Saturday, 30 March 2013

شیطان کا تعارف، کام، ارادے وخواہش، اولاد اور مددگار



علوم قرآن والتفسیر کے امام الراغب الاصفہانیؒ(م502ھ) لکھتے ہیں:

شطن
(1)اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنیٰ دور ہونے کے ہیں۔ اور بئر شَطُونٌ (یعنی بہت گہرا کنواں) ، اور شطنت الدار(یعنی گھر کا دور ہونا)، اور غربة شَطُونٌ (یعنی بطن سے دوری) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں۔
(2)بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنیٰ غصہ سے جلنے سوختہ ہوجانے کے ہیں۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت:۔
وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ 
اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا۔
[سورۃ الرحمن:15]
سے معلوم ہوتا ہے۔
(3)ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سرکش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے۔
قرآن میں ہے:۔
شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ
شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو
[سورۃ الأنعام:112]

[المفردات في غريب القرآن: صفحہ454]






ابلیس ( ب ل س )
الابلاس (افعال) کے معنیٰ سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغموم ہوا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے۔
قرآن میں ہے:
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ
اور جس دن قیامت برپا ہوگی گنہگار مایوس ومغموم ہوجائیں گے۔
[سورۃ الروم:12]
أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ
تو ہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے۔
[سورۃ الأنعام:44]
وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ
اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے۔
[سورۃ الروم:49]
اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنیٰ خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے کے ہیں۔
[المفردات في غريب القرآن: صفحہ143]







Thursday, 21 March 2013

اسلامی ضابطہ اخبار

مقدمہ :
شرع میں تحریر کا حکم بمنزلہ تقریر کے ہے، اور مطالعہ کا حکم اِسْتِماع(
یعنی سننے) کے جیسا ہے، جس چیز کا تلفظ و تکلم اور استماع (یعنی کہنا اور سننا) گناہ ہے اس کا لکھنا، چھاپنا اور مطالعہ کرنا بھی گناہ ہے۔ معلوم کرنا چاہیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دین سے کم واقف یا بعض بلکل ناواقف ہوتے ہیں، اس لئے مختصراً اسلامی ضابطہِ اخبار کے چند اصولی و بنیادی تعلیمات بیان کی جاتی ہیں.


”صحافت“ عربی زبان کا لفظ ہے۔ صاحب [معجم الوسیط: صفحہ508] پر صحافت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس میں خبروں اور آراء کو جمع کرکے اخبار یا رسائل میں نشر کیا جاتا ہے۔ اس پیشہ کے ساتھ منسلک شخص کو صحافی کہا جاتا ہے۔



خبر کی تحقیق کیسے کریں؟
خبریں جاننے پھیلانے سے پہلے 3 باتوں کی تحقیق کریں؟
خبر دینے والے سے پوچھا کریں کہ۔۔۔
(1)کیا آپ کو (آنکھوں دیکھا) یقین ہے کہ وہ بات سچ ہے؟
(2)کیا وہ بات خیر/نیکی کی ہے؟
(3)کیا وہ بات اصلاح/برائی سے روکنے کی ہے؟
اگر نہیں تو سننے کی کیا ضرورت؟؟؟
جھوٹی، بری یا نقصاندہ خبر پھیلانا فساد اور گناہِ جاریہ کا سبب ہے۔



خبروں کو پھیلانے سے پہلے، یہ ضروری ہے کہ ان کی تصدیق کی جائے اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔

خبر پھیلانے چاہیں:

1. *صحیح اور قابل اعتماد ذرائع سے* آنے والی خبریں۔

2. *عوام کی بہبود اور فائدے* سے متعلق خبریں۔

3. *تعلیم اور آگاہی* کے مقاصد کے لیے خبریں۔

4. *حقیقت اور انصاف* کو فروغ دینے والی خبریں۔


خبر نہیں پھیلانی چاہیں:

1. *غلط یا بے بنیاد* خبریں

2. *افواہیں اور بے اساس الزامات:

3. *نفرت اور تقسیم:* کو فروغ دینے والی خبریں۔

4. *نازک اور ذاتی معلومات:* جو کسی کی پرائیویسی یا ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

خبروں کو پھیلانے سے پہلے، ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ آیا یہ خبر نیکی اور دوسروں کی بہتری اور نفع کا سبب بنے گی یا نقصان اور فساد (لڑائی)  کا۔








Monday, 18 March 2013

ایصالِ ثواب کے دلائل، اقسام، احکام اور چہل حدیث

ایصال کا مادہ وصل یعنی جوڑنا، پہنچانا ہے۔
[المصباح:909]



امام مسلم اپنی کتاب "صحیح مسلم" میں لکھتے ہیں:

باب: میت کی طرف سے ایصالِ ثواب کا بیان

بَاب وُصُولِ ثَوَابِ الصَّدَقَةِ عَنْ الْمَيِّتِ إِلَيْهِ

صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۱۶/ حدیث مرفوع

٢٣١٦۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسَهَا وَلَمْ تُوصِ وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ أَفَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ۔

٢٣١٦۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، ہشام، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہؐ! میری والدہ بغیر وصیت کے فوت ہوگئی ہے اور میرا گمان ہے اگر وہ بات کرتی تو وہ صدقہ کرتی، اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کو ثواب ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں!۔





Sunday, 17 March 2013

اسلام میں فتویٰ کی اہمیت و ضرورت

فتویٰ کے معنیٰ کسی سوال کا جواب دینا ہے۔ سوال پوچھنے والے کو مُستفتی اور سوال کا جواب دینے والے کو مُفتی کہتے ہیں۔

فتویٰ ان ہی مسائل میں لیا جاتا ہے جو غیرمعلوم، غیرمشہور، غیرواضح، باریک وگہری سمجھ سے نکالے گئے جدید(وقت کی)ضرورتوں پر مبنی ہوں۔ لہٰذا دین کے موٹے معلوم ومشہور اور واضح شدہ عقائد یا غیرضروری فرضی مسائل میں مفتی سے فتویٰ لینا یا دینا صحیح نہیں۔

فتویٰ کا قرآن مجید سے ثبوت:
لوگ (اے پیغمبر!) تم سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا تم کو ان کے (ساتھ نکاح کرنے کے) معاملے میں اجازت دیتا ہے اور جو حکم اس کتاب میں پہلے دیا گیا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہے جن کو تم ان کا حق تو دیتے نہیں اور خواہش رکھتے ہو کہ ان کے ساتھ نکاح کرلو اور (نیز) بیچارے بیکس بچوں کے بارے میں۔ اور یہ (بھی حکم دیتا ہے) کہ یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو۔ اور جو بھلائی تم کرو گے خدا اس کو جانتا ہے.
[سورۃ النساء : 127]

حدود الله اور تعزیرات میں فرق

حدود "حد" کی جمع ہے اور حد کے اصل معنی ہیں ممنوع  یا حائل،[المنجد : ١٤٠] تو واضح ہوگا کہ شرعی سزاؤں کو " حدود " اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ سزائیں بندوں کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہیں اور ان کا خوف انسان اور جرم کے درمیان حائل رہتا۔

القرآن : 
تِلكَ حُدودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسولَهُ يُدخِلهُ جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها ۚ وَذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ {4:13}
ترجمہ :
یہ حدیں باندھی ہوئی اللہ کی ہیں اور جو کوئی حکم پر چلے اللہ کے اور سول کے اس کو داخل کرے گا جنتوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں ہمیشہ رہیں گے ان میں اور یہ ہے بڑی مراد ملنی۔



وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدودَهُ يُدخِلهُ نارًا خٰلِدًا فيها وَلَهُ عَذابٌ مُهينٌ {4:14}
ترجمہ :
اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اسکے رسول کی اور نکل جاوے اس کی حدوں سے ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہے گا اس میں اور اس کے لئے 
ذلت کا عذاب ہے۔

....وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ....
ترجمہ :
....اور یہ حدیں ہیں باندھی ہوئی اللہ کی اور جو کوئی بڑھے اللہ کی حدوں سے تو اُس نے برا کیا اپنا...
{65:1}




"حدود اللہ" محارم کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
 تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَقرَبوها...[٢/١٨٧]
(یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ کی سو انکے نزدیک نہ جاؤ). 
اسی طرح مقادیر شرعی یعنی مقرر فرمودہ ضابطے اور قاعدے (یعنی تین طلاقوں کا مقرر ہونا، حقوق یتامٰی اور وصیت اور میراث وغیرہ) کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 
تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَعتَدوها...[٢/٢٢٩]
(یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں سو ان سے آگے مت بڑھو
اور دوسری جگہ  حقوق یتامٰی اور وصیت اور میراث پر فرمایا :
وَيَتَعَدَّ حُدودَهُ يُدخِلهُ نارًا{4:14}
(اور وہ نکل جاوے اس کی حدوں سے تو وہ ڈالے گا اس کو آگ میں) لیکن واضح رہے کہ ان دونوں میں بھی " حدود" کا اطلاق اصل معنی " ممنوع " ہی کے اعتبار سے ہے کہ محارم کی قربت (یعنی ان سے نکاح وخلوت ) بھی ممنوع ہے اور مقادیر شرعی سے تجاوز کرنا بھی ممنوع ہے۔

Friday, 15 March 2013

ناسخ و منسوخ کا بیان

القرآن : مَا نَنسَخْ مِنْ ءَايَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍۢ مِّنْهَآ أَوْ مِثْلِهَآ ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ {2:106} 
ترجمہ : جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اسکے برابر کیا تجھکو معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے.


توضیح : یہ بھی یہود کا طعن تھا کہ "تمہاری کتاب میں بعض آیات منسوخ ہوتی ہیں اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہوتی تو جس عیب کی وجہ سے اب منسوخ ہوئی اس عیب کی خبر کیا خدا کو پہلے سے نہ تھی؟ درحقیقت "عیب نہ پہلی بات میں تھا نہ پچھلی میں لیکن حاکم مناسب وقت دیکھ کر جو چاہے حکم کرے اس وقت وہی مناسب تھا اور اب دوسرا حکم مناسب ہے"۔[تفسیر عثمانی]

تفسیر علامہ ابن کثیر رح : [تبدیلی یا تنسیخ۔ اللہ  تعالیٰ مختار کل ہے] 
 حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں نسخ کے معنی بدل کے ہیں مجاہد فرماتے ہیں مٹانے کے معنی ہیں جو (کبھی) لکھنے میں باقی رہتا ہے اور حکم بدل جاتا ہے حضرت ابن مسعود کے شاگرد اور ابو العالیہ اور محمد بن کعب قرظی سے بھی اسی طرح مروی ہے ضحاک فرماتے ہیں بھلا دینے کے معنی ہیں عطا فرماتے ہیں چھوڑ دینے کے معنی ہیں سدی کہتے ہیں اٹھا لینے کے معنی ہیں جیسے آیت الشیخ والشیختہ اذا زنیا فارجمو ھما البتتہ یعنی زانی مرد و عورت کو سنگسار کر دیا کرو اور جیسے آیت (لو کان لابن ادم و ادیان من ذھب لابتغی لھما ثالثا یعنی ابن آدم کو اگر دو جنگل سونے کے مل جائیں جب بھی وہ تیسرے کی جستجو میں رہے گا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ احکام میں تبدیلی ہم کر دیا کرتے ہیں حلال کو حرام، حرام کو حلال، جائز کو ناجائز، ناجائز کو جائز وغیرہ امر و نہی، روک اور رخصت، جائز اور ممنوع کاموں میں نسخ ہوتا ہے ہاں جو خبریں دی گئی ہیں واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں رد و بدل و ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا، نسخ کے لفظی معنی نقل کرنے کے بھی ہیں جیسے کتاب کے ایک نسخے سے دوسرا نقل کر لینا۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم ہوتا ہے اس لئے نسخ کہتے ہیں خواہ وہ حکم کا بدل جانا ہو خواہ الفاظ کا۔ علماء اصول کی عبارتیں اس مسئلہ میں گو مختلف ہیں مگر معنی کے لحاظ سے سب قریب قریب ایک ہی ہیں۔ نسخ کے معنی کسی حکم شرعی کا پچھلی دلیل کی رو سے ہٹ جانا ہے کبھی ہلکی چیز کے بدلے بھاری اور کبھی بھاری کے بدلہ ہلکی اور کبھی کوئی بدل ہی نہیں ہوتا ہے. نسخ کے احکام اس کی قسمیں اس کی شرطیں وغیرہ ہیں اس کے لئے اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے تفصیلات کی بسط کی جگہ نہیں طبرانی میں ایک روایت ہے کہ دو شخصوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سورت یاد کی تھی اسے وہ پڑھتے رہے ایک مرتبہ رات کی نماز میں ہر چند اسے پڑھنا چاہا لیکن یاد نے ساتھ نہ دیا گھبرا کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا یہ منسوخ ہو گئی اور بھلا دی گئی دلوں میں نکال لی گئی تم غم نہ کرو بےفکر ہو جاؤ.
          حضرت زہری نون خفیفہ پیش کے ساتھ پڑھتے تھے اس کے ایک راوی سلیمان بن راقم ضعیف ہیں۔ ابو بکر انباری نے بھی دوسری سند سے اسے مرفوع روایت کیا ہے جیسے قرطبی کا کنا ہے۔ "ننسھا" کو "ننساھا" بھی پڑھا گیا ہے۔ "ننساھا" کے معنی موخر کرنے پیچھے ہٹا دینے کے ہیں۔ حضرت ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں منسوخ کرتے ہیں ابن مروی ہے ہم اسے موخر کرتے ہیں اور ملتوی کرتے ہیں عطیہ عوفی کہتے ہیں ۔ یعنی منسوخ نہیں کرتے. سدی اور ربیع بھی یہی کہتے ہیں ضحاک فرماتے ہیں ناسخ کو منسوخ کے پیچھے رکھتے ہیں. ابو العالیہ کہتے ہیں اپنے پاس اسے روک لیتے ہیں. حضرت عمر نے خطبہ میں "ننسلھا" پڑھا اور اس کے معنی موخر ہونے کے بیان کئے. ننسھا جب پڑھیں تو یہ مطلب ہو گا کہ ہم اسے بھلا دیں۔ اللہ  تعالیٰ جس حکم کو اٹھا لینا چاہتا تھا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیتا تھا اس طرح وہ آیت اٹھ جاتی تھی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ننسھا پڑھتے تھے تو ان سے قسم بن ربیعہ نے کہا کہ سعید بن مسیب تو ننساھا پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا سعید پر یا سعید کے خاندان پر تو قرآن نہیں اترا؟ اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے آیت (سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى) 87۔ الاعلی:6) ہم تجھے پڑھائیں گے جسے تو نہ بھولے گا اور فرماتا ہے آیت (وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ) 18۔ الکہف:24) جب بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر۔ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ حضرت علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور حضرت ابی سے زیادہ اچھے قرآن کے قاری ہیں اور ہم حضرت ابی کا قول چھوڑ دیتے ہیں اس لئے کہ حضرت ابی کہتے ہیں میں نے تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور فرماتے ہیں وما نسخ الخ یعنی ہم جو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسا (بخاری و مسند احمد) اس سے بہتر ہوتا ہے یعنی بندوں کی سہولت اور ان کے آرام کے لحاظ سے یا اس جیسا ہوتا ہے لیکن مصلحت الٰہی اس سابقہ چیز میں ہوتی ہے مخلوق میں تغیر و تبدل کرنے والا پیدائش اور حکم کا اختیار رکھنے والا۔ ایک اللہ  تعالیٰ ہی ہے جس طرح جسے چاہتا ہے بناتا ہے جسے چاہے نیک بختی دیتا ہے جسے چاہے بدبختی دیتا ہے جسے چاہے تندرستی جسے چاہے بیماری، جسے چاہے توفیق جسے چاہے بےنصیب کر دے۔ بندوں میں جو حکم چاہے جاری کرے جسے چاہے حلال جسے چاہے حرام فرما دے جسے چاہے رخصت دے جسے چاہے روک دے وہ حاکم مطلق ہے جیسے چاہے احکام جاری فرمائے کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا جو چاہے کرے کوئی اس سے باز پرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں کسی چیز کا مصلحت کی وجہ سے حکم دیا پھر مصلحت کی وجہ سے ہی اس حکم کو ہٹا دیا اب آزمائش ہوتی ہے نیک لوگ اس وقت بھی اطاعت کے لئے کمر بستہ تھے اور اب بھی ہیں لیکن بد باطن لوگ باتیں بناتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں حالانکہ تمام مخلوق کو اپنے خالق کی تمام باتیں ماننی چاہئیں اور ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے اور جو وہ کہے اسے دل سے سچا ماننا چاہئے، جو حکم دے بجا لانا چاہئے جس سے روکے رک جانا چاہئے، اس مقام پر بھی یہودیوں کا زبردست رد ہے اور ان کے کفر کا بیان ہے کہ وہ نسخ کے قائل نہ تھے بعض تو کہتے تھے اس میں عقلی محال لازم آتا ہے اور بعض نقلی محال بھی مانتے تھے. اس آیت میں گو خطاب فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر دراصل یہ کلام یہودیوں کو سنانا ہے جو انجیل کو اور قرآن کو اس وجہ سے نہیں مانتے تھے کہ ان میں بعض احکام توراۃ کے منسوخ ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان نبیوں کی نبوت کے بھی منکر ہو گئے تھے اور صرف عناد و تکبر کی بنا تھی ورنہ عقلاً نسخ محال نہیں اس لئے کہ جس طرح وہ اپنے کاموں میں با اختیار رہے اسی طرح اپنے حکموں میں بھی با اختیار رہے جو چاہے اور جب چاہے پیدا کرے جسے چاہے اور جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے رکھے۔ اسی طرح جو چاہے اور جس وقت چاہے حکم دے اس حاکموں کے حاکم کا حاکم کون؟ اسی طرح نقلاً بھی یہ ثابت شدہ امر ہے اگلی کتابوں اور پہلی شریعتوں میں موجود ہے حضرت آدم کی بیٹیاں بیٹے آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز تھا پھر اسے حرام کر دیا، نوح علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تب تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض کی حلت منسوخ ہو گئی، دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن پھر توراۃ میں اور اس کے بعد حرام ہو گیا، ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا پھر قربان کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا، بنو اسرائیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ بچھڑا پوجنے میں جو شامل تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن پھر بہت سے باقی تھے کہ یہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے، اسی طرح کے اور بہت سے واقعات موجود ہیں اور خود یہودیوں کو ان کا اقرار ہے لیکن پھر بھی قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر نہیں مانتے کہ اس سے اللہ کے کلام میں نسخ لازم آتا ہے اور وہ محال ہے، بعض لوگ جو اس کے جواب میں لفظی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس سے دلالت نہیں بدلتی اور مقصود وہی رہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت یہ لوگ اپنی کتابوں میں پاتے تھے آپ کی تابعداری کا حکم بھی دیکھتے تھی یہ بھی معلوم تھا کہ آپ کی شریعت کے مطابق جو عمل نہ ہو وہ مقبول نہیں ہو گیا یہ اور بات ہے کہ کوئی کہے کہ اگلی شریعتیں صرف آپ کے آنے تک ہی تھیں اس لئے یہ شریعت ان کی ناسخ نہیں یا کہے کہ ناسخ ہے بہر صورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس لئے کہ آپ آخری کتاب اللہ کے پاس سے ابھی ابھی لے کر آئے ہیں. پس اس آیت میں اللہ  تعالیٰ نے نسخ کے جواز کو بیان فرما کر اس ملعون گروہ یہود کا رد کیا سورۃ آل عمران میں بھی جس کے شروع میں بنی اسرائیل کو خطا کیا گیا ہے نسخ کے واقع ہونے کا ذکر موجود ہے فرماتا ہے آیت (کل الطعام) الخ یعنی سبھی کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے مگر جس چیز کو حضرت اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کی مزید تفسیر وہیں آئے گی انشاء اللہ  تعالیٰ.
       مسلمان کل کے کل متفق ہیں کہ احکام باری  تعالیٰ میں نسخ کا ہونا جائز ہے بلکہ واقع بھی ہے اور پروردگار کی حکمت بالغہ کا دستور بھی یہی ہے ابو مسلم اصبہانی مفسر نے لکھا ہے کہ قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ قول ضعیف اور مردود اور محض غلط اور جھوٹ ہے جہاں نسخ قرآن موجود ہے اس کے جانب میں گو بعض نے بہت محنت سے اس کی تردید کی ہے لیکن محض بےسود ہے، دیکھئے پہلے اس عورت کی عدت جس کا خاوند مر جائے ایک سال تھی لیکن پھر چار مہینے دس دن ہوئی اور دونوں آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں. قبلہ پہلے بیت المقدس تھا، پھر کعبتہ اللہ ہوا اور دوسری آیت صاف اور پہلا حکم بھی ضمناً مذکور ہے. پہلے کے مسلمانوں کو حکم تھا کہ ایک ایک مسلمان دس دس کافروں سے لڑے اور ان کے مقابلے سے نہ ہٹے لیکن یہ پھر حکم منسوخ کر کے دو دو کے مقابلہ میں صبر کرنے کا حکم ہوا اور دونوں آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں . پہلے حکم تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دے یا کرو پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور دونوں آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں وغیرہ واللہ اعلم۔

نوٹ : قرآن میں کچھ آیتیں ایسی ہیں جو قابل عمل نہیں منسوخ ہیں ۔جو مسلمان یہ سوچے کہ قرآن کی کچھ آیتیں صرف اس وقت کے لیے تھی اب لاگو نہیں ہوسکتی اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، پہلا مطلب قرآن کی کچھ آیات منسوخ ہوچکی ہیں، اب قابل عمل نہیں ہیں، تو ایسا سوچنا صحیح ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، دوسرا مطلب جیسا کہ بہت سے جاہل کہتے ہیں کہ قرآن کے بہت سے احکام اس وقت کے لیے تھے اب لاگو نہیں ہوسکتے حالانکہ وہ احکام منسوخ نہیں بلکہ معمول بہا ہیں تو ایسا کہنے والا سخت گمراہی میں ہے اوراس پر اندیشہٴ کفر ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن میں کوئی نسخ نہیں ہوا۔ اور نسخ صرف چند آیات میں ہوا ہے لہٰذا نسخ کے بعد صحابہٴ کرام جو قرآن پڑھا کرتے تھے آج بھی بعینہ وہی قرآن ہے۔

آیت کے نازل کرنے اور اس کے منسوخ کرنے کی متعدد حکمتیں علماء لکھتے ہیں: مثلاً ان آیات کے انزال کا مقصد فوری توضیح و تفہیم ہوتا ہے، جس کی اب ضرورت باقی نہیں ، کبھی مضمون ہولناک ہوتا ہے، بار بار کان کو اس کا سننا مناسب نہ جانا گیا، اورمنسوخ و منسی کردیا گیا وغیرہ وغیرہ (نعمت المنعم شرح الصحیح لمسلم: ۲۹۷ ملخصا)

==============================================
اصولِ حدیث : ناسخ-منسوخ احادیث کی پہچان کا طریقہ:
ذكر مسلم - رحمه الله تعالى - في هذا الباب الأحاديث الواردة بالوضوء مما مست النار ، ثم عقبها بالأحاديث الواردة بترك الوضوء مما مست النار ، فكأنه يشير إلى أن الوضوء منسوخ ، وهذه عادة مسلم وغيره من أئمة الحديث يذكرون الأحاديث التي يرونها منسوخة ، ثم يعقبونها بالناسخ .[شرح مسلم للنووي: كتاب الحيض » باب الوضوء مما مست: 2/179]

ترجمہ: امام مسلم رح اس باب میں پہلے ان احادیث کو لاۓ ہیں جن میں آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنے کا حکم ہے، پھر ان احادیث کو لاۓ ہیں جن میں آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو کرنے کے ترک (چھوڑدینے، وضو نہ کرنے) کا ذکر ہے، یہ عادت ہے امام مسلم اور ان کے علاوہ ائمہِ حدیث (حدیث کے اماموں) کی کہ پہلے وہ ان احادیث کو لاتے ہیں، جن کو وہ منسوخ سمجھتے ہیں پھر ان کو (لاتے ہیں) جو ناسخ ہوتی ہیں. [شرح مسلم للنووی : ص ١٥٦]


نوٹ : جن کتب میں صرف ایک قسم کی احادیث ہیں (مَثَلاً: صحيح بخاری) ان سے کسی کا ناسخ و منسوخ ہونا معلوم نہیں ہوگا، اس لئے ان کتب کو دیکھنا پڑے گا جن میں دونوں (منسوخ و ناسخ) قسم کی احادیث مروی ہوں. (مَثَلاً: موطا امام محمد، مصنف ابن ابی شیبہ، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن طحاوی وغیرہ، جن میں پہلے رفع یدین کرنے کی روایات لائی گئی ہیں پھر ترکِ رفع یدین کی روایات لائی گئی ہیں)
=========================

ناسخ منسوخ : جس خبر مقبول کی معارض (مخالف، مقابل) کوئی خبر مقبول ہو اور دونوں میں تطبیق (انضباط٬ ہم آہنگی) ممکن نہ ہو مگر تاریخ یا نص (قرآن و سنّت) سے اس کا تاخر ثابت ہو تو متاخر (بعد والے) کو ناسخ اور مقدم (پہلے والے) کو منسوخ کہا جاتا ہے.
اس موضوع پر لکھی گئی خاص کتابیں:
کتبِ منسوخ آیات القرآن بالحدیث :
(١) الناسخ والمنسوخ ، للقاسم بن سلام (المتوفى: 224هـ) 
(٢) الناسخ والمنسوخ ، للنحاس (المتوفى: 338هـ)
(٣) نواسخ القرآن ، لابن الجوزي (المتوفى: 597هـ) 

کتبِ احادیث الشریفہ :
(١) ناسخ الحديث ومنسوخه لابن شاهين » ابن شاهين ، سنة الوفاة : 385
(٢) الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار للحازمي » محمد بن موسى الحازمي ، سنة الوفاة : 584
(٣) إعلام العالم بعد رسوخه بناسخ الحديث ومنسوخه » أبو الفرج ابن الجوزي، سنة الوفاة : 597 
(٤) إخبار أهل الرسوخ في الفقه والتحديث بمقدار المنسوخ من الحديث » أبو الفرج ابن الجوزي، سنة الوفاة : 597
=========================
 حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کر دیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔"  (سنن دارقطنی: باب النوادر ، ١١٧١)
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 189(36588) -  کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان]
تشریح : 
 نسخ کے معنی لغت میں کسی شے کو مٹانے یا نقل و تحویل کے آتے ہیں جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ نسخت الریح اثار القوم۔ کہ ہوا نے لوگوں کے پاؤں کے نشان مٹا دیے یا اسی طرح بولتے ہیں نسخ الکتاب الی کتاب کہ ایک جگہ سے کتاب کو دوسری طرف نقل کیا۔ علماء کی اصطلاح میں نسخ اسے کہتے کہ کسی حکم شرعی کا اصلاح دین کی خاطر کسی دوسرے حکم کے ذریعہ تغیر و تبدل کیا جائے۔ یا کسی حکم کو نافذ کرنا کہ جس کے اور اس سے پیشتر کا حکم جو مقدم تھا اٹھ جائے اوّل حکم کو منسوخ اور دوسرے حکم کو ناسخ کہتے ہیں۔
نسخ کی چار قسمیں ہیں۔ (١) کتاب اللہ کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ (٢) حدیث کا نسخ حدیث کے ساتھ(۱) کتاب اللہ کا نسخ حدیث کے ساتھ(٤) حدیث کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ مثلاً پہلے کوئی حکم قرآن میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتارا گیا لیکن بعد میں کسی خاص مصلحت کی وجہ سے قرآن کی کسی دوسری آیت نے آکر اس حکم کو منسوخ کر دیا، اب اس کی بھی دو شکلیں ہوں گی، یا تو وہ آیت قرآن میں باقی رہے اور صرف تلاوت کی جاتی رہے مگر اس کا حکم کالعدم قرار دیا گیا۔ یا یہ کہ حکم کے ساتھ آیت بھی منسوخ کر دی گئی اور اسی طرح نسخ کی دوسری شکل یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو حدیث ہی کے ذریعہ منسوخ کر دیا گیا ہو،

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ بْنُ الشِّخِّيرِ ، قَالَ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْسَخُ حَدِيثُهُ بَعْضُهُ بَعْضًا ، كَمَا يَنْسَخُ الْقُرْآنُ بَعْضُهُ بَعْضًا " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْحَيْضِ » بَاب إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ، رقم الحديث: 525]
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ہماری (بعض) احادیث بعض (احادیث) کو اس طرح منسوخ کرتی ہیں جیسا کہ منسوخ کرتا ہے قرآن کا بعض حصہ بعض کو۔"

مثال: حدیث: ”إنما الماء من الماء“ (بخاري) یعنی غسل انزال سے واجب ہوگا (دلیلِ حدیث سے) باجماع امت منسوخ ہے۔ محض جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے انزال ہو یا نہ ہو۔ دليل: لما في الصحیحین من حدیث أبي ھریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”إذا جلس بین شعبھا الأربع ثم جھدھا فقد وجب الغسل أنزل أو لم ینزل وأما قولہ علیہ الصّلاة والسلام إنما الماء من الماء فمنسوخ بالإجماع وفي حاشیة مسلم: ۱۱/۲۹۶ (۸/۸۱/۳۴۳) وقد عقب الإمام مسلم علی ھذا الحدیث فروی بإسنادہ عن ابن الشخیر قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینسخ حدیثہ بعضہ بعضاً کما ینسخ القرآن بعضہ بعضاً (شامي: ج۱ ص۲۹۹،ط. زکریادیوبند، کتاب الطھارة) اور امام نووی لکھتے ہیں اعلم أنالأمة مجتمعة الآن علی وجوب الغسل بالجماع وإن لم یکن معہ إنزال (مسلم شریف: ج۱ ص۱۵۵)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " یہ حکم، غسل انزال کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ابتدائے اسلام میں آسانی کی وجہ سے تھا، پھر اسے منع فرما دیا گیا (یعنی یہ حکم منسوخ قرار دے دیا گیا۔" ( جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، دارمی)
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 421 (36820) - پاکی کا بیان : غسل کا بیان]


 تیسری شکل نسخ کی یہ ہے کہ قرآن کے کسی حکم کو حدیث کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منسوخ فرمایا ہو لیکن اس میں کسی قسم کا یہ اشکال پیدا نہیں ہو سکتا کہ حکم الہٰی کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ایک انسان ہوتا ہے کس طرح کالعدم قرار دے سکتا ہے یہ اشکال وہیں رفع ہو گیا ہے جہاں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ حدیث بظاہر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے مجموعہ کا نام ہے لیکن حقیقت میں حدیث بھی وحی من اللہ ہے(القرآن : ٥٣-النجم/ آیت: ٢-٣) فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن ایسی وحی ہے جس کی تلاوت نہیں کی جاتی اور جس کا مضمون براہ راست بار گاہ الوہیت سے اترتا ہے لیکن الفاظ رسول کے ہوتے ہیں اس صورت میں یہ حدیث متعارض نظر آئے گی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث قرآن کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اس کا جواب یہی ہوگا کہ حدیث میں لفظ کلامی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو خود رسول اللہ کی ذاتی رائے اور اجتہاد کے طریقہ پر وارد ہو، نہ کہ وہ ارشاد جو بطور وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر القاء فرمایا گیا ہے اس تاویل کے بعد یہ تعارض رفع ہو جائے گا۔ یا پھر یہ تاویل کی جائے گی کہ یہ حدیث خود منسوخ ہے لہٰذا اس سے اس کلیہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

[یہ حدیث ضعیف ہے اس حدیث کو ابن عدی نے الکامل فی ضعفاء الرجال:۲؍۶۰۲ میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت منکر ہے۔ ابن جوزی نے العلل المتناھیۃ:۱؍۱۲۵ میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے : ’’ھذا حدیث منکر‘‘ اس حدیث کے منکر ہونے کی وجہ اس کی سند میں جبرون بن واقد ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ اور ابن حجررحمہ اللہ نے (لسان المیزان:۲؍۹۴)میں متّہم اور ساقط الاعتبارکہا ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے دلیل لینا کہ سنت قرآن کی ناسخ نہیں ہوسکتی، صحیح نہیں ہے۔]

چوتھی شکل نسخ کی یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو کتاب اللہ کے ذریعہ منسوخ قرار دے دیا گیا،
قرآن شریف کی آیت: "اور جن عورتوں کے بارے میں تمہیں نافرمانی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں نصیحت کرو، اور (اگر نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو) انہیں ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دو، اور (اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہوتو) انہیں مارو معمولی مار۔ پس اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگ جائیں تو اب ان پر زیادتی کی کوئی راہ تلاش نہ کرو۔"(النساء:٣٤) کے شان نزول میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ زید بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنی لڑکی حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کردیا تھا، ان کا آپس میں کچھ اختلاف پیش آیا، شوہر نے ایک طمانچہ ماردیا، حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد سے شکایت کی، والد ان کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیدیا کہ حبیبہ کو حق حاصل ہے کہ جس زور سے سعد بن ربیع نے ان کے طمانچہ مارا ہے وہ بھی اتنی زور سے ان کے طمانچہ ماریں، یہ دونوں حکم نبوی سن کر چلے کہ اس کے مطابق سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے اپنا انتقام لیں، اسی وقت آیت مذکورہ نازل ہوگئی جس میں آخری درجہ میں مرد کے لیے عورت کی مارپیٹ کو بھی جائز قرار دیدیا ہے، اور اس پر مرد سے قصاص یا انتقام لینے کی اجازت نہیں دی۔ آیت نازل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلواکر حق تعالیٰ کا حکم سنادیا اور انتقام لینے کا پہلا حکم منسوخ فرمادیا۔ (معارف القرآن: ۲/۴۰۰)
نوٹ : قرآن شریف میں تیسری سزا یعنی مار پیٹ کی اگرچہ بدرجہ مجبوری ایک خاص انداز میں مرد کو اجازت دی گئی ہے، مگر اس کے ساتھ حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے: لَنْ يَضْرِبَ خِيَارُكُمْ [العيال » بَابُ حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا وَالثَّوَابِ ...، رقم الحديث: 484یعنی اچھے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام سے کہیں ایسا منقول نہیں۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ کسی قانون میں تبدیلی یا کسی حکم کی منسوخی دو وجہ سے ہوتی ہے اوّل تو یہ کہ قانون بناتے وقت بانی قانون سے کوئی فروگزاشت یا غلطی ہوگئی جس کی وجہ سے بعد میں اس قانون میں تبدیلی اور منسوخی ضروری قرار دی گئی۔
ظاہر ہے کہ کلام اللہ میں یہ محال ہے اس لیے کہ اللہ کی علیم و خبیر ذات کسی قسم کی غلطی، بھول چوک یا فروگزاشت سے بالکل منزّٰی و پاک و صاف ہے اس لیے جو بھی قانون بنائے گا یا جو بھی حکم دے گا وہ بالکل صحیح و کامل ہوگا اس میں کسی غلطی کا امکان بھی نہیں ہوسکتا اسی طرح رسول کے بتائے ہوئے احکام میں بھی یہ چیز نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے احکام جن کا تعلق دینی امور سے ہوتا ہے وہ براہ راست بارگاہ الوہیت سے نازل ہوئے ہیں اور دربار رسالت سے ان کا انعقاد عمل میں آتا ہے گویا وہ خود بھی احکام اللہ کے مرتبہ کے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اسی طرح حدیث کے احکام کی پیروی کرنا بھی ضروری و لازم ہے لہٰذا حدیث کے احکام میں بھی کسی حکم کی تبدیلی کا سبب یہ نہیں ہو سکتا۔ کسی قانون و حکم کی تبدیلی و منسوخی کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ محکوم کی حالت بدلنے سے مصلحت بھی بدل گئی ہے اس لیے قانون بھی بدل گیا جیسے کہ مریض کی حالت بدل جانے پر نسخہ بھی بدل دیا جاتا ہے۔
مثلاً ایک قانون بنایا گیا یا کوئی حکم دیا گیا اس وقت ماحول اس قسم کے قانون کا متقاضی تھا، یا محکوم کے ذہن مزاج اسی حکم کے لائق تھے مگر بعد میں جب ماحول میں تبدیلی آگئی، محکوم کے ذہن و مزاج بھی دوسرا رخ اختیار کر گئے تو اب بانی قانون کی مصلحت بھی بدل گئی لہٰذا اس نے محکوم اور ماحول کی بھلائی اور اصلاح کی خاطر اس سے پہلے قانون کو بدل دیا اور اس جگہ کسی دوسرے قانون کو لاگو کر دیا ظاہر ہے کہ ایسا نسخ صحیح اور جائز ہوگا اس میں کسی قسم کا کوئی عقلی و نقلی اشکال پیدا نہی ہوسکتا اور یہی تبدیلی و تفسیر اور نسخ قرآن و احادیث کے احکام میں ہوتے ہیں لہٰذا ان میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔


========================
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ آیت پڑھی، فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ( انکے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا) 2۔ البقرۃ : 184) ، اور کہا کہ یہ منسوخ ہے۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1841 - روزے کا بیان : ان لوگوں پر جو طاقت رکھتے ہیں فدیہ ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سلمہ بن اکوع نے کہا کہ اس آیت کو رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، لوگوں کے لئے ہدایت اور روشن دلیلیں ہدایت کی ہیں، اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے ۔ اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے تو روزہ رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں شمار کرکے رکھ لے، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتے ہیں تم پر سختی کرنا نہیں چاہتے اور شمار کو پورا کرو اور تاکہ اللہ کی بڑائی بیان کرو اس چیز پر کہ تمہیں ہدایت دی اور شاید کہ تم شکرگزار ہوجاو(2۔ البقرۃ : 185)]

نیت کے معنیٰ، مقاصد، اہمیت، وفضیلت


نیت کہتے ہیں دل کے ارادے اور توجہ کو کہ (1)کونسا عمل (2)کس کیلئے کررہا ہوں۔ یہ توجہ جن کاموں کے کرتے وقت نہ ہو تو وہ کام افعال ہیں، اعمال نہیں۔ اس لیے وہ عادت کہلائیں گے عبادت نہیں۔ لہٰذا دل کے توجہ کو قائم رکھنے کیلئے اپنی زبان کے الفاظ سے نیت کہنے میں مدد لینا جائز ہے تاکہ عمل میں تمیز ہوسکے، اور نیت کرنے میں شک وشبہ پیدا نہ ہو۔ کسی امام نے اسے بدعت نہیں کہا۔

نیت کی اہمیت»

فرض عبادات کی قبولیت(ثواب)کیلئے، نیت کرنا"فرض"ہے۔

القرآن:

وَمَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِيَعۡبُدُوا اللّٰهَ مُخۡلِصِيۡنَ لَـهُ الدِّيۡنَ ۙ حُنَفَآءَ وَيُقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوا الزَّكٰوةَ‌ وَذٰلِكَ دِيۡنُ الۡقَيِّمَةِ ۞

ترجمہ:
*اور انہیں اس کے سوا کوئی اور (لازمی)حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ دین(بندگی) کو بالکل یکسو ہوکر صرف اسی کیلیے خالص(خاص) رکھیں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی سچی امت کا دین ہے۔*
[سورۃ البینۃ:5]

نوٹ:
*نیت کا مقصد:-* (1) عمل میں "اخلاص" پیدا کرنا۔۔۔کہ کس کیلئے عمل کیا جارہا ہے۔ (2)عمل میں تمیز اور فرق کرنا۔۔۔۔کہ کونسا عمل کیا جارہا ہے، جیسے: نماز ہے یا زکوٰۃ۔ تاکہ یکسو ہو جائے۔ اور عمل کی تفصیل زبان سے کہنا جائز ہے تاکہ یکسوئی کے بجائے تشویش اور وساوس میں مبتلا نہ رہے۔ (3)عمل کرنے سے پہلے توجہ/ارادہ کرنا۔۔۔۔تاکہ عمل صرف عادت نہ رہے بلکہ "عبادت" بن جائے۔

دیگر اعمال(مثلاً: وضو، نماز کیلئے پیدل"جانا"، تہجد کت ارادے سے جلد سونا وغیرہ) کی نیت کرنا نفل ہے، فرض نہیں۔ لہٰذا ان تمام اعمال کی علیحدہ علیحدہ نیتیں نہ کرنے سے ان کے ثواب سے محروم رہے گا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(1) إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ...
*بےشک* (تمام جائز) *اعمال*(کی قبولیت/ثواب) *کا دارومدار تو بس* (کئی) *نیتوں پر ہے۔۔۔۔*

[صحیح بخاری:1، صحیح ابن حبان:388-4868]

(2) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا أَجْرَ لِمَنْ لَا حِسْبَةَ لَهُ۔
نہیں ہے اجر اس کیلئے جو ثواب کا خیال نہ کرے۔
حضرت ابو ذر‌ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا أَجرَ إلاّ عَن حِسبَةٍ، وَلاَ عَمَلٌ إِلاَّ بِنِيَّةٍ.
ترجمہ:
نہیں ہے کوئی اجر ثواب کی امید کے، اور کوئی عمل(قبول) نہیں ہے نیت کے بغیر۔
[مسند الحميدي:1359، السنن الكبرى للبيهقي: ،الصحيحة:2415(192)]


Friday, 1 March 2013

لفظ نجد کی تحقیق



لفظ نجد کی تحقیق

نجد مصدر ہے، اس کے معنی بلندی کے ہیں، ہر اونچی اورممتاز چیز کو نجد کہا جاسکتا ہے، سطح مرتفع کو بھی نجد کہتے ہیں، قاموس میں ہے:
"ان النجد ما اشرف من الارض"۔    
(قاموس:۱/۳۴۰)
ترجمہ:نجد زمین کی بلند سطح کو کہتے ہیں۔
مدینہ شریف سے مشرق کی طرف عراق ہے جو سطح مرتفع ہے، یہ کسی خاص علاقے کا نام نہیں، عرب ہر اونچی جگہ کو نجد کہہ دیتے تھے،مدینہ والوں کا نجد بادیہ عراق اوراس کے مضافات ہی ہیں، پس جن احادیث میں عراق یا مشرق کی بجائے لفظ نجد وارد ہے ان میں نجد سے مراد عرب کا صوبہ نجد نہیں جس کے رہنے والے نجدی کہلاتے ہیں؛ بلکہ اس سے مراد نجد عراق ہے، حافظ ابن حجرعسقلانیؒ علامہ خطابی سے نقل کرتے ہیں:
"نجد من جهة المشرق ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها وهي مشرق أهل المدينة وأصل النجد ما ارتفع من الأرض وهو خلاف الغور فإنه ما انخفض منها"۔
(فتح الباری لابن حجر، باب قولہ باب قول النبی  ،حدیث نمبر:۶۶۸۱)
ترجمہ:نجد عراق کی طرف سے اوراہل مدینہ کے لیے نجد بادیہ عراق اوراس کے مضافات ہیں اور یہ اہل مدینہ سے مشرق کی جانب ہے اورنجد دراصل زمین کی سطح مرتفع کا نام ہے اوریہ لفظ غور(پستی) کے برعکس ہے،غور پستی کو کہتے ہیں۔
علامہ عینی (۸۵۵ ھ) لکھتے ہیں:
"إنما أشارصلی اللہ علیہ وسلم إلى المشرق لأن أهله يومئذ كانوا أهل كفر فأخبر أن الفتنة تكون من تلك الناحية وكذلك كانت وهي وقعة الجمل ووقعة صفين ثم ظهور الخوارج في أرض نجد والعراق وما وراءها من المشرق كان يحذر من ذلك ويعلم به قبل وقوعه وذلك من دلالات نبوته قوله صلی اللہ علیہ وسلم"۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،باب قول النبی  ،حدیث نمبر:۷۰۹۲)
ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا؛ کیونکہ اہل مشرق اس دن اہل کفر تھے، آپ  نے پیشن گوئی فرمائی کہ فتنے اسی کونے سے اٹھیں گے اور ایسے ہی ہوا، جنگ جمل، جنگ صفین اور پھر ظہور خوارج کے واقعات، نجد، عراق اوراس کے مشرقی حصوں میں پیش آئے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں خبر دار فرماتے تھے اوران کے واقع ہونے سے پہلے نشاندہی فرماتے تھے جو آپ   کی نبوت کے واضح دلائل میں سے ہے۔
 تاریخ گواہ ہے کہ جتنے اعتقادی فتنے اٹھے سب عراق سے نکلے، معبد الجہنی نے تقدیر کا انکار بصرہ(عراق) میں ہی کیا تھا، جنگ جمل وہیں لڑی گئی، حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بیوفائی انہی عراق والوں نے کی اور سانحہ کربلا بھی یہیں پیش آیا۔
حضور   کافرمانا کہ ادھر سے فتنے اٹھیں گے واقعات نےتصدیق کردی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع وحی قرآن سے ملی ہو،اس پر کوئی آیت گواہ نہیں، پس اس یقین سے چارہ نہیں کہ آپ کو یہ اطلاع بذریعہ حدیث دی گئی تھی، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے غیب کی خبریں کیسے دے سکتے تھے، معلوم ہوا کہ آپ جب بھی کلام فرماتے وحی جلی ہو یا وحی خفی آپ   کی ہر بات احکام کی قبیل سے ہو یا اخبار کی قبیل سے خدا کی طرف سے ہی ہوتی تھی۔