دین کے مختلف معانی ہیں:
(1) طاعت یعنی اپنے اختیار سے فرمانبرادی ہے، قرآن میں ہے :۔
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ
دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔
[سورۃ آل عمران:19]
(2) جزا یعنی بدلہ، ایک جگہ قرآن مجید میں ہے:
(2) جزا یعنی بدلہ، ایک جگہ قرآن مجید میں ہے:
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
بدلہ والے دن کا مالک ہے۔
[سورۃ الفاتحہ:4]
(3) شریعت یا طریقہ یعنی زندگی گذارنے کا اصول و ضابطہ، قرآن میں ہے:-
(3) شریعت یا طریقہ یعنی زندگی گذارنے کا اصول و ضابطہ، قرآن میں ہے:-
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ۔۔۔
اس(اللہ)نے تمہارے لیے دین کا رستہ مقرر کیا۔
[سورۃ الشوریٰ:13]
دین اور مذہب میں فرق:
بعض علماء کے نزدیک دین و مذہب میں فرق نہیں، چاہے وہ الہامی(آفاقی) ہو یا مخلوق کا بناوٹی ۔ قرآن میں ہے:- لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ [الکافرون:6] تمہارے لئے تمارا دین اور میرے لئے میرا دین(مبارک)۔
جبکہ بعض علماء کے نزدیک ’’اسلام‘‘ کو قرآن و حدیث میں مذھب نہیں ’’دین‘‘ کہا گیا ہے، اور دین ’’مکمل ضابطہِ حیات‘‘ یعنی پوری زندگی کی ابتدا سے انتہا اور اٹھنے سے سونے تک کے ہر وقت اور ہر قدم پر اپنے اختیار سے اللہ کی فرمانبردای (اسلام) کو کہتے ہے، جو صرف انفرادی ہی نہیں بلکہ اجتمائی سب کو شامل ہے.
لیکن ’’مذھب‘‘ صرف انفرادی حیثیت کے حامل چند عقائد، چند عبادات اور چند رسومات پر چلنے کا نام ہے۔ علاوہ اجتماعی معاملات، معاشرت اور سیاست(یعنی انتظام واصلاح جیسے: نکاح،کاروبار،نظامِ عدالت، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا وغیرہ)کے، یہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے دائرہ سے خارج ہیں ۔۔۔ لہٰذا دیگر مذاہب نہ کامل ومکمل ہیں، نہ الہامی ہیں اور نہ ہی قیامت تک کیلئے سب جن و انس کیلئے عالمگیر۔
[اصلاحی تقریریں:(3/48)مفتی رفیع عثمانی]
اور ابراہیم بولے کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے رستہ دکھائے گا۔
یہ عربی لفظ "ذ - ھ - ب" سے مشتق ہے، جس کی معنی جانا (چلنا)، گزرنا یا مرنا ہے، جیسے: ذھب الأمر (یعنی) ختم ہونا، ذھب على الشیٔ (یعنی) بھول جانا، ذھب به (یعنی) لے جانا، ساتھ جانا، جگہ سے ہٹانا اور اسی سے ہے: ذهبت به الخيلاء (یعنی) اس کو تکبر لے گیا یعنی اس کو اس کے مرتبہ سے گرادیا.
دین نام ہے منزل کا، اور مذاہب نام ہیں منزل کے راستوں کا۔
دین نام ہے منصوصات Statements کا، اور مذہب نام ہے اجتہادیات Interpretations,Jurisprudence کا۔
لفظ ایک ہوگا لیکن معانی ایک سے زیادہ ہوں۔ جیسے:قُرُوءٍ(سورۃ البقرۃ:228)یعنی طھر یا حیض۔
حدیث ایک ہوگی، لیکن مسئلے ایک سے زائد ہوں۔
مترادفات:
مذہب کی لغوی معنیٰ کے لحاظ سے مترادف قرآنی لفظ ’’سبیل‘‘ ہے:
(1) وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ [سورة لقمان:15] اور پیچھے چل اس کے راستے پر جو لوٹتا ہو میری طرف۔
لفظ شریعت کا مادہ ش۔ر۔ع ہے اور اس کا لغوی معنی ہے وہ سیدھا راستہ جو واضح ہو۔
[امام راغب اصفهانی، مفردات القرآن : 259]
مذکورہ آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام رازیؒ(م:606ھ) لکھتے ہیں:
فَيَجِبُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ مِنْهُ الْأُمُورَ الَّتِي لَا تَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الشَّرَائِعِ، وَهِيَ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْإِيمَانُ يُوجِبُ الْإِعْرَاضَ عَنِ الدُّنْيَا وَالْإِقْبَالَ عَلَى الْآخِرَةِ وَالسَّعْيَ فِي مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَالِاحْتِرَازَ عَنْ رَذَائِلِ الْأَحْوَالِ
ترجمہ:
ضروری ہے کہ یہاں دین سے مراد وہ بنیادی عقائد ہوں جو شرائع کے اختلاف کے ساتھ متغیر نہیں ہوتے ۔ اور وہ اللہ پر ، اُس کے فرشتوں پر ، اُس کے کتابوں پر اُس کے رسولوں پر اور روز ِ آخرت پر ایمان ہے ۔ یہ ایمان دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر پیدا کر دیتا ہے ۔ اور اچھے اخلاق کی ترغیب اور برے اخلاق سے اجتناب کا درس دیتا ہے۔
[تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير:27 / 587 ، سورة الشورى:آیۃ13]
ابن منظور نے لسان العرب میں اس کے اصطلاحی معنی یہ بیان کیے ہیں :
من سَنَّ اﷲ من الدّين للعباد وامر به.
’’بندوں کے لئے زندگی گزارنے کا وہ طریقہ جسے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا اور بندوں کو اس پر چلنے کا حکم دیا(جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰہ اور جملہ اعمال صالحہ)۔‘‘
[ابن منظور، لسان العرب، 8 : 175]
لغت کی کتاب ’’مختار الصحاح‘‘ میں شریعت کے اصطلاحی معنی یہ درج ہیں :
’’شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بطور ضابطہ حیات جاری فرمائے ہیں۔‘‘
[ عبدالقادر الرازی، مختار الصحاح : 473]
اس سے معلوم ہوا کہ شرع اور شریعت سے مراد دین کے وہ معاملات و احکامات ہیں جو اللہ نے بندوں کے لئے بیان فرما دیے اور جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ ضابطہ حیات سے ثابت ہیں۔ شریعت سے اوامر و نواہی، حلال و حرام، فرض، واجب، مستحب، مکروہ، جائز و ناجائز اور سزا و جزا کا ایک جامع نظام استوار ہوتا ہے۔ شریعت ثواب و عذاب، حساب و کتاب کا علم ہے۔ شریعت کے اعمال دین کے اندر ظاہری ڈھانچے اور جسم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دین اور مذہب میں فرق:
بعض علماء کے نزدیک دین و مذہب میں فرق نہیں، چاہے وہ الہامی(آفاقی) ہو یا مخلوق کا بناوٹی ۔ قرآن میں ہے:- لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ [الکافرون:6] تمہارے لئے تمارا دین اور میرے لئے میرا دین(مبارک)۔
جبکہ بعض علماء کے نزدیک ’’اسلام‘‘ کو قرآن و حدیث میں مذھب نہیں ’’دین‘‘ کہا گیا ہے، اور دین ’’مکمل ضابطہِ حیات‘‘ یعنی پوری زندگی کی ابتدا سے انتہا اور اٹھنے سے سونے تک کے ہر وقت اور ہر قدم پر اپنے اختیار سے اللہ کی فرمانبردای (اسلام) کو کہتے ہے، جو صرف انفرادی ہی نہیں بلکہ اجتمائی سب کو شامل ہے.
لیکن ’’مذھب‘‘ صرف انفرادی حیثیت کے حامل چند عقائد، چند عبادات اور چند رسومات پر چلنے کا نام ہے۔ علاوہ اجتماعی معاملات، معاشرت اور سیاست(یعنی انتظام واصلاح جیسے: نکاح،کاروبار،نظامِ عدالت، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا وغیرہ)کے، یہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے دائرہ سے خارج ہیں ۔۔۔ لہٰذا دیگر مذاہب نہ کامل ومکمل ہیں، نہ الہامی ہیں اور نہ ہی قیامت تک کیلئے سب جن و انس کیلئے عالمگیر۔
[اصلاحی تقریریں:(3/48)مفتی رفیع عثمانی]
مذھب کی لغوی و اصطلاحی معنی:
مذھب کی لغوی معنی ’طریقہ،راستہ‘ ہے، یعنی جس پر چلا جاۓ.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقالَ إِنّى ذاهِبٌ إِلىٰ رَبّى سَيَهدينِ [سورۃ الصافات:99]اور ابراہیم بولے کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے رستہ دکھائے گا۔
یہ عربی لفظ "ذ - ھ - ب" سے مشتق ہے، جس کی معنی جانا (چلنا)، گزرنا یا مرنا ہے، جیسے: ذھب الأمر (یعنی) ختم ہونا، ذھب على الشیٔ (یعنی) بھول جانا، ذھب به (یعنی) لے جانا، ساتھ جانا، جگہ سے ہٹانا اور اسی سے ہے: ذهبت به الخيلاء (یعنی) اس کو تکبر لے گیا یعنی اس کو اس کے مرتبہ سے گرادیا.
اسی لئے ائمہ اسلام(علمائے حدیث وفقہ)کی اصطلاح میں لفظ مذھب "راۓ یا مسلک" کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
مذہب کی اصطلاحی معنیٰ:
اسلام کو مذہب نہ قرآن میں کہا گیا، نہ حدیث میں نبی،کسی صحابی یا امام نے استعمال فرمایا ہے۔ بلکہ مذہب سے معنیٰ رائے یا طریقہ فرمایا ہے۔ اصولِ حدیث سکھاتے ہوئے امام مسلمؒ(م261هـ) لکھتے ہیں:
مذہب کی اصطلاحی معنیٰ:
اسلام کو مذہب نہ قرآن میں کہا گیا، نہ حدیث میں نبی،کسی صحابی یا امام نے استعمال فرمایا ہے۔ بلکہ مذہب سے معنیٰ رائے یا طریقہ فرمایا ہے۔ اصولِ حدیث سکھاتے ہوئے امام مسلمؒ(م261هـ) لکھتے ہیں:
«قَدْ شَرَحْنَا مِنْ مَذْهَبِ الْحَدِيثِ وَأَهْلِهِ بَعْضَ مَا يَتَوَجَّهُ بِهِ مَنْ أَرَادَ سَبِيلَ الْقَوْمِ»
ترجمہ:
یقینا ہم نے تشریح کردی ہے حدیث اور اس کے اہل (یعنی علمائے حدیث) کے مذھب (طریقہ و راۓ) کی تاکہ اس کی جانب وہ شخص (جو اصولِ روایتِ حدیث سے ناواقف ہے) متوجہ ہو سکے جو (اس) قوم (محدثین) کی سبیل (راستہ) اختیار کرنا چاہتا ہے۔
یقینا ہم نے تشریح کردی ہے حدیث اور اس کے اہل (یعنی علمائے حدیث) کے مذھب (طریقہ و راۓ) کی تاکہ اس کی جانب وہ شخص (جو اصولِ روایتِ حدیث سے ناواقف ہے) متوجہ ہو سکے جو (اس) قوم (محدثین) کی سبیل (راستہ) اختیار کرنا چاہتا ہے۔
[صحیح مسلم: مقدمہ مسلم ، حدیث نمبر 1 : قابلِ اعتماد لوگوں سے روایت کرنے کے وجوب اور جھوٹے لوگوں کی روایات کے ترک میں]
مَذْهَبَ الْعُلَمَاءِ [صحیح مسلم:1/ 34] یعنی علماء کی رائے، کیونکہ عامی(بےعلم)کی رائے معتبر نہیں ہوتی۔
لہٰذامَذْهَبَ الْعُلَمَاءِ [صحیح مسلم:1/ 34] یعنی علماء کی رائے، کیونکہ عامی(بےعلم)کی رائے معتبر نہیں ہوتی۔
دین نام ہے منزل کا، اور مذاہب نام ہیں منزل کے راستوں کا۔
دین نام ہے منصوصات Statements کا، اور مذہب نام ہے اجتہادیات Interpretations,Jurisprudence کا۔
لفظ ایک ہوگا لیکن معانی ایک سے زیادہ ہوں۔ جیسے:قُرُوءٍ(سورۃ البقرۃ:228)یعنی طھر یا حیض۔
حدیث ایک ہوگی، لیکن مسئلے ایک سے زائد ہوں۔
مترادفات:
سبیل / طريقہ / مسلک / نظریہ / راۓ
مذہب کی لغوی معنیٰ کے لحاظ سے مترادف قرآنی لفظ ’’سبیل‘‘ ہے:
(1) وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ [سورة لقمان:15] اور پیچھے چل اس کے راستے پر جو لوٹتا ہو میری طرف۔
یعنی
ذکر وعلمِ الٰہی کی طرف لوٹتا رہتا ہو، یعنی عالم ہو اور فرائض پر پابند ہو، اس کے راستے کی اتباع وتقلید جائز ہے۔ کیونکہ جاہل اور نافرمان قابلِ اعتماد نہیں۔
(2) اور (اے پیغمبر ! اہل مکہ سے کہو کہ مجھ پر) یہ (وحی بھی آئی ہے) کہ : اگر یہ لوگ طریقے(راستے) پر آکر سیدھے ہوجائیں تو ہم انہیں وافر مقدار میں پانی سے سیراب کریں۔[سورۃ الجن:16]
(3) عربی لفظ سلک یعنی چلنا [سورۃ النحل:19، نوح:20] اور جس پر چلا جائے اسے مسلک کہتے ہیں۔
(2) اور (اے پیغمبر ! اہل مکہ سے کہو کہ مجھ پر) یہ (وحی بھی آئی ہے) کہ : اگر یہ لوگ طریقے(راستے) پر آکر سیدھے ہوجائیں تو ہم انہیں وافر مقدار میں پانی سے سیراب کریں۔[سورۃ الجن:16]
(3) عربی لفظ سلک یعنی چلنا [سورۃ النحل:19، نوح:20] اور جس پر چلا جائے اسے مسلک کہتے ہیں۔
احادیث میں لفظ مذهب کا استعمال:
1) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّةِ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ أَبِي بَكْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا ، قَالَ أَحْمَدُ : مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ ، يَقُولُ : لَا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَهْرُ رَمَضَانَ وَذُو الْحِجَّةِ ، إِنْ نَقَصَ أَحَدُهُمَا تَمَّ الْآخَرُ ، وقَالَ إِسْحَاق : مَعْنَاهُ لَا يَنْقُصَانِ ، يَقُولُ : وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ ، وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاق يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّهْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ .
ترجمہ :
ابوبکرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے (یعنی دونوں ٢٩ دن کے نہیں ہوتے)"۔
امام ترمذیؒ(م279هـ) کہتے ہیں : (۱) ابوبکرہ کی حدیث حسن ہے، (۲) یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، (۳) احمد بن حنبلؒ(م241هـ) کہتے ہیں : اس حدیث "عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے" کا مطلب یہ ہے کہ رمضان اور ذی الحجہ دونوں ایک ہی سال کے اندر کم نہیں ہوتے۔ اگر ان دونوں میں کوئی کم ہوگا یعنی ایک ٢٩ دن کا ہوگا تو دوسرا پورا یعنی تیس دن کا ہوگا، (۴) اسحاق بن راہویہؒ(م238هـ) کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ٢٩ دن کے ہوں تو بھی ثواب کے اعتبار سے کم نہ ہوں گے، اسحاق بن راہویہ کے مذہب(رائے) کے مطابق دونوں مہینے ایک سال میں کم ہوسکتے ہیں یعنی دونوں ٢٩ دن کے ہوسکتے ہیں ۔
ابوبکرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے (یعنی دونوں ٢٩ دن کے نہیں ہوتے)"۔
امام ترمذیؒ(م279هـ) کہتے ہیں : (۱) ابوبکرہ کی حدیث حسن ہے، (۲) یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، (۳) احمد بن حنبلؒ(م241هـ) کہتے ہیں : اس حدیث "عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے" کا مطلب یہ ہے کہ رمضان اور ذی الحجہ دونوں ایک ہی سال کے اندر کم نہیں ہوتے۔ اگر ان دونوں میں کوئی کم ہوگا یعنی ایک ٢٩ دن کا ہوگا تو دوسرا پورا یعنی تیس دن کا ہوگا، (۴) اسحاق بن راہویہؒ(م238هـ) کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ٢٩ دن کے ہوں تو بھی ثواب کے اعتبار سے کم نہ ہوں گے، اسحاق بن راہویہ کے مذہب(رائے) کے مطابق دونوں مہینے ایک سال میں کم ہوسکتے ہیں یعنی دونوں ٢٩ دن کے ہوسکتے ہیں ۔
2) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ بِهَذَا ، وَبِهَذَا كَانَتْ عَائِشَةُ تُفْتِي ، وَبَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَوْلُ : الشَّافِعِيِّ ، وَإِسْحَاق ، وقَالَ أَحْمَدُ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ " ، وقَالَ : إِنْ ذَهَبَ ذَاهِبٌ ، إِلَى قَوْلِ عَائِشَةَ فِي خَمْسِ رَضَعَاتٍ ، فَهُوَ مَذْهَبٌ قَوِيٌّ وَجَبُنَ عَنْهُ ، أَنْ يَقُولَ فِيهِ شَيْئًا ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ : يُحَرِّمُ قَلِيلُ الرَّضَاعِ ، وَكَثِيرُهُ إِذَا وَصَلَ إِلَى الْجَوْفِ ، وَهُوَ قَوْلُ : سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، وَالْأَوْزَاعِيِّ ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ ، وَوَكِيعٍ ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ
ترجمہ :
حضرت عائشہؓ اور بعض ازواج مطہرات کا فتوی بھی اسی پر ہے امام شافعیؒ(م204هـ) اور اسحاقؒ(م238هـ) کا بھی یہی قول ہے، اور امام احمدؒ(م241هـ) قائل ہیں اس حدیث کے جو مروی ہے نبی کریم ﷺ سے کہ ایک دو بار (دودھ) چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی کہا اگر کوئی حضرت عائشہؓ (پانچ بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہ ہونے) کے قول کو اپنائے تو یہ بھی مذهب (طریقہ/راۓ) قوی(مضبوط) ہے۔ امام احمدؒ اس مسئلے میں حکم دینے سے ڈرتے تھے۔ بعض صحابہ کرام اور تابعین فرماتے ہیں کہ کم اور زیادہ دونوں ہی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے بشرطیکہ دودھ پیٹ میں گیا ہو سفیان ثوریؒ(م161هـ)، مالکؒ(179هـ)، اوزاعیؒ(182ھ)، ابن مبارکؒ(181ھ)، وکیعؒ،(197هـ) اور اہل کوفہؒ کا یہی قول ہے۔
حضرت عائشہؓ اور بعض ازواج مطہرات کا فتوی بھی اسی پر ہے امام شافعیؒ(م204هـ) اور اسحاقؒ(م238هـ) کا بھی یہی قول ہے، اور امام احمدؒ(م241هـ) قائل ہیں اس حدیث کے جو مروی ہے نبی کریم ﷺ سے کہ ایک دو بار (دودھ) چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی کہا اگر کوئی حضرت عائشہؓ (پانچ بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہ ہونے) کے قول کو اپنائے تو یہ بھی مذهب (طریقہ/راۓ) قوی(مضبوط) ہے۔ امام احمدؒ اس مسئلے میں حکم دینے سے ڈرتے تھے۔ بعض صحابہ کرام اور تابعین فرماتے ہیں کہ کم اور زیادہ دونوں ہی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے بشرطیکہ دودھ پیٹ میں گیا ہو سفیان ثوریؒ(م161هـ)، مالکؒ(179هـ)، اوزاعیؒ(182ھ)، ابن مبارکؒ(181ھ)، وکیعؒ،(197هـ) اور اہل کوفہؒ کا یہی قول ہے۔
3) أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَغْدَادِيُّ ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ ، اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، " فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي عِدَّةِ الْمُخْتَلِعَةِ ، فَقَالَ : أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ ، إِنَّ عِدَّةَ الْمُخْتَلِعَةِ عِدَّةُ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثُ حِيَضٍ ، وَهُوَ قَوْلُ : سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ ، وَإِسْحَاق ، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ ، إِنَّ عِدَّةَ الْمُخْتَلِعَةِ حَيْضَةٌ ، قَالَ إِسْحَاق : وَإِنْ ذَهَبَ ذَاهِبٌ إِلَى هَذَا فَهُوَ مَذْهَبٌ قَوِيٌّ .
ترجمہ : حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ثابت بن قیس کی بیوی نے اپنے شوہر سے خلع لیا تو نبی ﷺ نے انہیں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ خلع لینے والی عورت کی عدت کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس کی عدت بھی مطلقہ کی طرح ہے۔ ثوری، اہل کوفہ، کا یہی قول ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک خلع لینے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ اسحاق فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اس راستہ کو جاۓ (مسلک پر عمل کرے) تو یہی مذھب (مسلک /طریقہ /راۓ) قوی ہے۔
4) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا ، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا " ، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَهَكَذَا رُوِيَ ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ , وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ فِي فَرَسٍ بَعْدَ مَا تَبَايَعَا ، وَكَانُوا فِي سَفِينَةٍ ، فَقَالَ : لَا أَرَاكُمَا افْتَرَقْتُمَا ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا " . وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ ، إِلَى أَنَّ الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ ، وَهُوَ قَوْلُ : سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ . وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ ، أَنَّهُ قَالَ : كَيْفَ أَرُدُّ هَذَا ؟ وَالْحَدِيثُ فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحِيحٌ وَقَوَّى هَذَا الْمَذْهَبَ ، وَمَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِلَّا بَيْعَ الْخِيَارِ " مَعْنَاهُ : أَنْ يُخَيِّرَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِيَ بَعْدَ إِيجَابِ الْبَيْعِ ، فَإِذَا خَيَّرَهُ فَاخْتَارَ الْبَيْعَ ، فَلَيْسَ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ ذَلِكَ فِي فَسْخِ الْبَيْعِ ، وَإِنْ لَمْ يَتَفَرَّقَا هَكَذَا فَسَّرَهُ الشَّافِعِيُّ ، وَغَيْرُهُ ، وَمِمَّا يُقَوِّي قَوْلَ : مَنْ يَقُولُ الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ ، لَا بِالْكَلَامِ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
ترجمہ :
حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "فروخت کرنے والے خریدنے والے کو جدا ہونے تک اختیار ہے پس اگر ان لوگوں نے بیع میں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تو ان کی بیع میں برکت دے دی گئی لیکن اگر انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا تو اس بیع سے برکت اٹھالی گئی۔" یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں حضرت ابوبرزہؓ، عبداللہ بن عمروؓ، سمرہؓ، ابوہریرہؓ، اور ابن عباسؓ سے بھی روایت ہے۔ حضرت ابن عمرؓ کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔ بعض صحابہ کرام اور دیگر علماء کا اسی پر عمل ہے۔ امام شافعیؒ، احمدؒ، اور اسحاقؒ کا بھی یہی قول ہے کہ جدائی سے مراد جسموں کی جدائی ہے نہ بات کی۔ بعض اہل علم نے اسے کلام کے اختتام پر محمول کیا ہے۔ لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لیے کہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرنے والے راوی وہ خود ہیں اور وہ اپنی نقل کی ہوئی حدیث کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ ابن عمرؓ سے ہی منقول ہے کہ وہ بیع کا ارادہ کرتے تو اٹھ کر چل دیتے تاکہ اختیار باقی نہ رہے۔ حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ ان کے پاس دو شخص ایک گھوڑے کی خرید و فروخت کے متعلق فیصلہ کرانے کے لیے حاضر ہوئے جس کی بیع کشتی میں ہوئی تھی، تو ابوبرزہؓ نے فرمایا: تمہیں اختیار ہے اس لیے کہ کشتی میں سفر کرنے والے جدا نہیں ہوسکتے اور نبی کریم ﷺ نے جدائی کو اختیار کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ بعض اہل علم کا مسلک یہی ہے کہ اس سے مراد افتراق بالکلام ہے اہلِ کوفہ، ثوریؒ، اور امام مالکؒ کا بھی یہی قول ہے۔ ابن مبارکؒ کہتے ہیں کہ جسموں کے افتراق کا مذہب زیادہ قوی ہے، کیونکہ اس میں نبی ﷺ سے صحیح حدیث منقول ہے، نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے معنیٰ یہ ہیں کہ فروخت کرنے والا خریدنے والے کو اختیار دے لیکن اگر اس اختیار دینے کے بعد خریدنے والے نے بیع کو اختیار کرلیا تو پھر خریدنے والے کا اختیار ختم ہوگیا خواہ جدا ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں۔ امام شافعیؒ اور کئی اہلِ علم حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی حدیث کی یہی تفسیر کرتے ہیں کہ اس سے مراد افتراق ابدان (یعنی جسموں کا جدا ہونا ہے) ۔
حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "فروخت کرنے والے خریدنے والے کو جدا ہونے تک اختیار ہے پس اگر ان لوگوں نے بیع میں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تو ان کی بیع میں برکت دے دی گئی لیکن اگر انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا تو اس بیع سے برکت اٹھالی گئی۔" یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں حضرت ابوبرزہؓ، عبداللہ بن عمروؓ، سمرہؓ، ابوہریرہؓ، اور ابن عباسؓ سے بھی روایت ہے۔ حضرت ابن عمرؓ کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔ بعض صحابہ کرام اور دیگر علماء کا اسی پر عمل ہے۔ امام شافعیؒ، احمدؒ، اور اسحاقؒ کا بھی یہی قول ہے کہ جدائی سے مراد جسموں کی جدائی ہے نہ بات کی۔ بعض اہل علم نے اسے کلام کے اختتام پر محمول کیا ہے۔ لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لیے کہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرنے والے راوی وہ خود ہیں اور وہ اپنی نقل کی ہوئی حدیث کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ ابن عمرؓ سے ہی منقول ہے کہ وہ بیع کا ارادہ کرتے تو اٹھ کر چل دیتے تاکہ اختیار باقی نہ رہے۔ حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ ان کے پاس دو شخص ایک گھوڑے کی خرید و فروخت کے متعلق فیصلہ کرانے کے لیے حاضر ہوئے جس کی بیع کشتی میں ہوئی تھی، تو ابوبرزہؓ نے فرمایا: تمہیں اختیار ہے اس لیے کہ کشتی میں سفر کرنے والے جدا نہیں ہوسکتے اور نبی کریم ﷺ نے جدائی کو اختیار کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ بعض اہل علم کا مسلک یہی ہے کہ اس سے مراد افتراق بالکلام ہے اہلِ کوفہ، ثوریؒ، اور امام مالکؒ کا بھی یہی قول ہے۔ ابن مبارکؒ کہتے ہیں کہ جسموں کے افتراق کا مذہب زیادہ قوی ہے، کیونکہ اس میں نبی ﷺ سے صحیح حدیث منقول ہے، نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے معنیٰ یہ ہیں کہ فروخت کرنے والا خریدنے والے کو اختیار دے لیکن اگر اس اختیار دینے کے بعد خریدنے والے نے بیع کو اختیار کرلیا تو پھر خریدنے والے کا اختیار ختم ہوگیا خواہ جدا ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں۔ امام شافعیؒ اور کئی اہلِ علم حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی حدیث کی یہی تفسیر کرتے ہیں کہ اس سے مراد افتراق ابدان (یعنی جسموں کا جدا ہونا ہے) ۔
5) وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِوَايَاتٌ كَثِيرَةٌ مِثْلُ هَذَا مَا يُذْكَرُ فِيهِ أَمْرُ الرُّؤْيَةِ أَنَّ النَّاسَ يَرَوْنَ رَبَّهُمْ ، وَذِكْرُ الْقَدَمِ وَمَا أَشْبَهَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ وَالْمَذْهَبُ فِي هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الْأَئِمَّةِ ، مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ ، وَابْنِ عُيَيْنَةَ ، وَوَكِيعٍ ، وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُمْ رَوَوْا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ ، ثُمَّ قَالُوا : تُرْوَى هَذِهِ الْأَحَادِيثُ وَنُؤْمِنُ بِهَا ، وَلَا يُقَالُ : كَيْفَ ؟ وَهَذَا الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْحَدِيثِ أَنْ تُرْوَى هَذِهِ الْأَشْيَاءُ كَمَا جَاءَتْ ، وَيُؤْمَنُ بِهَا وَلَا تُفَسَّرُ وَلَا تُتَوَهَّمُ وَلَا يُقَالُ كَيْفَ ، وَهَذَا أَمْرُ أَهْلِ الْعِلْمِ الَّذِي اخْتَارُوهُ وَذَهَبُوا إِلَيْهِ ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ فِي الْحَدِيثِ فَيُعَرِّفُهُمْ نَفْسَهُ يَعْنِي يَتَجَلَّى لَهُمْ .
ترجمہ :
اور آپ ﷺ سے بہت سی احادیث منقول ہیں جن میں دیدارِ الہی کا ذکر ہے کہ لوگ اپنے پروردگار کو اس طرح دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے قدم اور اس جیسی دوسری باتوں کے بارے میں سفیان ثوریؒ، مالک بن انسؒ، سفیان بن عیینہؒ، ابن مبارکؒ اور وکیعؒ وغیرہم کا مذہب یہ ہے کہ ان کا ذکر جائز ہے۔ وہ فرماتے ہیں ہم ان احادیث کو روایت کرتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں، البتہ ان کی کیفیت کے بارے میں بات نہ کی جائے۔ محدثین نے بھی یہی (مذہب) اختیار کیا ہے کہ ہم ان سب چیزوں پر اسی طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح یہ مذکور ہیں۔ ان کی تفسیر نہیں کی جاتی نہ ہی وہم کیا جاتا ہے اور اسی طرح ان کی کیفیت بھی نہیں پوچھی جاتی اور یہ بات کہ وہ ان کو پہچان کر آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر اپنی تجلی ظاہر کرے گا۔
***************************************
دین و شریعت میں فرق:
انبیاء کا دین(عقائد) ایک[سورۃ الانبیاء:25، الشوریٰ:13]،
لیکن
شریعت(احکام) اور منہاج(طریقے) مختلف رہے ہیں۔
[سورۃ المائدۃ:48]
اسی طرح امام قرطبیؒ(م671ھ) اور امام ابن العربیؒ(م543ھ) نے مذکورہ آیتِ منهاج کے ذیل میں لکھا ہے :
فَكَانَ الْمَعْنَى أَوْصَيْنَاكَ يَا مُحَمَّدُ وَنُوحًا دِينًا وَاحِدًا، يَعْنِي فِي الْأُصُولِ الَّتِي لَا تَخْتَلِفُ فِيهَا الشَّرِيعَةُ۔
ترجمہ:
مذکورہ آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ اے محمد ﷺ! ہم نے آپ ؑ اور نوح ؑ کو ایک دین کا حکم دیا اس سے مراد وہ اصول ہیں جو کسی بھی شریعت میں تبدیل نہ ہوئے۔
[أحكام القرآن لابن العربي:4 /89 ، تفسير القرطبي:16 /11]
اسی طرح امام بغویؒ (م510ھ) نے لکھا ہے :
وَأَرَادَ بِهَذَا أَنَّ الشَّرَائِعَ مُخْتَلِفَةٌ، وَلِكُلِّ أَهْلِ مِلَّةٍ شَرِيعَةٌ، قَالَ قَتَادَةُ: الْخِطَابُ لِلْأُمَمِ الثَّلَاثِ أُمَّةِ مُوسَى وَأُمَّةِ عِيسَى وَأُمِّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِمْ أجمعين، فالتوراة شريعة والإنجيل شريعة والقرآن شَرِيعَةٌ، وَالدِّينُ وَاحِدٌ وَهُوَ التَّوْحِيدُ۔
ترجمہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ شرائع مختلف ہیں اور ہر اہل ملۃ کے لیے ایک شریعت ہے ۔ امام قتادہ نے فرمایا کہ یہاں خطاب تین امتوں امت موسیٰؑ ،امت عیسیٰؑ اور امت محمدﷺکوہے۔ پس توراۃ ایک شریعت ہے ، انجیل دوسری شریعت ہے اور قرآن تیسری شریعت ہے ،اور دین ایک ہے جو کہ توحید ہے۔
[تفسير البغوي:3 / 66، سورۃ المائدۃ:49، ناشر-دار طيبة]
اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے:
«أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَالْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ {وَلَيْسَ بَيْنَنَا نَبِيٌّ.}
ترجمہ:
میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ ابن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں ، انبیاء سب ایک باپ کی اولاد ہیں ، اگرچہ ان کی مائیں مختلف ہیں ، لیکن دین سب کا ایک ہے۔
[صحیح البخاری:3443]
{نہیں ہے ہم دونوں کے درمیان کوئی نبی۔}
[صحيح مسلم:2365، صحيح ابن حبان:6194]
مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینیؒ (م855ھ) نے لکھا ہے:
أصُول الدّين وأصول الطَّاعَات وَاحِد، والكيفيات والكميات فِي الطَّاعَة مُخْتَلفَة.
ترجمہ:
دین و اطاعت کے اصول ایک جیسے ہیں اور اطاعت کی مقدار و معیار مختلف ہیں۔
[عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری: حدیث نمبر 3443، دار إحياء التراث العربي،بيروت]
مَثَلاً:
(1) پہلے حضرت آدم و یوسف علیھما السلام کو سجدہ (تعظیمی) جائز تھا، لیکن اب حکمِ الہی سے [سورۃ النمل:25] الله کے سوا کسی مخلوق کے لئے سجدہ حرام ہے۔
(1) پہلے حضرت آدم و یوسف علیھما السلام کو سجدہ (تعظیمی) جائز تھا، لیکن اب حکمِ الہی سے [سورۃ النمل:25] الله کے سوا کسی مخلوق کے لئے سجدہ حرام ہے۔
(2) پہلے حضرت آدمؑ کی اولاد میں بہن بھائی کے نکاح جائز تھے (اس طرح کہ پہلی ولادت کے وقت جو بہن بھائی پیدا ہوتے، اس کا نکاح دوسری ولادت سے پیدا ہونے والے بہن بھائی سے کردیا جاتا.
(3) پہلے قبلہ بیت المقدس(مسجد اقصیٌٰ) تھا اور اب بیت اللہ(مسجد الحرام)۔
[سورۃ البقرۃ:142-145، الاسراء:1]
(4) حضرت سلیمانؑ کی شریعت میں تصویریں بنانے کی اجازت تھی[سورۃ سبا:13]، لیکن شریعتِ محمدی میں "جاندار کی تصویر بنانا" ممنوع کردی گئی۔[بخاری:7557]
(5) پہلے عبادت صرف عبادت گاہوں میں ہی جائز تھی، مگر اب امتِ محمدیہ کے (مسافروں و مجاہدوں کے) لئے پوری زمین کو مسجد (سجدہ گاہ) کے حکم میں شامل کردی گئی۔
الله تعالیٰ نے باقضاۓ حکمت و مصلحت ہر زمانہ اور ہر امت کے احوال اور استعداد کے مناسب انبیاءِ کرام کو شریعتیں و ہدایتیں عطا فرماتے رہے، لیکن اصولِ دین اور مقصدِ کلیہ جن پر نجاتِ ابدی کا مدار ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر لفظ "دین" سے بھی تعبیر کیا ہے۔[سورۃ الانبیاء:25، الشوریٰ:13]، تمام انبیاء کا ایک ہے۔
الشرع:
الشرع:
سیدھا راستہ جو واضح ہو، یہ اصل میں ’’شرعت لہ طریقا‘‘ (یعنی واضح راستہ مقرر کرنا) کا مصدر ہے، اور بطور اسم کے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ ’’واضح راستہ‘‘ کو شرع وشرع وشریعۃ کہا جاتا ہے۔
پھر استعارہ کے طور پر طریقِ الہیہ پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [سورۃ المائدة:48] ایک دستور اور طریق اس میں دو قسم کے راستوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ ایک وہ راستہ جس پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسخر(تابع) کر رکھا ہے کہ انسان اسی راستہ پر چلتا ہے جن کا تعلق بندوں کے مصالح اور شہروں کی آبادی سے ہے، چنانچہ آیت : ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [سورۃ الزخرف:32] اور ہر ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے۔۔۔ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ دوسرا راستہ دین کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے مقرر فرما کر انہیں حکم دیا ہے کہ انسان اپنے ’’اختیار‘‘ سے اس پر چلے جس کے بیان میں شرائع کا اختلاف پایا جاتا ہے، اور اس میں نسخ ہوتا رہا اور جس پر کہ آیت : ۔ ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[سورۃ الجاثية:18] پھر ہم نے دین کے کھلے راستہ پر (قائم) کردیا تو اسی راستے پر چلے چلو ۔۔۔ دلالت کرتا ہے حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ شرعۃ وہ راستہ ہے جسے قرآن نے بیان کردیا ہے اور منھاج وہ ہے جسے سنت نے بیان کیا ہے۔ اور آیت کریمہ : ۔ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [سورۃ الشوریٰ:13] اس نے تمہارے لیے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا حکم دیا تھا ۔ میں دین کے ان اصول کی طرف اشارہ ہے جو تمام ملل میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور ان میں نسخ نہیں ہوسکتا۔ جیسے معرفتِ الہی اور وہ اُمور جن کا بیان آیت ۔ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [سورۃ النساء:136] اور جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اسکی کتابوں اور اس کے پیغمبروں سے انکار کرے۔۔۔ میں پایا جاتا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ شریعت کا لفظ ’’شریعۃ الماء‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنیٰ ’’پانی کا گھاٹ‘‘ کے ہیں اور شریعت کو شریعت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی صحیح حقیقت پر مطلع ہونے سے ’سیرابی‘ اور ’طہارت‘ حاصل ہوجاتی ہے۔ سیرابی سے مراد معرفتِ الہی کا حُصول ہے جیسا کہ بعض حکماء کا قول ہے کہ میں پیتا رہا لیکن سیر نہ ہوا ، پھر جب اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگئی تو بغیر پینے کے سیری حاصل ہوگئی۔ اور طہارت سے مراد وہ طہارت ہے جس کا ذکر کہ آیت: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [سورۃ الأحزاب:33] اے پیغمبر کے اہل خانہ! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کی میل کچیل صاف کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے میں پایا جاتا ہے۔ اور آیت کریمہ: إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [سورۃ الأعراف:163] ( یعنی ) اس وقت کہ ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ میں شرعا ، شارع کی جمع ہے۔ اور ’’شارعۃ الطریق‘‘ کی جمع ’’شوارع‘‘ آتی ہے جس کے معنی ’’کھلی سڑک‘‘ کے ہیں۔ اشرعت الرمح قبلہ میں نے اس کی جانب نیزہ سیدھا کیا ۔ بعض نے شرعتہ فھو مشروع کہا ہے اور شرعت السفینۃ کے معنی جہاز پر بادبان کھڑا کرنے کے ہیں جو اسے آگے چلاتے ہیں۔ ھم فی ھذالامر شرع ۔ یعنی وہ سب اس میں برابر ہیں۔ یعنی انہوں نے اسے ایک ہی وقت میں شروع کیا ہے اور شرعک من رجل زید بمعنی حسبک ہے یعنی زید ہی اس قابل ہے کہ تم اس کا قصد کرو یا اس کے ساتھ مل کر اپنا کام شروع کرو ۔
الشرع ۔ بریط کے وہ تار جن سے راگ شروع کیا جاتا ہے۔
[المفردات في غريب القرآن،امام راغب الاصفہانی(م502هـ) : صفحہ#450]
پھر استعارہ کے طور پر طریقِ الہیہ پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [سورۃ المائدة:48] ایک دستور اور طریق اس میں دو قسم کے راستوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ ایک وہ راستہ جس پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسخر(تابع) کر رکھا ہے کہ انسان اسی راستہ پر چلتا ہے جن کا تعلق بندوں کے مصالح اور شہروں کی آبادی سے ہے، چنانچہ آیت : ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [سورۃ الزخرف:32] اور ہر ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے۔۔۔ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ دوسرا راستہ دین کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے مقرر فرما کر انہیں حکم دیا ہے کہ انسان اپنے ’’اختیار‘‘ سے اس پر چلے جس کے بیان میں شرائع کا اختلاف پایا جاتا ہے، اور اس میں نسخ ہوتا رہا اور جس پر کہ آیت : ۔ ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[سورۃ الجاثية:18] پھر ہم نے دین کے کھلے راستہ پر (قائم) کردیا تو اسی راستے پر چلے چلو ۔۔۔ دلالت کرتا ہے حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ شرعۃ وہ راستہ ہے جسے قرآن نے بیان کردیا ہے اور منھاج وہ ہے جسے سنت نے بیان کیا ہے۔ اور آیت کریمہ : ۔ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [سورۃ الشوریٰ:13] اس نے تمہارے لیے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا حکم دیا تھا ۔ میں دین کے ان اصول کی طرف اشارہ ہے جو تمام ملل میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور ان میں نسخ نہیں ہوسکتا۔ جیسے معرفتِ الہی اور وہ اُمور جن کا بیان آیت ۔ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [سورۃ النساء:136] اور جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اسکی کتابوں اور اس کے پیغمبروں سے انکار کرے۔۔۔ میں پایا جاتا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ شریعت کا لفظ ’’شریعۃ الماء‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنیٰ ’’پانی کا گھاٹ‘‘ کے ہیں اور شریعت کو شریعت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی صحیح حقیقت پر مطلع ہونے سے ’سیرابی‘ اور ’طہارت‘ حاصل ہوجاتی ہے۔ سیرابی سے مراد معرفتِ الہی کا حُصول ہے جیسا کہ بعض حکماء کا قول ہے کہ میں پیتا رہا لیکن سیر نہ ہوا ، پھر جب اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگئی تو بغیر پینے کے سیری حاصل ہوگئی۔ اور طہارت سے مراد وہ طہارت ہے جس کا ذکر کہ آیت: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [سورۃ الأحزاب:33] اے پیغمبر کے اہل خانہ! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کی میل کچیل صاف کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے میں پایا جاتا ہے۔ اور آیت کریمہ: إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [سورۃ الأعراف:163] ( یعنی ) اس وقت کہ ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ میں شرعا ، شارع کی جمع ہے۔ اور ’’شارعۃ الطریق‘‘ کی جمع ’’شوارع‘‘ آتی ہے جس کے معنی ’’کھلی سڑک‘‘ کے ہیں۔ اشرعت الرمح قبلہ میں نے اس کی جانب نیزہ سیدھا کیا ۔ بعض نے شرعتہ فھو مشروع کہا ہے اور شرعت السفینۃ کے معنی جہاز پر بادبان کھڑا کرنے کے ہیں جو اسے آگے چلاتے ہیں۔ ھم فی ھذالامر شرع ۔ یعنی وہ سب اس میں برابر ہیں۔ یعنی انہوں نے اسے ایک ہی وقت میں شروع کیا ہے اور شرعک من رجل زید بمعنی حسبک ہے یعنی زید ہی اس قابل ہے کہ تم اس کا قصد کرو یا اس کے ساتھ مل کر اپنا کام شروع کرو ۔
الشرع ۔ بریط کے وہ تار جن سے راگ شروع کیا جاتا ہے۔
[المفردات في غريب القرآن،امام راغب الاصفہانی(م502هـ) : صفحہ#450]
اسلام، عوام میں دین و مذھب کے عنوان سے معروف و مشہور ہے. مذہب اسلام میں لفظ مذہب دین اور دھرم کے معنی میں ہے جب کہ حنفی مذہب یا شافعی مذہب میں لفظ مذہب، یہ مسلک کے معنی میں ہے، ایک ہی لفظ نسبت واضافت کے فرق سے مختلف معنی میں استعمال ہوتا ہے، ایسا عرف میں شائع وذائع ہے، لہٰذا کسی شبہ میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن آج کل بعض لوگ قرآن و حدیث کے نام پر الفاظوں کے استعمال کی الجھنوں میں عرفی و اصطلاحی معنی کے اختلاف کو ائمہ اسلام کے فقہی مذاھب کو فرقہ واریت قرار دیکر عوام کو دھوکہ دیتے انھیں اپنا پیرو (مقلد) بنانے کو اپنی سمجھ (فقہ) پر لاکر سلفِ صالحین (گزرے ہوۓ نیک) ائمہِ مجتہدین کی دینی سمجھ [سورۃ التوبہ:١٢٢] سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں. جن ائمہ اسلام نے صحابہِ رسول و تابعین سے "فقہِ دین" حاصل کی، وہ یقیناً قرآن و حدیث کی تفسیر و تشریح میں بعد کے آنے والوں کی سمجھ سے زیادہ بہتر سمجھنے والے تھے، جس کی مثال اصحابِ رسول (رضی الله انھم اجمعین) سے بھی ملتی ہے: کہ
عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّمِيمِيِّ قَالَ: خَلَا عُمَرُ ـ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ـ ذَاتَ يَوْمٍ، فَجَعَلَ يُحَدِّثُ نَفْسَهُ: كَيْفَ تَخْتَلِفُ هَذِهِ الْأُمَّةُ وَنَبِيُّهَا وَاحِدٌ؟ فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ـ فَقَالَ: كَيْفَ تَخْتَلِفُ هَذِهِ الْأُمَّةُ وَنَبِيُّهَا وَاحِدٌ وَقِبْلَتُهَا وَاحِدَةٌ ـ زَادَ سَعِيدٌ وَكِتَابُهَا وَاحِدٌ ـ قَالَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: إِنَّمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْقُرْآنُ فَقَرَأْنَاهُ، وَعَلِمْنَا فِيمَا أُنْزِلَ، وَأَنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدَنَا أَقْوَامٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَلَا يَدْرُونَ فِيمَا نَزَلَ، فَيَكُونُ لَهُمْ فِيهِ رَأْيٌ، فَإِنْ كَانَ لَهُمْ فِيهِ رَأْيٌ اخْتَلَفُوا، وَقَالَ سَعِيدٌ: فَيَكُونُ لِكُلِّ قَوْمٍ فِيهِ رَأْيٌ، فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ اخْتَلَفُوا۔
[وأخرجه عبد الرزاق في "جامع معمر" "11/ 217-218/ رقم 20368", ومن طريقه الهروي في "ذم الكلام" رقم "198"، والفسوي في "المعرفة والتاريخ" "1/ 516-517" عن علي بن بذيمة الجزري عن يزيد بن الأصم عن ابن عباس به نحوه، وإسناده صحيح]
فضائل القرآن للمُسْتَغْفِرِيُّ (المتوفى: 432هـ) : 1/303، حدیث:320
العجاب في بيان الأسباب، لابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) :1/97
التفسير من سنن سعيد بن منصور (المتوفى: 227هـ) :فَضَائِلُ الْقُرْآنِ، 1/176، حدیث:42
تفسير ابن عطية (المتوفى: 542هـ):1/12،
الاعتصام، للشاطبی(790ھ):2/691، الْبَابُ التَّاسِعُ فِي السَّبَبِ الَّذِي لِأَجْلِهِ افْتَرَقَتْ فِرَقُ الْمُبْتَدَعَةِ عَنْ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ، فَصْلُ أَسْبَابِ الْخِلَافِ رَاجِعَةٌ إِلَى الْجَهْلِ بِمَقَاصِدِ الشَّرِيعَةِ وَالتَّخَرُّصِ عَلَى مَعَانِيهَا بِالظَّنِّ مِنْ غَيْرِ تَثَبُّتٍ
الموافقات:(4/148) 3/ 348، أصول التشريع الإسلامي
والبيهقي في "الشعب" (5 / 230 - 231 رقم 2086)
والخطيب في "الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع" (2 / 194 رقم 1587)
"كنز العمال" (2 / 333 رقم 4167)]
[وأخرجه عبد الرزاق في "جامع معمر" "11/ 217-218/ رقم 20368", ومن طريقه الهروي في "ذم الكلام" رقم "198"، والفسوي في "المعرفة والتاريخ" "1/ 516-517" عن علي بن بذيمة الجزري عن يزيد بن الأصم عن ابن عباس به نحوه، وإسناده صحيح]
تخریج الحدیث:
فضائل القرآن للقاسم بن سلام (المتوفى: 224هـ):1/103فضائل القرآن للمُسْتَغْفِرِيُّ (المتوفى: 432هـ) : 1/303، حدیث:320
العجاب في بيان الأسباب، لابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) :1/97
التفسير من سنن سعيد بن منصور (المتوفى: 227هـ) :فَضَائِلُ الْقُرْآنِ، 1/176، حدیث:42
تفسير ابن عطية (المتوفى: 542هـ):1/12،
الاعتصام، للشاطبی(790ھ):2/691، الْبَابُ التَّاسِعُ فِي السَّبَبِ الَّذِي لِأَجْلِهِ افْتَرَقَتْ فِرَقُ الْمُبْتَدَعَةِ عَنْ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ، فَصْلُ أَسْبَابِ الْخِلَافِ رَاجِعَةٌ إِلَى الْجَهْلِ بِمَقَاصِدِ الشَّرِيعَةِ وَالتَّخَرُّصِ عَلَى مَعَانِيهَا بِالظَّنِّ مِنْ غَيْرِ تَثَبُّتٍ
الموافقات:(4/148) 3/ 348، أصول التشريع الإسلامي
والبيهقي في "الشعب" (5 / 230 - 231 رقم 2086)
والخطيب في "الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع" (2 / 194 رقم 1587)
"كنز العمال" (2 / 333 رقم 4167)]
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابنِ عباسؓ سے دریافت فرمایا:
"اس امت کا جب نبی ایک، قبلہ ایک، کتاب ایک تو اس میں اختلاف کیوں کر پیدا ہوگا؟"
تو حضرت ابنِ عباسؓ نے جواب دیا : "اے امیر المومنین قرآن ہمارے سامنے اترا ہے، ہم تو اس کے مواردِ نزول کو اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن آئندہ ایسے لوگ آئیںگے جو قرآن تو پڑھیں گے مگر انھیں صحیح طور پر اس کے موارد و مصادر (یعنی جس پر جو آیات وارد و صادر ہوئیں ) کا علم نہ ہوگا پھر اس میں (بےعلم ہوتے ہوۓ بھی) اپنی طرف سے راۓ زنی شروع کرینگے اور اٹکل کے تیر چلائیںگے. اس لئے ان میں اختلاف ہوجاۓ گا اور جب اختلاف ہوگا تو لڑائیاں ہوں گی. شروع میں تو اس خیال سے حضرت عمرؓ نے اتفاقِ راۓ نہ کیا لیکن غور کرنے کے بعد انھیں بھی حضرت ابنِ عباسؓ سے اتفاقِ راۓ کرنا پڑا".
دستورِ حیات:
(از مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ)
زندگی کا مکمل دستور العمل، ہدایت نامہ اور نظام زندگی، عقائد، عبادات و اخلاق اور عادات و شمائل کے بارے میں تعلیمات اور اسوہ نبوی کی ہدایت اور اصلاح و تربیت نفس کے لئے قرانی و نبوی ہدایات و تعلیمات کتاب الله اور سنّت و سیرت نبوی صلی الله عالیہ وسلم کی روشنی میں http:// islamicbookslibrary.wordpre ss.com/2011/12/10/ dastoor-e-hayat-by-shaykh-s yed-abul-hasan-ali-nadvi-r -a
اسلامی شریعت علم و عقل کی میزان میں:
فلسفہ شریعت پر اپنی نوعیت کی اولین تحقیقی کتاب جسمیں اسلامی شریعت کی برتری اور معقولیت کے ساءنسی دلاءل؛ حقیقت و ماہیت پر نیا طرز فکر؛ شریعت کی ابدیت و عالمگیریت اور بعض شبہات و اعتراضات کے مسکت تحقیقی جوابات کو موضوع بحث بناکر مولف نے خوب وضاحت کی ہے۔
The subject matter of the Book is the Philosophy of Islamic Sharia in the eyes of Knowledge and wisdom. It deals with the Nature of Sharia, its Foreverness and Universalit, which was proved By Scientific and Logical evidences.
عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح:
یہ کتاب ہر اس عزیز دوست کی خدمت میں تحفہ اور نذر ہے، جس کا عقیدہ ہے کہ ہر حال میں رضاۓ الہی کا حصول، زندگی میں کتاب و سنّت پر عمل اور آخرت میں جنّت کی یافت اور جہنّم سے نجات ہی مقصودِ اصلی ہے، اس کے سوا ہر طرح کی دینی جدوجہد، (مسلم) جماعتوں اور قیادتوں کی تشکیل، نظامِ معاشرت اور حکومتوں کی اصلاح کی کوشش محض ذرائع و وسائل ہیں، جو اس مقصد کے حصول اور اسلامی ترقی و سربلندی کے لئے اختیار کے جاتے ہیں، اس لئے شخصیتوں سے اس کی محبت و وابستگی محض الله کے لئے ہوتی ہے اور تحریکوں اور تنظیموں کے کام میں اس کی دلچسپی و سرگرمی محض دینی حمیت و حمایت (نہ کہ جاہلی و گروہی عصبیت) پر مبنی ہوتی ہے.
یہ کتاب ہر اس شخص کے پیشِ خدمت ہے، جس کا ایمان ہے کہ خدا کی نعمتوں میں سے (جو وہ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے) ایک ہی مخصوص نعمت ہے، جو ایک برگزیدہ ہستی پر ختم ہوئی ہے، وہ "نبوت" کی نعمت ہے، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہوگئی. باقی دوسری تمام نعمتیں باقی اور جاری و ساری ہیں، جیسے علمی تبحر کی نعمت، ذہنِ سلیم اور فکرِ رسا کی نعمت، صحت و وسعتِ تحقیق کی نعمت، ان میں سے کسی پر کسی کی اجارہ داری نہیں، اور نہ وہ کسی انسان پر ختم ہوچکی ہے. وما كان عطاء ربك محظورا (اور تمہارے پروردگار کی بخشش (کسی سے) رکی ہوئی نہیں=١٧:٢٠)
یہ کتاب ان لوگوں کی خدمت میں ہدیہ ہے جو"خوب سے خوبتر"، "زیبا سے زیباتر" کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان کو بہتر چیز کے حاصل کرنے اور ایضاحِ حق اور اتمامِ حجت کے بعد اس کو قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللھ عنہ نے ایک فرمان میں ارشاد فرمایا کہ: "اصل حق ہے، کسی وقت بھی اس کی طرف رجوع کرلینا نہ شرم کی بات ہے نہ کوئی انوکھا اور نرالہ کام".
یہ کتاب ایسے لوگوں کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ نقد و احتساب کا حق ایک مشترک حق ہے، جس سے ہر ایک کام لے سکتا ہے، اور اس سے کسی صاحبِ علم و نظر کو محروم نہیں کیا جاسکتا، صحتمند تنقید اور منصفانہ اظھارِ خیال پر بلدیہ کا بے لچک قانون (one way traffic) "سواریاں صرف جائیں اور آئیں نہیں" لاگو نہیں ہوسکتا.
یہ کتاب ایسے حضرات کی خدمت میں پیش ہے جو کسی کتاب کو اسے پوری طرح پڑھے اور سمجھے بغیر حکم نہیں لگاتے اور نہ منصف کی طرف سے حملہ اور اس کے مقصد کی طرف سے بدگمانی میں جلدبازی سے کام لیتے ہیں.
وصدق الله العظيم
فَبَشِّرۡ عِبَادِ الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰىہُمُ اللّٰہُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ (الزمر:٣٩/١٨)
تو میرے بندوں کو بشارت (خوشخبري) سنا دو۔ جو بات کو غور سے سنتے ہیں پھر سب سے اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنکو اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں۔
پیشِ نظر کتاب ایک علمی و اصولی تبصرہ و جائزہ ہے، وہ نہ مناظرانہ انداز میں لکھی گئی ہے، نہ فقہ و فتاویٰ کی زبان میں، وہ ایک اندیشہ کا اظھار ہے اور "الدین النصيحة" (دین تو خیرخواہی کا نام ہے) کے حکم پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوشش، اس کی کوئی نہ سیاسی غرض ہے نہ جماعتی مقصد. اس ناخوشگوار کام کو محض عنداللہ مسؤلیت و شہادتِ حق کے خیال سے انجام دیا گیا ہے. جو لوگ دین کی سنجیدہ اور مخلصانہ خدمات کرنا چاہتے ہیں، ان میں طلبِ حق کی سچی جستجو اور اپنی دینی ترقی و تکمیل کا جذبہِ صادق پایا جاتا ہے، انہوں نے ہمیشہ صحتمند اور تعمیری تنقید اور مخلصانہ مشورہ کی قدر کی ہے اور فکر و سعیِ اسلامی کی طویل تاریخ میں دین کی صحیح فہم و تفہیم اور اسلام کی سیانت و حفاظت میں اس سے ہمیشہ مدد لی گئی ہے.
No comments:
Post a Comment