علوم قرآن والتفسیر کے امام الراغب الاصفہانیؒ(م502ھ) لکھتے ہیں:
یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Saturday, 30 March 2013
شیطان کا تعارف، کام، ارادے وخواہش، اولاد اور مددگار
علوم قرآن والتفسیر کے امام الراغب الاصفہانیؒ(م502ھ) لکھتے ہیں:
Thursday, 21 March 2013
اسلامی ضابطہ اخبار
”صحافت“ عربی زبان کا لفظ ہے۔ صاحب [معجم الوسیط: صفحہ508] پر صحافت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
خبروں کو پھیلانے سے پہلے، یہ ضروری ہے کہ ان کی تصدیق کی جائے اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔
خبر پھیلانے چاہیں:
1. *صحیح اور قابل اعتماد ذرائع سے* آنے والی خبریں۔
2. *عوام کی بہبود اور فائدے* سے متعلق خبریں۔
3. *تعلیم اور آگاہی* کے مقاصد کے لیے خبریں۔
4. *حقیقت اور انصاف* کو فروغ دینے والی خبریں۔
خبر نہیں پھیلانی چاہیں:
1. *غلط یا بے بنیاد* خبریں
2. *افواہیں اور بے اساس الزامات:*۔
3. *نفرت اور تقسیم:* کو فروغ دینے والی خبریں۔
4. *نازک اور ذاتی معلومات:* جو کسی کی پرائیویسی یا ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
خبروں کو پھیلانے سے پہلے، ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ آیا یہ خبر نیکی اور دوسروں کی بہتری اور نفع کا سبب بنے گی یا نقصان اور فساد (لڑائی) کا۔
Monday, 18 March 2013
ایصالِ ثواب کے دلائل، اقسام، احکام اور چہل حدیث
باب: میت کی طرف سے ایصالِ ثواب کا بیان
بَاب وُصُولِ ثَوَابِ الصَّدَقَةِ عَنْ الْمَيِّتِ إِلَيْهِ
٢٣١٦۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسَهَا وَلَمْ تُوصِ وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ أَفَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ۔
٢٣١٦۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، ہشام، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہؐ! میری والدہ بغیر وصیت کے فوت ہوگئی ہے اور میرا گمان ہے اگر وہ بات کرتی تو وہ صدقہ کرتی، اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کو ثواب ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں!۔Sunday, 17 March 2013
اسلام میں فتویٰ کی اہمیت و ضرورت
حدود الله اور تعزیرات میں فرق
القرآن :
وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدودَهُ يُدخِلهُ نارًا خٰلِدًا فيها وَلَهُ عَذابٌ مُهينٌ {4:14} | ||
ترجمہ : اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اسکے رسول کی اور نکل جاوے اس کی حدوں سے ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہے گا اس میں اور اس کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ |
Friday, 15 March 2013
ناسخ و منسوخ کا بیان
توضیح : یہ بھی یہود کا طعن تھا کہ "تمہاری کتاب میں بعض آیات منسوخ ہوتی ہیں اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہوتی تو جس عیب کی وجہ سے اب منسوخ ہوئی اس عیب کی خبر کیا خدا کو پہلے سے نہ تھی؟ درحقیقت "عیب نہ پہلی بات میں تھا نہ پچھلی میں لیکن حاکم مناسب وقت دیکھ کر جو چاہے حکم کرے اس وقت وہی مناسب تھا اور اب دوسرا حکم مناسب ہے"۔[تفسیر عثمانی]
حضرت زہری نون خفیفہ پیش کے ساتھ پڑھتے تھے اس کے ایک راوی سلیمان بن راقم ضعیف ہیں۔ ابو بکر انباری نے بھی دوسری سند سے اسے مرفوع روایت کیا ہے جیسے قرطبی کا کنا ہے۔ "ننسھا" کو "ننساھا" بھی پڑھا گیا ہے۔ "ننساھا" کے معنی موخر کرنے پیچھے ہٹا دینے کے ہیں۔ حضرت ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں منسوخ کرتے ہیں ابن مروی ہے ہم اسے موخر کرتے ہیں اور ملتوی کرتے ہیں عطیہ عوفی کہتے ہیں ۔ یعنی منسوخ نہیں کرتے. سدی اور ربیع بھی یہی کہتے ہیں ضحاک فرماتے ہیں ناسخ کو منسوخ کے پیچھے رکھتے ہیں. ابو العالیہ کہتے ہیں اپنے پاس اسے روک لیتے ہیں. حضرت عمر نے خطبہ میں "ننسلھا" پڑھا اور اس کے معنی موخر ہونے کے بیان کئے. ننسھا جب پڑھیں تو یہ مطلب ہو گا کہ ہم اسے بھلا دیں۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو اٹھا لینا چاہتا تھا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیتا تھا اس طرح وہ آیت اٹھ جاتی تھی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ننسھا پڑھتے تھے تو ان سے قسم بن ربیعہ نے کہا کہ سعید بن مسیب تو ننساھا پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا سعید پر یا سعید کے خاندان پر تو قرآن نہیں اترا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى) 87۔ الاعلی:6) ہم تجھے پڑھائیں گے جسے تو نہ بھولے گا اور فرماتا ہے آیت (وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ) 18۔ الکہف:24) جب بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر۔ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ حضرت علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور حضرت ابی سے زیادہ اچھے قرآن کے قاری ہیں اور ہم حضرت ابی کا قول چھوڑ دیتے ہیں اس لئے کہ حضرت ابی کہتے ہیں میں نے تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور فرماتے ہیں وما نسخ الخ یعنی ہم جو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسا (بخاری و مسند احمد) اس سے بہتر ہوتا ہے یعنی بندوں کی سہولت اور ان کے آرام کے لحاظ سے یا اس جیسا ہوتا ہے لیکن مصلحت الٰہی اس سابقہ چیز میں ہوتی ہے مخلوق میں تغیر و تبدل کرنے والا پیدائش اور حکم کا اختیار رکھنے والا۔ ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس طرح جسے چاہتا ہے بناتا ہے جسے چاہے نیک بختی دیتا ہے جسے چاہے بدبختی دیتا ہے جسے چاہے تندرستی جسے چاہے بیماری، جسے چاہے توفیق جسے چاہے بےنصیب کر دے۔ بندوں میں جو حکم چاہے جاری کرے جسے چاہے حلال جسے چاہے حرام فرما دے جسے چاہے رخصت دے جسے چاہے روک دے وہ حاکم مطلق ہے جیسے چاہے احکام جاری فرمائے کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا جو چاہے کرے کوئی اس سے باز پرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں کسی چیز کا مصلحت کی وجہ سے حکم دیا پھر مصلحت کی وجہ سے ہی اس حکم کو ہٹا دیا اب آزمائش ہوتی ہے نیک لوگ اس وقت بھی اطاعت کے لئے کمر بستہ تھے اور اب بھی ہیں لیکن بد باطن لوگ باتیں بناتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں حالانکہ تمام مخلوق کو اپنے خالق کی تمام باتیں ماننی چاہئیں اور ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے اور جو وہ کہے اسے دل سے سچا ماننا چاہئے، جو حکم دے بجا لانا چاہئے جس سے روکے رک جانا چاہئے، اس مقام پر بھی یہودیوں کا زبردست رد ہے اور ان کے کفر کا بیان ہے کہ وہ نسخ کے قائل نہ تھے بعض تو کہتے تھے اس میں عقلی محال لازم آتا ہے اور بعض نقلی محال بھی مانتے تھے. اس آیت میں گو خطاب فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر دراصل یہ کلام یہودیوں کو سنانا ہے جو انجیل کو اور قرآن کو اس وجہ سے نہیں مانتے تھے کہ ان میں بعض احکام توراۃ کے منسوخ ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان نبیوں کی نبوت کے بھی منکر ہو گئے تھے اور صرف عناد و تکبر کی بنا تھی ورنہ عقلاً نسخ محال نہیں اس لئے کہ جس طرح وہ اپنے کاموں میں با اختیار رہے اسی طرح اپنے حکموں میں بھی با اختیار رہے جو چاہے اور جب چاہے پیدا کرے جسے چاہے اور جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے رکھے۔ اسی طرح جو چاہے اور جس وقت چاہے حکم دے اس حاکموں کے حاکم کا حاکم کون؟ اسی طرح نقلاً بھی یہ ثابت شدہ امر ہے اگلی کتابوں اور پہلی شریعتوں میں موجود ہے حضرت آدم کی بیٹیاں بیٹے آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز تھا پھر اسے حرام کر دیا، نوح علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تب تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض کی حلت منسوخ ہو گئی، دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن پھر توراۃ میں اور اس کے بعد حرام ہو گیا، ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا پھر قربان کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا، بنو اسرائیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ بچھڑا پوجنے میں جو شامل تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن پھر بہت سے باقی تھے کہ یہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے، اسی طرح کے اور بہت سے واقعات موجود ہیں اور خود یہودیوں کو ان کا اقرار ہے لیکن پھر بھی قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر نہیں مانتے کہ اس سے اللہ کے کلام میں نسخ لازم آتا ہے اور وہ محال ہے، بعض لوگ جو اس کے جواب میں لفظی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس سے دلالت نہیں بدلتی اور مقصود وہی رہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت یہ لوگ اپنی کتابوں میں پاتے تھے آپ کی تابعداری کا حکم بھی دیکھتے تھی یہ بھی معلوم تھا کہ آپ کی شریعت کے مطابق جو عمل نہ ہو وہ مقبول نہیں ہو گیا یہ اور بات ہے کہ کوئی کہے کہ اگلی شریعتیں صرف آپ کے آنے تک ہی تھیں اس لئے یہ شریعت ان کی ناسخ نہیں یا کہے کہ ناسخ ہے بہر صورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس لئے کہ آپ آخری کتاب اللہ کے پاس سے ابھی ابھی لے کر آئے ہیں. پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نسخ کے جواز کو بیان فرما کر اس ملعون گروہ یہود کا رد کیا سورۃ آل عمران میں بھی جس کے شروع میں بنی اسرائیل کو خطا کیا گیا ہے نسخ کے واقع ہونے کا ذکر موجود ہے فرماتا ہے آیت (کل الطعام) الخ یعنی سبھی کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے مگر جس چیز کو حضرت اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کی مزید تفسیر وہیں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ.
مسلمان کل کے کل متفق ہیں کہ احکام باری تعالیٰ میں نسخ کا ہونا جائز ہے بلکہ واقع بھی ہے اور پروردگار کی حکمت بالغہ کا دستور بھی یہی ہے ابو مسلم اصبہانی مفسر نے لکھا ہے کہ قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ قول ضعیف اور مردود اور محض غلط اور جھوٹ ہے جہاں نسخ قرآن موجود ہے اس کے جانب میں گو بعض نے بہت محنت سے اس کی تردید کی ہے لیکن محض بےسود ہے، دیکھئے پہلے اس عورت کی عدت جس کا خاوند مر جائے ایک سال تھی لیکن پھر چار مہینے دس دن ہوئی اور دونوں آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں. قبلہ پہلے بیت المقدس تھا، پھر کعبتہ اللہ ہوا اور دوسری آیت صاف اور پہلا حکم بھی ضمناً مذکور ہے. پہلے کے مسلمانوں کو حکم تھا کہ ایک ایک مسلمان دس دس کافروں سے لڑے اور ان کے مقابلے سے نہ ہٹے لیکن یہ پھر حکم منسوخ کر کے دو دو کے مقابلہ میں صبر کرنے کا حکم ہوا اور دونوں آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں . پہلے حکم تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دے یا کرو پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور دونوں آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں وغیرہ واللہ اعلم۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن میں کوئی نسخ نہیں ہوا۔ اور نسخ صرف چند آیات میں ہوا ہے لہٰذا نسخ کے بعد صحابہٴ کرام جو قرآن پڑھا کرتے تھے آج بھی بعینہ وہی قرآن ہے۔
ناسخ منسوخ : جس خبر مقبول کی معارض (مخالف، مقابل) کوئی خبر مقبول ہو اور دونوں میں تطبیق (انضباط٬ ہم آہنگی) ممکن نہ ہو مگر تاریخ یا نص (قرآن و سنّت) سے اس کا تاخر ثابت ہو تو متاخر (بعد والے) کو ناسخ اور مقدم (پہلے والے) کو منسوخ کہا جاتا ہے.
اس موضوع پر لکھی گئی خاص کتابیں:
کتبِ منسوخ آیات القرآن بالحدیث :
(١) الناسخ والمنسوخ ، للقاسم بن سلام (المتوفى: 224هـ)
(٢) الناسخ والمنسوخ ، للنحاس (المتوفى: 338هـ)
(٣) نواسخ القرآن ، لابن الجوزي (المتوفى: 597هـ)
کتبِ احادیث الشریفہ :
(١) ناسخ الحديث ومنسوخه لابن شاهين » ابن شاهين ، سنة الوفاة : 385
(٢) الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار للحازمي » محمد بن موسى الحازمي ، سنة الوفاة : 584
(٣) إعلام العالم بعد رسوخه بناسخ الحديث ومنسوخه » أبو الفرج ابن الجوزي، سنة الوفاة : 597
(٤) إخبار أهل الرسوخ في الفقه والتحديث بمقدار المنسوخ من الحديث » أبو الفرج ابن الجوزي، سنة الوفاة : 597
=========================
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کر دیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔" (سنن دارقطنی: باب النوادر ، ١١٧١)
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 189(36588) - کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان]
تشریح :
نسخ کے معنی لغت میں کسی شے کو مٹانے یا نقل و تحویل کے آتے ہیں جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ نسخت الریح اثار القوم۔ کہ ہوا نے لوگوں کے پاؤں کے نشان مٹا دیے یا اسی طرح بولتے ہیں نسخ الکتاب الی کتاب کہ ایک جگہ سے کتاب کو دوسری طرف نقل کیا۔ علماء کی اصطلاح میں نسخ اسے کہتے کہ کسی حکم شرعی کا اصلاح دین کی خاطر کسی دوسرے حکم کے ذریعہ تغیر و تبدل کیا جائے۔ یا کسی حکم کو نافذ کرنا کہ جس کے اور اس سے پیشتر کا حکم جو مقدم تھا اٹھ جائے اوّل حکم کو منسوخ اور دوسرے حکم کو ناسخ کہتے ہیں۔
نسخ کی چار قسمیں ہیں۔ (١) کتاب اللہ کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ (٢) حدیث کا نسخ حدیث کے ساتھ(۱) کتاب اللہ کا نسخ حدیث کے ساتھ(٤) حدیث کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ مثلاً پہلے کوئی حکم قرآن میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتارا گیا لیکن بعد میں کسی خاص مصلحت کی وجہ سے قرآن کی کسی دوسری آیت نے آکر اس حکم کو منسوخ کر دیا، اب اس کی بھی دو شکلیں ہوں گی، یا تو وہ آیت قرآن میں باقی رہے اور صرف تلاوت کی جاتی رہے مگر اس کا حکم کالعدم قرار دیا گیا۔ یا یہ کہ حکم کے ساتھ آیت بھی منسوخ کر دی گئی اور اسی طرح نسخ کی دوسری شکل یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو حدیث ہی کے ذریعہ منسوخ کر دیا گیا ہو،
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ بْنُ الشِّخِّيرِ ، قَالَ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْسَخُ حَدِيثُهُ بَعْضُهُ بَعْضًا ، كَمَا يَنْسَخُ الْقُرْآنُ بَعْضُهُ بَعْضًا " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْحَيْضِ » بَاب إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ، رقم الحديث: 525]
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ہماری (بعض) احادیث بعض (احادیث) کو اس طرح منسوخ کرتی ہیں جیسا کہ منسوخ کرتا ہے قرآن کا بعض حصہ بعض کو۔"
مثال: حدیث: ”إنما الماء من الماء“ (بخاري) یعنی غسل انزال سے واجب ہوگا (دلیلِ حدیث سے) باجماع امت منسوخ ہے۔ محض جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے انزال ہو یا نہ ہو۔ دليل: لما في الصحیحین من حدیث أبي ھریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”إذا جلس بین شعبھا الأربع ثم جھدھا فقد وجب الغسل أنزل أو لم ینزل وأما قولہ علیہ الصّلاة والسلام إنما الماء من الماء فمنسوخ بالإجماع وفي حاشیة مسلم: ۱۱/۲۹۶ (۸/۸۱/۳۴۳) وقد عقب الإمام مسلم علی ھذا الحدیث فروی بإسنادہ عن ابن الشخیر قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینسخ حدیثہ بعضہ بعضاً کما ینسخ القرآن بعضہ بعضاً (شامي: ج۱ ص۲۹۹،ط. زکریادیوبند، کتاب الطھارة) اور امام نووی لکھتے ہیں اعلم أنالأمة مجتمعة الآن علی وجوب الغسل بالجماع وإن لم یکن معہ إنزال (مسلم شریف: ج۱ ص۱۵۵)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " یہ حکم، غسل انزال کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ابتدائے اسلام میں آسانی کی وجہ سے تھا، پھر اسے منع فرما دیا گیا (یعنی یہ حکم منسوخ قرار دے دیا گیا۔" ( جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، دارمی)
تیسری شکل نسخ کی یہ ہے کہ قرآن کے کسی حکم کو حدیث کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منسوخ فرمایا ہو لیکن اس میں کسی قسم کا یہ اشکال پیدا نہیں ہو سکتا کہ حکم الہٰی کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ایک انسان ہوتا ہے کس طرح کالعدم قرار دے سکتا ہے یہ اشکال وہیں رفع ہو گیا ہے جہاں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ حدیث بظاہر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے مجموعہ کا نام ہے لیکن حقیقت میں حدیث بھی وحی من اللہ ہے(القرآن : ٥٣-النجم/ آیت: ٢-٣) فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن ایسی وحی ہے جس کی تلاوت نہیں کی جاتی اور جس کا مضمون براہ راست بار گاہ الوہیت سے اترتا ہے لیکن الفاظ رسول کے ہوتے ہیں اس صورت میں یہ حدیث متعارض نظر آئے گی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث قرآن کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اس کا جواب یہی ہوگا کہ حدیث میں لفظ کلامی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو خود رسول اللہ کی ذاتی رائے اور اجتہاد کے طریقہ پر وارد ہو، نہ کہ وہ ارشاد جو بطور وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر القاء فرمایا گیا ہے اس تاویل کے بعد یہ تعارض رفع ہو جائے گا۔ یا پھر یہ تاویل کی جائے گی کہ یہ حدیث خود منسوخ ہے لہٰذا اس سے اس کلیہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
[یہ حدیث ضعیف ہے اس حدیث کو ابن عدی نے الکامل فی ضعفاء الرجال:۲؍۶۰۲ میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت منکر ہے۔ ابن جوزی نے العلل المتناھیۃ:۱؍۱۲۵ میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے : ’’ھذا حدیث منکر‘‘ اس حدیث کے منکر ہونے کی وجہ اس کی سند میں جبرون بن واقد ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ اور ابن حجررحمہ اللہ نے (لسان المیزان:۲؍۹۴)میں متّہم اور ساقط الاعتبارکہا ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے دلیل لینا کہ سنت قرآن کی ناسخ نہیں ہوسکتی، صحیح نہیں ہے۔]
چوتھی شکل نسخ کی یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو کتاب اللہ کے ذریعہ منسوخ قرار دے دیا گیا،
قرآن شریف کی آیت: "اور جن عورتوں کے بارے میں تمہیں نافرمانی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں نصیحت کرو، اور (اگر نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو) انہیں ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دو، اور (اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہوتو) انہیں مارو معمولی مار۔ پس اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگ جائیں تو اب ان پر زیادتی کی کوئی راہ تلاش نہ کرو۔"(النساء:٣٤) کے شان نزول میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ زید بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنی لڑکی حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کردیا تھا، ان کا آپس میں کچھ اختلاف پیش آیا، شوہر نے ایک طمانچہ ماردیا، حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد سے شکایت کی، والد ان کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیدیا کہ حبیبہ کو حق حاصل ہے کہ جس زور سے سعد بن ربیع نے ان کے طمانچہ مارا ہے وہ بھی اتنی زور سے ان کے طمانچہ ماریں، یہ دونوں حکم نبوی سن کر چلے کہ اس کے مطابق سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے اپنا انتقام لیں، اسی وقت آیت مذکورہ نازل ہوگئی جس میں آخری درجہ میں مرد کے لیے عورت کی مارپیٹ کو بھی جائز قرار دیدیا ہے، اور اس پر مرد سے قصاص یا انتقام لینے کی اجازت نہیں دی۔ آیت نازل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلواکر حق تعالیٰ کا حکم سنادیا اور انتقام لینے کا پہلا حکم منسوخ فرمادیا۔ (معارف القرآن: ۲/۴۰۰)
نوٹ : قرآن شریف میں تیسری سزا یعنی مار پیٹ کی اگرچہ بدرجہ مجبوری ایک خاص انداز میں مرد کو اجازت دی گئی ہے، مگر اس کے ساتھ حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے: لَنْ يَضْرِبَ خِيَارُكُمْ [العيال » بَابُ حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا وَالثَّوَابِ ...، رقم الحديث: 484] یعنی اچھے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام سے کہیں ایسا منقول نہیں۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ کسی قانون میں تبدیلی یا کسی حکم کی منسوخی دو وجہ سے ہوتی ہے اوّل تو یہ کہ قانون بناتے وقت بانی قانون سے کوئی فروگزاشت یا غلطی ہوگئی جس کی وجہ سے بعد میں اس قانون میں تبدیلی اور منسوخی ضروری قرار دی گئی۔
ظاہر ہے کہ کلام اللہ میں یہ محال ہے اس لیے کہ اللہ کی علیم و خبیر ذات کسی قسم کی غلطی، بھول چوک یا فروگزاشت سے بالکل منزّٰی و پاک و صاف ہے اس لیے جو بھی قانون بنائے گا یا جو بھی حکم دے گا وہ بالکل صحیح و کامل ہوگا اس میں کسی غلطی کا امکان بھی نہیں ہوسکتا اسی طرح رسول کے بتائے ہوئے احکام میں بھی یہ چیز نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے احکام جن کا تعلق دینی امور سے ہوتا ہے وہ براہ راست بارگاہ الوہیت سے نازل ہوئے ہیں اور دربار رسالت سے ان کا انعقاد عمل میں آتا ہے گویا وہ خود بھی احکام اللہ کے مرتبہ کے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اسی طرح حدیث کے احکام کی پیروی کرنا بھی ضروری و لازم ہے لہٰذا حدیث کے احکام میں بھی کسی حکم کی تبدیلی کا سبب یہ نہیں ہو سکتا۔ کسی قانون و حکم کی تبدیلی و منسوخی کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ محکوم کی حالت بدلنے سے مصلحت بھی بدل گئی ہے اس لیے قانون بھی بدل گیا جیسے کہ مریض کی حالت بدل جانے پر نسخہ بھی بدل دیا جاتا ہے۔
مثلاً ایک قانون بنایا گیا یا کوئی حکم دیا گیا اس وقت ماحول اس قسم کے قانون کا متقاضی تھا، یا محکوم کے ذہن مزاج اسی حکم کے لائق تھے مگر بعد میں جب ماحول میں تبدیلی آگئی، محکوم کے ذہن و مزاج بھی دوسرا رخ اختیار کر گئے تو اب بانی قانون کی مصلحت بھی بدل گئی لہٰذا اس نے محکوم اور ماحول کی بھلائی اور اصلاح کی خاطر اس سے پہلے قانون کو بدل دیا اور اس جگہ کسی دوسرے قانون کو لاگو کر دیا ظاہر ہے کہ ایسا نسخ صحیح اور جائز ہوگا اس میں کسی قسم کا کوئی عقلی و نقلی اشکال پیدا نہی ہوسکتا اور یہی تبدیلی و تفسیر اور نسخ قرآن و احادیث کے احکام میں ہوتے ہیں لہٰذا ان میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔
========================
زبان سے نیت کا بیان
[أخرجه الطيالسى (1/22، رقم 152) ، وعبد الرزاق (2/79، رقم 2567) ، وابن أبى شيبة (1/210، رقم 2399) ، وأحمد (1/94، رقم 729) ، ومسلم (1/534، رقم 771) ، وأبو داود (1/201، رقم 760) ، والترمذى (5/485، رقم 3421) ، والنسائى (2/129، رقم 897) ، وابن خزيمة (1/235، رقم 462) ، والطحاوى (1/199) ، وابن الجارود(1/54، رقم 179) ، وابن حبان (5/74، رقم 1774) ، والدارقطنى (1/296، رقم 1) ، والبيهقى (2/32، رقم 2172) .]
نیت کے لغوی معنیٰ "قصد وارادہ" کے ہیں۔ یہ لفظ ی کی تشدید کے ساتھ بھی آیا ہے اور بغیر تشدید کے بھی۔
شریعت کی اصطلاح میں نیت کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
قَصْدُ الطَّاعَةِ وَالتَّقَرُّبِ إلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي إيجَادِ الْفِعْلِ.
اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ "جیسے نیت وجودی اور ایجابی افعال سے متعلق ہوتی ہے، مثلاََ: نماز وزکوٰۃ، اسی طرح نیت کا تعلق بعض اوقات کسی فعل کے ترک سے بھی ہوتا ہے، چنانچہ شریعت کی منہیات(منع کردہ امور)سے بچنا بھی ایک فعل ہے، حالانکہ اس میں کسی فعل کے وجود میں نہیں لایا جاتا" ----- لیکن یہ شبہ نہیں، منہیات کے نہ کرنے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ اس کے کرنے پر قادر نہیں تھا اس لیے اس سے محفوظ رہا، دوسری صورت یہ ہے کہ باوجود قدرت کے آدمی اپنے آپ کو شریعت کی منہیات سے بچائے، یہ شریعت کی اصطلاح میں "کف" ہے، اور اس پر اجر وثواب بھی ہے، پس "کف" بھی منجملہ افعال کے ایک ہے۔
[الاشباه والنظائر، لابن نجيم: ص24]
بِتَوَجُّهِ الْقَلْبِ نَحْوَ إيجَادِ فِعْلٍ أَوْ تَرْكِهِ.
یہ تعریف فعل و ترک اور طاعت ومعصیت سب کو شامل ہے۔
[صحیح مسلم - فتنوں کا بیان - دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں - حدیث نمبر 2888 (7252)]
وَما كانَ لِنَفسٍ أَن تَموتَ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ كِتٰبًا مُؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِد ثَوابَ الدُّنيا نُؤتِهِ مِنها وَمَن يُرِد ثَوابَ الءاخِرَةِ نُؤتِهِ مِنها ۚ وَسَنَجزِى الشّٰكِرينَ {سورۃ آل عمران:145} | |
|
وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ وَيُقيمُوا الصَّلوٰةَ وَيُؤتُوا الزَّكوٰةَ ۚ وَذٰلِكَ دينُ القَيِّمَةِ [سورۃ البینۃ:5] |
ترجمہ: |
نیت کا مقصود بنیادی طور پر دو ہیں:
اول دو عبادتوں کے درمیاں امتیاز پیدا کرنا چنانچہ نیت ہی کے ذریعہ فرض اور نفل میں، ظہر اور عصر میں، اداء وقضاء میں، واجب ونفل روزوں، اور صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ میں فرق وامتیاز قائم ہوتا ہے، ----- دوسرا مقصد عبادت اور عادت میں فرق وامتیاز پیدا کرنا ہے، مثلاََ کھانے کا ترک کرنا، علاج و پرہیز اور بھوک نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے، اور روزہ کی غرض سے بھی، مسجد میں بیٹھنا استراحت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے اور نماز کے انتظار میں بھی، ان مین دوسری صورت عبادت کی ہے، اور پہلی صورت عادت کی قبیل سے ہے، نیت ہی کے ذریعہ ایک عمل کی ان دو حیثیتوں کے درمیان امتیاز قائم ہوتا ہے۔
عبادت کی تعیین:
چونکہ نیت کا مقصود امتیاز پیدا کرنا اور اشتباہ کو دور کرنا ہے، اسی لیے جن عبادتوں میں اشتباہ پیدا ہوسکتا ہے، ان میں عبادت کی تعیین ضروری ہے، اور جہاں اشتباہ نہ ہو، وہاں صرف اس عبادت کی نیت کافی ہوگی، اس کی تعیین ضروری نہیں ----- اس کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ بعض عبادتوں کیلئے ایسا وقت رکھا گیا ہے کہ وہ عبادت پورے وقت کا احاطہ کرلیتی ہے، اس وقت میں وہ عبادت ایک سے زیادہ دفعہ نہیں کی جاسکتی، جیسے: روزہ، کہ طلوعِ صبح سے غروبِ آفتاب تک روزہ کا وقت ہے، روزہ اس پورے وقت کو گھیرے ہوا ہے، اس لئے ایک دن میں دو روزہ رکھنا ممکن نہیں، ایسے وقت کو اصطلاح میں "معیار" کہا جاتا ہے، لہٰذا رمضان المبارک کے مہینہ میں اس ماہ کے روزہ کیلئے صرف روزہ کی نیت کرلینا کافی ہے، روزہ رمضان کی تعیین ضروری نہیں، بلکہ اگر کوئی صحتمند مقیم آدمی رمضان میں کسی اور واجب یا نفل روزہ کی نیت بھی کرلے تو اس کا اعتبار نہیں، کیونکہ جو چیز خود شارع کی طرف سے متعیین ہو اس میں نیت لغو اور غیر معتبر ہے۔
بخلاف نماز کے، کہ نماز کے وقت میں وسعت ہے، ہر فرض نماز کیلئے شریعت نے اتنا وسیع وقت رکھا ہے کہ اس میں کتنی ہی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں، ایسے وقت کو اصولِ فقہ کی اصطلاح میں "ظرف" کہتے ہیں۔
حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
دل کی نیت معتبر ہے یا زبان سے اُس کا تلفظ کرنا بھی ضروری ہے؟
(کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۱،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۷،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۲/۱۴۷، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۱۸۶، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
کیا زبان سے نیت کرنا بدعت ہے؟
(فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۸،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)
روزے میں نیت کا وقت
جو روزے رات سے لیکر آدھے دن سے پہلے پہلے تک نیت کرنےسے صحیح ہوجاتے ہیں وہ یہ ہیں :۔
مسئلہ: مطلق نیت اور نفل کی نیت سے رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہے، ایسے ہی مطلق نیت اور نفل کی نیت سے نذرِ معین کے روزے بھی صحیح ہوجاتے ہیں، اور اسی طرح مطلق نیت اور نفل کی نیت سے نفل روزے بھی صحیح ہوجاتے ہیں۔ حوالہ
مندرجہ ذیل صورتوں میں نیت کی تعیین اور رات میں نیت کرنا شرط ہے۔
(۱) رمضان کے قضا روزے۔ (۲) فاسد کردہ نفل روزوں کی قضا میں ۔(۳) کفارے کے روزوں میں ۔ (۴) نذر مطلق کے روزوں میں ۔حوالہ