رہبانیت، عیسائیوں کی بدعت:
القرآن : ... وَرَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ ...[الحدید:٢٧]
ترجمہ : ... اور ایک ترک کرنا دنیا کا جو انہوں نے نئی بات نکالی تھی، ہم نے نہیں لکھا تھا یہ اُن پر مگر کیا چاہنے کو اللہ کی رضامندی، پھر نہ نباہا اُسکو جیسا چاہئے تھا نباہنا.
تشریح : یعنی آگے چل کر حضرت مسیحؑ کے متبعین نے بے دین بادشاہوں سے تنگ ہو کر اور دنیا کے مخمصوں سے گھبرا کر ایک بدعت رہبانیت کی نکالی، جس کا حکم اللہ کی طرف سے نہیں دیا گیا تھا۔ مگر نیت انکی یہ ہی تھی کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کریں۔ پھر اسکو پوری طرح نباہ نہ سکے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یہ فقیری اور تارک الدنیا بننا، نصارٰی نے رسم نکالی، جنگل میں تکیہ بنا کر بیٹھے۔ نہ جورو رکھتے نہ بیٹا، نہ کماتے نہ جوڑتے، محض عبادت میں لگے رہتے، خلق سے نہ ملتے، اللہ نے بندوں کو یہ حکم نہیں دیا (کہ اس طرح دنیا چھوڑ کر بیٹھ رہیں) مگر جب اپنے اوپر ترک دنیا کا نام رکھا، پھر اس پردے میں دنیا چاہنا بڑا وبال ہے"۔ شریعت حقہ اسلامیہ نے اس اعتدال فطری سے متجاوز رہبانیت کی اجازت نہیں دی۔ ہاں بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے[احمد:13536]۔ کیونکہ مجاہد اپنے سب حظوظ و تعلقات سے واقعی الگ ہو کر اللہ کے راستہ میں نکلتا ہے۔ (تنبیہ) "بدعت" کہتے ہیں ایسا کام کرنا جس کی اصل کتاب و سنت اور قرون مشہود لہا بالخیر میں نہ ہو۔ اور اسکو دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی وصیت فرما دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ تم نے وہی درخواست کی جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تھی، میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ ہر چیز کی بنیاد ہے، جہاد کو اپنے اوپر لازم کرلو کہ وہ اسلام کی رہبانیت ہے اور ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کو اپنے اوپر لازم کرلو کہ وہ آسمان تمہاری روح اور زمین تمہارا ذکر ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے بھی یہ بات سن لی ہے۔[مسند احمد:٥/٢٤٨:حدیث نمبر ٧٨٩ (57618)]
تخريج الحديث
الشواهد
|
حَدَّثَنَا يَعْمَرُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لِكُلِّ نَبِيٍّ رَهْبَانِيَّةٌ ، وَرَهْبَانِيَّةُ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ " .[مسند أحمد بن حنبل » 13536]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کی رہبانیت رہی ہے، اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔[مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 2747(59576)]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کی رہبانیت رہی ہے، اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔[مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 2747(59576)]
تخريج الحديث
|
==============================================================
وَشَرَوهُ بِثَمَنٍ بَخسٍ دَرٰهِمَ مَعدودَةٍ وَكانوا فيهِ مِنَ الزّٰهِدينَ {12:20} | ||
اور اس کو تھوڑی سی قیمت (یعنی) معدودے چند درہموں پر بیچ ڈالا۔ اور انہیں ان (کے بارے) میں کچھ لالچ نہ تھا | ||
اور بیچ آئے اسکو بھائی ناقص قیمت کو گنتی
کی چونیاں [۲۹] اور ہو رہے تھے اس سے بیزار.
| ||
یعنی اس قدر ارزاں بیچنے سے تعجب مت کرو۔ وہ اتنے بیزار تھے کہ مفت ہی دے ڈالتے تو مستبعد نہ تھا۔ جو پیسے مل گئے غنیمت سمجھا بعض مفسرین کہتے ہیں آیت میں اس بیع کا ذکر ہے جو قافلہ والوں نے مصر پہنچ کر کی۔ اگر ایسا ہو تو کہا جائے گا کہ پڑی ہوئی چیز کی قدر نہ کی۔ اور یہ اندیشہ رہا کہ پھر کوئی آ کر دعویٰ نہ کر بیٹھے ۔ نیز آبق (بھگوڑا) ہونے کا عیب سن چکے تھے ، اس لئے سستے داموں بیچ ڈالا ۔ والظاہر ہوالال ۔ واللہ اعلم۔ | ||
[سنن أبي داود » كِتَاب الْجِهَاد » بَاب فِي فَضْلِ الشَّهَادَةِ ... رقم الحديث: 2161]
عثمان بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، محمد بن اسحاق ، اسماعیل بن امیہ، ابوزبیر، سعید، بن جبیر، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کئے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کی سبز رنگ کے پرندوں کے پیٹ میں رکھ دیا وہ جنت کی نہروں پر اترتی اور اس سے سیراب ہوتی ہیں اور اس (جنت) کے پھل کھاتی ہیں اور سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں جو عرش کے سایہ میں لٹکے ہوئے ہیں جب ان کی روحوں نے کھانے پینے اور آرام و راحت کی لذت محسوس کی تو کہا کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں تک یہ خوشخبری پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہمیں کھانے پینے کو ملتا ہے (ہم ان کو یہ خوشخبری اس لئے سنانا چاہتے ہیں تاکہ) وہ جہاد سے بے توجہی نہ برتیں اور کفار سے قتال و جدال میں پیچھے نہ ہٹیں پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری یہ خوشخبری ان تک پہنچا دوں گا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترجمہ) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ ہرگز مت کہو بلکہ وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں اور وہاں کے رزق سے فیض یاب ہیں۔[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 755 (17373)]