Sunday 9 December 2012

احکام شریعت کے مقاصد


اصولِ فقہ کے ذیل مباحث میں ایک عنوان "احکامِ شریعت کے مقاصد اور اس کے مدارج" کا بھی آتا ہے، موضوع کی اہمیت اور طبعی ترتیب کا تقاضا تھا کہ اس کو تمام اصولی موضوعات ومباحث کی تمہید قرار دیا جاتا، یا کم ازکم اصولِ اربعہ:- کتاب، سنت، اجماع اور قیاس میں سے اصل رابع، یعنی قیاس کے مباحث کی ابتداء اس سے ہوتی؛ تاکہ وہ مقاصد ومصالح جو شرعی احکام میں ملحوظ رکھے گئے ہیں ان پر روشنی پہلے پڑتی اور متعلقہ مسائل کو سمجھنے میں اس سے مدد ملتی؛ لیکن اصولِ فقہ کے ماہرین اس موضوع کو ایک ذیلی وضمنی بحث کے طور پر غالباً اس لیے ذکر کرتے ہیں کہ نصوص میں ان مقاصد کا ذکر یک جا طور پر اور صراحت کے ساتھ کہیں نہیں ملتا؛ حالانکہ ان کا معتبر ہونا اور احکامِ شریعت کا ان کے گرد دائر ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ بات نصوص یعنی قرآنی آیات واحادیث کے استقراء اور تتبع سے ثابت ہے۔
نامور اصولی عالم علامہ شاطبیؒ نے اپنی کتاب "الموافقات" میں جو اصولِ فقہ اور اسرارِ شریعت کی جامع کتاب ہے، اس موضوع پر بہت زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالی ہے؛ انہوں نے خود ہی یہ سوال قائم کیا ہے کہ جب یہ حقیقت ہے کہ احکامِ شریعت میں مقاصد ومصالح کا لحاظ رکھا گیا ہے اور تمام احکام (1)ضروری، (2)حاجی اور (3)تحسینی مصالح کے گرد دائر ہیں تو پھر اس کا ثبوت تو قطعی دلیل سے ہونا چاہئے؛ کیونکہ یہ مقاصد تو شریعت کی روح اور بنیادی اصول کی حیثیت رکھتے ہیں، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے، انہوں نے لکھا ہے کہ دراصل شرعی احکام پر تفصیلی نظر ڈالنے سے ان مقاصد کے ملحوظ ہونے کا یقین اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح کہ لوگوں کو حاتم کی سخاوت کا یقین ہے، شرعی نصوص کے عموم وخصوص، مطلق ومقید اور دوسرے قرائن سب اس کی تائید کرتے ہیں کہ شریعت میں ان مقاصد کی رعایت رکھی گئی ہے اور تمام تر شرعی احکام کی بنیاد انہیں مقاصد اور کلیات واصول پر ہے اور یہ علم استقرائی ہونے کے باوجود اسی طرح کا یقینی ہے، جس طرح کہ قدرِ مشترک کے تواتر سے یقینی علم حاصل ہوا کرتا ہے؛ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس کے ثبوت میں ایک نہیں بہت سے دلائل ہیں اور ان مقاصد کی واقعیت ہر شک وشبہہ سے بالاتر ہے۔    

(تفصیلی جواب کے لیے دیکھئے، الموافقات:۲/۳۴۔۳۶)




انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل کی دولت سے نوازا ہے اور اس کا یہ امتیاز ہی اس کی تکلیف کا مدار اور شرعی احکام کا مخاطب ومکلف ہونے کی بنیاد ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ باری تعالیٰ حکیم ہے اور حکیم کا کوئی فعل حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہوتا اور وہ رؤوف ورحیم بھی ہے، اس لیے اس کے ہر فرمان میں انسان کی سعادت اور اس کی بھلائی بھی ملحوظ رکھی گئی ہے، شریعت کے عمومی نصوص سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے، حضور اکرم   کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:

"وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ"۔          

(سورۃ الأنبیاء:۱۰۷)

ترجمہ: ہم نے آپ  کو ساری کائنات کے لیے رحمت ہی بناکر بھیجا ہے۔

عام دینی احکام کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:

"مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ"۔

(سورۃ المائدۃ:۶)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ دین میں تم پر تنگی پیدا کرے؛ لیکن وہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور تم پر اپنی نعمتوں کو مکمل کردے۔


نماز  کے بارے میں کہا گیا ہےکہ:

"إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ"۔

(سورۃ العنکبوت:۴۵)

ترجمہ: بے شک نماز بے حیائی کی باتوں اور منکرات سے روکتی ہے۔


روزہ کی فرضیت کے مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہےکہ:

"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ"۔

     (سورۃ البقرۃ:۱۸۳)

ترجمہ: تم پر روزہ اسی طرح فرض کیا گیا ہے؛ جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر؛ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔


قصاص کی مشروعیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:

"وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ"۔            

      (سورۃ البقرۃ:۱۷۹)

ترجمہ: اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو!۔






یہ اور اس طرح کی سیکڑوں آیات اور احادیث ایسی ہیں جن میں واضح طور پر ان مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو شرعی احکام میں ملحوظ رکھے گئے ہیں اور ان "مصالح" کی نشاندہی کی گئی ہے، جن کا روبہ عمل لانا ان احکام کا مقصود ہے"مقاصد شریعت" کا جاننا ہر شخص کے لیے ضروری اور مفید ہے، شرعی حکم کے ساتھ اگر اس کی مصلحت وحکمت بھی معلوم ہو تو آدمی کے یقین میں اضافہ اور ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور علم الیقین کے بعد حق الیقین کا درجہ حاصل ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عز الدینؒ، ابن عبدالسلامؒ، علامہ ابن القیمؒ، علامہ شاطبیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، حضرت مولانا محمد قاسم احمد نانوتویؒ سب نے اسرارِ شریعت کو اپنا موضوع بنایا اور شرعی احکام کی لِمْ اور حکمت سے روشناس کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔
علماءِ مجتہدین کے لیے اصول وکلیات پر نظر اور شریعت کے مقاصد کو جاننا اور بھی ضروری ہے؛ تاکہ وہ نئے مسائل میں ان مقاصد سے رہنمائی حاصل کرسکیں اور ان نصوص میں جو بظاہر متعارض نظر آتی ہوں، تطبیق دے سکیں اور کسی جزئیہ کا حکم تلاش کرنے میں شریعت کے عمومی مصالح اور مزاج ومقاصد کو فراموش کرکے غلطی کا ارتکاب نہ کربیٹھیں؛ جہاں تک اس فرسودہ اشکال کا تعلق ہے کہ باری تعالیٰ کے افعال معلل بالاغراض ہیں یا نہیں؟ اور ان مقاصد ومصالح پر زور دینے میں خدا کی ذات کی طرف نقص کا انتساب تو لازم نہیں آئے گا؟ تو یہ بحث اصولِ فقہ کی نہیں علمِ کلام کی ہے، امام رازیؒ نے گو کہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ باری تعالیٰ کے احکام بھی اسی طرح "معلل بالعلۃ" نہیں ہیں، جس طرح کہ اس کے افعال معلل بالاغراض نہیں ہیں؛ لیکن ان کی یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے اور جیسا کہ محقق ابن الہمام نے لکھا ہے کہ اکثر فقہائے متاخرین نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں بندوں کے مصالح کی رعات ملحوظ رکھی گئی ہے۔                 

(التحریر)

اشاعرہ اور اربابِ ظواہر اگرچہ اس کے قائل ہیں کہ باری تعالیٰ ایسا حکم دے سکتا ہے جس کی کوئی مصلحت نہ ہو؛ لیکن وہ بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عملاً جو احکام دئے گئے ہیں، ان میں مصلحت پائی جاتی ہے، احناف اور شوافع میں سے جو لوگ مصالح کو ہی احکام کی عِلّت(سبب) قرار دیتے ہیں، وہ اس کی توجیہہ کرتے ہیں کہ علت سے مراد حکم کی علات ہے، ایسی علت نہیں ہے جو خدا کو اس پر ابھارنے والی ہو کہ وہ یہی حکم دے دوسرا نہ دے۔
جن حضرات نے مصالح کو ہی علت قرار دیا ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حق میں رحیم ہے، وہ شر وفساد کو دور کرتا اور بندوں کی راحت کے لیے حرج اور تنگی کے اسباب کو ختم کرتا ہے، اس لیے اس کا حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتا، حاصل یہ ہے کہ جس طرح یہ بات زیبا نہیں ہے کہ خدا کے اوپر کوئی بات لازم و واجب کی جائے؛ اسی طرح یہ بات بھی نامناسب ہے کہ اس کے فعل کو بے مقصد اور عبث قرار دیا جائے؛ چنانچہ معتزلہ اور ارباب ظواہر دونوں ہی افراط وتفریط کا شکار ہیں اور صحیح نقطہ نظر وہی ہے جس کی تائید محقق ابن الہمام اور دوسرے فقہاء نے کی ہے، علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرمایا کرتے تھے کہ باری تعالیٰ کے افعال کو معلل بالاغراض کے بجائے معلل بالغایات کہنا چاہئے۔
(فیض الباری کے مقدمہ میں شاہ صاحبؒ کے نقطۂ نظر کی ترجمانی ان لفظوں میں کی گئی ہے:)

"ذکر الشیخ ابن الھمام فی التحریر:ان الفقہاء والمحدثین اجمعوا علی ان افعالہ تعالیٰ معللۃ بالاغراض ولادخل فیہ للاستکمال فان کمالیتہ ھی التی استوجبت ان ترتب علی افعالہ تلک الاغراض فذاتہ تعالیٰ لاتخلو فی مرتبۃ من المراتب عن الکمال والصفات من فروع الذات کما یقول ابن الھمام وھو تعبیر بدیع والانسب عندی ان تترک لفظ الاغراض وان افعالہ تعالیٰ معللۃ بالغایات"۔                    

    (فیض الباری:۱/)

اور یہاں ہماری گفتگو کا محور تکوینی افعال نہیں؛ بلکہ تشریعی احکام ہیں؛ بہرِ صورت لفظی نزاع خواہ جو بھی قائم کیا جائے؛ لیکن نصوص کی تعلیل ایک امر واقعہ ہے اور قیاس کے تمام تر مباحث اسی پر قائم ہیں؛ اسی لیے علماء متاخرین نے تعلیل الاحکام کے موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، جن میں ڈاکٹر محمد مصطفی شلبی کی کتاب "تعلیل الاحکامقابل ذکر ہے؛ انہوں نے بھی ماتریدیہ کی رائے کو اس بارے میں معتدل اور افراط وتفریط سے پاک قرار دیا ہے، وہ مصالح جن کو بروئے کار لانا شریعت میں ملحوظ رکھا گیا ہے، یا وہ مقاصد جن کو شرعی احکام سے شارع نے پورا کرنا چاہا ہے، علمائے اصول نے استقراء اور تتبع کے بعد ان کی تین قسمیں کی ہیں.
یا ان کے تین مدارج متعین کئے ہیں:
(۱)ضروری
(۲)حاجتی
(۳)تحسینی۔

(۱)ضروری مصالح:
اس سے مراد وہ امور ہیں، جن پر انسان کی دینی اور دنیوی زندگی موقوف ہے اور جن میں خلل واقع ہونے سے نہ صرف انسان کی دنیوی زندگی فساد اور انتشار کا شکار ہوتی ہے؛ بلکہ آخرت کی زندگی بھی بگڑتی ہے اور ثواب وراحت کے بجائے آدمی عذاب ومصیبت کا مستحق بن جاتا ہے۔
ضروری مصالح کے ذیل میں پانچ چیزوں کی حفاظت شریعت کا مطمحِ نظر اور شرعی احکام کا مقصود ومدعا ہے اور انہیں پانچوں کلیات واصول کی حفاظت سے انسان کی دنیوی زندگی کی سلامتی بھی وابستہ ہے اور آخرت میں فوز وفلاح اور سعادات وکامرانی بھی اور  وہ درجہ بدرجہ اس طرح ہیں:
(۱)دین کی حفاظت
(۲)جان کی حفاظت
(۳)عقل کی حفاظت
(۴)نسل کی حفاظت
(۵)مال کی حفاظت:
۱۔دین کی حفاظت:
اللہ تعالیٰ نے انسان کے صلاح وفلاح کے لیے دین نازل فرمایا اور انسان کی قوتِ نظری اور عملی دونوں کی تکمیل کے لیے صحیح عقیدہ اور عبادت کی تلقین کی اور یہ بات فرض کی کہ آدمی سچے دین سے وابستہ رہے اور دین کی حفاظت کی خاطر جہاد فرض کیا، غلط افکار وعقیدہ کی ترویج کی ممانعت کی، ارتداد کی سزا متعین کی اور دینِ حق سے پھرجانے پر عقوبت رکھی ہے؛ گو کہ اصولی حیثیت سے فکر وعقیدہ کی آزادی دی ہے؛ لیکن جب یہ آزادی دینِ حق کی راہ میں رکاوٹ بننے لگے تو پھر فسادِ دین کے سدِ باب کا حکم دیا۔
۲۔جان کی حفاظت:
اس کرۂ ارض پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور توالد وتناسل کے سلسلہ اور نسلِ انسانی کے وجود اور اس کی بقا اور استمرار کے لیے نکاح کو مشروع قرار دیا ہے، کھانا پانی اور لباس کی وہ مقدار جو جان کی حفاظت کے لیے ضروری ہو اس کے استعمال کو ضروری قرار دیا، دوسری طرف انسانی جان کو پیش آنے والے خطرات سے باز رہنے کی تلقین کی ہے، خودکشی کوحرام کیا ہے قتل نفس کی سزا رکھی ہے اور قصاص، دیت اور کفارہ وغیرہ متعین کئے ہیں؛ تاکہ انسانی جان کی حفاظت کی جاسکے ۔
۳۔عقل کی حفاظت:
عقل اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جو انسان کو بہت سی دوسری مخلوقات پر امتیاز بخشتی ہے اور وہی اس کے احکامِ شریعت کے مکلف ہونے کی بنا بھی ہے، شریعت نے عقل کی حفاظت کی تلقین کی ہے اور اس میں بالید گی کے لیے علم کو ضروری قرار دیا ہے اور ہر اس چیز سے روکا ہے جو انسان کی عقل کو کمزور کرے، یا زائل کرکے جرم کا ارتکاب کرے، اس کی حد متعین کی اور اس کے لیے کوڑوں کی سزا طے کی ہے۔
۴۔نسل کی حفاظت:
نسل انسانی کی حفاظت کی خاطر ایک طرف نکاح کو مشروع قرار دیا ہے تو دوسری طرف نسب کے اختلاط سے بچانے اور عداوت ودشمنی سے روکنے کےلیے زنا کو حرام قرار دیا ہے؛ اسی طرح حدِ قذف متعین کی تاکہ معاشرہ میں بے حیائی کی باتیں نہ پھیلیں اور نسلِ انسانی شک وشبہہ کا شکار نہ ہو اور انسانی جان کی طرح اس کی نسل بھی محفوظ رہے۔
۵۔مال کی حفاظت:
مال بھی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، انسان کی زندگی کا قیام ونظام اسی سے وابستہ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف مال کمانے کی اجازت دی اور اس کے لیے جدوجہد اور سعی کا حکم دیا تو دوسری طرف بیع وشراء اور اجارہ وعارت وغیرہ کو مشروع قرار دیا؛ تاکہ مال کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا جاسکے۔



یہ پانچوں امور ان اصول وکلیات میں سے ہیں جو دینِ حق کے بنیادی مقاصد قرار دئے گئے ہیں اور دنیا کی دوسری شریعتوں اور صالح قوانین میں بھی کسی نہ کسی حد تک ان امور کی رعایت رکھی گئی ہے؛ لیکن جس جامعیت کے ساتھ اسلام نے ان امور کی حفاظت پر زور دیا ہے اور اس کے لیے قوانین وضع کئے ہیں وہ اس کا ہی امتیاز ہے، یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ انسان کا اس دنیا میں وجود محض اس لیے کہ اس کی جان کی حفاظت کی جائے، یا اس کی عقل اور مال کی حفاطت کی جائے، ایک فعلِ عبث ہے؛ چنانچہ یہ چیزیں اسلام میں آخرت کی زندگی سے مربوط ہیں، انسان کا وجود اس کائنات میں اس لیے مطلوب ہے کہ ـــــ  وہ خدا کی عبودیت کا حق ادا کرے اور آخرت کی زندگی کی سعادت کے لیے خود کو تیار کرے؛ البتہ جب تک وہ اس دنیا میں رہے اس وقت تک اس کی جان، مال، عزت اور عقل سب کی حفاظت کی ضمانت ان شرعی احکام میں مضمر ہے، جو اسلام نے دئے ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ ان پانچوں اصولوں میں جو زیادہ اہم ہو اس کی خارط اس سے کمتر اصولوں کو قربان کیا جاے گا، مثلاً اگر دین کی حفاظت کی خاطر جان دینے کی ضرورت ہو تو اس میں دریغ نہیں کیا جائے گا؛ اسی طرح اگر کسی کا مال لےکر کھالینے سے جان کی حفاظت ممکن ہو تو جان کی حرمت کو مال کی حرمت پر مقدم رکھا جائے گا، جن مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ شرعی احکام کا دارومدار ان کی تکمیل پر ہے، ان کا ذکر کرتے ہوئے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:

"وَمَقْصُودُ ‌الشَّرْعِ ‌مِنْ ‌الْخَلْقِ خَمْسَةٌ: وَهُوَ أَنْ يَحْفَظَ عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ وَنَفْسَهُمْ وَعَقْلَهُمْ وَنَسْلَهُمْ وَمَالَهُمْ، فَكُلُّ مَا يَتَضَمَّنُ حِفْظَ هَذِهِ الْأُصُولِ الْخَمْسَةِ فَهُوَ مَصْلَحَةٌ، وَكُلُّ مَا يُفَوِّتُ هَذِهِ الْأُصُولَ فَهُوَ مَفْسَدَةٌ وَدَفْعُهَا مَصْلَحَةٌ"۔

(المستصفى في علم الأصول:۱/۱۷۴، شاملہ، المؤلف:محمد بن محمد الغزالي أبو حامد، الناشر: دارالكتب العلمية،بيروت)

ترجمہ: خلق کے بارے میں شریعت کے مقاصد پانچ ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اس کے دین، اس کی جان، اس کی عقل، اس کی نسل اور اس کے مال کی حفاظت کی جائے؛ پس ہر وہ بات جو ان اصولِ خمسہ کی حفاظت کی ضامن ہو وہ "مصلحت" قرار پائے گی اور ہر وہ چیز جو ان پانچوں امور کی حفاظت میں مخل ہو وہ"مفسدہ" قرار پائے گی اور اس کا ازالہ "مصلحت" ہوگا۔

پھر فرماتے ہیں:

"وَهَذِهِ الْأُصُولُ الْخَمْسَةُ حِفْظُهَا وَاقِعٌ فِي رُتْبَةِ الضَّرُورَاتِ، فَهِيَ أَقْوَى الْمَرَاتِبِ فِي الْمَصَالِحِ وَمِثَالُهُ: قَضَاءُ الشَّرْعِ بِقَتْلِ الْكَافِرِ الْمُضِلِّ وَعُقُوبَةِ الْمُبْتَدِعِ الدَّاعِي إلَى بِدْعَتِهِ، فَإِنَّ هَذَا يُفَوِّتُ عَلَى الْخَلْقِ دِينَهُمْ، وَقَضَاؤُهُ بِإِيجَابِ الْقِصَاصِ أَدَبُهُ حِفْظُ النُّفُوسِ، وَإِيجَابُ حَدِّ الشُّرْبِ إذْ بِهِ حِفْظُ الْعُقُولِ الَّتِي هِيَ مِلَاكُ التَّكْلِيفِ وَإِيجَابُ حَدِّ الزِّنَا إذْ بِهِ حِفْظُ النَّسْلِ وَالْأَنْسَابِ، وَإِيجَابُ زَجْرِ الْغُصَّابِ وَالسُّرَّاقِ إذْ بِهِ يَحْصُلُ حِفْظُ الْأَمْوَالِ الَّتِي هِيَ مَعَاشُ الْخَلْقِ وَهُمْ مُضْطَرُّونَ إلَيْهَا.

وَتَحْرِيمُ تَفْوِيتِ ‌هَذِهِ ‌الْأُصُولِ ‌الْخَمْسَةِ وَالزَّجْرِ عَنْهَا يَسْتَحِيلُ أَنْ لَا تَشْتَمِلَ عَلَيْهِ مِلَّةٌ مِنْ الْمِلَلِ وَشَرِيعَةٌ مِنْ الشَّرَائِعِ الَّتِي أُرِيد بِهَا إصْلَاحُ الْخَلْقِ"۔

(المستصفى في علم الأصول:۱/۱۷۴، شاملہ، المؤلف:محمد بن محمد الغزالي أبو حامد، الناشر: دارالكتب العلمية،بيروت)

ترجمہ: اور ان پانچوں اصول کی حفاظت ضروریات میں سے ہے جو مصالح کا سب سے قوی ترین درجہ ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ شریعت نے ایسے کافر کے قتل کا حکم دیا ہے جس کا کفر دوسروں تک مُتَعَدّی(یعنی ایک سے دوسرے میں پھیلنے-اثرانداز  ہونے والا) ہو؛ اسی طرح ایسے بدعتی کی سرزنش کا حکم دیا ہے جو اپنی بدعت کی طرف لوگوں کو دعوت دے؛ کیونکہ اس سے خلق دین کی حفاظت کا مقصد متاثر ہوتا ہے اور شریعت نے قصاص کا حکم دیا ہے؛ کیونکہ اس کے ذریعہ جان کی حفاظت ممکن ہے اور شراب پینے کی حد متعین کی ہے کہ عقول کی حفاظت کی جاسکے، جو انسان کی تکلیف کا مدار ہے اور حدِ زنا متعین کی تاکہ اس کے ذریعہ نسل اور نسب کی حفاظت کی جاسکے اور چوروں اور غاصبوں کی سزا متعین کی ہے؛ تاکہ لوگوں کے مال کی حفاظت کی جاسکے، جس سے خلق کا معاش وابستہ ہے اور لوگوں کو اس کی احتیاج ہے، یہ پانچوں ایسے امور ہیں جن کی حفاظت کا خیال نہ رکھنا کسی ایسی ملت وشریعت میں ممکن نہیں جو خلق کی اصلاح کے لیے نازل کی گئی ہو۔




مقاصدِ اسلام اور اسلامی سزائیں:

(1) زندگیوں کی سلامتی کیلئے۔۔۔قاتل سے قصاص لینا۔۔۔
عمداً قتل کرنے پر
[حوالہ سورۃ البقرۃ: ١٧٨-١٧٩]
اور سہواّ قتل ہوجانے پر
[حوالہ سورۃ النساء : ٩٢]

(2) جان ومال کی سلامتی کیلئے۔۔۔ڈاکہ کی سزا کا حکم
[حوالہ سورۃ المائدۃ: ٣٣]

(3) مال کی سلامتی کیلئے۔۔۔چوری کی سزا کا حکم
[حوالہ سورۃ المائدۃ: ٣٨]

(4) عزتوں کی سلامتی کیلئے۔۔۔ زنا کی سزا کا حکم
[حوالہ سورۃ النور: ٢-٤]
زانیہ عورت کی سزا
[حوالہ سورۃ النساء:١٥]
اغلام (لواطت) کی سزا کا حکم
[حوالہ سورۃ النساء:١٦]

(5) عزت وایمان کی سلامتی کیلئے۔۔۔۔تہمت لگانے (قذف) کی سزا
[حوالہ سورۃ النور : ٤]

(6) دین وایمان کی سلامتی کیلئے۔۔۔۔دین سے پھر جانے والے مرتد کی سزا کا حکم
[حوالہ سورۃ البقرہ:٢١٧، آل عمران:۷۲+۸۶+۹۰،المائدۃ:۵۴]

تاریخی تجربے سے یہ ثابت ہے کہ جب تک اسلامی سزائیں حق سے نافذ کی گئیں تب تک وہ مدینہ ہو یا کوئی مملکت، وہ نہ صرف سلامت رہی بلکہ بہت ہی کم افراد ہی ان سزاؤں کے قابل رہے۔




قتل نہ کرنے کا حکم خداوندی:- جان کی سلامتی۔

(1) ۔۔۔۔ وَلَا ‌تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ۔۔۔۔
اور نہ تم قتل کرو اپنی جانوں کو 
[سورۃ النساء:29]

(2) ۔۔۔۔ وَلَا ‌تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ  خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۔۔۔۔ 
اور مت تم قتل کرو اپنی اولاد کو ڈر سے مفلسی کے۔۔۔۔
[سورۃ الاسراء:31]

(3) ۔۔۔۔۔ لَا ‌تَقْتُلُوا الصَّيْدَ  وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ ۔۔۔۔
جب تم احرام کی حالت میں ہو تو کسی شکار کو قتل نہ کرو۔
[سورۃ المائدۃ:95]

(4) وَلَا ‌تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۔۔۔۔
اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعا) اس کا حق پہنچتا ہو(17) اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہوجائے تو ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار دیا ہے۔ چنانچہ اس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ (18) یقینا وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔
[سورۃ الاسراء:33]
(17) کسی کو قتل کرنے کا حق صرف چند صورتوں میں پہنچا ہے جن میں سے ایک اہم صورت کا ذکر اگلے جملے میں آرہا ہے اور وہ یہ کہ کسی شخص کو ظالمانہ طور پر قتل کردیا گیا ہو تو اس کے ولی یعنی وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بدلے میں عدالتی کاروائی کے بعد قاتل کو قتل کریں، یا کروائیں، اس بدلے کو ”قصاص“ کہا جاتا ہے۔
(18) قاتل کو قصاص میں قتل کروانے کا حق تو اولیاء مقتول کو حاصل ہے لیکن اس سے زیادہ کسی کاروائی کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ ہاتھ پاؤں یا دوسرے اعضاء کو کاٹنا یا قتل کرنے کے لیے کوئی زیادہ تکلیف دہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تو اسے قرآن کریم نے حد سے تجاوز قرار دیا ہے۔



(۲)حاجیاتی مصالح:
شریعت کے مقاصد ومصالح کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی سے تنگی اور مشقت کو دور کیا جائے؛ گویا ان مصالح وتحقیق پر دنیوی واخروی زندگی موقوف تو نہیں ہے؛ لیکن دفعِ حرج ومشقت کے لیے ان کی رعایت ضروری ہے، مثال کے طور پر سفر میں نماز کو قصر کے ساتھ پڑھنے کی اجازت؛ اسی طرح رمضان میں مریض اور مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت، یا قیام پر قدرت نہ رکھنے والے شخص کے لیے اس بات کی اجازت کہ وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے، حیض ونفاس میں مبتلا عورت کے لیے نماز نہ پڑھنے کی تاکید اور سفر وحضر میں خف پر مسح کرنے کی اجازت وغیرہ ایسے احکام ہیں جو شرعی مقاصد ومصالح کی اس دوسری قسم کے ذیل میں آتے ہیں۔
اسی طرح قرض لین دین کی اجازت، کسی دوسرے کی طرف سے حقوق کے بارے میں ضامن وکفیل بننے کی اجازت، ضرورت پڑنے پر بیع کو فسخ کرنے اور نکاح کے رشتہ کو طلاق کے ذریعہ ختم کرنے کی اجازت بھی اسی ذیل میں آتی ہے، جیسا کہ حدود وعقوبات کے مسائل ہیں، مقتول کے ولی کو اس بات کا حق کہ وہ قصاص معاف کردے، یا دیت میں تخفیف کردے، یا بعض حالات میں دیت کا بجائے قاتل کے اس کے اقارب واصدقا یاعاقلہ پر وجوب، یہ ساری چیزیں اسی لیے مشروع کی گئی ہیں؛ تاکہ حرج اور مشقت کو دور کیا جائے، علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

"وأما الحاجيات، فمعناها أنهامفتقر إليهامن حيث التوسعة ورفع الضيق المؤدي في الغالب إلى الحرج والمشقة اللاحقة بفوت المطلوب، فإذالم تراع دخل علتى المكلفين على الجملة الحرج والمشقة، ولكنه لايبلغ مبلغ الفساد العادي المتوقع في المصالح العامة، وهي جارية في العبادات، والعادات، والمعاملات، والجنايات ففي العبادات: كالرخص المخففة بالنسبة إلى لحوق المشقة بالمرض والسفر، وفي العادات كإباحة الصيد والتمتع بالطيبات مما هو حلال، مأكلا ومشربا وملبسا ومسكنا ومركبا، وفي المعاملات، كالقراض، والمساقاة، والسلم، وفي الجنايات، كالقسامة، وضرب الدية على العاقلة، وتضمين الصناع"۔                     

(الموافقات:۲/۶،۵، بحذف یسیر)

ترجمہ: "حاجیات" سے مراد وہ مصالح ہیں، جن کی ضرورت تنگی کو دور کرنے اور حرج ومشقت کو رفع کرنے کے لیے پیش آئے اور اگر ان کی رعایت نہ رکھی جائے تو مکلفین کی زندگی مشقت کی وجہ سے دو بھر ہوجائے؛ لیکن اس طرح کا فساد متصور نہ ہو، جو ضروری مصالح کو نظرانداز کرنے سے برپا ہوتا ہے "حاجیات" کا خانہ بھی عبادات، عادات، معاملات اور جنایات سب کو عام ہے؛ چنانچہ عبادات میں اس کی مثال وہ رخصتیں ہیں جو مشقت لاحق ہونے کے اندیشہ سے دی گئی ہیں، جو مرض یا سفر کی وجہ سے پیش آتی ہیں ــــــ  اور عادات میں شکار کا حلال ہونا، پاکیزہ اور حلال چیزوں سے استفادہ کرنے کی اجازت شامل ہے؛ خواہ اس کا تعلق کھانے پینے کی چیزوں سے ہو یا لباس ومسکن اور سواری وغیرہ سے اور معاملات میں اس کی مثال مضاربت، مساقاۃ اور مسلم وغیرہ کی اجازت ہے اور جنایات میں قسامت اور عاقلہ پر دیت کا وجوب اور ضائع شدہ مال کی ضمانت وغیرہ اس کی مثال ہے۔





۔






(۳)تحسینی مصالح:
مصالح ومقاصد کا تیسرا درجہ تحسینی اور کمالیاتی مصالح ہیں، جن کی رعایت پر نہ توزندگی موقوف ہو اور نہ ان کی عدم رعایت سے حرج اور مشقت ہی کا اندیشہ ہو؛ بلکہ ان کا تعلق اخلاق وعادات اور زندگی کے آداب سے ہو، یعنی مروت اور  عقل انسانی کا تقاضا ہوکہ ان مصالح کا تحقق مستحسن ہے اور فطرتِ سلیمہ اس کا تقاضا کرتی ہے کہ انسانی معاشرہ میں یہ خصلتیں پائی جائیں اور انسانی زندگی ان خوبیوں سے آراستہ ہو، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول :

"الرتبة الثالثة مالايرجع إلى ضرورة ولاإلى حاجة ولكن يقع موقع التحسين والتزيين والتيسي والمزائد ورعاية أحسن المناهج في العادات والمعاملات"۔

(المستصفیٰ:۱/۲۹۰)

ترجمہ: تیسرا درجہ (مصالح کا) جو نہ "ضرورت" کے خانہ میں آتا ہو اور نہ "حاجت" کے؛ لیکن اس کا شمار ان امور میں ہوتا ہو، جس کو تحسین وتزئین کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اور عادات ومعاملات میں جس کی رعایت مستحسن سمجھی جاتی ہے۔

عبادات میں نفلی نمازیں، نفلی روزے، نفلی صدقات کو اس کی مثال قرار دیا جاسکتا ہے؛ اسی طرح طہارت، سترِ عورت وغیرہ کے حکم کو بھی فقہاء نے اسی ذیل میں شمار کیا ہے، بیع وشراء میں ناپاک چیزوں کی خرید وفروخت کی ممانعت، کھانے پینے میں پاکیزہ چیزوں کا اہتمام اور خبائث سے اجتناب، عقوبات میں لاش کو مثلہ کرنے کی ممانعت اور عورتوں اور بچوں وغیرہ کے قتل سے اجتناب کا حکم بھی اسی ذیل میں آتا ہے، علامہ شاطبیؒ مصالح کی اس قسم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وأما التحسينات، فمعناها الأخذ بما يليق من محاسن العادات، وتجنب المدنسات التي تأنفها العقول الراجحات، ويجمع ذلك قسم مكارم الأخلاق في العبادات، كإزالة النجاسة وبالجملة الطهارات كلها وستر العورة، وأخذ الزينة، والتقرب بنوافل الخيرات من الصدقات والقربات، وأشباه ذلك وفي العادات، كآداب الأكل والشرب، ومجانبة المآكل النجسات والمشارب المستخبثات، والإسراف والإقتار في المتناولات، وفي المعاملات، كالمنع من بيع النجاسات، وفضل الماء والكلأ وفي الجنايات، كمنع قتل الحر بالعبد، أو قتل النساء والصبيان والرهبان في الجهاد"۔                       

(الموافقات:۲/۶)

ترجمہ: تحسینیات سے مراد اچھی عادتوں کا اختیار کرنا اور ان امور واحوال سے اجتناب ہے جن کو عقلِ سلیم ناپسند کرتی ہو اور ان سب کے مجموعہ کو مکارمِ اخلاق سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، عبادات میں اس کی مثال نجاست کا ازالہ اور طہارت اور پاکیزگی کا حصول ہے سترِعورت، زینت وآرائش اور نفلی عبادتوں اور صدقات کے ذریعہ خدا کا قرب حاصل کرنے کی کوشش وغیرہ، عادات میں کھانے پینے کے آداب، ناپاکی اور خبیث چیزوں سے اجتناب، اسراف اور بخل سے پرہیز، معاملات میں ناپاک چیزوں کی خرید وفروخت کی ممانعت، پانی اور چارہ کی زائد مقدار کی فروخت اور جنایات میں عورتوں، بچوں اور راہبوں کے جہاد کے دوران قتل کی ممانعت وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔


شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں جن کو مذکورہ بالا تینوں مدارج "ضروری، حاجی اور تحسینی" کے تکملہ اور تتمہ کی حیثیت دی جاسکتی ہے، مثال کے طور پر: قصاص میں مماثلت کا لحاظ حفظ نفس کے مقصد کی تکمیل کے لیے ہے؛ اسی طرح شراب کی تھوڑی سی مقدار کی حرمت حفظ عقل کی مصلحت کا تتمہ ہے؛ کیونکہ شراب کی تھوڑی مقدار زیادہ کا خوگر بننے کا ذریعہ بن جاتی ہے؛ اسی طرح اجنبی عورت کو دیکھنے اور اس کے ساتھ خلوت میں بیٹھنے کی ممانعت ہے، جو حفظ نسل کے مقصد کی تکمیل کے لیے ہے؛ اسی طرح اذان اور جماعت کی مشروعیت اقامتِ دین کی مصلحت کی تکمیل کے لیے ہے؛ تاکہ دین کا صحیح طور پر ظہور اور اس کی حفاظت کا مقصد پورا ہوسکے؛ اسی طرح غصب کردہ مال کے ضمان میں مماثلت کی قید اور ربا(سود) کی حرمت کو حفظِ مال کے مقصد کی تکمیل کے لیے متعین کیا گیا ہے۔




دوسری قسم یعنی حاجیاتی مصالح کی تکمیل کے لیے جو چیزیں مشروع کی گئی ہیں ان میں نکاح میں کفأت کی رعایت؛ اسی طرح صغیرہ کے نکاح میں مہرِمثل کا لحاظ اور مجہول کی بیع کی ممانعت اور مشتری کے لیے خیارِ رؤیت اور خیارِ شرط وغیرہ کی مشروعیت بھی بیع وشراء کی عمومی مصلحت کا تتمہ اور تکملہ ہے، تحسینی مصالح کی تکمیل کے لیے صدقاتِ نافلہ میں پاک مال کا خرچ کرنا، عقیقہ اور قربانی وغیرہ میں افضل ترین جانور کے انتخاب کی تلقین کو اس کی مثال قرار دیا جاسکتا ہے، وہ مصالح جن کو "ضروریات" میں شمار کیا گیا ہے، وہ بقولِ امام شاطبیؒ "اصولِ دین، قواعدِ شرعیہ اور کلیاتِ ملت" کی حیثیت رکھتی ہیں؛ چنانچہ ان کو ہرحال میں مقدم رکھا جائے گا، مثال کے طور پر اگر "ضروری" یا حاجی، مصلحت کا تقاضا ہو تو تحسینی مصلحت کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؛ چنانچہ آپریشن یا مرض کی تشخیص کی خاطر جس سے جان کی حفاظت وابستہ ہے سترِ عورت کی مصلحت کو نظرانداز کیا جائے گا جو کہ تحسینی مصالح میں شمار کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ضرورت اور اضطرار کی حالت میں "میتہ" کا کھانا حلال ہوگا اور تحسینی مقصد یعنی مطعومات میں سے، خبیث چیزوں سے احتراز کی مصلحت کو نظرانداز کیا جائے گا "بیع سلم اور استنضاع" کے جواز کی بناء بھی یہی ہے کہ "حاجتکی خاطر "تحسینی" مقصد یعنی مبیع کے وجود کی شرط کو نظرانداز کیا گیا اور ضروریات میں بھی باہم فرق مراتب کا لحاظ ہوگا، دین کی حفاظت کی خاطر جان کی حفاظت کو نظرانداز کیا جائے گا؛ اسی طرح جان کی حفاظت کی خاطر مال کی حفاظت کی مصلحت کو نظرانداز کیا جائے گا، امام غزالیؒ اور بعض دوسرے ائمہ اصول نے نسل کی حفاظت کو عقل کی حفاظت پر مقدم رکھا ہے، جب کہ دوسرے فقہاء کے یہاں ترتیب میں "عقل" نسل سے مقدم ہے "مقاصد" اور "مصالح" کی ایک اور تقسیم بھی کی جاتی ہے کچھ مقاصد ایسے ہیں جن کا تعلق فرد کی ذات سے ہے اور کچھ مصالح ایسی ہیں جن کا تعلق ساری امت یا جماعتِ مسلمین سے ہے، مثال کے طور پر دشمنوں سے ملک کی حفاظت، دین کی حفاظت، قرآنِ کریم کی حفاظت، سنت کی حفاظت، اسی طرح حرمین شریفین کی دشمنوں کے ہاتھ میں چلے جانے سے حفاظت، یہ سب کلّی مصالح ہیں جن کی خاطر جزوی مصالح کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
علامہ ابن عاشور نے مصالح کی ایک اور تقسیم بھی کی ہے، جس کی رُو سے کچھ مصالح تو وہ ہیں جو قطعی ہیں جن کی نشان دہی خود نصوص سے ہوتی ہے یا مجموعی طور پر شرعی احکام کے تتبع اور استقراء سے جیسا کہ "مصالحِ ضروریہ، یا کلیاتِ خمسہ" کی حفاظت کے بارے میں گذرچکا ہے، یا عقل اس بات کی شہادت دے کہ اس کو ترک کرنے میں امت کو زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑےگا، جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ کرنا کہ مانعینِ زکوٰۃ سے قتال کیا جانا ضروری ہے، دوسری قسم کی مصالح وہ ہیں جو ظنی ہیں، اس کی مثال خوف کی وجہ سے حفاظت کے لیے کتے کے پالنے کا جواز ہے، جودلیلِ ظنی سے ثابت ہے اور تیسری قسم ان مصالح کی ہے جو وہمی ہیں اور ان کا دائرہ بے حد وسیع ہے، اس کی مثال شراب، افیون، ہیروئین، کوکین اور قات وغیرہ کے بارے میں ان کے استعمال کرنے والوں کا یہ وہم کہ یہ چیزیں مفید اور نشاط آور ہیں، شریعت نے اس طرح کی "وہمی" مصالح کو نظرانداز کیا ہے اور ان چیزوں کی حرمت کا حکم دیا ہے۔










چند ضرور وضاحتیں:
(۱)مقاصد شریعت کے مدارج کے اس طرح پر ذکر سے یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ وہ چیزیں جو ضروریات میں شمار کی گئی ہیں وہ سب کی سب نفل اور مکروہ کے ذیل میں آئیں گی؛ بلکہ اس کے برعکس ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چیز مدارج کے لحاظ سے تو تحسینیات میں شمار ہوئی ہو؛ لیکن شرعی حکم کے لحاظ سے وہ قطعی حرام ہو یا واجب ہو، اس لیے کہ ایجاب وتحریم اور اباحت وکراہیت وغیرہ علیحدہ موضوع ہیں اور مقاصدِ شریعت اور اس کے مدارج ایک علیحدہ بحث ہے اور اس کی فصیل حکم تکلیفی کے مدارج میں آئے گی؛ یہاں اس کے ذکر کا موقع نہیں ہے، مثال کے طور پر سترِ عورت اور طہارت کے مسائل کو یہاں تحسینیات شمار کیا گیا ہے؛ لیکن سب جانتے ہیں کہ سترِ عورت کی ایک مقدار فرض ہے اور طہارت بھی جنابت کی حالت میں ضروری ہے، اس کی تقسیم تو مختصر طور پر یوں ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خطاب جس چیز سے متعلق ہو وہاں طلب "جازم" ہوگا یا نہیں ہوگا؛ اگر طلب فعل ہو تو "واجب" ہوگا اور اگر طلب ترک فعل ہو تو "حرام" ہوگا اور اگر طلب "غیرجازم" ہو تو دونوں جانب یا تو برابر ہوں گے تو وہ مباح ہوگا اور اگر جانب وجود غالب ہو تو مندوب ہوگا اور اگر جانب عدم غالب ہو تو مکروہ ہوگا؛ خواہ اس کا تعلق ان امور سے ہو جو مقاصد ومصالح کے لحاظ سے ضروریات میں شمار کئے گئے ہوں یا حاجیات میں یا کمالیات میں۔
(۲)اصول وقواعد ہمیشہ عمومی احوال کو پیشِ نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں، بعض جزئیات پر کسی قاعدہ کے کسی خاص وجہ سے منطبق نہ ہونے کی وجہ سے اصل قاعدہ کی جامعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، مثال کے طور پر عقوبات اس لیے مشروع کی گئی ہیں کہ جرم کا ارتکاب کرنے والا شخص اپنے جرم سے باز آجائے؛ لیکن یہ ممکن ہے کہ کسی خاص شخص پر یہ اثر مرتب نہ ہو؛ چنانچہ قطعِ ید(یعنی ہاتھ کاٹنے) کے بعد بھی ایک شخص چوری کا ارتکاب کرے یا کوڑوں کی سزا پانے کے بعد بھی ایک شخص زنا سے باز نہ آئے؛ اسی طرح سفر میں قصرِ صلوٰۃ اور روزے کے افطار کی مشروعیت مشقت کے پیشِ نظر کی گئی ہے؛ لیکن یہ ممکن ہے کہ بادشاہ وقت یا کسی مرفہ الحال شخص کا سفر اس طرح پر ہو کہ اسے قطعی کوئی مشقت نہ ہو؛ لیکن اس کی وجہ سے وہ اس رخصت سے فائدہ اُٹھانے کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا؛ اسی طرح طہارت کی مشروعیت تو نظافت کے لیے کی گئی ہے؛ لیکن مٹی کے ذریعہ تیمم کو بھی طہات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، جس میں بظاہر آلودگی ہے، بقول علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ:

"فكل هذا غير قادح في أصل المشروعية لأن الأمر الكلي إذا ثبت فتخلف بعض الجزئيات عن مقتضى الكلي لا يخرجه عن كونه كليا فان حفظ النفوس مشروع وھٰذا کلی بقصد الشارع الیہ ثم شرع القصاص حفظ للنفوس فقتل النفس فی القصاص محافظ علیہ بالقصد"۔

ترجمہ: یہ ساری باتیں اصل مشروعیت کے لیے مضر نہیں ہیں؛ کیونکہ کسی امر کلّی کے بعض جزئیات کا اگر تحقق نہ ہو تو اس سے اس کی کلّیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ چنانچہ جان کی حفاظت مطلوب ومشروع ہے اور یہ امر کلّی ہے؛ کیونکہ شارع نے اس کو ضروری قرار دیا ہے؛ لہٰذا جان کی حفاظت ہی کی خاطر قصاص میں قتل نفس اس کے منافی نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس کا مقصد لوگوں کی جانوں کی حفاظت ہی ہے۔

(۳)جان کی حفاظت شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے؛ چنانچہ اگرجان کی حفاظت مال کے اتلاف کے بغیرممکن نہ ہوتوجان کی حفاظت کوترجیح دی جائے گی؛ لیکن اگرجان کی حفاظت کا مقصد دین کومٹانے کا باعث ہوتو پھردین کی حفاظت کے مقصد کوترجیح دی جائے گی؛ جیسا کہ جہاد کی مشروعیت اور قتل مرتد کے مسئلہ سے یہ بات واضح ہے؛ اسی طرح اگرجان کی حفاظت سے کئی جانوں کا اتلاف لازم آتا ہوتوپھر کئی جانوں کی حفاظت کی فکر کی جائے گی؛ چنانچہ اگرکفار کسی مسلمان کوڈھال بنالیں اور اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوکہ مسلمان کی جان قربان کئے بغیر کفار پرغلبہ ونصرت حاصل کی جاسکے توایسی صورت میں اس مسلمان کی جان کواجتماعی مصلحت پرقربان کئے جانے کوگوارا کیا جائے گا۔
اوراگر کسی کوسلاح کے زور پراس بات پرمجبور کیا جائے کہ وہ کفریہ کلمات کہے؛ ورنہ اسے قتل کردیاجائے گا توایسی صورت میں اس کے لیے یہ جائز ہوگا کہ کلماتِ کفر زبان سے ادا کرے اور اس کا دل مؤمن ہو؛ اسی طرح اکراہ کی وجہ سے شراب کا پینا، کسی دوسرے شخص کا مال کھانا، نماز اور روزہ کوترک کرنا سب جان کی حفاظت کی خْاطر مباح ہوگا؛ لیکن اگر اسے اس بات پرمجبور کیا جائے کہ وہ کسی دوسرے شحص کوقتل کردے تو اس کے لیے یہ جائز نہ ہوگا؛ اسی طرح اگرکوئی شحص مخمصہ میں مبتلا ہو اور اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ ہوتواس کے لیے یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کوذبح کرکے اس کا گوشت کھائے۔
(۴)دومصلحتوں کے درمیان اگرتعارض ہوتوجوقوی ترمصلحت ہو، اس کوترجیح دی جاے گی، مثال کے طور پراگرایک شخص نماز ادا کررہا ہو اور اس کی نظر ایک ڈوبتے ہوئے شخص پرپڑگئی توڈوبنے والے شخص کوبچانا نماز کی ادائیگی پرمقدم ہوگا اور اس شخص کا فریضہ ہوگاکہ پہلے ڈوبتے شخص کوبچائے؛ پھراپنی نماز ادا کرے؛ اسی طرح محرمات کے درمیان بھی فرقِ مراتب اور درجات ہیں، شراب کا پینا شراب بیچنے کے مقابلہ میں زیادہس نگین جرم ہے اور شادی شدہ عورت سے زنا کرنا غیرشادی شدہ عورت سے زنا کے مقابلہ میں زیادہ سنگین جرم ہے، امام عزالدین بن عبدالسلام فرماتے ہیں:

"المقاصد الضروریہ اصل للحاجیہ والتحسینیہ وان الحاجی ومن ہنااذادعت الضرورۃ الی احیاء المہجۃ یتناول النجس کان تناولہ اولی؛ کمایجدر الاطلاع علی العورات للمباضعہ المداواۃ"۔

ترجمہ: ضروری مقاصد "حاجی اور تحسینی" مقاصد پر مقدم ہیں؛ چنانچہ حاجی ضروری کی تکمیل کرتے ہیں اور تحسینی حاجی کی؛ لہٰذا اگر اس کی ضرورت پیس آئے کہ جان کی حفاظت کے لیے نجس چیز کوکھانا پڑے گا تواس کا کھانا جائز اور اولیٰ ہوجائے گا جس طرح کہ علاج اور آپریشن کی خاطر مریض کے کشفِ عورت کی اجازت ہوگی۔

اگرچند افراد کسی جزیرہ یا صحرا، یاکسی ظالم حکمراں کی جیل میں اس طریقہ پر محصور ہوگئے ہوں کہ ان کے پاس کھانے کاکوئی سامان نہ ہو اور فاقہ کے اس درجہ کو پہونچ گئے ہوں کہ ان کے لیے سوائے اس کے کوئی چارۂ کار نہ رہ گیا ہو کہ وہ اپنے رفقاء میں سے کسی ایک کو قربان کرکے اس کا گوشت کھالیں؛ تاکہ باقی لوگوں کی جان بچ سکے تو کیا شرعاً اس کی اجازت ہوگی؟۔
چند افراد کشتی میں سوار ہوئے موجوں کی شدت اور ہوا کہ تھپیڑوں نے ان کوایسی حالت سے دوچار کردیا کہ ان کے لیے ڈوبنے سے بچنے کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی رہ گیا ہو کہ وہ اپنے ساتھ سوار کسی ایک فرد کودریا میں ڈال دیں تاکہ کشتی کا وزن کم ہو اور کشتی سلامت رہ سکے؛ ورنہ اس کا یقین ہے کہ سب کے سب ڈوب کرہلاک ہوجائیں گے توکیا ایسی صورت میں یہ بات جائز ہوگی کہ کسی فرد کواس ارادہ سے دریا کی نذر کردیا جائے؛ تاکہ دوسروں کی جان بچائی جاسکے؟۔
کفار نے چند مسلمانوں کواس طریقہ پرڈھال بنالیا ہو کہ اگران مسلمان قیدیوں کی جان کا خیال کیا جائے توسارا عالمِ اسلام کفار کے تسلط میں چلاجائے گا اور سیکڑوں افراد کی جانوں کوخطرہ لاحق ہوجائے گا،ایسی صورت میں کیا یہ درست ہوگا کہ ان بے قصور مسلمان قیدیوں کی جان کی پرواہ کئے بغیر عمومی مصلحت کو سامنے رکھا جائے اور انہیں نشانہ بنایا جائے؛ تاکہ کفار پرغلبہ حاصل ہوسکے، یہ اور اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جن کا جواب مقاصدِ شریعت اور ان کے مدارج کوسامنے رکھ کرمعلوم کیا جاسکتا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے امام غزالی رحمہ اللہ کی "المستصفیٰ" اور امام سرخسی رحمہ اللہ کی"المبسوط" وغیرہ۔


عبادات مقاصد ہیں – یا ذرائع؟
تمہید:

آج مسلمانوں کی اکثریت جہاں زندگی کے دیگر معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں وہیں عبادات کے سلسلے میں بھی وہ اعتدال و توازن سے دور ہیں، ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ عبادات ہی کامل دین ہیں، جس نے نماز ادا کرلی، روزہ رکھ لیا اور مال دارہونے کی صورت میں زکوٰة ادا کردی اور حج کیا اس نے گویا مکمل دین پر عمل کرلیا؛ حالانکہ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات مقاصد بھی ہیں اور ذرائع بھی، کسی ایک چیز کے مقصداور ذریعہ ہونے کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے،بعض حیثیتوں سے ایک چیز مقصود ہوسکتی ہے اور وہی چیز بعض دوسری حیثیتوں سے ذریعہ بن سکتی ہے۔

عبادت کی تعریف:

عبادت کے لغوی معنی کسی کی تعظیم کی غرض سے تواضع و انکساری اختیار کرنا ہے اور یہ صرف اللہ کے لیے ہے، کبھی عبادت کو طاعت و فرماں برداری کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔(۱)

اصطلاحی معنی کئی ایک ہیں: (۱) خضوع کے آخری درجہ کو اللہ کے لیے اختیار کرنا، (۲) رب کی تعظیم کے لیے اپنے نفس کے خلاف کام کرنا، (۳) ایسا فعل جس سے صرف اللہ کی تعظیم ہوتی ہو، ہر اس امر کو بجالانا جس سے اللہ راضی ہوتا ہو۔(۲)

عبادت کا مفہوم:

عبادت کا لفظ تین معانی پر مشتمل ہے: (۱) پرستش، (۲) غلامی، (۳) اطاعت، خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکرگزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے عقیدت و محبت سے سر جھکائے، یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔ انسان خدا کا بندہ و غلام بن کر رہے، اس کے مقابلے میں خود مختارانہ رویہ نہ اختیار کرے اوراس کے سوا کسی اور کی غلامی قبول نہ کرے یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے، انسان خدا کے حکم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپنا حکمراں بنے اوراس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔(۳)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”یٰأیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ“(۴)

اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کروجس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (م: ۷۲۸ھ) سے ایک فعہ کسی شخص نے پوچھا کہ : ”یایہا الناس اعبدوا ربکم“ میں جس عبادت کا حکم دیاگیا ہے، اس کا کیا مفہوم ہے؟ آپ نے اس مسئلہ پر مفصل تقریر فرمائی جو رسالہ ”العبودیہ“ کی شکل میں موجود ہے، یہ رسالہ عبادات کی حقیقت و مقاصد پر روشنی ڈالتا ہے، اس کی ابتدا میں ابن تیمیہ نے لکھا ہے:

”عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے اس کے اندر وہ تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کی خوشنودی کا باعث ہیں مثلاً: نماز، روزہ، زکوٰة، حج، راست گوئی، امانت داری، اطاعت والدین،ایفائے عہد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ، پڑوسیوں، مسکینوں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک، جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، دعاء، ذکر الٰہی، تلاوت قرآن اوراس قسم کے تمام اعمال صالحہ عبادات کے اجزاء ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی محبت، رحمت خداوندی کی امیدوار اور عذاب الٰہی کا خوف، خشیت، انابت، اخلاص، صبر و شکر، توکل اور تسلیم و رضا وغیرہ ساری اچھی صفات عبادات میں شامل ہیں۔“(۵)

دین میں عبادات کا مقام:

دین میں عبادات کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہیں، عبادات کے بغیر دین کو صحیح صورت پہ باقی رکھنا ممکن نہیں، اگرچہ دین کے تمام احکام کی تعمیل لوجہ اللہ عبادت ہے مگر عام طور پر مشہور عبادتیں: نماز، روزہ، زکوٰة اور حج کے اندر جو ملأ اعلیٰ سے ربط اور مناسبت پیدا کرنے کی تاثیر اور انسان کے روحانی اور ملکوتی پہلو کی ترقی اور تکمیل کی خاصیت ہے وہ کسی دوسرے عمل میں نہیں، ان کو عبادات میں وہی مقام حاصل ہے جو اعضاء جسم میں قلب و دماغ کو ہے اسی بنا پر ان کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور ان پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”بني الاسلام علی خمس شہادة أن لا الٰہ الا للّٰہ وان محمدًا عبدہ ورسولہ واقام الصلاة، وایتاء الزکاة والحج والصوم“․(۶)

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰة اداکرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ یہ بنیادی عبادات ہیں؛ لیکن ان کا دائرہ محدود نہیں ہے؛ بلکہ بے حد وسیع ہے، انسان کے لیے ضروری ہے کہ اہم عبادات کے ذریعے اپنی ساری زندگی کو کامیاب بنائے اور پھر اصل مقصود جو رضاء الٰہی ہے وہ حاصل کرے، بقول آزاد قرآن کہتا ہے: ”اصل دین خدا پرستی اور نیک عمل ہے۔“(۷)

اسلام میں عبادات کا ایک رخ داخلی و قلبی ہے اور دوسرا خارجی و جسمانی و مجلسی۔ ان دونوں رخوں کے بارے میں قرآن وحدیث اور کتب فقہ میں مفصل احکام موجود ہیں۔ اسلام میں عبادات صرف وہی نہیں جو خدا سے مناجات و مکالمے کا روپ دھارتی ہے؛ بلکہ وہ بھی ہے جو اندر کی طہارت کے ذریعے خارجی اجتماعی افعال واعمال انسانی کے بارے میں بھی صدق و اخلاص، حسن نیت اورحسن عمل کے اوصاف پیدا کرتی ہے، داخلی عبادات کے بغیر عبادت کے ظاہری رخ ناقص رہتے ہیں۔ شریعت کے ظاہری اعمال بھی اسی لیے ہیں کہ یہ مقصد حاصل ہو۔ پس ہمیں پوری زندگی کو عبادت کے سانچے میں ڈالنا چاہیے، جس کی صورت یہ ہے کہ ہم اپنے تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال جو اللہ کو پسند ہیں، اس کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں انھیں پورے خلوص و دیانت داری کے ساتھ اداکریں۔

عبادت کا ناقص تصور:

آج ہمارے یہاں عبادت کا حلیہ بگڑا ہوا ہے،اس کا سب سے زیادہ نمایاں مظہر یہ ہے کہ ہم نے عبادات کو صرف چند اعمال اور مراسم عبودیت کے ساتھ خاص کرلیا ہے اور یہ سمجھ لیا کہ بس ان کی ادائیگی پر عبادت منحصر ہے، بقیہ زندگی اس سے بالکل خالی ہے، نماز کو ہم عبادت سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں، روزہ عبادت ہے، زکوة عبادت ہے، حج عبادت ہے۔ بلا شبہ یہ سب عبادات ہیں، لیکن جب دین کو ان میں منحصر کرلیا جائے اور یہ تصور قائم کرلیا جائے کہ بس ان کو بجالانے سے ہم حق عبودیت سے عہدہ برآ ہوگئے یہ بالکل غلط تصور ہوگا، چونکہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد ”اگر ان عبادات کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ بس ان کو ادا کرنے سے عبادت کا حق ادا ہوگیا، تو تصور دین محدود ہی نہیں؛ بلکہ مسخ ہوجائے گا“(۸)

عبادت پوری زندگی میں خدا کے سامنے بچھ جانے کانام ہے؛ زندگی کے ہر معاملے اورہر گوشے کو اللہ کے حکم کا مطیع بنادینا اور اپنی آزادی، اپنی خود مختاری، اپنی پسند اور ناپسند کو اللہ کی مرضی کے تابع بنادینا اسی رویہ اور طرز عمل پر کاربند ہونا، زندگی کے تمام افعال و اعمال میں سر تسلیم خم کرنا ہی عبادت ہے۔

عبادات مقصود بالذات ہیں:

ارکان اربعہ: نماز، روزہ، زکوٰة و حج کے فرض اور مقصود بالذات ہونے کے دلائل اتنے واضح اور قطعی ہیں کہ تمام علمائے امت اس بات پر متفق ہیں، مفسرین و محدثین، ائمہ فقہ اور دیگر معتمد علیہ علمائے دین میں سے کسی نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ علمائے امت کا یہ اجماع عبادات کے مقصود بالذات ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔ اس سلسلے میں سطور ذیل میں قرآن کریم اور احادیث رسول سے چند نصوص کو پیش کیا جارہا ہے۔

جن و انس کی تخلیق کا مقصد:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ والانسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْن“(۹)

جب خالق نے خود ہی بتادیا کہ مقصد تخلیق صرف اس کی عبادت ہے، تو عبادات کے مقصود بالذات ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا، آیت مذکورہ میں لفظ عبادت اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے، یعنی رب کی بندگی اوراس کی اطاعت و فرماں برداری؛ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پرستش لفظ عبادت کا اولین اوراس کے معانی میں سب سے نمایاں معنی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ فقہی اصطلاح میں جن چیزوں کو عبادات کہا جاتاہے انھیں ادا کرنا مقصد تخلیق کی تکمیل کا اولین مرحلہ ہے انھیں ادا کیئے بغیر مقصد زندگی کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، انسان اللہ کے سوا کسی اور کے احکام کی اطاعت و فرماں برداری کے لیے نہیں پیدا کیاگیا،اس کا کام کسی اور کے آگے جھکنا، اس کے احکام بجالانا، کسی اور کے بنائے ہوئے دین کی پیروی کرنا، کسی دوسرے کو اپنی قسمت کا بنانے والا یا بگاڑنے والا سمجھنا، اسی طرح دوسروں سے مرادیں طلب کرنا نہیں ہے۔

وہ صرف اللہ کی پرستش کرے، صرف اسی کی اطاعت و فرماں برداری کرے اس کے بھیجے ہوئے دین کی پیروی کرے، یہی اس کے تخلیق کا مقصد ہے۔

اسی طرح ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”وَمَا جَعَلْنَا عَلَی الأرضِ زِیْنَةً لَّہَا لِنَبْلُوَکُمْ أیُّکُمْ أحْسنُ عملاً“(۱۰)

ایک دوسری آیت میں ہے:

”اَلَّذي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أیُّکُمْ أحْسَنُ عَمَلاً“(۱۱)

ان دونوں آیتوں میں زمین کی نعمتوں اور موت و حیات کی تخلیق کا مقصد یہ بتایاگیا ہے کہ انسانوں کی آزمائش کی جائے، حسن عمل یا عمل صالح مقصد تخلیق کی دوسری تعبیر ہے جو ”عبادت“ سے مختلف اور متضاد نہیں، اب یہاں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اچھے اعمال کے وہ ستون کیا ہیں جس کے بغیر کسی کے اسلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اچھے اعمال کی بنیادیں کیا ہیں جن سے تمام دوسرے اعمال کی شاخیں پھوٹتی ہیں، کتاب و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے اعمال کے ستون نماز، روزہ، زکوٰة اور حج ہیں۔ انھیں چاروں پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے مقصد تخلیق کی اس تعبیر سے بھی معلوم ہوا کہ عبادات مقصود بالذات ہیں؛ کیوں کہ ان کے بغیر کوئی بھی شخص امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

بعض روایات میں ہے کہ : ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! اچھے اعمال والے لوگ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”أحسنکم عقلاً، وأورعکم عن محارم اللّٰہ وأسرعکم في طاعتہ“(۱۲) جس کی سمجھ سب سے اچھی ہو، جو حرام سے سب سے زیادہ پرہیز کرے اور خدا کی فرماں برداری کی طرف لپکنے میں سب سے زیادہ جلدی دکھائے۔

قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں اقامت صلاة اور ایتاء زکاة یا انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیاگیا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اوراس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:

”ایمان محض کسی تصور کانام نہیں ہے؛ بلکہ اس کی اصل حقیقت وہ تصدیق ہے جو دل کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی ہوتی ہے اور جو آدمی کے ارادے کوحرکت میں لاتی ہے یہ ارادہ آدمی کو بہت سے کاموں کے کرنے اور بہت سی چیزوں کے چھوڑنے پر آمادہ کرتا ہے یہاں کرنے کے کاموں میں سے صرف دو ہی کا ذکر کیاگیا ہے، ایک نماز قائم کرنے کا دوسرے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا،اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں کام تمام نیکیوں کی جڑ اور تمام بھلائیوں کی بنیادہیں۔“(۱۳)

صرف نماز کے تدبر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کی بنیادی نیکیوں کی حیثیت نماز اور زکوٰة کو حاصل ہے، دوسری نیکیاں انھی دو بڑی نیکیوں کے تحت ہیں؛ بلکہ انھیں سے پیدا ہوتی ہیں؛ چنانچہ قرآن کے بے شمار مقامات میں ان دونوں کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ ان کا ذکر آگیا تو گویا سب کاذکر آگیا مثلاً : ”فانْ تَابُوْا واقامُوا الصَّلاةَ وآتوا الزکوٰة فاخْوَانُکُمْ فِي الدِّدیْنِ“(۱۴)

(اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو تمہارے دینی بھائی بن گئے)

حضرت اسماعیل کی تعریف میں فرمایا گیا: ”کانَ یَأْمُرُ أہْلہ بِالصَّلاَةِ والزَّکاَةِ وکانَ أمرُہ عِنْدَ رَبِّہ مَرْضِیًا“(۱۵) (اور وہ اپنے کنبہ کو نماز اور زکوٰة کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھا)۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی منقول ہے: ”وَاَوْصِیْنِيْ بِالصَّلاَةِ والزَّکاَةِ مَادُمْتُ حیًا“(۱۶) (اور اسی نے مجھے نماز اور زکوة کی ہدایت کی جب تک میں زندہ رہوں) (۱۷)

مذکورہ بالا آیات میں اگرچہ نماز اور زکوة کا ذکر ہے؛ لیکن ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ صرف یہی دو چیزیں مراد نہیں ہیں؛ بلکہ دوسری نیکیاں بھی مراد ہیں؛ لیکن ان ساری نیکیوں کی جڑیں دونوں چیزیں ہیں تو جب ان کا ذکر آگیا تو شاخوں کاذکر خود بخود ہوگیا، ان دونوں چیزوں کی حقیقت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ فی الواقع دین میں ان کی حیثیت بھی یہی ہونی چاہئے، ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ کا ٹھیک بندہ بننے کے لیے آخر کس چیز کی ضرورت ہے اسی کی کہ ایک طرف وہ اپنے رب سے ٹھیک ٹھیک جڑجائے اور دوسری طرف خلق سے اس کا تعلق صحیح طور پر ہوجائے نماز انسان کو خدا سے صحیح طور پر جوڑدیتی ہے اور زکاة سے انسان کے ساتھ اس کا تعلق صحیح بنیاد پر قائم ہوجاتا ہے، ایک شخص اگر اپنے رب کے حقوق کو ادا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کی مخلوق کے حقوق کو بھی بجالاتا ہے تو وہ تمام نیکیوں کی کلید پاگیا۔ انہی دو کی مدد سے وہ دوسری نیکیوں کے دروازے بھی کھول لے گا۔

ظاہر ہے کہ جن چیزوں پر پورے دین و شریعت کا دارومدار ہو، ان کا مقصود بالذات ہونا ایک ایسی بات ہے جس میں شک و ریب کی یکسر گنجائش نہیں۔

سورہ توبہ کی آیت نمبر ۵ میں بیان کیاگیا ہے: ”فان تَابُوْا وأقَامُوْا الصَّلوٰةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ“ (پھر اگر وہ توبہ کریں اور قائم رکھیں نماز اور دیا کریں زکوٰة تو انھیں چھوڑ دو) (شیخ الہند)

اس آیت کے تحت مولانا مودودی نے لکھا ہے:
”یعنی کفر و شرک سے محض توبہ کرلینے پر معاملہ ختم نہ ہوگا؛ بلکہ انھیں عملاً نماز قائم کرنی اور زکوٰة دینی ہوگی،اس کے بغیر یہ نہیں مانا جائیگا کہ انھوں نے کفر چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیا ہے، اسی آیت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فتنہٴ ارتداد کے زمانے میں استدلال کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے فتنہ برپا کیا تھا انہی میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم منکرین اسلام نہیں ہیں، نماز پڑھنے کے لیے تیار ہیں؛ مگر زکوٰة نہیں دیں گے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بالعموم پریشانی لاحق تھی کہ آخر ایسے لوگوں کے خلاف تلوار کیسے اٹھائی جائے؛ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کا حوالہ دے کر ان سے جہاد کیا۔“(۱۸)

اسی سورہ کی آیت نمبر ۱۱ میں پھر فرمایا: ”فانْ تَابُوْا وأقَامُو الصَّلوٰة وآتوا الزکوٰة فاخوانُکُمْ في الدین“

(ترجمہ: سو اگر وہ توبہ کرلیں اور قائم رکھیں نماز اور دیتے رہیں زکوٰة تو تمہارے بھائی ہیں حکم شریعت میں) (شیخ الہند)

ظاہر ہے کہ جن چیزوں کو دین میں یہ مقام حاصل ہو وہ خود مقصود نہ ہوں؛ بلکہ محض ذریعہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے ۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی رضا کا حصول مومن کا آخری مقصود ہے یہ گوہر مقصود نماز میں مل جاتا ہے، قرآن میں ہے: ”وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ“(۱۹) (اور سجدہ کرو اور نزدیک ہو) یعنی جہاں چاہو شوق سے عبادت کرو اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر بیش از بیش قربت حاصل کرو، حدیث میں آیا ہے کہ ”بندہ سب حالتوں سے زیادہ سجدہ میں اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا ہے۔ (مسلم)

اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز اور سجدئہ نماز بذات خود قرب الٰہی ہے، نماز میں کھڑے ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں پہنچ گئے اس کے آگے سجدہ ریز ہوئے اور اس سے قریب تر ہوگئے نماز کے مقصود بالذات ہونے کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی؟ نماز ایمان سے اس قدر قریب ہے اور اس کی اتنی بڑی علامت ہے کہ سورة البقرة آیت ۱۴۳ میں نماز کے لیے ایمان کا لفظ استعمال کیاگیا ہے: ”مَاکَانَ اللّٰہُ لیُضِیْعَ اِیمانکم“(۲۰) (اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کرے تمہارا ایمان) یہاں ایمان سے مراد وہ نمازیں ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی تھیں، بعض مسلمانوں کو شبہ ہوا کہ بیت المقدس جب قبلہٴ اصلی نہ تھا تو جو مسلمان اسی حالت میں مرگئے ان کے ثواب میں نقصان رہا، باقی زندہ رہنے والے تو آئندہ کو مکافات اوراس کا تدارک کرلیں گے اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی کہ جب تم نے بیت المقدس کی طرف نماز مقتضاء ایمانی اور اطاعتِ حکم خداوندی کے سبب پڑھی تو تمہارے اجر و ثواب میں کسی طرح کا نقصان نہ ڈالا جائے گا۔(۲۱)

عبادات ذرائع بھی ہیں:

عبادات مقصود بالذات ہونے کے ساتھ اصلاح و تربیت کے بہترین ذرائع بھی ہیں۔ قرآن کریم میں عبادات کے جو اغراض ومقاصد بیان کیے گئے ہیں اور ان کے بارے میں بعض دوسرے جو احکام دئیے گئے ہیں وہ اس بات کے واضح دلائل ہیں۔

نماز اور صبر مدد کاذریعہ :

سورة البقرة میں دو بار نماز اور صبر کے ذریعہ مدد چاہنے کا حکم دیاگیا ہے ۔ ایک بار بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاگیا: ”وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ“(۲۲) (صبر اور نماز کے ذریعہ مدد لو)

دوسری بار مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ”یٰأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ“(۲۳) (اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)

کسی چیز سے مدد کسی خاص مقصد کے لیے حاصل کی جاتی ہے اسی طرح جس چیز سے مدد لی جاتی ہے وہ خاص مقصد کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے، وہ خاص مقصد کیا ہے جس کے لیے صبر اور نماز سے مدد لینے کا حکم دیاگیا ہے؟

 علامہ شبیر احمدعثمانی فرماتے ہیں:

”علمائے اہل کتاب جو وضوح حق کے بعد بھی آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان نہ لائے تھے اس کی بڑی وجہ حب جاہ اور حب مال تھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کا علاج بتادیا، صبر سے مال کی محبت اور طلب جائے گی اور نماز سے عبودیت اور تذلل آئے گا“(۲۴)

مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی آیت نمبر ۴۵ اور آیت ۵۳ کی بہت مفصل اور ایمان افروز تشریح کی ہے، پہلے اجمالاً انھوں نے یہ لکھا ہے:

”اوپر عہد الٰہی کو استوار کرنے کے لیے بنی اسرائیل کو جن باتوں کا حکم دیا ہے جن جن چیزوں سے روکا ہے ان کا اختیار کرنا یا ان سے بچنا نفس کیلئے نہایت شاق ہے اس وجہ سے وہ نسخہ بھی بتادیا جو اس مشکل کو آسان بناسکتا ہے۔ یہ نسخہ صبر اور نماز دو چیزوں پر مشتمل ہے ان دو چیزوں کے اختیار کرنے سے نفس کے لئے یہ چڑھائی آسان ہوجاتی ہے صبر کا تعلق اخلاق و کردار سے ہے اور نماز کا تعلق عبادات سے، انسان اگر مشکلات و موانع کے علی الرغم کسی صحیح موقف پر ڈٹے رہنے کی خصلت انسان میں آسانی سے پیدا نہیں ہوتی؛ بلکہ ریاضت سے پیدا ہوتی ہے جس کا طریقہ نماز ہے آدمی اگر صحیح راہ پر چلنے کا عزم کرلے اور اس پر چل کھڑا ہو اور ساتھ ہی برابر اپنے رب کو یاد رکھے اوراس سے مدد مانگتا رہے (جس کی بہترین شکل نماز ہے) تو اس کے عزم کی قوت ہزار گنی بڑھ جاتی ہے کوئی مشکل سے مشکل حالت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے نہیں دیتی،اگرحالات کی نزاکت سے آدمی کے پاؤں لڑکھڑانے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اس کا وہ تعلق جو نماز سے پیدا ہوتا ہے اس کو گرنے سے بچالیتا ہے۔“(۲۵)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہاں صبر کا جوحکم دیا ہے وہ اس لیے دیا ہے کہ اس وصف کو پیدا کیئے بغیر کوئی قوم اللہ کے عہد پر قائم نہیں رہ سکتی اور نماز کا حکم اس لیے دیا ہے کہ یہی چیز صبر کے پیدا کرنے اس کو ترقی دینے اور اس کو درجہٴ کمال تک پہنچانے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔

سورة البقرة آیت ۱۵۳ کے تحت لکھتے ہیں:

”مشکلات و مصائب میں جس نماز کا سہارا حاصل کرنے کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد ان پانچ وقتوں کی نمازیں ہی نہیں؛ بلکہ تہجد اور نفل نمازیں بھی ہیں؛ اس لیے کہ یہی نمازیں مومن کے اندر وہ روح اور زندگی پیدا کرتی ہیں جو راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات پر فتح یاب ہوتی ہیں، انہی کی مدد سے وہ مضبوط تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے جو کسی سخت آزمائش میں بھی شکست نہیں کھاتا اور انہی سے وہ مقام قرب حاصل ہوتا ہے جو خدا کی معیت کا ضامن ہے جس کا اس آیت میں صابرین کے لیے وعدہ فرمایاگیا ہے۔(۲۶)

          نماز سے استعانت دراصل اللہ سے استعانت ہے وہ پوری کائنات اور تمام ہنگامہٴ ہست و بود کا معبود و مقصود بھی ہے اور تمام ذرائع و وسائل کا سرچشمہ بھی اس کی مدد کامیابیوں اور کامرانیوں کے حصول کا اصل ذریعہ اور وسیلہ ہے، اس کی مدد کے بغیر اس کے حضور ایک سجدہ بھی ادا نہیں کیاجاسکتا۔ ”ایَّاکَ نَعْبُدُ وایَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“(۲۷) (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) آیت کریمہ اس حقیقت کی گواہ ہے۔
نماز یادِ الٰہی کا ذریعہ:

عبادتِ رب اور اطاعتِ خالق میں سب سے بڑی رکاوٹ جوانسان کی راہ میں پیش آتی ہے وہ ہے غفلت اس سے نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نماز پنجگانہ فرض کیا تاکہ وہ ہروقت اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اپنے عہد و میثاق کی تجدید کرتا رہے، نماز ہی کے بارے میں سورہ طہٰ آیت ۱۴ میں فرمایا گیا: ”وأقِمِ الصَّلوٰةَ لِذِکْرِيْ“(۲۸) (اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر) اس آیت سے معلوم ہوا اللہ کی یاد کا بہترین ذریعہ نماز ہے، قرآن کریم میں ان کے علاوہ اور آیتیں بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو راہِ حق پر قائم رکھنے اور اس کی زندگی کو سدھارنے اور سنوارنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔

روزہ حصولِ تقویٰ کا ذریعہ:

تقویٰ اللہ کے خاص بندوں کی ایک عظیم صفت ہے جو اللہ کو بہت ہی محبوب ہے پسندیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کی اہمیت کو بتلایا ہے اوراس کو اختیار کرنے کا حکم دیاہے، تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ دراصل نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خداترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہرپہلو میں ظہور کرتی ہے حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو عبدیت کا شعور ہو، وہ انسانی زندگی میں بھی صریح ممنوعات تو درکنار مشتبہ امور سے بھی اپنے آپ کو بچائے رکھے۔

ظاہر ہے کہ اتنی پسندیدہ چیز بغیر نفس کشی اور مجاہدہ کے حاصل نہیں ہوسکتی؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر رمضان کا روزہ فرض کیا؛ تاکہ وہ نفس کو رذائل سے پاک کرکے تقویٰ سے متصف ہوجائے اور اپنی آئندہ کی زندگی کو اسی روشنی میں گزارے۔ قرآن کریم میں روزہ کی فرضیت کا حکم دینے کے بعداس کی حکمت بھی واضح کی گئی ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ“ (تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حصولِ تقویٰ کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن میں رقم طراز ہیں:

”روزے کے حکم سے یہ مقصود نہیں ہے کہ انسان کا فاقہ کرنا اور اپنے جسم کو تکلیف اور مشقت میں ڈالنا کوئی ایسی بات ہے جس میں پاکی و نیکی ہے؛ بلکہ تمام تر مقصود نفس انسانی کی اصلاح و تہذیب ہے ۔ روزہ رکھنے سے تم میں پرہیزگاری کی قوت پیدا ہوگی اور نفسانی خواہشوں کو قابو میں رکھنے کا سبق سیکھ لوگے۔“(۲۹)

زکوٰة ذریعہٴ تزکیہ:

اللہ کی یاد اور اس کے احکام کی اطاعت میں جو سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی راہ میں پیش آتی ہے وہ مال کی محبت ہے یہ چیز انسان کے پیر کی بیڑی بن جاتی ہے، حبِّ دنیا کا سب سے بڑا مظہر مال ہے؛ اس لیے کہ مال ہی کے ذریعے انسان ظاہری شہرت حاصل کرتا ہے اور نفس جو بے راہ روی کی طرف لپکنے والا ہے مال ہی کے افراط سے بے اعتدالی کا شکار ہوتا ہے، اس کو حد اعتدال میں رہنے کے لیے اورمال کی محبت کو دل سے کھرچنے اور پاکیزہ بننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰة فرض کیا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ”خُذْ مِنْ أمْوَالِہِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُہُمْ وتُزَکِّیْہِمْ بِہَا“(۳۰) (تم ان کے مالوں کا صدقہ قبول کرو اس سے تم ان کو پاکیزہ بناؤگے اور ان کا تزکیہ کیا کروگے)

حج ذکر و شکر اور تقویٰ کا ذریعہ:

حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، اس کی ادائیگی میں مالی صرفہ بھی ہے اور جانی مشقت بھی، اس میں نفس کے تقاضوں کو ضبط میں رکھنے کی بھی مشقتیں ہیں؛ چنانچہ حج انتہائی جامع عبادت ہے اور اس میں تمام طاعات شامل ہوتی ہیں، سورة البقرة آیت ۱۹۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی طرح حج بھی تقویٰ کے حصول، اللہ تعالیٰ کی شکرگذاری اوراس کے ذکر کی مشق کا ذریعہ ہے، حالتِ احرام میں خصوصیت کے ساتھ ہر قسم کی شہوانی گفتگو ہر طرح کی بدکاری و بے راہ روی اور ہر قسم کے جھگڑے لڑائی کی ممانعت، نیز تقویٰ کو بہترین زادِ راہ قرار دینے اور آیت ”فَاتَّقُوْنِ یٰاُولي الألْبَابِ“(۳۱) (اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو) پر ختم کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ فریضہٴ حج میں حصولِ تقویٰ کا پہلو غالب ہے، اسی طرح حج میں شعائر اللہ کی تعظیم کے احکام دئیے گئے ہیں اوراس کی تعظیم و احترام کو تقویٰ القلوب (دلوں کا تقویٰ) قرار دیاگیا ہے، قربانی کا حکم دیاگیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ اللہ تک گوشت اور خون نہیں پہنچتا؛ بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ حج مجموعی حیثیت سے تقویٰ اور ذکر الٰہی کاذریعہ ہے۔

ارکان اربعہ کے بعد یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں باریابی و تقرب کے لیے عبادات و طاعات، اذکار و ادعیہ اور تمام نیکیوں کو وسیلہ قرار دیا ہے۔ سورة المائدة آیت ۳۵ میں بیان فرمایا ہے:

”یٰأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَابْتَغُوا الَیْہِ الْوَسِیْلَةَ وَجَاہِدُوْا فِي سَبِیْلِہ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ“(۳۲) (اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور ڈھونڈو اس تک وسیلہ اور جہاد کرواس کی راہ میں تاکہ تمہارا بھلا ہو) (ترجمہ شیخ الہند)

وسیلہ کی تفسیر ابن عباس، مجاہد، ابووائل، حسن وغیرہم اکابر سلف نے قربت سے کی ہے تو وسیلہ ڈھونڈنے کے یہ معنی ہوں گے کہ اس کا قرب ووصول تلاش کرو، قتادہ نے کہا: ”اَيْ تقرّبُوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ“ خدا کی نزدیکی حاصل کرو اس کی فرماں برداری اور پسندیدہ عمل کے ذریعہ سے۔(۳۳)

اس سے معلوم ہوا کہ تمام عبادتیں، طاعتیں، نیکیاں، اذکار و دعائیں رضائے الٰہی کے حصول اور اس کی بارگاہ میں تقرب کے ذرائع ہیں، عبادات کا بذاتِ خود مقصود ہونا اور ساتھ ہی کسی دوسری چیز کے لیے ان کا ذریعہ ہونا باہم اسی طرح پیوستہ ہے کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ہے۔

اسلامی عبادات، انفرادی اصلاح و تربیت کے ذرائع بھی ہیں اور ان سے اجتماعی تربیت بھی حاصل ہوتی ہے، ان عبادات کو ادا کرنے میں شریعت نے اجتماعیت پیدا کرکے ان کو ہمہ جہتی ذریعہٴ اصلاح بنادیا ہے اب ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ عبادات سے جو مقاصد ہیں وہ ہمیں حاصل ہورہے ہیں یا نہیں مثلاً نماز کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے: ”انَّ الصَّلوٰةَ تَنْہیٰ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالمُنْکَرِ“(۳۴) (بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بری بات سے) (ترجمہ شیخ الہند)

اس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ: ”نماز کا برائیوں سے روکنا دو معنی میں ہوسکتا ہے، ایک بطریق تسبب (ذریعہ) یعنی نماز میں اللہ تعالیٰ نے وہ خاصیت و تاثیر رکھی ہے جو نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے۔ جیسے دوا کا استعمال کرنا بخار وغیرہ امراض کو دور کرتا ہے، اس صورت میں یاد رکھنا چاہیے کہ دوا کے لیے ضروری نہیں کہ اس کی ایک ہی خوراک بیماری کو روکنے کے لیے کافی ہوجائے، بعض دوائیں خاص مقدار میں مدت تک التزام کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اس وقت اس کا نمایاں اثر ظاہر ہوتا ہے بشرطیکہ مریض کسی ایسی چیز کا استعمال نہ کرے جو اس دواء کی خاصیت کے منافی ہو پس نماز بھی بلاشبہ بڑی قوی التاثیر دوا ہے جو روحانی بیماریوں کو روکنے میں اکسیر کا حکم رکھتی ہے“(۳۵)

نماز کے علاوہ بھی جو دیگر عبادات ہیں اور ان کے جو مقاصد اوپر بیان کیے گئے ان کے بارے میں ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے جو مقاصد ہیں وہ ہمیں حاصل ہورہے ہیں – یا نہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔

                                                                                                                                          $$$

ماخذ و حوالہ جات

(۱) الموسوعة الفقہیہ: وزارة الاوقاف والشئون الاسلامیہ ، الکویت، ص․ ب․ ۱۳، ص:۲۵۶، ج:۲۹۔

(۲) حوالہ بالا، ص: ۲۵۷۔

(۳) مودودی: سید ابوالاعلیٰ، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی، بارسوم: ۲۶۴/۲۔

(۴) سورة البقرة: ۲۱۔

(۵) ابن تیمیہ (م: ۷۲۸ھ) العبودیة، المطبعة الحسینیہ المصریة ۲۳۳۲ھ۔

(۶) بخاری و مسلم: کتاب الایمان حدیث نمبر :

(۷) آزاد: ابوالکلام ، ترجمان القرآن: ساہتیہ اکادمی ۱۳۳/۲۔

(۸) ڈاکٹر اسرار احمد : مطالبات دین، مکتبہ تنظیم اسلامی ۳۶/ کے ماڈل ٹاؤن لاہور، ص: ۲۹۔

(۹) ذاریات : ۵۶۔

(۱۰) الکہف : ۷۔

(۱۱) الملک : ۳۔

(۱۲) قرطبی: الجامع لاحکام القرآن: الہیئة المصریة العامة للکتاب: ۲۰۷/۱۸۔

(۱۳) اصلاحی: امین احسن ، تدبر قرآن، لاہور : ۵۰/۱۔

(۱۴) توبہ: ۱۱۔

(۱۵) مریم : ۵۵۔

(۱۶) مریم : ۳۱۔

(۱۷) شیخ الہند

(۱۸) مودودی: سید ابوالاعلیٰ ، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی: ۱۷۷/ ۱ ملخصاً۔

(۱۹) العلق : ۱۹۔

(۲۰) البقرة : ۱۴۳۔

(۲۱) عثمانی: علامہ شبیر احمد : ترجمہ شیخ الہند، ص: ۲۸۔

(۲۲) بقرة : ۴۵ ۔

(۲۳) بقرة : ۱۵۳۔

(۲۴) عثمانی : علامہ شبیر احمد ۔ ترجمہ شیخ الہند، ص: ۱۰۔

(۲۵) اصلاحی : امین احسن ، تدبر قرآن، لاہور: ۱۴۵/۱۔

(۲۶) بحوالہ بالا: ۳۳۵/۱۔

(۲۷) فاتحہ : ۵۔

(۲۸) طہٰ : ۱۴

(۲۹) آزاد،ابوالکلام، ترجمان القرآن: ساہتیہ اکاڈمی : ۱۳۹/۲۔

(۳۰) توبہ: ۱۰۳۔

(۳۱) حج : ۱۹۷۔

(۳۲) مائدة : ۳۵۔

(۳۳) عثمانی: شبیر احمد ، شیخ الہند، قرطبی: الجامع للاحکام القرآن: ۱۵۹/۶۔

(۳۴) عنکبوت : ۴۵۔

(۳۵) عثمانی: شبیر احمد، شیخ الہند، آیت: ۴۵ کے تحت۔

______________________________






**********************************



علمِ مقاصدِ شریعت: تعارف اور جائزہ



”مقاصدِ شریعت“ باقاعدہ ایک علم ہے۔
مقاصد: یہ مقصد کی جمع ہے اس کے معنی ہیں: میانہ روی جو افراط و تفریط سے پاک ہو۔ قرآن کریم میں ہے:
وَ اقْصِدْ فِی مَشْیِکَ [سورۃ لقمان:۱۹]
اپنی چال میں میانہ روی رکھو۔
اسی طرح حدیث مبارک میں ہے:
القصدَ ، القصدَ تَبْلُغُوا۔[بخاری، کتاب الرقاق]
میانہ روی سے دین پر چلتے رہو، منزل تک پہنچ جاوٴ گے۔
شریعت عربی زبان میں پانی کے منبع اور سرچشمہ کوکہتے ہیں، نیز دین، ملت، طریقہ، سنت اور منہاج پر بھی شریعت کا لفظ بولا جاتا ہے۔
جس طرح پانی انسانی زندگی کی بقاء اور تروتازگی کے لیے ناگزیر ضرورت ہے ، اسی طرح دین اسلام انسانوں کی روحانی اور مذہبی زندگی کی بقاء اور اصلاح کا سرچشمہ اور منبع ہے، اسی دین اسلام سے انسانوں کی دنیوی اور اُخروی فلاح وبہبود اور اللہ تعالیٰ کے ہاں رضامندی جڑی ہوئی ہے۔
مقاصدِ شریعت کا اصطلاحی معنیٰ:
متقدمین اہلِ علم کے ہاں اس علم کا مستقل وجود نہیں تھا؛ بلکہ عموماً تمام دینی علوم اور خصوصاً اصول فقہ کے ذیل میں اس علم وفن سے بحث کی جاتی تھی۔ چنانچہ مصلحت، حکمت، منفعت اور اسرار وغیرہ کی جو تعبیرات علومِ دینیہ میں ملتی ہیں وہی مباحث مستقل موضوع اختیار کرکے ایک مستقل علم کی شکل اختیار کرگئیں۔
عصرحاضر میں اس موضوع پر ایک مفید ترین کتاب تحریر کرنے والے شیخ نور الدین الخادمی نے اس علم کی جامع ترین تعریف کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
المقاصد ھی المعانی الملحوظة فی ا لأحکام الشرعیة و المترتبة علیھا سواء أکانت تلک المعانی حکماجزئیة أم مصالح کلیة أم سِمات إجمالیة وھی تتجمع ضمن ھدف واحد، ھو تقریر عبودیة اللّٰہ و مصلحة الإنسان فی الدارین (الاجتہاد المقاصدی حجیتہ ، ضوابطہ، مجالاتہ۔ج۱۔ص۵۲)
”مقاصد شریعت سے مراد وہ اَہداف بھی ہیں جو شرعی اَحکام میں ملحوظ رکھے گئے ہیں اور وہ بھی ہیں جو اُن شرعی احکام پر مرتب ہوتے ہیں، چاہے وہ اَہداف جزوی حکمتیں ہوں ، کلی مصلحتیں ہوں یا محض اجمالی نشانیاں ہوں اور یہ سب اَہداف اپنے ضمن میں ایک ہی ہدف رکھتے : اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اظہار اور انسان کے لیے دنیا اورآخرت میں فائدہ مندی“
خلاصہٴ کلام یہ کہ ایک حکیم وخبیر ذات باری تعالیٰ نے شرعی احکام میں اپنے بندوں کے لیے جو فوائد رکھے ہیں وہی مقاصد شرعیہ ہیں۔ مثلاً :
روزے کا فائدہ حصولِ تقویٰ بیان کیا گیا ہے تو یہ تقوی کا حصول مقصدِ شرعی ہے۔
 جہاد کاایک مقصد جارح دشمن کی جارحیت کو دفع کرنا ہے تو یہی شرعی مقصد کہلائے گا۔
نکاح کے مقاصد میں اپنی شرمگاہ اور نظروں کی حفاظت اور اولاد کا حصول پیش نظر ہے تو یہی چیزیں شرعی مقاصد کہلائیں گی۔
الغرض شرعی مقاصد اور مصالح کا باب بہت وسیع ہے؛ مگر جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ یہ سب مقاصد اور مصالح آخر کار اللہ تعالیٰ کی بندگی اور بندوں کی دنیوی اور اُخروی سعادت مندی سے ہی جڑ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ لَقْدَ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلاً اَِن اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ (النحل:۳۶)
ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجے (یہ پیغام دے کر کہ)ایک اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچ کر رہو۔
مقاصدِ شریعت کی بات کو دیگر بعض اہلِ علم نے یوں بھی بیان کیا ہے کہ :
شریعت کے مقاصد بنیادی طور پر دو ہی ہیں:
(۱)دینی اور دنیوی منافع اور مصالح کا حصول ۔
(۲)دینی اور دنیوی نقصانات اور فسادات کا دفعیہ۔
یہ الگ بحث ہے کہ اگر کبھی دینی اور دنیوی منفعت میں ٹکراوٴ پیدا ہورہا ہو تو پھر کس منفعت کو ترک کریں گے اور کس منفعت کو ترجیح دیں گے؟ اگرچہ اس میں اصولی اورعمومی ضابطہ یہی ہے کہ دینی منفعت کو ہی ترجیح دیں گے؛ لیکن بہرحال یہ موضوع ایک الگ مستقل اور مفصل بحث ہے جو اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں ہے؛ کیوں کہ فی الحال ہم اس علم کی مبادیات اور تعارف پر گفتگو کررہے ہیں۔
اب تک کی بحث سے ہم نے اس علم کی تعریف جان لی اور ساتھ ہی اس کی غرض و غایت بھی جان لی یعنی کہ: اللہ تعالیٰ کی بندگی کا ثبوت اور انسان کی دینی و دنیوی سعادت مندی۔
مقاصدِ شریعت کی اَقسام:
اس علم وفن کی تعریف اور غایت جاننے کے بعد اب اس کی اہم ترین اقسام جاننا ضروری ہے۔ اس فن کے اولین معمار امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسی الغرناطی الشاطبی (متوفیٰ۷۹۰ھ)کی مباحث سے بطور خلاصہ وانتخاب ان اقسام کو بیان کیا جاتا ہے:
(۱)مصالح ضروریہ: اُن اَہداف و غایات کو کہا جاتا ہے کہ اگر وہ ہاتھ نہ آئیں تو انسان کی دنیا یا آخرت برباد ہو جائے ۔ مثلا اگر نکاح اور نماز پڑھنا کہ اگر نکاح کی قدرت ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نکاح نہ کیا جائے تو دنیوی فوائد سے محرومی ہے اور اگر شرعی عذر کے بغیر نماز ترک کر دی جائے اور اس سے منہ موڑ لیا جائے آخرت برباد ہو جاتی ہے ۔ 
یہ شرعی مقاصد کی سب سے اولین قسم ہے ، گویاکہ شریعت نے احکام شرعیہ میں ان مصالح کو علت کے بعد سب سے مقدم رکھا ہے اور یہ پانچ مصالح ہیں جنھیں مقاصد خمسہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ درج ذیل ہیں:(۱)دین کی حفاظت (۲)انسانی جان کی حفاظت (۳) انسانی عقل کی حفاظت (۴)انسانی نسل کی حفاظت (۵)انسان کے مال کی حفاظت۔
گویا اب یوں سمجھیے کہ شریعت نے جتنے بھی احکام دیے ہیں، ان سب میں ان پانچ مصلحتوں میں سے کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور موجود ہوگی اور بعض میں دو تین یا سب مصلحتیں بھی موجود ہوسکتی ہیں؛ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ شریعت کا کوئی حکم ایسا ہو جس میں ان پانچ باتوں میں سے کوئی بھی بات موجود نہ ہو۔ ان پانچوں باتوں کی اصل اور بنیاد خود قرآن مجید ہے جو اس فن کے ماہرین اور ماہرینِ قرآن پر مخفی نہیں۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ یہ پانچوں باتیں آپس میں ہم مرتبہ نہیں؛ ہیں بلکہ ان پانچوں کے باہمی درجات میں تفاوت ہے، مثلا اگر دین اور جان میں سے کسی ایک کو بچانے کا موقع ہو تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس موقع پر دین بچانا مقدم ہوگا، اگرچہ جان نہ بچ پائے، اسی طرح اگر جان اور مال میں سے ایک چیز بچائی جا سکتی ہو تو شریعت جان بچانے کو ترجیح دے گی وغیرہ۔ 
یہ پانچ ضروریات اصول دین میں سے ہیں۔ امام شاطبی نے انھیں ”اصول دین، قواعد شریعت اور کلیات ملت“ کے القاب دیے ہیں جن سے ان کی اہمیت خود بخود واضح ہو رہی ہے۔ مثلا: 
 ارکانِ اسلام کا مکلف اس لیے بنایا گیا؛ تاکہ انسان کا ”دین“ سلامت رہے۔
دیت، قصاص اور زخموں وغیرہ کے احکام اس لیے دیے گئے؛ تاکہ انسانی ”نفس“ کی حفاظت ہو۔
نشہ آور چیزوں اور دیگر لہو ولعت کی ممانعت کی گئی؛ تاکہ انسانی ”عقل“ سلامت رہے۔
گھریلو زندگی سے متعلق احکامات اس لیے دیئے گئے؛ تاکہ انسانی ”نسل“ کو بقاء اور تحفظ میسر آئے۔
خرید وفروخت کے احکامات اور چوری وڈاکہ زنی وغیرہ کی ممانعت اس لیے کی گئی؛ تا کہ انسانی ”مال“ محفوظ رہ سکے۔
اب دیکھ لیجیے کہ شریعت نے کس طرح اپنے احکامات میں ان پانچ باتوں کو ملحوظ رکھا ہے اسی لیے انھیں اصول دین اور قواعدشریعت کا لقب دیا گیا ہے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ جو باتیں ان پانچ مقاصد میں سے کسی میں بھی خلل انداز ہوں انھیں شریعت ”مفاسد“ کا نام دیتی ہے اور جن باتوں سے یہ پانچ باتیں سلامت اور محفوظ رہیں انھیں ”مصالح“ قرار دیتی ہے۔ 
(۲)مصالح حاجیہ:یعنی وہ مصلحتیں جن سے انسانی حاجات وابستہ ہوں اور اگر وہ حاجات پوری نہ ہوں تو انسان تکلیف اور مشقت میں پڑ جائے، اِن انسانی حاجات سے متعلقہ احکامات میں شریعت نے جو اَہداف مقرر کیے ہیں انھیں ”مصالحِ حاجیہ“کا نام دیا گیا ہے۔ مثلا عذر کے وقت تیمم کرنا وغیرہ۔
پھر یہ مصالح حاجیہ اپنی اصل میں قسم اول مصالح ضروریہ سے ہی جڑی ہوئی ہیں۔ مثلا:
نکاح کے احکامات میں شریعت نے جو چیزیں مدنظر رکھی ہیں، ان کا ایک ہدف نسلِ انسانی کی بقاء اور تحفظ ہے اور یہ بات اوپر بیان ہوچکی ہے کہ نسلِ انسانی کا تحفظ مقاصد خمسہ اور مصالح ضروریہ میں سے ہے۔
اسی طرح تجارت اور کرایہ داری وغیرہ کے احکامات کا ہدف مال کی حفاظت یا اس کی بڑھوتری ہے اور مال کی حفاظت بھی قسمِ اول؛ مصالح ضروریہ میں سے ایک مصلحت ہے۔ 
ان انسانی حاجات میں شریعت نے عموماً رخصت اور آسانی کی ملحوظ رکھا ہے؛ چنانچہ بوقت ضرورت مردار کھانے کی اجازت اور پانی میسر نہ ہونے یا قدرت نہ ہونے کے وقت تیمم کا حکم ، سفر میں نماز کی قصر اور روزہ نہ رکھنے کی اجازت اسی سہولت اور رخصت پر مبنی ہے؛ تاکہ انسان اپنی استطاعت کے حدود میں رہتے ہوئے دینی ارکان کو بجا لاسکے اور انھیں محفوظ رکھ سکے۔ 
(۳)مصالحِ تحسینیہ: یعنی ایسی مصلحتیں اور ایسے اہداف جن کی رعایت انسانی کردار اور گفتار میں حسن وخوبی کا باعث ہوں ، انھیں مصالحِ تحسینیہ کا نام دیا گیا ہے اور تمام اچھی عادات اور اچھے اخلاق اسی سے جڑے ہوتے ہیں ۔ پھر تمام برے اخلاق سے اجتناب برتنا بھی اسی قسم سے متعلق ہے؛ کیوں کہ بری باتوں اور برے اخلاق سے کنارہ کشی خود بخود انسان میں ایک حسن پیدا کردیتی ہے۔ 
چنانچہ اسراف اور بخل وغیرہ سے اجتناب کرنا، میاں بیوی کے انتخاب میں کفاء ت کو ملحوظ رکھنا، کھانے پینے کے آداب، حسنِ معاشرت، ستر عورت، نجاست سے پاک رہنا وغیرہ سب اس کی مثالیں ہیں۔ 
جس طرح مصالح کی دوسری قسم یعنی مصالحِ حاجیہ اپنی انتہاء میں قسمِ اول؛ مصالحِ ضروریہ کی طرف لوٹتی ہیں اسی طرح یہ تیسری قسم؛ مصالحِ تحسینیہ بھی انجام کار مصالح ضروریہ کی طرف ہی لوٹتی ہیں۔ مثلا:
طہارت اور سترعورت کا حکم ”حفظِ دین“ کی طرف لوٹتا ہے۔
کھانے پینے کے آداب اور حرام چیزوں سے اجتناب” حفظِ نفس“ کی طرف لوٹتا ہے۔
میاں بیوی کا صحیح انتخاب اور حسنِ معاشرت ”حفظ نسل“ کی طرف لوٹتے ہیں۔
حلال کمانا، صحیح خرچ کرنااور فقیروں کو اپنے مال میں سے حصہ دینا ”حفظ مال“ کی مصلحت کی طرف لوٹتے ہیں۔ 
یہ ایک نمونہ ہے اس بات کا کہ مصالح کی دوسری دونوں قسمیں اپنی انتہاء اور انجام کار میں قسم اول کی طرف ہی لوٹتے ہیں؛ اسی لیے علمائے کرام نے قسمِ اول کو ”اصول دین اور قواعدِ شریعت“ کا نام دیا ہے۔ 
مقاصدِ شریعت کا سرچشمہ اور مصدر:
مقاصدِ شریعت کی تینوں قسمیں جو اوپر مذکور ہیں، ان کا سرچشمہ اور منبع قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ قرآنِ کریم نے ان باتوں کو اصولی انداز میں بیان کیا ہے اور سنت نبوی میں یہ چیزیں اپنی فروعات اورکافی تفصیلات کے ساتھ سے بیان ہوئی ہیں۔ (الشاطبی ومقاصد الشریعة للحمادی العبیدی۔ ۱۲۳)
اس علم کے فوائد:
اس علم و فن کی معرفت اوراس میں رسوخ وکمال حاصل کرنے کے بہت سے فوائد ہیں ، اُن میں سے تین درج ذیل ہیں:
(۱) اس علم وفن کی معرفت سے احکامِ شریعت کی صحیح سمجھ بوجھ حاصل ہوتی ہے۔
چنانچہ امام جوینی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
من لم یتفطن لوقوع المقاصد فی الأوامر و النواھی فلیس علی بصیرةٍ فی وضعِ الشریعة و ھی قبلة المجتہدین ، من توجہ إلیھا من أی جھة أصاب الحق دائما۔
ترجمہ: جو شخص شرعی مامورات اور منہیات کے مقاصد نہ سمجھ سکے تو شرعی احکامات میں صاحبِ بصیرت نہیں بن سکتا ، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مقاصدِ شریعت مجتہدین کی کاوشوں کا قبلہ ہیں اور جو شخص کسی بھی مسئلے میں ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ حق پا کر ہی رہتا ہے ۔
[البرہان فی اصول الفقہ، ج۱، ص۲۰۶]
(۲)قرآنِ کریم اور سنت نبوی کے علوم و معارف میں باریکی اور گہرائی نصیب ہوتی ہے۔
(۳) وہ نت نئے مسائل اور حوادث جن کے بارے میں کوئی شرعی حکم منصوص نہیں ہوتا، اُن کے صحیح شرعی حکم تک رسائی حاصل کرنے میں یہ علم و فن خاص طور سے مددگار ہوتا ہے۔ 
(۴) اس علم وفن کا ماہر شرعی احکامات کو لوگوں کے سامنے آسان اور عام فہم بنا کر پیش کرتا ہے۔ 
قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
یُرِیْدُ اللّٰہَ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَایُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ[سورۃ البقرة:۱۸۵]
اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتے ہیں اور تمہیں مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا :
یَسِّرُوْا وَ لَاتُعَسِّرُوْا وَ بَشِّرُوْا وَ لَاتُنَفِّرُوْا [بخاری، رقم الحدیث۶۹]
تم آسانی کرو، مشکلات کھڑی نہ کرو اور خوش خبری سناوٴ، متنفر نہ کرو!
مقاصدِ شریعت کی ایک دوسری تقسیم:
شرعی احکام میں جو مقاصد اور اَہداف و غایات ملحوظ ہوتی ہیں، اُن کی خود اَحکام کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں:(۱)مقاصدِ عامہ (۲) مقاصدِ خاصہ (۳)مقاصدِ جزئیہ۔
 ان کی کچھ وضاحت یوں ہے:
(۱)مقاصد عامہ:
اس سے مراد وہ مقاصد ہیں جنہیں شریعت تمام احکامات میں یا اکثر احکامات میں ملحوظ رکھتی ہے۔ مثلا:
إنما الاعمال بالنیات: اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔
یہ ایسا شرعی مقصد ہے جو عموماً شرعی احکامات میں ملحوظ ہوتا ہے۔ 
اسی طرح یہ ضابطہ : الضرورات تبیح المحذورات: ضرورت، ممنوع چیز کو مباح بنا دیتی ہے۔
یہ ضابطہ بھی اکثر شرعی احکامات میں بوقت ضرورت جاری ہوتا ہے۔
یہ دومثالیں ہیں، اُن مقاصد کی جو عموماً تمام یا کم ازکم اکثر شرعی احکامات میں ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔ 
(۲) مقاصد خاصہ:
اس سے مراد وہ اَہداف و غایات ہیں جنہیں شریعت خاص خاص اَبواب میں ملحوظ رکھتی ہے۔ مثلا نماز، روزہ ، حج ، زکوة، جہاد فی سبیل اللہ، عقوبات، دیات، معاملات وغیرہ وغیرہ ۔
تیونس کے مشہور عالم دین شیخ ا لاسلام طاہر ابن عاشور قدس اللہ سرہ نے ان مقاصد خاصہ کی درج ذیل تقسیم کی ہے:
گھریلو احکامات سے متعلق مقاصد شرعیہ
اَموال سے متعلق شرعی مقاصد
انسان اور انسانی بدن سے صادر ہونے والے اعمال سے متعلق مقاصد شرعیہ
قضاء اور شہادت(گواہی) سے متعلق شرعی مقاصد
تبرع ، ہدایا اور اِحسانات سے متعلق مقاصد
عقوبات سے متعلق مقاصد
(۳)مقاصد جزئیہ:
اس سے مراد وہ شرعی مقاصد ہیں جنہیں شارع کی طرف سے ہر حکم شرعی میں ملحوظ رکھا گیا ہو۔ مثلا کسی چیز کا واجب ہونا، کسی کا حرام ہونا، کسی کا مندوب ہونا، کسی کا مکروہ ہونا، کوئی چیز کسی حکم کے لیے شرط ہو اور کوئی چیز کسی حکم کے لیے سبب ہو وغیرہ وغیرہ۔
اس تیسری قسم سے عام طور سے فقہائے کرام بحث کرتے ہیں؛ کیوں کہ وہی حضرات شرعی جزئیات اور دقائق کو حل کرنے میں متخصص ہوتے ہیں؛ البتہ اُن کے ہاں ان مقاصد کے لیے اصطلاحی نام مختلف ہوتے ہیں؛ چنانچہ وہ کسی مقصد کو علت سے ، کسی کو حکمت سے اور کسی کو سبب اور شرط وغیرہ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ 
امام عزالدین بن عبد السلام قدس سرہ فرماتے ہیں :
من تتبع مقاصدَ الشرع فی جلب المصالح و درءِ المفاسد حَصَلَ لہ من مجموعِ ذلک اعتقادٌ او عرفانٌ بان ھذہ المصلحة لا یجوز إھمالھا و إن ھذہ المفسدة لا یجوز قربانھا و إن لم یکن فیھا إجماع و لا نص و لا قیاس خاص (قواعد الاحکام، ج۲، ص۱۲۰)
جو شخص بھی منافع کی تحصیل اور مفاسد کے دفعیہ میں شرعی مقاصد کو تہہ تک پہنچے گا تو اسے کامل یقین یا کم از کم قابلِ اطمینان معرفت اس بات کی حاصل ہو جائے گی کہ اُن مصالح کو بے کار چھوڑ دینا جائز ہے اور نہ ہی اُن مفاسد کے قریب جانا جائز ہے ، اگرچہ اس سلسلے میں نہ تو کئی اجماع ہو ، نہ ہی کوئی نص ہو اور نہ ہی کوئی خاص قیاس ہو۔
(باقی آئندہ)
$$$


علم المقاصد کی تاریخ وتدوین
ہر دینی علم و فن کی طرح یہ علم و فن بھی قرآن وسنت کے ضمن میں بکثرت موجود تھا؛ لیکن اسے باقاعدہ علمی حیثیت کافی مدت بعد حاصل ہوئی، اور اس کے اصول وقواعد کی تدوین و ترتیب مدت بعد ہوئی،اس علم وفن کی تاریخی حیثیت کو ہم چار اَدوار میں تقسیم کرسکتے ہیں:
(۱)     پہلا دور:
قرآن وسنت کے نزول کا دور ہے ، جس میں شرعی احکام نبی کریم… پر نازل ہورہے تھے اور بہت سے احکامات کی تفصیل وتبیین خود نبی کریم… اپنی سنت کے ذریعہ فرما رہے تھے، یہ دور اس علم و فن کا بالکل ابتدائی اور تولیدی دور کہلاسکتا ہے۔ گویا اس دور میں یہ علم وفن وجود پذیر ہورہا تھا۔ اس موقع پر مناسب معلو م ہوتا ہے کہ قرآن کریم سے کچھ مثالیں پیش کردی جائیں۔
چنانچہ روزوں کی فرضیت کے بیان میں اس کی حکمت وغایت اور مقصد وہدف بھی واضح کیا گیا ہے۔قرآن کریم میں ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ․ [سورۃ البقرة:۱۸۳]
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کیے گئے تھے؛ تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو۔
اس آیت سے واضح ہے کہ روزے کا حکم حکیمانہ ہے، یعنی اس حکم ہے جس کی حکمت بھی ساتھ بیان کی گئی ہے اور یہی حکمت اس شرعی حکم کا مقصد کہلارہی ہے۔
اسی طرح نماز کے بیان میں بھی اس کے مقاصد کو واضح کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
إِنَّ الصَّلوٰةَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ․ [سورۃ العنکبوت:۴۵]بے شک نماز فحاشی اور برائی سے سے روکتی ہے۔
معلوم ہوا کہ نماز کا ایک مقصد اور ہدف فحاشی سے اوربرائی سے باز رکھنا ہے؛ چنانچہ جس نماز سے یہ مقصد حاصل ہوگا وہ اس نماز کے کمال کی دلیل ہے اور جہاں یہ مقصد حاصل نہ ہورہا ہوتو گویا نماز کا وجود اور ڈھانچہ تو وہاں موجود ہے؛ لیکن روح سے خالی ہے۔
اسی طرح جہاد کی اجازت دیتے ہوئے قرآن کریم نے اس کے سبب اور مقصد کو بھی بتلایا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا․ [سورۃ الحج:۳۹]
جن کے ساتھ مشرکین نے لڑائی کی ہے، اب انھیں بھی لڑائی کی اجازت دی جارہی ہے کیوں کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے۔
اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلّہِ․ [البقرة:۱۹۳]
جب تک فتنہ ختم نہ ہو اور دین اللہ تعالیٰ کے لیے نہ ہوجائے تب تک ان مشرکوں سے لڑتے رہو۔
ان دوآیات میں جہاد کے سبب اور غرض وغایت کاصاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہی اسباب و اَہداف شرعی احکامات کے مقاصد کہلاتے ہیں۔
طالب علم پر یہ بات بھی واضح ہورہی ہوگی کہ ان مثالوں میں مقاصد شریعت کا بیان تو موجود ہے؛ لیکن اس کے باقاعدہ اصول وضوابط موجود نہیں، جیسا کہ عام طور سے اہلِ علم کسی بھی علم کو مدون کرتے وقت اس کے لیے قواعد و ضوابط بیان کرتے ہیں؛ اس لیے ہم نے کہا کہ اس علم و فن کی بنیاد تو قرآن و سنت میں ہی ہے؛ لیکن اس کی باقاعدہ تدوین بعد میں ہوئی، یہ پہلا دور توصرف اس علم وفن کے وجود کی ابتداء کا دور ہے۔
(۲)    دوسرا دور
نت نئے مسائل وحوادث کے شرعی احکامات کی تخریج کے لیے اہلِ علم نے جب فقہ کے ساتھ ساتھ اصولِ فقہ بھی مدون کرنا شروع کیا تو اصولِ فقہ ہی کے ضمن میں مقاصدِ شریعت کو بیان کیا جانے لگا، اس دور میں مقاصدِ شریعت کے کچھ قواعد و ضوابط مقرر تو ہوئے؛ لیکن وہ مستقلاً نہیں تھے؛ بلکہ اصولِ فقہ ہی کے قواعد وضوابط شمار ہوتے تھے؛ چنانچہ ”علت، حکمت، سبب، شرط “ وغیرہ کے مباحث جو اصولِ فقہ کے اہم مباحث میں شمار ہوتے ہیں یہی مباحث مقاصدِ شریعت سے بھی بہت گہرا ربط و تعلق رکھتے ہیں۔
(۳)    تیسرا دور
جب علمائے کرام نے اصولِ فقہ کے ذیل میں اس علم وفن کو ایک مستقل بحث کی شکل دی یا اصولِ فقہ سے الگ کرکے اسے باقاعدہ علم وفن کی شکل میں پیش کیا۔ یہ دور تقریباً امام الحرمین ابو المعالی الجوینی(متوفیٰ۴۷۸ھ)سے شروع ہوتا ہے جنہوں نے اپنی کتاب ”البرہان فی أصول الفقہ“ میں مستقل اس بحث کو جگہ دی اور عنوان قائم کیا:
”کتاب فی تقسیم العلل و الأصول التی بہا تظہر المقاصد و یکشف عن المصالح“
اُن علل اور اصولوں کی تقسیم کا بیان جن کے ذریعے مقاصد شریعت ظاہر ہوتے ہیں اور مصالحِ شرعیہ سے پردہ اٹھتا ہے، شاید ایسے ہی منفرد مباحث کی وجہ سے امام تاج الدین عبدالوہاب بن علی بن عبدالکافی السبکی الشافعی (متوفیٰ۷۷۱ھ)نے اس کتاب بارے یہ شاندار تبصرہ کیا ہے کہ:
وضع امام الحرمین فی أصول الفقہ کتاب البرہان علی أسلوب غریب لم یقتد فیہ بأحد۔
[طبقات الشافعیة للسبکی․ ج۵،ص۱۹۲]
امام الحرمین نے اصول فقہ میں ایسی کتاب تحریر کی ہے جو بالکل ہی منفرد ہے اور اس میں انھوں نے کسی کی بھی تقلید نہیں کی(یعنی مباحث کی جدت اور اسلوب کی ندرت ایسی ہے جو ان سے پہلے کی لکھی ہوئی اس موضوع کی کتابوں میں نہیں ملتیں)
ان کے بعد ان کے شاگرد امام غزالی(متوفیٰ۵۰۵ھ) کا دور آتا ہے اور انھوں نے بھی اپنے کمالِ علمی سے اس علم و فن کی تدوین اور ترویج میں مثالی حصہ لیا؛ چنانچہ ان کی کتابوں میں ”شفاء الغلیل“، ”المنخول“ اور ”المستصفی“میں اس موضوع کے مباحث جابجا بکھرے ہوئے ہیں اوربلاشبہ وہ بہت ہی عمدہ ہیں۔
پھر ایک عرصے بعد جلیل القدر عالم شیخ عزالدین بن عبد السلام (متوفیٰ۶۶۰ھ) کا دور آتا ہے اور انھوں نے اس علم وفن کو گویا بالکل ہی نئی زندگی بخش دی اور ان کی تالیفات سے یہ علم و فن علماء کے حلقوں میں خوب گردش کرنے لگا؛ چنانچہ ان کی کتاب ”قواعد ا لاحکام فی مصالح الانام“ گویا اس علم و فن کی ابتدائی مستقل کتابوں میں شمار کی جانے لگی ۔
بعد ازاں ان کے شاگرد امام شہاب الدین قرافی (متوفیٰ۶۸۵ھ) نے اپنے شیخ کی پیروی کرتے ہوئے اس علم و فن کے قواعد و ضوابط کی تحریر وترتیب پر توجہ مبذول کی؛ چنانچہ ان کی اکثر کتابوں میں اس موضوع کی جھلک موجود ہے؛ مگر خصوصاً ”الفروق“ میں تو یہ علم وفن پوری شان سے جھلک رہا ہے ۔
اسی طرح اپنے وقت میں جلیل القدر امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ (متوفیٰ۷۲۸ھ) جو ہر علم وفن میں مثالی مہارت رکھتے تھے، انھوں نے بھی اپنی تحریرات میں اس علم وفن کی مباحث کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، اگرچہ وہ سب مباحث ان کی تالیفات میں بکھری ہوئی ہیں؛ لیکن بہر حال ان کی تحریرات میں اس علم کا استعمال خوب ہوا ہے۔
یہی حال ان کے شاگرد امام ابن قیم(متوفیٰ۷۵۱ھ)کا ہے، انھوں نے بھی اپنے استاذ سے اس علم وفن کی مباحث کو حاصل کرنے کے بعد اسے خوب نکھارا ہے، خصوصاً ان کی کتاب ”اِعلام الموٴقّعین عن رب العالمین“ اس علم کی مباحث سے لبریز ہے؛ چنانچہ اس میں صاف صاف تحریر فرماتے ہیں:
الشریعة مبناھا و أساسھا علی الحِکَمِ و مصالح العباد فی المعاش والمعاد وھی عدل کلھا و رحمة کلھا و مصالح کلھا و حکمة کلھا فکل مسئلة خرجت عن العدل الی ا لجور و عن الرحمة الی ضدھا و عن المصلحة الی المفسدة و عن الحکمة الی العبث فلیس من الشریعة و ان ادخلت فیھا بالتاویل
شریعت کی اساس اوربنیاد حکمتوں اور بندے کی دنیاوی اور اخروی مصلحتوں پر قائم ہے؛ چنانچہ اسلامی شریعت سراپا عدل ورحمت اور حکمتوں ومصلحتوں سے لبریز ہے؛ اسی لیے ہر وہ مسئلہ جو عدل کے بجائے ظلم، رحمت کے بجائے غضب ، مصلحت کے بجائے فساد اور حکمت کے بجائے فضولیات کی طرف لے جانے والا ہو وہ شرعی حکم نہیں ہوسکتا، اگرچہ اسے تاویل سے شریعت میں داخل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ان سب کے بعد آٹھویں صدی ہجری میں امام شاطبی (متوفیٰ۷۹۰ھ) آتے ہیں اور اپنے خدادداد کمال علمی سے اس علم و فن کو باقاعدہ منضبط کرکے اس علم و فن کے ”شیخ“ قرار پاتے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی مستقل کتاب ”الموافقات فی أصول الشریعة“ میں اسی علم وفن کے مبادی و مباحث کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے حتی کہ مزید توضیح کے لیے اس کتاب میں ”کتاب المقاصد“ کے عنوان سے باقاعدہ ایک الگ بحث شامل کی ہے
چنانچہ شیخ الاسلام امام طاہر ابن عاشور مالکی تیونسی (متوفیٰ۱۳۹۳ھ) ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
”و الرجل الفذ الذی أفرد ھذا الفن بالتدوین ھو أبو اسحاق ابراہیم بن موسی الشاطبی المالکی“
[مقاصد الشریعة الاسلامیة لابن عاشور]
وہ باکمال انسان جس نے اس علم کو مدون کرکے مستقل شکل دی امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسی شاطبی مالکی ہیں۔
(۴)    چوتھا دور
یہ عصرِحاضر اور اس سے کچھ ہی ماضی قریب کا دور ہے۔ اس دور میں یہ علم وفن دوبارہ زندہ ہوا اور مشرق ومغرب کے متعدد اہلِ علم نے اس علم کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا ، جن میں عبد اللہ دراز مصری خاص طور سے شمار ہیں جنہوں نے امام شاطبی کی الموافقات کو اپنی تحقیق وتعلیق کے ساتھ شائع کرکے اہلِ علم پر بڑا احسان کیا، اسی طرح علمائے مغرب میں سے مالکی شیخ الاسلام تیونسی عالم دین شیخ طاہر ابن عاشور اور شیخ علال الفاسی نے اس علم کے احیاء وترویج میں بنیادی وابتدائی حصہ ڈالا؛ چنانچہ اس وقت اہلِ اسلام میں بہت سے اہل علم اس علم کی خدمت میں مشغول ہیں اور روز بروز اس علم کی طرف توجہ اور ضرورت بڑھتی ہی جارہی ہے۔
شاہ ولی اللہ ، حجة اللہ البالغة اور علمائے دیوبند
مقاصدِ شریعت پر عبور رکھنے والے علماء میں ہمارے ہندوستانی عالمِ دین مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نام شامل کیے بغیر شاید اس علم کی تاریخ مکمل ہی نہ ہوسکے۔ آپ کی مایہ ناز کتاب ”حجة اللہ البالغہ“ نے اس علم کو بہت سی نئی جہات عطاء کیں اور اس اخیر  دور میں عرب وعجم کے متعدد علمائے کرام نے اس علم و فن کے سمجھنے اور اس میں رسوخ وکمال حاصل کرنے کے لیے اس کتاب سے ہی بنیادی رہنمائی لی ہے اور محققین کا کہنا یہ ہے کہ یہ کتاب اس موضوع پر لکھی جانے والی متقدمین کی تمام کتابوں سے فائق اور مفید تر ہے۔
چنانچہ ہمارے ہاں ہندوستان میں شاہ صاحب کے بعد ان کے علمی جانشین حلقوں میں علمائے دیوبند نے اس کتاب پر توجہ مبذول رکھی اور حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ نے اپنی تحریرات میں اس علم و فن سے بے حد نفع اٹھایا اور اس علم کی مباحث کو معقولات کے دائرے سے نکال کر محسوسات کے دائرے میں داخل کردیا۔
الغرض حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعد علمائے دیوبند میں اس علم وفن کے ماہرین میں چار شخصیات کانام بالکل نمایاں ہے اوران کی تحریرات پڑھنے سے علم ومعرفت کے نئے در واہوتے ہیں:
حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی(متوفیٰ۱۲۹۷ھ)
شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی(متوفیٰ۱۳۶۹ھ)
حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی(متوفیٰ۱۳۶۲ھ)
حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی(متوفیٰ۱۴۰۳ھ)
علم المقاصد کی چند اہم کتابیں
بات کو مزید آگے بڑھانے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس موضوع کی چند اہم ترین کتابوں کا تذکرہ کر دیاجائے:
قواعد الاحکام فی مصالح الانام، للشیخ عزالدین بن عبد السلام الدمشقی
الموافقات فی اصول ا لشریعة، للامام ابی اسحاق ابراہیم الشاطبی
مقاصد الشریعة الاسلامیة، للشیخ الامام محمد الطاہر ابن عاشور المالکی التیونسی
حجة اللہ البالغة، للامام الشاہ ولی اللہ المحدث الدہلوی
مقاصد الشریعة الاسلامیة ومکارمہا، للشیخ علّال الفاسی المغربی
ضوابط المصلحة فی الشریعة الاسلامیة، للشیخ محمد سعید رمضان البوطی
نظریة المقاصد عند الامام الشاطبی، للشیخ احمد الریسونی
نظریة المصلحة فی الفقہ ا لاسلامی، للشیخ حسین حامد حسان
المقاصد العامة للشریعة الاسلامیة، للدکتور یوسف العالم
نظریة المقاصد عند الامام محمد الطاہر ابن عاشور، للدکتور اسماعیل حسنی
الشاطبی و مقاصد الشریعة، للحمادی العُبیدی
المقاصد و علاقتہا بالادلة الشرعیة، للشیخ محمد سعد الیوبی
المختصر الوجیز فی مقاصد الشریعة، للشیخ عوض بن محمد القرنی
مقاصد شریعت کی مباحث کہاں کہاں موجود ہوتی ہیں یا ہوسکتی ہیں؟
یہ بات پہلے عرض کی تھی کہ متقدمین اہلِ علم کے ہاں مقاصدِ شریعت کے مباحث عموماً اصول فقہ کے ضمن میں بیان ہوتے تھے اور اب بھی اصولِ فقہ میں ان مباحث کو مختلف مقامات پر بیان کیا جاتا ہے؛ چنانچہ شیخ نور الدین الخادمی کے بیان کے مطابق مندرجہ ذیل وہ مقامات ہیں جہاں مقاصدِ شریعت کے مباحث موجود ہوتے ہیں یا اہلِ علم ان مباحث کو وہاں درج کر سکتے ہیں:
۱-          مباحث القیاس.
۲-          مباحث الاستحسان.
۳-          مباحث المصلحة المرسلة.
۴-          مباحث العرف.
۵-          مباحث الذرائع سداً وفتحاً.
۶-          مباحث الأحکام الشرعیة (العلل، الحسن والقبح، وشروط التکلیف).
۷-مباحث القواعد الشرعیة.
۸-          مباحث السیاسة الشرعیة.
۹-          مباحث نصوص الأحکام. (آیات وأحادیث الأحکام)
۱۰-مباحث التعارض والترجیح بالمقصد .
۱۱-مباحث الخلاف الفقہی.
۱۲-مباحث مفاہیم الموافقة والمخالفة.
۱۳-مباحث الدراسات الإسلامیة المعاصرة، والتی تتعلق أساساً بإبراز الأہداف والخصائص والقیم الإسلامی العامة.
۱۴-مباحث الدراسات الشرعیة والقانونیة والفکریة ذات الصلة بالمقاصد والمصالح الشرعیة.
یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ عموماً علمائے مقاصدِ شریعت کے یہاں حکمت، علت اور مصلحت کے الفاظ ہم معنی ہوتے ہیں ، اگرچہ علمائے اصولِ فقہ ان میں فرق کرتے ہیں۔

$$$



**********************************

اسلامی نظام نکاح کے مقاصد
اسلام دین فطرت ہے اور اس کا سب سے بڑا امتیاز وہ روح اعتدال ہے جو اس کی ہر تعلیم او رہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے ، انسان میں موجود فطری، خلقی او رجنسی احساسات وجذبات کی تسکین اورتکمیل کے لیے اسلام نے انتہائی مرتب، جامع اور حکیمانہ ازدواجی نظام متعین کیا ہے، اسلام نہ تو جنسی لذت کو اصل مقصود حیات قرار دیتا ہے اور نہ اس جذبے کو شر محض قرار دے کر اس کی بیخ کنی چاہتاہے، افراط وتفریط کی ان دونوں انتہاؤں سے اسلام کا دامن پاک ہے اور اس کا معتدل نظام ازدواج اس پر شاہد عدل ہے ، اسلام کے اس نظام کی ایک جھلک اس آیت مبارکہ میں دیکھی جاسکتی ہے: ﴿ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة﴾․ (الروم:21)

ترجمہ: الله کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں ، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اورر حمت پیدا کردی۔

اس آیت میں واضح فرما دیا گیا ہے کہ ازدواجی زندگی کا اصل مقصود اوراس نظام کی سب سے بڑی برکت سکون دل او رراحت قلب کی دولت گراں مایہ ہے، نکاح کو ذریعہ محبت ورحمت بنایا گیا ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ مردوزن کا ازدواجی ربط صرف مذہبی اور قانونی ہی نہیں ہوتا، بلکہ قلبی اور طبعی بھی ہوتا ہے ۔ مفسرین کے بقول محبت کا تعلق زمانہ شباب سے اور رحمت کا تعلق بڑھاپے سے ہوتا ہے۔ شباب کے عالم میں مردوزن محبت کی راہ پر چلتے ہیں او ربڑھاپے میں یہ محبت طبعی رحمت وترحم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اور حضرت ابن عباس کے بقول آیت مذکورہ میں محبت ومودت کے جائز طریقے سے جنسی خواہش کی تسکین کی طرف اور رحمت سے اولاد کی طرف اشارہ ہے۔ ( تفسیر قرطبی:17/14)

اس میں کوئی شک نہیں کہ حیات انسانی میں سکون سب سے بیش قیمت دولت ہے اور اس دولت کا حصول نکاح کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ھو الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا لیسکن الیھا﴾․ ( الاعراف:189)

ترجمہ: وہ الله ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔

غور کیا جائے تو نکاح کی معنویت کے اظہار کے لیے سکون سے زیادہ جامع کوئی لفظ ہو ہی نہیں سکتا، جس کے ذیل میں قلبی، طبعی، ذہنی ، جسمانی ، دماغی ، جنسی وصنفی ہر قسم کا سکون آجاتا ہے او راسی کو سورة الفرقان میں ﴿قرة اعین﴾ (آنکھوں کی ٹھنڈک) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اہل ایمان کے اوصاف میں ان کی یہ دعا بھی مذکور ہے : ﴿ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریاتنا قرة أعین﴾․

ترجمہ: اے ہمارے پروردگار ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ اسی کو حدیث پاک میں:”لم یرللمتحابین مثل النکاح“․ ( دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح سے بہتر اور کوئی چیز نہیں دیکھی گئی۔) کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔

اسلام کا نظام نکاح انسان کے شہوانی جذبات کو بے لگام او ربے مہار ہونے سے بچاتا ہے اور بے شمار برائیوں اور مفاسد سے روکتا ہے ، اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ مردوعورت کے اخلاق وپاکیزگی کا تحفظ ہو۔ نسل انسانی کی بقا او رافزائش ہو۔ سکون ومحبت پیدا ہو۔ دینی اور معاشرتی مصالح کی رعایت کی جائے۔ اسی لیے اسلام اپنے ہر پیروکار کو نکاح کی تاکید وترغیب دلاتا ہے اور بے نکاحی زندگی سے شدت سے روکتا ہے ۔ ذیل میں ہم اسلام کی ان تاکیدی وترغیبی تعلیمات کا خلاصہ پیش کررہے ہیں۔

نکاح کی تلقین وتاکید
قرآن کریم میں اہل ایمان کو حکم دیاجارہا ہے :﴿فانکحوا ماطاب لکم من النساء﴾․ ( النساء:3)
ترجمہ: جو عورتیں تمہیں پسند آئیں تم ان سے نکاح کرو۔

حضرت امام بخاری نے ” باب الترغیب فی النکاح“ (نکاح کی ترغیب کا بیان) کے عنوان سے ایک مستقل باب ذکر فرمایا ہے او راس کے ذیل میں مذکورہ آیت سے استدلال کیا ہے ۔ بقول حافظ ابن حجر : فانکحوا (نکاح کرو) امر کا صیغہ ہے، جس کا کم سے کم درجہ استحباب کا ہے ، اس سے نکاح کی ترغیب ثابت ہوتی ہے۔ ( فتح الباری:104/9)

حضرت عبدالله بن مسعود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:”یا معشر الشباب، من استطاع منکم الباء ة فلیتزوج، فانہ اغض للبصر واحصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم، فانہ لہ وجاء“․( صحیح بخاری، کتاب النکاح)

ترجمہ: اے جوانو! تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ ضرور نکاح کر لے ، کیوں کہ اسی سے نگاہ میں احتیاط آتی ہے اور شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے او رجو حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو وہ روزے رکھے کیوں کہ روزہ شہوت توڑنے کا ذریعہ ہے ۔

اس حدیث کے ذیل میں محدثین وفقہاء نے نکاح کے شرعی حکم کی تفصیل ذکر کی ہے، اس سلسلہ میں ایک بحث اس سے متعلق ہے کہ نکاح عبادات کے باب سے ہے یا مباحات کے باب سے ؟ حضرات احناف وحنابلہ نکاح کو عبادات میں شمار کرتے ہیں ۔ حضرات شافعیہ نکاح کو مباحات میں شمارکرتے ہیں۔ حضرات مالکیہ ایک قول کے مطابق یہ فرماتے ہیں کہ نکاح اقوات میں سے ہے، قوت اس چیز کو کہتے ہیں جس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور نکاح ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نکاح تفکہات کی قبیل سے ہے اور فواکہ کی شان یہ ہوتی ہے کہ استعمال ہوں تو بہت بہتر ، نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح نکاح ہو تو بہت بہتر ، نہ ہو توکوئی حرج نہیں ہے۔ ( کشف الباری شرح بخاری: کتاب النکاح)

اسی طرح حضرات احناف وحنابلہ کے نزدیک نوافل میں اشتغال کی بہ نسبت نکاح افضل ہے ، جب کہ حضرات شافعیہ کے نزدیک نوافل کا اشتغال نکاح سے زیادہ افضل ہے ۔ امت کے تقریباً تمام علماء وفقہاء غلبہ شہوت اورمبتلائے زنا ہونے کے اندیشہ کی صورت میں نکاح کو لازم قرار دیتے ہیں، ہاں! اگر یہ غلبہ وخدشہ نہ ہو اور عام نارمل حالات ہوں تو فقہا کے اقوال مختلف ہیں۔

ابن حزم ظاہری، ابوداؤد ظاہری وغیرہ عام حالات میں بھی نکاح کو فرض ولازم قرار دیتے ہیں اور استدلال یہ کرتے ہی کہ زنا سے بچنا فرض ہے اور یہ بچاؤ نکاح کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اس لیے نکاح بھی فرض ہو گا۔ (المبسوط للسرخسی:193/4) دیگر فقہاء عام حالات میں نکاح کو سنت یا مستحب یا مباح قرار دیتے ہیں۔

مسلک حنفی میں اس کی تفصیل حسب ذیل ہے :
شوہر جسمانی ومالی ہر دو لحاظ سے حقوق زوجیت کی ادائیگی پر قادر ہو ، مہر اور نفقہ دے سکتا ہو اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں اسے مبتلائے زنا ہو جانے کا یقین بھی ہو ، تو اس پر نکاح فرض ہے ۔

حقوق کی ادائیگی پر قادر ہو اور بے نکاح رہنے پر ابتلائے زنا کا یقین نہ ہو، بلکہ اندیشہ وخدشہ ہو او راس کی شہوت مشتعل بھی ہو تو اس پر نکاح واجب ہے۔

حقوق زوجیت ادا کرسکتا ہو اور اس کی صورت میں معتدل اور نارمل ہو، نہ شہوانی جذبات غالب ہوں اور نہ وہ سردمہری کا شکار ہو تو اس کے لیے نکاح سنت مؤکدہ ہے ، تحفظ عفت اور طلب اولاد صالح کی نیت سے نکاح پر اسے اجر ملے گا او رنکاح نہ کرنے کی صورت میں ترک سنت کی وجہ سے وہ گنہگار ہو گا۔

اگر مرد کو یہ خدشہ ہو کہ نکاح کی صورت میں وہ بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو نکاح مکروہ تحریمی ہے۔

او راگر مرد کو کسی وجہ سے نکاح کی صورت میں عورت پر ظلم اوراس کے ساتھ غیر منصفانہ برتاؤ او راس کی حق تلفی کا یقین ہو ، تو اس کے لیے نکاح حرام وناجائز ہے۔

اگر مرد کو نکاح نہ کرنے کی صورت میں مبتلائے زنا ہونے کا اور نکاح کرنے کی صورت میں عورت پر ظلم وحق تلفی کا یقین ہو تو راجح قول کے مطابق اس کے لیے نکاح حرام ہو گا۔ ( الفقہ الاسلامی وادلة:32/7)

نکاح سنت انبیاء ورسل ہے
اسلام نے نکاح کی ترغیب وتاکید اس انداز سے بھی فرمائی ہے کہ اسے انبیاء علیہم السلام کی عام سنت بتایاہے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ ﴿ولقد ارسلنا رسلا من قبلک، وجعلنا لھم ازواجا وذریة﴾․ (الرعد:38)

ترجمہ: آپ سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا ۔ بقول امام قرطبی : یہ آیت کریمہ نکاح کی ترغیب وتاکید کر رہی ہے اور بے نکاحی زندگی سے روک رہی ہے اور نکاح کو پچھلے رسولوں کی سنت قرار دے رہی ہے ۔ حضرت عائشہ  رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں : ” النکاح من سنتی ، فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی، وتزوجوا فانی مکاثر بکم الامم، ومن کان ذا طول فلینکح ، ومن لم یجد فعلیہ بالصیام؛ فان الصوم لہ وجاء“․ ( صحیح ابن ماجہ للألبانی:310/1)

ترجمہ: نکاح میری سنت ہے ، جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ مجھ سے ( میرے طریقے پر ) نہیں ہے ، تم شادیاں کرو، میں دیگر امتوں پر تمہاری کثرت کی وجہ سے فخر کروں گا، جو بھی وسعت رکھتا ہو ضرور نکاح کرے ،جو وسعت نہ رکھتا ہو تو روزں کا اہتمام کرے، روزہ اس کے زور شہوت کو توڑ دے گا۔

اس حدیث پاک میں سنت سے مراد طریقہ ہے اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جو نکاح نہیں کرتا وہ پیغمبرانہ طریقہ کو چھوڑ کر اور اتباع واطاعت کے بجائے رہبانیت اور ترک دنیا کا غیر شرعی طریقہ اپناتا ہے۔ (نیل الاوطار شوکانی:117/6)

حضرت عکاف بن دواعہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: عکاف کیا تمہارے پاس بیوی ہے ؟ جواب دیا نہیں۔ آپ نے پوچھا باندی؟ جواب دیا نہیں۔ پوچھا جسمانی اعتبار سے تندرست ہو؟ جواب دیا ہاں۔ پوچھا مالی وسعت ہے ؟ جواب دیا ہاں۔ آپ نے فرمایا: ” فانت اذا من اخوان الشیاطین، ان کنت من رھبان النصاری فالحق بھم، وان کنت منا فاصنع کما نصنع، فان من سنتنا النکاح، شرارکم عزابکم، وان ارذل موتاکم عزابکم“ ․( الفقہ الاسلامی وادلتہ:36/7)

ترجمہ: تب تو تم شیطان کے بھائی ودوست ہو ، اگر تم عیسائی راہبوں میں سے ہو تو انہیں سے جاملو اور اگر ہم میں سے ہو تو ہمارے طریقے پر چلو، ہماری سنت نکاح ہے ، تم میں بدترین وہ ہیں جو بے نکاح ہیں اور جوبے نکاح مر گئے وہ بدترین مردے ہیں۔

دنیا کی سب سے بہتر متاع
اسلام نے نکاح کو دنیا کی سب سے بہتر متاع کے حصول کا ذریعہ قرار دے کر نکاح کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ حضرت عبدالله بن عمر آپ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :” الدنیا متاع، وخیر متاع الدنیا المرأة الصالحة“․(صحیح مسلم، باب الوصیة بالنساء)

ترجمہ: دنیا ایک متاع ہے اور دنیا کی سب سے بہتر متاع ودولت نیک بیوی ہے۔ اسی مضمون کو ایک دوسری حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے : ”اربع من اعطیھن، فقد اعطی خیر الدنیا والآخرة: قلباشاکراً، لسانا ذاکراً، وبدنا علی البلاء صابرا، وزوجة لا تبغیہ خونا فی نفسھا ومالہ“․ ( الترغیب والترہیب للمنذری:41/3)

ترجمہ: چار چیزیں جسے دی جائیں اسے دنیا وآخرت کی ہر خیر مل گئی ہے : شکر وسپاس کے جذبات سے لبریز دل۔ ذکرالہٰی سے تر زبان۔ مصائب پر صبر کرنے والا جسم ۔ ایسی نیک بیوی جو اپنی عزت وآبرو اور شوہر کے مال کے معاملہ میں کوئی خیانت گوارہ نہ کرے۔

حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ جب قرآن میں:﴿والذین یکنزون الذھب والفضة﴾ والی آیت اتری، جس میں سونے چاندی اور دولت کا ذخیرہ جمع کرنے اور زکوٰة ادا نہ کرنے والوں کے انجامِ بد کاذکر ہے تو اس وقت دورانِ سفر بعض صحابہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا مال بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا: ”افضلہ لسان ذاکر، وقلب شاکر، وزوجة مؤمنة تعینہ علی ایمانہ“․ (ترمذی شریف، کتاب النکاح)

ترجمہ: سب سے بہتر مال ذکر والی زبان، شکر والا دل اور شوہر کے ایمان میں مدد گار صاحب ایمان بیوی ہے۔

لباس زندگی
قرآن میں عورتوں کو مردوں کے لیے او رمردوں کوعورتوں کے لیے لباس زندگی بتایا گیا ہے ۔ارشاد ہے:﴿ھن لباس لکم وانتم لباس لھن﴾․ (البقرة:187)

ترجمہ: وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو ۔

یہ قرآنی تعبیر نکاح کی اہمیت اور مقصدیت کا انتہائی جامع، بلیغ اور معنی خیز بیان ہے ، لباس کا لفظ اپنے جلو میں اس موقعِ استعمال میں بے حد معنویت رکھتا ہے ۔

لباس کا پہلا مقصد پردہ پوشی ہے ، وہ انسان کے جسم کے لیے ساتر ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح نکاح کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے پردہ پوش ہو جاتے ہیں ، جذبات کا ہیجان بالکل طوفانی ہوتا ہے اور نکاح نہ ہو تو یہ ہیجان بگاڑ پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا، انسانی نفس کے عیوب کی پردہ پوشی بیوی کے لیے شوہر کے ذریعہ سے اور شوہر کے لیے بیوی کے ذریعہ ہی سے ہو سکتی ہے ، عفت مآبی اور حیا کے لیے نکاح سب سے اہم چیز ہے اور حیا باطن کا اصل لباس ہے او رحیا کو حاصل کرنے میں شوہر کو بیوی سے اور بیوی کوشوہر سے جو تعاون ملتا ہے وہ کسی اور چیز سے نہیں ملتا۔

لباس کا دوسرا مقصد زینت وآرائش ہے ، لباس کے ذریعے انسان زینت وجمال اور سلیقہ وشائستگی سے اپنے کو آراستہ کرتا ہے ، غور کیا جائے تو یہ چیز او رزیادہ وسعت کے ساتھ شوہر وبیوی کو ایک دوسرے سے حاصل ہوتی ہے، ازدواجی تعلق کی برکت سے ہی خانگی زندگی کی تمام رونقیں، بہاریں اور آرائشیں حاصل ہوتی ہیں۔

لباس کا تیسرا مقصد سردوگرم اور دیگر خطرات سے حفاظت ہے، اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو ازدواجی زندگی مرد وعورت دونوں کو شہوانیت، حیوانیت اور شیطانیت کے تمام حملوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

قرآن کی یہ تعبیر” کہ عورتیں لباس زندگی ہیں“ اس قدر جامع ہے کہ اس سے یورپ کا یہ الزام خود بخود پادر ہوا ہو جاتا ہے کہ اسلام عورت کی تحقیر کرتا ہے ، اس الزام سے بڑا جھوٹا الزام اور کیا ہو سکتا ہے ؟ کسی اور مذہبی تعلیم میں میاں بیوی کے باہمی اعتماد، مودت وتعلق کے لیے اسلام کی اس تعلیم کے درجے کی کوئی چیز ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ، یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ وہ مرد وزن کو دوسرے کا لباس حیات بتا کر نکاح کی باعفت زندگی گزارنے کی تلقین وتائید فرماتا ہے۔

دین کی تکمیل
نکاح کی ترغیب وتاکید کے تعلق سے یہ حدیث نبوی بڑی اہمیت کی حامل ہے :”من رزقہ الله امرأة صالحة، فقد اعانہ علی شطر دینہ، فلیتق الله فی الشطر الباقی“․ ( المستدرک:161/2)

ترجمہ: جسے الله نیک بیوی عطا فرمائے تو اس کا نصف دین مکمل ہو جاتا ہے ، پھر باقی نصف کے بارے میں اسے الله سے ڈرنا ہے۔

مزید ارشاد ہے:”اذا تزوج العبد فقد استکمل الدین، فلیتق الله فی النصف الباقی“․ ( الترغیب والترہیب:42/3)

ترجمہ: جب بندہ شادی کر لیتا ہے تو وہ اپنا نصف دین مکمل کر لیتا ہے ، پھر اسے باقی نصف کے بارے میں الله سے ڈرنا چاہیے۔

واقعہ یہ ہے کہ بالعموم گناہوں کا صدور وارتکاب منھ اور شرم گاہ سے ہوتا ہے ، اس لیے ان کی حفاظت پر جنت کی ضمانت ہے ۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے : ”من وقاہ الله شر اثنتین ولج الجنة: مابین لحییہ، ومابین رجلیہ“․ (تفسیر قرطبی:327/9 بحوالہ مؤطا)

ترجمہ: جسے الله جبڑوں کے درمیان کی چیز زبان اور پیروں کے درمیان کی چیز شرم گاہ کے شر سے بچا لے وہ جنت میں جائے گا۔

جب انسان نکاح کر لیتا ہے تو شرم گاہ کے شر سے عموماً محفوظ ہو جاتا ہے ، اب اسے صرف منھ کے شر سے اپنی حفاظت کرنی ہے ، گویا اس نے معصیت کا ایک دروازہ بند کرکے آدھا دین مکمل کر لیا، اب اسے منھ کی حفاظت کرکے معصیت کا دوسرا دروازہ بند کرنا اور باقی آدھے دین کو مکمل کرنا ہے ، اسی لیے حضرت طاؤس کا فرمان ہے:”لا یتم نسک الشاب حتی یتزوج“․ ( مصنف ابن ابی شیبہ:127/4)

ترجمہ: نوجوان کی عبادت نکاح کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔

بیوی کے ساتھ جنسی تسکین کااجر
ازدواجی زندگی میں زن وشوہر کے جنسی تعلقات پر جو اجروثواب من جانب الله عطا ہوتا ہے اس کو بیان کرکے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو نکاح کی ترغیب مؤثر انداز میں فرمائی ہے۔

حضرت ابوذر کی روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”وفی بضع احدکم صدقة، قالوا: یا رسول الله! أیأتی احدنا شھوتہ، ویکون لہ فیھا اجرہ؟ قال: أرأیتم لو وضعھا فی حرام أکان علیہ فیھا وزر؟ فکذلک اذا وضعھا فی حلال کان لہُ اجر“․ ( صحیح مسلم)

ترجمہ: تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے قضاءِ شہوت کرے تو اس میں صدقہ جیسا ثواب ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا: یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ ہم میں سے کوئی اپنی شہوت پوری کرے او راس پر ثواب بھی پائے! آپ ا فرمایا: یہ بتاؤ کہ جب شرم گاہ کے حرام استعمال پر گناہ ملتا ہے تو جائز استعمال پر ثواب کیوں نہ ملے گا؟

بے نکاحی زندگی سے ممانعت
اسلام نے اپنے متبعین کو بے نکاحی زندگی او رتجرد سے شدت سے منع کیا ہے ، خواہ یہ تجر دنوافل وعبادات میں اشتغال وانہماک کی نیت ہی سے کیوں نہ ہو ۔

حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ چند صحابہ کرام نے باہم طے کیا کہ وہ اپنی جنسی شہوت کو کسی تدبیر سے ختم کر دیں گے اور دنیا کی لذتوں اور شہوتوں سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور عیسائی راہبوں کی طرح دنیا میں گشت لگاتے رہیں گے۔ یہ بات جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان صحابہ کو بلایا اور فرمایا کہ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، رات میں سوتا بھی ہوں او رعبادت بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، یہی میرا طریقہ ہے اور جو میرے طریقے کو اپنائے وہ مجھ سے ہے اور جونہ اپنائے وہ مجھ سے نہیں ہے ، پھر انہیں لوگوں کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی :﴿ یایھا الذین آمنوالا تحرموا طیبات ما احل الله لکم ولا تعتدوا، ان الله لا یحب المعتدین﴾․ ( المائدة:87)

ترجمہ: اے ایمان والو! جو پاک چیزیں الله نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرو او رحد سے تجاوزمت کرو، الله کو حد سے تجاوز کرنے والے پسند نہیں۔ ( ملاحظہ ہو : تفسیر ابن کثیر:87/2)

اسی سے ملتا جلتا دوسرا واقعہ یہ بھی ہے کہ تین صحابہ آپ ا کی عبادت کا حال ازواجِ مطہرات سے معلوم کرنے آئے، پھر انہوں نے نے یہ طے کیا کہ رات بھر نمازیں پڑھیں گے ، ہمیشہ روزے سے رہیں گے اور عورتوں سے الگ رہیں گے، آپ انے ان سے فرمایا:” أما والله، انی لا خشاکم لله، واتقاکم لہ، لکنی اصوم وأفطر، وأصلی وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتی فلیس منی“․ ( بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب)

ترجمہ: سنو! بخدا میں تم میں سب سے بڑھ کر الله سے ڈرنے والا او رپرہیز گار ہوں ، مگر میں روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں ، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، جو میرے اس طریقے سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

حضرت سعد بن وقاص کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت عثمان بن مظعون نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے تبتل (عورتوں سے انقطاع او رجدائی اختیار کرنے) کی اجازت مانگی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے سختی سے منع فرما دیا، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم انہیں اجازت دے دیتے تو ہم اپنے کو خصی بنالیتے، تاکہ محل شہوت ہی ختم ہو جائے او رہم عبادت کے لیے یکسو ہو جائیں، مگر یہ عمل سخت ناپسندیدہ ہے۔ ( بخاری، کتاب النکاح، باب مایکرہ من التبتل والخصاء)

حضرت انس  کا بیان ہے:
”رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نکاح کا حکم دیتے تھے اور بے نکاح رہنے سے منع فرماتے تھے اور بے حد محبت کرنے والی، کثرت سے بچہ جننے والی عورت سے نکاح کی تلقین کرتے تھے۔“ ( مسند احمد:245/3)

حضرت سعید بن ہشام بن عامر نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے بے نکاح رہنے کی اجازت چاہی، حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ ایسا مت کرو، قرآن میں نکاح کو انبیا کا طریقہ بتایا گیا ہے ، اس لیے تم بے نکاح مت رہو۔ ( المحلی لابن حزم:440/9)

حضرت معاذ بن جبل کے بارے میں آتا ہے کہ اپنے مرض الوفات میں انہوں نے اپنے احباب سے کہا:” زوجونی، انی اکرہ ان الق الله عزباً“․ ( مصنف ابن ابی شیبہ:127/4)

ترجمہ: میرا نکاح کرادو، میں بے نکاحی کی حالت میں الله سے ملنا ناپسند سمجھتا ہوں ۔

حضرت ابن مسعود کا فرمان ہے :” لو لم اعش فی الدنیا الا عشراً، لاحببت ان یکون عندی فیھن امرأة“․ ( ایضاً)

ترجمہ: اگر میری زندگی کے صرف دس ہی دن باقی ہوں ، تب بھی میری خواہش یہ ہو گی کہ اس وقت بھی میری زوجیت میں کوئی خاتون ہو۔

انہیں کا یہ قول بھی ہے:” لو لم یبق من اجلی الا عشرة ایام، واعلم انی اموت فی اٰخر ھا یوماً، ولی طول النکاح فیھن لتزوجت مخافة الفتنة“․ ( المغنی لابن قدامة:446/6)

ترجمہ: اگر میری زندگی کے صرف دس دن بچیں او رمجھے معلوم ہو جائے کہ دسویں دن میں مر جاؤں گا اور ان دنوں مجھے وسعت نکاح ہو تو فتنہ سے بچنے کے لیے میں نکاح کر لوں گا۔

حضرت عمرفاروق  نے ابوالزوائر نامی آدمی سے فرمایا: ”ما یمنعک من النکاح الاعجز او فجور“․ ( مصنف ابن ابی شیبہ:127/4)

ترجمہ: اگر تم نکاح نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو تم نکاح سے عاجز مرد ہو یا زنا وفجور کی زندگی پسند کرتے ہو ۔

واقعہ بھی یہی ہے کہ بے نکاحی زندگی گزارنے کے پس پردہ بالعموم یہی دو عنصر کار فرما ہوتے ہیں ، یا تو انسان حقوق زوجیت کی ادائیگی سے مالی یا جسمانی یا کسی اور سبب سے عاجز ہوتا ہے یا پھر اسے نکاح قید معلوم ہوتا ہے اور اسے زنا اور بدکاری کی راہ ہی بھلی معلوم ہوتی ہے۔

علامہ مروزی حضرت امام احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں:” امام احمد نے فرمایا کہ تجرد اور بے نکاح رہنے کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کئی نکاح فرمائے، آپ ا صبح اٹھتے تھے تو کچھ نہ ہوتا تھا، مگر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بے نکاح رہنا گوارا نہ کیا، بلکہ آپ ا نکاح کی تلقین اور بے نکاحی زندگی سے اجتناب کا حکم فرماتے رہے اور آپ ا نے یہ بھی فرمایا: ”حبب الی من الدنیا النساء“( دنیا کی چیزوں میں سے میرے دل میں عورت کی محبت ڈال دی گئی ہے۔) اس پر امام مروزی نے کسی بزرگ کی بے نکاحی کا حوالہ دیا، یہ سنتے ہی امام احمد خفا ہو گئے اور جو ش میں فرمایا کہ تم محمدا اور آپ کے صحابہ کی پیروی کرو اور یاد رکھو کہ بے نکاح شخص کی نفلی عبادتوں کے ثواب سے زیادہ ثواب نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اور اس کے رو رو کر باپ سے کچھ کھانے کے لیے مانگنے او رباپ کے اس کی تمنا پوری کرنے کے عمل میں ہے۔“ ( روضة المحبین لابن القیم:230)

روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیوی سے محروم مرد کو اور شوہر سے محروم عورت کو افراطِ مال ودولت کے باوجود مسکین قرار دیا ہے۔ ( اسلام کا نظام عفت، مفتاحی:58بحوالہ جمع الفوائد)

امام احمد بن حنبل کا یہ جملہ بے حد فیصلہ کن ہے:” من دعاک الی غیر التزوج فقد دعاک الی غیر الاسلام“ ․( المغنی:447/6)

ترجمہ: جو بے نکاح رہنے کی دعوت دیتا ہے وہ اسلام سے باہر آنے کی دعوت دیتا ہے، یہ واقعہ ہے کہ نکاح سے دوری بے حیائی کا باعث ہے او رحیا کے ختم ہونے سے ایمان کا ختم ہونا نصوص اور تجربات دونوں سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔




تَبارَكَ الَّذى نَزَّلَ الفُرقانَ عَلىٰ عَبدِهِ لِيَكونَ لِلعٰلَمينَ نَذيرًا {25:1}
بڑی برکت ہے اسکی جس نے اتاری فیصلہ کی کتاب [۱] اپنے بندہ پر [۲] تاکہ وہ رہے جہان والوں کے لئے ڈرانے والا [۳]
یعنی اپنے اس کامل و اکمل بندہ (محمد رسول اللہ ) پر جن کا ممتاز لقب ہی کمال عبودیت کی وجہ سے “عبداللہ” ہو گیا۔ صلوات اللہ و سلامہ علیہ۔
"فُرقان" (فیصلہ کی کتاب) قرآن کریم کو فرمایا جو حق و باطل کا آخری فیصلہ اور حرام و حلال کو کھلے طور پر ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ یہ ہی کتاب ہے جس نے اپنے اتارنے والے کی عظمت شان، علو صفات اور اعلیٰ درجہ کی حکمت و رافت کو انتہائی شکل میں پیش کیا اور تمام جہان کی ہدایت و اصلاح کا تکفل اور ان کو خیر کثیر اور غیر منقطع برکت عطا کرنے کا سامان بہم پہنچایا۔
یعنی قرآن کریم سارے جہان کو کفر و عصیان کے انجام بد سے آگاہ کرنے والا ہے چونکہ سورت ہذا میں مکذبین و معاندین کا ذکر بکثرت ہوا ہے شاید اسی لئے یہاں صفت “نذیر” کو بیان فرمایا۔ “بشیر” کا ذکر نہیں کیا۔ اور “للعالمین” کے لفظ سے بتلا دیا کہ یہ قرآن صرف عرب کے اُمیوں کے لئے نہیں اترا بلکہ تمام جن و انس کی ہدایت و اصلاح کے واسطے آیا ہے۔




أَوَعَجِبتُم أَن جاءَكُم ذِكرٌ مِن رَبِّكُم عَلىٰ رَجُلٍ مِنكُم لِيُنذِرَكُم وَلِتَتَّقوا وَلَعَلَّكُم تُرحَمونَ {7:63}
کیا تم کو تعجب ہوا کہ آئی تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے ایک مرد کی زبانی جو تم ہی میں سے ہے تاکہ وہ تم کو ڈرائے اور تاکہ تم بچو اور تاکہ تم پر رحم ہو [۷۶]
یعنی اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ تم ہی میں سے خدا کسی ایک فرد کو اپنی پیغام رسانی کے لئے چن لے۔ آخر اس نے ساری مخلوق میں سے منصب خلافت کے لئے آدمؑ کو کسی مخصوص استعداد کی بناء پر چن لیا۔ تو کیوں نہیں ہو سکتا کہ اولاد آدمؑ میں سے بعض کامل الاستعداد لوگوں کو منصب نبوت و رسالت کے لئے انتخاب کر لیا جائے۔ تاکہ وہ لوگ براہ ر است خدا سے فیض پا کر دوسروں کو ان کے انجام سے آگاہ کریں اور یہ اس پر آگاہ ہو کر بدی سے بچ جائیں۔ اور اس طرح خدا کے رحم و کرم کے مورد بنیں۔

أَوَعَجِبتُم أَن جاءَكُم ذِكرٌ مِن رَبِّكُم عَلىٰ رَجُلٍ مِنكُم لِيُنذِرَكُم ۚ وَاذكُروا إِذ جَعَلَكُم خُلَفاءَ مِن بَعدِ قَومِ نوحٍ وَزادَكُم فِى الخَلقِ بَصۜطَةً ۖ فَاذكُروا ءالاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {7:69}
کیا تم کو تعجب ہوا کہ آئی تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے ایک مرد کی زبانی جو تم ہی میں سے ہے تاکہ تمکو ڈرائے اور یاد کرو جبکہ تم کو سردار کر دیا پیچھے قوم نوح کے [۸۲] اور زیادہ کر دیا تمہارے بدن کا پھیلاؤ [۸۳] سو یاد کرو اللہ کےاحسان تاکہ تمہارا بھلا ہو [۸۴]
جو احسانات مذکور ہوئے وہ اور ان کےعلاوہ خدا کے دوسرے بےشمار احسانات یاد کر کے اس کے شکر گذار اور فرمانبردار بننا چاہئے، نہ یہ کہ منعم حقیقی سے بغاوت کرنے لگو۔
جسمانی قوت اور ڈیل ڈول کے اعتبار سے یہ قوم مشہور تھی۔
یعنی قوم نوحؑ کے بعد دنیا میں تمہاری حکومتیں قائم کیں اور اس کی جگہ تم کو آباد کیا شاید یہ احسان یاد دلا کر اس پر بھی متنبہ کرنا ہے کہ بت پرستی اور تکذیب رسول کی بدولت جو حشر ان کا ہوا وہ کہیں تمہارا نہ ہو۔




وَلا تَحسَبَنَّ اللَّهَ غٰفِلًا عَمّا يَعمَلُ الظّٰلِمونَ ۚ إِنَّما يُؤَخِّرُهُم لِيَومٍ تَشخَصُ فيهِ الأَبصٰرُ {14:42}
اور ہرگز مت خیال کر کہ اللہ بیخبر ہے ان کاموں سے جو کرتے ہیں بے انصاف [۷۲] ان کو تو ڈھیل دے رکھی ہے (چھوڑ رکھا ہے) اس دن کے لئے کہ پتھرا جائیں گی (کھلی رہ جائیں گی) آنکھیں [۷۳]
یعنی قیامت کے دل ہول اور دہشت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
ایک رکوع پہلے بہت سے نعمائے عظیمہ کا ذکر کر کے فرمایا تھا ۔ { اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفّار } (انسان بڑا ظالم اور نا شکر گذار ہے) بعدہٗ حضرت ابراہیمؑ کا قصہ سنا کر کفار مکہ کو بعض خصوصی نعمتیں یاد دلائیں۔ اور ان کے ظلم و شرک کی طرف اشارہ کیا۔ کفار کے اعمال سے اللہ غافل نہیں ہے: اس رکوع میں متنبہ فرماتےہیں کہ اگر ظالموں کو سزا ملنے میں کچھ دیر ہو تو یہ مت سمجھو کہ خدا ان کی حرکات سے بے خبر ہے ، یاد رکھو ان کا کوئی چھوٹا بڑا کام خدا سے پوشیدہ نہیں۔ البتہ اس کی عادت نہیں ہے کہ مجرم کو فورًا پکڑ کر تباہ کر دے وہ بڑے سے بڑے ظالم کو مہلت دیتا ہے کہ یا اپنے جرائم سے باز آ جائے یا ارتکاب جرائم میں اس حد پر پہنچ جائے کہ قانونی حیثیت سے اس کے مستحق سزا ہونے میں کسی طرح کا خِفا باقی نہ رہے۔ (تنبیہ) { لَا تَحْسَبَنَّ } کا خطاب ہر اس شخص کو ہے جسے ایسا خیال گذر سکتا ہو ، اور اگر حضور  کو خطاب ہے تو آپ کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہو گا۔ کہ جب حضور  کو فرمایا کہ ایسا خیال مت کرو۔ حالانکہ ایسا خیال آپ کے قریب بھی نہ آسکتا تھا۔ تو دوسروں کے حق میں اس طرح کا خیال کس قدر واجب الاحتراز ہونا چاہئے۔



وَما بِكُم مِن نِعمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيهِ تَجـَٔرونَ {16:53}
اور جو کچھ تمہارے پاس ہے نعمت سو اللہ کی طرف سے پھر جب پہنچتی ہے تم کو سختی تو اسی کی طرف چلاتے ہو (اسی سے فریاد کرتے ہو) [۷۷]
یعنی سب بھلائیاں اور نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور ہر ایک برائی یا سختی کا دفع کرنا بھی اسی کے قبضہ میں ہے۔ چنانچہ جب کوئی سخت مصیبت انسان کو چھو جاتی ہے تو کٹر سے کٹر مشرک بھی اس وقت سب سہارے چھوڑ کر خدا کو پکارنے لگتا ہے گویا فطرت انسانی شہادت دیتی ہے کہ مصائب اور سختیوں سے بچانا خدائے واحد کے سوا کسی کا کام نہیں ہو سکتا۔ پھر جس کے قبضہ میں ہر ایک نعمت و نقمت اور ہر قسم کا نفع و ضرر ہے۔ دوسرا کون ہے جو اس کی الوہیت میں حصہ دار بن سکے یا جس سے انسان خوف کھائے اور امیدیں باندھے۔

ثُمَّ إِذا كَشَفَ الضُّرَّ عَنكُم إِذا فَريقٌ مِنكُم بِرَبِّهِم يُشرِكونَ {16:54}
پھر جب کھول دیتا ہے سختی تم سے اسی وقت ایک فرقہ تم میں سے اپنے رب کے ساتھ لگتا ہے شریک بتانے

لِيَكفُروا بِما ءاتَينٰهُم ۚ فَتَمَتَّعوا ۖ فَسَوفَ تَعلَمونَ {16:55}
تاکہ منکر ہو جائیں اس چیز سے جو کہ ہم نے انکو دی ہے سو مزے اڑا لو آخر معلوم کر لو گے [۷۸]
یعنی جہاں سختی دور ہوئی ، منعم حقیقی کو بھلا بیٹھے ۔ اور نہایت بے حیائی سے خدائی کے حصے بخرے کرنے لگے ۔ شرم نہ آئی کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے عاجز ہو کر کسے پکار رہے تھے ۔ نہ محسن حقیقی کا احسان مانا نہ یہ اندیشہ کیا کہ ناشکری کی سزا میں پکڑے جائیں گے ، یا کم از کم کفران نعمت سلب نعمت کا موجب ہو جائے گا۔ گویا خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ نے جو انعام فرمایا تھا بالکل اس کے انکار پر تل گئے ۔ بہتر ہے ، چند روز کی انہیں مہلت دی جاتی ہے ۔ خوب دنیا کے مزے اڑا لیں آخر معلوم ہو جائے گا کہ اس مشرکانہ کفران نعمت کی کیسی سزا ملتی ہے۔



وَالَّذى جاءَ بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولٰئِكَ هُمُ المُتَّقونَ {39:33}
اور جو لے کر آیا سچی بات اور سچ مانا جس نے اسکو وہی لوگ ہیں ڈر والے [۵۰]
یعنی خدا سے ڈرنے والوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ سچی بات لائیں، ہمیشہ سچ کی تصدیق کریں۔ حضرت شاہ صاحبؒ " لکھتے ہیں جو سچی بات لیکر آیا وہ نبی، اور جس نے سچ مانا وہ مومن ہے"۔ گویا دونوں جملوں کا مصداق علیحدہ ہے۔

لَهُم ما يَشاءونَ عِندَ رَبِّهِم ۚ ذٰلِكَ جَزاءُ المُحسِنينَ {39:34}
ان کے لئے ہے جو وہ چاہیں اپنے رب کے پاس یہ ہے بدلا نیکی والوں کا

لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنهُم أَسوَأَ الَّذى عَمِلوا وَيَجزِيَهُم أَجرَهُم بِأَحسَنِ الَّذى كانوا يَعمَلونَ {39:35}
تاکہ اتار دے اللہ ان پر سے برے کام جو انہوں نے کئے تھے اور بدلہ میں دے ان کو ثواب بہتر کاموں کا جو وہ کرتے تھے [۵۱]
یعنی اللہ تعالیٰ متقین و محسنین کو ان کے بہتر کاموں کا بدلہ دے گا اور غلطی سے جو برا کام ہو گیا وہ معاف کرے گا (تنبیہ) شاید { اسْوَأ } اور { احسن} (صیغہ تفصیل) اس لئے اختیار فرمایا کہ بڑے درجہ والوں کی ادنیٰ بھلائی اوروں کی بھلائیوں سے اور ادنیٰ برائی اوروں کی برائیوں سے بھاری سمجھی جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔




وَاتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ ءالِهَةً لِيَكونوا لَهُم عِزًّا {19:81}
اور پکڑ رکھا ہے لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو معبود تاکہ وہ ہوں اُنکے لئے مدد ہرگز نہیں [۹۷]
یعنی مال و اولاد سے بڑھ کر اپنے جھوٹے معبودوں کی مدد کے امیدوار ہیں کہ وہ ان کو خدا کے ہاں بڑے بڑے درجے دلائیں گے ۔ حالانکہ ہر گز ایسا ہونے والا نہیں ۔ محض سودائے خام ہے جو اپنے دماغوں میں پکا رہے ہیں۔

إِنَّ الشَّيطٰنَ لَكُم عَدُوٌّ فَاتَّخِذوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّما يَدعوا حِزبَهُ لِيَكونوا مِن أَصحٰبِ السَّعيرِ {35:6}
تحقیق شیطان تمہارا دشمن ہے سو تم بھی سمجھ رکھو اس کو دشمن وہ تو بلاتا ہے اپنے گروہ کو اسی واسطے کے ہوں دوزخ والوں میں [۹]
یعنی قیامت آنی ہے اور یقینًا سب کو اللہ تعالیٰ کی بڑی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس دنیا کی ٹیپ ٹاپ اور فانی عیش و بہار پر نہ پھولو۔ اور اس مشہور دغاباز شیطان کے دھوکہ میں مت آؤ۔ وہ تمہارا ازلی دشمن ہے۔ کبھی اچھا مشورہ نہ دے گا۔ یہ ہی کوشش کرے گا کہ اپنے ساتھ تم کو بھی دوزخ میں پہنچا کر چھوڑے طرح طرح کی باتیں بنا کر خدا اور آخرت کی طرف سے غافل کرتا رہے گا۔ چاہئے کہ تم دشمن کو دشمن سمجھو اس کی بات نہ مانو۔ اس پرثابت کر دو کہ ہم تیری مکاری کے جال میں پھنسنے والے نہیں۔ خوب سمجھتے ہیں کہ تو دوستی کے لباس میں بھی دشمنی کرتا ہے۔



فَإِذا رَكِبوا فِى الفُلكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ فَلَمّا نَجّىٰهُم إِلَى البَرِّ إِذا هُم يُشرِكونَ {29:65}
پھر جب سوار ہوئے کشتی میں پکارنے لگے اللہ کو خالص اسی پر رکھ کر اعتقاد پھر جب بچا لایا انکو زمین کی طرف اسی وقت لگے شریک بنانے

لِيَكفُروا بِما ءاتَينٰهُم وَلِيَتَمَتَّعوا ۖ فَسَوفَ يَعلَمونَ {29:66}
تاکہ مکرتے رہیں ہمارے دیے ہوئے سے اور مزے اڑاتے رہیں سو عنقریب جان لیں گے [۱۰۱]
یعنی چاہئے تو یہ تھا کہ آدمی دنیا کے مزوں میں پڑ کر خدا کو اور آخرت کو فراموش نہ کرے۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب کشتی طوفان میں گھر جائے تو بڑی عقیدت مندی سے اللہ کو پکارتے ہیں۔ پھر جہاں آفت اس سے ٹلی اور خشکی پر قدم رکھا، اللہ کے احسانوں سے مکر کر جھوٹے دیوتاؤں کو پکارنا شروع کر دیا۔ گویا غرض یہ ہوئی کہ اللہ کی نعمتوں کا کفران کرتے رہیں اور دنیا کے مزے اڑاتے رہیں۔ خیر بہتر ہے۔ چند روز دل کے ارمان نکال لیں، عنقریب پتہ چل جائے گاکہ اس بغاوت و شرارت، احسان فراموشی اور ناسپاسی کا نتیجہ کیا ہے۔








إِنَّ الَّذينَ كَفَروا يُنفِقونَ أَموٰلَهُم لِيَصُدّوا عَن سَبيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقونَها ثُمَّ تَكونُ عَلَيهِم حَسرَةً ثُمَّ يُغلَبونَ ۗ وَالَّذينَ كَفَروا إِلىٰ جَهَنَّمَ يُحشَرونَ {8:36}
بیشک جو لوگ کافر ہیں وہ خرچ کرتے ہیں اپنے مال تاکہ روکیں اللہ کی راہ سے [۳۱] سو ابھی اور خرچ کریں گے پھر آخر ہو گا وہ ان پر افسوس اور آخر مغلوب ہوں گے اور جو کافر ہیں وہ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے [۳۲]
بدر میں بارہ سرداروں نے ایک ایک دن اپنے ذمہ لیا تھا کہ ہر روز ایک شخص لشکر کو کھانا کھلائے گا۔ چنانچہ دس اونٹ روزانہ کسی ایک کی طرف سے ذبح کئے جاتے تھے۔ پھر جب شکست ہو گئ تو ہزیمت خوردہ مجمع نے مکہ پہنچ کر ابو سفیان وغیرہ سے کہا کہ جو مال تجارتی قافلہ لایا ہے۔ وہ سب محمد  سے انتقام لینے میں صرف کیا جائے۔ چنانچہ سب اس پر راضی ہو گئے۔ اسی طرح کے خرچ کرنے کا یہاں ذکر ہے۔
جب دنیا میں مغلوب و مقہور اور آخرت میں معذب ہوں گے تب افسوس و حسرت سے ہاتھ کاٹیں گے کہ مال بھی گیا اور کامیابی بھی نہ ہوئی۔ چنانچہ اول بدر میں پھر احد وغیرہ میں سب مالی اور جسمی طاقتیں خرچ کر دیکھیں کچھ نہ کر سکے آخر ہلاک یا رسوا ہوئے یا نادم ہو کر کفر سے توبہ کی۔

لِيَميزَ اللَّهُ الخَبيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجعَلَ الخَبيثَ بَعضَهُ عَلىٰ بَعضٍ فَيَركُمَهُ جَميعًا فَيَجعَلَهُ فى جَهَنَّمَ ۚ أُولٰئِكَ هُمُ الخٰسِرونَ {8:37}
تاکہ جدا کر دے اللہ ناپاک کو پاک سے اور رکھے ناپاک کو ایک کو ایک پر پھر اس کو ڈھیر کر دے اکٹھا پھر ڈالدے اسکو دوزخ میں [۳۳] وہی لوگ ہیں نقصان میں [۳۴]
یعنی دنیوی و اخروی دونوں قسم کا نقصان اور خسارہ اٹھایا۔
موضح القرآن میں ہے کہ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اسلام کو غالب کرے گا۔ اس درمیان میں کافر اپنا جان و مال کا زور خرچ کر لیں گے۔ تا نیک و بد جدا ہو جاوے۔ یعنی جن کی قسمت میں اسلام لکھا ہے وہ سب مسلمان ہو چکیں اور جن کو کفر پر مرنا ہے وہی اکٹھے دوزخ میں جائیں۔




وَكَذٰلِكَ جَعَلنا فى كُلِّ قَريَةٍ أَكٰبِرَ مُجرِميها لِيَمكُروا فيها ۖ وَما يَمكُرونَ إِلّا بِأَنفُسِهِم وَما يَشعُرونَ {6:123}
اور اسی طرح کئے ہیں ہم نے ہر بستی میں گنہگاروں کے سردار کہ حیلے کیا کریں وہاں اور جو حیلہ کرتے ہیں سو اپنی ہی جان پر اور نہیں سوچتے [۱۶۸]
یعنی کچھ آج روسائے مکہ ہی نہیں ہمیشہ کافروں کے سردار حیلےنکالتے رہے ہیں تاکہ عوام الناس پیغمبروں کے مطیع نہ ہوجائیں۔ جیسے فرعون نے معجزہ دیکھا تو حیلہ نکالا کہ سحر کے زور سےسلطنت لینا چاہتا ہے۔ لیکن ان کے یہ حیلے اور داؤ پیچ بحمد اللہ پکے ایمانداروں پر نہیں چلتے حیلہ کرنے والے اپنی عاقبت خراب کر کے خود اپنا ہی نقصان کرتے ہیں جس کا احساس انہیں اس وقت نہیں ہوتا۔





وَمِن حَيثُ خَرَجتَ فَوَلِّ وَجهَكَ شَطرَ المَسجِدِ الحَرامِ ۚ وَحَيثُ ما كُنتُم فَوَلّوا وُجوهَكُم شَطرَهُ لِئَلّا يَكونَ لِلنّاسِ عَلَيكُم حُجَّةٌ إِلَّا الَّذينَ ظَلَموا مِنهُم فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونى وَلِأُتِمَّ نِعمَتى عَلَيكُم وَلَعَلَّكُم تَهتَدونَ {2:150}
اور جہاں سے تو نکلے منہ کر اپنا مسجدالحرام کی طرف اور جس جگہ تم ہوا کرو منہ کرو اسی کی طرف [۲۱۳] تاکہ نہ رہے لوگوں کو تم سے جگھڑنے کا موقع مگر جو ان میں بے انصاف ہیں سو ان سے [یعنی انکے اعتراضوں سے] مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو [۲۱۴] اور اس واسطے کہ کامل کروں تم پر فضل اپنا اور تاکہ تم پاؤ راہ سیدھی [۲۱۵]
یعنی یہ قبلہ ہم نے تمہارے لئے اس واسطے مقرر فرمایا کہ دشمنوں کے طعن سے بچو اور اس کے سبب سے ہمارے انعام و اکرام و برکات و انوار اور ہدایت کے پورے مستحق ہو۔
یعنی کعبہ کو منہ کرنے کا حکم اس واسطے ہوا کہ توریت میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اور نبی آخرالزماں کو بھی اسی کی طرف منہ پھیرنے کا حکم ہو جائے گا تو آپ کو تحویل الی الکعبہ کا حکم نہ ہوتا تو یہود ضرور الزام لگاتے ادھر مشرکین مکہ یہ کہتے کہ حضرت ابراہیمؑ کا قبلہ تو کعبہ تھا یہ نبی ملت ابراہیمی کا دعویٰ کر کے پھر قبلہ میں خلاف کیوں کرتے ہیں تو آپ دونوں کو حجت کرنے کا حق نہ رہا۔ مگر بےانصاف اب بھی کچھ نہ کچھ الزام لگائے ہی جائیں گے مثلًا قریش کہیں گے کہ ان کو ہمارے قبلہ کا حق ہونا اب معلوم ہوا تو اس کو اختیار کیا اسی طرح ہمارے اور احکام بھی رفتہ رفتہ منظور کر لیں گے اور یہود کہیں گے ہمارے قبلہ کی حقانیت ظاہر ہونے اور تسلیم کر لینے کے بعد محض حسد اور نفسانیت کے باعث اپنی رائے سے اس کو چھوڑ دیا تو ایسے بےانصافوں کے اعتراض کی کچھ پرواہ مت کرو اور ہمارے حکم کے تابع رہو۔
تحویل قبلہ کا حکم مکرر یا تو اس واسطے بیان فرمایا کہ اس کی علل متعدد تھیں تو ہر علت کو بتلانے کے لئے اس حکم کا اعادہ فرمایا { قَدْنَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ } الخ سے معلوم ہوا کہ اپنے رسول کی رضا جوئی اور اظہار تکریم کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا اور { لِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا } سے معلوم ہوا کہ عادت اللہ یہی ہے کہ ہر ملت اور ہر ایک رسول صاحب شریعت مستقل کے لئے اس کے مناسب ایک قبلہ مقرر ہونا چاہئے { لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ } سے معلوم ہوا کہ حکم مذکور کی علت یہ ہے کہ مخالف کا الزام عائد نہ ہو سکے یا اس تکرار کی یہ وجہ ہے کہ اول تو قبلہ قابل اہتمام دوسرے احکام الہٰیہ میں نسخ ہونا بےوقوفوں کے سمجھ سے باہر پھر تحویل قبلہ اول نسخ ہے جو شریعت محمدی میں ظاہر ہوا اس لئے اس کی تاکید در تاکید عین حکمت و بلاغت ہے یا یہ وجہ ہے کہ اول آیت میں تعمیم احوال اور دوسری آیت میں تعمیم امکنہ اور تیسری میں تعمیم ازمنہ مراد ہے۔

رُسُلًا مُبَشِّرينَ وَمُنذِرينَ لِئَلّا يَكونَ لِلنّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعدَ الرُّسُلِ ۚ وَكانَ اللَّهُ عَزيزًا حَكيمًا {4:165}
بھیجے پیغمبر خوشخبری اور ڈر سنانے والے تاکہ باقی نہ رہے لوگوں کو اللہ پر الزام کا موقع رسولوں کے بعد اور اللہ زبردست ہے حکمت والا [۲۲۸]
اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو برابر بھیجا کہ مومنین کو خوشخبری سنائیں اور کافروں کو ڈرائیں تاکہ لوگوں کو قیامت کے دن اس عذر کی جگہ نہ رہے کہ ہم کو تیری مرضی اور غیر مرضی معلوم نہ تھی معلوم ہوتی تو ضرور اس پر چلتے سو جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو معجزے دے کر بھیجا اور پیغمبروں نے راہ حق بتلائی تو اب دین حق کے قبول نہ کرنے میں کسی کا کوئی عذر نہیں سنا جا سکتا۔ وحی الہٰی ایسی قطعی حجت ہے کہ اس کے روبرو کوئی حجت نہیں چل سکتی بلکہ سب حجتیں قطع ہو جاتی ہیں اور یہ اللہ کی حکمت اور تدبیر ہے اور زبردستی کرے تو کون روک سکتا ہے مگر اس کو پسند نہیں۔

لِئَلّا يَعلَمَ أَهلُ الكِتٰبِ أَلّا يَقدِرونَ عَلىٰ شَيءٍ مِن فَضلِ اللَّهِ ۙ وَأَنَّ الفَضلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤتيهِ مَن يَشاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الفَضلِ العَظيمِ {57:29}
تا کہ نہ جانیں کتاب والے کہ پا نہیں سکتے کوئی چیز اللہ کے فضل میں سے اور یہ کہ بزرگی اللہ کے ہاتھ ہے دیتا ہے جسکو چاہے اور اللہ کا فضل بڑا ہے [۵۵]
یعنی اہل کتاب پہلے پیغمبروں کے احوال سن کر پچتاتے کہ افسوس ہم ان سے دور پڑ گئے۔ ہم کو وہ درجے ملنے محال ہیں جو نبیوں کی صحبت سے حاصل ہوتے ہیں۔ سو یہ رسول، اللہ نے کھڑا کیا، اسکی صحبت میں پہلے سے دونا کمال اور بزرگی مل سکتی ہے۔ اور اللہ کا فضل بند نہیں ہو گیا۔ (تنبیہ) حضرت شاہ صاحبؒ نے آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے۔ لیکن اکثر سلف سے یہ منقول ہے یہ یہاں { لِئَلَّا یَعْلَمَ } بمعنی { لِکَیْ یَعْلَمَ } کے ہے۔ یعنی تاکہ جان لیں ۔ اہل کتاب (جو ایمان نہیں لائے) کہ وہ دسترس نہیں رکھتے اللہ کے فضل پر۔ اور فضل صرف اللہ کے ہاتھ ہے جس پر چاہے کر دے۔ چنانچہ اہل کتاب میں سے جو خاتم الانبیاء پر ایمان لائے ان پر یہ فضل کر دیا کہ انکو دگنا اجر ملتا ہے اور گذشتہ خطاؤں کی معافی اور روشنی مرحمت ہوتی ہے۔ اور جو ایمان نہیں لائے وہ ان انعامات سے محروم ہیں۔ تم سورۃ الحدید فللّٰہ الحمد والمنہ۔














قَيِّمًا لِيُنذِرَ بَأسًا شَديدًا مِن لَدُنهُ وَيُبَشِّرَ المُؤمِنينَ الَّذينَ يَعمَلونَ الصّٰلِحٰتِ أَنَّ لَهُم أَجرًا حَسَنًا {18:2}
ٹھیک اتاری تاکہ ڈر سنا دےایک سخت آفت کا اللہ کی طرف سے [۲] اور خوشخبری دے ایمان لانے والوں کو جو کرتے ہیں نیکیاں کہ ان کے لئے اچھا بدلہ ہے
یعنی تکذیب کرنے والوں پر جو سخت آفت دنیا یا آخرت میں خداوند قہار کی طرف سے آنے والی ہے اس سے یہ کتاب آگاہ کرتی ہے۔ (تنبیہ) قیماً کو بعض نے بمعنی "مستقیم" لے کر محض مضمون سابق کی تاکید قرار دی ہے۔ یعنی کتنا ہی غور کرو ایک بال برابر کجی نہیں پاؤ گے ۔ مگر فرّاء نے اس لفظ کے معنی کئے ہیں { قَیِّمًا عَلٰی سَائِرِ الکُتُب السَّمَاویۃ } یعنی تمام کتب سماویہ کی صحت و تصدیق پر مہر کرنے والی اور ان کی اصولی تعلیمات کو دنیا میں قائم رکھنے والی" ابو مسلم نے کہا { قَیِّمًا بِمَصَالِحِ الْعِبَادِ } بندوں کی تمام مصالح کی متکفل اور ان کی معاش و معاد کو درست کرنے والی" بہرحال جو معنے بھی لئے جائیں اس کی صداقت میں شبہ نہیں۔

لِيُنذِرَ مَن كانَ حَيًّا وَيَحِقَّ القَولُ عَلَى الكٰفِرينَ {36:70}
تاکہ ڈر سنائے اس کو جس میں جان ہو اور ثابت ہو الزام منکروں پر [۵۸]
یعنی زندہ دل آدمی قرآن سن کر اللہ سے ڈرے اور منکروں پر حجت تمام ہو۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "جن میں جان ہو یعنی نیک اثر پکڑتا ہو۔ اس کے فائدہ کو اور منکروں پر الزام اتارنے کو"۔

رَفيعُ الدَّرَجٰتِ ذُو العَرشِ يُلقِى الرّوحَ مِن أَمرِهِ عَلىٰ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ لِيُنذِرَ يَومَ التَّلاقِ {40:15}
وہی ہے اونچے درجوں والا مالک عرش کا اتارتا ہے بھید کی بات اپنے حکم سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں [۱۹] تاکہ وہ ڈرائے ملاقات کے دن سے [۲۰]
بھید کی بات سے وحی مراد ہے جو اول انبیاء علیہم السلام پر اترتی ہے اور ان کے ذریعے سے دوسرے بندوں کو پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ قیامت تک اسی طرح پہنچتی رہے گی۔
یعنی جس دن تمام اولین و آخرین مل کر اللہ تعالیٰ کی پیشی میں حاضر ہوں گے اور ہر ایک شخص اپنے اچھے یا برے عمل سے ملاقات کرے گا۔

وَمِن قَبلِهِ كِتٰبُ موسىٰ إِمامًا وَرَحمَةً ۚ وَهٰذا كِتٰبٌ مُصَدِّقٌ لِسانًا عَرَبِيًّا لِيُنذِرَ الَّذينَ ظَلَموا وَبُشرىٰ لِلمُحسِنينَ {46:12}
اور اس سے پہلے کتاب موسٰی کی تھی راہ ڈالنے والی اور حمت اور یہ کتاب ہے اسکی تصدیق کرتی [۱۷] عربی زبان میں تاکہ ڈر سنائے گنہگاروں کو اور خوشخبری نیکی والوں کو
یعنی یہ پرانا جھوٹ نہیں، بلکہ بہت پرانا سچ ہے۔ نزول قرآن سے سینکڑوں برس پہلے تورات نے بھی اصولی تعلیم یہ ہی دی تھی جسکی انبیاء و اولیاء اقتداء کرتے رہے۔ اور اس نے پیچھے آنے والی نسلوں کے لئے اپنی تعلیمات و بشارات سے راستی و ہدایت کی راہ ڈال دی اور رحمت کے دروازے کھول دیے اب قرآن اترا تو اسکو سچا ثابت کرتا ہوا۔ غرض دونوں کتابیں ایکدوسرے کی تصدیق کرتی ہیں اور یہ ہی حال دوسری کتب سماویہ کا ہے۔




إِذ أَنتُم بِالعُدوَةِ الدُّنيا وَهُم بِالعُدوَةِ القُصوىٰ وَالرَّكبُ أَسفَلَ مِنكُم ۚ وَلَو تَواعَدتُم لَاختَلَفتُم فِى الميعٰدِ ۙ وَلٰكِن لِيَقضِىَ اللَّهُ أَمرًا كانَ مَفعولًا لِيَهلِكَ مَن هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحيىٰ مَن حَىَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَميعٌ عَليمٌ {8:42}
جس وقت تم تھے ورلے کنارہ پر اور وہ پرلے کنارہ پر [۴۴] اور قافلہ نیچے اتر گیا تھا تم سے [۴۵] اور اگر تم آپس میں وعدہ کرتےتو نہ پہنچتے وعدہ پر ایک ساتھ [۴۶] لیکن اللہ کو کر ڈالنا تھا ایک کام کو جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ مرے جس کو مرنا ہے قیام حجت کےبعد اور جیوے جس کو جینا ہے قیام حجت کے بعد [۴۷] اور بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے [۴۸]
یعنی اللہ کمزور مظلوموں کی فریاد سننے والا ہے اور جانتا ہے کہ کس طریقہ سے ان کی مدد کی جائے۔ دیکھو بدر میں مسلمانوں کی فریاد کیسی سنی اور کیسی مدد فرمائی۔
یعنی قریش اپنے قافلہ کی مدد کو آئے تھے اور تم قافلہ پر حملہ کرنے کو ، قافلہ بچ گیا اور دو فوجیں ایک میدان کے دو کناروں پر آ پڑیں ایک کو دوسرے کی خبر نہیں۔ یہ تدبیر اللہ کی تھی۔ اگر تم قصدًا جاتے تو ایسا بروقت نہ پہنچتے اور اس فتح کے بعد کافروں پر صدق پیغمبر کا کھل گیا۔ جو مرا وہ بھی یقین جان کر مرا اور جیتا رہا وہ بھی حق پہچان کر تا اللہ کا الزام پورا ہو۔ کذا فی الموضح۔ اور ممکن ہے مرنے اور جینے سے کفر و ایمان مراد ہوں یعنی اب جو ایمان لائے اور جو کفر پر جما رہے دونوں کا ایمان یا کفر وضوح حق کے بعد ہو۔
یعنی اگر فریقین پہلے سے لڑائی کا کوئی وقت ٹھہرا کر جانا چاہتے تو ممکن تھا اس میں اختلاف ہوتا یا وعدہ کے وقت پہنچنے میں ایک فریق پس و پیش کرتا۔ کیونکہ ادھر مسلمان کفار کی تعداد اور ظاہری سازوسامان سے خائف تھے۔ ادھر کفار مسلمانوں کی حقانیت، خدا پرستی اور بےجگری سے مرعوب رہتے تھے دونوں کو جنگ کی ذمہ داری لینے یا شرکت کرنے میں تردد اور تقاعد ہو سکتا تھا۔
یعنی ابوسفیان کا تجارتی قافلہ نیچے کی طرف ہٹ کو سمندر کے کنارےکنارے جا رہا تھا۔ قافلہ اور مسلمانوں کے درمیان قریش کی فوج حائل ہو چکی تھی۔
"ورلے کنارے" سے مراد میدان جنگ کی وہ جانب ہے جو مدینہ طیبہ سے قریب تھی۔ اسی طرح "پرلا کنارہ" وہ ہو گا جو مدینہ سے بعید تھا۔





إِنَّ الَّذينَ يَتلونَ كِتٰبَ اللَّهِ وَأَقامُوا الصَّلوٰةَ وَأَنفَقوا مِمّا رَزَقنٰهُم سِرًّا وَعَلانِيَةً يَرجونَ تِجٰرَةً لَن تَبورَ {35:29}
جو لوگ پڑھتے ہیں کتاب اللہ کی اور سیدھی کرتے ہیں نماز اور خرچ کرتے ہیں کچھ ہمارا دیا ہوا چھپے اور کھلے امیدوار ہیں ایک بیوپار کے جس میں ٹوٹا نہ ہو [۳۸]
یعنی جو اللہ سے ڈر کر اس کی باتوں کو مانتے اور اس کی کتاب کو عقیدت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ نیز بدنی و مالی عبادات میں کوتاہی نہیں کرتے وہ حقیقت میں ایسے زبردست بیوپار کے امیدوار ہیں جس میں خسارے اور ٹوٹے کا کوئی احتمال نہیں۔ بلاشبہ جب خدا خود ان کے اعمال کا خریدار ہو تو اس امید میں یقینًا حق بجانب ہیں۔ نقصان کا اندیشہ کسی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ از سر تا پا نفع ہی نفع ہے۔

لِيُوَفِّيَهُم أُجورَهُم وَيَزيدَهُم مِن فَضلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفورٌ شَكورٌ {35:30}
تاکہ پورا دے انکو ثواب ان کا اور زیادہ دے اپنے فضل سے تحقیق وہ ہے بخشنے والا قدر دان [۳۹]
یعنی بہت سے گناہ معاف فرماتا ہے اور تھوڑی سے طاعت کی قدر کرتا ہے اور ضابطہ سے جو ثواب ملنا چاہئے بطور بخشش اس سے زیادہ دیتا ہے۔



وَجٰهِدوا فِى اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ ۚ هُوَ اجتَبىٰكُم وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ ۚ مِلَّةَ أَبيكُم إِبرٰهيمَ ۚ هُوَ سَمّىٰكُمُ المُسلِمينَ مِن قَبلُ وَفى هٰذا لِيَكونَ الرَّسولُ شَهيدًا عَلَيكُم وَتَكونوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ ۚ فَأَقيمُوا الصَّلوٰةَ وَءاتُوا الزَّكوٰةَ وَاعتَصِموا بِاللَّهِ هُوَ مَولىٰكُم ۖ فَنِعمَ المَولىٰ وَنِعمَ النَّصيرُ {22:78}
اور محنت کرو اللہ کے واسطے جیسی کہ چاہئے اُسکے واسطے محنت [۱۱۵] اس نے تم کو پسند کیا [۱۱۶] اور نہیں رکھی تم پر دین میں کچھ مشکل [۱۱۷] دین تمہارے باپ ابراہیم کا [۱۱۸] اُسی نے نام رکھا تمہارا مسلمان پہلے سے اور اس قرآن میں [۱۱۹] تاکہ رسول ہو بتانے والا تم پر اور تم ہو بتانے والے لوگوں پر [۱۲۰] سو قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ اور مضبوط پکڑو اللہ کو وہ تمہارا مالک ہے سو خوب مالک ہے اور خوب مددگار [۱۲۱]
اپنے نفس کو درست رکھنے اور دنیا کو درستی پر لانے کے لئے پوری محنت کرو جو اتنے بڑے اہم مقصد کے شایان شان ہو۔ آخر دنیوی مقاصد میں کامیابی کے لئے کتنی محنتیں اٹھاتے ہو۔ یہ تو دین کا اور آخرت کی دائمی کامیابی کا راستہ ہے جس میں جس قدر محنت برداشت کی جائے انصافًا تھوڑی ہے (تنبیہ) لفظ "مجاہدہ" میں ہر قسم کی زبانی، قلمی، مالی، بدنی کوشش شامل ہے اور "جہاد" کی تمام قسمیں (جہاد مع النفس، جہاد مع الشیطان، جہاد مع الکفار، جہاد مع البغاۃ جہاد مع المبطلین) اسکے نیچے مندرج ہیں۔
دین میں کوئی ایسی مشکل نہیں رکھی جس کا اٹھانا کٹھن ہو۔ احکام میں ہر طرح کی رخصتوں اور سہولتوں کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ تم خود اپنے اوپر ایک آسان چیز کو مشکل بنا لو۔
یعنی اللہ نے پہلے کتابوں میں اور اس قرآن میں تمہارا نام { مُسْلِمْ } رکھا (جس کے معنی حکمبردار اور وفا شعار کے ہیں) ابراہیمؑ نے پہلےتمہارا یہ نام رکھا تھا جبکہ دعا میں کہا { وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُسْلِمَۃً لَکَ } (بقرہ رکوع۱۵) اور اس قرآن میں شاید ان ہی کے مانگنے سے یہ نام پڑ اہو۔ بہرحال تمہارا نام ''مسلم'' ہے گو اور امتیں بھی مسلم تھیں مگر لقب یہ تمہارا ہی ٹھہرا ہےسو اس کی لاج رکھنی چاہئے۔
یعنی پسند کیا تم کو اس واسطے کہ تم اور امتوں کو سکھاؤ اور رسول تم کو سکھائے اور یہ امت جو سب سے پیچھے آئی یہ ہی غرض ہے کہ تمام امتوں کی غلطیاں درست کرے اور سب کو سیدھی راہ بتائے۔ گویا جو مجدد شرف اس کو ملا ہے اسی وجہ سے ہے کہ یہ دنیا کے لئے معلم اور تبلیغی جہاد کرے۔ (تنبیہ) دوسرے مفسرین نے "شہید" اور "شہداء" کو بمعنی گواہ لیا ہے۔ قیامت کے دن جب دوسری امتیں انکار کریں گی کہ پیغمبروں نے ہم کو تبلیغ نہیں کی اور پیغمبروں سے گواہ مانگے جائیں گے تو وہ امت محمدیہ کو بطور گواہ پیش کریں گے ۔ یہ امت گواہی دے گی کہ بیشک پیغمبروں نے دعوت و تبلیغ کر کے خدا کی حجت قائم کر دی تھی۔ جب سوال ہو گا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا۔ جوابدیں گے کہ ہمارے نبی نے اطلاع کی جس کی صداقت پر خدا کی محفوظ کتاب (قرآن کریم) گواہ ہے۔ گویا یہ فضل و شرف اس لئے دیا گیا کہ تم کو ایک بڑے عظیم الشان مقدمہ میں بطو معزز گواہ کے کھڑا ہونا ہے۔ لیکن تمہاری گواہی کی سماعت اور وقعت بھی تمہارے پیغمبر کےطفیل میں ہے کہ وہ تمہارا تزکیہ کریں گے۔
یعنی انعامات الہٰیہ کی قدر کرو، اپنے نام و لقب اور فضل و شرف کی لاج رکھو، اور سمجھو کہ تم بہت بڑے کام کے لئے کھڑے کئے گئے ہو۔ اس لئے اول اپنے کو نمونہ عمل بناؤ۔ نماز ، زکوٰۃ (بالفاظ دیگر بدنی و مالی عبادات) میں کوتاہی نہ ہونے پائے، ہر کام میں اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو۔ ذرا بھی قدم جادہ حق سے ادھر ادھر نہ ہو۔ اس کے فضل و رحمت پر اعتماد رکھو تمام کمزور سہارے چھوڑ دو ، تنہا اسی کو اپنا مولا اور مالک سمجھو، اس سے اچھا مالک و مددگار اور کون ملے گا؟ { رَبِّ اجْعَلْنَا مِنْ مُقِیْمِیْ الصَّلٰوۃِ وَمُؤتِی الزَّکوٰۃ وَالْمُعْتَصِمِیْنَ بِکَ وَالْمُتَوَکِّلِیْنَ عَلَیْکَ فَاَنْتَ مَوْلَانَا وَنَاصِرُنَا فَنِعْمَ الْمَوْلٰی اَنْتَ وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ }۔ تم سورۃ الحج بفضلہ ومنہ فلہ الحمد وعلیٰ نبیہ الصلوٰۃ و التسلیم۔
ابراہیمؑ چونکہ حضور  کے اجداد میں ہیں اس لئے ساری امت کے باپ ہوئے ، یا یہ مراد ہو کہ عربوں کے باپ ہیں کیونکہ اولین مخاطب قرآن کے وہ ہی تھے۔
کہ سب سے اعلیٰ و افضل پیغمبر دیا اور تمام شرائع سے اکمل شریعت عنایت کی ، تمام دنیا میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لئے تم کو چھانٹ لیا اور سب امتوں پر فضیلت بخشی۔






وَقالَ الَّذينَ كَفَروا رَبَّنا أَرِنَا الَّذَينِ أَضَلّانا مِنَ الجِنِّ وَالإِنسِ نَجعَلهُما تَحتَ أَقدامِنا لِيَكونا مِنَ الأَسفَلينَ {41:29}
اور کہیں گے وہ لوگ جو منکر ہیں اے ہمارے رب ہمکو دکھلا دے وہ دونوں جنہوں نے ہم کو بہکایا جو جن ہے اور جو آدمی کہ ہم ڈالیں انکو اپنے پاؤں کے نیچے تاکہ وہ رہیں سب سے نیچے [۴۲]
یعنی خیر ہم تو آفت میں پھنسے ہیں، لیکن آدمیوں اور جنوں میں سے جن شیطانوں نے ہم کو بہکا بہکا کر اس آفت میں گرفتار کرایا ہے ذرا انہیں ہمارےسامنے کر دیجئے کہ انکو ہم اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں۔ اور نہایت ذلت و خواری کے ساتھ جہنم کے سب سے نیچے کےطبقہ میں دھکیل دیں، تا انتقام لے کر ہمارا دل کچھ تو ٹھنڈا ہو۔







No comments:

Post a Comment