Monday, 10 September 2012

جائز و ناجائز اتباع و تقلید


تقلید کا لغوی معنیٰ:
تقلید کا معنیٰ لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔
[مختار الصحاح : 758 ، موسوعه فقہیہ : 1 / 264 - 265، فیروز الغات: ا - ت، صفحہ # ٦٢]

یہ دعویٰ بلکل غلط ہے کہ لفظ اتباع صرف اور صرف الله اور رسول   (یعنی قرآن و حدیث) کی دلیل کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں، کیونکہ یہی لفظ اتباع قرآن مجید میں:
(1)اپنے(نفسانی)خیال کی اتباع
[سورۃ الانعام:148]
(2)خواہشات کی اتباع
[النساء:135،المائدۃ:77،الفرقان:43،الجاثیہ:23]
(3)شیطان کی اتباع
[البقرۃ:168+208، الانعام:142،النور:21]
(4)اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کی اتباع
[البقرۃ:120+145،الاعراف:142]
(5)غیرعالم کی اتباع
[یونس:89،الجاثیہ:18]
نہ کرنے کے لئے بھی استعمال ہوا ہے، تو وہ کونسی دلیل دیتے ہیں کہ ان کیلئے بھی لفظ اتباع  استعمال کیا گیا؟؟؟



اور جن قرآنی آیات سے (1)بےعلم (2)بےعقل اور (3)بےہدایتے آباء واجداد کی ’’تقلید‘‘ کا حرام ہونا ثابت کیا جاتا ہے[حوالہ»سورۃ البقرۃ:170، لقمان:21]، تو ان آیات میں عربی لفظ اتباع کا ترجمہ تقلید کیوں کیا جاتا ہے؟؟؟

ایمان میں باپ دادا کی تقلید کی فضیلت» مومن باپ دادا قابلِ تقلید ہیں۔
القرآن :
وَالَّذينَ ءامَنوا وَاتَّبَعَتهُم ذُرِّيَّتُهُم بِإيمٰنٍ أَلحَقنا بِهِم ذُرِّيَّتَهُم وَما أَلَتنٰهُم مِن عَمَلِهِم مِن شَيءٍ ۚ كُلُّ امرِئٍ بِما كَسَبَ رَهينٌ {52:21} 
ترجمہ:
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہے تو ان کی اولاد کو ہم انہی کے ساتھ شامل کردیں گے، اور ان کے عمل میں سے کسی چیز کی کمی نہیں کریں گے۔ (3) ہر انسان کی جان اپنی کمائی کے بدلے رہن رکھی ہوئی ہے۔
[سورۃ الطور: آیت نمبر 21]
تفسیر:
(3) یعنی نیک لوگوں کی اولاد اگر مومن ہو تو اگرچہ وہ اپنے اعمال کے لحاظ سے جنت میں اس اونچے درجے کی مستحق نہ ہو جو اس کے والد کو ملا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ والد کو خوش کرنے کے لئے اولاد کو بھی وہی درجہ دے دیں گے اور والد کے درجے میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
خلاصہ:
اگر باپ دادا الله تعالیٰ اور اس کے رسول  کا راستہ بتانے والے ہوں تو ان کی تقلید(اتباع) واجب ہے۔ اور اگر باپ دادا الله تعالیٰ اور اس کے رسول  کے راستے سے ہٹانے والے ہوں تو ان کی تقلید (اتباع) حرام ہے۔



ناقابلِ تقلید باپ دادا کون؟ جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت کو نہ مانیں۔
القرآن:
وَ اِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّبِعُوۡا مَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ قَالُوۡا بَلۡ نَـتَّـبِـعُ مَا وَجَدۡنَا عَلَيۡهِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَلَوۡ كَانَ الشَّيۡطٰنُ يَدۡعُوۡهُمۡ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيۡرِ ۞ 
ترجمہ:
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ : اس چیز کی اتباع کرو جو اللہ نے اتاری ہے۔ تو وہ کہتے ہیں : نہیں، بلکہ ہم تو اس طریقے کے پیچھے چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داداوں کو پایا ہے۔ بھلا اگر شیطان ان (باپ دادوں) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلاتا رہا ہو، کیا تب بھی (وہ انہی کے پیچھے چلیں گے ؟)
[سورۃ لقمان، آیت نمبر 21]

القرآن:
وَإِذا قيلَ لَهُمُ اتَّبِعوا ما أَنزَلَ اللَّهُ قالوا بَل نَتَّبِعُ ما أَلفَينا عَلَيهِ ءاباءَنا ۗ أَوَلَو كانَ ءاباؤُهُم لا يَعقِلونَ شَيـًٔا وَلا يَهتَدونَ {2:170}
ترجمہ:
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) اللہ نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اورنہ سیدھے رستے پر ہوں (تب بھی وہ انہیں کی تقلید کئے جائیں گے؟)۔
[سورۃ البقرۃ: آیت نمبر 170]


تنبیہ:
جن کی تقلید سے روکا گیا ہے وہاں لفظ اگر سے یہ قید(شرط) لگائی ہے کہ وہ باپ دادا (1)بےدین ہوں تو بےدینی میں ان کی اتباع وتقلید نہ کرو، (2)بےعقل ہوں تو بے عقلی میں ان کی اتباع وتقلید نہ کرو۔
ان آیات کو آئمہِ اربعہ (یعنی فقہ کے چار اماموں)، جن کی امامت پر امت متفق ہے، کی اتباع وتقلید میں پیش کرنا، گویا ان سب کو علم وہدایت سے گمراہ اور بےعقل ماننا ہے۔ اور یہ سراسر جاہلانہ جھوٹ ہے جو دراصل یہود کی اس گھٹیا عادت کی ناجائز تقلید ہے جسے اللہ پاک نے یوں فرمایا :
یہودیوں میں سے (کچھ)وہ ہیں جو بدلتے ہیں باتوں کو انکے رکھنے کی جگہوں سے۔۔۔
[سورۃ النساء:46]
اندھی تقلید کیا ہے؟
اندھی تقلید اس کو کہتے ہیں کہ اندھا اندھے کے پیچھے چلے، تو لازماً دونوں کسی کھائی میں گرجائیں، گے اگر اندھا کسی آنکھوں والے کے پیچھے چلے تو آنکھ والا اپنی آنکھ کی برکت سے اپنے آپ کو بھی اور اس اندھے کو بھی ہر کھائی سے بچاکر لیجائے گا اور منزل تک پہنچادے گا۔

غیرعالم  کی تقلید حرام ہے۔
اللہ پاک نے فرمایا:
۔۔۔۔وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
۔۔۔۔اور مت پیچھے چل خواہشوں پر ان کے جو علم نہیں رکھتے۔
[سورۃ الجاثیۃ:18 ، یونس:89]


غیرعالم کا فتویٰ دینا گناہ ہے، بلادلیل مفتی سے فتویٰ لینا گناہ نہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ " .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  نے فرمایا: "جس شخص نے (کسی کو) بغیر علم کے فتوی دیا تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا
[ابوداؤد:3657، ابن ماجہ:53، دارمي:164، حاکم:436، احمد:8266، بيهقى:20140+20111، جامع بیان العلم:1625، صحيح الجامع الصغير: 6068، المشكاة:242، الإتحاف:19964]
فائدہ:
دیکھئے اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتوے پر بلاتحقیقِ دلیل عمل جائز نہ ہوتا، جو حاصل ہے تقلید کا، تو گناہگار ہونے میں مفتی کی کیا تخصیص تھی؟ جیساکہ سیاقِ کلام سے مفہوم ہوتا ہے، بلکہ جس طرح مفتی کو غلط فتویٰ بتانے کا گناہ ہوتا ہے، اسی طرح سائل کو دلیل کی تحقیق نہ کرنے کا گناہ ہوتا۔ پس جب شارع عليه السلام نے باوجود تحقیقِ دلیل نہ کرنے کے عاصي (گناہگار) نہیں ٹھہریا تو جوازِ تقلید يقينا ثابت ہوگیا۔







علماء کے بجائے جاہلوں سے فتویٰ لینے کی پیشگوئی:
خلف(بعد والوں)کی تقلید صحیح نہیں:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا " ، قَالَ الْفِرَبْرِيُّ : حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ ... رقم الحديث: 99(100)]
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم  نے ارشاد فرمایا۔اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 100 - علم کا بیان : علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا]









حافظ ابن عبد البر المالکیؒ (المتوفی 463 ھ) فرماتے ہیں :
وَلَمْ تَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ أَنَّ الْعَامَّةَ عَلَيْهَا تَقْلِيدَ عُلَمَائِهَا وَأَنَّهُمُ الْمُرَادُونَ بِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النحل: ٤٣] وَأَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ الْأَعْمَى لَا بُدَّ لَهُ مِنْ تَقْلِيدِ غَيْرِهِ مِمَّنْ يَثِقُ بِمَيْزِهِ بِالْقِبْلَةِ إِذَا أَشْكَلَتْ عَلَيْهِ فَكَذَلِكَ مَنْ لَا عِلْمَ لَهُ وَلَا بَصَرَ بِمَعْنَى مَا يَدِينُ بِهُ لَا بُدَّ لَهُ مِنْ تَقْلِيدِ عَالِمِهِ، وَكَذَلِكَ لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ  أَنَّ الْعَامَّةَ لَا يَجُوزُ لَهَا الْفُتْيَا، وَذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ لِجَهْلِهَا بِالْمَعَانِي الَّتِي مِنْهَا يَجُوزُ التَّحْلِيلُ وَالتَّحْرِيمُ وَالْقَوْلُ فِي الْعِلْمِ.
ترجمہ:
علماء کے اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ عام لوگوں پر علماء کی تقلید لازم ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد : پس سوال کرو اہل الذکر(یعنی علم کو یاد رکھنے والوں) سے اگر تم کو علم نہیں.[سورۃ النحل:43] سے علماء ہی مراد ہیں، اور علماء کا اس امر (بات) پر اجماع ہے کہ نابینا شخص پر جب قبلہ کی تعین میں اختلاف ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ غیر کی جس (کے علم) پر اعتماد ہو عمل کرے جو اسے قبلہ کی تمیز کراسکے سو اسی طرح جس شخص کو دینی امور میں علم و بصیرت نہ ہو اس پر لازم ہے کہ وہ عالم کی تقلید کرے. اور اسی طرح علماء کا اس میں بھی اختلاف نہیں کہ عام لوگوں کو فتویٰ دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ عوام ان معانی وعلوم سے بے خبر ہیں کہ جن سے حلال وحرام کے احکام معلوم ہوتے ہیں۔









اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے۔
قرآن وحدیث کا غیرعربی زبانوں میں ترجمہ کرنا ہو، یا دینی باتیں سیکھنا ہو، یا نئے نئے مسائل پوچھنا جیسے: روزہ میں انجیکشن لگوانا، ٹیلیفون پر نکاح، لاؤڈ اسپیکر پر اذان، ریل گاڑی میں نماز وغیرہ زمانہ نبوی میں نہیں تھے، ان سب میں ہم علماء کے محتاج ہیں۔



چناچہ علامہ آلوسیؒ الحنفی(م1270ھ) اس طرح فرماتے ہیں:
واستدل بها أيضاً على وجوب المراجعة للعلماء فيما لا يعلم. وفي "الإكليل" للجلال السيوطي أنه استدل بها على جواز تقليد العامي في الفروع...؛
ترجمہ:
اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطیؒ (اپنی کتاب) "الإكليل" میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے۔
[تفسیر روح المعانی: 14/148، سورہ النحل:43]

قوله تعالى: {فاسئلوا فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
استدل به على جواز التقليد  في الفروع للعامي.
[الإكليل في استنباط التنزيل: صفحہ163]



علامہ سیوطیؒ الشافعی(م911ھ) نے کہا: 
لأن العوام يجوز لهم التقليد بالاجماع
ترجمہ:
یقیناً عوام کے لئے تقلید بالاجماع جائز ہے۔



علامہ خطیب البغدادی الشافعیؒ(392-462ھ)  اپنی کتاب "الفقيه والمتفقه" یں رقم طراز  ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں» عقلی اور شرعی:؛
عقلی احکام میں تقلید جائز نہیں، جیسے صانع عالم (یعنی جہاں کا بنانے والا) اور اس کی صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)، اسی طرح رسول الله  اور آپ کے سچے ہونے کی معرفت وغیرہ.
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصولِ دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو‘‘.[سورۃ الاعراف:3] اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں‘‘ [سورۃ البقرۃ:170]، اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے والا حاکم بنالیا)، اللہ کو چھوڑ کر...‘‘[سورۃ التوبۃ:31]

دوسری قسم: احکامِ شرعیہ، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(١) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے نماز، روزہ، حج، زكوة اسی طرح زنا و شراب کا حرام ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں، اس لئے ان میں تقلید کا کوئی معنیٰ نہیں۔
(٢) دین کے وہ احکام جو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانے جاسکتے، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے ’’فروعی‘‘ مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔ الله تعالیٰ کے قول:- پس تم سوال کرو اہل الذکر(یعنی علم کو یاد رکھنے والوں) سے اگر تم علم نہیں رکھتے۔[سورۃ النحل:43، الانبیاء:7] کی دلیل سے۔ اور وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکامِ شرعیہ کے استنباط [حوالہ»سورۃالنساء:83] کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو اس کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے. الله تعالیٰ کا ارشاد ہےپس تم سوال کرو اہل الذکر(یعنی علم کو یاد رکھنے والوں) سے اگر تم علم نہیں رکھتے۔[سورۃ النحل:43، الانبیاء:7]
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله ﷺ کے دور میں زخمی ہوگیا، پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، لوگوں نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی. اس کی اطلاع نبی ﷺ کو ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا، کیا ناواقفیت کا علاج سوال کرنا نہ تھا؟...الخ
[سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: 336]


مزید لکھتے ہیں:
دوسری اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ اہلِ اجتہاد (مجتہدین) میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہِ علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس کو کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی۔

بعض معتزلہ سے (یہ نظریہ) منقول ہے کہ ان کے نزدیک عامی (عوام) کے لئے بھی عالم کے قول پر اس وقت تک عمل جائز نہیں جب تک اسے حکم کی علت (وجہ و سبب) کا علم نہ ہوجاۓ،........اور یہ مسلک بلکل غلط ہے، اس لئے کہ عامی کے پاس حکم کی علت معلوم کرنے کی اس کے سوا کوئی سبیل نہیں ہے کہ وہ سالہا سال فقہ کی تعلیم حاصل کرے، طویل مدت تک فقہاء کی صحبت میں رہے، قیاس کے طریقوں کی پوری تحقیق کرے اور اس بات کا علم حاصل کرے کہ کونسا قیاس صحیح اور کونسا فاسد ہوتا ہے؟ اور کس دلیل کو دوسری دلیل پر مقدم رکھنا چاہیے؟ اور تمام لوگوں کو اس محنت کا مکلف کرنا "ما لا یطاق" ہے (یعنی جس کی ان میں طاقت نہیں) اور اس (تقلیدِ مجتہد) کے سوا کو راستہ نہیں





مجتھدين كے فتاوىٰ عام لوگوں كى بنسبت شرعى دلائل كى طرح ہيں:
امام شاطبی المالکی(م790ھ) اپنی کتاب الموافقات " میں فرماتے ہیں کہ :

فتاوى المجتهدين بالنسبة إلى العوام كالأدلة الشرعية بالنسبة إلى المجتهدين ، والدليل عليه أن وجود الأدلة بالنسبة إلى المقلدين وعدمها سواء ، إذ كانوا لا يستفيدون منها شيئا ، فليس النظر في الأدلة والاستنباط من شأنهم ، ولا يجوز ذلك لهم ألبتة ، وقد قال تعالى : ( فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ) ، والمقلد غير عالم ، فلا يصح له إلا سؤال أهل الذكر ، وإليهم مرجعه في أحكام الدين على الإطلاق ، فهم إذًا القائمون له مقام الشارع ، وأقوالهم قائمة مقام الشارع 
ترجمہ:
مجتھدين كے فتاوىٰ عام لوگوں كى بنسبت شرعى دلائل كى مانند ہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ مقلدين كے ليے دلائل كا ہونا يا نہ ہونا برابر ہے، كيونكہ وہ اس سے مستفيد نہيں ہو سكتے، كيونكہ دلائل كو ديكھنا اور ان سے مسائل كا استنباط كرنا غیرماہر كا كام نہيں، اور ان كے ليے بالكل يہ جائز نہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
پس سوال کرو اہل الذکر(یعنی علم کو یاد رکھنے والوں) سے اگر تم کو علم نہیں۔
[سورۃ النحل:43]
اور مقلد چونکہ غیرعالم ہوتا ہے ، لہٰذا اس كے ليے اہل علم سے دريافت كرنے كے علاوہ كچھ صحيح نہيں، اور مطلقاً اہلِ علم ہى احكام دين ميں مَرْجَع(یعنی ٹھکانہ، پناہ گاہ، جس کی طرف لوٹا جائے) ہيں، كيونكہ وہ شارع كے قائمِ مقام ہيں، اور ان كے اقوال شارع كے قائمِ مقام ہيں۔


چھچھچھچھچھچھ
اہل حدیث بھی تقلید کرتے ہیں:
کسی بھی حدیث کو صحیح یا ضعیف نہ اللہ نے کہا اور نہ ہی معصوم نبی ﷺ نے، تو صرف ایک غیرمعصوم امام کے بلادلیل قول (کی بناء) پر (ضعیف) کہہ کر حدیث نبوی کو رد کرنا، اس ایک امام کی تقلید ہی تو ہے۔

تاریخی گواہیوں اور  حوالہ جات سے دیکھئے:








جائز وناجائز اتباع وتقلید کی عقلی مثال
جس طرح لغت کے اعتبار سے کتیا کے دودھ کو بھی دودھ ہی کہا جاتا ہے اور بھینس کے دودھ کو بھی دودھ کہتے ہیں۔ مگر حکم میں حرام اور حلال کا فرق ہے اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگر حق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار ومشرکین، اللہ اور رسول ﷺ کی مخالفت کےلئے اپنے گمراہ وڈیروں کی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کےلئے تقلید کرے کہ میں مسائل کا براہِ راست استنباط(نکال) نہیں کرسکتا اور مجتہد کتاب وسنت کو ہم سے زیادہ سمجھتا ہے۔ اس لیے اس سے اللہ و رسول ﷺ کی بات سمجھ کر عمل کرے تو یہ تقلید جائز اور واجب ہے۔
















کیوں عام علماء کو ائمہ کرام کی تقلید کرنی پڑتی ہے؟
(1)کیونکہ ہر علم والے کے اوپر بڑا علم والا ہوتا ہے۔
القرآن:
۔۔۔ وَفَوقَ كُلِّ ذى عِلمٍ عَليم۔
ترجمہ:
۔۔۔ اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے۔
[سورۃ یوسف:76]
اس آیت کے مطابق امت میں جو بڑے علم و گہرے فہم والے ائمہِ مسلمین گزرے ہیں، علماء اپنی علمی و فہمی غلطی سے بچنے کیلئے ان بڑے علم وعمل والوں پر اعتماد کرتے ان کی اتباع (تقلید) کرتے ہیں۔
 
(2)کیونکہ اس سے علم والا بھی اپنی نفسانی خواہش پر چل کر گمراہی سے بچ سکتے ہیں۔
القرآن:
پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے، اور علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اسے راستے پر لائے؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟
[سورۃ نمبر 45 الجاثية، آیت نمبر 23]


کس کی اتباع-تقلید-پیروی کرنی چاہئے؟
القرآن:
ان لوگوں کی اتباع کرلو جو تم سے کوئی اجرت نہیں مانگ رہے، اور وہ (رب کی نازل کردہ) ہدایت پر ہیں۔
[سورۃ نمبر 36 يس، آیت نمبر 21]



ہدایت یافتہ لوگوں کی اتباع-تقلید-پیروی کون کرتے ہیں؟
القرآن:
تم تو صرف ایسے شخص کو خبردار کرسکتے ہو جو نصیحت کی اتباع کرے، اور خدائے رحمن کو دیکھے بغیر اس سے ڈرے۔ چنانچہ ایسے شخص کو تم مغفرت اور باعزت اجر کی خوشخبری سنا دو۔
[سورۃ نمبر 36 يس، آیت نمبر 11]
یعنی رحمان سے غائبانہ نہ ڈرنے والے ہی اتباع نہیں کرتے۔










********************************
اولوا الامر کی اطاعت کا حکم:
القرآن :
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا {4:59}
ترجمہ :
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا، اور حکم مانو رسولؐ کا، اور اُولِي الْاَمْرِ (یعنی علماء و فقہاء) کا جو تم (مسلمانوں) میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (کےکلام) اور رسولؐ (کی فرمان) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام. 
[سورۃ النساء: 59]
تشریح: 
اس آیت میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے: اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے، اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماعِ فقہاء" کہتے ہیں.(یعنی اجماعِ فقہاء کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علماء و فقہاء) میں اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد عالم کا اپنی راۓ سے اجتہاد کرتے اس نئے غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن و سنّت کی طرف لوٹانا اور استنباط کرنا "اجتہادِ شرعی" یا "قیاسِ مجتہد" کہتے ہیں۔


کسی مخصوص بات پر ادھوری آیت بیان کرنا:
الحدیث:
حضرت عطاء نے یہ آیت پڑھی: "اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اولوا الامر کی۔"[سورۃ النساء:59] پھر فرمایا: اولوا الامر سے مراد علم اور فقہ والے ہیں، اور رسول کی اطاعت سے مراد کتاب اللہ اور سنت کی پیروی کرنا ہے۔
اکثر مفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، امام حاکم نے حضرت جابر کا قول نقل کیا ہے:
"أُولِي الْأَمْرِ، قال الفقہ والخیر"۔
ترجمہ:
"حکم والوں" سے مراد فقہ وخیر والے ہیں۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:422]

ترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:
"أُولِي الْأَمْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔
ترجمہ:
"حکم والوں" یعنی فقہ اور دین والے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:423]


قرآن و سنّت کی طرف لوٹانے کا اہل کون؟
مفسر امام ابو بکر جصاصؒ الحنفی (متوفی ۳۷۰ھ) اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:
يَدُلُّ عَلَى أَنَّ أُولِي الْأَمْرِ هُمْ الْفُقَهَاءُ; لِأَنَّهُ أَمَرَ سَائِرَ النَّاسِ بِطَاعَتِهِمْ ثُمَّ قَالَ: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ} , فَأَمَرَ أُولِي الْأَمْرِ بِرَدِّ الْمُتَنَازَعِ فِيهِ إلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ; إذْ كَانَتْ الْعَامَّةُ وَمَنْ لَيْسَ مَنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لَيْسَتْ هَذِهِ مَنْزِلَتَهُمْ; لِأَنَّهُمْ لَا يَعْرِفُونَ كَيْفِيَّةَ الرَّدِّ إلَى كِتَابِ اللَّهِ وَالسُّنَّةِ وَوُجُوهَ دَلَائِلِهِمَا عَلَى أَحْكَامِ الْحَوَادِثِ فَثَبَتَ أَنَّهُ خطاب للعلماء.
ترجمہ:
"اولوا الامرکی اطاعت کا حکم دینے کے فوراً بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد فقہاء ہیں، کیونکہ الله تعالیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر فقہاء کا اتفاق و اجماع ہو، وہ بھی قرآن و سنّت کی بعد قطعی دلیل ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولوا الامر کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوٹادو، یہ حکم علماء و فقہاء ہی کو ہوسکتا ہے، کیونکہ عوام الناس اور غیرعالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے۔
[احکام القرآن، امام الجصاص : 2/264]




=======================================
استنباط کا قرآن میں حکم:
استنباط کی اصطلاحی معنى:
والاستنباط ليس إلا استخراج المعنى من النصوص بالراي
ترجمہ:
اور استنباط صرف نکالنا ہے کسی حکم کو نصوص (قرآن وحدیث) میں سے راۓ کے ذریعے سے۔
[اصول السرخسی: ج2، ص128، طبع جدید حیدرآباد دکن]

جس طرح دنیا میں ہر فن میں اسی کی بات تحقیقی مانی جاتی ہے جو اس فن میں کامل مہارت رکھتا ہو, نہ کہ کسی فن سے نا آشنا کی۔ مثلاً ہیرے جواہرات کے بارہ میں ماہر جوہری کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ موچی کی، سونے چاندی کے بارہ میں ماہر سنار کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی کمہار کی اور قانون میں تحقیقی بات ماہر قانون دان کی ہوگی نہ کہ کسی مداری کی۔ اسی طرح دین میں دین کے ماہرین کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ ہر کندہ تراش کی۔ اسی لئے ﷲ تعالٰیٰ نے جس طرح تحقیق کا حکم دیا يہ بات بھی واضح فرما دیا کہ تحقیق کا حق کس کس کو ہے۔ فرمایا:
وَإِذا جاءَهُم أَمرٌ مِنَ الأَمنِ أَوِ الخَوفِ أَذاعوا بِهِ ۖ وَلَو رَدّوهُ إِلَى الرَّسولِ وَإِلىٰ أُولِى الأَمرِ مِنهُم لَعَلِمَهُ الَّذينَ يَستَنبِطونَهُ مِنهُم ۗ وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكُم وَرَحمَتُهُ لَاتَّبَعتُمُ الشَّيطٰنَ إِلّا قَليلًا. {4:83} 
ترجمہ:
اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن یا خوف کی تو اس کو مشہور کرديتے ہیں، اور اگر اس کو پہنچا ديتے رسولؐ تک اور اپنے اولو الامر (یعنی علماء و حکام) تک، تو جان لیتے اس (کی حقیقت) کو جو ان میں قوتِ استنباط (یعنی حقیقت نکالنے کی اہلیت) رکھتے ہیں اس کی، اور اگر نہ ہوتا فضل ﷲ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو یقیناً تم پيچھے ہو ليتے شیطان کے سواۓ چند (اشخاص) کے۔
[سورۃ النساء:83]


چناچہ امام الرازیؒ الشافعی(606هـ) اس آیت کی تفسیر کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
فثبت أن الاستنباط حجة، والقياس إما استنباط أو داخل فيه، فوجب أن يكون حجة. إذا ثبت هذا فنقول: الآية دالة على أمور: أحدها: أن في أحكام الحوادث ما لا يعرف بالنص بل بالاستنباط. وثانيها: أن الاستنباط حجة: وثالثها: أن العامي يجب عليه تقليد العلماء في أحكام الحوادث.
ترجمہ:
بس ثابت ہوا کہ استنباط حجت ہے، اور قیاس یا تو بذاتِ خود استنباط ہوتا ہے یا اسی میں داخل ہوتا ہے، لہذا وہ بھی حجت ہوا۔ جب یہ بات طے ہوگئی تو اب ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت چند باتوں کی دلیل ہے، ایک یہ کہ (رسولؐ کے بعد) نت نئے مسائل میں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو نص (واضح قرآن و سنّت) سے معلوم نہیں ہوتیں، بلکہ ان کا حکم معلوم کرنے کے لئے (علماء کو) استنباط کی ضرورت پڑتی ہے، دوسرے یہ کہ استنباط حجت ہے، اور تیسرے یہ کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ پیش آنے والے مسائل و احکام کے بارے میں علماء کی تقلید کرے.
[تفسیر_کبیر: 10/200]؛










پھر امام رازیؒ (606هـ) بعض حضرات کے اس اعتراض پر، کہ یہ آیت جنگ کے مخصوص حالات پر مشتمل ہے، جواب دیتے ہیں کہ :
أن قوله: { وَإِذَا جَاءهُمْ أَمْرٌ مّنَ ٱلأَمْنِ أَوِ ٱلْخَوْفِ } عام في كل ما يتعلق بالحروب وفيما يتعلق بسائر الوقائع الشرعية، لأن الامن والخوف حاصل في كل ما يتعلق بباب التكليف، فثبت أنه ليس في الآية ما يوجب تخصيصها بأمر الحروب.
ترجمہ :
الله تعالٰیٰ کا یہ ارشاد: جب ان کے سامنے امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے... بلکل عام ہے، جس میں جنگ کے حالات بھی داخل ہیں اور تمام شرعی مسائل بھی، اس لئے امن اور خوف دو ایسی چیزیں ہیں کہ تکلیفاتّ شرعیہ کا کوئی باب ان سے باہر نہیں، لہذا ثابت ہوا کہ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو اسے صرف جنگ کے حالات سے مخصوص کردے۔
[تفسیر_کبیر : 2/273]



استنباط کا حق اور اہلیت کسے؟
درج بالا آیتِ کریمہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ استنباط کا حق اور اہلیت رسول  کے بعد اولو الامر (ماہرِ علماء جنہیں فقہاء کہتے ہیں) ہی کو ہے، عوام کو نہیں.
جیسے :
کسی بھی شعبہ یا فن میں تحقیق کا حق اور اہلیت (غیر عالم) عوام یا غیر ماہر (علماء) کو نہیں۔
اس لئے مسائلِ فقہ میں فقہاء کا قول و اجماع، مسائلِ نحو (عربی گرامر) میں نحوییں کا قول و اجماع، مسائلِ اصول میں اصولیین کا قول و اجماع، اور مسائلِ کلام میں متکلمین کا قول و اجماع معتبر ہوگا۔















































=========================

























قال ابن عيينة: ‌الحديث ‌مضلة إلا للفقهاء.
حدیث گمراہی ہے سوائے فقہاء (یعنی گہری سمجھ رکھنے والے علماء) کیلئے۔
[الجامع في السنن والآداب والمغازي والتاريخ (ابن أبي زيد القيرواني م٣٨٦ھ) : ص118]
تفسير الموطأ للقنازعي (م٤١٣ھ) : 1/164،
الجامع لمسائل المدونة (ابن يونس الصقلي م٤٥١ھ) :24/65،
مسائل أبي الوليد ابن رشد (م٥٢٠ھ) : 1/672،


قول ابن وهب: ‌الحديث ‌مضلة إلا للعلماء. ولولا مالك والليث لضللنا۔
حدیث گمراہی ہے سوائے گہری سمجھ رکھنے والے علماء کیلئے۔ اور اگر  امام مالکؒ اور امام لیثؒ (جیسے فقہاء) نہ ہوتے تو ہم گمراہ ہوجاتے۔
[ترتيب المدارك وتقريب المسالك (القاضي عياض م٥٤٤ھ): 1/91]



قال ابن وهب: ‌كل ‌صاحب ‌حديث ليس له إمام في الفقه فهو ‌ضال ولولا أن الله أنقذنا بمالك والليث لضللنا.
ترجمہ:
ہر وہ حدیث والا(عالم) جس کا فقہ میں کوئی امام نہ ہو تو وہ گمراہ ہے، اور اگر اللہ نہ بچاتا ہمیں مالکؒ اور لیثؒ (جیسے امام) کے ذریعے تو ہم یقینا گمراہ ہوجاتے۔
[الجامع في السنن والآداب والمغازي والتاريخ (ابن أبي زيد القيرواني م٣٨٦ھ) : ص119]
الجامع لمسائل المدونة (ابن يونس الصقلي م٤٥١ھ) :24/65،
ترتيب المدارك وتقريب المسالك (القاضي عياض م٥٤٤ھ): 1/ 91+171
طبقات علماء الحديث (ابن عبد الهادي م٧٤٤ھ) : 1/314




تابعی حضرت عبدالرحمٰن بن مھدیؒ نے فرمایا:
السُّنَّةُ الْمُتَقَدِّمَةُ مِنْ سُنَّةِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ‌خَيْرٌ ‌مِنَ ‌الْحَدِيثِ۔
[مسند الموطأ للجوهري (م٣٨١ھ) : حدیث56]
يريد أنه أقوى من نقل الآحاد۔
[الذب عن مذهب الإمام مالك (ابن أبي زيد القيرواني م٣٨٦ھ) : 1/274]
ترجمہ:
حدیث سے بہتر ہے مدینہ والوں کی سنت پہلے لوگوں کی سنت میں سے ۔۔۔۔۔ مراد یہ ہے کہ وہ(پہلے لوگوں کا اجتماعی طریقہ) زیادہ قوت والا ہے نقل کردہ اکیلی(حدیث وخبر)کے۔



وَقَالَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - فِي كِتَابِ أَدَبِ الْقَاضِي: لَا يَسْتَقِيمُ الْحَدِيثُ إلَّا بِالرَّأْيِ وَلَا يَسْتَقِيمُ الرَّأْيُ إلَّا بِالْحَدِيثِ حَتَّى أَنَّ مَنْ لَا يُحْسِنُ الْحَدِيثَ أَوْ عِلْمَ الْحَدِيثِ وَلَا يُحْسِنُ الرَّأْيَ فَلَا يَصْلُحُ لِلْقَضَاءِ وَالْفَتْوَى 
ترجمہ:
امام محمدؒ  نے کتاب ’’أدب القاضي‘‘ میں لکھا ہے: حدیث ‘ فقہ کے بغیر درست نہیں ہوسکتی اور فقہ‘ حدیث کے بغیر درست نہیں ہوسکتی، چنانچہ جو شخص حدیث بہتر نہ جانتا ہو یا فقہی اصول کا ماہر نہ ہو تو وہ قاضی بننے یا فتویٰ دینے کا صحیح اہل نہیں ہوسکتا۔
[الكافي شرح البزودي:1/ 185-186، كشف الأسرار شرح أصول البزدوي:1/ 17]
قاضی امام ابویوسف(م186ھ) فرماتے ہیں:
الْعَامِّيَّ ‌إذَا ‌سَمِعَ ‌حَدِيثًا فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِظَاهِرِهِ
ترجمہ:
عام آدمی جب کوئی حدیث سنے تو اس لے لئے جائز نہیں کہ وہ ظاہر حدیث سے جو سمجھا ہے اس پر عمل کرے
[المبسوط للسرخسي:3/ 80]

لأنه لا يهتدي إلى معرفة أحواله، لأنه قد يكون منسوخاً أو متروكاً أو مصروفاً عن ظاهره.
ترجمہ:
کیوں کہ ممکن ہے کہ ظاہری معنى مراد نہ ہو، یا وہ حدیث منسوخ ہو؟ بخلاف فتویٰ کہ (کیونکہ فتویٰ میں یہ شبہ نہیں ہوتا اس لئے کہ مجتہد نے پوری تحقیق کے بعد ہی فتویٰ دیا ہے.
[البناية شرح الهداية:4/ 110]





تقلید کا تعلق چونکہ اجتہادی مسائل سے ہے اس لئے اجتہاد کا دائرہ کار کا پتہ چلنے سے اس کی ضرورت بھی واضح ہوتی ہے:


مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ  نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا معلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
"عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ "۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الْأَقْضِيَةِ » بَاب اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاءِ؛ رقم الحديث: 3121]

ترجمہ:
جب حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاذؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔
[ابوداؤد:3592، ترمذی:1327، طیالسی:560، شافعی:604، ابن ابی شیبۃ:22988، احمد:22007+22061+22100، عبد بن حمید:124، دارمی:170، طحاوی:3583، طبرانی:362، بغوی:2814]


خلاصة حكم الحديث :
1) المحدث : أبو داود | المصدر : سنن أبي داود3592 |حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
2) المحدث : الطحاوي | المصدر : شرح مشكل الآثار9/212 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
3) المحدث : ابن عبدالبر | المصدر : جامع بيان العلم2/844 | خلاصة حكم المحدث : صحيح مشهور
4) المحدث : ابن العربي | المصدر : عارضة الأحوذي3/300 | خلاصة حكم المحدث : صحيح مشهور
المحدث : ابن العربي | المصدر : أحكام القرآن1/574 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : ابن العربي | المصدر : القبس3/870 | خلاصة حكم المحدث : ثابت
5) المحدث : ابن تيمية | المصدر : مجموع الفتاوى13/364 | خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
6) المحدث : الذهبي | المصدر : تلخيص العلل المتناهية 269 | خلاصة حكم المحدث : حسن الإسناد ومعناه صحيح
7) المحدث : ابن الملقن | المصدر : شرح البخاري لابن الملقن: 33/69 | خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
8) المحدث : ابن كثير | المصدر : تفسير القرآن: 1/13 | خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
المحدث : ابن كثير | المصدر : إرشاد الفقيه2/396 | خلاصة حكم المحدث : حسن مشهور وقد ذكرت له طرقا وشواهد
9) المحدث : الشوكاني | المصدر : فتح القدير: 3/321 | خلاصة حكم المحدث : صالح للاحتجاج به
المحدث : الشوكاني | المصدر : الفتح الرباني9/4485 | خلاصة حكم المحدث : حسن لغيره، وهو معمول به
10) المحدث : ابن باز | المصدر : مجموع فتاوى ابن باز:(195/6) 229 /24 | خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن



فقہی نکتے:
(1) قرآن میں سب مسائل کا واضح و مفصل حل نہیں..
(2) سنّت میں بھی نئے پیش آمدہ مسائل کا واضح و مفصل حل نہیں 
(3) اجتہاد تب کیا جائےگا جب اس نئے مسئلے/واقعہ کا واضح جواب قرآن وسنّت میں نہ ہو.
(4) اجتہاد کا کرنے کا اہل ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ اس دینی علم کا مستند ماہر اپنے کسی صحبت یافتہ شاگرد کی دینی علم وسمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد اجازت(سند) دے، چناچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو اور جاہل کا حکم دینا اور  جاہل کی ماننا درست نہیں۔
(5) شرعی فیصلہ/فتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائےگا، قرآن کے بعد سنّت سے، اور سنت کے بعد اجتہادی رائے یعنی قیاس سے۔
(6) جب عربی جاننے والے یمنی لوگوں کو بغیر معلم (تعلیم دینےوالے) اور قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے بذاتِ خود قرآن وحدیث پڑھ سمجھ کر عمل کرنے اور معلم اور قاضی بننے کی بجاۓ وہاں کیلئے ایک غیر معصوم امتی کو معلم و قاضی بناکر بھیجنے کی احتیاج (ضرورت) تھی ، تو پھر ان عجمی عوام کیلئے مستند(یعنی ماہر سے اجازت یافتہ)عالم کی احتیاج وضرورت تو مزید بڑھ جاتی ہے جو عربی قرآن کے صحیح ترجمہ و تفاسیر اور سنّتِ قائمہ (غیرمنسوخہ) معلوم کرنے کیلئے عربی کتابوں میں ثابت مختلف احکام و سنّتوں میں ناسخ و منسوخ آیات واحادیث کو اور افضل و غیر افضل احکام کو بغیر معلم وقاضی نہ جان سکتے ہیں اور نہ ہی قاضی بننے کے قابل ہوسکتے ہیں۔


چند جدید مسائل اجتہادیہ، جن کا ((واضح)) حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں:

١. ٹیلیفون کے ذریعے نکاح
٢. انتقالِ خون (خون کا کسی مریض کو منتقل کرنا
٣. اعضاء کی پیوندکاری
٤. حالتِ روزہ میں انجیکشن کا مسئلہ
٥. لاؤڈ اسپیکر پر اذان کا مسئلہ
٦. ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ
جھوٹی اور سچی خبر وحدیث کے جانچنے کیلئے اصولِ حدیث کا اجتہادی فن
اختلافی مسائل میں جوڑ کے ضابطے ورنہ ترجیح کے ضابطے اختیار کرنا۔
وغیرہ







مسائل کی قسمیں:

(1) مسائلِ منصوصہ:

وہ مسائل جو نص (قرآن و سنّت میں صراحت) سے بیان کیے گئے ہوں.

الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو‘‘
[سورۃ الاعراف:3]

اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں‘‘
[سوڑۃ البقرة:170]

اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’انہوں نے اللہ کی بجائے اپنے احبار (یعنی یہودی علماء) اور راہبوں (یعنی عیسائی درویشوں) کو خدا بنا لیا ہے...‘‘
[سورۃ التوبة:31]
ان کو خدا بنانے کا جو مطلب آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے علماء کو یہ اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ جس کو چاہیں حلال اور جس چیز کو چاہیں حرام قرار دے دیں، واضح رہے کہ عام لوگ جو کسی آسمانی کتاب کا براہ راست علم نہیں رکھتے، ان کو شریعت کا حکم معلوم کرنے کے لئے علماء سے رجوع تو کرنا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے شارح کی حیثیت میں ان کی بات ماننی بھی پڑتی ہے، اس کا حکم خود قرآن کریم نے سورة نحل (14۔ 43) اور سورة انبیاء (17۔ 21) میں دیا ہے، اس حد تک تو کوئی بات قابل اعتراض نہیں، لیکن یہود و نصاری نے اس سے آگے بڑھ کر اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں ؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں حلال اور جس چیز کو چاہیں حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔



ان مسائلِ منصوصہ کی بھی دو قسمیں ہیں:

(1) غیر متعارضہ (غیر اختلافی) مسائل : جیسے نماز، روزہ، حج، زكوة کا فرض ہونا اسی طرح زنا و شراب کا حرام ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں، اس لئے ان میں تقلید کا کوئی معنی نہیں.

(2) متعارضہ (باہم ٹکراتے، اختلافی) مسائل:




مسائلِ متعارضہ کی بھی دو قسمیں ہیں:
i) معلوم التقدیم و التاخیر :
وہ باہم ٹکراتے مسائل جن میں ((تاریخ کی مدد سے)) کسی ایک کا پہلے یا بعد میں اس پر عمل پیرا ہونا معلوم ہو. جیسے: حالت نشہ میں نماز کی ممانعت [النساء:43] سے شراب کا رات کو پینے کا جواز پہلے تھا ، لیکن بعد میں اس کی حرمت کی آیت [المائدہ:90-91] کا حکم ملنے سے اس کا ہمیشہ حرام ہوجانا. ایسے متعارضہ (باہم ٹکراتے) مسائل میں نہ اجتہاد جائز نہ تقلید.

ii) غیر معلوم التقدیم و التاخیر : وہ باہم ٹکراتے مسائل جن میں ((تاریخ کی مدد سے)) کسی ایک کا پہلے یا بعد میں اس پر عمل پیرا ہونا معلوم نہ ہوسکے.
جیسے: نماز میں رفع یدین کرنا، جس کو اختیار کرنا اور منع کرنا دونوں صحیح ثبوت سے ملتے ہیں، مگر بعض روایات سے اس کا بلآخر ترک کرنا معلوم ہوتا ہے. دیکھئے:
حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں رافعی ایدیکم (یعنی تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے) دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو ...

[صحيح مسلم » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ وَالنَّهْيِ ...رقم الحديث: 656(432)]

2) مسائلِ غیر منصوصہ: وہ مسائل جو (قرآن و سنّت میں صراحت) سے بیان نہیں کیے گئے ، ان احکامِ دین کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا. جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے ((فروعی)) مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے. اللّہ تعالیٰ کے قول "پس تم سوال کرو اہلِ علم سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(النحل:٤٣، الأنبياء:٧) کی دلیل سے. اور وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکامِ شرعیہ کے استنباط (النساء:83) کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو اس کے لئے کسی عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے. الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: "پس تم سوال کرو اہلِ علم سے، اگر تم نہیں علم رکھتے(النحل::43، الأنبياء:7)
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله  کے دور میں زخمی ہوگئے، پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، ((لوگوں)) نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی. اس کی اطلاع نبی  کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا، کیا ناواقفیت کا علاج دریافت (سوال) کرنا نہ تھا؟...الخ
(سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: 336)
دوسری اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ اہلِ اجتہاد (مجتہدین فقہاء و علماء) میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہِ علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس کو کسی دیکھنے والے (بینا) کی بات ماننی ہوگی.
[الفقيه والمتفقه: 2 / 128-134 ،علامہ خطیب بغدادی الشافعیؒ (392-462ھ)، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ]

چند جدید مسائلِ غیر منصوصہ (اجتہادیہ)، جن کا ((واضح)) حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں:
١. ٹیلیفون کے ذریعے نکاح
٢. انتقالِ خون (خون کا کسی مریض کو منتقل کرنا
٣. اعضاء کی پیوندکاری
٤. حالتَ روزہ میں انجیکشن کا مسئلہ
٥. لاؤڈ اسپیکر پر اذان کا مسئلہ
٦. ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ وغیرہ

مسائلِ منصوصہ متعارضہ کی دوسری قسم غیر معلوم التقدیم و التاخیر کی طرح مسائلِ غیر منصوصہ کی بھی دو یکساں قسمیں ہیں:
1) اجماعی: وفات نبوی کے بعد (دینی اور شرعی امور میں) امت محمدیہ کے مجتہدین (فقہاء) کا ان غیر منصوص (جن کا قرآن و سنّت میں صراحتاً حکم نہیں ملتا، ان) جدید مسائل میں (اجتماعی) اتفاق کیا گیا ہو. جیسے: (۱) رسول اللہ ﷺ نے صرف دو رات تراویح باجماعت پڑھانی، اس کے بعد یہ فرماکر تراویح پڑھانی چھوڑ دی کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تمہارے اوپر فرض نہ کردی جائے (بخاری شریف:۱/۱۵۲) پھر صحابہ کرامؓ کے مابین عملاً وقولاً اختلاف رہا؛ پھرحضرت عمرؓ کے زمانہ میں پورے رمضان مواظبت (ہمیشگی) کے ساتھ بیس رکعات باجماعت تراویح پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا۔ (نصب الرایۃ:۲/۱۵۳)
(2) ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک طلاق واقع ہو یا تین ہی واقع ہوں، یہ مسئلہ بھی صحابہ کرامؓ میں مختلف فیہ رہا؛ پھرحضرت عمرؓ کے دور میں اس پر صحابہؓ کا اجماع ہوگیا اور اس کے بعد سے جمہور اس پر متفق چلے آرہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ (مسلم شریف:۱/۴۷۸)
(3) رسول اللہ ﷺ سے نمازِ جنازہ کی تکبیرات پانچ بھی منقول ہیں اور سات، نو اور چار بھی؛ اسی لیے صحابہ کرامؓ کے مابین اس میں اختلاف رہا ہے، اس کے بعد حضرت عمرؓ نے صحابہ کو جمع کرکے فرمایا کہ تم صحابہ کی جماعت ہوکر اختلاف کر رہے ہو تو تمہارے بعد آنے والوں میں کتنا شدید اختلاف ہوگا؛ پس غور وخوص کرکے چار تکبیرات پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا۔ (بدائع للکاسانی:۲/۳۱۲)
(4) اگر کوئی شخص متعدد بار چوری کرے اور ایک مرتبہ میں اس کا دایاں ہاتھ اور دوسری مرتبہ میں اس کا بایاں پیر کٹ چکا ہو اور پھر تیسری اور چوتھی بار چوری کرے تو اس کے ہاتھ و پیر کاٹ کر سزادی جائے یا قطع کے علاوہ دیگر کوئی سزا دی جائے اس سلسلہ میں اختلاف رہا ہے، اس کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے ایک صورت متعین فرمادی کہ تیسری چوتھی مرتبہ میں قطع نہ ہوگا اور صحابہ کرامؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا؛ پس یہی توارث ہوگیا، اس سے بھی معلوم ہوا کہ اس مسئلہ میں بھی صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے۔ (بدائع للکاسانی:۶/۴۰۔ دارِقطنی:۳/۸۰۔ السنن الکبریٰ:۸/۲۴۵)
(5) جماع بدون الانزال کے موجب غسل ہونے میں ابتداً صحابہ کرامؓ میں اختلاف تھا؛ چنانچہ انصار وجوب غسل کے قائل نہیں تھے اور مہاجرین وجوبِ غسل کے قائل تھے؛ لیکن جب حضرت عمرؓ نے انصار ومہاجرین دونوں کو جمع کرکے پوری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور ان کو وجوبِ غسل پر آمادہ کیا تو حضرت عمرؓ کے اس فیصلہ پر سب متفق ہوگئے اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی۔ (طحاوی شریف:۱/۴۷، اشرفی)
(6) امام طحاویؒ اور امام بیہقیؒ نے علقمہ بن ابی وقاصؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنی ایک زمین جو بصرہ میں تھی حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے ہاتھ فروخت کی، کسی نے حضرت طلحہؓ سے کہا کہ آپ کو اس معاملہ میں خسارہ ہوگیا ہے، یہ سن کر حضرت طلحہؓ نے فرمایا: مجھے اختیار ہے؛ کیونکہ میں نے بغیر دیکھے زمین خریدی ہے، حضرت عثمانؓ سے کہا گیا کہ آپ کو خسارہ ہوگیا؛ انھوں نے فرمایا کہ مجھے اختیار ہے؛ کیونکہ میں اپنی زمین بغیر دیکھے فروخت کی ہے، دونوں حضرات نے جبیربن مطعمؓ کو حکم مقرر کیا، حضرت جبیر بن مطعمؓ نے فیصلہ کیا کہ طلحہ کو خیار رؤیت حاصل ہے، عثمان کو حاصل نہیں ہے، یہ واقعہ صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں پیش آیا؛ مگر کسی نے نکیر نہیں کی، گویا اس پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا کہ خیار رویت مشتری کو حاصل ہوگا بائع کو حاصل نہ ہوگا۔ (ہدایۃ:۳/۳۶). 

2) غیر اجماعی: وفات نبوی کے بعد (دینی اور شرعی امور میں) امت محمدیہ کے مجتہدین (فقہاء) کا ان غیر منصوص (جن کا قرآن و سنّت میں صراحتاً حکم نہیں ملتا، ان) جدید مسائل میں (اجتماعی) اتفاق نہ ہوا ہو. جیسے: جیھنگا کھانا حلال یا حرام ہونے کا اختلاف. بعض علماء نے اسے مچھلی پر قیاس کرتے حلال کہا اور بعض علماء نے اس میں مچھلی کی تعریف و صفات میں پورا نہ اترنے کے سبب اسے سمندری کیڑا قیاس کرتے کیڑے کی طرح حرام ہونا کہنا.







تقلید کے درجات اور اُن کے احکام
          تقلید کرنے والے کے لحاظ سے تقلید کے چار مختلف درجات اور اُن کے احکام ہیں۔ ان درجات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور غیر مقلدین کے بیشتر اعتراضات اسی فرقِ مراتب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ان چار درجات کا سمجھنا بہت ضروری ہے، وہ بالترتیب یہ ہیں:
          (۱)عوام کی تقلید (۲)متبحر عالم کی تقلید
          (۳)مجتہد فی المذب کی تقلید (۴)مجتہد مطلق کی تقلید۔
(۱)عوام کی تقلید:
          ”عوام“ سے ہماری مراد مندرجہٴ ذیل اقسام کے حضرات ہیں:
          (۱)۔وہ حضرات جو عربی زبان اور اسلامی علوم سے بالکل ناواقف ہوں، خواہ وہ دوسرے فنون میں وہ کتنے ہی تعلیم یافتہ اور ماہر و محقق ہوں۔
          (۲)۔وہ حضرات جو عربی زبان جانتے اور عربی کتابیں سمجھ سکتے ہوں؛ لیکن انھوں نے تفسیر، حدیث، فقہ اور متعلقہ دینی علوم کو باقاعدہ اساتذہ سے نہ پڑھا ہو۔
          (۳)۔وہ حضرات جو رسمی طور پر اسلامی علوم سے فارغ التحصیل ہوں؛ لیکن تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصولوں میں اچھی استعداد اور بصیرت پیدا نہ ہوئی ہو۔
          یہ تینوں قسم کے حضرات تقلید کے معاملے میں ”عوام“ ہی کی صف میں شمار ہوں گے، اور تینوں کا حکم ایک ہی ہے۔ اس قسم کے عوام کو ”تقلید محض“ کے سوا چارہ نہیں؛ کیونکہ ان میں اتنی استعداد اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ براہِ راست کتاب و سنت کو سمجھ سکیں، یا اس کے متعارض دلائل میں تطبیق و ترجیح کا فیصلہ کر سکیں۔ لہٰذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ کسی مجتہد کا دامن پکڑیں اور اس سے مسائلِ شریعت معلوم کریں۔ (ص:۸۵،۸۶)
          اس درجے کے مقلد کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ دلائل کی بحث میں اُلجھے اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ کون سے فقیہ و مجتہد کی دلیل زیادہ راجح ہے؟ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی مجتہد کو متعین کر کے ہر معاملے میں اسی قول کے پر اعتماد کرتا رہے؛ کیونکہ اس کے اندر اتنی استعداد موجود نہیں ہے کہ وہ دلائل کے راجح و مرجوح ہونے کا فیصلہ کر سکے؛ بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آ جائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو ، تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے، اور حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں نہیں سمجھ سکا، یا یہ کہ امام مجتہد کے پاس اُس کے معارض کوئی قوی دلیل ہو گی۔
          ․․․․․․ اور اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا؛ اس لیے کہ قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط ایک ایسا وسیع و عمیق فن ہے کہ اس میں عمریں کھپا کر بھی ہر شخص اس پر عبور حاصل نہیں کر سکتا۔ (ص:۸۷)
          ایسی احادیث بیسیوں ہیں، جن کو قرآن و سنت کے علوم میں کافی مہارت کے بغیر انسان دیکھے گا تو لامحالہ غلط فہمیوں میں مبتلا ہو گا۔ اسی بناء پر علماء نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے علمِ دین باقاعدہ حاصل نہ کیا ہو، اُسے قرآن و حدیث کا مطالعہ ماہر استاذ کی مدد کے بغیر نہیں کرنا چاہیے۔ (ص:۹۱)
          ہمارے فقہاء نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ عوام کو براہِ راست قرآن و حدیث سے احکامِ شریعت معلوم کرنے کے بجائے علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرنا چاہیے؛ بلکہ فقہاء نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کسی عام آدمی کو کوئی مفتی غلط فتویٰ دے دے تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہو گا، عام آدمی کو معذور سمجھا جائے گا؛ لیکن اگر عام آدمی کوئی حدیث دیکھ کر اس کا مطلب غلط سمجھے اور اس پر عمل کر لے، تو وہ معذور نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا کام کسی مفتی کی طرف رجوع کرنا تھا، خود قرآن و سنت سے مسائل کا استنباط اس کا کام نہ تھا۔ (ص:۹۲،۹۳)
(۲)متبحر عالم کی تقلید:
          ”متبحر عالم“ سے ہماری مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ رُتبہٴ اجتہاد تک نہ پہنچا ہو؛ لیکن اسلامی علوم کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرنے کے بعد انہی علوم کی تدریس و تصنیف کی خدمت میں اکابر علماء کے زیرِ نگرانی عرصہٴ دراز تک مشغول رہا ہو، تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصول اسے مستحضر ہوں، اور وہ کسی مسئلے کی تحقیق میں اسلاف کے افادات سے بخوبی فائدہ اُٹھا سکتا ہو، اور ان کے طرزِ تصنیف و استدلال کا مزاج شناس ہونے کی بناء پر ان کی صحیح مراد تک پہنچ سکتا ہو۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ ایسے شخص کو ”متبحر فی المذہب“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایسا شخص بھی اگرچہ رُتبہٴ اجتہاد تک نہ پہنچنے کی وجہ سے مقلد ہی ہوتا ہے؛ لیکن وہ اپنے مذہب کا مفتی بن سکتا ہے، ایسے شخص کی تقلید عوام کی تقلید سے کچھ امور میں مختلف ہوتی ہے۔ (ص:۹۴،۹۵)
          ایک متبحر عالم کن شرائط کے ساتھ حدیث ِصحیح کی بنیاد پر اپنے امام مجتہد کے قول کو چھوڑ سکتا ہے؟ علمائے اُصولِ فقہ کی کتب سے اُن شرائط کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ علمائے اُصول کی مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں ایک متبحر عالم اگر کسی مسئلے کے تمام پہلووٴں اور ان کے دلائل کا احاطہ کرنے کے بعد کم از کم اُس مسئلہ میں اجتہاد کے درجہ تک پہنچ گیا ہو (خواہ وہ پوری شریعت میں مجتہد نہ ہو) تو وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ میرے امام مجتہد کا مسلک فلاں حدیث ِصحیح کے خلاف ہے۔ ایسے موقع پر اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ امام کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرے۔ (ص:۱۰۴)
          لیکن اس طرح جزوی طور پر اپنے امام سے اختلاف کرنے کے باوجود مجموعی طور پر اُسے مقلد ہی کہا اور سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ بہت سے فقہاءِ حنفیہ نے اسی بناء پر امام ابو حنیفہ کے قول کو ترک کر کے دوسرے ائمہ کے قول پر فتویٰ دیا ہے۔ (ص:۱۰۷)
          تنبیہ: البتہ یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے؛ اس لیے اس میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، اور ہر شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو متبحر علماء کی صف میں شمار کر کے اس منصب پر فائز ہو جائے، اور اُوپر جو شرائط بیان کی گئی ہوں اُن کی رعایت رکھے بغیر احکامِ شرعیہ میں تصرف شروع کر دے۔ (ص:۱۰۸)
(۳)مجتہد فی المذہب کی تقلید:
          ”مجتہد فی المذہب“ اُن حضرات کو کہتے ہیں جو استدلال و استنباط کے بنیادی اُصولوں میں کسی مجتہد مطلق کے طریقے کے پابند ہوتے ہیں؛ لیکن اُن اصول و قواعد کے تحت جزوی مسائل کو براہِ راست قرآن و سنت اور آثارِ صحابہ وغیرہ سے مستنبط کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؛ چنانچہ ایسے حضرات اپنے مجتہد مطلق سے بہت سے فروعی احکام میں اختلاف رکھتے ہیں، لیکن اصول کے لحاظ سے اس کے مقلد کہلاتے ہیں۔ مثلاً: فقہ حنفی میں امام ابو یوسف اور امام محمد، فقہ شافعی میں امام مزنی اور امام ابو ثور، فقہ مالکی میں سحنون اور ابن القاسم، اور فقہ حنبلی میں ابراہیم الحربی اور ابو بکر الاثرم (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔ لہٰذا مجتہد فی المذہب اصول کے لحاظ سے مقلد اور فروع کے لحاظ سے مجتہد ہوتا ہے۔ (ص:۱۰۸،۱۰۹)
(۴)مجتہد مطلق کی تقلید:
          ”مجتہد مطلق“ وہ شخص ہے جس میں تمام شرائط اجتہاد پائی جاتی ہوں اور وہ اپنے علم و فہم کے ذریعہ اصولِ استدلال بھی خود قرآن و سنت سے وضع کرنے پر قادر ہواور ان اصول کے تحت تمام احکامِ شریعت کو قرآنِ کریم سے مستنبط بھی کر سکتا ہو، جیسے: امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد وغیرہ (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔ یہ حضرات اگرچہ اصول اور فروع دونوں میں مجتہد ہوتے ہیں؛ لیکن ایک طرح کی تقلید ان کو بھی کرنی پڑتی ہے، اور وہ اس طرح کہ جن مسائل میں قرآنِ کریم یا سنت ِصحیحہ میں کوئی تصریح نہیں ہوتی، وہاں یہ حضرات اکثر و بیشتر اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ خالصةً اپنی رائے اور قیاس سے فیصلہ کرنے کے بجائے صحابہ و تابعین میں سے کسی کا کوئی قول یا فعل مل جائے؛ چنانچہ اگر ایسا کوئی قول و فعل مل جاتا ہے تو یہ حضرات بھی اس کی تقلید کرتے ہیں۔ (ص:۱۰۹،۱۱۰)
          تمام ائمہ مجتہدین نے اجتہاد کی شرائط کو پورا کر کے قرآن و حدیث کی صحیح مراد معلوم کرنے کی کوشش کی ہے؛ اس لیے سب کے مذاہب برحق ہیں، اور اگر کسی سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے تو اللہ کے نزدیک وہ نہ صرف معاف ہے؛ بلکہ اپنی کوشش صرف کرنے کی وجہ سے مجتہد کو ثواب ہو گا، جس کی تصریح احادیث میں موجود ہے؛ البتہ ایک مقلد یہ اعتقاد رکھ سکتا ہے کہ میرے امام کا مسلک صحیح ہے؛ مگر اس میں خطا کا بھی احتمال ہے، اور دوسرے مذاہب میں ائمہ سے اجتہادی خطا ہوئی ہے؛ لیکن ان میں صحت کا بھی احتمال ہے۔ (ص:۱۵۷)
          فرقہٴ ناجیہ اہل السنة و الجماعة کی اتباع ہی میں نجات ہے:
          امامِ ربّانی حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ (م۱۰۲۴ھ) فرماتے ہیں کہ
          ”ان بزرگانِ دین کی اتباع کے بغیر نجات حاصل ہونا محال ہے، اور اگر بال برابر بھی ان کی مخالفت ہے تو خطرہ ہی خطرہ ہے، یہ بات صحیح کشف اور صریح الہام کے ساتھ بھی یقین کے درجہ کو پہنچ چکی ہے، اس میں کسی قسم کے اختلاف کا شبہ و گنجائش نہیں ہے۔
          پس اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کو ان کی پیروی کی توفیق حاصل ہوئی اور ان کی تقلید سے مشرف ہوا اور اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس نے ان کی مخالفت کی اور ان سے منحرف ہو گیا اور ان کے اُصولوں سے رُوگردانی کی اور ان کے گروہ سے نکل گیا۔ لہٰذا وہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور انھوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا“۔
[مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی:۱/۱۹۱، دفتر اوّل، مکتوب:۵۹]






=========================================
علماء کے بجائے جاہلوں سے فتویٰ لینے کی پیشگوئی:

خلف(بعد والوں)کی تقلید صحیح نہیں:

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا " ، قَالَ الْفِرَبْرِيُّ : حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ ... رقم الحديث: 99(100)]
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم  نے ارشاد فرمایا۔اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 100 - علم کا بیان : علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا]
تشريح :
(١) اس حديث میں واضح طور پر فتویٰ دينا علماء كا كام قرار ديا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں وہ ان کا حکم بتائیں، اور لوگ اس پر عمل کریں، یہی حاصل ہے تقلید (ائمہ و علماء) کا۔

(٢) نبی  نے (بعد کے) ایک ایسے زمانہ کی خبر دی، جس میں علماء مفقود ہوجائیں گے، اور جاہل قسم کے لوگ فتویٰ دینے شروع کردیں گے، یہاں سوال یہ ہے کہ اس دور میں احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی سواۓ اس کے اور کیا صورت ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ گزرے ہوے (علم و عمل میں معتبر) علماء کی تقلید کریں، کیونکہ جب زندہ لوگوں میں کوئی عالم نہیں بچا تو کوئی شخص براہِ راست قرآن و سنّت سے احکام مستنبط کرنے کا اہل رہا، اور نہ ہی کسی (معتبر) زندہ عالم کی طرف رجوع کرنا اس کی قدرت میں ہے، کیونکہ کوئی عالم موجود ہی نہیں، لہذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں رہتی کہ جو علماء وفات پاچکے ہیں اس کی تصانیف وغیرہ کے ذریعہ ان کی تقلید کی جاۓ.

لہذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک علماءِ اہلِ اجتہاد موجود ہوں اس وقت ان سے مسائل معلوم کے جائیں، اور ان کے فتووں پر عمل کیا جاۓ، اور جب کوئی علم باقی نہ رہے تو نااہل لوگوں کو مجتہد سمجھہ کر  ان کے فتووں پر عمل کرنے کی بجاۓ گزشتہ علماء میں سے کسی کی تقلید کی جاۓ.


اندھی تقلید کیا ہے؟
اندھی تقلید اس کو کہتے ہیں کہ اندھا اندھے کے پیچھے چلے، تو لازماً دونوں کسی کھائی میں گرجائیں، گے اگر اندھا کسی آنکھوں والے کے پیچھے چلے تو آنکھ والا اپنی آنکھ کی برکت سے اپنے آپ کو بھی اور اس اندھے کو بھی ہر کھائی سے بچاکر لیجائے گا اور منزل تک پہنچادے گا، حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ معاذ اللہ اندھے نہیں ہیں، عارف اور بصیر ہیں، البتہ اندھی تقلید کا شکار وہ لوگ ہیں جو خود بھی اندھے ہیں اور ان کے پیشوا بھی اجتہاد کی آنکھ سے محروم ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عن عبد اللہ بن عمروؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ: ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد، و لکن یقبض العلم بقبض لعلماء حتی اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رؤوسا جھالا فسئلوا بغیر علم فضلوا واضلوا۔[بخاری:100]
"جو جاہل کو دینی پیشوا بنائے تو وہ جاہل خود بھی گمراہ ہوگا اور اپنے ماننے والے کو بھی گمراہ کرے گاد"۔

یہ اندھی تقلید ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں پیغمبرِ معصوم ﷺ اور مجتہدِ ماجور رحمہم اللہ کی تحقیق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور فتنوں سے محفوظ فرمائیں۔ آمین



کسی عالم کی اپنے (ذاتی) اعمال میں جو غلطی ہو، مَثَلاً : وہ مسنون داڑھی نہ رکھے یا شوقیہ تصویر کھچواۓ وغیرہ ان کا سوال ہم سے نہیں ہوگا۔ اور ہمیں یہ باتیں جمہور علماء سے ان کا قرآن و سنّت کے خلاف ہونا سورج کی طرح واضح معلوم ہیں تو ان باتوں میں ان کی پیروی نہیں کی جائیگی، عقل سلیم بھی اسی بات کو تسلیم کرتی ہے. لیکن مسائل دین جاننے میں ان سے پوچھ پوچھ کر عمل کرنے کا ہی حکم (واجب ہونا) قرآن میں الله دے چکا ہے:  پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے. [١٦:٤٣، ٢١:٧، ١٩:٤٣] کیونکہ عموماً ہر کوئی جب، جہاں اور جیسے چاہے کرنے کی "بے لغام آزادی" چاہنے کے سبب گمراہ ہوجاتا ہے، اسی طرح عالم کا بھی اپنے افعال میں گمراہ ہونا اپنے نفس کے لئے ہوتا ہے جن میں اس کی پیروی جائز نہیں، جبکہ مسائل ِدین بتانے میں اسے اپنا وقت دینا اور علمی دلائل کی تحقیق و حفظ میں دوسروں کے لئے محنت و مشقت کرنا پڑتی ہے، جس میں وہ لوگوں کی طرف سے کوئی اجر (بدلہ) نہیں دیا جاتا. 


اور بالفرض اگر کوئی اپنے حق میں فتویٰ لینے کو کچھ دے اور وہ لے بھی تو وہ (فتویٰ لینے والا) خود ہی حق و ہدایت کے بجاۓ گمراہی چاہتا ہے، لہذا گمراہ کی پیروی کرنا یا نہ کرنا اس فتویٰ لینے والے کے لئے برابر (گمراہی) ہے ، اور اگر وہ کچھ نہیں دیتا تو عالم اس کی خواھش پر کیوں فتویٰ دے گا ؟؟؟ ہر نفس اپنے لئے سہولت چاہتا ہے لیکن دوسرے کے لئے وہ سیدھی بات کردیتا ہے.

پھر غلطی یا تو حافظہ کی کمزوری، کم علمی (ناسمجھی) یا جلدبازی کے سبب ہو تو۔۔۔











تقلید حافظ ذہبی کی نگاہ میں جن کی تقلیدکی جاتی ہے وہ رسول اللہ کے صحابہ ہیں بشرطیکہ ان تک سند ثابت ہوجائے۔ پھر ائمہ تابعین ہیں جیسے علقمہ،مسروق،عبیدة السلمانی،سعید بن المسیب ،ابوالشعثائ،سعید بن جبیر،عبیداللہ بن عبداللہ،عروہ،قاسم،شعبی،حس ن،ابن سیرین اورابراہیم نخعی۔

پھر زہری ،ابوالزناد،ایوب سختیانی ،ربیعہ اوران کے طبقہ کے لوگ۔

پھر ابوحنیفہ،مالک، اوزاعی،معمر،ابن ابی عروبہ،سفیان ثوری ،حماد ین،شعبہ،لیث بن سعد ،ابن الماجشون اورابن ابی ذئب۔

پھرابن مبارک،سلم زنجی،قاضی ابویوسف ،ہقل بن زیاد،وکیع ،ولید بن مسلم اوران کے طبقہ کے دیگر ائمہ اجتہاد۔

پھر شافعی ،ابوعبید،احمد اسحاق ابوثور ،بویطی،ابوبکر بن ابی شیبہ۔

پھر مزنی،ابوبکرالاثرم، بخاری دائود بن علی،محمد بن نصرالمروزی،ابراہیم الحربی ،اسماعیل قاضی۔

پھر محمد بن جریرطبری، ابوبکر بن خزیمہ، ابوعباس بن سریج، ابوبکر بن منذر،ابوجعفر الطحاوی ،ابوبکر خلال۔

اس دور کے اجتہاد کی صلاحیت کم ہوگئی ۔کتابوں کے مختصرات لکھے جانے لگے اورفقہاء تقلید کی جانب مائل ہوگئے ۔اس میں انہوں نے اس کاخیال نہیں کیاکہ جن کی تقلید کررہے ہوں وہ سب سے بڑے عالم ہوں۔ بلکہ اتفاق،پسندیدگی، تعظیم،عادت اورشہر کواس میں دخل رہا۔

آج اگر کوئی طالب فقہ یہ چاہے کہ مغرب میں ابوحنیفہ کی پیروی کرے تومشکل ہوگی جیساکہ اگر کوئی یہ چاہئے کہ بخاری اورسمرقند میں حنبلی مسلک پر عمل کرے۔

(سیر اعلام النبلائ8/91/92)





امام علی بن احمد بن حزم متوفی 456ہجری کے ترجمہ میں ان کا قول''انااتبع الحق واجتہد،ولااتقید بمذہب (کہ میں حق کی پیروی کرتا ہوں اور کسی ایک مذہب ومسلک کی پابندی نہیں کرتا)پر لکھتے ہیں۔میں(ذہبی)کہتاہوں ہاں،جوشخص اجتہاد کے رتبہ کو پہنچ جائے اوراس کی گواہی کچھ ائمہ بھی دے دیں تواس کیلیٔے تقلید جائز نہیں ہے جیساکہ نچلے درجہ کا فقیہہ اور عامی جوقرآن کا حافظ یا اکثر حصے کاحافظ ہے اس کیلئے قطعاًاجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔وہ کیوں کر اجتہاد کرے گا اورکیاکہے گا اورکس پر (اپنی باتوں کی)بنیاد رکھے گا اورکیسے اڑسکتاہے جب کہ اس پر ہی نہیں ہیں۔تیسری قسم فقہ میں گہرے رسوخ کا حامل،بیدارمغز،فہیم،محدث جس نے فروعات میں مختصرات کوحفظ کررکھاہواوراصول میں لکھی گئی کتابوں پر نگاہ ہو،اورنحوپڑھی ہواوران سب کے ساتھ اللہ کی کتاب کا حافظ ہو،اوراس کے معنی ومراد سے واقفیت ہو تویہ وہ ہے جواجتہاد مقید کے درجے پر فائز ہے اوریہ اس کی صلاحیت رکھتاہے کہ آئمہ کے دلائل میں غورکرے اورکسی مسئلہ جس جانب حق نظرآئے اوراس میں نص ثابت ہو،اوراس پر ائمہ میں سے کسی امام نے عمل کیاہو۔جیسے ابوحنیفہ،یاجیسے مالک یاثوری یااوزاعی یاشافعی یاابوعبیداوراحمداوراسحاق ،تووہ اس مین حق کی پیروی کرے اوررخصت کی راہ پر نہ چلے اورپرہیزگاری کاطریقہ اختیار کرے اوراس پر حجت قائم ہوجانے کے بعد تقلید کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔اگراس کو خوف ہو کہ کہ وقت کے فقہاء ا س کی روش پر شوروغوغاکرین تووہ اپنے نظریات کو چھپائے رکھے اوراپنے نظریات وخیالات کو عام نہ کرے ۔کیونکہ بسااوقات ایساہوتاہے کہ انسان اپنے آپ کو اچھاسمجھتاہے اورشہرت ونام کوپسندکرتاہے تواس کی سزادی جاتی ہے………بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے حق بات کہی اوربھلائیوںکا حکم دیالیکن نیت کی خرابی اوردینی ریاست وقیادت کی خواہش کی وجہ سے اس کو یہ سزاملتی ہے کہ اللہ اس پر ایسے اشخاص کو مسلط کردیتاہے جواس کوتکلیف پہنچاتے ہیں۔یہ پوشیدہ بیماری ہے جو فقہاء میں پائی جاتی ہے۔

(سیراعلام النبلائ8/191-192)


======================================
فقہ دین اور اتباعِ صحابہ
القرآن :
جن لوگوں نے سبقت کی یعنی سب سے پہلے ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ انکی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے انکے لئے باغات تیار کئے ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
[التوبہ : ١٠٠]

القرآن : 
اور مسلمانوں کے لئے یہ بھی مناسب نہیں کہ وہ (ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کے لئے) نکل کھڑے ہوں، لہذا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لئے) نکلا کرے، تاکہ (جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں) وہ دین کی فقہ (سمجھ) حاصل (کرنے کے لئے محنت) کریں، اور ان کی قوم کے لوگ (جو جہاد گئے ہیں) ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو آگاہ کریں، تاکہ وہ گناہوں سے بچ سکیں۔ [التوبہ:۱۲۲]
تفسیر :
اس آیت سے الله تعالیٰ نے عام لوگوں پر واجب کیا ہے کہ جب علماء ان کو (احکامِ شریعت بتاکر) ہوشیار کریں تو وہ (الله کی نافرمانی سے) بچیں اور علماء کی بات مانیں. [تفسیر الجصاص : ٢/٢٦٣، طاعة الرسول صلي الله عليه وسلم]

الحدیث : 
حضرت ہاروں العبدی کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کی خدمات میں حاضر ہوتے تو وہ ہمیں مرحبا (خوش آمدید) کہتے رسول الله ﷺ کی وصیت کے موافق (اور فرماتے) کہ رسول الله  نے ہمیں فرمایا تھا کہ لوگ تمہاری پیروی کریں گے اور اکنافِ عالم سے تمہاری دین کی فقہ (گہری سمجھ) حاصل کرنے آئیں گے، تو ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت میری طرف سے قبول کرو.



تقلیدِ صحابہؓ:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ الْأَزْدِيُّ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، ثنا زَائِدَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «‌لَا ‌يُقَلِّدَنَّ أَحَدُكُمْ دِينَهُ رَجُلًا، فَإِنْ آمَنَ آمَنَ وَإِنْ كَفَرَ كَفَرَ، وَإِنْ كُنْتُمْ لَا بُدَّ مُقْتَدِينَ فَاقْتَدُوا بِالْمَيِّتِ، فَإِنَّ الْحَيَّ لَا يُؤْمَنُ عَلَيْهِ الْفِتْنَةُ» 
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا : خبردار! کوئی شخص اپنے دین میں کسی کی اس طرح تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لاۓ تو یہ بھی ایمان لاۓ، اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے. پس اگر مقلد ہونا ناگزیر (لازمی) ہو ، تو تقلید کرو (گزشتہ نیک) مردہ لوگوں کی (یعنی اصحابِ رسول کی اقتدا کرو) اور ترک کردو (تقلید) زندہ لوگوں کی، کیونکہ (موجود) زندہ لوگ محفوظ نہیں فتنہ(آزمائش) سے.
[المعجم الكبير للطبراني:8764، مجمع الزوائد:850 وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.]

نوٹ:

(1) ایمان و کفر میں تقلید سے منع کیا گیا ہے، عملی واجتہادی مسائل میں مجتہد امام کی تقلید سے نہیں۔ (2) مردہ سے مراد سلفِ صالحین یعنی گذرے ہوئے نیک لوگ ہیں۔ جو ہدایت پر مرے وہ قابلِ تقلید ہے۔ (3) اور زندہ لوگوں کا گمراہی میں پڑنا ابھی بھی ممکن ہے، لہٰذا ان کی تقلید جائز نہیں۔





عَنْ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الزَّعْرَاءِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي : أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ " .
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْفَضَائِلِ وَالشَّمَائِلِ...رقم الحديث: 361]؛

ترجمہ: حضرت عبدالله بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیروی کرنا ان کی جو میرے بعد ہوں گے (یعنی) ابوبکرؓ و عمرؓ.؛

"من بعدی" سے مراد ان صاحبوں کی حالتِ خلافت ہے، کیوں کہ بلاخلافت تو دونوں صاحب آپکے روبرو بھی موجود تھے. پس مطلب یہ ہوا کہ ان کے خلیفہ ہونے کی حالت میں ان کی اتباع کیجیو اور ظاہر ہے کہ خلیفہ ایک ایک ہوں گے. پس حاصل یہ ہوا کہ حضرت ابو بکرؓ کی خلافت میں تو ان کا اتباع کرنا، حضرت عمرؓ کی خلافت میں ان کا اتباع کرنا، پس ایک زمانہ خاص تک ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان کے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلیا کرنا.اور نہ یہ عادت مستمرہ (جاریہ) تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلیدِ شخصی ہے. کیونکہ حقیقتِ تقلیدِ شخصی یہ ہے کہ ایک شخص کو جو مسئلہ پیش آوے وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے اور اس سے تحقیق کر کے عمل کیا کرے.



سوال : آئمہِ اربعہ (چار اماموں) ہی کی تقلید کیوں؟ کرنا ہے تو حضرت ابو بکر و عمر (رض) کی کرو؟
جواب : امام نووی الشافعیؒ (631-676هـ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "المجموع" میں اس بات پر روشنی ڈالتے ہوۓ رقم طراز ہیں کہ:
وليس له التمذهب بمذهب أحد من أئمة الصحابة رضي الله عنهم وغيرهم من الأولين ، وإن كانوا أعلم وأعلى درجة ممن بعدهم ; لأنهم لم يتفرغوا لتدوين العلم وضبط أصوله وفروعه ، فليس لأحد منهم مذهب مهذب محرر مقرر ، وإنما قام بذلك من جاء بعدهم من الأئمة الناحلين لمذاهب الصحابة والتابعين ، القائمين بتمهيد أحكام الوقائع قبل وقوعها ، الناهضين بإيضاح أصولها وفروعها ، كمالك وأبي حنيفة وغيرهما . [المجموع شرح المهذب » مقدمة الإمام النووي » باب آداب الفتوى والمفتي والمستفتي » فصل في آداب المستفتي وصفته وأحكامه فيه مسائل » المسألة الثالثة هل يجوز للعامي أن يتخير ويقلد]
یعنی صحابہِ کرام (رضی الله عنھم) اور قرونِ اولیٰ (پہلے زمانہ) کے اکابر (بڑے بزرگ) اگرچہ درجہ کے اعتبار سے بعد کے فقہاء مجتہدین سے بلند و برتر ہیں، لیکن انھیں اتنا موقع نہیں ملا کہ اپنے علم اور اس کے اصول و فروع کو مدون اور منضبط کر سکتے، اس لئے کسی شخص کے لئے ان کے فقہی مذھب کی تقلید جائز نہیں، کیونکہ ان میں سے کسی کا مذھب مدون نہیں ہو سکا، نہ وہ لکھی ہی شکل میں موجود ہے، اور نہ ہی متعین طور سے اس کی نشاندہی کی جاسکتی ہے. دراصل تدوین فقہ کا یہ کام بعد کے ائمہ نے کیا ہے، جو خود صحابہ و تابعین کے مذھب کے خوشہ چین (فیض یافتہ) تھے، اور جنہوں نے واقعات کے پیش آنے سے پہلے ہی ان کے احکام مدون کیے، اور اپنے مذہب کے اصول و فروع کو واضح کیا، مَثَلاً: امام مالکؒ اور امام ابوحنیفہؒ.


کیا صحابہِ کرام رضی الله عنھ بھی "مقلد" تھے؟

اس بات میں ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ نبی صلے الله علیہ وسلم کے جملہ صحابہ کرام رضی الله عنہ شرفِ صحبتِ نبویؐ کے فیض و برکت سے سب کے سب عادل، ثقه، متقی، خدا-پرست اور پاک-باز تھے، مگر فہمِ قرآن،  تدبرِ حدیث اور تفقہ فی الدین میں سب یکساں نہ تھے، بلکہ اس لحاظ سے ان کے آپس میں مختلف درجات اور متفاوت مراتب تھے .



امام الفقیہ اور احد الاعلام حضرت امام مسروقؒ (المتوفی ٢٣-ہجری) سے مروی ہے کہ میں نے اصحابِ رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے علم کی خوشبو حاصل کی تو میں نے ان کے علم کی انتہا چھ(٦) پر پائی، حضرت عمر، علی، عبدالله، معاذ(بن جبل)، ابو درداء اور زید بن ثابت رضی الله عنہم. میں نے ان کے علم کی خوشبو پائی تو مجھے تو مجھے ان کے علم کی انتہا حضرت علی اور عبدالله (بن مسعود) رضی الله عنہم پر ملی.[طبقات ابن سعد:٢/٢٥، تذكرة الحفاظ:١/٢٤ و مقدمه ابن صلاح:٢٦٢ مع شرح العراقي، مستدرك حاكم:٣/٤٦٥، اور اس روایت پر امام حاکم اور امام ذہبیؒ خاموش رہے یعنی جرح نہیں فرمائی]


علامہ ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" امت ميں فقہ و دين اور علم ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ اور زيد بن ثابت اور عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہم كے اصحاب سے پھيلا، تو عام لوگوں نے ان چار لوگوں سے علم حاصل كيا، رہا اہل مدينہ كا تو انہوں نے زيد بن ثابت اور عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے ليا، اور اہل مكہ كا علم عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے ہے، اور اہل عراق كا علم عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے ہے " انتہى ديكھيں: (اعلام الموقعين : 1 / 17 )


معلوم ہوا کہ صحابہِ کرامؓ بھی فقہِ دین (قرآن=٩:١٢٢) پر عمل پیرا تھے اور اپنے دور کے چھے بڑے معتبر اصحاب کی تقلید کرتے تھے. خیر القرون کی کتبِ احادیث (بہترین زمانہِ صحابہ و تابعین) مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، تہذیب الآثار طبری، شرح معانی الآثار طحاوی، کتاب الآثار امام محمّد، کتاب الآثار امام ابی یوسف میں صحابہ اور تابعین کے ہزارہا فتاویٰ درج ہیں جن کے ساتھ دلائل مذکور نہیں، انہوں نے بلاذکرِ دلیل یہ فتاویٰ صادر فرماتے، اور سب لوگوں نے بلامطالبہِ دلیل ان پر عمل کیا، یہ عمل اسلام میں پہلے دن سے آج تک تواتر سے ثابت ہے.

جس طرح امام بخاریؒ نے اپنی طرف سے کوئی حدیث نہیں بنائی بلکہ احادیث کو یکجا کیا، اسی طرح امام ابو حنیفہؒ نے کوئی نیا مذہب اور فقہ ایجاد نہیں کی بلکہ صحابہِ کرامؓ کی فقہ کو یکجا کیا. الله تعالیٰ ہمارا خاتمہ اہلِ سنّت والجماعت کے ہی مذہب پر فرماتے. آمین



تقلید پر اجماع صحابہ :

اسی لئے امام غزالی الحنبلیؒ(م505ھ) فرماتے ہیں:
[مَسَالَةٌ الْعَامِّيُّ يَجِبُ عَلَيْهِ الِاسْتِفْتَاءُ وَاتِّبَاعُ الْعُلَمَاءِ]
وَقَالَ قَوْمٌ مِنْ الْقَدَرِيَّةِ: يَلْزَمُهُمْ النَّظَرُ فِي الدَّلِيلِ وَاتِّبَاعُ الْإِمَامِ الْمَعْصُومِ وَهَذَا بَاطِلٌ بِمَسْلَكَيْنِ:
أَحَدِهِمَا: إجْمَاعُ الصَّحَابَةِ فَإِنَّهُمْ كَانُوا يُفْتُونَ الْعَوَامَّ وَلَا يَأْمُرُونَهُمْ بِنَيْلِ دَرَجَةِ الِاجْتِهَادِ، وَذَلِكَ مَعْلُومٌ عَلَى الضَّرُورَةِ وَالتَّوَاتُرِ مِنْ عُلَمَائِهِمْ وَعَوَامِّهِمْ.
ترجمہ:
[مسئلہ : عامی (عوام) پر واجب ہے پوچھنا اور اتباع (تقلید) علماء کی]
اور کہا بعض (فرقہ) قدریہ نے ، وہ لازم ٹہراتے ہیں دلیل معلوم کرنے کو اور بالعموم امام کی اتباع (تقلید) کرنے کو، مگر یہ باطل (حق نہیں) ہے دو مسلکوں سے :
پہلا (مسلک): اجماعِ صحابہؓ سے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثلِ ضروریاتِ دین ثابت ہے"۔
[المستصفى - الغزالي: ص372، التحقيق والبيان في شرح البرهان:4/ 212، نفائس الأصول - القرافي:9/ 3945]






بزرگوں(سلفِ صالحین) پر اعتماد کرنا ہی اصل شریعت ہے؛

اپنے اسلاف پر اعتماد کرنا اور ان کے ساتھ حسنِ ظن کا معاملہ رکھنا وہ دولت ہے، جس کے صدقے میں آج دین اپنی صحیح شکل میں ہمارے ہاتھ میں محفوظ ہے. اسی بات کو حضرت شاہ ولی الله محدث دہلویؒ نے بیان فرمایا: کسی امتی پر اللہ کی طرف سے احکامِ شریعت نہیں اترتے اور جس آخری نبیؐ پر آخری شریعت اترچکی، ان سے صحابہ کرامؓ کے بعد کوئی بلاواسطہ اماموںؒ کے شریعت نہیں جان سکتا، اور جن مسلم اماموںؒ کے علم و سمجھ، عمل و صداقت پر امت مسلمہ متفق ہو، اس جماعت سے نہ نکلنا چاہیے.
[حجة الله البالغة]؛



شریعت کی پہچان میں تمام امت نے بالاتفاق *"سلف (پچھلے نیک بزرگوں) پر اعتماد"* کیا ہے، چنانچہ صحابہِ کرام پر تابعینؒ نے اعتماد کیا، اور تابعینؒ پر تبع تابعین نے اعتماد کیا، اسی طرح بعد والے علماء اپنے متقدمین(پہلے والوں) پر اعتبار کرتے آۓ، اور عقلِ سلیم بھی اسی کو اچھا سمجھتی ہے، کیونکہ شریعت (واضح احکام پہلے والوں سے) نقل کئے بغیر اور (اجتہادی-نئے مسائل میں) استنباط کئے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی، اور نقل اس وقت صحیح ہوگی جب بعد والے پہلے والوں سے اتصال (یعنی مسلسل۔جڑتے ہوئے) لیتے چلے آئیں۔[عقدالجید:٣٦]


اور (تبع تابعین) صحابہِ کرامؓ اور تابعینؒ کے اقوال سے استدلال کیا کرتے تھے، کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ اقوال یا تو احادیث ہیں جو منقول ہیں رسول الله صلے الله علیہ وسلم سے جن کو مختصر کرکے موقوف بنالیا ہے، یا یہ اقوال حکمِ منصوص (قرآن و سنّت) سے حضراتِ صحابہؓ و تابعینؒ کے استنباط (نکالے گۓ) ہیں، یا ان کی راویوں سے بطورِ اجتہاد لئے گۓ ہیں، اور حضراتِ صحابہؓ و تابعینؒ ان سب باتوں میں ان لوگوں سے بہتر ہیں جو ان کے بعد ہوتے، صحت تک پہنچنے میں اور زمانہ کے اعتبار پیشتر اور علم کے لحاظ سے بڑھ کر ہیں. اس لئے ان کے اقوال پر عمل کرنا متعین ہوا۔
[الانصاف: ٢٠-٢١]





مذاهب اربعہ کے بارے میں حضـرت شـاه صاحب رحمة الله عليه کا حکم وفیصلہ پڑهتے ہیں: ۰
حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه نے باب اس عنوان سے قائم کیا ، یعنی مذاهب اربعہ کولینے ان پرعمل کرنے کی تاکید اور مذاهب اربعہ کو چهوڑنے اور ان سے نکلنے کی تشدید کے بیان میں:
پهر حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ ان چاروں مذاهب{ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، } کو اخذ کرنے ( ان کو لینے اور ان پرعمل کرنے ) میں بڑی عظیم مصلحت ہے ، اور ان چارمذاهب سے اعراض کرنے میں یعنی مذاهب اربعہ کو چهوڑنے میں بڑا فساد ہے ، اور هم اس کو کئی وجوهات سے بیان کرتے ہیں :
(١) ایک یہ کہ امت نے اجماع واتفاق کرلیا ہے اس بات پر کہ شریعت کے معلوم کرنے میں سلف پر اعتماد کریں ، پس تابعین نے (شریعت کی معرفت میں ) صحابه کرام پر اعتماد کیا ، اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا ، اور اسی طرح ہر طبقے ( اور ہر زمانہ ) میں علماء نے اپنے اگلوں پر اعتماد کیا ، اور عقل بهی اس ( طرزعمل ) کی حسن وخوبصورتی پر دلالت کرتی ہے ، اس لئے کہ شریعت کی معرفت وپہچان نہیں ہوسکتی مگر نقل اور استنباط کے ساتهہ ، اور نقل درست وصحیح نہیں ہوسکتی مگر اس طرح کہ ہر طبقہ پہلوں (سلف) سے اتصال کے ساتهہ اخذ (حاصل) کرے ، اور استنباط میں ضروری ہے کہ متقدمین (پہلوں) کی مذاهب کو پہچانے ، تاکہ ان کے اقوال سے نکل کر خارق اجماع یعنی اجماع کو توڑنے والا نہ ہوجائے ، اور اس پر بنیاد رکهے اور اس بارے میں جو پہلے گذر چکے (یعنی سلف صالحین) ان سے استعانت کرے ،
اس لئے تمام صناعتیں جیسے: صرف ، اور نحو ، اور طب ، اور شعر ، اور لوہاری کا کام ، اور بڑهئی ( فرنیچر کا کام ) ، اور سناری (وغیره جتنے بهی فنون ہیں) حاصل نہیں ہوسکتے ، مگر ان (فنون وامور) کے ماہر لوگوں کی صحبت کو لازم پکڑنے سے ، اور بغیر( ماہرلوگوں کی صحبت ) کے ان (فنون وامور) کا حاصل ہوجانا واقع نہیں ہے نادر اور بعید ہے اگرچہ عقلا جائز ہے ،
اور جب سلف کے اقوال پر (شریعت کی معرفت میں) اعتماد متعین ہوگیا ، تو اب ضروری ہے کہ ان کے وه اقوال جن پر اعتماد کیا جاتا ہے وه صحیح سند کے ساتهہ مَروی ہوں ، یا کتبِ مشہوره میں جمع (ومحفوظ ) ہوں ، اور جو محتملات ہیں ان میں راجح کو بیان کردیا جائے ، اور عموم کو بعض مقامات پر خاص کیا جائے ، اور بعض مواضع میں مطلق کو مقید کیا جائے ، اور مختلف فیہ میں جمع کیا جائے ، اور احکام کی علتیں بیان کی جائیں ، ورنہ (اگر یہ صفات نہ ہو) تو اس پر اعتماد صحیح نہیں ہے ، اور اس اخیر زمانے میں کوئی مذهب اس صفت کے ساتهہ (متصف) نہیں ہے ، سوائے ان مذاهب اربعہ کے ،
ہاں مذهبِ اماميہ اور زيديہ بهى ہیں لیکن وه اہلِ بدعت ہیں ان کے اقوال پر اعتماد جائز نہیں ہے۔
(٢) رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: " اتبعوا السوادالأعظم " یعنی بڑی جماعت کی اتباع کرو، اور جب ان مذاہبِ اربعہ کے علاوہ باقی سچے مذاہب مفقود ہوگئے تو ان مذاہب کا اتباع سوادِ اعظم کا اتباع ہے اور ان سے خروج سوادِ اعظم سے خروج ہے۰
(٣) جب زمانہ طویل و بعید ہوگیا ، اورامانات ضائع ہوگئے ، تو پهراس حال میں علماء سُوء (برے علماء) ظالم قاضیوں میں سے اور اپنے خواہشات کے پیروکار مفتیان کے اقوال پر اعتماد جائز نہیں ہے ، یہاں تک کہ وه (علماء سُوء) اپنے اقوال کو صريحا یا دلالة بعض سلف کی طرف منسوب کریں جو صدق وديانت وامانت کے ساتهہ مشہور ہیں ، اور اسی طرح اس شخص کے قول پربهی اعتماد جائز نہیں ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ آیا اس میں اجتہاد کی شرائط جمع تهیں یا نہیں ؟ الخ

{ عقدالجيد في أحكام الإجتهاد والتقليد ، ص 39 ، 40 ، الناشردارالفتح }



==========================================

علامہ ابی بکر الھیثمیؒ لکھتے ہیں کہ 

عن ابن عباس قال : خطب عمر بن الخطاب الناس بالجابية وقال : يا أيها الناس ، من أراد أن يسأل عن القرآن فليأت أبي بن كعب ، ومن أراد أن يسأل عن الفرائض فليأت زيد بن ثابت ، ومن أراد أن يسأل عن الفقه فليأت معاذ بن جبل ، ومن أراد أن يسأل عن المال فليأتني ; فإن الله جعلني له واليا وقاسما " .
رواه الطبراني في الأوسط ، وفيه سليمان بن داود بن الحصين ، لم أر من ذكره . 
(مجمع الزوائد ج 1، باب أخذ كل علم من اہلہ)


ترجمہ :
''حضرت ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو، جو شخص قرآن کے بارے میں پو‌چھنا ‌چاہتا ہو وہ ابی بن کعب کے پاس جائے جو فرائض کے احکام کے بارے میں پو‌چھنا ‌چاہتا ہے وہ زید بن ثابت کے پاس جائے اور جو شخص فقہ کے بارے میں پو‌چھنا ‌چاہے وہ معاذ بن جبل کے پاس جائے اور جو شخص مال کے بارے میں سوال کرنا ‌چاہے وہ میرے پاس آ جائے اس لئے کہ اللہ نے مجھے اس کا والی اور تقسیم کنندہ بنایا ہے۔''
[مجمع الزوائد ج 1، باب أخذ كل علم من اہلہ]



اس خطبے میں حضرت عمر نے لوگوں کو عام طور پر یہ ہدایت فرمائی ہے کہ تفسر، فرائض اور فقہ کے معاملات میں ان ممتاز علماء سے رجوع کرکے ان سے معلومات حاصل کیا کریں تاکہ احکام پر عمل ہو سکے، اور ظاہر ہے کہ ہر شخص دلائل سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا اس لئے یہ حکم دونوں صورتوں کو شامل ہے کہ جو لوگ دلائل سمجھنے کے اہل ہوں (یعنی تفصیل سے سمجھنے کو علماء کے ہاں تفصیلی تعلیم حاصل کرنے کو مدرسہ اختیار کرے، جیسے اصحابِ صفہ والے صحابہ تعلیم دین کے لئے اپنے گھر و کاروبار سے فارغ اس صفہ (چبوترہ) اختیار کے ہوتے تھا) وہ ان علماء سے دلائل بھی سیکھیں اور جو (دنیوی کاروبار و مصروفیت کے سبب تفصیلی تعلیم کے) اہل نہ ہوں وہ محض ان کے اقوال پر اعتماد کرکے ان کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کریں۔ جس کا نام تقلید ہے۔




شیخ احمد الصاویؒ سورۃ کہف کی آیت 24 کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
''چار مذہبوں کے علاوہ کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث اور آیت کے مواقف ہی کیوں نہ ہو۔جو ان چار مذہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے کیونکہ قرآن اور حدیث کے محض ظاہری معنی لینا اصول کفر میں سے ہے۔ (حاشیۃ الصاوى على تفسير الجلالين، جلد 3 صفحہ 9)




=======================================================



تقلید کے لفظ کا مادہ قلادہ ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو ہار کہلاتا ہے اور جب جانور کے گلے میں ڈالا جائے تو پٹہ کہلاتا ہے۔ ہم چونکہ انسان ہیں اس لیے انسانوں والا معنی بیان کرتے ہیں اور جانوروں کا جانوروں والا معنی پسند ہے۔


تقلید کا حکم :
میاں نذیر حسین دہلوی 1360ھ ، مولانا محمد حسین بٹالوی 1338ھ ، مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی 1394ھ ، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری 1948ھ ، مولانا نور حسین گھرجاکھی ، مولانا محمد داؤدغزنوی ، سب حضرات فرماتے ہیں کہ :
مطلق تقلید کسی مجتہد کی اہل سنت سے واجب ہے.
[معیارالحق ص 41 ، اشاعۃ السنہ ص 126 ج 23 ، تاریخ اہل حدیث ص 125 ، نقوش ابوالوفا ص 256 ، ارکان اسلام ص 92، داؤد غزنوی ص:375]



جائز اور ناجائز تقلید:

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہے:
”تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلاوے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا “ (الاقتصاد ص ۵)

تقلید کی تعریف: اہلِ حدیث مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری 1948ھ 
تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کےموافق بتلادے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا ( فتاوی ثنائیہ ص256 ج1، ص265 ج1 ، ص262 ج1 )
تقلید کی تعریف کے مطابق راوی کے روایت کو قبول کرنا تقلید فی الروایت ہے اور مجتہد کی درایت کو قبول کرنا تقلید الدرایت ہے۔ کسی محدث کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے اور کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو ثقہ یا مجہول یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے۔ کسی امتی کے بنائے ہوئے اصول حدیث، اصول تفسیر، اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید ہے۔  


مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:"ہمارے اس زمانہ میں ایک فرقہ نیا کھڑا ہوا ہے جو اتباع حدیث کا دعویٰ رکھتا ہے اور درحقیقت وہ لوگ اتباع حدیث سے کنارے ہیں جو حدیثیں کہ سلف وخلف کے یہاں معمول بہا ہیں ان کو ادنی سی قدح اور کمزور جرح پر مردود کہہ دیتے ہیں..... اور ان پر اپنے بیہودہ خیالوں اور بیمار فکروں کو مقدم کرتے ہیں اور اپنا نام محقق رکھتے ہیں"۔(فتاویٰ علمائے اہل حدیث: ۷/۸۰)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:"جمہور امت جس چیز پر ہے وہ یہ ہے کہ اجتہاد فی الجملہ جائز ہے اور تقلید بھی فی الجملہ جائز ہے، نہ تو جمہور نے ہرایک پر اجتھاد کو واجب کرتے ہوئے تقلید کو حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی ہرایک پر تقلید کو واجب کرتے ہوئے اجتہاد کو حرام بتایا ہے، جو شخص اجتہاد پر قادر ہے اس کے لیے اجتہاد جائز ہے اور جو اجتہاد سے عاجز ہے اس کے لیے تقلید جائز ہے"۔(مجموع الفتاوی: ۳۰/۲۰۳)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مجتہد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے اگر اس کا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے، ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اصابت کا اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر اجتہاد کا ملےگا۔ ہاں جو نا اہل ہو اسکو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں بلکہ وہ گنہگار ہے۔ اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا۔ اگرچہ حق کے موافق ہو یا مخالف کیونکہ اسکا حق کو پا لینا محض اتفاقی ہے کسی اصلِ شرعی پر مبنی نہیں۔ پس وہ تمام احکام میں گنہگار ہے۔ حق کے موافق ہوں یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں اسکا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیں وہ دوزخی ہے۔ (شرح مسلم ج۲ ص۷۶)

الف) کن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے؟ 
صرف مسائل اجتہادیہ میں تقلید کی جاتی ہے اور حدیث معاذ ؓ(جس کو غیر مقلد نواب صدیق حسن خان حدیث مشہور فرماتے ہیں۔ الروضہ الندیہ ج ۲ ص ۶۴۲) میں اجتہادیہ کے اصولوں سے کتاب وسنت سے مجتہد اخذ کرے گا۔
نوٹ: محدثین کا اصول حدیث بنانا، کسی حدیث کو صحیح، ضعیف کہنا کسی روای کو ثقہ یا مجروح قرار دینا بھی ان کا اجتہاد ہے۔

ب) کن کی تقلید کی جائے ؟
ظاہر ہے مسائل اجتہاديہ میں مجتہد کی ہی تقلید کی جائے گی اور مجتہد کا اعلان ہے کہ قیاس مظہر لامثبت (شرح عقائد نسفی) کہ ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب و سنت واجتماع سے ہی ظاہر کر کے بیان کرتے ہیں اور مجتہدین کا اعلان ہے کہ ہم پہلے مسئلہ قرآن پاک سے ليتے ہیں وہاں نہ ملے تو سنت سے، وہاں نہ ملے تو اجماع صحابہ ؓ سے، اگر صحابہ ؓ میں اختلاف ہو جائے تو جس طرف خلفاء راشدین ہوں اس سے لیتے ہیں اور اگر یہاں بھی نہ ملے تو اجتہادی قاعدوں سے اسی طرح مسئلہ کا حکم تلاش کر لیتے ہیں۔ جس طرح حساب دان ہر نئے سوال کا جواب حساب کے قواعد کی مدد سے معلوم کر لیتا ہے اور وہ جواب اس کی ذاتی رائے نہیں بلکہ فن حساب کا ہی جواب ہوتا ہے۔

ج) کون تقلید کرے؟
ظاہر ہے کہ حساب دان کے سامنے جب سوال آئے گا تو وہ خود حساب کے قاعدوں سے سوال کا جوا ب نکال لے گااور جس کو حساب کے قاعدے نہیں آتے وہ حساب دان سے جواب پوچھ لے گا ۔ اسی طرح مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب وسنت پر عمل کرے گا اور غیر مجتہد یہ سمجھ کر کہ میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس لیے کتاب و سنت کے ماہر سے پوچھ لوں کہ میں کتاب و سنت کا کیاحکم ہے۔ اس طرح عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ اور مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد خدا اور مراد رسول ﷺ سے آگاہ کیا ہے۔

غیر مقلد کی تعریف:
نوٹ: (۱) مجتہد اور مقلد کا مطلب تو آپ نے جان لیا اب غیر مقلد کا معنی بھی سمجھ لیں کہ جو نہ خود اجتہاد کر سکتا ہو اور نہ کسی کی تقلید کرے یعنی نہ مجتہد ہو نہ مقلد۔ جیسے نماز باجماعت میں ایک امام ہوتا ہے باقی مقتدی۔ لیکن جو شخص نہ امام ہو نہ مقتدی، کبھی امام کو گالیاں دے کبھی مقتدیوں سے لڑے یہ غیر مقلد ہے یا جیسے مالک میں ایک حاکم ہوتا ہے باقی رعایا۔ لیکن جو نہ حاکم ہو نہ رعایا بنے وہ ملک کاباغی ہے۔یہی مقام غیرمقلد کا ہے۔

نوٹ: (۲) غیر مقلدین میں اگرچہ کئی فرقے اور بہت سے اختلافات ہیں۔ انتے اختلافات کسی اور فرقے میں نہیں ہیں۔ مگر ایک بات پر غیر مقلدین کے تمام فرقوں کا اتفاق اور اجماع ہے وہ يہ ہے کہ غیر مقلدوں کو نہ قرآن آتا ہے، نہ حدیث، کیونکہ نواب صدیق حسن خان، نواب وحید الزمان، میر نور الحسن، مولوی محمد حسین اور مولوی ثناء اﷲ وغیرہ نے جو کتابیں لکھی ہیں، اگرچہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قران وحدیث کے مسائل لکھے ہیں، غیر مقلدین کے تمام فرقوں کے علماء اور عوام بالاتفاق ان کتابوں کو غلط قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں بلکہ برملاتقریروں میں کہتے ہیں کہ ان کتابوں کو آگ لگا دو۔ گویا سب سے غیر مقلدین کا اجماع ہے کہ ہر فرقہ کے غیر مقلد علماء قران وحدیث پر جھوٹ بولتے ہیں انہیں قرآن وحدیث نہیں آتا وہ غلط گندے اور نہایت شرمناک مسائل لکھ لکھ کر قرآن وحدیث کا نام لے دیتے ہیں اس لیے وہ کتابیں اجماعاً مردود ہیں اور یہ سب جاہل ہیں۔

سوال دوم: لفظ تقلید کا ذکر قران وحدیث میں ہے یا نہیں؟
الجواب: قرآن پاک نے ان مقدس جانوروں کو جو خاص خانہ کعبہ کی نیاز ہیں، "قلائد" فرمایا ہے اور ان کی بےحد تعظیم وحرمت کا حکم فرمایا ہے اور ان مقلدین کے بے حرمتی کرنے والوں کو عذاب شدید کی دھمکی دی ہے ۔ [الأعراف : ٢، ٩٧] البتہ کسی خنزیر، کتے وغیرہ و قلائد بنانے کی اجازت ہرگز نہیں دی ہے۔


حدیث شریف میں اس کا استعمال بمعنی ((ہار)) کے ہے:

1) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً فَهَلَكَتْ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي طَلَبِهَا , فَأَدْرَكَتْهُمُ الصَّلَاةُ فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءٍ فَلَمَّا أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكَوْا ذَلِكَ إِلَيْهِ فَنَزَلَتْ آيَةُ التَّيَمُّمِ ، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ : " جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ لَكِ مِنْهُ مَخْرَجًا وَجَعَلَ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ بَرَكَةً " .(سنن النسائى، سنن ابن ماجه)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک ہار اپنی بہن اسماء سے بطور عاریت لیا تھا وہ گم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ڈھونڈنے کے لئے اپنے چند صحابہ کو بھیجا اثنائے راہ میں نماز کا وقت آ گیا (پانی نہ ملنے پر) انہوں نے بلا وضو نماز پڑھ لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی جس پر تیمم کی آیت نازل ہوئی اسید بن حضیر نے عرض کیا (اے عائشہ) اللہ تعالیٰ تم کو جزائے خیر عنایت فرمائے اس لئے کہ واللہ جو بات تم کو پیش آئی اللہ تعالیٰ نے اس سے آپ کو بری کر دیا اور مسلمانوں کے لئے اس میں برکت عطا فرما دی۔

2) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ شِنْظِيرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ ، وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ ، وَاللُّؤْلُؤَ ، وَالذَّهَبَ ".

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے اور نا اہل کو علم دینے والا سوروں کی گردن میں جواہر، موتی اور سونے کا قلادہ (ہار) پہنانے والے کی طرح ہے۔

[الراوي: أنس بن مالك المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 5265 - خلاصة حكم المحدث: حسن]





سمجھنے کو تو وہ سب داستان_غم سمجھتے ہیں؛

جو مطلب کہنے والے کا ہے اس کو کم سمجھتے ہیں.





فقه الحديث: مسائل ضروریہ کا حصول فرض عین ہے، مَثَلاً : مجاہد کو جہاد کے مسائل کا جاننا اور تاجر کو خرید و فروخت کے مسائل ، نمازی کو نماز و طہارت کے مسائل ، نکاح کرنے والے کو ازدواجی زندگی سے متعلق مسائل پر واقفیت حاصل کرنا فرض عین ہے.

اس حدیث مبارکہ میں ایک عمدہ مثال سے یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ جو علم کے لائق ہیں ان کو (گہری علمی باتیں) سکھاؤ ، جو علم دین حاصل کرکے اس پر عمل کرے ، آگے انسانوں تک پہنچاۓ اور دین کی خدمات کرے. ایسے (نالائق) شخص کو ہرگز علم دین نہ سکھائیں جو بدعتی ہو ، علم دین حاصل کرکے علماء اور (تحریف دین کے سبب) اسلام کا دشمن بنے.





اس حدیث سے دو نکتے تقلید کے متعلق ملتے ہے:

١) عربی لفظ ((مقلد)) کی حدیث میں معنى ہار پہنانے-والا ہے.

٢) جو اس علمی ہار کے پہننے کے لائق نہیں، انھیں خنازیر یعنی سوّر سے تشبیہ دی گئی ہے.



تنبيه: صحاح ستہ (صحیح احادیث کی چھ مشہور کتابوں) میں موجود ابن_ماجہ کی اس حدیث کو جو غیر-مقلد اہل_حدیث ضعیف کہیں، جب کے ان کا دعوا اور دعوت الله اور رسول صلے الله علیہ وسلم کو ہی ماننے کا ہے، تو ان کو چاہیے کے کسی بھی حدیث کا صحیح/ضعیف ہونا بھی الله اور رسول صلے الله علیہ وسلم سے ہی ثابت کریں؟ ان کے علاوہ اپنے یا کسی اور کے قول سے جواب دینا ان کے اپنے ہی فرقے کے دعوے/دعوت کی کمزوری اور بے-بنیاد ہونے کی دلیل ثابت ہوگی!!!


نوٹ:(۱) اصول حدیث میں مرسل، مدلس، معضل، وغیرہ جس قدر اصطلاحی الفاظ محدثین نے استعمال کےے ہیں، ان الفاظ کا ان ہی اصطلاحی معنوں میں قرآن وحدیث میں ہونا ثابت فرما دیں یا اصول حدیث کا انکار کر دیں۔

نوٹ: (۲) سائل نے سوال میں صرف قرآن وحدیث کا ذکر کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ سائل اجماع کو دلیل شرعی نہیں مانتا۔ اگر واقعہ ایسا ہے تو سائل انکار اجماع کی وجہ سے دوزخی ہے اور سائل قیاس شرعی کو بھی دلیل نہیں مانتا تو اس کے بدعتی ہونے میں کچھ شک نہیں کیونکہ انکار قیاس کی بدعت نظام معتزلی نے جاری کی تھی۔


ائمہ مجتہدین کے اتباع کےلئے تقلید کا لفظ اسی اجماع اور تواتر کے ساتھ امت میں استعمال ہوتا چلا آرہا ہے جس طرح اصول حدیث، اصول تفسیر، اصول فقہ، قواعد صرف و نحو تواتر کے ساتھ مستعمل ہیں۔ محدیثن کے حالات میں جو کتابیں محدثین نے مرتب فرمائی ہیں وہ چار ہی قسم کی ہیں۔ طبقات حنفیہ، طبقات شافعیہ، طبقات مالکیہ، اورطبقات حنابلہ، طبقات غیر مقلدین نامی کوئی کتاب کسی محدث نے تحریر نہیں فرمائی۔



سوال سوم: کیا قرآن و حدیث میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید کرو؟
الجواب : قران پاک میں قرآن کی تلاوت کا حکم موجود ہے مگر ان دس قاریوں کا نام مذکور نہیں جن کر قراءتوں پر آج ساری دنیا تلاوت قرآن کر رہی ہے اور نہ یہ حکم ہے کہ ان دس قاریوں میں سے کسی ایک قاری کی قراءة پر قرآن پڑھنا ضروری ہے مگر ہمارے ملک پاک وہند میں سب مسلمان قاری عاصم کوفی ؒ کی قرآة اور قاری حفص کوفی ؒ کی روایت پر قرآن پڑھتے ہیں۔ آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ ساری زندگی ایک قرات پر قرآن پڑھنا کفر ہے یا شرک یا حرام یا جائز۔
اسی طرح کتاب وسنت سے سنت کا واجب العمل ہونا ثابت ہے مگر نام لے کر بخاری ،مسلم، نسائی، ابودادو، ترمذی، ابن ماجہ کو صحاح ستہ نہیں کہا گیا۔ نہ بخاری و مسلم کو صحیحین کہا گیا۔ نہ بخاری کو اصح الکتاب بعد کتاب اﷲ کہا گیا جس طرح ان دس قاریوں کا قاری ہونا اجماع امت سے ثابت ہے، اسی طرح ان چاروں اماموں کا مجتہد ہونا اجماع امت سے ثابت ہے اور مجتہد کی تقلید کا حکم کتاب وسنت سے ثابت ہے۔
نوٹ: سائل نے یہ سوال اصل میں شیعہ سے سرقہ (چوری) کیا ہے کیونکہ کوئی اہل سنت یہ سوال نہیں کرتا، شیعہ کے ان سوالات کا ذکر ابن تیمیہ ؒ نے منہاج السنہ میں کیا ہے اور بعض کا ذکر شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی ؒ نے تحفہ اثنا عشریہ میں کیاہے۔ اس ملک میں جب انگریز آیا اور اس نے لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی کو اپنایا تو یہاں غیر مقلدین کا فرقہ پیدا ہوا جس کا مشن یہ تھا کہ انگریز کے خلاف جہاد حرام اور مسلمانوں کی مساجد میں فساد فرض۔ یہاں تک کہ سب مسلمان مکہ اور مدینہ کو مرکز اسلام مانتے تھے۔ ان مراکز اسلام سے جب اس فرقہ کے بارے میں فتوی لیا گیا تو انہوں نے بالاتفاق ان کوگمراہ قراردیا۔(دیکھو تنبیہ الغافلین) ان لوگوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے مایوس ہو کر یمن کے زیدی شیعوں کی شاگردی اختیار کی لی اور قاضی شوکانی، امیر یمانی کے افکار کو اپنالیا۔ وہاں سے ہی یہ سوالات درآمد کیے گیے اوراہل اسلام کے دل میں وسوسے ڈالے گئے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔آج تک اسی بدعتی فرقہ کہ یہ جرات نہیں ہوئی کہ ان سوالات کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مفتی صاحبان کے سامنے پیش کر کے فتوی حاصل کریں کیونکہ ان کو کامل یقین ہے کہ وہاں سے سوالات کا جواب ہمارے خلاف آئے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ شیعہ کو ایسا سوال کیوں کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ شیعہ اپنے بارہ اماموں کو منصوص من اﷲ مانتے ہیں اس لیے اہل سنت و الجماعت نے ان باره کے ناموں کی نص پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ شیعہ اپنے ائمہ کے بارے میں نص پیش نہ کر سکے تو لا جواب ہو کر اہل سنت و الجماعت سے مطالبہ کر دیا کہ تم چاروں اماموں کے نام نص پیش کرو حالانکہ اہل سنت الجماعت ائمہ اربعہ کو منصوص من اﷲ مانتے ہی نہیں تو نص کا مطالبہ ہی غلط ہے ۔ ہاں ہم اہل سنت والجماعت باجماع امت ان کا مجتہد ہونا مانتے ہیں۔




صحیح مسلم جلد 1؛ باب بیان ان الدین النصیحۃ میں ہے کہ: ”حضرت تمیم داری رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دین خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے عرض کیا کہ کس کی؟ فرمایا: اللہ کی اور اس کی کتاب کی اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کے امام کی اور عام مسلمین کی۔“(صحیح مسلم، کتاب الایمان، بیان ان الدین النصیحۃ)

اس حدیث کی شرح میں علامہ نوویؒ، خطابی سے نقل کرتے ہیں کہ ”یہ حدیث ان اماموں کو بھی شامل ہے کو علمائے دین میں سے ہیں اور خیر خواہ ہیں اور ان کی روایت کو قبول کرنا اور ان کے احکام میں تقلید کرنا اور ان کے لئے حسن ظن رکھنا بھی اس میں شامل ہے“
( شرح نووی علی الصحیح مسلم، کتاب الایمان ، بیان ان الدین النصیحۃ)

==============================

سوال چہارم: چاروں اماموں سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں مثلاً صحابہ کرام ؓ سے لے کر امام ابو حنیفہؒ تک يہ لوگ کس امام کی تقلید کرتے تھے۔ یا اس وقت تقلید واجب نہ تھی؟
الجواب: یہ سوال بھی کسی اہل سنت والجماعت محدث یا فقیہ نے پیش نہیں کیا بلکہ یہ سوال بھی شعیہ کی طرف سے اٹھا تھا۔ صحابہ کرام ؓ کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ شاہ ولی اﷲ ؒ فرماتے ہیں۔ “صحابہ کے دو گروہ تھے۔ مجتہد اور مقلد” (قرة العینین) یہ سب صحابہ ؓ عربی داں تھے لیکن بقول ابن القیم ان میں اصحاب فتوی صرف 149 تھے۔جن میں سے سات مکثرین میں ہیں۔ یعنی انہوں نے بہت (١٠٠٠ سے) زیادہ فتوے دئیے۔20 صحابہ متوسطین میں ہیں۔ جنہوں نے کئی ایک (١٠٠ سے زائد، ١٠٠٠ سے کم) فتوے دیے۔ اور 122 مقلین میں ہیں جنہوں نے بہت (١٠٠ سے) کم فتوے دئیے۔ ان مفتی صحابہ کرام ؓ کے ہزاروں فتاوی مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جن میں مفتی صاحبان نے صرف مسئلہ بتایا، ساتھ بطور دلیل کوئی آیت یا حدیث نہیں سنائی اور باقی صحابہؓ نے بلا مطالبہ دلیل ان اجتہادی فتاوی پر عمل کیا اسی کا نام تقلید ہے۔ ان مفتی صحابہؓ کے بارے میں شاہ ولی اﷲ ؓ فرماتے ہیں:۔
ثم انہم تفرقوا فی البلاد صار کل واحد مقتدی ناحیة منالنواحی
کہ صحابہ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقہ میں ایک ہی صحابی کی تقلید ہوتی تھی۔ ( الانصاف ص ۳)
مثلاً مکہ میں حضرت ابن عباس کی، مدینہ میں حضرت زید بن ثابت، کوفہ میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ، یمن میں حضرت معاذ اور بصرہ میں حضرت انس کی تقلید ہوتی تھی۔ پھر ان کے بعد تابعین کا دور آیا تو شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی فرماتے ہیں:۔
فعند ذالک صار لکل عالم من التابعین مدہب علی حیالہ فانتصب فی کل بلد امام
یعنی ہرتابعی عالم کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک ایک امام ہوگیا۔ لوگ اس کی تقلیدکرتے۔(الانصاف ص ۶)
صدر الائمہ مکی فرماتے ہیں کہ حضرت عطاءخلیفہ ہشام بن عبد الملک کے ہاں تشریف لے گئے تو خلیفہ نے پوچھا کہ آپ شہروں کے علماءکو جانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں تو خلیفہ نے پوچھا کہ آپ شہروں کے علماءکو جکانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں تو خلیفہ نے پوچھا اہل مدینہ کے فقیہ کون ہیں؟ فرمایا نافع، مکہ میں عطا،یمن میں یحییٰ بن کثیر، شام میں مکحول، عراق میں میموں بن مہران، خراسان میں ضحاک، بصرہ میں حسن بصری، کوفہ میں ابراہیم نخعی،(مناقب موفق ص ۷) یعنی ہر علاقہ میں ایک ہی فقیہ کے فقہی فتاوی پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ یہ واقعہ امام حاکم نے بھی معرفت علوم حدیث میں لکھا ہے۔ اس لیے امام غرالی ؒ فرماتے ہیں: ”تقلید پر سب صحابہ کا اجماع ہے کیونکہ صحابہ میں مفتی فتوی دیتاتھا اور ہر آدمی کو مجتہد بننے کےلئے نہیں کہتا تھا اور یہی تقلید ہے اور یہ عہد صحابہؓ میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے“۔ ( المستصفی ج 2 ص385)
علامہ آمدی فرماتے ہیں صحابہ اور تابعین کے زمانے میں مجتہدین فتوی دیتے تھے مگر ساتھ دلیل بیان نہیں کرتے تھے اور نہ ہی لوگ دلیل کا مطالبہ کرتے تھے اور اس طرز عمل پر کسی نے انکار نہیں کیا، بس یہی اجماع ہے کہ عامی مجتہد کی تقلید کرے۔ شاہ ولی اﷲ ؒ شیخ عزالدین بن سلام ؒ سے نقل کرتے ہیں۔
انا الناس لم یزالوا عن زمن الصحابة ؓ الی ان ظہرت المذاہب الا ربعة یقلدون من اتفق من العلماءمن غیر نکیر میں ایع یعتبر انکارہ، ولو کان ذالک باطلا لا نکروہ (عقد الجید ص 36)
اور خود فرماتے ہیں:۔
فہذا کیف ینکرہ احد مع ان الاستفناءلم یزل بین المسلمین من عہد النبی ﷺ والا فرق بین ان یستفتی ہدا دائما ویستفتی ہذا حینا بعد ان یکون مجمعا علی مادکرناہ (عقد الجید ص39)
یعنی دور صحابہ ؓ وتابعین سے تقلید تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور اس دور میں ایک شخص بھی منکر تقلید نہ تھا چونکہ ان صحابہؓ اور تابعین ؒ کی مرتب کی ہوئی کتابیں آج موجودنہیں جو متواتر ہوں۔ہاں ان کے مذاہب کو ائمہ اربعہ نے مرتب کردایا تو اب ان کے واسطہ سے ان کی تقلید ہو رہی ہے جیسے صحابہؓ و تابعین ؒ بھی یہی قران پاک تلاوت فرماتے تھے مگر اس وقت اس کا نام قراة حمزہ نہ تھا۔ صحابہؓ وتابعین ؒ بھی يہی احادیث مانتے تھے مگر رواہ البخاری اور رواہ مسلم نہیں کہتے تھے۔یہ سوال سائل کا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کیا دس قاریوں سے پہلے قرآن نہیں پڑھاجاتا تھا؟ یا صحابہؓ وتابعین ؒ میں نہ کسی نے بخاری پڑھی نہ مشکوة۔ کیا اس زمانہ میں حدیث کا ماننا اسلام میں ضروری نہ تھا؟

سوال پنجم: کیا چاروں اماموں کے بعد کوئی مجتہد پیدا نہیں ہوا ؟ اور اب کوئی مجتہد پیدا ہو سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب: یہ سوال تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں۔“300ھ کے بعد کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا ” اورا مام نوویؒ نے بھی شرح مہذب میں یہی فرمایا ہے ۔ اب مجتہد مطلق کا آنا تو محال شرعی ہے نہ ہی محال عقلی ہاں محال مادی ہے۔ لیکن وہ آ کر کیا کر ے گا؟ کیا اگر آج کا محدث دعوی کر کے ساری صحیح بخاری کو غلط قرار دے اور حدیث اور محدثین کی عظمت کو ختم کرے تو اس سے دین کا کیا فائدہ ہوگا۔ اسی طرح کو ئی مجتہدین بن کر پہلے سارے علمی سرمائے سے اعتماد ختم کر ے تو کیا فائدہ ہوگا؟

سوال ششم: ایک امام کی تقلید واجب ہو نے کے کیا دلائل ہیں؟ اورواجب کی تعریف اور حکم بھی بیان کریں؟
الجواب: اس ملک میں یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ جیسے یمن میں صرف حضرت معاذ مجتہد تھے اور سب لوگ ان کی تقلید کرتے تھے اسی طرح اس ملک میں مدارس، مساجد ، مفتی صرف اور صرف سیدنا امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مذہب کے ہیں۔ دوسرے کسی مذہب کے مفتی موجود ہی نہیں کہ عوام ان سے فتوی لیں۔ اس لیے یہاں تو ایک ہی امام کے پیچھے ساری نمازیں پڑھنی واجب ہیں،۱ یک ہی ڈاکٹر ہو سب اسی سے علاج کرواتے ہیں۔ ایک ہی قاری ہو سب اسی سے قرآن پڑھ لیتے ہیں اس لیے یہاں ایک ہی امام کی تقلید واجب ہے جیسے مقدمتہ الواجب واجب کہاجاتا ہے۔ اس کے بغیر دین پر عمل کرنا ناممکن ہے کوئی شخص ایک رکعت نماز بھی نہیں پڑھ سکتا اور تارک اس تقلید کا فاسق ہے ۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں اور صاحب جمع الجوامع فرماتے ہیں کہ ” عامی پر ایک امام کی تقلید واجب ہے“ (عقد الجید ص 50) اور دلیل اس کی اجماع ہے۔ (الاشباة ص143)

سوال ہفتم: امام ابو بوسفؒ اور امام محمدؒ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ہیں اور آپ کی تقلید بھی کرتے ہیں مگر انہوں نے بہت سے مسائل میں امام صاحب کی مخالفت کیوں کی؟
الجواب: امام ابو یوسف اور امام محمد یہ دونوں حضرات خود مجتہد فی المذہب ہیں اور مجتہد کو دوسرے مجتہد کی تقلید واجب نہیں ہوتی۔ ہاں اگر اپنے سے بڑے مجتہد کی تقلید کرے تو جائز ہے۔

سوال ہشتم: کیا کسی امام نے اپنی تقلید کرنے کا حکم دیا ہے؟
الجواب: ائمہ اربعہ کے اقوال مختلف کتابوں میں موجود ہیں جن میں ان حضرات نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری ہر اس بات کو مانو جو قرآن وسنت کے موافق ہواور جو خلاف ہو جائے اس کو مت مانو۔ مطلب یہ ہو ا کہ وہ اپنے اقوال کی ترغیب دے رہے ہیں اور یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان کے اقوال قرآن وسنت کے موافق ہیں اور قرآن وسنت کی مخالفت نہیں کرتے پس اس سے ان کی تقلید کی حکم ان کے اپنے اقوال سے ثابت ہوا۔

چاروں ائمہ نے جو اپنی فقہ مرتب کروائی ، ہر مسئلہ دلیل سے مرتب کروایا ۔ مرتب کروانے کا مقصد اس پر عمل کرانا تھا تو گویا ہر مسئلہ دعوت تقلید ہے ۔ اس لئے جب ان کی یہ فقہ متواتر ہے تو دعوت تقلید بھی ان سے متواتر ثابت ہے ۔ الکفایه کتاب الصوم میں صراحۃ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے عامی کے لئے تقلید کا وجوب ثابت ہے ۔ ہاں ان ائمہ نے یہ فرمایا : جو شخص خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے اس پر اجتہاد واجب ، تقلید حرام ہے ۔ جو خطاب انہوں نے مجتہدین کو کیا تھا ان کو عوام پر چسپاں کرنا یحرفون اکلم عن مواضعه کی بدترین مثال ہے ۔ ہمارے ہاں مجتہد پر اجتہاد واحب ، غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے اور غیر مقلد پر تعزیر واجب ہے ۔
---------------------

اماموں نے اپنے قول کی تقلید کی اجازت دی ہے، اس حالت میں جب کہ خلافِ قرآن و حدیث نہ ہو.
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٩/١٤٥]

امام شافعیؒ کے قول"جب صحیح حدیث مل جاۓ تو وہی میرا مذہب ہے" پر عمل کی شرط امام نوویؒ نے (المجموع شرح المہذب: مقدمہ؛ ١/١٠٥) پر یہ فرمائی ہے کہ: اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو آدمی بھی کسی حدیث کو صحیح سمجھلے وہ کہنے لگے کہ یہی امام شافعی رح کا مذہب ہےاور اس کے ظاہری معنی پر عمل شروع کردے بلکہ یہ حق تو صرف اس شخص کو پہنچتا ہے جو اجتہاد فی المذہب کے مرتبہ کو پاچکا ہو جس کی تفصیل پہلے بتادی گئی ہے یا پھر کم از کم مرتبہ اجتہاد کے قریب پہنچ چکا ہو، اس کے لئے بہی یہ شرط ہے کہ اس کا غالب گمان ہو کہ امام  شافعیؒ اس حدیث پر مطلع نہ ہوسکے یا انہوں نے اس کی شرط تسلیم نہ کی تھی. اور یہ فیصلہ تب ہوگا کہ جب امام  شافعیؒ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرچکا ہو اور اس طرح کی وہ کتابیں اس کے مطالعہ سے گزرچکی ہوں جو امام  شافعیؒ سے استفادہ کرنے والوں نے تیار کی تھیں یا جو ان کی مثل کتابیں ہیں. تو یہ ایک کڑی شرط ہے کیونکہ اس شان کا آدمی قلیل الوجود ہے.


یہ شرط جو ہم نے ذکر کی اس لئے لگائی گئی ہے کہ امام شافعیؒ نے بہت سی ایسی حدیثوں کے "ظاہر" معنی پر عمل نہیں کیا جن کو وہ جانتے بھی تھے اور جن سے وہ اچھی طرح واقف بھی تھےلیکن چونکہ ایسی (معلول/مضطرب/شاذ) حدیثوں میں کسی عیب پر ان کے علم میں دلیل موجود تھی یا ان کا منسوخ ہونا معلوم تھا یا ان میں وہ کسی تخصیص یا تاویل کے وہ قائل تھے، یا اسی طرح کی کوئی بات تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ان حدیثوں پر عمل ترک کیا.

شیخ ابو عمرو یعنی حافظ ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے جو یہ فرمایا ہے کہ "جب صحیح حدیث مل جاۓ تو وہی میرا مذھب ہے"، اس کے ظاہر پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، پس کسی فقیہ کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بطور خود جس حدیث کو حجت سمجھے اس پر عمل شروع کردے.
حافظ ابن صلاح جن کامقدمہ علم اصول حدیث میں مشہور ہے وہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عہدکے ایک بڑے فقیہہ تھے اورفقہ شافعی میں ان کابڑامقام ومرتبہ ہے چنانچہ وہ اس تعلق سے کہتے ہیں: امام شافعی نے جوکہاہے اس کے ظاہر کے مطابق عمل آسان نہیں اورہرفقیہ کیلئے یہ روانہیں ہے کہ جوکچھ اس کو حدیث سے سمجھ میں آتاہو اس پرعمل کرے۔شافعیوں میں سے جنہوں نے امام شافعی کے ظاہر قول پر عمل کرتے ہوئے حدیث پر عمل کیاہےاورامام شافعی کے قول کو چھوڑدیاہے جیسے ابوالولید موسی بن جارود۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے امام شافعی کے صحبت کاشرف اٹھایاتھا انہوں نے افطرالحاجم والمحجوم کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہاتھا کہ (جب امام شافعی نے یہ کہاہے کہ صحیح حدیث ہی میرامذہب تو چونکہ یہ حدیث صحیح ہے)تومیں کہتاہوں کہ امام شافعی کا قول ہے افطرالحاجم والمحجوم ۔لیکن اس سلسلے میں شوافع نے ابوالولید پر اعتراض کیاہے کہ امام شافعی نے اس حدیث کی صحت کی واقفیت کے باوجود بھی اس کوچھوڑدیاہے کیونکہ یہ حدیث امام شافعی کی نظرمیں منسوخ ہےاورامام شافعی نے اس کے منسوخ ہونے کے وجوہات اوردلائل بھی بیان کئے ہیں۔ (ادب المفتی والمستفتی 11)



---------------------
شاہ ولی الله محدث دھلویؒ ایسے اقوال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : یہ اقوال اس شخص کے حق میں صادق آتے ہیں جسے ایک قسم کا "اجتہاد" حاصل ہو، خواہ ایک ہی مسئلہ میں ہو، اور جس پر یہ بات کھلے طور پر واضح ہوگئی ہو کہ نبی  نے فلاں بات کا حکم دیا ہے یا فلاں بات سے روکا ہے، اور یہ بات بھی اس پر واضح ہوگئی ہو کہ نبی  کا یہ ارشاد منسوخ نہیں ہے، یا تو اس طرح کہ وہ تمام احادیث کی تحقیق اور مسئلہ سے متعلق مخالفین و موافقین کے اقوال کا تتبع (تحقیق) کر کے اس نتیجے پر پہنچا ہو کہ نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے، یا اس نے متبحر علماء کے جمِ غفیر کو دیکھا ہو کہ وہ اس پر عمل کر رہے ہیں، اور اس پر یہ بات ثابت ہوگئی ہو کہ جس امام نے اس حدیث کی مخالفت کی ہے اس پر سواۓ قیاس و استنباط کی وجہ کے کوئی دلیل نہیں ہے، ایسی صورت میں نبی کی حدیث کی مخالفت کا سواۓ پوشیدہ نفاق اور کھلم کھلا حماقت کے کوئی سبب نہیں ہوسکتا. (حجة الله البالغة :١/١٥٥)

تقلید اور امام احمدؒ:

ومن زعم أنه لا يرى التقليد ، ولا يقلد دينه أحدًا ، فهو قول فاسق عند اللَّه ورسوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إنما يريد بذلك إبطال الأثر ، وتعطيل العلم والسنة ، والتفرد بالرأي والكلام والبدعة والخلاف.
وهذه المذاهب والأقاويل التي وصفت مذاهب أهل السنة والجماعة الآثار ، وأصحاب الروايات ، وحملة العلم الذين أدركناهم وأخذنا عنهم الحديث ، وتعلمنا منهم السنن ، وكانوا أئمة معروفين ثقات أصحاب صدق ، يقتدى بهم ويؤخذ عنهم ، ولم يكونوا أصحاب بدعة ، ولا خلاف ولا تخليط ، وهو قول أئمتهم وعلمائهم الذين كانوا قبلهم.
فتمسكوا بذلك رحمكم اللَّه وتعلموه وعلموه ، وبالله التوفيق

ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ زعم (گمان) کرے کہ تقلید کوئی چیز نہیں ، تو یہ قول الله و رسول صلى الله عليه وسلم کے نزدیک ایک فاسق (نافرمان) کا قول ہے ، وه شخص اپنے اس قول کے ذریعہ سے اثر (یعنی اقوال و احادیثِ صحابہؓ و تابعینؒ  کو باطل کرنے کا اراده کرتا ہے ، اورعلم وسنت کو معطل کرنے کا اراده کرتا ہے، اور اپنی راۓ سے تفرد، کلام ، بدعت اور مخالفت کرنا چاہتا ہے.
یہ اقوال و مذاھب جو میں (مصنفِ کتاب امام ابن ابی یعلیؒ) نے ماسبق میں ذکر کیے ہیں، خوبی ہے مذھبِ اہلِ سنّت والجماعت اور آثار، اور اصحاب الروایات کی. جور ان اربابِ علم کے جن کو ہم نے پایا، اور جن سے ہم نے علمِ حدیث حاصل کیا، اور جن سے سنن کی تعلیم حاصل کی، وہ معروف ائمہ (دین) تھے، لائقِ اعتماد، سچے لوگ تھے، جن کی اقتدا (تقلید و پیروی) کی جاتی اور ان سے (دین) لیا جاتا تھا، اور وہ بدعت والے نہ تھے، اور نہ مخالفت اور گڑبڑ پیدا کرنے والے تھے. اور یہی قول ان سے پہلے ائمہ دین کا ہے، اس لئے تم بھی اس کو مضبوطی سے پکڑلو. الله تم پر رحم کرے اور تمہیں بھی وہی علم دے جو علم انھیں دیا اور الله کی توفیق سے.


یہ کتاب (طبقات الحنابلہ) امام احمدؒ بن حنبل کے اجتہادی مسائل میں اتباع و تقلید کرنے والے متبعین و مقلدین کے ذکر میں ہے، جو اپنے وقت کے علماءِ احادیث تھے.




==============

سوال نہم: جو لوگ چاروں اماموں میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے۔ ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب:موجودہ دور میں جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی ايک امام کی تقلید نہیں کرتے وہ فافق ہیں۔ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں اور حرمین شریفین کے فتووں کے مطابق ان پرتعزیز واجب ہے۔
 آئمہِ اربعہ کو نہ ماننے والے غالی ومتعصب ہیں

نواب صدیق حسن خان جو صاحب تصانیف علماء میں سے ہیں اور غیرمقلدین کے قابلِ احترام پیشوا ہیں، وہ خود اپنی جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:"تعجب کی بات ہے کہ غیرمقلدین کیوں کر اپنا نام خالص موحد رکھتے ہیں اور دوسروں کو (جو تقلیدِ ائمہ کرتے ہیں) مشرک کہتے ہیں، حالاں کہ یہ خود سب لوگوں سے بڑھ کر سخت متعصب اور غالی ہیں"۔(الحطہ فی ذکر الصحاح الستہ: ۱۳)



سوال دہم : کیا مسئلہ تقلید پر اردو زبان میں بھی کوئی کتاب لکھی گئی ہے جسے پڑھ کر اس مسئلہ کو اچھی طرحس سمجھا جا سکے؟
الجواب: اس مسئلہ پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ چند ایک نام لکھ دیتا ہوں۔
(۱) تقلید کی شرعی حیثیت (۲) الکلام المفید فی اثبات التقلید (۳) تقلید ائمہ اور مقام ابو حنیفہؒ (۴) الاقتصاد (۵) تنقیح (۶) خیر التنقید (۷) اجتہاد اور تقلید (۸) تقلید شخصی (۹) توفیر الحق (۱۰) تنویر الحق (۱۱) تحفہ العرب والعجم (۱۲) تقلید اور امام اعظم (۱۳) سبیل الرشاد (۱۴) ادلہ کاملہ (۱۵) ایضاح الادلہ
(۱۶) مدارالحق بجواب معیاد الحق (۱۷) نتصار الحق بجواب معیار الحق (۱۸) تنقید فی بیان التقلید
وغیر ہ وغیرہ۔


==========================================
تقلید کی اصطلاحی معنیٰ:
1۔ التقليد اتّباع الإنسان غيره فيما يقول أو يفعل معتقدا للحقية من غير نظر إلى الدليل، كأنّ هذا المتّبع جعل قول الغير أو فعله قلادة في عنقه من غير مطالبة دليل۔
(کشف الاصطلاحات الفنون والعلوم صفحہ ۵۰۰)
ترجمہ:۔”تقلید کہتے ہیں کسی آدمی کا دوسرے کے قول یا فعل کی اتباع کرنا محض حسن عقیدت سے کہ جس میں (مجتہد کی ) دلیل پر غور نہ کرے۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا بلا دلیل طلب کرنے کے“۔“
2۔ وهو عبارۃ عن اتباعه في قولهاو فعله منقدا للحقية تامل في الدليل
(شرح منار مصری ص 252)
”دلیل میں غور و فکر کئے بغیر کسی کو حق سمجھتے ہوئے قول یا فعل میں اس کی پیروی کرنا“۔
3۔ التقليد اتباع الغير علي ظن انه محق بلا نظر في الدليل
(النامي شرح حسامي : 19)
”دلیل میں غور و خوص کئے بغیر کسی کی اتباع کرنا یہ گمان رکھتے ہوئے کہ وہ حق پر ہے“۔

ان تعریفات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جس کی تقلید کی جاتی ہے اس کی بات بے دلیل نہیں ہوتی با دلیل (شرعی) ہوتی جس کو محض حسن ظن پر بغیر مطالبہ دلیل تسلیم کر لیا جاتا ہے۔




معنیٰ تقلید کے سلسلے میں مسلم الثبوت کی عبارت اور  وکٹورین-اھلِ حدیث کی جہالت:
معنی تقلید کے سلسلے میں مسلم الثبوت کی عبارت جسے یہ وکٹورین ہمیشہ پیش کرتے ہیں اور حقیقت میں یہ وکٹورین اس عبارت کو نہ سمجھے ہیں نہ کبھی انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی ہے بس ایک وکٹورین مولوی اپنے کم فہم سے وہ عبارت پیش کرے گا باقی سب وکٹورینوں کو وہ بات پسند آجائے گی اور انکھیں بند کرکے اس کے پیچھے ہو جائیں گے اور ہر جگہ ڈھول پیٹیں گے خود کبھی کوشش نہیں کرتے کہ ذرہ انصاف کے ساتھ دیکھیں کہ آخر بات وہی ہے جو میرے مولوی نے بتائی یا بات کوئی اور ہے۔
عبارت یہ ہے کہ
التقليد العمل بقول الغير من غيرحجة 
تقلید کہتے ہیں عمل کرنا غیر کے قول پر جو کہ حجت نہ ہو۔
یہ وکٹورین عبارت کو یہیں تک پیش کرتے ہیں یا ایک دو لائنیں اور لکھ دیتے ہیں مگر آخری بات کو جو کہ تمام اشکالات کو ختم کرتی ہے اسے کھا جاتے ہیں اور لوگوں کو بلکہ کم فہموں کو آسانی سے اپنی طرح بیوقوف بنا لیتے ہیں۔ اور وہ بھی آگے سمجھتا ہے کہ
غیر کا قول جو حجت نہیں ہم اس پر عمل کر رہے ہیں یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آخر لکھا کیا ہے اس عبارت میں اور سمجھایا کیا جا رہا ہے۔

مکمل عبارت
التقليد العمل بقول الغير من غيرحجة كاخذ العامي والمجتهد من مثله فالرجوع الي النبي عليه الصلوة والسلام او الي الاجماع ليس ،منه وكذا العامي الي المفتي والقاضي الي العدول لايجاب النص ذلك عليهما

تقلید کہتے ہیں عمل کرنا غیر کے قول پر جو کہ حجت نہ ہو۔ جیسا کہ عامی کا اپنے جیسے عامی اور مجتہد اپنے جیسے مجتہد کو لینا۔ پس رسول اللہﷺ اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں اور اسی طرح عامی کا مفتی اور قاضی کا عادلوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ ان پر ایسا کرنے کو نص واجب قرار دیتی ہے۔

یہ تمام باتیں یہیں ختم نہیں ہوتیں اگے لکھا ہے۔

لكن العرف علٰي ان العامي مقلد للمجتهد قال الامام و علیه معظم الاصلولين۔
مگر عرف اسی پر ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ (امام الحرمینؒ) فرماتے ہیں اسی پر اکثر اصولین ہیں۔(مسلم الثبوت ص 289)

جو بات پہلے کہی گئی کہ تقلید کا معنی ہے جو حجت نہیں اسکی بات پر عمل کر لینا اور مثلا دی گئی کہ جیسے عامی اپنے جیسے عامی کی بات پر عمل کر لے یا مجتہد اپنے جیسے مجتہد کی بات پر عمل کر لے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کہا ہے کہ عامی عامی کی طرف رجوع کرے یا مجتہد مجتہد کی طرف رجوع کرے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم تو پمیشہ سے یہی کہتے ہیں کہ عامی جو کہ غیر مجتہد ہے وہ مجتہد کی طرف رجوع کرے۔
اور ایک بات ثابت ہو گئی کہ جنہوں نے تقلید پر سخت کلام کیا وہ حقیقت میں اسی وجہ سے کیا وہ بغیر حجت کسی کی بات پر عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے نہ ہم سمجھتے ہیں کہ عامی عامی کے پیچھے چلے مجتہد مجتہد کے پیچھے۔ اسی کا انہوں نے تقلید کا نام لے کر رد کیا۔
اور ان احمق وکٹورینوں نے عبارت کی پہلے بات لی دوسری چھوڑی تیسری اور چوتھی لی اور آخری پھر چھوڑ دی۔ 
اور نتیجہ یہ نکالا کہ ائمہ اربعہؒ کے مقلدین تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں اور تقلید کہتے ہیں بغیر حجت کے کسی کی بات پر عمل کر لینا۔ لہذا ثابت ہوا کہ ائمہ مجتہدین نے جو کچھ کہا وہ حجت نہیں اور یہ اس پر عمل کرتے ہیں اور اسے واجب قرار دیتے ہیں۔
حالانکہ ہمارا کبھی بھی یہ دعوی نہیں رہا کہ جس کی طرف رجوع کرنا حجت نہیں اسی بات کو لے کر عمل کر لیا جائے۔ اور کس کا کس کی طرف رجوع کرنا حجت نہیں وہ اسی عبارت میں لکھا ہے کہ عامی اور مجتہد کا اپنے جیسے کی طرف رجوع کرنا یعنی عامی کا عامی اور مجتہد کا مجتہد کی طرف رجوع کرنا۔
اور آخر میں لکھا ہے کہ علماء اصول کی اکثریت اسی پر ہے کہ عرف عام میں عامی مجتہد کا مقلد ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ جس کی طرف رجوع کرنا حجت نہیں اس کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید کہلاتا ہے مگر عرف عام میں غیر مجتہد کا مجتہد کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید کہلاتا ہے۔

اور غیر مجتہد کا مجتہد کی طرف رجوع کرنا بلاحجت کے دائرے میں نہیں آتا اسلئے کہ جو ہم تقلید کرتے ہیں اس کا معنی بھی لغت وغیرہ میں موجود ہے۔




اتباع و تقلید کی مثال ٹرین کے "جوڑ" کی طرح ہے کہ جو سیدھے راستہ (اسلام) پر چلنے والے سلف صالحین (پہلے کے نیک لوگوں) سے جڑا وہ نیکوں سے جنت میں جا ملے گا اور جو سیدھے راستہ (اسلام) سے علیحدہ ٹیڑھے راستہ پر چلنے والے برے و بدکاروں سے جڑا وہ ان (بدکاروں) سے جہنم میں جا ملے گا.؛



اہلِ سنت و الجماعت:
الله کے رسول  اور  جماعتِ اصحابِؓ رسول ﷺ کے مختلف طریقوں میں سے کسی طریقہ پر چلنے والے (حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ ، حنبلیہ ؛ یعنی سلفِ صالحین کے مقلدین و متبعین) کی منزل ایک ہدایت (جنت) ہے. اور ان میں سے کسی طریقہ کو چھوڑتے ان کی اتباع و تقلید سے ہٹنے والوں کی منزل گمراہی کی وادی (جہنم) ہے.




فونٹ کا سائز -  N  + 
عربيEnglishFrançaisEspañolIndonesiaTürkçeفارسیاردو中文
 دائمی کمیٹی کے فتوے
جلد کا نمبر سے براؤز کریں > پہلا مجموعہ > پانچویں جلد: فقہ- طہارت > اصول فقہ > تقليد > ہر قسم کی تقلید مطلق طور پر کفر یا گناہ یا شرک نہیں ہے۔
س 3: ایک شخص یہ کہتا ہے کہ کسی امام کی تقلید کرنا مطلق طور پر کفر، فسق اور شرک ہے، اور اس جیسے لوگ چاروں اماموں کو کافر و گمراہ قرار دیتے ہیں، تو اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہی رائے علماءِ حرمین ، مملكت سعودی عرب اور کویت کے علماء کی ہے۔
ج 3: 1 - ہر قسم کی تقلید مطلق طور پر کفر یا فسق یا شرک نہیں ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تقلید کے حکم کے بارے میں کچھ تفصیل ہے، پچھلے سوال نمبر: 2 کے جواب سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے۔
2 - چار ائمہ کرام میں سے کسی بھی امام نے اپنے مسلک پر چلنے کی دعوت نہیں دی ہے، نہ یہ لوگ اپنے مذہب کو لیکر عصبیت کا شکار تھے، اور نہ ان لوگوں نے اپنے مذہب یا کسی ایک متعین مسلک پرعمل کرنے پر لوگوں کو مجبور کیا ہے، بلکہ ائمہ کرام -رحمهم الله- قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی لوگوں کو دعوت دیتے تھے، دینی احکام کی تشریح کرتے تھے،
( جلد کا نمبر 5، صفحہ 42)
ان احکام کے اصول و قواعد بیان کیا کرتے تھے، اور ان اصول کی بنیاد پر فرعی مسائل اخذ کیا کرتے تھے، اور جو ان سے سوالات کیا جاتے تھے ان کا جواب قرآن و حدیث سے اخذ کی ہوئی دلیل کی روشنی میں دیا کرتے تھے، ان ائمہ کرام نے اپنے شاگردوں یا کسی اور کو کسی ایک ہی امام کی رائے پرعمل کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے، بلکہ یہ لوگ تو اس چیز کو معیوب سمجھتے تھے، اور اس بات کی تاکید کرتے تھے کہ جب بھی ان کی رائے صحیح حدیث کے خلاف ہو تو اس کو پھینک ديا جائے، اور ان ائمہ میں سے ایک امام نے یہ کہا کہ جب حدیث صحیح ہو تو یہی میرا مسلک ہے، اور مسلمان پر یہ فرض ہے کہ خود سے حق کی معرفت کی کوشش کرے، بشرطیکہ وہ اس پر قادر ہو۔ اور پہلے اللہ کا نام لیکر، پھر متقدمین علماء نے متاخرین کے لئے جو علمی اثاثہ چھوڑ رکھا ہے اس سے مدد لے، اس عملی اثاثے میں متقدمین علماء نے قرآن و حدیث کو سمجھنے اور ان پرعمل آوری کے طریقہ کار کے سمجھنے کو آسان بنادیا ہے، اور جو شخص کسی بھی سببِ مانع کی وجہ سے شرعی دلائل سے احکام اخذ نہیں کرسکتا ہو، یا اس سے استنباط کی اس کی اندر صلاحیت نہ ہو تو وہ اپنی ضرورت کے مطابق شرعی احکام قابلِ اعتماد علماء سے دریافت کرلے، اس اميد کے ساتھ کہ حق کا علم بقدرِ استطاعت مع دلیل ہوجائے، اس لئے کہ الله تعالى کا فرمان ہے کہ " فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ "   ﭘﺲ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﻮ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﻛﺮﻟﻮ ۔ اور اس شخص پر یہ لازم ہے کہ وہ سوال کسی ایسے عالم سے کرے، جوعلم و فضل اور صلاح وتقوی میں مشہور اور قابلِ اعتماد ہو۔
اس مذکورہ تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چاروں ائمہ کرام پر لگائی جانے والی تہمتوں سے وہ بری ہیں، اور ان کی طرف گمراہی یا کفر کی نسبت کرنا سراسر بہتان اور سفید جھوٹ ہے۔
علماءِ حرمین یعنی علماءِ مكہ اور مدینہ، اور علماءِ سعودی عرب میں سے کوئی ایک بھی عالم ایسا نہیں ہے، جو ائمہ فقہ امام مالک،امام ابو حنیفہ، امام شافعی،
( جلد کا نمبر 5، صفحہ 43)
اورامام احمد بن حنبل اور ان جیسے کسی بھی فقیہ کو برا بھلا کہتا ہو، اور کوئی ایسا عالم نہیں ہے جو ان ائمہ کی شان میں گستاخی کرتا ہو، بلکہ ان علماءِ سعودی عرب کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ لوگ ان ائمہ کا احترام کرتے ہیں، ان ائمہ کے فضل کا اعتراف کرتے ہیں، اور یہ کہ ان ائمہ کرام کو سبقت کا شرف حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اسلام کی خدمت کی اور اس کی حفاظت ميں سرگرم عمل رہے، اسلامی احکام اور قواعد کو سمجھا، اس کی وضاحت واشاعت کی، اسلام کی نصرت کی خاطر جہاد کیا اور اس کا دفاع کیا، اسلام سے شبہات کو دور کیا، اور ان ہی ائمہ کرام نے فتنہ پروروں کے فتنوں کو اور بہتان باز قوم کی بدعات کو مٹادیا، اللہ تعالی ان ائمہ کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بہتر سے بہتر بدلے دے۔
علماءِ حرمین اور سعودی عرب کے تمام علماء کا ائمہ اربعہ کے تئیں جو جذبہ احترام و اکرام ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ مسجدِ حرام، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، اور سعودی عرب کی تمام مسجدوں اور یونیورسٹیز میں ان ائمہ کرام کے مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے، اور ان ائمہ کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، اور نیز علماء سعودی عرب نے اس جانب بھی اپنی توجہ مبذول کی ہے کہ ان ائمہ کرام کی بہت سے کتابوں کو چھاپا ہے، اور اس کو ان تمام ممالک میں تقسیم کیا ہے، جہاں پر مسلمان آباد ہیں۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وعلى آله وصحبه وسلم۔


علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی


ممبرنائب صدرصدر
عبد اللہ بن غدیانعبدالرزاق عفیفیعبدالعزیز بن عبداللہ بن باز


No comments:

Post a Comment