کھیل کود کے بین الاقوامی نقصانات اور ہماری نئی نسل
معلم انسانیت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیل، کود اور لہوولعب کے تعلق سے ایک ضابطہ بیان فرمایا:
كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ ، وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ ، وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ․
[
جامع الترمذي » كِتَاب فَضَائِلِ الْجِهَادِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الرَّمْيِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ... رقم الحديث: 1559(1637)]
ہروہ لہوولعب جس میں مسلمان مشغول ہو باطل وناجائز ہے، صرف اس کا تیر اندازی کرنا، گھوڑسواری کرنا اور اپنی اہلیہ اور بیوی سے دل لگی کرنا؛ کیونکہ یہ امور جائز اور مباح ہیں۔ اسی روایت کو امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں بھی ذکر کیا ہے، جس کی تشریح میں شارح ابوداؤد علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کھیلوں کا استثناء فرمایا ہے، ان میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھیل جن سے حق میں تعاون اور مدد ملتی ہو وہ جائز ہیں، جیسے ہتھیار چلانا سیکھنا، دوڑنا وغیرہ ان کو انسان ورزش کے طور پر کرتا ہے اور ان سے بدن میں طاقت آتی ہے اور دشمن کے مقابلہ میں مدد ملتی ہے۔
مذکورہ کھیلوں کے علاوہ کام چوروں کے کھیل، مثلاً نرد، شطرنج اور کبوتر بازی وغیرہ ان سے کسی طرح بھی حق میں تعاون نہیں ملتا ہے اور نہ ہی ان سے کسی واجب کی ادائیگی میں انبساط پیدا ہوتا ہے؛ چنانچہ یہ سب ممنوع ہیں اور ان کی شریعت میں اجازت نہیں۔ (معالم السنن للخطابی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر اپنی چادر سے میرے لیے پردہ کرلیتے تھے، حبشی لوگ مسجد نبوی میں اپنے ہتھیاروں سے کھیلتے تھے، میں اس کو دیکھتی اورجب تک سیر ہوکر ہٹ نہ جاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے کھڑے رہتے تھے، آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مجھ جیسی کم سن اور کم عمر لڑکی کھیل کی شوقین کتنی دیر تک تماشا دیکھتی ہوگی۔ (مسلم شریف ج۲،ص۶۰۹)
امام بغوی شارح مسلم حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہتھیاروں کا کھیل مثلاً بندوق کی گولی، تیر کا نشانہ، بانک اورپٹہ وغیرہ جہاد کی نیت سے مسجد میں سیکھنا اور کھیلنا جائز ہے، اگر عورتیں مردوں کے ایسے کھیل دیکھیں توجائز ہے، بشرطیکہ مردوں کی نظر عورتوں پر نہ پڑے اوراگر عورت کی نگاہ کسی اجنبی پر شہوت سے پڑے تو بالاتفاق حرام ہے۔ (عصرحاضر کے نوجوان ص۵۲)
حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: بعض لوگ غم غلط کرنے والی چیزوں میں مشغول ہوجاتے ہیں، جیسے شطرنج، کبوتر بازی، بٹیربازی اورجانوروں کو لڑانا وغیرہ انسان جب ان چیزوں میں مشغول ہوتا ہے تواس کو کھانے، پینے کی خبر نہیں رہتی؛ بلکہ بسا اوقات پیشاب روکے بیٹھا رہتا ہے اور وہاں سے نہیں ٹلتا، پھر اگر ایسی چیزوں میں مشغول رہنے کا دستور ہوجائے تویہ لوگ تمام شہروالوں پر بوجھ بن جائیں گے، اور اپنی جان کی ان کو خبر نہ رہے گی؛ اس لیے ان مشاغل سے منع کردیا جائے۔ (المصالح العقلیة للأحکام النقلیة ص۳۲۶، ۳۲۷)
عالمی منظرنامہ:
حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھنے والے اور بین الاقوامی منظرنامے کو چشم بصیرت سے دیکھنے والے حضرات خوب جانتے ہیں کہ دورِ حاضر میں مختلف قسم کے کھیل مروّج ہیں، مثلاً کرکٹ، ہاکی، ٹینس، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن، باکسنگ، والی بال، فٹ بال، واسکٹ بال، گولف، بھاگ دوڑ، کبڈی، نشانہ بازی، شطرنج، کبوتر بازی، پتنگ بازی، تاش بازی، کیرم بورڈ اور لوڈو وغیرہ، مذکورہ کھیلوں میں سے اکثرکھیل نہ ورزش سے تعلق رکھتے ہیں اورنہ ہی وہ جسمانی طاقت وقوت اور دماغی صلاحیت واہلیت میں اضافہ کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں، اسی لیے وہ مفید ہونے کے بجائے نوع بنوع کے نقصانات کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں؛ کیونکہ اب عالمی سطح پر ان کھیلوں کو ترقی اور فروغ دینے کے اسباب ووسائل اور ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں اور بے تحاشہ دولت لُٹائی جاتی ہے، حکومتیں تمام ضرورتوں اور اہم کاموں کو پسِ پشت ڈال کر کھیلوں کا انعقاد کراتی ہیں اور پوری دنیا سے کام چوروں (کھلاڑیوں) کو اپنے اپنے ملک میں خصوصی دعوت دے کر مدعو کرتی ہیں، ان کو اعزاز دیا جاتا ہے، اہم اور اعلیٰ حکام کے برابر حفاظت (سیکورٹی) کرنے والے افراد مہیا کرائے جاتے ہیں، نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ امریکہ کے علاوہ تمام ممالک میں جس طرح تعلیم، صحت، زراعت، توانائی، خارجی امور، داخلی امور اور دفاعی معاملات وغیرہ ضروری کاموں اور اہم اہم امور ومعاملات کے لیے وزارتیں اور محکمے تجویز ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح کھیل، کود کے لیے بھی وزارت اور مستقل محکمہ کا تعین عمل میں آتا ہے، اور جس طرح دوسری وزارتیں سالانہ اپنا بجٹ منظور کراتی ہیں، اسی طرح وزارت کھیل کود بھی اپنا سالانہ بجٹ پاس کراتی ہے، ہر چھوٹا، بڑا ملک اس بیہودہ اور لایعنی بلکہ تباہ کن اور برباد کنندہ عمل یعنی کھیل پر ہرسال اربوں اور کھربوں ڈالر صرف کرتا ہے؛ جبکہ اِن ممالک میں بہت سے ملک ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے باشندوں کی اکثریت خطِ افلاس اور غربی کی ریکھا سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ایک بڑی تعداد ایسے خاندانوں کی ہوتی ہے جو پیٹ بھرکھانا اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں اور سرچھپانے کے لیے چھت نہیں؛ بلکہ کھلے آسمان کے نیچے گرمی، سردی کے سخت موسم میں رات ودن گزر، بسر کرنے پر مجبور ہیں، تعلیم یا معیاری زندگی کا کوئی بھی تصور اُن کے لیے محال و ناممکن ہے؛ لیکن اربابِ حکومت اور سرمایہ دار طبقہ کو کبھی بھی اِن پس ماندہ؛ بلکہ درماندہ افراد کی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ اگر فکر ہوتی ہے تو بین الاقوامی کھیلوں کے انعقاد کی، دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں کو اپنے ملک میں بلاکر کھیل کرانے کی اور اپنے ملک کے پیشہ ور کھلاڑیوں کو دوسرے ملکوں میں بھیج کر کھلانے کی، جس کے لیے اُن کے پاس اربوں ڈالر اور کھربوں روپے موجود ہی نہیں؛ بلکہ زائد از ضرورت ہوتے ہیں، کبھی کھیلوں کے لیے میدان اور کھیل گاہ (اسٹیڈیم) تیار کرنے، کرانے پر کروڑوں کی مقدار میں روپیہ صرف ہوتا ہے تو کبھی میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے کھیلوں کی تشہیر واعلانات پر بے پناہ دولت بہائی جاتی ہے، آج کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور تیاری پر ملک وملت کا قیمتی سرمایہ صرف ہورہا ہے، تو کل کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات اور اعزازات کی شکل میں خطیر رقم تقسیم کی جاتی ہے۔
نقصانات:
بین الاقوامی اور عالمی منظرنامہ کا بغور مطالعہ کرنے سے درج ذیل نقصانات سامنے آتے ہیں:
(۱) وقت کا ضیاع: وقت سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور وہ ان کھیلوں کی نحوست سے مہینوں کے حساب سے برباد اور ضائع ہوتا ہے۔
(۲) تعلیمی انحطاط : کھیلوں کے انعقاد وغیرہ مسائل عام طور پر یہود ونصاریٰ کے قبضہ میں ہیں وہ مشرقی اور بالخصوص برصغیر (ایشیا) میں ایسے وقت کا انتخاب کرتے ہیں جو عین امتحان یا امتحان کے قریب تر ہو، پس تمام نوجوان اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو چھوڑ کر تمام تر دلچسپی کھیل میں لیتے ہیں جس کا براہِ راست اثر تعلیم اور اس کے نتیجہ پر پڑنا بدیہی امر ہے۔
(۳) اقتصادی زبوں حالی : سال کے اکثر حصے میں کھیل کسی نہ کسی صورت میں ہوتے رہتے ہیں اور تجارت پیشہ افراد اسی طرح ملازمین ومزدور حضرات کھیلوں کے اس قدر دلدادہ ہوتے جارہے ہیں کہ اپنے کاروبار اور ملازمت وغیرہ پر پوری توجہ نہیں دے پاتے ، پس بزنس مین لوگوں کی تجارت ٹھپ ہوجاتی ہے اور ملازمین کی ملازمت خطرے میں پڑجاتی ہے؛ چنانچہ اقتصادی اور معاشی حالت مضبوط ومستحکم ہونے کے بجائے کمزور سے کمزور تر ہوجاتی ہے۔
(۴) ملک وملت کی پستی: موجودہ دور سائنس وٹکنالوجی اور نئی نئی ایجادات واختراعات کا ہے، مغرب اس سلسلہ میں بازی مارچکا ہے اور ایشیائی ممالک ذہنی اور دماغی اعتبار سے مغرب سے دوہاتھ آگے ہی ہیں؛ لیکن قوم کا کریم اور مَکھَّن نوجوان طبقہ ہوتا ہے، وہی قوم کو ثریا پر لے جاسکتا ہے اور وہی تَحْتُ الثَّریٰ میں بھی ڈھکیل سکتا ہے، جب نوجوانوں کو کھیل، کود اور لہوولعب میں مست کردیا تو اس سے ایجادات واختراعات کی توقع رکھنا فضول ہے؛ اسی لیے ایشیائی ملکوں میں اس نوع کی ترقیات صفر کے درجہ میں ہیں۔
(۵) مذہب بیزاری: عصر حاضر کا نوجوان دین ومذہب سے دور کا بھی تعلق رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے، دینی گھرانوں میں پیدا ہونے والا نوجوان بھی ضروریاتِ دین سے مکمل واقف نہیں ہے کہ نہ غسل کے فرائض اور اس کا طریقہ معلوم ہے اور نہ غسل واجب کرنے والی چیزیں معلوم ہیں، اسی طرح نہ وضو اور نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہے، نہ زکوٰة اور فریضہٴ حج کا علم ہے،اور جب علم ہی نہیں، تو عمل کا تو پوچھنا ہی کیا؟ اور جونوجوان بے دین گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں ان کا حال تو ایسا ہے کہ بس ان کا اللہ ہی حافظ ہے،کفریہ کلمات و اعمال تک کی پرواہ نہیں کرتے۔
(۶) عزم وحوصلہ کا فقدان: جب جدوجہد اور محنت ومشقت سے کبھی واسطہ نہیں پڑتا تو جسم میں طاقت وقوت مفلوج ہوجاتی ہے، پس جہد مسلسل یا عمل پیہم کی اگر کبھی نوبت آجاتی ہے تو نوجوان ہمت جُٹانے میں ناکام ثابت ہوتا ہے اور نتیجتاً راہِ فرار اختیار کرلیتا ہے۔
(۷) فکر وتدبر کی کمی: ذہن ودماغ خدا کی دی ہوئی ایسی بے بدل اور بے نظیر دولت ہے کہ جتنا استعمال کرو بڑھتی ہے اور اسی دولت عظمیٰ کے ذریعہ انسان تمام مخلوقاتِ خدا سے بہتر اور اعلیٰ واشرف کہلانے کا حقدار ہے، پھر اسی دماغ کو بروائے کار لاکر یہ مٹی کا پتلہ ہرشے سے اپنے نفع اور فائدہ کے اجزاء حاصل کرلیتا ہے اوراس کے ضرر رساں مادے سے اجتناب کرتا ہے؛ لیکن یہ دولت اگر استعمال نہ کی جائے تو صاحبِ دماغ اپنی ذہنی صلاحیت ولیاقت سے محروم ہوجاتا ہے، پھر وہ فکر وتدبر اور سوچنے یا احساس کرنے کے لائق بھی نہیں رہتا، عصرِ حاضر کا نوجوان اس کی زندہ مثال ہے۔
(۸) بے راہ روی: کھیل، کود اور لہوولعب کو جب اس درجہ ترقی ہوجائے کہ وہ معیوب کے بجائے ہنرمندی باور کیا جانے لگے تو اُس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس سے وابستہ افراد اور بالخصوص نوخیز بچے خود کو باکمال تصور کرکے اپنے مستقبل کے فیصلے خود کریں گے، اپنے بڑوں کو بے وقوف اور پاگل سمجھیں گے، ان کی نافرمانیوں پر اُترآئیں گے پھر انسانیت سے گرے ہوئے عادات واخلاق میں گرفتار ہوجائیں گے اور بے راہ روی اور اخلاقی پستی کی دلدل میں پھنس جائیں گے۔
(۹) مال ودولت کی بربادی: کھیلوں پر ایک طرف تو حکومتیں بارش کی طرح دولت برساتی ہیں اور دوسری طرف عوام بھی خطیر رقم صرف کرتے ہیں، غیرملکی اسفار کرنا اور ہوٹلوں میں قیام کرنا پھر خود کھیل گاہ کے داخلہ کا ٹکٹ یہ سب بڑی رقم کے صرفے ہیں اور بعض کھیل تو بہت ہی مہنگے ہوتے ہیں جو متوسط طبقہ کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔
(۱۰) فحاشی اور عریانیت: وہ کھیل جن میں صرف مرد کھیلتے ہیں ان میں بھی وقفہ وقفہ سے نیم برہنہ عورتوں کا میدان میں آنا جانا اور ناچنا وڈانس کرنا اب شروع ہوتا جارہا ہے، اسی طرح دیکھنے والوں میں مرد وعورت کا اختلاط ہوتا ہے؛ کیونکہ نشست گاہیں مشترک ہوتی ہیں اور جن کھیلوں میں عورتیں کھیلتی ہیں، ان میں تو عریانیت ناقابل بیان ہے اور رفتہ رفتہ تمام کھیلوں میں عورتوں کو گھسیٹا جارہا ہے اور عورتیں ناقصات العقل ہوتی ہی ہیں وہ خوشی خوشی آزادیٴ نسواں کا نعرہ لگاکر میدان میں کودجاتی ہیں اور مرد وحشی ان کے لیے جیسا بھی چاہیں، لباس مقرر کردیں، وہ بخوشی اسی کو قبول کرلیتی ہیں اور اپنے مستور بدن کی برملا نمائش کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
راہنما خطوط اور چند مشورے:
(۱) بین الاقوامی قائدین اور ملک کے اربابِ حل وعقد اور لیڈر حضرات اس سلسلہ میں پیش قدمی کریں اور آگے آئیں کہ تمام غیرمفید، لایعنی اور مُضر کھیلوں کو رواج و ترقی دینے کے بجائے ان پر رکاوٹ اور پابندی عائد کریں، ایسے کھیلوں سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی نہ ہو؛ بلکہ ملک وملت کے تابناک اور روشن مستقبل کو تاریک کرنے کی پاداش میں جواب دہ بنایا جائے اور کھیلوں سے متعلق تمام اکیڈمیوں اور تنظیموں کا مالی تعاون بند کرکے انکا رجسٹریشن رد کیا جائے تاکہ قوم کا سرمایہ اور ملک کا مستقبل (نوجوان طبقہ) تباہ وبرباد ہونے سے محفوظ ہوجائے۔
(۲) ملکی حکومتیں اور ریاستی سرکاریں اپنے زیرانتظام اور زیرنگرانی ایسے کھیل اور کود کو بڑھاوا دینے کی سعی کریں جو جسمانی صحت اور دماغی بالیدگی میں معاون ثابت ہوں مثلاً ہتھیار چلانا سیکھنا، ہتھیار بنانے کی تربیت دینا، گھوڑسواری کرنا، دورِ حاضر میں پائی جانے والی گاڑیاں چلانا سیکھنا، کشتیاں کرانا، کبڈی کھیلنا اور بھاگنا دوڑنا وغیرہ یہ تمام اور ان جیسے کھیلوں سے جسم میں طاقت وقوت پیدا ہوتی ہے اور ذہن ودماغ میں وسعت اور گشادگی آتی ہے، اسی لیے حدیث شریف اور قرآن کریم سے بھی اس طریقہ کے کھیلوں کی اجازت ہی معلوم نہیں ہوتی ؛ بلکہ خاص خاص موقعوں پر یہ امور باعثِ اجر وثواب ہوجاتے ہیں؛ البتہ ان کھیلوں پر بھی بے دریغ اور بے تحاشہ دولت لٹانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کفایت شعاری کے ساتھ پیسہ صرف کیا جائے، کھلاڑیوں کے اعزازات وانعامات بھی محدود ہوں جو صرف حوصلہ افزائی ہی ہوں، ایسا نہ ہو کہ پیسے کی ریل پیل کو دیکھ کر نادان لوگ ان کھیلوں کو بھی مقصدِ حیات بنالیں۔
(۳) والدین اپنے نونہالوں کی مکمل نگہداشت رکھیں بالخصوص مسلمان والدین؛ کیوں کہ اس عمر میں اگر بچوں کو آزاد چھوڑدیا جائے تو وہ انجام سے بے خبر اور نتیجہ کی پرواہ کیے بغیر اپنی منزل طے کرلیتے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ ایسا وقت آنے سے پہلے ہی ان کی نگرانی کریں اور بُرے معاشرے اور غلط سوسائٹی کی بھینٹ چڑھنے سے قبل ہی اپنے جگرگوشوں کی بودوباش، نشست وبرخاست اور خلوت وجلوت پر نظر رکھیں۔ آپ کا نورِ نظر کہاں جاتا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کس کے ساتھ رہتا ہے؟ اور کس کے پاس آمد ورفت رکھتا ہے؟ ان تمام امور پرنظر رکھنے کا اہتمام ضرور کریں؛ کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادب سکھلانے کی فضیلت بیان فرمائی ہے، ارشاد نبوی ہے:
ما نحل والدٌ ولدًا أفضلَ من أدبٍ حسنٍ (ترمذی شریف رقم الحدیث ۱۹۵۲)
کوئی باپ اپنی اولاد کو اچھے ادب سے افضل اور بہتر تحفہ نہیں دے سکتا۔
(۴) بچوں کے شعور کی حد کو پہنچنے سے قبل ہی اُن کی دماغی اور ذہنی تربیت شروع ہوجانی چاہیے، جس طرح ان کی خورد ونوش کی اشیاء اور چیزوں میں اس بات کا خیال رکھا جاتاہے کہ ایسی چیزیں ہی کھلائی، پلائی جائیں جو دماغی بالیدگی اور ذہنی افتادگی میں معاون ثابت ہوں اور ایسی اشیاء سے اجنتاب برتا جاتا ہے جو ذہن ودماغ اور صحت جسمانی کے لیے مُضر اور نقصان دہ ہوں، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ان کو کھیل وغیرہ میں ایسے کھیلوں کا عادی بنایا جائے جو جسم انسانی کے کسی بھی حصے اور جزء کو نقصان دینے کے بجائے ذہنی وسعت اور دماغی ترقی کے لیے مفید ہوں۔
(۵) عقل وشعور کی حد شروع ہوتے ہی بچوں کے دلوں کی سادہ اور صاف تختی پر دنیا کی بے فائدہ اور نقصان دہ باتوں کے ثبت ہونے سے پیشتر والدین اور مُرَبّی حضرات اللہ اور رسول اللہ، ایمان واسلام، دین ومذہب اور عقائد و اعمال سے متعلق ابتدائی باتوں سے ان کے قلوب کو مُوَحِّد اور مسلمان بنادیں، مثلاً اللہ ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے، ہمیں اور پوری دنیا کو اسی نے پیدا کیا، وہی نفع ونقصان کا مالک ہے، وہی زندگی دیتا ہے، وہی مارتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور نبی ہیں، محمد اوراحمد دونوں اُن کے نام ہیں، آپ سب سے آخری نبی ہیں، آپ کے والد کا نام عبداللہ، ماں کا نام آمنہ ہے، دودھ پلانے والی والدہ کا نام حلیمہ سعدیہ ہے، دادا، چچا، پھوپیاں، بیٹیاں، بیٹے، بیویاں فلاں فلاں ہیں، عمر مبارک یہ ہوئی، کہاں پیدا ہوئے؟ مدفون کونسے شہر میں ہیں؟ اسلام کیسے پھیلا؟ اسلام کے چھ کلمے، ایمانِ مفصل، ایمانِ مجمل، نماز اور اس کا طریقہ، وضو کے فرائض اور اس کا طریقہ، غسل کے فرائض اور اس کا طریقہ، حج، روزہ اور زکوٰة سے تعلق رکھنے والی عام فہم باتیں بار بار بتائی جائیں۔ اسی طرح وہ مسنون دعائیں جو ہر وقت کام آتی رہتی ہیں، جیسے کھانے سے پہلے اور بعد کی دعا، ہر کام کے شروع کرنے کی دعا، مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعاء، سونے سے پہلے اوراٹھنے کے بعد کی دعاء، بیت الخلاء میں جانے اور باہر نکلنے کی دعاء وغیرہ بھی ضرور یاد کرانی چاہئیں۔
(۶) اولاد کو پڑھانے، لکھانے کا شوق سبھی والدین کو ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے؛ لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں جن کی رعایت کرنا اسلامی فریضہ ہے: (۱) یہ ہے کہ اگر آپ اپنی اولاد کو دینی علوم کے علاوہ دنیاوی اور عصری علوم میں ڈگریاں دلانا چاہتے ہیں تو دین ومذہب آپ کو روکتا نہیں، بس اتنا تقاضا رکھتا ہے کہ آپ بچوں کو ایسے ادارے میں داخل کریں، جس میں اسلام اور شریعت محمدیہ کے خلاف مضامین شاملِ درس اور داخلِ نصاب نہ ہوں، اسی طرح اس ادارے میں کوئی عمل ایسا ضروری نہ ہو جو اسلامی روح اور دینی مزاج کے منافی ہو (۲) اگر آپ اپنے بچوں کو حافظِ قرآن اور عالم دین نہ بھی بناسکیں تو اتنا ضرور کرلیں کہ آپ کے بچے قرآن کریم صحیح ادائیگی کے ساتھ دیکھ کر پڑھ لیں اور سوہ یٰسین، سورہ واقعہ، سورہ ملک، سورہ کہف اور آخری پارہ حفظ کرلیں۔
(۷) بچے اور بچیاں جب سات سال کے ہوجائیں تو نماز، روزہ کی عادت ڈالنے کے لیے نماز پڑھنے کا حکم کیا جائے اور بچوں کو باپ ساتھ لے کر مسجد جائے اور بچیوں کو ماں اپنے ساتھ گھر کی چہاردیواری میں نماز پڑھائے اور رمضان شریف آئے تو روزہ رکھوایا جائے، دس سال کی عمر میں نماز، روزہ میں کوتاہی کرنے پر تنبیہ کی جائے اور ہلکی پھلکی پٹائی بھی کی جائے؛ تاکہ تادیب ہوجائے اور آئندہ ایسی جسارت نہ کریں۔
(۸) بچوں کے کھیل، کود، سیر و تفریح، رہنے سہنے میں والدین اس بات پر ضرور توجہ رکھیں کہ دس سال عمر ہونے کے بعد بچوں اور بچیوں کو مخلوط نہ رہنے دیں، کھیل ہوتو بھی بچے اور لڑکے علیحدہ کھیل کھیلیں اور بچیاں بالکل الگ اپنا کھیل اختیار کریں، سیر وتفریح میں دونوں جنس ساتھ نہ ہوں حتی کہ حصولِ تعلیم وتربیت کے لیے بھی درسگاہ اور کلاس میں اختلاط نہ ہو؛ کیوں کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے دس سال کی عمر میں لڑکے اور لڑکیوں کے بستر علیحدہ کرنے کا حکم فرمایا ہے، اسی حدیث نبوی سے علماء کرام نے یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ تعلیمی اداروں میں دس سال سے پہلے پہلے بچے اور بچیاں مخلوط پڑھ سکتے ہیں؛ لیکن اس کے بعد نہیں پھر خطرات شروع ہوجاتے ہیں پس والدین اس اسلامی ضابطہ پر عمل کریں کہ اسلام ایسا صاف، ستھرا دین ہے جو بے راہ روی سے بچاتا ہی نہیں ؛ بلکہ بے راہ روی کے راستے ہی بند کردیتا ہے۔
(۹) والدین اگر یہ خواہش اور تمنا رکھتے ہوں کہ ہماری اولاد کسی لائق بنیں اور ہر میدان میں بازی ماریں، دین ودنیا دونوں اعتبار سے فائق ہوں اور اُن کا مستقبل روشن وتابناک ہوتو والدین کے لیے ضروری ہے کہ اپنے گھر کا ماحول مہذب وشائستہ بنائیں اور ماحول ومعاشرے کی تہذیب وشائستگی کے لیے چند چیزوں سے گھر کو صاف کرنا اور ان کی آلائشوں اور گندگیوں سے گھر کو دھونا ہوگا، جیسے ٹی وی، وی سی آر، سی ڈی، ڈی سی، ڈی جے، ریڈیو، ٹیپ وغیرہ جب تک گھر کے کسی بھی گوشے اور کنارے میں یہ وبائیں موجود ہوں گی، اُس گھر میں سُدھار ناممکن ہے، اسی طرح موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے دائرے بھی محدود کرنے ہوں گے۔ ان تینوں کے استعمال میں والدین خود بھی محتاط رہیں، یعنی بے جا اور بے ضرورت بالکل استعمال نہ کریں، اسی طرح اپنے نونہالوں کو ان سے حتی الوسع دور رکھیں، بقدرِ ضرورت سکھانے میں اور استفادہ کی حد تک استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں؛ لیکن فوائد اور ثمرات کے کھول اور لباس میں بے شمار نقصانات مضمر اور پوشیدہ ہیں، اُن سے بچانا ضروری ہے۔ نیز بچوں کی تربیت میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا نوجوان بچہ غیرمحرم عورتوں بالخصوص نوعمر بچیوں سے دور رہے، کسی صورت بھی عورتوں اور لڑکیوں سے قربت پیدا نہ ہو، نہ وہ دوسروں کے گھر آمد ورفت رکھے اور نہ دوسرے گھروں کی لڑکیاں آپ کے گھر آمد ورفت پیداکریں اور نہ گھر کے باہر لڑکیوں سے اس کا کوئی تعلق اور راہ ورسم پیداہو، اسی طرح اپنی بچی پر سخت نظر اور توجہ رکھنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ اس وقت کی لاپرواہی اور بے توجہی والدین کو خون کے آنسو رُلادیتی ہے، پھر بعد میں والدین چار وناچار جوان العمر بچوں اور بچیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔
(۱۰) نوجوان بچوں کو دینی ماحول اور اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ اور قریب تر کرنے کی حد درجہ جدوجہد اور مفید سعی کرنی چاہیے کہ سیرتِ نبوی، اسلامی تاریخ، صحابہ کے واقعات، بزرگانِ دین کے قصے اور مفید وناصحانہ ملفوظات وغیرہ کی کتابیں خود بھی گھر میں گاہ بگاہ پڑھتے رہنا چاہیے اور بچوں کو تاکید کے ساتھ کہہ کر پڑھوائیں اور جوان ہونے کے بعد ان کی شادی میں تاخیر نہ کریں؛ کیونکہ شادی میں تاخیر بھی جوان لڑکوں اور لڑکیوں میں غلط راستہ اختیار کرنے میں تحریک پیدا کرتی ہے اور اس کا گناہ اور وبال باپ پر ہوتا ہے؛ کیوں کہ حدیث نبوی ہے:
من وُلِدَ وَلَدٌ فَلْیُحْسِنْ اسمَہ وأدبَہ فاذا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْہ فَانْ بَلَغَ وَلَمْ یُزَوِّجْہ فأصاب اثماً فانَّما اثمُہ علی أبیہ (شعب الایمان للبیہقی)
(حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہوتو وہ اس کا اچھا سا نام رکھے، اس کی اچھی تربیت کرے اور جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کردے، پس اگر بالغ ہونے کے بعد اس نے اس کی شادی نہیں کی اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا)
***
تفریح اور کھیل کود کے جائز وسائل
اوراس کے شرعی ضابطے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلاَمُ عَلیٰ سیدِ المُرسلین محمدٍ وَعَلیٰ آلہ وَصَحْبِہ أجمعین․
اسلام کامل ومکمل شریعت اور اعتدال پسند مذہب ہے، ہر چیز میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے، اسلامی نظام کوئی خشک نظام نہیں؛ جس میں تفریحِ طبع اور زندہ دلی کی کوئی گنجائش نہ ہو؛ بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو بروئے کار لانے والا مذہب ہے۔ اس میں نہ تو خود ساختہ ”رہبانیت“ کی گنجائش ہے، نہ ہی بے ہنگم تقشف اور جوگ کی اجازت ہے۔ آسانی فراہم کرنا اور سختیوں سے بچانا شریعت کے مقاصد میں داخل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر․ (البقرہ:۱۸۵) (اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی فراہم کرنا چاہتا ہے، دشواری پیدا کرنا نہیں چاہتاہے)۔
اسلام آخرت کی کامیابی کو اساسی حیثیت دیتے ہوئے، تمام دنیاوی مصالح کی بھی رعایت کرتا ہے، اس کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں ایک طرف عقائد، عبادات، معاشرت ومعاملات اوراخلاقیات وآداب کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہیں زندگی کے لطیف اور نازک پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اقوامِ یورپ کی طرح پوری زندگی کو کھیل کود بنادینا اور ”زندگی برائے کھیل“ کا نظریہ اسلام کے نقطئہ نظر سے درست نہیں ہے؛ بلکہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے، اخلاقی حدود میں رہ کر کھیل کود، زندہ دلی، خوش مزاجی اور تفریح کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہے؛ بلکہ بعض اوقات بعض مفید کھیلوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اسلام سستی اور کاہلی کو پسندنہیں کرتا؛ بلکہ چستی اور خوش طبعی کو پسند کرتا ہے۔ شریعت کی تعلیمات اس امر کا تقاضہ کرتی ہیں کہ مسلمان شریعت کے تمام احکام پر خوشی خوشی عمل کرے۔ یہ عمل انقباض اور تنگ دلی کے ساتھ نہ ہو؛ کیوں کہ سستی اور تنگ دلی کے ساتھ عبادات کو انجام دینا نفاق کی علامت ہے۔ ارشاد باری ہے: وَاِذَا قَامُوْا الٰی الصَّلوٰةِ قَامُوْا کُسَالیٰ․ (النساء:۱۴۲) (کہ منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں؛ تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، سستی اور کاہلی بے جا فکرمندی اتنی ناپسندیدہ چیز ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور سے پناہ مانگی ہے۔
اسلام کی اعتدال پسندی ہی کا یہ اثر ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلافِ امّت کی زندگیاں جہاں خوف وخشیت اور زہد وتقویٰ کا نمونہ ہیں؛ وہیں تفریح، خوش دلی اور کھیل کود کے پہلوؤں پر بھی بہترین اُسوہ ہیں۔ ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے تفریح اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔
کیا شریعت میں تفریح اور مزاح جائزہے؟
تفریح عربی زبان کا لفظ ہے۔ جو ”فرح“ سے مشتق ہے۔ فرح کے بارے میں علامہ قرطبی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: اَلْفَرْحُ لَذَّةٌ فِی الْقَلْبِ فِادْرَاکِ الْمَحْبُوْب (تفسیر قرطبی) کہ محبوب چیز کے پالینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے،اسی کو فرحت اور خوشی کہتے ہیں۔ اگر یہ فرحت محض قلبی خوشی ہو اور اللہ کی نعمتوں کے احساس اور اس کے فضل وکرم کے استحضار پر مبنی ہو؛ تو وہ شرعاً مطلوب،مستحسن اور پسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا (یونس۵۸) (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور مہربانی سے ہے، تو چاہیے کہ وہ لوگ خوش ہوں)۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: فَرِحِیْنَ بِمَا اٰتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ․ (آل عمران۱۷۰) کہ جنتی لوگ خوش ہوں گے؛ ان نعمتوں پر جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رَوِّحُوا الْقُلُوْبَ سَاعَةً․ کہ دلوں کو وقتاً فوقتاً خوش کرتے رہا کرو۔ (الجامع الصغیر للسیوطی بحوالہ احکام القرآن للمفتی محمد شفیع جلد۳،ص۱۹۵)
ایک روایت میں ہے: اَلْقَلْبُ مُمِلٌّ کَمَا تَمُلُّ الْأبْدَانُ فَاطْلُبوا بِہَا طَرَائِقَ الْحِکْمَةِ․ یعنی دل اسی طرح اکتانے لگتا ہے، جیسے بدن تھک جاتے ہیں؛ لہٰذا اس کی تفریح کے لیے حکیمانہ طریقے تلاش کیا کرو۔ (احکام القرآن للمفتی محمد شفیع ،ج۳،ص۱۹۵)
یہ قلبی خوشی اگر ا نسان کو غرور وتکبر پر آمادہ کردے، تواس طرح کی فرحت شرعی نقطئہ نظر سے ممنوع ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ (القصص۷۶) کہ مت اِتراؤ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے: انَّہ لَفَرِحٌ فَخُوْر (ہود۱۰) کہ بلاشبہ وہ اترانے والا اور شیخی بگھارنے والا بن جاتا ہے۔
اسی طرح ”مزاح“ مزح سے بنا ہے مزاح کے بارے میں ملاعلی قاری فرماتے ہیں: اَلْمِزَاحُ اِنْبِسَاطٌ مَعَ الْغَیْرِ مِنْ غَیْرِ اِیْذَاءٍ فانْ بَلَغَ الایْذَاءَ یَکُوْنُ سُخْرِیَّة (حاشیہ مشکوٰة المصابیح، ص۴۱۶) کہ مزاح ایسے عمل کو کہتے ہیں، جس کے ذریعہ دوسرے کے ساتھ مل کر خوش طبعی حاصل ہوسکے۔ اس طور پر کہ اس عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ اور اگر وہ خوش طبعی کسی کے لیے باعثِ تکلیف ہوجائے، تو اسے مزاح نہیں؛ بلکہ ”سخریہ“ یعنی مذاق اڑانا کہیں گے۔
مزاح اور زندہ دلی وخوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہوجانا نازیبا اور مضر ہے،اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنادیتی ہے۔ بسا اوقات ہمجولیوں اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لیے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان وشوکت کے باوجود، بسا اوقات اپنے جاں نثاروں اور نیازمندوں سے مزاح فرماتے تھے۔ ذیل کی احادیث سے اندازہ لگایا جاسکتاہے، کہ آپ کا پرشفقت مزاح کس طرح ہواکرتا تھا۔
۱- عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَة قَالَ: قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ انَّکَ لَتُدَاعِبنَا قَالَ انّی لاَ أقُوْلُ الاَّ حَقًا․ (ترمذی۲/۲۰) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: کہ میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں (یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی)۔
۲- عَنْ أنَسٍ قَالَ انْ کَانَ النَّبِیُّ صَلی اللّٰہ علیہ وسلم لَیُخَالِطُنَا حَتٰی یَقُوْلَ لِأخٍ لِیْ صَغِیْرٍ یَا أبا عُمَیْرُ! مَا فُعِلَ النُّغَیْرُ․ کَانَ لَہ نُغَیْرٌ یَلْعَبُ بِہ فَمَاتَ․متفق علیہ (مشکوٰة المصابیح ۴۱۶، ترمذی ۲/۱۹)
ترجمہ: (آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اتنے بلند تھے کہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں سے مکمل اختلاط رکھتے تھے؛ یہاں تک کہ ازراہِ شفقت ومزاح ہمارے چھوٹے بھائی سے کہتے تھے: اے ابوعمیر! نغیر بلبل کا کیا ہوا؟ ان کے چھوٹے بھائی کے پاس ایک بلبل تھا؛ جس سے وہ کھیلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ مرگیا۔
۳- عَنْ أنَسٍ أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ لَاِمْرَأة عَجُوْزٌ انَّہ لاَ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَجُوْزٌ، فَقَالَتْ وَمَالَہُنَّ وَکَانَتْ تَقْرَءُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَہَا أمَا تَقْرَئِیْنَ الْقُرْآنَ ”انّا أنْشَأنَاہُنَّ انْشَاءً ا فَجَعَلْنَاہُنَّ أبْکَارًا“ (مسند رزین بہ حوالہ مشکوٰة ص۴۱۶)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا: کہ برھیا جنت میں نہیں جائے گی؛ ان بے چاری نے عرض کیا ان بوڑھیوں میں کیا ایسی بات ہے؛ جس کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جاسکیں گی۔ وہ بوڑھی قرآن خواں تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی ؟ ”اِنَّا أنْشْأنَاہُنَّ انْشَاءً ا فَجَعَلْنَاہُنَّ أبْکَارًا“ کہ جنت کی عورتوں کی ہم نئے سرے سے نشوونما کریں گے اور ان کو نوخیز دوشیزائیں بنادیں گے۔
۴- عَنْ أنَسٍ اَنَّ رَجُلاً اِسْتَحْمَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: انّی حَامِلُکَ عَلیٰ وَلَدِ نَاقَةٍ، فَقَالَ: مَا أصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فقالَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وَہَلْ تَلِدُ الابِلُ الاَّ النُّوقَ․ (ترمذی۲/۲۰، ابوداؤد،ص۶۸۲)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ مانگا؛ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں! میں تم کو سواری کے لیے اونٹ کا بچہ دوں گا، اس شخص نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی ہی کے بچے ہوتے ہیں۔ (یعنی ہراونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے جو اونٹ بھی دیا جائے گا، وہ اونٹنی کا بچہ ہی ہوگا)
۵- عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لَہ: یَاذَا الأذْنَیْنِ! (ترمذی۲/۲۰)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں (ازراہِ مزاح وشفقت) یا ذالاذنین اے دو کان والے کہہ کر مخاطب کیا۔ (حالاں کہ ہر شخص دوکان والا ہوتاہے؛ لیکن حدیث کے ظاہر سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ شاید یہ انفرادی صفت انھیں کی خصوصیت ہے۔ دوسرے میں نہیں پائی جاتی)
۶- حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ اسی درمیان آپ کو گھریلومعاملات میں حضرت عائشہ کی آواز بلند محسوس ہوئی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ کی طرف مارنے کے لیے لپکے اور اپنی بچی حضرت عائشہ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں؟! یہ دیکھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو ان کے والد کی مار سے بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران حضرت ابوبکر غصّہ کی حالت میں گھر سے نکل گئے۔ حضرت ابوبکر کونکلتے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا: کیا خیال ہے؟ میں نے تمھیں اس شخص سے بچایا کہ نہیں؟ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کچھ دنوں تک ناراض رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حاضر ہوکر اندر آنے کی اجازت چاہی، گھر جاکر محسوس کیا کہ آنحضرت اور حضرت عائشہ کے مابین صلح ہوچکی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ: آپ دونوں مجھے اپنی صلح میں شامل کرلیجیے؛ جس طرح آپ دونوں نے مجھے اپنے جھگڑے میں شامل کیا تھا، تو آں حضرت نے فرمایا کہ: جی ہاں آپ کو صلح میں شامل کرلیا(ابوداؤد۲۸۲)۔ (اس حدیث میں ابوّت کے رشتہ کے حامل بزرگ حضرت ابوبکر کو محض ”الرجل“ کہنے سے جو مزاح پیدا ہوتا ہے، اسے کوئی بھی شخص محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا)۔
۷- عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأشْجَعِیْ قَالَ أتَیْتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِیْ غَزْوَةِ تبوکَ وَہُوَ فِیْ قُبَّةٍ مِنْ أدَمٍ فسلَّمْتُ فَرَدَّ وَقَالَ اُدْخُلْ فَقُلْتُ أکُلِّی یا رسولَ اللّٰہ، قَالَ کلُّکَ فَدَخَلْتُ (ابودواؤد۶۸۳)
ترجمہ: حضرت عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غزوئہ تبوک میں حاضر ہوا، جب کہ آپ چمرے سے بنے سائبان میں قیام پذیر تھے۔ میں نے سلام کیا، تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا آجاؤ میں نے عرض کیا: پورا کا پورا آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں پورا کاپورا۔ (جگہ کی قلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان صحابی نے جس محبت کے ساتھ مزاح کیا آں حضرت نے کمالِ اخلاق مندی سے انھیں کے مزاحیانہ اسلوب میں جواب دیا)۔
۸- حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص دیہات کے رہنے والے تھے، ان کا نام ازہر تھا، وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دیہات سے ہدیہ وتحفہ بھیجا کرتے تھے، تو آں حضرت بھی بازار سے ان کی ضرورت کی چیزیں انھیں دیا کرتے تھے۔ ایک دن جب وہ اپنے سامان بازار میں فروخت کررہے تھے، کہ ان کی نظر سے بچ کر آں حضرت نے ان کو پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ زاہر نے کہا کوئی ہے، جو مجھے ان سے چھڑائے۔ ذرا پیچھے دیکھا تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا، جوں ہی پہچانا، پوری طاقت سے اپنی پشت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے چمٹانے لگے اور حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ اس غلام کو کون خریدے گا؟ ازہر نے کہا: یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ فروخت کرتے وقت کھوٹا پائیں گے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مگر اللہ کی بارگاہ میں توکھوٹا نہیں ہے۔
مزاح کے جواز کے حدود:
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ: آداب کی رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھی مزاح کی نہ صرف گنجائش ہے؛ بلکہ مستحسن ہے اور اسوئہ نبوی کی اتباع ہے؛ لیکن اگرمزاح دوسرے آدمی کے لیے ناگواری اور اذیت کا باعث بن جائے، یا حد سے زیادہ ہنسی کا ذریعہ بن جائے یا مزاح کا عمل کبھی کبھار کے بجائے کثرت سے ہونے لگے، تو ایسے مزاح کی ممانعت ہوگی اور اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
آپس میں مذاق کرنا اگر دوسرے کے لیے باعث تکلیف نہ ہو، معاملہ برابر کا ہو؛ تو اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: ایک دن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرماتھے اور حضرت سودہ بھی تھیں، میں نے سالن پکایا اور حضرت سودہ سے کہا: آؤ کھانا کھائیں؛ انھوں نے انکار کیا۔ نشست اس طرح واقع ہوئی تھی، کہ ایک طرف وہ تھیں، دوسری طرف میں اور بیچ میں سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم۔ جب حضرت سودہ نے انکارکیا؛ تو میں نے کہا کہ: کھاتی ہوتو کھاؤ؛ نہیں تو منھ پر مل دوں گی۔ انھوں نے نہ کھایا، میں نے ان کے منھ پر مل دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں بیچ میں سے ہٹادیے؛ تاکہ حضرت سودہ اپنا بدلہ مجھ سے لے سکیں؛ چنانچہ انھوں نے بھی ایسا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے۔ (نسائی، ابن ماجہ) مسلمانوں کو تکلیف دینے، ان کا مذاق اڑانے، ان کی تحقیر کے سلسلے میں سخت ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: اَلْمُسْلِمُ أخُو الْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُہ وَلاَ یَخْذُلُہ وَلاَ یُحَقِّرُہ․ (صحیح مسلم) ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،اس پر کوئی ظلم وزیادتی نہ کرے۔ اس کو بے مدد نہ چھوڑے اور اس کو حقیر نہ جانے اورنہ اس کے ساتھ حقارت کابرتاؤ کرے۔ پھر آپ نے فرمایا: آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے، کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے، معلوم ہوا کہ ایسے امورانجام دینا؛ جن سے چہروں پر مسکراہٹ بکھرجائے، لوگ ہنسنے پر آمادہ ہوجائیں، کچھ دیر کے لیے دل سے ہموم وغموم اور غبار نکل جائیں، فکرِ آخرت برقرار رہے اور کسی کی تکلیف کا سبب نہ بنے اس کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہے؛ بلکہ اسے مستحسن بھی کہا جاسکتا ہے۔
حضرت مولانا احمدعلی محدث سہارنپوری تحریر فرماتے ہیں: کثرت سے مستقل مزاح اور خوش طبعی میں لگے رہنا ممنوع ہے؛ اس لیے کہ وہ بہت زیادہ ہنسنے کا داعیہ پیدا کرتا ہے، قلب میں فساد پیداکرتا ہے، ذکر اللہ سے غافل کرتا ہے اور ہیبت کو ختم کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھاکہ کبھی کبھار آپ کسی مصلحت یا مخاطب کو مانوس کرنے کے لیے مزاح فرمایا کرتے تھے اور اس طرح کا مزاح پسندیدہ سنت ہے(حاشیہ ترمذی)۔
تکلیف دہ مزاح کی ممانعت کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے: حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو اور اس سے مذاق نہ کرو اور اس سے تم ایسا وعدہ نہ کرو جس کی وعدہ خلافی کرو(ترمذی ۲/۲۰)۔ اس حدیث میں دیگر تکلیف دہ اعمال (جھگڑا، وعدہ خلافی) کے ساتھ اس مزاح کی بھی ممانعت کی گئی ہے؛ جو اذیّت ناک اور ناگواری کا باعث ہو۔ مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزاح کے طور پر جو گفتگو کی جائے، وہ ظرافت ولطافت کے باوصف فی نفسہ صحیح اور درست ہو، خوش طبعی کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا بھی مذموم ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: وَیْلٌ لِلَّذِیْ یُحَدِّثُ فَیَکْذِبُ لِیَضْحَکَ بِہ الْقَوْمُ وَیْلٌ لَہ وَیْلٌ لَہ․ (ابوداؤد:۶۸۱) کہ اس شخص کے لیے ہلاکت ہو، جو دورانِ گفتگو جھوٹی باتیں کرتا ہے، محض اس لیے کہ وہ لوگوں کو ان باتوں سے ہنسائے۔ اس کے لیے ہلاکت ہو، اس کے لیے ہلاکت ہو۔
معلوم ہوا کہ مزاح میں اگر جھوٹ یا تمسخر واستہزاء کا پہلو ہو، تو وہ موجبِ ہلاکت ہے۔ تمسخر واستہزاء کفار کا شیوہ ہے، جو وہ اہل ایمان؛ بلکہ انبیاء کرام صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے ۔ اہل ایمان کے لیے اس کی قطعاً گنجائش نہیں۔ مزاح سے ایک درجہ آگے مذاق کا معاملہ ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو مغموم دیکھتے، تو دل لگی کے ذریعہ اسے خوش فرماتے (مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰة المصابیح:۲۶۸) ایک مرتبہ حضرت ابوبکر نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین دیکھا، تو اپنا ایک واقعہ سناکر خوش کیا۔ (تکملہ فتح الملہم ج:۱،ص:۱۷۸)
مزاحیہ پروگرام اور مزاحیہ مشاعرہ:
مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ مزاح فی نفسہ اگر آداب واخلاق کے دائرہ میں ہوتو درست ہے۔ یہی حال مزاح پر مشتمل اشعار اور مزاحیہ شعرگوئی کا بھی ہے۔ وزن اور قافیہ کی رعایت کرتے ہوئے بالارادہ کہے گئے کلام کو شعر کہتے ہیں(فتح الباری:۱۰/۶۲۸) اصل لغت میں شعر ہر اس کلام کو کہا جاتا ہے، جس میں محض خیالی اور غیرتحقیقی مضامین بیان کیے گئے ہوں۔ فن منطق میں بھی ایسے ہی مضامین کو ”قضا یا شعریہ“ یا ادلہٴ شعریہ کہا جاتا ہے۔
چوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ نبوت سے شعرگوئی میل نہیں کھاتی تھی؛ اس لیے مشیّت الٰہی نے خاص حکمت کے تحت آپ کو اس سے بالکل محفوظ رکھا۔ (یٰسین:۶۹)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر کے بارے میں ذکر آیا؛ تو آپ نے فرمایا کہ شعر بھی کلام ہے،اس میں جو اچھا ہے، وہ اچھا ہے اور جو برا ہے، وہ برا ہے(رواہ الدارقطنی، مشکوٰة ۱۱/۴۱۰)۔
شرائط وآداب کے ساتھ فی نفسہ مزاح کا درست ہونا (چاہے وہ نظم میں ہو یا نثر میں) الگ چیز ہے اور باضابطہ مزاحیہ پروگرام منعقد کرنا یا مزاحیہ مشاعرہ منعقد کرنا الگ چیز ہے۔ ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ پروگرام کا انعقاد اہتمامِ زائد کی علامت ہے۔ اور مباح چیزوں کا ضرورت سے زائد اہتمام کرنا، اسے زمرئہ کراہت میں داخل کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اہتمام مزاح اور تفریح کے لیے ہورہا ہے اور تفریح جب حد اعتدال سے بڑھے گی؛ تو وہ لہو ولعب میں داخل ہوجائے گی اور لہب ولعب سے قرآن کریم میں ممانعت کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایسی مجلسوں میں اس قدر انہماک ہوتا ہے کہ عام طور پر نماز ودیگر فرائض کا پاس وخیال بھی نہیں رہتا۔ شور وشغب ہوتا ہے، تالیاں پیٹی جاتی ہیں۔ مردوزن کا بے محابا اختلاط ہوتا ہے۔ ہنسانے کے لیے جھوٹی باتوں کا سہارا لیاجاتا ہے۔ لہٰذا ایسی مجالس کا انعقاد کراہت سے خالی نہیں اور اگر عملی طور پر ایسی مجالس میں محرمات وناجائز امور کا ارتکاب ہو؛ تو اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ہے۔ حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن ابی العاص کسی ختنہ میں بلائے گئے، آپ نے انکار فرمادیا، کسی نے وجہ دریافت کی؛ تو آپ نے فرمایا کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ مبارک میں ہم لوگ ختنہ میں نہیں جاتے تھے اور نہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے (احمد، اصلاح الرسوم ۱۱۰)
معلوم ہوا کہ جس کام کا اہتمام سلف صالحین سے ثابت نہیں اس کے لیے اہتمام کرنا اور بلانا پسندیدہ نہیں ہے۔ اتفاقیہ طور پر حسبِ موقع مزاحیہ گفتگو کرلینا اور تفریحی اشعار کہہ سن لینا اگرچہ جائز ہے؛ لیکن اس کے لیے اہتمام سے اجتماع کرنا اوراس میں گھنٹوں لگانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَا لاَیَعْنِیْہِ (ترمذی) یعنی آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ لایعنی امور کو ترک کردے۔ حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری کے حوالہ سے یہ بات آچکی ہے کہ مستقل طور پر مزاح میں لگا رہنا ممنوع ہے؛ اس لیے کہ وہ زیادہ ہنسنے کا سبب، قلب کے بگاڑ کا ذریعہ اور ذکر اللہ سے اعراض کا موجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار ہی مزاح فرماتے تھے، وہ بھی کسی خاص مصلحت کے لیے یا مخاطب کو مانوس کرنے کے لیے (حاشیہ ترمذی۲/۲۰)
مزاحیہ کہانی کا شرعی حکم:
ماحیہ کہانیاں جو پندونصیحت پر مشتمل ہوں اور مزاح اس میں ضمنی طور پر ہو، یا مزاح کے پہلو بہ پہلو حکمت وموعظت اور سبق آموز باتیں بھی ہوں؛ تو ایسی کہانیاں لکھنے کی گنجائش ہے۔ جب لکھنے کی گنجائش ہے، تو پڑھنے ، شائع کرنے ، خریدوفروخت کرنے کی بھی گنجائش ہوگی؛ لیکن شرط یہ ہے کہ تمام امور فرائض وواجبات، سنن وغیرہ غفلت کا سبب نہ بنیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: حکمت ودانائی کی باتیں مومن کے لیے متاعِ گمشدہ ہے، وہ جہاں مل جائے؛ تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔
اس کے علاوہ ادب کے نام پر ہمارے پاس جو اسلاف کے زمانے سے ذخیرے چلے آرہے ہیں؛ وہ بھی کچھ نہ کچھ مزاحیہ حکایتوں پر مشتمل ہیں اور اکابر کے نزدیک ان کے پڑھنے پڑھانے کا کسی نہ کسی حد تک سلسلہ رہا ہے۔ اس سلسلے میں ابوالفرج اصفہانی کی ”کتاب الأغانی“ جاحظ کی ”کتاب البخلاء“ اور عبداللہ ابن المقفع کی ”کلیلہ ودمنہ“ کا نام لیاجاسکتا ہے؛ بلکہ موخرالذکر کتاب تو بہت سے مرکزی مدارس وجامعات میں داخل درس ہے۔ اسی طرح مشہور محقق عالم دین علامہ ابوالفرج ابن الجوازی نے تفریحی مضامین پر مشتمل ایک مستقل کتاب ”أخْبارُ الْحَمْقٰی والمُغفَّلین“ کے نام سے تحریر فرمائی ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ عربی شاعری کے جوذخیرے موجود ہیں؛ ان میں مزاحیہ شاعری، عشقیہ شاعری، بلکہ فسقیہ وبیہودہ شاعری کا بھی ایک معتد بہ حصہ ہے۔ امرء القیس، حطّیہ اور ابولطیب متنبی کی شاعری اس کے لیے شاہد عدل ہے؛ لیکن محض ا علیٰ مقاصد کے لیے اسے انگیز کیاگیاہے؛ لہٰذا حکمت ودانائی پر مبنی مزاحیہ کہانیوں کو بھی ایک حد تک انگیز کیا جاسکتا ہے؛ لیکن اگر مزاح برائے مزاح ہو، حکمت وموعظت سے خالی ہو، حقائق سے کوسوں دور ہو، غلط بیانی اور جھوٹ کی آمیزش ہو، دوسروں کی کردارکشی کی گئی ہو، تو ایسی مزاحیہ کہانیاں نہ تو لکھنا درست، نہ اس کی خریدوفروخت درست ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے لہوالحدیث (کھیل کی باتوں) کے خریدنے کی مذمت فرمائی ہے۔ درّمنثور میں روایت ہے کہ نضربن حارث مشرکین میں سے ایک بڑا تاجر تھا اور تجارت کے لیے مختلف ملکوں کا سفر کیا کرتا تھا۔ وہ ملک فارس سے شاہانِ عجم کسریٰ وغیرہ کے تاریخی قصّے خریدکر لایا اور مکہ کے مشرکین سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم کو عاد وثمود وغیرہ کے واقعات سناتے ہیں۔ میں تمھیں ان سے بہتر رستم اور اسفند یار اور دوسرے شاہانِ فارس کے قصے سناتا ہوں، یہ لوگ اس کو شوق ورغبت سے سننے لگے؛ کیوں کہ اس میں کوئی تعلیم تو تھی نہیں؛ جس پرعمل کرنے کی محنت اٹھانی پڑے، صرف لذیذ قسم کی کہانیاں تھیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے مشرکین جو اس سے پہلے کلام الٰہی کے اعجاز اوریکتائی کی وجہ سے اس کو سننے کی رغبت رکھتے تھے اور چوری چوری سنا کرتے تھے۔ ان لوگوں کو قرآن سے اعراض کا بہانہ ہاتھ آگیا۔
اگر مزاح کے پہلوؤں کا حامل، مفید امور پر مشتمل کوئی کہانی ہو، تو اسے افادیاتی نقطئہ نظر سے انگیز کیا جاسکتا ہے۔ ایک بار آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو عرب کی تیرہ عورتوں اور ان کے شوہروں کا قصہ سنایا جو ”حدیثِ امّ ِذرح“ کے نام سے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔
لطیفہ گوئی اور مزاح کو ذریعہٴ معاش بنانا:
کبھی کبھار لطیفہ کہہ دینے یا مزاح اور تفریح کرلینے کی تو گنجائش ہے؛ لیکن مستقل لطیفہ گوئی کرنا اور کو ذریعہٴ معاش بنالینا، یہ اس مقصد حیات کے برخلاف ہے، جو اسلام افراد اورمعاشرے میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور مستقل لطیفہ گوئی اور مزاح وتفریح میں مشغول رہنا انسان کو فکرِ آخرت، ذکر اللہ، عبادت اور تلاوت قرآن سے غافل کردیتا ہے۔ زیادہ ہنسنے ہنسانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے۔ انھیں اسباب کی وجہ سے شعر وشاعری کی مذمت کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انسان اپنا پیٹ پیپ سے بھرے، یہ اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے بھرے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ: شعر جب ذکر اللہ، قرآن کریم کی تلاوت اور علم کے اشتغال پر غالب آجائے، اور اگر شعر مغلوب ہے تو پھر برا نہیں۔ یہی حال لطیفہ گوئی اور مزاح نویسی کا ہے۔ اس کو مستقل پیشہ بنالینا انہماک کی دلیل ہے اور ایسی چیزوں میں غالب انہماک ممنوع ہے؛ لہٰذا اس کی اجرت وصول کرنا بھی درست نہیں، ازخود کوئی بطور انعام کے دے دے، تو اس کے لینے کی گنجائش ہے۔
بہ تکلف قہقہہ لگانے کی مجلسوں میں شرکت:
ہنسی کے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور بلا موقع اور محل تکلف سے ہنسنا اور قہقہہ لگانا فطرت کے خلاف عمل ہے۔ موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی رائے میں اگرچہ ہنسنا انسانی صحت کی برقراری اور اس کو چست ونشیط رکھنے کے لیے معاون فعل ہے، اس کے لیے خاص طور پر ہنسنے کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں لوگ بہ تکلف قہقہہ لگاتے ہیں اور دیر تک ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں؛ لیکن یہ عمل شرعی لحاظ سے مناسب نہیں؛ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لاَتُکْثِرِ الضِّحْکَ فَانَّ کَثْرَةَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ (ترمذی، مشکوٰة:۴۴) کہ تم زیادہ مت ہنسا کرو، اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ قہقہہ لگانا یہاں تک کہ کھلکھلاکر ہنسنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جو بالیقین ایمان والوں کے لیے ہر عمل میں بہترین اسوہ ہیں) سے ثابت نہیں؛ بلکہ آپ خوشی کے مواقع پر صرف زیر لب مسکرایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طور پر کھل کھلاکر ہنستے ہوئے کہ آپ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر آجائے، کبھی نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف تبسم فرمایا کرتے تھے (بخاری، مشکوٰة ۴۰۶)
معلوم ہوا کہ اگر سلسلہٴ کلام میں کوئی تعجب خیز، حیرت انگیز یا مضحکہ خیز بات زیر تذکرہ آجائے؛ تو ان پر ہنسنے اور مسکرانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ ایسے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا چاہیے؛ تاکہ دل کا بوجھ ہلکا اور غبار کم ہو اور موجودہ زمانے کی تحقیق کے مطابق صحت، مستعدی اور نشاط میں اضافہ ہو؛ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہنسنا اور مسکرانا غافلین کا سا نہ ہو؛ اس لیے کہ اس طرح کا ہنسنا دلوں کو مردہ کردیتا ہے۔ حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہنسا بھی کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! بیشک! وہ حضرات ہنسنے کے موقع پر ہنستے بھی تھے؛ لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑ سے زیادہ عظیم ہوتا تھا۔ حضرت بلال ابن سعد کا بیان ہے کہ میں نے صحابہٴ کرام کو دیکھا کہ وہ مقررہ نشانوں کے درمیان دوڑا بھی کرتے تھے اور باہم ہنستے ہنساتے بھی تھے۔ پھر جب رات ہوتی تو وہ راتوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔ (شرح السنة، مشکوٰة ۴۰۷)
لہٰذا موجودہ دور کے ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق عمل کرتے ہوئے بہ تکلف قہقہے لگانے کی مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے؛ بلکہ بے تکلف فطری انداز میں جس قدر انسان ہنس لے، وہی اس کی صحت وتندرستی کے لیے کافی ہے؛ اس لیے کہ زیادہ ہنسنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صحت وتندرستی کا سبب نہیں؛ بلکہ دلوں کے مردہ ہونے کا سبب ہے۔
کھیل کود سے متعلق احکام:
(الف) اصولی ہدایت: اسلام انسان کو ایک بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے اور کھیل وکود اور لہوولعب پرمشتمل زندگی کی مذمت کرتا ہے۔ بامقصد زندگی جس کی اساس ہمہ وقت اللہ کی خوشنودی کی جستجو، تعمیر آخرت کی فکر مندی اور لہولعب سے اِعراض ہو؛ وہ زندگی اہل ایمان کی پہچان ہے اور جس کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت و بے پرواہی ہو وہ کفار کا شعار ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المومنون:۳) کہ اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔
لہٰذا شرعی نقطئہ نظر سے ہر وہ کام، قابلِ تعریف ہے؛ جو انسان کو مقصدِ اصلی پر گامزن رکھے۔ ہر اس کام کی اجازت ہے، جس میں دنیا وآخرت کا یقینی فائدہ ہو۔ یا کم از کم دنیا وآخرت کا خسارہ نہ ہو۔ کھیلوں میں سے بھی صرف انھیں اقسام کی اجازت ہے، جو جسمانی یا روحانی فوائد کا حامل ہو۔ وہ کھیل جو محض تضیعِ اوقات کا ذریعہ ہوں، فکرِ آخرت سے غافل کرنے والے ہوں؛ وہ کھیل جو دوسروں کے ساتھ دھوکہ فریب یا ضررسانی پر مبنی ہوں؛ ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کُلُّ مَا یَلْہُوبِہ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ الَّا رَمْیَةٌ بِقَوْسِہ وَتَأدِیْبُہ فَرَسَہ وَمُلاَعَبَتُہ اِمْرَأتُہ فَانَّہُنَّ مِنَ الْحَقِّ․ (ترمذی، ابن ماجہ، فتح الباری ۱۱ صلی اللہ علیہ وسلم۹۱) یعنی مرد مومن کا ہر کھیل بیکار ہے سوائے تین چیز کے: (۱) تیر اندازی کرنا، (۲) گھوڑے سدھانا، (۳) اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا؛ کیوں کہ یہ تینوں کھیل حق ہیں۔
(ب) لباس وپوشاک سے متعلق: لباس اور پوشاک کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ کھلاڑی کھیل کے درمیان ایسا لباس پہنے، جو ساتر ہو یعنی جسم کا وہ حصہ چھپ جائے، جن کا چھپانا واجب ہے، یعنی مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک اور عورت کے لیے ہتھیلی اور چہرہ کو چھوڑ کر پورا جسم ستر میں داخل ہے، ان کا ڈھکا ہوا ہونا واجب ہے۔ لباس اتنا باریک اور چست بھی نہ ہو کہ جسم کے اعضا نمایاں ہوں۔ اسی طرح اس لباس میں کفّار کے ساتھ ایسی مشابہت نہ ہو کہ اس لباس کو دیکھنے سے کوئی خاص قوم سمجھ میں آتی ہو۔ اور نہ اس لباس کا تعلق غیر اسلامی شعار سے ہو۔ مردوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ لباس ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَاأسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الازَارِ فِی النَّارِ (بخاری، مشکوٰة ۳۷۳) کہ جو شخص بھی ٹخنوں سے نیچے پاجامہ پہنے گا، اسے جہنم کی آگ میں جلنا پڑے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے: کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو زعفرانی رنگ کا کپڑا پہنے دیکھا، تو آپ نے فرمایا : یہ کفار کا لباس ہے اس لیے اسے مت پہنو۔ (مسلم، مشکوٰة ۳۷۴) حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب سے منقول روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ (احمد،ابوداؤد، مشکوٰة ۳۷۴) کہ جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی اس کا تعلق اسی قوم کے ساتھ سمجھا جائے گا۔
(ج) پسندیدہ کھیل:
۱- تیراندازی اور نشانہ بازی: اصول شریعت کی روشنی میں مروّجہ کھیلوں میں مندرجہ کھیل مستحب اورپسندیدہ ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے بعض کی اہمیت وجوب تک پہنچ جاتی ہے۔ نشانہ بازی (چاہے وہ تیر کے ذریعہ ہو یا نیزہ، بندوق اور پستول یا کسی اور ہتھیار کے ذریعہ ہو۔ احادیث میں اس کے فضائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے سیکھنے کو باعثِ اجر وثواب قرار دیاگیا ہے؛ یوں کہ یہ کھیل انسان کے ذاتی دفاع اور ملکی دفاع کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ کھیل جہاں جسم کی پھرتی، اعصاب کی مضبوطی اور نظر کی تیزی کا ذریعہ ہے۔ وہیں یہ خاص حالات میں، مثلاً بھیڑ کے وقت یا جہاد کے موقع پر دشمنوں سے مقابلہ آرائی کے کام آتا ہے۔ قرآن کریم میں باضابطہ مسلمانوں کو حکم دیاگیاہے: وَاَعِدُّو لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (الانفال) کہ اے مسلمانو! تمہارے بس میں جتنی قوت ہو، اسے کافروں کے لیے تیار کرکے رکھو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ”قوة“ کی تفسیر رمی (تیراندازی) سے کی ہے۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ألاَ أَنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ۔ یعنی خبردار ”قوة“ پھینکنا ہے۔ (مسلم، مشکوٰة ۳۳۶) اس پھینکنے میں جس طرح تیر کا پھینکنا داخل ہے، اسی طرح اس میں کسی بھی ہتھیار کے ذریعہ مطلوبہ چیز کو نشانہ بنانا، راکٹ، میزائل وغیرہ کوٹھیک نشانہ تک پہنچانا بھی داخل ہے اور ان میں سے ہر ایک کی مشق جہاں جسمانی لحاظ سے بہترین ورزش ہے، وہیں باعث اجر وثواب بھی ہے۔ (بذل المجہود:۱۱/۴۲۸) ایک حدیث میں آں حضرت نے ارشاد فرمایا: بے شک ایک تیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تین افراد کو جنت میں داخل کردیتا ہے۔ ایک تیر بنانے والا؛ جبکہ وہ تیر بنانے میں ثواب کی نیت رکھے۔ دوسرا تیر پھینکنے والا اور تیسرا پکڑنے والا، پس اے لوگو! تیر اندازی سیکھو (سنن دارمی، مشکوٰة ۳۳۷)۔
۲- سواری کی مشق: یہ کھیل بھی اسلام کا پسندیدہ کھیل ہے، اس سے بھی جسم کی پوری ورزش کے ساتھ انسان میں مہارت، ہمت وجرأت اور بلند حوصلہ جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں اور سفر میں اور جہاد میں بھی خوب کام آتا ہے، اگرچہ قرآن وحدیث میں عام طور پر گھوڑے کاذکر آیا ہے؛ مگر اس میں ہر وہ سواری مراد ہے؛ جو جہاد میں کام آسکے۔
جہاد کے اس اعلیٰ مقصد کے پیش نظر جو شخص گھوڑا پالے اس کے لیے بڑی بشارتیں ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑے باندھ کر رکھا، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے، تو اس گھوڑے کا تمام کھانا پینا حتی کہ گوبر، پیشاب، قیامت کے دن اس شخص کے نامہٴ اعمال میں نیکی کے طور پر شمار ہوگا۔ (بخاری، مشکوٰة۳۳۰)
مقاصد کے لحاظ سے گھوڑا رکھنے کی متعدد شکلیں ہوسکتی ہیں: ایک روایت میں اس پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے ”آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں، بعض کے لیے ثواب، بعض کے لیے باعث تحفظ، بعض کے لیے وبال۔ باعث ثواب تو وہ گھوڑے ہیں؛ جنھیں آدمی راہ خدا میں استعمال کرنے کے لیے تیار رکھتا ہے۔ ایسے گھوڑے اپنے پیٹ میں جو کچھ بھی اتارتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے عوض مالک کے لیے ثواب لکھ دیتا ہے․․․․ اور باعث تحفظ وہ گھوڑے ہیں جنھیں آدمی اپنی عزت کو برقرار رکھنے اور اللہ کی نعمت کے اظہار کے لیے رکھتا ہے اور گھوڑے کی پشت اور شکم سے متعلق جو حقوق وابستہ ہیں، انھیں فراموش نہیں کرتا۔ خواہ تنگی ہو یا فراخی اور باعثِ وبال وہ گھوڑے ہیں، جنھیں مالک نے ریا، غرور، تکبر اور اترانے کے لیے رکھا ہو، ایسے گھوڑے مالک کے لیے وبال ہیں۔ (مسلم کتاب الزکوٰة۲/۶۰)
احادیث طیبہ میں اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے اگرچہ گھوڑوں کے فضائل مذکور ہیں؛ مگر اشتراکِ علت کے پیش نظر ہر وہ سواری جو جہاد میں کام آتی ہو، یا ذاتی تحفظ اور اچھے مقاصد کے لیے آمد ورفت کے کام آتی ہو۔ اگر اسے بھی اچھی نیت سے چلانے کی مشق کی جائے؛ تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگی۔ جیسے: ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز، بحری جہاز، لڑاکا طیارہ، ٹینک، بکتربند گاڑیاں، جیپ کار، بس، موٹر سائیکل، سائیکل وغیرہ۔ ان سب سواریوں کے چلانے کی مشق اور ٹریننگ اسلامی نقطئہ نظر سے پسندیدہ کھیل ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ جائز اور نیک مقاصد کے لیے انھیں سیکھا جائے اور استعمال کیا جائے۔
۳- دوڑلگانا: اپنی صحت اور توانائی کے مطابق، ہلکی یا تیز دوڑ بہترین جسمانی ورزش ہے۔ اس کی افادیت پر سارے علماء اور ڈاکٹر متفق ہیں۔ احادیث سے بھی اس کا جواز؛ بلکہ استحباب مفہوم ہوتا ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لہوولعب ہے، سوائے چار چیزوں کے: (۱) آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا (۲) اپنے گھوڑے سدھانا (۳) دونشانوں کے درمیان پیدل دوڑنا (۴) تیراکی سیکھنا سکھانا۔ (کنزالعمال ۱۵/۲۱۱، الجامع الصغیر۵/۲۳)
پیدل دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابہٴ کرام عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے اور ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ سابق میں مشکوٰةُ المصابیح کے حوالہ سے شرح السنہ کی یہ روایت آچکی ہے کہ بلال بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے صحابہٴ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ (مشکوٰة ۴۰۷)
پیدل دوڑ میں مثالی شہرت رکھنے والے صحابی حضرت سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں: کہ ہم ایک سفر میں چلے جارہے تھے، ہمارے ساتھ ایک انصاری نوجوان بھی تھا، جو پیدل دوڑ میں کبھی کسی سے مات نہ کھاتا تھا، وہ راستہ میں کہنے لگا، ہے کوئی؟ جو مدینہ تک مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کرے، ہے کوئی دوڑ لگانے والا؟ سب نے اس سے کہا: تم نہ کسی شریف کی عزت کرتے ہو اور نہ کسی شریف آدمی سے ڈرتے ہو۔ وہ پلٹ کر کہنے لگا ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ میں نے یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رکھتے ہوئے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیجیے کہ میں ان سے دوڑلگاؤں۔ آپنے فرمایا ٹھیک ہے، اگر تم چاہو؛ چنانچہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑلگائی اور جیت گیا۔ (صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق اور زبیربن العوام میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت زبیر آگے نکل گئے، تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ دوڑ کا مقابلہ ہوا، تو حضرت فاروق آگے نکل گئے، توانھوں نے وہی جملہ دہرایا: ربِ کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ (کنزالعمال ۱۵/۲۲۴)
۴- بیوی کے ساتھ بے تکلّفانہ کھیل: مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ مختلف بے تکلفی کا کھیل بھی اسلام کی نظر میں مستحسن ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ میں نے آپ سے دوڑ لگائی اور آگے نکل گئی۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک سفر میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوڑلگائی اب میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا تھا تو آپ مجھ سے آگے نکل گئے اور آپ نے فرمایا یہ اس کے بدلہ میں ہے (سنن ابی داؤد)
مذکورہ حدیث نبوی سے بیوی کے ساتھ تفریح کرنے اور دوڑ لگانے دونوں کی افادیت سمجھ میں آتی ہے؛ لیکن واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دونوں واقعہ اس وقت کا ہے؛ جب کہ قافلہ آپ کے حکم سے آگے جاچکا تھا اور وہاں آں حضور اور حضرت عائشہ کے علاوہ کوئی نہ تھا، وہ تنہا تھے۔ کسی اور کی موجودگی میں ایسا نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ یہ حیا کے خلاف ہے۔
۵- نیزہ بازی: نیزہ زنی اور بھالا چلانا ایک مستحسن کھیل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ میرے حجرے کے دروازہ پر کھڑے ہوگئے۔ جب کہ کچھ حبشی نیزوں کے ساتھ مسجد کے باہر صحن میں نیزوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی چادر سے چھپارہے تھے اور میں آپ کے کان اور کندھوں کے درمیان حبشیوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی۔ (صحیح بخاری مع الفتح)
۶- تیراکی: تیرنے کی مشق ایک بہترین اور مکمل جسمانی ورزش ہے، جس میں جسم کے تمام اعضا وجوارح کی بھرپور ورزش ہوتی ہے، یہاں تک کہ سانس کی بھی ورزش ہوتی ہے۔ سیلاب آنے کی صورت میں ایک ماہر تیراک انسانیت کی بہترین خدمت کرسکتا ہے۔ نشیبی علاقوں میں عام طور پر قریب میں ندی نالے تالاب وغیرہ ہوتے ہیں اور ان میں ڈوبنے کے واقعات بھی عام طور پر پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسے حادثاتی مواقع پر ماہر تیراک لوگوں کی جان بچانے کی کامیاب کوشش کرسکتا ہے۔ اس سے جہادی تربیت کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے؛ کیوں کہ کسی بھی جنگ میں ندی نالے، تالاب اور دریا کو عبور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ ایک طبعی امر ہے۔ آج کل کی جنگوں میں سمندر کی ناکہ بندی کو دفاعی نقطئہ نظر سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا تیراکی جہاں تفریحِ طبع اور جسمانی ورزش کا عمدہ ذریعہ ہے، وہیں بہت سے دیگر سماجی ودماعی فوائد کا حامل بھی ہے۔ اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کا بہترین کھیل تیراکی ہے اور عورت کا بہترین کھیل سوت کاتنا۔ (کنزالعمال۱۵/۲۱۱) اسی لیے صحابہٴ کرام نہ صرف یہ کہ تیراکی کے ماہر تھے؛ بلکہ بسا اوقات تیراکی کا مقابلہ بھی کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ہم حالتِ احرام میں تھے کہ مجھ سے حضرت عمر کہنے لگے آؤ! میں تمہارے ساتھ غوطہ لگانے کا مقابلہ کروں، دیکھیں ہم میں سے کس کی سانس لمبی ہے (عوارف المعارف للسہروردی)
۷،۸- کُشتی اورکبڈی: اس کھیل میں ورزش کا بھرپور سامان ہے۔ اگر ستر کی رعایت اور انہماک کے بغیر کھیلا جائے، تو جائز ہوگا؛ بلکہ نیک مقصد کے لیے مستحسن قرار دیاجائے گا۔ عرب کا ایک مشہور پہلوان رُکانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی ٹھیرائی، تو آپ نے اس کو کشتی میں بچھاڑ دیا۔ (ابوداؤد فی المراسیل) مذکورہ تمام کھیل چوں کہ احادیث وآثار سے ثابت ہیں؛ اس لیے ان کے جواز؛ بلکہ استحباب میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا، اورکبڈی کا حکم بھی کشتی کی طرح ہے۔
ناپسندیدہ کھیل:
ان کے علاوہ جو کھیل کود رائج ہیں: ان کی شرعی حیثیت کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ جن کھیلوں کی احادیث و آثار میں صریح ممانعت کی گئی ہے، وہ سب ناجائز ہیں: جیسے نرد، شطرنج، کبوتربازی، اور جانوروں کو لڑانا۔
۱- نرد: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرد یعنی چوسر کھیلنے سے سختی سے منع فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے نرد شیر کا کھیل کھیلا، تو گویا اس نے اپنے ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خوں سے رنگ لیے (مسلم، مشکوٰة ۳۸۶) ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جس نے نرد یعنی چوسر کھیلا اس نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی (ابوداؤد)
۲- شطرنج: صحابہٴ کرام نے شطرنج کھیلنے سے صراحتاً منع فرمایا اور ظاہر ہے کہ صحابہٴ کرام نے شطرنج کی ممانعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوگی۔ (مرقاة المصابیح ۳۸۷) حضرت علی فرماتے ہیں کہ: شطرنج عجمیوں کا جوا ہے (بیہقی، مشکوٰة ۳۸۷) حضرت ابوموسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ: شطرنج گناہ گاروں کا کھیل ہے۔ انہی سے ایک شخص نے شطرنج کھیلنے کے بارے میں دریافت کیا؛ تو انھوں نے فرمایا: یہ باطل (بیکار کھیل) ہے اور اللہ تعالیٰ باطل کو پسند نہیں فرماتے (بیہقی، مشکوٰة ۸۷) انہی آثار و روایات کی وجہ سے حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام احمد ابن حنبل اس کے کھیلنے کو ناجائز کہتے ہیں۔ امام شافعی کی طرف اگرچہ جواز کی نسبت ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ ان کے نزدیک بھی مکروہ ہے۔ علامہ نووی نے شرح مسلم میں صراحت فرمائی: أمَّا الشِطْرَنْجُ فَمَکْرُوہٌ عِنْدَنَا لاَ حَرَامٌ․ اور یہ کراہت بھی مشروط ہے چند شرائط کے ساتھ کہ نماز اور جوابِ سلام سے غافل نہ کرے اور بہت نہ کھیلے۔ (التفسیر الأحمدی بحوالہٴ امداد الفتاویٰ۴/۲۴۱)
۳- کبوتربازی: احادیث کی روشنی میں یہ بھی ممنوع ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھا؛ تو فرمایا: شَیْطَانٌ یَتَّبِعُ شَیْطَانَةً کہ ایک شیطان دوسرے شیطان کے پیچھے دوڑا جارہا ہے۔ (ابوداؤد)
کنزالعمال کی ایک روایت میں ہے کہ جب دنیا میں سازوسامان کی فراوانی ہوئی اور لوگوں پر موٹاپا چڑھنے لگا، تو مدینہ طیبہ میں پہلی برائی یہ ظاہر ہوئی کہ لوگوں نے کبوتر بازی اور غلیل بازی شروع کردی۔ حضرت عثمان غنی کا زمانہ تھا؛ انھوں نے بنو لیث سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کو مدینہ منورہ میں محض اس کام کے لیے مقرر کیا کہ وہ کبوتر کے پرکاٹ دیں اور غلیلیں توڑ دیں۔
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ کبوتر پالنا انڈا یابچوں کے حصول کے لیے درست ہے؛ لیکن کبوتر بازی کرنا اگر جوے کے ساتھ ہو تو مکروہ ورنہ ناجائز ہے۔ (حاشیہ مشکوٰة)
۴- مرغ بازی، بٹیر بازی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح سے جانوروں کو آپس میں لڑانے کی ممانعت فرمائی ہے، چاہے مرغیوں کو لڑایا جائے یا بٹیر کو یا مینڈھے کو جس کے لڑانے کا معاشرے میں عام رواج ہے، یا کسی اور جانور کو لڑایا جائے۔ نَہٰی رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنِ التَّحْرِیْشِ بَیْنَ الْبَہَائِمِ (ترمذی، ابوداؤد) حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اپنے رسالہ ”جانوروں کے حقوق“ میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”مرغ بازی، بٹیر بازی،اور مینڈھے لڑانا اسی طرح کسی جانور کو لڑانا، سب اس میں داخل ہے اور سب حرام ہے کہ خواہ مخواہ ان کو تکلیف دینا ہے اور اسی کے حکم میں ہے، گاڑی بانوں کا بیلوں کو بھگانا کہ وہ بھی ہانپ جاتے ہیں اور بعض اوقات سواریوں کی چوٹ لگ جاتی ہے اور بجز تفاخر اور مقابلہ کے اس میں کوئی مصلحت نہیں اور گھوڑ دوڑ وغیرہ جب کہ اس میں جوانہ ہو، اس سے مستثنیٰ ہے کہ ان کی مشاقی میں مصلحت ہے۔“ (ارشاد الہائم فی حقوق البہائم ۱۹)
موجودہ زمانے کے چند کھیل:
۱- پتنگ بازی: جو حکم کبوتر کے پیچھے دوڑنے کا ہے، وہی حکم پتنگ کے پیچھے دوڑنے کا ہے؛ یعنی ناجائز۔ حدیث میں ایسے شخص کو شیطان قرار دیاگیا ہے۔ (ابوداؤد) اس میں بھی اور ناجائز کھیلوں کی طرح متعدد مفاسد ومضرتیں پائی جاتی ہیں اور بعض علاقوں میں خاص مواقع پر ”بسنت منانے“ کے عنوان سے وہ ہلڑبازی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ! اس کے علاوہ قوم کا لاکھوں کروڑوں روپے محض پتنگ بازی کے نذر ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات چھتوں سے گرکر جان کا ضیاع بھی ہوتا ہے، کٹے ہوئے پتنگ کو زبردستی لوٹ لیا جاتا ہے، بے پردگی الگ ہوتی ہے، ان امورِ قبیحہ کی وجہ سے پتنگ بازی بھی شرعی نقطئہ نظر سے ممنوع ہے۔
۲- تاش بازی: یہ کھیل بھی شرعی نقطئہ نظر سے ممنوع ہے؛ اس لیے کہ تاش عام طور پر باتصویر ہوا کرتے ہیں۔ تاش کھیلنا عام طور پر فاسق وفاجر لوگوں کا معمول ہے۔ بالعموم جوا اور قمار کی شمولیت ہوتی ہے۔ اس کھیل میں تفریح کی جگہ پرالٹا ذہنی تکان ہوتی ہے۔ اگر جوے کے بغیر بھی کھیلاجائے، تو شطرنج کے حکم میں ہوکر مکروہ تحریمی کہلائے گا۔ بعض احادیث میں شطرنج کی ممانعت آئی ہے۔ جو مصلحت شطرنج کو منع کرنے میں ہے، وہی بات تاش کھیلنے میں پائی جاتی ہے۔ جہاں تک معاملہ تعلیمی تاش کا ہے؛ تو یہ کھیل اگر جوے اور انہماکِ زائد سے پاک ہو، تو نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛ بلکہ مبتدیوں کے لیے یک گونہ مفید بھی ہے۔ (امداد الفتاوی)
۳- باکسنگ، فائٹنگ: موجودہ زمانہ میں باکسنگ مُکّا بازی، فری اسٹائل فائٹنگ کے جو مقابلے منعقد ہوتے ہیں، وہ شریعتِ اسلامی میں بالکل حرام ہیں، اسے جائز ورزش کا نام نہیں دیا جاسکتا، ایسے باکسنگ مقابلوں کو ٹی․وی پر براہِ راست نشر کرنا بھی جائز نہیں؛ کیوں کہ اس میں فریق مقابل کو شدید جسمانی اذیت پہنچانے کو جائز تصور کیاجاتا ہے؛ جس سے ہوسکتا ہے کہ مدِمقابل اندھے پن، سخت نقصان، دماغی چوٹ یا گہرے ٹوٹ پھوٹ؛ بلکہ موت سے بھی دوچار ہوجائے۔اس میں مارنے والے پراس نقصان کی کوئی ذمہ داری عاید نہیں ہوتی ہے، جیتنے والے کے حامیوں کو اس کی جیت پر خوشی اور مقابل کی اذیت پر مسرت ہوتی ہے، جو اسلام میں ہرحال میں حرام اور ناقابل قبول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلاَ تُلْقُوْا بِأیْدِیْکُمْ الیٰ التَّہْلُکَةِ یعنی اور تم اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو۔
۴- بیلوں کے ساتھ کشتی: اسی طرح بیلوں کے ساتھ کشتی جس میں تربیت یافتہ مسلح افراد اپنی مہارت سے بیل کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں، یہ بھی حرام ہے؛ کیوں کہ اس میں جانور کو ایذا پہنچاکر اور جسم میں نیزے بھونک کر قتل کیاجاتا ہے اور بعض اوقات بیل بھی مدِمقابل انسان کو ختم کردیتا ہے یہ عمل کسی بھی حال میں درست نہیں؛ اس لیے کہ روایت میں ایک بلی کو بھوکا مارنے پر جہنم میں ڈالنے کا مضمون آیا ہے۔
۵- کیرم بورڈ: یہ کھیل بھی اگر نہماک اور جوے کے بغیر کھیلا جائے تواس کی گنجائش ہے۔
۶- لوڈو: اگر اس میں ذی روح کی تصویر نہ ہو اور مذکورہ خرابیوں سے پاک ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
۷- ویڈیوگیم: اس کھیل کی مختلف شکلیں رائج ہیں: (۱) جس میں جاندار کی تصویریں نہ ہوں؛ بلکہ بے جان اشیاء مثلاً: ہیلی کاپٹر، جہاز، موٹر سائیکل، بس، ٹیکسی وغیرہ چلانے یا انھیں شکار کرنے کا کھیل ہو۔ یا جاندر کی تصویریں ہوں؛ مگر وہ اس قدر غیرواضح ہوں کہ انھیں تصویر نہ کہا جاسکے؛ بلکہ وہ محض ایک خاکہ کی شکل ہوں؛ تو ان دونوں شکلوں میں وقتی تفریح طبع کے لیے یا ذہن کی تیزی اورحاضر دماغی کے لیے۔ اس کھیل کی شرط کے ساتھ گنجائش ہے کہ مذکورہ ممانعتوں سے پاک ہو (۲) وہ بڑے ویڈیوگیم، جن میں جانداروں کی تصویریں واضح ہوں۔ یہ کھیل تصویر کی حرمت کی وجہ سے ناجائز ہوں گے۔ ہاکی، فٹ بال، والی بال، ٹینس، بیڈمنٹن، کرکٹ: اوپر ذکر کیے گئے کھیلوں کے علاوہ جو بھی کھیل ہے اگر وہ کسی معصیت، حرام یا ناجائز کام پرمشتمل ہوں، وہ بھی اس مقصد حرام کی وجہ سے ناجائز ہوں گے۔ مثلاً کسی کھیل میں سترکھولا جائے، یا اس کھیل میں جوابازی ہو، یا اس میں مرد وعورت کا مخلوط اجتماع ہو، یا اس میں موسیقی کا اہتمام ہو، یا کفار کی خاص مشابہت ہو، یا اس کی وجہ سے فرائض وواجبات میں غفلت ہورہی ہو۔
اسی طرح وہ کھیل جو بلامقصد محض وقت گزاری کے لیے کھیلے جاتے ہیں، وہ بھی ناجائز ہوں گے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں تو مومنوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بیکار باتوں سے اعراض کرتے ہیں(مومن ۱۳)۔ اس طرح کے کھیلوں کا اصولی طور پر حکم جاننے کے لیے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کا یہ فتویٰ چشم کشا ہے: (الف) وہ کھیل جس سے دینی یا دنیوی معتد بہا فائدہ مقصود نہ ہو وہ ناجائز ہے اور وہی حدیث کا مصداق ہے۔
(ب) جس کھیل سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ معتد بہا مقصود ہو، وہ جائز ہے۔ بشرطیکہ اس میں کوئی امر خلافِ شرع ملا ہوا نہ ہو اور من جملہ امور خلاف شرع تشبّہ بالکفار (کفار کی نقالی) بھی ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ گیند کا کھیل خواہ کرکٹ وغیرہ ہوں، یا دوسرے دیسی کھیل، فی نفسہ جائز ہیں؛ کیوں کہ ان سے تفریح طبع اور ورزش وتقویت ہوتی ہے، جو دنیوی اہم فائدہ بھی ہے اور دینی فوائد کے لیے سبب بھی؛ لیکن شرط یہی ہے کہ یہ کھیل اس طرح پر ہوں کہ ان میں کوئی امر خلاف شرع اور تشبہّ بالکفار نہ ہو، نہ ہی لباس کے طرزمیں انگریزیت ہو اور نہ گھٹنے کھلے ہوں، نہ اپنے نہ دوسروں کے اور نہ اس طرح اشتغال ہو کہ ضروریاتِ اسلام نماز وغیرہ میں خلل آئے، اگر کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ کرکٹ، ٹینس وغیرہ کھیل سکتا ہے، تو اس کے لیے جائز ہے ورنہ نہیں، آج کل چوں کہ عموماً یہ شرائط موجودہ کھیل میں نہیں ہیں؛ اس لیے ناجائز کہاجاتا ہے (امداد المفتیین جدید ۱۰۰۱،۱۰۰۲) معلوم ہوا کہ موجودہ دور میں مروّج کھیل مثلاً: ہاکی، فٹ بال، والی بال، ٹینس، بیڈ منٹن، کشتی، کرکٹ کی بعض شکلیں وغیرہ، جس میں بھرپور ورزش کا امکان ہوتا ہے، فی نفسہ ان کاکھیل درست ہے؛ لیکن چوں کہ عام طور پر ان کھیلوں میں اور ان کے لیے منعقد ہونے والے مقابلوں میں مندرجہ ذیل خرابیاں درآئی ہیں: (۱) انہماک زیادہ ہونا (۲) لوگ فرائض وواجبات سے غافل ہوجاتے ہیں (۳) اسراف وتبذیر کی نوبت آتی ہے (۴) وقت کا بے پناہ ضیاع ہوتا ہے (۵) اکثر کھیلوں میں سترپوشی کا اہتمام نہیں کیا جاتا ہے۔ (۶) اکثر جگہوں پر مرد وعورت کا اختلاط ہوتا ہے (۷) محرمات: مثلاً بدنظری، گانا، ڈانس، ہلڑبازی کا ارتکاب ہوتا ہے (۸) بعض کھیل کے ماہرین کو قومی ہیرو اور آئیڈیل کا درجہ دے کر نونہالوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیاجاتا ہے۔ (۹) سٹے بازی، جوے بازی، میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کا سیلاب بلاخیز آیا ہوا ہے؛ لہٰذا مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے ان کھیلوں کے عدمِ جواز کا حکم لگایا جاتا ہے۔
جیت ہار میں پیسے کی شرط: کھیل کی جیت ہار میں اگر پیسے کی شرط ہو، تو اس کی چار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک صورت ناجائز ہے، باقی تین صورتیں جائز ہیں: (۱) دو یا چند افراد کے مابین مقابلہ ہو اور ہر شخص پر یہ بات لازم قرار دی گئی ہو کہ وہ ہارنے کی صورت میں جیتنے والے کو متعین رقم دے گا اور اگر وہ جیت جائے تو دوسرے لوگ اسے رقم دیں گے۔ یہ صورت جوا ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔(۲) دو آدمیوں میں جیت ہار پر دوطرفہ شرط ہو؛ لیکن تیسرے آدمی کو بغیر کسی شرط کے شریک کرلیاگیا ہو کہ اگر وہ ہارجائے، تو اسے کچھ دینا نہ پڑے گا اور اگر وہ جیتے، تو باقی دونوں اسے حسب معاہدہ انعام دیں گے اور تیسرا شخص بھی اس پوزیشن میں ہوکہ اس کے جیتنے کی توقع کی جاسکتی ہو؛ یہ صورت بھی جائز ہے۔ (۴) دوشخص مقابلہ میں شریک ہوں اور جیتنے والے کو انعام کوئی کمپنی، حکومت، ادارہ یا کوئی اور شخص دے۔ یہ صورت بھی جائزہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب السباق ۶/۶۰۶ ، رد المحتار)
کھیل دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدنے کا حکم: کھیل دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم اور میدان میں داخل ہونے کے لیے ناظرین کو داخلہ کارڈ، یا ٹکٹ کی خریداری کرنی پڑتی ہے۔ اس کا شرعی حکم کھیل کی نوعیت سے وابستہ ہے۔ جائز کھیلوں کے لیے ٹکٹ کی خریداری اور انھیں دیکھنے کی گنجائش ہے اور ناجائز ومکروہ کھیل کے لیے نہ ٹکٹ خریدنے کی گنجائش ہے، نہ دیکھنے کی۔ کیوں کہ یہ آیت کریمہ ”یشتری لہو الحدیث“ کے وعید میں شامل ہے۔
سیر وسیاحت:
نئے مقامات کی دریافت، فرحت انگیز اور خوش کن مناظر، بلندوبالا عمارت، آثار قدیمہ اور تہذیبوں کے مدفن کھنڈرات کے مشاہدہ اور مقدّس مقامات ومذہبی اماکن کی زیارت کا داعیہ فطری ہے۔ اس سے انسان کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی جذبہ کے تحت سیر وسیاحت کا ہر زمانہ میں رواج رہا ہے، بہت سے علما ومحققین اور دانشوروں نے سیروسیاحت اور بادیہ پیمائی اور ہفت خوانِ عالم کی اسیری وصحرانوردی سے حاصل تجربات کو دوسروں تک بھی پہنچانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس طرح ایک مستقل فن ”سفرناموں“اور ”رحلات“ کی شکل میں سامنے آیا۔ دنیا ان سفرناموں اور رحلات کے ذریعہ ان تاریخی اسرار ورموز، تہذیب وتمدن اقوام وملل رسم ورواج، مختلف ممالک کے باشندوں کی زندگی کے حالات اور تجربات وغیرہ سے روشناس ہوئی کہ اگریہ سفرنامے نہ ہوتے، تو کبھی ان کا پتہ بھی نہ چلتا، نہ اس کا سراغ ملتا۔ ابن بطوطہ مغربی ابن حوقل، حکیم ناصر خسرو مسلمانوں میں شہرہ آفاق سیاح گذرے ہیں۔ خود ہندوستان کی تاریخ اور قدیم تمدن کے بیان میں مشہور چینی سیاح ہیان جیونگ کو دستاویزی حیثیت حاصل ہے۔
(الف) شرعی نقطئہ نظر سے سیروسیاحت جائز مقاصد اور جائز طریقہ پر درست ہے؛ بلکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ”سِیْرُوْا فِیْ الْأرْضِ“ کا حکم دیاگیا ہے۔ سورئہ نمل میں ارشاد ہے: قُلْ سِیْرُوا فِی الأرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْن(۴۹) کہ اے نبی کہہ دیجیے کہ روئے زمین پر سیر کرو اور دیکھو کہ جرم کرنے والوں کا انجام کیا ہوا۔ سورئہ روم میں ارشاد ہے: قُلْ سِیْرُوْا فِی الْأرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُ، کَانَ أکْثَرُہُمْ مُشْرِکِیْنَ(۴۲) اے نبی کہہ دیجیے! کہ تم روئے زمین پر گھومتے پھرو اور دیکھو کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو پہلے ہوا کرتے تھے، ان میں سے اکثر مشرک تھے۔
مذکورہ آیات اوراس مفہوم کی دوسری آیتوں میں غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”سیرفی الارض“ یا سیاحت نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛ بلکہ مطلوب ہے؛ لیکن یہ سیر بامقصد ہونا چاہیے، ”نیک لوگوں“ کے علاقوں اور ان کے آثار کو دیکھ کر اسبابِ انعام کی رغبت پیدا ہو،نیکی اور بھلائی کا شوق پیدا ہو۔ اور ”نافرمانوں“ کے مقامات اور ان کے آثار کو دیکھ اسابِ غضب سے بچنے کا داعیہ پیدا ہو، قلب میں رقت پیدا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک غزوے کے موقع پر قوم عاد کے علاقہ سے گذررہے تھے، تو آپ نے سواریوں کو تیز ہکانے کا حکم فرمایا اور چہرے پھیر لیے۔ اور استغفار کی کثرت کا حکم دیا، مطلق سیر کی کوئی ممانعت نہیں۔ اس کا جواز یا عدم جواز مقصد سفر سے وابستہ ہے۔ اگرمقاصد درست ہوں؛ تو سفر بھی درست ہوگا، اگر مقاصد غلط ہوں تو سفر بھی غلط ہوگا۔ حدیث نبوی: لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ الاَّ الیٰ ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ (بخاری مع الفتح ۱۱۸۹) کی تحقیق میں بھی علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ علامہ بدرالدینی عینی نے عمدة القاری (۳/۶۳) میں اپنے شیخ زین الدین عراقی سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث میں مساجد کے حکم کو بیان کرنا مقصود ہے۔ جہاں تک مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات کے قصد کا تعلق ہے، جیسے طلبِ علم کے لیے سفر کرنا، رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے سفر کرنا، تفریح یا مبارک آثار اور مقابر کی زیارت کے لیے سفر کرنا اور اس طرح کے دوسرے اسفار اس ممانعت میں داخل نہیں ہیں۔ (معارف السنن۳/۳۳۶)
(ب) جن علاقوں میں جان مال عزت وآبرو کو خطرہ لاحق ہو، ان علاقوں کا نہ تو خود سفر کرنا درست ہے۔ نہ اہل وعیال کو لے جانا درست ہے۔ ارشاد باری ہے: وَلاَ تُلْقُوْا بِأیْدِیْکُمْ الیٰ التَّہْلُکَةِ(بقرہ۱۹۵) اور تم اپنے آپ کو ہلاکت اور تباہی میں مت ڈالو۔ بخاری کی ایک روایت میں رات کے اوقات میں تنہا سفر کرنے سے منع فرمایاگیا ہے؛ کیوں کہ اس میں خطرہ ہے۔
(ج) جن مقامات پر مختلف ممالک کے سیاحوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ وہاں بعض غیرشرعی باتیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایسے مقامات پر نظر کی حفاظت کرتے ہوئے، جانے کی گنجائش ہے؛ لیکن چوں کہ ماحول کا اثر مسلم ہے۔ لہٰذا ایسے مقامات پر نہ جانا بہتر ہے،ایسے مقامات پر آداب کی رعایت کے ساتھ جس طرح جانے کی گنجائش ہے، فی نفسہ وہاں کے لیے سواری کرایہ پر لینے اور وہاں کاروباری نقطئہ نظر سے دکان لگانے کی بھی گنجائش ہے؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ حکومتوں اور تنظیموں کی طرف سے بے حیائی کے روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
(د) ٹورکمپنیاں قائم کرنے کا جواز یا عدم جواز مقاصد سے وابستہ ہے۔ جائز مقاصد کے لیے ٹورکمپنیاں قائم کرنا اور اسے چلانا درست ہے۔
۴- تعلیم وتذکیر کے لیے فلموں کا استعمال: فلم درحقیقت عکس بندی کا نام ہے۔ یہ عکس بندی جاندارچیزوں کی بھی ہوتی ہے اور بے جان چیزوں کی بھی۔ کسی بھی جاندار کی تصویر کھینچنا اور کھینچوانا کسی حال میں بھی درست نہیں ہے۔ خواہ ہاتھ کے ذریعہ ہو، یا قلم سے یا کیمرہ کے ذریعہ ہو یا پریس پر چھاپ کر۔ یا سانچہ او رمشین میں ڈھال کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً یَومَ القِیَامَةِ الْمُصَوِّرُوْن (بخاری حدیث ۵۹۵۴/باب التصاویر) قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد صحیح احادیث ہیں؛ جن میں تصویر سازی کی مذمت کی گئی ہے۔ ویڈویو اور کیمرہ کی تصویر بھی درحقیقت تصویر ہی ہے۔ اس سلسلہ میں عرب کے بعض غیرمحتاط علماء کے ضعیف اقوال کو وجہ جواز نہیں بنایا جاسکتا؛ لہٰذا جان دار چیزوں کی فلم بندی کسی حال میں درست نہیں ہے، ضرورت کے مواقع مستثنیٰ ہیں۔ تعلیمی مقاصد وتذکیری مقاصد ضرورت میں شامل نہیں۔
(۵) کارٹون دو طرح کے ہوتے ہیں: محض خاکہ جس میں چہرہ سروغیرہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرا کارٹون،جو اخباروں اور ٹیلویژن میں مروّج ہے۔ جس میں سر بھی ہوتا ہے، چہرہ بھی ہوتا ہے اگرچہ وہ مسخ شدہ ہوتا ہے۔ پہلے قسم کا کارٹون؛ بلکہ خاکے بنانا درست ہے۔
دوسرے قسم کے کارٹون جو موجودہ زمانے میں مروّج ہیں؛ وہ بھی تصویر کے حکم میں داخل ہیں، اگرچہ وہ تصویر بگڑی ہوئی ہوتی ہے؛ لہٰذا اس طرح ذی روح کا کارٹون بنانا درست نہیں؛ بلکہ تصویر سازی کے گناہ پر بھلی صورتوں کو بگاڑکر مذاق بنانے کا گناہ مستزاد ہوگا۔
(۶) کارٹون بنانا چوں کہ گناہ کا کام ہے؛ اس لیے اس کو ذریعہٴ آمدنی بنانا اور اس مقصد کے لیے ملازمت کرنا گناہ کے کاموں پر تعاون ہونے کی وجہ سے ممنوع ہوگا۔ ارشاد باری ہے: تَعَاوَنُوا عَلیٰ البِرِّ وَالتَّقْویٰ وَلاَ تَعَاوَنُوا عَلیٰ الاثْمِ وَالْعُدْوَانِ․ یعنی نیکی کے کاموں پر تعاون کرو۔ گناہ اور ظلم کے کاموں پر تعاون مت کرو۔ بعض فقہاء نے نابالغ بچوں کے لیے باتصویر کھلونوں سے کھیلنے کو درست قرار دیا ہے۔ نابالغ بچے اگر کارٹون کے پروگرام دیکھیں؛ تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ بچوں کا وقت ضائع نہ ہو اور ان کے دلوں سے تصویر کی کراہت نہ نکلے۔ (تصویر کے شرعی احکام: از: مفتی محمد شفیع)
اسٹیج ڈرامہ: بہتر مقاصد کے لیے اگراسٹیج ڈرامہ کیا جاتا ہے؛ تو اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت ہے کہ: اس میں (۱) دھوکہ نہ ہو (۲) موسیقی کا استعمال نہ ہو (۳) کسی مومن کی کردارکشی نہ کی گئی ہو (۴)شکلیں بگاڑی نہ جائیں (۵) انہماک زائد نہ ہو (۶) مردوزن کا اختلاط نہ ہو؛ لیکن موجودہ زمانے میں جو ”اسٹیج شو“ کے نام سے ڈرامے مروّج ہیں، وہ مفاسد سے پُرہوتے ہیں۔ اس لیے ممنوع ہیں۔
مدارس میں منعقد ہونے والے مکالمے، محادثے بالعموم اصلاحی تذکیری ہوتے ہیں اور مذکورہ مفاسد سے پاک ہوتے ہیں؛ اس لیے ان کی گنجائش ہے۔ تمام تفریحات اور کھیل کود میں اصل یہ ہے کہ انسان کسی حال میں اپنے مقصدِ حیات اور فکرِ آخرت سے غافل نہ ہو۔
واللّٰہ اعلم بالصواب
کرکٹ: اسلامی نقطئہ نظر سے
اسلام ایک معتدل افراط و تفریط سے پاک و صاف مذہب ہے، نہ حدوں کو پار کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی بالکل روکھا سوکھا مذہب ہے جیسا کہ بعض معاندین تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں کہ دین اسلام تو صرف مصلی و تسبیح کا ہوکررہنے کو کہتا ہے جب کہ مذہب اسلام اعتدال کو پسند کرتا ہے، میانہ روی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے (خیر الامور اوسٰطہا- شعب الایمان ۵/۱۶۹) یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کھیل کود، سیر و تفریح کی صرف اجازت ہی نہیں بلکہ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفریحات کو اپنا یا بھی ہے حق جل مجدہ قرآن شریف میں یوں فرماتا ہے ما جعل علیکم فی الدین من حرج- سورہٴ حج:۷۸ (اللہ تعالیٰ شانہ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی)۔
دوسری جگہ وہ ہم سے یوں گویا ہے یرید الله بکم الیسر ولا یرید بکم العسر- بقرہ: ۱۸۵ (اللہ تعالیٰ شانہ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے اور تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا) عید کے دن خوشی میں کچھ حبشی ڈھال اور نیزوں سے کھیل رہے تھے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا توٹھٹک گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”خذوا یا بنی ارفذة حتی تعلم الیہود والنصاری أن فی دیننا فسحة“ (جمع الجوامع :۱۲۱۸۱،فیض القدیر ۳۸۹۶) اے حبشی بچو! کھیلتے رہو تاکہ یہود و نصاری کو پتہ چل جائے کہ ہمارے دین میں وسعت ہے) اور بعض روایات میں یہ الفاظ آئے ہیں : ”الہوا والعبوا فانی اکوہ ان یری فی دینکم غلظة“ (فیض القدیر ۱۵۸۲)(کھیلتے کودتے رہو کیونکہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تمہارے دین میں سختی نظر آئے)۔
آپ سے بہت سے تفریحی کھیل ثابت ہیں مثلاً نشانہ بازی ، گھوڑ سواری، تیراکی، دوڑ، اچھے شعر سننا، سنانا وغیرہ اور آپ نے دیگر حضرات صحابہ کو ترغیب بھی فرمائی جیسے تیر اندازی، دوڑ، تیراکی وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہ بات یاد رہے وہ کھیل صرف ٹائم پاس کرنے کا ذریعہ نہ تھے؛ بلکہ کچھ دینی و دنیوی فوائد و ثمرات ان میں پنہا ہوتے تھے، ان کھیلوں سے یاد الٰہی سے غفلت، فرائض سے کوتاہی ، حقوق العباد کی ادائیگی سے تساہلی، وقت کا ضیاع، معاشی فقدان اور تعلیمی بحران کا تو سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔
حضرت امام بخاری نے فرمایا ”کل لہو باطل اذا شغلہ عن طاعة الله -( کتاب الاستیذان صحیح بخاری )
ہر لہو جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل کردے تو وہ باطل (گناہ) ہے۔
مغربی دنیا نے پوری زندگی کو کھیل کو د بنا ڈالا جب کہ مذہب اسلام نے طبیعت میں فرحت نشاط اور بشاشت پیدا کرنے کے لیے کھیلوں کو ذریعہ مانا ہے؛ لیکن آج کل بعض ایسے کھیلوں کو ہوا دے دی گئی جو بہت سے نقصانات کا مجموعہ ہیں کرکٹ بھی انھیں میں سے ہے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس کھیل کو بڑھا وا دیا، وہ دنیا بھر میں مصنوعات کا فروغ چاہتی تھیں لہٰذا ان کو کوئی ایسی مشتہر چیز چاہئے تھی جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وقت تک اپنی طرف متوجہ رکھ سکے، کرکٹ میں وہ تمام باتیں موجود تھیں؛ کیونکہ یہ کئی کئی دن تک کھیلے جاتے ہیں، لہٰذا اس نے کرکٹ کو شہروں شہروں، گلیوں گلیوں اور گھروں گھروں تک پہنچانے کے لیے کرکٹ کے میدان بنوائے، لوگوں کی توجہ انعامی اسکیموں کی طرف مبذول کرائی، کھلاڑیوں پر مال و زر کے دروازے کھول دیے، پھر کرکٹ کا جنون ان پر مسلط ہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات پر ان کی کوریج کا بندوبست کردیا، یوں دیکھتے دیکھتے ایک قلیل مدت میں کرکٹ عالمی کھیل بن گیا۔
کرکٹ کے مضر اثرات، ماحول و معاشرہ کو کس انداز سے بیکار کرتے ہیں اور ملک ووطن کے سرمایہ دارانہ نظام پر کتنا برا اثر ڈالتے ہیں، اس کی ایک سرسری رپورٹ پیش ہے۔
کرکٹ پراسی(۸۰) ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں، ٹی، وی ، چینلز پر سال بھر میں بارہ لاکھ گھنٹے یہ کھیل دکھایا جاتا ہے، اس وقت دنیا کے سترہ کروڑ لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں، دنیا میں کرکٹ انڈسٹری کی مالیت گندم کے بجٹ کے برابر ہے، ایک اندازے کے مطابق ایک ورلڈ کپ پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر وہ مریضوں پر خرچ کی جائے تو دنیا کے تمام مریضوں کو ڈاکٹر، نرس اور دوائیں مفت مل سکتی ہیں، ایک ورلڈ کپ کے خرچ سے پوری دنیا میں اسکول کھولے جاسکتے ہیں، صحرائے عرب کو کاشتکاری کے قابل بنایا جاسکتا ہے، چار ورلڈ کپ کے دوران جتنی رقم مشروبات ، برگروں اور ہوٹلوں پر خرچ کی جاتی ہے اس رقم سے چالیس کینسر کے اسپتال بنائے جاسکتے ہیں،دنیا کے ایک تہائی بھوکوں کو خوراک دی جاسکتی ہے ،پاکستان جیسے چار ملکوں کوقرضے سے پاک کیا جاسکتا ہے ،ورلڈ کپ میں جتنی بجلی خرچ ہوتی ہے وہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے چین جیسے ملک کی چھ ماہ کی برقی ضرورت پوری کرسکتی ہے ،ورلڈ کپ کے موقع پر جتنی شراب پی جاتی ہے وہ پورا برطانیہ مل کر پورے سال نہیں پیتا، اس پر جتنا عام شہریوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اگر آدھی دنیا پورا مہینہ چھٹی کرے تو بھی اتنا ضائع نہیں ہوگا ،یہ ہیں کرکٹ کے اخراجات اور اس کے مضر اثرات۔
آئیے اب کرکٹ کے انفرادی ، دنیوی اور دینی نقصانات کا ایک جائزہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لیا جائے۔
کومینٹری سننے میں بھی بہت سے نقصانات ہیں
(۱) میچ دیکھنے کی مستی میں بعض لوگ نماز ترک کردیتے ہیں؛ جب کہ اللہ تعالیٰ شانہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ فرمارہا ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرو حافظوا علی الصلوٰت (سورہٴ بقرہ:۲۳۸) دوسری طرف اللہ کا پیغمبرفرمارہا ہے من ترک الصلوة متعمداً فقد کفر (الترغیب و الترہیب بحوالہ طبرانی فی الاوسط)”جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا“گویامسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے، ادھر موذن صاحب حی علی الصلوة (آؤ نماز کی طرف) حی علی الفلاح (آوٴ کامیابی و کامرانی کی طرف) کہتے ہیں۔ ادھر ہم کھیل میں مستغرق رہتے ہیں۔ واذا نادیتم الی الصلوة اتخذوہا ہزوا ولعبا، سورہ مائدہ آیت:۵۸۔
اور جب تم نماز کی طرف پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی اور کھیل بناتے ہیں۔
(۲) جماعت کی نماز چھوڑ دیتے ہیں، ترک جماعت کے متعلق آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھیے اور غور کیجیے :”قسم اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، میں نے ارادہ کیا تھا کہ کسی سے کہوں کہ لکڑیاں جمع کرے جب وہ اکٹھی ہوجائیں پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے، ان کے گھروں کو آگ لگادوں؛ تاکہ وہ بھی گھروں کے ساتھ جل جائیں“۔ (بخاری و مسلم)
(۳) لغو کام میں مشغول ہونا۔
(۴) وقت کی ناقدری ہوتی ہے کیونکہ یہ محض وقت گذاری ہوتی ہے ، مذہب اسلام نے وقت ضائع کرنے کی سخت مذمت کی ہے اور اس کو کارآمد بنانے اوراچھے کاموں میں خرچ کرنے کی ترغیب بڑے اچھے اور موٴثر اسلوب میں دی ہے، حق جل مجدہ اپنی کتاب عظیم قرآن کریم میں وقت کی قسم کھاکر وقت کی قدر و قیمت کو ہمارے قلوب میں راسخ کرنا چاہتا ہے۔ (سورہ العصر:۱، الضحی: ۱،۲، اللیل: ۱،۲- الشمس:۳،۴)
دوسری جگہ کامیاب مومن کی صفات شمار کراتے ہوئے فرماتا ہے والذین ہم عن اللغو معرضون(سورة مومنون آیت:۳) (اور یہ وہ لو گ ہیں جوفضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں)۔
حدیث شریف میں اسلام کی خوبی کو یوں اجاگر کیا گیا ہے: مِنْ حُسْنِ اسلامِ المرءِ ترکُہ ما لا یَعْنِیْہ (ابن ماجہ، ترمذی، شعب الایمان،جمع الجوامع)
آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ لا یعنی امور ترک کردے، حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع میں یہ حدیث شریف نقل فرمائی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر صبح آفتاب طلوع ہوتے ہی دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے آج کے بعد میں پھر کبھی واپسی نہ آؤں گا۔ من استطاع ان یعمل خیرا فلیعملہ فانی غیر مکرر علیکم ابداً (بحوالہ شعب الایمان )
(۵)آخرت اوریاد الٰہی سے کرکٹ والا غافل ہوجاتا ہے، طاعت الٰہی سے غفلت اور یوم الحساب کو بھول بیٹھنے کی وجہ سے انسان اچھے کاموں کی طرف نہیں لپکتا اور برے کاموں سے پاؤں نہیں کھینچتا جس کو قرآن کریم اس طرح بیان کرتا ہے ”وما الحیوة الدنیا الا لعب و لہو ولدار الآخرة خیر للذین یتقون افلا تعقلون۔(سورہ انعام آیت ۳۲) اور نہیں ہے زندگانی دنیا کی مگر کھیل اور جی بہلانے کی اور آخرت کا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کے لیے کیا تم نہیں سمجھتے۔
(۶)بہت سے ضروری دینی و دنیوی کاموں کا نقصان ہوتا ہے ۔
(۷)نتیجہ برآمد ہونے پر لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں؛ کیونکہ ہر آدمی کی سوچ الگ ہوتی ہے، کوئی کسی ٹیم کا حامی ہوتا ہے تو کوئی دوسری ٹیم کا۔ قرآن کریم اس کی منظر کشی یوں کرتا ہے اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ بزدل اور کم ہمت ہوجاؤ گے تماری ہوا اکھڑ جائے گی اور رعب ودبدبہ جاتا رہے گا۔ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذہب ریحکم۔ (سورہ انفال آیت:۴۶)
(۸)پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں جو سراسر اسراف ہے، فضول خرچی اور اسراف کرنے والے کو قرآن کریم میں شیطان کا بھائی کہاگیاہے ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین (سورہ بنی اسرائیل آیت:۲۷) بے شک بے موقع اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں، دوسری جگہوں میں اللہ تعالیٰ شانہ نے فضول خرچی کرنے والوں سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے ولاتسرفوا أنہ لا یحب المسرفین (سورہ انعام آیت۱۴۱، اعراف آیت:۳۱)
محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیجا مال اڑانے اور لٹانے سے احتراز کرنے کو فرمایا ہے، نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن اضاعة المال (بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابو داؤد)
(۹)اگر کومنٹری سننے کا آلہ اپنا ہو تو مزید ایک گناہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ٹی، وی پر میچ دیکھنا بھی خطرات سے خالی نہیں بہت سی خرابیوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔
۱- قصداً تصاویر دیکھنا، یہ بات بھی ذہن نشین رہے ، ٹی وی پر بہت سی تصویریں ہوتی ہیں ہر ایک تصویر دیکھنے کا الگ گناہ ہوتا ہے ۔
۲- نامحرم عورتوں کو دیکھنا بھی کرکٹ کی دین ہے، معاشرہ کو برباد اور مفلوج کردینے والی قبیح اور شنیع شئے زنا ہے اور یہ اس کا پیش خیمہ ہے قرآن وسنت میں اس سے بچنے کے لیے بہتر اور احسن طریقے و نسخے تجویز ہیں ، فرقان حمیدمیں حفظ ماتقدم کے طور پر فرمایا: قل للمومنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم ذلک ازکی لہم (سورة نور آیت ۳۰) آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے، حضرت حسن بصری مرسلاً آپ کا یہ قول نقل فرماتے ہیں لعن الله الناظر والمنظور الیہ۔ (بیہقی فی شعب الایمان )اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس شخص پر جو قصداً (بلا کسی عذر شرعی کے ستر یا اجنبی عورت کو) دیکھنے والا ہو اور اس پر جس کو دیکھا جائے، حضرت سعید بن مسیبفرماتے ہیں کہ شیطان آدمی کو بہکانے سے کبھی مایوس نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ عورتوں کے ذریعہ اس کے پاس آتا ہے کہ میرے نزدیک عورتوں (کے فتنہ) سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہے۔
۳- جماعت کی نماز کا چھوڑ دینا اور جیسا کہ اوپر مذکور ہوا بعض حضرات بالکل نماز پڑھتے ہی نہیں۔
۴-قیمتی وقت کا ضائع کرنا۔
۵- عبث کا م میں لگنا ۔
۶- بہت سی ضروریات دینی و دنیوی کے چھوڑنے میں معاون ہوتا ہے۔
۷- ٹی، وی سے محبت ، لگاؤ اور انسیت پیدا ہوتی ہے۔
۸- بہت سے گناہ وجود میں آتے ہیں۔
۹- گناہ کی نحوست سے رزق کی برکت جاتی رہتی ہے۔
۱۰- ٹی ، وی سے دلچسپی رکھنے والا بھلائی کے کاموں سے محروم رہتا ہے۔
۱۱- کھیل ختم ہونے پر ہار جانے والی ٹیم کے چاہنے والوں کا جھلاجانا اور جیتنے والی ٹیم کے چاہنے والوں کا خوشی میں جھومنا، لڑائی مول لینے کا سبب ہے۔
۱۲- اللہ تعالیٰ شانہ اور آخرت کی یاد سے دور ہونا۔
۱۳- اگر ٹی، وی اپنا ہو تو مزید ایک اور گناہ میں اضافہ ہوجاتا ہے جب کہ مفتیان عظام نے تحریر فرمایا ہے کہ غفلت میں ڈالنے والے سامان و آلات کا گھر میں رکھنا مکروہ تحریمی ہے ؛جب کہ یہ تو اس کو خود بھی استعمال کررہا ہے اور جو دوسرے حضرات اس کے ٹی ، وی سے مستفیض ہو رہے ہیں ان کا گناہ بھی اپنے سر لیتا ہے ۔
۱۴- آتش بازی کی جاتی ہے۔
اسٹیڈیم میں بیٹھ کر نظارہ کرنا بھی بہت سی قباحتیں اپنے ساتھ لیے ہوتاہے، مثال کے طور پر
(۱) نامحرم عورتوں کا نظارہ کرنا۔
(۲) مرد و زن کا اختلاط ۔
محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لمحہ بھر کے لیے مردوزن کے اختلاط کو گوارا نہیں فرماتے تھے اور یہاں اختلاط گھنٹوں کے حساب سے نہیں؛ بلکہ دنوں کے حساب سے ہوتا ہے ،حدیث شریف میں موجود ہے کہ” ایک مرتبہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکل رہے تھے دیکھا کہ مرد اور عورتیں ایک ہی ساتھ راستہ میں چل رہے ہیں تو آپ نے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا :پیچھے ہٹ جاوٴ تم راستہ کے کناروں کو لازم پکڑ لو“۔
(۳) نماز باجماعت یا بالکل نماز ترک کردینا ۔
(۴) دنیا کی سب سے قیمتی شئے وقت کو برباد کرنا۔
(۵) لایعنی کام میں لگنا ۔
(۶) دینی و دنیوی بہت سی ضروریات کو پسِ پشت ڈال دینا۔
(۷) اسراف کرنا۔
(۸) آخرت اور آخرت میں حساب لینے والے کی یاد سے بے بہرہ رہنا ۔
(۹) فریقین کے محبین کا لڑنا جھگڑنا۔ عقلاً بھی یہ معیوب ہے کہ چند آدمی کھیلتے رہیں اور بہت سے لوگ ٹکٹکی باندھے انھیں دیکھتے رہیں، کھلاڑیوں کا مقصد اپنے ملک کا نام روشن کرنا، شہرت حاصل کرنا، پیسہ کمانا، واہ واہی لوٹنا اور اچھی کارکردگی پر انعام حاصل کرنا وغیرہ۔
ایک مرتبہ جرمنی و فرانس کے مابین کرکٹ میچ ہوا تو جرمنی کے سربراہ ہٹلر کو بھی میچ دیکھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ ہٹلر میچ دیکھنے اسٹیڈیم پہنچا ،میچ شروع ہوا اور چلتا رہا یہاں تک کہ شام ہوگئی، ہٹلر اکتا گیا اور چلا گیا ٹیم کے ریفری سے دریافت کیا میچ کون جیتا؟ ریفری نے کہا سر! میچ ابھی جاری ہے ہارجیت کا فیصلہ چار دن کے بعد آئے گا۔ ہٹلر غصہ میں جھلا گیا اور کہنے لگا یہ کوئی کھیل ہے! دیکھنے والے پورے دن کے لیے بیکار ہوجاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی ہاتھ نہیں آتا، اور چار چار دن کاانتظار کرنا پڑتا ہے۔ بند کرو اس کھیل کو، ہٹلر نے کرکٹ پر پابندی عائد کردی، جرمنی کا وہ دن اور آج کا دن ہے کہ جرمنی نے قومی ٹیم بنانے کی غلطی نہیں کی؛ جب کہ اس وقت جرمنی کی ٹیم یوروپ کی نمبر ون ٹیم تھی۔
سپرپاور امریکہ کا بھی یہی حال ہے کہ امریکہ کے صدر روزویلٹ نے کہا کرکٹ لمبا اور سست کھیل ہے، اس سے وقت ضائع ہوتا ہے، دیکھنے والوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور لوگ اس کے ہوکر رہ جاتے ہیں اگر امریکہ کو ترقی کرنی ہے تو ایسے کھیلوں سے دور رہنا ہوگا اس کے بعد امریکہ میں پابندی لگادی اور آج بھی کرکٹ امریکہمیں نہیں ہے۔
ایسے ہی بہت سے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ممالک ہیں جن کی کوئی کرکٹ ٹیم نہیں۔
$ $ $
یوگا اسلامی تناظر میں
اسلام نے عقل وروح کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ جسمانی طاقت وقوت میں اضافہ کے لیے جسمانی ورزش اور کھیل کود کی اجازت دی ہے۔ اللہ پاک نے اہل حق کو ایک طاقت ور قوم وملت بننے کا حکم دیا اور انفرادی طاقت وقوت کی طرف اشارہ بھی کیا۔ اَلْمُومِنُ القَوِیُ خَیرٌ وَاَحَبُّ اِلی اللّٰہِ مِنَ المُومِنِ الضَّعیفِ وَفی کُلٍّ خَیرٌ، اِحْرِصْ عَلٰی مَنْ یَنفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ وَلَاتَعْجِزْ۔ (صحیح مسلم) اللہ پاک کے نزدیک طاقت ور مومن بہتر اور زیادہ محبوب ہے کمزور مومن کے مقابلے میں۔ ہر ایک کے اندر خیر ہے۔ ایسے کاموں کے حریص بنو جو تمھیں فائدہ پہنچائے، اللہ سے مدد مانگو، عاجز اور مجبور نہ بنو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجد میں اہل حبشہ کو نیزوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: دَوْنَکُمْ یَا بَنِی اَرْقَدَة تَعْلَمْ الْیَھَوْدُ اَنَّ فِیْ دِیْنِنَا فَسْحَةً۔ اے بنو ارقدہ! تم اسے مضبوطی سے تھام لو، تاکہ یہود کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے مذہب میں کشادگی ہے۔ متعدد احادیث سے بھی پتا چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھوڑسواری، تیراکی اور تیر اندازی جیسے کھیل پسند تھے۔
کھیل کود کی اسلام میں جہاں اجازت ہے وہیں حدود شرع سے تجاوز کرنے کی ممانعت بھی ہے، لہٰذاوہ کھیل جو اسلامی احکامات سے ٹکراتے ہیں وہ ممنوع قرار پاتے ہیں: جیسے دوران کھیل ستر کھلی رکھنا، نماز کے اوقات کو ضائع کرنا، کھیل کے شوق میں پیسہ اور صلاحیتیں برباد کرنا، عورتوں کا ضروری پردہ کا خیال نہ رکھنا یا پھر مرد وعورتوں کا اختلاط وغیرہ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ خلافت میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے بیچ اختلاط شروع ہوگیا۔ مسلمانوں میں عجمیت کے سماجی و روایتی جراثیم سرایت کرنے لگے۔ کبوتربازی، شطرنج بازی، نردبازی جیسے شوق لوگوں کے درمیان ابھرنے لگے۔ صحابہ کرام نے سختی سے ان لہوولعب سے منع کیا۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک گھر میں کرایہ دار رہتے تھے، ان کے متعلق معلوم ہواکہ وہ نرد کھیلتے ہیں، حضرت عائشہ سخت ناراض ہوئیں اور کہلا بھیجا کہ اگر نرد کی گوٹیوں کو میرے گھر سے باہر نہ پھینکو گے تو میں اپنے گھر سے نکال دوں گی۔ وہ امت جو نبی کی نیابت کے لیے مبعوث کی گئی، جسے خیر امت کا لقب ملا اس کو گوٹیوں اور نرد جیسے لغویات سے بچانا ضروری تھا۔ حضرات صحابہ کا لہوولعب کے بارے میں دادگیر کرنا اور حضرت عائشہ کی وارننگ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے اوراس سے کھیلوں کے سلسلہ میں اسلام کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
زمانہ قدیم میں بدھسٹ اور راہب ورزش اور لڑائی کے داوٴ پیچ میں مہارت رکھتے تھے۔ تھائی لینڈ، کوریا، چین اور جاپان جیسے ممالک میں کراٹے، کنفو اور جوڈو وغیرہ بہت مقبول ہیں۔ ہندوستان کے قدیم اکھاڑوں میں ورزش کے ساتھ ساتھ کشتی لڑنے کی ماہرانہ تربیت دے کر پہلوانوں کو تیار کیا جاتا ہے، اسی طرح یوگا کے ذریعہ صحت کو بحال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض انواع واقسام کے کھیل اور ورزشیں الگ الگ ملکوں کے اعتبار سے رائج اور مقبول ہیں۔
جسمانی ورزش کی ہیئت پر مشتمل ”یوگا“ موجودہ صورت حال میں ایک اہم موضوع بن کر ابھر رہاہے۔ حکومت ہند کی طرف سے پیش قدمی کی بناپر اس سال یعنی ۲۰۱۵ء کے ۲۱/جون کو باضابطہ ”عالمی یوگا دیوس“ منعقد کرنے کی مکمل تیاری ہے، اور اب سے دنیا کے ایک سو نوے ممالک میں ہرسال یوگا ڈے منایا جائے گا۔ ہندوستان کے صوبوں، ضلعوں، شہروں، قصبوں، پنچایتوں، بلاکوں اور گاوٴں کا ہرفرد بلاافتراق مذہب وملت ہرسال یوگا دیوس منائے گا۔ یہ اس طور پرمنایا جائے گا کہ یوگا ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بدھسٹ، جین، پارسی اور یہود پر مشتمل ہندوستان کی ایک سو پچیس کڑور آبادی کا عمل ہے اور اس ملک کا کلچر ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے اسکولوں میں یوگا بطور نصاب شامل ہوگا اورہر طالب علم کو یوگا کرنا ہوگا۔ اسی بنا پر ملک کے کچھ خاص مذہبی حلقوں میں یوگا کے تئیں مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں۔ کبھی یوگا کو مذہب سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے تو کبھی صرف ایک جسمانی ورزش کی حد تک سمجھنے کی صلاح دی جاتی ہے۔
یوگا کی حقیقت:
یوگا سنسکرت لفظ ”یوج“ سے نکلا ہے، جس کے معنی شامل ہونے اور متحد ہونے کے ہیں۔ یوگا کے معنی ذہنی گہری سوچ کے ذریعہ وحدت کائنات کے پُر اسرار رازوں تک پہنچنا ہے۔ (اسریٰ نعمانی یوگی تربیت یافتہ ہندوستانی نژاد مسلم صحافی) یوگا کی تقریباً 185ورزش کی ترکیبیں ہیں۔ یوگا کرنے والے شخص کو یوگی کہا جاتا ہے۔
ہندووٴں کی مقدس کتابوں ویدوں اور بھگوت گیتا میں یوگا کی تعلیمات ملتی ہیں۔ یوگا کو ہندووٴں کے مذہبی پیشوا، رشی منی، سادھو سنت اپنے مٹھوں میں ہندومذہبی عقیدہ کے مطابق اپنے چیلوں کے ساتھ بطور فرض کے روزانہ انجام دیتے ہیں۔ بھگوت گیتا کا چھٹا باب فلسفہ یوگا کے لیے خاص ہے، جس میں شری کرشنا نے ارجن کو یوگا کے سلسلہ میں تفصیل سے سمجھایا اور کہا کہ یوگا درد وتکلیف سے چھٹکارا دلاتا ہے اور یوگا کی مشق کرنے والا یوگی روحانیت الٰہی کی نعمت سے نفس کا اطمینان پالیتا ہے۔ ارجن نے شری کرشنا سے پوچھا ”تم نے یوگا کے متعلق بتایا، روح کے متعلق بتایا؛ لیکن انسان کی عقل ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ عقل مضبوط، ضدی اور پُر مقصد ہوتی ہے، اس کو ہوا کی طرح خارج نہیں کیا سکتا ہے۔“ کرشنا نے جواب دیا یقینا عقل مضطرب ہوتی ہے اور اس پر گرفت مشکل ہے، لیکن اس کی تربیت ابھیاسا (Abhyasa) کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور خواہشات اور ورگیا (Vargaya) سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ (لائٹ آف یوگا صفحہ ۲۰)
کچھ خاص ترکیبیں جن سے یوگا پہچانا جاتا ہے:
آسنا (جسم کی خاص ساخت اختیار کرنا) دھرنا (کسی خاص چیزپر توجہ مرکوز کرنا) دھیانا (آنکھیں بند کرکے مراقبہ کرنا) دھیانا کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر روزانہ متعین وقت پر کیا جائے۔ یوگا کے ماہرین بغیر دھیانا کے یوگا تسلیم نہیں کرتے)۔ پرانیاما (روح پر گرفت کرنے کی کوشش کرنا)۔ سوریہ نمسکار بہت اہم مانا جاتا ہے۔ یوگاکرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مشرق کی جانب آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سورج کو پرنام و آداب بجالائے۔ بی کے ایس اینگر نے ویدوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ پرانیاما سے جسم اور عقل کی تمام ناپاک چیزیں خارج ہوجاتی ہیں اور مقدس آگ کے شعلے انھیں توانائی اور رعنائی کے ساتھ پاک کردیتے ہیں، تب ایک شخص دھرانا اور دھیانا کے قابل ہوتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ (لائٹ آف یوگا صفحہ ۴۶۱)
یوگا میں کیے جانے والے ورد:
مشاق یوگی دوران یوگا اور اس کے ختم پر کئی اشلوک کا ورد کرتے اور گاتے ہیں۔ ان میں اہم ترین اشلوک جو سنسکرت میں ہیں ان کا ترجمہ پیش کیا جارہاہے:
”میں نہ عقل ہوں نہ سوچ، میں نہ سن سکتاہوں نہ بول سکتاہوں، نہ سونگھ سکتاہوں نہ دیکھ سکتاہوں، میں روشنی اور ہوا میں اپنے آپ کو نہیں پاتا ہوں، نہ زمین پر نہ آسمان پر، میں نعمتوں کی نعمت ہوں، میر اکوئی نام نہیں، میری کوئی زندگی نہیں، میں سانس نہیں لیتاہوں، نہ کوئی مقدس کلمات ہیں نہ عبادات، نہ علم ہے نہ معلوم، کسی شئی نے مجھے ڈھالا نہیں، میرا کوئی جسمانی خروج نہیں، میں نہ غذ اہوں نہ کھانا اورنہ کبھی میں نے کھایا ہے، میں خیالات اور مسرت ہوں اور آخر میں کرم میں مل جاوٴں گا۔ میں غیر مجسم ہوں، میں احساسات میں رہتا ہوں لیکن وہ میر امسکن نہیں۔“ (لائٹ آف یوگا صفحہ ۳۲۔۳۳)
ان اشلوکوں میں خودی اور خودی کا انکار، تمام عبادات اور مقدس کلمات کا انکار، علم اور تعلیم کا انکار شامل ہے۔ اس میں اپنے آپ کو نعمت وکرم گردانا جاتا ہے اور آفاقی روح میں مل جانے کا اقرار کیا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں ایمانیات اور اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں اور خالق ومخلوق کے فرق کو ختم کرتی ہیں۔ اس میں حلول، تجسیم اور انکارِرب جیسے کفریہ کلام شامل ہیں۔
یوگا کی تعریف، اس کے ارکان اور اس میں کیے جانے والے اعمال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یوگا ایک خالص ہندو مذہب کا حصہ ہے اور اس کی جڑیں ہندو تعلیمات سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندومت کی دھارمک شخصیتیں ومذہبی پیشوا اور ہندو احیا پسند تحریکات دراصل یوگا کے توسط سے ورن آشرم کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نسلی طبقاتی تفریق کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ ہندومت کو قومی وعالمی سطح پر ایک عظیم کامیاب نظام زندگی کے طور پر غالب کرنے کی کوشش میں ہیں۔
مذہب اسلام عقائد، معاملات، مامورات، معمولات اور زندگی کے ہرشعبے میں کلی یاجزوی طور پر کفر وشرک کے عناصر کا باریک بینی سے خاتمہ کرتاہے اور کسی بھی تہذیب وتمدن کے اجزا کو کفروشرک سے پاک صاف کرکے اپنے اندر ضم کرنے کی وسعت رکھتا ہے۔ اسلام دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلا اور جہاں بھی پہنچا وہاں کے مقامی معاشرہ، تمام باطل ولغو رسم ورواج، طور طریقوں اورعادات واطوار کا خاتمہ کرکے مقامی سماج کو اپنے اندر شامل کیا۔ دور حاضر کی آنکھوں کو خیرہ کردینے اور قلب وذہن کو ظاہراً متاثر کردینے والی کسی بھی قدیم وجدید تہذیب کو، جواسلام سے متصادم ہو، اپنانے اور اس پر عمل کرنے سے منع کرتاہے۔
قرآن کریم نے حرام کاموں کے تدارک کے لیے ابتدائی مراحل میں ہی بندش لگادی اور ڈانٹ کے ذریعہ پابندی عائد کردی۔ اہل ایمان کو کفر وشرک اور لغو وباطل سے بچانے کے لیے اللہ پاک نے مختلف انداز میں تحذیر کے ساتھ تخاطب فرمایا ہے: وَلاتَقرَبُوا (قریب بھی مت ہو) وَاجْتَنِبُوا (اجتناب کرو) اَلَمْ یَان الذِینَ اٰمَنوا (کیا ایمان والوں کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا۔) فَفِرُّوا اِلی اللّٰہ (دوڑو اللہ کی طرف) وَسَارِعُوا اِلٰی مَغفِرةٍ مِنْ رَبِّکُم (دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔) اِنّ ھٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہْ (یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اسی کی اتباع کرو)۔ اللہ تعالی نے دعوت، ترغیب، ترہیب، تنبیہ اور نداء کا ولولہ انگیز مشفقانہ انداز اپنایا، لہو ولعب کی چھوٹی بڑی چیزوں اور بے فائدہ وحرام باتوں کے خاتمہ کا دوٹوک فیصلہ سنایا اور رجوع الی اللہ، توبہ واصلاح، تقوی ومغفرت کی طرف بلاکسی توقف کے لپکنے اور دوڑنے کی ترغیب دی۔ محسن امت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں سے منع فرمایا: تشبہ بالکفار، تشبہ بالنساء، تشبہ بالرجال۔ یعنی کوئی مومن کافر کی مشابہت اختیار نہ کرے، کوئی مرد کسی عورت کی مشابہت اختیار نہ کرے اور کوئی عورت کسی مرد کی مشابہت اختیار نہ کرے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا جس کی چادر میں صلیب کے نقش ونگار بنے ہوئے تھے، دیکھتے ہی ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔ (مسند احمد) قرآن کریم میں اللہ پاک کی ترغیب وترہیب، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور صحابہ کرام کا عمل اس بات کی طرف مشیر ہے کہ کفار کے طور طریقے، رسم ورواج، مخصوص مذہبی اسٹائل وانداز کی تقلید کرنا اور کفر سے بھری اصل نوعیت کو بغیر زائل کیے کسی کی پیروی کرنا کفار کی مشابہت اختیار کرنا ہے، جس کی اسلام میں ممانعت ہے۔
مسلم معاشرہ کے باشعور تعلیم یافتہ، دین دار اور اسلام پسند لوگوں کے درمیان آج یوگا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کچھ نام نہاد مسلم رہنما اسے محض ایک ورزش کا نام دے رہے ہیں۔ بعض حضرات اسے مکمل طور پر شریعت کے خلاف گردان رہے ہیں اور کچھ لوگ یوگا میں استعمال ہونے والے کفریہ وشرکیہ کلمات کو مستثنیٰ کرکے جواز کے قائل ہیں۔ بعض تعلیم یافتہ مسلمان یہ سوال کرتے ہیں کہ یوگا صحت کے لیے مفید ہے تو پھر اسلامی حلقوں سے اس کی ممانعت کے سلسلہ میں کیوں آوازیں آرہی ہیں؟ کیا اسلا م اتنا تنگ نظر ہے کہ اپنے پیروکار کو جسمانی ورزش سے منع کرکے ان پر تحدیدات عائد کرتا ہے؟ اور بعض گوشوں سے تو یوگا کے متعلق فتووں پر تنقیدیں بھی جاری ہیں۔ واضح رہے کہ ملیشیا کے مفتیان کرام نے یوگا کے خلاف فتوی جاری کرکے وہاں مسلمانوں پر روک لگادی ہے، اور فتوی نافذ العمل بھی ہے، تاہم چند سیاسی لوگوں نے مخالفت کی ہے۔
یوگا کی ہیئت کذائیہ یعنی ورزش کے معمولات ڈنڈ بیٹھک کی حد تک اس کی اصل سے علیحدہ کرکے شریعت کا حکم اگر معلوم کیا جائے، تو ظاہر سی بات ہے کوئی بھی مفتی وعالم یقینا ورزش کے زمرہ کی حد تک اسے جائز قرار دے گا۔ لیکن صرف ورزش کی حد تک فنی بنیادوں پر حاصل شدہ اجازت نامہ کی وجہ سے یوگا میں بے شمار مخفی، مشتبہ، مشکوک باتوں اور کفریہ وشرکیہ واضح دلائل کی موجودگی میں یوگا کی ممانعت کا حکم بھی ناقص اور مہمل نہیں سمجھا جائے گا۔
یوگا کی وکالت کرنے والوں کا استدلال یہ ہے کہ ہندو عقائد کی نفی اور اشلوک کے ورد کو چھوڑ کر صرف جسمانی ورزش ممنوع نہیں ہے، کیونکہ اسلام علاقائی اور بیرونی مفید کارآمد باتوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہوسکتا ہے لوگوں کی نیک نیتی کے پیش نظر یوگا کو جائز قرار دینے والوں نے یہ فیصلہ کیا ہو؛ لیکن یہ خیال رہے کہ کسی پیچیدہ مسئلہ کو کاٹ چھانٹ کر اس کے ٹکڑے اور ذرے ذرے کرکے ایک ہلکے عنصر کو لے کر جواز کا حکم صادر کرنا دور بینی سے الگ نجی فیصلہ قرار پائے گا۔
ٹھیک ہے کہ یوگا ورزش کی حد تک جائز ہے؛ تاہم یہ مُفْضِی اِلی الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ بھی ہے۔ دھیرے دھیرے یہی عمل یوگا سے الفت پیدا کردے گا، لوگ یوگا کے سارے ارکان سے دلچسپی لینا شروع کردیں گے، یوگیوں کے مٹھوں اور کیندروں میں جاکر یوگا کے ذریعہ سارے کفریہ اعمال انجام دیں گے، یہاں تک کہ آنے والی نسل جب مسلمانوں میں رائج یوگا کو پائے گی تو انھیں اس وقت یوگا ایک اسلامی کلچر کی شکل میں نظر آئے گا اور اس کے قبیح ومذموم ہونے کی طرف اس کی توجہ بھی نہیں جائے گی۔ غرض مسلم معاشرہ کا ایمان کفر وشرک کی پیروی میں تبدیل ہوجائے گا لیکن انھیں اس کا احساس بھی نہ ہوگا۔ اس وقت نہ کوئی داعی، عالم اور مصلح کی بات اثر کرے گی اور نہ خود کا ضمیر ملامت کرے گا۔ قلب وذہن پر کفر کے دبیز پردے پڑجائیں گے۔ زہر چاہے تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ لیا جاتا رہے وہ اپنا اثرضرور دکھائے گا اور جسم میں خاموشی سے سرایت کرتے ہوئے موت کے منہ میں دھکیل دے گا۔ یہی معاملہ ایمان وکفر کا ہے۔ لاعلمی اور انجانے میں ایک مومن اگر کفر کی چند یا بعض باتوں کو قبول کرتے کرتے ردِکفر کے جذبہ کو کھو بیٹھے اور ایمان وکفر کے فرق کو اپنی فکرونظر سے اوجھل کردے تو پھر ایمان پر کفر پوری طرح حاوی ہوجاتا ہے، جس کے نتیجہ میں مومن کو ہر کافرانہ دعوت وعمل جاذب نظر آنے لگتے ہیں۔
مغلیہ سلطنت کے زوال کے دور میں ملک میں افراتفری اور بد امنی پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔ ہندو مسلم اہل علم ومذہبی پیشواوٴں کا آپس میں رابطہ مضبوط ہوچکا تھا۔ اکبر بادشاہ نے ہندومت اور اسلام ودیگر مذاہب کو ملاکر ایک نیا مذہب ”دین الٰہی“ کے نام سے بنایا۔ درباری چمچے، شاہی امام اور پنڈتوں نے مل کر اسلامی مذہبی تعلمات کی بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کی اور کئی کافرانہ رسم ورواج حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کے درمیان پروان چڑھائے گئے۔ مولوی اور عامل حضرات سحر، جادو، بھوت پریت اور جنات کے اثرات کو زائل کرنے اور مصیبت زدہ کی آفتوں کو دور کرنے کے لیے ذکر ودعا اور شرعی تعویذوں سے کام لیا کرتے تھے؛ لیکن اس وقت کے بعض عاملوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی کہ صرف پرانے طریقوں پر قرآنی آیات اور دعا وذکر سے عوام کے باطنی امراض ومصائب کا حل فوراً نہیں ہوسکتا، بلکہ سنسکرت کے اشلوکوں، ہندووٴں کے مقدس طور طریقوں اور پوجاپاٹ کے ذریعہ اس کا حل ممکن ہے۔ اس وقت اسماعیل نامی ایک مسلم شخص اس کام کے لیے تھا۔ اس نے آچاریوں، رشیوں اور سادھووٴں سے جادو، ٹونا، بھانامتی اور ہندوعملیات کی تعلیم وتربیت حاصل کی۔ وہ اسے سیکھ کر باطل شیطانی کافرانہ سفلی عملیات کاماہر ہوگیا اور اشلوکوں کو قرآنی آیات سے ملاکر خلط ملط کرکے ایک نیا سفلی علم تیار کیا۔ اس کے عملیات کی شہرت ہونے سے وہ اسماعیل یوگی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس سے دوسرے مولویوں نے بھی سفلی عمل کو سیکھا اور اس طرح ملت اسلامیہ ہند میں سفلی عمل کا سلسلہ چل پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج دینی تعلیم سے دور مسلمانوں نے دین اور بے دینی میں فرق کو بھلادیا، دیوالی، ناگ پنچھی، اماوس کے موقعوں پر بعض جاہل مسلم خواتین کی بڑی تعداد مندروں کے قریب نظر آتی ہے۔ ہندو تیوہاروں میں مانگ پر ٹیکہ لگانا، کلائی پر بدھی باندھنا، مزاروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہاتھ کے اشارہ سے چومنا، گاڑیوں میں کعبة اللہ، مسجد نبوی یاکسی مزار کی تصویر لٹکا کر اس پر پھول کی مالا چڑھانا بھی اسی غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ سادہ لوح مسلمان اس حد تک کیسے پہنچے، اس کا محرک کیا تھا․․․؟ یوگا کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح ہے۔ محض صحت وتندرستی کی خاطر ایک ایسا عمل اور طریقہ کار جس کی جڑیں کفر وشرک سے ملتی ہیں، صرف نیک نیتی کی بنیاد پر اسے مباح قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
ایک مومن کفر کی باریکیوں کو سمجھنے میں غلطی کرکے چند فائدوں کی خاطر قلب وذہن کو بند کرکے دھوکہ کھاجائے تو اللہ پاک نے ایسے موقع پر ایمان والوں کو وارننگ دی ہے۔ فرمایا: لَوْتَکْفُرُونَ کَما کَفَرْتُمْ فَتَکُوْنُونَ سَوَاءً (اگر تم کفر کروگے جیسے انھوں نے کیا تو تم بھی ان جیسے ہوجاوٴگے۔ سورہ النساء)
فقہ اسلامی کے چند اہم اصولوں کو سامنے رکھ کر اگر استنباط کیا جائے تو یوگا کی ممانعت اور عدم ممانعت کی باتیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
۱- مبادیات کی تحقیق:
یوگا کے مبادیات کی تحقیق کریں تو اس کی دوبنیادی باتیں راست کفر اور ہندو مذہب سے جاملتے ہیں۔ ایک اس کا مقصد گیتا کی تعلیم ہے۔ دوسرے یوگا پر رشیوں اور آچاریوں کا مکمل کنٹرول ہے، بطور عبادت اس کی مشق کی جاتی ہے۔ اسی طرح یوگا کے اشلوکوں میں توحید، رسالت، کتاب اللہ اور یوم آخرت کا انکار ہے۔ مخلوق کا خالق میں حلول کرجانے کا عقیدہ ہے۔ کفار کے ساتھ مشابہت ہے۔ غرض اس تخریج مناط کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یوگا ہندو تہذیب کے عقائد کا اہم حصہ ہے۔
۲- سد باب:
شریعت ہر دو زاویوں سے مسئلہ کا تجزیہ کرتی ہے۔ (۱) اگر کسی امر کے سلسلہ میں اس کے سدباب سے کفر، شرک، برائی اور لادینیت کا خاتمہ ہوسکتا ہے تو سب سے پہلے ان ذرائع کے باب الداخلہ کو بند کیا جائے گا۔ تاکہ بندئہ مومن کسی نافرمانی اور خلاف شرع امور میں مبتلا نہ ہوجائے۔ (۲) اور اگر کسی مسئلہ میں ایسے ذرائع کے دروازے کھول دیے جائیں، جن سے توحید، حق، خیر، ثواب، نیکی، وتقویٰ کو قوت ملے اور کفر، شرک وبرائی کے پیدا ہونے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے اور لوگ انفرادی واجتماعی طور پر مستفید ہوسکیں، تو ان ذرائع کے دروازے کھول دینے چاہیے۔
۳- اصل کے اعتبار سے جائز ہونا:
کھیل اور تندرستی کے لیے ورزش وکسرت اصل کے اعتبار سے جائز اور مباح ہے۔ جب تک کہ کوئی منکر، شر اور گناہ کی چیز اس میں شامل نہ ہو اور کوئی دلیل ِحرمت اس میں نہ پائی جائے، مباح رہے گا۔
۴- گناہ وجرم سے مُبرّا ہونا:
ایسے تمام افعال جس کے ظاہر وباطن میں کوئی ممنوع اور خلاف شرع بات نہ ہو اور اس کے کرنے سے کسی گناہ، شر اور منکر کے پیدا ہونے اور پھیلنے کاشبہ نہ ہو، فقہ میں ایسے اعمال کو گناہ سے مبرا قرار دیا جاتا ہے، جسے فقہ کی اصطلاح میں اِرْتِفَاعُ الْمَسْئُولِیَةِ الْجِنَائِیَةِ کہتے ہیں۔ عام کھیل کود، ورزشیں اور کراٹے اسی زمرے میں آتے ہیں۔
مذکورہ بالا فقہ کے ان اصولوں کی روشنی میں یوگا کے مبادیات کفر وشرک سے ملتے ہیں۔ گناہ وشر سے مبرا بھی نہیں ہے۔ یوگا کے نصوص بھگوت گیتا سے ملتے ہیں۔ یوگا کے ذرائع کے دروازے کو کھول دینے سے اعتقادی کمزوریاں اور ایمانیات پر برے اثرات پیدا ہوں گے۔ تو صرف اصل کے اعتبار سے یوگا کی ورزش والی کیفیت پر نظر رکھتے ہوئے اسے مباح اور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے؛ بلکہ سد بابِ ذرائع کے پیش نظر یوگا کو بالکلیہ ممنوع اور مسلمانوں کے لیے ناجائز قرار دیا جائے گا۔
جو لوگ یوگا کے عدم ممانعت کے قائل ہیں ان کے پیش نظر یہی بات ہے کہ یوگا اصلاً ورزش ہے، لہٰذا محرمات سے گریز کرتے ہوئے یوگا کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے لیے ہم کہنا چاہیں گے کہ کسی حکم میں حلت، حریت اور توسیع کی توجیہات اس کے دائرے میں ہونی چاہیے، من مانی توجیہات قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس کو دومثالوں سے سمجھنا آسان ہوگا۔ اسلام میں نکاح کے لیے کوئی موقع اور محل کی قید نہیں ہے۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھاکر اگر ایک شخص بت کدہ، مندر یا ہندو وعیسائی دھارمک استھانوں میں اسلامی اصولوں کی سخت پابندی کے ساتھ نکاح کرتا ہے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان اس مکروہ طرز عمل کو اپنالیں اور معاشرہ کا حصہ بنالیں تو کیا اب بھی یہ مباح عمل گردانا جائے گا؟ اسی طرح اگر کوئی مسلمان اللہ کا ذکر، مناجات اور تسبیحات کے لیے ایسی جگہ منتخب کرے جو مرکزِ کفر وشرک ہو یا اس کا ایک حصہ ہو جیسے مندر، آشرم اور مٹھ وغیرہ۔ جیساکہ آج کل کے آشرم اور مٹھ بڑے خوبصورت، کشادہ اور آرام دہ ہوا کرتے ہیں۔ روحانیت کے متلاشی مختلف لوگ یہاں تپسیا وغیرہ کرتے ہیں، تو کیا مسلمان کا روحانی ارتقاء کے لیے مسجدوں کو چھوڑ کر مٹھوں، آشرموں اور کیندروں میں بیٹھ کر مراقبہ کرنا، تسبیحات اور مناجات کرنا جائز ہوگا؟ ان دونوں مثالوں کے لیے جو جواب ہوگا وہی یوگا کے بارے میں بھی ہوگا۔
اسلام کی روح اور مزاج کی حفاظت دور حاضر کا اہم تقاضہ ہے۔ محض جسمانی ورزش اور بیماریوں کے علاج کے نام پر یوگا کی پریکٹس کو اپنا کر اسلامی روح کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ سائنس کے مطابق اسلام کی عبادتیں خود اس طرح کی ہیں کہ ہر مومن لازمی طور پر روزانہ مراقبہ، اطمینانِ قلب اور ورزش سے مستفید ہوتا ہے۔ پانچ وقت کی نماز، روزے، حج وعمرہ اور اعتکاف میں بندہ اللہ سے لو لگاتا ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ ہردن فرض، سنت اور نفل نمازوں میں قیام، رکوع، سجدے اور قعدہ سے باضابطہ ورزش اور مراقبہ کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ تلاوت کلام پاک، ذکر وتسبیحات، محاسبہٴ نفس، توبہ واستغفار اور رجوع الیٰ اللہ سے بندے کو جسمانی وروحانی قوت مل جاتی ہے۔
جس مسلمان کے دل میں ایمانی حرارت ہوتی ہے وہ کفر کرنا تو دور کی بات، کفر کے تصور سے بھی کانپ جاتے ہیں۔ وہ ایسے موحد ہوتے ہیں کہ توحید پرستی ان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ کفر وشرک اور نفاق جیسے گناہ انھیں چھو بھی نہیں سکتے۔ وہ شیطان کی چال بازیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ پختہ عقیدئہ توحید اور اعلی اسلامی کردار وخشیت الٰہی کے ذریعہ اپنے نفس کو مطمئن رکھتے ہیں۔ یہی وہ اسلامی اسپرٹ اور روح ہے جو ہمیں اللہ کا محبوب بندہ بناکر دنیا و آخرت میں سر بلند کرتی ہے۔
$ $ $
کرکٹ :اسلامی نقطہٴ نظر سے
اسلام ایک معتدل افراط و تفریط سے پاک و صاف مذہب ہے، نہ حدوں کو پار کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی بالکل روکھا سوکھا مذہب ہے، جیسا کہ بعض معاندین تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں کہ دین اسلام تو صرف مصلی و تسبیح کا ہوکررہنے کو کہتا ہے، جب کہ مذہب اسلام اعتدال کو پسند کرتا ہے، میانہ روی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے (خیر الامور اوسٰطہا․ شعب الایمان 5/169) یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کھیل کود، سیر و تفریح کی صرف اجازت ہی نہیں، بلکہ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفریحات کو اپنا یا بھی ہے، حق جل مجدہ قرآن شریف میں یوں فرماتا ہے:﴿مَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَج﴾ (سورہٴ حج:78 )(اللہ تعالیٰ شانہ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی)۔
دوسری جگہ وہ ہم سے یوں گویا ہے:﴿ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾․ بقرہ :185 (اللہ تعالیٰ شانہ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے اور تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا)۔ عید کے دن خوشی میں کچھ حبشی ڈھال اور نیزوں سے کھیل رہے تھے، انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا توٹھٹک گئے، آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا ”خذوا یا بنی ارفدة، حتی تعلم الیہود والنصاری أن فی دیننا فسحة“ (جمع الجوامع :12181،فیض القدیر 3896) (اے حبشی بچو! کھیلتے رہو تاکہ یہود و نصاری کو پتہ چل جائے کہ ہمارے دین میں وسعت ہے) اور بعض روایات میں یہ الفاظ آئے ہیں : ”الہوا، والعبوا، فانی اکرہ ان یری فی دینکم غلظة․“ (فیض القدیر1582)(کھیلتے کودتے رہو، کیوں کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تمہارے دین میں سختی نظر آئے)۔
آپ سے بہت سے تفریحی کھیل ثابت ہیں، مثلاً نشانہ بازی ، گھوڑ سواری، تیراکی، دوڑ، اچھے شعر سننا، سنانا وغیرہ اور آپ نے دیگر حضرات صحابہ کو ترغیب بھی فرمائی، جیسے تیر اندازی، دوڑ، تیراکی وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہ بات یاد رہے وہ کھیل صرف ٹائم پاس کرنے کا ذریعہ نہ تھے، بلکہ کچھ دینی و دنیوی فوائد و ثمرات ان میں پنہا ہوتے تھے، ان کھیلوں سے یاد الٰہی سے غفلت، فرائض سے کوتاہی ، حقوق العباد کی ادائیگی سے تساہل، وقت کا ضیاع، معاشی فقدان اور تعلیمی بحران کا تو سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔
حضرت امام بخاری نے فرمایا: ”کل لہو باطل اذا شغلہ عن طاعة الله ․“( کتاب الاستیذان، صحیح بخاری )
ہر لہو جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل کردے تو وہ باطل (گناہ) ہے۔
مغربی دنیا نے پوری زندگی کو کھیل کو د بنا ڈالا، جب کہ مذہب اسلام نے طبیعت میں فرحت نشاط اور بشاشت پیدا کرنے کے لیے کھیلوں کو اگرچہ زندگی کا ایک جز مانا ہے، لیکن آج کل بعض ایسے کھیلوں کو ہوا دے دی گئی جو بہت سے نقصانات کا مجموعہ ہوتے ہیں اور دائرہ عقل سے بھی خالی معلوم ہوتے ہیں، انہیں میں سے ایک کرکٹ ہے۔
انگریز ہندوستان آئے تو کرکٹ بھی ساتھ لائے، یہ کھیل لیکن اپنی جگہ نہ بنا سکا، ایک تو یہ کھیل مہنگا تھا، دوسرے لمبا وقت چاہتا تھا، ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس کھیل کو بڑھا وا دیا ،وہ دنیا بھر میں مصنوعات کا فروغ چاہتی تھیں، لہٰذا ان کو کوئی ایسی مشتہر چیز چاہیے تھی جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وقت تک اپنی طرف متوجہ رکھ سکے، کرکٹ میں وہ تمام باتیں موجود تھیں، کیوں کہ یہ کئی کئی دن تک کھیلے جاتے ہیں، لہٰذا اس نے کرکٹ کو شہروں شہروں، گلیوں گلیوں اور گھروں گھروں تک پہنچانے کے لیے کرکٹ کے میدان بنوائے، لوگوں کی توجہ انعامی اسکیموں کے لالچ میں اس کھیل کی طرف مبذول کرائی، کرکٹ کے کھلاڑیوں کو ان کاہیرو بنا کر پیش کیا، ان پر مال و زر کے دروازے کھول دیے، ڈالروں میں ان کو نہلادیا، پھر کیا تھا؟ کرکٹ کا جنون ان پر مسلط ہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات پر ان کی کوریج کا بندوبست کردیا، یوں دیکھتے دیکھتے ایک قلیل مدت میں کرکٹ عالمی کھیل بن گیا۔
کرکٹ کے مضر اثرات، ماحول و معاشرہ کو کس انداز سے بیکار کرتے ہیں اور ملک ووطن کے سرمایہ دارانہ نظام پر کتنا برا اثر ڈالتے ہیں، اس کی ایک سرسری رپورٹ پیش ہے۔
کرکٹ پراسی(80) ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں، ٹی، وی، چینلز پر سال بھر میں بارہ لاکھ گھنٹے یہ کھیل دکھایا جاتا ہے، اس وقت دنیا کے سترہ کروڑ لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں، دنیا میں کرکٹ انڈسٹری کی مالیت گندم کے بجٹ کے برابر ہے، ایک اندازے کے مطابق ایک ورلڈ کپ پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر وہ مریضوں پر خرچ کی جائے تو دنیا کے تمام مریضوں کو ڈاکٹر، نرس اور دوائیں مفت مل سکتی ہیں، ایک ورلڈ کپ کے خرچ سے پوری دنیا میں اسکول کھولے جاسکتے ہیں، صحرائے عرب کو کاشت کاری کے قابل بنایا جاسکتا ہے، چار ورلڈ کپ کے دوران جتنی رقم مشروبات ، برگروں اور ہوٹلوں پر خرچ کی جاتی ہے اس رقم سے چالیس کینسر کے اسپتال بنائے جاسکتے ہیں،دنیا کے ایک تہائی بھوکوں کو خوراک دی جاسکتی ہے ،پاکستان جیسے چار ملکوں کوقرضے سے پاک کیا جاسکتا ہے ،ورلڈ کپ میں جتنی بجلی خرچ ہوتی ہے وہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے چین جیسے ملک کی چھ ماہ کی برقی ضرورت پوری کرسکتی ہے ،ورلڈ کپ پر جتنا کچرا پیدا ہوتا ہے اتنا تیس ملک مل کر پورے سال پیدا نہیں کرتے، ورلڈ کپ کے موقع پر جتنی شراب پی جاتی ہے وہ پورا برطانیہ مل کر پورے سال نہیں پیتا، اس پر جتنا عام شہریوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اگر آدھی دنیا پورا مہینہ چھٹی کرے تو بھی اتنا ضائع نہیں ہوگا۔یہ ہیں کرکٹ کے اخراجات اور اس کے مضر اثرات۔
آئیے! اب کرکٹ کے انفرادی ، دنیوی اور دینی نقصانات کا ایک جائزہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا جائے۔
کومینٹری سننے میں بھی بہت سے نقصانات ہیں
میچ دیکھنے کی مستی میں بعض نماز ترک کردیتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ شانہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ فرمارہا ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرو ﴿حافظوا علی الصلوٰت﴾ (سورہٴ بقرہ:238) دوسری طرف اللہ کا پیغمبرفرمارہا ہے من ترک الصلوة متعمداً فقد کفر․(الترغیب و الترہیب بحوالہ طبرانی فی الاوسط)(جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی وہ کفر کے قریب جا پہنچا۔)گویامسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی نماز ہے، ادھر موذن صاحب حی علی الصلوة (آؤ نماز کی طرف) حی علی الفلاح (آوٴ کام یابی و کام رانی کی طرف) کہتے ہیں۔ ادھر ہم کھیل میں مستغرق رہتے ہیں: ﴿واذا نادیتم الی الصلوة اتخذوہا ہزوا ولعبا﴾․ (سورہ مائدہ آیت:58)
اور جب تم نماز کی طرف پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی اور کھیل بناتے ہیں۔
جماعت کی نماز چھوڑ دیتے ہیں، ترک جماعت کے متعلق آقائے نام دار حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھیے اور غور کیجیے: ”قسم اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، میں نے ارادہ کیا تھا کہ کسی سے کہوں کہ لکڑیاں جمع کرے، جب وہ اکٹھی ہوجائیں پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے، اچانک ان کے گھروں کو آگ لگادوں، تاکہ وہ بھی گھروں کے ساتھ جل جائیں“۔ (بخاری و مسلم)
لغو کام میں مشغول ہونا
وقت کی ناقدری ہوتی ہے، کیوں کہ یہ محض وقت گذاری ہوتی ہے ، مذہب اسلام نے خاص طور سے وقت کو برباد اور ضائع کرنے کی پر زور مذمت کی ہے اور اس کو کارآمد بنانے واچھے کاموں میں خرچ کرنے کے لیے بڑے اچھے اور مؤثر اسلوب میں ترغیب دلائی ہے، حق جل مجدہ اپنی کتاب عظیم قرآن کریم میں وقت کی قسم کھاکر وقت کی قدر و قیمت کو ہمارے قلوب میں راسخ کرنا چاہتا ہے۔ (سورہ العصر:1، الضحی: 2-1، اللیل:2-1 الشمس:4-3)
دوسری جگہ کام یاب مومن کی صفات شمار کراتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿والذین ہم عن اللغو معرضون․﴾ (سورة مومنون آیت:3) (اور یہ وہ لو گ ہیں جوفضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں) ۔
حدیث پاک میں اسلام کی خوبی کو یوں اجاگر کیا گیا ہے: ”من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ․“ (ابن ماجہ، ترمذی، شعب الایمان،جمع الجوامع)
(آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ لا یعنی امور ترک کردے۔) حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع میں یہ حدیث شریف نقل فرمائی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس وقت دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے، آج کے بعد میں پھر کبھی واپسی نہ آؤں گا۔ ”من استطاع ان یعمل خیرا فلیعملہ فانی غیر مکرر علیکم ابداً“۔ (بحوالہ شعب الایمان )
یاد الٰہی اور آخرت سے وہ شخص غافل ہوجاتا ہے، طاعت الٰہی سے غفلت اور یوم الحساب کو بھول بیٹھنے کی وجہ سے انسان اچھے کاموں کی طرف نہیں لپکتا اور برے کاموں سے پاؤں نہیں کھینچتا، جس کو قرآن کریم اس طرح بیان کرتا ہے:﴿وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَلَلدَّارُ الآخِرَةُ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُون﴾․(سورہ انعام آیت 32) (اور نہیں ہے زندگانی دنیا کی مگر کھیل اور جی بہلانے کی اور آخرت کا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کے لیے، کیا تم نہیں سمجھتے؟)
ہر وہ شے جو اللہ کے ذکر اور نماز سے غافل کردے وہ جوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال زریں میں سے ذکر سے غافل شخص کے لیے ایک زریں قول مزید ملاحظہ فرمائیں الشیطان جاثم علی قلب ابن آدم، فاذ اذکر اللہ جلس واذا غفل وسوس (شیطان انسان کے دل سے چپکا رہتا ہے جب وہ دل سے اللہ کو یاد کرتا ہے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب وہ ذکر اللہ سے غافل ہوتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔)
بہت سے ضروری دینی و دنیوی کاموں کا نقصان ہوتا ہے ۔
نتیجہ برآمد ہونے پر لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں،کیوں کہ ہر آدمی کی سوچ الگ الگ ہوتی ہے، کوئی کسی ٹیم کا حامی ہوتا ہے تو کوئی دوسری ٹیم کا فین ہوتا ہے، قرآن کریم اس کی منظر کشی یوں کرتا ہے اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ بزدل اور کم ہمت ہوجاؤ گے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور رعب ودبدبہ جاتا رہے گا:﴿ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذہب ریحکم﴾․ (سورہ انفال آیت:46)
پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں جو سراسر اسراف ہے، فضول خرچی اور اسراف کرنے والے کو قرآن کریم میں شیطان کے بھائی کے ساتھ ملقب کیا ہے:﴿ ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین﴾ (سورہ بنی اسرائیل آیت:27) (بے شک بے موقع اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں۔) دیگر جگہوں میں اللہ تعالیٰ شانہ نے مبذر سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے:﴿ولاتسرفوا إنہ لا یحب المسرفین﴾ (سورہ انعام آیت141، اعراف آیت:31)۔
محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بے جا مال اڑانے اور لٹانے سے احتراز کرنے کو فرمایا ہے:” نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن اضاعة المال․“ (بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابو داؤد)
اگر کومنٹری سننے کا آلہ اپنا ہو تو مزید ایک گناہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ٹی، وی پر میچ دیکھنا بھی خطرات سے خالی نہیں، بہت سی خرابیوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔
(1)قصداً تصاویر دیکھنا، یہ بات بھی ذہن نشین رہے ، ٹی وی پر بہت سی تصویریں ہوتی ہیں، ہر ایک تصویر دیکھنے کا الگ گناہ ہوتا ہے ۔
(2)نامحرم عورتوں کو دیکھنا ، یہ بھی کرکٹ کی وجہ سے حاصل ہوجاتا ہے، معاشرہ کو برباد اور مفلوج کردینے والی قبیح اور شنیع شے زنا ہے اور یہ اس کا پیش خیمہ ہے۔ قرآن و احادیث میں اس سے بچنے کے لیے بہتر اور احسن طریقے و نسخے تجویز ہیں ، فرقان حمیدمیں حفظ ماتقدم کے طور پر فرمایا: ﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی﴾ (سورة نور آیت 30)( آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے۔) اسی طرح کی رہبری وراہ نمائی مومن عورتوں کی ہے۔ دیکھیں سورة نور آیت:31۔ اسی سلسلہ میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال انتہائی فائدوں کے حامل ہیں: ”لتغضن ابصارکم، ولتحفظن فروجکم، اولیکسفن الله وجوہکم․“ (الترغیب و والترہیب بحوالہ طبرانی)(اپنی نظریں نیچی رکھو اور شرم گاہوں کی حفاظت کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ شانہ تمہارے چہروں کو بے نور کردے گا)اور فرمایا: ”ماترکت بعدی علی امتی فتنة اضر علی الرجال من النساء․“ (بخاری شریف، مسلم شریف) (میں نے اپنے بعد اپنی امت کے مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا نقصان دہ کوئی اور فتنہ نہیں چھوڑا) حضرت حسن بصری مرسلاً آپ کا یہ قول نقل فرماتے ہیں: ”لعن الله الناظر والمنظور الیہ․“ (بیہقی فی شعب الایمان )اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس شخص پر جو قصداً (بلا کسی عذر شرعی کے ستر یا اجنبی عورت کو) دیکھنے والا ہو اور اس پر جس کو (بلا عذر شرعی) دیکھا جائے۔) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ شیطان آدمی کو بہکانے سے کبھی مایوس نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ عورتوں کے ذریعہ اس کے پاس آتا ہے کہ میرے نزدیک عورتوں (کے فتنہ) سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہے۔
(3) جماعت کی نماز کا چھوڑ دینا اور جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ بعض حضرات بالکل نماز پڑھتے ہی نہیں ۔(4)قیمتی وقت کا ضائع کرنا۔(5) عبث کا م میں لگنا ۔(6) بہت سی ضروریات دینی و دنیوی کے چھوڑنے میں معاون ہوتا ہے۔ (7) ٹی، وی سے محبت ، لگاؤ اور انسیت پیدا ہوتی ہے۔ (8) بہت سے گناہ وجود میں آتے ہیں۔ (9) گناہ کی نحوست سے رزق کی برکت جاتی رہتی ہے۔ (10) ٹی ، وی سے دلچسپی رکھنے والا بھلائی کے کاموں سے محروم رہتا ہے۔ (11) کھیل ختم ہونے پر ہار جانے والی ٹیم کے چاہنے والوں کا جھلاجانا اور جیتنے والی ٹیم کے چاہنے والوں کا خوشی میں جھومنا، لڑائی مول لینے کا سبب ہے۔ (12) اللہ تعالیٰ شانہ اور آخرت کی یاد سے دور ہونا۔ (13) اگر ٹی، وی اپنا ہو تو مزید ایک اور گناہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
جب کہ مفتیان عظام نے تحریر فرمایا ہے کہ غفلت میں ڈالنے والے سامان و آلات کا گھر میں رکھنا مکروہ تحریمی ہے ،جب کہ یہ تو اس کو خود بھی استعمال کررہا ہے اور جو دوسرے حضرات اس کے ٹی ، وی سے مستفیض ہو رہے ہیں ان کا گناہ بھی اپنے سر لیتا ہے ۔(14) آتش بازی کی جاتی ہے۔
اسٹیڈیم میں بیٹھ کر نظارہ کرنا بھی بہت سی قباحتیں اپنے ساتھ لیے ہوتاہے، مثال کے طور پر
1..نامحرم عورتوں کا نظارہ کرنا۔
2..مرد و زن کا اختلاط ۔
محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لمحہ بھر کے لیے مردوزن کے اختلاط کو گوارا نہیں فرماتے تھے اور یہاں اختلاط گھنٹوں کے حساب سے نہیں، بلکہ دنوں کے حساب سے ہوتا ہے ،حدیث شریف میں موجود ہے کہ” ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکل رہے تھے، دیکھا کہ مرد اور عورتیں ایک ہی ساتھ راستہ میں چل رہی ہیں تو آپ نے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا :پیچھے ہٹ جاوٴ! تم راستہ کے کناروں کو لازم پکڑ لو“۔
3..نماز باجماعت یا بالکل نماز ترک کردینا ۔
4..دنیا کی سب سے قیمتی شے وقت کو برباد کرنا۔
5..لایعنی کام میں لگنا ۔
6..دینی و دنیوی بہت سی ضروریات کو پس پشت ڈال دینا۔
7..اسراف کرنا۔
8..آخرت اور آخرت میں حساب لینے والے کی یاد سے بے بہرہ رہنا ۔
9..فریقین کے محبین کا لڑنا جھگڑنا، ان تینوں قسموں سے جو طبی خسارہ اور گھاٹا ہوتا ہے وہ تو رہا فری فنڈ میں۔ عقلاً بھی یہ معیوب ہے کہ چند آدمی کھیلتے رہیں اور بہت سے لوگ ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھتے رہیں، کھلاڑیوں کا مقصد اپنے ملک کا نام روشن کرنا، شہرت حاصل کرنا، پیسہ کمانا، واہ واہی لوٹنا اور اچھی کارکردگی پر انعام حاصل کرنا وغیرہ۔
ایک مرتبہ جرمنی و فرانس کے مابین کرکٹ میچ ہوا تو جرمنی کے سربراہ ہٹلر کو بھی میچ دیکھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ ہٹلر میچ دیکھنے اسٹیڈیم پہنچا ،میچ شروع ہوا اور چلتا رہا، یہاں تک کہ شام ہوگئی، ہٹلر اکتا گیا اور چلا گیا، ٹیم کے ریفری سے دریافت کیا میچ کون جیتا؟ ریفری نے کہا سر! میچ ابھی جاری ہے، ہارجیت کا فیصلہ چار دن کے بعد آئے گا۔ ہٹلر غصہ میں جھلا گیا اور کہنے لگا یہ کوئی کھیل ہے!!! دیکھنے والے پورے دن کے لیے بے کار ہوجاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی ہاتھ نہیں آتا اور چار چار دن کاانتظار کرنا پڑتا ہے۔ بند کرو اس کھیل کو، ہٹلر نے کرکٹ پر پابندی عائد کردی، جرمنی کا وہ دن اور آج کا دن جرمنی نے قومی ٹیم بنانے کی غلطی نہیں کی، جب کہ اس وقت جرمنی کی ٹیم یورپ کی نمبر ون ٹیم تھی۔
سپرپاور امریکہ کا بھی یہی حال ہے کہ امریکہ کے صدر روزویلٹ نے کہا کرکٹ لمبا اور سست کھیل ہے، اس سے وقت ضائع ہوتا ہے، دیکھنے والوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور لوگ اس کے ہوکر رہ جاتے ہیں، اگر امریکہ کو ترقی کرنی ہے تو ایسے کھیلوں سے دور رہنا ہوگا، اس کے بعد امریکہ میں پابندی لگادی اور آج بھی کرکٹ امریکہ کا غیر سرکاری کھیل ہے۔ ایسے ہی بہت سے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ممالک ہیں جن کی کوئی کرکٹ ٹیم نہیں ہے۔
|