Wednesday, 23 May 2012

حق و باطل میں فرق کی صلاحیت تقوٰی سے ۔۔۔ سورۃ الانفال:29


حق و باطل میں فرق(1) تقویٰ کے ذریعے:
القرآن:
اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کے ساتھ تقویٰ کی روش اختیار کرو گے تو وہ تمہیں (حق و باطل کی) تمیز عطا کردے گا (17) اور تمہاری برائیوں کا کفارہ کردے گا، اور تمہیں مغفرت سے نوازے گا، اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔
[سورۃ الانفال:29]
یعنی تقویٰ کی یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو ایسی سمجھ عطا کردیتا ہے جو حق اور ناحق میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور گناہ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی عقل خراب کردیتا ہے جس سے وہ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔

قرآن پاک کا ایک امتیازی نام ”الفرقان“ ہے۔
وانزل الفرقان
اور اسی نے حق و باطل کو پرکھنے کا معیار نازل کیا۔
[سورة آل عمران:4]
تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ
بڑی شان ہے اس ذات کی جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کا فیصلہ کردینے والی یہ کتاب نازل کی
[سورة الفرقان:1]
فرق کے معنی دو چیزوں کے درمیان فصل کرنا خواہ وہ فصل آنکھوں سے دکھائی دے یا دل سے ادراک کیا جائے [مفردات القرآن] یعنی قرآن مجید بنی آدم کوایسے احکام وتعلیمات سے آگاہ کرتا ہے کہ جن سے ایمان وکفر، حق وباطل اور مطیع وعاصی کے درمیان ایک حد فاصل پیدا ہوجاتا ہے اور اس سے حق یعنی اسلام کا پسندیدہ ومقبول ہونا اور غیراسلام کاباطل ومردود ہونا عیاں ہوجاتا ہے. لیحق الحق ویبطل الباطل اور اُس فرقان پر صحیح عمل کرنے والوں کوایسی شان عطا کرتا ہے جس سے وہ دوسروں سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔




تقویٰ والے(متقی/پرہیزگار)کون؟

القرآن:

جو (1)بےدیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں  (2)اور نماز قائم کرتے ہیں (3)اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 3]

القرآن:

جو خوشحالی میں بھی اور بدحالی میں بھی (اللہ کے لیے) مال خرچ کرتے ہیں، (4)اور جو غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کردینے کے عادی ہیں۔ اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 134]

القرآن:

جو دیکھے بغیر اپنے پروردگار سے ڈریں، اور جن کو قیامت کی گھڑی کا خوف لگا ہوا ہو۔

[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 49]


تقوی کے معنی وحقیقت، فضائل اور تقاضے

https://raahedaleel.blogspot.com/2022/11/blog-post.html




حق و باطل میں فرق(2)دعا کے ذریعے:
 دعائے نبوی ﷺ:
اے میرے الله! ہمیں حق دکھا حق (کرتے/ہوتے) اور اس (حق) کی اتباع کی توفیق عطا فرما، اور باطل دکھا باطل (ہوتے) اور اس (باطل) سے ہمیں بچا، ایسا نہ ہو کہ حق و باطل ہم پر خلط ملط ہوجاۓ اور ہم بھک (گمراہ) جائیں. اے الله! ہمیں متقی (پرہیزگار) لوگوں کا امام بنا.
[تفسیرِ ابنِ کثیر: سورۃ البقرۃ:213]




جب نبی ﷺ رات کو(تہجد کیلئے)اٹھتے تو نماز کا آغاز(اس دعا سے)کرتے:
اے اللہ ! جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب ! آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والے ! پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے ! تیرے بندے جن باتوں میں اختلاف کرتے تھے تو ہی ان کے درمیان(قیامت میں)فیصلہ فرمائے گا، جن باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے تو ہی اپنے حکم سے مجھے ان میں سے جو حق ہے اس پر چلا ، بے شک تو ہی جسے چاہے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔
[صحیح مسلم:1811(770)]



ہدایت اور گمراہی:
قرآن مجید کی واضح ادھوری آیتوں سے گمراہی کی دلیل نکالنا ممکن ہے۔
جیسے:
لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ...مت قریب جاؤ نماز کے
اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ...عمل کرو جو چاہو تم
فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ...تو عبادت کرو جس کی چاہو تم

قرآنی گواہی:
۔۔۔اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو ھدایت دیتا ہے اور اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، اور نہیں وہ(الله)گمراہ کرتا اس کے ذریعے سے مگر نافرمانوں ہی کو۔
[سورۃ البقرۃ:26]



گمراہی کی دلیل پکڑنے کا طریقہ:
قرآن مجید کا جو معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر الله کے رسول کے صحابہ سے اماموں نے بیان نہیں کیا، بعد کے کسی شخص نے کیا، تو وہ جدید معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر غلط اور گمراہی کی ہے۔
دلیلِ قرآن:
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت(قرآن) واضح ہونے کے بعد بھی رسول(سنت) کی مخالفت کرے، اور مومنوں(یعنی صحابہ کی جماعت-اجماع) کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
[سورۃ النساء:115]
قرآن کے مطابق رسول اور سارے مؤمنین(جو اس وقت صحابہ تھے)کے راستہ کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے۔
اور
صحابہ میں خاص خلفاء کی مخالفت کی بڑی برائی ہے۔




معیاِر حق : علمِ دین میں صحابہ کرامؓ کا فہم
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابنِ عباسؓ سے دریافت فرمایا:
اس امت کا جب نبی ایک، قبلہ ایک، کتاب ایک تو اس میں اختلاف کیوں کر پیدا ہوگا؟
تو حضرت ابنِ عباسؓ نے جواب دیا:
اے امیر المومنین! قرآن ہمارے سامنے اترا ہے، ہم تو اس کے مواردِ نزول کو اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن آئندہ ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن تو پڑھیں گے مگر انھیں صحیح طور پر اس کے موادر و مصادر (یعنی جس کیلئے جو آیات وارد و صادر ہوئیں ) کا علم نہ ہوگا پھر اس میں (بےعلم ہوتے ہوۓ بھی) اپنی طرف سے راۓ زنی شروع کریں گے اور اٹکل کے تیر چلائیں گے. اس لئے ان میں اختلاف ہوجاۓ گا اور جب اختلاف ہوگا تو لڑائیاں ہوں گی. شروع میں تو اس خیال سے حضرت عمرؓ نے اتفاقِ راۓ نہ کیا لیکن غور  کرنے کے بعد انھیں بھی حضرت ابنِ عباسؓ سے اتفاقِ راۓ کرنا پڑا۔





قرآن مجید سے دھوکہ دینے والوں کو پہچاننے کا طریقہ:
صحابہ وتابعین کا علمِ تاویل:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ الله نے منکرین تقدیر کے ایک مغالطے (کہ قرآن کریم میں ایسی آیات بھی موجود ہیں جن سے تقدیر تک کی نفی معلوم ہوتی ہے) کو دور کرنے کے لیے یہ ارشاد فرمایا:
لَقَدْ قَرَءُوا مِنْهُ ﴿يَعْنِي الصَّحَابَةَ﴾ مَا قَدْ قَرَأْتُمْ، وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ، ثُمَّ قَالُوا بَعْدَ ذَلِكَ: كُلُّهُ كِتَابٌ وَقَدَرٌ
ترجمہ:
ان لوگوں ﴿یعنی صحابہ کرام﴾ نے بھی یہ آیتیں پڑھی ہیں جن کو تم پڑھتے ہو، لیکن وہ ان کی تاویل(تفسیر و مطلب) کا علم رکھتے ہیں جس سے تم ناواقف ہو، اور انہوں نے یہ سب آیات پڑھنے کے باوجود تقدیر کا اقرار کیا ہے۔
[سنن أبي داود:4612، الشريعة للآجري:529﴿532﴾]





تقویٰ کے انعامات:
معیاِر حق، ایمان و ہدایت : اصحاب رسول الله
http://raahedaleel.blogspot.com/2012/11/blog-post_7.html




حق(سچ)کیا ہے؟
(1) کسی چیز کا اس طرح موجود، واقع اور ثابت ہوجانا کہ اس سے انکار نہ کیا جاسکے۔
جیسے:
الله۔۔۔[حوالہ،سورۃ یونس:30، الحج:62، لقمان:30]
رسول۔۔۔[آل عمران:86]
قرآن۔۔۔[سبا:6]
دین۔۔۔[التوبہ:33]




(2) جس پر باطل(جھوٹ/ناحق)کا لباس ڈال کر چھپادیا جاتا ہو۔
[البقرۃ:42 آل عمران:71]



(3) جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہو۔
جیسے:
آسمانوں اور زمین کا پیدائش، دن رات کا اختلاف، سورج چاند کو روشن اور مسخر بنانا۔۔۔[یونس:5 الروم:8]
رسولوں کا بھیجنا۔۔[البقرۃ:119]
کتاب کا اتارنا۔۔۔[البقرۃ:213]
فرشتوں کو اتارنا۔۔۔[الحجر:8]
ظالم(ناحق قتل کرنے والے) کو قتل کرنا
[الاسراء:33]
موت کا آنا۔۔۔[ق:19]
قیامت کی چیخ۔۔۔[ق:42]



(4)جو باطل(جھوٹ)کو مِٹا سکے۔
[الانبیاء:18 الاسراء:81]



(5)جو  اکثریت کو ناپسند ہو۔
[المومنون:70 الزخرف:9]



(6)جس کے پیچھے کافر نہ چلیں۔
[محمد:3]



ادھوری بات غلط فہمی کا سبب بنتی ہے

امام ابو جعفر طحاویؒ نے ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک صاحب نے کہا ’’من يطع الله ورسوله فقد رشد ومن يعصهما‘‘ (جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت یاب ہوا اور جس نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی) ۔ یہ کہہ کر اس نے بات موقوف کر دی اور جملہ مکمل نہیں کیا۔ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ فرما کر ڈانٹ دیا کہ ’’ئس الخطيب انت، قم‘‘ تم برے خطیب ہو، اٹھ جاؤ۔
[سنن أبي داود:4981+1099]

اس پر امام طحاویؒ نے لکھا ہے کہ ادھوری بات نہیں کہنی چاہیے کیونکہ مطلب بدل جاتا ہے۔ اب یہاں اگر ’’ومن عصاھما فقد رشد‘‘ کہہ کر جملہ مکمل نہیں کیا تو آخری جملہ پہلے کے ساتھ شمار ہو گا اور معنی یہ بنے گا کہ جس نے اللہ اور رسول اکرمؐ کی نافرمانی کی تو وہ بھی ’’فقد رشد‘‘ کے زمرہ میں شمال ہو جائے گا، یعنی جس نے فرمانبرداری کی وہ ہدایت پا گیا اور جس نے نافرمانی کی وہ بھی (نعوذ باللہ) ہدایت پر ہے۔

اس حوالے سے ایک بات میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں بعض دانشوروں اور مفکرین کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ بات مکمل نہیں کرتے، ادھوری اور صرف اپنے مطلب کی بات کر دیتے ہیں جس سے کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب ان سے وضاحت کا کہا جاتا ہے تو وہ کسی اور تحریر کا حوالہ دے دیتے ہیں کہ باقی بات وہاں دیکھ لیں۔ کسی مسئلہ پر مکمل بات نہ کرنا اور صرف اپنے مطلب کا پہلو ذکر کر کے آگے بڑھ جانا الجھن اور کنفیوژن کا باعث بنتا ہے، تقریر اور تحریر دونوں میں اس سے گریز کرنا چاہیے اور جو مسئلہ بھی بیان کیا جا رہا ہو اس کے ضروری پہلو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے، یہی بات ہمارے درس و تدریس میں ’’دفع دخل مقدر‘‘ کہلاتی ہے۔


اللہ تعالیٰ کی مبغوض ترین مخلوق … خوارج
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام عبید اللہ بن ابی رافع بیان کرتے ہیں کہ:
أَنَّ الْحَرُوْرِیَّۃَ لَمَّا خَرَجَتْ وَھُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ قَالُوْا: لَا حُکْمَ
إِلاَّ لِلّٰہِ۔ قَالَ عَلِيُّ: کَلِمَۃُ حَقٍّ أُرِیْدُ بِھَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَصَفَ نَاسًّا إِنِّيْ لَأَعْرِفُ صِفْتَھُمْ فِيْ ھٰؤُلَائِ، یَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِھِمْ لَا یَجُوْزُ ھٰذَا مِنْھُمْ ــ وَأَشَارَ إِلیٰ حَلْقِہِ ــ مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللّٰہِ إِلَیْہِ۔
ترجمہ:
’’ حروریہ جب نکلے اور میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو حروریہ نے کہا: لا حکم الا للہ (یعنی اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
یہ کلمہ حق ہے مگر ان کا ارادہ باطل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کے وصف بیان کیے تھے، یقیناً میں ان میں ان کی صفات کو بخوبی پہچانتا ہوں اپنی زبانوں سے حق کہیں گے مگر حق اس جگہ(حلق) سے تجاوز نہیں کرے گا اور اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا، اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے ہاں یہی ہیں۔‘‘
[صحیح مسلم » کتاب الزکاۃ » باب: التحریض علی قتل الخوارج، حدیث نمبر 2468]

شرح …:
خوارج جمع ہے خارجۃ کی بمعنی گروہ، مراد وہ بدعی قوم ہے جن کو دین سے اور مسلمانوں کی جماعت اور امرائے اسلام کے خلاف خروج کرنے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا۔
ان کی اصلی بدعت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف تھی پھر یہ عقیدہ بنا لیا کہ جن لوگوں کے عقائد ہمارے جیسے نہیں وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ان کے مال و دولت اور گھر والے حلال ہیں۔ چنانچہ بالفعل ایسا کام کیا اور جو مسلمان ان کے پاس سے گزرتے انہیں بے دریغ قتل کرتے رہے۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مقرر کردہ اس علاقہ کے گورنر عبد اللہ بن خباب بن ارت اپنی حاملہ لونڈی کے ساتھ ان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے عبد اللہ کو قتل کردیا اور لونڈی کا پیٹ پھاڑ دیا بچہ اور ماں دونوں ہی مرگئے چنانچہ یہ بات حضرت علی کو پہنچی تو لشکر لے کر نہروان کے مقام پر ان کو جا پکڑا۔
مسلمانوں کے قریباً دس آدمی شہید ہوئے اور خارجیوں کے دس سے کم آدمی باقی بچے۔
خوارج علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں روپوش رہے اور اپنی قوت جمع کرتے رہے حتیٰ کہ ان کا ساتھی عبد الرحمان بن ملجم، جس نے علی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا، وہ صبح کی نماز میں مسجد میں ہی تھا مگر کسی کو پہچان نہ ہوسکی اور جب حضرت معاویہ اور حضرت حسن کی صلح ہوئی تو ایک گروہ نے پھر سر اٹھایا۔ چنانچہ ’’ نجیلہ ‘‘ کے مقام پر شامی لشکر نے جنگ کرکے انہیں پھر روپوش ہونے پر مجبور کردیا۔
جب تک معاوی رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے یزید کی حکومت رہی اور عراق کا گورنر زیاد اور اس کا بیٹا عبید اللہ رہا
تو اس وقت تک چھپے رہے، اسی دوران زیاد اور اس کے بیٹے نے خارجیوں کے ایک گروہ پر حملہ کیا اور انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور لمبی لمبی قیدیں سنائیں۔
یزید کی وفات کے بعد اختلاف ہوا اور خلافت کی زمام عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے ہاتھ آئی چنانچہ بعض شامیوں کے علاوہ باقی سب شہروں نے ان کی اطاعت کو قبول کیا لیکن مروان نے حملہ کرکے شام کا پورا علاقہ مصر تک فتح کرلیا۔ اسی اثناء میں عراق میں خارجی نافع بن ازرق اور یمامہ میں نجدہ بن عامر کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔
نجدہ نے خارجیوں کے عقائد میں اس عقیدے کا اضافہ کردیا کہ اگرچہ کوئی انسان ہمارے عقائد کا حامل ہو مگر وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیتا تو وہ کافر ہے نیز چور کا ہاتھ بغل تک کاٹا جائے گا، حیض کے دنوں کی رہی ہوئی نمازیں عورت کو بعد میں پڑھنا ہوں گی اور انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قادر ہونے کے باوجود نہیں کرتا تو وہ کافر ہے اور جو قدرت نہیں رکھتا وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔ ان کے نزدیک کبیرہ کا مرتکب بھی کافر ہی ہے۔
ان لوگوں نے ذمیوں کے مال و دولت کو اور مشرکین سے قتال کو چھوڑ دیا اور جو لوگ اسلام کی طرف نسبت رکھتے تھے ان سے لڑنا اور جھگڑنا شروع کردیا، ان کو قتل کرنا، قیدی بنانا اور مال لوٹنا درست قرار دیا۔ خارجیوں پر کڑے وقت آتے رہے حتیٰ کہ مہلب بن ابی صفرہ کو ان کے خلاف لشکر دے کر بھیجا گیا، مقابلہ ہوا اور خارجیوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کی تعداد آٹے میں نمک کی طرح رہ گئی لیکن بعد میں یہ لوگ پھر آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوگئے اور خارجیوں سے کئی فرقوں نے جنم لیا۔ چنانچہ ابن حزم l کا بیان ہے: ان کے سردار نجدہ بن عامر کے عقائد حسب ذیل تھے (۱) جو صغیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اسے آگ کے علاوہ کوئی اور سزا دی جائے گی (۲) جس نے چھوٹے گناہ پر ہمیشگی کی تو اس کی سزا کبیرہ گناہ والے کی طرح ہمیشہ آگ میں رہنا ہے اور بعض خارجی تو اپنے فاسد عقائد میں اتنے بڑھ گئے کہ نمازوں کا انکار کر بیٹھے، صرف صبح اور شام کی نماز پڑھنے کے قائل رہے، بعض خارجیوں نے اپنی پوتی، بھتیجی اور بہن سے نکاح تک جائز قرار دیا۔ بعض نے قرآنی سورت یوسف کا انکار کردیا اور ان کے ہاں جس نے زبان سے لا الہ الا اللہ کہا خواہ وہ دل سے کفریہ عقائد رکھتا ہو تو وہ اللہ کے ہاں مومن شمار ہوگا۔
[فتح الباری: ص ۲۸۳۔ ۲۸۶، ج ۱۲/ نووی شرح مسلم ص ۱۶۹۔۱۷۰،ج ۷]









حق بات تو شیطان بھی بتادیتا ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے (کھجوریں) سمیٹنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر انہوں نے یہ پورا قصہ بیان کیا (جو صدقہ فطر چرانے آیا تھا) اس نے کہا کہ جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، پھر صبح تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے پاس بھی نہ آ سکے گا۔ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ سے بیان کی تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے تمہیں یہ ٹھیک بات بتائی ہے اگرچہ وہ بڑا جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔

[صحيح البخاري:3275+5010]

نوٹ:
حق قبول کرنا چاہئے، لیکن حق کے علاوہ جھوٹے کی باتیں بغیر تحقیق قبول کرنا جائز نہیں.

تفصیلی واقعہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔
[صحيح البخاري:2311]

فضائل اور تفاسیر آیة الکرسی







سچے اور جھوٹے کی پہچان:
قربِ قیامت کی نشانیوں میں۔۔۔۔دھوکہ کا زمانہ آنے کی پیشگوئی دیتے فرمایا کہ اس زمانہ میں سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا قرار دیا جائے گا، امانتدار کو خائن اور خیانت کرنے والے کو امین قرار دیا جائے گا۔
[سنن ابن ماجه:4036، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1887]
لہٰذا
قرآنی ہدایات کی روشنی میں سچوں کی پہچان کیلئے جو ظاہری معیار بتائے گئے ہیں، مومن کیلئے وہی معیار سب سے پہلے ہیں۔
کہ
جو رب سے سچا نہیں، وہ سب سے سچا نہیں۔ جو ظاہر میں سچا نہیں، باطن میں بھی سچا نہیں۔


سچے اور پرہیزگار لوگوں کے ظاہری اعمال-عادات:
قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ کی آیت 177 میں ایمانیات کے بعد درج ذیل ظاہری اعمال-عادات بتائی گئی ہیں:
(1)نماز کی پابندی کرنے والے:
کیونکہ جو لوگ نماز کے الفاظ کے معانی سمجھتے کی کوشش کرتے۔۔۔۔یا رب دیکھ رہا ہے سمجھتے ہوئے دھیان وتوجہ سے نماز کو پڑھتے ہیں۔۔۔۔اور پابندی سے وقت پر پڑھتے ہیں۔۔۔
تو نماز انہیں (اعلانیہ)بےحیائی اور (خفیہ)برائی سے روکتی ہے۔۔۔۔اور جو نماز کی پابندی نہیں کرتے وہ بےحیائی اور برائی کے پابند بن جاتے ہیں۔

(2)زکوٰۃ دینے والے:
جسم کی زکاۃ روزہ ہے۔۔۔۔زبان کی زکاۃ ذکر ہے۔۔۔۔۔اور مال میں فرض زکاۃ کے قابل نہ ہو تو وہ اللہ کے عطا کردہ رزق میں سے کچھ نہ کچھ، خوشحالی اور تنگی ہر حال میں، خرچ کرتے رہتے ہیں۔ 

(3) اپنے وعدے پورے کرنے والے:
خالق سے وعدہ اسے ہی رب ماننا ہے یعنی کسی مخلوق کو نفع نقصان کا مالک اور پکار وعبادت کے قابل نہ ماننا ہے
اور مخلوق سے کئے گئے وعدے  بھی پورے کرنے لازم ہیں۔

(4) دین کی حفاظت کیلئے لڑنے والے صابر ہیں۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:177]
یعنی اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں
[حوالہ سورۃ الحشر:8]

[قرآنی شاہدی-سورۃ الحجرات:15]

(5)یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں، اب ہمارے گناہوں کو بخش دیجیے، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔
(اور سحری کے وقت بخشش مانگنے والے ہیں۔)
[سورۃ آل عمران:16(17)]
اس مضمون کی دعائیں علماء اور ان کی صحبت میں رہنے والے ہمیشہ مانگتے رہتے ہیں۔
لہٰذا

سچے لوگوں کی صحبت-ساتھ رہنے کا حکم بھی دیا۔

[حوالہ سورۃ التوبہ:119]

جتنا زیادہ نیک اتنا زیادہ سچا، پرہیزگار اور معتبر ہوگا۔۔۔۔دوسری صورت میں اتنا ہی زیادہ نافرمان، برا، جھوٹا اور ناقابلِ اعتبار ہوگا۔

رب کی ہدایت پر قائم لوگوں کی نشانیاں



=============================
امت مختلف مذاہب اور فرقوں میں پریشان کیوں؟


جواب:

(1)ھدایتِ قرآن کی مخالفت کے سبب:
القرآن:
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ، اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ۔
[سورۃ البقرۃ:42]
اے اہلِ کتاب! تم سچ کو جھوٹ کے ساتھ خلط ملط کیوں کرتے ہو اور حق کو کیوں چھپاتے ہو اور تم جانتے بھی ہو۔
[سورۃ آل عمران:71]


(2)ناجائز خواہشات کے پیچھے چلنے کے سبب:
القرآن:
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) الله نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب الله کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟ 
[سورۃ الجاثیۃ:23]


(3)غیرماہر کی ماننے کے سبب:
سو پوچھو علم والوں سے اگر تم کو معلوم نہیں.
[سورۃ النحل:43، الانبیاء:7، ابراہیم:43]
اور مت چل خواہشوں پر (اس کی) جو علم نہیں رکھتے.
[سورۃ ھود:89، الجاثیۃ:18]


(4) سچے اور جھوٹے کی تمیز کیلئے، بغیر آزمائش و امتحان کے، ایمان وجنت میں داخلہ کے گمراہانہ نظریہ کے سبب:

القرآن:
کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی.
[٢٩:٢ + ٩:16 + ٢٣:١١٢]
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (بےآزمائش) بہشت میں جا داخل ہو گے...
[٣:١٤٢ + ٤٧:٣١]

کافروں کو خطاب:
کیا انسان خیال کرتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟[٧٥:٣٦]
کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی (بکھری ہوئی) ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟[٧٥:٣]


=============================
حق و باطل میں امتیاز کیجئے!
حق اور اہلِ حق، باطل اور اہلِ باطل کی پہچان اور امتیاز کے لئے چند قواعد کو ذکر کیاجاتا ہے، امید ہے قارئین کو ان کے پڑہنے سے انشاء اللہ فائدہ ہوگا.

قاعدہ نمبر: 1
ایک ہوتی ہے علمی غلطی اور ایک ہوتی ہے عملی غلطی. دونوں کا انجام خطرناک ہے.
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ جن لوگوں کاعمل غلط ہوگیا ہو اور وہ عملی غلطی میں مبتلا ہوگئے ہوں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ان کو کسی وقت غلط عمل کے مقابلہ میں صحیح عمل کا مشاہدہ ہوجائے اور وہ صحیح عمل کی حقیقت کا ادراک کرلیں تو توبہ کرکے اس غلط عمل کو چھوڑ کر صحیح عمل پر آجائیں گے، مثلاً: ایک سیدھا سادھا ان پڑھ گمراہی میں مبتلا یا فاسق و فاجر آدمی ہے اور وہ کسی غلط عمل میں پڑا ہوا ہے، لیکن جب وہ قرآن و حدیث کے مطابق صحیح عمل کو دیکھ لیتا ہے اور اس کی حقیقت کو پالیتا ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرلیتا ہے، اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہوئے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں.
اس کے مقابل جن لوگوں کاعلم غلط ہوگیا اور وہ علمی غلطی کا شکار ہوگئے ہیں تو وہ گمراہی کی ایسی تاریک وادی میں جاکر پھنس جاتے ہیں کہ وہاں سے ان کا نکلنا مشکل ہوجاتا ہے، بلکہ ان کو راہ راست پر آنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی.

قرآن و حدیث اور تاریخی و مشاہداتی واقعات کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتا ہے کہ بہت سے گروہ اسی طرح علمی غلطی کا شکار ہیں. اپنے غلط علم کی وجہ سے وہ قرآن کریم اور احادیث مقدسہ کے واضح اور صحیح مطالب کو الٹ پلٹ کرکے اس میں کھینچا تانی کرتے ہیں اور تحریف کی حد تک جاکر ان نصوص کو اپنے غلط علم کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں. چنانچہ سینکڑوں آیات و احادیث اور فقہ کی جزئیات میں یہ حضرات تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں. لہذا اہل حق طبقہ، اہل باطل کی قرآن و حدیث کی تحریفات کو اسی تناظر میں دیکھے اور سادہ لوح عوام کو بتائے کہ ان بیچاروں کا علم غلط ہوگیا ہے، جس کی بنیاد پر وہ غلط عقیدہ پر جم گئے ہیں.
---------------
قاعدہ نمبر: 2
ہر انصاف پسند اور حق کے متلاشی انسان کو چاہئے کہ قبول حق کے لئے پہلے وہ اپنے ذہن کو بالکل خالی رکھے اور پھر حق کو تلاش کرے.
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ انسان جب اپنے ذہن کوخالی رکھتا ہے اور پھر حق کامتلاشی رہتا ہے تو وہ قرآن و حدیث سے بہت جلدی ہدایت پالیتا ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق راہ راست پر آجاتا ہے. لیکن یہی انسان اگر پہلے اپنے ذہن میں ایک غلط عقیدہ بٹھالے اور اس پر جم کر قرآن و حدیث کا مطالعہ کرے تو وہ ہدایت کو نہیں پاسکتا ہے، بلکہ غلط عقیدہ پر ڈٹ جانے کی وجہ سے وہ قرآن و حدیث کی نصوص اور واضح ارشادات کو قبول کرنے کے بجائے اس میں جوڑ توڑ کرے گا اور صریح تحریف پر اتر آئے گا، گویا ”خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں،، کامصداق بن جائے گا. ہر خاص و عام مسلمان کو سمجھ لینا چاہئے کہ کچھ حضرات نے پہلے ایک خاص عقیدہ اپنے من گھڑت قصوں، کہانیوں اور قوالیوں سے بنایا، پھر وہ قرآن و حدیث کو اس کی طرف موڑ رہے ہیں. اہل باطل کا ہمیشہ سے اسی طرح کا معاملہ رہا ہے.
---------------
قاعدہ نمبر: 3
قرآن و حدیث کی وہی تشریح معتبر ہے جو سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین سے منقول چلی آئی ہے، کسی نئے شارح کی تشریح کا کوئی اعتبار نہیں ہے.
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جتنے نئے فتنے پیدا ہوئے ہیں یا آئندہ پیدا ہوں گے، اس کی بنیاد اس پر ہے کہ ہر فتنہ انگیز آدمی اپنی ذہنی اختراع اور ذہنی خلفشار کے مطابق قرآن وحدیث کی خود ساختہ تشریح کرنے لگتا ہے اور اس پر ایک فرقہ کی بنیاد قائم کرتا ہے. بہت سے گروہ اسی نامناسب راستے پر گامزن ہیں، ذرا بھی کسی سے بات کرو تو فوراً قرآن کی آیات سے ایک خانہ ساز، اختراعی اور من گھڑت تشریح پیش کردے گا یا اپنا مطلب نکالنے کے لئے قرآن وحدیث میں تحریف کردے گا. ان سے گزارش ہے کہ بھائی! ذرا سوچو تو سہی کہ سلف صالحین ایک آیت سے وہ کچھ نہیں سمجھ سکے جو آج آپ سمجھ رہے ہیں؟ نزول قرآن سے چھ سو سال بعد آنے والے شیخ القادر جیلانی رح کی گیارہویں کو فوراً قرآن سے ثابت کردیتے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر گلی اور ہر محلہ میں کوئی نہ کوئی مجتہد بیٹھا ہوا ہے جو اجتہاد کررہا ہے اور قرآن وحدیث میں تحریف کا گناہ کررہا ہے، آج کل تو دین سے بالکل آزاد طبقہ اجتہاد پر مسلسل زور دے رہا ہے اور خود بھی اجتہاد کرتا چلا رہا ہے.

سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 215
عائز نامی ایک خاتون بیان کرتی ہیں میں نے حضرت ابن مسعودؓ کو مردوں اور خواتین کو یہ نصیحت ارشاد کرتے ہوئے دیکھا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "تم میں سے جو بھی مرد یا عورت فتنے کا زمانہ پائے تو وہ پہلے لوگوں کے طریقے پر عمل کرے کیونکہ تم لوگ دین فطرت (کے ماننے والے ہو)".
---------------
قاعدہ نمبر: 4
کسی نبی کا معجزہ اس نبی کی نبوت کے لئے دلیل ہوتا ہے، اس کی الوہیت کی دلیل نہیں ہوتا.
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھوں بے شمار معجزات ظاہر ہوئے ہیں اور ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سینکڑوں معجزات ظاہر ہوئے ہیں، یہ معجزات آنحضرت صلی اللھ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات کے لئے تھے کہ آپ نبی ہیں. کچھ حضرات نے معجزات کو دیکھ کر نبی پاک صلی اللھ علیہ وسلم کو ایسے اوصاف سے متصف کردیا جو اللہ تعالیا کی صفات ہیں، مثلاً: آنحضرت انے بطور معجزہ مستقبل کی کوئی خبردی تو انہوں نے کہا کہ دیکھو! آنحضرت صلی اللھ علیہ وسلم کس طرح غیب دان ہیں، یا آنحضرت صلی اللھ علیہ وسلم کے ہاتھ سے بطور معجزہ کسی کا زخم ٹھیک ہوگیا یا کنویں میں پانی بھر گیا یا انگلیوں سے پانی جاری ہوا یا کھانا بڑھ گیا تو ان حضرات نے کہہ دیا کہ دیکھو! آنحضرت صلی اللھ علیہ وسلم کس طرح مشکل کشا ہیں، حالانکہ یہ اللہ تعالیا کی جانب سے معجزات تھے جو آنحضرت صلی اللھ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کے دلائل ہیں. اگر یہ مشکل کشائی ہے تو جناب حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں بطور معجزہ مردے زندہ ہوئے تو کیاوہ خدا ہوگئے؟ ہر خاص وعام کو چاہئے کہ وہ اس نا سمجھی کوسمجھیں.
---------------
قاعدہ نمبر: 5
فقہاء کرام نے شریعت کے احکام کوجس طرح اپنی کتابوں میں پیش کیا ہے، ان کواسی طرح قبول کرنا چاہئے، تاکہ تمام تنازعات کاآسانی سے فیصلہ ہوجائے.
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ یہ شریعت کسی خفیہ راستے سے آکر رات کی تاریکی میں ہم تک نہیں پہنچی ہے، بلکہ اس کے کھلے احکامات، کھلے راستے سے غیر مبہم انداز میں ہم تک پہنچے ہیں. قرآن کریم متن اور دستور ہے، احادیث اس کی شرح ہے اور امام ابوحنیفہ. کا اسلامی فقہ اس کے دفعات ہیں. ہمیں چاہئے کہ احناف کے فقہ کے دفعات میں تمام مسائل کاحل تلاش کریں. اگر ہم نے ایسا کیا تو فیصلے تک بآسانی پہنچ جائیں گے، مثلاً: ”ہدایہ،، کے ”باب الاذان،، میں اذان کے جو تمام مسائل بیان کئے گئے ہیں، آیا اس میں اذان سے پہلے ایک خود ساختہ درود پڑھنا ہے یا نہیں؟ اسی طرح جمعہ کے تمام مسائل میں کیا جمعہ کی نماز کے بعد دائرہ کی شکل میں کھڑے ہوکر لاؤ اسپیکر میں ایک خاص اردو، درود لکھاملتا ہے یانہیں؟ کیافقہ کی کتابوں میں "عید میلاد النبی" کا لفظ کہیں ملتا ہے یا عید میلاد النبی کے جلوسوں کا کہیں ذکر ہے یا گیارہویں کا ذکر ملتا ہے یا تیجے اور چالیسویں کاذکر کہیں ملتا ہے؟ اگر نہیں تو یہ حضرات ان چیزوں کو کہاں سے لاتے ہیں؟ فقہاء احناف نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ: اللہ تعالیا کے سوا کسی کو عالم الغیب ماننے سے آدمی کافر ہوجاتاہے. یااللہ تعالیا کے سوا کسی کو حاضر ناظر ماننے سے آدمی کافر ہوجاتاہے. اسی طرح واضح دفعات سے انحراف کرکے ان حضرات نے تنازعات و اختلافات کا دروازہ کھول دیا ہے. اہل حق کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان حضرات نے جب اتنے بڑے فقہاء اور فقہ کی اتنی واضح دفعات کو نظر انداز کردیا ہے تو وہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں. بعض گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ امت میں تنازع فقہ کی وجہ سے ہے، میں کہتا ہوں کہ فقہ کو چھوڑنا تنازعات کی جڑ ہے.
---------------
قاعدہ نمبر: 6
قرآن کریم میں کچھ نصوص متشابہات کے قبیل سے ہیں اور کچھ محکمات کے قبیل سے ہیں(قرآن=٣:٧)، متشابہات(جنکے معنیٰ معلوم یا معین نہیں) کو محکمات(یعنی انکے معنیٰ واضح ہیں) کی روشنی میں سمجھنا چاہئے، نہ یہ کہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے پڑاجائے.
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ مثلاً: قرآن کریم میں بشر کا لفظ محکمات میں سے ہے، جو جنس انسان کے لئے مخصوص ہے، جس سے فرشتوں اور جنات کی جنس اس سے الگ ہوجاتی ہے. انبیاء کرام علیہم السلام کے لئے قرآن و حدیث میں بار بار بشر کا اطلاق کیا گیا ہے، آنحضرت اسے متعلق بھی قرآن و حدیث میں جگہ جگہ بشر کا ذکر ہے. اسی طرح آپ پر نور کا اطلاق بھی کیا گیا ہے، نور کے نام سے یاد کیا گیا ہے، ہدایت اور قرآن کو بھی نور کہا گیا ہے. لہذا نور کے اس محتمل اور متشابہ لفظ کو بشر کے مقابلے میں نہیں لانا چاہئے، بلکہ عمل اور عقیدہ کے اعتبار سے لفظ بشر کو اپنانا چاہئے اور اس محکم کی روشنی میں اس متشابہ کو سمجھنا چاہئے. اس قاعدہ سے بہت ساری الجھنیں دور ہوسکتی ہیں. آنحضرت صلی اللھ علیہ وسلم ہدایت کے چراغ اور نور تھے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے.
---------------
قاعدہ نمبر: 7
بہت ساری بدعات و شرکیات کا ارتکاب معاشرتی اختلاط اور اردگرد کے حالات کو دیکھنے اور سننے سے ہوتا ہے.
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ ہندوستان کی ہندو اقوام کی ہندوانہ رسومات سے بعض بے علم متاثر ہوئے اور انہوں نے ان رسومات کو اپنی معاشرتی، اخلاقی اور عباداتی زندگی میں داخل کردیا. اسی طرح جو مسلمان آتش پرست پارسیوں کے پڑوس میں رہتے تھے، وہ ان کے معاشرتی رسم و رواج میں پھنس گئے. اسی طرح کچھ حضرات نے ان تمام رسومات اور بدعات کو اپنا لیاجو دوسری قوموں کی زندگی کاحصہ تھا، چنانچہ جشن عید میلاد النبی عیسائیوں کی کرسمس کی نقل ہے اور تیجا، چالیسواں، برسی اور گیارہویں ہندو پن توں کی رسومات کی نقل ہے، "تحفۃ الہند" کتاب کامطالعہ فرمائیں تو ساری بدعات اور رسومات کی بنیاد کا پتہ چل جائے گا، بشرطیکہ انصاف کا دامن ہاتھ میں ہو.
---------------
قاعدہ نمبر: 8
”توجیہ القائل بما لا یرضی بہ قائلہ" یعنی قائل کے قول کی ایسی تاویل کرنا جس سے وہ راضی نہیں.
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک صحیح العقیدہ عالم اپنی تقریر یا تحریر میں کوئی علمی بات کہہ دیتا یا لکھ لیتا ہے، جو شریعت کے موافق ہے مگر اس صاحب ِتحریر کے علاوہ ایک اور صاحب آتا ہے اور ان کی عبارت اور تحریر سے کوئی ایسا مطلب نکال لیتا ہے جو شریعت کے خلاف ہوتا ہے اور پھر اس کو بنیاد بناکر فتویٰ لگاتا ہے اور پروپیگنڈہ کا ایک طوفان کھڑا کردیتا ہے، اس تقریر و تحریر اور تصنیف و تالیف کا ذمہ دار عالم اگر زندہ ہوتا ہے تو وہ اس کی تردید بھی کر لیتا ہے یا اس کے پیروکار اور معتقدین اس عبارت کا صحیح مطلب بھی بتادیتے ہیں اور اس غلط مطلب کو گمراہی بھی سمجھتے ہیں، مگر غلط پروپیگنڈہ کرنے والا کسی کی نہیں سنتا اور کہتا پھرتا ہے کہ نہیں، اس کا مطلب تو یہ ہے اور یہ شخص ایسا ہے، ویسا ہے یعنی دشمنِ خدا ہے اور گستاخِ رسول ہے. اس کی مثال علماء دیوبند اور اکابر دیوبند کی بعض عبارات ہیں جن کو بریلوی حضرات اپنے مطلب کے غلط معانی پہنا دیتے ہیں یا سیاق و سباق سے توڑ مروڑ کر غلط انداز سے پیش کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام میں شور مچاتے ہیں کہ دیکھو یہ علماء دیوبند کی کتابوں کی عبارات ہیں، اس کا یہ مطلب ہے اور اس مطلب کی وجہ سے یہ لوگ گستاخ رسول ہیں اور فلاں ہیں اور فلاں ہیں. انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو علماء دیوبند اس وقت زندہ ہیں، یہ حضرات ان سے پوچھتے کیوں نہیں کہ بھائی! یہ عبارت ہے، اس کے متعلق تمہارا کیاعقیدہ ہے؟ اگر وہ غلط عقیدے کا اقرار کرتا ہے تو پھر بے شک یہ صاحب پروپیگنڈہ کریں، لیکن اگر وہ یہ کہہ دیں کہ بھائی! اس عبارت سے تم نے جو مطلب نکالا ہے، یہ عقیدہ ہمارے ہاں بھی غلط ہے اور یہ مطلب ہمارے نزدیک بھی غلط ہے، لیکن اس عبارت کا مطلب یہ نہیں ہے، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے . اس وضاحت کے باوجود پھر بھی یہ حضرات اپنی مسجدوں میں اور منبروں پر غلط بیانی کرتے ہیں کہ علماء دیوبند کا یہ عقیدہ ہے اور وہ یہ کہتے ہیں. یہی ”توجیہ القائل بما لایرضی بہ قائلہ" کا مطلب ہے. ایک شاعر نے خوب فرمایا ہے:
وہم نقلوا عنی الذی لم اقلہ بہ
وما اافۃ الاخبار الا رواتہا
ترجمہ: ... مخالفین نے مجھ سے وہ بات نقل کی جو میں نے نہیں کہی ہے اور غلط خبر دینے کی آفت راویوں کی گردن پر ہے،، .

قاعدہ نمبر: 9
اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ اللہ تعالیا کی ذات کے ساتھ خاص ہیں جو کسی مخلوق میں نہیں ہوسکتی .
اس قاعدہ کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں، وہ کسی مخلوق کے لئے استعمال نہیں کی جاسکتی، مثلاً:
. ... اللہ تعالیٰ کی ایک صفت خالقیت ہے تو کسی مخلوق کو صفت تخلیق کے ساتھ متصف کرنا جرم عظیم کے ساتھ ساتھ شرک بھی ہے، چنانچہ قوم نوح علیہ السلام نے تخلیق کی یہ صفت اپنے پانچ معبودوں میں سے ”ود،، کو دی تھی اور کہا تھا کہ: ”لاتذرنّ وداً،، یعنی ”ود،، کو ہر گز نہ چھوڑو.[القرآن-71:23] انہوں نے ایک طاقتور مرد کی شکل میں ”ود،، کامجسمہ بنایا تھا اور اس کی پوجا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تخلیق ِ کائنات کامالک ہے.اہل ہنود بڑے پیمانے پر اس شرک میں مبتلا ہیں جو اپنے بہت سارے اوتاروں کو تخلیق کاعہدہ دیتے ہیں، ہندوؤں کے ہاں ان کے بڑے اوتاروں میں سے ایک دیوتا کانام ”بشن،، ہے. ہندو لوگ ”بشن،، کو تخلیق کی صفت سے متصف کرتے ہیں، ہمارے زمانے کے اہل بدعت اور اہل باطل اولیاء کو غیر شعوری طور پر یہ درجہ دیتے ہیں.
. ... اللہ تعالی کی صفات_مختصہ میں سے ایک صفت معبود کی ہے کہ ہر قسم کی عبادت، قولی، مالی اور بدنی اللہ تعالیا کے لئے خاص ہے ”ایاک نعبد،، میں اس کاذکر ہے، لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر عبادت خاص اللہ تعالیا کے لئے کرے. کچھ حضرات اس صفت میں بہت نقصان کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیا کے سوا غیروں کے لئے روزہ بھی رکھتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، نذر و نیاز بھی دیتے ہیں، قبروں پر چڑھاوے بھی چڑھاتے ہیں، اس کا طواف بھی کرتے ہیں، اس کے سامنے سجدے بھی کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، حالانکہ عبادت اللہ تعالیا کے لئے خاص ہے.
. ... اسی طرح اللہ تعالیا کی صفات_مختصہ میں سے اللہ تعالیا کاعالم الغیب ہونا ہے. اس صفت میں فلاسفہ نے غلو کیا اور اپنے بڑوں کو عالم الغیب کی صفت سے متصف کیا. مشائین اور اشراقیین جو فلاسفہ کے دو طبقے ہیں، اسی گمراہی میں مبتلا ہوئے. شیعہ حضرات نے اپنے بارہ اماموں کے ساتھ یہی معاملہ کیا کہ سب کو عالم الغیب قرارا دیا اور پھر بریلوی حضرات نے انبیاء کرام اور اولیاء عظام کو اس صفت کے ساتھ متصف کیا، حالانکہ اللہ تعالیا کاارشاد عالی ہے: ”قل لایعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ،، لہذا اس صفت کو اللہ تعالیا کے ساتھ خاص کرنا ہر مسلمان کے ایمان کاحصہ ہے.
. ... اللہ تعالیا کی صفات مختصہ میں سے اللہ تعالیا کا ہرجگہ حاضر ناظر ہونا اور ہرجگہ اپنے علم کے ساتھ موجود ہونا ہے، اس صفت میں بھی لوگوں نے بہت نقصان کیا ہے.
روافض نے یہ عہدہ اپنے بارہ اماموں کودیا ہے اور بریلوی حضرات نے نبی کریم صلی اللھ علیہ وسلم کو اس صفت سے متصف کیا ہے جو بہت بڑا جرم ہے، ان کو چاہئے کہ اللہ تعالیا کی خصوصی صفت کو اللہ تعالیا کے ساتھ خاص مانیں. اب یہ وبا عام ہونے لگی ہے کہ اس عقیدے کے اظہار کے لئے سڑکوں، چوراہوں اور دیواروں پر ”لبیک یارسول اللہ،، کا نعرہ لکھنے لگے ہیں.نعوذ باللہ من ذالک.
. ... اللہ تعالیا کی خصوصی صفات میں سے رزاق ایک صفت ہے یعنی مخلوق کو رزق دینے والا.
کچھ لوگوں نے اس صفت کے ساتھ نبی کریم صلی اللھ علیہ وسلم کو متصف کیا اورکچھ نے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو اس صفت کے ساتھ متصف کیا . میں نے گوجرالہ میں ان کے ایک واعظ سے سنا جو کہہ رہا تھا کہ ہم کو غوث اعظم روزی دیتا ہے، نعوذ باللہ.
. ... اللہ تعالیا کی خصوصی صفات میں سے ایک صفت مدد کرنا ہے، یعنی ما فوق الاسباب امور میں صرف اللہ سے مدد مانگنا ہے.یہود حضرت عزیر علیہ السلام اور نصاریا حضرت عیسیاعلیہ السلام سے ہر معاملہ میں مدد مانگتے ہیں. ہندو اور مجوس تو اللہ تعالیا کو چھوڑ کر سینکڑوں دروازوں پر ہاتھ پھیلاتے ہیں، ہندو .. کروڑ دیوتاؤں کو مدد کے لئے پکارتے ہیں. کچھ لوگوں نے تو ”یاعلی مدد،، کے نعرہ کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے، اور کچھ نے” المدد یارسول اللہ!،، کے نعرہ کو اپنا خاص شعار بنالیا ہے، تعجب اس پر ہے کہ جو لوگ نماز پڑھتے ہیں اور وہ نماز میں ”وایاک نستعین،، بھی پڑھتے ہیں، جس کا ترجمہ ہے کہ: ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، یہ کہہ کر پھر غیروں سے مافوق الاسباب امور میں بھی مدد مانگتے ہیں:
بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بو العجبی است.
. ... اسی طرح اللہ تعالیا کی خصوصی صفات میں سے ہے کہ مصیبت کے وقت غائبانہ حاجات میں صرف اسی رب کو پکارا جائے. کچھ لوگ ہر مصیبت کے وقت حضرت علی. کو مشکل کشا بناکر غائبانہ حاجات میں پکارتے ہیں اور اپنے بارہ اماموں کو بھی پکارتے ہیں اور کچھ لوگ حضرات انبیاء کرام کے علاوہ شیخ عبد القادر جیلانی. کو ہرمصیبت کے وقت پکارتے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ ہر پیر و فقیر کو غائبانہ حاجات میں پکارتے ہیں اور مزارات پر جاکر مشکل کشائی کے لئے نعرے لگاتے ہیں اور اپنے جلسے بھی انہیں نعروں سے گرماتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیا کا فرمان ہے: ”ومن اضل ممن یدعو من دون اللہ،، یعنی اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیا کے سوا غیروں کو پکارتا ہے. شیخ عطار. نے اس کا ترجمہ اپنے شعر میں پیش کیا ہے:
ہرکہ خواند غیر حق را اے پسر
کیست در عالم ازو گمراہ تر
بہرحال ہر مسلمان کو چاہئے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اللہ تعالیا کی صفات _مختصہ اللہ تعالیا ہی کے ساتھ خاص رکھے اور اللہ تعالیا کی ناراضگی سے اپنی عاقبت کو خراب نہ کرے اور اپنے عقیدہ کوصحیح رکھنے کے لئے ان دس قواعد کو مد_نظر رکھے. اللہ تعالی ہدایت پر استقامت عطا فرمائے. آمین یارب العالمین



 

 

فنِ تحقیق اورعصری تقاضے

 


 

تعارف:

عصر حاضر میں دینی مدارس اور جامعات علوم اسلامیہ میں تحقیق کے ذوق کو پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔اس سلسلہ میں چند اہم باتیں پیش کی جاتی ہیں جو یقینا اس عظیم کام میں معاون ثابت ہوں گی۔اور میری دلی دعاہے کہ عالم اسلام کو جید اہل علم کی شکل میں نئے محققین ملیں جو امت مسلمہ کو درپیش فکری ونظریاتی مسائل کے احسن طریقے سے حل پیش کرسکیں۔ اس تحریر میں تحقیق کے معنی ومفہوم اور ضرورت واہمیت کے بارے میں گفتگو ہوگی۔سب سے پہلے یہ جانیے کہ تحقیق کا لغوی معنی کیاہے؟

تحقیق کا لغوی معنی

تحقیق باب تفعیل کا مصدر ہے۔جس کے معنی چھان بین اورتفتیش کے ہیں۔(۱) اوراس کا مادہ ح ق ق ہے۔مشہور لغت کے امام خلیل ابن احمد(م۱۷۰ھ )لکھتے ہیں:

الحقُّ نقیض الباطل(۲)

”الحق باطل کی ضد ہے “۔

اسی طرح ایک اور مشہور لغت کے ماہر ابن منظور افریقی (م۷۱۱ھ)لکھتے ہیں:

الحَقُّ: نَقِیضُ الْبَاطِلِ، وَجَمْعُہُ حُقوقٌ وحِقاقٌ․․․․․ وحَقَّ الأَمرُ یَحِقُّ ویَحُقُّ حَقّاً وحُقوقاً: صَارَ حَقّاً وثَبت(۳)

”حق باطل کی ضدہے۔اور اس کی جمع حقوق اور حقاق آتی ہے۔اور حَقَّ الامرُ کا معنی صحیح ہونا اور ثابت ہونا ہے۔“

چونکہ حق اور باطل دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قران کریم میں حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کاحکم دیا گیاہے۔ارشاد ربانی ہے:

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴)

”اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔“

اسی طرح سچائی کو ثابت اور باطل کا جھوٹ واضح کرنے کے لیے فرمایا:

لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ(الانفال:۸)

”تاکہ سچا کرے سچ کو اور جھوٹا کردے جھوٹ کو اور اگرچہ ناراض ہوں گناہ گار“۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

ارشاد ربانی ہے :

لِّیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ(۵)

”تاکہ جو زندہ ہے اسے ڈرائے اور کافروں پر الزام ثابت ہو جائے“۔

مذکورہ بحث کوسمیٹے ہوئے اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کا لغوی معنی ،چھان بین،حق وباطل میں فرق ،تفتیش اورثابت کرنا وغیرہ ہے۔

اور انگلش میں اس کے لیے Research کا لفظ استعمال ہوتاہے۔Re کے معنی ہیں دوبارہ اور Search کے معنی ہیں تلاش کرنا تو Research کے معنی ہوئے دوبارہ تلاش کرنا۔

اصطلاحی مفہوم

تحقیق کی بہت ساری تعریفات کی گئی ہیں۔جن میں لفظوں کی تعبیر کا فرق ہے تاہم مفہوم اور مدعا تقریبا سب کا قریب قریب ہے۔چند تعریفات آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔

۱- تحقیق ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتاہے۔

۲- کسی امر کی شکل پوشیدہ یا مبہم ہو تو اس کی اصلی شکل کو دریافت کرنا تحقیق کہلاتاہے۔(۶)

3.  According to Oxford English Dictionary:

a.   "To Search into Matter of Subject to investigate of study closely".

(کسی موضوع کے مواد کی تحقیق کرنا ،تلاش کرنا یا باریک بینی سے مطالعہ کرنا۔)

b.   To Search again and repeatedly.(دوبارہ جستجو کرنا اور بار بار تلاش کرنا۔)             

4.  According to the Oxford Reference Dictionary:

To establish facts and reach new conclusion.

(حقائق متعین کرنا اور نئے نتائج تک پہنچنا۔)       

5.  According to Websters Third New International Dictionary:

a.   To search again or new. (از سر نو تلاش کرنا یا جدید تحقیق کرنا۔)

b.   To search or investigate enhanstively. (وسیع پیمانہ پر تلاش وجستجو کرنا )

      According to Pr. B.D.Panda research is abbreviation of:

      R =stands for        Rational Way of Thinking.

 (مبنی برعقل سوچ یا سوچنے کا عقلی طریقہ)                          

      E=stands for         Expert and Comprehensive Treatment.         

(ماہرانہ اور مکمل برتاو)

      S=stands for         Search for Solution. (حل کی تلاش)

      E=stands for         Exactness. (درستی وصحت)

      A=stands for         Analysis (تجزیہ)

      R=stands for         Relationship of Facts (حقائق کا تعلق)

      C=stands for         Critical Observation (تنقیدی مشاہدہ)

      H=stands for         Honesty and Hardship (دیانت اور مشکلات)

 تحقیق کی ضرورت واہمیت

عصر حاضر میں نت نئے چیلنجز اور درپیش مسائل کے حل لیے ”تحقیق“ کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔کسی بھی چیز کی اہمیت کااندازہ اس کی ضرورت سے ہوتاہے۔اور موجودہ زمانہ میں انسان کی ضروریات دن بدن بڑھ رہی ہیں؛ اس لیے مختلف شعبوں میں ضروریا ت کے پیش نظر ”تحقیق“ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے؛چونکہ ہم لوگ اسلامیات کے طالب علم ہیں؛ اس لیے ہماری تحقیق کا دائرہ علوم اسلامیہ کے گرد ہوگا۔

اسلام میں تحقیق کی اہمیت

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی رہنمائی کے لیے اپنے بعد دو چیزیں چھوڑیں ،کتاب اللہ اور سنت جن کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا۔چنانچہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے تلامذہ تابعین، تبع تابعین ،ائمہ مجتہدین نے اپنی تمام تر تحقیقات میں مرکزی حیثیت قران وحدیث کودی۔اس لیے کہ قرآن کریم اجمال ہے تو حدیث اس کی تفصیل ہے۔ قرآن کریم متن ہے تو حدیث اس کی تشریح ہے۔قرآن وسنت جس طرح دیگر اہم دینی معاملات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اس طرح تحقیق وتفکر اور تدبر کے بارے میں بھی واضح احکاما ت دیتے ہیں۔قران وسنت سے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن سے تحقیق کی اہمیت پر مزید روشنی ڈالی جاسکے گی۔

۱-  قرآن کریم کی روشنی میں تحقیق کا ثبوت

قرآن کریم کی متعدد آیات تحقیق کی طرف رہنمائی کرتی ہیں:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍٴ فَتَبَیَّنُوْآ اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۷)

ترجمہ: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کوبے علمی (ونادانی)کی بناء پر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کیے پر شرمندگی اٹھانی پڑے۔

اسی طرح قرآن کریم میں متعدد مقامات پر لوگوں کے سوال نقل کرکے جواب کا ذکر ہے تاکہ ان کی معلومات میں اضافہ اور تحقیق کی راہیں ہموار ہوں۔

ارشاد باری تعالی ہے :

یَسَْلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّةِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ(۸)

”پوچھتے ہیں آپ سے یہ لوگ اے پیغمبر چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے بارے میں کہ ایسے کیوں ہوتا ہے؟ تو کہو کہ یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کہ تعین اور خاص کر حج کے اوقات و تواریخ کی علامتیں ہیں“۔

ارشاد باری تعالی ہے :

یَسَْلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ْ وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا(۹)

”پوچھتے ہیں آپ سے اے پیغمبر شراب اور جوئے کے بارے میں تو انھیں بتا دو کہ ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے“۔

ارشاد باری تعالی ہے :

وَیَسَْلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ(۱۰)

”اور پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا خرچ کریں تو کہو کہ جو زیادہ ہو تمہاری ضرورتوں سے۔“

قرآن کریم میں متعدد مقامات پر تدبر اور غور وفکر کا حکم دیاگیاہے۔ارشاد باری تعالی ہے :

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا(۱۱)

”کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے اس قرآن (عظیم)میں؟ یا (ان کے) دلوں پر ان کے تالے پڑے ہوئے ہیں۔“

یہ تمام آیات تحقیق وتفکر کے بارے میں ہدایات دے رہی ہیں۔اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔اسی طرح قرآن کریم میں حضرت موسی کا تفصیلی واقعہ سورة الکہف میں آرہاہے، جب وہ مزید تعلیم وتحقیق کے لیے حضرت خضر  کے پاس پہنچے اور دورانِ سفربہت سی باتوں کا علم ہوا۔

۲-      احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں تحقیق کاثبوت

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد ارشاداتِ عالیہ میں معاملات اور دیگر اہم امور میں غوروفکر اور تحقیق کرنے کا حکم دیا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

”خَرَجْنَا فِی سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّہُ فِی رَأْسِہِ، ثُمَّ احْتَلَمَ فَسَأَلَ أَصْحَابَہُ فَقَالَ: ہَلْ تَجِدُونَ لِی رُخْصَةً فِی التَّیَمُّمِ؟ فَقَالُوا: مَا نَجِدُ لَکَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَی الْمَاءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِذَلِکَ فَقَالَ: قَتَلُوہُ قَتَلَہُمُ اللَّہُ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِیِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیہِ أَنْ یَتَیَمَّمَ وَیَعْصِرَ -أَوْ یَعْصِبَ شَکَّ مُوسَیٰ - علَی جُرْحِہِ خِرْقَةً، ثُمَّ یَمْسَحَ عَلَیْہَا وَیَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِہِ“(۱۲)

”کہ ہم سفر کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں ایک شخص کو پتھر لگا جس سے اس کا سر پھٹ گیا، اس کو احتلام ہوا اس نے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم مجھے تیمم کی اجازت دیتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ہم تیرے لیے تیمم کی کوئی گنجائش نہیں پاتے؛ کیونکہ تجھے پانی کے حصول پر قدرت حاصل ہے لہٰذا اس نے غسل کیا اور مر گیا جب ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگوں نے اس کو ناحق مار ڈالا، اللہ ان کو ہلاک کرے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہ تھا تو ان کو پوچھ لینا چاہیے تھا؛کیونکہ نہ جاننے کا علاج معلوم کر لینا ہے، اس شخص کے لیے کافی تھا کہ وہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر کپڑا باندھ کر اس پر مسح کر لیتا اور باقی سارا بدن دھو ڈالتا۔“

علامہ ابوسلیمان الخطابی(م۳۸۸ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :

قلت فی ہذا الحدیث من العلم أنہ عابہم بالفتوی بغیر علم وألحق بہم الوعید بأن دعا علیہم وجعلہم فی الإثم قتلة لہ(۱۳)

”میں کہتا ہوں اس حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر علم کے فتوی دینے کی وجہ سے ان کی مذمت کی اور ان کے لیے وعید بیان کی ا س طریقے پر کہ ان کے لیے بد دعا کی اور گناہ میں ان کو اس کا قاتل قرار کردیا۔“

چونکہ بغیر تحقیق کے یہ فتوی ٰ دیا گیا تھا؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں سخت کلمات کہے۔اس لیے حکم دیا ”فَإِنَّمَا شِفَاء ُ الْعِیِّ السُّؤَالُ“ تحقیق سے انسان کو درست سمت کے انتخاب میں آسانی رہتی ہے ورنہ گمراہی کا اندیشہ ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّہَ لاَ یَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ، وَلَکِنْ یَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوسًا جُہَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا(۱۴)

”کہ اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا؛ بلکہ علم کو علماء کے اٹھا لینے کے ذریعہ سے قبض کیا جائے گا؛ یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے پس ان سے پوچھا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ تحقیق کے ذریعہ گمراہی سے بچا جاسکتاہے۔

صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تحقیقی ذوق پیدا کرنے لیے کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے سوالات کیے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لاَ یَسْقُطُ وَرَقُہَا، وَہِیَ مَثَلُ المُسْلِمِ، حَدِّثُونِی مَا ہِیَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِی شَجَرِ البَادِیَةِ، وَوَقَعَ فِی نَفْسِی أَنَّہَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّہِ: فَاسْتَحْیَیْتُ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَخْبِرْنَا بِہَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ہِیَ النَّخْلَةُ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ: فَحَدَّثْتُ أَبِی بِمَا وَقَعَ فِی نَفْسِی، فَقَالَ: لَأَنْ تَکُونَ قُلْتَہَا أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ یَکُونَ لِی کَذَا وَکَذَا(۱۵)

” کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس میں پت جھڑ نہیں ہوتی اور وہ مومن کے مشابہ ہے(۱۶) مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے؟ لوگوں کے خیال جنگل کے درختوں میں جا پڑے اور میرے دل میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے؛ مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا (بالآخر) سب لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ہماری سمجھ میں نہیں آیا)آپ ہمیں وہ درخت بتا دیجیے، عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (عمر فاروق) سے، جو میرے دل میں آیا تھا ، بیان کیا تو وہ بولے اگر تو نے یہ کہہ دیا ہوتا، تو مجھے اس سے اور اس سے زیادہ محبوب تھا۔“

امام ابن بطال(م۴۴۹ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :

قال المہلب: معنی طرح المسائل علی التلامیذ لترسخ فی القلوب وتثبت، لأن ما جری منہ فی المذاکرة لا یکاد ینسی(۱۷)

مہلب نے کہا :شاگردوں سے سوالات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں وہ باتیں راسخ ہوجائیں؛ اس لیے کہ جن چیزوں کا مذاکرہ ہوتاہے، وہ جلدی بھولتی نہیں ہیں۔

ابن بطال  مزید لکھتے ہیں:

إنما أراد البخاری بہذا الباب لیبین أن الحیاء المانع من طلب العلم مذموم(۱۸)

”امام بخاری کی غرض اس باب (الحیاء فی العلم )کے قائم کرنے سے یہ بیان کرناہے کہ جوحیاء طلب علم سے مانع ہو وہ مذموم ہے۔“

اس واقعہ سے جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

(الف) دینی اور شرعی امور کے علاوہ دنیاوی باتوں کی تحقیق بھی کی جاسکتی ہے۔

(ب)             استاد ،طلباء سے ایسے سوالات کرسکتاہے، جن سے ان کے علم میں اضافہ ہو۔

(ج)               بزرگوں اور بڑوں کی مجالس میں ادب واحترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔

(د)                جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں پوچھنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے۔

حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کوجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

کَیْفَ تَقْضِی إِذَا عَرَضَ لَکَ قَضَاء ٌ؟، قَالَ: أَقْضِی بِکِتَابِ اللَّہِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِی کِتَابِ اللَّہِ؟، قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِی سُنَّةِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا فِی کِتَابِ اللَّہِ؟ قَالَ: أَجْتَہِدُ رَأْیِی، وَلَا آلُو فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدْرَہُ، وَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ، رَسُولِ اللَّہِ لِمَا یُرْضِی رَسُولَ اللَّہِ(۱۹)

”فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے کہا اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا، آپ نے فرمایا: اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو؟ عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو؟ اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو؟ انھوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایاکہ اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔“

یہ حدیث بھی بڑی وضاحت سے تحقیق کی اہمیت کو بیان کررہی ہے۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر قرآن وسنت سے تحقیق کرکے مسائل کا حل پیش کرنے کی صراحت فرمائی ،اور اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اگر قرآ ن وسنت سے مطلوبہ مسئلہ نہ ملا تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا یہ محض اپنی رائے سے کام لینے کی طرف اشارہ نہیں تھا؛ بلکہ اس کے پیچھے بھی قرآن وسنت پر گہرے غوروفکر اور تحقیق سے قائم ہونے والی رائے مراد تھی۔

علامہ ابو سلیمان الخطابی  لکھتے ہیں:

قولہ اجتہد برأیی یرید الاجتہاد فی رد القضیة من طریق القیاس إلی معنی الکتاب والسنة ولم یرد الرأی الذی یسنح لہ من قبل نفسہ أو یخطر ببالہ عن غیر أصل من کتاب أو سنة(۲۰)

”حضرت معاذکا فرمانا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اس سے ان کی مراد معاملات کے حل کرنے میں قرآن وسنت سے مستنبط علت کے ذریعے قیا س کرنا تھا۔ اور وہ رائے مراد نہیں تھی جو اپنی ذات سے ذہن یادل میں قرآن وسنت میں سے اصل کے بغیرپیدا ہو۔“

قرآن وسنت کو۱۴۰۰ سوسال سے زائد کا عرصہ گزر چکاہے۔اور ہرصدی میں بے شمار کتب لکھی گئیں۔ذخیرہ تفاسیر ،شروح احادیث اور کتب فقہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ امت مسلمہ نے بہت کام کیاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اب کونسے ایسے موضوعات ہیں جن پر کام کی ضرورت ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتاہے کہ ہر موضوع پر بڑے عمدہ انداز میں مدلل ومفصل کام ہوچکا ہے۔؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اسلاف اور کابرین نے اپنے اپنے زما نے میں وقت کی نزاکتوں کے پیش نظر اسلامی نقطہ نظرسے مسائل کاحل پیش کیا ہے۔جب ہم تاریخ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو بہت سی علمی قدآور ایسی شخصیات کی فہرست سامنے آتی ہے کہ جن کے علمی رسوخ، تفقہ ،تفکراور علمی وتحقیقی تصانیف کے آگے نظریں عقیدت سے جھک جاتی ہیں اور زبان پر ان کے لیے دعائیہ کلمات آجاتے ہیں۔

عصر حاضر میں اسلامی تحقیقات کی ضرورت

اسلام ایک عالمگیر مذہب اور دینِ فطرت ہے۔جوقیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔تہذیبوں کے تصادم ،رسم ورواج کے اختلاف،علاقائی ثقافت کے مختلف ہونے سے نئے مسائل سامنے آرہے ہیں، ان کے اسلامی حل کے لیے تحقیق کی اشد ضرور ت ہے۔

سائنسی کمالات

اس وقت سائنسی ترقی اور کمالات نے جہاں بہت سی سہولیات کا سامان فراہم کیاہے وہیں بہت سے سوالات بھی پیدا کردیے ہیں۔مثلا ایک شخص فضامیں چکرکاٹ رہاہے ،چاند پر قدم رکھ چکاہے۔نماز کے اوقات کی تعیین اور قبلہ کی طرف رخ کیسے کرے۔خانہٴ کعبہ زمین پرہے اور وہ فضاء میں موجود ہے۔؟جہاز میں سفرکررہاہے سورج کی ٹکیہ نظر آرہی ہے؛ جبکہ جس شہر سے جہاز گزر رہا ہے وہاں سورج غروب ہے تو اب نماز جیسے اہم فریضے کی ادائیگی کیسے ہوگی۔؟ یا ایک شخص کسی آبدوز میں بیٹھ کر سمندر کی تہہ میں ہے، وہ کس طرف رخ کرکے نماز پڑھے گا۔ اسی طرح سحری وافطاری کے وقت کا تعین کیسے ہوگا؟

طبی مسائل

عصر حاضر میں علم الطب میں بھی بہت ترقی ہوئی ہے۔انسان کے پورے جسم پر تحقیقات جاری ہیں نت نئے تجربات ہورہے ہیں۔ایک شخص کے اعضاء دوسرے کو دیے جاسکتے ہیں۔؟کیا ڈی این اے ٹیسٹ کی بدولت کسی شخص پر حدجاری کی جاسکتی ہے یاکسی کا نسب ثابت کیا جاسکتاہے۔؟ کیا آپریشن سے مرد وعورت میں جنسی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔؟وغیرہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔

اسلامی بینکاری کا قیام

اس وقت ایک اہم کام سود سے پاک بینکاری نظام کا قیام ہے۔جس کی تشکیل عین شرعی قوانین کے مطابق ہو۔اگرچہ بعض اہل علم نے اس سلسلہ میں کوششیں کی ہیں؛ مگر اس پر دیگر اہل علم کے خدشات اور اعتراضات ہیں؛بلکہ فریقین کی طرف سے کتب مارکیٹ میں موجود ہیں۔اگرچہ اختلاف رائے مذمو م نہیں ہے؛ مگر عوام کو اس الجھن سے نکالنا تو ضروری ہے کہ کونسی رائے عصری تقاضوں کے مطابق ہے۔اور جولوگ اس نظام سے مطمئن نہیں ہیں، ان کے اعتراضات کو دور کرنا اور صحیح خطوط پر اس طرح کام کرنا کہ اس حوالے سے اضطرابی کیفیت کا خاتما ہو وقت کا اہم تقاضا ہے۔

سود کی حرمت پر تو کسی مسلمان کو شک وشبہ نہیں ہے۔؟مگر سود کا اطلاق کن صورتوں پر ہوگا اور کونسی صورتیں اس سے مستثنی ہیں۔؟اس بارے میں اختلاف شدید ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں بہت سے ایسے اہل علم گزرے ہیں اور موجود ہیں جن کی نظر میں بعض صورتیں ایسی ہیں جن پر سود کا اطلاق نہیں ہوتا؛ مگر دیگر اہل علم کی رائے اس کے برعکس ہے۔؟اس لیے سوو کی ایسی جامع ومانع تعریف ہو کہ جس پر عرب وعجم کے علماء کا اتفاق ہو۔یا کم از پاک وہند کے علماء تو متفق ہوں۔مگر اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ جب چار ایسے ممالک جن میں بالترتیب،حنفی، مالکی،شافعی، حنبلی فقہ نافذ ہو اور جب وہ آپس میں لین دین کریں گے تو اس کی کیا نوعیت ہوگی۔؟ اس لیے کہ سود کی حرمت کی جو علت ہرامام نے اپنے اجتہاد اور نصوص پر گہرے غوروفکرکے بعد نکالی ہے۔ وہ دوسرے امام کی بیان کردہ علت سے مختلف ہے تو پھر عالمی سطح پر لین دین کرتے وقت اس مسئلہ کا کیا حل ہوگا۔؟

مذہبی انتہاء پسندی اورفرقہ واریت کاخاتمہ

انسانی زند گی میں مذہب بے حد اہمیت کاحامل ہے۔انسانی زندگی کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے جس قدر مذہب اثر انداز ہوتاہے اتنی کوئی دوسری قوت نہیں ہے۔ انسان کو عقل یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حیوانی زندگی سے نکل کر ایک مہذب معاشرے اور پرامن زندگی کے حصول کے لیے اسے کسی چیز کے سہارے کی ضرورت ہے اور وہ سہارا زندگی کے پیچیدہ راستوں پر مذہب کی صورت میں شمع بن کر اس کی رہنمائی کرتا ہے اور کامیاب ، مہذب اور پرسکون زندگی گزارنے میں اس کا معاون بنتا ہے جس کا کوئی مذہب نہ ہو اس کی زندگی بے معنی سی ہوتی ہے جب کہ جو مذہب سے وابستہ ہوتے ہیں ان کی زندگی کا کوئی مقصد اور مفہوم ہوتا ہے ۔

یہ مذہب ہی ہے جو زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں واضح لائحہ عمل رکھتا ہے۔جس کی بدولت انسان حقیقی کامیابیاں حاصل کرلیتاہے۔روحانی غذا بھی مذہب کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ انسا ن کی نظر اور فکر میں وسعت وعالمگیریت پیدا ہوجاتی ہے؛ مگر یہ سارے اثرات اس وقت مرتب ہوتے ہیں جب مذہب کو اس کی اصل پر باقی رکھتے ہوئے اس پرعمل کیا جائے اگر اس میں افراط وتفریط(زیادتی وکمی)پیدا ہوگئی تو مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جائیں گے۔

پورا عالم اسلام مختلف تباہ کن مسائل سے دور چار ہے، ان میں مذہبی انتہاء وشدت پسندی بھی ہے، جس نے فرقہ وراریت کو مزید فروع دیاہے اور اس سے امن عامہ بری طرح متاثر ہوا ہے ،ایک دوسرے کا قتل عین ثواب سمجھ کر کیا جارہاہے۔مگر معمولی سے اختلاف رائے اور اظہار رائے کرنے پر ایک دوسرے پر سخت قسم کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور بسا اوقات معاملات حد سے زیادہ سنگینی اختیارکرلیتے ہیں۔ان حالات میں ضرورت ہے مذہبی انتہاء پسندی کے پس منظر، اسباب کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے خاتمہ کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے تاکہعالم اسلام ہرقسم کے داخلی نقصانات سے محفوظ رہے۔

کرپشن کے نقصانات اور اس کا سدباب

اس وقت پاکستان کوکرپشن نے بری طرح کھوکھلا کردیاہے۔اعلی سے ادنی فرد کسی نہ کسی صورت میں کرپشن میں مبتلا ہے۔کرپشن کا مفہوم کیاہے۔؟کیا اس کا دائرہ صرف مالی بدعنوانی تک محدود ہے یا اور صورتیں بھی داخل ہیں۔؟آج کل رشوت کو ہدایا کے نا م سے موسوم کرکے وصول کیا جارہاہے۔ہدایہ اور تحائف کے بارے میں شریعت کا کیا موقف اور مزاج ہے۔؟کن صورتوں میں ہدایا کا شمار رشوت میں ہوگا۔؟یا تحائف اور ہدایا کا وصول کرنا ناجائز ہوگا۔؟کونسی صورتوں میں رشوت دی جاسکتی ہے؟

کوئی افسر اپنے ماتحت کو غلط کام کا حکم دے اور حکم عدولی کی صورت میں جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ ہو توکیا حکم ہے؟یونیورسٹیز اور کالجز کے اساتذہ کا طلباء سے ہدایا اور تحائف وصول کرنا یا مطالبات کرنا ا ن کا کیا حکم ہے؟تحائف اور ہدایا وصول کرکے اساتذہ کا غیر معیاری گائیڈ نما کتب طلباء کو خریدنے کاحکم دینا۔ڈاکٹر اور ٹیچر کا اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنا ،سرکاری اوقات میں پرائیویٹ کلینک ،اکیڈمی چلانا،صحافی یا اینکر کا پیسوں کی خاطر بک جانا ،علماء سوء اور ان کا کردار، اپنے ماتحتوں سے غیرمہذب رویہ ،ملاوٹ اشیاء وغیرہ بیسیوں ایسے موضوعات ہیں جن پر حقائق کو مد نظررکھتے ہوئے کام کیا جاسکتاہے۔

معاشرتی رسوم ورواج کا جائزہ

اس وقت ہمارے معاشرہ میں بہت سی ایسی رسوم رائج ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں اکثریت کو یہ ہی نہیں علم کہ کام شرعی ہے؛ اس لیے کررہے ہیں یا ایک رسم کے طور پر سرانجام دے رہے ہیں؟کونسے کام شرعا مباح ہیں اور کونسے ناجائز ہیں۔خوشی وغمی کا شرعی تصور کیاہے؟ اظہار مسرت وغم میں کس حد تک آگے بڑھا جاسکتاہے۔؟شادی وبیاہ اور تجہیز وتکفین کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟بعض خاندانوں میں کزن میرج (چچازاد اور پھوپی زاد کی آپس میں شادی) کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔اس کا پس منظر کوئی خاندانی رواج ہے؟طبی رائے ہے؟وغیرہ

انٹرنیٹ ،ٹی وی ،کیمرہ کا استعمال

عصرحاضر میں بہت سی ایجادات منظر عام پر آئی ہیں۔ان کے استعمال کے حوالہ سے اسلام کا موقف کیاہے؟مثلا ٹی وی ،سی ڈی پلیئر،ڈی وی ڈی،کمپیوٹر،انٹرنیٹ ،کیبل ،موبائل فون وغیرہ کا استعمال کس حد تک جائز ہے۔ میوزک ومو سیقی،ناچ گانا،قوالی وغیرہ کے کیا احکامات ہیں؟کیمرہ کی تصویر کا حکم اور ہاتھ سے بنائی جانے والی تصاویر کی شرعی حیثیت متعین کرنا اسلامی محقق کی ذمہ داری ہے؛ تاکہ لوگوں پر صحیح صورتِ حال واضح ہوسکے۔

مستشرقین کا تعاقب

مستشرقین کے اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات، قرآن مجید اور بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر اٹھائے گئے سوالات کے صحیح جوابات دینا اسلامیات کے اسٹوڈنٹ کی دینی واخلاقی ذمہ داری ہے۔جن میں نہ معذرت خواہانہ انداز ہو اور نہ ہی روح شریعت اور مزاج شریعت سے صرف نظرکیا گیا ہو۔

مغرب کی برتری کا جواب

آج یورپ کی برتری کے نعرے بلندہورہے ہیں کسی چیز کے صحیح اورمستند ہونے کے لیے یورپ کی تصدیق کافی سمجھی جاتی ہے او راسلامی تہذیب وتمدن کا مذاق اڑایا جارہاہے۔ایسے حالات میں اسلامیات کے محقق پر لازم ہے کہ وہ احکام اسلام کی ایسی توضیح وتشریح کرے جس سے اسلام کی صحیح ترجمانی ہو۔

اس کے علاوہ اور بھی موضوعات ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تحقیق کے فوائد

تحقیق کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

۱- نئی معلومات کاحصول

۲- اصل ماخذ تک رسائی

۳- کارکردگی میں اضافہ

۴- حقیقت سے آگاہی

۵- توہمات سے چھٹکارہ

۶- تعصبات کاخاتمہ

۷- صحیح وغلط کی پہچان

۸- ندامت سے بچاو

۹- علم میں وسعت وگہرائی کا پیدا ہونا

۱۰- صلاحیتوں کا نکھرنا

۱۱-صحیح نتائج تک رہنمائی

۱۲- جمود کا خاتمہ

۱۳- صحیح نظریات کی سچائی کا ادراک

۱۴- باطل اور جھوٹ کا رد

۱۵-قوت فیصلہ کا پیدا ہونا

۱۶- آلام ومصائب سے نجات

۱۷-ترقی میں ممد ومعاون

۱۸- پرسکون زندگی گزارنے کے طریقوں کا علم

۱۹- کائنات کے رازوں اور بھیدوں کا علم

۲۰- شکو ک وشبہات کی فضاء کا خاتمہ

طریق کار

اس کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ ہم قرآن وسنت اور ان کی توضیح وتشریح میں لکھی اپنے اسلاف کی کتب کی طرف مراجعت کریں گے اور ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسائل کا حل پیش کریں گے، جن پر صدیوں غوروفکر ہوا اور وہ مزید نکھر کرسامنے آگئے ہیں۔

چونکہ ہم لوگ فقہ حنفی کے مطابق عمل کرتے ہیں؛ اس لیے دورانِ تحقیق فقہاء احناف کی کتب کوضرور مد نظر رکھیے۔اور چونکہ دیگر ائمہ عظام ،مالکیہ،شوافع ،حنابلہ کی کتب بھی تحقیقی کاموں میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں، اس لیے کہ ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین میں جتنے بھی نامور اہل علم گزرے ہیں وہ سب حق کی ہی اتباع کرنے والے تھے صرف حق کو فقہ حنفی کے ساتھ خاص سمجھنا یہ بہت بڑی غلطی ہے۔اس میں کوئی شک نہی کہ امام ابوحنیفہ کو جو اللہ تعالی نے فقہی بصیرت عطا فرمائی تھی اور جو آپ کی نصوص پر گہری نظر تھی اس کا مقابلہ کوئی آپ کا ہم عصر اور بعد کے افراد میں بھی کوئی نہ کرسکا؛ تاہم اپنے اپنے زمانے میں بہت سی علمی شخصیات گزر ی اور ان کے علمی کارنامے داد تحسین کے مستحق ہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو کام دار العلوم دیوبند ہندوستا ن اور اس کے فضلاء سے لیاہے بر صغیر اور دیگر اسلامی ممالک میں اس کی نظیر ملنی دشوار ہے۔الحمد للہ علماء دیوبند نے جس اعتدال اور للہیت وخلوص سے علوم اسلامیہ کی خدمت کی ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے دور ان تحقیق خاتم الفقہاء حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری  ،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی،شیخ العرب والعجم حضرت سید حسین احمد مدنی  ،شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی ،علامہ ظفراحمدعثمانی،شیخ الحدیث مولانا یوسف بنوری ،شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع  ، مولانا مفتی عزیز الرحمن ،حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی  ومولانا بدر عالم میرٹھی اور بھی بہت سے نام ہیں جو طوالت کے خوف سے حذف کررہا ہوں کی علمی کتب کو ضرور مطالعہ میں رکھیے۔

ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جس پر ہمارے اکابر نے کہیں نہ کہیں ضرور کچھ لکھا ہوگا شرط صرف تلاش اور کتب کی ورق گردانی کی ہے۔ان شاء اللہ العزیز اپنے دوسرے مقالہ میں اس پر بھی روشنی ڈالوں گا کہ حدیث وتفسیر وفقہ میں کونسی کتب میں زیادہ بہتر انداز میں مباحث کو سمیٹا گیاہے اور جو مسئلہ عام کتابوں میں نہ ہو تو وہ کن کتابوں میں ملے گا۔اور دیگر مفید امور پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

$ $ $

حواشی:

(۱)    کیرانوی،وحیدالزمان،مولانا،القاموس الوحید،لاہور،ادارہ اسلامیات،۲۰۰۱ء ،صفحہ۳۶۰۔

(۲)   خلیل ابن احمد،ابو عبدالرحمن،کتاب العین،دارومکتبة الہلال،س ن،جلد۳،صفحہ۶۔

(۳)   ابن منطور،محمد بن مکرم،الافریقی،لسان العرب،بیروت،دار صادر،۱۴۱۴ھ،جلد۱۰،صفحہ۴۹۔

(۴)   القرآن،البقرہ:۴۲۔

(۵)   القرآن،یٰسین:۷۰۔

(۶)   اکرم رانا ،ڈاکٹر،اسلامی اصول تحقیق،ملتان،مکتبہ قاسمیہ۔

(۷)   القرآن،الحجرات:۶۔

(۸)   القران،البقرہ:۱۸۹۔

(۹)    القران،البقرہ:۲۱۹۔

(۱۰)  القران،البقرہ:۲۱۹۔

(۱۱)   القران،محمد:۲۴۔

(۱۲)  ابو داؤد،سلیمان بن الاشعث ،السجستانی،السنن،بیروت،المکتبة العصریہ،س ن،جلدا،صفحہ۹۳،حدیث نمبر۳۳۶۔

(۱۳) الخطابی،حمد بن محمد،ابو سلیمان،معالم السنن شرح سنن ابی داؤد،حلب،المطبعة العلمیة،۱۳۵۱ھ،جلد۱،صفحہ۱۰۴۔

(۱۴) البخاری،محمد بن اسماعیل ،ابو عبداللہ،الجامع الصحیح،دار طوق النجاة،۱۴۲۲ھ جلد۱،صفحہ۳۱،حدیث نمبر۱۰۰۔

(۱۵) البخاری،الجامع الصحیح،جلد۱،صفحہ۳۸،حدیث نمبر۱۳۱۔

(۱۶)  مومن کی کھجورکے درخت سے وجہ تشبیہ اس طرح ہے کہ جیسے کھجور کے پتے کبھی نہیں گرتے ،ہمیشہ رہتے ہیں ،اسی طرح مومن ہمیشہ ،نماز،روزہ،ذکر اللہ اور دیگر خیر اور بھلائی کے کام کرتا رہتاہے۔یہ کام اس سے منقطع نہیں ہوتے۔(ابن بطال،شرح صحیح البخاری،جلد۱،صفحہ۱۴۱)

(۱۷) ابن بطال،علی بن خلف،ابو الحسن،شرح صحیح البخاری،الریاض،مکتبة الرشد،۱۴۲۳ھ،جلد۱،صفحہ۱۴۱۔

(۱۸) ابن بطال،شرح صحیح البخاری،جلد۱،صفحہ۲۱۰۔

(۱۹)  ابو داؤد،السنن،۳،صفحہ۳۰۳،حدیث نمبر۳۵۹۲۔

(۲۰)                         الخطابی،معالم السنن شرح سنن ابی داؤد،جلد۴،صفحہ۱۶۵۔

$ $ $









Add caption





















No comments:

Post a Comment