نمازِ وتر- اہمیت، تعدادِ رکعت اور پڑھنے کا طریقہ
وتر کے معنی طاق (Odd Number) کے ہیں۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم ﷺ نے نماز ِوتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے۔۔۔ آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کا حکم ( امر) متعدد مرتبہ دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ سے نمازِ وتر کا زندگی میں ایک مرتبہ بھی چھوڑنا حتی کہ حج کے موقع پر مزدلفہ میں بھی ثابت نہیں ہے، جیساکہ سعودی عرب کے سابق مفتی عام شیخ عبد العزیز بن باز نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے جو انٹرنیٹ کے اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے:
وتر کو واجب یا سنت موٴکدہ اشد التاکید کادرجہ دینے میں زمانہٴ قدیم سے فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف چلا آرہا ہے۔ فقہاء وعلماء کی ایک جماعت نے سنتِ موٴکدہ اشد التاکید کہا ہے؛ جب کہ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت مثلاً شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ (۸۰ھ -۱۵۰ھ) نے نبی اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں واجب قرار دیا ہے، جس کا درجہ فرض سے یقینا کم ہے۔ جن فقہاء وعلماء نے سنت موٴکدہ اشد التاکید کہا ہے، انھوں نے بھی احادیث شریفہ کی روشنی میں یہی فرمایا ہے کہ نماز وتر کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہیے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا کرنی چاہیے۔ شیخ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ (۱۶۴ھ۔ ۲۴۱ھ) نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ: جس نے جان بوجھ کر نمازِ وتر کو چھوڑا، وہ برا شخص ہے اور اس کی شہادت قبول نہیں کرنی چاہیے۔ [فتاویٰ علامہ ابن تیمیہ ۲۳/۱۲۷، ۲۵۳] علامہ ابن تیمیہ نے بھی نماز ِوتر چھوڑنے والے کی شہادت قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غرضے کہ عملی اعتبار سے امتِ مسلمہ متفق ہے کہ نماز ِوتر کی ہمیشہ پابندی کرنی چاہیے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا بھی کرنی چاہیے خواہ اس کو جو بھی عنوان دیا جائے۔
نمازِ وتر کی اہمیت وتاکید نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں:
(1) عَنْ اَبِی سَعِید الخُدْرِی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ : اَوْتِرُوْا قَبْلَ اَنْ تُصْبِحُوا۔
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : صبح ہونے سے قبل نماز وتر پڑھو۔
[صحيح مسلم:754، صحيح ابن ماجه: 985، صحيح الترمذي: 468، صحيح الجامع: 2537]
[صحيح مسلم:754، صحيح ابن ماجه: 985، صحيح الترمذي: 468، صحيح الجامع: 2537]
(2) عَنْ عَلِی قالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: یَا اَہْلَ الْقُرْآنِ اَوْتِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے مسلمانو! وتر پڑھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بھی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
[سنن أبي داود: 1416، صحيح ابن خزيمة: 1067، صحيح ابن ماجه: 967، ]
[سنن أبي داود: 1416، صحيح ابن خزيمة: 1067، صحيح ابن ماجه: 967، ]
(3) عَنْ خارجةَ بنِ حذافہ اَنَّہ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ: اِنَّ اللّٰہَ اَمَدَّکُمْ بِصَلَاةٍ ہِیَ خَیْرٌ لَّکُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ․ الوِتْرُ جَعَلَہُ اللّٰہُ لَکُمْ فِیْمَا بَیْنَ صَلاةِ الْعِشَاءِ اِلَی اَن یَّطْلُعَ الْفَجْرُ۔
حضرت خارجہ بن حذافہ فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز عطا فرمائی ہے، وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے،اور وہ وتر کی نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نماز تمہارے لیے نماز عشا کے بعد سے صبح ہونے تک مقرر کی ہے․․․․ محدثین نے تحریر کیا ہے کہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: نمازِ وتر دنیا وما فیہا سے بہتر ہے؛ کیونکہ اُس زمانہ میں سرخ اونٹ سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی۔
[صحيح الترمذي: 452، صحيح ابن ماجه: 966]
[صحيح الترمذي: 452، صحيح ابن ماجه: 966]
(4) عَنْ اَبِی سَعِیدِ الخُدری قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ : مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِہِ اَوْ نَسِیَہُ فَلْیُصَلِّہِ اِذَا ذَکَرَہ۔
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص وتر سے سوتا رہ جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے (یا وہ جاگے) تو اسی وقت پڑھ لے۔
[صحيح أبي داود: 1431، صحيح الجامع: 6562]

[صحيح أبي داود: 1431، صحيح الجامع: 6562]

حضرت بریدہ اسلمی فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں․․․․․․ بعض روایت میں یہ حدیث ”الوتر واجِبٌ“ کے لفظ سے مروی ہے۔
[سنن أبي داود: 1419]
[سنن أبي داود: 1419]
جن حضرات نے وتر کو واجب قرار نہیں دیا ہے، حسبِ معمول انہوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض محدثین نے اِس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی (ابو منیب عبد اللہ بن عبد اللہ العتکی) کو ضعیف قرار دیا ہے ؛جب کہ محدثین کی دوسری جماعت مثلاً امام یحییٰ بن معین (۱۵۸ھ ۲۳۳ھ) انھیں ثقہ کہتے ہیں، امام حاکم نے اِس حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا ہے۔ امام داوٴد نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس پر خاموشی اختیار کی ہے، جو اُن کے نزدیک حدیث کے صحیح یا کم از کم حسن ہونے کے دلیل ہوتی ہے۔(۷)
[أرشيف ملتقى أهل الحديث - 1:(7/34، 135422)]
قال ابن عبد البر : كل ما سكت عليه أبو داود فهو صحيح
[النكت على كتاب ابن الصلاح » النوع الثاني الحسن ۔۔ ص: 437]
[أرشيف ملتقى أهل الحديث - 1:(7/34، 135422)]
قال ابن عبد البر : كل ما سكت عليه أبو داود فهو صحيح
[النكت على كتاب ابن الصلاح » النوع الثاني الحسن ۔۔ ص: 437]
نمازِ وتر کا وقت:
نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح ہونے تک رہتا ہے، جیساکہ حدیث نمبر (1 اور 3) میں مذکور ہے۔ بعض علماء نے نماز فجر کی ادائیگی تک نماز وتر کا وقت تحریر کیا ہے؛ مگر جمہور علماء کے نزدیک صبح ہونے کے بعد وتر ادا نہ کیے جائیں؛ بلکہ طلوعِ آفتاب کے بعد نمازِ وتر کی قضا کی جائے؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہونے کے بعد سے طلوع آفتاب تک صرف دو رکعت سنت موٴکدہ اور دو رکعت فرض ادا کی جائیں۔ جیساکہ جلیل القدر تابعی شیخ سعید بن المسیب کا فتویٰ ہے، جو امام بیہقی نے اپنی کتاب "سنن البیہقی الکبریٰ حدیث ۴۲۳۴ باب من لم یصل بعد الفجر الاّ رکعتی الفجر ثم بَادَرَ بِالفَرْضِ" میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ شیخ سعید بن المسیب نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صبح ہونے کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھتا ہے اور اِس نماز میں خوب رکوع وسجدے کرتا ہے تو شیخ سعید بن المسیب نے اسے اِس کام سے منع کیا۔ اس شخص نے کہا کہ کیا اللہ مجھے نماز پر عذاب دے گا؟ تو شیخ سعید بن المسیب نے جواب دیا : نہیں، لیکن تمہیں سنت کی خلاف ورزی پر عذاب دے گا۔
شیخ عبد العزیز بن باز کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ جو شخص صبح ہونے تک وتر نہ پڑھ سکے تو وہ طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھے۔
[مجموع فتاویٰ ابن باز: ۱۱/۳۰۰]
نماز وتر کے لیے افضل وقت:
رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد پڑھ کر نماز ِوتر کی ادائیگی افضل ہے، نبی اکرم ﷺ کا مستقل معمول بھی یہی تھا؛ البتہ وہ حضرات جو رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد اور نمازِ وتر کا اہتمام نہیں کرسکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کرلیں ۔
(6) حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کو خوف ہے کہ وہ آخری رات میں اٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا ہے تو وہ رات کے شروع حصہ میں ہی وتر ادا کرلے؛ البتہ جس کو رغبت ہے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نماز وتر ادا کرے تواُسے ایسا ہی کرنا چاہیے؛ کیونکہ رات کے آخری حصہ میں ادا کی گئی نماز کے وقت فرشتے حاضر رہتے ہیں اور یہی افضل ہے۔
[صحيح ابن ماجه: 983، صحيح الترمذي: 455]
[صحيح ابن ماجه: 983، صحيح الترمذي: 455]
(7) حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ میرے دوست حضرت محمد ﷺ نے مجھ کو تین باتوں کی وصیت فرمائی جن کو میں کبھی نہیں چھوڑتا ہوں نہ سفر میں اور نہ حضر میں (1) چاشت کی دو رکعتیں (2) ہر مہینہ کے تین دن کے روزے (3) وتر پڑھ کر سونا ۔
[صحيح البخاري: 1178، مسند أبي داود الطيالسي:2514، مسند الإمام أحمد بن حنبل:7138، سنن الدارمي:1495، مسند البزار:7623، صحيح ابن خزيمة:1221]
[صحيح البخاري: 1178، مسند أبي داود الطيالسي:2514، مسند الإمام أحمد بن حنبل:7138، سنن الدارمي:1495، مسند البزار:7623، صحيح ابن خزيمة:1221]
نبی اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں تمام فقہاء وعلماء نمازِ وتر کی قضا کی مشروعیت پر تو متفق ہیں (جیساکہ سعودی عرب کے بڑے علماء کی کونسل "اللَّجنةُ الدائمةُ لِلْبُحُوثِ العِلْمِیَّة والافتاء" نے فتویٰ نمبر ۱۱۲۷۱میں تحریر کیا ہے)، لیکن قضا کے وقت میں ان کی آراء مختلف ہیں، اگرچہ تقریباً تمام ہی فقہاء وعلماء طلوعِ آفتاب سے زوالِ آفتاب تک کے وقت کو نماز وتر کی قضا کا بہترین وقت قرار دیتے ہیں۔
(8) حضرت ابو سعید خدری کی حدیث (نمبر۴) گزرچکی ہے۔ سنن بیہقی میں یہ حدیث قدرے وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص وتر پڑھے بغیر سوگیا، وہ صبح کو پڑھے اور جو بھول گیا وہ یاد آنے پر پڑھے۔(بيهقي:4210، حاكم:1127)
[المحدث : شعيب الأرناؤوط | المصدر : تخريج سنن الدارقطني: 1637 | خلاصة حكم المحدث : صحيح]
[المحدث : شعيب الأرناؤوط | المصدر : تخريج سنن الدارقطني: 1637 | خلاصة حكم المحدث : صحيح]
(9) امام مالک فرماتے ہیں کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عبادہ بن صامت وغیرہ صحابہٴ کرام نے فجر کے بعد وتر پڑھے (یعنی کبھی کبھی بشری تقاضے کی وجہ سے بروقت نہ پڑھ سکے تو بعد میں بطور قضا پڑھے).
[موٴطا مالک: كتاب وقوت الصلاة، باب ما جاء في الوتر بعد الفجر(أخرجه أبو مصعب الزهري، 310 في النداء والصلاة؛ والشيباني، 256 في الصلاة، كلهم عن مالك به.)]
[موٴطا مالک: كتاب وقوت الصلاة، باب ما جاء في الوتر بعد الفجر(أخرجه أبو مصعب الزهري، 310 في النداء والصلاة؛ والشيباني، 256 في الصلاة، كلهم عن مالك به.)]
(10 حضرت عمر فاروق سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ … کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص کا رات کا کوئی معمول سونے کی وجہ سے رہ جائے اور وہ فجر کے بعد ظہر سے قبل ادا کرلے تو اس کے لیے ایسا ہی ہے، جیساکہ اس نے اس کو معمول کے مطابق ادا کیا۔
[مسلم:747، ابوداود:1313، نساءي:1790، ترمذي:581، ابن ماجه:1343، دارمي:1518، بزار:302، ابويعلى:235، صحيح ابن خزيمه:1171، صحيح ابن حبان:2643، بيهقي:4232]
[مسلم:747، ابوداود:1313، نساءي:1790، ترمذي:581، ابن ماجه:1343، دارمي:1518، بزار:302، ابويعلى:235، صحيح ابن خزيمه:1171، صحيح ابن حبان:2643، بيهقي:4232]
وتر کی تعداد رکعت:
نبی اکرم ﷺ نے متعدد طریقوں سے یہ وتر ادا کیے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ طریقے آج تک امت مسلمہ میں زندہ رکھے ہیں، مندرجہ ذیل دو طریقے امت مسلمہ میں زیادہ رائج ہیں:
(۱) وتر کی ۳ رکعت اس طرح ادا کی جائیں کہ ۲ رکعت پر سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت ادا کی جائے، یعنی ۳ رکعت دو تشہد اور ۲ سلام کے ساتھ۔
نوٹ: کچھ حضرات نے سہولت پر عمل کرنے کاکچھ زیادہ ہی مزاج بنالیا ہے؛ چنانچہ وہ صرف ایک ہی رکعت وتر ادا کرلیتے ہیں، صرف ایک رکعت وتر ادا کرنے سے بچنا چاہیے؛ کیونکہ فقہاء وعلماء کی ایک جماعت کی رائے میں ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔
ایک رکعت وتر پڑھنا منع ہے:
حافظ المغرب، امام ابن عبدالبرؒ (المتوفیٰ 463 ہجری) فرماتے ہیں کہ :
عَن أبي سعيد: أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: النَّهْي عَن البتيراء: أَن يُصَلِّي الرجل وَاحِدَة يُوتر بهَا.
ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کے رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت وتر پڑھنے سے منع کیا ہے۔

(۲) ایک سلام اور دو قاعدوں کے ساتھ نمازِ مغرب کی طرح وتر کی تین رکعت ادا کی جائیں۔
اِن مذکورہ دونوں شکلوں میں وتر کی ادائیگی صحیح ہے؛البتہ فقہاء وعلماء کرام نے اپنے اپنے نقطئہ نظر سے وتر کی کسی ایک شکل کو راجح قرار دیا ہے، مثلاً سعودی عرب کے علماء نے پہلی صورت کو راجح قرار دیا ہے ؛ جب کہ دیگر فقہاء وعلماء مثلاً شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہ ( ۸۰ھ -۱۵۰ھ) نے دوسری شکل کو مندرجہ ذیل احادیث شریفہ کی روشنی میں راجح قرار دیا ہے:
وتر کی تین رکعت:
(11) حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں ۱۱/ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ پہلے ۴/ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ ۴/ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔
[بخاري:1147، مسلم:738، ابوداود:1341، نسائي:1697، ترمذي:439]
یہ حدیث، حدیث کی ہر مشہور کتاب میں موجود ہے ،اس حدیث میں تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔
[بخاري:1147، مسلم:738، ابوداود:1341، نسائي:1697، ترمذي:439]
یہ حدیث، حدیث کی ہر مشہور کتاب میں موجود ہے ،اس حدیث میں تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔
(12) أَخْبَرَنَا أَبُو عَرُوبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ الأَصْبَغِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مِنَ الْوِتْرِ بِ : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِ : قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِ : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ " .
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور ”سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ“، دوسری رکعت میں ”قُل یَا أیُّہَا الکَافِرُون“ اور تیسری رکعت میں ”قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أحَد“ پڑھتے تھے۔
[ابوداود:1424، ترمذی:463، ابن ماجہ:1173، عبد الرزاق:4698، اسحاق بن راہویہ:1678، احمد:25906، طحاوی:1694+1695، حاکم:1143+1144+3921+3922، دارقطنی:1649+1675+1676، بیہقی:4852+4854]
حضرت ابوھریرہُ سے بھی یہی بات مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں ”سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ“، دوسری رکعت میں "قُل یَا أیُّہا الکافرون" اور تیسری رکعت میں "قل ہُوَ اللّٰہُ أحَد" اور معوذتين (یعنی قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس) پڑھتے تھے.
لیکن بعض روایات میں وتر کی تیسری رکعت میں صرف سورۃ الاخلاص ہی مروی ہے:
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی تین رکعات ادا فرماتے۔ پہلی رکعت میں سورت اعلی دوسری رکعت میں سورت کافرون اور تیسری رکعت میں سورت اخلاص کی تلاوت فرمایا کرتے۔
[نسائی:1702، ترمذی:462، ابن ماجہ:1172، احمد:2720+2725+2726+2905+3531، دارمی:1627، ابویعلیٰ:2555، طحاوی:1710، طبرانی:12434، بیہقی:4857]
دوسری روایت نمبر 15 میں آنے والی ہے۔
(13)حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ وہ رات میں تہجد کی آٹھ(8) رکعت پڑھتے، پھر تین وتر پڑھتے اور فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
[ابن ماجة:1361(ت الأرنؤوط)حديث صحيح، عبيد بن ميمون وإن كان مجهول الحال، متابع. أبو إسحاق: هو عمرو بن عبد الله السبيعي، وعامر الشعبي: هو ابن شراحيل. وأخرجه النسائي في "الكبرى" (408) عن إبراهيم بن يعقوب، عن ابن أبي مريم -واسمه سعيد بن الحكم- عن محمَّد بن جعفر، بهذا الإسناد.
وأخرجه البخاري (1138)، ومسلم (764)، والترمذي (444) من طريق أبي جمرة، عن ابن عباس قال: كان رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة.
[ابن ماجة:1361(ت الأرنؤوط)حديث صحيح، عبيد بن ميمون وإن كان مجهول الحال، متابع. أبو إسحاق: هو عمرو بن عبد الله السبيعي، وعامر الشعبي: هو ابن شراحيل. وأخرجه النسائي في "الكبرى" (408) عن إبراهيم بن يعقوب، عن ابن أبي مريم -واسمه سعيد بن الحكم- عن محمَّد بن جعفر، بهذا الإسناد.
وأخرجه البخاري (1138)، ومسلم (764)، والترمذي (444) من طريق أبي جمرة، عن ابن عباس قال: كان رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة.
احمد:3004،دارمی:1630، السنن الكبرى للنسائي:408+1357، طحاوي:1668، طبراني:12568]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازِ وتر تین رکعت ہے،نیز تین رکعت وتر کے جواز پر تمام علماء امت کا اجماع ہے، امام ترمذی فرماتے ہیں کہ جمہور صحابہٴ کرام کو بھی تین وتر پسند تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے اکثر صحابہٴ کرام اور بعد میں آنے والے جمہور اہل علم کا پسندیدہ عمل بھی یہی ہے کہ وتر کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ، دوسری رکعت میں سورہٴ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورہٴ اخلاص پڑھی جائے ۔(ترمذی) ایک رکعت وتر پڑھنے میں علماء امت کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے، لہٰذا قوتِ دلائل کے ساتھ ساتھ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وتر میں تین رکعت ہی پڑھی جائیں۔
تین رکعت وتر، دو تشہد اور ایک سلام کے ساتھ، :
دلیل نمبر 1:
(14) عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يُسَلِّمُ فِي رَكْعَتَيْ الْوِتْرِ
[نسائی:1698 باب کیف الوتر بثلاث، مسند إسحاق بن راهويه:1310، شرح معاني الآثار- طحاوي:1670، المعجم الأوسط للطبراني:6661، المعجم الصغير للطبراني:990، سنن الدارقطني:1665، المستدرك على الصحيحين-حاكم:1139+1140]
ترجمہ:
سعد بن ہشام حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی دو رکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔
[المستدرک للحاکم ما تلخیص للذهبی: جلد 1: صفحہ 446، 447 حدیث نمبر 1139، 1140]
تخریج:
[سنن نسائی: حدیث نمبر 1698، سنن دارقطنی: حدیث نمبر 1665]
اس حدیث کو امام ابن الملقن رح، امام حاکم رح، محدث ملا علی قاری رح، امام ذہبی رح. امام عینی رح صحیح اور امام نووی رح نے حسن کہا ہے۔
[تحفۃ المحتاج:جلد 1:صفحہ 404،مرقات:جلد 3:صفحہ 328،امداد القاری:جلد 7:صفحہ 4،خالصۃ الاحکام:جلد 1:صفحہ 552]

نوٹ:
اس حدیث کو قتادہ سے امام شعبہ رح (المتوفی 160 ہجری) نے بھی رویت کیا ہے۔
[دیکھئے، ناسخ الحدیث والمنسوخ للعصر: صفحہ 86]
دلیل نمبر 2:
(15) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَزْرَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى سورة الأعلى ، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِ قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ سورة الكافرون ، وَفِي الثَّالِثَةِ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ سورة الإخلاص ، وَلا يُسَلِّمُ إِلا فِي آخِرِهِنَّ ، وَيَقُولُ بَعْدَ التَّسْلِيمِ : سُبْحَانَ الْمَلَكِ الْقُدُّوسِ ثَلاثًا .
حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں ”سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ“، دوسری رکعت میں "قُل یَا أیُّہا الکافرون" اور تیسری رکعت میں "قل ہُوَ اللّٰہُ أحَد" پڑھتے تھے اور نہیں سلام پھیرتے تھے مگر تیسری رکعت کے آخر میں، اور سلام کے بعد تین مرتبہ کہتے: سبحان الملک القدوس۔
امام عینی رح نے نسائی والی روایت کو صحیح اور سلفی محدث، شیخ البانی اور سلفی شیخ محمد بن علی بن آدم نے روایت کو صحیح کہا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رح بھی اس روایت کی تحسین فرمائی ہیں۔
[عمدۃ القاری للعینی: جلد 7: صفحہ 5، سنن نسائی بتحقیق البانی: حدیث نمبر 1701، ذکرۃ العقبہ فی شرح المجتبیٰ: جلد 18: صفحہ 2: صفحہ ۔ 481، تعدید تراویح: صفحہ 227]
3 رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ کیوں؟
دلیل نمبر 3:
[مسند احمد:25223(25738)، مسند النساء، حدیث السیدہ عائشہ، نیزملاحظہ ہو زادالمعاد ۱/۳۳۰ فصل فی سیاق صلاتہ … باللیل ووترہ۔]
یعنی یہ تینوں رکعت ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔
دن کے وتر کی طرح پڑھنا»
دلیل نمبر 4:
(17) حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’صلاة المغرب وتر النهار فأوتروا صلاة الليل‘‘
ترجمہ:
مغرب کی نماز، دن کی وتر ہے ، پس رات میں بھی وتر پڑھو۔

اور اسی روایت کے راوی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب رات کی وتر کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ:
أتعرف وتر النهار؟ قلت: نعم، صلاة المغرب قال: صدقت أو أحسنت
کیا تم دن کی وتر کی نماز کو نہیں جانا؟
سائل نے کہا : ہاں! وہ تو مغرب کی نماز ہے۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ جواب دیا کہ: تو نے سچ کہا۔
[شرح معانی الآثار:جلد 1:صفحہ 279]
اور ایک اور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’ وتر الليل ثلاث كوتر النھار صلاة المغرب‘‘
رات کی وتر کی نماز 3 رکعت ہے، دن کی وتر، یعنی مغرب کی نماز کی طرح۔
[الخلافیات للبیہقی: جلد 3:صفحہ 334]
نوٹ:
اس روایت میں موجود یحییٰ بن زکریا الکوفی پر کلام ہے، لیکن یہ روایت موقوفا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔
[دیکھئے: شرح معانی الآثار لطحاوی: جلد 1: صفحہ 294]
اور محدث نیموی رح المتوفی 1332 ہجری نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
[آثار السنن:216(1/165)]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الوتر ثلاث كثلاث المغرب‘‘۔
ترجمہ:
وتر کی نماز 3 رکعت ہیں، مغرب کی نماز کی طرح۔
[المعجم الاوسط للطبرانی:7170 (جلد 7، صفحہ 165)]

نوٹ:
اس روایت میں اسماعیل بن مسلم المکی رح ہیں۔ اور ان کے شاگرد ابو بحر عبدالرحمٰن بن عثمان البکراوی رح (المتوفی 195 ہجری) پر کلام ہے، لیکن ان دونوں کے بارے میں امام ابو حاتم رازی رح۔ اور امام ابو احمد ابن عدی رح کہتے ہیں ان کی حدیثیں لکھی جائیں۔
[تہذیب الکمال: جلد 3: صفحہ 203، جلد 17: صفحہ 273]
یعنی متابعات کی سورت میں یہ حضرات مقبول ہیں۔
الغرض ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی وجہ سے یہ روایت بھی مقبول ہیں۔ نیز، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک حسن رویت کہ ’’ثم أوتر بثلاث لا یفصل فیهن‘‘[مسند احمد:25223] سے بھی اس رویت کی معنوی متابعت ہوتی ہے۔
لہٰذا اس روایت پر اعتراض فضول وبےکار ہے۔
دلیل نمبر 5:
حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر کیا اور وتر کی تیسری رکعت کے بعد، ایک ہی سلام کا ذکر کیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
عَن عبد الرَّحْمَن بن أَبْزَى أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ يُوتر بسبح اسْم رَبك الْأَعْلَى وَقل يَا أَيهَا الْكَافِرُونَ وَقل هُوَ الله أحد فَإِذا سلم قَالَ سُبْحَانَ الْملك القدوس ثَلَاث مَرَّات ويمدها فِي الثَّالِثَة
[عمل الیوم واللیلۃ، للنسائی:744 (صفحہ 446)]
دلیل نمبر 6:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
يا أبا محمد خذ عني فإني أحدث عن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وأخذ رسول الله (صلى الله عليه وسلم) عن ربه ولن تأخذ عن أحد أوثق مني قال ثم صلى بي العشاء ثم صلى ست ركعات يسلم بين الركعتين ثم أوتر بثلم في آخر الثلاث
اے ابو محمد (ثابت بنانی رضی اللہ عنہ) مجھ سے نماز سیکھ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز ذکر کرتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اللہ سے لی ہے……..آگے حضرت ثابت کہتے ہیں کے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے مجھے نماز پڑھائی اور آخری رکعت میں سلام پھیرا۔
[تاریخ دمشق لابن عساکر: جلد 9: صفحہ 363]
حافظ سیوطی رح (المتوفی911 ہجری) اور محدث علی المتقی ہندی رح (المتوفی 975 ہجری) کہتے ہیں اس کے رجال ثقہ ہیں۔
[کنز العمال: جلد 8: صفحہ 67، جامع الکبیر للسیوطی: جلد 19: صفحہ 89]
نوٹ:
یہ روایت مرفوعِ حکمی ہے۔
[اعلاء السنن: جلد 6: صفحہ 50]
ان تمام صحیح، حسن اور مقبول روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 3 رکعت وتر کو ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھتے اور اس کا حکم بھی دیتے تھے۔
نیز، جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ، وغیرہ کئی حضرات بھی 3 رکعت وتر 1 ہی سلام کے ساتھ پڑھنے کے قائل تھے۔
مشہور ثقہ، کبار تابعی، مفسر و مقری ابوالعالیہ رضی اللہ عنہ (المتوفی 93 ہجری) فرماتے ہیں کہ
علمنا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم أو علمونا أن الوتر مثل صلاة المغرب , غير أنا نقرأ في الثالثة , فهذا وتر الليل , وهذا وتر النهار
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے سکھایا کہ وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح ہے، مگر وتر میں ہم تیسری رکعت میں (قرات اور قنوت) پڑھتے ہیں اور یہ رات کی وتر ہے اور وہ (یعنی مغرب) دن کی وتر ہیں۔
ایک اور روایت میں کہتے ہیں کے میں وتر کو مغرب کی طرح پڑھتا ہوں۔
تفصیل کے لیے دیکھئے:
[شرح معانی الآثار: جلد 1: صفحہ 293، 294، مصنف عبد الرزاق: حدیث نمبر 4648، 4659، 4663، موطا امام محمد: صفحہ 96، مصنف ابن ابی شیبہ: حدیث نمبر: 4659 6909]
(18) حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رات کے وتر دن کے وتر یعنی نمازِ مغرب کی طرح تین رکعت ہیں۔
[مصنف عبد الرزاق:4635، طحاوي:1744، طبراني:9419-9421، دارقطني:1653، بيهقي:4812(صحيح)، مجمع الزوائد:: 2/245 (رجاله رجال الصحيح)، عمدة القاري: 7/5]
[مصنف عبد الرزاق:4635، طحاوي:1744، طبراني:9419-9421، دارقطني:1653، بيهقي:4812(صحيح)، مجمع الزوائد:: 2/245 (رجاله رجال الصحيح)، عمدة القاري: 7/5]
(19) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ صحابی رسول ﷺ حضرت ابی بن کعب تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور مغرب کی نماز کی طرح تیسری رکعت میں سلام پھیرتے تھے ۔
[مصنف عبد الرزاق:۳/۲۶،باب کیف التسلیم فی الوتر،حدیث نمبر:4659(7725)]
[مصنف عبد الرزاق:۳/۲۶،باب کیف التسلیم فی الوتر،حدیث نمبر:4659(7725)]
(20) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ مسلمانوں(یعنی صحابہ وتابعین) کا اجماع ہے کہ وتر کی تین رکعت ہیں اور آخر میں ہی سلام پھیرا جائے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:۲ /۹۰،باب من کان یوتر بثلاث او اکثر،حدیث نمبر:6834]
[مصنف ابن ابی شیبہ:۲ /۹۰،باب من کان یوتر بثلاث او اکثر،حدیث نمبر:6834]
(21) صحابی رسول ﷺ حضرت انس نے تین رکعت وتر پڑھی اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:۲ /۹۱،باب من کان یوتر بثلاث او اکثر:حدیث نمبر 6840]
[مصنف ابن ابی شیبہ:۲ /۹۱،باب من کان یوتر بثلاث او اکثر:حدیث نمبر 6840]
تابعین کا عمل:
جمہور تابعین بھی 3 رکعت وتر کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کے قائل تھے۔
چناںچہ، امام ابو اسحاق الصبیعی رح (المتوفی 129 ہجری) فرماتے ہیں کہ
كان أصحاب علي، وأصحاب عبد الله لا يسلمون في ركعتي الوتر
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تمام کے تمام شاگرد 2 رکعت وتر پر سلام نہیں پھرتے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ: حدیث نمبر 6911]
تاریخ اور اسماء الرجال کے کتب کے سرسری مطالعہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی تعدد 250 سے زیادہ کو پہنچ گئی ہے۔
[جزء ترک الرفع الیدین للشیخ عبدالغفار ذہبی: صفحہ 596]
معلوم ہوا کے تقریبا “250″ سے زیاد تابعین میں 3 رکعت وتر کو ایک سلام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
اسی طرح اہل مدینہ کا بھی یہ کہنا ہے کے 3 رکعت وتر ایک ہی سلام کے ساتھ ہے۔
چنانچہ، سعید ابن المسیب رح، ابوالعالیہ، عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد بن ابی بکر، خارجہ بن زید بن ثابت، سلیمان بن یسار، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، ابوبکر بن عبد الرحمان ابن الحارث رح، خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رح. اور قلاس بن عمرو البصری رح وغیرہ کئی تابعینِ عظام رح بھی 3 رکعت وتر کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہے۔
[شرح معانی الآثار:جلد 1:صفحہ 296]
﴿وضاحت﴾:
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے ہیں، رہا دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے کا ثبوت تو ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں ملتی، جس میں یہ ذکر ہو کہ نبی اکرم ﷺ تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے اور دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ اس کے برعکس متعدد ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں آپ ﷺ نے دن رات کی ہر نماز میں ہر دوسری رکعت پر قاعدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وتر کا اس عموم سے مستثنیٰ ہونا کسی ایک حدیث میں نہیں ملتا، اگر ایسا ہوتا تو نبی اکرم ﷺ ضرور بیان فرماتے اور صحابہٴ کرام اہتمام سے امت تک پہونچاتے۔
بعض حضرات نے دار قطنی اور بیہقی میں وارد حضرت ابوہریرہ کی حدیث کے صرف ایک حصہ (وَلاَ تَشَبَّہُوا بِصَلاَةِ الْمَغْرِب) کو ذکر کرکے تحریر کردیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک سلام اور دو تشہد کے ذریعہ نماز ِ وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث کے صرف ایک حصہ کو ذکر کرکے کوئی فیصلہ کرنا ایسا ہی ہوگا، جیسے کہ کوئی کہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور دلیل کے طور پر پیش کرے (وَلاَ تَقْرَبُوا الصَّلاة۔۔۔ )۔
دار قطنی اور بیہقی میں وارد اس حدیث کے مکمل الفاظ اس طرح ہیں (لَا تُوتِرُوْا بِثَلاثٍ، اَوْتِرُوا بِخَمْسٍ اَوْ سَبْع وَلا تَشَبَّہُوا بِصَلاةِ الْمَغْرِب) ۔ اگر اس حدیث کا تعلق صرف وتر سے ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ مغرب کی طرح تین وتر نہ پڑھو؛ بلکہ پانچ یا سات پڑھو، جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ یقینا اس کا دوسرا مفہوم ہے۔ ممکن ہے کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہو، یعنی جب تم نماز تہجد اور اس کے بعد وتر پڑھنا چاہو تو کم از کم ۵ یا ۷ رکعت پڑھو۔
بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ وتر کی 3 رکعت ایسی نہ پڑھو، جو مغرب کی نماز کے مشابہ ہوتی ہے۔
اور احناف جو وتر پڑھتے ہیں، وہ مغرب کے مشابہ نہیں ہے۔ بلکہ احناف وتر کے تیسری رکعت میں قرات، قنوت پڑھتے، وتر کی تکبیر کہتے اور اس کے ساتھ رفع الیدین بھی کرتے ہیں۔
اور یہ تما م چیز مغرب کی نماز میں نہیں ہوتی۔ لہذہ ہماری وتر، مغرب کی نماز کے مشابہ نہیں ہے۔
نیز، دیکھئے:
[مرقات شرح مشکاۃ: جلد 3، صفحہ 328]
جواب 2
اس حدیث کا تعلق ہے تہجد کے وقت پڑھی جانے والے وتر کی نماز ہے۔
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ مغرب کی طرح وتر کو 3 رکعت پڑھو، بلکہ 5 رکعت پڑھو، 7 رکعت پڑھو، 9 رکعت پڑھو، 11 رکعت پڑھو یا 11 سے زیاد بھی پڑھو۔
[الخلافیات للبیہقی:جلد 3:صفحہ 334]
اب اس حدیث کا سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہنا چاہ رہے ہیں کہ تہجد کے وقت میں وتر کو صرف 3 رکعت تک محدود مت کرو، بلکہ اس کے ساتھ 2 رکعت تہجد کو ملا کر کم سے کم 5 رکعت پڑھو۔ یا 4 رکعت تہجد کو ملاکر 7 رکعت پڑھو۔ یا 6 رکعت کو ملاکر 9 رکعت پڑھو، یا 8 رکعت کو ملاکر 11 رکعت پڑھو۔ یا اُسے زیاد پڑھو۔
لکین مغرب کی طرح، صرف وتر کی 3 رکعت نہ پڑھو۔
امام طحاوی المتوفی 321 ہجری۔ اور امام عینی رح المتوفی 855 ہجری۔ نے اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے۔
[شرح معانی الآثار: جلد 1: صفحہ 292، حدیث نمبر 1739، عمدۃ القاری: جلد 4: صفحہ 253]
اور اسی معنی پر روایت کا سیاق و سباق بھی دلالت کرتا ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
نیز، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی تہجد کے وقت تنھا 3 رکعت وتر پڑھنے کو نہیں پسند کیا ہے۔ بلکہ 3 رکعت وتر کے ساتھ، کم سے کم 2 رکعت تہجد پڑھنے کو کہا۔
[شرح معانی الآثار:جلد 1: صفحہ 285، 289، 292، نیز دیکھئے، مسند الحارث:جلد 1: صفحہ 338]
اور اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ نبی اکرم ﷺ نے نمازِ وتر میں مغرب سے مشابہت سے منع فرمایا ہے، تو کس بنیاد پر ہم یہ کہیں گے کہ اِس سے مراد یہ ہے کہ دوسری رکعت میں قاعدہ نہ کیا جائے۔ کل قیامت تک بھی کوئی شخص نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے دار قطنی اور بیہقی میں وارد اِس حدیث کا یہ مفہوم ثابت نہیں کرسکتاہے۔ اس کے یہ مطلب بھی تو ہوسکتے ہیں:
(۱) نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر کی تیسری رکعت میں بھی سورہٴ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملاوٴ؛ تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔
(۲) نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر میں دعائے قنوت بھی پڑھو؛ تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔
اور جن روایتوں میں ﴿لا یقعد الا فی اٰخرھن.... نہ "بیٹھے" یعنی تشہد میں سوائے اسکی آخر میں﴾ آیا ہے۔ تو اس (جملہ) میں (راوی)ابان العطاء کی خطا ہے۔
[ہامش نصب الرایہ ص۱۱۸۔۲]
راوی ابان کے سوا دوسرے تمام اس کے ساتھی (راوی) یہ لفظ بیان نہیں کرتے، وہ سب کے سب ﴿لا یسلم الا فی اٰخر ھن.....نہ "سلام" پھیرے سوائے اس کے آخر میں﴾ کا لفظ بیان کرتے ہیں۔ پس ابان اس لفظ ﴿لا یقعد....نہ بیٹھے﴾ میں منفرد(اکیلے) ہے۔ لہٰذا اس سے روایت کرنے والا راوی بھی منفرد(جملہ کے گواہ) ہیں، باقی (1)عیسی بن یونس۔ (2)یزید بن زریع۔ (3)ابو بدر بن شجاع بن الولید۔ (4)اور مطم بن مقدم اور (5)عبد الوہاب بن عطاء جو ابان سے زیادہ پکے راوی ہیں۔ وہ سب ﴿لا یسلم الا فی اٰخرھن.....نہ "سلام" پھیرے سوائے اس(وتر)کے آخر میں﴾ کہتے ہیں۔
(۲) نیز مستدرک کے دو نسخے ہیں۔ ایک میں جہاں سے امام ابن حجر نے [فتح الباری] اور امام بیہقی نے نقل کیا ہے ﴿لا یقعد....نہ بیٹھے﴾ کا لفظ ابان کی حدیث میں ہے۔
اور دوسرے نسخے میں جنہیں امام ابن حجر نے [الدرایہ] میں اور امام عینی نے [البنایہ] میں اور امام ابن ہمام نے [فتح القدیر] میں نقل کیا ہے، اور مرتضیٰ زبیدی نے [عقود الجواہر المنیفہ] اور امام زیلعی نے [نصب الرایہ] میں نقل کیا ہے، وہاں ابان کی روایت میں بھی {لا یقعد....نہ بیٹھے} نہیں بلکہ ﴿لا یسلم....نہ سلام پھیرے﴾ ہے، تو معلوم ہوتا ہے، ﴿لا یقعد﴾ رای کا سہو(خطا) ہے، اصل ﴿لا یسلم﴾ ہے، بہرحال جیسے مغرب کی نماز میں دو رکعت کے بعد بیٹھتے ہیں، اور سلام پھیرنے کے بغیر تیسری رکعت میں کھڑے ہونا یہی حکم ہے۔
غرضیکہ اِس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا کہ نبی اکرم ﷺ نے وتر کی تین رکعت ایک سلام سے پڑھنے پر وتر کی دوسری رکعت میں قاعدہ کرنے سے منع فرمایا ہے، صحیح نہیں ہے؛کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں حدیث کا یہ مفہوم مذکور نہیں ہے۔ ہاں کسی عالم یا فقیہ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے جو غلطی کا احتمال رکھتی ہے، جس پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت مثلاً امام ابوحنیفہ کی رائے یہ ہے کہ اِس حدیث سے یہ مفہوم لینا صحیح نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے مختلف فیہ مسائل میں وسعت سے کام لینا چاہیے، امام ابوحنیفہ کی رائے کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دینے کی ناکام کوشش نہیں کرنی چاہیے!
اس موقع کو غنیمت سمجھ کر یہ بات واضح کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ اِن دنوں بعض حضرات امام ابوحنیفہ ( جنہیں تقریباً سات صحابہٴ کرام کے دیدار کا شرف حاصل ہے) کی قرآن وسنت کی روشنی میں بعض آراء ( اگر وہ اُن کے علماء کی رائے سے مختلف ہوتی ہے) کو قرآن وسنت کے خلاف بتاتے ہیں اور ایسا تاثر پیش کرتے ہیں کہ جو انہوں نے ۱۴۰۰ سال کے بعد قرآن وسنت کو سمجھا ہے، وہی صحیح ہے، صحابہٴ کرام اور بڑے بڑے تابعین کی صحبت سے مستفید ہونے والے حضرت امام ابوحنیفہ نے قرآن وسنت کے خلاف فیصلہ فرمایا ہے اور اُن کی رائے پر اس طرح لعن وطعن شروع کردیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے یہ رائے گیتا، رامائن اور بائیبل سے اخذ کی ہے، نعوذ باللہ․․․․․ اگر کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی رائے کی دلیل ترمذی جیسی مستندکتاب میں وارد نبی اکرم ﷺ کے قول یا عمل پر مشتمل ہوتی ہے، تو بخاری ومسلم کی حدیث کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔۔ ایک سلام اور دو تشہد سے وتر کی تین رکعت کو غلط قرار دینے کے لیے صحیحین ہی نہیں؛ بلکہ صحاح ستہ سے بھی باہر نکل کر دار قطنی اور بیہقی کی اُس روایت کو بنیاد بنایا جارہا ہے، جس کے متعدد مفہوم ہوسکتے ہیں۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
جواب 3
اگر اس حدیث کا وہ معنی ہے جو غیرمقلدین اہلحدیث حضرات بیان کرتے ہیں کہ وتر کو مغرب کی طرح 3 رکعت نہ پڑھو یعنی 3 رکعت وتر نہ پڑھو۔ بلکہ اسے زیاد یا کم پڑھو یا 3 رکعت کو 2 سلاموں کے ساتھ پڑھے۔
تو پھر یہ حدیث کی دیگر صحیح احادیث کی مخالفت کرتی ہے۔
1- 10 صحابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے 3 رکعت وتر مروی ہے۔
ان 10 صحابہ کے نام یہ ہیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمٰن بن ابزہ رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عمران بن حسین رضی اللہ عنہ۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ
[مسند احمد: حدیث نمبر 685، شرح معانی الاثار: جلد 1: صفحہ 279-292، مسند ابن ابی شیبہ: حدیث نمبر 6913، مسند احمد: جلد 42: صفحہ 126، تاریخ دمشق الصدقیر: 3، کتاب الصدقیر: 3۔ مسند الشاشی: جلد 3: صفحہ 324، حدیث نمبر 1432، 1433، ام المومنین واللیلتی لن نسائی: صفا 446، مسند الحارث: جلد 1: صفحہ 337، مسند البزار: جلد 337، مسند البزار: جلد 3، مسند 31 صفحہ 414]
2 – 4 صحابہ یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، انس رضی اللہ عنہ۔ اور عبدالرحمٰن بن ابزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 3 رکعت وتر کو ایک سلام سے پڑھتے، جیسا کہ گزر چکا۔
3 - ایک اور صحیح روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 رکعت وتر کو مغرب کی 3 رکعت کے مشابہ قرار دیا ہے۔
4 – ایک حسن رویت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر پڑھنے سے بھی منع کیا ہے۔
تمام روایات کی تفسیر میں اوپر گزر چکی۔
لہٰذا صحیح معنی وہی ہے، جو ہم نے امام طحاوی المتوفی 321 ہجری۔ وغیرہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
نوٹ:
مختلف احادیث سے مختلف سنتیں صحیح ثابت ملتی ہیں، اسی لئے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی وغیرہ میں اختلاف رہا، لیکن یہ اختلاف حق اور ناحق کا نہ تھا، بلکہ افضل اور جائز کا تھا، کسی کے نزدیک ایک طریقہ افضل تھا تو دوسرے کے نزدیک دوسرا افضل تھا، لہٰذا دونوں میں سے کسی ایک کو غلط قرار دینا اور اختلاف کو مخالفت اور تفرقہ میں تبدیل کرتے ایک کو درست اور دوسرے کو غلط کہنا، جیساکہ آجکل کے بعض نام نہاد اہل حدیثوں کی عادت ہے، اس سے بچیں۔
دعائے قنوت کا وقت:
دعائے قنوت خواہ رکوع سے قبل یا رکوع کے بعد پڑھی جائے، دونوں شکلوں میں نماز ادا ہوجائے گی؛ البتہ افضل وقت کے متعلق فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے۔ صحابیِ رسول ﷺ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی رائے یہ ہے کہ دعائے قنوت پورے سال رکوع سے قبل پڑھی جائے۔(ترمذی) شیخ امام ابوحنیفہ ، شیخ امام سفیان ثوری ، شیخ امام اسحاق اور شیخ امام ابن مبارک جیسے جلیل القدر فقہاء نے متعدد احادیث کی بناء پر اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ اس کی دلیل میں اختصار کی وجہ سے صرف دو حدیثیں ذکر کررہا ہوں:
(22) حضرت عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے قنوت کے متعلق سوال کیا ؟ حضرت انس نے فرمایا : قنوت ثابت ہے۔ میں نے عرض کیا : رکوع سے قبل یا بعد؟ حضرت انس نے فرمایا : رکوع سے قبل۔ میں نے کہا کہ فلاں نے مجھے آپ کی بابت بتایا ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد پڑھی ہے؟ حضرت انس نے فرمایا : اس نے جھوٹ کہا ہے۔ رکوع کے بعد تو رسول اللہ ﷺنے صرف ایک ماہ دعاء قنوت پڑھی ہے۔
[بخاری:1002(4096)،باب القنوت قبل الرکوع او بعدہ]
السنن الكبرى للبيهقي:3125، بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّهُ يَقْنُتُ بَعْدَ الرُّكُوعِ
[بخاری:1002(4096)،باب القنوت قبل الرکوع او بعدہ]
السنن الكبرى للبيهقي:3125، بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّهُ يَقْنُتُ بَعْدَ الرُّكُوعِ
بخاری شریف کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت انس کی تمام روایات کو پیش نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دعا قنوت کسی خاص وجہ سے (دعا وغیرہ کے لیے) پڑھی جائے تو بالاتفاق وہ رکوع کے بعد ہے اور جو قنوت عام حالات میں پڑھی جائے تو حضرت انس سے صحیح طور پر یہی ثابت ہے کہ وہ رکوع سے پہلے ہے۔
[فتح الباری:جلد ۲ صفحہ ۴۹۱،باب القنوت قبل الرکوع اور بعدہ]
[فتح الباری:جلد ۲ صفحہ ۴۹۱،باب القنوت قبل الرکوع اور بعدہ]
(23) حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔
[ابن ماجہ:1182 باب ما جاء فی القنوت قبل الرکوع وبعدہ، مصنف ابن أبي شيبة:6903، الأحاديث المختارة:1217 صحيح ابن ماجه: 978]
[ابن ماجہ:1182 باب ما جاء فی القنوت قبل الرکوع وبعدہ، مصنف ابن أبي شيبة:6903، الأحاديث المختارة:1217 صحيح ابن ماجه: 978]
دعائے قنوت سے قبل رفعِ یدین:
(24) حضرت اسود حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ وہ وتر کی آخری رکعت میں ”قل ہو اللہ احد“ پڑھتے، پھر دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور اس کے بعد رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھتے تھے۔
[جزء رفع الیدین للامام البخاری:ص ۲۸]
[جزء رفع الیدین للامام البخاری:ص ۲۸]
جودعائے قنوت عموماً ہم پڑھتے ہیں (اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ ، وَنُؤْمِنُ بِكَ ۔۔ ۔۔۔۔)، وہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے۔
تفصیلات کے لیے دیکھیں:
[مصنف ابن ابی شیبہ:۲/۹۵،باب فی قنوت الوتر حدیث نمبر ۶۸۹۳، سنن کبری للبیہقی:۲ /۲۱۱]
تفصیلات کے لیے دیکھیں:
[مصنف ابن ابی شیبہ:۲/۹۵،باب فی قنوت الوتر حدیث نمبر ۶۸۹۳، سنن کبری للبیہقی:۲ /۲۱۱]
خلاصہٴ کلام:
فرض نمازوں کے ساتھ ہمیں نماز وتر کا خاص اہتمام کرنا چاہیے جیساکہ نبی اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ نیز سنن ونوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے، جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اس کی تکمیل کردی جائے، جیساکہ احادیث میں ذکر آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے اور ہماری نمازوں میں خشوع وخضوع پیدا فرمائے؛ تاکہ ہماری نمازیں دنیا میں ہمیں برائیوں سے روکنے کا ذریعہ بنیں اور قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ بنیں۔
*****************************************
كيا وتر كى نماز رات كى نماز سے مختلف ہے ؟
الحمد للہ : نماز وتر رات كى نماز ميں ہى شامل ہوتى ہے، ليكن اس كے باوجود ان دونوں ميں فرق ہے:
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: " نماز وتر رات كى نماز ميں سے ہے، اور يہ سنت اور رات كى نماز كا اختتام ہے، رات كے آخر يا درميان يا عشاء كى نماز كے بعد رات كے شروع ميں ايك ركعت وتر كى ادائيگى سے رات كى نماز كا اختتام كيا جاتا ہے، رات كو اس كے ليے جتنى نماز ميسر ہو ادا كرے اور ايك پھر ايك ركعت ادا كر كے اس كا اختتام كرے" ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 11/ 309 )؛
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: " قولى اور فعلى سنت نے رات كى نماز اور وتر ميں فرق كيا ہے، اور اسى طرح اہل علم نے بھى اس كى كيفيت اور حكم ميں فرق كيا ہے:
ان دونوں نمازوں ميں قولى سنت كى تفريق:ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے كہ ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے رات كى نماز كى كيفيت كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " دو دو ہے، اور جب آپ كو صبح كا خدشہ ہو تو ايك وتر ادا كر لو"
صحيح بخارى ديكھيں فتح البارى ( 3 / 20 )
ان دونوں نمازوں كے مابين فعلى سنت كى تفريق: عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ: " رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ادا كرتے اور ميں ان بستر پر ليٹى ہوتى تھى اور جب وہ وتر ادا كرنا چاہتے تو مجھے بيدار كر كے وتر ادا كرتے"
صحيح بخارى ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 487 )
اور مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ان الفاظ كے ساتھ روايت كي ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كى نماز ادا كرتے اور ميں ان كے سامنے ليٹى ہوتى تھى، اور جب وتر باقى رہ جاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مجھے بيدار كر كے وتر ادا كرتے"صحيح مسلم ( 1 / 51 )
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ہى مسلم رحمہ اللہ نے روايت كى ہے كہ
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كو تيرہ ركعت ادا كرتے جن ميں پانچ وتر ہوتے ان وتروں ميں صرف آخرى ركعت ميں بيٹھتے تھے"
صحيح مسلم ( 1 / 508 )
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا ہى سے مروى ہے جب سعد بن ھشام بن عامر نے ان سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وتر كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگيں:
" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نو ركعت ادا كرتے ان ميں سے صرف آٹھويں ركعت ميں بيٹھتے اور اللہ كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتےاور اللہ سے دعا كر كے بغير سلام پھيرے اٹھ جاتے اور پھر نويں ركعت كر كے بيٹھتے اور اللہ كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتے اور اللہ تعالى سے دعا كر كے سلام پھيرتے اور يہ سلام ہميں سناتے تھے"۔
[صحيح مسلم:746 (1 / 513)]
اور رات كى نماز اور وتر ميں علماء كرام نے جو فرق كيا ہے وہ يہ ہے: علماء كرام وتر كے وجوب ميں اختلاف كرتے ہيں : ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى اسے واجب قرار ديتے ہيں ، اور امام احمد سے بھى يہ ايك روايت ہے جو " الانصاف " اور " الفروع" ميں مذكور ہے، امام احمد كہتے ہيں: جس نے جان بوجھ كر وتر ترك كيا وہ برا آدمى ہے، اور اس كى گواہى قبول نہيں كرنى چاہيے.
اور مشھور مذہب يہ ہے كہ وتر سنت ہے، اور امام مالك اور امام شافعى رحمہم اللہ كا مذہب يہى ہے.
ليكن رات كى نماز ميں كوئى اختلاف نہيں، فتح البارى ميں ہے:
"بعض تابعين كے كسى سے بھى اس كے وجوب ميں كوئى قول منقول نہيں ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں: بعض تابعين نے بطور شاذ قيام الليل كو واجب قرار ديا ہے، چاہے بكرى كا دودھ نكالنے كى مدت جتنا ہى قيام كيا جائے اور علماء كى جماعت كا مسلك ہے كہ يہ مندوب ہے"۔
ديكھيں: [فتح البارى ( 3 / 27 )]
واللہ اعلم
********************************
احکام و مسائلِ نمازِ وتر
رسول اقدس ﷺ نے فرمایا: اَلْوِتْرُحَقٌ، فَمَنْ لَّمْ یُوْ تِرْ فَلَیْسَ مِنَّا، وتر ایک حق ہے ، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔
(ابوداود: بَاب فِيمَنْ لَمْ يُوتِرْ ۱۲۰۹)
مسئلہ: وتر واجب ہے ، اگر وتر بھولے سے یا جان بوجھ کر چھوڑدے تواس کی قضاء ضروری ہے ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَامَ عَنْ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنْ الْوِتْرِ أَوْ يَنْسَاهُ ۴۲۷)
مسئلہ: وتر کی نماز ایک سلام سے تین رکعت ہے۔
، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ رَقَدَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَيْقَظَ فَتَسَوَّكَ وَتَوَضَّأ… ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ
(مسلم، بَاب الدُّعَاءِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ۱۲۸۰)
عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يُسَلِّمُ فِي رَكْعَتَيْ الْوِتْرِ
ترجمہ:
آپ ﷺ وتر کی دوسری رکعت میں سلام نہیں پھرتے تھے۔
[سنن نسائی: حدیث نمبر 1698، سنن دارقطنی: حدیث نمبر 1665، المستدرک للحاکم ما تلخیص للذهبی: جلد 1: صفحہ 446، 447 حدیث نمبر 1139، 1140]
عن عائشة ، قالت :« كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث لا يسلم إلا في آخرهن ۔
(المستدرك وأما حديث بكر بن وائل ۱۰۹۰)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
’’ثم أوتر بثلاث لا يفصل فيهن‘‘
ترجمہ:
۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رکعت وتر پڑھتے، جس میں (سلام کے ذریعہ) فصل(الگ) نہیں کرتے۔
[مسند احمد:25223 (جلد 42: صفحہ126)]
مسئلہ: کھڑے ہونے پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر وتر کی نماز پڑھنا جائز نہیں۔
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(بخاري بَاب إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ ۱۰۵۰)
مسئلہ: اسی طرح جانور پر سوار ہو کر وتر پڑھنا جائز نہیں ہاں جبکہ کوئی عذر ہو۔
عَنْ { ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ وَيُوتِرُ بِالْأَرْضِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ كَذَلِكَ (شرح معاني الاثار بَابُ الْوِتْرِ هَلْ يُصَلَّى فِي السَّفَرِ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَمْ لَا ۲۵۹/۲)عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ قَالَ كُنْتُ أَسِيرُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ فَقَالَ سَعِيدٌ فَلَمَّا خَشِيتُ الصُّبْحَ نَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَيْنَ كُنْتَ فَقُلْتُ خَشِيتُ الصُّبْحَ فَنَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِسْوَةٌ حَسَنَةٌ فَقُلْتُ بَلَى وَاللَّهِ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ عَلَى الْبَعِيرِ(بخاري بَاب الْوِتْرِ عَلَى الدَّابَّةِ ۹۴۴)
مسئلہ: نماز ی کا وتر کی ہر رکعت میں نفل کی طرح سورۂ فاتحہ اور دوسری سورتیں پڑھنا ضروری ہے۔
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ سَأَلْنَا عَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ
( ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِيمَا يُقْرَأُ بِهِ فِي الْوِتْر، حدیث نمبر:۴۲۵)۔
مسئلہ: وتر کی دوسری رکعت میں تشہد کے لئے بیٹھے، اور تشہد پر کچھ اضافہ نہ کرے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا لَانَدْرِي مَانَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ..... فَقَالَ إِذَاقَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ
[نسائی، باب کیف التشھد الأول، حدیث نمبر:۱۱۵۱ ]
مسئلہ: جب تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تونہ ثنا پڑھے اور نہ تعوذ پڑھے-
مسئلہ:جب تیسری رکعت میں سورت کی قرات سے فارغ ہو جائے تو اس وقت دونوں ہاتھوں کا کانوں کے برابر اٹھانا اور تکبیر کہنا ضروری ہے ، جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کرتے ہیں۔
عَنْ الأَسْوَدِ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ كَبَّرَ ثُمَّ قَنَتَ ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقُنُوتِ كَبَّرَ ثُمَّ رَكَعَ. …عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :ارْفَعْ يَدَيْك لِلْقُنُوتِ)مصنف ابن ابي شيبة فِي التَّكْبِيرِ لِلْقُنُوتِ ۳۰۷/۲)
پھر رکوع سے پہلے کھڑے کھڑے دعائے قنوت پڑھے۔حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ (ترمذي كِتَاب الْعِلَلِ ۴۹۶/۱۲)
مسئلہ: دعائے قنوت وتر میں سال بھر واجب ہے۔
عن النخعي :أن ابن مسعود كان يقنت السنة كلها في الوتر (المعجم الكبير عبد الله بن مسعود الهذلي ۲۸۳/۹)
مسئلہ: امام مقتدی اور منفرد میں سے ہر شخص (آہستہ سے) دعاءقنوت پڑھے۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. )مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ.۳۰۸/۲)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے منقول قنوت پڑھنا سنت ہے اور وہ یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیْکَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلاَ نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکَ مَنْ یَّفْجُرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعَیٰ وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْرَحْمَتَکَ وَنَخْشَیٰ عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ۔
ترجمہ:
اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے اور تجھ سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں اور تیرے سامنے توبہ کرتے ہیں اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری بہتر ثنا بیان کرتے ہیں اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں ہم تیری ناشکری نہیں کرتے اور ہم الگ ہوتے ہیں اور چھوڑتے ہیں جو تیری نافرمانی کرتا ہے۔ اے اللہ ! ہم خاص تیری عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور ہم تیری بندگی کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، بیشک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔
حوالہ
حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: عَلَّمَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ أَنْ نَقُولَ فِي الْقُنُوتِ يَعْنِي فِي الْوِتْرِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكُ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي، وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ»ترجمہ:حضرت ابوعبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ہمیں دعائے قنوت یعنی وتر میں کے لیے یہ کلمات سکھائے (ترجمہ) اے اللہ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہیں، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔[المصنف - ابن أبي شيبة:31689(29708)][مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر-محمد بن نصر المروزي : صفحہ 321][الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2736]
عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، «كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ كَبَّرَ ثُمَّ قَنَتَ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقُنُوتِ، كَبَّرَ ثُمَّ رَكَعَ»ترجمہ: حضرت ابن مسعودؓ جب قرأت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھر دعاء قنوت پڑھتے، پھر جب فارغ ہوتے قنوت سے تو تکبیر کہتے پھر رکوع کرتے۔[المصنف - ابن أبي شيبة:7131(6948)][مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر-محمد بن نصر المروزي: صفحہ 319][الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2729]لہٰذاقنوت سے قبل تکبیر کہی جائے گی اور پھر قنوت پڑھا جائے گا۔(مصنف ابن ابی شیبہ، ما يدعو به الرجل في قنوت الوتر، جلدنمبر:۷/۱۱۴)
[مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر-محمد بن نصر المروزي : صفحہ 321]
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2736]
عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، «كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ كَبَّرَ ثُمَّ قَنَتَ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقُنُوتِ، كَبَّرَ ثُمَّ رَكَعَ»
ترجمہ:
حضرت ابن مسعودؓ جب قرأت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھر دعاء قنوت پڑھتے، پھر جب فارغ ہوتے قنوت سے تو تکبیر کہتے پھر رکوع کرتے۔
[المصنف - ابن أبي شيبة:7131(6948)]
[مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر-محمد بن نصر المروزي: صفحہ 319]
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2729]
لہٰذا
قنوت سے قبل تکبیر کہی جائے گی اور پھر قنوت پڑھا جائے گا۔
جو شخص اس منقول قنوت پڑھنے پر قادر نہ ہو تو وہ کہے:’’ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‘‘ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں قبر کے عذاب سے بچالے۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
(بخاري بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً۵۹۱۰)
یا تین مرتبہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ کہے یا تین مرتبہ یَارَبِّ کہدے۔
اگر نمازی قنوت پڑھنا بھول جائے اور اس کو رکوع کی حالت میں یاد آجائے تو رکوع میں قنوت نہ پڑھے اور نہ ہی قنوت پڑھنے کیلئے اٹھ کر کھڑا ہو ، بلکہ واجب کو بھولے سے چھوڑدینے کی وجہ سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اسی طرح اگر اسے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آجائے تو قنوت نہ پڑھے ، بلکہ سلام کے بعد سجدہ سہوکرلے،اگر رکوع سے اٹھنے کے بعد قنوت پڑھ لے تو رکوع کو نہ لوٹائے لیکن سجدہ سہو کرے ، اس لئے کہ اس نے قنوت کو اپنی جگہ سے مؤخر کیا ہے۔
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ :مَنْ نَسِىَ الْقُنُوتَ فِى الْوِتْرِ سَجَدَ سَجْدَتَىِ السَّهْوِ.
(السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ نَسِىَ الْقُنُوتَ سَجَدَ لِلسَّهْوِ ۴۰۴۲)
مسئلہ:اگر امام مقتدی کے قنوت سے فارغ ہو نے سے پہلے رکوع کرے تو مقتدی اس کی پیروی نہ کرے بلکہ قنوت کو مکمل کرے پھر اس کے ساتھ رکوع میں شریک ہو جائے۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ.
)مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ.۳۰۸/۲)
ہاں اگر امام کے ساتھ رکوع کے ملنے کی اميد نہ ہو تو امام کی پیروی کرے اور قنوت چھوڑ دے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ۔
(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ ۔
(بخاري بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ: ۶۹۲)
مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ امام کی متابعت ضروری ہے، اب اگروہ دعائے قنوت میں لگا رہے اور رکوع میں امام کے ساتھ نہ مل پائے تواس کا ایک رکن میں امام کی متابعت نہ کرنا پایا جائے گا پھر اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے اس صورت میں قنوت چھوڑ کرامام کی متابعت کرلے گا۔
مسئلہ: اگر امام دعائے قنوت چھوڑدے تو مقتدی کا اگر امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہونا ممکن ہو تو قنوت پڑھ لے۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ.
)مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ :لاَ وِتْرَ إِلاَّ بِقُنُوتٍ. ۳۰۸/۲)
اور اگر امام کے ساتھ رکوع کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو تو امام کی پیروی کرے اور قنوت چھوڑدے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ۔
(بخاري بَاب إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ۶۸۰)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ
(بخاري بَاب إِيجَابِ التَّكْبِيرِ وَافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ: ۶۹۲)
مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ امام کی متابعت ضروری ہے، اب اگروہ دعائے قنوت میں لگا رہے اور رکوع میں امام کے ساتھ نہ مل پائے تواس کا ایک رکن میں امام کی متابعت نہ کرنا پایا جائے گا پھر اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے اس صورت میں قنوت چھوڑ کر امام کی متابعت کرلے گا۔
مسئلہ: قنوت ، وتر کے علاوہ صرف مصائب کے وقت پڑھا جائے گا، حوادث و مصائب کے وقت پڑھا جانے والا قنوت صرف امام کے لئے رکوع سے سراٹھانے کے بعد مسنون ہے نہ کہ منفرد کے لئے ۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَقَنَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصُّبْحِ قَالَ نَعَمْ فَقِيلَ لَهُ أَوَقَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ قَالَ بَعْدَ الرُّكُوعِ يَسِيرًا۔
(بخاري باب الْقُنُوتِ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَهُ ۹۴۶)
امام کے لئے بہتر یہ ہے کہ مصائب میں درج ذیل قنوت کو پڑھے ، مزید اس میں سنت سے ثابت شدہ زیادتی کی جاسکتی ہے۔
اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا بِفَضْلِکَ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ ، وَعَافِنَا فِیْمَنْ عَافَیْتَ ، وَتَوَلَّنَا فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لَنَا فِیْمَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّمَا قَضَیْتَ ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلاَ یُقْضَیٰ عَلَیْکَ، وَاِنَّہٗ لاَ یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ ، وَلَا یَعِزُّمَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ ، وَصَلَّی اللُّہُ عَلَی سَیِّدِنَا مُحَمِّدٍ وَّالِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ ‘’۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ۴۲۶)
مسئلہ:اگر مسبوق اپنے امام کو تیسری رکعت کے رکوع میں پالے تو حکما قنوت پانے والا ہوگا ، لہذا وہ اپنی نماز مکمل کرنے کے لئے کھڑا ہوتے وقت قنوت نہیں پڑھے گا۔
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ « مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلاَةِ فَقَدْ أَدْرَكَهَا قَبْلَ أَنْ يُقِيمَ الإِمَامُ صُلْبَهُ۔
(دار قطنی باب مَنْ أَدْرَكَ الإِمَامَ قَبْلَ إِقَامَةِ صُلْبِهِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاَةَ.۱۳۲۹)
مسئلہ: رمضان میں وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا آخری رات میں تنہا پڑھنے سے افضل ہے ۔
عَنْ مَالِك عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً۔
(موطامالك بَاب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ: ۲۳۳)
مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین رمضان میں جماعت کے ساتھ وترادا کیا کرتے تھے اور یہ حضرات امتِ محمدیہ میں سب سے زیادہ بہتر اور افضل پرعمل کرنے والے تھے؛ اس لیے فقہاء کرام نے رمضان میں وتر جماعت سے پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے۔
اورغیر رمضان میں وتر کی جماعت مکروہ ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَيُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ وَيَدْخُلُ بَيْتِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الْوِتْرُ۔
(مسلم، بَاب جَوَازِ النَّافِلَةِ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَفِعْلِ بَعْضِ الرَّكْعَةِ قَائِمًا وَبَعْضِهَا قَاعِدًا ۱۲۰۱)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ وترگھر میں تنہا ادا فرماتے تھے؛ اس لیے غیررمضان میں وترباجماعت مکروہ قرار دی گئی۔
ما شاءاللہ،زبردست
ReplyDeleteاللہ آپ کو جزائے خیر نصیب فرمائے۔آمین