یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
خدا
اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو تم بھی ان پر دُرود اور سلام
بھیجا کرو
القرآن:
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو۔
[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 56]
ابو العالیہ کا بیان ہے کہ اللہ کی صلوۃ کا مطلب ہے اس کا تعریف کرنا فرشتوں کے سامنے اور ملائکہ کے صلوۃ کا معنی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں دعا کرنا۔
امام ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس قول سے ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو آگاہ کرتا ہے کہ وہ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمت بھیج رہا ہے اور ان پر اپنی نعمت تمام کررہا ہے۔ فرشتوں کے سامنے اللہ کی طرف سے آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا یہی مفہوم ہے۔
بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے، تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعا دی نشوونما دی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے کہ:
«إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله۔
جب کسی کو کھانے پر بلایا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے، اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعا کرکے واپس چلا آئے۔
[سنن الترمذي:780، سنن ابوداؤد:2460]
اور قرآن میں ہے:
وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ
[سورۃ التوبة:103]
اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔
اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔
اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے :
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چونکہ اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل اور دعوت توحید کی تبلیغ و اشاعت میں اور رسوم جاہلیت کو تورنے میں پوری ہمت و جرات اور کامل ثبات و استقلال سے کام لیا۔ اور حق تبلیغ ادا کردیا توا للہ تعالیٰ نے آپ کو خراج تحسین پیش کیا اور فرشتوں کے سامنے آپ مدح و ثنا اور عظمت کا اظہار فرمایا اور آپ کی قدر و منزلت سے بندوں کو بھی آگاہ کیا۔ تاکہ وہ بھی آپ کی قدر و منزلت کو پہچانیں اور آپ کو خراج تحسین پیش کریں۔
حوالہ
والمقصود من ھذہ الایۃ ان اللہ سبحانہ وتعالیٰ اخبر عبادہ بمنزلۃ عبدہ و نبیہ فی الملا الاعلی بانہ یثنی علیہ عند الملائکۃ المقربین وان الملائکۃ تصلی علیہم ثم امر تعالی اھل العالم السفلی بالصلوۃ والتسلیم علیہ لیجتمع الثناء علیہ من اھل العالمین العلوی والسفلی۔
[تفسیر ابن کثیر: ج 3 ص 507]
ھی (الصلوۃ) عند عز وجل ثناء علیہ عند ملئکۃ و تعظیمہ (رواہ البخاری عن ابی العالیۃ وغیرہ عن الربیع بن انس و جری علیہ الحلیمی فی شعب الایمان۔
[تفسیر روح: ج 22 ص 76]
فصلوۃ اللہ ثناءہ علیہ عند ملئکتہ
[تفسیر خازن: جلد 5 ص 225]
قال البخاری قال ابو العالیۃ صلوۃ اللہ تعالی ثناءہ علیہ عند الملائکۃ وصلوۃ الملائکۃ الدعاء ولاوی مثلہ عن الربیع ایجا۔
[تفسیر ابن کثیر: جلد 3 ص 506]
امام ابو العالیہ، ربیع بن انس اور حلیمی نے یہی معنی مراد لیے ہیں۔ لیکن اکثر مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ صلوۃ اللہ کی طرف سے رحمت و خوشنودی، فرشوں کی طرف سے دعاء و استغفار اور بندوں کی طرف سے دعا و تعظیم ہے۔
حوالہ
والصلوۃ من اللہ رحمتہ ورضوانہ و من الملائکۃ الدعاء والاستغفار و من الامۃ الدعاء والتعظیم المرہ
[تفسیر قرطبی: ج 4 ص 232]۔
یعنی اللہ تعالیٰ حضرت پیغمبر (علیہ السلام) پر رحم و برکت نازل فرماتا ہے اور فرشتے بھی آپ کے لیے اللہ سے رحمت اور رفع درجات کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اے ایمان والو ! تم بھی آپ کے لیے اللہ سے رحمت و برکت کی دعا مانگا کرو۔ اور آپ کی مدح و ثنا کیا کرو۔
اللہ تعالیٰ کا رحمت بھیجنا تو رحمت فرمانا ہے ، اور مراد اس سے رحمت خاصہ ہے جو آپ کی شان عالی کے مناسب ہے اور فرشتوں کا رحمت بھیجنا اور اسی طرح جس رحمت کے بھیجنے کا ہم کو حکم ہے اس سے مراد اس رحمت خاصہ کی دعا کرنا ہے ، اور اسی کو ہمارے محاورے میں درود کہتے ہیں، اور اس دعا کرنے سے حضور کے مراتب عالیہ میں بھی ترقی ہوسکتی ہے اور خود دعا کرنے والے کو بھی نفع ہوتا ہے ۔
ام انیس اپنے والد حسن بن علی سے روایت کرتی ہیں کہ اس آیت ﴿بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر﴾(سورۃ الاحزاب:57) کے متعلق صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے سوال کیا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
یہ ایک پوشیدہ بات تھی اگر تم اس کے بارے میں سوال نہ کرتے تو میں تم کو نہ بتاتا، اللہ عزوجل نے دو فرشتے مجھ پر مقرر فرمائے ہیں۔ کسی بھی مسلمان بندے کے پاس میرا ذکر کیا جاتا ہے اور وہ بندہ مسلمان مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ فرشتے اس سے کہتے ہیں: اللہ تیری مغفرت کرے اور اللہ اور دوسرے فرشتے ان دو فرشتوں کو کہتے ہیں: آمین۔
[المعجم الکبیر للطبرانی:2753، کنزالعمال:3027]
الله تعالیٰ نے تمام عبادتوں کے بارے میں اپنے بندوں کو کرنے کا حکم فرمایا ہے اور درود کے بارے میں پہلے بنفس نفیس اس عمل کے کرنے کا ذکر فرمایا، پھر اس پر فرشتوں کے مامور ہونے کا ذکر کیا، اس کے بعد مومنوں کو حکم دیا کہ تم آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجنا تمام عبادات سے افضل ہے۔
دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا) ’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘
[صحیح مسلم : 408]
دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ» [سنن النسائی:1297، صحیح الجامع : 6359 ] ’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘
حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مََنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا ، وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا ، أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)
[ صحیح الجامع : 6357] ’’جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔‘‘
امام ابن ابی الدنیا اور نمیری نے کتاب الاعلام میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) کو ٹھہرایا جائے گا عرش کے قریب ایک کشادہ جگہ میں ان پر سو سبز کپڑے ہوں گے۔ گویا کہ وہ بوسیدہ کپڑے ہیں۔ اور آپ دیکھیں گے اس شخص کی طرف جو ان کی اولاد میں جنت کی طرف جائے گا اور دیکھیں گے اس شخص کی طرف بھی جو ان کی اولاد میں سے دوزخ کی طرف جائے گا۔ اس درمیان کہ آدم (علیہ السلام) اسی جگہ پر ہوں گے کہ آپ کی نظر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے ایک شخص پر پڑے کی۔ جس کو دوزخ کی طر ف لے جا رہے ہوں گے۔ تو آدم آواز دیں گے اے احمد! اے احمد! وہ فرمائیں گے میں حاضر ہوں اے بشر کے باپ۔ آدم (علیہ السلام) فرمائیں گے یہ آدمی تیری امت میں سے ہے۔ اس کو دوزخ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ پس میں اپنی چادر کو مضبوط کرتے ہوئے فرشتوں کے پیچھے جانے میں جلدی کروں گا۔ اور میں کہوں گا اے میرے رب کے قاصدو ٹھہرجاؤ۔ وہ کہیں گے ہم غضب ناک اور طاقتور ہیں ہم اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اور ہم وہی کرتے ہیں جو ہم کو حکم دیا گیا۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مایوس ہو جائیں گے (فرشتوں سے) تو اپنی داڑھی مبارک کو اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑ کر عرش الہیٰ کی طرف اپنا چہرہ پھیر لیں گے۔ اور فرمائیں گے اے میرے رب آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تجھ کو رسوا نہ کروں گا میری امت کے بارے میں تو عرش کے پاس سے ایک آواز آئے گی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ اور اس آدمی کو اپنے مقام کی طرف واپس لوٹا دو۔ پھر میں اپنی چادر باندھنے کی جگہ سے پوروں کی مثل ایک سفید کاغذ کا پرزہ نکالوں گا۔ اور اس کو ترازو کے دائیں پلڑے میں ڈالوں گا اور کہوں گا بسم اللہ تو اس کی نیکیاں بھاری ہو جائیں گی برائیوں پر تو آواز دی جائے گی یہ نیک بخت ہوگیا ہے اور اس کا دادا بھی نیک بخت ہے۔ اور اس کا بول بھاری ہو گیا تم اس کو جنت کی طرف لے چلو۔ فرشتے اس کو جنت کی طرف لے جائیں گے ۔ اور وہ کہے گا اے میرے رب کے قاصدو ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ میں سوال کرون اس کریم بندہ کے بارے میں اپنے رب سے اور وہ کہے گا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیسے ہی اچھا آپ کا چہرہ ہے اور کیا ہی اچھا آپ کا اخلاق ہے۔ آپ کون ہیں کہ آپ نے میرے گناہوں کو میرے لئے کم کردیا آپ فرمائیں گے میں تیرا نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں اور یہ تیرا درود ہے جو تو نے مجھ پر بھیجا تھا۔ اور میں تجھ پر آسان کر رہا ہوں جس کا تو زیادہ حاجت مند ہے۔
[حسن الظن بالله لابن أبي الدنيا:80، المنتقى من مسموعات مرو للضياء المقدسي:94، طبقات الشافعية الكبرى للسبكي:1/179، القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع: ص129، الخصائص الكبرى:2/457، الدر المنثور في التفسير بالمأثور:3/421، الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود: ص171، التفسير المظهري:3/327، تفسير الألوسي = روح المعاني:4/324]
مَنْ صَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِائَةَ مَرَّةٍ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَى وَجْهِهِ مِنَ النُّورِ نُورٌ، يَقُولُ النَّاسُ: أَيُّ شَيْءٍ كَانَ يَعْمَلُ هَذَا "۔ [شعب الإيمان:2774، كنز العمال 3990، جامع الاحادیث للسیوطی:34841،أخرجه البيهقى فى شعب الإيمان (3/112، رقم 3036) .] جو شخص درود پڑھے نبی ﷺ پر جمعہ کے دن سو (100) مرتبہ، تو وہ آئے گا قیامت کے دن اس حال میں کہ اس کا چہرہ نور سے روشن ہوگا۔ لوگ کہیں گے: اس نے ایسا کون سا عمل کیا تھا۔
"من صلى علي في يوم ألف مرة لم يمت حتى يبشر بالجنة". (أبو الشيخ) عن أنس. [کنز العمال:2233، جامع الاحادیث للسیوطی:22774] جو شخص درود پڑھے مجھ پر دن میں ہزار(1000)مرتبہ تو وہ نہیں مرےگا جب تک کہ خوشخبری پائے جنت کی (فرشتوں سے)۔
من صلى على فى يوم مائة مرة قضى الله له مائة حاجة سبعين منها لآخرته وثلاثين منها لدنياه (ابن النجار عن جابر)
[جامع الاحادیث للسیوطی:22775]
جو شخص درود پڑھے مجھ پر دن میں سو (100) مرتبہ تو پوری کرےگا اللہ اسکی سو (100) ضرورتیں، ستر (70) آخرۃ سے اور تیس (30) اس کی دنیا کی۔ "من صلى علي يوم الجمعة مائة مرة جاء يوم القيامة ومعه نور لو قسم النور بين الخلق كلهم لوسعهم". (حل) عن علي بن الحسين بن علي عن أبيه عن جده. [کنز العمال:2240، أخرجه أبو نعيم فى الحلية (8/47) وقال: غريب.] جو شخص درود پڑھے مجھ پر جمعہ کے دن سو (100) مرتبہ تو وہ آئےگا قیامت کے دن اس حال میں کہ اس کے ساتھ نور ہوگا، اگر وہ نور پوری مخلوق کے درمیاں تقسیم کیا جائے تو وہ (نور) ان کو گھیر لےگا۔
ترجمہ :حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اچھی طرح وضوء کیا (سنن و آداب کا خوب خیال رکھا) تو گناہ اس کے جسم سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں ۔
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابو ہریرہ جب تو وضو کرنے لگے تو کہہ بسم اللہ والحمدللہ بلا شبہ تیرے محافظ فرشتے تیرے لئے مسلسل نیکیاں لکھتے رہیں گے حتی کہ تو اس وضو ءسے بے وضوءہو جائے۔
حضرت حمران ؓ (سیدنا عثمان ؓ کے غلام) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمانؓ کو دیکھا انہوں نے وضو کے لئے پانی منگوایاپھر اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا اس کو تین مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین مرتبہ پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا پھر اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک تین مرتبہ دھویا پھر سر کا مسح کیا پھر دونوں پاؤں کو تین تین مرتبہ دھویا پھر حضرت عثمانؓ نے فرمایا ! میںنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ علیہ السلام نے اسی طرح وضو کیا۔
حضرت لقیط بن صبرہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم وضو کرو تو اپنی انگلیوں کا خلال کرو۔
[أخرجه الترمذى (1/56، رقم 38) وقال: حسن صحيح. والحاكم (1/291، رقم 647) . وأخرجه أيضًا: أحمد (رقم 16381) .]
پورے سر کا مسح کرنا
حدیث :عبد اللہ بن زید ؓ فرماتے ہیں فَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، فَأَقْبَلَ بِيَدَيْهِ وَأَدْبَرَ بِهِمَا ۔ [صحيح البخاري - كِتَابُ الوُضُوءِ - بَابُ مَسْحِ الرَّأْسِ مَرَّةً - رقم الحدیث:192] ۔
ترجمہ :
نبی علیہ السلام نے اپنے سر کا مسح کیا آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی ۔
کانوں کا مسح کرنا
حدیث:عن ابن عباس ؓ قال تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔ ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ بَاطِنِهِمَا بِالسَّبَّاحَتَيْنِ وَظَاهِرِهِمَا بَإِبْهَامَيْهِ ۔ [سنن نسائی - كِتَابُ الطَّهَارَةِ - بَابُ مَسْحِ الْأُذُنَيْنِ مَعَ الرَّأْسِ ۔۔۔ رقم الحدیث:102]
ترجمہ :
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر کا مسح کیا اور دونوں کانوں کا مسح کیا اندرونی حصہ کا مسح شہادت کی انگلی سے اور ظاہری حصہ کا دونوں انگوٹھوں سے ۔
ترجمہ :حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے وضوءکیا اور ہاتھوں کے ساتھ گردن کا مسح کیا تو قیامت کے دن گردن میں طوق کے پہنائے جانے سے اس کی حفاظت کی جائے گی ۔
نوٹ :
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے تلخیص الحبیر ج1 ص 288 ۔ علامہ شوقانی نے بھی اس کی تصحیح کی ہے ۔ نیل الاوطار ج1 ص 123 مکتبہ دارالمعرفہ لبنان۔
[مسند احمد:15951، شرح معاني الآثار:129، المعجم الكبير للطبراني:407، السنن الكبرى للبيهقي:278، سنن أبي داود:132]
ترجمہ :
حضرت طلحہ بروایت اپنے والد ، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ اپنے سر پر مسح کر رہے ہیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اپنے ہاتھ) سر کے آخری حصے اور اس سے متصل گردن کے اوپر کے حصے تک ایک بار لے گئے ۔
اس کے ہم معنیٰ روایت [السنن الکبری للبیھقی ج 1 صفحہ 60 مکتبہ ادارہ تالیفات اشرفیہ] میں بھی موجود ہے ۔
حدیث : عن وائل بن حجرؓ (فی حدیث طویل) ثم مسح رقبتہ ، الخ۔ [المعجم الكبير للطبراني:118]
ترجمہ :حضرت وائل بن حجرؓ سے روایت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔پھر نبی علیہ السلام نے گردن کا مسح کیا۔
ترجمہ :مجاہد ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ جب سر کا مسح کرتے تو گردن کا مسح بھی کرتے۔
فائدہ: مذکورہ بالا احاد یث سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ گردن پر مسح کرنا نبی علیہ السلام کی سنت ہے مگر ان احادیث کے باوجود غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث حضرات کا موقف یہ ہے کہ گردن پر مسح کر نا بدعت ہے چنانچہ غیر مقلدین کے مشہور و معروف عالم خالد حسین گرجاکھی لکھتے ہیں۔وضو میں گردن کا مسح کرنا ثابت نہیں بلکہ بدعت ہے ۔
(صلاة النبی ص70)
نیز غیر مقلدین کے مایہ ناز مفتی عبد الستار صاحب لکھتے ہیں گردن کا مروجہ مسح کسی حدیث میں نہیں بلکہ احداث فی الدین (بدعت) ہے ۔
(فتاویٰ ستاریہ ج3ص 53)
اور مبشر ربانی لکھتے ہیں :گردن کے مسح کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔
(صلوة المسلم ص 14)
جرابوں پر مسح کرنا
وضو میں موزوں پر مسح کرنا احادیث متواترہ سے ثابت ہے وضو کے دوران جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور غیر مقلدین علماءنے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے چنانچہ غیر مقلدین کی ریڑھ کی ہڈی مولانا نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں کہ ،مذکورہ (اونی، سوتی) جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ۔
[فتاویٰ نذیریہ ج1 ص 327]
غیر مقلدین کے مشہور و معروف عالم مولانا ابو سعید شرف الدین فرماتے ہیں ”یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح کرنا) نہ قرآن سے ثابت ہے نہ مرفوع صحیح حدیث سے نہ اجماع سے نہ قیاس صحیح سے ۔۔۔۔۔ لہذا خف چرمی (موزوں) کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں ہوا۔ “
[فتاویٰ ثنائیہ ج1ص 442]
نیز اہل حدیث کے محقق عالم علامہ عبد الرحمن مبارکپوری [تحفہ الاحواذی ج1 ص 120] میں اور مولانا عبد اللہ روپڑی صاحب نے [فتاوی اہل حدیث ج 1 ص 351] میں اور مولانا یونس دہلوی صاحب نے [دستور المتقی ص78] میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے کی احادیث ضعیف ہیں۔
اذان کے مسنون کلمات
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان لا الہ الا اللہ
اشھد ان محمدا رسول اللہ اشھد ان محمدا رسول اللہ حی علی الصلوہ حی علی الصلوہ
حی علی الفلاح حی علی الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ
[سنن أبي داود:499، سنن ابن ماجه:706، مصنف ابن ابي شيبة:2119، مسند أحمد:16478، سنن الدارمي:1224، خلق أفعال العباد للبخاري:ص54، صحيح ابن خزيمة:370، صحيح ابن حبان:1679+1681، المعجم الأوسط للطبراني:1106، السنن الكبرى للبيهقي:1835+1965]
ترجمہ: حضرت ابومحذورہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے زمانہ میں فجر کی اذان دیا کرتا تھا جب حی الفلاح کہہ چکتا تو دو مرتبہ اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کہتا تھا۔ [مسند احمد:15378، حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف. أبو سَلْمان: هو المؤذن، قيل: اسمه همام، لم يذكروا في الرواة عنه غير العلاء بن صالح الكوفي، وأبو جعفر الفراء، وبقية رجاله ثقات. أبو جعفر: هو الفراء خلافاً لما قال عبد الرحمن، فقد تعقبه المزي بقوله: "الصحيح أنه الفراء، نسبه إسماعيل بن عمرو البجلي، عن سفيان في هذا الحديث، وذكر مسلم وغير واحد أن أبا جعفر الذي يروي عن أبي سلمان، ويروي عنه سفيان هو الفراء". عبد الرحمن: هو ابن مهدي. وسفيان: هو الثوري. وأخرجه النسائي في "المجتبى" 2/14، وفي "الكبرى" (1612) من طريق عبد الرحمن بن مهدي، بهذا الإسناد. وأخرجه عبد الرزاق في "المصنف" (1821) ، والنسائي في "المجتبى" 2/13، 14، وفي "الكبرى" (1611) و (1612) , والطبراني في "الكبير" (6738) ، والبيهقي في "السنن" 1/422 من طرق عن سفيان الثوري، به. وأخرجه الطحاوي في "شرح معاني الآثار" 1/137 عن الهيثم بن خالد بن يزيد- وهو ورّاق أبي نعيم-، والطبراني في "الكبير" (6739) من طريق يحيى الحماني، كلاهما عن أبي بكر بن عياش، عن عبد العزيز بن رُفَيعْ- وهو الأَسدي- عن أبي محذورة، به. وهذا حديث صحيح، يحيى الحماني وإن كان ضعيفاً قد توبع. وأخرجه الدارقطني في "السنن" 1/238 من طريق الحارث بن منصور، عن عمر بن قيس المكي، عن عبد الملك بن أبي محذورة، عن أبيه، عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: يا أبا محذورة، ثَنِّ الأولى من الأذان من كل صلاة، وقل في الأولى من صلاة الغداة: "الصلاة خير من النوم ". وعمر بن قيس متروك. وانظر ما سلف برقم (15376) . قال السندي: قوله: الصلاة خير من النوم، إلى قوله: الأذان الأول: الظاهر أنه بالرفع، أي: هكذا الأذان الأول من الفجر.]
حضرت ابومحذورہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجئے آپ ﷺ نے میرے سر پر آگے کی جانب ہاتھ پھیرا اور فرمایا پہلے بآواز بلند اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر پھر آہستہ سے دو مرتبہ اَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ اور دو مرتبہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہ اور پھر بلند آواز سے دونوں کلمے دہراؤ اور حَیَّ عَلَی الصَلوٰہ دو مرتبہ حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ دو مرتبہ کہو اور اگر صبح کی اذان ہو تو دو مرتبہ الصَّلوٰةُ خَیرُ مِّنَ النَّوم کہو پھر اَللہ اَکبَر اَللہ اَکبَر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب كَيْفَ الْأَذَانُ ۔۔۔ رقم الحديث: 500]
[صحیح ابن حبان:1682 . مسند أحمد:15416، سنن أبو داود:500، السنن الکبریٰ البيهقى: 1831 .] (3) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ بِلَالٍ أَنَّهُ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْذِنُهُ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ فَقِيلَ هُوَ نَائِمٌ فَقَالَ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ فَأُقِرَّتْ فِي تَأْذِينِ الْفَجْرِ فَثَبَتَ الْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ۔ حضرت بلال سے روایت ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نماز فجر کی اطلاع دینے کے لئے آئے (کہ جماعت تیار ہے) گھر والوں نے کہا آپ سو رہے ہیں، بلال نے کہا (نماز نیند سے بہتر ہے) پھر فجر کی اذان میں یہ کلمہ مقرر ہوا اور یہی حکم جاری رہا۔ [المحدث : الألباني | المصدر : صحيح ابن ماجه: 592] (4) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَشَارَ النَّاسَ لِمَا يُهِمُّهُمْ إِلَی الصَّلَاةِ فَذَکَرُوا الْبُوقَ فَکَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ الْيَهُودِ ثُمَّ ذَکَرُوا النَّاقُوسَ فَکَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ النَّصَارَی فَأُرِيَ النِّدَائَ تِلْکَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَطَرَقَ الْأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا بِهِ فَأَذَّنَ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَزَادَ بِلَالٌ فِي نِدَائِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ فَأَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَی وَلَکِنَّهُ سَبَقَنِي حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے مشورہ طلب کیا اس چیز کے متعلق جو لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ کرے لوگوں نے بوق (نرسنگا) کا تذکرہ کیا آپ نے یہود کی (مشابہت کی) وجہ سے اسے ناپسند کیا، پھر ناقوس کا ذکر کیا آپ نے انصاری (کی مشابہت) کی وجہ سے اسے ناپسند کیا، پھر اسی رات ایک انصاری مرد جن کا نام عبداللہ بن زید ہے اور حضرت عمر کو اذان دکھائی گئی تو انصاری رات ہی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال کو اذان دینے کا حکم دیا، انہوں نے اذان دی۔ زہری فرماتے ہیں بلال نے اذان فجر میں (الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ) کا اضافہ فرمایا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اضافے کو برقرار رکھا، عمر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے ایسا ہی خواب دیکھا جیسا اس نے دیکھا لیکن یہ مجھ سے سبقت لے گیا۔ [سنن ابن ماجه » كِتَاب الْأَذَانِ وَالسُّنَّةِ فِيهِ » بَاب بَدْءِ الْأَذَانِ ۔۔۔ رقم الحديث: 707]
مسند أبي يعلى الموصلي » مُسْنَدُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ ۔۔۔ رقم الحديث: 5504
ناسخ الحديث ومنسوخه لابن شاهين » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ بَدْءِ الأَذَانِ ۔۔۔ رقم الحديث: 174
الطبقات الكبرى لابن سعد » ذِكْرُ الأَذَانِ ۔۔۔ رقم الحديث: 575(1 : 120)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو نماز کے لئے جمع کرنے کے طریقہ کار میں ناقوس بجانے پر اتفاق رائے کر لیاگو کہ نصاری کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس سے کراہت بھی ظاہر تھی تو رات کو خواب میں میرے پاس ایک آدمی آیا اس نے دو سبز کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک ناقوس تھا جو اس نے اٹھا رکھا تھا، میں نے اس سے کہا اے بندہ خدا! یہ ناقوس بیچوگے؟ اس نے پوچھا کہ تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز کی دعوت دیا کریں گے، اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ نہ بتادوں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ اس نے کہا تم یوں کہا کرو۔ اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، اشہد ان محمد الرسول اللہ، حی علی الصلاۃ حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح حی علی الفلاح، اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔ پھر کچھ ہی دیر بعد اس نے کہا کہ جب نماز کھڑی ہونے لگے تو تم یوں کہا کرو اور آگے وہی کلمات ایک ایک مرتبہ بتائے اور حی علی الفلاح کے بعد دو مرتبہ قد قامت الصلاۃ کا اضافہ کردیا، جب صبح ہوئی تو میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انشاء اللہ یہ خواب سچا ہوگا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذان کا حکم دیا تو حضرت ابوبکر صدیق کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال اذان دینے لگے اور نماز کی طرف بلانے لگے، ایک دن وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور فجر کے لئے اذان دی، کسی نے انہیں بتایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو رہے ہیں، تو انہوں نے بلند آواز سے پکار کر کہا الصلاۃ خیر من النوم، سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ اس وقت سے فجر کی اذان میں یہ کلمہ بھی شامل کرلیا گیا۔ [مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدِ الْمَدَنِيِّينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ ... » حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ ... رقم الحديث: 16041
التمهيد لابن عبد البر » باب الياء » أول مراسيل يَحْيَى عَنْ نفسه ... رقم الحديث: 4402(24 : 22)
التحقيق في مسائل الخلاف لابن الجوزي » كِتَابُ الصَّلَاةِ » مَسَائِلُ الْأَذَانِ ... رقم الحديث: 396
المنتظم في تاريخ الأمم لابن الجوزي » أبواب ذكر المخلوقات » باب ذكر ما جرى في سني الهجرة ... رقم الحديث: 235
تاريخ ابن أبي خيثمة » قدوم النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَة ... رقم الحديث: 1398
اقامت کے مسنون کلمات
اللہ اکبر (4مرتبہ )
اشھدان لا الہ اللہ (2مرتبہ)
اشھد ان محمدا رسول اللہ (2مرتبہ)
حی علی الصلوہ (2مرتبہ)
حی علی الفلاح (2مرتبہ)
قد قامت الصلوہ (2مرتبہ)
اللہ اکبر (2مرتبہ)
لا الہ الا اللہ ۔(1مرتبہ)
نوٹ:
مذکورہ بالا اذان و اقامت کو دوہری اذان و اقامت کہتے ہیں اس کے لئے کہ احادیث میں شفع اور مثنی کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے أَنَّ بِلَالًا كَانَ «يُثَنِّي الْأَذَانَ، وَيُثَنِّي الْإِقَامَةَ [مصنف ابن ابي شيبة:2143 ، مصنف عبد الرزاق:1790، مسند أبي يعلى الموصلي:2804، شرح معاني الآثار:826، سنن الدارقطني:940، السنن الكبرى للبيهقي:1951+1972، وصححه الألباني في الثمر المستطاب (ج 1 / ص 128)]
حضرت عبد اللہ بن زید ؓ انصاری نبی ﷺ کے موذن اذان اور اقامت دوہری دوہری کہتے تھے ۔
فائدہ:
یہی وہ اقامت ہے جو نبی علیہ السلام نے اپنے صحابی ابو محذورہ ؓ کو سکھلائی تھی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص 231 مکتبہ امدادیہ ملتان)
اور یہی اقامت حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تابعین و تبع تابعین سے ثابت ہے حوالہ جات کے لئے یہ کتب ملاحظہ فرمائیں ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ، مصنف عبد الرزاق، طحاوی ، نصب الرایہ اعلاءالسنن ، آثار السنن)
ان احادیث و آثار کے باوجود غیر مقلدین (نام نہاد اہل حدیث) کی مساجد میں کہری اقامت کہی جاتی ہے جو کہ ان احادیث و آثار کی مخالف ہے کیا اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ اتنی احادیث اور آثار کی مخالفت کرکے اپنے آپ کو اہل حدیث کہلانا اور جو ان احادیث پر عمل کرے اس کو بدعتی کہنا؟
نماز کا طریقہ
جب آدمی نبی ﷺ کے مسنون طریقہ سے وضو کرلے تو پھر مسنون طریقہ سے نماز ادا کر لے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
”صَلُّوا كما رَأَيْتُمُونِى أصلى“[بخاری:631]
نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھ کو نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز شروع فرماتے تو کہتے ”سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ“۔
[سنن أبي داود - كِتَاب الصَّلَاةِ - بَابُ مَنْ رَأَى الِاسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ - بَابُ مَنْ رَأَى الِاسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ - رقم الحدیث:776]
اسود ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ جب نماز شروع کرتے تو سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ پڑھتے۔
(امام حاکم ؒو علامہ ذہبی ؒ نے اس کو بھی صحیح کہا ہے۔)
[المستدرك على الصحيحين للحاكم - كِتَابُ الطَّهَارَةِ - أَمَّا حَدِيثُ أَنَسٍ - رقم الحدیث:860]
[صحیح مسلم - كِتَابُ الصَّلَاةِ - بَابُ حُجَّةِ مَنْ قَالَ لَا يُجْهَرُ بِالْبَسْمَلَةِ - رقم الحدیث:399]
ترجمہ :
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھی حضرت ابو بکر ؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ کے ساتھ نماز پڑھی لیکن ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔ [مسلم:399، ترمذی:244، شافعی:226، احمد:12810، وأبو يعلى:3005 ، وابن خزيمة:494]
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی حضرت ابو بکر و حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اللہ عنھم کے پیچھے نماز پڑھی ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم اونچی آواز سے پڑھتے نہیں سنا۔ [سنن نسائی:907، مسند ابن الجعد:922، شرح معاني الآثار:1198،سنن الدارقطني:1199]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں ہے نماز اس (امام اور اکیلے) کی جو سورة فاتحہ کی قرات نہ کرے۔
[أخرجه الشافعى (1/36) ، وأحمد (5/314، رقم 22729) ، وابن أبى شيبة (1/316، رقم 3618) ، والدارمى (1/312، رقم 1242) ، والبخارى (1/263، رقم 723) ، ومسلم (1/295، رقم 394) ، والترمذى (2/25، رقم 247) وقال: حسن صحيح. والنسائى (2/137، رقم 910) ، وابن ماجه(1/273، رقم 837) ، وابن خزيمة (3/36، رقم 1581) ، وابن حبان (5/86، رقم 1785) ، والدارقطنى (1/321) .]
حدیث :
مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ؛ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْإِمَامِ؟ قَالَ: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الْإِمَامَ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ. وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ. ۔ [الموطأ امام مالك: 1/86، في الصلاة: باب ترك القراءة خلف الإمام۔ شرح معاني الآثار:(1/220)1317]
ترجمہ :
نافع ؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا جاتا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی پڑھے ؟ تو آپ جواب دیتے کہ مقتدی کے لئے امام کی قرات کافی ہے البتہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو قرات کرے ۔ خود حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے قرات نہیں کرتے تھے ۔
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ جب آدمی امام ہو یا اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے لئے قرات ضروری ہے لیکن اگر مقتدی ہوتو پھر قرات نہ کرے ۔
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے (ایک مرتبہ) نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
مفسر صحابی حضرت ابن مسعودؓ کی علمِ قرآن میں فضیلت:
حدیث: عن عبد اللہ قال والذی لا الہ الا غیرہ ما من کتاب اللہ سورة الا انا اعلم حیث نزلت وما من آیت الا انا اعلم فی ما انزلت ولو اعلم احدا ھوا علم بکتاب اللہ منی تبلغہ الا بل لرکبت الیہ ۔
[صحیح مسلم - كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ - بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، رقم الحدیث:2463]
ترجمہ :
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی الہ نہیں قرآن کریم کی کوئی سورت کو آیت ایسی نہیں جس کا شان نزول مجھے معلوم نہ ہو کہ کس موقعہ پر اتری اور کس حالت میں نازل ہوئی ہے اور میں اپنے سے بڑا کتاب اللہ کا عالم کسی کو نہیں پاتا اگر (اس وقت یعنی دور صحابہؓ میں ) مجھ سے بڑا کوئی عالم ہوتا جس تک پہنچنا ممکن ہوتا تو میں اس کی طرف رجوع کرتا۔
یہی عبد اللہ بن مسعود ؓ اس آیت کے متعلق کیا فرماتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے (ایک دفعہ) نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قرات کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو جب قرآن کی تلاوت ہو رہی ہو تو تم اس کی طرف کان لگاﺅ اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے ۔
آیت مذکورہ کی تفسیر رئیس المفسرین و حبر الامۃ حضرت ابن عباس ؓ سے ۔
یوں تو سب صحابہ ؓ آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں مگر عبد اللہ بن عباسؓ وہ صحابی رسول ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: «اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ» ۔ ترجمہ:
اے اللہ ان کو (حضرت ابن عباسؓ ) کو دین کی سمجھ اور قرآن کی تاویل و تفسیر میں مہارت عطا فرما۔
[مسند إسحاق بن راهويه:2038،مسند أحمد:2397،مسند البزار:5057،صحيح ابن حبان:7055] ۔
ان کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ ؓ ، حضرت مقداد بن اسودؓ ، حضرت عبد اللہ مغفل ؓ سے بھی مروی ہے کہ اس آیت کا تعلق نماز سے ہے حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمائیں. تفسیر ابن کثیر تفسیری مظہری ، تفسیر روح المعانی و کتاب القراة للبیھقی و غیرہ ۔ تابعین میں بھی مندرجہ ذیل حضرات بھی ہی فرماتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق نماز سے ہے ۔
-1حضرت مجاہد ؒ -2حضرت سعید بن مسیب ؒ -3حضرت سعید بن جبیر ؒ
-4حضرت حسن بصری ؒ-5حضرت عبید بن عمیر ؒ -6حضرت عطاءبن ابی رباح ؒ
-7حضرت ضحاکؒ -8حضرت ابراہیم نخعیؒ-9قتادہ ؒ
-10حضرت شعبیؒ-11امام السدیؒ -12حضرت عبد الرحمن بن زیدؒ
حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمائیں ۔ تفسیر ابن کثیر ، تفسیر ابن جریر، تفسیر روح المعانی، کتاب القراة للبیھقی ۔
امام احمد بن حنبلؒ :
امام احمد بن حنبل ؒ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ یہ آیت (واذا قرای القرآن ) نماز کے بارہ میں نازل ہوئی ۔
[فتاوی ابن تیمیہ: ج 2 ص 128]
مقتدی کے لئے قرات خلف الامام نہ کرنے کا حکم
احادیث رسولﷺ کی روشنی میں ۔
حدیث نمبر 1 :
عن ابی موسی ؓ الا شعری قال (فی حدیث) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاذاکبر الامام فکبر وا واذا قرافانصتوا۔
مسلم ج1 ص 174 ۔
ترجمہ :
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا جب امام تکبیر کہے تم بھی تکبر کہو جب امام قرات کرے تم خاموش رہو۔
حدیث نمبر 2 :
عن ابی موسیٰ الاشعریؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قرا الامام فانصتوا واذا قال غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین ۔
مسند ابی عوانہ ج 2 ص 133 مکہ المکرمہ ۔
ترجمہ :
حضرت ابو موسی اشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو اور جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالینکہے تو تم آمین کہو۔
حدیث نمبر 3 :
عن ابی ہریرہؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما جعل الامام لیو تم بہ فاذا اکبر فکبر وا واذا قراءفانصتوا الخ۔
نسائی ج1 ص146 قدیمی کتب خانہ ۔
ترجمہ :
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداءکی جائے سو جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کا قول
وکذلک ان کان مامو ما ینصت الی قراة الامام ویفھمھا۔
غنیہ الطالبین مترجم ص 592
ترجمہ :
ایسے ہی اگر نماز پڑھنے والا مقتدی ہے تو اس کو امام کی قرات کے لئے خاموش رہنا چاہئے اور قرات کو سمجھنے کی کوشش کرے ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث و آثار موجود ہیں لیکن اختصار کی وجہ سے ہم ذکر نہیں کررہے۔
تمام نمازوں کی ہر رکعت میں سورة الفاتحہ کے بعد آمین آہستہ کہنا سنت ہے ۔
قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔ قد اجیبت دعوتکما سورہ یونس آیت نمبر 89 میں نے تم دونوں کی دعا قبول کر لی حالانکہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت عکرمہ ، حضرت ابوصالح ، حضرت ابو العالیہ،حضرت ربیع ، حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہھم وغیرہ حضرات فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی اور ہارون علیہ السلام نے آمین کہی تھی ۔ (تفسیر ابن کثیر ، تفسیر الدر المنثور )
حضرت عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں : آمین دعا ہے۔
صحیح بخاری ج؟ ص 107۔
نیز آمین کا لغوی معنی بھی دعائیہ ہے چنانچہ المنجد میں ہے آمین اسم فعل بمعنی (اے اللہ)قبول کر ، ایسا ہی ہو صفحہ 64 مکتبہ دارالاشاعت
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ آمین دعا ہے اور دعا کے متعلق حکم باری تعالی ہے:
دعا کرو اپنے رب سے عاجزی سے اور خفیہ (آہستہ) تو معلوم ہوا کہ آمین آہستہ کہنی چاہئے ۔
حدیث نمبر 1 :
علقمہ بن وائل عن ابیہ انہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلما بلغ (غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ) قال آمین و اخفی بھا صوتہ
(مسند احمد ، ابو داﺅد الطیالسی ابو یعلی، الدار قطنی، والحاکم وقال صحیح الاسناد و لم یخرجاہ بحوالہ نصب الرایہ ج 1 ص 446مکتبہ حقانیہ)
ترجمہ :
حضرت علقمہ ؒ اپنے باپ حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولا الضالین پڑھا تو آمین کے وقت اپنی آواز کو پوشیدہ کیا۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔
حدیث :
عن ابی وائل قال کان عمرؓ و علیؓ لا یجھران ببسم اللہ الرحمن الرحیم ولا بالتعوذ ولا بالتامین۔
شرح المعانی الاثار للطحاوی ج 1 ص 140 ۔
ترجمہ :
ابو وائل ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نہ تو بسم اللہ اور اعوذ باللہ اونچی آواز سے پڑھتے تھے اور نہ ہی آمین اونچی آواز سے کہتے تھے ۔
عن علقمہ عن عبد اللہ انہ قال الا اصلی بکم صلوة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الامرہ واحدة ۔
سنن نسائی ص 161 قدیمی
ترجمہ :
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاﺅں پر انہوں نے نماز پڑھی اور صرف (شروع نماز میں ) ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔
علامہ ابن حزم نے محلی میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ المحلیٰ ص 364
اور علامہ ناصر الدین البانی غیر مقلد عالم نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔
سنن نسائی بتحقیق البانی ص 183 ، 168 ۔
حدیث :
عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا افتتح الصلوة رفع یدیہ حتی یحاذی بھما و قال بعضھم حذو منکبیہ واذا ارادان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع لا یرفعھما وقال بعضھم ولا یرفع بین السجدتین ۔
مسند ابی عوانہ ج 2 ص 90 دارالباز مکة المکرمہ ۔
ترجمہ :
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب آپ علیہ السلام نے نماز شروع کی تو رفع یدین کیا یہاں تک کہ بعضوں نے کہا کہ ہاتھوں کو کندھوں کے برابر لے گئے اور جب رکوع کا ارادہ کیا اور رکوع سے سر اٹھایا تو رفع یدین نہ کیا اور بعضوں نے کہا کہ آپ علیہ السلام نے سجدوں میں بھی رفع یدین نہ کیا ۔
حدیث :
عن البراء بن عاذب ؓ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع یدیہ حین افتتح الصلوة ثم لم یرفعھما حتی انصرف۔
سنن ابی داﺅد ج 1 ص 116 مکتبہ امدادیہ ملتان
ترجمہ :
حضرت براءبن عاذب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین کیا جب نماز شروع کی پھر نماز سے فارغ ہونے تک رفع یدین نہیں کیا۔
حدیث :
عن عبد اللہ قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مع ابی بکر و مع عمر فلم یرفعوا یدیھم الا عند التکبیرة الاولی فی افتتاح الصلوة -
سنن دار قطنی ج 1 ص 592
ترجمہ :
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور ابو بکر و عمر رضی اللہ رنھما کے ساتھ نماز پڑھی پس انہوں نے رفع یدین نہیں کیا مگر صرف شروع نماز میں ۔
رکوع
بغیر ہاتھ اٹھائے تکبیر کہہ کر رکوع کرے کیونکہ حدیث شریف میں ہے ۔
حدیث :
عن ابی ہریرہ ؓ انہ کان یصلی بہم فیکبر کلما خفض و رفع فاذا انصرف قال انی لا شبھکم صلاة برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
حضرت ابو ہریرہؓ نماز ادا کرتے تو جب بھی (رکن کی ادائیگی کے لئے ) اوپر نیچے ہوتو (صرف) تکبیر کہتے جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے ۔
عن سالم البراد قال اتینا عقبة بن عامر الانصاری ابا مسعود ؓ فقلنا لہ حدثنا عن صلوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقام بین ایدینا فی المسجد فکبر فلیما رکع و ضع یدیہ علی رکبتیہ و جعل اصابعہ اسفل من ذالک و جافی بین مرفقیہ حتی استقر کل شی منہ الخ۔
سنن ابی داﺅد بتحقیق البانی ص 138 حدیث نمبر 863 یہ حدیث صحیح ہے۔
ترجمہ :
سالم براد ؒ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو مسعود انصاری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان فرمائیں حضرت ابو مسعودؓ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہوگئے اور تکبیر کہی جب رکوع کیا تو ہاتھوں کو گھٹنوں پر اس طرح رکھا کہ انگلیاں گھٹنوں سے نیچے اور کہنیاں کوکھ سے فاصلے پر تھیں یہاں تک کہ ہر عضو میں ٹھہراﺅ پیدا ہوگیا۔
رکوع کی تسبیحات
حدیث :
عن حذیفة ؓ انہ صلی مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکان یقول فی رکوعہ سبحان ربی العظیم وفی سجودہ سبحان ربی الاعلی ۔
حضرت حذیفہ ؓ نے آپ علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھی پس آپ علیہ السلام رکو ع میں سبحان ربی العظیم پڑھتے اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلی پڑھتے۔
رکوع سے سر اٹھانا
جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ پڑھتے پھر ربنا لک الحمد
حدیث :
عن ابی ہریرہؓ ثم یقول سمع اللہ لمن حمدہ حین یرفع صلبہ من الرکوع ثم یقول و ھو قائم ربنا لک الحمد ۔۔۔ الخ۔
بخاری ص 62حدیث نمبر 789 مکتبہ دارالسلام ۔
ترجمہ :
حضرت ابو ہریرؓہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور کھڑے ہوکر ربنا لک الحمد پڑھتے۔
نوٹ :
اگر نماز باجماعت ہے تو امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے گا اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد ۔
حدیث :
عن انس بن مالک ؓ قال (قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) واذا قال سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا ربنا لک الحمد ۔
بخاری ص 88 حدیث نمبر 733 مکبتہ دارالسلام ۔
ترجمہ :
حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو ۔
سجدہ :
پھر تکبیر کہہ کر سجدہ میں چلا جائے لیکن پہلے گھٹنوں کو زمین پر رکھے پھر ہاتھ کو پھر چہرہ کو۔
حدیث :
عن وائل بن حجر قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا سجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ واذا نھض رفع یدیہ قبل رکبتیہ ۔
سنن نسائی بتحقیق البانی ص 177 حدیث نمبر 1089 یہ حدیث امام نسائی ؒ کے نزدیک صحیح ہے ۔
ترجمہ :
حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ علیہ السلام جب سجدہ کرتے تو پہلے گھٹنے نیچے رکھتے پھر ہاتھ اور جب اٹھتے تو پہلے ہاتھ اٹھاتے پھر گھٹنے۔
سجدہ کی تسبیحات
سجدہ میں سبحان ربی الاعلی پڑھے ۔
حدیث :
عن حذیفہؓ انہ صلی مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکان یقول فی رکوعہ سبحان ربی العظیم وفی سجودہ سبحان ربی الاعلی ۔
حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلی پڑھتے تھے ۔
سجدہ کی مسنون کیفیت
سجدہ اعتدال سے کرے کہنیوں کو زمین پر نہ بچھائے ۔
حدیث :
عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتدلوا فی السجود ولا یسبط احدکم ذراعیہ انبساط الکلب۔مسلم ص 755حدیث نمبر 1102 مکتبہ دارالسلام ۔
ترجمہ :
حضرت انس ؓ نبی علیہ السلام کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ سجدہ میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی بھی سجدہ میں کہنیوں کو کتے کی طرح نہ بچھائے ۔
اعضائے سجدہ
سجدہ سات اعضاء پر کرے ۔
حدیث :
عن ابن عباس ؓ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امرت ان اسجد علی سبعة اعظم علی الجبھة واشار بیدہ علی انفہ والیدین والرکبتین و اطراف القدمین ولا نکفت الثیاب و الشعر۔
بخاری ص 64 حدیث نمبر 812 مکتبہ دارالسلام ۔
ترجمہ :
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ساتھ ہڈیوں پر سجدہ کروں پیشانی پر اور آپ علیہ السلام نے ناک کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھوں پر دونوں گھٹنوں پر دونوں پاﺅں کی انگلیوں پراور ہمیں یہ بھی حکم دیا ہم نماز میں کپڑے اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔
سجدہ میں انگلیوں کو جوڑنا
حدیث :
عن علقمہ بن وائل بن ابیہ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان اذا سجد ضم اصابعہ۔
مستدرک حاکم ج 1 ص 357 حدیث نمبر 936 دارالفکر۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
ترجمہ:
حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام جب سجدہ کرتے تو اپنے انگلیوںکو ملا لیتے ۔ سجدہ میں بازو پہلو سے جدا ہوں اور ہتھیلیاں کندھوں کے برابر ہوں ۔
حدیث :
عن ابی حمید الساعدی ان النبی علیہ السلام کان اذا سجد امکن انفہ و جبھہ من الارض نحی یدیہ عن جنبیہ ووضع کفیہ حذو منکبیہ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سجدہ کرتے تو ناک اور پیشانی کو خوب ٹکا کر زمین پر رکھتے اور بازو پہلو سے جدا کرتے اور ہتھیلیاں کندھوں کے برابر کرتے ۔
پھر دونوں سجدوں سے فارغ ہوکر سیدھا کھڑا ہو جائے بیٹھے مت
حدیث :
عن ابی ہریرہؓ (مرفوعا فی حدیث طویل) ثم اسجد حتی تطمئن ساجد اثم ارفع حتی تستوی قائما۔
بخاری ج2 ص 986 قدیمی کتب خانہ۔
ترجمہ :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے پھر تو (دوسرا) سجدہ اطمینان سے کر پھر (دوسرے) سجدہ سے سر اٹھا یہاں تک کہ (دوسری رکعت کے لئے ) سیدھا کھڑا ہو جا(درمیان میں بیٹھ مت) ۔
قعدہ میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ
حدیث :
عن عبداللہ بن عبد اللہ انہ اخبرہ ۔۔۔ عبد اللہ بن عمرؓ قال انما سنة الصلاة ان تنصب رجلک الیمنی و تثنی الیسری الخ۔
بخاری ص 65 حدیث نمبر 827 مکتبہ دارالسلام۔
ترجمہ :
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ نما ز کی سنت یہ ہے قعدہ میں تم دائیں پاﺅں کو کھڑا کرو اور بائیں کو موڑ کر نیچے بچھا لو۔
التحیات کے مسنون الفاظ
حدیث :
التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمة اللہ و برکاتہ ، السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ ۔
بخاری ص 66 حدیث نمبر 731 مکتبہ دار السلام ۔
ترجمہ :
سب زبانی عبادتیں ، سب بدنی عبادتیں اور سب مالی عبادتیں صرف اللہ کے لئے ہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر سلام ہو اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں کہ بندگی کے لائق صرف اللہ تعالی ہے اس کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔
نوٹ: جب اشھد ان لا الہ الا اللہ پر پہنچے تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے اور بڑی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائے ۔
حدیث : عن عبد اللہ بن الزبیر ؓ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قعد یدعو وضع یدہ ال یمنی علی فخذہ الیمنی ویدة الیسری علی فخذہ الیسری واشارباصبعہ السابہ ووضع ابھامہ علی اصبعہ الوسطی و یلقم کفہ ال یسری رکبتہ ۔
مسلم ج1 ص 216 قدیمی کتب خانہ ملتان ۔
ترجمہ :
حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دعا کے لئے بیٹھتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملا لیتے ۔ اس کے بعد درودِ ابراہیمی پڑھتے ۔ اللھم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی ال ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید۔
بخاری ج 1 ص 477 مکتبہ قدیمی کتب خانہ ۔
پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
ثم یتخیر من المسئلة ماشائ۔
ترجمہ :
مسلم ص 742 حدیث 897 دارالسلام پھر جو دعا چاہے مانگے ۔
پھر اس کے بعد دائیں اور بائیں سلام پھیرے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کہے ۔
مسلم ج 1 ص 216 ترمذی ج 1 ص 69 حدیث نمبر 295۔
پھر اگر امام ہے تو مقتدیوں کی طرف منہ کرے ۔
بخاری ص 67 حدیث 845 دارالسلام۔
اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے ۔
حدیث :
عن ابی بکرہ ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال سلو اللہ ببطون اکفکم ولا تسلوہ بظھورھا۔
مجمع الزوائد ج 10 ص 194 دارالکتب العلمیہ رجالہ رجا الصحیح غیر عمار وھو ثقة۔
ترجمہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم اللہ سے سوال کرو تو ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو سامنے رکھ کر سوال کرو ہاتھوں کی پشت کو سامنے نہ رکھو ۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہاتھ اٹھا کر نماز کے بعد دعا مانگتے تھے
مجمع الزوائد ج 10 ص 194 ۔
وتر :تین رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھنا واجب ہے ۔
اہل سنت والجماعت کے نزدیک تراویح رمضان المبارک کی مخصوص نماز ہے جو کہ گیارہ ماہ نہیں پڑھی جاتی بلکہ صرف رمضان المبارک میں عشاءکی نماز کے بعد با جماعت مسجد میں ادا کی جاتی ہے اور اس میں ایک قرآن پاک ختم کیا جاتا ہے جبکہ شیعہ حضرات کے ہاں تراویح کوئی عبادت نہیں وہ تراویح کے منکر ہیں لیکن غیر مقلدین حضرات بھی تراویح کو رمضان المبارک کا تحفہ نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ یہ سارا سال والی نماز ہی ہے فرق یہ ہے غیر رمضان میں ہو تو تہجد کہلاتی ہے اور رمضان میں ہوتو تراویح کہلاتی ہے گویا کہ یہ بھی تراویح کے منکر ہیں۔
بیس رکعت تراویح پڑھنا آپ علیہ السلام سے اور خلفاءالراشدین سے لے کر آج تک شرقاً و غرباً مکہ و مدینہ میں پڑھنا ثابت ہے ۔
حدیث :
عن ابن عباس ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر ۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 286۔
ترجمہ :
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں بیس رکعت (تراویح) اور وتر پڑھے ۔
حدیث:
عن جابر بن عبد اللہ قال خرج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات لیلة فی رمضان فصلی الناس اربعة و عشرین رکعة واوتر بثلاثة -
تاریخ حرجان لابی قاسم ص 285 عالم الکتب۔
ترجمہ :
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاک علیہ السلام رمضان المبارک کی ایک رات مسجد میں تشریف لائے پس آپ علیہ السلام نے صحابہ کو چوبیس رکعات (4 فرض 20 تراویح) اور تین وتر پڑھائے ۔
اس کے علاوہ حضرت عمر و علی و عبد اللہ بن مسعود و دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بیس تراویح کا ثبوت ملتا ہے جبکہ آٹھ رکعت تراویح کی ابتداءکرنے والا غیر مقلد عالم محمد حسین بٹالوی ہے ملاحظہ فرمائیں غیر مقلدین کے گھر کی گواہی ”سیرة ثنائی“ ص 452نعمانی کتب خانہ لاہور مولف مولانا عبد المجید سوہدروی غیر مقلد ۔
نماز عیدین
طلوع آفتاب سے کچھ بعد اور زوال سے پہلے بغیر اذان و اقامت کے چھ زائد تکبیروں کے ساتھ دو رکعات نماز با جماعت پڑھی جاتی ہے پہلی رکعت میں ثناءکے بعد تین تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں اور ہر تکبیر میں رفع الیدین کیا جاتا ہے اورتیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لئے جاتے ہیں اور امام اونچی آواز سے قرات کرتا ہے پھر رکوع و سجود کے بعد دوسری رکعت کا آغاز قرات سے ہوگا قرات کے بعد رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں کہی جاتی ہیں ہر تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہیں پھر چوتھی تکبیر کے بعد رکوع اور باقی نماز مکمل کی جاتی ہے ۔
گویا کہ پہلی رکعت میں تکبیر افتتاح اور تین تکبیرات زائد ملا کر چار تکبیرات ہوئیں اور دوسری رکعت میں تکبیرات زائد و رکوع کی تکبیر ملا کر چار تکبیرات ہوئیں۔
ان سعید بن العاص سال ابا موسی الاشعری ؓ و حذیفہ بن الیمان کیف کان رسول اللہ علیہ السلام یکبیر فی الاضحی والفطر فقال ابو موسی کا ن یکبرا ربعاً تکبیرہ علی الجنائز ۔
ابو داﺅد بتحقیق النسائی ص 179 ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
ترجمہ :
حضرت سعید بن العاص نے حضرت ابو موسی اشعری ؓ اور حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے پوچھا آپ علیہ السلام عیدین میں کتنی تکبیریں کہتے تھے حضرت ابو موسیؓ نے بتایا کہ آپ علیہ السلام چار تکبیریں کہتے تھے ۔
نوٹ:
اگر عید جمعہ کے دن ہوتو جمعہ ساقط نہیں ہوتا بلکہ فرض ہی رہتا ہے لہذا اس دن جمعہ و عید دونوں پڑھی جائیں گی ۔
نماز جنازہ
نماز جنازہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ چار تکبیرات کہی جائیں پہلی تکبیر کے بعد ثناءدوسری تکبیر کے بعد درود شریف اور تیسری تکبیر کے بعد دعا چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جائے ۔
عن ابی ہریرہ ؓ قال نصی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی اصحابہ النجاشی ثم تقدم فصفوا خلفہ فکبر اربعاً ۔
بخاری ج1 ص 176 قدیمی کتب خانہ ۔
ترجمہ :
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو نجاشی کی وفات کی خبر دی پھر آپ علیہ السلام آگے ہوئے حضرات صحابہ نے آپ کے پیچھے صف بندی کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار تکبیریں کہیں۔
ثناء و درود و دعاء
عن سعید بن ابی سعید المقبری عن ابیہ انہ سال ابا ہریرہ ؓ کیف تصلی عن الجنازہ فقال ابو ہریرہؓ انا لعمرک اخبرک اتبعھا من اھلھا فاذا وضعت کبرت و حمدت اللہ وصلیت علی نبیہ ثم اقول اللھم عبدک ۔ الخ۔
موطا امام مالک ص 209۔
ترجمہ :
حضرت سعید ؒ کے والد نے حضرت ابو ہریرہؓ سے پوچھا آپ جنازہ کیسے پڑھتے ہیں تو آپ ؓ نے فرمایا بخدا میں تم کو بتاتا ہوں میں میت کے گھر سے اس کے ساتھ چلوںگا جب جنازہ رکھ دیا جائے تو میں ثناءاور درود شریف نبی علیہ السلام پر اور یہ دعا پڑھونگا اللھم الخ۔ تو معلوم ہوا کہ پہلی تکبیر کے بعد ثناءدوسری تکبیر کے بعد درود اور تیسری تکبیر کے بعد دعا پڑھنی چاہئے ۔
مسنون دعا
اللھم اغفر لحینا و میتنا و شاھدنا و غائبنا وصغیرنا و کبیرنا و ذکرنا و انثانا اللھم من احییتہ منا فاحیہ علی الاسلام ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان۔
ترمذی ص 243 بتحقیق البانی حدیث 1024 یہ حدیث صحیح ہے ۔
نماز جنازہ میں رفع الیدین نہ کرنا
حدیث :
عن ابن عباسؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یرفع یدیہ علی الجنازہ فی اول تکبیرة ثم لایعود۔
سنن دار قطنی ج 2 ص 75 احیاءالتراث بیروت۔
ترجمہ :
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جنازہ کی پہلی تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے دوبارہ ہاتھ نہ اٹھاتے ۔
تنبیہ:
آج کل بعض لوگ جو شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہیں اس کی کوئی صریح دلیل موجود نہیں باقی نجاشی والی حدیث سے استدلال درست نہیں جیسا کہ ابن تیمیہ ؒ نے فرمایا ہے۔
[زادالمعاد ج1 ص 520]
نیز غیر مقلد عالم اس حقیقت کا یوں اعتراف کرتا ہے ”غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے پر نجاشی کے قصہ سے دلیل لی جاتی ہے یہ قصہ [صحیح بخاری:1333,1327,1320,1318,1245] اور [صحیح مسلم:901] میں موجود ہے مگر اس سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے “۔
[نماز نبوی از ڈاکٹر شفیق الرحمان ص 296 مکتبہ دارالسلام]۔
خاتمة الکتاب:
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کتاب کو لکھنے کی توفیق عطا فرمائی اب اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کتاب کو شرف قبولیت عطاء فرمائے اور میرے لئے اور والدین اور گھر والوں اور تمام دوست احباب خصوصاً پیر طریقت رہبر شریعت مولانا قاری علیم الدین شاکر دامت برکاتہم العالیہ خلیفہ مجاز حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ و محمد ہارون حنفیو راشد حنفی و عزیز دوست مولانا فرقان صاحب اور جملہ احباب و قارئین و مسلمین کے لئے ذریعہ نجات و ہدایت کا سامان بنائے ۔ آمین ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین و الصلوة والسلام علی النبی الکریم و خاتم المرسلین والہ وصحبہ اجمعین۔