Tuesday, 8 May 2012

قرآن و سنّت کے بعد اجماع و اجتہاد (قیاس)، شریعت کے بنیادی مآخذ کیوں ؟؟؟


اصول شریعت کتنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (چار)

دینِ اسلام (کے اصول) کامل ہیں۔
حوالہ
[قرآن، سورۃ المائدۃ:3]

اللہ تعالیٰ نے انسانی رہنمائی کے لئے یہ صورت اختیار فرمائی کہ بنیادی طور پر (1)نبی ﷺ کے ذریعہ کتاب وسنت میں اصول ذکر فرمادئے، اور پھر امت کے (2)مجتہدین کو ہدایت کی گئی کہ وہ تخریج(Extraction) واستنباط (inference) کرکے پیش آمدہ مسائل و حادثات کے احکامات متعین کریں، اور جو لوگ اجتہاد کی مطلوبہ شرائط کے حامل نہ ہوں ان کو پابند کیا گیا کہ وہ واقف کاروں سے مسائل معلوم کرکے عمل کرلیا کریں۔ پھر جب امت کے معتبر اور باصلاحت علماء نے اس راہ میں خدمت شروع کی تو تمام شرعی احکامات کے لئے تین ’’قطعی‘‘ مصادر : (۱) کتاب اللہ (۲)سنتِ رسول اللہ (۳) اور اجماعِ کو بنیاد بنایا۔ اور مذکورہ قطعی مصادر سے مستفاد ’’ظنی‘‘ مصدر (۴) ’’قیاس واجتہاد‘‘ کو بھی قانونِ شریعت کا چوتھا ماخذ (Derivation) قرار دیا، انہی چار بنیادوں پر پوری ’’فقہ اسلامی‘‘ کا مدار(Depended) ہے۔


القرآن :
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور اُولِوا الْاَمْرِ کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (کے قرآن) اور رسول (کی سنت) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
[سورہ-النساء:59]

خلاصہ:
اس آیات میں چاروں دلیلوں کی طرف اشارہ ہے:
(1) اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے،
(2) اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد اسوۃ حسنہ یعنی ’’نبوی زندگی‘‘ ہے اس کے بعد مراد "سنّت" ہے،
(3) اُولِوا الْاَمْرِ سے مراد "فقہاء" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماعِ فقہاء" کہتے ہیں.(یعنی اجماعِ فقہاء کو بھی مانو).
اور
(4) اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(فقہاء) میں اختلاف ہو تو ہر ایک "مجتہد" کے اجتہاد کو "قیاسِ شرعی" کہتے ہیں.


[کما تفسیر الکبیر:2/400 لامام الرازی(المتوفی:606 ہجری)؛
أنوار التنزيل:2/80 لامام البيضاوي(المتوفى: 685هـ)؛
تفسیر مدارک التنزیل:1/367 لامام النسفیؒ(المتوفى:710هـ)؛
تفسیر جلالین/المحلی و السیوطی(المتوفی:864 ہجری)] 





قرآن و سنّت کی طرف لوٹانے کا اہل کون؟

مفسر امام ابو بکر جصاصؒ(المتوفى:370هـ) اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:
ثُمَّ قَالَ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ فَأَمَرَ أُولِي الْأَمْرِ بِرَدِّ الْمُتَنَازَعِ فِيهِ إلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلّم إذا كَانَتْ الْعَامَّةُ وَمَنْ لَيْسَ مَنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لَيْسَتْ هَذِهِ مَنْزِلَتَهُمْ لِأَنَّهُمْ لَا يَعْرِفُونَ كَيْفِيَّةَ الرَّدِّ إلَى كِتَابِ اللَّهِ وَالسُّنَّةِ وَوُجُوهَ دَلَائِلِهِمَا عَلَى أَحْكَامِ الْحَوَادِثِ فَثَبَتَ أَنَّهُ خِطَابٌ لِلْعُلَمَاءِ 
ترجمہ:
پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں فرماکر اُولُو الْاَمْرِ کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں اے اُولُو الْاَمْرِ! تمہارے درمیاں اختلاف ہو تو تم اسے الله کی کتاب اور نبی ﷺ کی سنّت کی طرف لوٹادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہوسکتا ہے، کیونکہ عوام الناس اور غیرعالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا ’’طریقہ‘‘ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے.
[تفسیر احکام القرآن-للجصاص:2/257]



قرآن کی اتباع کا حکم:
﴿اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ﴾
ترجمہ:
(لوگو) جو کتاب تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے اتاری گئی ہے، اس کے پیچھے چلو
[سورۃ الاعراف:3]

نبی کی اتباع کا حکم:
﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ﴾
ترجمہ:
(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا
[سورۃ اٰل عمران:31]

اجماع کی اتباع کی تعلیم:
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
ترجمہ:
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے، اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے،  اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
[سورۃ النساء:115]
جو شخص نبی کی بات نہیں مانتا اور امت کے مومنین کے اجماع کو نہیں مانتا وہ شخص جہنمی ہے۔ اس آیت سے علمائے کرام، بالخصوص امام شافعی نے اجماع کی حجیت پر استدلال کیا ہے یعنی جس مسئلے پر پوری امت مسلمہ متفق رہی ہو وہ یقینی طور پر برحق ہوتا ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں۔
(اجتہادِ مجتہد) قیاس شرعی:
﴿وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ﴾
ترجمہ:
اور ایسے شخص کا راستہ اپناؤ جس نے مجھ سے لو لگا رکھی ہو۔
[سورۃ لقمان:15]
منیب یعنی رجوع  کرنے والا. مجتہد (ماہرعالم) بھی غیر-منصوص جزئی (قرآن و سنّت سے غیر واضح بات/مسئلہ) کو لے کر منصوص جزئی (قرآن و سنّت کے واضح بات/مسئلہ) کی طرف رجوع کرتا، لوٹتا، قیاس کرتا ہے، اس لئے اس کی اتباع بھی لازم، حکم سے، ہوتی ہے۔







































عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَسْنَا هُنَالِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ.
ترجمہ:
حضرت عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ  لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود ؓ سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہٰذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آپڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب  (قرآن)  میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ  (قرآن)  میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم  ﷺ  نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ  (قرآن)  میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم  ﷺ  کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ  (قرآن)  میں ہو، نہ نبی اکرم  ﷺ  کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیئے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن  (نسائی)  کہتے ہیں: یہ حدیث بہت عمدہ ہے۔
[سنن نسائی» کتاب: فیصلے کے آداب» باب: علماء جس بات پر اتفاق کریں اس کے مطابق حکم کرنے سے متعلق۔» حدیث نمبر: 5399]
تخریج: 
تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ٩٣٩٩) (صحیح الإسناد)   
 


چند جدید مسائل_اجتہادیہ: جن کا واضح حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں:

١. ٹیلیفون کے ذریعے نکاح
٢. انتقال_خون(خون کا کسی مریض کو منتقل کرنا)
٣. اعضاء کی پیوند-کاری
٤. حالت_روزہ میں انجیکشن کا مسئلہ
٥. لاؤڈ-اسپیکر پر اذان کا مسئلہ
٦. ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ وغیرہ


امام شافعىؒ(م204ھ) كہتے ہيں:
ولم يجعل الله لأحد بعد رسول الله أن يقول إلا من جهة علمٍ مضى قبله وجهةُ العلمِ بعدُ الكتابُ والسنةُ والإجماعُ والآثارُ وما وصفتُ من القياس عليها۔
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے بعد اللہ تعالی نے کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ دینی علم کے بارے میں کوئی رائے پیش کرے سوائے اسکے کہ وہ علم کی بنیاد پر ہو اور علم کی بنیاد کتاب، سنت، اجماع اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، ان کے کسی حکم پر قیاس ہے۔
[الرسالة للشافعي:1468 ص508].


امام شافعیؒ اپنے شیخ امام محمد شیبانی حنفیؒ(م189ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ
أن الحجة هي الكتاب ‌والسنَّة ‌والإجماع والقياس۔
ترجمہ:
بیشک حجت(دلیل)ہے کتاب، اور سنت، اور اجماع اور قیاس۔
[الأصل للشيباني ط قطر: ص181 ]


ثناء اللہ امرتسری صاحب نے لکھا ہے:
اہلِ حدیث کا مذہب ہے کہ دین کے اصول چار ہیں: (۱)قرآن(۲)حدیث(۳)اجماعِ اُمت(۴)قیاسِ مجتہد۔سب سے مقدم قرآن شریف ہے.......‘‘

******************************************************



فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذ کا تحقیقی جائزہ

 


”مآخذ“ سے وہ ذرائع مراد ہیں جن سے قانون اخذ کیاجاتا ہے، یا وہ مقامات ہیں جہاں سے قانون دلائل کے ساتھ حاصل کیے جاتے ہیں۔ قانون کی کتابوں میں ماخذ کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں:

$ماخذ صوری : قانون کا وہ ماخذ ہے جس کے ذریعے وہ اپنا جواز اور اثر حاصل کرتا ہے۔

$ماخذ مادی : قانون کا وہ ماخذ ہے جس سے قانون اپنا مواد حاصل کرتا ہے۔ (۱)

اصول فقہ کی کتب میں عمومی طور پر فقہ اسلامی کے مآخذ چار بیان کیے جاتے ہیں:

 $قرآن مجید $سنت $اجماع$قیاس

صاحب نورالانوار کے نزدیک فقہ اسلامی کے بنیادی ماخذ تین ہیں:

الکتاب والسنة واجماع الامة (۲)

”کتاب(یعنی قرآن حکیم)، سنت اور امت کا اجماع(فقہ کے بنیادی ماخذ ہیں)“

نیز وہ قیاس کو ماخذ تو سمجھتے ہیں لیکن اس کو الگ ذکر کرتے ہیں اورفقہ کے بنیادی مآخذمیں اس کا شمار نہیں کرتے؛ اس لیے کہ ”قیاس“ ذریعہ اورآلہ کی حیثیت رکھتاہے۔

مولانا محمد تقی امینی (۱۹۲۷ء۔۱۹۹۱ء)کے نزدیک فقہ اسلامی کے مادی مآخذ عمومی حیثیت سے بارہ ہیں:

$قرآن حکیم $سنت $اجماع $قیاس $استحسان $استدلال $استصلاح$مسلَّمہ شخصیتوں کی آراء$تعامل$عرف وعادت $ماقبل کی شریعت $ملکی قانون

مولانا امینی کے نزدیک اصولِ فقہ کی کتابوں میں صراحتاً صرف پہلے چار کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ماخذ کو بعض میں داخل سمجھا گیا ہے۔ اور اختصار کے طور پر صرف چار کا ذکر کرکے ان کی تعبیر و توجیہ اس طرح کی گئی ہے کہ ان کے عموم میں بقیہ داخل ہوجاتے ہیں، مثلاً قیاس کے عموم میں استحسان ، استصلاح وغیرہ داخل ہیں۔ اجماع میں تعامل اور عرف وعادت داخل ہیں۔ ماقبل کی شریعت قرآن یا حدیث کے عموم میں آتی ہے۔ ملکی قانون تعامل میں شمار ہوسکتا ہے۔ رائیں اگر قیاس پر مبنی ہیں تو ان کا شمار قیاس میں ہوگا ورنہ وہ سماع پر محمول حدیث کے ذیل میں آجائیں گی۔ استدلال بھی قیاس کے قریب ہے۔ (۳) ذیل میں فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذکا تعارف پیش کیاجاتا ہے۔

قرآن مجید

(فقہ اسلامی کا پہلا ماخذ)

قرآن مجید فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی؛چونکہ یہ سلسلہٴ ہدایت کا آخری ایڈیشن ہے؛ اس لیے اس کی جملہ تعلیمات و تفہیمات کا ہر زمانہ میں یکسانیت کے ساتھ پایاجانا لازمی تھا۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے حدود اربعہ بناکر اس کے خطوط متعین کردیے جائیں۔ قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود جامع مانع ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح احکام موجود ہیں؛ لیکن ان احکامات کی حیثیت اصول کی ہے۔ قرآن نے ایسا نہیں کیا کہ ابتداء ہی سے احکامات سے متعلق تمام جزئیات بیان کردی ہوں؛ بلکہ اس میں تدریج کا طریقہ بروئے کار لایاگیا۔ اگر بالفرض ابتداء ہی میں ساری جزئیات بیان کردی جاتیں اور عملی شکل کے سارے خاکے تیار کردیے جاتے تو ایک تو اس کی دستوری پوزیشن باقی نہ رہتی، دوسری بڑی بات یہ ہوتی کہ اس کی دوامی اور عالمگیر حیثیت ختم ہوکر ساری تعلیم خاص زمانہ تک محدود ہوجاتی اور پھر اس میں جمود و تعطل پیدا ہوکر ارتقاء پذیر معاشرے کو سمونے اور اقتضاء و مصالح کو جذب کرنے کی ساری صلاحیت ختم ہوجاتیں(۴)

مثال کے طور پر قرآن مجید نے اس بات کی تو وضاحت کی ہے کہ حکومت اللہ کی نیابت و امانت ہوگی اور ہر مسلمان کے لیے شورائی بنیاد پر عدل و انصاف کے نظام کے قیام کو ممکن بنانا لازم ہوگا؛ لیکن یہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ نظام کس نوعیت کا ہوگا اور اس کی ہیئت ترکیبی کیا ہوگی؟ اسی طرح قرآن مجید نے ہر حرام اور حلال چیز کا فرداً فرداً ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حیات انسانی سے متعلق ہرجزوی معاملہ کو موضوعِ بحث بنایا؛ بلکہ اصول متعین کردیے۔ اب ان متعین اصولوں سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنا اور ان کی علت تلاش کرکے حالات و زمانہ کے مطابق ان کی عملی تطبیق پیش کرنا اہل علم پر چھوڑ دیا۔ مولانا امینی اس حوالے سے اپنی ذاتی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

”اس بارے میں فقہاء و صلحائے امت نے جزئیات کی تفاصیل بتاکر کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ سب اپنے اپنے زمانہ کے حالات کی مناسبت سے تھے اور آج بھی ہمیں حق ہے کہ ان جزئیات کی روشنی میں مقصد اور اصول کے پیش نظر اپنے زمانہ کے حالات و تقاضا کے مناسب طریقہٴ کار کی جزئیات مرتب کریں۔ اس مرتب شدہ جزئیات کی حیثیت بھی پہلی جزئیات کی طرح قطعی او ر دوامی نہ ہوگی؛ بلکہ معاشرہ کی حالت پر موقوف ہوگی اور اسی وقت تک باقی رہے گی؛ جب تک معاشرہ اجازت دے گا۔“ (۵)

فقہائے متاخرین میں سے علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں حالات و زمانہ کے مطابق فقہی جزئیات میں تبدیلی اور اس کی ضرورت پر بڑی جامع بحث فرمائی ہے۔ ذیل میں مولانا شامی رحمة اللہ علیہ کی اسی کتاب سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:

”جاننا چاہیے کہ مسائلِ فقہ یا صریح نص سے ثابت ہوں گے (ان مسائل کو ہم نے پہلی فصل میں بیان کیا ہے) یا اجتہاد اور رائے سے ثابت ہوں گے۔ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو مجتہد نے اپنے زمانہ کے رواج کے موافق قائم کیاتھا۔ اس طرح کہ اگر وہ (دینی مجتہد) آج کے زمانہ میں موجود ہوتا تو اپنے ہی قول کے خلاف کہتا۔ اسی بنا پر اجتہاد کے شرائط میں لوگوں نے اس کو بھی شامل کیا ہے کہ مجتہد لوگوں کے رسم و رواج سے واقفیت رکھتا ہو؛ کیونکہ اکثر احکام زمانہ کے اختلاف سے بدل جاتے ہیں۔ بوجہ اس کے کہ رواج بدل گیا۔ یا کوئی نئی ضرورت پیدا ہوگئی یا زمانہ کے لوگ بدروش ہوگئے۔ اس صورت میں اگر وہ پہلا حکم باقی رہے تو اس سے لوگوں کو تکلیف اور ضرر پہنچے اور شریعت کے ان قواعد کی مخالفت زمانہ کے حالات کے موافق تھی؛ کیونکہ مشائخ کو یہ معلوم تھا کہ اگر آج خود مجتہد موجود ہوتا تو وہی کہتا جو انھوں کہا۔“(۶)

بہرحال ان فقہی احکامات کی جزئیات مرتب کرنے اور جدید مسائل کی عصری تطبیق کے حوالے سے فقہ اسلامی کے پہلے ماخذ یعنی قرآنِ کریم نے سات چیزوں کو اپنافقہی اصول قرار دیا ہے جن سے رہنمائی حاصل کرکے قرآنی منشاء کے مطابق ہر دور کے شرعی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ سات اصول درج ذیل ہیں:

$عدم حرج$قلت تکلیف $تدریج $نسخ $شانِ نزول

$حکمت و علت $عرب کی معاشرتی حالت

اگر عمومی طور پر قرآن ِ کریم کا جائزہ لیاجائے تو اس میں امت اسلامیہ کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت اور لحاظ کرتے ہوئے درج ذیل احکامات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(۱) اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیاجائے جس میں ناقابلِ برداشت مشقت ہو۔

(۲)لوگوں کی رغبت اور میلان کے پیش نظر بعض ایسے احکام مقرر ہوئے جنہیں قومی عید کے طور پر منایا جائے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب و زینت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

(۳)طاعات کی ادائیگی میں طبعی رغبت اور میلان کو ملحوظ رکھا گیا اور ان تمام محرکات و دواعی کی اجازت دی گئی جو اس میں مددگار ثابت ہوں؛ بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو۔

(۴)طبعی طور پر جن چیزوں سے قباحت ہوتی ہے یا طبعیت بار محسوس کرتی ہے اس کو ناپسند کیاگیا۔

(۵)حق و استقامت پر قائم رہنے کے لیے تعلیم و تعلم، امربالمعروف و نہی عن المنکر کو دوامی شکل دی گئی کہ طبیعت کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی ہے۔

(۶)بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کیے گئے؛ تاکہ انسان اپنی سہولت کے پیشِ نظر جس کو چاہے اختیار کرے۔

(۷)بعض احکام میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مختلف قسم کے عمل مذکور ہوئے اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔

(۸)بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا۔

احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقاء کو ملحوظ رکھاگیا، یعنی نہ ایک ہی وقت میں سارے احکام مسلط کیے گئے اور نہ ہی ساری برائیوں سے روکا گیا۔

(۹)تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی رعایت کی گئی۔

(۱۰)نیکی کے بہت سے کاموں کی پوری تفصیل بیان کی گئی۔ اس کو انسانوں کی سمجھ پر نہیں چھوڑا گیا، ورنہ بڑی دشواری پیش آتی ۔

(۱۱)بعض احکام کے نفاذ میں حالات و مصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص و مزاج کی۔ (۷)

چنانچہ قرآنِ کریم جو کہ فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے، اس سے ہمیں مندرجہ بالا اصولوں سے کافی رہنمائی ملتی ہے۔

سنت

(فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ)

فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ سنت ہے۔ سنت کے لغوی معنی راستہ اور طریقہٴ عمل کے ہیں۔ اصطلاح میں سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صحابہٴ کرام کے اقوال و افعال بھی سنت میں داخل ہیں، جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے۔

اَلسُّنَّةُ تُطْلَقُ عَلٰی قَولِ الرَّسُولِ وَ فِعْلِہ وَسُکُوْتِہ وَعَلٰی أقْوَالِ الصَّحَابَةِ وَأفْعَالِھِمْ(۸)

”سنت کا اطلاق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور سکوت پر نیز صحابہٴ کرام کے اقوال و افعال پر ہوتا ہے۔“

 صاحب کشف الاسرار لکھتے ہیں:

”سنت کا لفظ آں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال نیزطریقِ رسول و صحابہ کو شامل ہے۔“ (۹)

 ڈاکٹر محمود احمدغازی کے مطابق:

”ہر وہ چیز جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے نسبت رکھتی ہے، وہ حدیث ہے اور علم حدیث میں شامل ہے۔“ (۱۰)

فقہ اسلامی کو سمجھنے اور مسائل ِ حاضرہ کے استخراج کے حوالے سے سنت کوبنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ علماء و فقہاء نے تدوینِ فقہ کے حوالے سے سنت کی درج ذیل معلومات کا ہونا ضروری قرار دیا ہے:

$ناسخ و منسوخ $مجمل و مفسر$خاص و عام$محکم و متشابہہ

$احکامات کے درجے اور مراتب $ قرآن سے استدلال

$درایت و روایتِ حدیث کا علم

مولانا محمد تقی امینی رحمة اللہ علیہ سنت کے اس حصے کے بارے میں لکھتے ہیں، جس کا تعلق عام واقعات و مواعظ سے ہے:

”عام فقہاء کے خیال میں(کذا)قانون سازی کے لیے اس سے واقفیت ضروری نہیں ہے؛ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اجتماعی زندگی کو سمجھنے اور اس حیثیت سے قانون کا مقام متعین کرنے، نیز قانون کو موٴثر بنانے میں اس سے بڑی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کرکے قانون کی تدوین عمل میں لائی جائے تو اس میں خشکی اور کرختگی ہوگی اور جذب و محبت کا عنصر کم ہوجائے گا جو اسلامی قانون کی جان ہے۔“ (۱۱)

اسی طرح سنت کی تشریحی و توضیحی حیثیت کی مختلف صورتوں کے حوالے سے مولانا امینی کا حاصلِ مطالعہ درج ذیل ہے:

(۱) قرآن حکیم میں جو آیتیں مجمل تھیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح فرمائی۔

(۲)جو مطلق تھیں ، موقع اور عمل کے لحاظ سے انھیں مقید فرمایا۔

(۳)جو مشکل تھیں، ان کی تفسیر بیان فرمائی۔

(۴)جو قرآنی احکام مجمل تھے یعنی جن کے عمل کی کیفیت ، اسباب و شرائط اور لوازم وغیرہ کی تفصیل نہ تھی، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفصیل بیان فرمائی؛ چنانچہ نماز اور زکوٰة وغیرہ کی جو تفصیلات ”سنت“ میں مذکور ہیں، وہ سب قرآنِ حکیم کی شرح اور وضاحت ہیں۔

(۵)قرآنی توضیحات کی روشنی میں بہت سے پیش آمدہ واقعات کا حکم بیان فرمایا،مثلاً حلت و حرمت کے باب میں جو احکام مذکور تھے، ان پر مشتبہ اور مشکوک چیزوں کو قیاس کیا جن کی تصریح قرآن حکیم میں نہ تھی۔

(۶)قرآنی اصول و مقاصد کے پیش نظر وقت اور محل کی مناسبت سے وسائل و ذرائع کا حکم بیان فرمایا۔

(۷)قرآنی تصریحات سے ایسے اصول مستنبط فرمائے جن سے نئے حالات و مسائل کو قیاس کرنے کی راہیں کھلیں۔

(۸)قرآنی احکام کے وجوہ و اسباب اور حکمت و مصلحت بیان فرمائی جس سے بہت سے اصول و کلیات مستنبط ہوئے۔

(۹)قرآنی ہدایات سے الٰہی حکمت اخذ کی، اس کے مقاصد دریافت فرمائے، پھر اسی روشنی میں شریعت کو انسان کی عملی زندگی سے ہم آہنگ بنایا۔

(۱۰)بحیثیت مجموعی زندگی ایسی گذاری کہ قرآنی زندگی کے لیے وہ مکمل تفسیر بنی۔“ (۱۲)

ایک فقیہ کسی بھی شرعی مسئلہ کے استخراج کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے اور قرآن کی آیاتِ احکام پر جو کہ کم و بیش 500کے قریب ہیں نظر دوڑاتا ہے، اگر اس مسئلہ کا حل قرآنِ مجید کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا تو پھر سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے تلاش کرتا ہے؛ تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔سنت میں فقہی مسائل کے استخراج کی کئی مثالیں موجود ہیں:

(۱) قرآنِ کریم نے نماز، روزہ، زکوٰة، صدقات، حج اور اسی نوع کی دیگر عبادات کا حکم دیا ہے؛ لیکن چونکہ قرآنِ کریم کی مثال Text کی ہے اور اس کی شرح سنت سے معلوم ہوسکتی ہے تو اسی لیے ہمیں نماز کی ادائیگی، رکعت، وقت اور اسی طرح دیگر عبادات کی کافی حد تک تشریح سنت سے معلوم ہوگی؛ چنانچہ ان عبادات کی جزئیات تک رسائی سنت کا سہارا لیے بغیر ممکن نہیں۔

(۲)قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿وَیَحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبَاتُ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْحَبَائِثَ﴾(۱۳) یعنی پاک چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں اور ناپاک چیزیں تمہارے لیے حرام ہیں۔ اب پاک و ناپاک چیزوں کی وضاحت کیسے معلوم ہوگی تو اس کے لیے سنت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور کا گوشت حرام قرار دیا جو شکار کرکے کھاتا ہے تو اس سے حرام جانور کا تعین ہوگیا۔ اس کے علاوہ جو پرندہ کسی جانور کا شکار کرکے کھائے اسے بھی حرام قرار دیا اور اسی طرح پاک چیزوں کی تعیین بھی کردی۔

(۳)سنت اگر موجود نہ ہوتو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات کا معنی لغت یا کسی دوسرے ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں اعتکاف کا تذکرہ آیا ہے؛ لیکن اعتکاف سے کیا مراد ہے؟ عاکف کس کو کہتے ہیں؟ قرآنِ کریم میں اس طرح کے سیکڑوں احکامات موجود ہیں، جن کی تعبیر و تشریح کے لیے سنت کی تعبیر و تشریح سامنے ہونا ازحد ضروری ہے۔

(۴)قرآن کریم میں تیمم کا ذکر آیا ہے؛ لیکن اس کی تفصیلات اور د یگر احکام کی فقہی تعبیر کے لیے سنت کا مطالعہ ضروری ہے۔

(۵)قرآن کریم کا اصول ہے: ﴿لاَ تَأکُلُو أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾ (۱۴)

یعنی ایک دوسرے کا مال غلط طریقہ سے مت کھاؤ ماسوائے اس صورت میں کہ آپس کی باہمی رضامندی سے تجارت اور لین دین ہو؛ چنانچہ اگر باہم رضامندی سے تجارت یا لین دین ہوتو وہ جائز ہے؛ لیکن اگر یہی عمل باطل طریقوں سے کیاجائے تو اس کی ممانعت کی گئی۔ اب یہ قرآن کا عام اصول ہے؛ لیکن اس کا انطباق کیسے ہوگا اور کن کن صورتوں میں ہوگا؟ اس حوالے سے بے شمار حدیثوں میں تشریحی نکات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر حدیث میں اس بیع سے منع کیاگیا ہے، جس میں کوئی ”مال“ بیچنے والے کے قبضے میں نہ ہو؛ تاکہ فساد سے بچا جاسکے۔(۱۵) چنانچہ اگر کوئی شخص درخت پر لگے کچے پھل کی بیع کرتا ہے یا پانی میں موجود مچھلیوں کی بیع کرتا ہے تو چونکہ اس میں یہ ممکن ہے کہ جتنے میں بیع ہوئی مال اس سے زیادہ یا کم نکلے تو اس صورت میں جھگڑے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا اسلام نے ایسی بیع کی اجازت نہیں دی؛ حالانکہ ظاہراً یہ بھی ایک تجارت ہے۔

(۶)قرآن حکیم میں ارشاد ہے: ﴿وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ﴾(۱۶) یعنی دو بہنوں سے ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ہے؛ لیکن حدیث نے اس کی مزید وضاحت کردی کہ پھوپھی اور بھتیجی سے بھی ایک وقت میں نکاح جائز نہیں؛ اسی طرح بھانجی اور خالہ سے بھی بیک وقت نکاح نہیں ہوسکتا۔

ان تمام مثالوں سے یہ سمجھنا کہ سنت کا کام محض یہی ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی تشریح کردے تو یہ درست نہیں؛ بلکہ سنت کا کام براہِ راست احکام دینا بھی ہے اور اس پر عمل کرنا امت پر واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ہمیں براہِ راست سنت سے معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خیارِ شرط کی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ یعنی ایک شخص اگر کوئی چیز خریدتا ہے اور بیچنے والے سے یہ شرط رکھتا ہے کہ اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو تین دن تک میں اس بیع سے رجوع کرسکتا ہوں۔ اب یہ حکم براہِ راست قرآن کریم میں موجود نہیں؛ لیکن یہ اسلامی اصولِ بیع کا حصہ ہے اورفقہ حنفی کے مطابق اس پر عمل لازم ہے۔اسی طرح دیگر بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے سنت کا براہِ راست ماخذِ شریعت ہونا معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ اس سے کئی پیچیدگیوں سے چھٹکارا ملتا ہے اور کئی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔

$ $ $

حوالہ جات

(۱) امینی ،محمد تقی ، فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۵۷۔ (۲) سکروڈوی ،جمیل احمد ، قوت الاخیار شرح نورالانوار، ج ۱، ص ۴۳۔ (۳) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۵۸۔ (۴) ایضاً، ص ۶۱۔ (۵) ایضاً، ص ۶۲۔ (۶) شامی ،علامہ، نثر العرف فی بناء بعض الاحکام العرف، ص ۱۸۔ (۷) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۹۳۔۹۲۔ (۸) ملا جیون، احمد بن سعید ، نور الانوار بحوالہ فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۹۴۔ (۹) حنفی ،عبدالعزیز، کشف الاسرار، ص ۳۵۹۔ (۱۰) غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضراتِ فقہ، ص ۲۰۔ (۱۱) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۱۰۸۔ (۱۲) ایضاً، ص ۱۰۰۔۹۹۔ (۱۳) الاعراف، آیت ۱۵۷۔ (۱۴) النساء، آیت ۲۹۔ (۱۵) چنانچہ اس حوالہ سے بخاری شریف میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی آئی ہے کہ:”نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی قسم کا غلہ خریدے تو جب تک اس پر پوری طرح قبضہ نہ کرلے اسے نہ بیچے۔“ (۱۶) النساء، آیت ۲۳۔

$ $ $

 

-----------------------------------------





 

 

فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذ کا تحقیقی جائزہ



اجماع

(فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ)

فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ اجماع ہے۔ اجماع کا لغوی معنی ہے کسی بات پر متفق ہوجانا؛ چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاَجْمِعُوا أمْرَکُمْ شُرَکَاءَ کُمْ﴾ (۱۷)

”تم اپنی بات طے کرلو اور اپنے شریکوں کو اکٹھا کرلو۔“

فقہاء کی اصطلاح میں اجماع کسی معاملہ پر امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ کے اتفاق کرنے کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ہے:

وَہُو اِتِّفَاقُ أہْلِ الْحِلِّ وَالْعَقْدِ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ  صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی أمْرٍ مِنَ الأُمُوْرِ(۱۸)

”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اہلِ حل و عقد کے کسی معاملہ میں اتفاق کا نام اجماع ہے۔“

جمہور علماء نے اجماع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

”اِتِّفَاقُ الْمُجْتَہِدِیْنَ مِنْ أمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِہ فِیْ عَصْرٍ مِنَ الْعُصُوْرِ عَلٰی حُکْمٍ شَرْعِیٍ(۱۹)

”رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی بھی زمانہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر اتفاقِ رائے کرلینے کو اجماع کہتے ہیں۔“

علامہ علی بن محمد الآمدی(متوفی ۶۳۱ھ) فرماتے ہیں:

اِتَّفَقَ أَکْثَرُ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی أنَّ الاجْمَاعَ حُجَّةٌ شَرْعِیَّةٌ یَجِبُ الْعَمَلُ بِہ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ خِلاَفًا لِلشِّیْعَةِ وَالْخَوَارِجِ وَالنِّظَامِ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ․(۲۰)

”اکثر مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اجماع حجت شرعیہ ہے اور تمام مسلمانوں کا اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ ماسوائے شیعہ، خوارج اور معتزلہ میں سے نظام کے کہ وہ اس کو نہیں مانتے۔“

امام شافعی رحمة اللہ علیہ اجماع کو حجتِ شرعیہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

”حجتِ شرعیہ صرف اللہ کی کتاب، سنتِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ کا اجماع ہے۔ علم کے تین درجات ہیں کتاب، حدیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم اور اس مسئلہ میں ائمہ کا اجماع جس کے بارے میں کوئی نصِ شرعی موجود نہیں ہے۔“ (۲۱)

ڈاکٹر محمود احمد غازی (۱۹۵۰ء۔۲۰۱۰ء)نے اجماع کی جامع تعریف بیان کی ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:

”اجماع سے مراد یہ ہے کہ کسی نئے پیش آنے والے فقہی اور شرعی نوعیت کے معاملے پر امت کے فقہاء اور مجتہدین تفصیل کے ساتھ آزادانہ یعنی کسی حکومتی، سرکاری یا بیرونی اثر و رسوخ کے بغیر محض دلائل کی روشنی میں غور و فکر کریں اور قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں۔ پھر ان کے آپس کے تبادلہٴ خیال سے جب وہ متفقہ طور پر کسی ایک نتیجہ پر پہنچ جائیں تو وہ متفقہ نتیجہ اور فیصلہ اجماع کہلائے گا۔“ (۲۲)

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ حیات میں اجماع کا ثبوت نہیں ملتا؛ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ لوگوں میں موجود تھی اور کسی بھی مسئلہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلمسے ہی رجوع کیاجاتا تھا۔ جیسا کہ ڈاکٹر حمید اللہ( ۱۹۰۸ء۔۲۰۰۲ء)لکھتے ہیں:

”عہد نبوی میں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی؛ اس لیے کہ اگر کوئی سوال پیدا ہوتا تو لوگ فوراً رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے تھے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرمادیتے جو قطعی اور آخری ہوتا تھا۔ آپس میں مشورہ کرکے کسی پر متفق ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتاتھا۔“(۲۳)

لیکن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے محروم ہوجانے کے بعد عہدِ صحابہ میں اجماع کی بنیاد پڑی۔ جس طرح تمام فقہاء کے نزدیک اجماع شریعت میں حجت ہے اور شریعت کا بنیادی ماخذ ہے، اسی طرح صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع پر بھی سب کا اتفاق ہے اور تمام اس پر عمل کو لازم قرار دیتے ہیں اور اگر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال متعدد ہوں تو جس قول کو پسند کرتے اختیار کرلیتے ہیں؛ لیکن تابعین اور تبع تابعین کے اقوال میں اس اصول کے پابند نہیں تھے۔

صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سب سے پہلے اس ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ اس مقصد کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ خلافت میں کبار صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم ا جمعین کو باہر جانے سے روک دیاگیاتھا؛ تاکہ پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور جس پر یہ تمام متفق ہوجائیں اسے اجماعِ امت سمجھا جائے۔

چنانچہ عہدِ صحابہ میں اجماع کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے:

(۱) مثال کے طور پر صحابہ کرام نے فیصلہ کیا کہ اگر کوئی شخص زکوٰة کا منکر ہے تو اس کو اسی طرح سمجھا جائے گا، جیسے کوئی شخص نماز کا منکر ہو اور جو نماز کا منکر ہے وہ دائرہ اسلا م سے خارج ہے۔ لہٰذا زکوٰة کے منکر کو بھی دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ صحابہٴ کرام نے سیدنا صدیق اکبر کی سربراہی میں ان لوگوں کے خلاف جہاد کیا جنہوں نے زکوٰة کا انکار کیاتھا۔ شروع میں بعض صحابہ کو یہ سمجھنے میں تامل ہوا کہ نماز اور زکوٰة کو ایک سطح پر کیسے رکھا جائے اور کسی ایک جزوی حکم کو نہ ماننے کو پوری شریعت کے انکار کے برابر کیسے مانا جائے؛ لیکن سیدنا صدیق اکبر نے قسم کھا کر فرمایا کہ قسم خدا کی میں نماز اور زکوٰة کے درمیان کوئی فرق نہیں کروں گا اور جس نے یہ فرق کیا میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا، یہاں تک کہ میری جان چلی جائے۔ (۲۴)

(۲)اسی طرح حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام اور عراق کی مفتوحہ زمینوں کوفوج میں تقسیم کرنے کی بجائے وقف قرار دیا اور اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا (۲۵) اور اس کی سند یہ تھی کہ زمین ان کے اصل باشندوں کے پاس رکھی جائیں اور ان پر خراج عائد کردیاجائے؛ تاکہ مسلمانوں کو آمدنی ہو اور بیت المال مضبوط ہو جس کے نتیجے میں فوجیوں ، سرکاری ملازمین، ضرورتمندوں کے اخراجات کا بندوبست ہوسکے اور دیگر رفاہی کام بھی انجام دیے جاسکیں۔

(۳)واقعہ یمامہ میں قرّاء کی بڑی تعداد کی شہادت کے بعد اس اندیشہ کے پیشِ نظر کہ اگر قراء یونہی شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن ضائع نہ ہوجائے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قرآن کو مصحف کی صورت میں جمع کرنے پر اصرار کیا اور تمام صحابہٴ کرام نے اس رائے سے اتفاق کیا اور اس طرح صحابہٴ کرام کے اس اجماع کی صورت میں قرآنِ کریم کی تدوین عمل میں آئی۔(۲۶)

(۴)تیسری مرتبہ چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول پر تمام صحابہٴ کرام کا اجماع ہوا۔ (۲۷)

(۵)حضرت عمر نے ۲۰ /تراویح کے حوالے سے کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع اور باقاعدہ ان کی مشاورت سے اس کا حکم جاری فرمایا۔ (۲۸)یہ بھی صحابہٴ کرام کے اجماع کی ایک واضح مثال ہے۔

اجماع کا دین میں حجت ہونا تین امور پر مبنی ہے۔ گویا اجماع کی اساس ان تین امور پر قائم ہے۔

(۱) اجماع کی اساسِ اول یہ ہے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام سیاسی امور میں صحابہٴ کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ جب تمام لوگ ایک بات پر متفق ہوجاتے تو اس کو قانون کا حصہ بناتے اور اگر اختلاف رونما ہوتا تو اکثریت کا ساتھ دیتے۔

(۲)اجماع کی دوسری اساس یہ ہے کہ دور اجتہاد میں ہر امام کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان سے کوئی ایسا شاذ قول صادر نہ ہو جو ان کے یہاں فقہاء کے خلاف ہو؛تاکہ اس کے طرزِ فکر کو اجنبی نہ سمجھا جائے؛ چنانچہ تمام ائمہ اپنے علاقہ کے اجماع کی بڑی سختی سے پابندی کرتے تھے۔

(۳)اجماع کی تیسری بنیاد وہ دلائل ہیں جن سے حجیت اجماع ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول : ”انَّ أُمَّتِيْ لاَ تَجْتَمِعُ عَلَی الضَّلاَلَةِ“ (۲۹) یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی۔

اسی طرح ایک اثر میں آتا ہے: ”مَا رَاہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ“(۳۰) ”جس بات کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔“

اجماع کی حجیت کے حوالہ سے فقہاء نے اس کی درجہ بندی کی ہے کہ کونسا اجماع کس نوعیت کا ہوگا؛ چنانچہ اسے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔

(۱) سب سے اعلیٰ درجہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع کا ہے۔ جو حدیثِ متواتر اور دلیل قطعی کا درجہ رکھتا ہے۔

(۲)دوسرے نمبر پر تابعین کا اجماع ہے جو کسی غیر اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہو۔ یہ حدیث مشہور کا درجہ رکھتا ہے۔

(۳)تیسرے درجہ کا اجماع وہ ہے جو کسی اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہوا ہو یہ خبرِ واحد کی طرح ظنی ہے۔

اجماع کے اختیارات کی وسعت اور باقاعدہ اجماع منعقد ہوجانے کے بعد معاشرتی حالات و واقعات کے مطابق اس میں ترمیم و تنسیخ کے حوالے سے مولانا محمد تقی امینی رحمة اللہ علیہ درج ذیل نکات بیان فرماتے ہیں:

(۱) حالات اور تقاضوں کی مناسبت سے نئے قوانین وضع کرنا۔

(۲)پرانے اجماعی فیصلے جو مصلحت کے تابع تھے، ان میں موجودہ حالات و مصلحت کے پیشِ نظر مناسب ترمیم کرنا۔

(۳)وہ احکام جو بتدریج نازل ہوئے ہیں، معاشرتی حالات کے لحاظ سے انھیں مقدم و موٴخر کرنا۔

(۴)وہ احکام جن میں عرب کے مقامی حالات، رسم و رواج، خصائل و عادات مخلوط ہیں، ان کی روح اور پالیسی برقرار رکھتے ہوئے جدید حالات کے پیشِ نظر ان کے لیے نئے قالب تیار کرنا۔

(۵)وہ احکام جو وقتی تقاضہ اور مصلحت کے تحت ہیں، موجودہ تقاضے اور مصلحت کے تحت ان میں مناسب ترمیم کرنا۔

(۶)رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جن احکام میں مختلف الرائے ہیں، معقول دلیل کی بناء پر ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا۔

(۷)فقہاء کی مختلف رایوں میں معاملات و تقاضوں کی مناسبت سے ترجیحی صورت پیدا کرنا وغیرہ۔(۳۱)

جہاں تک اجماع کے شرعی حکم کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ اس کا فیصلہ نہایت مستند اور واجب العمل ہے، جیسا کہ صاحبِ توضیح کا یہ قول ہے کہ :

فَانِ اسْتَنْبَطَ الْمُجْتَہِدُوْنَ فِیْ عَصْرٍ حُکْمًا وَاتَّفَقُوْا عَلَیْہِ یَجِبُ عَلٰی أہْلِ ذٰلِکَ الْعَصْرِ قُبُوْلُہ فَاِتِّفَاقُہُمْ صَارَ بَیِّنَةً عَلٰی ذٰلِکَ الْحُکْمِ فَلاَ یَجُوْزُ بَعْدَ ذٰلِکَ مُخَالَفَتُہُمْ․(۳۲)

”جب مجتہدین نے کسی زمانہ میں کسی حکم کا استنباط اور اس پر اتفاق کیا تو اس زمانہ والوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے، اس کی مخالفت جائز نہیں؛ کیونکہ یہ اتفاق اس حکم پر بطور دلیل کے ہے۔“

عصرِ حاضر میں اجماع کی واضح مثال مسئلہٴ ختم نبوت ہے۔ جس پر تمام علماء و فقہاء کا اجماع ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء دورِ حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز پر بھی اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے امت کی درست سَمت پر رہنمائی کریں۔

 

قیاس

(فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ)

فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ قیاس ہے۔ قیاس کے لغوی معنی اندازہ کرنا، پیمائش کرنا، مطابق اور مساوی کرنا ہیں، چنانچہ ”قَاسَ الثَّوْبَ بِالذِّرَاعِ“ کے معنی ”قَدَّرَ أجْزَائَہ بِہ “ (کپڑے کی ذراع سے پیمائش کی) اسی طرح ”یُقَاسُ فُلاَنٌ بِفُلاَنٍ فِي الْعِلْمِ وَالنَّسَبِ“ کے معنی ”یُسَاوِیْہِ فِی الْعَلْمِ وَالنَّسَبِ“ (علم اور نسب میں وہ اس کے برابر ہے) ۔(۳۳)

قیاس کا لفظ دو چیزوں میں مساوات و برابری نیز دو چیزوں کے مابین موازنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ (۳۴)

اصطلاح ِ فقہ میں قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

الْحَاقُ أمْرٍ غَیْرِ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِہ الشَّرْعِیِّ بِأمْرٍ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِہ لِاِشْتِرَاکِہِمَا فِیْ عِلَّةِ الْحُکْمِ․(۳۵)

”حکم کی علت میں اشتراک کے سبب اس معاملہ کو جس کے شرعی حکم کے بارے میں نص وارد نہیں ہوئی، ایسے معاملہ کے ساتھ ملحق کرنا جس کے حکم کی بابت نص وارد ہوئی ہے (فقہ کہلاتی ہے)“۔

محمد بن صالح العثیمن  کے مطابق:

تَسْوِیَةُ فَرْعٍ بِأصْلٍ فِیْ حُکْمٍ لِعَلَّةٍ جَامِعَةٍ بَیْنَہُمَا (۳۶)

”فرع اور اصل میں حکم کی علت کی بنیاد پر برابری کرنا جو ان دونوں میں یکساں ہیں“۔

مولانا محمد تقی امینی فرماتے ہیں کہ علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے قیاس کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کی ہے:

فَالْقِیَاسُ الصَّحِیْحُ مِثْلُ أنْ تَکُوْنَ الْعِلَّةُ الَّتِيْ عُلِّقَ بِہَا الْحُکْمُ فِی الْأصْلِ مَوْجُوْدَةٌ فِی الْفَرْعِ مِنْ غَیْرِ مُعَارِضٍ فِی الْفَرْعِ یَمْنَعُ حُکْمَہَا․(۳۷)

 ”قیاسِ صحیح مثلاً یہ ہے کہ جس علت پر اصل میں حکم کا مدار ہے وہی علت فرع میں موجود ہو اور فرع میں کوئی رکاوٹ ایسی نہ ہو جو اس میں حکم جاری ہونے کو روک سکے“۔

ڈاکٹر محمود احمد غازی نے قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

”شریعت اور فقہاء کی اصطلاح میں قیاس سے مراد یہ ہے کہ اصل حکم میں پائے جانے والی علت کو دوسرے نئے حکم پر منطبق کرنا (قیاس کہلاتا ہے) ۔(۳۸)

جمہور علماء و فقہاء اسے حجتِ شرعی تسلیم کرتے ہیں؛ بلکہ ڈاکٹر محمود احمد غازی تو اسے فقہی ترتیب میں تیسرے درجے پر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ اس کی اجازت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی تھی؛ اس لیے اس کا درجہ اجماع سے زیادہ ہونا چاہیے۔ (۳۹)

محمد بن صالح العثیمن کے مطابق قیاس تمام علماء کے نزدیک دلیلِ شرعی ہے۔وہ لکھتے ہیں:

وَأمَّا جُمْہُوْرُ الأُمَّةِ فَقَالُوْا: انَّ الْقِیَاسَ دَلِیْلٌ شَرْعِيٌّ ثَابِتٌ فِی الْکِتَابِ وَفِی السُّنَّةِ وَ فِیْ أقْوَالِ الصَّحَابَةِ․(۴۰)

”جمہور امت کے بقول قیاس دلیلِ شرعی ہے، جو قرآنِ کریم، سنتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے اقوال سے ثابت ہے۔“

قیاس فقہ اسلامی کا انتہائی اہم ماخذ ہے۔ زمانہ چونکہ تغیر پذیر ہے اور ہر آنے والا دن نئے مسائل اور نئے چیلنجز کے ساتھ رونما ہورہا ہے تو اس صورت میں فقہ اسلامی کا دیگر تمام مذاہب میں یہ خصوصی امتیاز ہے کہ وہ ان جدید مسائل کے حوالے سے واضح رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔

اسلامی شریعت نے ایک ایسا خود کار نظام وضع کردیا کہ جس میں قانون اور نظام کے اساسی قواعد و اصول نیز دستور اور آئین کے اساسی تصورات سب کے لیے مشترک اور واجب التعمیل ہیں۔ تمام انسان یکساں طور پر ان اصولوں کے پابند ہیں۔ اس جامعیت اور تنوع کی وجہ اس کی دقَّتِ نظری اور آزادی رائے ہے جو ہر دور میں اس کی ترقی کے لیے ممدو معاون ثابت ہوتی آئی ہے۔

اگر ایک دور میں کسی مسئلہ پر قیاس سے کام لیتے ہوئے کوئی نتیجہ اخذ کیا گیاتھا اور آنے والے وقت نے اس کی کسی شق پر کوئی سُقم پایاتو اس دور کے فقہاء کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے قیاس سے کام لیتے ہوئے اس مسئلہ کا کوئی اور حل تجویز کریں جو قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہو۔ اس کی بکثرت مثالیں ہمیں فقہ اسلامی کی کتب میں ملتی ہیں۔ اس آزادی رائے نے فقہ اسلامی کی اہمیت میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ اور یہ سب قیاس سے استفادہ کی صورت ہی میں ممکن ہوسکا ہے۔قیاس کی اسی اہمیت و افادیت کے حوالے سے قرآنِ کریم، سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے عمل سے بہت کچھ رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔

قرآنِ کریم میں قیاس کی بنیاد کے حوالے سے درج ذیل آیاتِ مبارکہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(۱) ﴿لِیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّیْنِ﴾(۴۱)

 ”تاکہ دین میں فہم و بصیرت حاصل کرتے۔“

(۲)﴿فَاعْتَبِرُوْا یَأُوْلِی الأَبْصَارِ ﴾(۴۲)

”پس اے دیکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔“

یہاں”اِعْتَبَرَ“ کا مطلب ہے ”رَدَّ الشَّیْءَ الٰی نَظِیْرِہ “ کسی چیز کو اس کے مثل کی طرف لوٹانا۔

(۳)﴿وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ﴾(۴۳)

”اوروہ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔“

(۴)﴿وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ الَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ﴾(۴۴)

”ہم نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا تاکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے اس چیز کو بیان کردیں جو ان کی طرف بھیجی گئی ہے؛ تاکہ وہ خود غوروفکر کریں۔“

(۵)﴿وَلَوْ رَدُّوْہُ الیَ الرَّسُوْلِ وَالٰی أُوْلِی الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْہُمْ﴾(۴۵)

”اگر اس کو اللہ کے رسول اور اہل علم تک پہنچادیتے تو ان میں سے جو استنباط کرنے والے ہیں وہ سمجھ جاتے۔“

یہ اور اسی طرح کی دیگر بہت سی آیات ہیں جن میں قیاس اور فکر و شعور کی بنیاد پر سوچنے سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے۔

(۱) قیاس کی دلیل نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ملتی ہے؛چنانچہ جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا گورنر بناکر بھیج رہے تھے تو پوچھا:

کَیْفَ تَقْضِيْ؟ فَقَالَ أقْضِيْ بِمَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ قَالَ فَانْ لَمْ یَکُنْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَانْ لَمْ یَکُنْ فِیْ سُنَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَجْتَہِدُ رَأْیِیْ قَالَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم․(۴۶)

”جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا جیسا کتاب اللہ میں ہے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پھر سوال کیا کہ اگر کتاب اللہ میں صراحت کے ساتھ ذکر نہ ہوتو پھر کیسے فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا پھر سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کرو ں گا۔ پھر سوال کیا کہ اگر سنت میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر نہ ہوتو پھر کیسے فیصلہ کروگے؟ جواب دیا ایسی حالت میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے فیصلہ کروں گا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے فرستادہ رسول کے فرستادہ کو اس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔“

(۲)ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوموسیٰ اشعری دونوں کو یمن کے الگ الگ علاقوں کا قاضی و گورنر بناکر بھیجاگیاتھا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر دونوں نے جواب دیاتھا کہ :

اِذَا لَمْ نَجِدِ الْحُکْمَ فِی السُّنَّةِ نَقِیْسُ الأَمْرَ بِالأَمْرِ فَمَا أقْرَبَ الیَ الْحَقِّ عَمِلْنَا بِہ فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ اَصَبْتُمَا․(۴۷)

”جب ہم سنت میں حکم نہیں پائیں گے تو ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کریں گے اور جو فیصلہ حق سے زیادہ قریب ہوگا، اسی پر عمل کریں گے۔ اس پر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا تم دونوں کی رائے درست ہے۔“

(۳)اسی طرح بلی کے جھوٹے کے بارے میں دریافت کیاگیا تو فرمایا کہ یہ حرام نہیں ہے اور اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ لوگوں کے گھروں میں کثرت سے آتی جاتی ہے۔ (۴۸)

(۴)نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے منع فرمایاتھا؛ لیکن بعد میں اس کی اجازت دے دی۔ (۴۹)

(۵)حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کے رشتے کے بارے میں پوچھاگیا تو فرمایا وہ میری رضاعی بھتیجی ہے اور میرے لیے درست نہیں۔ (۵۰)چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سگی بھتیجی پر قیاس کیا یعنی حرمت کی علت بھی بتادی۔

(۶)قبیلہٴ خشعم کی ایک عورت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اورکہا میرے والد نے اسلام قبول کرلیا ہے اور وہ بہت زیادہ بوڑھے ہیں۔سواری پر بیٹھ نہیں سکتے اور حج ان پر فرض ہوگیا ہے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارے والد پر قرض ہوتاتو وہ تم ادا کرتی یا نہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، ادا کرتی، اس پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (۵۱)گویا بندے کے قرض پر اللہ کے قرض کو قیاس فرمایا۔

(۷)ایک بدوی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی کے ہاں ایک کالے رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے؛ لیکن مجھے اس میں شک ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا سرخ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا کہ ان میں گندمی رنگ کے بھی ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کہاں سے آگئے؟ اس نے جواب دیا کہ کوئی رگ ہوتی ہے، اس کا اثر آگیا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بچے کے ساتھ بھی یہی صورت ہوسکتی ہے۔ (۵۲)گویا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوانی وجود پر انسانی وجود کو قیاس کیا۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے قیاس صحیح کی اجازت دی تھی اور اس پر اجر کا اعلان فرمایاتھا؛ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے:

اذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أصَابَ فَلَہ أجْرَانِ وَاذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أخْطَأَ فَلَہ أجْرٌ․(۵۳)

”حاکم جب اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو ایک اجر ملتا ہے۔“

ایک اور جگہ یہ روایت الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یوں وارد ہوئی ہے:

اذَا قَضَی الْقَاضِیْ فَاجْتَہَدَ فَأصَابَ فَلَہ عَشَرَةُ اُجُوْرٍ وَاذَا اجْتَہَدَ فَأخْطَأَ کَانَ لَہ أجْرٌ أوْ أجْرَانِ․(۵۴)

”قاضی جب اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دس گنا اجر ملتا ہے اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے دواجر ہیں۔“

صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی قیاس سے بھرپور فائدہ اٹھایا؛ چنانچہ نئے پیش آنے والے واقعات میں اجتہاد کرتے ہوئے ایک حکم کو دوسرے پر قیاس کرتے تھے۔ حضرت عمر نے قاضی شریح کو خط لکھاتھا کہ جو واقعہ تمہیں پیش آئے اور اس کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہوتو اس پر خوب سوچو اور اس کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔ پھر ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کرو۔ معاملات کو مختلف انداز سے پہچانو۔ پھر جو تمہاری رائے میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہو اور حق کے قریب ہوتو اس کااعتبار کرو۔ (۵۵)

حضرت ابوبکر صدیق سے ”کلالہ“ (جس کے نہ والدین ہوں نہ اولاد) کی وراثت کے متعلق پوچھاگیاتو فرمایا:

أقُوْلُ فِیْہَا بِرَأیِیْ فَانْ یَکُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللّٰہِ وَانْ یَّکُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنَ الشَّیْطَانِ․(۵۶)

”میں اپنی رائے سے بات کہتا ہوں اگر وہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے سمجھو۔“      

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورت کے طلاق لینے کے اختیار کے متعلق فرمایا:

اَجْتَہِدُ فِیْہَا بِرَأیِیْ انْ اَصَبْتُ فَمِنَ اللّٰہِ وَانْ أخْطَأْتُ فمِنِّیْ وَمِنَ الشَّیْطَانِ․․․الخ(۵۷)

”میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں؛ اگر صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے، اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں۔“

قیاس میں صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بعض اوقات کسی ایک مسئلہ پر اختلاف بھی رہا ہے؛ چنانچہ اس حوالہ سے صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو قیاس کیا اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

(۱) دادا کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیق بھائیوں کو وراثت نہیں دلواتے تھے؛ لیکن حضرت عمر نے دادا کی موجودگی میں بھی بھائیوں کو وراثت دلوائی۔ حضرت ابوبکر نے دادا کو باپ تسلیم کیا ہے اور باپ کی موجودگی میں بہ نصِ قرآن بھائیوں کو وراثت نہیں ملتی۔ حضرت عمر نے اس کو باپ تسلیم نہیں کیا اور حضرت زید بن ثابت بھی ان کے ساتھ متفق الرائے ہیں۔ (۵۸)

(۲)جس حاملہ عورت کا شوہر مرجائے اس کی عدت حضرت عمر بن خطاب نے وضع حمل مقرر کی ہے؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ وضعِ حمل اور چار مہینے دس دن کی مدت میں جو زمانہ زیادہ طویل ہوگا وہی اس کی عدت کا زمانہ ہوگا۔ (۵۹)

(۳)ایک مطلقہ عورت جس نے اپنی عدت ہی میں نکاح کرلیاتھا حضرت عمر نے اس کے موجودہ شوہر کو چند کوڑوں کی سزا دے کر دونوں میں علیحدگی کرادی اور فرمایا کہ جو عورت عدت گزرنے سے پہلے نکاح کرلے اور اسی حالت میں اس سے مقاربت کرلی جاے تو اس شوہر پر وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے؛ لیکن حضرت علی کے نزدیک پہلے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد یہ شخص اس سے نکاح کرسکتا ہے۔ حضرت عمر کا یہ فیصلہ مصلحتِ عامہ کی بناء پرتھا؛ جب کہ حضرت علی کا فیصلہ اصولِ عامہ کی بناء پر تھا، حالات کے لحاظ سے روحِ شریعت میں دونوں کی گنجائش ہے۔(۶۰)

$$$

حوالہ جات

(۱۷) یونس، آیت ۷۱۔                                            (۱۸)                ا لبیضاوی ،ناصر الدین ابوالخیر عبداللہ بن عمر بن محمد، منہاج الاصول الی علم الاصول، ص ۲۴۔

(۱۹)  ابن امیر الحاج،التقریر والتجسیر،ج ۳،ص۸۰۔    (۲۰)               الآمدی ،علی بن محمد ، الاحکام فی اصول الاحکام، ص ۲۶۶۔               

(۲۱)  الجوزیہ، ابن قیم ،محمد بن ابی بکر ، اعلام الموقعین، ج ۱، ص ۳۰۔(۲۲)                       غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضراتِ فقہ، ص ۹۲۔

(۲۳)                        محمدحمیداللہ، ڈاکٹر،خطباتِ بہاولپور، ص ۷۵۔

(۲۴)                        سعیدالرحمن، ڈاکٹر،استحسان (بحیثیت ماخذ قانون) مقالہ پی ایچ ڈی، ص ۱۹۹۔

(۲۵)                        وہبة الزحیلی،ڈاکٹر،الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج۵،ص۵۳۵۔

(۲۶)                         القرطبی،ابو عبداللہ محمدبن احمد،الجامع لاحکام القرآن،ج۱،ص۵۰۔

(۲۷)                        وہبة الزحیلی،ڈاکٹر،الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج۶،ص۹۷۔                                         (۲۸)               ایضاً، ج ۲،ص۴۴۔

(۲۹) ابن ماجہ،محمد بن یزید ابو عبداللہ قزوینی،السنن لابن ماجہ،ج۳،۱۳۰۳۔

(۳۰)                        مالک بن انس،الموطاء،ج۳،ص۸۰۔                                         (۳۱)               امینی ،محمد تقی ، فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۱۲۱۔۱۲۰۔

(۳۲)                        تاج الشریعہ ،عبیداللہ بن مسعود، التوضیح والتلویح مع الحاشیة التوشیح، ص ۳۴۔

(۳۳)                        امینی ،محمد تقی ،اجتہاد، ص ۱۴۱۔۱۴۰

(۳۴)                        سعید الرحمن، ڈاکٹر، استحسان ( بحیثیت ماخذ قانون) مقالہ پی۔ایچ ۔ڈی، ص ۲۰۷۔

(۳۵)                        ابن قدامہ، ابو عبداللہ ،شمس الدین ،روضة الناظر وجنة المناظر، ج ۲، ص ۲۲۷۔

(۳۶)                        العثیمٰن ،محمد بن صالح ، شرح الاصول من علم الاصول، ص ۵۰۹۔  (۳۷)              امینی ،محمد تقی ،اجتہاد، ص ۱۴۱۔

(۳۸)                        غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضرات فقہ، ص ۹۶۔                                                      (۳۹)               ایضاً، ص ۵۹۔۶۹۔

(۴۰)                        العثیمٰن ،محمد بن صالح، شرح الاصول من علم الاصول، ص ۵۱۲۔  (۴۱)                التوبہ، آیت ۳۶۔

(۴۲)                        الحشر، آیت ۲۔                       (۴۳)              الجمعة، آیت ۲۔                       (۴۴)              النحل، آیت ۴۴۔                    (۴۵)              النساء، آیت ۸۳۔

(۴۶)                        الترمذی،محمد بن عیسیٰ،السنن لترمذی،ج۳،ص۶۱۶۔                  

(۴۷)                        الرازی،محمد بن عمرالحسین،المحصول فی علم الاصول،ج۵،ص۵۲۔

(۴۸)                        سلیمان بن اشعث،السنن ابو داوَد،ج۱،ص۱۹۔

(۴۹)                         البخاری، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح للبخاری، ج ۵، ص ۲۱۱۶۔

(۵۰)                        القشیری ،مسلم بن حجاج بن مسلم ، الجامع الصحیح للمسلم، ج ۴، ص ۱۶۴۔

(۵۱) احمد بن حنبل،المسند لامام احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۲۸۶۔

(۵۲)                        عبدالباقی ، محمدفواد، اللوٴلوٴ والمرجان، ج ۱، ص ۴۴۶۔

(۵۳)                        القشیری،مسلم بن حجاج بن مسلم، الجامع الصحیح للمسلم، ج ۵، ص ۱۳۳۔

(۵۴)                        البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح للبخاری، ج ۶، ص ۲۶۷۶۔

(۵۵)                        الہثیمی ،نورالدین علی بن ابی بکر،مجمع الزوائد، ج ۴، ص۳۶۲۔

(۵۶)                        الجوزیہ،ا بن قیم ،محمد بن ابی بکر ، اعلام الموقعین، ج ۱، ص۶۳۔

(۵۷)                        ملا جیون ،احمد بن سعید، نورالانوار، ص ۲۵۰۔        (۵۸)              ندوی ،عبدالسلام ، تاریخ فقہ اسلامی، ص ۱۵۵۔

(۵۹)                         ایضاً، ص ۱۵۲۔                                                                          (۶۰)               امینی ،محمد تقی ، اجتہاد، ص ۵۶۔

$ $ $




قرآن-و-سنّت کے بعد اجتہادی رائے:



مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا معلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
"عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ "۔
ترجمہ:
جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔
[سنن ابوداؤد:3592، جامع ترمذی:1327، مسند احمد:22007، مسند ابوداؤد الطیالسی:560، مصنف ابن أبي شيبة:22988، مسند عبد بن حميد:124، سنن الدارمي:170، بیھقی:20339، جامع بيان العلم وفضله:1593، شرح السنة للبغوی:10/116، الحجة في بيان المحجة:410]

خلاصة حكم المحدث:
كل ما سكت عنه فهو صالح [رسالته لأهل مكة]
حسن مشهور[إرشاد الفقيه - ابن كثير: 2/396] إسناده جيد [تفسير القرآن:1/13]
حسن الإسناد ومعناه صحيح [تلخيص العلل المتناهية - الذهبي:269]
إسناده حسن [مجموع فتاوى ابن باز: 6/ 195، 229 /24]

تشریح:
اجتہاد کے لغوی معنی ہیں:
کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔ (أبوحبيب، القاموس الفقهی : 71)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَأَمَّا السُّجُودُ، فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ
[مسلم:479 ابوداؤد:876 نسائی:1045]
 اور سجود میں دعا کرنے کی کوشش کرو۔

اجتہاد کے اصطلاحی معنی:
علامہ زبیدیؒ(م1205ھ) فرماتے ہیں
"الإجتهاد بذل الوسع في طلب الأمر والمراد به رد القضية من طريق القياس الى الكتاب و السنة"
ترجمہ : اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس(رائے) کے طریقے سے کتاب و سنّت کی طرف لوٹانا(یعنی اس کی کوشش کرنا).
[تاج العروس : 2/330]

بذل الطائفة من الفقيه في تحصيل حكم شرعي ظني
کسی فقیہ کا کسی حکمِ شرعی ظنی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لئے اپنی (پوری) طاقت خرچ کرنا.
[المسلم الثبوت : 2/362]


لفظ اجتہاد کی اصل قرآن مجید میں:
{وَالَّذِينَ جَاهَدُوا} (اور وہ لوگ جنہوں نے کوشش کی) ۔ یہاں المجاہدۃ کو مطلقاً ذکر کیا گیا ہے۔ اس کو مفعول سے مقید نہیں کیا گیا۔ تاکہ ہر قسم کا مجاہدہ اس میں داخل ہوجائے خواہ وہ مجاہدہ نفس سے ہو یا مجاہدہ شیطان ہو یا مجاہدہ دشمنانِ دین سے ہو۔
[تفسیر المدارک،لامام النسفی(710ھ): 2/687، سورۃ العنکبوت:آیۃ69]

اسی طرح مجاہدہ حصولِ علم وتحقیقِ مسائل ہو
[المبسوط للسَّرَخْسِيّ(483هـ):16/76، تبصرة الحكام-ابن فرحون(799ھ) :1/14، معين الحكام - الطرابلسي(844ھ) :صفحہ8]

یا مجاہدہ تبلیغِ دین میں زبان وقلم سے ہو، ہاتھ وتلوار سے ہو یا دل سے اظہارِ برائی کیلئے ان کی اب برائیوں میں شرکت سے اجتناب وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔

نوٹ:
{سُبُلَنَا} یعنی اپنے راستے۔ سُبُلَ(راستے) جمع ہے سبیل(راستہ) کی۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف لے جانے والے کئی راستے ہیں، جو ملاتے ہیں منزل(رضائے الٰہی) تک پہنچانے والی شاہراہ(بڑے مین راستہ)یعنی صراطِ مستقیم سے(یعنی طریقتِ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین سے[سورۃ النساء:69])۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھئے:
بِمَعْرِفَةِ أَحْكَامِهِ وَشَرْعِهِ فَيَكُونُ بَحْثُهُمْ عَنْهُ أَتَمَّ وَاجْتِهَادُهُمْ فِيهِ أَكْمَلَ
[قواعد الأحكام في مصالح الأنام - ابن عبد السلام(660هـ) :1/28]

وبَلَغَ جِدَّه في الاجتهاد لدَرْك المَطْلب

[الوَاضِح في أصُولِ الفِقه - ابن عقيل(513ھ) :1/5]



حدیثِ اجتہاد کے فقہی نکتے:
1) قرآن میں سب مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں۔
2) سنّت میں بھی "نئے پیش آمدہ" مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں۔
3) اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس نۓ مسلے/واقعہ کا واضح جواب قرآن-و-سنّت میں نہ ہو۔
4) اجتہاد کا کرنے کا "اہل" ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ کوئی معتبر علمی شخصیت اپنے کسی صحبت یافتہ شاگرد کی دینی علم و سمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد اجازت دے. چناچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو حکم دینے کے لائق ہو اور جاہل کا حکم دینا درست نہیں، اگر وہ حکم کرے گا تو گناہگار ہوگا۔
5) شرعی فیصلہ وفتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائےگا (نہ کے سنّت یا قیاس سے). قرآن کے بعد سنّت سے پھر قیاس سے۔
6) جب یمن کے عربی عوام کو بلا واسطہ معلم (تعلیم دینے والے) اور قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے بذاتِ خود قرآن و حدیث پڑھ سمجھکر عمل کرنے اور ہر ایک کا معلم اور قاضی بننے کی بجاۓ وہاں کے لئے ایک قاضی بناکر بھیجنے کی ضرورت تھی ، تو کسی انبیاء کے علم کے وارث عالم کی امامت (راہبری) کی احتیاج تو مزید بڑھ جاتی ہے، خصوصا ان عجمی عوام کیلئے جو عربی قرآن کے صحیح ترجمہ و تفسیر اور سنّتِ قائمہ (غیر منسوخہ) معلوم کرنے کو عربی احادیث میں ثابت مختلف احکام و سنّتوں میں ناسخ و منسوخ آیات اور افضل و غیر افضل احکام نہیں جانتے، اور بعد کے جھوٹے لوگوں کی ملاوٹوں سے صحیح و ثابت اور ضعیف و بناوٹی روایات کے پرکھنے کے اصول الحدیث والروایۃ اور اصولِ الجرح والتعدیل ، جن کا ذکر قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں، بلکہ یہ ائمۂِ مسلمین کی دینی فقہ کے اجتہاد سے ماخوذ ہیں۔
7) اجتہاد انفرادی ہوتا ہے، لہٰذا قوتِ قبولیت میں اجتماعی اجتہاد یعنی اجماع کے مقابلے میں مردود ہوتا ہے۔



اعتراض : یہ حدیث ضعیف ہے .


ابن حزمؒ (م452ھ) نے اس حدیث کے بارے میں بہت کچھ کہہ ڈالا ہے، مثلاً یہ حدیث حدِ احتجاج سے گِری ہوئی ہے، مجہول(نامعلوم) اور گمنام رُواۃ Unknown Transmitters کے واسطہ سے منقول ہے؛ بلکہ قرائنِ خارجیہ External Evidence اس کے موضوع Propagandiatic ہونے پر دال ہیں؛ لیکن ابن حزمؒ کے ان ہفوات کا امام ابن القیمؒ الجوزیہ(م751هـ) کی زبانی بس ایک ہی جواب ہے کہ اس حدیث کا دم بھرنے والے کوئی اور نہیں امیرالمؤمنین فی الحدیث اور تبع تابعی حضرت شعبۃ بن الحجاجؒ (م160ھ) ہیں، جن کے بارے میں محدثین کا یہ معروف تبصرہ ہے کہ جس روایت کی سند(سلسلہ) "شعبہ" سے ہوکر گذرتی ہو تو اس حدیث کا صحیح ہونا ثابت بلادلیل ہے، استدلالی جواب یہ ہے کہ اصحابِ معاذ Followers of Muaadh کی جہالت (گمنامی) صحتِ حدیث میں قادح Abusive نہیں کہ حضرت معاذؓ کے اصحاب followers اور ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے کوئی جھوٹے اور تہمت زدہ لوگ نہ تھے، اس لیے راوی حدیث حضرت حارث بن عمرو کا رجالِ سند Transmitters of chain کے ناموں کی تصریح Clearification نہ کرنا بجائے خود حدیث کی شہرت reputation کی دلیل ہے کہ یہ روایت کوئی ایک دو افراد سے نہیں کہ ان کے ناموں کو گِنایا جائے؛ پھر امام ابوبکرخطیبؒ (م463ھ) کے مطابق ایک سند میں راوی حدیث کی صراحت عبدالرحمن بن غنم کے نام سے بھی مذکور ہوئی ہے اس لیے جہالت(گمنامی) کا حکم لگانا صحیح نہیں (اعلام الموقعین:۱/۱۹۴) جہاں تک حدیثِ مذکور کی موضوع Propagandiatic ہونے پر پر پیش کردہ ابن حزم کے قرائن خارجیہ External Evidence کا سوال ہے تو نہ وہ فی نفسہ(بذاتِ خود) اس قابل ہیں کہ ان کی طرف توجہ ہی نہ کی جائے اور نہ ہی صحتِ سند کے ساتھ روایت کے ثبوت نے ان کی جوابدہی کی کوئی گنجائش چھوڑی ہے، تفصیل جسے مقصود ہو وہ (مقدمہ اعلاء السنن:۲/۱۵۷) کی طرف مراجعت کرے۔

اس حدیث پر اعتراض علامہ زرقانی(م1122ھ) نے کیا اور وجہ اعتراض یہ ہے کہ اس کی سند میں اصحاب معاذ مجہول [یعنی غیر معروف] ہیں اور انہی کی تقلید میں کچھ علماء نے اس کو ضعیف سند مانا۔ لیکن ان علماء کے اعتراض کا جواب علامہ ابن تیمیہؒ کے شاگرد رشید جناب محترم ابن القیمؒ (م751هـ) نے اعلام الموقعین جلد 1 صفحہ 175 اور 176 پر دے دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اصحاب معاذ میں سے جن سے یہ حدیث مروی ہے ان میں سے کوئی بھی مہتم کذاب اور مجروح نہیں ہے اور انہوں نے تاریخ خطیب سے اسی حدیث کا دوسرا طریق عبادۃ بن نسی عن عبدالرحمن بن غنم عن معاذ بھی ذکر کیا۔ اور لکھا هذا اسناد متصل ورجاله معروفون بالثقه اور ساتھ میں کہا یہ حدیث امت میں تلقی بالقبول کا درجہ رکھتی ہے اسی لئے صحیح ہے۔

اس کے علاوہ اس حدیث کے دوسری راوی حارث بن عمرو پر مجہول ہونے کا الزام ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے اس کو ضعیف قرار دیا لیکن شعبۃؒ بن حجاج نے فرمایا کہ” یہ مجہول نہیں ہیں بلکہ یہ مغیرہ بن شعبہ کے بھتیجے ہیں اور کبار تابعین میں سے ہیں“ ان سے اصحاب معاذ نے روایت کی ہے اور اصحاب معاذ میں سے کوئی بھی مجہول نہیں [جیسا کہ ابن القیمؒ کا بھی دعوی ہے] کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کوئی خبر ایک جماعت سے اس میں موجود اشخاص کے ناموں کے بغیر پہنچے لہذا اس سے اس جماعت کے لوگوں کا مجہول ہونا لازم نہیں آتا اور اصحابِ معاذ کا علم، دین اور سچ بولنے کی شہرت کسی سے مخفی نہیں۔ اگر فریق ثانی کے نزدیک کسی جماعت سے یا اس کے فرد سے حدیث اس شخص کا نام بیان کئے بغیر ضعیف ہوجاتی ہے اور وہ شخص مجہول ہوجاتا ہے تو پھر ان حدیثوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟


۱۔ جو کوئی جنازہ دیکھے اور اس کی نماز ادا کرے تو اسے ایک قیراط اجر ملتا ہے [مسلم 52 اور 945] اس کی سند یہ ہے عن ابن شھاب حدثنی رجال عن ابی ہریرہ، یہاں رجال کا نام نہیں بتایا تو کیا یہ مجہول نہیں ہوگا؟ اور کیا یہ حدیث ضعیف نہیں ہوگی؟


دوسری طرف اس حدیث کی سند میں کلام کرنے والے علماء کی تعداد کم اور اس حدیث کو صحیح کہنے والے علماء کی تعداد زیادہ ہے۔ اس حدیث کو مندرجہ ذیل علماء نے صحیح کہا:

۱۔ علامہ بزدویؒ(م482ھ) نے اپنے [اصول] میں اس حدیث کو صحیح کہا۔

۲۔ علامہ جوینیؒ(م478ھ) نے اپنی کتاب [البرھان] میں اس کو صحیح کہا۔

۳۔ ابوبکر بن عربیؒ(م485ھ) نے اپنی ترمذی کی شرح [عارضۃ الاحوذی] میں اس کو صحیح کہا۔

۴۔ خطیب بغدادیؒ(م463ھ) نے [الفقیہ المتفقہ:1/397، 1/471] میں اس کو صحیح کہا۔

۵۔ ابن تیمیہؒ(م728ھ) نے [مجموع الفتاوی: جلد 13 صفحہ 364] پر اس کو صحیح کہا۔

۶۔ ابن کثیرؒ(م774ھ) نے اپنی [تفسیر القرآن:1/13] کے مقدمے میں اس کو صحیح کہا جو آپ مولوی جونا گڑھی کے کئے ہوئے اردو ترجمے میں بھی ملاحظہ کرسکتے ہو۔


۷۔ ابن القیمؒ (م751هـ) نے بھی اس کو صحیح کہا جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔

۸۔ علامہ شوکانی (م1255ھ) غیر مقلدؒ نے بھی اس کو [فتح القدیر:9/4485] میں نقل کیا۔


۹۔ حافظ ابن حجرعسقلانی شافعیؒ(م852ھ) نے [تلخیص الحبیر: جلد 4 صفحہ 182] پر نقل کیا ۔ اور ابی عباس بن قاص رح فقیہ شافعی کے حوالے سے اسکی تصحیح کی۔





حدیثِ اجتہاد کی شاہدی متفقہ حدیث سے:
اجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے نئے مسائل میں امت کی "رہنمائی" کے لیے اجتہاد و استنباط کا عمل ناگزیر تھا، اس کے بغیر دین کو دائمی شکل حاصل نہیں ہو سکتی تھی، بریں بنا ہر دور میں زمانے اور حالات کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اجتہاد کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے، اور خود رسول الله ﷺ نے امت کو اجتہاد کی "ترغیب" دی ہے اور مجتہدین کو ہر صورت سے اجر و ثواب کی بشارت سنائی ہے، چنانچہ سیدنا حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
«إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»۔
ترجمہ:
جب حاکم اجتہاد کرکے صحیح فیصلہ کرے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے اور اگر اجتہاد کے بعد غلط فیصلہ ہو جائے تو ایک اجر ہے۔
[صحیح بخاری:7352، صحیح مسلم:1716، سنن ابوداؤد:3574، سنن ابن ماجہ:2314، السنن الكبرىٰ النَّسائي:5887، مسند أحمد:17816، الأموال لابن زنجويه:12، معجم ابن الأعرابي:2250، صحيح ابن حبان:5061، سنن الدارقطني:4478، الإبانة الكبرى لابن بطة:696، السنن الكبرى للبيهقي:20366، جامع بيان العلم وفضله:1662، الفقيه و المتفقه:1/475]



صحیح مسلم کے مشہور شارح امام نوویؒ(م676ھ) اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
قَالَ الْعُلَمَاءُ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ فِي حَاكِمٍ عَالِمٍ أَهْلٍ لِلْحُكْمِ فَإِنْ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ أَجْرٌ بِاجْتِهَادِهِ وَأَجْرٌ بِإِصَابَتِهِ وَإِنْ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ بِاجْتِهَادِهِ وَفِي الْحَدِيثِ مَحْذُوفٌ تَقْدِيرُهُ إِذَا أَرَادَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ قَالُوا فَأَمَّا مَنْ لَيْسَ بِأَهْلٍ لِلْحُكْمِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ الْحُكْمُ فَإِنْ حَكَمَ فَلَا أَجْرَ لَهُ بَلْ هُوَ آثِمٌ وَلَا يَنْفُذُ حُكْمُهُ سَوَاءٌ وَافَقَ الْحَقَّ أم لا لأن إصابته اتفاقه لَيْسَتْ صَادِرَةً عَنْ أَصْلٍ شَرْعِيٍّ فَهُوَ عَاصٍ فِي جَمِيعِ أَحْكَامِهِ سَوَاءٌ وَافَقَ الصَّوَابَ أَمْ لَا وَهِيَ مَرْدُودَةٌ كُلُّهَا وَلَا يُعْذَرُ فِي شئ مِنْ ذَلِكَ وَقَدْ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ فِي السُّنَنِ الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ قَاضٍ فِي الْجَنَّةِ وَاثْنَانِ فِي النَّارِ قَاضٍ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ وَقَاضٍ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِخِلَافِهِ فَهُوَ فِي النَّارِ وَقَاضٍ قَضَى عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ۔
ترجمہ:
علماء کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ مذکورہ بالا حدیث اہلِ اجتہاد کے بارے میں ہے، بس وہ اجتہاد کرکے درست فیصلہ کرے تو دو اجر، ایک اجتہاد کا اور دوسرا درستگی کا۔ اور اگر غلطی کرے تو بھی اجتہاد پر ایک اجر ملتا ہے، لیکن جو اہل نہ ہو اور پھر اجتہاد کرے تو وہ گنہگار ہے اور اس سے کوئی اجر نہیں ملے گا خواہ درست فیصلہ ہی کیوں نہ دے اور اس کا فیصلہ مردود ہے۔
[شرح مسلم للنووی:12/14]





وقال إمام الحرمين: الذى ذهب إليه أهل التحقيق أن منكرى القياس لا يعدون من علماء الأمة وحملة الشريعة؛ لأنهم معاندون مباهتون فيما ثبت استفاضة وتواترًا، ولأن معظم الشريعة صادرة عن الاجتهاد.
ترجمہ:
امام الحرمین فرماتے ہیں کہ محققین کہتے ہیں کہ قیاس کے منکرین علماءِ امت نہیں اور حاملینِ شریعت نہیں کیونکہ وہ ایسی چیزوں کے منکر ہیں جو شہرت و تواتر سے ثابت ہے، کیونکہ شریعت کا بڑا حصہ اجتہاد سے ثابت ہے۔

[تھذیب الأسماء للنووی:1/183]



تنبیہ:
لفظ إِذَا یعنی جب یا جس وقت سے معلوم ہوا کہ (1)اجتہاد کی ’’ضرورت‘‘ کے وقت ہی اجتہاد کرنا جائز ہوگا اور (2) حکم دینے والا(اجتہاد کے قابل اور اجازت یافتہ حکم دینے والا ’’فقیہ‘‘ ہو، نہ کہ عام عالم یا عوام میں سے کوئی)ہو اور (3) اسے اس مسئلہ کا حکم قرآن، سنت اور اجماع سے نہ مل رہا ہو کہ اجتہاد کرنے کی ضرورت پڑجائے اور (4) جن صحابہ اور اماموں کا اختلاف ہوا تو وہ کسی نص STATEMENT یا اجماع کے خلاف نہ تھا، بلکہ اجتہادی تھا، لہٰذا وہ غلطی پر بھی مأجُور مِن اللّٰه یعنی الله کی طرف سے اجر دئے ہوئے ہیں۔



اختلافِ مجتہدین کی قرآنی مثال:

اور داؤد اور سلیمان (کو بھی ہم نے حکمت اور علم عطا کیا تھا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے جھگڑے کا فیصلہ کر رہے تھے، کیونکہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت اس کھیت میں جا گھسی تھیں۔ اور ان لوگوں کے بارے میں جو فیصلہ ہوا اسے ہم خود دیکھ رہے تھے۔
چنانچہ اس فیصلے کی ’’سمجھ‘‘ ہم نے سلیمان کو دے دی، اور (ویسے) ہم نے دونوں ہی کو حکمت اور علم عطا کیا تھا۔ اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو تابع دار بنادیا تھا کہ وہ پرندوں کو ساتھ لے کر تسبیح کریں۔ اور یہ سارے کام کرنے والے ہم تھے۔ 
[سورۃ الانبیاء:78+79]
تشریح:
واقعہ یہ ہوا تھا کہ ایک شخص کی بکریوں نے رات کے وقت دوسرے کے کھیت میں گھس کر ساری فصل تباہ کردی تھی۔ کھیت والا مقدمہ لے کر حضرت داؤدؑ کے پاس آیا۔ حضرت داؤدؑ نے فیصلہ یہ فرمایا کہ بکریوں کے مالک کا فرض تھا کہ وہ رات کے وقت بکریوں کو باندھ کر رکھتا، اور چونکہ اس کی غلطی سے کھیت والے کا نقصان ہوا اس لیے بکری والا اپنی اتنی بکریاں کھیت والے کو دے جو قیمت میں تباہ ہونے والی فصل کے برابر ہوں۔ یہ فیصلہ عین شریعت کے مطابق تھا، لیکن جب یہ لوگ باہر نکلنے لگے تو دروازے پر حضرت سلیمانؑ نے ان سے پوچھا کہ میرے ’’والد‘‘ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ انہوں نے بتادیا تو حضرت سلیمانؑ نے فرمایا کہ میرے ذہن میں ایک اور صورت آرہی ہے جس میں دونوں کا فائدہ ہے۔ حضرت داؤدؑ نے ان کی یہ بات سن لی تو انہیں بلا کر پوچھا کہ وہ کیا صورت ہے؟ حضرت سلیمانؑ نے فرمایا کہ بکری والا کچھ عرصے کے لیے اپنی بکریاں کھیت والے کو دیدے جن کے دودھ وغیرہ سے کھیت والا فائدہ اٹھاتا رہے اور کھیت والا اپنا کھیت بکری والے کے حوالے کردے کہ وہ اس میں کھیتی اگائے، اور جب فصل اتنی ہی ہوجائے جتنی بکریوں کے نقصان پہنچانے سے پہلے تھی تو اس وقت بکریوں والا کھیت والے کو کھیت واپس کردے، اور کھیت والا اسے بکریاں واپس کردے۔ یہ ایک مصالحت کی صورت تھی جس میں دونوں کا فائدہ تھا، اس لیے حضرت داؤدؑ نے اسے پسند فرمایا، اور دونوں فریق بھی اس پر راضی ہوگئے۔ 



چونکہ حضرت داؤدؑ کا فیصلہ اصل قانون کے مطابق تھا۔ اور حضرت سلیمانؑ کی تجویز باہمی رضامندی سے ایک صلح کی صورت تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ ہم نے علم اور حکمت دونوں کو عطا کی تھی، لیکن مصالحت کی جو صورت حضرت سلیمانؑ نے تجویز کی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی سمجھ انہیں ہم نے عطا فرمائی تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقدمے کے دوران قانونی فیصلہ حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ فریقین آپس کی رضامندی سے مصالحت کی کوشش کرلیا کریں۔




حدیثِ رائے کی شاہدی صحیح حدیث سے:
رسول اللہ ؑ نے فرمایا:
"إِنما أقضِی بَیْنَکُمْ بِرَأْیِی فِیْمَا لَمْ یُنْزَلْ عَلَیَّ فِیہِ".
جس امر(بات) کے بارے میں کوئی وحی نازل نہیں ہوتی ہے تو میں اپنی رائے سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا کرتا ہوں۔
[ابوداؤد:3575، ابويعلى:6897]




******************************


سوال سوم:
کیا قرآن و حدیث میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید کرو؟
الجواب قران پاک میں قرآن کی تلاوت کا حکم موجود ہے مگر ان دس قاریوں کا نام مذکور نہیں جن کر قراءتوں پر آج ساری دنیا تلاوت قرآن کر رہی ہے اور نہ یہ حکم ہے کہ ان دس قاریوں میں سے کسی ایک قاری کی قراءة پر قرآن پڑھنا ضروری ہے مگر ہمارے ملک پاک وہند میں سب مسلمان قاری عاصم کوفی ؒ کی قرآة اور قاری حفص کوفی ؒ کی روایت پر قرآن پڑھتے ہیں۔ آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ ساری زندگی ایک قرات پر قرآن پڑھنا کفر ہے یا شرک یا حرام یا جائز۔
اسی طرح کتاب وسنت سے سنت کا واجب العمل ہونا ثابت ہے مگر نام لے کر بخاری ،مسلم، نسائی، ابودادو، ترمذی، ابن ماجہ کو صحاح ستہ نہیں کہا گیا۔ نہ بخاری و مسلم کو صحیحین کہا گیا۔ نہ بخاری کو اصح الکتاب بعد کتاب اﷲ کہا گیا جس طرح ان دس قاریوں کا قاری ہونا اجماع امت سے ثابت ہے، اسی طرح ان چاروں اماموں کا مجتہد ہونا اجماع امت سے ثابت ہے اور مجتہد کی تقلید کا حکم کتاب وسنت سے ثابت ہے۔
نوٹ: سائل نے یہ سوال اصل میں شیعہ سے سرقہ کیا ہے کیونکہ کوئی اہل سنت یہ سوال نہیں کرتا، شیعہ کے ان سوالات کا ذکر ابن تیمیہ ؒ نے منہاج السنہ میں کیا ہے اور بعض کا ذکر شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی ؒ نے تحفہ اثنا عشریہ میں کیاہے۔ اس ملک میں جب انگریز آیا اور اس نے لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی کو اپنایا تو یہاں غیر مقلدین کا فرقہ پیدا ہوا جس کا مشن یہ تھا کہ انگریز کے خلاف جہاد حرام اور مسلمانوں کی مساجد میں فساد فرض۔ یہاں تک کہ سب مسلمان مکہ اور مدینہ کو مرکز اسلام مانتے تھے۔ ان مراکز اسلام سے جب اس فرقہ کے بارے میں فتوی لیا گیا تو انہوں نے بالاتفاق ان کوگمراہ قراردیا۔(دیکھو تنبیہ الغافلین) ان لوگوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے مایوس ہو کر یمن کے زیدی شیعوں کی شاگردی اختیار کی لی اور قاضی شوکانی، امیر یمانی کے افکار کو اپنالیا۔ وہاں سے ہی یہ سوالات درآمد کیے گیے اوراہل اسلام کے دل میں وسوسے ڈالے گئے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔آج تک اسی بدعتی فرقہ کہ یہ جرات نہیں ہوئی کہ ان سوالات کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مفتی صاحبان کے سامنے پیش کر کے فتوی حاصل کریں کیونکہ ان کو کامل یقین ہے کہ وہاں سے سوالات کا جواب ہمارے خلاف آئے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ شیعہ کو ایسا سوال کیوں کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ شیعہ اپنے بارہ اماموں کو منصوص من اﷲ مانتے ہیں اس لیے اہل سنت و الجماعت نے ان باره کے ناموں کی نص پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ شیعہ اپنے ائمہ کے بارے میں نص پیش نہ کر سکے تو لا جواب ہو کر اہل سنت و الجماعت سے مطالبہ کر دیا کہ تم چاروں اماموں کے نام نص پیش کرو حالانکہ اہل سنت الجماعت ائمہ اربعہ کو منصوص من اﷲ مانتے ہی نہیں تو نص کا مطالبہ ہی غلط ہے ۔ ہاں ہم اہل سنت و الجماعت باجماع امت ان کا مجتہد ہونا مانتے ہیں۔
سوال چہارم:
چاروں اماموں سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں مثلاً صحابہ کرام ؓ سے لے کر امام ابو حنیفہؒ تک يہ لوگ کس امام کی تقلید کرتے تھے۔ یا اس وقت تقلید واجب نہ تھی؟
الجواب: یہ سوال بھی کسی اہل سنت والجماعت محدث یا فقیہ نے پیش نہیں کیا بلکہ یہ سوال بھی شعیہ کی طرف سے اٹھا تھا۔ صحابہ کرام ؓ کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ شاہ ولی اﷲ ؒ فرماتے ہیں۔ “صحابہ کے دو گروہ تھے۔ مجتہد اور مقلد” (قرة العینین) یہ سب صحابہ ؓ عربی داں تھے لیکن بقول ابن القیم ان میں اصحاب فتوی صرف 149 تھے۔جن میں سے سات مکثرین میں ہیں۔ یعنی انہوں نے بہت زیادہ فتوے دئیے۔20 صحابہ متوسطین میں ہیں۔ جنہوں نے کئی ایک فتوے دیے۔ اور 122 مقلین میں ہیں جنہوں نے بہت کم فتوے دئیے۔ ان مفتی صحابہ کرام ؓ کے ہزاروں فتاوی مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جن میں مفتی صاحبان نے صرف مسئلہ بتایا، ساتھ بطور دلیل کوئی آیت یا حدیث نہیں سنائی اور باقی صحابہؓ نے بلا مطالبہ دلیل ان اجتہادی فتاوی پر عمل کیا اسی کا نام تقلید ہے۔ ان مفتی صحابہؓ کے بارے میں شاہ ولی اﷲ ؓ فرماتے ہیں:۔
ثم انہم تفرقوا فی البلاد صار کل واحد مقتدی ناحیة منالنواحی
کہ صحابہ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقہ میں ایک ہی صحابی کی تقلید ہوتی تھی۔ ( الانصاف ص ۳)
مثلاً مکہ میں حضرت ابن عباس کی، مدینہ میں حضرت زید بن ثابت، کوفہ میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ، یمن میں حضرت معاذ اور بصرہ میں حضرت انس کی تقلید ہوتی تھی۔ پھر ان کے بعد تابعین کا دور آیا تو شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی فرماتے ہیں:۔
فعند ذالک صار لکل عالم من التابعین مدہب علی حیالہ فانتصب فی کل بلد امام
یعنی ہرتابعی عالم کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک ایک امام ہوگیا۔ لوگ اس کی تقلیدکرتے۔(الانصاف ص ۶)
صدر الائمہ مکی فرماتے ہیں کہ حضرت عطاءخلیفہ ہشام بن عبد الملک کے ہاں تشریف لے گئے تو خلیفہ نے پوچھا کہ آپ شہروں کے علماءکو جانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں تو خلیفہ نے پوچھا کہ آپ شہروں کے علماءکو جکانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں تو خلیفہ نے پوچھا اہل مدینہ کے فقیہ کون ہیں؟ فرمایا نافع، مکہ میں عطا،یمن میں یحییٰ بن کثیر، شام میں مکحول، عراق میں میموں بن مہران، خراسان میں ضحاک، بصرہ میں حسن بصری، کوفہ میں ابراہیم نخعی،(مناقب موفق ص ۷) یعنی ہر علاقہ میں ایک ہی فقیہ کے فقہی فتاوی پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ یہ واقعہ امام حاکم نے بھی معرفت علوم حدیث میں لکھا ہے۔ اس لیے امام غرالی ؒ فرماتے ہیں: ”تقلید پر سب صحابہ کا اجماع ہے کیونکہ صحابہ میں مفتی فتوی دیتاتھا اور ہر آدمی کو مجتہد بننے کےلئے نہیں کہتا تھا اور یہی تقلید ہے اور یہ عہد صحابہؓ میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے“۔ ( المستصفی ج 2 ص385)
علامہ آمدی فرماتے ہیں صحابہ اور تابعین کے زمانے میں مجتہدین فتوی دیتے تھے مگر ساتھ دلیل بیان نہیں کرتے تھے اور نہ ہی لوگ دلیل کا مطالبہ کرتے تھے اور اس طرز عمل پر کسی نے انکار نہیں کیا، بس یہی اجماع ہے کہ عامی مجتہد کی تقلید کرے۔ شاہ ولی اﷲ ؒ شیخ عزالدین بن سلام ؒ سے نقل کرتے ہیں۔
انا الناس لم یزالوا عن زمن الصحابة ؓ الی ان ظہرت المذاہب الا ربعة یقلدون من اتفق من العلماءمن غیر نکیر میں ایع یعتبر انکارہ، ولو کان ذالک باطلا لا نکروہ (عقد الجید ص 36)
اور خود فرماتے ہیں:۔
فہذا کیف ینکرہ احد مع ان الاستفناءلم یزل بین المسلمین من عہد النبی ﷺ والا فرق بین ان یستفتی ہدا دائما ویستفتی ہذا حینا بعد ان یکون مجمعا علی مادکرناہ (عقد الجید ص39)
یعنی دور صحابہ ؓ وتابعین سے تقلید تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور اس دور میں ایک شخص بھی منکر تقلید نہ تھا چونکہ ان صحابہؓ اور تابعین ؒ کی مرتب کی ہوئی کتابیں آج موجودنہیں جو متواتر ہوں۔ہاں ان کے مذاہب کو ائمہ اربعہ نے مرتب کردایا تو اب ان کے واسطہ سے ان کی تقلید ہو رہی ہے جیسے صحابہؓ و تابعین ؒ بھی یہی قران پاک تلاوت فرماتے تھے مگر اس وقت اس کا نام قراة حمزہ نہ تھا۔ صحابہؓ وتابعین ؒ بھی يہی احادیث مانتے تھے مگر رواہ البخاری اور رواہ مسلم نہیں کہتے تھے۔یہ سوال سائل کا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کیا دس قاریوں سے پہلے قرآن نہیں پڑھاجاتا تھا؟ یا صحابہؓ وتابعین ؒ میں نہ کسی نے بخاری پڑھی نہ مشکوة۔ کیا اس زمانہ میں حدیث کا ماننا اسلام میں ضروری نہ تھا؟
سوال پنجم: کیا چاروں اماموں کے بعد کوئی مجتہد پیدا نہیں ہوا ؟ اور اب کوئی مجتہد پیدا ہو سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب: یہ سوال تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں۔“300ھ کے بعد کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا ” اورا مام نوویؒ نے بھی شرح مہذب میں یہی فرمایا ہے ۔ اب مجتہد مطلق کا آنا تو محال شرعی ہے نہ ہی محال عقلی ہاں محال مادی ہے۔ لیکن وہ آ کر کیا کر ے گا؟ کیا اگر آج کا محدث دعوی کر کے ساری صحیح بخاری کو غلط قرار دے اور حدیث اور محدثین کی عظمت کو ختم کرے تو اس سے دین کا کیا فائدہ ہوگا۔ اسی طرح کو ئی مجتہدین بن کر پہلے سارے علمی سرمائے سے اعتماد ختم کر ے تو کیا فائدہ ہوگا؟
سوال ششم:
ایک امام کی تقلید واجب ہو نے کے کیا دلائل ہیں؟ اورواجب کی تعریف اور حکم بھی بیان کریں؟
الجواب: اس ملک میں یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ جیسے یمن میں صرف حضرت معاذ مجتہد تھے اور سب لوگ ان کی تقلید کرتے تھے اسی طرح اس ملک میں مدارس، مساجد ، مفتی صرف اور صرف سیدنا امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مذہب کے ہیں۔ دوسرے کسی مذہب کے مفتی موجود ہی نہیں کہ عوام ان سے فتوی لیں۔ اس لیے یہاں تو ایک ہی امام کے پیچھے ساری نمازیں پڑھنی واجب ہیں،۱ یک ہی ڈاکٹر ہو سب اسی سے علاج کرواتے ہیں۔ ایک ہی قاری ہو سب اسی سے قرآن پڑھ لیتے ہیں اس لیے یہاں ایک ہی امام کی تقلید واجب ہے جیسے مقدمتہ الواجب واجب کہاجاتا ہے۔ اس کے بغیر دین پر عمل کرنا ناممکن ہے کوئی شخص ایک رکعت نماز بھی نہیں پڑھ سکتا اور تارک اس تقلید کا فاسق ہے ۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں اور صاحب جمع الجوامع فرماتے ہیں کہ ” عامی پر ایک امام کی تقلید واجب ہے“ (عقد الجید ص 50) اور دلیل اس کی اجماع ہے۔ (الاشباة ص143)
سوال ہفتم:
امام ابو بوسفؒ اور امام محمدؒ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ہیں اور آپ کی تقلید بھی کرتے ہیں مگر انہوں نے بہت سے مسائل میں امام صاحب کی مخالفت کیوں کی؟
الجواب: امام ابو یوسف اور امام محمد یہ دونوں حضرات خود مجتہد فی المذہب ہیں اور مجتہد کو دوسرے مجتہد کی تقلید واجب نہیں ہوتی۔ ہاں اگر اپنے سے بڑے مجتہد کی تقلید کرے تو جائز ہے۔
سوال ہشتم:
کیا کسی امام نے اپنی تقلید کرنے کا حکم دیا ہے؟
الجواب: ائمہ اربعہ کے اقوال مختلف کتابوں میں موجود ہیں جن میں ان حضرات نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری ہر اس بات کو مانو جو قرآن وسنت کے موافق ہواور جو خلاف ہو جائے اس کو مت مانو۔ مطلب یہ ہو ا کہ وہ اپنے اقوال کی ترغیب دے رہے ہیں اور یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان کے اقوال قرآن وسنت کے موافق ہیں اور قرآن وسنت کی مخالفت نہیں کرتے پس اس سے ان کی تقلید کی حکم ان کے اپنے اقوال سے ثابت ہوا۔
سوال نہم:
جو لوگ چاروں اماموں میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے۔ ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب:موجودہ دور میں جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی ايک امام کی تقلید نہیں کرتے وہ فافق ہیں۔ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں اور حرمین شریفین کے فتووں کے مطابق ان پرتعزیز واجب ہے۔
 ائمہ اربعہ کو نہ ماننے والے غالی ومتعصب ہیں

نواب صدیق حسن خان جو صاحب تصانیف علماء میں سے ہیں اور غیرمقلدین کے قابلِ احترام پیشوا ہیں، وہ خود اپنی جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:"تعجب کی بات ہے کہ غیرمقلدین کیوں کر اپنا نام خالص موحد رکھتے ہیں اور دوسروں کو (جو تقلیدِ ائمہ کرتے ہیں) مشرک کہتے ہیں، حالاں کہ یہ خود سب لوگوں سے بڑھ کر سخت متعصب اور غالی ہیں"۔(الحطہ فی ذکر الصحاح الستہ: ۱۳)

سوال دہم :
کیا مسئلہ تقلید پر اردو زبان میں بھی کوئی کتاب لکھی گئی ہے جسے پڑھ کر اس مسئلہ کو اچھی طرحس سمجھا جا سکے؟
الجواب: اس مسئلہ پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ چند ایک نام لکھ دیتا ہوں۔
(۱)تقلید کی شرعی حیثیت (۲) الکلام المفید فی اثبات التقلید (۳)تقلید ائمہ اور مقام ابو حنیفہؒ
(۴) الاقتصاد (۵) تنقیح (۶) خیر التنقید
(۷) اجتہاد اور تقلید (۸) تقلید شخصی (۹) توفیر الحق
(۱۰) تنویر الحق (۱۱) تحفہ العرب والعجم (۱۲) تقلید اور امام اعظم
(۱۳) سبیل الرشاد (۱۴) ادلہ کاملہ (۱۵) ایضاح الادلہ
(۱۶) مدارالحق بجواب معیاد الحق (۱۷) نتصار الحق بجواب معیار الحق (۱۸) تنقید فی بیان التقلید
وغیر ہ وغیرہ۔
=====================================
کیا صحابہ کرام رضی الله عنھ بھی "مقلد" تھے؟
 اس بات میں ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ نبی صلے الله علیہ وسلم کے جملہ صحابہ کرام رضی الله عنہ شرف_صحبت_نبوی کے فیض و برکت سے سب کے سب عادل، ثقه، متقی، خدا-پرست اور پاک-باز تھے، مگر فہم_قرآن، تدبر_حدیث اور تفقہ فی الدین میں سب یکساں نہ تھے، بلکہ اس لحاظ سے ان کے آپس میں مختلف درجات اور متفاوت مراتب تھے .
See this page/book here:

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رض بھی فقہ دین[قرآن=٩:١٢٢]پر عمل-پیرا تھے اور اپنے دور کے چھے بڑے معتبر اصحاب کی تقلید کرتے تھے. اس پر خیر القرون (بہترین-زمانہ صحابہ-و-تابعین) میں حدیث کی ٢ کتابیں: مصنف-عبد الرزاق اور مصنف-ابن ابی-شیبہ ہیں، جن میں اکثر سائل دلیل کا مطالبہ بھی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اکثر دلیل سے مسلے کا جواب دیا جاتا تھا. جس طرح امام بخاری نے اپنی طرف سے کوے حدیث نہیں بنائی بلکہ احادیث کو یکجا کیا، اسی طرح امام ابو-حنیفہ رح نے کوئی نیا مذہب اور فقہ ایجاد نہیں کی بلکہ صحابہ_کرام کی فقہ کو یکجا کیا. الله تعالیٰ ہمارا خاتمہ اہل_سنّت-و-الجماعت کے ہی مذہب پر فرماتے. آمین
For More:

مجتھدين كے فتاوى عام لوگوں كى بنسبت شرعى دلائل كى طرح ہيں: امام شاطبی رحمہ الله بہت بڑے جلیل القدر امام ہیں سيدُ القراء ہیں ، قراأت ورسم ونحو وصرف وفقه وحديث کے یگانہ روزگارامام ہیں اندلس میں " الشاطبية " مقام کے رہنے والے تهے حافظ أبو عمرو بن الصلاح رحمہ الله نے " طبقات الشافعية " میں شمارکیا ہے علماء مالکیہ نے ان کو مالكيُ المذهب ، لکها ہے ، اورامام شاطبی کے اپنے طرز واسلوب سے بهی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ وه اپنی کتب میں امام مالك رحمہ الله کے أقوال اہتمام سے ذکر کرتے ہیں ، امام شاطبی رحمہ الله کی ایک انتہائ بہترین علمی وتحقیقی کتاب { الموافقات } ہے ، یہ کتاب أصول الفقه و أصول الشريعة میں ہے ،اهل علم اس کتاب کی قدرومنزلت خوب جانتے ہیں ، اورعلامہ شاطبی رحمہ الله نے اس کا نام " التعريف بأسرار التكليف " رکها ، کیونکہ اس کتاب میں شریعت مطہره کے رموز واسرار تكليفيہ بیان کیئے گئے ، امام شاطبی رحمہ الله کے ایک شیخ نے ان کے متعلق ایک خواب دیکها تها تو اس خواب کی بناء پرامام شاطبی نے اس کا نام " الموافقات " رکهہ دیا ۰ اوپرمیں نے جوعنوان قائم کیا ہے ، یہ درحقیقت امام شاطبی رحمہ الله کے فرمان سے ہی ایک اقتباس ہے ، امام شاطبی رحمہ الله اپنی کتاب " الموافقات " میں فرماتے ہیں کہ فتاوى المجتهدين بالنسبة إلى العوام كالأدلة الشرعية بالنسبة إلى المجتهدين ، والدليل عليه أن وجود الأدلة بالنسبة إلى المقلدين وعدمها سواء ، إذ كانوا لا يستفيدون منها شيئا ، فليس النظر في الأدلة والاستنباط من شأنهم ، ولا يجوز ذلك لهم ألبتة ، وقد قال تعالى : ( فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ) ، والمقلد غير عالم ، فلا يصح له إلا سؤال أهل الذكر ، وإليهم مرجعه في أحكام الدين على الإطلاق ، فهم إذًا القائمون له مقام الشارع ، وأقوالهم قائمة مقام الشارع "الموافقات" (4/292 انتهى يعنى مجتھدين كے فتاوى جات عام لوگوں كى بنسبت شرعى دلائل كى مانند ہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ مقلدين كے ليے دلائل كا ہونا يا نہ ہونا برابر ہے، كيونكہ وہ اس سے مستفيد نہيں ہو سكتے، كيونكہ دلائل كو ديكھنا اور ان سے مسائل كا استنباط كرنا ان پڑھ لوگوں كا كام نہيں، اور ان كے ليے بالكل يہ جائز نہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون اگر تمہيں علم نہيں تو تم اہل علم سے دريافت كر ليا كرو : اور مقلد چونکہ عالم نہیں ہے ، اس ليے اس كے ليے اہل علم سے دريافت كرنے كے علاوہ كچھ صحيح نہيں، اور مطلقا اہل علم ہى احكام دين ميں مرجع ہيں، كيونكہ وہ شارع كے قائم مقام ہيں، اور ان كے اقوال شارع كے قائم مقام ہيں " انتہى امام شاطبی رحمہ الله کا بیان بالکل واضح ہے کہ وه مسلمان جو اجتہاد کی اہلیت وصلاحیت سے محروم ہیں ، تو وه دین میں مُجتہدین کرام کے اقوال وفتاوی پرعمل کریں گے ، اس عمل کو اصطلاح میں تقلید کہا جاتا ہے ، اورایسے شخص کو مُقلد کہا جاتا ہے ، اوراس عمل کی وجہ سے وه (معاذالله ) مشرک وبدعتی وجاہل وگمراه نہیں کہلائیں گے ، بلکہ امام شاطبی رحمہ الله کے بقول کہ مُجتہدین کرام کے فتاوی جات (اوراقوال واجتہادات) مُقلدین کے لیئے شرعى دلائل کی طرح ہیں ، لہذا مجتہدین کے فتاوی واقوال پرعمل شریعت پرہی عمل ہے ۰ سبحان الله ، فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی خوش قسمتی ہے کہ یہ فرقہ امام شاطبی رحمہ الله کے زمانہ میں نہیں تها ، ورنہ امام شاطبی رحمہ الله اس فرقہ جدید کا بهی خوب رد کرتے ، کیونکہ یہ فرقہ جدید تو بوجہ جہالت وحماقت کے مُجتہدین کرام کے فتاوی واقوال کی تقلید کو جہالت وضلالت وحرام وشرک ٹهہراتا ہے ، جب کہ امام شاطبی رحمہ الله مُجتہدین کرام کے فتاوی جات (اوراقوال واجتہادات) مُقلدین کے لیئے شرعى دلائل کی طرح کہتے ہیں ، اب دونوں نظریوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے ، ایک جلیل القدرومستند امام یہ کہتا ہے کہ مجتہدین کے اقوال وفتاوی مقلد کے لیئے بمنزلہ شرعی دلائل ہیں ، جب کہ ہندوستان میں پیدا شده فرقہ جدید اہل حدیث کے علمبردار کہتے ہیں کہ مجتہدین کی تقلید شرک وبدعت وضلالت ہے ، بات کس کی صحیح ہے عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے ؟؟ الله تعالی عوام کواس فرقہ جدید کے وساوس سمجهنے اوران سے بچنے کی توفیق دے ٠ اسى طرح علامہ ابن قـُدامَہ ألحنبلي رحمہ الله بہت جلیل القدرامام ہیں ، شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ لم يدخل الشام بعد الأوزاعي فقيه أعلم من موفق الدين " یعنی ملک شام میں امام اوزاعی کے بعد موفق الدين (علامہ ابن قـُدامَہ ألحنبلي رحمہ الله ) سے بڑا فقیہ داخل نہیں ہوا ۰ امام ذهبی رحمہ الله نے ان کی تعریف اس طرح کی كان من بحور العلم وأذكياء العالم . علامہ ابن رجب الحنبلي نے ان کے بارے فرمایا کہ الفقيه الزاهد الإمام شيخ الإسلام وأحد الأعلام ، وقال أيضا : هو إمام الأئمة ومفتي الأمة خصه الله بالفضل الوافر والخاطر الماطر ، طنّت في ذكره الأمصار وضنّت بمثله الأعصار . امام ذهبی رحمہ الله نے امام الضياء المقدسي رحمہ الله سے یہ بات نقل کی فرمایا کہ میں نے المفتي أبا بكر محمد بن معالي بن غنيمة رحمہ الله سے سنا وه کہتے تهے کہ " ما أعرف أحدا في زماننا أدرك درجة الإجتهاد إلا الموفق " یعنی میں نہیں جانتا کہ ہمارے زمانہ میں کوئ درجہ اجتہاد کوپہنچا ہے مگر الموفق یعنی ابن قـُدامَہ ألحنبلي رحمہ الله ۰ یہ تهوڑی تفصیل توان کی شخصیت ومرتبہ کے بارے تهی ، اب ان کا ایک فیصلہ اورفتوی ملاحظہ کریں ، فرماتے ہیں کہ " وأمـا التـقـليـد في الفـُروع فهُـو جـائـز إجـمـاعًــا " یعنی فروعی مسائل میں (مجتہدین ) کی تقلید بالاجماع جائز ہے ۰ یہ نہیں فرمایا کہ میرے نزدیک یا فلاں شیخ وامام کے نزدیک تقلید جائز ہے ، بلکہ تقلید کے جواز پرإجـمـاع نقل کر رہے ہیں ، اوریہ اجماع بهی چهٹی صدی میں نقل کر رہے ہیں ، اور مزید فرماتے ہیں کہ " فلهذا جـاز التقليد فيـها، بل وجب علـى العـامـي ذلك " لہذا فروعی مسائل میں (مجتہدین ) کی تقلید نہ صرف یہ کہ بالاجماع جائز ہے ، بلکہ عـَامـي شخص پر تقلید واجب ہے ۰ [ انظر الروضة ص 206 }اب فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کے وساوس کو دیکهیں ان کی جہالت وسفاہت کو دیکهیں کہ ہروقت عوام کو گمراه کرنے کے لیے یہی راگ الاپتے ہیں کہ تقلید شرک وبدعت وضلالت ہے ، جب کہ جلیل القدرائمہ اسلام نہ صرف تقلید کوجائزبلکہ عوام پرواجب ولازم ہونے کا حکم دے رہے ہیں ، اب عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے کہ فرقہ جدید کے وساوس قبول کرکے گمراہی کی طرف جانا ہے یا جلیل القدرائمہ اسلام وعلماء امت کی بات وفیصلہ قبول کرنا ہے ؟؟۰ اسى طرح شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ " وتقـليـد العـاجـز عن الاستدلال للعـالم يجـوز عند الجمهور " اور استدلال (واجتہاد) سے عاجز شخص کے لیئے جمہور علماء کے نزدیک عالم کی تقـليـد جائز ہے ۰ { انظر مجموع فتاوى ابن تيمية جـ 19 ص 262 اب فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کے جہلاء کا طرز دیکهیں کہ عوام کے سامنے بڑے زور وشور سے شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کی تعریف وتوصیف کرتے تهکتے نہیں ہیں ، لیکن درحقیقت یہ فرقہ شیخ الاسلام کا نام بهی محض دهوکہ وفریب کےلیئے لیتے ہیں ، جیسا کہ شیخ الاسلام کے مذکوره بالا قول کو دیکهیں اور پهرفرقہ جدید کے طرز وروش کو دیکهیں ، الله تعالی عوام کواس فرقہ جدید کے وساوس سمجهنے اوران سے بچنے کی توفیق دے ٠ مجتہدین کی تقلید کے اوپرعلماء امت کا اجماع ہے ، حتی وهابی ونجدی حضرات جوعموما کئ مسائل بہت شدت کرتے ہیں ، لیکن تقلید کا انکار انهوں نے بهی نہیں کیا ، الشيخ حمد بن ناصر بن معمرالنجدي شیخ محمد بن عبد الوهاب کے شاگرد ہیں ، وه فرماتے ہیں کہ من كان من العوام الذين لا معرفة لهم بالفقه والحديث، ولا ينظرون في كلام العلماء، فهؤلاء لهم التقليد بغير خلاف، بل حكى غير واحد إجماع العلماء على ذلك اهـ وه عام لوگ جن کو فقہ وحدیث کی معرفت حاصل نہیں ہے ، اور علماء کے کلام میں نظر ( واستدلال وتطبیق وغیره ) کی صلاحیت نہیں رکهتے ، توان لوگوں کے لیئے بلا اختلاف تقلید جائز ہے ، بلکہ تقلید کے جواز پر ایک سے زائد علماء نے اجماع نقل کیا ہے ۰ { انظر مجموعة الرسائل والمسائل النجدية ، رسالة الاجتهاد والتقليد جـ2 ص 7 و ص 21 و ص 6 } شیخ محمد بن عبد الوهاب نجدی کے بیٹے شیخ حسين، وشیخ عبد الله فرماتے ہیں کہ ، جب آدمی کو حدیث اورکلام علماء اوراقوال کے ترجیح کی معرفت حاصل نہ ہو تو اس کا وظیفہ اور ذمہ داری أهلُ العلم کی تقلید ہے ۰ إذا كان الرجل ليس له معرفة بالحديث، وكلام العلماء، وترجيح الأقوال، فإنما وظيفته : تقليد أهل العلم، قال الله تعالى{ فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون} سورة النحل: 43." الدرر السنية 4/ 14 ، 15 ٠ آخرمیں إمام أهل السنة الإمام أحمد بن حنبل رحمہ الله کا قول وفیصلہ نقل کرکے بات ختم کرتا ہوں ، فرماتے ہیں کہ من زعم أنه لا يرى التقليد ، ولا يقلد دينه أحدًا : فهو قول فاسق عند الله ورسوله صلى الله عليه وسلم ، وإنما يريد بذلك إبطال الأثر ، وتعطيل العلم والسنة ، والتفرد بالرأي والكلام والخلاف " یعنی إمام أحمد بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ زعم کرے کہ وه تقلید کوجائزنہیں کہتے ، تو یہ قول الله ورسول صلى الله عليه وسلم کے نزدیک فاسق ہے ، وه شخص اپنے اس قول کے ذریعہ سے اثر یعنی حدیث کو باطل کرنے کا اراده کرتا ہے ، اورعلم وسنت کو معطل کرنے کا اراده کرتا ہےالخ {أنظر طبقات الحنابلة ج1ص31 }
++++++++++++++++++++++++++++++

:علامہ خطیب بغدادی (شافعی) رح لکھتے ہیں 

احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی.

عقلی احکام میں تقلید جائز نہیں، جیسے صانع عالم (جہاں کا بنانے-والا) اور اس کی صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)، اس طرح رسول الله صلے الله علیہ وسلم اور آپ کے سچے ہونے کی معرفت وغیرہ. عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول_دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو"(سورہ الاعراف:٣). اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں"(٢:١٧٠)



دوسری قسم احکامِ شرعیہ، اور ان کی دو قسمیں ہیں:

١) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے نماز، روزہ، حج، زكوة اسی طرح زنا و شراب کا حرام ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں، اس لئے ان میں تقلید کا کوئی معنی نہیں.

٢) دین کے وہ احکام جن کو نذر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے فروعی مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے. اللّہ تعالیٰ کے قول "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧) کی دلیل سے. اور وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام_شرعیہ کے استنباط (٤:٨٣) کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو اس کے لئے "کسی" علم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے. الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧)

حضرت ابن_عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگۓ، پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج دریافت (سوال) کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: ٢٨٤(٣٣٦)

دوسری اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ اہل_اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہ_علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس کو کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.

[الفقيه والمتفقه: ٢/١٢٨؛ ازعلامہ خطیب بغدادی (شافعی) رح، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ]






سوال:
اگر نبی کے بعد کوئی شخص معصوم نہیں تو نبی نے ایک غیر-معصوم کو یہ حق_اجتہاد کیوں دیا؟
جواب: حضرت عمروبن عاص سے روایت کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے"دو اجر"ہیں اور اگر حکم دے اور اس اجتہاد سے کام لے اور غلط ہو تب بھی اس کے لیے"ایک ثواب" ہے۔ [صحیح بخاری:جلد سوم: کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان :حاکم کے اجر کا بیان جبکہ وہ اجتہاد کرے اور اجتہاد میں غلطی یاصحت ہو]

فقہی نکتے:
١. غیر-حاکم کو اجتہاد کا حق نہیں دیا.
٢. حاکم کو جب قرآن-و-سنّت سے واضح جواب نہ ملنے پر اجتہاد کرنا پڑے تو:
اپنی اجتہادی-راۓ میں (الله کے نزدیک) صحیح فیصلہ کیا تو دو ثواب: ١. اجتہاد کرنے کا، ٢. صحیح فیصلے پر، اور فیصلے میں خطا  ہوئی تو ایک اجر اجتہاد کرنے کا.
٣. مجتہدین(اجتہاد-کرنے-والے-اماموں) کے فیصلوں میں اختلاف میں کسی کو گناہ-گار نہیں، بلکہ خطا پر بھی"محفوظ"رکھتے گناہ کے بجاتے اجر دیا جائیگا.
. غیر-حاکم کو اجتہاد کا حق نہیں دیا. (اس کی دلیل_قرآن آگے آئیگی

اجتہاد کی تعریف:
لغت میں اجتہاد کا مادہ "ج ہ د"سے معنا طاقت، کوشش اور محنت ہے.
اور اصطلاح میں اجتہاد کہتے ہیں"کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا  اور اس سے مراد ہے کسی مسلے کو قیاس کے طریقے سے کتاب-و-سنّت کی طرف لوٹانا.(تاج العروس، علامہ زبیدی: ٢/٣٣٠)

اور 
جس طرح کسی شعبے کے ماہرین (ڈاکٹرس/وکلاء) کی جماعت کسی بات پر متفق ہو جائیں تو عوام یا عام ڈاکٹرس/وکلاء کا اختلاف بےجا اور غیر-معتبر ہوتا ہے، ویسے ہی دین_اسلام کے ماہرین "فقہاء"کا کسی بات پر متفق (جمع) ہوجانا "اجماع" ہے، جس سے اگر اختلاف عوام کا یا عام علماء کا ہو تو وہ غیر-معتبر ہوتا ہے.
نۓ مسلے/حالت جیسے:
١. حضرت عمر رضی الله عنہ کے کہنے پر حضرت ابو-بکر رضی الله عنہ کا قرآن کو ترتیب سے کتابی صورت میں جمع کرنا، جو کہ ایک شخصی-راۓ تھی، جس کو سب نے ١ ہی فقیہ-حاکم حضرت ابو-بکر رضی الله عنہ کی تقلید_شخصی کرتے ہوۓ سب نے مانا، اس مسلے کا واضح حکم نہ قرآن میں ہیں نہ حدیث میں؟؟؟
٢. عجمیوں کے لئے قرآن میں اعراب (زبر،زیر و پیش وغیرہ) لگانے کا حکم نہ قرآن میں ہیں نہ حدیث میں؟؟؟
٣. قرآن کے رموز-و-اوقاف (آیات کے نشانات کی نشان-دہی) کا حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں؟
٤. اصول_حدیث: صحیح و ضعیف،شاذ و موضوع، منسوخ و متروک وغیرہ، ان اقسام_حدیث کی تعریفیں اور احکام نہ قرآن میں ہیں نہ فرمان_رسول میں؟؟؟ وغیرہ
ان مسائل کا جواب کوئی بھی الله-و-رسول سے واضح نہیں ثابت کر سکتا، کیونکہ یہ مسائل_اجتہادی ہیں.
 اور 
 اُولِي الْاَمْرِ کون ہیں؟اولولاَمر یعنی حکم(شرعی)دینے والے؛ حضرت ابن عباس رضی الله عنھ فرماتے ہیں کہ اس"اُولِي الْاَمْرِ"سے مراد اہل فقہ و دین(فقہ اور دین والے) ہیں. اور حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنھ سے اس کی تفسیر میں:"اُولِي الْاَمْرِ"سے مراد "اہل فقہ و الخیر " ہیں. [مستدرک حاکم: کتاب-العلم؛1/123
حدیث سے آدھی آیت بیان کرتے ایک خاص مسلے کو سمجھنے کا ثبوت:
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 221, 1 - مقدمہ دارمی : (647)
باب - علماء کی پیروی کرنا۔
عطا بیان کرتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے" اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے اولوالامر ہیں ان کی اطاعت کرو۔" عطاء ارشاد فرماتے ہیں اس سے مراد علم اور فقہ کے ماہرین ہیں اور رسول کی اطاعت سے مراد کتاب اللہ اور سنت کی پیروی کرنا ہے ۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++
خبر(حدیث)کی تحقیق و استنباط (نکال-باہر کرنے(نۓ مسائل کا حل) کے "اجتہاد"(پوری-کوشش کرنے) کا حق :
"رسول" کے بعد "أولي الأمر" میں سے بھی ان کو ہے، جو مسلے کا حل استنباط (نکال باہر)  کرنے  کی قابلیت (فقہ و سمجھ) رکھتے ہوں. یعنی اس آیت میں عام-علماء کو بھی یہ حق نہیں.-قرآن=٤:٨٣ ،اور عوام کو تو بلکل ہی نہیں، ان کو تو اس آیت میں تحقیق کے لئے رسول کے بعد اولوالامر(فقہاء) کی طرف لوٹانے کا حکم ہے.-قرآن=٤:٨٣ 

غیر-مجتہد (غیر-فقیہ) شخص کا دین میں اپنی راۓ دینا گناہ ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللّہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری طرف سے کوئی بات (یعنی حدیث) اس وقت تک نقل نہ کرو جب تک تمہیں یقین نہ ہو کہ یہ میرا قول ہے اور جو شخص میری طرف کوئی جھوٹ بات منسوب کرے گا وہ اور ایسا شخص جو قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے گا دونو اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کر لیں۔ یہ حدیث حسن ہے۔[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 878, قرآن کی تفسیر کا بیان : باب جو شخص اپنے رائے سے قرآن کی تفسیر کرے
******************************************
٢)  سنّت_رسول (قرآن-و-حدیث) اور مومنین (کی جماعت=اجماع_امت) کی سبیل (مذہب-و-راستے) کی مخالفت کرنے والے کو ٢ عذاب:
١. دنیا میں ہدایت سے محروم کرتے اسی گمراہی پر چلنے کی آزادی
٢. آخرت میں بہت برا ٹھکانہ "جہنم" میں داخلہ (سورہ-النساء:١١٥
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا بلا شبہ میری امت(مومنین) گمراہی پر مجتمع (متفق) نہ ہوگی جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (بڑی جماعت) کا ساتھ دو

Ijtihaad & Taqleed=إجتهاد و تقليد



جائز اور ناجائز تقلید:

جس طرح لغت کے اعتبار سے کتیا کے دودھ کو بھی دودھ ہی کہا جاتا ہے اور بھینس کے دودھ کو بھی دودھ کہتے ہیں۔ مگر حکم میں حرام اور حلال کا فرق ہے اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفارومشرکین، خدا اور رسول ﷺ کی مخالفت کےلئے اپنے گمراہ وڈیروں کی تقلید کرتے تھے۔ اگرحق پر عمل کرنے کےلئے تقلید کرے کہ میں مسائل کا براہ راستی استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کتاب وسنت کو ہم سے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلیے اس سے خدا و رسول ﷺ کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔

تقلید کا حکم :میاں نذیر حسین دہلوی 1360ھ ، مولانا محمد حسین بٹالوی 1338ھ ، مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی 1394ھ ، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری 1948ھ ، مولانا نور حسین گھرجاکھی ، مولانا محمد داؤدغزنوی ، سب حضرات فرماتے ہیں کہ : مطلق تقلید کسی مجتہد کی اہل سنت سے واجب ہے . معیارالحق ص 41 ، اشاعۃ السنہ ص 126 ج 23 ، تاریخ اہل حدیث ص 125 ، نقوش ابوالوفا ص 256 ، ارکان اسلام ص 92، داؤد غزنوی ص:375



 تقلید کا لغوی معنی

تقلید کا معنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع،اطاعت اوراقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔تقلید کے لفظ کا مادہ قلادہ ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو ہار کہلاتا ہے اور جب جانور کے گلے میں ڈالا جائے تو پتہ کہلاتا ہے۔ ہم چونکہ انسان ہیں اس لیے انسانوں والا معنی بیان کرتے ہیں اور جانوروں کا جانوروں والا معنی پسند ہے۔

تقلید کا شرعی معنی

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہے۔
”تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلاوے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا “ )الاقتصاد ص ۵ (
تقلید کی تعریف: اہل_حدیث  مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری 1948ھ :
تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کےموافق بتلادے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا ( فتاوی ثنائیہ ص256 ج1، ص265 ج1 ، ص262 ج1 )



تقلید کی تعریف کے مطابق راوی کے روایت کو قبول کرنا تقلید فی الروایت ہے اور مجتہد کی درایت کو قبول کرنا تقلید الدرایت ہے۔ کسی محدث کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے اور کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو ثقہ یا مجہول یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے۔ کسی امتی کے بنائے ہوئے اصول حدیث، اصول تفسیر، اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید ہے۔  


 مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:"ہمارے اس زمانہ میں ایک فرقہ نیا کھڑا ہوا ہے جو اتباع حدیث کا
 دعویٰ رکھتا ہے اور درحقیقت وہ لوگ اتباع حدیث سے کنارے ہیں جو حدیثیں کہ سلف وخلف کے یہاں معمول بہا ہیں ان کو ادنی سی قدح اور کمزور جرح پر مردود کہہ دیتے ہیں..... اور ان پر اپنے بیہودہ خیالوں اور بیمار فکروں کو مقدم کرتے ہیں اور اپنا نام محقق رکھتے ہیں"۔(فتاویٰ علمائے اہل حدیث: ۷/۸۰)  شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:"جمہور امت جس چیز پر ہے وہ یہ ہے کہ اجتہاد فی الجملہ جائز ہے اور تقلید بھی فی الجملہ جائز ہے، نہ تو جمہور نے ہرایک پر اجتھاد کو واجب کرتے ہوئے تقلید کو حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی ہرایک پر تقلید کو واجب کرتے ہوئے اجتہاد کو حرام بتایا ہے، جو شخص اجتہاد پر قادر ہے اس کے لیے اجتہاد جائز ہے اور جو اجتہاد سے عاجز ہے اس کے لیے تقلید جائز ہے"۔(مجموع الفتاوی: ۳۰/۲۰۳) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مجتہد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے اگر اس کا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے، ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اصابت کا اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر اجتہاد کا ملےگا۔ ہاں جو نا اہل ہو اسکو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں بلکہ وہ گنہگار ہے۔ اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا۔ اگرچہ حق کے موافق ہو یا مخالف کیونکہ اسکا حق کو پا لینا محض اتفاقی ہے کسی اصلِ شرعی پر مبنی نہیں۔ پس وہ تمام احکام میں گنہگار ہے۔ حق کے موافق ہوں یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں اسکا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیں وہ دوزخی ہے۔ ((شرح مسلم ج۲ ص۷۶)
(الف) کن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے؟
صرف مسائل اجتہادیہ میں تقلید کی جاتی ہے اور حدیث معاذ ؓ(جس کو نواب صدیق حسن خان حدیث مشہور فرماتے ہیں۔ الروضہ الندیہ ج ۲ ص ۶۴۲) میں اجتہادیہ کے اصولوں سے کتاب وسنت سے مجتہد اخذ کرے گا۔
نوٹ: محدثین کا اصول حدیث بنانا، کسی حدیث کو صحیح، ضعیف کہنا کسی روای کو ثقہ یا مجروح قرار دینا بھی ان کا اجتہاد ہے۔
(ب) کن کی تقلید کی جائے ؟
ظاہر ہے مسائل اجتہاديہ میں مجتہد کی ہی تقلید کی جائے گی اور مجتہد کا اعلان ہے کہ قیاس مظہر لامثبت (شرح عقائد نسفی) کہ ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب و سنت واجتماع سے ہی ظاہر کر کے بیان کرتے ہیں اور مجتہدین کا اعلان ہے کہ ہم پہلے مسئلہ قرآن پاک سے ليتے ہیں وہاں نہ ملے تو سنت سے، وہاں نہ ملے تو اجماع صحابہ ؓ سے، اگر صحابہ ؓ میں اختلاف ہو جائے تو جس طرف خلفاء راشدین ہوں اس سے لیتے ہیں اور اگر یہاں بھی نہ ملے تو اجتہادی قاعدوں سے اسی طرح مسئلہ کا حکم تلاش کر لیتے ہیں۔ جس طرح حساب دان ہر نئے سوال کا جواب حساب کے قواعد کی مدد سے معلوم کر لیتا ہے اور وہ جواب اس کی ذاتی رائے نہیں بلکہ فن حساب کا ہی جواب ہوتا ہے۔
(ج) کون تقلید کرے؟
ظاہر ہے کہ حساب دان کے سامنے جب سوال آئے گا تو وہ خود حساب کے قاعدوں سے سوال کا جوا ب نکال لے گااور جس کو حساب کے قاعدے نہیں آتے وہ حساب دان سے جواب پوچھ لے گا ۔ اسی طرح مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب وسنت پر عمل کرے گا اور غیر مجتہد یہ سمجھ کر کہ میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس لیے کتاب و سنت کے ماہر سے پوچھ لوں کہ میں کتاب و سنت کا کیاحکم ہے۔ اس طرح عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ اور مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد خدا اور مراد رسول ﷺ سے آگاہ کیا ہے۔
غیر مقلد کی تعریف
نوٹ: (۱) مجتہد اور مقلد کا مطلب تو آپ نے جان لیا اب غیر مقلد کا معنی بھی سمجھ لیں کہ جو نہ خود اجتہاد کر سکتا ہو اور نہ کسی کی تقلید کرے یعنی نہ مجتہد ہو نہ مقلد۔ جیسے نماز باجماعت میں ایک امام ہوتا ہے باقی مقتدی۔ لیکن جو شخص نہ امام ہو نہ مقتدی، کبھی امام کو گالیاں دے کبھی مقتدیوں سے لڑے یہ غیر مقلد ہے یا جیسے مالک میں ایک حاکم ہوتا ہے باقی رعایا۔ لیکن جو نہ حاکم ہو نہ رعایا بنے وہ ملک کاباغی ہے۔یہی مقام غیرمقلد کا ہے۔
نوٹ: (۲) غیر مقلدین میں اگرچہ کئی فرقے اور بہت سے اختلافات ہیں۔ انتے اختلافات کسی اور فرقے میں نہیں ہیں۔ مگر ایک بات پر غیر مقلدین کے تمام فرقوں کا اتفاق اور اجماع ہے وہ يہ ہے کہ غیر مقلدوں کو نہ قرآن آتا ہے، نہ حدیث، کیونکہ نواب صدیق حسن خان، نواب وحید الزمان، میر نور الحسن، مولوی محمد حسین اور مولوی ثناء اﷲ وغیرہ نے جو کتابیں لکھی ہیں، اگرچہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قران وحدیث کے مسائل لکھے ہیں، غیر مقلدین کے تمام فرقوں کے علماء اور عوام بالاتفاق ان کتابوں کو غلط قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں بلکہ برملاتقریروں میں کہتے ہیں کہ ان کتابوں کو آگ لگا دو۔ گویا سب سے غیر مقلدین کا اجماع ہے کہ ہر فرقہ کے غیر مقلد علماء قران وحدیث پر جھوٹ بولتے ہیں انہیں قرآن وحدیث نہیں آتا وہ غلط گندے اور نہایت شرمناک مسائل لکھ لکھ کر قرآن وحدیث کا نام لے دیتے ہیں اس لیے وہ کتابیں اجماعاً مردود ہیں اور یہ سب جاہل ہیں۔
سوال دوم: لفظ تقلید کا ذکرقران وحدیث میں ہے یا نہیں؟
الجواب: قرآن پاک نے ان مقدس جانوروں کو جو خاص خانہ کعبہ کی نیاز ہیں، قلائدفرمایا ہے اور ان کی بے حد تعظیم وحرمت کا حکم فرمایا ہے اور ان مقلدین کے بے حرمتی کرنے والوں کو عذاب شدید کی دھمکی دی ہے ۔ البتہ کسی خنزیر، کتے وغیرہ و قلائد بنانے کی اجازت ہرگز نہیں دی ہے۔
نوٹ:(۱) اصول حدیث میں مرسل، مدلس، معضل، وغیرہ جس قدر اصطلاحی الفاظ محدثین نے استعمال کےے ہیں، ان الفاظ کا ان ہی اصطلاحی معنوں میں قرآن وحدیث میں ہونا ثابت فرما دیں یا اصول حدیث کا انکار کر دیں۔
نوٹ: (۲) سائل نے سوال میں صرف قرآن وحدیث کا ذکر کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ سائل اجماع کو دلیل شرعی نہیں مانتا۔ اگر واقعہ ایسا ہے تو سائل انکار اجماع کی وجہ سے دوزخی ہے اور سائل قیاس شرعی کو بھی دلیل نہیں مانتا تو اس کے بدعتی ہونے میں کچھ شک نہیں کیونکہ انکار قیاس کی بدعت نظام معتزلی نے جاری کی تھی۔
ائمہ مجتہدین کے اتباع کےلئے تقلید کا لفظ اسی اجماع اور تواتر کے ساتھ امت میں استعمال ہوتا چلا آرہا ہے جس طرح اصول حدیث، اصول تفسیر، اصول فقہ، قواعد صرف و نحو تواتر کے ساتھ مستعمل ہیں۔ محدیثن کے حالات میں جو کتابیں محدثین نے مرتب فرمائی ہیں وہ چار ہی قسم کی ہیں۔ طبقات حنفیہ، طبقات شافعیہ، طبقات مالکیہ، اورطبقات حنابلہ، طبقات غیر مقلدین نامی کوئی کتاب کسی محدث نے تحریر نہیں فرمائی۔




تقلید اور امام احمد رح:
ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ زعم (گمان) کرے کہ تقلید کوئی چیز نہیں ، تو یہ قول الله و رسول صلى الله عليه وسلم کے نزدیک ایک فاسق (نافرمان) کا قول ہے ، وه شخص اپنے اس قول کے ذریعہ سے اثر (یعنی اقوال و احادیث_صحابہ و تابعین) کو باطل کرنے کا اراده کرتا ہے ، اورعلم وسنت کو معطل کرنے کا اراده کرتا ہے، اور اپنی راۓ سے تفرد، کلام ، بدعت اور مخالفت کرنا
چاہتا ہے.

یہ اقوال و مذاھب جو میں (مصنف_کتاب امام ابن ابی یعلی رح) نے ماسبق میں ذکر کیے ہیں، خوبی ہے مذھب_اہل_سنّت والجماعت اور آثار، اور اصحاب الروایات کی. جور ان ارباب_علم کے جن کو ہم نے پایا، اور جن سے ہم نے علم_حدیث حاصل کیا، اور جن سے سنن کی تعلیم حاصل کی، وہ معروف ائمہ (دین) تھے، لائق_اعتماد، سچے لوگ تھے، جن کی اقتدا (تقلید و پیروی) کی جاتی اور ان سے (دین) لیا جاتا تھا، اور وہ بدعت والے نہ تھے، اور نہ مخالفت اور گڑبڑ پیدا کرنے والے تھے. اور یہی قول ان سے پہلے ائمہ دین کا ہے، اس لئے تم بھی اس کو مضبوطی سے پکڑلو. الله تم پر رحم کرے اور تمہیں بھی وہی علم دے جو علم انھیں دیا اور الله کی توفیق سے.

یہ کتاب (طبقات الحنابلہ) امام احمد بن حنبل رح کے اجتہادی مسائل میں اتباع و تقلید کرنے والے متبعین و مقلدین کے ذکر میں ہے، جو اپنے وقت کے علماء_احادیث تھے.
===========================
غیر مقلدین کے گھر کی گواہی :
اماموں نے اپنے قول کی تقلید کی اجازت دی ہے، اس حالت میں جب کہ خلاف_قرآن و حدیث نہ ہو. (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٩/١٤٥)
===========================
ومن زعم أنه لا يرى التقليد ، ولا يقلد دينه أحدًا ، فهو قول فاسق عند اللَّه ورسوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إنما يريد بذلك إبطال الأثر ، وتعطيل العلم والسنة ، والتفرد بالرأي والكلام والبدعة والخلاف.

وهذه المذاهب والأقاويل التي وصفت مذاهب أهل السنة والجماعة الآثار ، وأصحاب الروايات ، وحملة العلم الذين أدركناهم وأخذنا عنهم الحديث ، وتعلمنا منهم السنن ، وكانوا أئمة معروفين ثقات أصحاب صدق ، يقتدى بهم ويؤخذ عنهم ، ولم يكونوا أصحاب بدعة ، ولا خلاف ولا تخليط ، وهو قول أئمتهم وعلمائهم الذين كانوا قبلهم.

فتمسكوا بذلك رحمكم اللَّه وتعلموه وعلموه ، وبالله التوفيق.



شاہ ولی الله محدث دھلوی رح ایسے اقوال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : یہ اقوال اس شخص کے حق میں صادق آتے ہیں جسے ایک قسم کا "اجتہاد" حاصل ہو، خواہ ایک ہی مسئلہ میں ہو، اور جس پر یہ بات کھلے طور پر واضح ہوگئی ہو کہ نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے فلاں بات کا حکم دیا ہے یا فلاں بات سے روکا ہے، اور یہ بات بھی اس پر واضح ہوگئی ہو کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد منسوخ نہیں ہے، یا تو اس طرح کہ وہ تمام احادیث کی تحقیق اور مسئلہ سے متعلق مخالفین و موافقین کے اقوال کا تتبع (تحقیق) کر کے اس نتیجے پر پہنچا ہو کہ نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے، یا اس نے متبحر علماء کے جم_غفیر کو دیکھا ہو کہ وہ اس پر عمل کر رہے ہیں، اور اس پر یہ بات ثابت ہوگئی ہو کہ جس امام نے اس حدیث کی مخالفت کی ہے اس پر سواۓ قیاس و استنباط کی وجہ کے کوئی دلیل نہیں ہے، ایسی صورت میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت کا سواۓ پوشیدہ نفاق اور کھلم کھلا حماقت کے کوئی سبب نہیں ہوسکتا.
(حجة الله البالغة :١/١٥٥)

چاروں ائمہ نے جو اپنی فقہ مرتب کروائی ، ہر مسئلہ دلیل سے مرتب کروایا ۔ مرتب کروانے کا مقصد اس پر عمل کرانا تھا تو گویا ہر مسئلہ دعوت تقلید ہے ۔ اس لئے جب ان کی یہ فقہ متواتر ہے تو دعوت تقلید بھی ان سے متواتر ثابت ہے ۔ الکفایه کتاب الصوم میں صراحۃ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے عامی کے لئے تقلید کا وجوب ثابت ہے ۔ ہاں ان ائمہ نے یہ فرمایا :: جو شخص خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے اس پر اجتہاد واجب ، تقلید حرام ہے ۔ جو خطاب انہوں نے مجتہدین کو کیا تھا ان کو عوام پر چسپاں کرنا یحرفون اکلم عن مواضعه کی بدترین مثال ہے ۔ ہمارے ہاں مجتہد پر اجتہاد واحب ، غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے اور غیر مقلد پر تعزیر واجب ہے ۔
---------------------
امام شافعی رح کے قول"جب صحیح حدیث مل جاۓ تو وہی میرا مذہب ہے" پر عمل کی شرط امام نووی رح نے (المجموع شرح المہذب: مقدمہ؛ ١/١٤٠) پر یہ فرمائی ہے کہ:
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو آدمی بھی کسی حدیث کو صحیح سمجھلے وہ کہنے لگے کہ یہی امام شافعی رح کا مذہب ہےاور اس کے ظاہری معنی پر عمل شروع کردے بلکہ یہ حق تو صرف اس شخص کو پہنچتا ہے جو اجتہاد فی المذہب کے مرتبہ کو پاچکا ہو جس کی تفصیل پہلے بتادی گئی ہے یا پھر کم از کم مرتبہ اجتہاد کے قریب پہنچ چکا ہو، اس کے لئے بہی یہ شرط ہے کہ اس کا غالب گمان ہو کہ امام شافعی رح اس حدیث پر مطلع نہ ہوسکے یا انہوں نے اس کی شرط تسلیم نہ کی تھی. اور یہ فیصلہ تب ہوگا کہ جب امام شافعی رح کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرچکا ہو اور اس طرح کی وہ کتابیں اس کے مطالعہ سے گزرچکی ہوں جو امام شافعی رح سے استفادہ کرنے والوں نے تیار کی تھیں یا جو ان کی مثل کتابیں ہیں. تو یہ ایک کڑی شرط ہے کیونکہ اس شان کا آدمی قلیل الوجود ہے.
یہ شرط جو ہم نے ذکر کی اس لئے لگائی گئی ہے کہ امام شافعی رح نے بہت سی ایسی حدیثوں کے "ظاہر" معنی پر عمل نہیں کیا جن کو وہ جانتے بھی تھے اور جن سے وہ اچھی طرح واقف بھی تھےلیکن چونکہ ایسی (معلول/مضطرب/شاذ) حدیثوں میں کسی عیب پر ان کے علم میں دلیل موجود تھی یا ان کا منسوخ ہونا معلوم تھا یا ان میں وہ کسی تخصیص یا تاویل کے وہ قائل تھے، یا اسی طرح کی کوئی بات تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ان حدیثوں پر عمل ترک کیا.
شیخ ابو عمرو یعنی حافظ ابن الصلاح رح فرماتے ہیں کہ امام شافعی رح نے جو یہ فرمایا ہے کہ "جب صحیح حدیث مل جاۓ تو وہی میرا مذھب ہے"، اس کے ظاہر پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، پس کسی فقیہ کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بطور خود جس حدیث کو حجت سمجھے اس پر عمل شروع کردے.
-----------------------
شـيـخ الإسـلام إبن تيمية (حنبلی) رحمه الله كـا فـتـوى:

ومن ظنّ بأبي حنيفة أوغيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح
لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم ، وتكلّم إما بظنّ وإمـا بهـوى ، فهـذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضى بالنبيذ في السفر مع مخالفته للقياس ، وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما "

اورجس نے بهی امام أبي حنيفة یا ان کے علاوه دیگر أئمة ُالمسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قياس یا ( رائے ) وغیره کی وجہ سے حديث صحيح کی مُخالفت کرتے هیں تو اس نے ان ائمہ پر غلط ( وجهوٹ ) بات بولی ، اور محض اپنے گمان وخیال سے یا خواہش وهوی سے بات کی ، اور امام أبي حنيفة تو نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث پر باوجود ضعیف هونے کے اور مُخالف قیاس هونے کے عمل کرتے هیں الخ

{ مجموع الفتاوي لابن تيمية 20/304، 305. }
شـيـخ الإسـلام إبن تيمية رحمه الله کا فتوی بالکل واضح هے یعنی امام اعظم کے مُتعلق اگرکوئ یہ گمان وخیال بهی کرے کہ وه صحیح حدیث کی مخالفت کرتے هیں اپنی رائے وقیاس سے تو ایسا شخص شـيـخ الإسـلام إبن تيمية رحمه الله کے نزدیک خیالات وخواہشات کا پیروکار هے اور ائمہ مُسلمین پرجهوٹ وغلط بولنے والا هے.









:علامہ سیوطی (شافعی) رح فرماتے

ام لوگ اور وہ حضرات جو اجتہاد کے درجے کو نہ پہچیں، ان پر مذاہب_مجتہدین (مسالک_مجتہدین : حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) میں سے کسی ایک معین مذہب(مسلک کی تقلید) کا التزام واجب ہے.[شرح جمع الجوامع بحوالہ خیرالتنفید: صفحہ#١٧٥]











شاہ ولی الله محدث دہلوی رح فرماتے ہیں:

اس میں شک نہیں کہ ان چاروں مذاہب کی اب تک تقلید کے جائز ہونے پر تمام امت کا یا جن کی بات کا اعتبار کیا جاسکتا ہے، اجماع ہے. اس لئے کہ یہ مدون ہوکر تحریری صورت میں موجود ہیں اور اس میں بھی جو مصلحتیں ہیں وہ بھی مخفی نہیں. خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں بہت ہی زیادہ پست ہوچکی ہیں اور ہر صاحب_راۓ اپنی ہی راۓ پر نازاں ہے.[حجة الله البالغة:١/١٥٤؛ طبع مصر]





بزرگوں(سلفِ صالحین) پر اعتماد کرنا ہی اصل شریعت ہے:

اپنے اسلاف پر اعتماد کرنا اور ان کے ساتھ حسن_ظن کا معاملہ رکھنا وہ دولت ہے، جس کے صدقے میں آج دین اپنی صحیح شکل میں ہمارے ہاتھ میں محفوظ ہے. اسی بات کو حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رح نے بیان فرمایا:

معرفتِ شریعت (شریعت کی پہچان) میں تمام امت نے بالاتفاق "سلف" (گذرے ھوتے نیک بزرگوں) پر اعتماد کیا ہے، چناچہ تابعین نے صحابہ_کرام پر اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا اسی طرح بعد والے علماء اپنے متقدمین(گزشتہ نیک لوگوں) پر اعتبار کرتے آۓ. اور عقل_سلیم بھی اسی کو اچھا سمجھتی ہے کیونکہ شریعت بغیر نقل اور استنباط کہ معلوم نہیں ہوسکتی اور نقل اس وقت صحیح ہوگی جب بعد والے پہلے والوں سے اتصال (متصل-و-مسلسل) لیتے چلے آئیں.[عقدالجید:٣٦]



حضرت شاہ ولی الله محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:

اور (تبع تابعین) صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے اقوال سے استدلال کیا کرتے تھے، کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ اقوال یا تو احادیث ہیں جو منقول ہیں رسول الله صلے الله علیہ وسلم سے جن کو مختصر کرکے موقوف بنالیا ہے، یا یہ اقوال حکمِ منصوص (Clear Statement) سے حضراتِ صحابہ و تابعین کے استنباط (نکالے گئے) ہیں، یا ان کی راویوں سے بطورِ اجتہاد لئے گئے ہیں، اور حضرات صحابہ و تابعین ان سب باتوں میں ان لوگوں سے بہتر ہیں جو ان کے بعد ہوتے، صحت تک پہنچنے میں اور زمانہ کے اعتبار پیشتر اور علم کے لحاظ سے بڑھ کر ہیں. اس لئے ان کے اقوال پر عمل کرنا متعین ہوا.
[الانصاف: ٢٠-٢١]





[9/15, 2:28 AM] Uzair Muzaffar Memon: *اجتہاد کی حقیقت:*

اجتہاد ذوق کا نام ہے کوئی بہت سی کتابیں پڑھنے سے مجتہد نہیں ہوتا۔
(مزید المجید: ص5)
(اجتہاد)کا حاصل شریعت کے ساتھ خواص ذوق کا حاصل ہوجانا ہے جس سے وہ مُعلِّل اور غیرمعلل کو جان سکے، اور وجوہِ دلالت یا وجوہِ ترجیح کو سمجھ سکے، اور یہ اجتہاد ختم ہوگیا۔ جیسے محدث درجہ عبور میں ہر شخص ہوسکتا ہے لیکن کمال اس کا بعض افراد پر ختم ہوگیا اب کوئی محدث موجود نہیں۔
(الافاضات: ص215)
آج کل تو اجتہاد اس قدر سستا ہوگیا ہے کہ ہر شخص مجتہد ہے جس کو دیکھو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے الگ بیٹھا ہے (گویا) اب اجتہاد کے لیے علم کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ حضراتِ فقہاء کے اللہ درجات بلند فرمائے انہوں نے ہمارے ایمانوں کو سنبھال لیا۔
(حسن العزیز: ص356)


*اجتہاد کا ثبوت:*

بعض کے نزدیک اجتہاد کوئی چیز ہی نہیں، علاوی نص کے ان کے نزدیک کوئی حکم ہی ثابت نہیں حالانکہ احادیث میں اس کے ثبوت ملتے ہیں۔ دیکھئے: حضرت عمر نے حضرت ابوہریرہ کو بشارت سے روک دیا اور یہ روکنا عندالله مقبول رہا حالانکہ حضرت عمر کی رائے کو قولے رسول اللہ ﷺ پر ترجیح نہیںمگر ان کے ذوق اجتہادی نے ہی بتا دیا تھا کہ یہ بشارت نظمِ دین میں مخل(رکاوٹ) ہوگی۔ اور باوجود وحریرا کے دلیل پیش کرنے کے اس شدومد سے تردید کی کہ ان کو دھکا دے کر گرا بھی دیا اور نبی کے سامنے یہ سارا قصہ پیش ہوا تو نبی کے نزدیک حضرت عمر مجرم کیوں نہیں ہوئے۔ اس قصے سے اجتہاد کا بدیہی ثبوت ملتا ہے۔
(حسن العزیز: ص358)

جب حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دین کو کامل کردیا گیا تو چاہیے کہ کوئی صورت ایسی نہ ہو جس کا حکم شریعت میں نہ ہو اور ظاہر ہے کہ احکامِ منصوصہ بہت کم ہیں تو تکمیلِ دین کی صورت بجز اس کے اور کیا ہے کہ قیاس و استنباط کی اجازت ہو کہ انہی مسائلِ منصوصہ پر غیرمنصوصہ کو قیاس کرکے ان کا حکم معلوم کرلیں۔

(اشرف الجواب:2/129)



*اجتہاد کی اجازت:*

اجتہاد کی اجازت قرآن وحدیث سے ثابت ہے کیونکہ اگر اجتہاد کی اجازت نہ ہوتی تو قرآن و حدیث میں کُلّیات مذکورہ نہ ہوتے بلکہ جُزئِیات مذکور ہوتے۔ بس س کُلّیات کا مذکور ہونا اور جُزئِیات کا زیادہ مذکور نہ ہونا اجازتِ اجتہاد کی دلیل ہے۔ ورنہ بتلاؤ پھر اس صورت میں جُزئِیات کا حکم کیسے معلوم کیا جائے گا یہ دلیل منکرین پر بڑی حجت ہے تعجب ہے کہ وہ ایسے صریح مقدمات کے نتیجے سے انکار کرتے ہیں۔
(التبلیغ:8/83)



*اجتہاد کا طریقہ:*

اس اجتہاد کی صورت یہ ہے کہ غیر منصوص پر منصوص کا حکم جاری کیا جاتا ہے، اس تشابہ(عِلّت) کی وجہ سے جو دونوں میں پایا جاتا ہے۔ جو اشتراک ہوتا ہے کسی وصف میں جس غیر منصوص میں وہ وضف پایا جائے گا منصوص کا حکم وہاں بھی متعدی کیا جائےگا۔ اس طرح جزئیات غیر منصوصہ کا حکم معلوم ہو جائے گا۔
(التبلیغ:8/83)



*اجتہاد اب بھی باقی ہے*

ہم اب بھی ان جُزئِیات میں اجتہاد کی اجازت دیتے ہیں جو مُدوّن نہیں مگر ان یا غیرمدونہ میں بھی ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت نہیں ہوسکتی تا وقت یہ کہ وہ اس کا اہل نہ ہو۔
(التبلیغ:8/83)
[9/15, 2:50 AM] Uzair Muzaffar Memon: *حضور ﷺ بھی استاد فرماتے تھے اور آپ کا اجتہاد وہی کے حکم میں ہے*
یہ نہ سمجھا جائے کہ آپ ﷺ اجتہاد نہیں فرماتے تھے مگر وہ اجتہاد بھی مآلاً احکام وحی میں داخل ہے کیونکہ جس اجتہاد کو قائم رکھنا نہ ہوتا تھا اور وحی سے منسوخ کر دیا جاتا تھا، پس جو منسوخ نہ ہوا وہ بھی وحی منصوص بن گیا۔
(التبلیغ:1/44 ذکر الرسول)



*ملائکہ بھی اجتہاد کرتے ہیں*

(واقعہ حدیث القاتل: التائب من الذنب) میں غلبہ اثرِ معصیت یا توبہ میں اختلاف تھا، اس لئے ملائکہ نے اجتہاد کیا جو فیصلے کے وقت ایک غلط بھی ثابت ہوا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا ہکہد کرتے ہیں اور ان کا اجتہاد غلط بھی ہوتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ملائکہ کو بعض اوقات قواعدِ کُلّیہ بتا دیے جاتے ہیں جب ہی تو ان کو اجتہاد کی نوبت آئی۔
(ملفوظات: ص70)



*مجتہد کسے کہتے ہیں*

مفتی صاحب نے پوچھا کہ مجتہد کس کو کہتے ہیں جبکہ ایک شخص کو مسئلہ کا علم دلیل سے ہے تو اس مسئلہ کا یہ بھی مجتہد ہے پھر یہ کیسے کہا جائے گا کہ ایک مجتہد کو دوسرے مجتہد کی تقلید لازم ہے؟ جواب دیا کہ لغت میں ہر شخص کچھ نہ کچھ مجتہد ہے اس بنا پر تو تقلید سے آزاد کرنے کا انجام شام یہی ہے کہ تقلید بالکل نہ رہے حالانکہ یہ بلا نکیر جاری ہے۔ اس کی ایک مثال ہے کہ مالدار ہمارے عرف میں کس کو کہتے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص مالدار ہے میں پوچھتا ہوں ایسا کون شخص ہے جو مالدار نہیں، لغت تن مالدار وہ شخص بھی ہے جس کے پاس ایک پیسہ یا ایک پھوٹی کوڑی بھی ہو جو احکام مال داروں کے ساتھ متعلق ہیں دنیا کے ہو یا دین کے ہر ہر شخص پر جاری ہونے چاہئے، زکوۃ کا مطالبہ بھی ہونا چاہئے اور خراج محصول بھی بادشاہ کو ہر شخص سے لینا چاہئے۔ *"فما ھو جوابکم گھر جوابنا".*
اسی طرح لُغتاً ہر شخص مجتہد سہی لیکن وہ مجتہد جس پر احکامات جاری ہو سکیں اس کے واسطے کچھ شرائط ہیں جن کا حاصل شریعت کے ساتھ ایک خاص ذوق حاصل ہوجاتا ہے۔
(حسن العزیز: ص356)



مجتہد کی بنیادی اقسام:

مجتہد دو قسم پر ہیں: ایک مطلقاً، جو نصوص سے اصول کا استنباط کر سکے۔ دوسرے مقید کہ وہ ان اصول سے فروع کا استنباط کر سکے یعنی اصول اوّلیہ سے اصول ثانویہ کا استاد کر سکے۔ اور اصول اولیہ اکثر نہیں ٹوٹتے، اور اصول ثانویہ بکثرت ٹوٹ جاتے ہیں۔
(کلمۃ الحق: ص112)




No comments:

Post a Comment