یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: *اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر اختیار کرلیا ہے۔۔۔* [سورۃ آل عمران، آیت نمبر 156] *اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے تفرقہ ڈالا اور اختلاف میں پڑگئے واضح دلائل آنے کے بعد بھی۔۔۔* [سورۃ آل عمران، آیت نمبر 105]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․
[مصنف ابن ابی شیبة:20550، مسند احمد:5115، سنن ابوداؤد:4031، مسند عبد بن حمید:848، شعب الإيمان-للبیھقي:1199، مسند الشاميين-للطبراني:216، المعجم-لابن الأعرابي:1137 ﴿المعجم الاوسط-للطبراني :8947، مسند البزار:296﴾]
پردہ داری کی وجہ سے صرف مسلم خواتین کے حق میں ہی ہر نوع کا تشدد کیوں روا رکھا جارہا ہے؟ حالانکہ عیسائی راہبات اور بدھسٹ مذہب پرست عورتوں میں بھی اس کا خوب رواج اور چلن ہے۔
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
اے نبی ! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اوپر جھکا لیا کریں۔ (47) اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا۔ (48) اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ الاحزاب:59]
47: اس آیت نے واضح فرما دیا ہے کہ پردے کا حکم صرف ازواجِ مطہرات (یعنی پیغمبر کی پاک بیویوں) کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو اپنے چہروں پر جھکا کر انہیں چھپالیا کریں۔ مقصد یہ ہے کہ راستہ دیکھنے کے لیے آنکھوں کو چھوڑ کر چہرے کا باقی حصہ چھپالیا جائے۔ اس کی صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جس چادر سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہے، اس کو چہرے پر اس طرح لپیٹ لیا جائے کہ آنکھوں کے سوا باقی چہرہ نظر نہ آئے، اور یہ صورت بھی ممکن ہے کہ چہرے پر الگ سے نقاب ڈال لیا جائے۔
48: بعض منافقین عورتوں کو راستے میں چھیڑا کرتے تھے، اس آیت میں پردے کے ساتھ نکلنے کی یہ حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ جب عورتیں پردے کے ساتھ باہر نکلیں گی تو ہر دیکھنے والا یہ سمجھ جائے گا کہ یہ شریف اور پاک دامن عورتیں ہیں، اس لئے منافقین کو انہیں چھیڑنے اور ستانے کی جرأت نہیں ہوگی، اس کے برخلاف بےپردہ بن ٹھن کر باہر نکلنے والی خواتین ان کی چھیڑ چھاڑ کا زیادہ نشانہ بن سکتی ہیں، علامہ ابوحیان نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ (البحر المحیط)۔
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوتے، جب سوار ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنے نقاب اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے۔
[سنن أبي داود:1833، مسند أحمدؒ:24021، السنن الكبرى - البيهقي:9051(9123)]
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: ج30 / ص476]
[صحيح فقه السنة وأدلته-كمال ابن السيد سالم: 2/ 215]
[وحسنه الألباني في الشواهد في كتاب: (جلباب المرأة المسلمة) ص107]
اللہ کے رسول ﷺ کی بیوی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا: تم اپنی بہنوں(یعنی رسول اللہ ﷺ کی دیگر بیویوں) کی طرح حج یا عمرہ کیوں نہیں کرتی؟ آپ نے فرمایا: میں نے (فرض)حج اور (مسنون)عمرہ کرلیا ہے، اور اللہ نے مجھے اپنے گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے۔
﴿اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو... سورۃ الأحزاب:33﴾
راوی نے کہا:
اللہ کی قسم! جب تک ان کا جنازہ نہ نکالا گیا، وہ اپنے کمرے کے دروازے سے باہر نہ نکلی۔
[تفسیر امام القرطبی» جلد 14 / صفحہ 181، دار الکتب المصریہ-القاہرہ]
نوٹ:
غیرفرض یعنی نفلی حج وعمرہ کیلئے پردہ اور محرم کے ساتھ عورت کا گھر سے نکلنے یا نہ نکلنے میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک پردہ اور محرم کے ساتھ ہونے کی شرط سے نفلی حج وعمرہ کیلئے نکلنا درست ہے اور بعض کے نزدیک نہیں۔
بہرحال یہ اختلاف افضل اور جائز کے درمیان ہے۔ نہ کہ کفر واسلام یا سنت وبدعت کا۔
حضرت قیس بن شماسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اس کا نام خلاد تھا اور اس کے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ یہ عورت اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جو جنگ میں شہید ہوگیا تھا۔ اصحاب رسول ﷺمیں سے کسی نے اس سے کہا کہ تو اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہے اور اس حال میں سر اور چہرہ ڈھکا ہوا ہے (یعنی پوری طرح اپنے حو اس میں ہے اور احکام شریعت کی پابندی برقرار ہے) وہ بولی: اگر میرا بیٹا بھی جاتا رہا تب بھی اپنی حیاء نہیں جانے دوں گی۔ آپ ﷺ نے اس عورت سے فرمایا: تیرے بیٹوں کو دو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔ اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیونکہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔
[سنن أبي داود:2488، مسند أبي يعلى:1591، السنن الكبرى - البيهقي:18591(18631)]
ہندو دہرم کی کتابوں میں عورت کے پردے کا ثبوت:
"چوں کہ برہم (خدا) نے تمہیں عورت بنایا ہے ؛ اس لئے اپنی نظریں نیچی رکھو، اوپر نہیں ، اپنے پیروں کو سمیٹے ہوئے رکھو ، اور ایسا لباس پہنو کہ کوئی تمہارا جسم دیکھ نہ سکے ”
کیونکہ عورت(یعنی چھپانے کی چیز) کو اس کے پیدا کرنے والے نے اسی لیے ہی اس کو کہتا کیا ہے۔
[رگ وید »منڈل#8، سوت#33، منتر#19]
رگ وید میں "او گُنٹھن" باپردہ عورت ہی کو کہتے ہیں۔
کتاب "والمیکی رامایانا" میں ناریوں کیلئے رول ماڈل سیتا کیلئے کہا گیا ہے:
آج سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اس سیتا کو دیکھ رہے ہیں جسے پہلے آسمان میں اڑتے ہوئے پرندے بھی نہ دیکھ سکتے تھے۔
یدھ کانڈ میں عورت باہر کب آسکتی ہے کے متلعق لکھا ہے کہ:
(1) مصیبت کے وقت (2)جنگوں میں (3)صوم ور میں
ہرش چریتم میں لکھا ہے کہ جب سے شریف اور خاندانی عورتوں کے چہروں پر نقاب کی جالی نہ رہی ان کی شرم وحیا جاتی رہی۔
[ہرش اجھورس۔۲]
بھر بھران اشوک میں صفحہ۳۹، ادھیائے ۲ میں قیامت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں عورتیں بگڑ جائیں گی ۔ بے پردہ ہوکر دونوں ہاتھوں سے بالوں کو سنبھالیں گی۔ کسی کی پرواہ نہیں کریں گی ۔
مہا بھارت ، وشوپرب ادھیائے ۱۹، میں لکھا ہے کہ سری کرشن کے ماموں کنشن متھرا کے راجہ نے جب کشتی کا دنگل قائم کیا تو مستورات کے دیکھنے کے لئے خاص مکانات بنوائے تھے۔ وہ اتنی بلندی پر تھے کہ راجہ ہنس اڑتے ہوئے نظر آتے تھے ان پر باریک جالی لگائی گئی تھی۔ جہاں سے خواتین تماشہ دیکھتی تھیں۔
ہندودھرم میں سیتا جی کا بڑا مقام ہے ۔ رامائن اجودھیا کانڈم سرگ ۳۳ میں لکھا ہے کہ بن باس(جلاوطنی ) کے وقت جناب رام چندر جی سیتا کے ساتھ گھر سے نکلے تو لوگوں نے شور مچادیا اور آہ وبکا کرنے لگے کہ کیا برا وقت آگیا ہے ، وہ سیتا جس کو آسمانی دیوتا بھی نہیں دیکھ پائے تھے اسے آج بازاری لوگ دیکھ رہے ہیں ۔
رامائن کشن گانڈم سرگ ۳۳ میں لکھا ہے کہ لکشمن کی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے کہ بن باس کے زمانہ میں شب وروز سیتاجی کے ساتھ رہے ۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ کہ میں نے سیتا جی کے پاؤں دیکھے ہیں ۔ سوگر یو نے خوفزدگی کے عالم میں کوئی بات کرنے کے بجائے اپنی رانی لکشمی کے پاس بات کرنے کیلئے گئے لیکن نا محرم عورتوں کودیکھ کر لکشمن نے منھ دوسری طرف پھیر لیا او رواپس آگئے ۔
مہا بھارت سنھا پرب ادھیا ۶۹ میں ہے کہ ارجن کی بیوی دریدی ایک مقام پر کہتی ہیں ۔ اے بزرگو! راجہ نے مجھے سوئمبر کے موقع پر دیکھا تھا ۔ اس سے پہلے کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا ۔ آج بدقسمتی سے غیر مردوں کے سامنے آنا پڑا اجنبی لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اورکیا ذلت ہوگی کہ مجھ جیسی پاک دامن خاتون لوگوں کے روبرو آئے ۔ہزار افسو س کہ راجہ دھرم کھو بیٹھے ۔ ہم تو سنتے آئے تھے کہ قدیم زمانہ کے شرفاء اپنی منکوحہ کو کبھی بھی مجمع میں نہیں لے جاتے تھے۔ افسوس اب اس خاندان کا دھرم جاتا رہا ۔
"امت" ایک عربی اصطلاح ہے جو ایک ایسی برادری یا قوم سے مراد ہے جو مشترکہ عقیدے ، ثقافت یا شناخت رکھتے ہوں۔ اسلام کے تناظر میں ، "امتوں" کی اصطلاح مسلمانوں کی عالمی برادری کو بیان کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے ، جو ایک حقیقی معبود (اللہ) پر ان کے اعتقاد اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے ذریعہ متحد ہیں۔
اے لحاف میں لپٹنے والے! کھڑا ہو پھر ڈرا (خبردار کر)۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا اے اللہ کے رسول، مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے نیکی کی ہے یا برائی؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم سنو کہ تمہارے پڑوسی کہہ رہے ہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو واقعی تم نے اچھا کام کیا ہے اور جب تم ان سے سنو کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے غلط کام کیا ہے تو واقعی تم نے غلط کام کیا ہے۔
تنہائی میں بھی نامناسب امور سے اجتناب : __________________________ قال النبي صلى الله عليه و سلم :" ما كرهت أن يراه الناس منك ، فلا تفعله بنفسك إذا خلوت" ( الجامع الصغير لجلال الدين: 7973 حديث حسن) أخرجه ابن حبان (2/129، رقم 403) ، والضياء (4/178، رقم 1393) .