امام بخاریؒ کے شیخ الحدیث امام ابو بکر بن ابی شیبہؒ کی کتاب "المصنف" کی کتاب الطب کے"باب : جس نے اجازت دی تعویذ لٹکانے کی"احادیث ملاحظہ ہوں:
حضرت مجاہدؒ بچوں کے لئے تعویذ لکھتے تھے پھر وه ان پر اسےلٹکاتے تھے.
٢٣٨٩٣- .....حضرت جعفرؒ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ تعویذاتِ قرآنیہ کو چمڑے میں ڈال کر گلے وغیرہ میں لٹکانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.
٢٣٨٩٤- ....حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبد اللهؓ بن عمرو(بن العاص) یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے۔
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ ۔۔۔ رقم الحديث: 3475 (3528)
٢٣٨٩٥- .....حضرت ابن سیرینؒ تعویذاتِ قرآنیہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.
٢٣٨٩٦- .....حضرت ایوبؒ نے حضرت عبیداللہ بن عبدالله بن عمر رح کے بازو میں ایک دھاگہ دیکھا.
٢٣٨٩٧- .....حضرت عطاءؒ(تابعی ومفتی مکہ)نے فرمایا : نہیں ہے کوئی حرج کہ (گلے میں) لٹکایا جاۓ قرآن.
٢٣٨٩٨- .....یونس بن حبابؒ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفرؒ سے سوال کیا گیا تعویذات بچوں پر لٹکانے کے بارے میں؟ تو انہوں نے رخصت (اجازت) دی اس میں.
تمائم و تعویذات میں فرق:
التميمة : وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم , يتقون بها العين في زعمهم (النهاية لابن الأثير : ج ١ ، ص ١٩٧)
"تميمة : "یہ خرزات (پتھر، منکے اور کوڑیوں کی مالا) کو کہتے ہیں جنہیں (زمانہ جاہلیت میں) عرب لوگ ( موثر بالذات سمجھ کر) بچوں کو اس کے ذریعہ سے نظرِ بد سے بچانے کے زعم (عقیدہ و نظریہ) سے پہناتے تھے".
یہی بات غیر مقلد اہل حدیث نے بھی لکھتے ہیں:
یہی بات غیر مقلد اہل حدیث نے بھی لکھتے ہیں:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) فرماتی ہیں کہ : (( لَیْسَتِ التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہ بَعْدَ الْبَلاَئِ اِنَّمَا التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہ قَبْلَ الْبَلاَئِ ))، ’’تمیمہ وہ نہیں جو بلاء (مرض) کے بعد لٹکایا جائے، تمیمہ تو وہ ہے جو بلاء سے پہلے لٹکایا جائے۔‘‘
(المستدرک للحاکم :۴/۲۱۷ , الترغیب : ج۵ ص۲۷ ؛ طحاوی : ٢/٣٦٠) (البیہقی: 9/351)
(المستدرک للحاکم :۴/۲۱۷ , الترغیب : ج۵ ص۲۷ ؛ طحاوی : ٢/٣٦٠) (البیہقی: 9/351)
امام بغوی فرماتے ہیں : ’’ اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ ‘‘ [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۸)]
’’تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔‘‘
علامہ البانی فرماتے ہیں :
ومن ذلك تعليق بعضهم نعل الفرس على باب الدار، أو في صدر المكان!
وتعليق بعض السائقين نعلا في مقدمة السيارة أو مؤخرتها، أو الخرز الأزرق على
مرآة السيارة التي تكون أمام السائق من الداخل، كل ذلك من أجل العين زعموا.
[السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۵۰)]
’’اور اسی قسم سے بعض لوگوں کا گھر کے دروازے پر جوتا لٹکانا، یا مکان کے اگلے حصے پر، یا بعض ڈرائیوروں کا گاڑی کے آگے، یا پیچھے جوتے لٹکانا، یا گاڑی کے اگلے شیشے پر ڈرائیور کے سامنے نیلے رنگ کے منکے لٹکانا بھی ہے، یہ سب ان کے زعم باطل کے مطابق نظر بد سے بچائو کی وجہ سے ہے۔‘‘
ومن ذلك تعليق بعضهم نعل الفرس على باب الدار، أو في صدر المكان!
وتعليق بعض السائقين نعلا في مقدمة السيارة أو مؤخرتها، أو الخرز الأزرق على
مرآة السيارة التي تكون أمام السائق من الداخل، كل ذلك من أجل العين زعموا.
[السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۵۰)]
’’اور اسی قسم سے بعض لوگوں کا گھر کے دروازے پر جوتا لٹکانا، یا مکان کے اگلے حصے پر، یا بعض ڈرائیوروں کا گاڑی کے آگے، یا پیچھے جوتے لٹکانا، یا گاڑی کے اگلے شیشے پر ڈرائیور کے سامنے نیلے رنگ کے منکے لٹکانا بھی ہے، یہ سب ان کے زعم باطل کے مطابق نظر بد سے بچائو کی وجہ سے ہے۔‘‘
تعویذ کی لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" ہے. (مصباح اللغات : ٥٨٣) فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے. (المنجد : صفحہ ٥٩٣) دوسرے لفظوں میں آپ اسے اسم کے حساب سے "تحریری دعا" کہہ لیجئے. جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثرپذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی "تحریری دعا" کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے. مَثَلاً : حدیثِ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) پر لبید بن اعصم یہودی کے کیے ہوۓ سحر (جادو) کے اثرات ختم کرنے کے لئے وحی الہی کی ہدایت پر آپ (صلی الله علیہ وسلم) پر "معوذتين" یعنی سوره الفلق اور سوره الناس کا تلاوت کرنا، (تفسیر ابن عباس) صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری (رضی الله عنہ) سے مروی وہ حدیث جس میں انہوں ایک سفر میں سورہ الفاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عمل سے سانپ کے کاٹے ہوۓ ایک مریض کا علاج کیا تھا اور وہ تندرست ہوگیا تھا اور بعد میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سارا واقعہ سنکر سورہ الفاتحہ کی اس تاثیر کی تصدیق فرمائی تھی.
چونکہ تمیمہ بھی (پناہ حاصل کرنے کے لئے) گلے میں لٹکایا جاتا، تو اسے بھی تعویذ کہا جانے لگا، جبکہ تعویذ میں اسماء اللہ تعالیٰ یا ادعیہٴ ماثورہ ہوں اور اس کو موٴثر حقیقی نہ سمجھا جاتا ہو (صرف الله کو موثر حقیقی مانتے بطور سبب کے تعویذ اختیار کیا جاتا ہو) تو اس قسم کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا تحکم و زیادتی ہے، اس لیے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب حدیث سے ملتی ہے، (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، مرقات شرح المشکاة، ص:۳۲۱ و ۳۲۲، ج۸، الترغیب والترہیب، ج۵ ص۲۷۱، ابوداوٴد شریف، ج۲، ص۹۲ وغیرہا) لہذا بعض لوگوں کا تعویذ پہننے کو مطلقاً شرک قرار دینا غلط ہے.
جہاں تک ان احادیث كا تعلق ہے جس میں آپ (صلی الله علیہ وسلم) نے تعویذ لٹکانے سے منع فرمایا ہے تو یہ اس صورت پر محمول ہیں،
١) جب کہ اس میں غیر اللہ سے استمداد چاہی گئی ہو، جس میں شرکیہ و کفریہ کلمات لکھے ہوں،
٢) یا تعویذ کو موٴثر بالذات (ذاتی طور اثر رکھنے والا)، نافع (نفع دینے والا) اور ضار (نقصان دینے والا) سمجھا جائے جیسا کہ لوگ زمانہٴ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے
٣) یا وہ عجمی زبان میں لکھے ہوں تو ان کے معنی معلوم نہ ہوں.
لیکن اگر اسمائے حسنیٰ اور دیگر آیاتِ قرآنیہ و ادعیہٴ ماثورہ لکھ کر لٹکایا جائے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ بلکہ موثر حقیقی صرف الله تعالیٰ کو مانا جاۓ اور اس دم و تعویذ کو صرف سبب کے درجہ میں سمجھا جاۓ (جیسا کہ بیماری میں دوا وغیرہ کرانا).
عن جابر رضی اللہ عنہ السئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النشرة فقال ہو من عمل الشیطان رواہ أبوداوٴد قال العلي القاري فی المرقاة النوع الذي کان من أہل الجاھلیة یعالجون بہ ویعتقدون فیہ وأما ما کان من الآیات القرآن والأسماء والصفات الربانیة والدعوات والماثورة النبویة فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذًا أو رقیة أو نشرة (مرقاة : ج۸ ص۳۶۱)
علاج بالقرآن پر اجماع ہے: دیکھئے بخاری شریف کے حاشیہ پر (حاشية بخاري : ١/٣٠٤) لکھا ہے: "فيه جواز الرقية وبه قالت الأئمة الأربعة" یعنی "رقیہ کے جواز پر ائمہ اربعہ قائل ہیں".
فتاویٰ علماۓ : حدیث ج ١٠، ص ٨٢ ، کتاب الایمان و العقائد : "کچھ شک نہیں کہ نفس دم (رقیہ) یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب (تولہ) کی نہیں بلکہ ان کی بعض قسمیں شرک ہیں ؛ اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا".
فتاویٰ ثانیہ : ج ١ ، ص ٣٣٩ ، باب اول : عقائد و مہمات دین :
"مسئلہ تعویذ میں اختلاف ہے ، راجح یہ ہے کہ آیات یا کلمات صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان . صحابہ کرام نے ایک کافر بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا.
علم رمل (Geomancy) یہ ان خطوط اور نقطوں کی اشکال کا علم ہے جس سے قواعد معلومہ کے تحت حروف نکالے جاتے ہیں(جمع کیے جاتے ہیں)اور پھر ایسا جملہ نکالا جاتا ہے جو امور کے انجام پر دلالت کرتا ہے اسے علم خطوط و نقوط بھی کہا جاتا ہے جس میں اشکال کے ذریعے آئندہ پیش آنے والے حالات و واقعات دریافت کیے جاتے ہیں۔
حضرت معاویہ بن حکم سلمی ؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو خط کھینچتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:
«كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطُّهُ فَذَاكَ»
انبیاء میں ایک نبی تھے جو خط کھینچتے تھے تو جس کا خط ان کے خط کے موافق ہوا تو وہ ٹھیک ہے۔
[صحيح مسلم:ِ537، سنن أبي داود:3909، سنن النسائي:1218]
وہ نبی حضرت ادریس علیہ السلام ہیں۔
[تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة-البيضاوي(م685ھ): حدیث 251 (جلد 1/ ص 316)]
یا حضرت دانیال علیہ السلام ہیں۔
[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح-عبيد الله الرحماني المباركفوري:3/ 342]
بعض علماء نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ عمل رمل جائز ہے لیکن بغیر کمال اس پر اعتماد نہیں کرسکتے۔
یہ علم اس نبی کی نبوت کی دلیل ہوتی ہے کیونکہ اللہ ہی نبی کو غیبی خبروں کی اطلاع کرتا ہے، اس سے وہ نبی واقعی اللہ کا نبی ثابت ہوا۔
عام لوگ تو بس اندازے لگاتے ہیں، انہیں کوئی یقینی علم حاصل نہیں، ان کا اندازہ اگر کبھی درست نکلے تو بھی غلطیوں اور گمراہیوں کا امکان غالب ہے۔ لہٰذا موجودہ رمل ان کے اندازے ہیں کوئی علم نہیں۔
اور وہ علم نبی کیلئے تھا، عوام کیلئے نہیں، ورنہ وہ علم محفوظ رہتا اور غلطیوں سے بھرے اندازے لگانے کی وجہ اس علم کا محفوظ اور یقینی نہ ہونا ہے۔
اور بالفرض وہ محفوظ بھی ہوتا تو بھی امت کیلئے جادو اور کہانت کی طرح حرام ہوتا، کیونکہ امام ابن حجر مکیؒ(م974ھ) نے لکھا ہے کہ اس علم کا سیکھنا اور سکھانا سخت حرام ہے کیونکہ اس سے عوام کو وہم ہوتا ہے کہ اس کا کرنے والا اللہ تعالیٰ کے ساتھ علم غیب میں شریک ہے۔
[الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي(م974ھ): ص85]
نقش یا ابجد-اعداد کا علم:
اگر اعداد قرآنی آیات یا اسماء حسنیٰ وغیرہ کے ہوں تو فی نفسہ ان کے استعمال کی گنجائش ہے، اکابر بزرگوں کے عمل سے اس کا مجرب ہونا ثابت ہے۔
اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان قنوجی اپنی تعویذات کی کتاب [الداء والدواء: ص126، 130] بھی دیکھ سکتے ہیں۔
اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان قنوجی اپنی تعویذات کی کتاب [الداء والدواء: ص126، 130] بھی دیکھ سکتے ہیں۔
جس طرح علاج میں کیمیکل کی خاصیتیں Properties اور اثرات Effects ہوتے ہیں، اور روشنی کی خاصیتیں Properties اور اثرات Effects ہوتے، ۔۔۔ اسی طرح علاج میں خطوط اور اعداد کی بھی خاصیتیں Properties اور اثرات Effects ہوتے ہیں۔ یہ مختلف قسم کے علوم ہیں جن سے علاج کیا جاتا ہے۔ ورنہ کیمیکل کے ذریعے علاج کرنا بھی قرآن وحدیث سے ثابت نہیں، اور اسے کوئی بدعت نہیں کہتا۔ شریعت تجربات سے حاصل علم سے منع نہیں کرتی ہے۔
ابجد کے موافق اعداد کا شمار اور اعتبار کرنا بعض چیزوں (مثلاً تاریخِ وفات یا تاریخِ پیدائش)میں جائز ہے، لیکن ''علمِ ابجد'' اور ''نمرالوجی Numerology'' کے ذریعہ ایسا کام لینا جیساکہ علمِ نجوم میں لیا جاتا ہے، جیسے فال نکالنا، زائچے بناکر کسی کے حالات معلوم کرنا اور اس پر یقین کرنا وغیرہ یہ جائز نہیں۔
[کفایت المفتی ، 9/222 دارالاشاعت]
علم ابجد سے فال لینا جائز نہیں:
امام ابن المنذر ابن جریج سے روایت فرماتے ہیں کہ یہود (اپنی کتابوں میں) محمد ﷺ اور ان کی امت کا ذکر پاتے تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ محمد ﷺ کی امت کی مدت کتنی ہے جب محمد ﷺ کی بعثت ہوئی اور ”الم“ نازل ہوئی تو کہنے لگے کہ ہم جانتے تھے کہ یہ امت بھیجی ہوئی ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کی مدت کتنی ہے اگر محمد ﷺ سچے ہیں تو وہ اس امت کے نبی ہیں اب ہم کو معلوم ہوگیا کہ محمد ﷺ کی مدت کتنی ہے اس لئے کہ ”الم“ ہمارے حساب جمل کے اعتبار سے اکہتر سال نبتی ہے سو ہم ایسے دین کو کیا کریں گے جس کی مدت صرف اکہتر سال ہے۔
پھر جب ”الر“ نازل ہوئی اور یہ ان کے حساب جمل سے دو سو اکتیس سال تھی کہنے لگے کہ یہ اب دو سو اکتیس اور اکتر ہوگئے۔ کہا گیا پھر ”المر“ نازل ہوا۔ یہ ان کے حساب جمل کے اعتبار سے دو سو اکہتر سال ہوئے اسی طرح سورتوں کے شروع میں حروف مقطعات نازل ہوئے تو کہنے لگے کہ ان کا معاملہ ہم پر مشتبہ ہوگیا ہے۔
[تفسير ابن المنذر:200-سورۃ آل عمران:7]
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے فرماتے ہیں کہ اس روایت کے بارے میں کہ متشابہہ جو سورتوں کے شروع میں نقل کیے گئے ہیں یہ اس وجہ سے ہے کہ یہود کی ایک جماعت جن میں حی بن اخطب ، کعب بن اشرف آپ کے پاس آئے ، حیی نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ آپ پر ”الم“ نازل ہوئی ، ہم آپ کو اس کی قسم دے کر دریافت کرتے ہیں کہ کیا اللہ نے آپ پر اس کو نازل فرمایا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا جی ہاں! حیی بولا اگر یہ بات صحیح ہے تو میں آپ کی امت کی عمر جانتا ہوں اور یہ کل عمر (71) سال ہوگی ، اس نے کہا کہ کیا اس کے علاوہ بھی کوئی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں، اس کے علاوہ اور کچھ بھی نازل ہوا ہے اور وہ ”المص“ ہے اس پر حیی نے کہا کہ اب تو مدت بہت ہوگئی ہے اور وہ 161 سال ہے ، پھر وہ بولا کیا اس کے علاوہ کچھ وہ بھی ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جی ہاں۔ ”الر“ حیی کہنے فرمایا کہ ”المر“ ہے کہنے لگا یہ بھی بہت مدت ہے ۔ 271 سال ہے ، پھر کہنے لگا کہ آپ نے ہمارے لیے گڑ بڑ کردی ہے ہم نہیں سمجھتے کہ زیادہ مدت قائم کریں یا کم مدت ، ہم ایسی چیزوں پر ایمان نہیں لاتے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
”وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں۔“
(سورۃ آل عمران:7)
(فام الذین۔۔۔۔۔ زیغ پس وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے) زیغ سے مراد حق سے روگردانی ہے۔ بعض نے کہا کہ زیغ سے مراد شک کرنا ہے۔
[تفسير البغوي:361 (1/411)، تفسير الثعلبي:3/12، تفسير الخازن: سورۃ آل عمران:7]
[تفسير الطبري:246 (1/217)، تفسير السمرقندي:1/21، تفسير الماوردي:1/65، تفسير الرازي:2/253، تفسير ابن كثير:1/161، فتح القدير للشوكاني:1/37 سورۃ البقرۃ:1]
[التاريخ الكبير للبخاري:2209، الأحاديث المرفوعة المسندة:681]
[تفسير مقاتل بن سليمان:1/85(5/211)، سيرة ابن هشام(ت طه عبد الرؤوف سعد):2/139]
امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ تین حروف (یعنی ”الم“ ) انتیس حروف میں سے ہیں تمام زبانیں ان کو استعمال کرتے ہیں، نہیں ہے اس میں کوئی حرف مگر وہ چابی ہے اس کے اسماء میں سے ایک اسم کی، اور نہیں ہے اس میں کوئی حرف مگر وہ ایک اور تین آیات میں سے ہے، اور نہیں اس میں کوئی حرف مگر وہ قوم کی مدت اور ان کی عمر کے بارے میں ہے، سو الف چابی ہے اس کے نام مجید کی، اور الف سے مراد اللہ کی نعمتیں ہیں، اور لام سے اللہ کی مہربانی ہے، اور میم سے اللہ کی بزرگی ہے۔ سو الف سے مراد ایک سال، لام سے مراد تیس سال، اور میم سے مراد چالیس سال ہیں۔
[الدر المنثور في التفسير بالمأثور-السيوطي:1/59، سورۃ البقرۃ:1]
تسمیہ (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم) کیلئے 786 کے استعمال کا حکم:
حروفِ تہجی سے خاص اعداد اور اعداد سے خاص کلمات مراد لینا اہلِ عرب میں قدیم زمانہ سے رائج ہے، اور تاریخ میں تعویذات میں اس فن سے استفادہ کا سلف کا معمول رہا ہے، اس لیے اگر کوئی شخص بغرضِ احتیاط تسمیہ کی بجائے اس کے اعداد "786" لکھے تو اس کا یہ عمل ناجائز نہیں کہلائے گا، علم الاعداد میں حروف ابجد کے اعتبار سے 786 بسم اللہ الرحمن الرحیم کا عدد ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
ا = ۱، ب = ۲، ج = ۳، د = ۴، ہ = ۵، و = ۶، ز = ۷، ح = ۸، ط = ۹، ی = ۱۰، ک = ۲۰، ل = ۳۰، م = ۴۰، ن = ۵۰، س = ۶۰، ع = ۷۰، ف = ۸۰، ص = ۹۰، ق = ۱۰۰، ر = ۲۰۰، ش = ۳۰۰، ت = ۴۰۰، ث = ۵۰۰، خ = ۶۰۰، ذ = ۷۰۰، ض = ۸۰۰، ظ = ۹۰۰، غ = ۱۰۰۰
پس ان تمام حروف کا عددی مجموعہ 786 بنتا ہے۔
(گلبن تاریخ: نیز اس ترتیب کے مطابق بنائے ہوئے آٹھ کلموں میں سے پہلا کلمہ یہ آٹھ کلمے حسب ذیل ہیں: اَبْجدَ، ہَوَّز، حُطّی، کَلِمَن، سَعْفَص، قَرَشَت، ثَخَّذْ، ضَظَّغ کسی زبان یا رسم الخط کے مفرد حروف، حروف تہجی، اصلاً فینیقی رسم الخط ہجائی کے پہلے چار حرف ا ب ج د)
رہی بات یہ کہ 786 لکھنا کیسا ہے؟ اور اس کے لکھنے سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے اور پڑھنے کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ 786 نہ تو بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے اور نہ ہی اس کے قائم مقام یا بدل ہے، بلکہ یہ کاتب کی جانب سے ایک علامت ہے کہ اس نے ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی ہے؛ لہذا قاری بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لے، پس 786 کو عین بسم اللہ سمجھنا یا اس کے قائم مقام قرار دینا درست نہیں۔ اور نہ ہی 786 لکھنے سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کا ثواب ملتا ہے۔ البتہ علامت کے طور پر لکھنا درست ہے اور قریبی سلف صالحین سے اس کا لکھنا ثابت بھی ہے، لہذا اسے غلط قرار دینا یا شرک و بدعت کا نام دینا بھی درست نہیں۔
==================================================================
حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ نبی پاک ﷺ حضرات حسنؓ حسین ؓ کا استعاذہ(تعویذ)ان کلمات سے کرتے:
اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّکُلِّ شَیْطَانٍ وَّھَامَّۃٍ وَمِنْ شَرِّکُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ۔
ترجمہ:میں پناہ چاہتا ہوں اللہ کے کلمات تامہ سے ہر شیطان کی برائی سے اورتکلیف دینے والی چیز سے اورنظر لگنے کی برائی سے۔
(ترمذی:۲/۲۷،حصن:۲۷۳)
آپ ﷺ انہیں کلمات کو پڑھ کر دم کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑواسماعیل ؑاوراسحاق ؑانہیں کلمات سے تعویذ کرتے تھے۔
اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَھَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ
(بخاری:۲/۴۷۷)
اگر جانور سرکش ہوجائے(یا گاڑی وغیرہ) پریشان کرے
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جب کسی کا جانور پریشان کرے مثلاً (دودھ نہ دے،پیر مارے وغیرہ) تو یہ آیت اس کے کان میں پڑھے:
اَفَغَیْرَدِیْنَ اللہِ یَبْغُوْنَ وَلَہُ اَسْلَمَ مَنْ فِیْ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ طَوْعاً وَکَرْھاً وَاِلَیْہِ یُرْجَعَوْنْ
ترجمہ:اب کیا یہ لوگ اللہ کےدین کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ہیں؛حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب نے اللہ ہی کے آگے گردن جھکا رکھی ہے(کچھ نے)خوشی سے اور (کچھ نے)ناچار ہوکراور اسی کی طرف سب لوٹ کر جائیں گے۔
فائدہ:جانوروں کو نرم اورمطیع کرنے کے لئے یہ دعا بہت مؤثر ہے دودھ میں بھی زیادتی ہوتی ہے،تعویذ بنا کر گلے میں بھی باندھا جاسکتا ہے؛ ایسے ہی اگر گاڑی وغیرہ خراب ہوجائے اس سے پریشان ہوجائے تو یہ دعا پڑھے۔
(الاتقان:۲/۲۱۰،اذکار نووی:۱۹۲)
تعویذ لٹکانے کے بجائے معوذتین کا عمل بہتر ہے
حضرت عبداللہؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے کسی عورت کی گردن میں بندھی تعویذ دیکھا،آپ نے ہاتھ بڑھا کر اسے توڑدیا اورفرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ،قل ھواللہ احد، قل اعوذ برب الفلق، اورقل اعوذ برب الناس، پانی پر پڑھو اورسراورچہرے پر پانی کا چھینٹا مارو، انشاء اللہ فائدہ ہوگا۔
(طبرانی، مجمع الزوائد:۱۱۵)
فائدہ:تعویذوں کا گلے میں لٹکانا کوئی اچھی اور بہتر بات نہیں ،بہتر یہ ہے کہ معوذتین کو پڑھے،پانی پر دم کرے،دم کردہ پانی پئے یا سر چہرے وغیرہ پر چھینٹے مارے،یہ زیادہ مؤثر ہے۔
=====================
حافظ ابن القیم رحمه الله نے اپنی کتاب ( زادُ المَعَاد : ٣/٥٧٢) میں نقل کیا ہے کہ
امام المروزي نے فرمایا کہ أبا عبد الله [يعني امام أحمد بن حنبل] کو یہ خبر پہنچی کہ مجهے بخار ہے تو انهوں نے میرے لیئے بخار کے علاج کا ایک تعویذ لکها جس میں یہ لکها ہوا تها ، : بسم الله الرحمن الرحيم باسم اللهِ وباللهِ ، وَمُحمدُ رسُولُ الله قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ ، وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الأَخْسَرِينَ ) اللهُمَّ رَبَّ جبرئيلَ وَمِیكائيلَ وَإسرافيلَ اِشفِ صاحبَ هَذا الكتابِ بحَولكَ وَقـُوَّتِكَ وَجَـبَرُوتِكَ إلهَ الخـَلقِ . آمين
امام أحمد بن حنبل رحمه الله سے جب کسی بلاء (بیماری وغیره) آنے کے بعد تعویذات لٹکانے کے بارے پوچها گیا ؟ تو انهوں نے فرمایا (أرجو أن لا يكون به بأس) میں یہ امید کرتا ہوں کہ اس میں کوئ حرج نہیں ہے ، اور امام أحمد بن حنبل رحمه الله بخار وغیره امراض میں تعویذ لکهتے تهے
وقال أحمد وقد سئل عن التمائم تعلق بعد نزول البلاء ؟ قال : أرجو أن لا يكون به بأس . قال الخلال : وحدثنا عبد الله بن أحمد ، قال : رأيت أبي يكتب التعويذ للذي يفزع ، وللحمى بعد وقوع البلاء
زاد المعاد في هدي خير العباد ، فصل الطب النبوي
یاد رہے کہ قرآنی آیات کو لکهہ کر پانی کے ساتهہ دهوکر مریض کو پلانا اور اس کا تعویذ بنانا سلف کے یہاں مشہور ومعروف ہے ، یعنی قرآنی آیات یا ادعیه ماثوره یا الله تعالی اسماء مبارکہ وغیره پرمبنی تعویذ ہو تو اس میں کوئ حرج نہیں ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ کوئ شرکیہ کلام یاغیر معروف کلام نہ ہو جیسا کہ جادوگر اور نجومی وغیره لوگ لکهتے ہیں
شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله فرماتے ہیں کہ : کسی بهی مصیبت زده مریض وغیره کے لیئے مباح سیاہی کے ساتهہ قرآن مجید سے کچهہ لکهنا اوراس ک وپانی سے دهوکر اس کو پلانا جائز ہے جیسا کہ امام أحمد بن حنبل وغيره نے اس کے جواز کی تصریح کی ہے
ويجوز أن يكتب للمصاب وغيره من المرضى شيئًا من كتاب اللّه وذكره بالمداد المباح ويغسل ويسقى، كما نص على ذلك أحمد وغيره، الخ
مجموع الفتاوى لابن تيمية رحمه الله (19/64) اهـــ
يكتب على الخد الدي يلي الوجع باسم الله الرحمن الرحيم { قل هو الدي أنشأكم و جعل لكم السمع و الأبصار و الأفئدة قليلا ما تشكرون } [ الملك :23 ]اهـ
حافظ ابن القيم رحمہ الله فرماتے ہیں کہ شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کوجب مشکل اورسختی والے امورپیش آتے توآپ آيات السكينة پڑهتے تهے
*****************
قرآنی آیات کا تعویذ بنانا ، یا مخصوص آیات کو لکهہ کرپانی میں گهول کرمریض کوپلانا ، سلف وخلف کے عمل سے ثابت ومشہور ہے ، الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ عرب کے سلفی علماء میں سے تهے وه ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں
سوال = كيا ولادت كے وقت سورۃ الزلزال كى قرآت كرنے سے آسانى پيدا ہو جاتى ہے، اور كيا ولادت ميں آسانى پيدا كرنے كے ليے كوئى دعائيں اور اذكار مشروع ہيں، اور كيا ولادت كے وقت دعا قبول ہوتى ہے ؟
جواب = ولادت كے وقت برتن ميں زعفران سے سورۃ الزلزلۃ " اذا زلزلزت الارض زلزالہا " اور اسى طرح وہ آيات جن ميں رحم كا ذكر ہے، اور اسى طرح { و ما تخرج من ثمرات من اكمامھا و ما تحمل من انثى و لاتضع الا بعلمہ (فصلت : 67 )}. اور فرمان بارى تعالى: { اللہ يعلم ما تحمل كل انثى و ماتغيض الارحام و ماتزداد و كل شيئ عندہ بمقدار (الرعد : 8 )}. تجربہ كيا گيا ہے كہ يہ آيات زعفران كے ساتھہ لكھہ كر اور پھر اس برتن ميں پانى ڈال كر زعفران كو حل كر كے نفاس والى عورت كو پلايا جائے اور نفاس والى عورت كے پيٹ كو ہاتھ سے ملا جائے، يا يہ آيات پانى ميں پڑھ كر وہ پانى نفاس والى عورت كو پلايا جائے اور اس كے پيٹ كو ملا جائے، يا پھر نفاس والى عورت كو پڑھ كر دم كيا جائے تو اللہ كے حكم سے اس كى ولادت ميں آسانى پيدا ہو جاتى ہے اور درد زہ كے وقت دعا كرنا قبوليت كے ليے اولى ہے كيونكہ يہ دعا مشكل و تنگى اور لاچارى كے وقت كى جا رہى ہے اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ كون ہے جو مضطر اور لاچار كى دعا قبول كرتا اور اس كى تكليف اور مشكل دوركرتا ہے، اورتمہيں زمين كا خليفہ بناتا ہے كيا اللہ تعالى كے ساتھہ كوئى اور بھى معبود ہے ؟ (النمل : ۶۲ )}. اور پھر مشكل و تنگى اور بےكسى كے وقت تو اللہ سبحانہ و تعالى دعا بہت قبول كرتا ہے اور مشكل و تنگى سے نجات دلاتا ہے.
*******************************
رقیہ (دم جھاڑ پھونک) میں شرکیہ کلمات نہ ہوں:
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (شروع میں) دم کرنے سے منع کردیا تھا عمر بن حزمؓ کی آل نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اے اللہ کے رسول ہمارے پاس ایک دم ہے جس کے ذریعے ہم بچھو کے ڈسنے پر دم کرتے ہیں اور آپ ﷺ نے تو دم کرنے سے منع فرمایا ہے، راوی کہتا ہیں کہ پھر انہوں نے اس دم کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: "میں اس دم کے الفاظ میں کوئی قباحت نہیں پاتا تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ اسے فائدہ پہنچائے۔"
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1234(12864)، سلام کرنے کا بیان : نظر لگنے پھنسی یرقان اور بخار کے لئے دم کرنے کے استحباب کے بیان میں]
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ فَقَالَ: «اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ»
[أخرجه مسلم (4/1727، رقم 2200) ، وأبو داود (4/10، رقم 3886) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (13/461، رقم 6094) ، والحاكم (4/236، رقم 7485) ، وقال: صحيح الإسناد. والبيهقى (9/349، رقم 9380) .]
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ منتر پڑھا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ ان منتروں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔"
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1234(12864)، سلام کرنے کا بیان : نظر لگنے پھنسی یرقان اور بخار کے لئے دم کرنے کے استحباب کے بیان میں]
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ فَقَالَ: «اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ»
[أخرجه مسلم (4/1727، رقم 2200) ، وأبو داود (4/10، رقم 3886) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (13/461، رقم 6094) ، والحاكم (4/236، رقم 7485) ، وقال: صحيح الإسناد. والبيهقى (9/349، رقم 9380) .]
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ منتر پڑھا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ ان منتروں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔"
*******************************
قرآن مجید اور اذکار مسنونہ کے ذریعے سے دم کرنے پر اجرت (مانگ کر) لینے کے جواز کے بیان میں
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض صحابہ ایک سفر میں جا رہے تھے وہ عرب قبائل میں سے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ان قبیلہ والوں سے مہمانی طلب کی لیکن انہوں نے مہمان نوازی نہ کی پھر انہوں نے صحابہ کرام سے پوچھا کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے کیونکہ قبیلہ کے سردار کو (کسی جانور نے) ڈس لیا ہے یا کوئی تکلیف ہے صحابہ میں سے کسی نے کہا جی ہاں پس وہ اس کے پاس آئے اور اسے سورت فاتحہ کے ساتھ دم کیا تو وہ آدمی تندرست ہوگیا انہیں بکریوں کا ریوڑ دیا گیا لیکن اس صحابی نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک اس کا ذکر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کرلوں نہیں لوں گا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سارا واقعہ ذکر کیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ کی قسم میں نے سور رة فاتحہ ہی کے ذریعے دم کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: "تمہیں یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ دم ہے پھر فرمایا ان سے لے لو اور ان میں سے اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔"
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1236 (12866) سلام کرنے کا بیان : قرآن مجید اور اذکار مسنونہ کے ذریعے سے دم کرنے پر اجرت لینے کے جواز کے بیان میں]
No comments:
Post a Comment