Friday, 13 June 2025

پانچ اوقاتِ نماز کا ثبوت اور فضائل

نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔

کائنات کے خالق ومالک اللہ پاک نے حکم فرمایا:

.....اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا

ترجمہ:
.....بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض (مقررہ) اوقات میں۔

[سورۃ النساء:103]

حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ.....نمازوں کی حفاظت کرو۔
[سورة البقرة:238]
مفسر قرآن علامہ ابن کثیر  اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔

وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلَی صَلَوَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ.....اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
[سورة المعارج:34]
مفسر قرآن ابن کثیر  اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔

فَوَیلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ.....سو ان نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز میں کاہلی کرتے ہیں۔
[سورة الماعون:4-5]
مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔

قرآن کریم (سورة النساء آیت ۱۰۲) میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ متعدد احادیث میں نمازِ خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے؛ لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اس کی قضا کرنی ہوگی، جیسا کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہٴ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
پانچ(5)اوقاتِ نماز کا ثبوت:
(1)فجر(قبل طلوع الشمس)
[سورۃ الفجر:1، البقرۃ:187، الاسراء:78، النور:58، القدر:5 (ھود:114)(طٰہٰ:130، ق:39)]
(2)ظھر(قبل الغروب)
[سورۃ الروم:18، النور:58 (الاسراء:78)(طٰہٰ:130، ق:39)]
(3)عصر(الوسطیٰ)(قبل الغروب)
[سورۃ العصر:1 (طٰہٰ:130، ق:39)(البقرۃ:238، ھود:114، الاسراء:78)]
(4)مغرب(آناء اللیل)
[سورۃ (ھود:114، الاسراء:78)(طٰہٰ:130، ق:40)]
(5)عشاء(آناء اللیل)
[سورۃ (الاسراء:78)(طٰہٰ:130، ق:40)]

تفصیل نیچے آرہی ہے:

Tuesday, 10 June 2025

تکبیراتِ تشریق اور ایامِ تشریق


"اکثر اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ تکبیرات (تشریق) کا آغاز عرفہ (9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز کے فوراً بعد ہوتا ہے، اور اختتام ایام تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز کے بعد ہوتا ہے۔ یہی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ مکحول نے بھی اسی کو اپنایا ہے۔

[شرح السنة للبغوي:1924(7/146)]

 کیونکہ

(1)حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يكبر يوم عرفة صَلَاةَ الْغَدَاةِ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ آخِرَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ

ترجمہ:

"نبی ﷺ عرفہ(9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز سے لے کر ایام تشریق(یعنی 11-12-13 ذی الحجہ) کے آخری دن کی عصر کی نماز تک تکبیرات (تکبیرات تشریق) پڑھا کرتے تھے۔"

[بیھقی:6278]


عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الصُّبْحَ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ يُقْبِلُ عَلَى أَصْحَابِهِ فَيَقُولُ: «عَلَى مَكَانِكُمْ» , وَيَقُولُ:- «الله أكبر اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ , لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ والله أَكْبَرُ , اللَّهُ أَكْبَرُ ولله الحمد» , فَيُكَبِّرُ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ۔

ترجمہ:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ (یعنی 9 ذی الحجہ) کے دن صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: "اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو"، پھر یہ تکبیریں پڑھتے:  

«الله أكبر اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ , لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ والله أَكْبَرُ , اللَّهُ أَكْبَرُ ولله الحمد»

آپ ﷺ عرفہ کی صبح سے لے کر تشریق کے آخری دن (یعنی 13 ذی الحجہ) کی عصر کی نماز تک یہ تکبیریں پڑھتے رہے۔ 

[سنن الدارقطني:1737، شرح السنة للبغوي:1924، تفسیر الدر المنثور للسیوطی:1/556-سورۃ البقرۃ:198، تفسیر البغوی:1/234-سورۃ البقرۃ:203]

حكم المحدث : إسناده فيه ضعف

[فضائل الأوقات-البيهقي:100، الخلافيات للبيهقي:2942][نصب الراية-الزيلعي:2/224]


تشریح:


زمانہ تکبیر: ۹ ذی الحجہ (یوم عرفہ) کی صبح سے ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک۔  

تکبیر کا طریقہ: مذکورہ الفاظ کے ساتھ بلند آواز سے تکبیر کہنا۔  

شرعی حکم: یہ تکبیراتِ تشریق سنتِ مؤکدہ ہیں، جو ہر فرض نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔

Monday, 9 June 2025

بیماری اور عیادت کے فضائل، احکام وآداب


دنیا دار الامتحان ہے، جس طرح ایمان سے محروم انسان کو ابتلا وآزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے، اسی طرح صاحبِ ایمان کے لیے بھی ابتلا و آزمائش مقدر ہوتی ہے، اسلام کا تصور یہ ہے کہ بیماری اور شفا اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، فرماں بردار اور نافرماں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، حضرات انبیائے کرام بھی بیمار ہوئے ہیں، سیدالمرسلین اور امام الانبیاء بھی متعدد مرتبہ بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں، وفات کے موقع پر تقریباً چودہ دن بیمار رہے، بیماری مومن کے لیے امتحان وآزمائش ہے، دنیا میں آزمائشیں بخشش اور مغفرت کے لیے آتی ہیں، حقیقت میں بیماری ایک نعمت ہے، گناہوں کے لیے کفارہ اور رفع درجات کا سبب ہے، بیمار کو اللہ اور بندوں سے معافی تلافی اور حقوقی کی ادائیگی کے لیے ایک موقع دیا جاتا ہے۔

اہل ایمان دنیا میں ہمیشہ مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آخرت کی دائمی راحت پالیتے ہیں:
القرآن:

اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال اور جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155-156]

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يزال البلاء بالمؤمن أو المؤمنة في نفسه وماله وولده حتى يلقى الله تعالى وما عليه من خطيئة .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن مرد یا مؤمن عورت کی جان، اس کے مال اور اس کی اولاد کو ہمیشہ مصیبت و بلاء پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ (جب) وہ (مرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے تو اس پر (یعنی اس کے نامہ اعمال میں) کوئی گناہ نہیں ہوتا (کیونکہ مصیبت و بلاء کی وجہ سے اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں)۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1544]

Thursday, 5 June 2025

علاماتِ قیامت: قبر وحشر، جنّت وجہنّم

علاماتِ قیامت
علاماتِ قیامت کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں:
(۱)علاماتِ بعیدہ
(۲)علاماتِ متوسطہ
(۳)علاماتِ قریبہ، جن کو علاماتِ بعیدہ کہاجاتا ہےاُن کا ظہورہوچکا ہے،
مثلاً حضور اکرم    کا تشریف لانا اور چاند کا شق ہونا ،نبوت کے سلسلہ کا ختم ہوجانا وغیرہ یہ علاماتِ بعیدہ کہلاتی ہیں،اس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے:اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَر(قمر:۱) قیامت قریب آگئی اور چاند شق ہوگیا،یعنی حضور اکرم    کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے،گزشتہ کتابوں میں چاند کےشق ہونے کو علاماتِ قیامت میں شمار کیاگیا ہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت    نے ارشاد فرمایا  مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا اس موقعہ پر حضور اکرم    نے دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا، یعنی جتنا فاصلہ انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی میں ہے اتنا ہی فاصلہ مجھ میں اور قیامت میں ہے۔

(بخاری،بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ،حدیث نمبر:۶۰۲۳)

دوسری قسم علاماتِ متوسطہ جن کو علامات صغری بھی کہاجاتا ہے،ان میں سے بہت سی علامتیں ظاہر ہوچکی ہیں اور باقی ظاہر ہوتی جارہی ہیں، ان علامتوں کا تفصیلی ذکر قربِ قیامت کی چھوٹی نشانیوں کے ذیل میں آئے گا،تیسری قسم علامات قریبہ جس کو علاماتِ کبری بھی کہا جاتا ہے اس کا ذکر قیامت کی بڑی نشانیوں کے تحت آئے گا۔

Wednesday, 4 June 2025

عوامی شبہات ومغالطوں کی اصلاح

(1) اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہی ہے تو کیا عبادت کیلئے فرشتے کافی نہیں تھے؟

جواب:

اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:  

*"وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ"* (الذاریات: 56)  

(ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے)۔  


سوال یہ ہے کہ اگر مقصد صرف عبادت تھا تو پہلے سے موجود فرشتے کیوں کافی نہیں تھے؟ اس کا جواب عقلی و نقلی دلائل سے درج ذیل ہے:


---


### *1. عبادت کی نوعیت میں فرق: آزاد مرضی کا امتحان:*

- **فرشتوں کی عبادت**: وہ فطری طور پر مکمل مطیع ہیں، ان میں آزاد مرضی نہیں۔ قرآن میں ہے:  

  *"لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ"* (التحریم: 6)  

  (ترجمہ: وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اور جو کچھ انہیں حکم دیا جائے وہی کرتے ہیں)۔  

  یہ عبادت "مجبوری" پر مبنی ہے۔  


- *انسان کی عبادت*: انسان کو *آزاد مرضی* دی گئی تاکہ وہ اپنے اختیار سے اللہ کی بندگی کا انتخاب کرے۔ یہ عبادت "امتحان" کی بنیاد پر ہے، جس کا مقصد ایمان و عمل کی آزمائش ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:  

  *"اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا"* (الملک: 2)  

  (ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے)۔  


*عقلی دلیل*:  

جبری عبادت (جیسے فرشتے) اور اختیاری عبادت (جیسے انسان) میں بہت فرق ہے۔ اختیاری عبادت میں *اخلاص، جدوجہد اور خدمت* شامل ہوتی ہے، جو انسان کو روحانی ترقی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اجر بھی فرشتوں سے زیادہ ہے۔  



---


### *2. انسان کی منفرد حیثیت: خلافتِ الٰہی کا منصب:*

اللہ تعالیٰ نے انسان کو **خلیفۃ اللہ فی الارض* (زمین پر اپنا نائب) بنایا، جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے:  

*"وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً"* (البقرہ: 30)  

فرشتوں نے اعتراض کیا: **"اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ"** (کیا آپ ایسے کو خلیفہ بنائیں گے جو فساد کرے گا اور خونریزی کرے گا؟)۔  

اللہ نے جواب دیا: *"اِنِّيْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ"* (بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے)۔  


*عقلی دلیل*:  

- فرشتے صرف عبادت کر سکتے ہیں، لیکن انسان کو *تخلیقی صلاحیتیں* دی گئی ہیں تاکہ وہ زمین کو آباد کرے، علم حاصل کرے اور عدل قائم کرے۔  

- انسان کا امتحان ہی اسے فرشتوں سے ممتاز کرتا ہے، کیونکہ وہ *شہوات اور شیطان کے وسوسوں* کے باوجود عبادت پر قائم رہتا ہے۔  


---


### *3. معرفتِ الٰہی کا کمال: اللہ کے اسماء و صفات کا ظہور*

انسان کو *اشرف المخلوقات* بنایا گیا، کیونکہ وہ اللہ کے اسماء و صفات (جیسے رحیم، غفور، حکیم) کو پہچاننے اور ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فرشتے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے، جیسا کہ سورۃ البقرہ (آیت 31-33) میں حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر فضیلت دینے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔  


*عقلی دلیل*:  

اگر صرف عبادت کا ہدف ہوتا تو فرشتے کافی تھے، لیکن انسان کی تخلیق کا مقصد *اللہ کی صفات کا مکمل ظہور* تھا، جو صرف آزاد مرضی، آزمائش اور اختیار کے ذریعے ممکن ہے۔  



---


### *4. نتیجہ: عبادت کا جامع تصور*

- *عبادت:* محض نماز/روزہ نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارنا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:  

  *"قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ"* (الأنعام: 162)  

  (ترجمہ: کہہ دو میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے)۔  

- فرشتے صرف *عبادتِ خاصہ* (نماز وغیرہ) کر سکتے ہیں، جبکہ انسان *عبادتِ عامہ* (تعلیم، معاشرتی خدمت واصلاح، عدل قائم کرنا) کے ذریعے بھی اللہ کو راضی کرتا ہے۔  


### *خلاصہ*:  

فرشتوں کی عبادت "فطری" ہے، جبکہ انسان کی عبادت "اختیاری اور آزمائشی" ہے، جو اسے *اعلیٰ درجے کی روحانی بلندی* پر پہنچاتی ہے۔ انسان کو خلافت، علم اور آزاد مرضی جیسے اعزازات دیے گئے، جو فرشتوں کے پاس نہیں۔ لہٰذا، انسان کی تخلیق کا مقصد محض عبادت نہیں، بلکہ *امتحان کے ذریعے کمالِ عبادت تک پہنچنا* ہے، جو فرشتوں کے لیے ممکن نہ تھا۔



Tuesday, 27 May 2025

ابراھیمی مذاہب یا ادیان اور ابراہیمی ہاوس کی حقیقت


ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے، اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزماں ﷺ اور وہ لوگ ہیں جو (ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔

[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 67-68]

اے اہل کتاب(یہود ونصاریٰ!) تم ابراہیم کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد ہی تو نازل ہوئی تھیں، کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے؟ دیکھو ! یہ تم ہی تو ہو جنہوں نے ان معاملات میں اپنی سی بحث کرلی ہے جن کا تمہیں کچھ نہ کچھ علم تھا۔ (26) اب ان معاملات میں کیوں بحث کرتے ہو جن کا تمہیں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے ؟ اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔

[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 65-66]

تفسیر:

(26)یہودی کہا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑ یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے، اول تو قرآن کریم نے فرمایا کہ یہ دونوں مذہب تورات اور انجیل کے نزول کے بعد وجود میں آئے، جبکہ حضرت ابرہیم ؑ بہت پہلے گزر چکے تھے، لہذا یہ انتہائی احمقانہ بات ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے، اس کے بعد قرآن کریم نے فرمایا کہ جب تمہارے وہ دلائل جو کسی نہ کسی صحیح حقیقت پر مبنی تھے، تمہارے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، تو حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں یہ بےبنیاد اور جاہلانہ بات کیسے تمہارے دعوے کو ثابت کرسکتی ہے، مثلاً تمہیں یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر تم نے ان کی خدائی کی دلیل پیش کرکے بحث کی مگر کامیاب نہ ہوسکے ؛ کیونکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کسی کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتا، حضرت آدم ؑ تو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے مگر انکو تم بھی خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے، جب تمہاری وہ دلیلیں بھی کام نہ آسکیں جو اس صحیح واقعے پر مبنی تھیں تو سراسر جاہلانہ بات کہ حضرت ابراہیم ؑ نصرانی یا یہودی تھے کیسے تمہارے لئے کارآمد ہوسکتی ہے ؟





Saturday, 24 May 2025

جہنم کا بیان

 جہنم۔۔۔بھڑکتی ہوئی "آگ" ہے۔

[سورۃ النساء:55]

اللہ کے غضب اور عذاب کا

[النساء:93]

طے شدہ(وعدہ گاہ) ہے

[الحجر:43]

برا ٹھکانہ

[البقرۃ:204]

بدترین مکان

[الفرقان:34]

قیدخانہ ہے

[الاسراء:8]

تکبر(حق کا انکار)کرنے والوں کیلئے

[النحل؛29]

اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے(مرنے)والے

[الجن:23]

جس سے بچنے کیلئے کوئی راہِ فرار نہیں ملے گی۔

[النساء:121]

جس میں وہ(مجرم)نہ مریں گے اور نہ جئیں گے

[طٌہٰ:74]

اور نہ ہی عذاب ہلکا کیا جائے گا

[فاطر:36]

یقیناً اسکا عذاب(وہ تباہی)ہے جو لازم ہوجانے-چمٹ کر رہ جانے والا ہے

[الفرقان:65]

Wednesday, 21 May 2025

نکاح میں"عمر"کے حد مقرر کرنے کا شرعی حکم

واضح رہے کہ شریعت میں نکاح کیلئے "عمر" کی حد(قید) نہیں لگائی گئی، اور دین مکمل ہوچکا اس میں کسی اضافے یا کمی کی گنجائش نہیں، اور انسانی عقل سے تجویز کردہ باتوں میں اختلاف ناگزیر ہے، لہٰذا انسانی عقل سے نازل شدہ حکم اور علمِ الٰہی کی ہدایت کو بدلنا نہ صرف دین سے بغاوت ہے بلکہ یہ دین میں تحریف و تبدیلی کرنا اور دین میں فساد وفتنہ پھیلانا ہے۔


لہٰذا کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکے/ لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے، بلکہ ولی کو ان کی شادی کرانے کا حق ہوتا ہے۔

نابالغ کی(شادی اور)طلاق کا حکم:

چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ}

ترجمہ:

اور تمہاری عورتوں میں سے جو ماہواری آنے سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں (ان کی عدت کے بارے میں) شک ہو تو (یاد رکھو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے، اور ان عورتوں کی (عدت) بھی (یہی ہے) جنہیں ابھی ماہواری آئی ہی نہیں۔۔۔

[سورۃ الطارق:4]


پس اس آیت کے ذیل میں امام جصاص رحمہ اللہ (م370ھ) لکھتے ہیں:

"فحكم بصحة طلاق الصغيرة التي لم تحض, والطلاق لا يقع إلا في نكاح صحيح, فتضمنت الآية جواز تزويج الصغيرة.ويدل عليه أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوج عائشة وهي بنت ست سنين۔"

ترجمہ:

"(اس آیت ميں) اس بچی جس کو ابھی حیض نہ آیا ہو اس کی طلاق کی درستگی کا حکم دیا گیا ہے اور طلاق صرف نکاح صحیح کے دوران ہوتی ہے، پس یہ آیت اس کو حکم کو بھی متضمن ہے کہ چھوٹی بچی کا نکاح کرانا درست ہے، اور اس بات پر بھی دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب وہ چھ سال کی تھیں۔"

[احکام القرآن للجصاص» سورہ آلِ عمران ،ج:،ص:69،ط:دار الکتب العلمیہ]


پس اگر لڑکی صحت مند ہو، شوہر کے قابل ہو تو رخصتی میں شرعاً کوئی حرج نہیں اور اس کا تعین لڑکی کے ولی اور سرپرست جو کہ لڑکی کے انتہائی خیر خواہ اور ذمہ دار ہیں ان کا کام ہے ،دوسرے لوگوں کو اس پر اعتراض کرنا اور اس قسم کی باتوں کو موضوع سخن بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔



Tuesday, 25 March 2025

افطاری سے پہلے اور بعد کی دعائیں

 افطاری سے پہلے کی دعائیں:

(1)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ،  وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» 

ترجمہ:

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب افطاری کرتے تھے تو کہتے:  شروع اللہ کے نام سے، اے اللہ! میں نے آپ ہی کیلئے روزہ رکھا، اور آپ ہی کے رزق سے افطار کیا۔

[المعجم الاوسط للطبرانی:7549، العجم الصغیر للطبرانی:912]



(2)حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

إذا قرب إلى أحدكم طعام وهو صائم فليقل: بسم الله والحمد لله اللهم لك صمت  وعلى رزقك أفطرت وعليك توكلت سبحانك وبحمدك تقبل مني إنك أنت السميع العليم

ترجمہ:

جب تم میں سے کسی روزہ دار کے قریب کھانا لایا جائے تو وہ یہ دعا کہے۔

اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں یا اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے روزہ افطار کرتا ہوں اور تجھی پر بھروسہ کرتا ہوں تو پاک ہے اور تیری ہی حمد ہے تو میرا روزہ قبول فرما بلاشبہ تو سننے والا اور علم والا ہے۔

[سن دارقطنی:699، جامع الاحادیث -للسیوطی:2500، کنزالعمال:23873]





Tuesday, 18 March 2025

تسبیح تراویح کی تحقیق


تسبیح تراویح کی تحقیق


تراویح میں چار رکعت كے بعد جو دعاء پڑھی جاتی ہے:

( سُبحان ذی المُلک والمَلَکوت ) اس کی تحقیق مطلوب ہے بحوالہ ؟




Tuesday, 11 March 2025

کیوں اے آئی AI (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) بھی گمراہ کرسکتی ہے۔

خبردار! AI (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) غلطی ومعذرت کے باوجود قرآن کا غلط استعمال واستدلال اور منگھڑت حدیث بناکر باربار پیش کرکے، قرآن وسنت کے اصول پر مبنی راہنمائی کے نام پر اس غلطی کو دہراتی بھی رہتی ہے۔




ثبوت پیشِ خدمت ہیں:

(1)



Friday, 7 March 2025

تحقیقِ حدیث»سحری کا انتہائی وقت فجر ہے نہ کہ اذان


🔶 کیا فجر کی اذان کے وقت سحری کھاتے رہنا چاہئے؟


لوگوں میں ایک غلط فہمی عام ہے کہ اگر فجر کی اذان ہو جائے، اگر سامنے کھانا ہے، تو اذان کے بعد بھی کھا سکتے ہیں۔


اس تعلق سے ابوداؤد کی حدیث پیش کی جاتی ھے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ.

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  تم میں سے کوئی جب صبح کی اذان سنے اور   (کھانے پینے کا)  برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کئے بغیر نہ رکھے۔

[ابو داؤد#2350]








"میرا جسم، میری مرضی" کا نعرہ گمراہ کن کیوں؟


(1)ہماری ابتدا (پیدائش، رنگ، نسل، جنس، عمر) اور انتہاء(بڑھاپا،موت،بیماری) بھی ہماری مرضی سے نہیں، رب کی مرضی ہی سے ہے۔ تو پھر یہ نعرہ کہ "میرا جسم، میری مرضی" کیسے درست ہوسکتا ہے؟


(2)کسی مجمل جملہ کا مخصوص معنیٰ ومطلب مقرر نہیں کیا جاسکتا، یہ تلبیسِ ابلیس ہے کہ لفظ/جملہ کا عام معنیٰ کو رد کرنا اور اپنے من مانے معنیٰ ومطلب کا جامہ پہنایا جائے۔


(3)یہ وہ نعرہ ہے جس سے ہر طرح کی سرکشی، حدود کے خلاف ورزیاں اور شر وبگاڑ کا جواز پیدا کیا جاسکتا ہے بلکہ پھیلایا بھی جاتا رہا یے۔

جبکہ

یہ نعرہ لگانے والوں میں خیر وصلاح صرف خیالی-زبانی اور مفروضہ کے طور پر ہے۔ حیاء کی معنیٰ سے ناواقف، صرف حیاء لفظ کہنے سے حیاءدار تو نہیں ہوجاتے۔



(4)یہ نعرہ دراصل کفار کی تہذیب سے آیا ہے، کیونکہ اسلامی تہذیب اس کے خلاف یہ بات سکھاتی ہے کہ:

مومن کی جان اسکی نہیں۔

القرآن:

واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات کے بدلے خرید لیے ہیں کہ جنت انہی کی ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں، اور مرتے بھی ہیں۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے تورات اور انجیل میں بھی لی ہے، اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو ؟ لہذا اپنے اس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کرلیا ہے۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 111]


جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی،

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔


جان دے دی میں نے ان کے نام پر،

کچھ سوچا نہ انجام پر۔



Saturday, 1 March 2025

رؤیتِ ہلال(کی اہمیت)کیا ہے

 

رؤیتِ ہلال کیا ہے؟

رؤیتِ ہلال سے مراد چاند کا نظر آنا ہے، خاص طور پر اسلامی مہینوں کی ابتدا اور اختتام کے لیے نئے چاند (ہلال) کا مشاہدہ کرنا۔ اسلامی تقویم قمری ہے، جس میں ہر مہینہ چاند کے طلوع ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ رمضان المبارک، شوال (عید الفطر)، اور ذوالحجہ جیسے اہم مہینوں کی شروعات کے لیے ہلال کا مشاہدہ شرعی اہمیت رکھتا ہے۔


---


رؤیتِ ہلال کیوں ضروری ہے؟

1. قرآن و سنت کی تصریح:  

   - قرآن میں ارشاد ہے:  

     ﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ﴾ (البقرة: 185)  

     (ترجمہ: جو شخص اس مہینے کو پائے، وہ روزے رکھے)۔  

   - حدیث میں ہے:  

     "صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ" (صحیح بخاری: 1909)  

     (ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر بدلی ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کرو)۔  

Friday, 14 February 2025

لعنت کے معانی، لعنت کے مستحق لوگ اور اعمال

«لعن» یعنی کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا۔

خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق کے اثر پذیر ہونے سے محروم ہوجائے اور آخرت میں عقوبت(سزا) کا مستحق قرار پائے۔

اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنیٰ "بددعا" کے ہوتے ہیں۔ قرآن میں ہے:

أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ

[سورۃ هود:18]

سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

[المفردات فی غریب القرآن: ص741]


۔۔۔۔اور جس پر اللہ لعنت(یعنی اپنی رحمت سے دور) کرے تو اس کیلئے تم کوئی مددگار نہیں پاؤگے۔

[سورۃ النساء:52]


Wednesday, 12 February 2025

حکمت کے معانی، فضائل واحادیث



لفظ "حکمت" قرآن پاک میں بیس بار آیا ہے ، اور خدا تعالی نے اس آسمانی کتاب میں 91 مرتبہ "حکمت" کی صفت کے ساتھ اپنی تعریف کی ہے۔ (صفت "حکیم" قرآن میں 36 مرتبہ صفت "علیم" کے ساتھ، 47 مرتبہ صفت " عزیز " کے ساتھ، چار مرتبہ صفت "خبیر" کے ساتھ اور ایک ایک صفت "تواب"، "حامد"، "علی" اور "وصی" کے ساتھ آئی ہے۔)

Sunday, 9 February 2025

اصول فقہ»احکام کے درجات


دین کا ضروری علم نہ ہونا 'عذر' نہیں بلکہ 'جرم' ہے۔


واضح رہے کہ جیسے زندگی کے ہر شعبہ میں دینی احکام پر چلنا لازم ہے، ایسے ہی دینی احکام سیکھنا بھی لازم ہے؛ لہذا جس عبادت یا معاملہ سے کسی کا واسطہ پڑتا ہے، اس کے ضروری مسائل سیکھنا اس پر فرض ہوجاتا ہے، یہی محمل ہے اس حدیث کا جس میں نبی کریمﷺ نے علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے۔

Monday, 13 January 2025

تحقیقِ حدیث» ماں باپ کو دفنانے کے بعد یہ بات یاد رکھنا

 تحقیقِ حدیث»

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ» .

ترجمہ:

میت قبر میں، ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہے، وہ باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچنے والی دعا کی منتظر رہتی ہے، جب وہ اسے پہنچ جاتی ہے تو وہ اس کے لیے دنیا اور جو کچھ اس(دنیا) میں ہے سے بہتر ہوتی ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ (دنیا) والوں کی دعاؤں سے اہلِ قبور پر پہاڑوں جتنی رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور زندوں کا مردوں کے لئے تحفہ ان کے لئے مغفرت طلب کرنا ہے۔

[مسند الدیلمي:6232، کنزالعمال:42796، مشكاة:2355]


حکم الحدیث:

امام بیھقی نے فرمایا کہ:

اس(روایت) کی سند بہت کمزور بلکل منکر ہے۔

[شعب الإيمان:7905، نسخة محققة: 7526]

امام ذھبی نے فرمایا کہ:

اس میں راوی ﴿الفضل بن محمد بن عبد الله بن الحارث بن سليمان الانطاکي﴾ ہے جو مجروح متھم ہے۔

[ميزان الاعتدال: 396/3]


ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط:

جمہور کے مطابق ثابت شدہ اعمال مثلاً: دعا واستغفار اور صدقہ وغیرہ کے شوق دلانے میں ضعیف روایات بیان (کرکے اللہ کی رحمت سے ثواب کی امید)کی جاسکتی ہیں۔

اور بعض ائمہ کے مطابق حدیث کے کمزور ثبوت کو واضح کرکے بیان کرنا جائز ہے، تاکہ اس روایت(خبر) پر پختہ یقین(عقیدہ) نہ بن جائے۔

http://raahedaleel.blogspot.com/p/blog-page.html


نوٹ:

اس پوسٹ کردہ منگھڑت حدیث میں»

(1)قبر کے قریب بیٹھ کر ذکر کرنے

(2)اونٹ ذبح کرنے جتنا وقت بیٹھنے

(3)صرف والدین کیلئے کرنے

(4)حق ادا ہو جانے جیسی منگھڑت باتیں رسول اللہ ﷺ کے نام پھیلائی جارہی ہیں۔