Thursday, 31 December 2015

عمامہ یا ٹوپی کے بغیر، ننگے سر رہنا سنت کی مخالفت ہے۔



أَخْبَرَنَا ابْنُ الْبَاغَنْدِيِّ ، نَا ابْنُ مُصَفَّى ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ فَضَالَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ خَالَتِهِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَلْبَسُ مِنَ الْقَلانِسِ فِي السَّفَرِ ذَوَاتِ الآذَانِ ، وَفِي الْحَضَرِ الْمُشَمَّرَةَ ، يَعْنِي الشَّامِيَّةَ " .
ترجمہ:
حضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سفر میں کان والی ٹوپی پہنتے تھے اور حضر میں پتلی یعنی شامی ٹوپی۔




تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1يلبس من القلانس ذات الآذانعائشة بنت عبد اللهفوائد تمام الرازي9351011تمام بن محمد الرازي414
2يلبس القلانس ذات الآذانعائشة بنت عبد اللهالجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب905897الخطيب البغدادي463
3كان يلبس من القلانس في السفر ذوات الآذان وفي الحضرعائشة بنت عبد اللهأخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني2991 : 104أبو الشيخ الأصبهاني369
4يلبس من القلانس في السفر ذوات الأذنين وفي الحضر المشمرة يعني الشاميةعائشة بنت عبد اللهالأنوار في شمائل النبي المختار810---الحسين بن مسعود البغوي516




مومنو! نہ ہوجاؤ ان کی طرح جو منکر ہوئے ... آل عمران:156


اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
*اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر اختیار کرلیا ہے۔۔۔*
[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 156]
*اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے تفرقہ ڈالا اور اختلاف میں پڑگئے واضح دلائل آنے کے بعد بھی۔۔۔*
[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 105]

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 ”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․
[مصنف ابن ابی شیبة:20550، مسند احمد:5115، سنن ابوداؤد:4031، مسند عبد بن حمید:848، شعب الإيمان-للبیھقي:1199، مسند الشاميين-للطبراني:216، المعجم-لابن الأعرابي:1137 ﴿المعجم الاوسط-للطبراني :8947، مسند البزار:296﴾]






حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا، وہ دو کپڑے زرد رنگ کے پہنے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا:
هذه ثياب الكفار , فلا تلبسها۔
”یہ کفار کا لباس ہے، اسے مت پہنو“۔
[سنن نسائي:5318، صحیح مسلم:2077(5434)]


Tuesday, 29 December 2015

عورت کیلئے چہرے کا پردہ وحجاب

پردہ داری کی وجہ سے صرف مسلم خواتین کے حق میں ہی ہر نوع کا تشدد کیوں روا رکھا جارہا ہے؟ حالانکہ عیسائی راہبات اور بدھسٹ مذہب پرست عورتوں میں بھی اس کا خوب رواج اور چلن ہے۔

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
اے نبی ! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اوپر جھکا لیا کریں۔ (47) اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا۔ (48) اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ الاحزاب:59]

47: اس آیت نے واضح فرما دیا ہے کہ پردے کا حکم صرف ازواجِ مطہرات (یعنی پیغمبر کی پاک بیویوں) کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو اپنے چہروں پر جھکا کر انہیں چھپالیا کریں۔ مقصد یہ ہے کہ راستہ دیکھنے کے لیے آنکھوں کو چھوڑ کر چہرے کا باقی حصہ چھپالیا جائے۔ اس کی صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جس چادر سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہے، اس کو چہرے پر اس طرح لپیٹ لیا جائے کہ آنکھوں کے سوا باقی چہرہ نظر نہ آئے، اور یہ صورت بھی ممکن ہے کہ چہرے پر الگ سے نقاب ڈال لیا جائے۔ 48: بعض منافقین عورتوں کو راستے میں چھیڑا کرتے تھے، اس آیت میں پردے کے ساتھ نکلنے کی یہ حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ جب عورتیں پردے کے ساتھ باہر نکلیں گی تو ہر دیکھنے والا یہ سمجھ جائے گا کہ یہ شریف اور پاک دامن عورتیں ہیں، اس لئے منافقین کو انہیں چھیڑنے اور ستانے کی جرأت نہیں ہوگی، اس کے برخلاف بےپردہ بن ٹھن کر باہر نکلنے والی خواتین ان کی چھیڑ چھاڑ کا زیادہ نشانہ بن سکتی ہیں، علامہ ابوحیان نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ (البحر المحیط)۔




(1)عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ ‌رَأْسِهَا ‌عَلَى ‌وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ»
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوتے، جب سوار ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنے نقاب اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے۔
[سنن أبي داود:1833، مسند أحمدؒ:24021، السنن الكبرى - البيهقي:9051(9123)]
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: ج30 / ص476]
[صحيح فقه السنة وأدلته-كمال ابن السيد سالم: 2/ 215]
[وحسنه الألباني في الشواهد في كتاب: (جلباب المرأة المسلمة) ص107]


دوسری روایت حضرت ام سلمہؓ سے بھی مروی ہے:
قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: «كُنَّا نَكُونُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ فَيَمُرُّ بِنَا الرَّاكِبُ فَتَسْدِلُ الْمَرْأَةُ الثَّوْبَ مِنْ فَوْقِ ‌رَأْسِهَا ‌عَلَى ‌وَجْهِهَا»
[سنن الدارقطني:2764، السنن الكبرى - البيهقي:9061]

مثالی عورت اور قوتِ دلیل:

اللہ کے رسول ﷺ کی بیوی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا: تم اپنی بہنوں(یعنی رسول اللہ ﷺ کی دیگر بیویوں) کی طرح حج یا عمرہ کیوں نہیں کرتی؟ آپ نے فرمایا: میں نے (فرض)حج اور (مسنون)عمرہ کرلیا ہے، اور اللہ نے مجھے اپنے گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے۔
﴿اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو... سورۃ الأحزاب:33﴾
راوی نے کہا:
اللہ کی قسم! جب تک ان کا جنازہ نہ نکالا گیا، وہ اپنے کمرے کے دروازے سے باہر نہ نکلی۔
[تفسیر امام القرطبی» جلد 14 / صفحہ 181، دار الکتب المصریہ-القاہرہ]
نوٹ:
غیرفرض یعنی نفلی حج وعمرہ کیلئے پردہ اور محرم کے ساتھ عورت کا گھر سے نکلنے یا نہ نکلنے میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک پردہ اور محرم کے ساتھ ہونے کی شرط سے نفلی حج وعمرہ کیلئے نکلنا درست ہے اور بعض کے نزدیک نہیں۔
بہرحال یہ اختلاف افضل اور جائز کے درمیان ہے۔ نہ کہ کفر واسلام یا سنت وبدعت کا۔








(2)
حَدَّثَنَا 
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ فَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْخَبِيرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ ،  عَنْأَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ  وَهِيَ
مُنْتَقِبَةٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ  أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ ، فَقَالَتْ : إِنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ابْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ " قَالَتْ : وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " لِأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ "  .


حضرت قیس بن شماسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اس کا نام خلاد تھا اور اس کے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ یہ عورت اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جو جنگ میں شہید ہوگیا تھا۔ اصحاب رسول ﷺمیں سے کسی نے اس سے کہا کہ تو اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہے اور اس حال میں سر اور چہرہ ڈھکا ہوا ہے (یعنی پوری طرح اپنے حو اس میں ہے اور احکام شریعت کی پابندی برقرار ہے) وہ بولی: اگر میرا بیٹا بھی جاتا رہا تب بھی اپنی حیاء نہیں جانے دوں گی۔ آپ ﷺ نے اس عورت سے فرمایا: تیرے بیٹوں کو دو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔ اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیونکہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔
[سنن أبي داود:2488، مسند أبي يعلى:1591، السنن الكبرى - البيهقي:18591(18631)]




















ہندو دہرم کی کتابوں میں عورت کے پردے کا ثبوت:
"چوں کہ برہم (خدا) نے تمہیں عورت بنایا ہے ؛ اس لئے اپنی نظریں نیچی رکھو، اوپر نہیں ، اپنے پیروں کو سمیٹے ہوئے رکھو ، اور ایسا لباس پہنو کہ کوئی تمہارا جسم دیکھ نہ سکے ”
کیونکہ عورت(یعنی چھپانے کی چیز) کو اس کے پیدا کرنے والے نے اسی لیے ہی اس کو کہتا کیا ہے۔
[رگ وید »منڈل#8، سوت#33، منتر#19]

رگ وید میں "او گُنٹھن" باپردہ عورت ہی کو کہتے ہیں۔

کتاب "والمیکی رامایانا" میں ناریوں کیلئے رول ماڈل سیتا کیلئے کہا گیا ہے:
آج سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اس سیتا کو دیکھ رہے ہیں جسے پہلے آسمان میں اڑتے ہوئے پرندے بھی نہ دیکھ سکتے تھے۔

یدھ کانڈ میں عورت باہر کب آسکتی ہے کے متلعق لکھا ہے کہ:
(1) مصیبت کے وقت (2)جنگوں میں (3)صوم ور میں

ہرش چریتم میں لکھا ہے کہ جب سے شریف اور خاندانی عورتوں کے چہروں پر نقاب کی جالی نہ رہی ان کی شرم وحیا جاتی رہی۔
[ہرش اجھورس۔۲]

بھر بھران اشوک میں صفحہ۳۹، ادھیائے ۲ میں قیامت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں عورتیں بگڑ جائیں گی ۔ بے پردہ ہوکر دونوں ہاتھوں سے بالوں کو سنبھالیں گی۔ کسی کی پرواہ نہیں کریں گی ۔ 

مہا بھارت ، وشوپرب ادھیائے ۱۹، میں لکھا ہے کہ سری کرشن کے ماموں کنشن متھرا کے راجہ نے جب کشتی کا دنگل قائم کیا تو مستورات کے دیکھنے کے لئے خاص مکانات بنوائے تھے۔ وہ اتنی بلندی پر تھے کہ راجہ ہنس اڑتے ہوئے نظر آتے تھے ان پر باریک جالی لگائی گئی تھی۔ جہاں سے خواتین تماشہ دیکھتی تھیں۔

ہندودھرم میں سیتا جی کا بڑا مقام ہے ۔ رامائن اجودھیا کانڈم سرگ ۳۳ میں لکھا ہے کہ بن باس(جلاوطنی ) کے وقت جناب رام چندر جی سیتا کے ساتھ گھر سے نکلے تو لوگوں نے شور مچادیا اور آہ وبکا کرنے لگے کہ کیا برا وقت آگیا ہے ، وہ سیتا جس کو آسمانی دیوتا بھی نہیں دیکھ پائے تھے اسے آج بازاری لوگ دیکھ رہے ہیں ۔

رامائن کشن گانڈم سرگ ۳۳ میں لکھا ہے کہ لکشمن کی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے کہ بن باس کے زمانہ میں شب وروز سیتاجی کے ساتھ رہے ۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ کہ میں نے سیتا جی کے پاؤں دیکھے ہیں ۔ سوگر یو نے خوفزدگی کے عالم میں کوئی بات کرنے کے بجائے اپنی رانی لکشمی کے پاس بات کرنے کیلئے گئے لیکن نا محرم عورتوں کودیکھ کر لکشمن نے منھ دوسری طرف پھیر لیا او رواپس آگئے ۔ 

مہا بھارت سنھا پرب ادھیا ۶۹ میں ہے کہ ارجن کی بیوی دریدی ایک مقام پر کہتی ہیں ۔ اے بزرگو! راجہ نے مجھے سوئمبر کے موقع پر دیکھا تھا ۔ اس سے پہلے کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا ۔ آج بدقسمتی سے غیر مردوں کے سامنے آنا پڑا اجنبی لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اورکیا ذلت ہوگی کہ مجھ جیسی پاک دامن خاتون لوگوں کے روبرو آئے ۔ہزار افسو س کہ راجہ دھرم کھو بیٹھے ۔ ہم تو سنتے آئے تھے کہ قدیم زمانہ کے شرفاء اپنی منکوحہ کو کبھی بھی مجمع میں نہیں لے جاتے تھے۔ افسوس اب اس خاندان کا دھرم جاتا رہا ۔














جائز اور ناجائز کھیل وتفریح کا اسلامی اصول





کھیل کود کے بین الاقوامی نقصانات اور ہماری نئی نسل



          معلم انسانیت حضرت نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیل، کود اور لہوولعب کے تعلق سے ایک ضابطہ بیان فرمایا: 
كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ ، وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ ، وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ 
[جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْجِهَادِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الرَّمْيِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ... رقم الحديث: 1559(1637)]


قرآن مجید کا تعارف، غرض وغایت، فضائل، آداب اور حقوق

Wednesday, 16 December 2015

میری ساری امت معافی کے قابل سوائے ۔۔۔۔

"امت" ایک عربی اصطلاح ہے جو ایک ایسی برادری یا قوم سے مراد ہے جو مشترکہ عقیدے ، ثقافت یا شناخت رکھتے ہوں۔ اسلام کے تناظر میں ، "امتوں" کی اصطلاح مسلمانوں کی عالمی برادری کو بیان کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے ، جو ایک حقیقی معبود (اللہ) پر ان کے اعتقاد اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے ذریعہ متحد ہیں۔



اے لحاف میں لپٹنے والے! کھڑا ہو پھر ڈرا (خبردار کر)۔
[القرآن: سورۃ المدثر:1-2]

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میری ساری(مسلم)امت معاف کردی جائےگی سوائے اعلانیہ گناہوں کے،(وہ بلاحساب وعذاب معاف نہیں کئے جائیں گے) وہ یہ کہ بندہ رات کو کوئی گناہ کرتا ہے پھر صبح کو اس کا پروردگار اس کے گناہ کی پردہ پوشی کرتا ہے لیکن وہ اسے کہتا ہے اے فلاں! میں نے گزشتہ رات ایسے ایسے گناہ کیا اور رات گزاری پروردگار نے تو اسے چھپایا اور ساری رات پردہ پوشی کی لیکن صبح ہوتے ہی اس نے اس گناہ کو ظاہر کردیا جسے اللہ عزوجل نے چھپایا تھا۔
[جامع الاحادیث:15580، بخارى:5721 ، مسلم:2990]

Wednesday, 9 December 2015

زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو


زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ , عَنْ كُلْثُومٍ الْخُزَاعِيِّ , قَالَ : أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ أَنِّي قَدْ أَحْسَنْتُ , وَإِذَا أَسَأْتُ أَنِّي قَدْ أَسَأْتُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا قَالَ جِيرَانُكَ قَدْ أَحْسَنْتَ فَقَدْ أَحْسَنْتَ , وَإِذَا قَالُوا إِنَّكَ قَدْ أَسَأْتَ فَقَدْ أَسَأْتَ " .

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا اے اللہ کے رسول، مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے نیکی کی ہے یا برائی؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم سنو کہ تمہارے پڑوسی کہہ رہے ہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو واقعی تم نے اچھا کام کیا ہے اور جب تم ان سے سنو کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے غلط کام کیا ہے تو واقعی تم نے غلط کام کیا ہے۔

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1إذا سمعت جيرانك يقولون أن قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودسنن ابن ماجه42214223ابن ماجة القزويني275
2إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودمسند أحمد بن حنبل36773798أحمد بن حنبل241
3إذا قال جيرانك أنت محسن فأنت محسن وإذا قالوا إنك مسئ فأنت مسئعبد الله بن مسعودصحيح ابن حبان530525أبو حاتم بن حبان354
4إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودصحيح ابن حبان531526أبو حاتم بن حبان354
5إذا سمعت جيرانك تقول قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودمستخرج أبي عوانة51136469أبو عوانة الإسفرائيني316
6إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودالسنن الكبرى للبيهقي1877010 : 123البيهقي458
7إذا قال جيرانك إنك محسن فأنت محسن وإذا قال جيرانك إنك مسيء فإنك مسيءعبد الله بن مسعودالبحر الزخار بمسند البزار15071675أبو بكر البزار292
8إذا سمعت جيرانك يقولون إنك قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون إنك قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودالمسند للشاشي445483الهيثم بن كليب الشاشي335
9إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودالجامع لمعمر بن راشد34819749معمر بن راشد الأزدي154
10إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودالمعجم الأوسط للطبراني30752982سليمان بن أحمد الطبراني360
11إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودالمعجم الكبير للطبراني1028410433سليمان بن أحمد الطبراني360
12إذا سمعت جيرانك يقولون أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودمجلسان للنسائي910النسائي303
13إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فأنت محسن وإذا سمعتهم يقولون أنت مسيء فأنت مسيءعبد الله بن مسعودمجالس من أمالي أبي عبد الله بن منده349---أبو عبد الله بن منده395
14كيف لي أن أعلم إذا أحسنت أو إذا أسأت فقال النبي إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودشرح السنة33953490الحسين بن مسعود البغوي516
15إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودحلية الأولياء لأبي نعيم63866392أبو نعيم الأصبهاني430
16إذا أثنى عليك جيرانك أنك مسيء فأنت مسيءعبد الله بن مسعودتاريخ دمشق لابن عساكر56615---ابن عساكر الدمشقي571
17إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودسير أعلام النبلاء الذهبي209---الذهبي748
18إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأتعبد الله بن مسعودمكارم الأخلاق للخرائطي242256محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي327




تنہائی میں بھی نامناسب امور سے اجتناب :
__________________________
قال النبي صلى الله عليه و سلم :" ما كرهت أن يراه الناس منك ، فلا تفعله بنفسك إذا خلوت" ( الجامع الصغير لجلال الدين: 7973 حديث حسن)

أخرجه ابن حبان (2/129، رقم 403) ، والضياء (4/178، رقم 1393) .