Sunday, 27 October 2019

لغوی اور اصطلاحی معنیٰ میں فرق

لغوی اور اصطلاحی معنیٰ میں فرق:
لفظ کا وہ اصلی معنیٰ جو اہلِ زبان مراد لیتے ہیں اسے لغوی معنیٰ کہتے ہیں۔ اور لفظ کا وہ معنیٰ جو (1)ماہرِ زبان Linguists یا (2)اہلِ علاقہ یا (3)اہلِ فن ’’متعین‘‘ کرلیں اسے اصطلاحی(یا عُرفی) معنیٰ کہتے ہیں۔

جیسے:
لفظ Calculate اور Compute کے لغوی اصلی معنیٰ "حساب کرنا" ہے، لیکن کوئی بھی Calculator اور Computer سے ایک ہی چیز مراد نہیں لیتا۔
کیونکہ
اہلِ فن نے Computer اور Calculator کی علیحدہ علیحدہ معنیٰ ’’متعین‘‘ Specified,Particularize کی ہیں۔ اس علم کو علم الاصطلاحات Terminology کہتے ہیں۔
مثلا:

طبّی اصلاحات Medical Terminology،
قانونی اصطلاحات Legal Terminology وغیرہ



نوٹ:
فن بدل جائے تو معنیٰ اصطلاحی بدل جاتا ہے، جیسے: لفظ ’’کلمہ‘‘ جب درجہ حفظ کی درسگاہ میں بولا جائے تو اس سے مراد ’’کلمہ طیبہ‘‘ ہوگا، علمِ نحو میں اس سے مراد ’’لَفْظٌ وُضِعَ لِمَعْنًى مُفْرَدٍ‘‘ (یعنی وہ لفظ جو ایک معنیٰ کیلئے وضع کیا گیا ہو)۔
[شرح مختصر الروضة:1/ 128، غاية السول إلى علم الأصول: ص35]


شرعی مثال:
(1) حدیث میں لفظ ہے: أَطْوَلُ يَدًا (یعنی سب سے زیادہ لمبے ہاتھ والا) سے مراد سب سے زیادہ سخی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ازواجِ مطھراتؓ سے فرمایا:  «أَسْرَعُكُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا» [صحیح مسلم:2452] یعنی میری وفات کے بعد سب سے پہلے اس بیوی کی وفات ہوگی جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے۔بظاہر لمبے ہاتھ تو حضرت سودہؓ کے تھے لیکن انتقال ہوا حضرت زینب بنت جحشؓ کا، اب اشکال پیش آیا کہ رسول اللہ ﷺ کے کلام کا مقصد کیا ہے؟ اور یہ تو ہو نہیں سکتا نبی ﷺ سچی بات ارشاد نہ فرمائیں۔ تو غور کیا گیا کہ یہاں لفظ أَطْوَلُ يَدًا سے مراد لمبے ہاتھ والا نہیں بلکہ سخاوت میں سب سے ممتاز سخی۔ اور ازواجِ مطھرات کے اندر سخاوت کا مادہ تو تھو لیکن سخاوت کے وصف میں سب سے زیادہ لمبے ہاتھ والی ام المومنین زینبؓ بنت جحش تھیں۔

ہماری زبان میں کہتے ہیں کہ ’’فلاں کہ ہاتھ بہت لمبے ہیں، اس سے پنگا نہ لینا ورنہ مار کھائے گا‘‘، سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کے ہاتھ حقیقتا لمبے (دکھتے) ہیں اور اس کا ہاتھ اڈھائے یا چار فُٹ کا ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس شخص کے تعلقات کی وسعت اور طاقت کو لمبے ہاتھ سے تعبیر کردیتے ہیں۔

اب فقہ(سمجھ) سے نابلد منافقین[سورۃ المنافقون:7] انکارِ فقہ کے سبب اس حدیث کے ’’نئے‘‘ معنیٰ ومراد پھیلاکر اسلام ہی کے دوسری بنیاد: حدیث کا ہی انکار کرتے کرانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں حق کلمہ سے باطل مراد لینا۔





مصادر ومراجع Sources & References:
(1) طلبة الطلبة في اصطلاحات الفقهية، امام النسفي (المتوفى: 537هـ)

اصولِ حدیث:
(2) الاقتراح في بيان الاصطلاح، امام ابن دقيق العيد (المتوفى: 702هـ)

(3) مقدمة ابن الصلاح ومحاسن الاصطلاح (577 هـ - 643 هـ).

متعدد فنون وعلوم:
(4)  كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون (المتوفى: 1067هـ)
(5) موسوعة كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم (المتوفى: بعد 1158هـ)



اسلامی اصطلاحات کا کفار کیلئے لغوی استعمال:
(1)ایمانِ کفار، انہیں کفر کا حکم کرتا ہے۔
[حوالہ، سورة البقرۃ:93]
























لفظِ صوفی کی لغوی واصطلاحی تحقیق
https://raahedaleel.blogspot.com/2014/11/blog-post_10.html
بیعت کا معنی، حکم، طریقہ، فوائد کے شرائط اور اقسام
https://raahedaleel.blogspot.com/2019/08/blog-post_30.html

مذھب کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ

http://raahedaleel.blogspot.com/2012/12/blog-post_21.html

تقلید کا لغوی و اصطلاحی معنیٰ
عبادت کی شرعی معنی ومفہوم اور اقسام
نیاز کرنے کے معنیٰ اور حقیقت
http://raahedaleel.blogspot.com/2014/11/blog-post_3.html
اجتہاد کی معنی، شرعی حکم اور شرائط
http://raahedaleel.blogspot.com/2012/12/blog-post_17.html
اجماع کی معنی، شرعی حکم، اقسام
http://raahedaleel.blogspot.com/2012/12/blog-post_72.html

فتنہ کے معنی ، اقسام اور علاج

http://raahedaleel.blogspot.com/2014/08/blog-post_31.html



===================
عيد کے لغوی واصطلاحی معنیٰ:
العادۃ کسی فعل یا انفعال کو "بار بار کرنا" حتی کہ وہ طبعی فعل کی طرح سہولت سے انجام پاسکے۔ اسی لئے بعض نے کہا ہے کہ عادۃ طبیعتِ ثانیہ کا نام ہے۔
العید وہ ہے جو بار بار لوٹ کر آئے۔
عيد کے اصطلاحی معنیٰ:
اصطلاحِ شریعت میں یہ لفظ فطرہ کے دن اور قربانی کے دن پر بولا جاتا ہے ۔ چونکہ شرعی طور پر یہ دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یوم عرفہ، یوم النحر اور ایامِ تشریق (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ) ہم اہل اسلام کی عید ہے، اور یہ (1)کھانے اور (2)پینے کے دن ہیں۔
[سنن ابو داؤد:2419، سنن الترمذی:773، سنن النسائی:3007، صحيح ابن خزيمة:2100، صحيح ابن حبان:3603]

ان دنوں میں روزہ مت رکھو، کیوںکہ یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)ذکر اللہ کے۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌3573، شرح معاني الآثار:4100]
ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر۔اللہ اکبر کہیں۔
[تفسیر ابن کثیر:1 /417 سورۃ البقرۃ:203]

تیسری روایت میں ہے کہ بھیجا رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو ایامِ تشریق میں، کہ وہ اعلان کریں (لوگوں میں): (اے لوگو!) یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)میل جول کے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:15265، (شرح معاني الآثار:4111) (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:3376)]
يَعْنِي النِّكَاحَ
[مسند إسحاق بن راهويه:2419]
وملاعبةُ الرجلِ أهلَه ۔۔۔۔۔ اور کھیلنے کیلئے مرد کا اپنے گھروالی سے۔
[غريب الحديث للقاسم بن سلام:58]

اس لئے ہر وہ دن جس میں کوئی شادمانی حاصل ہو اس پر عید کا لفظ بولا جانے لگا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ:۔
أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكُونُ لَنا عِيداً
[سورۃ المائدة:114]
ہم پر آسمان سے خوان (نعمت) نازل فرما۔ ہمارے لئے (وہ دن) عید قرار پائے،
میں عید سے شادمانی کا دن ہی مراد ہے۔ اور العید اصل میں (خوشی یا غم کی) اس حالت کو کہتے ہیں جو بار بار انسان پر لوٹ کر آئے اور العائدۃ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو۔

[المفردات في غريب القرآن - امام الراغب الأصفهانيؒ(م502ھ) : صفحہ593، الناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت]


اس لیے کہ عید منانا سب لوگوں کی شرست اور طبیعت میں شامل ہے اوران کے احساسات سے مرتبط ہوتی ہے لھذا سب لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے لیے کوئي نہ کوئي تہوار ہونا چاہیے جس میں وہ سب جمع ہو کراپنی خوشی وفرحت اور سرور کا اظہار کریں۔

لوگوں کی بنائی عیدیں غیرشرعی ہیں:
حضرت طاؤسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَتَّخِذُوا ‌شَهْرًا ‌عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا يَوْمًا عِيدًا۔
’’تم (اپنی طرف سے) کسی مہینے کو عید نہ بناؤ، اور نہ کسی دن کو عید بناؤ‘‘.
[مصنف عبد الرزاق:8100 (7853) ، لطائف المعارف لابن رجب: ص118]

کفار امتوں کی عیدیں اورتہوار اس کے دنیاوی معاملات کے اعتبار سےمنائي جاتی ہیں مثلا سال نو کا تہوار یا پھر زراعت کا موسم شروع ہونے کا تہوار اور بیساکھی کا تہوار یا موسم بہار کا تہوار ، یا کسی ملک کے قومی دن کا تہوار یا پھر کسی حکمران کا مسند اقدار پر براجمان ہونے کے دن کا تہوار اس کے علاوہ اوربھی بہت سارے تہوار منائے جاتے ہيں ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ ان کے کچھ دینی تہوار بھی ہوتے ہیں مثلا یھود نصاری کے خاص دینی تہوار مثلاعیسائيوں کے تہواروں میں جمعرات کا تہوار شامل ہے جس کے بارہ میں ان کا خیال ہے کہ جمعرات کےدن عیسی علیہ السلام پر مائدہ یعنی آسمان سے دسترخوان نازل کیا گیا تھا اور سال کے شروع میں کرسمس کا تہوار ، اسی طرح شکر کاتہوار ، عطاء کا تہوار ، بلکہ اب تو عیسائي سب یورپی اور امریکی اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک جن میں نصرانی نفوذ پایا جاتا ہے ان تہواروں کومناتے ہیں اگرچہ بعض ممالک میں اصلانصرانیت تو نہيں لیکن اس کے باوجود کچھ ناعاقبت اندیش قسم کے کچھ مسلمان بھی جہالت یا پھر نفاق کی بنا پر ان تہواروں میں شامل ہوتے ہیں ۔

اسی طرح مجوسیوں کے بھی کچھ خاص تہوار اورعیدیں ہیں مثلا مھرجان اورنیروز وغیرہ کا تہوار مجوسیوں کا ہے  ۔

اوراسی طرح فرقہ باطنیہ کے بھی کچھ تہوار ہیں مثلا عیدالغدیر کا تہوار جس کے بارہ میں ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضي اللہ تعالی عنہ اور ان کے بعد بارہ اماموں سے خلافت پر بیعت کی تھی ۔


مسلمانوں کی عید میں دوسروں سے امتیاز:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مسلمانوں کی ان دو عیدوں پر دلالت کرتا ہے اور مسلمانوں کی ان دو عیدوں کے علاوہ کوئي اور عید ہی نہیں :

حضرت عائشہ ؓ نے بتلایا کہ حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں یہ شیطانی باجے؟ اور یہ عید(الفطر) کا دن تھا۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا: اے ابوبکر!
إِنَّ ‌لِكُلِّ ‌قَوْمٍ ‌عِيدًا، وَهَذَا عِيدُنَا۔
ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
[صحيح البخاري:952، صحيح مسلم:892، (سنن ابن ماجه:1898)]

لھذا مسلمانوں کے لیے جائز اورحلال نہيں کہ وہ کفار اور مشرکوں سے ان کے تہواروں اورعیدوں میں مشابہت کریں نہ تو کھانے اورنہ ہی لباس میں اورنہ ہی آگ جلاکر اورعبادت کرکے ان کی مشابہت کرنا بھی جائز نہيں ، اور اسی طرح ان کے تہواروں اورعیدوں میں بچوں کو کھیل کود کرنے بھی نہيں دینا چاہیے ، اورنہ ہی زيب وزينت کا اظہار کیا جائے اوراسی طرح مسلمانوں کے بچوں کو کفار کے تہواروں اور عیدوں میں شریک ہونے کی اجازت بھی نہیں دینی چاہیے  ۔

ہر کفریہ اوربدعت والی عید اورتہوار حرام ہے مثلا سال نو کا تہوار منانا ، انقلاب کا تہوار ، عید الشجرۃ ، عیدالجلاء ، سالگرہ منانا ، ماں کا تہوار ، مزدوروں کا تہوار ، نیل کا تہوار ، اساتذہ کا تہوار ، اورعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب بدعات اورحرام ہیں ۔

مسلمانوں کی صرف اور صرف دو عیدیں اور تہوار ہيں ، عید الفطر اور عیدالاضحی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی فرمان ہے۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ نبویہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے اورخوشی وراحت حاصل کرتے تھے ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں ؟
لوگوں نے جواب دیا کہ ہم دور جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ
یقینا اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے میں اچھے دن دیے ہیں عید الاضحی اور عیدالفطر۔
[سنن ابوداود: حدیث نمبر 1134]۔

یہ دونوں عیدیں اللہ تعالی کے شعار اورعلامتوں میں سے جن کا احیاء کرنا اوران کے مقاصد کا ادراک اوران کے معانی کو سمجھنا ضروری ہے ۔
===================


Saturday, 7 September 2019

پیغامِ کربلا


اُسوۂ حسینؒ» حفاظتِ دینِ نبوی:


سیدنا حسینؒ کا وہ خط جو اہلِ بصرہ کو لکھا تھا، میں یہ فرمایا:
وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ، فَإِنَّ السُّنَّةَ قَدْ أُمِيتَتْ، وَإِنَّ الْبِدْعَةَ قَدْ أُحْيِيَتْ
ترجمہ:
*میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ (کی حفاظت اور پھیلانے) کی طرف، کیونکہ سنت مِٹ رہی ہے، اور بدعات زندہ کی جارہی ہیں۔*



Friday, 30 August 2019

بیعت کا معنی، حکم، طریقہ، فوائد کے شرائط اور اقسام

عقیدہ:
بیعت کرنا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں۔
تشریح:
البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خریدنے کے ہیں لیکن یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔۔۔۔ بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرارِ بیعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [سورۃ التوبة:111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ میں بیعتِ رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح:18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ ان سے راضی ہوا ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ ... [ التوبة:111] اللہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ انکے لئے جنت ہے میں پایا جاتا ہے۔
[تفسیر مفردات القرآن، امام راغب اصفہانیؒ]

اللہ عزوجل نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ [الفتح : 10]
بےشک جنہوں نے بیعت کی ہے آپ ﷺ سے، انہوں نے تو درحقیقت اللہ سے بیعت کی ہے۔

بیعت سنت ہے، لازم نہیں۔
البيعة سنة وليست بواجبه
[القول الجمیل: ص12، فتح البیان فی مقاصد القرآن:13/97]

Monday, 19 August 2019

برے علماء کون؟



برے علماء کون؟
(1) اپنی رائے کی "ملاوٹ" سے نئی تفسیر و تشریح کرنے والے یا مکمل بات کو "چھپانے" والے۔
القرآن:
اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ(اصل حقیقت)تم اچھی طرح جانتے ہو۔
[سورۃ البقرۃ:42]




(2) بےعمل اسکالرز:
کیا تم حکم تو کرتے ہو لوگوں کو نیکی کا لیکن بھلادیتے ہو اپنے آپ کو جبکہ(سمجھ کر)پڑھتے بھی ہو کتاب کو، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
[سورۃ البقرۃ:44]




(3) دنیا کیلئے دین کو بدلنے والے:
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی"قیمت"وصول کرلیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے، قیامت کے دن اللہ ان سے کلام بھی نہیں کرے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
[سورۃ البقرۃ:174]

اے ایمان والو !(یہودی)عالموں اور(عیسائی)راہبوں درویشوں میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں، اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ (رشوت لے کر لوگوں کی مرضی کے مطابق شریعت کو توڑ موڑ ڈالتے ہیں، اور اس طرح اللہ کے مقرر کئے ہوئے صحیح راستے سے لوگوں کو روک دیتے ہیں۔)
[سورۃ التوبۃ:34]






(4) جمہور متقدمین علماء سے اختلاف رکھنے سے بڑھ کر مخالفت ومقابلہ كرے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ يُرِيدُ أَنْ يُقْبِلَ بِوُجُوهِ النَّاسِ إِلَيْهِ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ جَهَنَّمَ» ۔
ترجمہ:
جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا(بحث)کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کریں گے۔
[ترمذي2654، ابن ماجة:253، طبراني:199، حاكم:293]
تشریح:
جو علم حاصل کرے یعنی وہ بعد والا چھوٹا-اکیلا شخص ہے جو پہلے والے بڑے اور بہت سے علماء سے صرف اختلاف ہی نہیں بلکہ مخالفت ومقابلہ کرے، تاکہ سستی اور جلد شہرت پائے تو یہ نافرمانی گناہِ کبیرہ ہی نہیں بلکہ "فساد" ہے، جو صرف نافرمان کو ہی نقصاندہ نہیں بلکہ خالق کی مخلوق اور دین میں بگاڑ پیدا کرنا ہے، جو قرآن کے مطابق لوگوں کو قتل کرنے سے بھی زیادہ سخت[سورۃ البقرۃ:191] اور بڑا [سورۃ البقرۃ:217] گناہ ہے کیونکہ قتل کرنے سے اس مقتول کا صرف دنیاوی نقصان ہوا، لیکن جو دین کو بگاڑے اور لوگوں کو گمراہ کرے وہ تو آخرت کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔

ایسا شخص کم علم عوام سے بحث کرتا ہے تو اس کا ارادہ ومقصد انہیں اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے، اور جب یہ خود جہنم میں داخل ہوگا تو اس کے پیروکاروں کا انجام کیا ہوگا۔

اس حدیث میں بڑی اہم اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاً تو اسلام کی ترقیات وفتوحات کا ذکر کیا، پھر کچھ علماء وقُراء کا ذکرکیا، جو خود پسندی یا اَنانیت میں مبتلا ہوں گے کہ بڑے پرانے علماء کی بڑی جماعت کی اختلافی رائے کا علمی حق کے نام پر ان سب کو گمراہ قرار دے گا۔ اور اس گروہ کو اس طور پر ذکر کیا ہے کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی ترقیات اور فتوحات میں یہی لوگ رکاوٹ ہیں؛ کیوں کہ اس گروہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی ترقی کا ذکر کرنے کے بعد بہ طورِ تقابل پیش کیا ہے۔
یہ بڑی قابلِ عبرت بات ہے اور سو فیصد صحیح ہے ، کیوں کہ خود پسندی اور اَناپرستی کی وجہ سے یہ لوگ نہ علمائے حق کا ساتھ دیتے ہیں اور نہ علمائے حق کو آگے آنے دیتے ہیں؛ بل کہ ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش میں اپنی ہمت اور وقت واستعداد خرچ کرتے ہیں، مقصد صرف اپنی اَنا کی تسکین اور اپنی عزت وشہرت کا بقا وتحفظ ہوتا ہے؛ پھر دین کو ترقی کیسے ہوگی اور فتوحات کا دروازہ کہاں سے کھلے گا؟اس سے معلوم ہوا کہ علمائے سُو ہی اسلام کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں؛ لہٰذا اس حدیث میں قرآن پڑھنے والوں سے مراد علمائے سُو ہیں، جوصرف اپنے دنیوی مفادات اور نام وشہرت کے لیے دینی علوم حاصل کرتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں۔


Wednesday, 3 July 2019

فضیلتِ فقہ اور مقامِ فقہاء

فقہ کسے کہتے ہیں؟
فقہ کی لغوی معنی ﴿سمجھ، فہم﴾ ہے۔

فقہ کی اصطلاح معنیٰ:
امام راغب اصفھانی(م502ھ) لکھتے ہیں:
الفقہ کے معنی علمِ حاضر سے علمِ غائب تک پہنچنا کے ہیں ، قرآن میں ہے:
فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً
۔۔۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ حدیث(بات)کی فقہ(سمجھ)نہیں پارہے ہیں۔
(سورۃ النساء: 78)
وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ
۔۔۔۔۔ لیکن منافقین فقہ(سمجھ)نہیں رکھتے۔(سورۃ المنافقون:7)
[مفردات في غريب القرآن: ص ؍ 642]

یعنی فقہ وہ باطنی علم کی گہرائی ہے جو ظاہری الفاظ کے سرسری پڑھ یا سُن لینے سے نہیں حاصل ہوتی، بلکہ اس کیلئے مسلسل فکرونظر کی ضرورت پڑتی ہے۔

Wednesday, 29 May 2019

فوت شدہ نمازوں کی قضا کے احکام ومسائل


قضا کے معنیٰ:
القضاء کے معنیٰ قولا یا عملا کسی کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں، اور قضاءِ (1)قولی اور (2)عملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں:

(1)قضاءِ الہیٰ اور (2)قضاءِ بشری، چناچہ قضاءِ الہیٰ کے متعلق فرمایا:۔
وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ
ترجمہ:
اور تمہارے پروردگار نے فیصلہ فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو
[سورۃ الإسراء:23]
القرآن:
فَاِذَا قَضَيۡتُمُ الصَّلٰوةَ
ترجمہ:
پھر جب تم پوری کرچکو نماز۔۔۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 103]

Thursday, 21 March 2019

اللہ کے راستے۔۔۔اللہ کی راہیں


اللہ کی خاطر کی گئی ہر نیکی، اللہ کے راستے ہیں:
القرآن:
اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے، اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
[سورۃ العنکبوت:69]

امام مُجَاهِدٌ نے فرمایا:
«لَيْسَ سَبِيلُ الله وَاحِدًا، كُلُّ خَيْرٍ عَمِلَهُ فهو فِي سَبِيلِ الله»
ترجمہ:
"اللہ کا راستہ صرف ایک نہیں ہے۔ ہر نیک عمل جو بھی کیا جائے، وہ اللہ کے راستے میں ہے۔"
[مصنف ابن ابی شیبہ:30839]

تشریح:
یہ عبارت دو اہم نکات پر روشنی ڈالتی ہے:  
1. اللہ تک پہنچنے کے راستوں کی کثرت:
پہلا جملہ "لَيْسَ سَبِيلُ الله وَاحِدًا" اس تصور کو رد کرتا ہے کہ اللہ کی رضا صرف ایک مخصوص طریقے یا رسمی عبادت تک محدود ہے۔ یہ تنگ نظری اور جمود کے خلاف ایک واضح بیان ہے، جو بتاتا ہے کہ نیکی اور تقویٰ کے مختلف مظاہر بھی اللہ کے قریب کرنے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔  

2. ہر نیکی کو اللہ کا راستہ قرار دینا:
دوسرا حصہ "كُلُّ خَيْرٍ عَمِلَهُ فهو فِي سَبِيلِ الله" اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کوئی بھی اچھا کام، چاہے وہ مالی مدد ہو، علمی خدمت ہو، یا معاشرتی بہتری، اگر نیک نیت سے کیا جائے تو وہ "اللہ کے راستے" میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کے اس پہلو کو اجاگر کرتا ہے کہ ایمان صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں نیکی اور احسان (بہترین عمل) کو شامل کرتا ہے۔  

نوٹ:
- قرآن و حدیث میں "سَبِيلِ الله" کا لفظ اکثر جہاد(یعنی اللہ کی اطاعت میں مشقت اٹھانے) یا مالی قربانیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (جیسے سورۃ التوبہ:24، التوبہ:60)، لیکن یہاں اس کا دائرہ وسیع کرکے ہر نیک عمل کو شامل کیا گیا ہے۔  
- یہ تصور "نیت" کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے، کیونکہ احادیث میں آیا ہے کہ "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" (صحیح بخاری:1)۔  
- یہ فقرہ اسلامی اخلاقیات کی وسعت کو بیان کرتا ہے، جس کے مطابق ہر وہ کام جو معاشرے کی بہتری یا کسی کی مدد کے لیے ہو، شرک اور گناہ سے پاک ہونے کی شرط پر، اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔  

خلاصہ:
اس عبارت کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ دین کو تنگ دائرے میں نہ سمجھا جائے۔ ہر نیک عمل، چھوٹا ہو یا بڑا، اگر خلوصِ نیت سے کیا جائے تو وہ اللہ کے راستے میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ یہ نظریہ انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی رضا تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

Wednesday, 20 February 2019

گمراہی کے اسباب اور علاج

(1) اللہ کی کتاب کو چھوڑنا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ، كِتَابُ اللهِ
ترجمہ:
۔۔۔اور تحقیق میں چھوڑے جا رہا ہوں تم میں اللہ کی کتاب، نہیں تم گمراہ ہوگے اگر تم اسے مضبوط پکڑوگے۔۔۔
[صحیح مسلم:1218، سنن ابوداؤد:1905، مصنف ابن أبي شيبة:14705، المنتخب من مسند عبد بن حميد:858+1135، أخبار مكة للفاکھی:1891، السنة لابن أبي عاصم:1556، السنن الكبرى للنسائی:3987، المنتقى لابن الجارود:469 صحیح ابن خزیمۃ:2809، صحیح ابن حبان:1457+3944، حجة الوداع لابن حزم:92، السنن الكبرى للبيهقي:8827، مستخرج أبي عوانة:3922]


یعنی اسے چھوڑنے کا مطلب اسے نہ سمجھنا اور عمل نہ کرنا ہے، جو ظاہری دلیل ہے گمراہ ہونے کی۔
دین، جان، عقل، نسل، مال کی حفاظت وسلامتی کا حصول شریعت مقاصد ہیں، جن کا حصول ان سب کے خالق کی ہدایت ہی سے ممکن ہے۔