Sunday, 27 October 2019

لغوی اور اصطلاحی معنیٰ میں فرق

لغوی اور اصطلاحی معنیٰ میں فرق:
لفظ کا وہ اصلی معنیٰ جو اہلِ زبان مراد لیتے ہیں اسے لغوی معنیٰ کہتے ہیں۔ اور لفظ کا وہ معنیٰ جو (1)ماہرِ زبان Linguists یا (2)اہلِ علاقہ یا (3)اہلِ فن ’’متعین‘‘ کرلیں اسے اصطلاحی(یا عُرفی) معنیٰ کہتے ہیں۔

جیسے:
لفظ Calculate اور Compute کے لغوی اصلی معنیٰ "حساب کرنا" ہے، لیکن کوئی بھی Calculator اور Computer سے ایک ہی چیز مراد نہیں لیتا۔
کیونکہ
اہلِ فن نے Computer اور Calculator کی علیحدہ علیحدہ معنیٰ ’’متعین‘‘ Specified,Particularize کی ہیں۔ اس علم کو علم الاصطلاحات Terminology کہتے ہیں۔
مثلا:

طبّی اصلاحات Medical Terminology،
قانونی اصطلاحات Legal Terminology وغیرہ



نوٹ:
فن بدل جائے تو معنیٰ اصطلاحی بدل جاتا ہے، جیسے: لفظ ’’کلمہ‘‘ جب درجہ حفظ کی درسگاہ میں بولا جائے تو اس سے مراد ’’کلمہ طیبہ‘‘ ہوگا، علمِ نحو میں اس سے مراد ’’لَفْظٌ وُضِعَ لِمَعْنًى مُفْرَدٍ‘‘ (یعنی وہ لفظ جو ایک معنیٰ کیلئے وضع کیا گیا ہو)۔
[شرح مختصر الروضة:1/ 128، غاية السول إلى علم الأصول: ص35]



شرعی مثال:
(1) حدیث میں لفظ ہے: أَطْوَلُ يَدًا (یعنی سب سے زیادہ لمبے ہاتھ والا) سے مراد سب سے زیادہ سخی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ازواجِ مطھراتؓ سے فرمایا:  «أَسْرَعُكُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا» [صحیح مسلم:2452] یعنی میری وفات کے بعد سب سے پہلے اس بیوی کی وفات ہوگی جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے۔بظاہر لمبے ہاتھ تو حضرت سودہؓ کے تھے لیکن انتقال ہوا حضرت زینب بنت جحشؓ کا، اب اشکال پیش آیا کہ رسول اللہ ﷺ کے کلام کا مقصد کیا ہے؟ اور یہ تو ہو نہیں سکتا نبی ﷺ سچی بات ارشاد نہ فرمائیں۔ تو غور کیا گیا کہ یہاں لفظ أَطْوَلُ يَدًا سے مراد لمبے ہاتھ والا نہیں بلکہ سخاوت میں سب سے ممتاز سخی۔ اور ازواجِ مطھرات کے اندر سخاوت کا مادہ تو تھو لیکن سخاوت کے وصف میں سب سے زیادہ لمبے ہاتھ والی ام المومنین زینبؓ بنت جحش تھیں۔

ہماری زبان میں کہتے ہیں کہ ’’فلاں کہ ہاتھ بہت لمبے ہیں، اس سے پنگا نہ لینا ورنہ مار کھائے گا‘‘، سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کے ہاتھ حقیقتا لمبے (دکھتے) ہیں اور اس کا ہاتھ اڈھائے یا چار فُٹ کا ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس شخص کے تعلقات کی وسعت اور طاقت کو لمبے ہاتھ سے تعبیر کردیتے ہیں۔

اب فقہ(سمجھ) سے نابلد منافقین[سورۃ المنافقون:7] انکارِ فقہ کے سبب اس حدیث کے ’’نئے‘‘ معنیٰ ومراد پھیلاکر اسلام ہی کے دوسری بنیاد: حدیث کا ہی انکار کرتے کرانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں حق کلمہ سے باطل مراد لینا۔





مصادر ومراجع Sources & References:
(1) طلبة الطلبة في اصطلاحات الفقهية، امام النسفي (المتوفى: 537هـ)

اصولِ حدیث:
(2) الاقتراح في بيان الاصطلاح، امام ابن دقيق العيد (المتوفى: 702هـ)

(3) مقدمة ابن الصلاح ومحاسن الاصطلاح (577 هـ - 643 هـ).

متعدد فنون وعلوم:
(4)  كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون (المتوفى: 1067هـ)
(5) موسوعة كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم (المتوفى: بعد 1158هـ)


اسلامی اصطلاحات کا کفار کیلئے لغوی استعمال:
(1)ایمانِ کفار، انہیں کفر کا حکم کرتا ہے۔
[حوالہ، سورة البقرۃ:93]
























لفظِ صوفی کی لغوی واصطلاحی تحقیق
https://raahedaleel.blogspot.com/2014/11/blog-post_10.html
بیعت کا معنی، حکم، طریقہ، فوائد کے شرائط اور اقسام
https://raahedaleel.blogspot.com/2019/08/blog-post_30.html

مذھب کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ

http://raahedaleel.blogspot.com/2012/12/blog-post_21.html

تقلید کا لغوی و اصطلاحی معنیٰ
عبادت کی شرعی معنی ومفہوم اور اقسام
نیاز کرنے کے معنیٰ اور حقیقت
http://raahedaleel.blogspot.com/2014/11/blog-post_3.html
اجتہاد کی معنی، شرعی حکم اور شرائط
http://raahedaleel.blogspot.com/2012/12/blog-post_17.html
اجماع کی معنی، شرعی حکم، اقسام
http://raahedaleel.blogspot.com/2012/12/blog-post_72.html

فتنہ کے معنی ، اقسام اور علاج

http://raahedaleel.blogspot.com/2014/08/blog-post_31.html



===================
عيد کے لغوی واصطلاحی معنیٰ:
العادۃ کسی فعل یا انفعال کو "بار بار کرنا" حتی کہ وہ طبعی فعل کی طرح سہولت سے انجام پاسکے۔ اسی لئے بعض نے کہا ہے کہ عادۃ طبیعتِ ثانیہ کا نام ہے۔
العید وہ ہے جو بار بار لوٹ کر آئے۔
عيد کے اصطلاحی معنیٰ:
اصطلاحِ شریعت میں یہ لفظ فطرہ کے دن اور قربانی کے دن پر بولا جاتا ہے ۔ چونکہ شرعی طور پر یہ دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یوم عرفہ، یوم النحر اور ایامِ تشریق (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ) ہم اہل اسلام کی عید ہے، اور یہ (1)کھانے اور (2)پینے کے دن ہیں۔
[سنن ابو داؤد:2419، سنن الترمذی:773، سنن النسائی:3007، صحيح ابن خزيمة:2100، صحيح ابن حبان:3603]

ان دنوں میں روزہ مت رکھو، کیوںکہ یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)ذکر اللہ کے۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌3573، شرح معاني الآثار:4100]
ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر۔اللہ اکبر کہیں۔
[تفسیر ابن کثیر:1 /417 سورۃ البقرۃ:203]

تیسری روایت میں ہے کہ بھیجا رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو ایامِ تشریق میں، کہ وہ اعلان کریں (لوگوں میں): (اے لوگو!) یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)میل جول کے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:15265، (شرح معاني الآثار:4111) (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:3376)]
يَعْنِي النِّكَاحَ
[مسند إسحاق بن راهويه:2419]
وملاعبةُ الرجلِ أهلَه ۔۔۔۔۔ اور کھیلنے کیلئے مرد کا اپنے گھروالی سے۔
[غريب الحديث للقاسم بن سلام:58]

اس لئے ہر وہ دن جس میں کوئی شادمانی حاصل ہو اس پر عید کا لفظ بولا جانے لگا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ:۔
أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكُونُ لَنا عِيداً
[سورۃ المائدة:114]
ہم پر آسمان سے خوان (نعمت) نازل فرما۔ ہمارے لئے (وہ دن) عید قرار پائے،
میں عید سے شادمانی کا دن ہی مراد ہے۔ اور العید اصل میں (خوشی یا غم کی) اس حالت کو کہتے ہیں جو بار بار انسان پر لوٹ کر آئے اور العائدۃ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو۔

[المفردات في غريب القرآن - امام الراغب الأصفهانيؒ(م502ھ) : صفحہ593، الناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت]


اس لیے کہ عید منانا سب لوگوں کی شرست اور طبیعت میں شامل ہے اوران کے احساسات سے مرتبط ہوتی ہے لھذا سب لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے لیے کوئي نہ کوئي تہوار ہونا چاہیے جس میں وہ سب جمع ہو کراپنی خوشی وفرحت اور سرور کا اظہار کریں۔

لوگوں کی بنائی عیدیں غیرشرعی ہیں:
حضرت طاؤسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَتَّخِذُوا ‌شَهْرًا ‌عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا يَوْمًا عِيدًا۔
’’تم (اپنی طرف سے) کسی مہینے کو عید نہ بناؤ، اور نہ کسی دن کو عید بناؤ‘‘.
[مصنف عبد الرزاق:8100 (7853) ، لطائف المعارف لابن رجب: ص118]

کفار امتوں کی عیدیں اورتہوار اس کے دنیاوی معاملات کے اعتبار سےمنائي جاتی ہیں مثلا سال نو کا تہوار یا پھر زراعت کا موسم شروع ہونے کا تہوار اور بیساکھی کا تہوار یا موسم بہار کا تہوار ، یا کسی ملک کے قومی دن کا تہوار یا پھر کسی حکمران کا مسند اقدار پر براجمان ہونے کے دن کا تہوار اس کے علاوہ اوربھی بہت سارے تہوار منائے جاتے ہيں ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ ان کے کچھ دینی تہوار بھی ہوتے ہیں مثلا یھود نصاری کے خاص دینی تہوار مثلاعیسائيوں کے تہواروں میں جمعرات کا تہوار شامل ہے جس کے بارہ میں ان کا خیال ہے کہ جمعرات کےدن عیسی علیہ السلام پر مائدہ یعنی آسمان سے دسترخوان نازل کیا گیا تھا اور سال کے شروع میں کرسمس کا تہوار ، اسی طرح شکر کاتہوار ، عطاء کا تہوار ، بلکہ اب تو عیسائي سب یورپی اور امریکی اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک جن میں نصرانی نفوذ پایا جاتا ہے ان تہواروں کومناتے ہیں اگرچہ بعض ممالک میں اصلانصرانیت تو نہيں لیکن اس کے باوجود کچھ ناعاقبت اندیش قسم کے کچھ مسلمان بھی جہالت یا پھر نفاق کی بنا پر ان تہواروں میں شامل ہوتے ہیں ۔

اسی طرح مجوسیوں کے بھی کچھ خاص تہوار اورعیدیں ہیں مثلا مھرجان اورنیروز وغیرہ کا تہوار مجوسیوں کا ہے  ۔

اوراسی طرح فرقہ باطنیہ کے بھی کچھ تہوار ہیں مثلا عیدالغدیر کا تہوار جس کے بارہ میں ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضي اللہ تعالی عنہ اور ان کے بعد بارہ اماموں سے خلافت پر بیعت کی تھی ۔


مسلمانوں کی عید میں دوسروں سے امتیاز:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مسلمانوں کی ان دو عیدوں پر دلالت کرتا ہے اور مسلمانوں کی ان دو عیدوں کے علاوہ کوئي اور عید ہی نہیں :

حضرت عائشہ ؓ نے بتلایا کہ حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں یہ شیطانی باجے؟ اور یہ عید(الفطر) کا دن تھا۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا: اے ابوبکر!
إِنَّ ‌لِكُلِّ ‌قَوْمٍ ‌عِيدًا، وَهَذَا عِيدُنَا۔
ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
[صحيح البخاري:952، صحيح مسلم:892، (سنن ابن ماجه:1898)]

لھذا مسلمانوں کے لیے جائز اورحلال نہيں کہ وہ کفار اور مشرکوں سے ان کے تہواروں اورعیدوں میں مشابہت کریں نہ تو کھانے اورنہ ہی لباس میں اورنہ ہی آگ جلاکر اورعبادت کرکے ان کی مشابہت کرنا بھی جائز نہيں ، اور اسی طرح ان کے تہواروں اورعیدوں میں بچوں کو کھیل کود کرنے بھی نہيں دینا چاہیے ، اورنہ ہی زيب وزينت کا اظہار کیا جائے اوراسی طرح مسلمانوں کے بچوں کو کفار کے تہواروں اور عیدوں میں شریک ہونے کی اجازت بھی نہیں دینی چاہیے  ۔

ہر کفریہ اوربدعت والی عید اورتہوار حرام ہے مثلا سال نو کا تہوار منانا ، انقلاب کا تہوار ، عید الشجرۃ ، عیدالجلاء ، سالگرہ منانا ، ماں کا تہوار ، مزدوروں کا تہوار ، نیل کا تہوار ، اساتذہ کا تہوار ، اورعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب بدعات اورحرام ہیں ۔

مسلمانوں کی صرف اور صرف دو عیدیں اور تہوار ہيں ، عید الفطر اور عیدالاضحی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی فرمان ہے۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ نبویہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے اورخوشی وراحت حاصل کرتے تھے ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں ؟
لوگوں نے جواب دیا کہ ہم دور جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ
یقینا اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے میں اچھے دن دیے ہیں عید الاضحی اور عیدالفطر۔
[سنن ابوداود: حدیث نمبر 1134]۔

یہ دونوں عیدیں اللہ تعالی کے شعار اورعلامتوں میں سے جن کا احیاء کرنا اوران کے مقاصد کا ادراک اوران کے معانی کو سمجھنا ضروری ہے ۔
===================


Saturday, 7 September 2019

پیغامِ کربلا

سیدنا حسینؒ سے یہ سچی محبت وعظمت نہیں کہ سارے سال خوش وخرم پھریں، کبھی ان کا خیال بھی نہ آئے، اور عشرۂ محرم میں واقعہ شہادت سن کر رولیں، یا ماتم برپا کرلیں، یا تعزیہ داری کا کھیل تماشا بنائیں، سارے سال گرمی کی شدت کے زمانہ میں کسی کی پیاس وبھوک کا خیال نہ آئے اور پہلی محرم کو اگرچہ سردی پڑ رہی ہو، کسی کو ٹھنڈے پانی کی ضرورت نہ ہو، شہدائے کربلا کے نام کی سبیل کا ڈھونگ بنایا جائے۔
سیدنا حسینؒ سے یہ سچی محبت وہمدردی ہے کہ جس مقصدِ عظیم کیلئے انہوں نے یہ قربانی دی اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے اپنی اپنی ہمت کے مطابق ایثار وقربانی پیش کریں، ان کے ایمان، اعمال، اخلاق، ارشادات وخطبات کی پیروی کو دنیا وآخرت کی سعادت سمجھیں۔



اُسوۂ حسینؒ» مقصدِ سفر کربلا» حفاظتِ دینِ نبوی:

کربلا میں سیدنا حسینؓ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

أَيُّهَا الناس، ان رسول الله ص قَالَ: [مَنْ رَأَى سُلْطَانًا جَائِرًا مُسْتَحِلا لِحَرَمِ اللَّهِ، نَاكِثًا لِعَهْدِ اللَّهِ، مُخَالِفًا لِسُنَّةِ رَسُولِ الله، يَعْمَلُ فِي عِبَادِ اللَّهِ بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، فَلَمْ يُغَيِّرْ عَلَيْهِ بِفِعْلٍ وَلا قَوْلٍ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ] أَلا وَإِنَّ هَؤُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ، وَتَرَكُوا طَاعَةَ الرَّحْمَنِ، وَأَظْهَرُوا الْفَسَادَ، وَعَطَّلُوا الْحُدُودَ، وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْءِ، وَأَحَلُّوا حَرَامَ اللَّهِ، وَحَرَّمُوا حَلالَهُ، وَأَنَا أَحَقُّ من غير، قَدْ أَتَتْنِي كُتُبُكُمْ، وَقَدِمَتْ عَلِيَّ رُسُلُكُمْ بِبَيْعَتِكُمْ، أَنَّكُمْ لا تُسْلِمُونِي وَلا تَخْذَلُونِي، فَإِنْ تَمَمْتُمْ عَلَى بَيْعَتِكُمْ تُصِيبُوا رُشْدَكُمْ، فَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ على، وابن فاطمه بنت رسول الله ص، نَفْسِي مَعَ أَنْفُسِكُمْ، وَأَهْلِي مَعَ أَهْلِيكُمْ، فَلَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَنَقَضْتُمْ عَهْدَكُمْ، وَخَلَعْتُمْ بَيْعَتِي مِنْ أَعْنَاقِكُمْ، فَلَعَمْرِي مَا هِيَ لَكُمْ بِنُكْرٍ، لَقَدْ فَعَلْتُمُوهَا بِأَبِي وَأَخِي وَابْنِ عَمِّي مُسْلِمٍ، وَالْمَغْرُورُ مَنِ اغْتَرَّ بِكُمْ، فَحَظَّكُمْ أَخْطَأْتُمْ، وَنَصِيبَكُمْ ضَيَّعْتُمْ، وَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ، وَسَيُغْنِي اللَّهُ عَنْكُمْ، وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ.
ترجمہ:

اے لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [جو شخص کسی ایسے ظالم بادشاہ کو دیکھے جو اللہ کے حرام کو حلال سمجھے اور اللہ کے عہد کو توڑدے، سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرے، اللہ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور دشمنی کا معاملہ کرے، اور یہ شخص اس بادشاہ کے ایسے اعمال دیکھنے کے باوجود کسی قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے، تو اللہ تعالی کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اس ظالم بادشاہ کے ساتھ ساتھ اس کے ٹھکانے (یعنی دوزخ)میں پہنچادے۔]

اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس(یزید)نے اور اس کے حکام نے شیطان کی اطاعت کو اختیار کر رکھا ہے، اور رحمان کی اطاعت کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور زمین میں فساد پھیلادیا، الله کی حدود کو معطل کردیا، اسلامی بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھ لیا، اللہ کے حرام کو حلال کر ڈالا اور حرام کو حلال ٹھہرا دیا، اور میں دوسروں سے زیادہ حقدار ہوں، اور میرے پاس تمہارے خطوط اور وفود تمہاری بیعت کا پیغام لیکر پہنچے ہیں، کہ تم میرا ساتھ نہ چھوڑو گے، اور میری جان کو اپنی جان کے برابر سمجھو گے، اب اگر تم اپنی بات پر قائم ہو تو ہدایت پاؤ گے، میں رسول اللہ کی لختِ جگر فاطمہ کا بیٹا ہوں، میری جان آپ لوگوں کی جانوں کے ساتھ اور میرے اہل و عیال آپ لوگوں کے اہل وعیال کے ساتھ، تم لوگوں کو میرا اعتبار کرنا چاہیے۔

اور اگر تم ایسا نہیں کرتے بلکہ میری بیعت کو توڑتے ہو اور میرے عہد سے پھر جاتے ہو تو وہ تم لوگوں سے کچھ بعید نہیں، کیونکہ یہی کام تم میرے باپ علی اور بھائی حسن اور چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کے ساتھ کرچکے ہو۔

اور وہ آدمی بڑا فریب میں ہے جو تمہارے عہد و پیمان سے دھوکہ کھائے، سو تم نے خود اپنا آخرت کا حصہ ضائع کر دیا، اور اپنے حق میں ظلم کیا، اور جو شخص بیعت کرکے توڑتا ہے، وہ اپنا نقصان کرتا ہے اور قریب ہے کہ اللہ تعالی مجھے تم سے مستغنی فرما دیں۔
اور سلامتی ہو تم سب پر اور رحمتیں اللہ کی اور برکتیں بھی۔


[أنساب الأشراف للبَلَاذُري: جلد 3/صفحہ171 ،
تاريخ الطبري:5/403،
الكامل في التاريخ (امام)ابن اثیر: جلد3/صفحہ159،
[مرآة الزمان في تواريخ الأعيان: جلد8/صفحہ118]



نوٹ:

(1)شریعت کی حفاظت کرنا۔

(2)نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔

(3)افضل جہاد، ظالم بادشاہ/حکمران کے خلاف (ہتھیار کے بجائے) حق/عدل کی بات کہنا ہے۔
[حوالہ» ابوداؤد:4344، ترمذی:2174، ابن ماجہ:4011] ﴿نسائی:4109(4214)، احمد:18828+18830، شعب الإيمان:7582، طبراني:8081﴾

اگرچہ وہ تمہارے حقوق نہ دیں، تم ان کے حقوق ادا کرتے رہو اور اپنے حق اللہ سے مانگو۔
[صحیح بخاری»حدیث نمبر:3603]
حاکم کی بات سن اور اطاعت کر اگرچہ (1)تیری پیٹھ پر مارا جائے یا (2)تیرا مال غصب کرلیا جائے، پھر بھی ان کی بات سن اور اطاعت کر۔
[صحیح مسلم:1847(4785)، السنن الكبرى-للبيهقي:16617، المعجم الاوسط-للطبراني:2893، المستدرك للحاكم:8533]
اس کی بات سنو اور (نیکی میں) اطاعت کرو کیونکہ ان پر ان کا بوجھ ہے اور تمہارے اوپر تمہارا بوجھ ہے۔
[جامع ترمذی:2199، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ:3176]



(4)ظالم حکمران وہ ہے جو شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرے۔
[حوالہ سورۃ المائدۃ:45]
یعنی حدود(شرعی سزاؤں) کو معطل کرے، اللہ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرے۔ گناہ اور دشمنی میں تعاون کرے۔












Friday, 30 August 2019

بیعت کا معنی، حکم، طریقہ، فوائد کے شرائط اور اقسام

عقیدہ:
بیعت کرنا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں۔
تشریح:
البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خریدنے کے ہیں لیکن یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔۔۔۔ بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرارِ بیعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [سورۃ التوبة:111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ میں بیعتِ رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح:18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ ان سے راضی ہوا ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ ... [ التوبة:111] اللہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ انکے لئے جنت ہے میں پایا جاتا ہے۔
[تفسیر مفردات القرآن، امام راغب اصفہانیؒ]

اللہ عزوجل نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ [الفتح : 10]
بےشک جنہوں نے بیعت کی ہے آپ ﷺ سے، انہوں نے تو درحقیقت اللہ سے بیعت کی ہے۔

بیعت سنت ہے، لازم نہیں۔
البيعة سنة وليست بواجبه
[القول الجمیل: ص12، فتح البیان فی مقاصد القرآن:13/97]

کسی بزرگ کے ہاتھ پر یہ معاہدہ کرنا کہ میں آئندہ معصیت نہ کروں گا اور تصفیہ قلب کے لیے آپ کی ہدایات پر عمل کروں گا، اس کا نام بیعت ہے۔
 اعلم أن البیعة المتوارثة بین الصوفیة علی وجوہ: أحدہا بیعة التوبة من المعاصي الخ [القول الجمیل: ص12]

یعنی بیعت ایک معاہدہ کرنے کا نام ہے، کسی عالم باعمل، متقی پرہیزگار، مصلح کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر ہرقسم کے گناہ کے کاموں سے توبہ کرے اور صحیح عقائد اوراچھے اعمال پر گامزن رہنے کا وعدہ کرے۔ اخلاقِ رذیلہ کو دور کرنے اور اخلاقِ حسنہ پیدا کرنے کا عہد کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس طرح کا صحابہٴ کرام سے اور بہت سی صحابیات سے عہد لیا تھا۔ اس لیے یہ مسنون طریقہ ہے۔ اس کا فائدہ ظاہر ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی اپنے اندر سے تکبر، ریاکاری، حرص و لالچ، حب جاہ، حب مال کو نکال کر اپنے اندر تواضع، اخلاص، خشیتِ الٰہی، اتحاد و اتفاق، محبت و ہمدردی، صلہ رحمی پیدا کرے اور اعلیٰ درجے کے اچھے اخلاق، انسانیت وشرافت سیکھ کر مثالی دین دار، دیانت دار شریف انسان بنے۔ پیر طریقت کی صحبت میں رہ کر یہ اوصاف بہت جلد پیدا ہوجاتے ہیں۔

کسی ’’متبع سنت‘‘ پیرو مرشد سے بیعت ہونا لازم و واجب نہیں لیکن اصلاح نفس و تزکیہ باطن لازم ہے، اور تزکیہ عامةً کسی متبعِ سنت(شیخِ کامل، مرشد، پیر و بزرگ) سے اصلاحی تعلق قائم کئے(صحبت اٹھائے) بغیر دشوار ہوتا ہے، اس لئے اصلاح و تزکیہ کی غرض سے کسی پیر و مرشد سے بیعت ہوجانا بہتر ہے۔


بیعت کے فوائد حاصل کرنے کی 4 شرائط:
اعتقاد، اطلاع ، اتباع اور انقیاد۔

بیعت کی پانچ قسمیں ہیں:
(۱) بیعتِ اسلام۔ (۲) بیعتِ جہاد۔ (۳) بیعتِ خلافت۔ (۴) بیعتِ سلوک۔ (۵) بیعت ِمعاہدہ۔

[القول الجمیل: ص9]

عورتوں سے بیعت:
يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلۡمُؤۡمِنَـٰتُ يُبَايِعۡنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشۡرِكۡنَ بِٱللَّهِ شَيۡـًٔ۬ا وَلَا يَسۡرِقۡنَ وَلَا يَزۡنِينَ وَلَا يَقۡتُلۡنَ أَوۡلَـٰدَهُنَّ وَلَا يَأۡتِينَ بِبُهۡتَـٰنٍ۬ يَفۡتَرِينَهُ ۥ بَيۡنَ أَيۡدِيہِنَّ وَأَرۡجُلِهِنَّ وَلَا يَعۡصِينَكَ فِى مَعۡرُوفٍ۬‌ۙ فَبَايِعۡهُنَّ۔۔۔
اے نبی جب آئیں تیرے پاس مسلمان عورتیں بیعت کرنے کو اس بات پر کہ شریک نہ ٹھہرائیں اللہ کا کسی کو اور چوری نہ کریں اور بدکاری نہ کریں اور اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں، اور طوفان(الزام) نہ لائیں باندھ کر اپنے ہاتھوں اور پاؤں میں، اور تیری نافرمانی نہ کریں کسی بھلے کام میں تو اُنکو بیعت کر لے۔۔۔
[سورۃ الممتحنۃ:12]

بیعتِ سلوک وطریقت:
پھر رسول اللہ ﷺ فرماتے:
«قَدْ بَايَعْتُكِ» كَلاَمًا، وَلاَ وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي المُبَايَعَةِ، مَا يُبَايِعُهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ
میں نے تم کو بیعت کرلیا اور اللہ کی قسم ! بیعت کرتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو مس Touch نہیں کیا ، آپ ﷺ ان کو صرف اپنے کلام سے بیعت کرتے تھے۔
[بخاری:4891: کتاب تفسیر القرآن : سورة الممتحنۃ]
https://www.youtube.com/watch?v=8YNEUuaEPz0

رسول اللہ ﷺ کے پاس انصاری خواتین دینِ اسلام پر بیعت کیلئے حاضر ہوئیں اور درخواست کی کہ آپ ﷺ اپنا دستِ مبارک آگے فرمائیں تاکہ ہم بھی (مردوں کی طرح) بیعت کرلیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ ۔۔۔ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔
[نسائی:4181 ابن ماجہ:2874]


وَقَدْ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ الْمَنْصُورِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَافِحُ النِّسَاءَ وَعَلَى يَدِهِ ثوب
نبی ﷺ عورتوں سے مصافحہ کرتے اور (وہ اس حالت میں کہ) ان کے ہاتھ پر کپڑا ہوتا تھا۔
[التمهيد لما في الموطأ:12/243]

وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا بَايَعَ لَا يُصَافِحُ النِّسَاءَ إِلَّا وَعَلَى يَدِهِ ثَوْبٌ .
نبی ﷺ عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے مگر (صرف اس طریقے سے  کہ) ان کے ہاتھ پر کپڑا ہوتا تھا۔
[التمهيد لما في الموطأ:12/244، شرح الزرقاني على موطأ:4/633]

وَقَدْ جَاءَ فِي أَخْبَارٍ أُخْرَى أَنَّهُنَّ كُنَّ يَأْخُذْنَ بِيَدِهِ عِنْدَ الْمُبَايَعَةِ مِنْ فَوْقِ ثَوْبٍ.
[فتح الباري:8/637 إرشاد الساري:10/268]


عن أم عطية قالت بايعنا رسول الله ﷺ فقرأ علينا أن لا تشركن بالله شيئًا ونهانا عن النياحة فقبضت منا امرأة يدها.
[صحيح البخاري:4829+4829، السنن الكبرى للبيهقي:7104+7105]
يدل على معالجة البيعة باليد.
[الكوكب الدري على جامع الترمذي:2/418]





حضرت عوف بن مالک اشجعیؒ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر ہم نو یا آٹھ یا سات افراد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے (تین مرتبہ) فرمایا کہ تم اللہ کے رسول ﷺ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے؟ ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! کس امر پر بیعت کریں؟ فرمایا: اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کروگے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے، (احکام کو) سنو گے اور ان کی اطاعت کروگے(اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کریں گے)".
[مسلم:1043، (ابوداوؐد:1642) ابن ماجہ:2867 نسائی:460]

نوٹ:
یہ بیعتِ اسلام نہ تھی، وہ پہ؛ے سے ہی مسلمان ہوچکے تھے۔



انصاری عورتوں سے رسول اللہ ﷺ نے بیعت لی کہ وہ نوحہ نہ کریں گی۔
[نسائی:1852]

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے ۔۔۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم مجھ سے اس شرط پر بیعت کرو کہ(۱)چستی اور سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے، (۲)تنگی اور آسانی ہر حال میں خرچ کرنے، (۳)نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے، (۴) اور حق بات کہنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کرنے، (۵)اور میری مدد اور حفاظت کرنے جس طرح اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔
[مسند احمد:14456, صحیح ابن حبان:6273]




شیخ کے ضروری اوصاف یہ ہیں:
(۱) کتاب وسنت کا ضروری علم رکھتا ہو خواہ اساتذہ کرام سے پڑھ کر یا علمائے کرام کی صحبت میں رہ کر، یعنی: صحیح وضروری علم دین اور عقائد حقہ کا حامل ہو۔ (۲) عدالت اور تقوی میں پختہ ہو، بدعات اور کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو اور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو۔ (۳) دنیا سے بے رغبت ہو اور آخرت سے رغبت رکھتا ہو، یعنی: حب جاہ، حب مال، ریا، تکبر، حسد، بغض، کینہ وغیرہ اخلاق رذیلہ کی اصلاح کراچکا ہو۔ اورفرائض اور واجبات کے علاوہ طاعات موٴکدہ اور اذکار منقولہ کا اہتمام رکھتا ہو۔ (۴) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہو، ان چاروں کا حاصل یہ ہے کہ ظاہر وباطن ہر اعتبار سے متبع شریعت وسنت ہو۔ (۵) کسی متبع شریعت سنت اور صاحب نسبت شیخ کامل سے اصلاحی تعلق قائم کرکے ان سے سلوک واحسان کی منزلیں طے کی ہوں اور اس شیخ کامل نے اس کے حالات سے مطمئن ہوکر اس پر اعتماد کیا ہو اور اسے خلافت سے نوازا ہو۔ (۶) اور خلافت کے بعد وہ دینی تنزلی وانحطاط کا شکار نہ ہو؛ بلکہ نفس کی نگرانی کے ساتھ محنت ومجاہدات کے ذریعے مزید ترقیات میں کوشاں رہتا ہو۔ پس جس شخص میں یہ امور پائے جائیں، اسے شیخ طریقت بنانا اور اس سے بیعت ہوکر سلوک واحسان کی منزلیں طے کرنا درست ہے.
[فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۴: ۳۵۲-۳۵۹، سوال: ۱۴۹۰-۱۴۹۵، القول الجمیل: ص13]




Monday, 19 August 2019

برے علماء کون؟



برے علماء کون؟
(1) اپنی رائے کی "ملاوٹ" سے نئی تفسیر و تشریح کرنے والے یا مکمل بات کو "چھپانے" والے۔
القرآن:
اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ(اصل حقیقت)تم اچھی طرح جانتے ہو۔
[سورۃ البقرۃ:42]




(2) بےعمل اسکالرز:
کیا تم حکم تو کرتے ہو لوگوں کو نیکی کا لیکن بھلادیتے ہو اپنے آپ کو جبکہ(سمجھ کر)پڑھتے بھی ہو کتاب کو، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
[سورۃ البقرۃ:44]




(3) دنیا کیلئے دین کو بدلنے والے:
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی"قیمت"وصول کرلیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے، قیامت کے دن اللہ ان سے کلام بھی نہیں کرے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
[سورۃ البقرۃ:174]

اے ایمان والو !(یہودی)عالموں اور(عیسائی)راہبوں درویشوں میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں، اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ (رشوت لے کر لوگوں کی مرضی کے مطابق شریعت کو توڑ موڑ ڈالتے ہیں، اور اس طرح اللہ کے مقرر کئے ہوئے صحیح راستے سے لوگوں کو روک دیتے ہیں۔)
[سورۃ التوبۃ:34]




(4) جمہور متقدمین علماء سے اختلاف رکھنے سے بڑھ کر مخالفت ومقابلہ كرے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ يُرِيدُ أَنْ يُقْبِلَ بِوُجُوهِ النَّاسِ إِلَيْهِ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ جَهَنَّمَ» ۔
ترجمہ:
جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا(بحث)کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کریں گے۔
[ترمذي2654، ابن ماجة:253، طبراني:199، حاكم:293]
تشریح:
جو علم حاصل کرے یعنی وہ بعد والا چھوٹا-اکیلا شخص ہے جو پہلے والے بڑے اور بہت سے علماء سے صرف اختلاف ہی نہیں بلکہ مخالفت ومقابلہ کرے، تاکہ سستی اور جلد شہرت پائے تو یہ نافرمانی گناہِ کبیرہ ہی نہیں بلکہ "فساد" ہے، جو صرف نافرمان کو ہی نقصاندہ نہیں بلکہ خالق کی مخلوق اور دین میں بگاڑ پیدا کرنا ہے، جو قرآن کے مطابق لوگوں کو قتل کرنے سے بھی زیادہ سخت[سورۃ البقرۃ:191] اور بڑا [سورۃ البقرۃ:217] گناہ ہے کیونکہ قتل کرنے سے اس مقتول کا صرف دنیاوی نقصان ہوا، لیکن جو دین کو بگاڑے اور لوگوں کو گمراہ کرے وہ تو آخرت کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔

ایسا شخص کم علم عوام سے بحث کرتا ہے تو اس کا ارادہ ومقصد انہیں اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے، اور جب یہ خود جہنم میں داخل ہوگا تو اس کے پیروکاروں کا انجام کیا ہوگا۔

اس حدیث میں بڑی اہم اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاً تو اسلام کی ترقیات وفتوحات کا ذکر کیا، پھر کچھ علماء وقُراء کا ذکرکیا، جو خود پسندی یا اَنانیت میں مبتلا ہوں گے کہ بڑے پرانے علماء کی بڑی جماعت کی اختلافی رائے کا علمی حق کے نام پر ان سب کو گمراہ قرار دے گا۔ اور اس گروہ کو اس طور پر ذکر کیا ہے کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی ترقیات اور فتوحات میں یہی لوگ رکاوٹ ہیں؛ کیوں کہ اس گروہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی ترقی کا ذکر کرنے کے بعد بہ طورِ تقابل پیش کیا ہے۔
یہ بڑی قابلِ عبرت بات ہے اور سو فیصد صحیح ہے ، کیوں کہ خود پسندی اور اَناپرستی کی وجہ سے یہ لوگ نہ علمائے حق کا ساتھ دیتے ہیں اور نہ علمائے حق کو آگے آنے دیتے ہیں؛ بل کہ ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش میں اپنی ہمت اور وقت واستعداد خرچ کرتے ہیں، مقصد صرف اپنی اَنا کی تسکین اور اپنی عزت وشہرت کا بقا وتحفظ ہوتا ہے؛ پھر دین کو ترقی کیسے ہوگی اور فتوحات کا دروازہ کہاں سے کھلے گا؟اس سے معلوم ہوا کہ علمائے سُو ہی اسلام کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں؛ لہٰذا اس حدیث میں قرآن پڑھنے والوں سے مراد علمائے سُو ہیں، جوصرف اپنے دنیوی مفادات اور نام وشہرت کے لیے دینی علوم حاصل کرتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں۔







(5) بعد والے یا چھوٹی عمر والے علماء
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَلْتَمِسَ الْعِلْمَ عِنْدَ الْأَصَاغِرِ ".
ترجمہ:
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اصاغر(یعنی چھوٹے بعد والوں) سے علم حاصل کیا جائے گا۔
[صحیح الجامع الصغیر:2207]




(6) جس کا مقصد دنیا کمانا ہو۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ ، لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا ، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
یعنی
جس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔
[ابوداود:3664، ابن ماجة:252، احمد:8457، أبي يعلى الموصلي:6373، صحيح ابن حبان:78، حاكم:288]



(7) اپنی بات کو نبی ﷺ کے نام کہنے والے:
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ، وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
[ترمذی:2951احمد:2675]
بچو میری حدیث بیان کرنے سے مگر جس کا تمہیں علم ہو، کیونکہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا جان کر تو اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم بنالیا۔
اور
جو کہے قرآن(کے بارے)میں(بغیرعلم محض)اپنی رائے سے تو 
اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم بنالیا۔





(8) حکمرانوں کی خلافِ شرع باتوں میں ساتھ دینے والے:
رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
العلماء أمناء الرسل على عباد الله ما لم يخالطوا السلطان ويداخلوا الدنيا۔۔۔
ترجمہ:
علماء الله کے بندوں پر رسولوں کے امین(یعنی حفاظتِ دین کے ذمہ دار)ہیں، بشرطیکہ وہ(ظلم میں)حکمرانوں سے گھل مل نہ جائیں اور (دینی تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر)دنیا میں نہ گھس پڑیں...
[جامع الاحادیث:14504]

حضرت انسؓ کی ایک روایت سے یہ حدیث منقول ہے:
العلماءُ أمناءُ الرسلِ على العبادِ ما لم يخالِطوا السلطانَ ويدخلوا في الدنيا فإذا دخلوا في الدنيا وخالَطوا السلطانَ فقد خانوا الرسلَ فاعتزِلوهُم.
ترجمہ:
علماء الله کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (علمی ورثے کے) امین ہوتے ہیں، جب تک کہ وہ حکمران کے ساتھ نہ گھِلیں مِلیں(یعنی پیچھے پیچھے چلنے نہ لگیں)۔ پس اگر وہ حکمران کے ساتھ گِھل ملیں، تو بلاشبہ انہوں نے رسولوں(کی علمی امانت)سے خیانت کی، تو تم ان(علماء) سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
[تنبيه الغافلين» حدیث#675، الجامع الصغير» حدیث#5683حسن]



اسی طرح حضرت علیؓ سے بھی ایک روایت میں ہے:
الفقَهاءُ أمَناءُ الرسلِ ما لم يَدخلوا في الدُّنْيا ويتَّبعوا السُّلطانَ ، فإذا فعَلوا ذلِكَ فاحذَروهُم۔
ترجمہ:
فقہاء(علمِ دین کی سمجھ رکھنے والے) الله کے بندوں کے درمیان رسولوں کے(علمی ورثے کے) امین (محافظ) ہوتے ہیں، جب تک کہ وہ دنیا میں داخل نہ ہوں اور(وہ اس طرح کہ) حکمرانوں کی پیروی کریں، پس جب وہ ایسا کریں تو ان سے بچنا۔
[الجامع الصغير5971]





(9) بدعات کے حامی اور صحابہ کی فضیلت چھپانے والے:
رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
إذا ظهرت البدعُ فى أمتى وشُتِمَ أصحابى فليُظْهِر العالمُ علمَه فإنْ لم يفعلْ فعليه لعنةُ اللهِ۔
ترجمہ:
جب میری امت میں بدعتیں نکالی جائیں اور میرے صحابہ کو برا کہا جاۓ تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ اپنے علم(سنت)کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرےگا تو اس پر لعنت(یعنی رحمت سے دوری)ہے الله کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی بھی.
[الشریعۃ،لامام آجری:2875]
جامع الاحادیث:2336
الاعتصام،لامام شاطبی:1/104
مفتاح الجنۃ،للسیوطی:1/66
فیض القدیر،للمناوی:1/401






عَنْ عَلِیٍّ ؓ قَالَ قَالَ رَسوْلُ اللہِﷺ: يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقىٰ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اِسْمُهُ، وَلَا يَبْقىٰ مِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدىٰ، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاۗءِ مِنْ عِنْدِهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُوْدُ۔
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں صرف اِسلام کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف نقوش باقی رہیں گے۔ اُن کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ اُس زمانہ کے علماء(Scholars) آسمان کے نیچے سب سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ خود اُن ہی میں سے فتنہ پھوٹے گا اور اُنہی میں جاکر ٹھہرے گا۔
[شعب الإيمان، للبیھقی:1763(ضعيف)]

(10) جو دنیاداری کا عالم ہو۔

حضرت ابوہريرهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ كُلَّ جَعْظَرِيٍّ جَوَّاظٍ سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ جِيفَةُ اللَّيْلِ، حِمَارُ النَّهَارِ، عَالِمٌ بِالدُّنْيَا، جَاهِلٌ بِالْآخِرَةِ»
ترجمہ:
بےشک اللہ عز وجل نفرت رکھتے ہیں ہر بدخلق، اجڈ اور بازاروں میں شور مچانے والے، رات کو گوشت کا لوتھڑا(بغیر سوئے)رہنے والے، دن کے گدھے، دنیا کے عالم، آخرت سے جاہل سے۔
[صحيح ابن حبان:72، السنن الكبرى للبيهقي:20804، صحيح الجامع:1879]
یعنی
قابلِ نفرت علماء سے مراد دنیا کے عالم ہیں۔ دنیا حاصل کرنے کے سب طریقے جانتا ہے اور آخرت بنانے والے اعمال کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔


لہٰذا، اکثر لوگوں کو حدیث کا خالی ترجمہ پڑھنے سے دھوکہ ہوسکتا ہے، اور وہ آخرت کی طرف متوجہ رہنے والے اور لوگوں کو توجہ دلانے والے علماء پر اس حدیث کو فِٹ کرتے، خود بھی گمراہ رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی دین کی من چاہی تشریح وتفسیر کرنے پر لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔




Wednesday, 3 July 2019

فضیلتِ فقہ اور مقامِ فقہاء

فقہ کسے کہتے ہیں؟
امام راغب اصفھانی(م502ھ) لکھتے ہیں:
الفقہ کے معنی علمِ حاضر سے علمِ غائب تک پہنچنا کے ہیں ، قرآن میں ہے:
فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً ۔۔۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ حدیث(بات)کی فقہ(سمجھ)نہیں پارہے ہیں۔[ النساء: 78]
وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ ۔۔۔۔۔ لیکن منافقین فقہ(سمجھ)نہیں رکھتے۔[المنافقون:7]
[مفردات في غريب القرآن: ص ؍ 642]


یعنی فقہ وہ باطنی علم کی گہرائی ہے جو ظاہری الفاظ کے سرسری پڑھ یا سُن لینے سے نہیں حاصل ہوتی، بلکہ اس کیلئے مسلسل فکرونظر کی ضرورت پڑتی ہے۔



فقہ کے فضائل:
اللہ عزوجل نے فقہ حاصل کرنے کو مسلمانوں پر فرضِ کفایہ(کہ ایک گروہ ادا کردے تو باقی لوگ سبکدوش ہوجاتے ہیں)کرتے فرمایا:
 اور مسلمانوں کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ (ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہوں۔ لہذا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لیے) نکلا کرے، تاکہ (جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں) وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے محنت کریں، اور جب ان کی قوم کے لوگ (جو جہاد میں گئے ہیں) ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو خبردار کریں، تاکہ وہ بچ کر رہیں۔
[سورۃ التوبۃ:122]

فقہاءِ دین کی ظاہری صفات؟
(1)  جو دین میں سمجھ حاصل کرنے کیلئے ’’محصور‘‘ رہیں۔
(2)  اور اپنی قوم کو ’’خبردار‘‘ کرنے والے ہوں، بشرطیکہ قوم ان کے پاس آئے یعنی اعتماد کرے۔
(3)  تاکہ وہ انہیں (گناہوں کے سبب اللہ کے عذاب) سے ’’بچانے‘‘ کا سبب بنیں۔



رسول اللہ ﷺ سے اس کی فضیلت میں کئی احادیث بھی مروی ہیں:
(1) مَنْ يُرِدْ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔
اللہ تعالیٰ جس کے حق میں بہتری چاہتے ہیں، اس کو دین کا تفقہ عطا فرماتے ہیں۔
[صحیح بخاری:71، صحیح مسلم:1037، سنن ابن ماجہ:221]

(2) «فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ»
ایک فقیہ(عالم) شیطان پر ہزارعابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔
[سنن ابن ماجہ:222، الأحاديث المختارة:126]

(3)«‌مَنْ ‌تَفَقَّهَ فِي دِينِ اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ مَهَمَّهُ وَرَزَقَهُ مِنْ ‌حَيْثُ ‌لَا ‌يَحْتَسِبُ»
جو شخص الله کے دین میں فقہ(سمجھ بوجھ) حاصل کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کے کاموں میں اس کی کفایت فرماتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ گیا ہو.
[مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم: رقم الحديث:4، مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:3، جامع بيان العلم وفضله:216، تاريخ بغداد:‌‌1220، جامع الأحاديث:21816]
 


اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے گا جو ہماری بات (حدیثسن کر اسے محفوظ (یادکرلے اور اسے پھر دوسرے اس شخص تک پہنچادے جس نے اسے براہ راست نہیں سنا کیونکہ بہت سے فقہ (علمِ حدیث) کے محافظ حقیقتاً   * فقیہ (دینی سمجھ رکھنے والا عالم) نہیں ہوتے * اور بہت سے فقیہ (علمِ حدیث کی فقہ رکھنے والے) تو ہیں لیکن جن کی طرف (یہ فقہ) منتقل کر رہے ہیں * وہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں * ....
[سنن ابوداؤد:3660، سنن ترمذی: 2656، سنن ابن ماجه:230]


بےشک لوگ تمہاری(اے میرے ساتھیو!) ’’اتباع‘‘ کریں گے اور زمین کے کناروں سے دین کی فقہ (گہری سمجھ) حاصل کرنے آئیں گے، تو میری طرف سے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو.
[سنن ترمذی:2650، سنن ابن ماجہ:249، مسند الشاميين للطبراني:405]

جو شخص الله کے دین میں فقہ(سمجھ بوجھ)حاصل کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کے کاموں میں اس کی کفایت فرماتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ گیا ہو.
[مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم: رقم الحديث:4]






فقہ کی اہمیت حدیث کے ائمہ(اماموں)کی نظر میں:
(1) امام اعمشؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی گہری سمجھ سے متاثر ہوکر بے ساختہ فرمایا:
یعنی
آپ طبیب(Doctor) ہیں اور ہم لوگ عطار(Pharmacists) ہیں.
[جامع بيان العلم وفضله، (امام) ابن عبد البر  » بَابُ ذِكْرِ مَنْ ذَمَّ الإِكْثَارَ مِنَ الْحَدِيثِ ...، رقم الحديث: 1195]
جیسے
علامہ سیوطیؒ(المتوفى: 911ه) ’’الحاوی للفتاوی‘‘ میں لکھتے ہیں :
قَالَتِ الْأَقْدَمُونَ: الْمُحَدِّثُ بِلَا فِقْهٍ كَعَطَّارٍ غَيْرِ طَبِيبٍ، فَالْأَدْوِيَةُ حَاصِلَةٌ فِي دُكَّانِهِ وَلَا يَدْرِي لِمَاذَا تَصْلُحُ، وَالْفَقِيهُ بِلَا حَدِيثٍ كَطَبِيبٍ لَيْسَ بِعَطَّارٍ يَعْرِفُ مَا تَصْلُحُ لَهُ الْأَدْوِيَةُ إِلَّا أَنَّهَا لَيْسَتْ عِنْدَهُ.
[الْحَاوِي لِلْفَتَاوِي: جلد 2 صفحہ 398(2/277)]
ترجمہ: پہلے اہلِ علم نے کہا ہے کہ وہ محدث جو فقہ نہ جانتا ہو اس عطار(دوا فروش) کی طرح ہے جو طبیب (ڈاکٹر) نہ ہو، سب دوائیں اس کی دکان میں موجود ہوتی ہیں اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کس مرض کا علاج ہیں۔ اور فقیہ بلاحدیث اسی طرح ہے جیسے وہ طبیب جو جانتا تو ہے کہ یہ دوائیں کس مرض کی ہیں مگر وہ رکھتا نہیں۔



(2) حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں:
عن الْإِمَامُ أَحْمَدُ قَالَ: إذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ الْكُتُبُ الْمُصَنَّفَةُ فِيهَا قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَاخْتِلَافُ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يَعْمَلَ بِمَا شَاءَ وَيَتَخَيَّرَ فَيَقْضِيَ بِهِ وَيَعْمَلَ بِهِ حَتَّى يَسْأَلَ أَهْلَ الْعِلْمِ مَا يُؤْخَذُ بِهِ فَيَكُونُ يَعْمَلُ عَلَى أَمْرٍ صَحِيحٍ.
[اعلام الموقعین: جلد 1 صفحہ44(1/35)]
ترجمہ:
امام احمدؒ (م241ھ) سے مروی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس حدیث کی کتابیں ہوں تو اس کے لئے جائز نہیں کہ جس پر چاہے عمل کر لے اور جو قول چاہے اختیارکرلے اور اس کے مطابق فیصلہ دے جب تک علماء سے نہ پوچھ لے کہ کون سی بات اختیار کرنی ہے۔ اس صورت میں اس کا عمل صحیح طریق پر ہوسکے گا۔

پہلے دنوں وہ اہلِ علم جن کی بات سند سمجھی جائے ”فقہاء“ کہلاتے تھے۔


(3) امام شافعیؒ کے شاگرد امام مزنیؒ (المتوفى: 264هـ) جو امام طحاویؒ کے استاد اور ماموں تھے فرماتے ہیں:
فَانْظُرُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ عَلَى مَا فِي أَحَادِيثِكُمُ الَّتِي جَمَعْتُمُوهَا، وَاطْلُبُوا الْعِلْمَ عِنْدَ أَهْلِ الْفِقْهِ تَكُونُوا فُقَهَاءَ۔
[الفقیہ والمتفقہ: جلد 2 صفحہ15(2/35)]
ترجمہ:
اللہ تم پر رحم کرے، ان احادیث پر جو تم نے جمع کیں نظر رکھو اور علم اہلِ فقہ سے حاصل کرو۔ تم خود بھی فقہاء(میں)بن جاؤگے۔



(4) امام ترمذیؒ(م279ھ ) ایک بحث میں لکھتے ہیں:
وَكَذَلِكَ قَالَ الفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الحَدِيثِ۔
[جامع ترمذی: جلد 1 صفحہ118  (3/306)]
ترجمہ: *اور یہی بات فقہاء نے کہی ہے اور فقہاء ہی حدیث کے معنی بہتر جانتے ہیں۔*



(5) حافظ ابن رجب حنبلیؒ(795ھ) اپنے رسالہ ’’الطیبۃ النافعۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
فأما الأئمة وفقهاء أهل الحديث فإنهم يتبعون الحديث الصحيح حيث كان إذا كان معمولا به عند الصحابة: ومن بعدهم: أو عند طائفة منهم فأما ما اتفق على تركه فلا يجوز العمل به لأنهم ما تركوه إلا على علم أنه لا يعمل به قال عمر بن عبد العزيز خذوا من الرأي ما يوافق من كان قبلكم فإنهم كانوا أعلم منكم.
[فضل علم السلف علم الخلف: صفحہ4]
ترجمہ:
تو ائمہ اور فقہاءِ حدیث، حدیث صحیح کی پیروی کرتے ہیں، وہ جہاں بھی ہو بشرطیکہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کے ہاں یا ان کے کسی ایک حلقے میں عمل میں رہی ہو لیکن جب اسے سب نے چھوڑ رکھا ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ ان حضرات نے اسے کسی علم کی بناء پر ہی چھوڑا ہوگا۔

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فقہ اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں، فقہ حدیث کا غیر نہیں، حدیث قالب(body) ہے تو فقہ روح(sprit) ہے، حدیث متن(Statement) ہے تو فقہ تشریح (Explanation) ہے - فقہاء نے کبھی قیاس(Logic) اور استنباط(elicitation) کو نص(Text) پر مقدم(forefront) نہیں کیا۔

مزید دیکھیئے: امام خطیب البغدادی(المتوفى: 463هـ) کی کتاب ’’الفقيه و المتفقه‘‘ کو۔