَابُ سُجُودِ الْقُرْآنِ  » بَاب تَفْرِيغِ أَبْوَابُ السُجُودِ وَكَمْ سَجْدَة ...رقم الحديث: ٢٠٠٦(٢٣٤٩)

(٤) جامع الترمذي  » كِتَاب الْأَدَبِ  » أبواب الْأَمْثَالِ، رقم الحديث: ٢٩١٧(٢٩٧١)

(٥) مصنف ابن أبي شيبة  » كتاب الصلاة  » أَبْوَابُ مَسَائِلَ شَتَّى فِي الصَّلاةِ، رقم الحديث: ٨٨٦٨(٩١٦٥)

(٦) السنة للمروزي  » تسمية القرن الرابع من أهل واسط، رقم الحديث: ١٠٤(١٢٢)

(٧) السنن الكبرى للنسائي  » كِتَابُ التَّفْسِيرِ  » سُورَةُ الْبَقَرَةِ، رقم الحديث: ١٠٥١٩+٢٤٦٣(١٠٩٥٤+٢٤٩٠)

(٨) صحيح ابن خزيمة  » كِتَابُ الصِّيَامِ  » جُمَّاعُ أَبْوَابِ الأَهِلَّةِ وَوَقْتُ ابْتِدَاءِ ...رقم الحديث: ١٨٢٥(١٨١٧)

(٩) مستخرج أبي عوانة  » مُبْتَدَأُ كِتَابِ الصِّيَامِ  » بَابُ بَيَانِ إِبَاحَةِ التَّسَحُرِ حَتَّى يَتَبَيَّنَ ...رقم الحديث: ٢٢٠٨+٢٢٠٩+٢٢١٠(٢٧٧٣+٢٧٧٦+٢٧٧٧)

(١٠) شرح معاني الآثار للطحاوي  » كِتَابُ الصِّيَامِ  » بَابُ الْوَقْتِ الَّذِي يَحْرُمُ فِيهِ الطَّعَامُ ...رقم الحديث: ٢٠٣٥(٢٠٣٧)

(١١) صحيح ابن حبان  » كِتَابُ الصَّوْمِ  » بَابُ السَّحُورِ، رقم الحديث: ٣٥٤٤+٣٥٤٥(٣٤٦٢+٣٤٦٣)

(١٢) المعجم الكبير للطبراني  » بَابُ الظَّاءِ  » مَنِ اسْمُهُ عَدِيٌّ، رقم الحديث: ١٣٦٥٦-١٣٦٦١(١٧٢-١٧٩)

(١٣) مسند الحميدي  » أَحَادِيثُ رِجَالِ الأَنْصَارِ  » حَدِيثُ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمِ الطَّائِيِّ رَضِيَ اللَّهُ ...رقم الحديث: ٨٨٨(٩٤١)

(١٤) معرفة السنن والآثار للبيهقي  » كتاب الصيام  » باب وقت الصوم، رقم الحديث: ٢١٥٣(٢٤٧١)

*********************************************
حدیث:3

 عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا ، قَالَ عَطَاءٌ : فَقُلْتُ : إِنَّمَا طَلَاقُ الْبِكْرِ وَاحِدَةٌ ، فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : " إِنَّمَا أَنْتَ قَاصٌّ ، الْوَاحِدَةُ تُبِينُهَا ، وَالثَّلَاثَةُ تُحَرِّمُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ " .

[موطأ مالك ت الأعظمي  » كِتَاب الطَّلَاقِ  » بَابُ طَلَاقِ الْبِكْرِ، رقم الحديث:2109]

ترجمہ: 
عطا بن یسارؒ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبدللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مسئلہ پوچھا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو صحبت سے پہلے تین طلاق دیں، (تو) عطاءؒ نے فرمایا کہ باکرہ کو ایک ہی طلاق پڑتی ہے. (تو) حضرت عبداللہ ؓ بولے کہ تم تو نرے واعظ آدمی ہو (یعنی فتویٰ دینا کیا جانو)، ایک طلاق سے تو وہ بائن ہوجاتی ہے اور تین طلاق سے حلالہ کرانے تک حرام ہوجاتی ہے.

فائدہ:
امام عطاءؒ کے فتویٰ کو، باوجود ان کے اتنے بڑے محدث و عالم ہونے کے، حضرت عبدللہ نے محض ان کی قوتِ اجتہادیہ کی کمی سے معتبر و معتدبہ نہیں سمجھا، اور "إنما أنت قاص" سے ان کے مجتہد نہ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا، جس کا حاصل یہ ہے کہ نقلِ روایت اور بات ہے اور افتاء و اجتہاد اور بات ہے. آگے اس کی دلیل سننے کے باوجود حافظ الحدیث ہونے کے مجتہد نہ ہونا ممکن ہے.

***************************************************
حدیث:4

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الِلَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :" نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى غَيْرِ فَقِيهٍ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ .
[جامع الترمذي  » كِتَاب الْجُمُعَةِ  » أَبْوَابُ السَّفَرِ، رقم الحديث:2657+2658]

ترجمہ:
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: تروتازہ فرمائے الله تعالیٰ اس بندے کو جو میری حدیث سنے اور اس کو یاد رکھے اور دوسرے کو پہنچاوے کیونکہ بعض پہنچانے والے علم کے خود فقیہ (سمجھ کھنے والے) نہیں ہوتے اور بعضے ایسوں کو پہنچاتے ہیں جو اس پہنچانے والے سے زیادہ فقیہ (سمجھ کھنے-والے) ہوتے ہیں.

فائدہ: 
اس حدیث میں صاف تصریح ہے کہ بعضے محدث، حافظ الحدیث صاحبِ فہم نہیں ہوتے  یا قلیل الفہم ہوتے ہیں.


تخريج الحديث: 

(١) مسند الإمام الشافعي ( ترتيب سنجر)  » كِتَابُ فَضَائِلِ قُرَيْشٍ وَغَيْرِهِمْ وَأَبْوَابٍ ...  » بَابُ النَّصِيحَةِ، رقم الحديث:1102

مسند الشافعي  » مُسْنَدُ الشَّافِعِيُّ  » وَمِنْ كِتَابِ إِيجَابِ الْجُمُعَةِ، رقم الحديث: 1182

(٢) مسند الحميدي  » أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ ...رقم الحديث:88

(٣) مسند ابن أبي شيبة »  رقم الحديث:296

(٤) سنن ابن ماجه  » كِتَاب ابْنُ مَاجَهْ  » أَبْوَابُ فِي فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ...رقم الحديث:232

(٥) مسند أحمد بن حنبل  » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ...  » مُسْنَدُ المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ، رقم الحديث:4146

(٦) مسند أبي يعلى الموصلي  » مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، رقم الحديث: 5126+5296

البحر الزخار بمسند البزار  » البحر الزخار مسند البزار  » وأول السادس عشر وهو الثاني من حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ ...،رقم الحديث:2014-2018

(٧) المسند للشاشي  » مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ ...  » مَا رَوَى عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ , مِنْهُمْ ...رقم الحديث:275-278

(٨) صحيح ابن حبان  » كِتَابُ الْعِلْمِ  » بَابُ الزَّجْرِ عَنْ كِتْبَةِ الْمَرْءِ السُّنَنَ ...رقم الحديث:66-69

(٩) المعجم الأوسط للطبراني  »  بَابُ الْأَلِفِ  » مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ [بَابُ الْمِيمِ  » مَنِ اسْمُهُ : مُحَمَّدٌ]، رقم الحديث: ١٣٢٧+١٦٣٨(١٣٠٤+١٦٠٩)، [رقم الحديث: ٧٨٩٢+٥٣٢١(٧٦٩٠+٥١٧٩)

(١٠) حديث أبي الفضل الزهري  » بَابُ : ثَوَابِ لِا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، رقم الحديث: 604-607

(١١) معرفة السنن والآثار للبيهقي » رقم الحديث: ٤(٥)
شعب الإيمان للبيهقي  » الثَّامِنَ عَشَرَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ...رقم الحديث: ١٦٠٦
دلائل النبوة للبيهقي » رقم الحديث: ١+٢٩٢٥(١:٢٦+٦:٥٤٠)

(١٢) التمهيد لابن عبد البر  » باب السين  » سهيل بن أبي صالح، رقم الحديث: ٣٨٥٣(٢١:٢٧٨)

(١٣) الكفاية في علم الرواية للخطيب  » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 46+515+516

(١٤) جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر  » بَابُ دُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ...رقم الحديث: 188-199

(١٥) المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم  » ذِكْرُ الْمَأْثُورِ عَنِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ ...رقم الحديث: 9

أخبار أصبهان لأبي نعيم  » وَهَذَا كِتَابُ صُلْحِ إَصْبَهَانَ  » بَابُ الْعَيْنِ، رقم الحديث: ١٦٠٧(٢:٥١)

حلية الأولياء لأبي نعيم  » مَا ذَكَرَ جِبْرِيلُ ... رقم الحديث:11122

*********************************************
تحقیقِ حقیقتِ قوتِ اجتہادیہ:

اب وہ حدیثیں سنیے جن سے قوتِ اجتہادیہ کی حقیقت منکشف ہوتی ہے:

حدیث:1

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ ، لِكُلِّ حَرْفٍ مِنْهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ ، وَلِكُلِّ حَرْفٍ حَدٌّ ، وَلِكُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ " .
[جامع الأحاديث:5819]

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، اور ہر حد کے لئے طریقہ اطلاع جداگانہ ہے۔

فائدہ:
یعنی مدلولِ ظاہری کے لئے علومِ عربیہ اور مدلولِ خفی کے لئے قوتِ فھمیہ ہے۔ مثلاً: الله پاک نے فرمایا: *اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔*[الحجرات:6] اس آیت میں دلالت پائی جاتی ہے کہ ایک *عادل کی خبر(بغیرتحقیق)قبول کرلی جائے* گی کیونکہ اگر ہم اس کی خبر پر بھی توقف کریں گے تو ہم فاسق و عادل کو برابر ٹھہرانے والے بن جائیں گے اور یہاں فاسق کی ’’تخصیص‘‘ بےفائدہ ہوجائے گی۔[تفسیر مدارک(امام نسفی):3/350] فاسق گناہگار کو کہتے ہیں جو(ظاہری)کبیرہ گناہ کرکے اسلام کے طریقہ اعتدال وعادلانہ سے نکل جاتا ہو۔


تخريج الحديث: 

(١)  مسند أبي يعلى الموصلي  » مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، رقم الحديث:5304


(٢) مشكل الآثار للطحاوي  » بَابُ مَوَارِيثِ ذَوِي الأَرْحَامِ ، رقم الحديث:3095

(۳) صحيح ابن حبان » 75

(۴) المعجم الاوسط للطبراني
 » 773

(۵) مسند البزار » 2081

(٦) جامع البيان عن تأويل آي القرآن  » الْقَوْلُ فِي اللُّغَةِ الَّتِي نَزَلَ بِهَا الْقُرْآنُ ...رقم الحديث: ٩(١:٢٢)


******************************

حدیث:2

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قال  سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى "إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا"(البقرة آية ١٥٨).قُلْتُ فَوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ، قَالَتْ : بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي ، إِنَّ هَذِهِ لَوْ كَانَتْ كَمَا أَوَّلْتَهَا عَلَيْهِ كَانَتْ لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَتَطَوَّفَ بِهِمَا وفي هذا الحديث قال الزهري  فأَخْبَرْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَقَالَ : إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ مَا كُنْتُ سَمِعْتُهُ...أخرجه الستة۔

ترجمہ:

حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِاللّٰهِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا ۔۔۔۔۔ بے شک صفا اور مروہ نشانیوں میں سے ہیں اللہ کی، سو جو کوئی حج کرے بیت اللہ کا یا عمرہ، تو کچھ گناہ نہیں اس پر کہ طواف کرے ان دونوں میں...(البقرہ:١٥٨) اور میں نے کہا کہ اس آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص صفا اور مروہ کا طواف نہ کرے تو اس کو گناہ نہ ہوگا (جیسا ظاہر ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ گناہ نہیں ہے جو طواف کرے متبادر إلى الذهن اس سے یہی ہے کہ طواف مباح ہے اگر نہ کرے تو بھی جائز ہے). حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ اے بھانجے! تم نے بری غلط بات کہی، اگر یہ آیت اس معنى کو مفید ہوتی، جو تم سمجھے ہو، تو عبارت یوں ہوتی: ’’لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَتَطَوَّفَ بِهِمَا‘‘ یعنی طواف نہ کرنے میں گناہ نہیں. زہریؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر بن عبدالرحمنؒ کو یہ خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے یہ علم (اب تک) نہ سنا تھا.


تخريج الحديث: 

(١) صحيح البخاري  » كِتَاب الْحَجِّ  » بَاب وُجُوبِ الصَّفَا والمروة وَجُعِلَ مِنْ شَعَائِرِ ...رقم الحديث:1541

صحيح البخاري  » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ  » سُورَةُ الْبَقَرَةِ  » بَاب قَوْلِهِ : إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ ...رقم الحديث:4495

صحيح البخاري  » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ  » سُورَةُ وَالنَّجْمِ  » بَاب وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى سورة النجم ...رقم الحديث:4861


(٢) صحيح مسلم  » كِتَاب الْحَجِّ  » بَاب بَيَانِ أَنَّ السَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ...رقم الحديث:1280+1279

(٣) سنن أبي داود  » كِتَاب الْمَنَاسِكِ  » بَاب أَمْرِ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةِ، رقم الحديث: 1901

(٤) موطأ مالك رواية يحيى الليثي  » كِتَاب الْحَجِّ  » بَابُ جَامِعِ السَّعْيِ، رقم الحديث: 816

(٥) السنن الكبرى للنسائي  » كتاب الحج  » أَبْوَابُ الطَّوَافِ  » الصَّفَا وَالْمَرْوَة، رقم الحديث:3947

السنن الكبرى للنسائي  » كِتَابُ التَّفْسِيرِ  » سُورَةُ النَّجْمِ  » قَوْلُهُ تَعَالَى : وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى ...رقم الحديث:11484

(٦) مسند الربيع بن حبيب  » بَابٌ فِي الْكَعْبَةِ وَالْمَسْجِدِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ...رقم الحديث: 416

(٧) مسند إسحاق بن راهويه  » مَا يُرْوَى عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ ...رقم الحديث: 690-691

(٨) مسند أحمد بن حنبل  » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ...  » سادس عشر الأنصار  » حَدِيثُ السَّيِّدَةِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ...رقم الحديث:24769

(٩) صحيح ابن خزيمة  » كِتَابُ الْمَنَاسِكِ  » جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ ...  » بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ اللَّهَ عَزَّ ...رقم الحديث:2597

(١٠) مستخرج أبي عوانة  » كِتَابُ الْحَجِّ  » بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُوجِبِ عَلَى مُتَوَلِّي ...رقم الحديث:3321

(١١) مشكل الآثار للطحاوي  » بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ...رقم الحديث: 3935

أحكام القرآن الكريم للطحاوي  » كِتَابُ الْحَجُّ وَالْمَنَاسِكَ  » تأويل قَوْلِهِ تَعَالَى : إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ ...رقم الحديث:1305+1307

(١٢) تفسير ابن أبي حاتم  » سُورَةُ الْبَقَرَةِ  » قَوْلُهُ : وَاشْكُرُوا لِي سورة البقرة آية 152 » قَوْلُهُ : وَلا تَكْفُرُونِ سورة البقرة آية ١٥٢ ...رقم الحديث:1430

(١٣) صحيح ابن حبان  » كِتَابُ الْحَجِّ  » بَابُ السَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ  » ذِكْرُ الْخَبَرِ الدَّالِّ عَلَى أَنَّ السَّعْيَ بَيْنَ ...رقم الحديث:3839

(١٤) المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » بَابٌ فِي أَوْقَاتِ الصَّلاةِ  » بَابٌ مِنْهُرقم الحديث:2942

(١٥) السنن الكبرى للبيهقي  » كِتَابُ الْحَجِّ  » جُمَّاعُ أَبْوَابِ مَا يُجْزِئُ مِنَ الْعُمْرَةِ إِذَا ...  » بَابُ وُجُوبِ الطَّوَافِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ...رقم الحديث: ٨٦٦٠+٨٦٦١(٥:٩٦)

(١٦) معالم التنزيل تفسير البغوي  » فصل فِي وعيد من قَالَ فِي القرآن برأيه من غير علم ...  » سورة البقرة، رقم الحديث:56

(١٧) مسند أبي يعلى الموصلي  » مُسْنَدُ عَائِشَةَ، رقم الحديث:4730

******************************
حدیث:3

أن ابن مسعود في فضل ألصحابة كَانُوا أَفْضَلَ هَذِهِ الْأُمَّةِ: أَبَرَّهَا قُلُوبًا، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا-

ترجمہ:

حضرت ابن مسعودؓ سے صحابہؓ کی فضیلت میں روایت ہے کہ وہ حضرات تمام امت میں افضل تھے، سب سے زیادہ ان کے قلوب پاک تھے، سب سے زیادہ ان کا علم عمیق(گہرا) تھا، سب سے کم ان کا تکلف تھا.

[منهاج السنة النبوية : ج6 ص39]

فائدہ:

جیٰسے اللہ پاک کے اس فرمان کہ:تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے چنے گئے ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔۔۔[سورۃ آل عمران:110] کی تفسیر میں منقول ہے کہ امیر المومنین عمر بن الخطابؓ نے فرمایا اگر اللہ تعالی چاہتا تو فرماتا انتم‘ تو ہم سب اس میں شامل ہوجاتے لیکن فرمایا کنتم اور یہ صرف حضور ﷺ کے صحابہ کے لئے خاص ہے اور جس نے ان کے اعمال جیسے اعمال کئے وہ بھی خیر امت میں داخل ہونگے۔(تفسیر طبری:7608، الدرالمنثور:2/293، جامع الاحادیث:30413]

تخریج:

(١) أصول اعتقاد أهل السنة: ج62 ص5

(2) جامع بيان العلم وفضله:1810

(3) شرح السنة للبغوی: 1 / 214

(4) الحجة في بيان المحجة:498 (2 / 519)

(5) ذم التأويل لابن قدامۃ: 62

(6) جامع الأصول في أحاديث الرسول:80

(7) مرقاة المفاتيح: 193 (1 / 274)

(8) مرعاة المفاتيح:193 (1 /295)

******************************

حديث:4

عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مِنَ الوَحْيِ إِلَّا مَا فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ وَالَّذِي فَلَقَ الحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ رَجُلًا فِي القُرْآنِ

ترجمہ:

حضرت ابو جحیفہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپ کے پاس کچھ ایسے مضامین لکھے ہوئے ہیں جو کتاب الله میں نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا قسم اس ذات کی جس نے دانے کو شگاف دیا اور جان(روح) کو پیدا کیا، ہمارے پاس کوئی ایسا علم نہیں سوائے "فہم خاص" کے، جس کو الله تعالیٰ قرآن میں کسی کو عطا فرماویں۔

[صحيح البخاري » كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ » بَابُ فَكَاكِ الأَسِيرِ، رقم الحديث: 3047]



تخريج الحديث:

(١) صحيح البخاري  » كِتَاب الدِّيَاتِ  » بَاب لَا يُقْتَلُ الْمُسْلِمُ بِالْكَافِرِ، رقم الحديث: 6915

(٢) مسند أبي يعلى الموصلي  » مُسْنَدُ عَليِّ بْنِ أَبِي طَالبٍ، رقم الحديث:451

(٣) مسند الشافعي  » مُسْنَدُ الشَّافِعِيُّ  » وَمِنْ كِتَابِ إِيجَابِ الْجُمُعَةِ، رقم الحديث: 925

(٤) مصنف ابن أبي شيبة  » كِتَابُ الزَّكَاةِ  » أَبْوَابُ إِخْرَاجِ الزَّكَاةِ، رقم الحديث: 27920

(٥) مسند الحميدي  » أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ ...، رقم الحديث:40

(٦) السنن الكبرى للنسائي  » كِتَابُ الْقَسَامَةِ  » سُقُوطُ الْقَوَدِ مِنَ الْمُسْلِمِ لِلْكَافِرِ، رقم الحديث:6920

(٧) جامع الترمذي  » كِتَاب الدِّيَاتِ  » بَاب مَا جَاءَ لَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ، رقم الحديث: 1329

(٨) سنن ابن ماجه  » كِتَاب الدِّيَاتِ  » بَاب لَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ، رقم الحديث:2650

******************************
حديث:5

عَن زيد بن ثَابت قَالَ: أرسل إِلَيّ أَبُو بكر مقتل أهل الْيَمَامَة، فَإِذا عمر جالسٌ عِنْده، فَقَالَ أَبُو بكر: إِن عمر جَاءَنِي فَقَالَ: إِن الْقَتْل قد استحر يَوْم الْيَمَامَة بقراء الْقُرْآن، وَإِنِّي أخْشَى أَن يستحر الْقَتْل بالقراء فِي كل المواطن، فَيذْهب من الْقُرْآن كثير، وَإِنِّي أرى أَن تَأمر بِجمع الْقُرْآن. قَالَ: قلت لعمر: وَكَيف أفعل شَيْئا لم يَفْعَله رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم؟ فَقَالَ عمر: هُوَ وَالله خيرٌ. فَلم يزل يراجعني فِي ذَلِك حَتَّى شرح الله صَدْرِي للَّذي شرح لَهُ صدر عمر، وَرَأَيْت فِي ذَلِك الَّذِي رأى عمر.

[الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم(ابن أبي نصرالحَمِيدي م488هـ) حدیث؍۹]

ترجمہ:

حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جنگ اہلِ یمامہ میں حضرت ابوبکرؓ نے میرے بلانے کیلئے آدمی بھیجا وہاں جاکر دیکھتا ہوں کہ حضرت عمرؓ بھی بیٹھے ہیں، حضرت ابوبکرؓ نے قصہ بیان کیا کہ حضرت عمرؓ نے میرے پاس آکر یہ صلاح دی کہ واقعہ یمامہ میں بہت سے قراء(قاری حضرات) قرآن کے کام آئے مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح سب جگہ یہ لوگ کام آتے رہے تو قرآن پاک کا بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا اس لیے میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن پاک جمع کرنے کا امر(حکم) فرمادیں، میں نے حضرت عمرؓ کو جواب دیا کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ میں کس طرح کروں؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ کام خیر محض ہے۔ بس برابر باربار اسی کو کہتے رہے حتیٰ کہ جس باب میں ان کو شرح صدر(سینہ کھلنا)اور اطمینان تھا مجھ کو بھی شرح صدر ہوگیا۔


تخريج الحديث:

(١) صحيح البخاري  » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ  » سُورَةُ بَرَاءَةَ  » بَاب قَوْلِهِ : لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ ...،رقم الحديث: ٤٣٣٨(٤٦٧٩)

(٢) صحيح البخاري  » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ  » سُورَةُ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، رقم الحديث: ٦٦٨٣(٧١٩١٠

(٣) جامع الترمذي  » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ  » بَاب وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ، رقم الحديث: ٣٠٤٨

(٤) السنن الكبرى للنسائي  » كِتَابُ : الْمَنَاقِبِ  » مَنَاقِبُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ ...، رقم الحديث: ٧٩٧٧(٨٢٣٠) 



فائدہ:

مذکورہ احادیثِ پنجگانہ سے چند امور معلوم ہوتے:
1) امر یہ کہ نصوص کے بعض معانی ظاہر ہیں اور بعض مدلولات خفی و دقیق کہ وہ اسرار و علل و حکم ہیں، چناچہ قرآن پاک کے باب میں حدیثِ اول اس پر صراحتا دال ہیں اور اس میں ان ہی مدلولات کو بطنِ قرآن فرمایا گیا ہے. اور حدیث کے باب میں اس حدیث سے اوپر والی حدیث کہ وہ بھی حضرت ابنِ مسعودؓ سے مروی ہے دلالت کرتی ہے کیونکہ صرف معانی ظاہرہ کے اعتبار سے شاگرد کے استاد سے افضل و افقہ ہونے کی کوئی معنیٰ نہیں. اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں درجہ مدلول کی حدیث میں بھی ہیں.

2) امر یہ کہ نصوص کے سمجھنے میں لوگوں کے افہام متفاوت ہوتے ہیں، کوئی ظاہرِ نص تک رہ جاتی ہے کوئی بطنِ نص تک پہنچ جاتا ہے. چناچہ حدیثِ دوم اس پر دال ہے کہ آیت میں جو نکتہ دقیقہ ہے باوجود زیادہ خفی نہیں ہے مگر حضرت عروہؓ اس کو نہ سمجھ سکے اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا اس کو سمجھ گئیں اور چونکہ نہایت لطیف بات تھی. زہری سے ابو بکر بن عبدالرحمٰن نے سن کر اس پر مسرت ظاہر کی اور اسے علم کہا.

3) امر یہ کہ اس تفاوتِ افہام میں ہر درجہ زیادتِ فہم کا، موجبِ فضل و شرف نہیں. ورنہ اس سے تو کوئی دو شخص بھی باہم خالی نہیں، بلکہ (یہ) کوئی خاص درجہ ہے، جو کہ اپنے دقیق و عمیق ہونے سے موجبِ فضل و شرف اور اس درجہ میں اس کو علمِ معتدبہ سمجھا جاتا ہے، چناچہ حدیثِ سوم اس پر صراحتا دال ہے.

4) امر یہ کہ وہ درجہ خاص فہم کا مکتسب (کماکر پایا جانے-والا) نہیں ہے، محض ایک امرِ وہبی(عطائے خداوندی) ہے. چناچہ حدیثِ پنجم اس پر دال ہے. اول حضرت ابو بکرؓ کو بوجہِ ظاہر احادیث ذمِ بدعت کے اس کے خیر ہونے میں اس میں تردد ہوام مگر جب ان کے قلب پر مدلولِ خفی اور سر حکمِ اجتناب عن البدعة وارد ھوۓ تو اس کا کلیہ حفظِ دین ماموربہ میں داخل ہونا منکشف ہوکر (کھل-کر) اس کے خارج عن البدعة ہونے میں اطمینان حاصل ہوگیا. اور بعض احادیثِ مذکورہ امورِ خمسہ میں سے متعدد امور پر بھی دال ہیں. چانچہ تعامل سے معلوم ہوسکتا ہے، مگر اختصار کے لئے زیادت خصوصیت کے لحاظ سے ایک ایک کو ایک ایک کا مدلول ٹھہرایا گیا. سو مرادِ قوتِ اجتادیہ سے اسمِ فہم مذکور فی الحدیث کا وہ خاص درجہ حاصل ہے. 

پس حاصل اس کی حقیقت کا احادیثِ بالا سے یہ مستفاد ہوا کہ وہ ایک ملکہ و قوتِ فھمیہ علمیہ خاصہ وہبیہ ہے. جس کے استعمال کی وساطت سے اہل(فقیہ) اس قوت سے نُصوص کے مدلولاتِ خفیہ و معنىِ دقیقہ اور احکام کے اسرار و علل یعنی احکامِ تکلیفیہ و احکامِ وضعیہ پر مطلع ہوکر اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں اور دوسروں کی وہاں تک رسائی بھی نہیں ہوتی گو دوسرے وقت یہی اطمینان دوسری شق میں ہوجاوے، اس وقت پہلی شق سے رجوع کرلیتے ہیں اور یہی قوت ہے جس کو فہم اور فقہ اور راۓ و اجتہاد و استنباط و شرحِ صدر وغیرہ عنوانات سے آیات و احادیث میں جابجا تعبیر کیا گیا ہے.



******************************

مقصدِ چہارم : مشروعیتِ تقلیدِ شخصی اور اس کی تفسیر:

حدیث:1

عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : " إِنِّي لَا أَدْرِي مَا بَقَائِي فِيكُمْ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي " , وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ .
[جامع الأحاديث:9351 ، 37391]

ترجمہ:

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے نہیں معلوم کہ کب تک میں تم لوگوں میں ہوں۔ لہذا میرے بعد تم ابوبکرؓ اور عمر ؓ کی پیروی کرنا۔

فائدہ:

"من بعدی" سے مراد (نبی کی غیرحاضری میں) ان صاحبوں کی حالتِ خلافت ہے، کیوں کہ بلاخلافت تو دونوں صاحب آپ کے روبرو بھی موجود تھے. پس مطلب یہ ہوا کہ ان کے خلیفہ(نائب) ہونے کی حالت میں ان کی اتباع کرنا اور ظاہر ہے کہ خلیفہ ایک ایک ہوں گے. پس حاصل یہ ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں تو ان کا اتباع کرنا، حضرت عمرؓ کی خلافت میں ان کا اتباع کرنا، پس ایک زمانہ خاص تک ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان کے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلیا کرنا. اور نہ یہ عادت مُستمِرّہ(جاریہ) تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلیدِ شخصی ہے. کیونکہ حقیقتِ تقلیدِ شخصی یہ ہے کہ ایک شخص کو جو مسئلہ پیش آئے وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے اور اس سے تحقیق کر کے عمل کیا کرے. اور اس مقام میں اس کے وجوب  سے بحث نہیں اور آگے مذکور ہے اس کا جواز اور مشروعیت اور موافقت اور سنّت ثابت کرنا مقصود ہے، گویا ایک معین زمانے کے لئے سہی.

تخريج الحديث:

(١) مسند الحميدي » أَحَادِيثُ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ۔۔۔  رقم الحديث:454

(٢) مسند أحمد بن حنبل  » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ...  » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ  » حَدِيثُ حُذَيْفَةَ بنِ الْيَمَانِ عَنِ النَّبيِّ صَلَّى ... رقم الحديث:23245، 23276، 23386، 23419

(٣) سنن ابن ماجه  » كِتَاب ابْنُ مَاجَهْ  » أَبْوَابُ فِي فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ...  » بَاب فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ ...رقم الحديث:97

(٤) جامع الترمذي  » كِتَاب الدَّعَوَاتِ  » أبوابُ الْمَنَاقِبِ  » بَاب فِي مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ ...+ بَاب مَنَاقِبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رَضِيَ اللَّهُ ...رقم الحديث:3662

(٥) مصنف ابن أبي شيبة  » كِتَابُ الزَّكَاةِ  » أَبْوَابُ إِخْرَاجِ الزَّكَاةِ، رقم الحديث:31942، 37049

(٦) مشكل الآثار للطحاوي  » بَابُ مَوَارِيثِ ذَوِي الأَرْحَامِ، رقم الحديث: 1224، 1227، 1233

(٧) صحيح ابن حبان  » كِتَابُ التَّارِيخِ  » بَابُ إِِخْبَارِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ...رقم الحديث:6902

(٨) المعجم الأوسط للطبراني  » بَابُ الْعَيْنِ  » مَنِ اسْمُهُ : عَلِيٌّ، رقم الحديث: 3816
المعجم الأوسط للطبراني  » بَابُ الْمِيمِ  » مَنِ اسْمُهُ : مُحَمَّدٌ، رقم الحديث:  5503، 5840

(٩) المستدرك على الصحيحين  » كِتَابُ التَّفْسِيرِ  » تَفْسِيرُ سُورَةِ النَّاسِ، رقم الحديث: 4451-4455

(۱۰) السنن الكبرى للبيهقي  » كِتَابُ النَّفَقَاتِ  » جِمَاعُ أَبْوَابِ كَفَّارَةِ الْقَتْلِ، رقم الحديث:10056، 16590، 16591

******************************

حدیث:2

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَسَّانَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، وَرَّثَ أُخْتًا وَابْنَةً فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَنَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ حَيٌّ .

ترجمہ:

أسود بن يزيدؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ  ہمارے پاس معاذؓ (بن جبل) یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا۔

[سنن أبي داود  » كِتَاب الْفَرَائِضِ  » بَاب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الصُّلْبِ، رقم الحديث: 2893]

فائدہ:
یہ وہ حدیث ہے جو مقصدِ اول میں حدیث(4) میں گزر چکی ہے. اس سے جس طرح تقلید کا سنّت ہونا ثابت ہے. جیسا کہ اس مقام پر تقریر کی گئی. اسی طرح تقلیدِ شخصی بھی ثابت ہوتی ہے. کیونکہ جب رسول الله ﷺ نے تعلیمِ احکام کے لئے یمن بھیجا تو يقينا اہلِ یمن کو اجازت دی کہ ہر مسئلے میں ان سے رجوع کریں اور یہی تقلیدِ شخصی ہے، جیسا ابھی اوپر بیان ہوا.

تخريج الحديث:

(١) شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الْفَرَائِضِ » بَابُ الرَّجُلِ يَمُوتُ وَيَتْرُكُ بِنْتًا وَأُخْتًا وَعَصَبَةً سِوَاهَا ... رقم الحديث:7415

(٢) سنن الدارقطني » كِتَابُ الْفَرَائِضِِ ... رقم الحديث:4108
(٣) العلل لابن أبي حاتم »  بَابُ عَمْرٍو رقم الحديث: ١٦١٢(١٦٣٧)

(٤) المسند للشاشي  » مُسْنَدُ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ...  » الأَسْوَدُ بْنُ يَزِيدَ عَنْهُ، رقم الحديث: ١٣٠٠(١٣٧١)



شواهد الحديث:


(١) صحيح البخاري » كِتَاب الْفَرَائِضِ  » بَاب مِيرَاثِ الْبَنَاتِ، رقم الحديث:6734

(٢) مسند الدارمي » كِتَاب الْفَرَائِضِ » بَابٌ: فِي ابْنَةٍ وَأُخْتٍ ... رقم الحديث:2921

(٣) المستدرك على الصحيحين للحاكم » كِتَاب الْفَرَائِضِ » ... رقم الحديث:8012

(٤) السنن الكبرى للبيهقي » كِتَاب الْفَرَائِضِ » بَابُ الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةٌ ... رقم الحديث:12331
******************************

حديث:3

عن هزيل بن شرحبيل في حديث طويل مختصره قال سئل أبو موسى ثم سئل ابن مسعود وأخبر بقول أبو موسى فخلفه ثم أخبر أبو موسى بقوله فقال لا تسألوني ما دام هذا الحبر فيكم۔

[الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم(ابن أبي نصرالحَمِيدي م488هـ) حدیث#307]

ترجمہ:

خلاصہ اس حدیث طویل کا یہ ہے کہ حضرت هذيل بن شرحبيلؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوموسیٰؓ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا پھر وہی مسئلہ حضرت ابنِ مسعودؓ سے پوچھا گیا اور حضرت ابو موسیٰؓ کے فتویٰ کی بھی ان کو خبر دی گئی تو انہوں نے اور طور سے فتویٰ دیا، پھر ان کے فتویٰ کی خبر حضرت ابو موسیٰؓ کو دی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک یہ عالم متبحر تم لوگوں میں موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھا کرو۔

فائدہ:
حضرت ابوموسیٰؓ کے اس فرمانے سے کہ ’’ان کے ہوتے ہوئے مجھ سے مت پوچھو‘‘ سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہر مسئلہ میں ان سے پوچھنے کے لئے فرمایا ہے اور یہی تقلیدِ شخصی ہے کہ ہر مسئلہ میں کسی مرجح کی وجہ سے کسی ایک عالم سے رجوع کرکے عمل کرے.

تخريج الحديث:

(١) صحيح البخاري  » كِتَاب الْفَرَائِضِ  » بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ، رقم الحديث: 6736

(٢) الآثار لأبي يوسف » كِتَاب الْفَرَائِضِ ، رقم الحديث:613

(٣) سنن الدارقطني » كِتَاب الْفَرَائِضِ ، رقم الحديث:4362

(٤) السنن الكبرى للبيهقي » كِتَاب الْفَرَائِضِ » بَابُ رَضَاعِ الْكَبِيرِ، رقم الحديث:15656

(٥) شرح السنة للبغوي » كِتَابُ الْفَرَائِضِ » بَاب مَيَراثِ الأَوْلادِ، رقم الحديث:2218

*******************************
مقصدِ پنجم :
اس زمانہ میں (باعتبارِ غالب حالت لوگوں کے) تقلیدِ شخصی ضروری ہے اور اس کے ضروری ہونے کی معنىٰ۔

1) اس کے ضروری ہونے کے معنىٰ بیان کیے جاتے ہیں تاکہ دعویٰ کا تعین ہوجائے. سو جاننا چاہیے کہ کسی شے کا ضروری اور واجب ہونا دو طرح پر ہے. ایک یہ کہ قرآن وحدیث میں خصوصیت کے ساتھ کسی امر کی تاکید ہو جیسے نماز و روزہ وغیرہ، ایسی ضرورت کو ’’وجوب بالذات‘‘ کہتے ہیں.

2) یہ کہ اس امر (بات/حکم) کی خود تو کہیں تاکید نہیں آئی  مگر جن اُمور(باتوں) کی خود قرآن وحدیث میں تاکید آئی ہے، ان اُمور پر عمل کرنا بدوں (بغیر) اس امر کے عادتاً ممکن نہ ہو اس لئے اس امر کو بھی ضروری کہا جائے اور یہی معنىٰ ہے علماء کے اس قول کی کہ ’’مقدمہ واجب کا(بھی) واجب ہے۔‘‘ جیسے قرآن وحدیث کا جمع کرکے لکھنا کہ شرع میں اس کی کہیں بھی تاکید نہیں آئی بلکہ ایک حدیث میں خود کتابت ہی کہ واجب نہ ہونے کی تصریح آئی ہے.

جیسے: مالِ یتیم کھانا یا زنا کرنا حرام ہے لیکن اس(کے مقدمہ یعنی اسباب ومحرکات)کے بھی قریب جانے سے قرآن مجید میں منع فرمایا۔
[دلائل،سورۃ الاسراء:32، الانعام:152]

حديث:4

أن ابن عمر قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : " إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ ، لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُبُ.

ترجمہ:
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم تو ایک اُمّی جماعت ہیں، نہ لکھنا جانیں نہ حساب.

[صحيح الجامع الصغير: حدیث#2282]

فائدہ:

دلالت Indication حدیث کی مطلوب پر ظاہر ہے اور جب مطلق(حکمِ عام کے مطابق) کتابت واجب نہیں تو کتابتِ خاصہ کیسے واجب ہوگی؟ لیکن ان کا محفوظ رکھنا اور ضایع ہونے سے بچانا ان اُمور پر تاکید آئی ہے، اور تجربہ اور مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بدوں (بغیر) مُقید بالکتاب کرنے کے محفوظ رہنا عادتاً ممکن نہ تھا، اس لئے قرآن و حدیث کا لکھنا ضروری سمجھا جاۓ گا، چنانچہ اس طور پر اس کے ضروری ہونے پر تمام امت کا دلالتا اتفاق چلا آرہا ہے، ایسی ضرورت کو ’’وجوب بالغیر‘‘ کہتے ہیں. جب وجوب کی قسمیں اور ہر ایک کی حقیقت معلوم ہوگئی تو جاننا چاہیے تقلیدِ شخصی کو جو ضروری اور واجب کہا جاتا ہے تو مراد اس وجوب سے وجوب بالغیر ہے نہ کہ وجوب بالذات. اس لئے ایسی آیت و حدیث پیش کرنا تو صحیح نہیں ہوا، جس میں تقلیدِ شخصی کا نام لیکر تاکیدی حکم آیا ہو جیسے کتابتِ قرآن و حدیث کے وجوب کے لئے دلیل کا مطالبہ نہیں کیا جاتا بلکہ باوجود اس کے کہ حدیثِ مذکور میں اس کے وُجوب(لازم ہونے) کی نفی مصرح Clear ہے پھر بھی واجب کہا جاتا ہے اور اس سے حدیث کی مخالفت نہیں سمجھی جاتی. اسی طرح تقلیدِ شخصی کے وجوب کے لئے نص پیش کرنے کی حاجت(ضرورت) نہیں البتہ دو مقدمے ثابت کرنا ضروری ہیں:
ایک مقدمہ یہ کہ وہ کون کون امور ہیں کہ اس زمانہ میں تقلیدِ شخصی نہ کرنے سے ان میں خلل پڑتا ہے۔ دوسرا مقدمہ یہ کہ وہ امور مذکورہ واجب ہیں۔

پہلے مقدمہ کا بیان یہ ہے کہ وہ امور یہ ہیں:
اول:- علم و عمل میں نیت کا خالص دین کے لئے ہونا.
[دلائل:صحیح بخاری:1،تفسیر سورۃ آل عمران:145،النساء:134،الانفال:67،ھود:15، الإسراء: 18، الشوریٰ:20]

دوم:- خواہشِ نفسانی پر دین کا غالب رکھنا یعنی خواہشِ نفسانی کو دین کا تابع بنانا، دین کو اس کے تابع نہ بنانا.
[دلائل:جامع الاحادیث:17365،تفسیر سورۃ الجاثیۃ:23، الاعراف:176 الکھف:28 طٰہٰ:16، القصص:50]

ثالث:- ایسے امر سے بچنا جس میں اندیشہ قوی ہو اپنے دین کے ضَرر(نُقص)کا.
[دلائل،سورۃ الاسراء:32، الانعام:152]

رابع:- اہلِ حق کے اجماع کی مخالفت نہ کرنا.
[دلائل،جامع ترمذی:2167، سبیل المومنین:سورۃ النساء:114، لفظ جميعا:سورة آل عمران:103]

خامس:- دائرہ احکامِ شرعیہ سے نہ نکلنا۔ 
[دلائل،آیاتِ تفرقہ:سورة آل عمران:105 النساء:150 الانعام:153+159 الروم:32 الشوریٰ:14 البینة:4، آیاتِ حدود:سورۃ النساء:13+14]


رہا یہ کہ تقلیدِ شخصی نہ کرنے سے ان میں خلل پڑتا ہے، سو یہ تجربہ اور مشاہدہ کے متعلق ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اس وقت اکثر طبیعتوں میں فسادِ غرض پرستی غالب ہے. چناچہ ظاہر ہے اور احادیثِ فتن میں اس کی خبر بھی دی گئی ہے، جو اہلِ علم پر مخفی نہیں ہے۔



تفصیلِ مفاسدِ ترکِ تقلیدِ شخصی:
 پس اگر تقلیدِ شخصی نہ کی جائے تو تین صورتیں پیش آئیں گی:
1) یہ کہ بعضے اپنے کو مجتہد سمجھ کر قیاس کرنا شروع کردیں گے اور احادیثِ جوازِ اجتہاد کو پیش کر کے کہیں گے کہ اس میں اجتہاد کو کسی جماعت کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا، ہم بھی لکھے پڑھے ہیں یا یہ کہ قرآن اور (حدیث کی کتاب: مثلا) مشکوٰۃ کا ترجمہ ہم نے بھی دیکھا ہے یا کسی عالم سے سنا ہے اور اس کو سمجھ گئے ہیں، پھر ہمارا اجتہاد کیوں نہ معتبر ہو، جب اجتہاد عام ہوگا تو احکام میں جس قدر تصریف و تحریف پیش آئے گی، تعجب نہیں. مَثَلاً ممکن ہے کوئی شخص کہے کہ جس طرح مجتہدین سابقین نے قوتِ اجتہادیہ سے بعض نُصوص Statements کو مُعلل Conditional سمجھا ہے اور عِلّت Reason اس کی یہ ہے کہ عرب کے لوگ اکثر اونٹ اور بکریاں چرایا کرتے تھے اور ان کے ہاتھ اکثر چھینٹ میں آلودہ ہوجاتے تھے اور وہ ہی ہاتھ مُنہ کو لگ جاتا تھا ان کو حکمِ وُضو ہوا تھا کہ یہ سب اعضاء پاک و صاف ہوجائیں اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ وضو میں وہی اعضاء دھوئے جاتے ہیں جو اکثر اوقات کھلے رہتے ہیں.
اور ہم چونکہ روزانہ غسل کرتے ہیں، محفوظ مکانوں میں آرام سے بیٹھے رہتے ہیں، ہمارا بدن خود پاک صاف رہتا ہے، اسی لئے ہم پر وضو واجب نہیں، بلاوضو نماز پڑھنا جائز ہے، حالانکہ یہ سمجھ لینا کہ کون سا حکم مُعلل Conditional ہے عِلّت Reason کے ساتھ اور کون سا حکم تَعِبُّدِی یعنی غیرمعلل Unconditional ہے، یہ حق خاص ائمہ مقبولین کا ہوچکا ہے۔
اس عِلّت کے ساتھ اگر زوجین میں اختلاف وخصومت(جھگڑا) ہو تو تحقیقِ حال ہی میں سہولت ہو. پس جہاں اس کا احتمال نہ ہو وہاں بلاشُہود نکاح جائز ہے. ونیز ممکن ہے کہ اپنے اجتہاد سے احکامِ منسوخہ بالاجماع کے بغیر منسوخ ہونے کا دعویٰ کرے، مثلا: مُتعہ کو جائز کہنے لگے۔ چناچہ ان تینوں مثالوں کا وُقوع سنا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان اقوال میں کس درجہ تحریفِ احکام اور مخالفتِ اجماعِ امتِ مرحومہ ہے، جس میں ترک ہے امرِ رابع(چوتھی بات یعنی مخالفِ اجماع ہونے) كا امرِ خمسہ(پانچویں بات) مذکورہ سے۔

حقیقتِ اجماع :

کیونکہ حقیقتِ اجماع کی یہ ہے کہ کسی عصر(زمانہ) کے جمیع علماء کسی امرِ دینی پر اتفاق کرلیں. اور اگر کوئی عمداً یا خطاً کوئی اس اجماع سے خارج رہے تو اس کے پاس کوئی دلیل محتملِ صحت(صحت کے حامل) نہ ہو اور خطاء میں وہ معذور بھی ہوگا.
اور ظاہر ہے کہ امثلہ مذکورہ Above Examples کے احکام ایسے ہی ہیں اور گو مُتعہ میں بعض کا خلاف(اعتراض) رہا مگر بِوجہِ غیر مستند إلى الدليل الصحيح ہونے کے وہ مذموم وقادحِ اجماع نہیں سمجھا گیا۔ غرض مطلقآً عدمِ شرکت، مُضرِ تحقیقِ اجماع نہیں ورنہ قرآن مجید کے یقیناً محفوظ اور متواتر ہونے کا دعوىٰ مشکل ہوجائے گا، کیونکہ احادیثِ بخاری سے ثابت ہے کہ حضرت ابیؓ بن کعب آیات المنسوخہ التلاوت کو  داخلِ قرآن سمجھتے تھے اور حضرت ابودرداءؓ سورۃ الیل کی آیت "وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰٓى" میں کلمہ "وَمَا خَلَقَ" کو، اور حضرت ابنِ مسعودؓ معوذتين (يعني سورت فلق اور سورہ ناس) کو خارجِ قرآن سمجھتے تھے، گویا اقوال تھوڑے ہی روز رہے ہوں۔ تو لازم آتا ہے کہ جُزو کا داخل ہونا اور غیرجُزو کا خارج ہونا، ہر زمانہ میں مجمع علیہ و یقینی تر ہے، حالانکہ ایک سماعت Listening کے اعتبار سے بھی اس کا کوئی قائل نہیں بلکہ اس کو تمام از منہ کے اعتبار سے یقینی اور محفوظ سمجھتے رہے۔ اور چونکہ ان حضرات کو استدلال میں یقینآً غلطی ہوئی، اسی لئے کسی نے سلفآً و خلفآً اس کو مضر و مخلِ اجماع نہیں سمجھا البتہ ان کو بھی شبہ کی وجہ سے معذور سمجھا۔ وہ حدیثیں یہ ہیں:

اجماع(خبرِ متراتر) کے خلاف خبرِ واحد مقبول نہیں۔

حديث#1

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: " أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ، وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ قَوْلِ أُبَيٍّ، وَذَاكَ أَنَّ أُبَيًّا يَقُولُ: لاَ أَدَعُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا} [البقرة: 106] 

ترجمہ:

حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرے تہیں کہ حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ ہم سب میں قرآن کے بہترین قاری حضرت ابی بن کعبؓ ہیں اور دینی احکام کو حضرت علیؓ زیادہ جانتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم ابی بن کعبؓ کی اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتے کہ میں قرآن کریم کی کسی آیت کی تلاوت کو نہیں چھوڑوں گا، جس کو میں نے رسول اللہ ﷺ سے ’سنا‘ ہے حالانکہ خود اللہ نے یہ فرما کر: مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا (البقرۃ:106) یه ثابت کردیا کہ قرآن کی بعض آیات منسوخ کی گئی ہیں۔


[صحيح البخاري » كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ » بَابُ قَوْلِهِ: {مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا} [البقرة: 106] ۔۔۔ رقم الحدیث:4481]




حديث#2

عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : دَخَلْتُ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ الشَّأْمَ ، فَسَمِعَ بِنَا أَبُو الدَّرْدَاءِ ، فَأَتَانَا ، فَقَالَ : أَفِيكُمْ مَنْ يَقْرَأُ ؟ فَقُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : فَأَيُّكُمْ أَقْرَأُ ؟ فَأَشَارُوا إِلَيَّ ، فَقَالَ : اقْرَأْ ، فَقَرَأْتُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى {1} وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى {2} وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى {3} سورة الليل آية 1-3 ، قَالَ : أَنْتَ سَمِعْتَهَا مِنْ فِي صَاحِبِكَ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : وَأَنَا سَمِعْتُهَا مِنْ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَؤُلَاءِ يَأْبَوْنَ عَلَيْنَا " .

ترجمہ:

علقمہؒ کہتے ہیں کہ میں عبیداللہ کے چند ساتھیوں کے ساتھ شام پہنچا، حضرت ابوالدرداءؓ نے جب ہم لوگوں کے آنے کی خبر سنی، تو وہ ہمارے پاس آئے اور کہا تم میں کوئی ہے جو قرآن پڑھے؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، انہوں نے کہا پڑھ، چنانچہ میں نے سورۃ (وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی 0 وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّی 0 وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى) پڑھی۔ انہوں نے پوچھا: کیا تو نے اپنے ساتھی سے سنا ہے؟ میں نے کہا ہاں! انہوں نے کہا: میں نے اس کو نبی ﷺ کے مُنہ سے سنا ہے اور وہ(شام کے)لوگ نہیں مانتے۔

[صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى, رقم الحديث:4943]



حديث#3
 عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، وحَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، قال : سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، قُلْتُ : يَا أَبَا المُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ : كَذَا وَكَذَا ، فقال أبي سألت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي : " قِيلَ لِي " ، فَقَلْتُ : قَالَ : فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ " .

ترجمہ:

زر بن حبیشؒ سے اور عاصم، زر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعبؓ سے کہا کہ اے ابوالمنذر! تمہارے بھائی ابن مسعودؓ ایسا ایسا کہتے ہیں (یعنی مُعَوّذَتَین قرآن سے نہیں) تو ابیؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے کہا گیا تھا (کہ یہ قرآن میں سے ہیں) تو میں بھی وہی کہتا ہوں ابیؓ نے کہا اور ہم بھی وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔

[صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ, رقم الحديث:4977]

فائدہ:


اجماع(خبرِ متراتر) کے خلاف خبرِ واحد مقبول نہیں۔

چونکہ تینوں حدیثوں کا خلاصۂ مضمون اوپر گذر چکا ہے ۔۔۔ (دیگر مسائل میں بھی) بالجملہ یہ خرابی تو عمومِ اجتہاد میں ہوگی اور ممکن ہے کہ ایسے اجتہاد کی کوئی تقلید بھی کرنے لگے. دوسرے یہ کہ اجتہاد کو مطلقا ً(بلکلیہ) ناجائز سمجھ کر نہ خود اجتہاد کریں گے نہ کسی کے اجتہاد پر عمل کریں گے، صرف ظاہر حدیث پر عمل کریں گے، سو اس میں ایک خرابی تو یہ ہوگی کہ جو احکام نُصوصِ صریحہ Statements میں مَسکُوت عنہ Silenced,Unspecified ہیں، ان میں وہ اپنے یا غیر کے اجتہاد پر اس لئے عمل نہیں کرسکتے کہ اس کو ناجائز سمجھتے ہیں اور صراحتا ًوہ حکم نُصوص میں مذکور نہیں۔ پس بجُز اس کے کہ کچھ بھی نہ کریں ترکِ عمل کر کے تعطل Deadlock و بطالت Rejection اختیار کریں اور کیا ہوسکتا ہے، اور یہ ترک ہے امرِ خامس(یعنی دائرہ شریعت سے نہ نکلنے) کا امورِ مذکورہ میں سے اور(یاد رہے کہ) ایسے احکام کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ اور حِصر مشکل ہے، چنانچہ جُزئیاتِ فتویٰ کا مطالعہ کرنے سے ظاہر ہوسکتا ہے۔




ترکِ تقلیدِ شخصی کی دوسری صورت اور اس کا خلل:

دوسری خرابی یہ ہوگی کہ بعض احادیث کے ظاہری معنىٰ پر یقیناً عمل جائز نہیں، جیسے یہ حدیث:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا سَفَرٍ»

ترجمہ:

حضرت ابن عباسؓ سے روایت میں ہے کہ (نبی ﷺ نے) نماز پڑھی ظہر اور عصر ایک ساتھ جمع کرکے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کرکے بدوں (سواۓ کسی) خوف کے اور بدوں سفر کے.

[صحیح مسلم » كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا » بَابُ الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ ۔۔۔ رقم الحدیث:705]


حالانکہ بلاعذر حقیقتاً جمع کرنا کسی(امام)کے نزدیک جائز نہیں(جیساکہ امام ترمذیؒ نے فرمایا کہ میں نے اپنی کتاب میں جو احادیث جمع کی ہیں وہ اہلِ علم میں قابلِ عمل رہی ہیں سوائے دو حدیثوں کے۔۔۔[العلل الصغیر:ص736]۔۔۔ان میں سے یہ ایک ہے)، اور جیسا کہ ظاہراً حدیث سے مفہوم ہوتا ہے اسی لئے اس میں قوتِ اجتہادیہ سے تأویل کی جاتی ہے{جیساکہ امام مالکؒ نے فرمایا وہ بارش میں پڑھی تھی[مؤطا مالك:480] یا حنفیہ کے مطابق کبھی کبھی جمعِ صوری کرکے یعنی پہلی نماز کو اس کے آخر وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے شروع وقت میں اکٹھی پڑھی[احمد:26338، طحاوی:985] یا نبی ﷺ نے زندگی میں حقیقی جمع بین الصلاتین صرف دو بار حج کے موقع پر عرفات ومزدلفہ میں کیا ہے۔[بخاری:1682،مسلم:1287، نسائی:606] وغیرہ}. پس ان احادیث کے ظاہر پر(بغیر تأویل)عمل کیا جائے گا تو(وقت پر نماز پڑھنے[سورۃ النساء:103] کے متواتر حکمِ قرآن اور دیگر متواتر صریح Specified احادیث پر) اجماع کی مخالفت لازم آۓ گی جس میں ترک ہے امرِ رابع(چوتھی بات) کا.


ترکِ تقلیدِ شخصی کی تیسری صورت اور اس کا خلل:

تیسری صورت یہ کہ نہ خود اجتہاد کریں نہ ہر جگہ ظاہر حدیث پر عمل کریں بلکہ مسائلِ مشکلہ میں ائمہ کی بلاتعین تقلید کریں، کبھی ایک مجتہد کے فتویٰ پر عمل کرلیا کبھی دوسرے کے فتویٰ کو لے لیا، سو اس میں بعض حالتوں میں تو اجماع کی مخالفت لازم آئے گی۔ مَثَلاً: ایک شخص نے وضو کرلیا، پھر خون نکلوایا، جس سے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کہا کہ میں امام شافعیؒ کا فتویٰ لیتا ہوں کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس کے بعد عورت کو شہوت سے ہاتھ لگایا جس سے امام شافعیؒ کے نزدیک وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور کہا کہ اس میں امام ابو حنیفہؒ کا فتویٰ لیتا ہوں کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اور بلاتجدیدِ وضو نماز پڑھ لی۔ چونکہ اس شخص کا وضو بالاجماع ٹوٹ چکا ہے گو سبب مختلف ہو، اس لئے سب کے نزدیک اس کی نماز باطل ہوئی۔ بس اس میں ترک ہوا امرِ رابع(یعنی چوتھی بات) کا امورِ مذکورہ(خمسہ) میں سے.

اور بعض حالتوں میں مخالفتِ اجماع کی لازم نہ آۓ گی مگر غرض پرستی کے غلبہ کی وجہ سے اس کا نفس مائلِ مختلفہ میں اسی قول(یا فتویٰ) کو لے گا جو اس کی خواہشِ نفسانی کے موافق ہو اور اس میں غرضِ ’دنیوی‘ حاصل ہوتی ہو، پس اس قول کو دین سمجھ کر نہ لے گا، بلکہ خاص غرض یہی ہوگی کہ اس میں مطلب نکلے تو یہ شخص دین کو ہمیشہ تابعِ خواہشِ نفسانی کے بناتے رہے گا. خواہشِ نفسانی کو دین کے تابع نہ کرے گا اور اس میں ترک ہے امرِ ثانی(یعنی دین مخالف نفس پرستی) کا امورِ مذکورہ میں سے، اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی نیت عمل میں اور تحقیق مسئلہ میں یہی ہوگی کہ حظِ نفس اور غرضِ دنیوی حاصل ہو۔ اگر ایک امام کا قول اس کی مصلحت کے موافق نہ ہوگا دوسرے کا تلاش کرے گا۔ غرض علمِ دین اور عملِ دین دونوں میں نیت اس کی خالص اور طلبِ رضاۓ حق نہ ہوگی اور اس میں ترک ہے امرِ اول کا امورِ مذکورہ میں سے. اور جس شخص کا نفس اس آزادی کا خوگر ہوجاۓ گا بعد چندے اس آزادی کا فروع سے اصول میں پہنچ جانا جو صریح ضررِ دین ہے عجیب و بعید نہیں بلکہ غالب و قریب ہے.

پس اس اعتبار سے اس بے قیدی کی عادت میں قوی اندیشہ ہے ضررِ دین کا اور یہ ترک ہے امرِ ثالث(تیسری بات) کا امورِ مذکورہ میں سے۔ پس اس تقریر سے بحمدللہ تعالیٰ یہ امر بخوبی واضح ہوگیا کہ ترکِ تقلیدِ شخصی سے یہ امور خمسہ بلاشبہ خلل پذیر ہوجاتے ہیں۔

اول:- علم و عمل میں نیت کا خالص دین کے لئے ہونا.

دوم:- خواہشِ نفسانی پر دین کا غالب رکھنا یعنی خواہشِ نفسانی کو دین کا تابع بنانا، دین کو اس کے تابع نہ بنانا.

ثالث:- ایسے امر سے بچنا جس میں اندیشہ قوی ہو اپنے دین کے ضَرر(نُقص)کا.

رابع:- اہلِ حق کے اجماع کی مخالفت نہ کرنا.

خامس:- دائرہ احکامِ شرعیہ سے نہ نکلنا اور تقلیدِ شخصی میں اس خلل کا معتدبہ انسداد اور علاج ہے۔


پس مقدمہ اولیٰ تو ثابت ہوچکا، رہا دوسرا مقدمہ یعنی ان امورِ خمسہ کا واجب بالذات ہونا سو یہ(درج ذیل) احادیث سے صراحتا ثابت ہے:


حديث#1
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال قال رسول الله ﷺ :  إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ.
[صحيح البخاري » بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ, رقم الحديث: 1]

ترجمہ: 
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمام اعمال نیت پر ہیں اور آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس کی نیت ہو، پس جس شخص کی ہجرت الله و رسول کی طرف مقصود ہو، اس کی ہجرت الله و رسول کی طرف واقع ہوتی ہے، اور جس شخص کی ہجرت دنیا کی طرف مقصود ہو کہ اس کو حاصل کرنا  چاہتا ہے یا کسی عورت کی طرف ہے کہ اس سے نکاح کرے گا تو اس کی ہجرت اسی شے کی طرف ہے جس کی طرف ہجرت کی ہے.

فائدہ:
اس حدیث سے امرِ اول یعنی نیت کے خالص ہونے کا اور ظاہر کرنے کا وجوب ظاہر ہے۔ دیکھو ہجرت کتنا بڑا عمل ہے جس سے بحکم دوسری حدیث کے سب گذشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں مگر جب اس میں دنیوی غرض آگئی تو اکارت ہوگئی اس پر ملامت و شناعت فرمائی جو ترک واجب پر ہوتی ہے.

******************************

حديث#2

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " ، يَعْنِي رِيحَهَا .

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ:"جو شخص کوئی ایسا علم جس سے اللہ عزوجل کی رضا طلب کی جاتی ہے (یعنی علمِ دین خواہ بہت سا یا ایک آدھ مسئلہ) سیکھے اور غرض اس کے سیکھنے کی اور کچھ نہ ہو بجُز اس کے کہ اس کے ذریعہ سے متاعِ دنیا حاصل کرلوں گا تو قیامت کے روز وہ شخص خوشبوئے جنت نہ پائے گا.

[سنن أبي داود » كِتَاب الْعِلْمِ » بَابٌ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ لِغَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى، رقم الحديث: 8255]

فائدہ:

مسئلہ پوچھنے میں یہ نیت ہونا کہ اس کی آڑ میں کوئی دنیا کا مطلب نکالیں گے اس حدیث میں اس پر کس قدر سخت وعید فرمائی ہے، پس یہ حدیث بھی امر_اول کے وجوب پر دال ہے.


*******************************************

حديث#3

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ " .

ترجمہ:

حضرت عبدالله بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ: کبھی کوئی شخص مومن کامل نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ اس کی خواھشِ نفسانی ان احکام کے تابع نہ ہوجائیں جن کو میں لایا ہوں.

[مشكاة المصابيح:167، جامع الاحادیث:17365، كنز العمال:1084]

فائدہ:
اس حدیث سے امرِ ثانی کا وجوب ظاہر ہے.

تخریج الحدیث:

(1) السنة لابن أبي عاصم » بَابُ مَا يَجِبُ أَنْ يَكُونَ هَوَى الْمَرْءِ تَبَعًا لِمَا جَاءَ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ ۔۔۔ رقم الحدیث:5


(3) الإبانة الكبرى لابن بطة » بَابُ ذِكْرِ افْتِرَاقِ الْأُمَمِ فِي دِينِهِمْ ... رقم الحدیث:279

***************************************

حدیث#4

عن نعمان بن بشير في حديث طويل قال رسول الله صلى الله عليه وسلم َمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ: كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ۔

ترجمہ:

حضرت نعمان بن بشیرؓ سے ایک حدیث طویل میں مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص شبہات میں پڑنے لگتا ہے وہ ضرور حرام میں واقع ہوتا ہے. اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی چرواہا ایسی چراگاہ کے اس پاس چرواۓ جس کی گھاس کسی نے روک رکھی ہو، ہر بادشاہ کے یہاں ایسی چراگاہ ہوتی ہے. یاد رکھو کہ الله تعالیٰ کے یہاں کی ایسی چراگاہ وہ چیزیں ہیں، جن کو الله تعالیٰ نے حرام کردیا ہے.

[بخاری:52، مسلم:1599، ترمذی:1205، ابن ماجہ:3984]

فائدہ:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز سے اندیشہ حرام میں پڑنے کا ہو، اس سے بچنا ضروری ہے. اور امرِ ثالث (تیسری بات) یہی ہے اور یہی معنیٰ ہیں علماء کے اس قولِ مشہور کے کہ مقدمہ حرام کا حرام ہے. (یعنی جو بات کسی حرام میں مبتلا کرے وہ بھی حرام ہے).

************************************
حديث#5

عَنْ عَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ , وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُتَّقِينَ , حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ الْبَأْسُ " .

ترجمہ:

عطیہ سعدیؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: بندہ اس درجہ کو  نہیں پہنچتا کہ متقیوں میں داخل ہوجاۓ یہاں تک کہ جن چیزوں کو خود کوئی خرابی نہیں ان کو ایسی چیزوں کے اندیشہ سے چھوڑدے جن میں خرابی ہے.

[ترمذی:2451، ابن ماجہ:4215، طبرانی:446]

فائدہ:

چونکہ تقویٰ بنص قرآنی "اتقوا" (یعنی ڈرو) واجب ہے، اور وہ اس حدیث کی رو سے موقوف ہے ایسی چیزوں کے ترک پر جن سے اندیشہ "وقوع فی المعصية" (گناہ کے واقع  ہونے) کا ہو، اس لیے یہ بھی واجب ہوا. پس یہ حدیث بھی امر_ثانی کے وجوب پر دال ہے.


امثال و نظائر:

پچھلی حدیث کے مطابق کسی چیز کے حلال وحرام ہونے میں شبہ ہو تو اسے  چھوڑنا چاہئے، لہٰذا: جھینگا Prawn ٹڈی دل Locust کھانا نہ چاہئے۔ اسی طرح کسی چیز(مثلا: نوافل کی جماعت یا قبر پر اذان دینا وغیرہ)کے سنت یا بدعت ہونے میں تردد ہو تو اس بات کا چھوڑنا چاہئے۔ اسی طرح کوئی چیز ثابت افضل ہو لیکن(نئے/نادان)ایمان والوں کے دین سے پھرجانے کے نقصان کا قوی اندیشہ ہو تو ایسے کام کو ترک کرنا ہی سنت ہے۔ جیسے: حضرت ابراھیمؑ کی بناوٹ کے مطابق نبی ﷺ کا کعبہ میں داخل ہونے اور دوسرا نکلنے کے دو دروازے لگانے اور کعبہ کو زمین کے برابر کرنے کا ارادہ چھوڑدیا[بخاری:126،مسلم:1333]

تو جو کام جائز ہو، مثلا: ’’سبز‘‘ عمامہ باندھنا[مصنف ابن ابی شیبۃ:24987] لیکن اصول کے مطابق مخالفینِ اسلام وسنت یعنی کفار ومبتدعین سے مشابہت Resemblance اختیار کرنا حرام ہے، کہ اللہ نے فرمایا: مومنو! نہ ہو ان جیسے جنہوں نے کفر کیا[سورۃ آل عمران:156] نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے مشابہت اختیار کی جس قوم کی وہ انہیں میں سے ہے۔[ابوداؤد:4031] مزید دلائل طوالت Length کے خوف سے گُریز Avoid کیا جارہا ہے۔ لہٰذا جائز وثابت بات کو چھوڑدینا چاہئے کہ اس سے افضل طریقہ اور ہمیشگی والی عادت مٹ رہی ہے اور پوری امت کے دینی شناخت میں بگاڑ کا قوی اندیشہ ہے۔

*********************************

حدیث#6

 عَنْ أَبِي مَالِكٍ يَعْنِي الْأَشْعَرِيَّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " قد اجاركم الله تعالیٰ مِنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ : أَنْ لَا يَدْعُوَ عَلَيْكُمْ نَبِيُّكُمْ فَتَهْلَكُوا جَمِيعًا ، وَأَنْ لَا يَظْهَرَ أَهْلُ الْبَاطِلِ عَلَى أَهْلِ الْحَقِّ ، وَأَنْ لَا تَجْتَمِعُوا عَلَى ضَلَالَةٍ " .

ترجمہ:

حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ: الله تعالیٰ نے تم لوگوں کی تین باتوں سے تمہیں محفوظ رکھا: (١) ایک تو یہ کہ تمہارے نبی تم پر بد دعا نے کریں گے کہ جس سے تم سب کے سب ہلاک ہوجاؤ، (٢) اور دوسرے یہ کہ اہلِ باطل کو الله تعالیٰ تمام اہلِ حق پر غالب نہ کریں گے، (٣) اور تیسرے یہ کہ تم لوگ کسی گمراہی کی بات پر متفق و مجتمع نہ ہوگے۔

[سنن أبي داود » كِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ » بَاب ذِكْرِ الْفِتَنِ وَدَلَائِلِهَا, رقم الحديث: 3714]

*************************************

حدیث#7

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ الشَّيْطَانَ ذِئْبُ الْإِنْسَانِ كَذِئْبِ الْغَنَمِ , يَأْخُذُ الشَّاةَ الْقَاصِيَةَ وَالنَّاحِيَةَ , وَإِيَّاكُمْ وَالشِّعَابَ , وَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَالْعَامَّةِ "(وفي رواية)  وَالْمَسْجِدِ ".

ترجمہ :

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: بیشک شیطان بھیڑیا ہے انسان کا، جیسا کہ بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ اس بکری کو پکڑتا ہے جو گلہ سے نکل بھاگی ہو اور ان سے دور جا پڑی ہو اور کنارہ رہ گئی ہو. تم بھی اپنے کو مختلف راہوں سے بچاؤ اور اپنے کو (اہلِ دین کی) عام جماعت میں رکھو.


[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى ...رقم الحديث: 21535(21601) &  21464(21523)]

**********************************

حدیث#8

عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا ، فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ " .

ترجمہ:

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اہلِ دین کی جماعت سے ایک بالشت برابر بھی جدا ہوا اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے نکال دیا.

[سنن أبي داود » كِتَاب السُّنَّةِ » بَابٌ فِي قَتْلِ الْخَوَارِجِ ۔۔۔ رقم الحدیث:4758]

فائدہ:

ان تینوں حدیثوں کے مجموعہ سے ثابت ہوا کہ امتِ محمدیہ جس امر پر اتفاق و اجتماع کرلیں وہ ضلالت(گمراہی) نہ ہوگا، تو ضرور ہے کہ اس کی ضد اور خلاف ضلالت ہوگا. "كما قال تعالیٰ فماذا بعد الحق إلا الضلال" اور اجتماع میں شریک رہنے کی تاکید اور اس سے جدا ہونے پر وعید فرمائی. پس مخالفت اجماع کی ناجائز اور وقوع فی الضلاله ہوگی، پس اجماع کے مقتضیٰ پر عمل واجب ہوگا. اس سے امرِ رابع کا وجوب ظاہر ہوگیا.

*************************************

حدیث#9

قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، لعمر يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ : عَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَبْلُغَ ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ ، وَعَنِ الْمَعْتُوهِ حَتَّى يَبْرَأَ.

ترجمہ:

حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ اے امیر المومنین! آپ کو معلوم ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین  شخص مرفوع القلم ہوتے ہیں: ایک بالغ جب تک کہ بالغ ہو، دوسرا جو سو رہا ہے جب تک کہ بیدار ہو اور تیسرا مجنون جب تک کہ اچھا ہو.

[سنن أبي داود » كِتَاب الْحُدُود » بَابٌ فِي الْمَجْنُونِ يَسْرِقُ أَوْ يُصِيبُ حَدًّا ۔۔۔ رقم الحدیث:4399]

فائدہ:

اول تو یہ مسئلہ ایسا بدیہی ہے کہ اس میں استدلال ہی کی حاجت نہیں، پھر اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ بجز ان لوگوں کے جن کو شرع نے مرفوع القلم کیا ہے باقی سب مکلف ہیں، دائره احکام سے کسی کو نکلنا جائز نہیں. قرآن پاک میں بھی یہ مسئلہ منصوص ہے. اللہ تعالیٰ نے فرمایا: أَفَحَسِبتُم أَنَّما خَلَقنٰكُم عَبَثًا [سورۃ المومنون:115] کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں بس یونہی بےمقصد پیدا کرلیا ہے؟ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا : أَيَحسَبُ الإِنسٰنُ أَن يُترَكَ سُدًى [سورۃ القیامۃ:36] کیا انسان سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑدیا جائے گا؟

پس دائره اسلام سے نہ نکلنے یعنی امرِ خامس(پانچویں بات) کا وُجوب بھی ثابت ہوگیا اور ان امورِ خمسہ کا "وُجوب" دوسرا مقدمہ تھا، پس بحمداللہ دلیل کے دونوں مقدمات(یعنی پانچ باتوں کا دعویٰ اور حدیث سے ان کے واجب ہونا) ثابت ہوگئے، لہٰذا مُدعا یعنی: وجوبِ تقلیدِ شخصی ثابت ہوگیا۔


خلاصہ: تقلیدِ شخصی مُقدمہ preface ہے واجب کا، اور واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے۔
************************************

مقدمة الواجب، واجب:
اور یہ قاعدہ کہ مقدمہ واجب کا واجب ہوتا ہے ہر چند کے بدیہی اور سب اہلِ ملل و اہلِ عقل کے مسلمات سے ہے، محتاج اثبات نہیں. مگر تبرعا سک حدیث بھی تائید کے لئے لائی جاتی.

عَنْ  عُقْبَةُ بْنِ عَامِرٍ  قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یقول : مَنْ عَلِمَ الرَّمْيَ ثُمَّ تَرَكَهُ فَلَيْسَ مِنَّا أَوْ قَدْ عَصَى " .

ترجمہ:

حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله ﷺ سے سنا فرماتے تھے کہ جو شخص تیر اندازی سیکھ کر چھوڑدے، وہ ہم سے خارج ہے یا یہ فرمایا کہ گناہ گار ہوا.


فائدہ:

ظاہر ہے کہ تیر اندازی کوئی عبادت مقصود فی الدین نہیں لیکن چونکہ بوقتِ حاجت ایک واجب(عمل) یعنی "اعلاء كلمة الله" کا مقدمہ ہے، اس لئے اس کے ترک پر وعید فرمائی جو علامت ہے وجوب وقت الحاجت کی، اس سے ثابت ہوا کہ مقدمہ واجب کا واجب ہوتا ہے۔ اب دلیل مذکور پر دو شبہے وارد ہو سکتے ہیں:


جوابِ شبہ برعموم وجوبِ تقلیدِ شخصی:
ایک یہ کہ تقریر مذکور میں تصریح ہے کہ اکثر طبائع کی ایسی حالت ہے کہ بدوں تقلید کے وہ مفاسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں، تو یہ وجوب بھی ان ہی اکثر کے اعتبار سے ہونا چاہیے، عام فتویٰ وجوب کا کیوں دیا جاتا ہے؟ جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ یہ قاعدہ ہے کہ انتظامی احکام میں جو مفاسد سے بچانے کے لئے ہوں اعتبار اکثر ہی کا ہوتا ہے اور اکثر کی حالت پر نظر کرکے حکم دیا جاتا ہے. اور یہی معنیٰ ہیں کہ فقہاء کے اس قول کے کہ جس امر میں عوام کو ابہام ہو وہ خاص کے حق میں بھی مکروہ ہوجاتا ہے اور اس قاعدہ کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے.

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَتَاهُ عُمَرُ ، فَقَالَ : إِنَّا نَسْمَعُ أَحَادِيثَ مِنْ يَهُودَ تُعْجِبُنَا ، أَفَتَرَى أَنْ نَكْتُبَ بَعْضَهَا ، فَقَالَ : " أَمُتَهَوِّكُونَ أَنْتُمْ كَمَا تَهَوَّكَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى ، لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً ، وَلَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلا اتِّبَاعِي " .

ترجمہ:

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضورِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ ہم لوگ یہود سے بہت سی ایسی باتیں سنتے ہیں جو اچھی معلوم ہوتی ہیں، کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ بعضے باتیں لکھ لیا کریں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: کیا تم بھی یہود و نصاریٰ کی طرح اپنے دین میں متحیر ہونا چاہتے ہو؟

فائدہ:

چونکہ ان مضامین کے لکھنے میں اکثر لوگوں کی خرابی کا اندیشہ تھا، رسول الله ﷺ نے عام ممانعت فرمادی اور حضرت عمرؓ جیسے فہیم اور صلب فی الدین (یعنی دین پر مضبوطی سے قائم) شخص کو بھی اجازت نہ دی. اس سے معلوم ہوا کہ جس امر میں فتنہ عامہ ہو اس کی اجازت خاص کو بھی نہیں دی جاتی، بشرطیکہ وہ امر ضروری فی الدین نہ ہو. پس وہ شبہ رفع ہوگیا اور اس کی وجہ معلوم ہوگئی کہ خواص کو ترکِ تقلیدِ شخصی کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی، اور وجوب کو سب کے حق میں عام کہا جاتا ہے.



دوسری حدیث:

عَنْ شقيق ، قَالَ : " كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بن مسعود رضی الله عنہ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ ، قَالَ : أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ ، وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا " .

ترجمہ:

شقیقؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبدالله بن مسعودؓ ہر جمعہ رات کو ہم کو واعظ سناتے. ایک شخص نے عرض کیا کہ ہمارا جی چاہتا ہے کہ آپ ہر روز واعظ فرمایا کریں. آپ نے فرمایا کہ مجھ کو یہ امر مانع ہے کہ میں پسند نہیں کرتا کہ تم اکتا جاؤ، اس لئے وقتاً فوقتاً واعظ سے خبرگیری کرتا رہتا ہوں جیسا رسول الله ﷺ بھی ہم لوگوں کے اکتاجانے کے اندیشہ سے وقتاً فوقتاً (یعنی کچھ ناغہ کرکے) واعظ کی خبرگیری فرمایا کرتے تھے.





فائدہ:

ظاہر ہے کہ سننے والوں میں سب تو اُکتانے والے تھے ہی نہیں، چنانچہ خود سائل کا شوق سوال سے معلوم ہوتا ہے لیکن اکثر طبیعتوں کی حالت کا اعتبار کرکے آپ نے سب کے ساتھ ایک ہی معاملہ کیا اور یہی عادت رسول اللہ ﷺ کی بیان کی، پس رسول اللہ ﷺ کے عمل سے اس قاعدہ کا ثبوت ہوگیا، اور روایتِ کثیرہ میں احکامِ کثیرہ کا اس قاعدہ پر مبنی ہونا وارد ہوا ہے، پس یہ شبہ مذکور رفع وہا۔





جوابِ شبہ عدمِ ثبوت یک مقدمہ وجوبِ تقلیدِ شخصی:

حدیث سے تقلیدِ شخصی کے وجوب کے پہلے مقدمہ کے ثابت نہ ہونے کے شبہ کا جواب


دوسرا شبہ جو محض لا شیء ہے یہ ہے کہ اس دلیل مذکور کا ایک مقدمہ یعنی امورِ خمسہ مذکورہ کا واجب ہونا بلاشک حدیث سے ثابت ہے، لیکن ایک مقدمہ یعنی تقلید شخصی کے ترک سے ان امور میں میں خلل پڑنا یہ صرف تجربہ ومشاہدہ ہے کہ حدیث میں نہیں آیا۔ جب صرف ایک مقدمہ حدیث میں ہے۔ دوسرا حدیث میں نہیں پھر دعویٰ کیسے حدیث سے ثابت ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دعویٰ کی کیا خصوصیت ہے؟ یہ قصہ تو تمام شرعی دعؤوں میں ہے مثلاََ: ایک شخص کی عمر بیس پچیس برس کی ہے، اس پر تمام علماء وعقلاء نماز کو فرض کہتے ہیں اور اگر کسی سے دلیل پوچھی جائے تو یہی کہا جائے گا کہ صاحبِ قرآن وحدیث کی رُو سے اس پر نماز فرض ہے حالانکہ قرآن وحدیث میں اس دلیل کا صرف ایک مقدمہ آیا ہے کہ بالغ پر نماز فرض ہے۔ رہا دوسرا مقدمہ کہ زید بالغ ہے بھی یا نہیں؟ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ہے، محض ایک واقعہ ہے جو مشاہدہ ومعائنہ سے ثابت ہے مگر پھر بھی یوں کوئی نہیں کہتا کہ جب ایک مقدمہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں تو اس شخص پر نماز کا فرض ہونا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں، بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث بیان ہے احکامِ کُلّیہ(عامہ) کیلئے نہ کہ بیانِ جُزئیہ(خاصہ) کیلئے۔




واقعہ کا وجود ہمیشہ مشاہدے سے ہی ثابت ہوتا ہے، اور ان احکام کے قرآن وحدیث میں وارد ہونے سے اس دعویٰ کو قرآن وحدیث سے ثابت ہی کہا جاتا ہے، یہی تقریر مزکورہ شبہ کے جواب میں جاری کرلو اور یہ اوپر طے ہوچکا ہے کہ یہ وُجوب بِالغیر ہے بالذات نہیں، پس بحمدللہ کسی قسم کا خدشہ باقی نہیں رہا اور بِلا غُبار حدیث سے تقلیدِ شخصی کا وجوب ثابت ہوگیا۔





[ماخوذ از الاقتصاد فی التقلید والجتہاد ؛ مولانا اشرف الی تھانوی]







مجتہد کا دائرہ کار:

(1) احکام کی علتوں کو دریافت کرنا اور (2) ان کو پیش آمدہ مسائل پر منطبق کرنا اگرچہ مجتہد کا بنیادی کام ہے، لیکن اس سے یہ سمجھنا غلط ہے کہ اس کو صرف اتنا ہی کرنا ہے؛ بلکہ اس کا کام (3) مجمل نصوص کی مراد کو پہونچنا اور (4)مشترک المعنی الفاظ کے مصداق کی تعیین کرنا بھی ہے، (5)عربوں کے استعمال اور محاورات کے مطابق شارع کی تعبیرات سے معنی اخذ کرنا بھی اس کا فریضہ ہے،(6)حدیثوں کے معتبر یا نامعتبر ہونے کی تحقیق بھی اس کی ذمہ داری ہے، (7)متعارض دلیلوں میں ترجیح و تطبیق سے بھی اس کو عہدہ بر آ ہونا ہے، اس کےعلاوہ (8)اخذ واستنباط اور بحث وتحقیق کے نہ جانے کتنے دشوار گذار مراحل سے مجتہد کو گذرنا پڑتا ہے۔




اجتہاد کیلئے درکار صلاحیت:

لیکن اجتہاد کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس مجتہد بن کر شریعت کو تختۂ مشق بنانے لگے بلکہ اس کے لیے کم از کم درج ذیل صلاحیتوں سے متصف ہونا ضروری ہے:
(۱) مسلمان ہونا۔
(۲) فہم و فراست کا حامل ہونا ۔
(۳) کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماعِ امت اور قیاس کا وافر علم رکھنا۔
(۴) نصوص کے ناسخ و منسوخ کا علم رکھنے والا ہونا ۔
(۵) اصولِ فقہ سے واقف ہونا۔
(۶) عربی زبان اور اس کے متعلقہ علوم جیسے نحو و صرف اور بلاغت سے واقف ہونا۔
[موسوعہ فقہیہ کویتیہ:1/317]

مذکورہ بالا صفات کے بغیر کوئی شخص درجۂ اجتہاد پر فائز نہیں ہو سکتا۔





اجتہاد کا حکم فرضِ کفایہ ہے

اور یہ اجتہاد امت کے لیے عمومی طور پر فرض کفایہ ہے، یعنی امت میں چند افراد بھی اس خدمت کو انجام دیں تو پوری امت کا ذمہ فارغ ہو جائیگا، اسی طرح کسی مقام پر جو شخص صفاتِ اجتہاد کا حامل ہو اور اس سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور وہ اپنے اجتہاد کی روشنی میں حل کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے خصوصی حالات میں اس خاص شخص پر اجتہاد لازم ہو جاتا ہے۔
[الموسوعۃ الفقہیہ:1/318]






نبی اکرم ﷺ اور اجتہاد

احکامِ شرعیہ کا اصل مآخذ تو قرآن و حدیث ہی ہے، فرق یہ ہے کہ قرآن مجید میں الفاظ و معانی دونوں اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں اور حدیث میں صرف الفاظ اور تعبیر رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ ہے؛ پس قرآن و حدیث کا سرچشمہ ذاتِ خداوندی ہے اور واسطہ رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ اس لئے آپ ﷺ کی ہر بات وحی پر مبنی اور منشأ ربانی کی ترجمان ہوتی تھی، ارشاد باری تعالٰیٰ ہے: 

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی o اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳،۴)
"اور نہ آپ اپنی خواہشِ نفسانی سے باتیں بناتے ہیں، ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے"۔

نیز ارشاد خداوندی ہے:

"اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَایُوْحٰی اِلَیَّ" (یونس:۱۵)
بس میں تو اسی کی اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہنچا ہے۔


اس لئے یہ بات تو ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر آپ ﷺ کے فتاوی وحی کی بنیاد پر پورا کرتے تھے، لیکن کیا آپ ﷺ اجتھاد سے بھی فتویٰ دیتے تھے، اس سلسلہ میں اہلِ علم کے درمیان اختلاف ہے۔


امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام ابو یوسفؒ اور اکثر اصولیین اس بات کے قائل ہیں کہ آپ ﷺ احکام شرعیہ میں بھی اجتھاد پر مامور تھے (کشف الاسرار: ۳/۳۸۶) یہی رائے امام رازیؒ اور قاضی بیضاویؒ کی بھی ہے (منہاج الوصول: ۲/۹) امام غزالیؒ(م505ھ) کے نزدیک بھی یہی راحج ہے (المستصفی: ۲/۳۵۵) امام سرخسیؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے نقطۂ نظر کی اس طرح صراحت کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ اس بات پر مامور تھے کہ کسی بھی واقعہ میں وحی کا انتظار کریں؛ اگر انتظار کے باوجود وحی کا نزول نہیں ہوتا تو یہ آپﷺ کے لیے رائے اور اجتھاد پر عمل کرنے کی منجانب اللہ اجازت ہوتی؛ البتہ اگر آپ ﷺ سے اجتھاد میں چوک ہوتی تو منجانب اللہ متوجہ فرمادیا جاتا، لہٰذا اگر آپ ﷺ نے کسی امر کی بابت اجتھاد فرمایا ہو اور اللہ تعالٰیٰ کی جانب سے اس پر کوئی تردید نازل نہ ہوئی ہو تو یہ اس اجتھاد کے قطعی ہونے کی علامت ہے۔(اصول السرخسی: ۲/۲۰۸۔ کشف الاسرار: ۳/۳۸۶)

علامہ ابن قیمؒ (م751هـ) نے بجا لکھا ہے:
"أول من قام بهذا المنصب الشريف: سيد المرسلين

اس امت کے سب سے پہلے مفتی جناب محمد رسول اللہ ﷺ تھے۔
[اعلام الموقعین:1/9، دار الكتب العلمية]



قرآنی شواہد:
آپ ﷺ شرعی امورمیں اجتھاد سے کام لیتے تھے اس پر قرآن وحدیث سے دلائل موجود ہیں: مثلاً ارشاد خداوندی ہے:

۱۔ "وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ"۔ (آل عمران:۱۵۹)
اور ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہاکیجئے۔


آیت بالا میں آپ ﷺ کو مشورہ کا حکم دیا گیا ہے، اس سے درحقیقت آپ ﷺ کو اجتھاد کا حکم دینا ہے، کیونکہ جب آپ ﷺ صحابہ کرام سے مشورہ لیں گے اور وہ اپنی آراء کا اظہار آپ ﷺ کے سامنے کریں گے تو پھر آپ ان میں سے کسی ایک رائے کو آپﷺ اپنے اجتھاد سے قبول کریں گے جو موقع اور مصلحت کے مناسب ہو اور یہی تو اجتھاد ہے۔



۲۔ "یَاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرُ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیٍٔ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآٰخِرْ ذٰلِکَ خَیْرٌوَّاَحْسَنُ تَأْوِیْلاً" (النساء:۵۹)

اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں جو لوگ اہل حکومت ہیں ان کا بھی، پھر اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کردیا کرو، اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ امور سب بہترہیں اور ان کا انجام خوشتر ہے۔


آیت بالا میں اللہ تعالٰیٰ نے اپنی اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اطاعت خداوندی تو ان امور سے ہوگی جو نبی کریم ﷺ پر بطور وحی نازل کی گئی، اور رسول کی اطاعت کرنا اس وقت ہوگا جبکہ ان کے ہر اس حکم کی اتباع کی جائے جو وہ وحی کے ذریعہ سے، یا اجتھاد کے ذریعہ سے دیں، اگر اللہ اور رسول کی اطاعت سے صرف وحی کی اطاعت و اتباع مراد لی جائے تو محض تکرار ہوگا، اور اطاعت رسول کا حکم جو مستقل طور پر دیا گیا ہے اس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں رہے گا۔

نیز باہمی اختلاف کی صورت میں فریقین کو یہ حکم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں، اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ آپ ﷺ پر نازل کی گئی وحی {خواہ وحی متلو (قرآن) ہو یا وحی غیرمتلو (حدیث)} کی طرف رجوع کریں، اور ان سے جو رہنمائی ملے اس پر کاربند ہوں اور رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اجتھاد سے جو حکم دیں یا فیصلہ کریں ان پر عمل پیرا ہوں، اور اپنے نفس کو دخل نہ دیں، اگر دونوں جگہ وحی ہی مراد لی جائے تو تکرار محض ہوگا، جو بہتر نہیں ہے، لہٰذا "وَأَطِیعُوالرَّسُوْلَ" سے آپ ﷺ کے اجتھادی احکام مراد ہوں گے؛ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسری آیت میں "رسول" اور "اولی الامر"کے درمیان استنباط حکم میں برابری کا ذکر ہے۔ (النساء:۸۳)
اگر آپ ﷺ کیلئے اجتھاد جائز نہ ہوتا اور اس کی اطاعت ضروری نہ ہوتی تو باہمی نزاع کے تصفیہ کیلئے آپ ﷺ کی طرف رجوع کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔


۳۔ "فَاِنْ جَآءُوْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَـیْـاً وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ"۔ (المائدہ:۴۲)

تو اگر یہ لوگ آپ ﷺ کے پاس آویں، تو (آپ ﷺ مختار ہیں) خواہ آپ ان میں فیصلہ کردیجئے، یا ان کو ٹال دیجیئے، اور اگر آپ ان کو ٹال دیں تو ان کی مجال نہیں کہ وہ آپ کو ذرا بھی ضرر پہنچاسکیں، اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان میں عدل کے موافق فیصلہ کیجئے، بیشک حق تعالٰیٰ عدل کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔


آیت بالامیں فیصلہ کرنے اور نہ کرنے کا اختیار آپ ﷺ کو دیا گیا ہے کہ اگر آپ ﷺ اپنے اجتھاد سے یہ محسوس کریں کہ ہمارے فیصلہ کرنے میں مصلحت ہے، اور فریقین فیصلہ کے قبول کرنے پر آمادہ ہیں تو آپ فیصلہ کردیں، ورنہ ٹال دیں، ظاہر ہے کہ فیصلہ میں مصلحت وغیرہ پر نظر رکھنا تو اجتھاد ہی کے ذریعہ ہوا کرتا ہے، نیز فیصلہ کرتے وقت آپ ﷺ کو انصاف کا دامن تھامے رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، اور حتی الوسع حق تک پہنچنے کا مکلف بنایا گیا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو اجتھاد کی اجازت ہے؛ ورنہ اگر آپﷺ وحی کے ذریعہ ہی فیصلہ کرنے کے پابند ہوتے تو وحی کے سارے احکام تو حق و انصاف پرمبنی ہوا کرتے ہیں، پھر "بالقسط" (انصاف کے ساتھ) کی قید کا کوئی فائدہ نہیں رہ جائے گا۔



ان کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن سے آپ ﷺ کے اجتھاد کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے، مثلاً سورۂ نساء کی آیت نمبر:۶۵، ۱۰۵، سورۂ نور کی آیت نمبر:۶۲، سورۂ التحریم کی ابتدائی آیات، اور سورۂ انفال کی آیت نمبر:۶۹ اور اس طرح کی دیگر اور آیات ہیں ان آیاتِ قرآنیہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ کو امورِ شرعیہ میں اجتھاد کی اجازت تھی۔



حدیث و آثار سے دلائل

قرآن پاک کے بعد ہم احادیث پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اجتھاد کے بارے میں ان سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے:
١) حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میراث کے ایک معاملے میں دو حضرات کا اختلاف ہوا، دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، لیکن دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، صرف دعویٰ ہی دعویٰ تھا، آپ ﷺ نے دونوں کے دعوے سننے کے بعد فرمایا کہ میں بھی انسان ہوں، اور تم لوگ میرے پاس مقدمہ لیکر آئے ہو، ممکن ہے کہ ایک فریق اپنی چرب زبانی سے دوسرے فریق پر غالب آجائے، اور اس کے بیان پر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، اگر واقع میں حق اس کو ملنا نہیں تھا بلکہ اس کے مدِمقابل کا حق تھا تو میرے فیصلہ کے باوجود اس کو لینا درست نہیں ہے، اور اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ میں اسے جہنم کی آگ دے رہاہوں۔ یہ سن کر دونوں حضرات رونے لگے اور ہرایک دوسرے کے حق میں دستبرداری اختیار کرلی، آپ ﷺ نے دونوں سے کہا کہ جب ہر ایک نے دستبرداری اختیار کرلی تو اسے آپس میں تقسیم کرلو، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
"إِنما أقضِی بَیْنَکُمْ بِرَأْیِی فِیْمَا لَمْ یُنْزَلْ عَلَیَّ فِیہِ".
جس امر(بات) کے بارے میں کوئی وحی نازل نہیں ہوتی ہے تو میں اپنی رائے سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا کرتا ہوں۔
[ابوداؤد:3575، ابويعلى:6897]




اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمرفاروقؓ نے منبرپر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
«يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الرَّأْيَ إِنَّمَا كَانَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصِيبًا لِأَنَّ اللَّهَ كَانَ يُرِيهِ، وَإِنَّمَا هُوَ مِنَّا الظَّنُّ وَالتَّكَلُّفُ»
اے لوگو! صحیح رائے تو درحقیقت حضوراکرم ﷺ کی ہوتی تھی، کیونکہ اللہ تعالٰیٰ کی جانب سے ان کو رہنمائی ملتی تھی اور ہم لوگوں کی رائے تو ظن و تخمین اور تکلف پر مبنی ہوا کرتی ہے۔
[ابوداؤد:3586، بیھقی:20358]


آپ ﷺ کا ارشاد اور حضرت عمرفاروقؓ کی اس وضاحت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اجتھاد سے کام لیا کرتے تھے۔




آپ ﷺ کے اجتہاد کی چند مثالیں

آپ ﷺ کا اجتھاد صرف دنیوی امور تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ دینی معاملات میں بھی آپ ﷺ اجتھاد فرمایا کرتے تھے (الاحکام للآمدی: ۱/۴۱۶) اور اس کی کئی مثالیں احادیث میں ملتی ہیں، مثلاً:


۱۔ ایک خاتون نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی مرحومہ والدہ کے بارے میں پوچھا کہ وہ حج نہیں کر پائی ہیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتی تو کیا یہ کافی نہ ہوتا؟ انہوں نے کہا ہاں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"فَاللّٰہُ أحَقَّ بِالْوَفَاءِ "
اللہ کا قرض زیادہ قابل ادائیگی ہے۔
[بخاری:1852، ابن ماجہ:2910، طبرانی:12444]

ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے ذمہ نذر کے روزے باقی تھے، کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھ لوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہاری ماں پر کسی کا قرض باقی ہوتا تو کیا اسے ادا کرتیں؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى".
اللہ کا دین زیادہ قابل ادائیگی ہے۔
[بخاری:1953، مسلم:1148]



۲۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ روزہ کی حالت میں میں خود پر قابو نہ پاسکا، اور اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ سے ایک بڑی غلطی ہوگئی ہے اور اپنا واقعہ سنایا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا:
"أَرَأَيْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَاءٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ قُلْتُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفِيمَ"۔
تمہاری کیا رائے ہے کہ اگر تم روزہ کی حالت میں پانی سے کلی کرو؟ تو میں نے عرض کیا کہ اس سے تو روزہ نہیں ٹوٹتا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بوسہ سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔
[مسند احمد:138+372، صحيح ابن خزيمه:1999، طحاوي:3346]

گویا رسول اللہ ﷺ نے پینے کی تمہید، منہ میں پانی ڈالنے کے عمل پر جماع کی تمہید بوسہ کو قیاس فرمایا۔
[شرح الزقانی علی الموطا: ۲/۲۲۱]



۳۔ سُؤَرِ الْھِرّۃِ (بلی کا جُوٹھا Uneaten) کے بارے میں ارشادِ گرامی ہے:
"إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّهَا مِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ"۔
(سنن ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَاب سُؤْرِ الْهِرَّةِ، حدیث نمبر:75)
ترجمہ: کہ بلی کا جُوٹھا  ناپاک نہیں ہے؛ "کیونکہ" وہ اُن جانوروں میں سے ہے جن کی گھروں میں کثرت سے آمدورفت رہتی ہے۔
[ترمذی:92، ابن ماجہ:367، نسائی:68]



۴. ایک نکاح میں عورت اور اس کی پھوپھی یا خالہ کو جمع کرنے کی ممانعت میں فرمایا گیا:
"إِنَّكُم إِنْ فَعَلْتُمْ ذَلِکَ قَطَعْتُمْ أَرْحَامَكُمْ"۔
ترجمہ: کہ اگر تم ایسا کروگے تو رشتہ وتعلقات میں دراڑ کا سبب بنوگے۔
[طبرانی:۱۱/۳۳۷، حدیث نمبر:۱۱۹۳۱، الأحادیث المختارۃ:144]



۵. مسِ ذکر (اپنی شرمگاہ کو چُھولینے) سے وضو نہ ٹوٹنے کی یہ علت Cause بیان کرکے سمجھایا گیا:
"هَلْ هُوَ إِلَّا مُضْغَةٌ مِنْهُ"۔
ترجمہ: کہ عضوِ تناسل دیگر اعضاءِ بدن کی طرح بدن کا ایک حصہ ہی تو ہے۔(پھر اس کے چھونے سے وضو کیوں ٹوٹے گا؟)۔
[جامع ترمذی، كِتَاب الطَّهَارَةِ ، بَاب مَاجَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ، حدیث نمبر:182]




۶۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میری بیوی نے کالا بچہ جنا ہے تو میں نے اس کا انکار کردیا ہے (کیونکہ میں سفید ہوں) اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تیرا خاندان بھی ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تب آپ نے پوچھا: وہ کیسے ہوگئے؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا رنگ کیا ہے؟ اس نے کہا سرخ۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا ان میں کوئی سانولا بھی ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تب آپ ﷺ نے پوچھا وہ کیسے ہو گئے؟ اس نے کہا کہ بنیاد کا اثر ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی کوئی بنیاد ہوگی جو ظاہر ہوگئی۔ اس لیے آپ ﷺ نے اسے انکار کرنے (لعان) کی اجازت نہ دی.
[بخاری:7314، مسلم:1500، نسائی:3479]



شارحِ بخاری امام بدر الدین العینیؒ (م855هـ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَاحْتج الْمُزنِيّ بِهَذَيْنِ الْحَدِيثين على من أنكر الْقيَاس قَالَ: وَأول من أنكر الْقيَاس إِبْرَاهِيم النظام وَتَبعهُ بعض الْمُعْتَزلَة وَدَاوُد بن عَليّ وَمَا اتّفق عَلَيْهِ الْجَمَاعَة هُوَ الْحجَّة فقد قَاس الصَّحَابَة وَمن بعدهمْ من التَّابِعين وفقهاء
ترجمہ:
اور دلیل پکڑی ہے امام مزنیؒ نے ان دونوں حدیثوں سے منکرینِ قیاس کے خلاف  (اور) کہا کہ اس کا پہلا منکر ابراہیم نظام ہے اور معتزلہ نے اس کی پیروی کی ہے، حالانکہ جس چیز پر جماعت(یعنی علماء) کا اتفاق ہو جائے وہ (اجماع) حجت ہے اور صحابہ و تابعین اور فقہاء قیاس کرتے آئے ہیں۔
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 25 / 51]





نبی ﷺ اور علماء کے اجتہاد میں فرق

قرآن و حدیث سے تو یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ کو اجتھاد کرنے کا اختیار تھا، اور آپ ﷺ نے اجتھاد کیا بھی ہے، اسی طرح علماءِ امت بھی پیش آمدہ مسائل میں جب کتاب و سنت سے رہنمائی نہیں ملتی ہے تو اجتھاد کرتے ہیں، مگر نبی اور امتی کے اجتھاد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نبی کا اجتھاد احتمال خطا سے پاک ہوتا ہے؛ اگر نبی کا اجتھاد واقعہ کے مطابق نہ ہوتا تو فوراً تنبیہ آجاتی اور صحیح بات کی جانب رہنمائی کردی جاتی، جس کی تفصیل بعد میں آرہی ہے، لیکن علماءِ امت کے اجتھاد میں یہ بات نہیں پائی جاتی، اس میں خطاء کا احتمال بہرحال باقی رہتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ علماءِ امت کا اجتھاد ظنی ہوتا ہے جبکہ حضور اکرم ﷺ کا اجتھاد قطعی ہوتا ہے، ابتداءً اگرچہ ظنی ہوتا ہے؛ لیکن مآلاً قطعی ہوجاتا ہے اور نص کے حکم میں ہوا کرتا ہے، اسی لئے امام غزالیؒ(م505ھ) لکھتے ہیں:
"دَلَّ الدَّلِيلُ مِنْ الْإِجْمَاعِ عَلَى تَحْرِيمِ مُخَالَفَةِ اجْتِهَادِهِ"
ترجمہ: اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ کے اجتھادی احکام کی مخالفت حرام ہے۔
[المستصفى:346، مَسْأَلَةٌ النَّبِيِّ هَلْ يَجُوزُ لَهُ الْحُكْمُ بِالِاجْتِهَادِ فِيمَا لَا نَصَّ فِيهِ]



نیز آپ ﷺ کیلئے تمام نصوص واضح ہوتے تھے اور نص کا ہر پہلو آپ کیلئے نمایاں ہوتا تھا۔ وسائل کے واسطے سے نتیجہ تک پہنچنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، جبکہ علماءِ امت کو نصوص میں غور و فکر کرنی پڑتی ہے، نتیجہ تک پہنچنے کے جو وسائل ہیں ان سے مدد لینی پڑتی ہے؛ پھر وہ نتیجہ تک پہنچتے ہیں، علماء نے صراحت کی ہے کہ جہاں کہیں حدیث میں یہ نظر آتا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی بات پر کسی چیز کو قیاس کیا ہے تو یہ ضرورت خود آپ ﷺ کو نہیں تھی؛ بلکہ مسئلہ کو فہمِ سائل کے قریب کرنا پیشِ نظر تھا یا طریقِ اجتھاد کی تعلیم مقصود تھی اس لئے آپ ﷺ نے وسائل کو اختیار کیا تھا۔
[دیکھئے : رد شبھات حول عصمۃ النبی ﷺ  : ۱/۵۷۶]








آپ ﷺ کے اجتہاد کی تصویب

بہرحال اگر آپ ﷺ کا اجتھاد واقع کے مطابق ہوتا تھا تو کبھی اس کی تصویب بھی کردی جاتی تھی، اور اسے برقرار رکھا جاتا تھا، جیسا کہ:


۱۔ آپ ﷺ غزوۂ احد میں پچاس تیراندازوں کو ایک پہاڑ پر متعین کیا تھا اور انہیں ہدایت دی تھی:
«احْمُوا ظُهُورَنَا، فَإِنْ رَأَيْتُمُونَا نُقْتَلُ فَلَا تَنْصُرُونَا، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا نَغْنَمُ فَلَا تُشْرِكُونَا»
ترجمہ:
پیچھے سے حملہ کرنے والوں سے ہماری حفاظت کرنا، اگر ہماری شکست ہو پھر بھی تم لوگ ہماری مدد کو نہ آنا، اور اگر ہمیں کامیابی ملے تو بھی مالِ غنیمت جمع کرنے میں ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔
[البداية والنهاية - ابن كثير(م774هـ) : 4/27، الناشر: دار إحياء التراث العربي]

اس تاکیدی ارشاد کے باوجود جب ان تیراندازوں نے یہ دیکھا کہ کفارِ مکہ میدان چھوڑکر بھاگ رہے ہیں اور صحابہ مالِ غنیمت کے جمع کرنے میں مصروف ہیں تو ان حضرات نے اپنے مقام کو چھوڑدیا اور نیچے اترآئے، اگرچہ ان کے امیر نے اس سے روکا مگر بارہ افراد کے علاوہ سارے نیچے اتر آئے، ادھر جب خالد بن ولید (جوکافروں کی طرف سے آئے تھے، اور اس وقت تک حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے تھے) نے پہاڑ کے اس حصہ کو خالی پایا، اور گنتی کے چند افراد کو وہاں پر دیکھا تو اپنے گھوڑ سوار دستہ کے ساتھ اس راستہ سے صحابہ پر پشت کی جانب سے حملہ کیا اور ابتدائی فتح شکست سے بدل گئی، ستر صحابہ شہید ہوئے، آپﷺ بھی زخمی ہوئے، صحابہ پر یہ حالات بظاہر ان تیر اندازوں کے غلط فہمی کی بناء پر آئی، اس واقعہ میں غورکیا جائے تو آپﷺ نے تیراندازوں کو جو حکم دیا تھا وہ محض اپنے اجتھاد کی بناء پر دیا تھا اور آپﷺ کا یہ اجتھاد منشأ خداوندی کے مطابق تھا؛ یہی وجہ ہے کہ غلط فہمی کی بناء پر تیراندازوں نے جو آپ ﷺ کے حکم کو نظرانداز کردیا تھا تو ان پر عتاب نازل ہوا، ارشادباری تعالٰیٰ ہے:

"اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌo" (آل عمران:۱۵۵)
یقینا تم میں سے جن لوگوں نے پشت پھیردی تھی جس روزکہ دونوں جماعتیں باہم مقابل ہوئیں، اس کے سوا اور کوئی بات نہیں ہوئی کہ ان کو شیطان نے لغزش دے دی، ان کے بعض اعمال کے سبب اور یقین سمجھو کہ اللہ تعالٰیٰ نے ان کو معاف فرمادیا، واقعی اللہ تعالٰیٰ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں بڑے حلم والے ہیں۔

اتنا ہی نہیں بلکہ اس فعل کو عصیان سے تعبیر کیا ہے، (آل عمران:۱۵۲) حالانکہ آپ ﷺ نے یہ حکم کسی قرآنی آیت کی روشنی میں نہیں دیا تھا؛ بلکہ صرف اجتھاد کی روشنی میں دیا تھا اور جس کا ماننا صحابہ پر لازم تھا، نہ ماننے کی وجہ سے اس کو عصیان سے تعبیر کیا گیا اور اس پر عتاب بھی ہوا، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن نے آپ ﷺ کے اجتھاد کی تصویب کی اور اُسے برقرار رکھا۔





۲۔ غزوۂ بنونضیر میں نبی اکرم ﷺ نے اپنے اجتھاد سے یہ حکم دیا تھا کہ ان کے کھجور کے درختوں کو کاٹو، تاکہ یہ دیکھ کر وہ قلعہ سے باہر آئیں اور دوبدو جنگ ہوسکے، چنانچہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ کے حکم سے درختوں کو کاٹنا شروع کیا تو بنونضیرنے آپ ﷺ کے اس حکم اور صحابہ کے فعل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا.



"انک تنھی عن الفساد فما بالک تامر بقطع الأشجار"۔ (تفسیرابن کثیر: ۸/۶۱)

آپﷺ تو خود فساد برپا کرنے سے روکتے ہیں، تو پھر آپ ﷺ نے کھجور کا درخت کاٹنے کا حکم اپنے صحابہ کو کیوں دیا؟۔


اس اعتراض کی وجہ سے بعض صحابہ کو بھی خلجان ہوا اور کچھ پریشانی لاحق ہوئی تو بنونظیر کے اس اعتراض اور بعض صحابہ کے شبہ کا جواب قرآن پاک کی اس آیت میں دیا گیا:

"مَاقَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ أَوْتَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً عَلٰی أُصُوْلِہَا فَبِإِذْنِ اللَّہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ" (الحشر:۵)
جو کھجوروں کے درخت کے تنے تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو (دونوں باتیں) خدا کے حکم (رضا) کے موافق ہیں، تاکہ کافروں کو ذلیل کرے۔


گویا اس آیت میں یہ کہا گیا کہ کھجور کے جن درختوں کو تم لوگوں نے کاٹ دیا، یا جسے کاٹ نہیں سکے اور وہ اپنے تنوں پر کھڑے ہیں وہ اللہ کی مشیت، ان کی رضامندی اور ان کی اجازت سے ہوئی اور اس کاٹنے میں اصل مقصد دشمنوں کو مرعوب کرنا ہے اور اس میں ان کی ذلت و رسوائی ہے، اس آیت میں غور کیا جائے کہ حضور اکرم ﷺ نے محض اپنے اجتھاد سے بنونضیر کے باغات کاٹنے کا حکم دیا تھا اسے وحی متلو (قرآن) میں عین منشأ خداوندی قراردیا گیا اور اس کی تصویب کی گئی۔






۳۔ تاجران مکہ کے ایک مختصر قافلے کی ملکِ شام سے واپسی کی اطلاع آپ ﷺ کو ملی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ مال و اسباب بہت زیادہ ہیں، آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو اس کی اطلاع دی، صحابہ کرام کو قلت افراد اور کثرت مال کا حال معلوم ہونے پر مال غنیمت کا خیال ہوا اور اسی ارادہ سے مدینہ سے روانہ ہوئے؛ لیکن ابوسفیان جو اس قافلہ کے سردار تھے اور اس وقت تک حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے تھے انہوں نے اپنے قافلہ کو عام شاہراہ سے ہٹاکر ساحل سمندر سے ہوتے ہوئے گذارا اور ساتھ ہی مکہ مکرمہ کے سرداروں کو اس بات کی اطلاع دے دی کہ مسلمان تم لوگوں کے تجارتی قافلہ کو لوٹنے کے درپے ہیں، یہ سنتے ہی ابوجہل اور دیگر سرداروں نے آناً فاناً ایک لشکر ترتیب دی جو سامان حرب و ضرب سے لیس تھا اور ایک ہزار سے زائد افراد پر مشتمل تھا اسے ساتھ لیکر وہ لوگ اپنے تجارتی قافلہ کی حفاظت کےلیے نکلے، ادھر ابوسفیان اپنے قافلہ کو براہ سمندر خطرہ کے مقام سے آگے نکل چکے تھے اور اس کی اطلاع ابوجہل اور دیگر سرداروں کوبھی دے دی، لیکن یہ لوگ نہ مانے اور مقام بدرتک جنگ کی غرض سے پہنچ گئے، ادھر صحابہ کرام جو تعداد میں تین سوسے کچھ زائد تھے اور جنگ کے واسطے ضروری سامان حرب و ضرب بھی ان کے ساتھ نہیں تھا، ان کا مقابلہ اتنے بڑے لشکر سے ہونے کا وقت آگیا، آپ ﷺ نے اس نازک موقع سے ارشاد فرمایا:

"اشیرواعلی ایہاالناس" (البدایہ: ۳/۳۲۰)
اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔


مشورہ اس بات کا کہ اس لشکرسے جنگ کی جائے یا نہیں؟ اس مشورہ کی ضرورت اس لئے پڑی کہ جس قافلہ کیلئے نکلے تھے وہ تو صحیح سالم نکل گیا اور ہزار کی تعداد میں ہتھیاروں سے لیس یہ لشکر سامنے آموجود ہوا اور اس کیلئے مناسب تیاری کیے بغیر مدینہ سے نکلنا ہوا تھا؛ اسی بناء پر بعض صحابہ کی رائے تھی کہ لڑائی کئے بغیر واپس مدینہ چلے جائیں، مگر حضرت ابوبکر، حضرت عمر، سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم نے بروقت اقدام کی رائے دی اور بڑی جرأتمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا:

"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا، وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا"
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر آپ ﷺسمندر میں گھسنے کا حکم دیں گے تو ہم اس کیلئے بھی تیار ہیں اور اگر برک غماد (ایک مقام کا نام) تک جانے کا حکم دیں تو اس کیلئے بھی ہم تیار ہیں، (ہم آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کریں گے)۔
[صحیح مسلم:1779، مصنف ابن ابی شیبۃ:36708، مسند احمد:13296]


اس رائے سے آپ ﷺ بڑے خوش ہوئے اور آپ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اگرچہ ہم تجارتی قافلہ کے واسطے نکلے تھے، لیکن اب جبکہ ہمارا مقابلہ ابوجہل کے لشکرسے ہوگیا ہے تو اس سے جنگ کریں گے، جنگ کی قطعیت آپ نے اپنے اجتھاد سے دی، اور فرمایا:

"سیرواوا بشروا فان اللہ تعالٰیٰ قدوعدنی احدی الطائفتین واللہ لکانی الآن انظرالی مصارع القوم "۔ (سیرت لابن ہشام: ۱/۲۱۵)
ابوجہل کے لشکر کے مقابلہ کیلئے چلو اور تمہیں خوشخبری ہو کہ اللہ تعالٰیٰ نے مجھ سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا ہے اور بخدا میں کافرقوم کے جائے قتل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔


گویا آپﷺ کے فیصلہ کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے آپ ﷺکی فتح اور کفار مکہ کے شکست کی خوشخبری دی گئی۔





اصلاح وترمیم:

البتہ اگر آپ ﷺ کا اجتھاد واقعہ کے مطابق نہ ہوتا تو کبھی اس پر نکیر کی جاتی اور فیصلہ کو بدل دیا جاتا تھا جیسا کہ:


۱۔ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ کا معمولِ مبارک تھا کہ بعد عصر کھڑے کھڑے ازواجِ مطہراتؓ کے پاس تشریف لاتے اور حضرت زینبؓ کے پاس معمول سے زیادہ ٹھہرتے اور شہد پیتے تو مجھ کو ایک دن رشک آیا، میں نے حضرت حفصہؓ سے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس آپ ﷺ تشریف لائیں وہ یوں کہے کہ مغافیر (یہ ایک قسم کی گوند ہے جس میں اچھی بو نہیں ہوتی ہے) نوش فرمایا ہے؟ چنانچہ ایسا ہی ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تو شہد پیا ہے، ان ازواج مطہرات نے عرض کیا: شاید کوئی مکھی اس کے درخت پر بیٹھ گئی ہوگی اور اس کے رس کو چوس لیا ہوگا، آپ ﷺ نے قسم کھاکر فرمایا کہ میں پھر شہد نہیں پیئوں گا اور اس خیال سے کہ حضرت زینب ؓ کا دل نہ دکھے اس کے اخفاء کی تاکید فرمائی۔
[بخاری، حدیث نمبر:5267]




آپ ﷺ نے شہد کو جو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا یہ واقعہ کے مطابق نہیں تھا، کیونکہ کسی حلال چیزکو خود پر حرام کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لئے سورۂ تحریم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور آپﷺ کے اجتھاد میں اصلاح و ترمیم کرتے ہوئے یہ ہدایت دی گئی کہ آپ قسم کا کفارہ ادا کیجئے اور شہد جو اللہ کی طرف سے جائز ہے اسے حرام نہ سمجھئے؛ چنانچہ اس آیت کے اترنے کے بعد آپ ﷺ نے کفارہ ادا کیا۔ (تفسیرقرطبی: ۱۸/۱۸۵)



۲۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ بعض رؤساء مشرکین کو دین کی دعوت دے رہے تھے، کہ اتنے میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا صحابی رضی اللہ عنہ حاضرخدمت ہوئے اور کچھ پوچھنا شروع کیا، یہ قطع کلام آپ ﷺ کو ناگوار ہوا اور آپ ﷺ نے ان کی طرف التفات نہ فرمایا اور ناگواری کی وجہ سے آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر اس کے آثار بھی ظاہر ہوئے ۔ (تفسیردرمنثور: ۱۰/۱۹۶)


اس واقعہ میں آپ ﷺ کا اجتھاد یہ تھا کہ عبداللہ بن ام مکتوم تو اپنے آدمی ہیں، اسلام میں داخل ہیں، فروعی مسائل کی ان کو ضرورت ہے، جبکہ ان مشرکین کو اصول اسلام اور ایمان کی دعوت دی جارہی ہے، ظاہر ہے کہ یہ اہم ہے اور عبداللہ بن ام مکتوم کو بعد میں بھی جواب دیا جاسکتا ہے، جس طرح کسی ڈاکٹر کے پاس دو مریض آئے، ان میں سے ایک کو زکام ہو اور دوسرے کو ہیضہ ہوگیا ہو، تو صاحب ہیضہ کا علاج مقدم ہوگا، اسی لیے آپ ﷺ نے مشرکین پر توجہ دی اور فی الحال عبداللہ بن ام مکتومؓ کو نظرانداز کردیا؛ لیکن آپﷺ کے اس اجتھاد پر نکیر کی گئی اور سورۂ عبس کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ مرض میں شدت اس وقت اہمیت کا سبب ہوتا ہے جب مریض علاج کا مخالف نہ ہو؛ ورنہ طالبِ علاج ہونا موجب اقدمیت واہمیت ہوگا، گو مرض خفیف ہو؛ الغرض اس خاص واقعہ میں آپ ﷺ کے اجتہاد کو تسلیم نہیں کیا گیا اور سورۂ عبس کی ابتدائی آیات کے ذریعہ اس پر تنبیہ کی گئی، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ بعد میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ کی بڑی خاطر فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے:
"أَنْت الَّذِي عَاتَبَنِي فِيك رَبِّي"۔
آپؓ ہی کی وجہ سے میرے رب نے مجھ پر عتاب کیا ہے۔

[مرآة الزمان في تواريخ الأعيان - سبط ابن الجوزي(654ھ) : 1/419]
تفسیردرمنثور- السیوطي(م911ھ) : 2/643، الناشر: دار الفكر - بيروت]
روح المعاني:3/148، الاستيعاب في بيان الأسباب:1/475





خلافِ اولی ہونے پر تنبیہ:

بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ ﷺ نے اجتھاد کیا، لیکن اسے وحی متلو نے نافذ تو کردیا، لیکن خلافِ اولیٰ ہونے پر تنبیہ کردی گئی، جیسا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے غزوۂ بدر کے قیدیوں کے تعلق سے مشورہ کیا، دو طرح کی رائیں سامنے آئیں، یہ رائے بھی آئی کہ سارے قیدیوں کو قتل کردیا جائے اور دوسری رائے یہ بھی آئی کہ ان سب سے فدیہ لیکر چھوڑدیا جائے، تاکہ مسلمانوں کو مالی وسعت بھی ہوجائیگی اور یہ حضرات جو قید ہوکر ہمارے یہاں آئے ہیں ان کو اپنے بارے میں نظرثانی کا موقع بھی مل جائیگا، آپ ﷺ نے اپنے اجتھاد سے اس آخری رائے کو ترجیح دی اور فدیہ کا فیصلہ فرمادیا، مگر اس فیصلہ پر نقد کرتے ہوئے اللہ تعالٰیٰ نے فرمایا:
"مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ" (الانفال:۶۷)
نبی کی شان کے لائق نہیں کہ ان کے قیدی باقی رہیں، بلکہ قتل کردیئے جائیں، جب تک وہ زمین میں اچھی طرح کفارکی خونریزی نہ کرلیں۔



مگر اس اجتھاد کو بدلا نہیں گیا اور فدیہ کے طور پر جو مال لیا گیا تھا اسے مال غنیمت اور حلال کہا گیا، چنانچہ ارشادباری تعالٰیٰ ہے:

"فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا" (الانفال:۶۹)
سوجوکچھ تم نے لیا ہے اس کو حلال اور پاک سمجھ کر کھاؤ۔



شرط کا اضافہ:

کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ ﷺ نے اپنے اجتھاد سے مطلق ایک چیز کا حکم دیا، لیکن خدائے تعالٰیٰ کی طرف سے اس میں شرط کا اضافہ کیا گیا، جیسا کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صاحب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر میں میدانِ جہاد میں قتل کردیا جاؤں تو میرے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے یا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کے راستہ میں اس حال میں شہید ہوئے کہ تم میدان میں جمے رہے اور اللہ تعالٰیٰ سے ثواب کی امید وابستہ کئے ہوئے رہے، پشت پھیرکر بھاگنے والے نہ ہوئے تو ضرور اللہ تعالٰیٰ تمہارے سارے گناہوں کو معاف فرمادے گا، پھر جب وہ صاحب اپنا جواب سن کر کچھ دور چلے گئے تو آپ ﷺ نے ان کو آواز دیکر بلایا اور سوال دوبارہ ذکر کرنے کو کہا؛ انہوں نے اپنا سوال دہرایا، آپ ﷺ نے اپنا وہی جواب سنایا، لیکن آخرمیں فرمایا کہ سارے گناہ معاف تو ہوجائیں گے لیکن قرض لیکر اس کو واپس نہ کرنے کا گناہ معاف نہیں ہوگا، ابھی ابھی حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھے یہ بات بتائی ہے۔ (جامع الاصول، حدیث نمبر:۷۲۱۸)
اس حدیث میں آپ ﷺ نے جتنا جواب اپنے اجتھاد سے دیا تھا، اس میں مزید ایک شرط (دین) کا اضافہ بذریعہ وحی کی گئی۔ کیونکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تو اللہ تعالٰیٰ کے پیغام کو ہی آپ ﷺ تک پہنچایا کرتے تھے۔


ایک اجتہاد سے دوسرے اجتہاد کی طرف:

کبھی ایسا بھی ہوا کہ ایک حکم آپ ﷺ نے اپنے اجتھاد سے دیا، بعد میں آپ ﷺ کا اجتھاد کسی اہم بات کی طرف ذہن کے منتقل ہونے کی وجہ سے بدل گیا تو دوسرا حکم آپ ﷺ نے دیا ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ایک دستہ ترتیب دیا، جس میں ہم بھی تھے اور یہ فرمایا کہ قریش کے فلاں فلاں نامی آدمی کو جہاں پاؤ اُن کو آگ میں جلاڈالو، پھر جب ہم لوگ تیار ہوکر مہم کیلئے نکلنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے تم لوگوں کو فلاں اور فلاں کے جلا ڈالنے کا حکم دیا تھا، لیکن جلانا اور آگ کا عذاب دینا اللہ تعالٰیٰ کے شایانِ شان ہے، اس لئے ان کو نہیں جلانا، بلکہ ان کو قتل کردینا۔
(مسند احمد: ۲/۴۵۳۔ حدیث نمبر:۹۸۴۳)




دوسرے کے اجتہاد پر عمل:

کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ ﷺ نے اپنے اجتھاد سے ایک حکم دیا، صحابہ نے اس پر عمل کیا، لیکن کسی صحابی نے اپنے اجتھاد سے کوئی دوسری رائے دی اور اس میں خیر کا پہلو نظر آیا تو آپ ﷺ اپنے اجتھاد کو چھوڑکر ان کے اجتھاد پر عمل فرماتے تھے، جیساکہ غزوۂ بدر میں آپ ﷺ نے اپنے اجتھاد سے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا اور اس جگہ پڑاؤ ڈالا، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی مقام پر ٹھہرگئے؛ لیکن حباب بن منذر رضی اللہ عنہ آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور با ادب عرض کیا کہ حضور ﷺ! آپ کا قیام یہاں پر بذریعہ وحی ہوا ہے یا بطور اجتھاد؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اجتھاد سے میں نے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے، یہ سن کر حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اس جگہ کے بجائے اگر فلاں مقام پر قیام کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، اس لئے کہ اس صورت میں پانی ہمارے قبضے میں رہے گا اور کفارمکہ کو پانی نہ مل سکے گا، ان کی رائے سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: "لقد اشرت بالرأی" (سیرت ابن ھشام: ۱/۶۲۰)
واقعی تمہاری رائے بہت اچھی ہے۔
اور آپ ﷺ نےاس جگہ پر پڑاؤ ڈالا جس کے متعلق حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے رائے دی تھی اور اپنی رائے اور اجتھاد سے رجوع فرمالیا (حوالہ سابق) اور اس کی تائید بذریعہ وحی بھی ہوئی، چنانچہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے عرض کیا کہ اے حضور ﷺ آپ کے رب نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور یہ پیغام بھیجا ہے: "ان الرای مااشاربہ الحباب بن المنذر" (تفسیر ابن کثیر: ۴/۲۴)
حباب بن منذر کی رائے بڑی اچھی رائے ہے۔


آپﷺ کے اجتہاد کے فائدے:

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کے اجتھاد میں کبھی کبھی غلطی بھی ہوجاتی تھی، اگرچہ اس پر برقرار نہیں رکھا جاتا تھا مگر اس کی اصلاح کی ضرورت ہوتی، کبھی خلافِ اولیٰ کام پر تنبیہ کی جاتی اور کبھی اس کی تبدیلی کی نوبت آتی تو پھر آپ ﷺ کو اجتھاد کرنے سے ہی منع کیوں نہ کردیا گیا، تاکہ جو بات بھی امت کے سامنے آتی وہ بذریعہ وحی آتی اور اس طرح کے طول عمل کی ضرورت پیش نہ آتی، کیونکہ سلسلۂ وحی کے قائم ہونے کی وجہ سے یہ بات کچھ مشکل نہ تھی، واقعہ یہ ہے کہ اگرچہ آپ ﷺ سے اجتھاد میں غلطی ہوئی ہے؛ لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ کو اجتھاد کا مکلف کیا گیا اس میں بڑے اہم فوائد مضمر ہیں، مثلاً:
١) امتِ مسلمہ کو اجتھاد کی ترغیب و تشویق دلانا مقصد تھا، کہ جس طرح نبی کریم ﷺ نے پیش آمدہ امور میں اجتھاد سے کام لیا اور فیصلے فرمائے، اسی طرح فقہاء امت بھی پیش آمدہ مسائل کے سلسلہ میں حکم شرعی معلوم کرنے کی جدوجہد کریں؛ اگرچہ یہ مقصد قولی احادیث سے بھی پورا ہوسکتا تھا لیکن فعل سے مزید طمانینت حاصل ہوتی ہے، طرز استدلال اور نوعیتِ قیاس نکھرکر سامنے آتا ہے، اس سے بعد کے مجتہدین کو بڑی رہنمائی ملتی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ پیش آمدہ تمام مسائل کا حل نصوص میں صراحتاً نہیں مل سکتا؛ کیونکہ نصوص محدود ہیں اور پیش آنے والے واقعات و حوادث بے شمار ہیں، جن کا حل علماء امت نصوص سے ثابت شدہ اصول و ضوابط اور مقاصد شرعیہ کو سامنے رکھ کر ہی کرسکتے ہیں، اسی طرف علماء کے ذہن کو متوجہ کرنے کیلئے آپ ﷺ نے عملاً اجتھاد کیا اور آپ ﷺ کو اجتھاد کا مکلف کیا گیا۔


٢) امت کے ذہن میں اس بات کو راسخ کرنا تھا کہ حضوراکرم ﷺباوجود ہزار فضائل و کمالات کے بہرحال انسان ہیں اور بشری لوازمات سے آپ مستثنیٰ نہیں ہیں، جس طرح عام انسانوں سے خطا و صواب دونوں کا صدور ہوتا رہتا ہے اسی طرح آپ ﷺ سے بھی کبھی صواب اور کبھی خطا ہوتا ہے، البتہ عام انسانوں سے آپ ﷺ کا امتیاز یہ ہے کہ خطا پر آپ ﷺ کو برقرار نہیں رکھا جاتا، جیسا کہ گذشتہ سطور میں اس کی تفصیل آچکی ہے، بسا اوقات آپ ﷺ اصولِ شرعیہ کی روشنی میں صحیح فیصلہ نافذ کرنے میں حق بجانب ہوتے، مگر ایک فریق ناحق پر ہوتا تو اللہ تعالٰیٰ کو یہ گوارہ نہ ہوتا کہ نبی کے یہاں کوئی خلاف واقعہ فیصلہ ہوجائے، چنانچہ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ایک شخص پر اپنے حق کا دعویٰ کیا، شخص مذکور نے جب انکار کیا تو آپ ﷺ نے مدعی سے بینہ کا مطالبہ کیا، مدعی کے پاس بینہ نہیں تھا تو آپ ﷺ نے حسب اصولِ شرعیہ "البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر" شخص مذکور کو قسم کھانے کا مکلف کیا، وہ شخص قسم کھانے پر آمادہ ہوگیا اور قسم کھا بھی لی کہ میرے پاس اس کا کوئی حق نہیں ہے، آپ ﷺ اس مقدمہ کو خارج کرنے ہی والے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا کہ قسم کھانے والا شخص جھوٹا ہے، اور اس پر مدعی کا حق ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے حق کی ادائیگی کا حکم دیا اور قسم کا کفارہ بھی ادا کرنے کی تاکید کی۔ (مسنداحمد: ۱/۲۹۶۔ حدیث نمبر:۲۶۹۵)



یہ واقعہ آپ ﷺ کے نہ صرف یہ کہ اجتھاد کے حق بجانب ہونے کو بتاتا ہے بلکہ اس بات کو بھی واضح طور پرسے ثابت کرتا ہے کہ آپ کے زبان حق ترجمان سے واقع کے خلاف بھی فیصلہ کبھی نہیں ہوا، اگر ایسا ہوتا ہوا نظر آیا تو فوراً وحی کے ذریعہ اس پر متنبہ کردیا گیا.


٣) آپ ﷺ کو اجتھاد کرنے کا حکم دینے اور پھر اجتہاد میں غلطی ہوجانے کی صورت میں اس پر تنبیہ کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ نبی کریم ﷺ پیغام خداوندی کے پہنچانے میں امین ہیں، انہوں نے احکام خداوندی کو بلاکم و کاست امت تک پہنچایا اور کسی حکم یا آیت کو نہیں چھپایا؛ اگر وہ کسی آیت کو چھپاتے تو ان آیات کو چھپا سکتے تھے جو خلافِ اولیٰ امور کے صادر ہوجانے پر اللہ تعالٰیٰ نے مشفقانہ عتاب نازل کیا تھا؛ مگر ان کوبھی آپ ﷺ نے نہیں چھپایا تو دیگر کسی حکم کو آپ کیسے چھپا سکتے تھے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگر آپ ﷺ کسی آیت کو چھپاتے تو حضرت زینب بنت حجش اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کے متعلق جو آیات نازل ہوئی تھیں ان کو چھپالیتے۔ (بخاری، حدیث نمبر:۶۸۷۰)



ان تفصیلات سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ جن امورمیں وحی نازل نہیں ہوتی تھی آپ ﷺ ان میں اجتھاد فرمایا کرتے تھے اور ان میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں، چنانچہ نبی کریم ﷺ کے فتاویٰ اور اجتھادی مسائل کو علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اعلام الموقعین کی آخری جلد میں جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے جس میں فقہی ترتیب کے لحاظ سے تقریباً ہر باب کے تحت آپ ﷺ سے کئے جانے والے سوالات اور ان کے جوابات کو درج کیا ہے، جو مجموعی لحاظ سے ۷۰۲ سوالات اور ان کے جواب پر مشتمل ہے، مولانا عبدالرحمن صاحب حیدرآبادی مظاہری دامت برکاتہم و متعنا اللہ بطری حیاتہم نے "فتاوی الرسول" کے نام سے انہی روایات کی مختصر تشریح کی ہے، جس کا اردو ترجمہ "فرامین رسول ﷺ" کے نام سے شائع ہوچکا ہے؛البتہ اس میں احادیث کی تخریج نہیں کی گئی ہے؛ بلکہ علامہ ابن قیمؒ کے اجمالی حوالوں پر اکتفا کیا گیا ہے۔
واللہ الموفق وھوالمعین۔




حیاتِ نبویؐ میں صحابہؓ کا اجتھاد

قرآن و حدیث میں جب پیش آمدہ مسائل کا حکم صراحتاً نہ ملتا تو صحابہ کرام اپنے اپنے اجتھاد و رائے سے فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ عمل آپ ﷺ کی اجازت پر ہی مبنی ہوگا، اور یقینا اس سے ان کی تربیت بھی مقصود ہوگی۔ آپ ﷺ کی موجودگی میں بھی صحابہ کرامؓ نے اجتھاد کیا ہے۔ اس کی واضح مثال آپ ﷺ کی موجودگی میں غزوۂ بنوقریظہ کے موقع سے بنوقریظہ کے معاملہ میں حضرت سعد بن معاذؓؓ کا فیصلہ کرنا ہے کہ آپؓ فیصلہ فرمایا:

"تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُهُمْ وَتُسْبَى ذَرَارِيُّهُمْ"
ان کے جوانوں کو قتل کردیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام باندی بنالیا جائے۔(اسدالغابہ: ۱/۴۴۲)

حضرت سعدؓ کے اجتھاد کی تصویب کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ [بخاری:3804، مسلم:1768]





اسی طرح امام احمدؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں ایک مقدمہ آیا، آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو اس کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا، انہوں نے معذرت کرنی چاہی، لیکن آپ ﷺ نے حکم دیا اور فرمایا کہ اگر صحیح فیصلہ کروگے تو دس نیکیاں ملیں گی اور اگر کوشش کے بعد غلطی ہوجائے تب بھی ایک نیکی تو ضرور ملے گی۔
 «إِنْ أَنْتَ قَضَيْتَ بَيْنَهُمَا فَأَصَبْتَ الْقَضَاءَ، فَلَكَ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَإِنْ أَنْتَ اجْتَهَدْتَ وَأَخْطَأْتَ، فَلَكَ حَسَنَةٌ»
[مسنداحمد: حدیث نمبر:17824]





اسی طرح آپ ﷺ کی حیات میں لیکن آپ کی عدم موجودگی میں بھی صحابہؓ نے اجتھاد کیا ہے؛ کیونکہ خود آپ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن جاتے ہوئے اجازت دی تھی کہ اگر قرآن و حدیث میں حکم نہ ملے تو اجتھاد سے کام لو۔
[ترمذی : ماجاء فی القاضی کیف یقضی، حدیث نمبر:1327]




صحابہ نے آپﷺ کے ارشاد پر عمل کیا، مثلاً حضرت علیؓ کے پاس یمن میں ایک لڑکے کے سلسلہ میں تین دعویدار پہنچے، حضرت علیؓ نے تو پہلے یہ کوشش کی کہ وہ دوسرے کے حق میں دستبردار ہوجائیں، لیکن جب کوئی اس پر آمادہ نہیں ہوا تو قرعہ اندازی کرکے جس کے حق میں قرعہ نکلا اس کو لڑکا حوالہ کردیا اور باقی دونوں کے بارے میں کہا کہ وہ دونوں کو ایک ایک تہائی دِیَت(خُون بہا) ادا کرے، اس فیصلے کی اطلاع جب نبی کریم ﷺ تک پہنچی تو اس پر بڑے خوش ہوئے؛ حتی کہ لوگوں کو ہنسی کی وجہ سے آپ ﷺ کے نواجذ(دانت) بھی نظر آنے لگے۔
«فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ مِنْ قَضَاءِ عَلِيٍّ»
[ابوداؤد:2270،ابن ماجہ:2348، نسائی:3488]
[الفقیہ والمتفقہ، للخطیب:۲/۷۹، حدیث نمبر:۵۱۸]





عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: كَانَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيُّ يُفْتُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:
حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ عہدِ نبوی میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔
[الطبقات الكبرىٰ-ابن سعد(المتوفى:230هـ) : 2/ 255، دار الكتب العلمية - بيروت]
[تاريخ دمشق-ابن عساكر (م571هـ) : 39 / 180، دار الفكر]





عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَهْلٍ بن أَبِي حَثْمَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ الَّذِينَ يُفْتُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَثَلَاثَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ.


ترجمہ:
حضرت سہیل ابن ابی خیثمہؓ راوی ہیں کہ عہدِ نبوی میں تین مہاجر صحابہ: حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ اور تین انصاری صحابہ: حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ فتویٰ دیا کرتے تھے۔

[الطبقات الكبرىٰ-ابن سعد(المتوفى:230هـ) : 2/ 267، دار الكتب العلمية - بيروت]

[الاستذكار-ابن عبد البر(م463هـ) : 7/ 476،  دار الكتب العلمية - بيروت]
[تاريخ دمشق-ابن عساكر (م571هـ) : 58 / 421، دار الفكر]
[أسد الغابة-ابن الأثير (م630هـ) : 5 / 187،، دار الكتب العلمية - بيروت]
[سير أعلام النبلاء-الذهبي (م748هـ) : 3 /275، دار الحديث- القاهرة]






اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو حضور ﷺ کے زمانہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔
كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَوْفٍ مِمَّنْ يُفْتِي فِي عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

[سير أعلام النبلاء-الذهبي (م748هـ) : 1/ 86 ، مؤسسة الرسالة]





غرضیکہ حضور ﷺ کے زمانہ میں بھی صحابہ اجتھاد سے کام لیتے تھے، اور اس کی بنیاد پر فتاویٰ دیتے تھے؛ خواہ وہ منصب قضاء پر فائز ہوں یا نہ ہوں؛ اسی کو ملا محب اللہ بہاریؒ(م1119هـ) اور علامہ آمدیؒ(م631هـ) وغیرہ نے ترجیح دی ہے۔
[فواتح الرحموت مع مسلم الثبوت: ۲/۳۷۵۔ الاحکام للآمدی: ۱/۴۳۲]





حضرت ابو بکرؓ اور اجتہاد

لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں مجتہدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت تھی جنہوں نے انقطاع وحی کے بعد جدید مسائل میں ملت اسلامیہ کی اجتہاد ہی سے رہنمائی کی؛ انہی میں ایک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جن کی اجتہادی صلاحیت اوراستنباط کی استعداد اسی وقت آشکار ہوئی جب آپ نے مانعینِ زکوۃ سے قتال کا حکم صادر فرمایا؛ جبکہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا موقف اس کے برخلاف تھا، صحابہ نے عرض کیا کہ کلمہ گو سے کیسے مقاتلہ کیا جائیگا جب کہ آپ ﷺ نے ان کے خون کو معصوم اور ان کے اموال کو محفوظ شمار کیا ہے، اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کلمہ کے حقوق میں سے ایک حق جس طرح نماز ہے اسی طرح زکوۃ بھی ہے، جس نے نماز اور زکوۃ میں فرق کیا یقینا میں اس سے مقاتلہ کروںگا، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استدلال پر دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بھی شرح صدر ہوا اور اسی کو راجح قرار دیتے ہوئے اس پر عمل کیا۔ (الفصول فی الاصول:۲/۳۸۷)
ابواسحاق رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مانعین زکوۃ کے تئیں آپ رضی اللہ عنہ کا موقف اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس رائے کی جانب رجوع کر لینا صحتِ استدلال و اصابتِ رائے کی دلیل ہے۔ (تاریخ الخلفاء:۱/۱۵)
آپ کے صحتِ اجتہاد اور اصابتِ رائے کی تصدیق آپ ﷺ نے بھی فرمائی ہے، جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کیا جا رہا تھا تو کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ نے یہ مشورہ کیا کہ کن کو یمن روانہ کیا جائے؟ ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ موجود تھے؛ ہرایک نے اپنی اپنی رائے پیش کی، اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ تمہاری کیا رائے ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے زیادہ پسند ہے، اس موقعہ پر آپ ﷺ نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی آسمان پر اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ غلطی کرجائیں۔ (تاریخ الخلفاء: ۱/۱۷)
آپ کی فقہی بصیرت کا اندازہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
"مَنْ کَانَ یُفْتِی النَّاسَ فِی زَمَانِ رَسُوْ لِ اللہِ ﷺ؟ فَقَالَ: أَبُوْبَکَرٍ وَعُمَرَ مَاأَعْلَمُ غَیْرَھُمَا"۔ (اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ: ۲/۱۴۶۔ تاریخ الخلفاء: ۱/۱۵)
آپ ﷺ کے زمانے میں کون فتوی دیاکرتے تھے ؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں کے علاوہ میں نہیں جانتا.
نیز علامہ ابن قیم جوزی متوفی ۷۵۱ھ نے آپ کے فتاوی کے سلسلہ میں لکھا ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی فتاوی کی ایک معتد بہ مقدار مروی ہے؛ اگر ان میں سے ہر ایک کے فتاوی جمع کئے جائیں تو فتاوی کا ایک اچھا خاصہ مجموعہ ہوجائیگا۔ (اعلام الموقعین: ۱/۱۲)
نیز علی حیدر آفندی متوفی ۱۳۵۳ھ رقم طراز ہیں "کَانَ یَصْدُرُ بَعْضُ الْأَحْکَامِ بِنَاءً عَلیٰ اِجْتِہَادِہِ"۔ (دررالاحکام فی شرح مجلۃ الاحکام: ۱/۳۵)
آپ بعض احکام اپنے اجتہاد کی روشنی میں بھی صادر فرماتے تھے ایک دفعہ آپ نے کلالہ کے سلسلہ میں اجتہاد کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا: "فَإِنْ یَکُ صَوَاباً فَمِنَ اللہِ وَرَسُوْلِہِ وَإِنْ یَکُ خَطَأً فَمِنِّی وَمِنَ الشَّیْطَانِ أَرَی الْکَلَالَۃَ مَاخَلَاالوَلَدِ وَالْوَالِدِ"۔ ( مبسوط سرخسی: ۳۲/۲۹۴)
"اگر اس اجتہاد سے میں درست بات کہوں تو یہ درستگی اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ہوگی اور اگر غلطی ہوجائے تو یہ غلطی کی نسبت میرے اور شیطان کی جانب رہے گی"۔


آپؓ کے قیاسی مسائل میں سے ایک مشہور مسئلہ دادا کی وراثت کا مسئلہ ہے، جس سے ان کی اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی میت ورثہ میں صرف دادا اور بہن بھائی چھوڑے یعنی اصول میں باپ اور فروع میں کوئی نسبی اولاد نہ ہو تو وراثت کا مستحق کون ہوگا، دادا یابھائی بہن؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ تقریباً چودہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ وغیرہ شامل ہیں، دادا کو باپ کے مرتبہ میں قرار دیکر بھائی بہن کو وراثت کا غیر مستحق قرار دیتے ہیں۔ "بَاب مِيرَاثِ الْجَدِّ مَعَ الْأَبِ وَالْإِخْوَةِ وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ الزُّبَيْرِ الْجَدُّ أَبٌ"۔ (بخاری شریف: ۲۰/۴۶۳)

لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت اس سے اختلاف رکھتی ہے اور بھائی بہن کو اصل وارث قرار دیتی ہے، یہ اختلاف در حقیقت لفظ کلالہ کی تشریح پر مبنی ہے؛ کیونکہ قرآن شریف میں آیا ہے: "یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْ الْکَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ"۔ (النساء:۱۷۶)
اس آیت کریمہ میں گویا باپ کی کوئی تصریح نہ ہونے میں اس حد تک سب کا اتفاق ہے کہ کلالہ کی صورت میں باپ کا نہ ہونا ضروری ہے؛ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دادا کا نہ ہونا بھی ضروری قرار دیتے ہیں اور اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں: "وَإِن کَانَ رَجُلٌ یُورَثُ کَلاَلَۃً أَوامْرَأَۃٌ وَلَہُ أَخٌ أَوْأُخْتٌ" (النساء:۱۲)
اس آیت میں علاتی بھائی بہنوں کی وراثت کا تذکرہ ہے اور یہاں بالاتفاق "کلالہ" کے یہ معنی ہیں کہ میت کے اصول (باپ، دادا) و فروع (اولاد، اولاد کی اولاد) میں کوئی نہ ہو، یعنی اگر میت کا دادا موجود ہوگا تو وہ کلالہ نہ ہوگا اور علاتی بھائی محروم ہونگے۔
اس بناء پر کوئی وجہ نہیں کہ کلالہ کی یہی تشریح زیر بحث مسئلہ میں قائم رہے اور بلاوجہ اسکے معنی میں تفریق کی جائے۔(سیرالصحابہ:۱/۸)
آپ کا مسائل میں فیصلہ کا انداز یہ تھا کہ آپ پہلے کتاب اللہ میں غور و فکر کرتے کوئی حکم مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے ورنہ سنت رسول میں غوطہ زنی کرتے اس میں حکم مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کردیتے؛ ورنہ لوگوں سے دریافت کرتے کہ کیا آپ ﷺ نے اس طرح کسی معاملہ میں فیصلہ کیا ہے؟ کوئی گواہی دیتا تو اس طرح فیصلہ کردیتے؛ اگر سنت میں بھی حکم نہ ملے تو ایسی صورت میں اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کرتے اور ان سے مشورہ کرتے؛ اگر کسی پر رائے قائم ہوجاتی تو اسی کے مطابق فیصلہ کردیتے۔ ( اعلام الموقعین: ۱/۶۲۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ: ۸/۲۶۸)
آپ کا اختیار کردہ طریقہ کار بعینہ وہی ہے جس کو آپ ﷺ نے غزوۂ بدر کے موقعہ پر اختیار کیا تھا اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ مشاورت بھی ایک قسم کا اجتہاد ہی ہے کیوں کہ اگر کوئی بات منصوص ہوتی تو یہ جمع ہونا بیکار ہوتا۔


حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ما بین اختلافی مسائل کی ایک معتد بہ مقدار ہے، ایسے اختلافی مسائل حضراتِ شیخین کے درمیان بھی ہیں؛ نیزحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اجتہادی اقوال اور ان کے مختلف فیہ مسائل؛ نیزان کے فقہی اقوال کو ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے فقہ ابی بکر رضی اللہ عنہ کے نام سے مرتب کیا ہے، ذیل میں آپ کے کچھ اقوال فقہیہ کا تذکرہ مناسب رہے گا، جس سے ان کے فقہی مقام اور اجتہادی بصیرت تک رسائی میں سہولت رہے گی۔

(۱)ناقص زائیدہ بچہ پر نماز جنازہ پڑھی جائیگی یا نہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائیگی؛ جب وہ چار ماہ کا ہوجائے تو اسے غسل دیا جائیگا اور نماز پڑھی جائیگی، اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے "السَّقْطُ یُصَلَّی عَلَیْہِ" (مصنف ابن ابی شیبہ:۳/۳۱۷) اس لیے کہ یہ بھی ایک جان ہے، اس میں روح پھونکی گئی ہے اور چار ماہ میں روح پھونک دی جاتی ہے اس لیے اس پر نماز پڑھنا چاہئے اور یہی بات سعید بن المسیب، ابن سیرین، اسحاق رحمہم اللہ نے اختیار کی ہے؛ نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی قول اختیار کرتے ہوئے اپنے مردہ بیٹے کی نماز جنازہ پڑھی تھی۔(المغنی لابن قدامہ:۴/۴۹۷)
حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف روایت منقول ہے۔ (الاستذکار الجامع لمذاہب الفقہاء: ۲/۳۲)
(۲)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تکبیراتِ انتقالیہ کو سنت قرار دیتے ہیں، اسی کو فقہاء کرام نے لیا ہے؛ لیکن دیگر صحابہ کرام کے اقوال کے پیش نظر دیگر ائمہ کرام نے تکبیراتِ انتقالیہ کو واجب تک قرار دیا ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے اعرابی کو نماز سکھائی ہے، اس کو فرائض و واجبات نماز کی تعلیم دی اس میں تکبیر تحریمہ کا تو ذکر ہے؛ لیکن تکبیرات انتقالیہ کا کوئی ذکر نہیں ہے؛ حالانکہ یہ موقع بیان کرنے کا ہے؛ یہاں پر خاموشی عدم وجوب پر دلالت کر رہی ہے لہٰذا وہ احادیث جن میں ہر اٹھنے و جھکنے کے وقت تکبیر کی بات آئی ہے وہ استحباب پر محمول ہے۔ (موسوعہ فقہیہ کویتیہ:۱۳/۲۰۷)
(۳)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ عمامہ پر مسح درست سمجھتے تھے ایک تو اُن کے سامنے وہ حدیث تھی جس میں یہ ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے پیشانی کے بقدر مسح کیا اور عمامہ پر مسح کیا اور خفین پر مسح کیا اور قیاس کا بھی تقاضہ یہ ہے کہ سر اور پیر دونوں ایسے اعضاء ہیں جو تیمم میں ساقط ہوتے ہیں، جب دونوں کا تیمم میں ایک حکم ہے تو ایسے ہی مسح کے سلسلہ میں بھی ایک ہی حکم ہوگا کہ جس طرح خف پہنے ہوئے ہونے کی صورت میں مسح درست ہے اسی طرح عمامہ باندھے ہوئے ہونے کی صورت میں بھی اس پر مسح درست ہوگا۔ (موسوعہ فقہیہ کویتیہ: ۳/۳۰۵۔ موسوعۃ فقھیۃ:۳۷/۲۵۷)
(۴)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اُمّ ولد کی بیع جائز قرار دی ہے؛ اس کی ایک دلیل تو یہ تھی کہ آپﷺ کے زمانے میں اُمّ ولد کو بیچا جاتا تھے، عقلی دلیل یہ ہے کہ اُمّ ولد بچہ پیدا ہونے سے قبل بہرحال باندی ہے لہٰذا اس کو بیچنا درست ہے تو بچہ پیدا ہونے کے بعد بھی اس کی بیع درست ہونی چاہیے؛ مگر یہ کہ کوئی دلیل اس کی بیع کے ناجائز ہونے پر وارد ہو؛ لہٰذا استصحاب حال سے اس کی بیع درست ہی ہونی چاہیے۔ (بدایۃ المجتہد: ۲/۳۲۱)
(۵) مالدار پر قربانی کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سنت قرار دیا ہے؛ دلیل آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جب ذی الحجہ کے دس ایام آجائیں تو تم میں کا کوئی شخص قربانی کرنا چاہے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے حدیث میں قربانی کو ارادہ پر موقوف رکھا گیا ہے؛ لہٰذا یہ وجوب کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ (مجموع شرح مھذب: ۸/۳۸۵)


حضرت عمرؓ اور اجتہاد

حضرت عمرؓ نے لوگوں کو بعض اختلافی مسائل میں ایک رائے پر جمع کرنے کی خاص طور پر کوشش فرمائی؛ چنانچہ بعض مسائل پر اتفاق رائے ہوگیا اور جن میں اتفاق نہیں ہوسکا، ان میں بھی کم سے کم جمہور ایک نقطہ نظر پرآگئے، ان میں سے چند مسائل یہ ہیں: اس وقت تک شراب نوشی کی کوئی سزا متعین نہیں تھی، حضرت عمرؓ نے اس سلسلہ میں اکابر صحابہؓ سے مشورہ کیا، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص شراب پیتا ہے تو نشہ میں مبتلا ہوتا ہے؛ پھر نشہ کی حالت میں ہذیان گوئی شروع کرتا ہے اور اسمیں لوگوں پر بہتان تراشی بھی کر گزرتا ہے؛ اس لیے جو سزا تہمت اندازی (قذف) کی ہے، یعنی اسی (۸۰) کوڑے، وہی سزا شراب نوشی پر بھی دے دی جانی چاہئے؛ چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر:۷۰۹) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے بھی اسی (۸۰) کوڑے کا مشورہ دیا تھا۔ اگر کوئی شخص لفظ بتہ کے ذریعہ طلاق دے، تو اس میں ایک طلاق کا معنی بھی ہوسکتا ہے اور تین طلاق کا بھی؛ چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ طلاق دینے والے کی نیت کے مطابق فیصلہ کیا جاتا تھا، حضرت عمرؓ کا احساس یہ تھا کہ بعض لوگ اس گنجائش سے غلط فائدہ اُٹھاتے ہیں اور غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ میری نیت ایک طلاق کی تھی، اس لیے انھوں نے اس کے تین طلاق ہونے کا فیصلہ فرمایا۔ رسول اللہﷺ سے نمازِ تراویح کی رکعات کی تعداد صحیح طور پرثابت نہیں ہے؛ کیونکہ آپ نے اس نماز کے واجب ہوجانے کے اندیشے سے دو تین شب کے علاوہ صحابہؓ کے سامنے یہ نماز ادا نہیں فرمائی، مختلف لوگ تنہا تنہا پڑھ لیتے تھے، حضرت عمرؓ نے ایک جماعت بنادی، ان پر حضرت ابی بن کعبؓ کو امام مقرر کیا اور تراویح کی بیس رکعتیں مقرر فرمادیں، جو آج تک متوارثاً چلا آرہا ہے۔ (۵)صحابہ اور خاص کر حضرت عمرؓ نے بعض فیصلے شریعت کی مصلحت اور اس کے عمومی مقاصد کو سامنے رکھ کر بھی کئے ہیں، جیسے: حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں "مولفۃ القلوب" جو زکوٰۃ کی ایک اہم مد ہے، کو روک دیا تھا؛ کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تھی اور اسلام کی شوکت قائم ہوگئی تھی؛ لہٰذا ان کے خیال میں اب اس مد کی ضرورت باقی نہیں تھی۔ حضرت عمرؓ کے دور میں ایک شدید قحط پڑا کہ لوگ اضطرار کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے، اس زمانہ میں حضرت عمرؓ نے چوری کی سزا موقوف فرمادی؛ اسی طرح حضرت حاطب بن بلتعہ کے غلاموں نے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کی اُونٹنی چوری کرلی، آپؓ نے ان غلاموں کے ہاتھ نہیں کاٹے، حضرت عمرؓ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اس وقت لوگ حالتِ اضطرار میں ہیں اور اضطراری حالت میں چوری کرنے سے حد جاری نہیں ہوگی؛ کیونکہ انسان اختیاری افعال کے بارے میں جواب دہ ہے، نہ کہ اضطراری افعال کے بارے میں۔ حضورﷺ نے بھٹکی ہوئی اُونٹنی کو پکڑنے سے منع فرمایا؛ کیونکہ وہ خود اپنی حفاظت کرسکتی ہے؛ یہاں تک کہ اُس کا مالک اُس کو پالے، حضرت ابوبکر و عمرؓ کے دور میں اسی پر عمل رہا؛ لیکن حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے زمانہ میں ایسی اُونٹنی کو پکڑلینے اور بیچ کراس کی قیمت کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا تآنکہ اس کا مالک آجائے (شرح الزرقانی علی المؤطا لمالک:۳/۱۲۹) کیونکہ اخلاقی انحطاط کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ بدقماش لوگ ایسی اونٹنی کو پکڑلیں؛ گویا منشا اونٹنی کی حفاظت تھا، طریقہ کار، زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بدل گیا۔ اسی طرح اگر کوئی شخصی مرضِ وفات میں اپنی بیوی کو طلاق بائن دے دے، تو شریعت کے عمومی اُصول کا تقاضا تو یہی تھا کہ مطلقہ کو اس مرد سے میراث نہ ملے؛ لیکن چونکہ اس کو بعض غیر منصف مزاج لوگ بیوی کو میراث سے محروم کرنے کا ذریعہ بناسکتے تھے، اس لیے صحابہ نے ظلم کے سد باب کی غرض سے ایسی مطلقہ کو بھی مستحق میراث قرار دیا، حضرت عثمان غنیؓ کا خیال تو یہ تھا کہ اگر عدت ختم ہونے کے بعد شوہر کی موت ہو، تب بھی عورت وارث ہوگی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ عدت کے اندر شوہر کی وفات کی صورت میں عورت کو میراث ملے گی۔ اسی طرح امن و امان اور حفاظتِ جان کی مصلحت کے پیشِ نظر حضرت علیؓ کے مشورہ پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص کے قتل میں ایک جماعت شریک ہو تو تمام شرکاء قتل کئے جائیں گے۔ (۶)صحابہ فروعی مسائل میں اختلاف رائے کو برا نہیں سمجھتے تھے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے؛ اگرکوئی شخص سوال کرنے آئے تو ایک دوسرے کے پاس تحقیق مسئلہ کے لیے بھیجتے تھے اور اپنی رائے پر شدت نہ اختیار کرتے تھے، حضرت عمرؓ سے ایک صاحب ملے اور حضرت علیؓ اور زید بن ثابتؓ کا فیصلہ انھیں سنایا، حضرت عمرؓ نے سن کر کہا: کہ اگر میں فیصلہ کرتا تو اس کے برخلاف اس طرح کرتا، ان صاحب نے کہا کہ آپ کو تو اس کا حق اور اختیار حاصل ہے؛ پھر آپ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ فرمادیں، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس اللہ، رسول کا حکم ہوتا تو میں اس کو نافذ کردیتا؛ لیکن میری بھی رائے ہے اور رائے میں سب شریک ہیں؛ چنانچہ انھوں نے حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کے فیصلہ کو برقرار رکھا: "والرأی مشترک فلم ینقص ماقال علی وزید"۔ (اعلام الموقعین:۱/۵۴)


حضرت عثمانؓ اور اجتہاد

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ انہی فقہائے صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں جن کی فقہی آراء کو ہر زمانہ میں بڑی وقعت واہمیت حاصل رہی ہے۔ ذیل میں بطور نمونہ کچھ مسائل پیش کئے جارہے ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد وقیاس سے بیان فرمائے ہیں یا آپ رضی اللہ عنہ کاعمل تھا:
(۱)ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں دن کے وقت شوال کا چاند نظر آگیا لوگ رمضان سمجھ کر تیسواں روزہ رکھ چکے تھے، جب چاند نظر آیا تو کچھ لوگوں نے روزہ افطارکرلیاحضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے اور لوگوں سے کہا کہ میں تو رات ہی میں افطار کرونگا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۶ /۲۵۰، حدیث نمبر۹۵۴۵، مطبوعہ: ادارۃ القرآن دارالعلوم الاسلامیہ، کراچی، پاکستان)
حضورﷺ کے دورِ مبارک میں کبھی اس طرح کا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے اس پر عمل فرمایا؛ شاید آپ رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی اس آیت "وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ" (محمد:۳۳) کے پیش نظر یہ فیصلہ فرمایا۔ (۲)حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے زمانۂ خلافت کے آخری سالوں میں حج کیلئے عرفات و منیٰ جاتے تو وہاں دو کے بجائے چاررکعت ادا فرماتے تھے جبکہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک یہ تھا کہ وہاں قصر کیاجائیگا۔ (بخاری:۱ /۱۴۷، مطبوعہ: اشرفی بک ڈپو، دیوبند)
ایک روایت کے مطابق خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عملِ اتمام کی وجہ یہ بتائی کہ میں نے مکہ کی ایک خاتون سے نکاح کرلیا ہے؛ لہٰذا مکہ میرا وطن عزیز ہوگیا اور وطن میں اتمام فرض ہے نہ کہ قصر۔ (۳)نبی کریم ﷺ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کی ابتدا ء میں مسلمانوں سے زکوۃ کی وصولی سرکاری طور پر وصول کرتے اور حکومت کے نمائندہ کو بھیج کر زکوۃ کا مال جمع کیا کرتے تھے لیکن خلافت عثمانی کے دوران جب لوگوں کے پاس مال ودولت کی کثرت ہوگئی تو عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اندازہ ہوا کہ حکومت کی طرف سے زکوۃ کی وصولی کا اہتمام عوام کیلئے دشواری کا باعث بن رہاہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے زکوۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری خود اصحاب مال پرڈالدی اور انہی کو ادائیگی زکوۃ کا ذمہ دار بنادیا۔ (بدائع الصنائع:۲ /۱۳۶، مطبوعہ: مکتبہ زکریا، دیوبند)
(۴)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حمل یعنی پیٹ کے بچہ کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کیا کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ: ۷/۶۲)
(۵)حج کی تین قسمیں ہیں (۱)افراد (۲)تمتع (۳)قران، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ حج تمتع اور قران کی اجازت دیتے تھے؛ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کو حج تمتع سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری:۱ /۲۱۲، مطبوعہ اشرفی بک ڈپو، دیوبند)
(۶)اگرکوئی محرم حالت احرام میں شکار کرلے تو محرم پر اس جیسا جانور بطور کفارہ حرم میں قربان کرنا ضروری ہے (المائدہ:۹۵) اس آیت کی روشنی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے کچھ جانوروں کی تعیین فرمائی ہے مثلا: آپ رضی اللہ عنہ نے گرگٹ کے شکار میں بکری کا ایک سالہ بچہ بطور دم دینے کا فیصلہ دیا (سنن بیہقی ومصنف عبدالرزاق، بحوالہ: فقہ حضرت عثمانؓ:۳۰) شُترمرغ کے شکار پر ایک فربہ اونٹ بطور دم قربان کرنے کا فتویٰ دیا (مصنف ابن ابی شیبہ:۸ /۴۵۰) بٹیر کے شکار میں ایک بکری دینے کا حکم فرمایا (مصنف عبدالرزاق، بحوالہ: فقہ حضرت عثمان رضی عنہ: ۳۰) کبوتر کے بارے میں بھی آپ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ یہ ہے کہ ایک بکری بطور دم دی جائیگی (ابن ابی شیبہ: ۸/۱۵۱) اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے حالت احرام میں ٹڈی کو مارنے پر بھی فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن اس کی مقدار متعین نہیں فرمائی، غالباً ٹڈی کا فدیہ مٹھی بھر غلہ ہے۔ (فقہ حضرت عثمان رضی عنہ: ۳۱)
(۷)اگر کوئی شخص حرم کے کسی جانور کی ہلاکت کا بلاارادہ سبب بنے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس پر بھی ایک دم دینا ضروری ہوگا، جیسا کہ ایک مشہور واقعہ میں حضرت صالح بن مہری رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان فرمایا: میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج میں شریک ہوا، جب ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچے تو میں نے ان کے لیے ایک مکان میں بستر بچھادیا، آپ رضی اللہ عنہ سوگئے اسی دوران ایک کبوتر آکر کمرے کی کھڑکی میں بیٹھ گیا اور اپنے پنجوں سے مٹی کریدنے لگا، مجھے ڈر ہواکہ کہیں آپ رضی اللہ عنہ کے بستر پر کچھ مٹی نہ گرجائے جس سے آپ کی نیند میں خلل آئے، یہ سوچ کر میں نے اسے وہاں سے اڑادیا، وہ کبوتر وہاں سے اڑکر دوسری کھڑکی میں جابیٹھا، اسی وقت وہاں ایک سانپ نکلا اور اسنے کبوتر کو ڈس لیا جس سے کبوتر کی موت واقع ہوگئی، جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نیند سے بیدار ہوئے تو میں نے آپ رضی اللہ عنہ کو پورا واقعہ سنایا، واقعہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کبوتر کے بدلہ میں ایک بکری بطورِ دم دو، مہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا، امیر المؤمنین میں نے اس کبوتر کو اس لئے اڑایاتاکہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے، یہ سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تب ایک بکری میری طرف سے بھی بطور دم دیدو (مصنف ابن ابی شیبہ: ۸/۱۵۱) تقریباً اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں پیش آیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس وقت بھی دم دینے کا فتویٰ دیا؛ کیونکہ وہ اس کبوتر کو ایک محفوظ مقام سے غیرمحفوظ مقام میں پہنچانے کا باعث ہوئے تھے۔ (مسند شافعی، بحوالہ: سیرالصحابہ: ۱/۲۳۶)
اس مسئلہ میں آپ رضی اللہ عنہ کا مستدل شاید نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے جو آپ ﷺ نے صحابہ کے حالت احرام میں نیز محرِم کے کئے ہوئے شکار کو کھانے کے متعلق دریافت کرنے پر فرمایا: "کیا تم نے اشارہ کیا یاکسی طرح کی مدد کی یاشکار کیا"۔ (مسلم، باب تحریم الصید الماکول البری: ۱/۳۸۱)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے شکار کی طرف اشارہ کو بھی جنایات احرام میں شمار فرمایا، جوکہ شکار کا ادنیٰ سبب ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، اعلاء السنن: ۶/۳۶۲)
(۸)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے ابتدائی برسوں میں محرم کیلئے ایسے شکار کا کھانا ناجائز سمجھتے تھے، جو غیر محرم نے کیا ہو، قطع نظر اس بات کے کہ وہ محرم کیلئے شکار کیاگیا ہو یا کسی اور کیلئے،لیکن بعد میں ان کی رائے تبدیل ہوگئی اور ان کا نقطہ نظر یہ بن گیا کہ اگر محرم کو پیش کرنے کی نیت سے شکار کیاگیا ہو تو محرم کیلئے اس کا کھانا جائز نہیں ہے؛ البتہ محرم کو پیش کرنے کی نیت سے شکار نہ کیا گیا ہو تو محرم کے لئے اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ اس سلسلے میں امام ابن حزم نے المحلی میں یسربن سعید رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی بیان کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اپنی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا معمول یہ تھا کہ جب وہ حج یاعمرہ کی نیت سے احرام باندھ لیتے تھے تو راستہ میں جن منازل میں وہ قیام کرتے، وہاں ان کے لیے جنگلی جانوروں کاشکار کیا جاتا اور وہ ان کا گوشت کھالیا کرتے تھے، بعد میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے اس موضوع پر بات کی اور کہاکہ یہ جو شکارمحض ہمارے لئے کیاجاتاہے میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کیسے جائز ہوسکتاہے، کیاہی اچھا ہوتا اگر ہم اس سلسلے کو ترک کردیتے، اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو ترک کردیا۔ (انسائیکلوپیڈیا: ۳۔ فقہِ حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ:۳۲، مصنف ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی، اردو ترجمہ الیف الدین ترابی، مطبوعہ ادارہ معارف اسلامی، منصورہ لاہور پاکستان۔ مؤطامالک:۱۳۷، مطبوعہ اشرفی بک ڈپو، دیوبند)
ممکن ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا رحجان اس حدیث کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہو جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے شکار کا گوشت پیش کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا: "حالت احرام میں ہونے کی بناء پر ہم اس کو قبول نہیں کررہے ہیں" (مسلم، باب تحریم الصید الماکول البری:۱ /۳۷۹)
(۹)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک آقا کے لئے ایسی دو باندیوں سے جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ہمبستری کرنا درست نہیں ہے؛ جیسا کہ قبیصہ بن ذؤیب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ایسی دوبہنوں کے بارے میں سوال کیا جو کسی کی باندی ہوں کہ کیا ان کا آقا ان دونوں سے صحبت کرسکتاہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قرآن مجید کی ایک آیت تو ان کو حلال کرتی ہے اور ایک آیت ان کو حرام کرتی ہے، حلال کرنے والی آیت ہے "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّتَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْمَامَلَکَتْ أیْمَانُکُمْ" (النساء:۳) اور حرام کرنے والی آیت ہے "وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ" (النساء: ۲۳) پھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا "میرا مسلک یہ ہے کہ مجھے ایسا کرنا ہرگز پسند نہیں"۔ (مؤطامالک مع أوجزالمسالک: ۰ا/۴۷۴، مطبوعہ: مرکزالشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث، مظفر پور اعظم گڑھ، یوپی)
شاید آپ رضی اللہ عنہ کے پیش نظر یہ حدیث مبارک تھی کہ "ہربادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالٰیٰ کی چراگا اس کے احکام ہیں جو شخص سرحد کے قریب جاتا ہے قریب ہے کہ وہ اس میں جاپڑے"۔ (بخاری، باب فضل من استبرأ لدینہ، حدیث نمبر:۵۰)
(۱۰)اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حق طلاق تفویض کردے یعنی اپنے آپ کو طلاق دینے کا اختیار دیدے تو اس صورت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک وہ حق طلاق کی مالک ہوجائیگی یعنی اگر وہ طلاق کو اختیار کرے تو طلاق پڑجائیگی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۹/۵۸۱)
(۱۱)اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے خلع حاصل کرلے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائیگی لیکن اگر مرد نے ایک سے زائد طلاقوں کی صراحت کی تو پھر جتنی طلاقوں کی صراحت کی اتنی ہی واقع ہوجائینگی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۰/۳۷)
آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کا مبدا شاید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اور سعید بن مسیب سے موقوفاً مروی یہ روایت ہے: "اللہ کے نبی ﷺ نے خلع کو ایک طلاق بائن قرار دیا"۔ (اعلاء السنن: ۲۲۱۱)
(۱۲)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اذان اور اس نوعیت کی دینی خدمات پر معاوضہ لینے کو جائز سمجھتے تھے؛ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مؤذنین کو باقاعدہ تنخواہ دیا کرتے تھے۔ (سنن بیہقی: ۱/۴۲۹، بحوالہ: انسائکلو پیڈیا:۳۔ فقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ:۲۴)
آپ رضی اللہ عنہ کا استدلال شاید ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ڈسے ہوئے شخص پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، جس سے وہ شخص اچھا ہوگیا، اس شخص نے اِن صحابی کوبطورِ اجرت چند بکریاں دیدیں، نبیٔ رحمت ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس اجرت کو جائز قرار دیا۔ (بخاری، باب مایعطی فی الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب :۱ /۳۰۴)
(۱۳)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وضو کے ارکان میں ترتیب کو واجب سمجھتے تھے۔ (المجموع: ا/۴۸۲، بحوالہ: انسائیکلوپیڈیا: ۳۔ فقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ: ۴۰۶)
اس مسئلہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا استدلال شاید اس حدیث سے ہے جو خود آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ ترتیب سے وضو کرکے فرمایا: "جو شخص میرے اس وضو جیسا وضو کرے؛ پھرخشوع وخضوع کے ساتھ دورکعت پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں"۔ (بخاری: ۱/۲۷)
(۱۴)اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے پھر عدت کے بعد خاوندکا انتقال ہوجائے تو بیوی مرد کی وارث ہوگی یا نہیں اس بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ فیصلہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر مرد نے حالت صحت میں بیوی کو طلاق دی اور پھر عدت کے بعد مرد کا انتقال ہوا تو بیوی وارث نہیں ہوگی لیکن اگر اس نے حالتِ مرض میں طلاق دی اور عدت کے بعد مرد کا انتقال ہوا تو اس صورت میں آپ رضی اللہ عنہ عورت کو مرد کے مال میں سے حصہ دیتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۰/۱۵۳)
(۱۵)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک دادی یا نانی میں سے اگر کوئی میراث کی حقدار ہورہی ہوتو اس کو ترکہ میں سے چھٹا حصہ دیا جا ئیگا، چاہے میراث کی مستحق ایک ہو یا زیادہ، زیادہ ہونے کی صورت میں چھٹا حصہ ان کے درمیان برابر تقسیم ہوگا؛ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ددی اور نانی کو وراثت میں حصہ ملنے کی شرط یہ ہے کہ جس واسطے سے یہ دونوں میت کی دادی یا نانی بن رہی ہیں وہ واسطہ زندہ نہ ہو اگر وہ واسطہ یعنی میت کا باپ یا ماں وغیرہ زندہ ہوگا تو وہ ان کو میراث سے محروم کردیگا؛ کیونکہ وہ خود رشتے میں ان دادی اور نانی کے مقابلے میں میت سے زیادہ قریب ہے، اس وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میت کے باپ یعنی دادی کے بیٹے کی موجودگی کی صورت میں یا میت کی ماں یعنی نانی کی بیٹی کی موجودگی کی صورت میں مال وراثت میں دادی کو حصہ نہیں دیا کرتے تھے۔ (سنن دارمی: ۲/۲۷۹، مطبع دارالکتب العلمیہ، بیروت)
(۱۶)اگرکوئی شخص ایسی غیر منقولہ شیٔ کو جس کا ناپنا تو لناممکن نہ ہو باقاعدہ قبضہ میں لینے سے پہلے ہی کسی دوسرے شخص کو فروخت کردے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کو جائز قرار دیتے تھے۔ (انسائیکلوپیڈیا:۲۔ فقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ:۱۰۹)
ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے ناپ کر یاتول کر بیچی جانے والی کھانے کی چیز کو قبضہ سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد، باب فی بیع الطعام قبل ان یستوفی: ۴۹۴۔ نسائی، باب النہی فی بیع مااشتری من الطعام بکیل حتی یستوفی: ۲/۱۹۵)
ممکن ہے کہ حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے کَیل اور وزن کی قید کو علت نہی قرار دیا اور غیرمنقولہ اشیاء کو علت نہ پائے جانے کی بنیاد پر قبضہ سے پہلے بیچنے کو جائز قرار دیا ہو۔ استخراجِ مسائل کی ایک قسم،تقلیدمجتہد استخراج واستنباط مسائل کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ مجتہد کسی دوسرے مجتہد کے قول پر فتویٰ دے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، ہم کسی ایسے امام کو نہیں پاتے ہیں جس نے بعض احکام میں اپنے سے زیادہ علم والے کی تقلید نہ کی ہو، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی کوفہ والی زمین کے بدلہ میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے ان کی مدینہ منورہ کی زمین یہ کہہ کر خرید فرمائی کہ میں وہ زمین بغیر دیکھے تم کو بیچ رہا ہوں، حضرت طلحہؓ نے فرمایا: میے لیے مہلت ہوگی کیونکہ میں بغیر دیکھی ہوئی چیز خرید رہا ہوں اور آپ دیکھی ہوئی خرید رہے ہیں، ان دونوں نے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا تو حضرت جبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے بیع کو جائز قرار دیا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو بغیر دیکھی ہوئی چیز خرید نے کی بناء پر مہلت دی۔ (اعلام:۴/۱۶۲)
ممکن ہے کہ اس مسئلہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے قول کو قبول کیا ہو جو ایسے ہی ایک مسئلہ میں انہوں نے فرمایا تھا۔ (اعلاء السنن: ۹/۲۳۸)
(۱۷)اسی طرح اگر خریدار خریدی ہوئی چیز کے عیب کو نہیں جانتا ہے اور لاعلمی میں استعمال کرتارہتاہے تو اس سے اس کا اس چیز کو واپس کرنے کاحق ساقط نہیں ہوجاتا ہے اور اگر استعمال سے فروخت کردہ چیز میں کوئی نقص واقع ہوجاتاہے تو واپسی کی صورت میں اداکردہ قیمت میں سے نقصان کے مطابق کمی کردی جائے گی؛ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے کپڑے کو استعمال کے بعد بھی واپس کرنے کاحکم صادر فرمایا جس میں خریدار کو استعمال کے بعد نقص کا پتہ چلاتھا۔ (حوالہ سابق:۱۱۰)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت پر قیاس کیا ہوگا جس میں یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے غلام خرید کر اس سے مزدوری کروائی پھر اس غلام کے اندر عیب کا پتہ چلا تو انہوں نے وہ غلام واپس کردیا، غلام کے پہلے مولیٰ (بائع) نے اس کی کمائی کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے کمائی کو جرمانہ کا بدلہ قرار دیدیا۔ (ابوداؤد، باب فی من اشتری عبدا فاستعملہ ثم وجد بہ عیباً: ۴۹۵۔ ابن ماجہ، باب بیع الطعام قبل مالم یقبضہ: ۱/۱۶۱)
(۱۸)اگر کسی نابینا شخص کے ہاتھوں اپنے رہبر یاکسی ایسے شخص کو جواس کے ساتھ بیٹھا ہو غلطی سے کوئی نقصان پہنچ جاتاہے تو اس سے قصاص یادیت نہیں لی جائیگی؛ چنانچہ حضرت عثمانؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی نابینا شخص کے پاس بیٹھا ہے اور اسے اس نابینا شخص کے ہاتھ سے کو ئی گزند پہنچتاہے تو اس سے قصاص یادیت نہیں لیں گے۔ (۱۹)بیعتِ خلاف کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے ہر مزان کے قتل کا مقدمہ پیش ہوا حضرت عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مدعا علیہ تھے، اس مقدمہ میں جو فیصلہ ہوا وہ بھی درحقیقت ایک اجتہاد پر مبنی ہے یعنی مقتول کا اگر کوئی وارث نہ ہو تو حاکمِ وقت اس کا ولی ہوتا ہے؛ چونکہ ہرمزان کا کوئی وارث نہ تھا اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بحیثیتِ ولی کے قصاص کے بجائے دیت لینا قبول کیا اوروہ رقم بھی اپنے ذاتی مال سے دے کر بیت المال میں داخل کردی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض اجتہاد سے بعض معاملات میں سہولت پیدا کردی، مثلاً دیت میں اونٹ دینے کا رواج تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی قیمت بھی دینی جائز قراردی۔ (کتاب الخراج:۹۲، بحوالہ: سیرالصحابہ: ۱/۲۳۶)
حضرت عثمانؓ کی دریائے فقہ و اجتھاد کے یہ چند قطرے ہیں جو اوپر بطورِ نمونہ پیش کئے گئے جن کو دیکھنے والا آسانی سے یہ اندازہ لگاسکتا ہے کہ قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے اصول و جزئیات اور دقائق و نکات کی روشنی میں نئے پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنا شریعت میں دخل اندازی والا جرم نہیں جیسا کہ فقہ کی حقیقت سے ناواقف لو گ خیال کررہے ہیں بلکہ صحابہ کرام ث کی سنت ہے اور جدید مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔


حضرت علیؓ اور اجتہاد

(۱)حضرت علیؓ سے پوچھا گیاکہ ایک بچے نے کنویں میں پیشاب کردیا ہے اب اس کا کیا کیا جائے؟آپؓ نے فرمایا:کنویں سے پانی نکالا جائے یہاں تک کہ اس کا پانی نکالنے والوں پر غالب آجائے،یعنی سارا پانی نکل نہ سکے توپھر باقی پانی کو نظرانداز کرد یاجائے۔ (مصنف عبدالرزاق: ۸/۱۸۲،مسند زید:۴/۲۰،بحوالہ ،فقہ علیؓ:۶۸۹)
شاید آپؓ نے اس موقع پر ارشاد خداوندی "لاَيُكَلّفُ الله نَفْسًا إِلاَّوُسْعَهَا"(البقرۃ:۲۸۶)اللہ تعالے ہر نفس کواس کی طاقت کے بقدرہی احکام کاپابندبناتے ہیں"اور "فَاتَّقُوا اللَّهَ مَااسْتَطَعْتُمْ" (التغابن:۱۶)اللہ سے ڈروجتنی تم کوطاقت ہے ، جیسی نصوص سے استدلال فرمایاہوگا۔ (۲)اگر کنویں میں کوئی جانور چوہا وغیرہ گرکر مرجائے اور پھٹ جائے تو حضرت علیؓ کے نزدیک سات ڈول پانی نکالا جائے گا اور اگر وہ جانور سڑگیا ہوتو اس قدر پانی نکالا جائے گا جس سے بدبو دور ہوجائے(عبدالرزاق:۱/۸۲۔بیہقی:۱/۲۶۸۔ کنزالاعمال،حدیث نمبر:۲۷۵۰۰)ممکن ہے کہ آپؓ کے پیش نظر یہ حدیث رسول ؐ تھی " خلق الماء طھوراً لاینجسہ شئی الاما غیر طعمہ أوریحہ"۔ (مصابیح السنۃ:۱/۲۲۵، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح مع مرقاۃ المفا تیح:۲/۱۶۶)
(۳)حضرت علیؓ اس بات کے قائل تھے کہ وضو کے صحیح ہونے کیلئے نیت شرط ہے؛لہٰذا بغیر نیت کے وضو درست نہیں ہوگا ہو سکتا ہے کہ آپؓ نے "انما الأعمال بالنیات" (صحیح بخاری:۱/۱)کے عموم سے استدلال کیا ہو۔ (۴)حضرت علیؓ کے نزدیک امامت کیلئے یہ ضروری تھا کہ امام کی حالت مقتدیوں کی حالت سے کم تر نہ ہو،اسی لئے آپؓ نے تیمم کرنے والے کے پیچھے وضو کرنے والے کی نماز کو جائز قرار نہیں دیا. (مصنف عبدالرزاق:۲/۳۵۲۔کنزالاعمال ، حدیث نمبر:۲۲۹۱۴)
آپ ؓ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہوگا: انما جعل الامام لیو تم بہ،فلا تختلفو اعلیہ۔ (صحیح مسلم:۱/،الامام ضامن۔ابودائود ،حدیث نمبر:۵۱۷۔ترمذی،حدیث نمبر:۲۰۷۔مسنداحمد،حدیث نمبر:۲/۴۶۱)
(۵)حضرت علی صجب سجدہ میں جاتے توپہلے اپنی پگڑی کو پیچھے ہٹادیتے پھر سجدہ فرماتے (المجموع:۳/۴۲۶)
آپؓ کا یہ عمل اس حدیثِ رسول سے مستنبط معلوم ہوتا ہے "امرت أن اسجد علی سبعۃ اعظم،علی الجبھۃ ، والیدین، والرکبتین، وأطراف القدمین" ترجمہ:امام الانبیاء ا کا ارشاد گرامی ہے :مجھے یہ حکم دیاگیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں (۱)پیشانی پر(۲/۳)دونوں ہاتھوں پر(۴/۵)دونوں گھٹنوںپر(۶/۷)دونوں قدموں کی انگلیوںپر۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر:۸۱۲۔مسلم شریف،حدیث نمبر:۲۳۰،۴۹۰)
(۶)حلال جانوروں مثلاً:بھیڑبکری اور اونٹ وغیرہ کے پیشاب کے متعلق حضرت علیؓ زیادہ تشدد نہیں فرماتے اور لوگوں کوگنجائش دیتے تھے۔ (الروض النضیر:۱/۲۹۲)
(۷)اسی طرح بلی کے جھوٹ پانی کو پینے اور اس سے وضو کرنے میں بھی آپؓ کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (الاستذکار:۱/۲۰۸ ۔ کنزا لعما ل :حدیث نمبر ۲۷۵۲۷۔الروض النضیر:۱/۲۵۳)
ان دونوں مسئلوں میں آپؓ کی نظر ان نصوص نبویہ پر معلوم ہوتی ہے،اشربوابوالھاوالبانھا(ترجمہ)اونٹوں کادودھ نوش کرو اور ان کا پیشاب استعمال کرو(ترمذی:۱/)انما ھی من الطوافین علیکم اوالطوافات(ترجمہ)بیشک وہ (بلی)تمہارے اردگرد چکر لگانے والے جانوروں میں سے ہے۔ (ابوداؤد:۱/۱۰۔نسائی:۱/۶۳۔ابن ماجہ:۳۱)
(۷)حضرت علیؓ سوئے ہوئے آدمی کے تصرفات قولی کا کوئی اعتبار نہیں فرماتے تھے،اس حالت میں دی ہوئی طلاق،ارتداد اور کئے ہوئے معاملات کو درست نہیں مانتے تھے،آپؓ کا ارشاد ہے کہ نیند میں مدہوش انسان مرفوع القلم ہوتا ہے جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۲۵۸)
اس مسئلہ کی بنیاد یہ حدیث معلوم ہوتی ہے :آپؐ کا ارشاد مبارک ہے " انہ لا تفریط فی النوم ،انما التفریط فی البقطۃ"۔(ابوداؤد:۶۳)
(۸)حضرت علیؓ نابالغ لڑکے کیلئے بالغوں کی امامت کو درست نہیں سمجھتے تھے،حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں امیر المؤمنین حضرت علیؓ نے منع فرمایا تھا کہ ہماری امامت سوائے بالغ کے اور کوئی کرے۔ (المغنی:۱/۵۷۵)
اس مسئلہ میں آپؓ کا حکم اس حدیث سے مستنبط معلوم ہوتا ہے۔ (۹)اگر چلتی کشتی میں دورا نِ سر کا خوف ہوتو آپؓ کے نزدیک بیٹھ کر نماز ادا کرنا درست ہے،آپؓ کا ارشاد ہے:"اگر تم کشتی میںہو اور کشتی چل رہی ہوتو بیٹھ کر نماز ادا کرلو،اگر کشتی کھڑی ہوتو کھڑے ہوکرنماز پڑھو"۔ (الروض النضیر:۲/۳۷۳)
حضرت علیؓ کا یہ استنباط حضور اکرمؐ کے درج ذیل ارشاد گرامی سے ہوسکتا ہے: "صل قائماً فان لم تستطع فقاعدًا فان لم تستطع فعلی جنب فان لم تستطیع فمستلقیاًلا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا" (ترجمہ)آپؐ نے ایک صحابی ؓ سے فرمایا:کھڑے ہوکر نماز پڑھو اگر اس کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کرپڑھو اگر اس کی بھی قوت نہ ہوتو پہلو پر پڑھو اگر اس کی بھی ہمت نہ ہوتو چت لیٹ کر پڑھو،اللہ تعالٰیٰ ہر شخص کو اس کی طاقت کے بقدر ہی تکلیف دیتے ہیں۔ (بخاری:۱/۸۳،باب اذالم یطق قاعداً)
(۱۰)اگر رمضان یا عید کا چاند دن کی ابتداء میں نظر آئے تو اس کی وجہ سے روزہ رکھنا یا افطار کرنا درست ہوگا اور اگر دن کے آخر میں نظر آئے تو روزہ رکھنا یا افطار کرنا درست نہ ہوگا اور اس چاند کا اعتبار نہ کیا جائیگا،حضرت علیؓ کا یہی مسلک ہے ، چنانچہ آپ ؓ کا قول ہے کہ جب تم ابتدائے نہار(دن)میں چاند دیکھو تو روزہ چھوڑدو،لیکن اگر انتہائے نہار میں چاند نظر آئے تو روزہ نہ چھوڑو،اس لئے کہ سورج اس سے ہٹ جا تا ہے (مصنف عبدالرزاق:۴/۱۶۳۔مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۱۲۷۔کنزالاعمال ۲۴۳۰۴۔مسند زید:۳/۸۵)حضور اکرمؐ کی یہ حدیث حضرت علیؓ کی دلیل ہوسکتی ہے: " صومو الرئویتہ وأفطروالرئویتہٖ" (ترجمہ)چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ (۱۱)اگر کوئی مسلمان مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے تو حضرت علیؓ کے نزدیک اس مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی جائیگی؛ اسی طرح اگر کوئی شخص بھیڑبھاڑ میں دب کر مرجائے تو بھی آپؓ یہی فیصلہ فرما تے تھے؛چنانچہ ایک شخص میدان عرفات کی بھیڑ بھاڑ میں ہلاک ہوگیا اس کے خاندان والے حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے،حضرت عمر ص نے ان سے پوچھا:تمہارے پاس اس کا ثبوت ہے کہ اسے کس نے ہلاک کیا ہے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرما یا : امیرالمؤمنین ایک مسلمان کاخون اس طرح رائیگاں نہیں جانا چاہیے،اگر آپ کو اس کا قاتل معلوم ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی دیت بیت المال سے ادا کیجئے (المغنی:۸/۶۹)حضرت علیؓ کے دورِخلافت میں بھی ا یک مرتبہ کوفہ کی جامع مسجد میں لوگوں کا ازدحام ہوگیا جب بھیڑ ذار چھٹ گئی تو پتہ چلا کہ ایک آدمی ہلاک ہوگیا ہے،حضرت علی ؓ نے اس کی دیت مسلمانو ں کے بیت المال سے ادا کردی۔ (مصنف عبدالرزاق:۱۰/۵۱۔المحلٰی:۱۰/۴۶۸)
حضرت علیؓ کے ان فیصلوں کا دارومدار خا تم الانبیاء تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اس حدیث شریف پر معلوم ہوتا ہے "لا ضرر ولا ضرار،من ضارّ ضارّہ اللہ" (ترجمہ)نہ ابتداء نقصان پہنچائو نہ بدلہ میں، جو کسی دوسرے کو نقصان پہنچائیگا اللہ اس کا نقصان کریں گے۔ (مستدرک حاکم:۲/۵۷،عن ابی سعید الخدری)
حضرت علی ص کی دریائے فقہ و اجتھاد کے یہ چند قطرے ہیں جو اوپر بطورِ نمونہ پیش کئے گئے جن کو دیکھنے والا آسانی سے یہ اندازہ لگاسکتا ہے کہ قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے اصول و جزئیات اور دقائق و نکات کی روشنی میں نئے پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنا شریعت میں دخل اندازی والا جرم نہیں جیسا کہ فقہ کی حقیقت سے ناواقف لو گ خیال کررہے ہیں بلکہ صحابہ کرام ث کی سنت ہے اور جدید مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔






قیاس کا مدار "علت" پر ہے حکمت پر نہیں

یہ امر(بات) محتاجِ بیان نہیں کہ قیاس کا دارومدار "علت" یعنی وجہ پر ہوتا ہے "حکمت" پر نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ حکمت غیرمنضبط، تغیر پذیر اور مختلف ہوتی رہتی ہے ،اشخاص کے اعتبار سے بھی، ماحول اور اطراف کے اعتبار سے بھی، اس لیے حکم کی بنیاد ایسی بےثبات چیز پر نہیں رکھی جاسکتی، اس کے برخلاف علت ایک منضبط اور مستحکم شیء ہوا کرتی ہے ماحول کے اثر کو قبول نہیں کرتی، مثلا:ً جگہ بیچنے کیلئے اول حق پڑوسی کو دینے یعنی حقِ شفعہ کے مسئلہ میں غور فرمائیے کہ یہاں ایک چیز ہے "شرکت فی العقار" اور ایک چیز ہے "دفع ضرر الجوار" یعنی شفیع کو حقِ شفعہ ملنا چاہیے؛ کیونکہ اُس کو بیچے جانے والے مکان وجائیداد میں کسی نہ کسی طرح کی شرکت حاصل ہے، شفیع کو حقِ شفعہ اس بناء پر بھی ملنا چاہیے کہ بجائے اس کے اگر کوئی اجنبی اس مکان کو خریدلے تو امکان ہے کہ بُرے پڑوسی سے سابقہ پڑجائے، دونوں ہی وصفوں میں ادنیٰ غور وفکر سے یہ ثابت ہوگا کہ وصفِ اوّل تو منضبط ہے کہ شفیع کی شرکت بہرحال رہتی ہے؛ مگر وصفِ دوم غیرمنضبط ہے، ہوسکتا ہے کہ مُشتری(خریدنے والا) دین واخلاق میں خود اس شفیع سے اچھا نکلے ؛ اس لیے مزاجِ شریعت وصفِ اوّل پر ہی بناءِ قیاس کا متقاضی ہے، مقتضائے یُسر(آسانی کا تقاضا) بھی یہی ہے ؛کیوں کہ ہر فرد کے لیے حکمت کا صحیح انضباط حرج سے خالی نہیں اسی وجہ سے شریعت نے مثالِ مذکور میں بھی حقِ شفعہ کا دارومدار عِلت یعنی "شرکت فی العقار" پر رکھا ہے، "دفع ضرر جوار" پر نہیں، گو کہ عِلت کی وضع وتعیین میں فی نفسہ خود حکمت کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔

[اصول الفقہ الأبی زہرہ:۱۸۹،۱۹۷۔ تکملہ فتح الملہم:۱/۵۷]





ائمہ اربعہ میں اختلاف کیوں؟

ہم نے اس مقام پر معدودے چند مسائل کا ذکر کیا ہے، دراصل اس امر کی جانب نشاندھی مقصود ہے کہ ائمہ کرام کے درمیان پایا جانے والا اختلاف یہ صحابہ کرام سے ہی چلا ہے؛ نیز اجتہاد یہ کوئی ایسا عمل نہیں جسے ائمہ کرام نے ایجاد کیا ہو؛ بلکہ اجتہاد کا عمل قرنِ اوّل ہی سے جاری ہے، پیش آمدہ مسائل میں صحابہ کرامؓ نے اجتہاد کا سہارا لیا ہے اور آراء کے اختلاف کے موقعہ پر ہر ایک نے وسعت کی راہ اپناتے ہوئے اپنی اپنی رائے پر عمل کیا کسی نے دوسرے پر طعن و تشنیع نہیں کی، ہر ایک نے اپنے مخالف کا احترام کیا؛ انہوں نے اختلاف کو صرف علمی حلقوں تک ہی محدود رکھا، اس علمی رائے کے اختلاف کو آپسی چپقلش ذاتی عناد خلاف کا ذریعہ نہ بنایا، جس کا لازمی نتیجہ تھا کہ ان میں مخالف رائے سامنے آنے کے باوجود تحمل دشوار نہ تھا اور کوئی اپنی ہی رائے کو ضد و ہٹ دھرمی کے بناء پر حق اور دوسری رائے کو باطل نہیں قرار دیتا، یہ علمی اختلاف کی وسعت کا ہی اثر تھا انہوں نے زیادہ سے زیادہ اپنی رائے کو "صَوَابٌ یَحْتَمِلُ الْخَطَاءَ" (کہ رائے درست ہے اور غلطی کا بھی احتمال ہے) اور دوسرے کی رائے کو "خَطَأٌ یَحْتَمِلُ الصَّوَابَ" (یعنی غلطی و چوک ہے مگر درستگی کا احتمال ہے) کا درجہ دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان اختلاف کے باوجود انہوں نے اختلافی مسائل کی تبلیغ و فروعی مسائل کی تشہیر کے بجائے متفق علیہ عقائد کی تبلیغ مناسب سمجھی اور انہیں اختلافی مسائل کی تبلیغ سے رونما ہونے والے خطرات کا بھی بخوبی احساس تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف ہونے کے باوجود کبھی انہوں نے اسے ایمان و کفر کا معیار یا گمراہی و ضلالت نہیں قرار دیا، آج ایسی کتابیں دستیاب ہیں جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بھی فقہی مسائل مذکور ہیں جنھیں دیکھ کر ان کے فقہی اختلاف کی نوعیت مکمل طور پر آشکارا ہوسکتی ہے؛ اگر ہم ان سے صرفِ نظر کرکے صرف ائمہ کرام کو موردِ طعن قرار دیں تو یہ ہماری کوتاہی ہوگی اور علمی قابلیت کی کمی اور استعداد کی قلت پر دلالت ہوگی۔





اجتہاد کے شرائط

یہ اتنی اہم اور نازک ذمہ داری ہرکس وناکس کو نہیں سونپی جاسکتی، اس کے لیے اخلاص وللہیت ،تقوی،خداترسی شرط ہے اور حزم واحتیاط کا وصف بھی مطلوب ہے،اس کے ساتھ عمیق علم، ذکاوت وفراست، وسیع نظر نیز زمانہ سے بھرپور آگہی کی بھی ضرورت ہے،چنانچہ اہل علم نے اس طرف خصوصی توجہ دی ہے اور یہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ مجتہد کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیے، امام غزالیؒ(م505ھ) نے لکھا ہے کہ وہ عملی اعتبار سے احکام شریعت کے مراجع: قرآن،حدیث، اجماع،اورقیاس کااحاطہ رکھتا ہو (المستصفی، فصل فی ارکان الاجتہاد:۲/۳۸۳) اور امام بغویؒ نے ان چار کے علاوہ عربی زبان کا بھی ذکرکیا ہے(عقدالجید، باب بیان حقیقۃ الاجتہاد: ۱/۴) مناسب ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک کا علیحدہ ذکر کیا جائے اور ان سے متعلق ضروری وضاحت کی جائے۔

  • قرآن کا علم
قرآن کی ان آیات سے واقفیت ضروری ہے جو احکام سے متعلق ہوں، عام طورپر علماء نے لکھا ہے کہ ایسی آیات کی تعداد پانچ سو ہے(المستصفی، فصل فی ارکان الاجتہاد:۲/۳۸۳) مگر محققین کا خیال ہے کہ یہ تحدید صحیح نہیں ہے،کیونکہ قرآن میں احکام صرف اوامرونواہی میں منحضر نہیں ہیں،قصص وواقعات اورمواعظ میں بھی فقہی احکام نکل آتے ہیں (البحر المحیط، باب الثانی المجتھد الفقیہ:۴/۴۹۰) علامہ شعر انی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر فہم صحیح میسر ہو،اورتدبیر سے کام لیاجائے تو اس سے کئی اور احکام نکل آئیں گے اورمحض قصص وامثال کے مضامین بھی احکام سے خالی نہ ہوں گے (ارشاد الفحول، الشروط الواجب توفرھا فی المجتھد: ۲/۲۰۶)چونکہ قرآن مجید کے بعض احکام منسوخ ہیں،اس لیے ناسخ ومنسوخ کے علم سے بھی واقف ہونا ضروری ہے تاکہ متروک احکام کو قابل عمل نہ ٹھہرایاجائے (الابہاج: ۴/۱۷) مگر اس کے لیے تمام منسوخ اورناسخ آیات وروایات کااحاطہ ضروری نہیں ہے،اتنی سی بات کافی ہے کہ جس آیت یا حدیث سے وہ استدلال کررہا ہے وہ منسوخ نہ ہو (شرح الکوکب المنیر، باب فی بیان احکام المستقل ومایتعلق بہ: ۴/۴۶۱) اسی طرح مجتہد کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ حافظ قرآن ہو،یاان آیات کا حافظ ہو جن سے احکام متعلق نہیں ہیں۔ (الابہاج: ۴/۱۶)

  • احادیث کا علم
مجتہد کے لیے ان احادیث سے واقف ہونا ضروری ہے جن سے فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں، مواعظ اور آخرت وغیرہ سے متعلق روایات پر عبورضروری نہیں،ایسی احادیث گو ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن بقول علامہ رازیؒ وغزالیؒ(م505ھ) وہ غیر محدود بھی نہیں ہیں(المستصفی:۲/۳۸۴۔ المحصول:۶/۲۳) بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ ایسی احادیث کی تعداد تین ہزار(ارشاد الفحول: ۲/۲۰۷) اور بعض کی رائے بارہ سو ہے لیکن اس تحدید سے اتفاق مشکل ہے۔ حدیث سے واقفیت کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے صحیح ومعتبر ہونے سے واقف ہو،خواہ یہ واقفیت براہ راست اپنی تحقیق پر مبنی ہو یا کسی ایسے مجموعہ احادیث سے روایت نقل کی گئی ہو جس کی روایت کو ائمہ فن نے قبول کیا ہو(ارشاد الفحول: ۲/۲۰۷۔ المستصفی:۲/۳۸۴) یہ بھی معلوم ہو کہ حدیث متواتر ہے یامشہور یاخبرواحد، نیز راوی کے احوال سے بھی آگہی ہو (تیسیرالتحریر:۴/۹۰) اب چونکہ روایات میں وسائط بہت بڑھ گئے ہیں، راویوں پر طویل مدت بھی گذرچکی ہے اور ان کے بارے میں تحقیق دشوار ہے اس لیے بخاری ومسلم جیسے ائمہ فن نے جن راویوں کی توثیق کی ہے ان پر ہی اکتفاء کیا جائے گا(المستصفیٰ: ۲/۳۸۷) اس طرح جن روایات کو بعض اہل علم نے قبول نہیں کیا ہے ان کے راویوں کی تو تحقیق کی جائے گی لیکن جن احادیث کو امت میں مقبولیت مل چکی ہے ان کی اسناد پر غور وفکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ (المستصفی:۲/۳۸۷)
البتہ مجتہد کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام احادیث احکام کا حافظ ہو ،اگر اس کے پاس احکام سے متعلق احادیث کا کوئی مجموعہ ہو اور اس سے استفادہ کرے تو یہ بھی کافی ہے اہل علم نے خاص طور پر اس سلسلہ میں سنن ابی داؤد کا ذکر کیا ہے۔ (المستصفی:۲/۳۸۳۔ ارشاد الفحول:۲/۲۰۷)

  • اجماعی مسائل کا علم
جن مسائل پر امت کے مجتہدین کا اتفاق ہوجائے تو اس سے اختلاف درست نہیں ہے،اس لیے مجتہد کے لیے یہ ضروری ہے کہ اجماعی مسائل سے بھی واقف ہو،البتہ تمام اجماعی اوراختلافی مسائل کا احاطہ ضروری نہیں ہے(المستصفی:۲/۳۸۴)بلکہ جس مسئلہ میں اپنی رائے دے رہا ہو اس کے بارے میں اسے واقف ہونا چاہئے (کشف الاسرار:۴/۲۲) یہ جاننا بھی اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس پر اجماع کیوں ہے؟ بلکہ اس قدر معلوم ہوکہ اس مسئلہ میں اتفاق ہے یا نہیں؟ (کشف الاسرار:۴/۲۲) یا غالب گمان ہوکہ یہ مسئلہ اس دور کا پیدا شدہ ہے(کشف الاسرار: ۴/۲۲) کیونکہ اجماع انہی مسائل میں ممکن ہے جو پہلے واقع ہوچکے ہیں۔

  • قیاس کے اصول وشرائط کا علم
چونکہ احکام شریعت کا بہت بڑا حصہ قیاس پر مبنی ہے اور مجتہد کی صلاحیتِ اجتہاد کا بھی اصل مظہر یہی ہے، بلکہ حدیث میں اجتہاد ہی کا لفظ آیا ہے(ابوداؤد،:3592، بخاری:7352) جس سے فقہاء نے قیاس پر استدلال کیا ہے،اس لیے قیاس کے اصول وقواعد اورشرائط وطریق کار سے واقفیت بھی ضروری ہے، اس لیے کہ قیاس اجتہاد کے لیے نہایت اہم اورضروری شرط ہے(المستصفی: ۲/۲۶۶) امام غزالیؒ(م505ھ) نے قیاس کے بجائے عقل کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں مزید عموم ہے اور قیاس بھی اس میں داخل ہے۔ (المحصول :۶/۲۳)

  • عربی زبان کا علم
احکام شریعت کے دواہم مصادر قرآن اورحدیث کی زبان عربی ہے اس لیے ظاہر ہے کہ عربی زبان سے واقفیت نہایت ضروری ہے اور کاراجتہاد کے لیے بنیادواساس کا درجہ رکھتی ہے، عربی زبان کے لیے عربی لغت اور قواعد سے واقف ہونا چاہئے،اتنی واقفیت ہوکہ محلِ استعمال کے اعتبار سے معنی متعین کرسکے،صریح اور مبہم میں فرق کرسکے، حقیقی اورمجازی استعمال کو سمجھ سکے،فن لغت اورنحووصرف میں کمال ضروری نہیں ہے،اس سے اسقدر واقفیت ہونی چاہئے کہ قرآن وحدیث کے متعلقات کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو(المستصفی:۲//۳۸۶) اوربقول امام رازی اس کا لغت میں اصمعی اورنحو میں سیبویہ وخلیل ہونا مطلوب نہیں ہے۔ (الاحکام: ۱/۴۱۶)

  • مقاصد شریعت سے آگہی
اجتہاد کے لیے ایک اہم اورضروری شرط مقاصدِ شریعت سے واقفیت ہے اور یہ واقفیت بدرجہ کمال وتمام مطلوب ہے،عام طورپر اہل علم نے اس کا مستقل طورپر ذکر نہیں کیاہے؛ لیکن امام ابواسحاق شاطبی نے اس کی طرف خصوصی توجہ دی ہے وہ اجتہاد کے لیے دوبنیادی وصف کو ضروری قراردیتے ہیں،مقاصد شریعت سے مکمل آگہی اوراستنباط کی صلاحیت(الموافقات: ۳/۳۳۵) اوریہ واقعہ ہے کہ مقاصد شریعت سے پوری پوری آگہی نہایت اہم شرط ہے،کیونکہ فقہاء کو احکام شریعت کےعمومی مقاصد سے ہم آہنگ رکھا جائے، اورمجتہد کا اصل کام یہی ہے کہ وہ مقاصد شریعت کو ہمیشہ سامنے رکھے اور ان کو پورا کرنے والے وسائل وذرائع کو اس نقطۂ نظر سے دیکھے کہ وہ موجودہ حالات میں شریعت کے بنیادی مقاصد ومصالح کو پورا کرتے ہیں یا نہیں؟۔

  • زمانہ آگہی
اجتہاد کے لیے ایک نہایت اہم اورضروری شرط جس کا عام طورپر صراحۃً ذکر نہیں کیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ مجتہد اپنے زمانہ کے حالات سے بخوبی واقف ہو،عرف وعادت ،معاملات کی مروجہ صورتوں اورلوگوں کی اخلاقی کیفیات سے آگاہ ہوکہ اس کے بغیر اس کے لیے احکام شریعت کا انطباق ممکن نہیں،اس لیے محققین نے لکھا ہے کہ جو شخص اپنے زمانہ اورعہد کے لوگوں سے یعنی ان کے رواجات معمولات اورطورطریق سے باخبر نہ ہو وہ جاہل کے درجہ میں ہے۔ (رسم المفتی:۱۸۱، زکریا بکڈپو)


مجتہد کے لیے زمانہ آگہی کی ضرورت کیوں؟

مجتہد کے لیے زمانہ آگہی دووجوہ سے ضروری ہے، اول ان مسائل کی تحقیق کے لیے جو پہلے نہیں تھے اب پیدا ہوئے ہیں؛کیونکہ کسی نوایجاد شئی یا نو مروج طریقہ پر محض اس کی ظاہری صورت کو دیکھ کر کوئی حکم لگادینا صحیح نہیں ہوگا، جب تک اس کی ایجاد اوررواج کا پس منظر معلوم نہ ہو، وہ مقاصد معلوم نہ ہوں جو اس کا اصل محرک ہیں،معاشرہ پر اس کے اثرات ونتائج کا علم نہ ہو اوریہ معلوم نہ ہو کہ سماج کس حد تک ان کا ضرورت مندہے؟ اس سب امور کے جانے بغیر کوئی بھی مجتہد اپنی رائے میں صحیح نتیجہ تک نہیں پہونچ سکتا۔ دوسرے بعض ایسے مسائل میں بھی جوگواپنی نوعیت کے اعتبارسے نوپید نہیں ہیں؛ لیکن بدلے ہوئے نظام وحالات میں ان کے نتائج میں فرق واقع ہوگیا ہے،دوبارہ غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے،یہ ایک نہایت اہم پہلو ہے جو فقہ اسلامی کو زمانہ اوراس کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھتا ہے؛اکثر اہل علم نے اس نکتہ پر روشنی ڈالی ہے۔ علامہ قرافیؒ نے لکھا ہے کہ منقولات پر جمود دین میں گمراہی اورعلماء سلف صالحین کے مقصد سے ناواقفیت ہے (کتاب الفروق:۲/۲۲۹) حافظ ابن قیمؒ نے اپنی مایہ ناز تالیف اعلام الموقعین میں اس موضوع پر مستقل باب باندھا ہے (اعلام الموقعین:۳/۷۸)علامہ شامیؒ نے عرف وعادت میں تغیر پر ایک مستقل رسالہ تالیف کیاہے، اس رسالہ سے علامہ موصوف رحمہ اللہ کی ایک چشم کشا عبارت نقل کی جاتی ہے: " بہت سے احکام ہیں جو زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ بدل جاتے ہیں؛اس لیے کہ اہل زمانہ کا عرف بدل جاتا ہے،نئی ضرورتیں پیدا ہوجاتی ہیں،اہل زمانہ میں فساد(اخلاق) پیدا ہوجاتا ہے،اب اگر شرعی حکم پہلے کی طرح باقی رکھا جائے تو یہ مشقت اور لوگوں کے لیے ضرر کا باعث ہوجائےگا اوران شرعی اصول وقواعد کے خلاف ہوجائے گا جو سہولت وآسانی پیدا کرنے اورنظام کائنات کو بہتر اورعمدہ طریقہ پررکھنے کے لیے ضرروفساد کے ازالہ پر مبنی ہے۔ (نشر العرف)

وقال الإمام محمد بن حسن الشيباني : من لم يعرف أحوال زمانه فهو جاهل.

امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو اپنے زمانے کے حالات کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے۔

Imam Muhammad bin Hassan Al-Shaibani said: He who does not know the conditions of his time is ignorant.

‎[فتاوی_رضویہ_جلد_7_صفحہ_58]

 في تاريخ الإسلام (١٤/٩٠١) والقرشي في الجواهر المضية (٢/١٦٦) وابن ناصر الدين في توضيح المشتبه (٤/٢٦٢) وابن قطلوبغا في تاج التراجم (ص ٢٩٥) وحاجي خليفة في سلم الوصول (٣/٣٢١) واللكنوي في الفوائد البهية (ص ٢١٢) والزركلي في الأعلام (٧/١٩٣)۔

وقال أبو سعيد الخادمي الحنفي المتوفى سنة ١١٥٦ه في بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية (٣/١٢٦): (فعلى الوعاظ والمفتين معرفة أحوال الناس وعادتهم في القبول والرد والسعي والكسل ونحوها) كما يقال: لكل مقام مقال ولكل ميدان رجال، وكما قيل: من لم يعرف عرف زمانه فهو جاهل، فإن الأحكام قد تتغير بتغير الأزمان والأشخاص كما فهم من الزيلعي، انتهى۔

ونقل ابن عابدين في رد المحتار (٣/٧٢٤) عن شيخ مشايخه السائحاني قال: ومن لم يدر بعرف أهل زمانه فهو جاهل، انتهى. وهكذا نقله الآلوسي في روح المعاني (٧/٤٠). والسائحاني هو العلامة إبراهيم بن خليل بن إبراهيم الغزي المتوفى سنة ١١٩٧ه. ترجم له في سلك الدرر (١/٦) ومعجم المؤلفين (١/٣٠) وفيهما نسبته: الصالحاني، وترجم له في تاريخ عجائب الآثار للجبرتي (١/٤٨٩) والمعجم المختص للزبيدي (ص ١٥٦) وفيهما نسبته: الصيحاني. وترجم له في ثبت ابن عابدين (ص ١١٩) وفيه نسبته: الصايحاني. والله أعلم۔

وقال ابن عابدين المتوفى سنة ١٢٥٢ه في رد المحتار في كتاب القضاء (٥/٣٥٩): قد قالوا: من جهل بأهل زمانه فهو جاهل، انتهى۔




  • ایمان وعدل
اجتہاد کےلیے ایک نہایت اہم شرط شریعت اسلامی پر پختہ ایمان وایقان اوراپنی عملی زندگی میں فسق وفجور سے گریز واجتناب ہے،علامہ آمدی رحمہ اللہ نے اس کو شرط اولین قراردیا ہے کہ وہ خدا کے وجود،اس کی ذات وصفات اورکمالات پر ایمان رکھتاہو، رسول کی تصدیق کرتاہو، شریعت میں جو بھی احکام آئےہیں ان کی تصدیق کرتا ہو۔ (الاحکام للآمدی، الباب الاول فی المجتہدین: ۱/۴۱۵)
موجودہ زمانہ میں تجددپسند اوربزعم خود روشن خیالوں کو اجتہاد کا شوق جس طرح بے چین ومضطرب کئے ہوا ہے،علاوہ علم میں ناپختگی کے ان کی سب سے بڑی کمزوری ذہنی مرعوبیت،فکری استقامت سے محرومی اورمغربی عقیدہ وثقافت کی کورانہ تقلید کا مرض ہے،ان کے یہاں اجتہاد کا منشاء زندگی کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل نہیں ہے؛بلکہ اسلام کو خواہشات اورمغرب کی عرضیات کے سانچہ میں ڈھالنا ہے یہ اسلام پر حقیقی ایمان اور تصدیق سے محرومی کا نتیجہ ہے،ظاہر ہے جو لوگ اس شریعت پر دل سے ایمان نہیں رکھتےہوں،جن کا ایمان ان لوگوں کے فلسفہ وتہذیب پر ہوجو خدا کے باغی اور اس دین وشریعت کے معاندہوں ان سے اس دین کے بارے میں اخلاص اورصحیح رہبری کی توقع رکھنا راہزنوں سے جان ومال کی حفاظت کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔ ایمان کی تخم سے جو برگ وبار وجود میں آتا ہے وہ عمل صالح ہے،اس لیے مجتہد کو گناہوں سے مجتنب اورشریعت کے اوامر کا متبع ہوناچاہئے،اس کیفیت کا نام اصطلاح میں عدالت ہے،کیونکہ اس کیفیت کےپیداہوئے بغیر کسی شخص کی رائے پر اعتماد اوراعتبار نہیں کیا جاسکتا (المستصفی، فی ارکان الاجتہاد: ۲/۳۸۲) اوریہ بات قرین قیاس بھی ہے؛کیونکہ حدیث کے قبول کئے جانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے راوی دینی اعتبار سے قابل اعتبار ہوں، شریعت کے احکام پر عمل پیرا ہوں،ممنوعات سے بچتے ہوں،راوی دین کے احکام پہونچانے کا کام کرتے ہیں، اورمجتہدین ان روایات کے معتبر اورنامعتبر ہونے کو پرکھتے اوران سے احکام کا اخذ واستنباط کرتے ہیں،خداناترس راویوں کو روایات میں تحریف کے لیے جو موقع حاصل ہے، خشیت سے عاری مجتہدین کے لیے تحریف معنوی کے اس سے زیادہ مواقع ہیں،اس لیے ظاہر ہے کہ مجتہدین کے لیے عدل واعتبار کاحامل ہونا زیادہ ضروری ہے۔


مجتہد کو نتیجہ تک پہنچنے کے لیے درکار وسائل

مجتہد کو کسی نتیجہ تک پہونچنے کے لیے جن مراحل سے گذرنا پڑتا ہے ان کو فقہاء نے تحقیق مناط،تخریج مناط اورتنقیح مناط سے تعبیر کیاہے،مناط اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کوئی چیزلٹکائی جائے۔ "ذات انواط"زمانۂ جاہلیت میں ایسے درخت کو کہاجاتا تھا جس سے اسلحہ لٹکائے جائیں،رسی کو ستون سے باندھنےکو کہاجاتا تھا "نطت الحبل بالوتد"اسی لیےمناط علت کو کہتے ہیں؛ کیونکہ علت ہی سے احکام متعلق ہوتے ہیں(شرح الکوکب المنیر: ۴/۲۰۰)علت کے سلسلہ میں مجتہدکو دوبنیادی کام کرنے پڑتے ہیں،ایک اس بات کی تحقیق کہ شریعت کے کسی حکم کی کیا علت ہے،دوسرے یہ کہ یہ علت کہاں اورکن صورتوں میں پائی جاتی ہے،ان دونوں کاموں کے لیے جو طریق کار اختیار کیاجاتا ہے اس کو تنقیح،تخریج،اورتحقیق سے تعبیر کیاجاتا ہے۔

  • تنقیح مناط
شریعت میں ایک حکم دیا گیا ہو، اور یہ حکم کس صورت میں ہوگا اس کو بھی بیان کردیا گیا ہو؛ لیکن جو صورت ذکر کی گئی ہو اس میں مختلف اوصاف پائے جاتے ہوں، شارع نے اس خاص وصف کی صراحت نہ کی ہو جو اس صورت میں مذکورہ حکم کی وجہ بنائے،اس کو تنقیح مناط کہتے ہیں،اس کو علامہ شاطبی ؒ نے لکھا ہے کہ تنقیح مناط میں وصف معتبر کو وصف نامعتبر سے ممتاز کیاجاتا ہے۔ (الموافقات: ۳/۲۲۹)
عام طور پر اس سلسلے میں یہ مثال ذکر کی جاتی ہے کہ ایک دیہاتی شخص جس نے رمضان کے روزہ میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی تھی،آپ ﷺ نے اس کو کفارہ اداکرنے کاحکم فرمایا،اب اس واقعہ میں کئی باتیں جمع ہیں، اس شخص کادیہاتی ہونا، بیوی سے صحبت کرنا،خاص اس سال کے رمضان میں اس واقعہ کا پیش آنا، یہ سب ایسی باتیں نہیں ہیں جو کفارہ کا سبب بن سکتی ہیں ؛بلکہ رمضان المبارک میں قصدًا روزہ توڑنا ہی ایسا وصف ہے جو اس حکم کی اساس بن سکتا ہے،یہی تنقیح مناط ہے۔
اسی طرح قرآن مجید نے"خمر" کوحرام قراردیا ہے،خمر انگوری شراب کو کہتے ہیں،اس میں مختلف خصوصیات موجود ہیں، اس کا انگوری ہونا،میٹھا ہونا،کسی خاص رنگ کا ہونا اور نشہ آور ہونا،مجتہد ین ان تمام اوصاف میں نشہ آور ہونے کی کیفیت کو خمر کے حرام ہونے کی علت قرار دیتے ہیں اور باقی دوسرے اوصاف کو اس کے لیے موثر نہیں مانتے؛غرض مختلف اوصاف میں سے اس خاص وصف کے ڈھونڈ نکالنے کو تنقیح مناط کہتے ہیں ،جو نص میں مذکورہ حکم کےلیے اساس وبنیاد بن سکتے ہیں۔

  • تخریج مناط
نص نے ایک حکم دیا ہو اور اس کی کوئی علت بیان نہ کی ہو،اب مجتہد علت دریافت کرتا ہے کہ اس حکم کی علت کیا ہے؟ اس عمل کا نام تخریج مناط ہے(مذکرۃ اصول الفقہ: ۱/۵۳) مثلاً ارشادخداوندی ہے کہ دوبہنوں کو نکاح میں جمع نہ کیا جائے(النساء:۲۲) حدیث میں بعض اوررشتہ دار عورتوں کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے(مسلم، باب تحریم الجمع الخ، حدیث نمبر:۲۵۱۴)مگر کوئی علت مقرر نہیں کی گئی ہے کہ دونوں بہنوں کو کیوں جمع نہ کیا جائے ،فقہاء نے تلاش و تتبع سے کام لیااوراس نتیجہ پر پہونچے کہ اس کی وجہ سے دومحرم عورتوں کو بیک نکاح میں جمع کرنا ہے؛ لہٰذا کسی بھی دو محرم رشتہ دار عورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا ؛یہی تخریج مناط ہے۔

تنقیح وتخریج میں فرق
تخریج مناط اورتنقیح مناط میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے دونوں کامنشاء نصوص میں مذکور حکم کی علت دریافت کرنا ہے ،دونوں میں فرق صرف اس قدر ہے کہ تنقیح مناط میں مختلف ممکنہ علتوں میں سے ایک کی تعیین ہوتی ہے،جیسے روزہ کے کفارہ میں علت روزہ کی حالت میں جماع بھی ہوسکتاہے اور قصدًا روزہ توڑنا بھی ہوسکتا ہے،شوافع نے جماع کو علت مانا ہے جبکہ احناف نے قصدًا روزہ توڑنے کو علت قراردیا ہے؛ مگرتخریج مناط میں ایسے وصف کو علت بنایاجاتا ہے جس کا اس حکم کے لیے موثر ہونا بالکل بے غبار ہو اور اس میں تنقیح وتہذیب کی ضرورت پیش نہ آئے۔

  • تحقیق مناط
تحقیق مناط کی دوصورتیں ہیں،ایک یہ کہ کوئی متفق علیہ یا نص سے صراحتہ ثابت شدہ قاعدہ شرعی موجود ہو،مجتہد کسی خاص واقعہ میں دیکھتا ہے کہ اس میں یہ قاعدہ موجود ہے یا نہیں ؟ مثلاً محرم کے لیے قرآن مجید نے یہ قاعدہ مقرر کردیا ہے کہ اگر وہ شکار کرے تواسی کے مثل بطور جزاء اداکرے(المائدہ:۹۵) اب مجتہد متعین کرتاہے کہ گائے کا مثل کونسا جانور ہے، جنگلی گدھے کا مماثل کس پالتو جانور کو سمجھا جائے،یہ تحقیق مناط کی پہلی صورت ہے،دوسری صورت یہ ہے کہ نص میں کوئی حکم علت کی صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہو، یااس حکم کے لیے کسی خاص بات کے علت ہونے پراجماع ہے،مجتہد کسی غیر منصوص صورت یا اس صورت میں جس کے متعلق صراحۃ فقہاء کا اجماع موجود نہیں ہے، وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ علت یہاں پر پائی جاتی ہے یا نہیں؟ جیسے آپ ﷺ نے بلی کے جھوٹے کو فرمایا کہ ناپاک نہیں ہے، اس لیے کہ یہ بلی ان مخلوقات میں سے ہے جن کی تم پر بہت زیادہ آمد ورفت ہوتی رہتی ہے۔ (ابوداؤد، باب سؤر الھرۃ، حدیث نمبر: ۶۸)
اب مجتہد غورکرتا ہے کہ کیا چوہے وغیرہ میں بھی یہی علت پائی جاتی ہے؟ اورکیا کتے بھی اس زمرہ میں آتے ہیں؟ عام فقہاء چوہے اوراس قسم کے بلوں میں رہنے والی مخلوق کو تو اس حکم میں رکھتے ہیں، کتوں کو اس حکم میں داخل نہیں مانتے، مالکیہ کا خیال ہے کہ یہ علت کتوں میں بھی ہے،اس لیے اس کا جھوٹا بھی پاک ہے، اوراس کے جھوٹے برتنوں کو دھونے کا حکم قیاس کے خلاف امر تعبدی (بندگی کے طور پر حکم بجا لانا) ہے،چوری کی سزاہاتھ کا کاٹاجانا ہے؛لیکن کیا جیب کترا اورکفن چور پر بھی چورکا اطلاق ہوسکتا ہے؟گواہ کے لیے عادل ہونا ضروری ہے؛لیکن فلاں اورفلاں شخص عادل کے زمرہ میں آتا ہے یا نہیں؟ نشہ حرام ہے،لیکن فلاں فلاں مشروبات کیا نشہ آور اشیاء کے زمرہ میں داخل ہیں یانہیں،یہ سب تفصیلات "تحقیق وانطباق تحقیق مناط" سے متعلق ہیں۔ (اصول الفقہ لابی زھرہ)


مجتہد کا دائرہ کار

احکام کی علتوں کو دریافت کرنا اور ان کو پیش آمدہ مسائل پر منطبق کرنا اگرچہ مجتہد کا بنیادی کام ہے،لیکن اس سے یہ سمجھنا غلط ہے کہ اس کو صرف اتنا ہی کرنا ہے؛ بلکہ اس کا کام مجمل نصوص کی مراد کو پہونچنا اورمشترک المعنی الفاظ کے مصداق کی تعیین کرنا بھی ہے،عربوں کے استعمال اورمحاورات کے مطابق شارع کی تعبیرات سے معنی اخذ کرنا بھی اس کا فریضہ ہے،حدیثوں کے معتبر یا نامعتبر ہونے کی تحقیق بھی اس کی ذمہ داری ہے، متعارض دلیلوں میں ترجیح و تطبیق سے بھی اس کو عہدہ برآہونا ہے،اس کےعلاوہ اخذواستنباط اوربحث وتحقیق کے نہ جانے کتنے دشوار گذار مراحل سے مجتہد کو گذرناپڑتاہے۔


شرائط اجتہاد کا خلاصہ

شرائط اجتہاد کے سلسلہ میں اب تک جتنی معروضات پیش کی گئیں ان کاخلاصہ یہ ہے کہ اجتہاد کے مقام پر فائز ہونے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عملی اعتبار سے شریعت پر کامل یقین رکھتا ہو،اورکردار کے اعتبار سے فاسق و فاجر نہ ہو عملی اعتبار سے ایک طرف اصول فقہ میں عبور ومہارت رکھتا ہو، اوردوسری طرف عربی زبان ولغت اوراسلوب بیان سے پوری طرح آگاہ ہو،زمانہ شناسی عرف وعادت اورمروجہ معاملات ونظام کی واقفیت میں بھی مجتہد کا پایہ بلندہو۔ اسلام کی عملی تاریخ میں جن علماء نے اجتہاد کا فریضہ انجام دیا ہے اورامت میں جن کے اجتہادات کوقبول عام حاصل ہوا ہے یہ سب وہ تھے جو اپنے زہد وتقویٰ میں بھی اوراپنی ذہانت ،دقت نظر ،عمیق فکر اور علم وآگہی میں بھی تاریخ کی ایسی ہی نابغۂ روزگار ہستیاں تھیں، رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ ۔

[ترمیم]
تجزی اجتہاد

اجتہاد کے بارے میں جن نکات اور موضوعات پربحث وتحقیق ہوتی ہے ان میں ایک اہم ترین بحث تجزی اجتہاد، یعنی کسی خاص شعبۂ دین میں اجتہاد کی ہے، اس مسئلہ کی اہمیت اس لیےبھی ہے کہ فی زمانہ ایک طرف عربیت، علومِ قرآن، معارفِ حدیث، اصولِ تشریع، فقہی فروعات اور احکام ومسائل کی جامع ہستی "مجتہدِ مطلق" کا وجود نایاب اور محال ہے، تودوسری طرف احوال ناس کے تغیر اور عرف وعادات کی تبدیلی خاص کردورِ حاضر کی حیرت انگیز ایجادات واکتشافات اور دنیا کے معاشی اور سیاسی انقلابات نے ایسے مسائل پیدا کردئیے ہیں جوعہدِ سلف میں پیش نہیں آئے تھے، ایسی صورت میں جب کہ تمام فقہی ابواب میں اجتہادِ کامل کی صلاحیت رکھنے والی ہستی نہ ہو، آیا یہ بات درست ہوگی کہ کسی شخص کودین کے خاص شعبہ میں علمی براعت اور کمالِ تحقیق کی وجہ سے مجتہد تسلیم کرلیا جائے اور دوسرے شعبوں میں نہیں؟ زمانۂ قدیم اور آج کے عہد میں بھی علماء کے درمیان اس باب میں اتفاقِ رائے نہ ہوسکا، امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے فقہاء اسے ناجائز کہتے ہیں: "واختار طائفۃ فقیہ مطلقاً"۔ بعض فقہاء اسے علم فرائض کی حد تک جائز تسلیم کرتے ہیں؛ مگردوسرے شعبائے دین میں اس کی اجازت نہیں دیتے، بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ کسی بھی مکمل فقہی باب میں تو تجزی درست ہے؛ لیکن یہ درست نہیں کہ ایک باب کے کسی خاص مسئلہ میں کوئی مجتہد ہو اور اسی باب کے دوسرے مسئلہ میں نہ ہو: "واختار طائفۃ نفیہ مطلقا وقیل لایتجر اوقیل یتجزا فی باب لافی مسئلۃ وقیل فی الفرائض لافی غیرھا"(مختصر التحریر:۳۹۸، بحوالہ اسلامی عدالت)؛
لیکن جمہور کا رحجان اس کے جواز کی طرف ہے: "وَقَدْ حُكِيَتْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةُ فِي أُصُولِ ابْنِ الْحَاجِبِ وَغَيْرِهَا وَذُكِرَ فِيهَا جَوَازُهُ، وَهُوَقَوْلُ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَلَى مَاذَكَرَهُ الْبُسْتِيُّ مِنْ مَشَايِخِنَا وَمُخْتَارُ الْغَزَالِيِّ وَنَسَبَهُ السُّبْكِيُّ وَغَيْرُهُ إلَى الْأَكْثَرِ وَقَالَ: إنَّهُ الصَّحِيحُ وَقَالَ ابْنُ دَقِيقِ الْعِيدِ: وَهُوَالْمُخْتَارُ"۔ (التقریر والتحریر:۲/۲۹۳، یہ حوالہ اسلامی عدالت)؛
لیکن اس میں بھی دواحتیاطیں ملحوظ رکھنی ضروری ہیں، پہلی یہ کہ جوشخص کسی خاص شعبۂ دین میں اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو، اس کے اندر اپنے موضوع میں کمال تحقیق کے علاوہ وہ عمومی شرطیں اور صلاحیتیں بھی ہوں، جن کا تعلق مطلق اجتہاد سے ہے، مثلاً مسائل کی کنہ تک پہونچنا، مفہوم کی تہ کوسمجھنا، دلائل میں امتیاز اور قوتِ استنباط وغیرہ پس جس شخص میں اجتہاد کی یہ عمومی شرطیں اور صلاحیتیں ہوں، اسے کسی خاص شعبہ دین میں علمی براعت اور کمال تحقیق کی وجہ سے یہ اجازت ہوگی کہ اپنے خاص موضوع سے متعلق باب میں اجتہاد کرے اور تقلید سے احتراز کرے، دوسری بات یہ کہ آج کے ماحول میں جب کہ احکام شرع کا بوجھ سرسے اتارنے کارحجان بڑھا ہوا ہے، دینی کیفیتیں اور اخلاقی قدریں روبہ زوال ہیں، کسی کوبھی محض کمال تحقیق کی بناپراجتہاد کا حق دینا فتنہ سے خالی نہیں، اس لیے مناسب ہے کہ کتاب وسنت کے ساتھ فقہاء کے اجماعی اور مختلف فیہ مسائل پرنگاہ رکھنے والے اصحاب بصیرت اور جدید علوم وفنون کے زمانہ شناس ماہرین ومتخصصین پرمشتمل ایک مجلس کی تشکیل عمل میں لائی جائے، جہاں یہ حضرات جمع ہوکر اجتماعی تبادلۂ خیال، غوروفکر اور بحث وتحقیق کے ذریعہ مسائل حل کریں، اس طرح کے اجتماعی غوروفکر اور اجتہاد واستنباط کی مثالیں عہدسلف میں بھی ملتی ہیں، حضرت عمرؓ کے عہد میں فقہاء صحابہؓ کا اجتماع مدینہ کے فقہاء سبعہ کی مجلس فقہ، امام اعظمؒ اور ان کے رفقا کی مجالس اجتہاد اس طرف بہ صراحت رہنمائی کرتی ہےـــــ موجودہ دور میں مجامع اور اکیڈمیوں کے ذریعہ اجتماعی غوروفکر اور تبادلۂ خیال کی جوطرح پڑی ہے، وہ اسی صفت کی تجدید اور اس میں توسیع ہے، علماء ہند نے بھی اس سلسلہ کی مساعی میں کبھی کوتاہ ہمتی کا ثبوت نہیں دیا، مولانا تھانویؒ کا نام اس فہرست میں پیش پیش ہے، اللہ کے شکر ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی نے ہندوستان میں اس کام کووسیع اور اعلیٰ سطح پرانجام دینا شروع کیا ہے اور حضرت مولانا مجاہد الاسلام صاحب قاسمی کی سرپرستی میں اس کے کام اور اقدام کی جورفتار ہے وہ نہایت اطمینان بخش اور امید افزا ہے دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اس چراغ کوہمیشہ روشن رکھے اور اس کے افادہ واستفادہ کے دائرہ کو وسیع سے وسیع ترفرمائے، آمین۔
وما ذالک علی اللہ بعزیز۔


نبوی فکری اوراجتہادی بصیرت کے چند جلوے
اسلام کا دائمی معجزہ اورہمیشگی کی حجة اللہ البالغہ ”قرآن“ کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی ”سیرت“ ہے۔ دراصل ”قرآن“ اور ”حیات نبوی صلى الله عليه وسلم “ معاً ایک ہی ہیں، قرآن متن ہے تو سیرت اس کی شرح۔ قرآن علم ہے تو سیرت اس کا عمل، قرآن مابین الدفتین ہے تو یہ ایک مجسم و ممثل قرآن تھا جو مدینہ کی سرزمین پر چلتا پھرتا نظر آتا تھا، کان خلقہ القرآن.


سیرت نبوی کا اعجاز ہے کہ اس کے اندر ہزاروں روشن پہلو ہیں۔ دنیا کو جس پہلو یا گوشے سے روشنی اور گرمی مطلوب ہو، اس کو سیرت نبوی صلى الله عليه وسلم کے بے مثال خزانہ میں وہ اسوہ اور نمونہ مل جاتا ہے جس سے اپنے ہمہ نوعیتی مسائل و مشکلات کا کامیاب ترین حل نکال لے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی کا کوئی گوشہ تاریکی میں نہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ کے تمام ہی پہلو سورج سے زیادہ ظاہر وعیاں ہوکر دنیا کے سامنے موجود ہیں، آپ جس پیغام الٰہی کو لے کر دنیا میں تشریف لائے، وہ ساری انسانیت کیلئے ایک ہمہ گیر، مستحکم ومضبوط اور ”عائمی نظام حیات“ ہے اور اس نے اپنی اس امتیازی شان، ہمہ گیری اور دوامی حیثیت کی بقاء کی خاطر اپنے اندر ایسی لچک اور گنجائش رکھی ہے کہ ہر دور میں اور ہر جگہ انسانی ضروریات کا ساتھ دے سکے اور کسی منزل پر اپنے پیروں کی رہبری سے عاجز وقاصر نہ رہے۔



لوگوں کو جس قسم کے مسائل و حالات پیش آسکتے ہیں، ان کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:



(۱) وہ مسائل جن میں حالات و زمانے کے اختلاف سے کوئی تغیر پیدا نہ ہو۔ ایسے مسائل کیلئے شروع ہی سے شریعت میں تفصیلی احکام و قواعد ثابت و موجود ہیں۔ جیسے نکاح، طلاق، محرمات اور میراث وغیرہ کے احکام۔



(۲) وہ مسائل جو حالات و زمانے کے بدلنے سے متغیر ہوسکتے ہوں ایسے مسائل کے بارے میں شریعت نے کوئی تفصیلی احکام نہیں چھوڑے ہیں؛ بلکہ اس سلسلے میں عام قواعد اور بنیادی اصول ومبادی وضع کردی ہے اور امت کے بالغ نظر اور بلند پایہ فقہاء کیلئے یہ گنجائش چھوڑ دی ہے کہ شریعت کے مقاصد، اس کے مزاج ومذاق، احکام شرع کے مدارج اور دین کی بنیادی اصول و قواعد کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے احکام تلاش کریں؛ لیکن اس مقصد کیلئے یہ ضروری ہے کہ علمائے امت کے سامنے سیرت نبوی کا فکری اور اجتہادی پہلو ہو جس کی رہنمائی میں ہر زمانہ کے علماء وفقہاء غیرمنصوص اور نئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی غور و فکر کے ذریعہ کوئی شرعی حکم نکال سکیں۔ سیرت نبوی کا اعجاز دیکھئے کہ اس میں وہ قیاس واجتہاد کے ایک دو نہیں متعدد علمی نمونے موجود ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے خود اپنے قول وسیرت سے یہ راہ کھلی رکھی ہے تاکہ کتاب وسنت کے اصولی ہدایات کی تطبیق پیش آنے والی جزئیات یہ قیامت تک جاری رہ سکے۔ ذیل کی سطروں میں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم کے اسی گوشہ کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔



نبی صلى الله عليه وسلم کا استنباط واجتہاد



علماء اصول کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ غیرمنصوص مسائل میں آپ صلى الله عليه وسلم کیلئے اجتہاد جائز تھا یا نہیں؟ جمہور علماء اصول کے یہاں جائز ہے۔ معتزلہ اور ابن حزم ظاہری کے یہاں جائز نہیں ہے۔(الاحکام للآمدی: ۴/۱۶۵، مسلم الثبوت: ۲/۳۶۱، تیسیرالتحریر: ۴/۱۸۳)



پھر جولوگ اجتہاد نبی صلى الله عليه وسلم کو جائز قرار دیتے ہیں ان کے مابین دو باتوں میں اختلاف ہے:



(الف) کس قسم کے مسائل میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد کیا ہے؟



(ب) آپ صلى الله عليه وسلم کب اجتہاد فرمایا کرتے تھے؟



علامہ قرافی رحمه الله ، علامہ عبدالعزیز بخاری رحمه الله اور علامہ شوکانی رحمه الله نے اس پر جمہور علمائے امت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے جنگی امور اور دنیوی معاملات کے سلسلے میں اجتہاد فرمایا ہے۔



بخاری کے الفاظ یہ ہیں: کلہم قد اتفقوا علیٰ أن العمل یجوز لہ بالرأی فی الحروب وامور الدنیا۔(کشف الاسرار شرح اصول البزدوی: ۳/۹۲۶، شرح الاسنوی علی المنہاج: ۳/۱۹۴)



علامہ قرافی بھی یہی فرماتے ہیں: محمل الخلاف فی الفتاویٰ. امّا الأقضیة فیجوز الأجتہاد بالاجماع“ (شرح الاسنوی علی المنہاج: ۳/۱۹۴)



لیکن کیا آپ صلى الله عليه وسلم نے شرعی امور میں بھی اجتہاد کیا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اصولیین کا قول مختلف ہے۔ دلائل کی روشنی میں جو قول نکھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے شرعی امور میں بھی اخذ واستنباط سے کام لیا ہے۔(ارشاد الفحول: ۲۵۵) جس کی سب سے بڑی اور واضح دلیل یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے کیفیت اذان کے سلسلے میں اپنے صحابہ کے ساتھ اجماعی غور وتدبیر کے بعد اپنے اجتہاد و قیاس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر ایک فیصلہ فرمایا اور پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا۔ غور کیا جاسکتا ہے کہ ”اذان“ کوئی دنیوی یا جنگی معاملہ نہیں؛ بلکہ خالص اللہ کا حق ہے اور شعائر دین ومذہب ہے؛ لیکن اس میں بھی آپ کا اجتہاد وقیاس ثابت ہے۔ اس سلسلے میں مزید دلائل کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔



اجتہاد نبوی کی کیفیت کے سلسلے میں جمہور محدثین اور ائمہ ثلاثہ کا رجحان یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کسی بھی واقعہ کے پیش آتے ہی اجتہاد کرلیا کرتے تھے اس سلسلے میں آپ وحی کا انتظار نہیں فرماتے تھے؛ لیکن اس بارے میں احناف کا راجح نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم پیش آمدہ مسائل میں پہلے ”وحی“ کا انتظار کرتے اگر ”مدت انتظار“ میں وحی نازل ہوجاتی تو فبہا ورنہ آپ صلى الله عليه وسلم اجتہاد وقیاس کے ذریعہ ان کا حل بتادیتے۔



علامہ سرخسی رحمه الله تحریر فرماتے ہیں: وأصح الاأقاویل عندنا أنہ علیہ الصلوة فیما کان یبتلی بہ من الحوادث التی لیس فیہا وحی منزل، کان ینتظر الوحی الی أن تمضَی مدة الانتظار ثم کان یعمل بالرأی والاجتہاد(اصول السرخسی: ۲/۹۱)



آپ ﷺ فکرواجتہاد کے مامور تھے



(۱) بنونظیر جب مدینہ طیبہ سے شام جلاوطن کردئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے اہل بصیرت کو ان کی بدعہدی اور شرارت پے عبرت دلاتے ہوئے فرمایا: ”فاعتبروا یا أولی الابصار“ ”اعتبار، کہتے ہیں کسی چیز کی حقیقت ودلائل میں غور وفکر کرکے اسی جنس کی دوسری چیز کو جان لینا“



آیت میں ارباب بصیرت، صاحب نظروفکر لوگوں کو غور وتدبر کا بالعموم حکم دیاگیا ہے۔ اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے بڑھ کر کون بالغ نظر ہوسکتا ہے؟ لہٰذا آیت پاک میں جس غور وفکر کا حکم دیا جارہا ہے آپ صلى الله عليه وسلم بھی اس کے عموم میں داخل ہیں اور اجتہاد وقیاس کے مکلف آپ صلى الله عليه وسلم بھی ہوئے۔(الاحکام للآمدی: ۴/۱۶۵)



(۲) واذا جاء ہم امر من الأمن اوالخوف أذاعوبہ ولوردوہ الی الرسول والی أولی الامر منہم لعلم الذین لیستنبطونہ منہم. امام رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت پاک میں استنباط و تحقیق کے اندر اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلى الله عليه وسلم اور اولی الامر اور حاکموں کو یکساں قرار دیا ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم اخذ و استنباط کے مکلف تھے، فعلم من ذلک أن الرسول علیہ الصلاة والسلام مکلف بالاستنباط (التفسیر الکبیر للرازی: ۱۰/۲۰۰-۲۰۱)



آیت پاک میں ”أمر من الامن اوالخوف“ سے اس نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم شرعی مسائل میں بھی اجتہاد کرتے تھے، اس لئے کہ لفظ ”اَمرٌ“ مطلق آیا ہے، اور جس طرح سے جنگ وجدال میں امن وخوف کی حالت ہوتی ہے اسی طرح امور دینیہ میں بھی امن وخوف کی حالت کا تحقق ممکن ہے، لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح آپ صلى الله عليه وسلم جنگی امور میں اجتہاد فرمایا کرتے تھے اسی طرح شرعی امور میں بھی آپ صلى الله عليه وسلم اجتہاد وقیاس کے مامور ومجاز تھے۔(اجتہاد الرسول: ۵۳)



(۳) لولا کتاب من اللّٰہ سبق لمسکم فیما أخذتم عذاب عظیم.(الانفال: ۶۸)



بدر کی لڑائی میں ستر کافر مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوکر آئے، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان قیدیوں کے سلسلہ میں مشورہ طلب کیا۔ حضرات صحابہ نے اجتماعی غور وتدبر کے بعد ان قیدیوں کے سلسلے میں مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رائی یہ تھی کہ فدیہ لے کر ان تمام قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ تمام قیدیوں کو قتل کردیا جائے، حضرت سعد بن معاذ رضي الله عنه کی بھی یہی رائے تھی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنی طبعی رافت ورحمت کی بناء پر حضرت ابوبکر رضي الله عنه کے مشورہ پر عمل کیا۔ اور تمام قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کردیا گیا۔ لیکن آپ کے اس فیصلہ کو خدا تعالیٰ کی جانب سے اجتہادی غلطی قرار دی گئی اور پھر آیت مذکورہ میں جو سخت عتاب آمیز لہجہ اختیار کیاگیا وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آیت پاک سے دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں: اوّل: یہ کہ کسی پیش آمدہ مسائل میں کتاب و سنت میں کوئی حکم نہیں ملتا تو آپ صلى الله عليه وسلم کیلئے اجتہاد کرنا جائز تھا۔ دوم: یہ ہے کہ جس طرح آپ صلى الله عليه وسلم کیلئے جنگی امور میں اجتہاد کرنا جائز تھا۔ اسی طرح شرعی امور میں بھی آپ اجتہاد کے مکلف تھے۔ جنگ بدر کا معاملہ صرف ایک جنگی حد تک محدود نہ تھا بلکہ یہ جنگ ایمان وکفر، حق وباطل کی فیصلہ کن لڑائی ہونے کی وجہ سے مذہبی و شرعی معاملہ کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔



امام رازی رحمه الله فرماتے ہیں: فالآیة صریحة فی بیان أن الرسول علیہ الصلاة والسلام کان یحکم بمقتضی الاجتہاد فی الوقائع التی لم ینزل بہا نص او وحی.(التفسیر الکبیر: ۱۶/۷۴)



(۴) فتح مکہ کے دن مکہ المکرمہ کی حرمت وعظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: فہو حرام بحرمة اللّٰہ تعالیٰ الٰی یوم القیامة، لا یُعضد شوکة ولا ینفر صیدہ ولا تلتقط لقطة الاّ من عرّفہا ولا یختل خلاہا.



حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یارسول اللہ! آپ صلى الله عليه وسلم تمام گھانسوں کو ممنوع فرمارہے ہیں، حالانکہ ”اذخر“ کی ضرورت ہم لوگوں کو گھر کی چھتوں میں پڑتی رہتی ہے؟ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”الا الاذخر“ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم کا پھر ”اذخر“ کا استثناء کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ گھاس وغیرہ کی حرمت کے سلسلہ میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد کیا تھا۔ وہذا مبنی علی ان الرسول کان لہ ان یجتہد فی الاحکام(فتح الباری: ۴/۴۹)



(۵) قریش نے اپنے دور میں خانہ کعبہ جو تعمیر کی تھی۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے خلاف تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا: ألا تردہا علی قواعد ابراہیم؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: لولا حدثان قومک بالکفر لفعلت(فتح الباری: ۳/۴۳۹)



آپ کا یہ ارشاد بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے قریش کی تعمیر کردہ بنیاد کو جو باقی رکھا وہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ اس لئے کہ اگر آپ صلى الله عليه وسلم عمارت منہدم کرنے کا مامور ہوتے تو خوف فتنہ اس سے قطعا مانع نہیں ہوتا۔



مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلى الله عليه وسلم اجتہاد و قیاس کے مامور ومکلف تھے، آپ صلى الله عليه وسلم نے دینی ودنیوی تمام ہی امور میں اجتہاد کیا ہے۔ ذیل میں قدرے تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ کن کن معاملات میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد سے کام لیا ہے۔



دنیوی امور میں آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات



(۱) ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں آپ صلى الله عليه وسلم نے شہد نوش فرمایا، حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو اس کا علم ہوا تو دونوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ ہم میں سے جس کے پاس حضور تشریف لائیں، ہر کوئی یہ کہے کہ حضور آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے! ایسا ہی ہوا، آپ حضرت عائشہ اور حفصہ رضي الله عنها میں سے جن کے پاس تشریف لے گئے آپ سے یہی سوال ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا نہیں، میں نے زینب کے پاس شہد پیا ہے۔ اگر تم لوگوں کو اس شہد کی وجہ سے ناراضگی ہوئی تو دیا رکھو! آج سے میں شہد ہی نہیں پیونگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: لم یحرم ما احل اللّٰہ لک. (اجتہاد الرسول: ۸۷) آپ صلى الله عليه وسلم نے بعض ازواج کی دلجوئی کے واسطے اپنے اوپر شہد کو حرام کیاگیا، یہ محض آپ کا قیاس تھا۔



(۲) آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا کہ انصار مدینہ ترکھجور کا پیوند مادہ کھجور کو لگاتے ہیں تو کھجور زیادہ ہوتی ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے انصار کو اس طرز عمل سے منع کردیا۔ اتفاق سے اس سال مدینہ میں کھجور کی پیداوار بالکل گھٹ گئی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے پھر اجازت دے دی(شرح النووی لصحیح مسلم ۱۰/۱۹۰) پہلے تابیر نخلہ کی ممانعت آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔



(۳) آپ صلى الله عليه وسلم اکابر قریش کو اسلام کی دعوت و تبلیغ میں مشغول تھے، اسی دوران حضرت عبداللہ بن ام مکتوم حاضر مجلس ہوئے، آپ صلى الله عليه وسلم نے کفار ومشرکین کے قبول اسلام کی امید پر نابینا صحابی سے منھ پھیر لیا، جس پر آیت: عبس و تولّٰی الخ نازل ہوئی آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ اعراض محض اجتہاد تھا۔(اجتہاد الرسول: ۸۸ سورة عبس)



جنگی امور میں آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات



(۱) بدر کی لڑائی کے سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی رائے سے ایک جگہ متعین کی تھی، بعد میں حضرت حباب بن المنذر کی رائے سے وہ جگہ بدل دی- پہلی جگہ کے سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد کیا تھا۔(سیرت ابن ہشام: ۲/۲۷۲)



(۲) اساری بدر کے سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے جو کچھ فیصلہ فرمایا تھا وہ آپ کا اجتہاد تھا۔



(۳) غزوئہ احد کے سلسلے میں مدینہ سے باہر نکلنے یا نہ نکلنے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد کیا تھا کہ مدینہ ہی میں رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیاجائے- بعد میں اس تعلق سے آپ صلى الله عليه وسلم پر وحی آئی۔(سیرت ابن ہشام: ۳/۶۴-۶۷)



(۴) ”خندق “ غزوئہ احزاب میں حضرت سلمان فارسی کی رائے پر آپ نے عمل کیا۔ یہ آپ کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں آپ صلى الله عليه وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔(اجتہاد الرسول: ۹۴)



(۵) غزوئہ خندق میں قبیلہ غطفان کے دوسردار عیینہ بن الحصن اور ”الحارث بن عوف المروی“ سے مدینہ کی ثلث کجھور پر مصالحت کی پیشکش کی تھی۔ یہ صرف آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔(سیرت ابن ہشام: ۴/۱۰۴)



(۶) غزوئہ تبوک میں بعض منافقوں کے اعذار کی وجہ سے آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں جنگ میں شریک نہ ہونے کی اجازت و رخصت دیدی تھی ۔ یہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔(اجتہاد الرسول: ۹۶)



معاملات و قضایا میں آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات



(۱) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی اس بیوی سے رجوع کا حکم دیا تھا جس کو انھوں نے حالت حیض میں طلاق دی تھی۔(الاحکام لابن دقیق العید: ۲/۲۰۱) یہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔



(۲) حضرت ابوسفیان رضي الله عنه کی بیوی ”ہند بنت عتبہ“ نے جب حضرت ابوسفیان رضي الله عنه کی بخالت کی شکایت کی توآپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”خذی من مالہ بالمعروف ما یکفیک ویکفی بینک.(صحیح مسلم: کتاب الاقضیہ) عورت کی ضرورت و کفایت کے بقدر شوہر پر نفقہ کا واجب کرنا آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔



عبادات میں آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات



(۱) کیفیت اذان کے سلسلے میں حضرات صحابہ سے مشورہ کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے جو کچھ فیصلہ فرمایا وہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں کوئی وحی وغیرہ نازل نہیں ہوئی تھی۔(فتح الباری: ۲/۷۷-۸۲)



(۲) ابتداء میں بیت المقدس آپ صلى الله عليه وسلم کا قبلہ تھا اور ۱۶ یا ۱۷ مہینہ ادھرہی رخ کرکے آپ صلى الله عليه وسلم نے نماز ادا کی، لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ مسجد حرام ہوجائے، چنانچہ آیت نازل ہوئی: قد نریٰ تقلب وجہک فی السماء آپ صلى الله عليه وسلم نے مسجد حرام کے قبلہ ہونے میں اجتہاد و قیاس کیا تھا۔(سیرت ابن ہشام: ۲/۲۵۷)



(۳) منبر سازی کے سلسلہ میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے ساتھیوں کی درخواست قبول فرمائی۔ یہ آپ کا اجتہاد تھا۔(فتح الباری: ۱/۴۸۶)



(۴) جماعت کی نماز چھوڑنے والے کے سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا کہ لکڑیاں جمع کرکے انہیں جلادیا جائے، لیکن پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے اس ارادہ سے رجوع کرلیا۔(مسلم، کتاب المساجد) اگر تارک الجماعة کو جلانے کا حکم منجانب اللہ ہوتا تو آپ صلى الله عليه وسلم اس سے رجوع نہ فرماتے۔



(۵) رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے آپ صلى الله عليه وسلم نے استغفار کیا تھا۔ یہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔(تفسیر الرازی: ۱۶/۱۴۶)



(۶) حضرت ابوطالب سے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا لاستغفرن لک مالم اُمن(فتح الباری ۸/۳۳۷-۳۳۹)



فأنزل اللّٰہ تعالیٰ: ما کان للنبی والذین آمنو ان یستغفروا للمشرکین آپ صلى الله عليه وسلم کا اپنے چچا کیلئے استغفار کا ارادہ محض آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔



مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے تمام ہی قسم کے معاملات میں اجتہاد و استنباط سے فیصلے کئے ہیں۔ البتہ آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہاد اور امت کے مجتہدین کے اجتہادات میں آسمان وزمین کافرق ہے۔ آپ کے اجتہاد میں ”ہدی ہی ہدی“ ہے۔



اگر آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد مشیت الٰہی کے مطابق نہیں ہوتا تو ہر وقت وحی کے ذریعہ آپ صلى الله عليه وسلم کو صحیح واقعہ کی رہنمائی کردی جاتی تھی؛ لیکن اتنا مسلّم ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے حالات وواقعات میں اپنے اجتہاد و استنباط سے کام لیا ہے۔



آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات کا حکم



آپ صلى الله عليه وسلم نے جن مسائل میں اخذ واستنباط سے کام لیا ہے، تو کیا آپ صلى الله عليه وسلم اپنے تمام اجتہاد میں درستگی ہی پر تھے یا آپ صلى الله عليه وسلم سے خطاء و چوک بھی واقع ہواہے؟ جمہور محدثین کی یہی رائے ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم اپنے اجتہادات میں معصوم عن الخطاء تھے، جبکہ احناف کا اس سلسلے میں نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات میں خطاء بھی واقع ہوئی ہے۔ البتہ وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کرکے صحیح واقعہ کی رہنمائی فی الفور کردی جاتی تھی۔ دلائل کی روشنی میں احناف کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی جس اجتہادی غلطی پر خدا کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے، اس میں ”عفا اللّٰہ عنک“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، لفظ ”عفو“ اسی وقت استعمال ہوسکتا ہے جبکہ اس سے پہلے ”خطا“ کو موجود مانا جائے۔



(۲) ”لم اذنت لہم“ میں استفہام انکاری ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ منافقوں کو غزوئہ تبوک میں عدم شرکت کی اجازت دینا آپ صلى الله عليه وسلم کی چوک تھی۔



(۳) حضرت قتادہ اور عمروبن میمون فرماتے ہیں ”اثنان فعلہما الرسول لم یوٴمر بشیء منہما اذنہ للمنافقین، واخذہ الفداء فی الأسٰریٰ، فعاتبہ اللّٰہ کما تسمعون“(تفسیر رازی: ۱۶/۷۳، الاحکام: ۴/۲۱۶)



بہرحال آپ ﷺ کے اجتہادات میں خطاء کا واقع ہوجانا ممکن ہے، لیکن وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کردیا جاتا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کے خطاء اجتہادی کو برقرار نہیں رکھا جاتا تھا۔(التحریر: ۵۲۷)



دورنبوی میں حضرات صحابہ کا اجتہاد



اجتہاد نبی صلى الله عليه وسلم کی طرح یہ مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے رہتے ہوئے حضرات صحابہ کا کسی پیش آمدہ مسئلہ میں اجتہاد کرنا جائز تھا یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء اور احناف کی رائے یہ ہے کہ جس طرح آپ صلى الله عليه وسلم کو نئے اور غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی اجازت تھی، اسی طرح حضرات صحابہ کیلئے بھی یہ جائز تھا کہ وہ اپنے اجتہاد و قیاس کے ذریعہ نوازل وواقعات کا حل تلاش کریں۔ ذیل میں ہم اس کی بھی چند مثالیں پیش کرتے ہیں:



(۱) حضرت سعد بن معاذ رضي الله عنه نے حضور صلى الله عليه وسلم کے اشارہ سے یہود بنوقریظہ کے سلسلہ میں جو فیصلہ دیا تھاکہ ”انی أحکم فیہم ان یقتل الرجال وتقسم الاموال وتسبی الذرایا والنساء.



آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ فیصلہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے آپ کے اس اجتہادی فیصلہ کی پرزورالفاظ میں تحسین فرمائی: لقد حکمت فیہم بحکم اللّٰہ من فوق سبع ارفعة (سماوات)



(۲) غزوئہ احزاب سے واپسی کے موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے صحابہ سے فرمایا تھا ”لایصلین احدکم العصر، الا فی بنی قریظة“ بعض صحابہ نے اس ارشاد کو حقیقی معنی پر معمول کرتے ہوئے بنی قریظہ میں عصر کی نماز ادا کرلی اور وقت کی تاخیر کی کوئی پروا نہیں کی۔ جبکہ دیگر صحابہ نے اجتہاد کیا اوراس ارشاد نبوی کو محض غایت سرعت پر محمول کیا اور یہ خیال کیا کہ بنوقریظہ ہی میں عصر پڑھنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ مقصود جلدی پہنچنا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے راستہ ہی میں وقت پر عصر کی نماز پڑھ لی، آپ صلى الله عليه وسلم کو جب واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے کسی فریق کو بھی برابھلا نہیں کہا۔ گویا آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے اجتہاد کو بھی معتبر مانا اور عمل بالظاہر کو بھی صحیح قرار دیا۔



(۳) مقام بدر میں مسلمانوں کی چھاؤنی بنانے کے سلسلہ میں، غزوئہ احزاب میں مدینہ کے اردگرد خندق کھودنے کے سلسلہ میں اور غزوئہ احد میں مدینہ کے اندر یا باہر رہ کر مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں حضرات صحابہ نے جو کچھ بھی مشورہ دیا تھا۔ یہ ان کا اجتہاد تھا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے اجتہاد کو معتبر مانا۔



یہ تو حضرات صحابہ کے وہ اجتہادات تھے جو آپ صلى الله عليه وسلم کی موجودگی میں انجام پائے تھے۔ ان حضرات کے بعض ایسے اجتہادات بھی ہیں جو انھوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کی غیبوبت میں انجام دیں لیکن جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کو صحیح قرار دیا، مثلاً:



(۱) کسی سفر میں حضرت عمر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو غسل جنابت کی حاجت ہوئی پانی دستیاب نہیں تھا جس سے غسل کرسکتے۔ تیمم کی نوبت آئی، دونوں حضرات نے تیمم غسل کی کیفیت کے سلسلہ میں اجتہاد سے کام لیا۔ حضرت عمار رضي الله عنه نے مٹی کے استعمال کو پانی پر قیاس کرتے ہوئے پورے جسم پر مٹی مل لی اور نماز ادا کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد یہ تھا کہ مٹی جنابت دور کیسے کرسکتی ہے؟ انھوں نے نماز ہی نہیں پڑھی ۔ ان دونوں کے واقعہ کا آپ صلى الله عليه وسلم کو علم ہوا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے کوئی ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی جس سے ان حضرات کے اجتہاد کی تردید وممانعت ثابت ہوتی ہو؛ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے صرف اس قدر فرمایا کہ تیمم غسل اور تیمم وضوء میں کوئی فرق نہیں ہے پورے جسم پر مٹی لیپنے کی ضرورت نہیں تھی۔



(۲) حضرت عمروبن العاص کو غزوئہ ذات السلاسل میں غسل کی حاجت ہوئی، سردی اتنی سخت تھی کہ پانی سے غسل کرنا ممکن نہیں تھا آپ نے تیمم کیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ آپ صلى الله عليه وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے پوچھا کہ تم نے ناپاکی کی حالت میں ساتھیوں کو نماز پڑھا دی، حضرت عمر بن العاص نے فرمایا: میں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہے ولا تقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیماً، آپ صلى الله عليه وسلم یہ جواب سن کر ہنس پڑے۔(ابوداؤد ۱/۱۴۱) اور ان کے اس اجتہاد و استنباط پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔



(۳) حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا قاضی بناکر بھیجنے کا وہ مشہور واقعہ بھی ہے جس میں انھوں نے آخر میں کہا تھا ”اجتہد برایٴ“ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے اس اجتہاد و قیاس کو نہ صرف معتبر مانا بلکہ ان کو شاباشی دی کہ ”الحمد للّٰہ الذی وفق رسول رسول اللّٰہ بما رضی لہ رسول اللّٰہ (ابوداؤد ۲/۵۰۵) اگر آپ صلى الله عليه وسلم کے رہتے ہوئے حضرات صحابہ کا اجتہاد از رائے شرع ناجائز ہوتا تو آپ صلى الله عليه وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اس جملہ کی فوراً تردید فرماتے؛ لیکن آپ صلى الله عليه وسلم نے مذکورہ تمام واقعات میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتہادات کو معتبر مانا۔



یہ چند واقعات ہیں، جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون وشریعت جامد ومعطل نہیں ہے؛ بلکہ اس میں ایسی لچک موجود ہے کہ نوپیش آمدہ مسائل کو کتاب وسنت کے حدود میں رہتے ہوئے کتاب وسنت کے اصولی ہدایات پر منطبق کیا جاسکے۔ یعنی سیرت نبوی کا اجتہادی پہلو قیامت تک کیلئے یہ دروازہ کھلا رکھتا ہے کہ ہر زمانہ میں پیدا ہونے والے جدید مسائل پر اسلامی قوانین واصول کو چسپاں کیا جائے اور لوگوں کے مصالح اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل کا ایسا حل تلاش کیا جائے جو شریعت کے مزاج اور زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔



اخذ واستنباط کی یہ کوشش ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے اور دراصل یہ ہے کہ اجتہاد نہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات میں ائمہ مجتہدین کے آراء کی تطبیق ہے جسے فقہ کی زبان میں ”تحقیق مناط“ کہا جاتا ہے۔ امام ابواسحاق شاطبی نے لکھا ہے کہ اجتہاد کی یہ وہ قسم ہے جو قیامت تک باقی رہے گی۔(الموافقات ۳/۹۷)



خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے نظام پراسلامی قانون کا انطباق ان مسائل ہی میں سے ہے جس کی ضرورت واہمیت سیرت نبوی صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہوتی ہے؛ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ شریعت اسلامی کو زندہ و حاضر اور عصری ثابت کرنے کی سب سے بہتر اور واحد صورت یہی ہے کہ ہم اسلامی قانون کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ وہ جدید مسائل وواقعات کا توازن اورمناسب حل پیش کرتا ہو۔

No comments:

Post a Comment