Tuesday, 8 May 2012

قبروں میں پیغمبروں کی زندگی کے دلائل

شریعتِ مطہرہ کے چاروں دلائل یعنی کتاب، سنت رسول اللہ ﷺ ، اجماعِ امت اور قیاسِ شرعی سے ثابت ہے۔ جہاں تک تعلق ہے کتاب اللہ کا تو قرآن مجید کی پچاس سے زائد آیاتِ بینات سے یہ عقیدہ ثابت ہے کہ موت کے بعد ہرانسان کو عالم قبر وبرزخ میں ایک خاص قسم کی حیات حاصل ہوتی ہے، جس سے مردہ انسان منکرنکیر کے سوال وجواب کو سمجھتا ہے اور پھر اس پر جزاء وسزا کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ مردہ انسان کا سوال وجواب کو سمجھنا اور ثواب وعقاب کو محسوس کرنا اس کی حیاتِ قبر کی دلیل ہے تو جب ہر مردہ کو عالم قبر وبرزخ میں حیات حاصل ہے تو یہ حیات‘ انبیاء کرام  کو بطریق اولیٰ حاصل ہے، بلکہ انبیاء کرامؑ کی یہ حیات عام موتیٰ سے اعلیٰ ، ارفع اور برتر ہے، اس حیات کو ہم امتیازی اور خصوصی بھی کہہ سکتے ہیں۔ (جس کی تفصیل اس تمہید کے بعد درج کی گئی ہے)

  اب رہا یہ سوال کہ وہ آیات کہاں ہیں؟ تو گزارش ہے کہ مولانا ابواحمد نور محمد تونسوی نے پچاس کے قریب آیات اپنی تالیف ’’قبر کی زندگی‘‘ میں لکھ دی ہیں، مطالعہ کے شائقین اس کی طرف رجوع کریں، کیونکہ وہ کتاب عام اور متداول ہے۔ امید ہے کہ انہی آیات کے مطالعہ سے شرح صدر ہوجائے گا۔ اور جہاں تک تعلق ہے سنت رسول اللہ  کا تو عقیدہ حیات الانبیاء ؑ احادیثِ متواترہ(یعنی وہ مسلسل روایت جسے  ایک بہت بڑی تعداد روایت کرے جن کا جھوٹ پر متفق و متحد  ہونا ناممکن ہو ، یہ تعداد اپنے ہی جیسی  تمام صفات کی حامل  ایک بڑی جماعت سے  روایت  کرے، اور انہوں نے یہ خبر بذریعہ حس حاصل کی ہو۔) سے ثابت ہے، جن کا درجہ(باعتبار ثبوت کے) قرآن کے برابر ہے۔  کچھ تو وہ حدیثیں ہیں، جن میں حیات الانبیاء ؑکی تصریح ہے، مثلاً:

’’الأَنْبِيَاءُ ‌أَحْيَاءٌ ‌فِي ‌قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ‘‘

یعنی ’’انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں۔‘‘

[مسند البزار:6888، مسند أبي يعلى:3425، فوائد تمام:58، حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي:1+2، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌621]

نوٹ:
انبیاء کی زندگی کا ثبوت اپنی اپنی قبروں میں ہے، ہر جگہ نہیں۔

وغیرہ وغیرہ اور دوسری وہ حدیثیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ عالم قبر وبرزخ میں مردہ انسان سے سوال وجواب ہوتا ہے اور پھر جزاء وسزا ہوتی ہے تو یہ سب سینکڑوں حدیثیں حیاتِ قبر پر دلالت کرتی ہیں اور قبر کی یہ حدیثیں متواتر ہیں۔ مولانا نے سو سے زائد یہ حدیثیں ’’قبر کی زندگی‘‘ میں لکھ دی ہیں۔ اگر اہل علم تتبع کریں تو مزید حدیثیں بھی مل سکتی ہیں، نیز’’نظم المتناثر من الحدیث المتواتر‘‘ (حديث نمبر 115) میں لکھا ہے کہ:

’’إن من ‌جملة ‌ما ‌تواتر عن النبيِّ ﷺ ‌حياة ‌الأنبياء ‌في ‌قبورهم۔‘‘

ترجمہ:

 ’’حضور اکرم کی ذات اقدس سے جو حدیثیں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، ان میں سے ’’حیاۃ الأنبیاء فی قبورہم‘‘ کی حدیثیں بھی ہیں۔‘‘                                   [بحوالہ مجموعہ رسائل حیات الانبیاء للبیہقیؒ، للسبکیؒ، للسیوطیؒ، ص:۸]

تواتر یعنی کسی بات یا واقعہ کو بہت سے لوگوں کا مسلسل ہر زمانے میں نقل کرنا۔




اور امام جلال الدین سیوطیؒ(م911ھ)  اپنے رسالہ’’أنباء الأذكياء فی حیاۃ الانبیاء ؑ ‘‘میں لکھتے ہیں:

’’فَأَقُولُ: حَيَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَبْرِهِ هُوَ وَسَائِرِ ‌الْأَنْبِيَاءِ ‌مَعْلُومَةٌ ‌عِنْدَنَا ‌عِلْمًا ‌قَطْعِيًّا لِمَا قَامَ عِنْدَنَا مِنَ الْأَدِلَّةِ فِي ذَلِكَ وَتَوَاتَرَتْ [بِهِ] الْأَخْبَارُ، وَقَدْ أَلَّفَ الْبَيْهَقِيُّ جُزْءًا فِي حَيَاةِ الْأَنْبِيَاءِ فِي قُبُورِهِمْ۔‘‘

ترجمہ:

’’پس میں کہتا ہوں: حیاۃ النبی  اپنی قبر میں اور اسی طرح تمام انبیاء کرام ؑ ہمارے نزدیک علم قطعی کے ساتھ معلوم ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور حیات الانبیاء پر دلالت کرنے والی روایات درجۂ تواتر کو پہنچتی ہیں اور تحقیق امام بیہقیؒ(م458ھ)  نے حیات الانبیاء کے عقیدہ میں ایک رسالہ بھی تالیف کیا ہے، جس میں انہوں نے حیاتِ قبر کو ثابت کیا ہے۔‘‘

[الحاوي للفتاوي-السيوطي:2/ 178، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد:12/ 355، نظم المتناثر-الكتاني:115، فتاوى دار الإفتاء المصرية:8/ 103أتاريخ النشر بالشاملة: ٨ ذو الحجة ١٤٣١، بحوالہ مجموعہ رسائل کتاب حیاۃ الانبیاء، ص:۴۵]




اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ  لکھتے ہیں :

’’نزد احمد ونسائی ہر آئینہ خدای را فرشتگانند میر کنندگان در زمین می ر سانند مرا از اُمت من سلام را وبتواتر رسیدہ این معنی۔‘‘

ترجمہ:

’’ حضور اکرم  کی خدمتِ مقدس میں فرشتوں کا درود وسلام پہنچانا درجۂ تواتر رکھتا ہے۔‘‘

[فتویٰ عزیزیہ ج:۲، ص: ۲۷]


نیز شریعت کی اصطلاح میں عقیدہ عذابِ قبر مشہور ہے، لیکن قبروں میں صرف عذاب نہیں ہوتا، بلکہ راحت بھی ہوتی ہے، چونکہ اکثر مردوں کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے تو تغلیباً اس کو عذابِ قبر ہی کہا جاتا ہے، تو قبر کی یہ جزا وسزا حیات کو مستلزم ہے، کیونکہ اگر قبر میں جزاء وسزاء ہے اور عذاب وراحت ہے اور مردہ انسان کو اس کا ادراک اور شعور نہیں ہے تو عذاب اور راحت کا کیا فائدہ؟ چنانچہ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ  لکھتے ہیں:

’’وعذاب وتنعیم بغیر ادراک وشعورنمی تواند شد۔‘‘

ترجمہ:

’’عذاب اور تنعیم قبر بغیر ادراک اور شعور کے نہیں ہوسکتے۔‘‘ 

[فتاویٰ عزیزی، ج:۱،ص: ۸۸]


جمہور علماء اسلام نے عذابِ قبر کی حدیثوں کو متواتر کہا ہے، تو جب ہر میت کی حیات پر دلالت کرنے والی حدیثیں متواتر ہیں تو حضرات انبیاء کرام ؑ کی حیاتِ قبر کی حدیثیں بطریق اولیٰ تواتر سے ثابت ہیں ۔ اور جہاں تک تعلق ہے اجماعِ امت کا تو بہت سے علماء نے اپنی کتابوں میں تصریح فرمائی ہے کہ حضرات انبیاء کرام ؑ کی حیاتِ قبر پر اجماعِ امت ہے اور بکثرت حوالہ جات میں سے چند ایک حوالے آپ کی خدمت میں پیش کیے جارہے ہیں، چنانچہ علامہ داؤد بن سلیمان البغدادیؒ  لکھتے ہیں:

’’والحاصل أن حیاۃ الأنبیائؑ ثابتۃ بالإجماع۔‘‘

[المنحۃ الوہبیۃ، ص:۶، طبع استنبول، بحوالہ تسکین الصدور]

ترجمہ:

’’ حاصل یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام ؑ کی حیات باجماع ثابت ہے۔‘‘


اور شیخ عبد الحق دہلویؒ  آنحضرت کی حیات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’حیات متفق علیہ است، ہیچ کس را در وے خلافے نیست۔‘‘

ترجمہ:

’’ حضور اکرم کی حیاتِ قبر متفق علیہ ہے، کسی کا اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ ‘‘

[اشعۃ اللمعات، ج:۱، ص:۶۱۳]


نواب قطب الدین خان صاحبؒ  شارح مشکوٰۃ لکھتے ہیں :

’’زندہ ہیں انبیاء ؑ قبروں میں، یہ مسئلہ متفق علیہ ہے، کسی کو اس میں خلاف نہیں۔‘‘ 

[مظاہر حق، ج:۱، ص:۴۴۵، بحوالہ تسکین الصدور]


اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ  لکھتے ہیں :

’’انبیاءؑ کو اسی وجہ سے مستثنیٰ کیا کہ ان کے سماع میں کسی کو اختلاف نہیں۔‘‘

[فتاویٰ رشیدیہ، ملحق تالیفات رشیدیہ، ص:۲۳۴-۶۹]


اور جہاں تک تعلق ہے قیاسِ صحیح کا تو یہ عقیدہ اس سے بھی ثابت ہے، کیونکہ حضور اکرم جب دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی روح اور جسدِ اطہر کا مجموعہ محمد کے نام سے مشہور ہوا اور چالیس سال کے بعد آپ نے جب اعلانِ نبوت فرمایا تو بحیثیت محمد رسول اللہ  متعارف ہوئے، پس جب ثابت ہوگیا کہ روح اور جسد کا مجموعہ اللہ کا رسول ہے اور روح اور جسد دونوں نے مل کر دینِ اسلام کی خوب خدمت کی، تبلیغ فرمائی، تبلیغی سفر کیے، آپ غزوات میں شریک ہوئے، مکہ سے مدینہ منورہ تک ہجرت فرمائی، تین دن تک غارِ ثور میں رہے، جنگِ بدر، جنگِ احد میں شرکت فرمائی، آپ کو معراج ہوئی، آپ نے آسمانوں وغیرہ کی سیر فرمائی، آپ نے نماز، روزہ، حج، عمرہ وغیرہ عبادات ادا فرمائیں تو مناسب امور میں آپ  کا جسدِ اطہر روح کے ساتھ شریک تھا، دین کا ہر کام روح اور جسد دونوں نے مل کر ادا کیا اور وفات کے بعد جب جزاء اور انعام کا وقت آیا تو انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ عالمِ قبر وبرزخ کی جزاء اور انعامات روح اور جسد کے مجموعہ کو دی جائیں۔  انصافِ خداوندی کا یہی تقاضا ہے کہ موت کے بعد حیات ملی ہے تو ان دونوں کو، اور جنت کا مقام ملا ہے تو ان دونوں کو، جنت کا رزق ملا ہے تو ان دونوں کو، الغرض جنت میں جتنی نعمتیں اللہ تعالیٰ روح کو عطا فرماتے ہیں، ان سب میں آپ کا جسدِ اطہر شریک اور حاضرہے۔ عالمِ قبر وبرزخ کی سب نعمتیں روح کے ساتھ مختص کرکے آپ کے جسد کو حیات اور جنت کی نعمتوں سے محروم کردینا انصافِ خداوندی سے کوسوں دور ہے، جس کا اللہ تبارک وتعالیٰ سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا قیاس صحیح سے بھی عقیدہ حیات الانبیاء ؑ ثابت ہوگیا۔  البتہ علماء فرماتے ہیں کہ حضور اکرم کی روحِ اقدس اپنے مقام پر ہے، اور اسی طرح جسدِ اطہر اپنے مقام میں ہے اور ان دونوں کے مابین ایک ایسا تعلق اور جوڑ ہے جس کی حقیقت اللہ ہی جانتے ہیں۔ پس عالمِ قبر وبرزخ میں آپ کی روح اقدس پر جو انعامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں، اس سے آپ کا جسدِ اطہر برابر محظوظ ہوتا ہے، جیساکہ خواب دیکھنے والا شخص خواب میں مختلف مقامات کو دیکھتا ہے اور مختلف حالات سے گزرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ خواب میں آدمی کی روح نکل جاتی ہے، لیکن خواب میں روح جسد کو اپنے ہمراہ محسوس کرتی ہے اور دُکھ اور سُکھ کے حالات جو روح پر طاری ہوتے ہیں، جسد بھی ان سے برابر متأثر ہوتا ہے۔


الحمد ﷲ! کہ عقیدہ حیات الانبیاء ؑ  ادلہ اربعہ سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا، لیکن چند وضاحتیں آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں، تاکہ کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے: وضاحت نمبر:۱ جن دلائل سے عقیدہ حیات الانبیاء ؑ ثابت ہے، انہی دلائل سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ عالم قبر وبرزخ میں روح کے ساتھ دنیا والا جسدِ اطہر بھی تعلق کی وجہ سے ہر نعمت اور راحت میں شریک ہوتا ہے، اس کے لیے کسی دوسرے دلائل کی ضرورت قطعاً نہیں ہے۔ وضاحت نمبر:۲ ہمارے جن اکابر نے یہ لکھا ہے کہ :’’موت کے بعد انسان کو جسدِ مثالی دیا جاتا ہے‘‘ تو جسدِ مثالی کی تجویز کرنے والے یہ سب حضرات جسدِ مثالی کی تجویز کے باوجود جسدِ عنصری حقیقی اور اصل سے بھی روح کا تعلق مانتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایک ایسا عالم دین نہیں گزرا جس نے جسدِ عنصری کا انکار کرکے جسدِ مثالی کی تجویز کی ہو۔ جسدِ حقیقی کے تعلق کا کوئی منکر نہیں ہے اور ہمارا اختلاف صرف ان لوگوں سے ہے جو جسدِ حقیقی اصلی سے تعلق کا انکار کرتے ہیں۔ اگر کوئی عالم جسدِ حقیقی اصلی سے تعلق مان کر ایک نہیں‘ ہزار جسدِمثالی تجویز کرے، ہمارا اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔  پس میں اپنے تمام طالب علم بھائیوں اور علماء کرام کو ہوشیار کرتا ہوں کہ ’’بعض لوگ‘‘ سادہ لوح عوام کو قائلینِ جسدِ مثالی کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں، لہٰذا ان کے دھوکہ سے بچئے اور ایمان کی حفاظت کیجیے، کیونکہ مذکورہ طریق پر جسدِ مثالی کے قائلین بھی ہمارے اکابر ہیں، بدعقیدہ لوگوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، صرف ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بندہ عاجز کا ایک مضمون جوکہ مجموعہ سوالات میں چھپا ہوا ہے، جس کا عنوان ’’قائلینِ جسدِ مثالی سے اسّی سوال‘‘ ہے، مطالعہ کے لائق ہے۔ وضاحت نمبر:۳ حیاتِ قبر اور حیاتِ برزخ کوئی دو متضاد چیزیں نہیں ہیں، کیونکہ قبر‘ مردہ انسان کے لیے ظرفِ مکان اور برزخ اس کے لیے ظرفِ زمان ہے۔ زمان اور مکان میں کوئی تضاد نہیں ہے، اطلاق کے اعتبار سے دونوں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ قرآن کے اِن ’’شیخوں‘‘ کو ظرفِ زمان اور ظرفِ مکان کا فرق کیوں نظر نہیں آتا اور یہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ قبر سے مراد برزخ اور برزخ سے مراد عِلِّیِّین اور سِجِّین ہے، حالانکہ عِلِّیِّین اور سِجِّین ظرفِ مکان ہیں۔ البتہ برزخ زمان ہے اور اپنے وسیع ترمفہوم کے اعتبار سے مردہ کے روح او رجسد کے ہر مقام کو شامل ہے۔ وضاحت نمبر:۴ آج کل عصرِ ہذا کے معتزلہ نے یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کررکھا ہے کہ اللہ کا قانون ہے اور قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ روح جب ایک دفعہ جسم سے نکل جاتی ہے تو دوبارہ بدن کی طرف نہیںآتی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ایسا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ قرآن میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔  قرآن مجید میں جو قانونِ الٰہی لکھا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ جو انسان ایک دفعہ موت پاکر عالم قبر وبرزخ میں چلا جاتا ہے، وہ دوبارہ عالم دنیا میں واپس نہیں آتا اور یہی مطلب ہے :’’فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ ‘‘ کا ،یعنی مسئلہ ’’ عود ِ انسان الی الدنیا ‘‘ کاہے، یہی قانونِ الٰہی ہے اور یہی قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے کہ ایک دفعہ جو آدمی مرجاتا ہے تو وہ دوبارہ دنیا میں واپس نہیں آتا ،الا بخرق العادات ۔ تو اس قسم کی آیات کو ’’اعادۂ روح الیٰ البدن فی القبر‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں روح عالم قبر وبرزخ میں رہتے ہوئے جسم کی طرف واپس آتی ہے اور یہ عقیدہ تو قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔  لیکن بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن کے مدعیوں نے اس آیت کا غلط مطلب نکال کر اللہ کے قرآن پر بہتان اور جھوٹ باندھا ہے۔ میں درخواست کروں گا اس دور کے علماء حق سے کہ آپ زندہ ہیں اور اللہ کی کتاب کی تحریف کی جارہی ہے اور غیر قرآن کو قرآن باور کرایا جارہا ہے، اگر آج آپ اُٹھ کر عوام الناس کی رہبری کرتے ہوئے اس دجل وفریب کا پردہ چاک نہیں کریںگے، قرآن پاک کا صحیح مطلب لوگوں کو نہیں بتائیں گے، تو بے چاری سادہ عوام گمراہ ہوتی چلی جائے گی۔






عقیدہ حیات الانبیاء قرآن حکیم میں:
قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر حیات الانبیاء کا ثبوت ( اشارة النص، دلالة النص اور اقتضا النص) ملتا ہے۔ ان تمام آیات کا احصاءمشکل بھی ہے اور موجب طول بھی۔ اس لئے اختصار کی غرض سے چند آیات کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
(1) ﴿وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ ﴾ 
ترجمہ:
اور آپ ان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھيجا ہے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا دئیے تھے کہ ان کی عبادت کرو۔
[پارہ25۔ آیت45 سورۃ الزخرف]
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت میں انبیا ءعلہیم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔ چنانچہ محدث العصر حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب فرماتے ہیں:
یستدل به علی حیات الانبیاء (مشکلات قرآن: ص 234)
وھذا فی تفسیر
[درالمنثور: جلد۲ ص۱۶، روح المعانی:جلد 5ص89، جمل: جلد 4ص88، شیخ زادہ جلد7ص298، حقاجی:جلد7ص444، تفسیرمظہری: جلد8ص353، تفسیر جلالین: ص408، تفسیر بغوی: جلد4ص141]




(2)﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ ‌مِنْ ‌لِقَائِهِ﴾ 
ترجمہ:
اور دی ہم نے موسی کو کتاب اس کے ملنے میں شک میں نہ رہنا ۔
[پارہ21، آیت 23 سورۃ الم سجدہ]
حضرت شاہ عبد القادر صاحب ؒ نے اس تفسیر میں فرمایا ہے کہ (نبی ﷺ) معراج میں ان سے ملے تھے۔
[موضح القرآن، تفسیر ابن عباس، تفسیر جلالین ص350، تفسیر خازن جلد 3ص479]
اور ملاقات بغیر حیات ممکن نہیں۔ لہٰذا اقتضاء النص سے حیات الا نبیاء کو ثبوت ملتا ہے۔ یہاں اصولِ فقہ کا یہ مسل٘مہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو حکم اقتضائ النص سے ثابت ہوتا ہے وہ بحالتِ انفراد وقوتِ استدال میں عبارة النص کے مثل ہوتا ہے۔


 
(3) ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ ﴾           
ترجمہ:
اور مت کہو تم ان لوگوں کے بارے میں جو مارے جائیں اللہ کی راہ میں، کہ وہ مردہ ہیں، (کہ ایسے لوگ حقیقت میں مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم لوگ (ان کی اس زندگی کا) شعور نہیں رکھتے.
[پارہ۲۔ آیت 154 سورۃ البقرہ]



وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ . فَرِحينَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَيَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم أَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ . يَستَبشِرونَ بِنِعمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُؤمِنينَ.
ترجمہ:
اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں مردے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے. خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور خوش وقت ہوتے ہیں انکی طرف سے جو ابھی تک نہیں پہنچے ان کے پاس ان کے پیچھے سے اس واسطے کہ نہ ڈر ہے ان پر اور نہ انکو غم. خوش وقت ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ ضائع نہیں کرتا مزدوری ایمان والوں کی.
[سورۃ آل عمران:١٦٩-١٧١]

عَنْ عَبدِ اللَّهِ ، قَالَ : لَأَنْ أَحْلِفَ تِسْعًا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قُتِلَ قَتْلًا ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً أَنَّهُ لَمْ يُقْتَلْ ، . وَذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ نَبِيًّا ، وَاتَّخَذَهُ شَهِيدًا "
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ : مجھے رسول اللہ ﷺ کے قتل پر نو (٩) قسمیں کھانا اس سے زیادہ پسند ہے کہ ان کے قتل نہ ہونے پر ایک (١) قسم کھاؤں، اس لئے کہ الله نے آپ کو نبی بھی بنایا اور شہید بھی.
[مسند أحمد: 3742؛ المستدرك الحاکم: 3/57، 4332 ؛ دلائل النبوة للبيهقي:3102]

أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الأَشْقَرُ ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْمَرْوَزِيُّ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، ثنا عَنْبَسَةُ ، ثنا يُونُسُ ، عَنِابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : قَالَ عُرْوَةُ : كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ : " يَا عَائِشَةُ ، إِنِّي أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُهُ بِخَيْبَرَ ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ، وَقَدْ أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ ، فَقَالَ : وَقَالَ يُونُسُ .
[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331  ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146 ؛ دلائل النبوة للبيهقي: 3101]
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ جس بیماری میں رسول الله ﷺ کا انتقال ہوا، اس میں آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس کھانے کا زہر جو میں نے خیبر میں کھایا تھا برابر محسوس ہوتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت قریب آگیا ہے کہ اس زہر سے میری شہہ رگ کٹ جاۓ.
[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331  ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146 ؛ دلائل النبوة للبيهقي: 3101]





600 کے قریب کتب کے مصنف علامہ جلال الدین سیوطیؒ الشافعی (۸۴۹–۹۱۱ ھہ) فرماتے ہیں :
قال البيهقي في كتاب الاعتقاد : الأنبياء بعدما قبضوا ردت إليهم أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء ، وقال القرطبي في التذكرة في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض ، وإنما هو انتقال من حال إلى حال ، ويدل على ذلك أن الشهداء بعد قتلهم وموتهم أحياء يرزقون فرحين مستبشرين وهذه صفة الأحياء في الدنيا ، وإذا كان هذا في الشهداء فالأنبياء  أحق بذلك وأولى، وقد صح أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء ، وأنه صلى الله عليه وسلم اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء ، ورأى موسى قائما يصلي في قبره وأخبر صلى الله عليه وسلم بأنه يرد السلام على كل من يسلم عليه ، إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أن غيبوا عنا بحيث لا ندركهم وإن كانوا موجودين أحياء ، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء ولا يراهم أحد من نوعنا إلا من خصه الله بكرامته من أوليائه ، انتهى
ترجمہ:
امام بیہقی نے "کتاب الاعتقاد" میں بیان کیا ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی روحیں وفات کے بعد پھر ان کی اجسام میں واپس کردی گئیں چنانچہ وہ اپنے رب کے پاس شہیدوں کی طرح زندہ ہیں.
امام قرطبی نے "تذکرہ" میں حدیث صعقه کے متعلق اپنے شیخ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ "موت عدم محض کو نہیں کہتے بلکہ وہ خاص ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہید لوگ اپنے قتل وموت کے بعد زندہ رہتے ہیں، روزی دیے جاتے ہیں ، ہشاش بشاش رہتے ہیں اور یہ صفت دنیا میں زندوں کی ہے اور جب یہ حال شہداء کا ہے تو انبیاء علیہ السلام بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں. یہ بات بھی پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین انبیاء کرامؑ کے اجسام کو نہیں کھاتی، نیز آنحضرتؐ نے شب معراج میں انبیاءؑ سے بیت المقدس اور آسمان پر ملاقات کی اور حضرت موسیٰؑ کو دیکھا کہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور خود آپؐ نے فرمایا کہ"جو شخص مجھ پر سلام بھیجے گا ، میں اس کو اس کے سلام کا جواب دوں گا". اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں. ((ان سب کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاءؑ کی موت کا مآل صرف یہ ہے کہ وہ ہم سے اس طرح غائب ہیں کہ ہم ان کو نہیں پاسکتے گو زندہ وموجود ہیں اور ان کا حال فرشتوں کے جیسا ہے کہ وہ زندہ وموجود ہیں ہم میں سے کوئی ان کو نہیں دیکھتا بجز ان اولیاء کرامؒ کے جن کو الله تعالیٰ نے اپنی کرامات کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے)).
[الحاوي للفتاوي  للسيوطي(م911ھ)  »  ج2/ ص180]
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح-ابن الملقن (م804ھ »  ج15 / ص 476]
[الروح - ابن القيم(م751ھ) - ط عطاءات العلم  » ج1/ ص102]
[التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة-شمس الدينالقرطبي(م681ھ): ص460]
[مجموع رسائل الحافظ العلائي(م671ھ): ص41]
[المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم-أبو العباس القرطبي (م656ھج6 / ص 232]

آپؒ یہ بھی فرماتے ہیں :
حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت [به] الأخبار ، وقد ألف البيهقي جزءا في حياة الأنبياء في قبورهم ، فمن الأخبار الدالة على ذلك
[الحاوي للفتاوي للسيوطي(م911ھ) » الفتاوى الحديثية » كتاب البعث » مبحث النبوات » تزيين الآرائك في إرسال النبي صلى الله عليه وسلم إلى الملائك» أنباء الأذكياء بحياة الانبياء،   ... 2/ 180+ 317]
ترجمہ:
نبی اقدس ﷺ اور دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کا اپنی اپنی قبر میں(یعنی برزخی) حیات ہونا ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے، اس لئے کہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں.


اس آیت کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فرمایا:
وَإِذَا ‌ثَبَتَ ‌أَنَّهُمْ ‌أَحْيَاءٌ مِنْ حَيْثُ النَّقْلِ فَإِنَّهُ يُقَوِّيهِ مِنْ حَيْثُ النَّظَرِ كَوْنُ الشُّهَدَاءِ أَحْيَاءٌ بِنَصِّ الْقُرْآنِ وَالْأَنْبِيَاءُ أَفْضَلُ مِنَ الشُّهَدَاءِ
ترجمہ:
اور جب یہ ثابت ہوا کہ وہ زندہ ہیں نقل کے لحاظ سے تو اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ قرآن کی نص(واضح بیان) کے مطابق شہداء زندہ ہیں اور انبیاء شہداء سے افضل ہیں۔
[فتح الباري لابن حجر: جلد 6ص448 الناشر: دار المعرفة - بيروت، ١٣٧٩]


٤. وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ، (سورۃ النساء :64)
اس آیت کی تفسیر میں امام بیھقی رحمہ اللہ (م458ھ) فرماتے ہیں :
أخبرنا أبو علي الرودباري نا عمرو بن محمد بن عمرو بن الحسين بن بقية املاء نا سكر الهروي نا [أبو زيد] الرقاشي عن محمد بن روح بن يزيد البصري حدثني أبو حرب الهلالي قال: حج ‌أعرابي فلما جاء إلى باب مسجد رسول الله صلّى الله عليه وسلّم أناخ راحلته فعقلها ثم دخل المسجد حتى أتى القبر ووقف بحذاء وجه رسول الله صلّى الله عليه وسلّم فقال: [السّلام عليك يا رسول الله ثم سلم على أبي بكر وعمر ثم أقبل على رسول الله] فقال بأبي أنت وأمي يا رسول الله جئتك مثقلا بالذنوب والخطايا [مستشفعا] بك على ربك لأنه قال في محكم كتابه:
{وَلَوْ أَنَّهُمْ ‌إِذْ ‌ظَلَمُوا ‌أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوّاباً رَحِيماً}۔
ترجمہ:
ایک اعرابی نے حج کیا اور جب وہ مسجد نبوی ﷺ کے دروازے پر آیا تو اس نے اپنا اونٹ نیچے کر دیا اور اسے کھڑا کر دیا۔ پھر وہ مسجد میں داخل ہوا یہاں تک کہ قبر(نبوی) کے پاس آیا اور رسول اللہ ﷺ کے پائن٘تی میں کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے کہا: اے اللہ کے رسول، آپ پر سلام ہو، پھر اس نے ابوبکر اور عمر کو سلام کیا، پھر رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوا۔ پھر اس نے کہا کہ میرے والد اور والدہ آپ ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ! میں گناہوں اور گناہوں سے بوجھل ہو کر تمہارے پاس آیا ہوں۔ میں آپ کے ذریعہ آپ کے رب کے آگے شفاعت چاہتا ہوں، کیونکہ اس نے اپنی کتاب کے فیصلہ کن الفاظ میں فرمایا:
"اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔" (سورۃ النساء:64)


[شعب الإيمان - ت زغلول:4178 - ط الرشد:3880، مجلسان لأبي سعد البغدادي(م540ھ):7، مثير الغرام الساكن إلى أشرف الأماكن-ابن الجوزي(م597ھ):ص490، تفسیر الدر المنثور-السيوطي: ج1 ص570]
نوٹ:
انبیاء کی زندگی کا ثبوت اپنی اپنی قبروں میں ہے، ہر جگہ نہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ(م671ھ) فرماتے ہیں :
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا أَعْرَابِيٌّ بَعْدَ مَا دَفَنَّا رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَرَمَى بِنَفْسِهِ عَلَى قَبْرِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَحَثَا مِنْ تُرَابِهِ عَلَى رَأْسِهِ، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ فَسَمِعْنَا قَوْلَكَ وَوَعَيْتَ عَنِ اللَّهِ فَأَوْعَيْنَا عَنْكَ، وَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ: {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا} [النساء: 64] وَقَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي ‌وَجِئْتُكَ ‌تَسْتَغْفِرَ ‌لِي۔
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے دفن کرنے کے 3 دن بعد ایک دیہاتی آیا اور قبر پر گر کر سر پر مٹی ڈال کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ،ہم نے آپ ﷺ کی بات سنی آپ ﷺ نے اللہ تعالی سے اور ہم نے آپ ﷺ سے محفوظ کیا اور آپ ﷺ پر "اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔" (سورۃ النساء:64) نازل ہوئی اور یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ ﷺ کے پاس آیا ہوں کہ آپ ﷺ میرے لیے استغفار کریں تو قبر مبارک سے آواز آئی کہ تیری بخشش کردی گئی۔ 
[جامع الأحاديث-السيوطي:34153، تفسير القرطبي: ج5ص265 سورة النساء: آية 64، تفسير القرآن العظيم - السخاوي(م643ھ) : 1/ 187، تفسير الثعلبي(م427ھ):1195]
یعنی روضہ منورہ سے آنے والی آواز وہاں پر موجود سب لوگوں نے سنی۔
حضرت علیؓ کی یہ روایت علامہ ابو حسان اندلسیؒ، [تفسیر البحر المحیط جلد 1ص283] ، علامہ سمہودیؒ نے [وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى:4/ 186، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى:1/ 372]، میں اور علامہ قرطبیؒ نے اپنی تفسیر [جلد1ص265]، میں نقل فرماتے ہیں۔

اس کے علاوہ تفسير النسفي(م710ھ)  جلد1ص370، میں بھی درج ہے۔

اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیرؒ نے علامہ عتبیؒ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا تو خواب میں علامہ عتبیؒ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔
ثُمَّ انْصَرَفَ الْأَعْرَابِيُّ فَغَلَبَتْنِي عَيْنِي، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ فَقَالَ: يَا عُتْبى، الحقْ الْأَعْرَابِيَّ فَبَشِّرْهُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ له۔
[تفسير ابن كثير(م774ھ) - ت السلامة ج2ص348، معجم ابن عساكر(م571ھ):738، بحر المذهب للروياني(م502ھ): ج4/ ص103، الحاوي الكبير-الماوردي(م450ھ): ج4 ص214، الأحكام السلطانية للماوردي: ص174]
[امام النووي(م676ھ) نے المجموع شرح المهذب (8/ 274) الإيضاح في مناسك الحج والعمرة(ص: 454) الأذكار للنووي ط ابن حزم(1069) میں الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل المرتب على أبواب الفقه:10/ 225]

شیخ أبو عمرو ابن الصلاح(م643ھ) نے فرمایا:ومن أحسن ما يقول: ‌قول ‌الأعرابي ‌الذي ‌حكاه ‌جماعة ‌من ‌الأئمة ‌مستحسنين ‌له۔
ترجمہ:
ان بہترین باتوں میں سے یہ بھی ہے: اس اعرابی کا قول، جسے ائمہ کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جو اس کی تائید کرتے ہیں۔
[إتحاف الزائر وإطراف المقيم للسائر لأبي اليمن ابن عساكر(م686ھ) : ص53]

حضرت قاسم نانوتویؒ نے اس آیت شریف کی تفسیر میں جاؤک (یعنی اگر گناہگار آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوں) کو عام رکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
ولو انہم اذ ظلمو انفسہم جاوک ........ الخ کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص ہو تو کیونکر ہو۔ آپ ﷺ کا وجود باجود ترتیب تمام امت کے لئے یکساں رحمت ہے۔ کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ آپ ﷺ قبر میں زندہ ہوں۔
[آب حیات: ص40]


مفتی محمد شفیع عثمانیؒ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری جیسے آپ ﷺ کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی ،اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے…… اس کے بعد حضرت نے درج بالا واقعہ بحوالہ تفسیر بحر محیط ذکر فرمایا ہے۔
[معارف القرآن ج2ص459،460]


۵۔ وَاسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا (سورۃ الزخرف:45)
کے تحت حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ لکھتے ہیں :
یستدل بہ علی حیوۃ الانبیاء (مشکلات القرآن ص234)
یعنی اس سے حیات الانبیاء پر دلیل پکڑی گئی ہے۔


وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا (سورۃ الاحزاب :53)
کی تفسیر میں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ لکھتے ہیں:
قلت وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليہ وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان(تفسیر مظہری ج7ص408)
یعنی میں [مفسر علام رحمہ اللہ]کہتا ہوں کہ ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہونے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔اس لیے آپ ﷺ کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بیوہ نہیں ہوتیں۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود عرض کرے گا میں اسے بنفس نفیس سنوں گااور جو دور سے پڑھے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائیگا۔اس حدیث کو امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضرت اقدس مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒفرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہے۔ (اس کی دو جہیں ہیں۔ از ناقل)وہ بنص قرآن مومنوں کی مائیں ہیں ……اور دوسری وجہ یہ کہ آپ ﷺ وفات کے بعد اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔ تو آپ ﷺ کا درجہ ایسا ہے جیسے کوئی زندہ شوہر گھر سے غائب ہو۔(تفسیر معارف القرآن ج7ص203)
اسی طرح اسی آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت مولانا علامہ شبیراحمد عثمانیؒفرماتے ہیں : اس مسئلہ کی نہایت بحث حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ کی کتاب آبِ حیات میں ہے۔ انتہی کلامہ اور آب حیات کس مسئلہ پر لکھی گئی اہل مطالعہ پر یہ مخفی نہیں۔

٦. مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (سورۃ الاحزاب:40)
اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ ،علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا یہ قول بلا نکیر نقل فرماتے ہیں: فحصل من مجموع ھذاالکلام النقول والاحادیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ (روح المعانی ج22ص36)
یعنی اس تمام کلام سے یہ بات حاصل ہوئی کہ نقول واحادیث کے مطابق نبی علیہ السلام اپنے جسد اور روح کے ساتھ زندہ ہیں۔ پھر آگے مزید لکھتے ہیں:
والمرئی اماروحہ علیہ الصلاۃ والسلام التی ہی اکمل الارواح تجردا وتقدسابان تکون قد تطورت وظہرت بصورۃ مرئیۃ بتلک الرویۃ مع بقاء تعلقہا بجسدہ الشریف الحی فی القبر السامی المنیف (ایضاًج22ص37)
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظر آنے والی یا تو روح مقدس ہوگی جو کہ تمام روحوں سے مقدس ہے۔ لیکن اس کا تعلق قبر شریف میں جسد مبارک سے ہوگا جو کہ زندہ ہے۔ مزید ارقام فرماتے ہیں:
وقد الف البیہقی جزء فی حیاتہم فی قبورھم واوردہ فیہ عدۃ اخبار ایضاًج22ص 38)
یعنی امام بیہقیؒ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔مزید لکھتے ہیں :
ثم ان کانت تلک الحیوۃ فی القبر وان کانت یترتب علیہا بعض مایترتب علی الحیوۃ فی الدنیا المعروفۃ لنا من الصلاۃ والاذان والاقامۃ ورد السلام المسموع۔ ایضاًج22ص 38)
جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر کی اس زندگی پر دنیا والے کچھ احکام لگتے ہیں جیسے نماز، اذان ،اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب دینا۔

٧. فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (سورۃ الکہف :11)
کی تفسیر میں امام رازیؒ نے کرامت کی بحث چھیڑ دی اور اسی میں یہ بھی درج کیا:
اما ابوبکر فمن کراماتہ انہ لما حملت جنازتہ الی باب قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونودی: السلام علیک یا رسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذا الباب قد انفتح واذا بہاتف یہتف من القبر :''ادخلوا الحبیب الی الحبیب''
(مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج7ص433)
یعنی حضرت ابوبکرؓ کی کرامات میں سے یہ ہے کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول ﷺ کے دروازے پر اٹھاکر لایا گیا اور "السلام علیک یارسول اللہ" عرض کرکے کہا گیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آواز دینے والے کی آواز آئی کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔

٨. یا ایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فق صوت النبی........ الخ (پارہ26 ۔سورۃ الحجرات)
اکابرین اہل سنت اور جمہور مفسرین کا اجماع ہے کہ دورِ وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابلِ ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے ۔ حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے بلند آواز کرنا ناجائز نہیں۔ نہ وفات سے پہلے اور نہ ہی وفات کے بعد۔ لا یسنبغی رفع الصوت علی النبی اور حضرت عائشہ صدیقہؓ جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہے خبردار لاتو ذو رسول اﷲﷺ اور حضور اکرم ﷺ کو اس آواز سے اذیت نہ دو۔ اور حضرت علی نے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے۔ یا کہ ان کے بننے کا شور حضور اکرم ﷺ کو اذیت نہ دے۔ وہذا مما یذل علی انہم کانو یرون انہ حی۔ ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو اپنے روضہ انور میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ ( شفاءالسقام ص173)


امام ابن کثیرؒ (700-774هـ) اور حیات النبیؐ و الشہداءؒ:
سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے، اسی میں قبض کئے گئے، اسی میں نفحہ ہے، اسی میں بیہوشی ہے۔ پس تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو ۔ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ صحابہ نے پوچھا آپ تو زمین میں دفنا دیئے گئے ہوں گے پھر ہمارے درود آپ پر کیس پیش کئے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا۔ ابو داؤد نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے۔ ابن ماجہ میں ہے جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھو اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ جب کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ فارغ ہو پوچھا گیا موت کے بعد بھی؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں ۔
نوٹ:
اگر رسول الله ﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر یا دور سے ہر کسی کی پکار سنتے ہوتے تو درود پہنچانے کیلئے فرشتوں کے ذریعہ پیش نہ کرتے.


اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیرؒ نے علامہ عتبیؒ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا تو خواب میں علامہ عتبیؒ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔

_______________________________
قیامت سے پہلے شہادت کے بعد کی زندگی :

حضرت ابو ہریرہؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ قران کی آیت میں جو فرمایا گیا ہے: ففذع من فی السموات و من فی الارض الا من شاء اللہ یعنی زمین و آسمان کے سب لوگ گھبرا اٹھیں گے لیکن جنہیں اللہ چاہے اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ شہید لوگ ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں روزیاں پاتے ہیں اور سب زندہ لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے لیکن اللہ تعلای انہیں پریشانی سے محفوظ رکھے گا یہ تو عذاب ہے جو وہ اپنی بدترین مخلوق پر بھیجے گا۔

آیت قرآن ( وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68؀) 39- الزمر:68) میں جن لوگوں کا استثنا کیا گیا ہے کہ وہ بیہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں ۔ یہ گھبراہٹ زندوں پر ہوگی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا ۔ یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہوگا ۔
[تفسیر ابن کثیر، سورۃ الحج:١]

اللہ تعالیٰ قیامت کی گھبراہٹ اور بےچینی کو بیان فرما رہے ہیں ۔ صور میں حضرت اسرافیل علیہ السلام بحکم الہی پھونک ماریں گے۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ ہونگے۔ دیر تک نفخہ پھونکتے رہیں گے۔ جس سے سب پریشان حال ہوجائیں گے سوائے شہیدوں کے جو اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں دئیے جاتے ہیں ۔
[تفسیر ابن کثیر، سورۃ النمل:٨٧]


==============================

عقیدہ حیات النبی اور حضرت عزیرؑ:
مولانا ابو احمد نور محمد قادری تونسوی
عصرِ حاضر کے معتزلہ کے واعظین قرآنِ کریم میں بیان کردہ درج ذیل واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر اور سماع عند القبور کا انکار کرتے ہیں‘ حالانکہ اس واقعہ میں قرآنِ کریم نے صاحب ِ واقعہ کا قطعاً تعین نہیں کیا‘ بلکہ مبہم انداز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
او کالذی مر علی قریة وہی خاویة علی عروشہا قال انی یحی ہذہ اللہ بعد موتہا‘ فاماتہ اللہ مائة عام ثم بعثہ قال کم لبثت؟ قال لبثت یوما او بعض یوم‘ قال بل لبثت مائة عام فانظر الی طعامک وشرابک لم یتسنہ‘ وانظر الی حمارک ولنجعلک آیة للناس وانظر الی العظام کیف ننشزہا ثم نکسوہا لحما‘ فلما تبین لہ قال اعلم اللہ اللہ علی کل شئ قدیر“۔ (البقرہ:۲۵۹)
ترجمہ:․․․”اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا جس کا ایک بستی پر گذر ہوا جو اپنی چھتوں سمیت زمین پر ڈھیر تھی تو وہ کہنے لگا: اس بستی کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ کس طرح اس کو زندگی دے گا؟ (آباد کرے گا)۔ بس اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر (اسی جگہ) سوبرس تک موت طاری کردی اور پھر زندہ کردیا‘ اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا: تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے؟ اس نے جواب دیا:ایک دن یا دن کا بعض حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے کہاایسا نہیں ہے‘ بلکہ تم سو برس تک اس حالت میں رہے‘ پس تم اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھو کہ وہ بگڑی تک نہیں اور پھر اپنے گدھے کو دیکھو (کہ وہ گل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیاہے) اور (یہ سب کچھ اس لئے ہوا) تاکہ ہم تم کو لوگوں کے لئے ”نشان“ بنائیں‘ اور اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ہڈیوں کو ایک دوسرے پر چڑھاتے (اور آپس میں جوڑتے ہیں) اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں‘ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہوگیا تو اس نے کہا: میں یقین کرتاہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے“۔
قارئین کرام! منکرینِ حیات الانبیاء علیہم السلام کا اس قرآنی واقعہ سے استدلال کرنا سراسر باطل اور دھوکہ‘ بلکہ ایک قسم کی تلبیس ہے‘ اور اس تلبیس کا پردہ چاک کرنے کے لئے چند دلائل آپ کی خدمت میں عرض ہیں‘ جن میں غور کرنے سے ہر ذی شعور پر ان کے استدلال کا بطلان اور احقاقِ حق روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے صاحب ِ واقعہ کا نام تک نہیں لیا
سب سے پہلی گذارش یہ ہے کہ جس شخص کو یہ واقعہ پیش آیا‘ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا نام متعین نہیں فرمایا‘ بلکہ مبہم انداز میں فرمایا کہ ایک شخص کا ویران اور تباہ شدہ بستی پر گذر ہوا ۔
لہذا مفسرین کرام کے متفقہ اصول کے مطابق ”ابہموا ما ابہمہ اللہ“ اس صاحبِ واقعہ کو مبہم رکھنا ہی مناسب ہے اور بلادلیل از خودکسی شخصیت کا تعین کرنا نامناسب ہے‘ کیونکہ کتاب وسنت میں کہیں یہ نہیں بتایاگیا کہ صاحب ِ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ البتہ مفسرین کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں فرمایا ہے کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت ارمیاہ علیہ السلام کا ہے‘ بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ: یہ شخص حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شخص ایک کافر بادشاہ تھا جو ”بعث بعد الموت“ کا منکر تھا۔
صاحبِ واقعہ کی شخصیت کے تعین کی بنیاد اسرائیلی روایات ہیں
محترم قارئین! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن پاک میں کیاگیاہے اور نہ ہی حدیث نبوی ا میں۔ جب قرآن کریم اورحدیث نبوی میں اس شخص کو متعین نہیں کیا گیا کہ وہ کون تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعین کرنے والوں نے اسے کیسے متعین کیا ؟ جواب واضح ہے کہ اس تعین کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں‘ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی لکھتے ہیں:
قرآن کریم نے اس بستی کا نام ذکر نہیں کیا‘ اور نبی معصوم اسے بھی اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے‘ اور صحابہ وتابعین سے جو آثار منقول ہیں ان کا ماخذ بھی وہ روایات واقوال ہیں جوحضرت وہب بن منبہ ‘ حضرت کعب احبار اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہم تک پہنچتی ہیں اور انہوں نے ان کو اسرائیلی واقعات سے نقل کرکے بیان کیا ہے تو اب واقعہ سے متعلق شخصیت کی تحقیق کے لئے صرف ایک یہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ توراة اور تاریخی مصادر سے اس کو حل کیا جائے “۔ (قصص القرآن:ص:۲۳۹‘ج:۲)مولانا حفظ الرحمن صاحب کے مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن کریم میں ہے اور نہ حدیث رسول اللہ میں‘ بلکہ اس کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں۔
غلط بیانی کی انتہا:
جب صورتِ حال یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ نہیں بتایاگیا کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کو پیش آیا اور حضور اکرم ا نے بھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ یہ قصہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے‘ مفسرین کرام بھی یہی فرماتے ہیں کہ: جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا اسے مبہم ہی رکھنا چاہئے‘ اب جبکہ یہ یقینی طور پر معلوم ہی نہیں کہ یہ شخص کون تھا تو اسرائیلی روایات کو بنیاد بناکر عوام الناس کو یہ تأثر دینا کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ سوسال تک سوئے رہے اور انہیں وقت کا پتہ بھی نہ چلا‘ یہ غلط بیانی کی انتہاء نہیں‘ تواور کیا ہے‘ بلکہ اس واقعہ کو اس رنگ میں پیش کرنا کہ سننے والے یہی سمجھیں کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا نام لے کر یہ واقعہ بیان فرمایا ہے‘یقیناً کتاب اللہ پر اضافہ اور اللہ پر افتراء ہے۔

اسرائیلی روایات: کبھی قرآن کے درجہ میں اور کبھی انکار کی زد میں
عصر ہذا کے معتزلہ کا عجیب مزاج ہے‘ اس واقعہ میں تو ان لوگوں نے اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رکھا ہے اور جب حضرت یوسف علیہ السلام اور عزیز مصر کی گھر والی کے نکاح کا مسئلہ چلتاہے تو یہ حضرات یہ کہہ کرنکاح کا انکار کردیتے ہیں کہ:” حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا نکاح نہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے‘ بلکہ اسرائیلی روایات سے ثابت ہے جن پر اعتبار نہیں ہے“۔ اب یہاں تو یہ حضرات اسرائیلی روایات کو ٹھکرا رہے ہیں اور وہاں اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رہے ہیں۔ کوئی ان شرفاء سے پوچھے آخر کیا وجہ ہے؟ ایک ہی چیز کو کبھی قرآن بناتے ہو‘ کبھی قرآن کے مخالف ٹھہراتے ہو۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے: میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑواکڑوا تھو تھو


کیا یہی اشاعت التوحید والسنة ہے کہ جو چیز خواہشِ نفس کے مطابق ہے‘ اسے لیا جارہاہے اور جو چیز خواہشِ نفس کے خلاف ہے‘ اسے ٹھکرایاجارہاہے۔ بندہ عاجز کی دانست کے مطابق اتباعِ قرآن کے نام پر درحقیقت اتباعِ خواہش ہورہی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ



قارئین کرام! جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس آیت میں صاحبِ واقعہ متعین نہیں ہے‘ بلکہ مبہم ہے تو اس سے حضرات انبیاء کرام علیہ الصلاة والسلام کی حیات وسماع کی نفی کرنا خود بخود باطل ہے۔


بے ڈھنگی چال

یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ منکرین حیات انبیاء کرام علیہم السلام نے جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کیا ہے کہ وہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ انہیں روایات میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی نہ تھے‘ بلکہ ایک نیک صالح مرد تھے‘ لیکن ستم ظریفی دیکھئے! ان لوگوں نے تعین کی حد تک ان روایات کو قبول کیا‘ بلکہ ان کو قرآن کریم کا درجہ دیا اور ان روایات کے برعکس‘ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی قرار دے دیا۔ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی لکھتے ہیں:

مگر یہ واضح رہے کہ جن روایات میں حضرت عزیر علیہ السلام کو آیات مسطورہٴ بالا کا مصداق قرار دیا گیا ہے‘ ان میں یہ بھی تصریح ہے کہ عزیر علیہ السلام نبی نہیں تھے‘ بلکہ مرد صالح تھے“ ۔ (قصص القرآن ص:۲۴۷‘ج:۲)


اگر ان لوگوں میں انصاف کی رتی ہوتی تو یہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی نہ کہتے‘ کیونکہ انہی کی اپنی پسندیدہ روایات میں یہی لکھا ہے کہ وہ نبی نہیں بلکہ نیک صالح مرد تھا‘ لیکن ان کی بے ڈھنگی چال ملاحظہ فرمایئے کہ جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کرتے ہیں‘ انہیں روایات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔
برسبیل تنزل
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے اور وہ نبی اللہ تھے تو پھر بھی ان لوگوں کا اس واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کا انکار اور ان کے سماع عند القبور کا انکار ثابت نہیں ہوتا‘ کیونکہ اللہ جل شانہ نے اپنے پیغمبر حضرت عزیر علیہ السلام کو عارضی وفات کے بعد لوگوں کی نظروں سے ایسے مستور رکھا کہ پورے سوسال کے عرصہ میں اس دور کا کوئی آدمی ان کے پاس سے نہیں گذرا اگر گذرا‘ تو اس نے حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا نہیں‘ ورنہ یہ نا ممکن ہے کہ لوگ مردہ شخص کی نعش کو دیکھیں اوراس کو تدفین کا انتظام کئے بغیر‘ ویسے ہی چھوڑ کر چلے جائیں‘ جبکہ تدفینِ میت کا مسئلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرم ا تک ہرنبی کی شریعت میں برابر چلا آرہاہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے پاس سے کوئی گذرا ہی نہیں‘ اگر گذرا ہے تو اسے دیکھا نہیں‘ جب اللہ کے نبی کو دیکھنا ثابت ہی نہیں تو کس نے جاکر اللہ کے نبی کے جسد اطہر کو سلام کیا ہوگا؟ جب کسی نے سلام ہی نہیں کیا تو عدم سماع کیسے ثابت ہوا؟ لہذا نہ وہاں سلام کیا گیا اور نہ عدم سماع ثابت ہوا۔ نیز اس واقعہ سے الحیاة بعد الوفات کی نفی بھی نہیں ہوتی‘ کیونکہ قرآن پاک کی پچاس سے زائد آیات اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے حیاتِ قبر ہر مردہ کے لئے ثابت ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ کو رنج وراحت‘ دکھ سکھ اور ثواب وعقاب کا احساس ہوتاہے‘ لہذا اس واقعہ کو بنیاد بناکر کتاب وسنت سے ثابت شدہ عقیدہٴ حیات قبر کی تردید کرنا کسی دانش مند کو زیب نہیں دیتا۔



اگر حضرت عزیر علیہ السلام اس عالم میں زندہ تھے تو وقت کا احساس کیوں نہ ہو سکا؟


منکرینِ حیات قبر کے واعظین کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عزیر علیہ السلام زندہ تھے تو انہیں وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟



جواباً عرض ہے کہ وقت کے صحیح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے عدم حیات پر استدلال بالکل باطل ہے‘ حضرت عزیر علیہ السلام تو اس وقت موت کی وجہ سے عالم قبر وبرزخ میں تھے اور اس عالم کی حیات ان کو حاصل تھی‘ لیکن بعض اوقات عالمِ دنیا میں زندہ رہنے والے انسانوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔



دیکھئے! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
قال کم لبثتم فی الارض عدد سنین‘ قالوا لبثنا یوماً او بعض یوم فسئل العادین‘ قال ان لبثتم الا قلیلاً“۔ (مومنون:۱۱۲‘۱۱۳)
ترجمہ:․․․”ارشاد ہوگا کہ تم برسوں کے حساب سے کس قدر مدت زمین پر رہے ہوں گے وہ جواب دیں گے کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے‘ سو گننے والوں سے پوچھ لیجئے۔ ارشاد ہوگا کہ تم تھوڑی ہی مدت رہے“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
دیکھئےاہلِ دنیا اپنی اپنی عمریں پوری کرکے دنیا سے رخصت ہوئے ‘کوئی ایک سال رہا‘ کوئی پچاس سال رہا‘ کوئی سو سال یا اس سے کم وبیش رہا۔ اب دنیا میں رہنے والوں سے اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں: ایک دن یا بعض دن۔ ظاہر ہے ان کا یہ جواب ان کے غلط اندازے پر مبنی ہے وہ وقت کی صحیح مقدار نہیں بتارہے۔ کیا کوئی احمق اس سے یہ استدلال کرے گا کہ وہ دنیا میں زندہ تھے ہی نہیں‘ بلکہ مردہ تھے۔ یقیناً وہ زندہ تھے‘ البتہ بعض عوارض کی وجہ سے وقت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے۔ معلوم ہوا کہ زندہ بھی بعض اوقات وقت کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے۔اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام اپنے عالم قبر وبرزخ میں زندہ تھے مگر وقت کا صحیح اندازہ نہ کرسکے۔
دوسری دلیل
اصحابِ کہف غار میں مردہ نہیں تھے‘ بلکہ سوئے ہوئے تھے۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں : ”وتحسبہم ایقاظاً وہم رقود“ (کہف:۱۸) اور ان زندہ سونے والوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا ‘جب ان سے پوچھا گیا توانہوں نے جواب دیا: ”یوماً او بعض یوم“”ایک دن یا دن کا کچھ حصہ“ تو ثابت ہوا کہ وقت کا صحیح اندازہ نہ لگاسکنے کی وجہ سے کسی کی عدمِ حیات پر استدلال کرنا سراسر باطل ‘بلکہ تلبیس ابلیس ہے۔
الزامی جواب


عصر ہذا کے معتزلہ کے نزدیک روح نہیں مرتی‘ بلکہ وہ زندہ رہتی ہے۔ جب کسی کی روح نہیں مرتی تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح بھی نہیں مری ہوگی؟ظاہر ہے کہ اس وقت روح ان کے جسد میں آچکی تھی‘ اب ہمیں بتایا جائے کہ روح تو زندہ رہی اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ فرماکر پوچھا کہ تو کتنا ٹھہرا؟تو اسے وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟ اگر ان لوگوں کے استدلال کو درست تسلیم لیا جائے کہ وقت کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے حیات کی نفی ہوجاتی ہے تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح کی حیات کی بھی نفی ہوجائے گی‘ جبکہ یہ لوگ روح کو تو زندہ ہی مانتے ہیں اور اس کی موت کے قائل ہی نہیں۔
بندہٴ عاجز کا مطالبہ
عصر ہذا کے معتزلہ چودھویں صدی کے آواخر کی پیداوار ہیں‘ اور قرآن کریم کے نزول کو چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے‘ اس پورے عرصہ میں کسی مفسر ‘ کسی محدث‘ کسی فقیہ‘ کسی متکلم اور کسی عالمِ دین نے اس واقعہ سے حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کی نفی پر استدلال نہیں کیا‘ اگر کسی نے کیا ہے تو ہمیں اس کا نام بتایا جائے (دیدہٴ باید) ظاہر ہے کہ چودہ سوسال کے عرصہ میں کسی عالم دین کواس آیت سے انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیات کی نفی معلوم نہیں ہوئی اور اب صرف انہی کو معلوم ہوئی ہے ۔
ان کے استدلال کے بطلان کی ایک اور دلیل


بندہ ٴ عاجز نے اکابر علما ئے اسلام کی کتب کی روشنی میں پچاس سے زائد آیاتِ قرآنیہ اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے ثابت کیا ہے کہ مرنے کے بعد ہرمردے کو درجہ بدرجہ اور حسبِ حیثیت قبر وبرزخ میں ایک قسم کی حیات حاصل ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ انسان عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے۔ البتہ یہ حیات اللہ تعالیٰ نے ہماری نظروں سے مستور کررکھی ہے۔ تفصیل کے لئے بندہ عاجز کی کتاب قبر کی زندگی کا مطالعہ کیجئے‘ اگر ان لوگوں کے کشید کردہ مطلب کو درست مان لیا جائے تو ان کا یہ مطلب قرآنِ کریم کی ان پچاس سے زائد آیات کے خلاف ہوگا جن میں حیات کا ثبوت ہے‘ جبکہ مفسرین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا جو دوسری آیات سے متصادم ہو خود باطل اور غلط ہے ۔
اس واقعہ سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
قارئین کرام! مذکورہ بالا واقعہ سے درحقیقت یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ حضراتِ انبیائے کرام ہوں یا اولیائے عظام وہ عالم الغیب نہیں ہوتے‘ کیونکہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ‘ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام اسی طرح اصحابِ کہف اور تمام اولیائے عظام عالم الغیب نہ تھے‘ اسی لئے انہیں وقت کا اندازہ نہ ہوسکا اور یہی عقیدہ قرآنِ مجید میں کئی جگہ بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود ہے‘ پس ثابت ہوا کہ اس واقعہ سے عدم حیاتِ قبر ثابت نہیں‘ بلکہ عدم علمِ غیب ثابت ہے۔




==============================

حیات الانبیاء احادیث کی روشنی میں 
(1) انبیاء کے اجسام محفوظ اور اپنی قبروں میں زندہ ہیں:

 حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ " .ترجمہ:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا : انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا فرماتے ہیں.
[مسند البزار:6888، مسند أبي يعلى:3425، فوائد تمام:58، حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي:1+2, سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌621]


امام ابن حجر مکیؒ نے فرمایا:
وَمَا أَفَادَهُ مِنْ ثُبُوتِ حَيَاةِ الْأَنْبِيَاءِ حَيَاةً بِهَا يَتَعَبَّدُونَ وَيُصَلُّونَ فِي قُبُورِهِمْ مَعَ اسْتِغْنَائِهِمْ عَنِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ كَالْمَلَائِكَةِ أَمْرٌ لا مرية فيه وقد صنف البيهقي جزأ في ذلك
ترجمہ:
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام قبروں میں برزخی زندگی کیساتھ ہیں اور نمازیں  پڑھتے اور عبادت گزاری کرتے ہیں، نیز وہ فرشتوں کی طرح کھانے پینے کی حاجت نہیں رکھتے، اور یہ ایسی بات ہے جس میں کوئی شک نہیں، بیہقی رحمہ اللہ نے اس بارے میں خصوصی ایک رسالہ بھی لکھا ہے۔۔۔
[عون المعبود وحاشية ابن القيم : ج3 / ص261]
نیز قرآن مجید میں شہداء کے بارے میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ وہ برزخی زندگی کیساتھ ہیں اور انہیں رزق بھی دیا جاتا ہے، ان کی زندگی ان کے جسموں کے ساتھ ہے، تو انبیائے کرام کیساتھ بالاولی ہوگی۔

حکم حدیث:
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
وَصَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔
[فتح الباری جلد 6 ص352]

علامہ سیوطیؒ نے اسے حسن کہا ہے۔
[الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3089]

علامہ ہیثمیؒ فرماتے ہیں: ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔
[مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214]

علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری ؒلکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں۔
[مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180]

علامہ البانی نے اس روایت کو [صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790 ، التوسل - الصفحة أو الرقم: 59میں صحیح ، [أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ جید اور [أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ قوی فرمایا ہے.

 (شفاالسقام: ص134) حیات الانبیاء للبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الأنبياء أحياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكالبحر الزخار بمسند البزار 10-1323936888أبو بكر البزار292
2الأنبياء أحياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكمسند أبي يعلى الموصلي33713425أبو يعلى الموصلي307
3الأنبياء أحياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر35673446ابن حجر العسقلاني852
4الأنبياء أحياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة61208802البوصيري840
5الأنبياء أحياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكالمقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء11081239الهيثمي807
6الأنبياء أحياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكفوائد تمام الرازي5558تمام بن محمد الرازي414
7الأنبياء أحياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكحياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي11البيهقي458
8الأنبياء أحياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكحياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي22البيهقي458
9الأنبياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكأخبار أصبهان لأبي نعيم15762 : 44أبو نعيم الأصبهاني430
10الأنبياء أحياء في قبورهم يصلونأنس بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر1201813 : 326ابن عساكر الدمشقي571

امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کی بیت المقدس میں انبیائے کرام کیساتھ ملاقات ہوئی تھی:

صحیح احادیث میں یہ ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے بیت المقدس میں تمام انبیائے کرام کی  امامت کروائی تھی، اس کے درج ذیل دلائل ہیں:

1- حضرت ابو ہریرہ (راضی ہو اللہ اس سے) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے پیغمبر (رحمتیں ہوں اللہ کی اس پر اور سلامتی بھی) نے فرمایا:
وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ، وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ - يَعْنِي: نَفْسَهُ -، فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ
ترجمہ:
۔۔۔ میں نے دیکھا کہ انبیائے کرام کی بڑی جماعت وہاں موجود ہے، موسی (سلامتی ہو ان پر) کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا گویا کہ وہ گٹھے ہوئے جسم اور گھنگریالے بالوں والے آدمی ہیں گو یا کہ وہ قبیلہ ازد شنوءہ کے ایک آدمی ہیں اور عیسی بن مریم(سلامتی ہو ان دونوں پر) کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو لوگوں(میرے ساتھیوں) میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی(راضی ہو اللہ اس سے) ہیں اور ابراہیم  (سلامتی ہو ان پر) کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا لوگوں میں سے  زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب [یعنی محمد ﷺ خود] ہیں اس کے بعد نماز کا وقت آیا تو میں نے ان کی امامت کروائی۔
[صحیح مسلم:172، مستخرج أبي عوانة:419، شرح مشكل الآثار-الطحاوي:5011، التوحيد لابن منده:25+26، حياة الأنبياء-للبيهقي:9]

2- حضرت عباس کے بیٹے عبداللہ (راضی ہو اللہ ان دونوں سے) سے مروی ہے کہ :
فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‌الْمَسْجِدَ ‌الْأَقْصَى قَامَ يُصَلِّي، ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا النَّبِيُّونَ أَجْمَعُونَ يُصَلُّونَ مَعَهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ جِيءَ بِقَدَحَيْنِ، أَحَدُهُمَا عَنِ الْيَمِينِ، وَالْآخَرُ عَنِ الشِّمَالِ
ترجمہ:
"جس وقت پیغمبر ﷺ مسجد اقصیٰ(یعنی بیت المقدس) میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگے، پھر آپ نے ادھر ادھر دیکھا تو تمام انبیائے کرام آپ کیساتھ(جماعت بناکر) نماز ادا کر رہے تھے"۔
[مسند أحمد:2324، البعث والنشور للبيهقي-ت حيدر:188(ت الشوامي:752)، جامع المسانيد لابن الجوزي:3142، الأحاديث المختارة:544]
اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے، تاہم پہلی مسلم کی روایت اس کیلیے شاہد ہے۔
اور امام ابن کثیرؒ نے اس روایت narration کی سند chain of narrators کو صحیح کہا ہے.
[تفسير ابن كثير - ت السلامة: ج5 / ص28 تَفْسِيرُ سُورَةِ‌‌ الْإِسْرَاءِ:1]






(2) انبیاء اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں:
 حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَتَيْتُ ، وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ : " مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ " .
[ صحيح مسلم » كِتَاب الْفَضَائِلِ » بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ, رقم الحديث: 4386(2377)]  
ترجمہ:
حضرت انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: معراج کی رات میرا گزر حضرت موسیٰؑ کی قبر پر ہوا، جو سرخ ٹیلے کے قریب ہے، میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں.
[صحيح مسلم ج : 2 ص : 268 (3/490) طبعة رحيمية ديوبند , .مسند أحمد ج : 5 ص : 59 , 362 , 365 , . ج : 3 ص : 148 , 248 , سنن النسائي ج : 1 ص : 242 , كنز العمال ج : 11 ص : 518 , حديث 32386 , الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان ج : 1 ص : 216 , طبعة المكتبة الأثرية بباكستان].






(3) ﷲ تعالی کا نبی زندہ اور رزق دیا جاتا ہے:
 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ ، عَنْعُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا " ، قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ ، قَالَ : " وَبَعْدَ الْمَوْتِ ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ " . 
[سنن ابن ماجه » كِتَاب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ » بَاب ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ...رقم الحديث: 1637]
ترجمہ:
حضرت ابودرداءؓ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا فرمایا وفات کے بعد بھی پیش جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! وفات کے بعد بھی پیش کیا جائے گا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیائے کرام کے اجسام طیبہ کو کھائے۔ سو اﷲ تعالی کا نبی زندہ ہے ۔ اس کو رزق ملتا ہے۔
تخريج الحديث : تهذيب الكمال للمزي » رقم الحديث: 574(10:23)
حکمِ حدیث:
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔ 
حافظ منذری ؒ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297، الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 2/404
المحدث: الدمياطي المصدر: المتجر الرابح الصفحة أو الرقم: 246 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده 
المحدث: محمد بن محمد الغزي المصدر: إتقان ما يحسن - الصفحة أو الرقم: 1/100 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: العجلوني المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 1/190 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الحكمي المصدر: معارج القبول - الصفحة أو الرقم: 792/2 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الألباني المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1672 ، خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره
علامہ عزیزی ؒ لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، [السراج المنیر: جلد1ص290]۔ 
علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات [فیض القدیر: جلد4ص87]۔
اسی طرح علامہ زرقانی ؒ، علامہ سمہوویؒ ملاعلی قاریؒ مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانیؒ نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔
[زرقانی شارح مواحد: جلد 5ص436، خلاصة الوفا: ص48، مرقات: جلد2ص112، نیل الاوطار: جلد5 ص264، عون المعبود: جلد 1 ص405]۔


(4) نبی اکرم ﷺ کو (اگر کوئی دور سے درود بھیجے تو) تحفہِ درود "پہچایا" جاتا ہے:
 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا ، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا ، وَصَلُّوا عَلَيَّ ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ " .
[سنن أبي داود » كِتَاب الْمَنَاسِكِ » بَاب زِيَارَةِ الْقُبُورِ, رقم الحديث: 1749(2042), 2/179]
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ، اور میری قبر کو میلا مت بناؤ، اور مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ تم جہاں بھی ہو تمہارا درود میرے پاس پہچایا جاتا ہے.

شاہد:
عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ»، قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ: وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ، وَقَدْ أَرَمْتَ؟ - قَالَ: يَقُولُونَ: بَلِيتَ - قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ» ۔
ترجمہ:

حضرت اوس ابن اوسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ، لوگوں نے پوچھا کہ ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا؟ آپ تو بوسیدہ ہو چکے ہوں گے [ شاید راوی نے أَرَمْتَ کی جگہ بَلِيتَ ، کہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کو حرام کر دیا کہ وہ کھائے ۔
[سنن ابوداود : باب فی الااستغفار ، حدیث نمبر 1531؛ سنن ابن ماجۃ : باب فی فضل الجمعۃ ، حدیث نمبر 1085] 

 تشریح: 
حدیث کے پہلے جزء کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اول یہ کہ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح نہ سمجھ لو کہ جس طرح مردے اپنی قبر میں پڑے رہتے ہیں تم بھی اپنے گھروں میں مردوں کی طرح پڑے رہو ان میں نہ عبادت کرو اور نہ کچھ نمازیں پڑھو بلکہ اسی طرح گھروں میں بھی عبادت کرو اور کچھ نمازیں پڑھو تا کہ اس کے انوار و برکات گھر اور گھر والوں کو پہنچیں اور اس کی شکل یہ ہونی چاہئے کہ فرض نمازیں تو مساجد میں ادا کرو اور سنن و نوافل اپنے گھر آکر پڑھو کیونکہ نوافل مساجد کی بہ نسبت گھر میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ۔ اپنے گھروں میں مردے دفن نہ کرو۔ اس موقعہ پر یہ اشکال پیدا نہ کیجئے کہ خود رسول اللہ ﷺ تو اپنے گھر ہی زیر زمین آرام فرما ہیں۔ کیونکہ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کو ایسا نہ کرنا چاہئے۔ تیسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ قبروں کو سکونت کی جگہ قرار نہ دو جیسا کہ آجکل اولیاء اللہ کے مزارات اور قبرستانوں پر ان کے خدام مجاوروں نے سکونت اختیار کر رکھی ہے، تاکہ دل کی نرمی اور طبیعت و مزاج کی شفقت و رحمت ختم نہ ہو جائے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ قبروں کی زیارت کر کے اور ان پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس آجاؤ۔ حدیث کے دوسرے جزء" میری قبر کو عید (کی طرح) قرار نہ دو " کا مطلب یہ ہے کہ میری قبر کو عید گاہ کی طرح نہ سمجھو کہ وہاں جمع ہو کر زیب و زینت اور لہو و لعب کے ساتھ خوشیاں مناؤ اور اس سے لطف و سرور حاصل کرو۔ جیسا کہ یہود و نصاری اپنے انبیاء کی قروں پر اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ حدیث کے اس جزء سے آج کل کے ان نام نہاد ملاؤں اور بدھ پرستوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے اولیا اللہ کے مزارات کو اپنی نفسانی خواہشات اور دنیاوی اغراض کا منبع و مرجع بنا رکھا ہے اور ان مقدس بزرگوں کے مزارات پر عرس کے نام سے دنیا کی وہ خرافات اور ہنگامہ آرائیاں کرتے ہیں جن پر کفر و شرک بھی خندہ زن ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان کے حوالے مانڈوں نذر و نیاز اور لذت پیٹ و دہن نے ان کی عقل پر نفس پرستی اور ہوس کاریوں کے وہ موٹے پردے چڑھا دیئے ہیں جن کی موجودگی میں نہ انہیں نعوذ باللہ قرآنی احکام کی ضرورت ہے اور نہ انہیں کسی حدیث کی حاجت۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین بعض علماء نے اس جزء کی تشریح یہ کی ہے عید کی طرح سال میں صرف ایک دو مرتبہ ہی میری قبر کی زیارت کے لئے نہ آیا کرو بلکہ اکثر و بیشتر حاضر ہوا کرو۔ اس صورت میں آپ ﷺ نے اپنی قبر کی زیادہ سے زیادہ زیارت اور اس محیط علم و عرفان اور منبع امن و سکون پر اکثر و بیشتر حاضری پر امت کے لوگوں کو ترغیب دلائی ہے۔ حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجو، اگر کوئی آدمی میرے روضے سے دور ہے اور بعد مسافت اختیار کئے ہوئے ہے تو اس کو اس کا خیال نہ کرنا چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا ہی مجھ پر درود بھیجتا رہے کیونکہ جہاں سے بھی درود بھیجا جائے گا میرے پاس پہنچ جائے گا۔ اس طرح آپ ﷺ نے ان مشتاقان زیارت کی جنہیں روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت حاصل نہیں ہو سکی۔ تسلی فرمائی ہے کہ اگرچہ مجبوریوں کی بنا پر تم مجھ سے دور ہو لیکن تمہیں چاہئے کہ توجہ اور حضور قلب سے غافل نہ رہو کہ قرب جانے چوں بود بعد کانے سہل ست 

[مسند أحمد ج : 2 ص : 367 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , مشكاة ص : 84 , فتح الباري ج : 6 ص : 488, المعجم الأوسط للطبراني » بَابُ الْمِيمِ » مَنِ اسْمُهُ مُوسَى, رقم الحديث: 8248(8030), مصنف ابن أبي شيبة » 7368(7616)].








(5) تحفہِ درود فرشتے پہنچاتے ہیں:
 حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّلِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ ، يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ".
ترجمہ:
حضرت عبدللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله کی طرف سے کچھ فرشتے مقرر ہیں جو زمین میں چکر لگاتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں.
[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ مَسَائِلَ شَتَّى فِي الصَّلاةِ » فِي ثَوَابِ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ ...,رقم الحديث: 8506(8789)-صحيح]
[نسائي ج : 1 ص : 189 , مسند أحمد ج : 1 ص : 441 , ابن أبي شيبة ج : 2 ص : 517 , مشكاة ص : 86 , التداية والنهاية ج : 1 ص : 154 , الجامع الصغير ج : 1 ص : 93 ,خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , الإحسان بترتيب ابن حبان ج : 3 ص : 8 حديث 9 , 10].
رسول اللہ ﷺ پر اپنی امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں، یہ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، اور اسی طرح  تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام پر بھی ان کی امتوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں، بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین اور  بعض اقارب پر بھی اعمال پیش ہوتے ہیں، روایات سے معلوم ہوتا ہے آپ ﷺ پر ہر روز صبح اور شام اپنی امت کے اعمال تفصیلاً پیش ہوتے ہیں، اور ہر جمعہ تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام پر ان کی امتوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں، ان کے ساتھ  آپ ﷺ پر بھی اپنی کے امت کے اعمال جمعہ کے دن اجمالاً پیش ہوجاتے ہیں، اور بعض اقارب جیسے والدین وغیرہ پر اپنی اولاد کے اعمال بھی جمعہ کو پیش ہوتے ہیں۔

باقی پیر اور جمعرات کے دن آپ ﷺ پر خصوصیت کے ساتھ اعمال پیش ہونے والی  روایات  سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہیں۔  ہاں صحیح  احادیث سے  معلوم ہوتا ہے کہ پیر اور جمعرات کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال پیش ہوتے ہیں۔

مذکورہ عقیدۂ عرض اعمال سے متعلق بطور فائدہ چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں :

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: " إِذَا قُبِضَتْ نَفْسُ الْعَبْدِ تَلَقَّاهُ أَهْلُ الرَّحْمَةِ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ كَمَا يَلْقَوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ لِيَسْأَلُوهُ، فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَنْظِرُوا أَخَاكُمْ حَتَّى يَسْتَرِيحَ، فَإِنَّهُ كَانَ فِي كَرْبٍ، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ فَيَسْأَلُونَهُ مَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ مَا فَعَلَتْ فُلَانَةٌ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ؟ فَإِذَا سَأَلُوا عَنِ الرَّجُلِ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ، قَالَ لَهُمْ: إِنَّهُ قَدْ هَلَكَ، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ، فَبِئْسَتِ الْأُمُّ، وَبِئْسَتِ الْمُرَبِيَّةُ، قَالَ: ‌فَيُعْرَضُ ‌عَلَيْهِمْ ‌أَعْمَالُهُمْ، فَإِذَا رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا، وَقَالُوا: هَذِهِ نِعْمَتُكَ عَلَى عَبْدِكَ فَأَتِمَّهَا، وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا: اللَّهُمَّ رَاجِعْ بِعَبْدِكِ۔
ترجمہ:
حضرت ابوایوب انصاریؓ کہتے ہیں: جب (مسلمان) بندے کی روح قبض کی جاتی ہے تو (پہلے فوت ہونے والے) اللہ تعالیٰ کے بندے اس کا استقبال کرتے ہیں جیسے دنیا میں لوگ خوشخبری دینے والے کو (خوشی سے) ملتے ہیں، جب وہ بندے (اسے بیدار کر کے) اس سے سوال کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کو آرام کرنے دو، وہ دنیا کی بے چینی و پریشانی میں مبتلا تھا۔ بالآخر وہ پوچھتے ہیں کہ فلاں کیا کر رہا تھا؟ آیا اس کی شادی ہو گئی تھی؟ جب وہ کسی ایسے آدمی کے بارے میں سوال کرتے ہیں جو اس سے پہلے مر چکا ہوتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر چکا تھا، تو وہ کہتے ہیں: «‏‏‏‏انا لله وانا اليه راجعون» (وہ بندہ یہاں تو نہیں پہنچا) اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے ٹھکانے نے جہنم میں چلا گیا ہے۔ وہ برا ٹھکانہ ہے اور بری پرورش گاہ ہے۔ پھر (اللہ تعالیٰ کے) ان (بندوں) پر ان کے نیک اعمال پیش کئے جاتے ہیں، جب وہ اچھا عمل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں: اے اللہ! یہ تیری اپنے بندے پر نعمت ہے، تو اس کو پورا کر دے اور جب وہ برا عمل دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں: اے اللہ! اپنے بندے پر رجوع کر۔
[الزهد والرقائق-ابن المبارك-ت الأعظمي:443، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌2758]
فَيَسْأَلُونَهُ: ‌مَاذَا ‌فَعَلَ ‌فُلَانٌ؟ ‌مَاذَا ‌فَعَلَ ‌فُلَانٌ؟
وہ (روحیں) اس (مرنے والے کی روح) سے پوچھتی ہیں کہ فلاں کیسے ہے؟ اور فلاں کیسے ہے؟
[سنن النسائی: جنازے کی کتاب، باب-روح نکلتے وقت مومن کا اکرام، حدیث نمبر 1834]


         1-  حافظ نورالدین علی بن ابی بکرالہیثمی[ المتوفی: ۸۰۷ھ] نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد‘‘ میں عرضِ اعمال علی الرسول ﷺ کے اثبات میں’’ مسند البزار‘‘ کے حوالہ سے ایک صحیح حدیث نقل فرمائی ہے:


پیغمبر ﷺ کی وفات کے بعد بھی اسکی امت کو اسکی دعائیں حاصل ہوتی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ، يُبَلِّغُونَ عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ ". قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَيَاتِي خَيْرٌ لَكَمْ تُحْدِثُونَ وَيُحَدَثُ لَكَمْ، وَوَفَاتِي خَيْرٌ لَكَمْ تُعْرَضُ عَلَيَّ ‌أَعْمَالُكُمْ، فَمَا رَأَيْتُ مِنْ خَيْرٍ حَمَدَتُ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ لَكَمْ» ۔
ترجمہ:
الله کی طرف سے کچھ فرشتے مقرر ہیں جو زمین میں چکر لگاتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں. (پھر) فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری زندگی تمہارے لئے بہتر ہے، تم لوگ مجھ سے باتیں کرتے ہو، میں تم لوگوں سے باتیں کر لیتا ہوں [اور حدیث بن جاتی ہے] اور میری وفات بھی تمہارے لئے بہتر ہے، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کئے جائیں گے، اگر میں ان میں اچھی بات دیکھوں گا تو اللہ کی حمد کروں گا ، اور کوئی بری بات دیکھوں گا ، تو میں تمہارے لئے استغفار کروں گا۔

الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث: الهيثمي المصدر: مجمع الزوائد:14250 - الصفحة أو الرقم:9/27
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح

المحدث: ابن العراقي المصدر: طرح التثريب - الصفحة أو الرقم:3/297
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد

المحدث: السيوطي المصدر: الخصائص الكبرى - الصفحة أو الرقم: 2/281
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

الشواهد
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1حياتي خير لكم تحدثون ونحدث لكم ووفاتي خير لكم تعرض علي أعمالكم فما رأيت من خير حمدت الله عليه وما رأيت من شر استغفرت الله لكمعبد الله بن مسعودالبحر الزخار بمسند البزار17221925أبو بكر البزار292
2حياتي خير لكم تحدثون ويحدث لكم وموتي خير لكم تعرض علي أعمالكم فما كان من حسنة حمدت الله عليها وما كان من شيء استغفرت الله لكمموضع إرسالالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر39523824ابن حجر العسقلاني852
3حياتي خير لكم تحدثون ويحدث لكم ووفاتي خير لكم تعرض علي أعمالكم فما كان من حسن حمدت الله وما كان من سيء استغفرت الله لكمموضع إرسالإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة59768628البوصيري840
4حياتي خير لكم تحدثون ويحدث لكم ووفاتي خير لكم تعرض علي أعمالكم فما كان من حسن حمدت الله عليه وما كان من سيئ استغفرت الله لكمموضع إرسالبغية الباحث عن زوائد مسند الحارث956957الهيثمي807
5ستحدثون ويحدث لكم فإذا رأيتم محدثة فعليكم بالأمر الأولعبد الله بن مسعودإتحاف المهرة12147---ابن حجر العسقلاني852
6حياتي خير لكم تحدثون ويحدث لكم ووفاتي خير لكم يعرض علي أعمالكم فما رأيت من خير حمدت الله عليه وما رأيت من شر استغفرت الله لكمعبد الله بن عمركشف الأستار793845نور الدين الهيثمي807
7حياتي خير لكم وموتي خير لكم أما حياتي فأحدث لكم وأما موتي فتعرض علي أعمالكم عشية الاثنين والخميس فما كان من عمل صالح حمدت الله عليه وما كان من عمل سوء استغفرت الله لكمأنس بن مالكعروس الأجزاء للثقفي8082مسعود بن الحسن الثقفي562
8حياتي خير لكم وموتي خير لكم أما حياتي فأحدث لكم وأما موتي فتعرض علي أعمالكم عشية الاثنين والخميس فما كان من عمل صالح حمدت الله عليه وما كان من عمل سوء استغفرت الله لكمأنس بن مالكجزء أبي محمد القرشي9---عبد القادر بن محمد بن محمد بن نصر الله القرشي330
9حياتي خير لكم ومماتي خير لكم فأما حياتي فأحدثكم وأحذركم وأخولكم وأما موتي فيعرض علي أعمالكم عشية الاثنين والخميس فما كان من عمل صالح حمدت الله عليه وما كان من عمل سيئ استغفرت الله لكم منهأنس بن مالكعشاريات السيوطي29---جلال الدين السيوطي911
10حياتي خير لكم تحدثون ويحدث لكم ووفاتي خير لكم تعرض علي أعمالكم فما رأيت من خير حمدت الله عليه وما رأيت من شر استغفرت الله لكمعبد الله بن مسعودطرح التثريب للعراقي5173 : 935أبو زرعة العراقي806
11حياتي خير لكم تحدثون ويحدث لكم فإذا أنا مت كانت وفاتي خيرا لكم تعرض علي أعمالكم فإن رأيت خيرا حمدت الله وإن رأيت غير ذلك استغفرت الله لكمموضع إرسالفضل الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم لإسماعيل بن إسحاق2325إسماعيل بن إسحاق القاضي282
12حياتي خير لكم ووفاتي خير لكم تحدثون فيحدث لكم فإذا أنا مت عرضت علي أعمالكم فإن رأيت خيرا حمدت الله وإن رأيت شرا استغفرت الله لكمموضع إرسالفضل الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم لإسماعيل بن إسحاق2426إسماعيل بن إسحاق القاضي282
13حياتي خير لكم تحدثون ويحدث لكم فإذا أنا مت كانت وفاتي خيرا لكم تعرض علي أعمالكم فإذا رأيت خيرا حمدت الله وإن رأيت شرا استغفرت الله لكمموضع إرسالالطبقات الكبرى لابن سعد18982 : 347محمد بن سعد الزهري230

اس پر تو اتفاق ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے پڑھا جانے والا درود آپ ﷺ تک پہنچتا ہے اور آپ ﷺ کو پیش کیا جاتا ہے۔
[ابو داودؒ:1047، نسائیؒ:1374]
لیکن تمام اعمال کے پیش ہونے کا بیان اکثر احادیث میں نہیں اور جن میں ہے ان کی صحت پر بعض محدثین نے ضعیف کہا ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ [المجروحين:2 / 152] میں کہتے ہیں: شدید نوعیت کا منکر الحدیث ہے، انہوں نے احادیث میں قلب کیا، مشہور اہل علم سے منکر قسم کی روایات بیان کرتا ہے، اس لیے یہ راوی متروک ہونے کا مستحق ہے۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ جو کہ ہیثمی رحمہ اللہ کے بھی استاد ہیں انہوں نے مسند البزار کی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے زیادہ محتاط الفاظ استعمال کیے ہیں، چنانچہ " تخريج الإحياء " (4 / 128) میں لکھتے ہیں:
اس حدیث کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں تاہم عبد المجید بن ابو رواد اگرچہ مسلم کا راوی ہے لیکن ابن معین اور نسائی نے اسے ثقہ قرار دیا ہے لیکن دیگر اہل علم نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔

            2-    علامہ سیوطی رحمہ ﷲنے ’’الجامع الصغیرفي أحادیث البشیروالنذیر‘‘ میں ایک صحیح روایت نقل کی ہے:

’’تعرض الأعمال یوم الأثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء وعلی الآباء والأمّهات یوم الجمعة، فیفرحون بحسناتهم، وتزداد وجوههم بیاضاًوإشراقاً، فاتّقوااﷲ ولاتؤذواموتاکم‘‘.  ( الجامع الصغیرفي أحادیث البشیروالنذیر،حرف التاء،[رقم الحدیث:۳۳۱۶](۱/۱۹۹) ط: دارالکتب العلمیۃ  بیروت،۲۰۰۲م - ۱۴۲۳ھ۔)

             3:         علامہ مناوی رحمہ ﷲاس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طرازہیں :

’’وفائدة العرض علیهم إظهار اﷲ للأموات عذره في مایعامل به أحیاء هم من عاجل العقوبات وأنواع البلیّات في الدنیا، فلوبلغهم ذٰلك من غیرعرض أعمالهم علیهم لکان وجدهم أشدّ. قال القرطبي: یجوز أن یکون المیّت یبلغ من أفعال الأحیاء وأقوالهم بمایؤذیه أویسرّه بلطیفة یحدثها اﷲ لهم من ملك یبلغ أوعلامة أودلیل أوماشاء اﷲ وهو القاهر فوق عباده وعلی من یشاء. وفیه زجرعن سوء القول في الأموات، وفعل ماکان یسرّهم في حیاتهم وزجر عن عقوق الأصول والفروع بعد موتهم بمایسوء هم من قول أوفعل، قال: وإذاکان الفعل صلة وبرًّا کان ضدّه قطیعة وعقوقًا‘‘. (فیض القدیر، شرح الجامع الصغیر للعلامة المناوي، حرف التاء، [ رقم الحدیث:۳۳۱۶] تعرض الأعمال یوم الإثنین،(۳/۲۵۱) ط:مطبعۃ مصطفٰی محمّد مصر،۱۳۵۶ھ/ ۱۹۳۸م)

            4-  ’’زرقانی‘‘  میں ہے:

’’(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال: لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ ﷺ أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله ﷺ: تعرض الأعمال کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة … رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ ﷺ کلّ یوم علی وجه التفصیل وعلی الأنبیاء -ومنهم نبیّنا- علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز ﷺ بعرض أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً‘‘. (شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع مااختصّ به ﷺ من الفضائل والکرامات، (۷/۳۷۳ -۳۷۴)ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔   )

            مذکورہ حدیث مرسل ہے،امام شافعی رحمہ ﷲکے سوا باقی ائمہ اورمحدثین رحمہم ﷲکے ہاں مرسل حجت ہے۔

’’ولذاقال جمهورالعلماء: إنّ المرسل حجّة مطلقًا بناءً علی الظاهرمن حاله … وقال الشافعي: یقبل: أي: لامطلقاً، بل فیه تفصیل‘‘. (شرح شرح نخبة الفکر لعلي القاري الحنفي المرسل، (ص:۴۰۳ -۴۰۷) ط:قدیمی کتب خانہ کراچی)

بالخصوص سعیدبن المسیب کی مرسل کوبعض ایسے حضرات بھی قبول کرتے ہیں جو حجیۃ المرسل کے قائل نہیں۔

’’والثاني:قوله: (وقال الشافعي: یقبل المرسل ممّن عرف أنّه لایرسل إلّا عن ثقة، کابن المسیّب‘‘. (توضیح الأفکارلمعاني تنقیح الأنظار، للعلامة الصنعاني، مسألة في اختلاف العلماء في قبول المرسل، (۱/۲۸۷ -۲۸۸)ط:دارإحیاء التراث العربي،بیروت،۱۴۱۸ھ - ۱۹۹۸م)

’’اشتهرعن الشافعي أنّه لایحتجّ بالمرسل، إلّا مراسیل سعید بن المسیب‘‘. (تدریب الراوي في شرح تقریب النواوي للسیوطي، المرسل، (ص:۱۷۱) ط:قدیمی کتب خانہ کراچی)

       5:         علامہ آلوسی رحمہ ﷲعلیہ سورۃ النحل کی[ آیت :۸۹] {وَجِئْنَابِكَ شَھِیْداً عَلٰی هٰؤُلآءِ } کے تحت رقم طراز ہیں:

’’المرادبهولآء أمّتها عند أکثرالمفسرین، فإنّ أعمال أمّته علیه الصلاة والسلام تعرض علیه بعدموته. فقد روي عنها أنّه قال: حیاتي خیرلکم، تحدثون ویحدث لکم، ومماتي خیرلکم، تعرض عليّ أعمالکم، فمارأیت من خیر حمدت اﷲ تعالیٰ علیه ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ تعالیٰ لکم، بل جاء: إنّ أعمال العبد تعرض علی أقاربه من الموتٰی‘‘.

6:  ’’فقدأ خرج ابن أ بي ا لد نیا عن أبي هریرة أ نّ النبيّ ﷺ قال: لاتفضحوا أمواتکم بسیئات أ عمالکم؛ فإنها تعرض علی أ ولیا ئکم من أهل القبور‘‘.

7: ’’وأخرج أحمد عن أنس مرفوعاً: إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیرذٰلك قالوا: اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم  کما هدیتنا‘‘.

8:  وأخرجه أ بوداود من حدیث جابربزیادة: ’’وألهمهم أن یعملوا بطاعتك‘‘.

9:   وأخرج ابن أبي الدنیاعن أبي الدرداء أنّه قال: ’’إنّ أعمالکم تعرض علی موتاکم، فیسرّون ویساؤون، فکان أبوالدرداء یقول عندذلك: "اللّٰهم إنّي أعوذبك أن یمقتني خالي عبداﷲ بن رواحة إذا لقیته، یقول ذلك في سجوده، والنبيّ ﷺ لأمّته بمنزلة الوالد بل أولٰی‘‘.
[روح المعاني،[النحل:۸۹](۱۴/۲۱۳)ط:إدارۃ الطباعۃ المنیریۃ مصر۔]

            علامہ آلوسی رحمہ ﷲنے اس سلسلہ میں جن احادیث کونقل فرمایاان پرکوئی اعتراض نہیں کیا، جب کہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ احادیثِ ضعیفہ یاموضوعہ کی نشان دہی کرتے ہیں اوران پرردفرماتے ہیں، جس سے معلوم ہواکہ یہ مذکورہ احادیث صحیح ہیں، ورنہ کم سے کم درجہ حسن کی ہیں۔

            10:    ’’تفسیرمظہری‘‘ میں ہے :

’’{وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْدًا} یشهد النبيّ ﷺ علی جمیع الأمّة من رآه ومن لم یره. أخرج ابن المبارك عن سعیدبن المسیّب قال: لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ ﷺ أمّته غدوةً وعشیّةً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم فلذلك یشهد علیهم‘‘.
[التفسیرالمظهري، [ النساء:۴۱](۲/۱۱۰)ط: بلوچستان بک ڈپو، کوئٹہ)

            11:        صاحب تفسیرابن کثیرنے آیت کریمہ { وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْداً }کی تفسیرمیں ’’التذکرة للقرطبي ‘‘کے حوالہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ :

’’وأمّا ما ذکره أبو عبد اﷲ القرطبي في’’التذکرة‘‘حیث قال: باب ماجاء في شهادة النبي ﷺ علی أمّته، قال:أنا ابن المبارك، قال: أنارجل من الأنصارعن المنهال بن عمرو أنّه سمع سعید بن المسیّب یقول: لیس من یوم إلّایعرض فیه علی النبيّ ﷺ أمّته غدوةً وعشیًّا، فیعرفهم بأسمائهم وأعمالهم، فلذلك یشهد علیهم، یقول اﷲتعالیٰ:{فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهیْدًا}؛ فإنّه أثر، وفیه انقطاع، فإنّ فیه رجلاً مبهمًا لم یسمّ، وهومن کلام سعید بن المسیّب،لم یرفعه، وقدقبله القرطبي، فقال بعد إیراده: فقد تقدّم أنّ الأعمال تعرض علی اﷲ کلّ یوم اثنین وخمیس، وعلی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة، قال: ولاتعارض، فإنّه یحتمل أن یخصّ نبیّنا ﷺ بمایعرض علیه کلّ یوم، ویوم الجمعة مع الأنبیاء علیه وعلیهم أفضل الصلاة والسلام‘‘.
تفسیرالقراٰن العظیم للحافظ ابن کثیر،[ النساء:۴۱](۱/۴۹۸-۴۹۹) ط:قدیمی کراچی]

            حافظ عمادالدین ابن کثیررحمہ ﷲنے بھی احادیثِ مذکورہ کے بارے میں کچھ نکیرنہیں کی، جس سے معلوم ہوتاہے کہ عرضِ اعمال کی احادیث مجموعی اعتبارسے ان کے نزدیک صحیح ہیں۔

            12:    ’’تفسیرمنار‘‘میں ہے:

{ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ م بِشَهِیْدٍ…الآیة }، تعرض أعمال کلّ أمّة علی نبیّها‘‘. ( تفسیرالقراٰن الحکیم الشهیر بـ "تفسیرالمنار"، للسیّد محمدرشیدرضا، [ النساء:۴۱](۵/۱۰۹)ط:مطبعۃ المنارمصر،۱۳۲۸ھ)

            13:       ’’مسنداحمد‘‘میں ہے :

’’عمّن سمع أنس بن مالك یقول: قال النبيّ ﷺ: إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیرًا استبشروا، وإن کان غیرذٰلك، قالوا: اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم کماهد یتنا‘‘.
[المسند للإمام أحمدبن حنبل، مسندأنس بن مالك رضي اﷲ عنه، [ رقم الحدیث: ۱۲۶۱۹]  (۱۰/۵۳۲-۵۳۳) ط: دارالحدیث  القاهرة]

            واضح رہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ حدیث وفقہ کے امام ہیں، اور ناقد بھی، اور احادیث پر جرح بھی کرتے ہیں، جب کہ آپ نے اس حدیث پر کوئی جرح نہیں فرمائی، گویا آپ نے اس حدیث کی توثیق کی ہے۔

’’ شرح الصدور ‘‘ میں ہے:

14:       ’’وأخرج الطیالسي في ’’مسنده‘‘عن جابر بن عبداﷲ قال: قال رسول اﷲ ﷺ: إنّ أعمالکم تعرض علی عشائرکم وأقربائکم في قبورهم، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیر ذلك، قالوا: اللّٰهمّ ألهمهم أن یعملوا بطاعتك‘‘.

15:       ’’وأخرج ابن المبارك وابن أبي الدنیا عن أبي أیّوب، قال: تعرض أعمالکم علی الموتٰی، فإن رأواحسنًا فرحوا واستبشروا، وإن رأوا سوءً، قالوا: اللّٰهمّ راجع به‘‘.

16:       ’’وأخرج ابن أبي شیبة في ’’المصنف‘‘والحکیم الترمذي وابن أبي الدنیاعن إبراهیم بن میسرة، قال غزٰی أبو أیّوب القسطنطینة فمرّ بقاصّ وهو یقول: إذاعمل العبد العمل في صدرالنهار عرض علی معارفه إذا أمسی من أهل الآخرة، وإذا عمل العمل في آخرالنهار عرض علی معارفه إذا أصبح من أهل الآخرة، فقال أبوأیّوب: انظر ما تقول! قال: واﷲ إنّه لکما أقول، فقال أبو أیوب: اللّٰهم إنّي أعوذبك أن تفضخي عند عبادة بن الصامت وسعد بن عبادة بما عملت بعدهم، فقال القاصّ: واﷲ لایکتب اﷲ ولایته لعبد إلّاسترعوراته وأثنی علیه بأحسن عمله‘‘.

17:      ’’وأخرج الحکیم الترمذي وابن أبي الدنیا في ’’کتاب المنامات‘‘ والبیهقي في ’’شعب الإیمان‘‘ عن النعمان بن بشیر سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول: اﷲ اﷲ في إخوانکم من أهل القبور، وأنّ أعمالکم تعرض علیهم‘‘.

18:       ’’وأخرج ابن أبي الد نیا وابن منده وابن عساکر عن أحمد بن عبداﷲ بن أبي الحواری، قال:حدّثني أخي محمّد بن عبداﷲ، قال:دخل عبّاد الخواص علی إبراهیم بن صالح الهاشمي -وهوأمیر فلسطین- فقال له إبراهیم: عظني! فقال: قد بلغني إنّ أعمال الأحیاء تعرض علی أقاربهم من الموتٰی، فانظر ماتعرض علی رسول اﷲ ﷺ من عملك‘‘. ( [روایت نمبر:۱۴] سے [روایت نمبر:۱۸] تک دیکھیے: شرح الصدوربشرح حال الموتیٰ والقبور، باب عرض أعمال الأحیاء علی الأموات،(ص:۱۱۴-۱۱۵) ط:مطابع الرشید بالمدینۃ المنورۃ۔)

            مذکورہ تمام حدیثوں سے یہ بات روز روشن کی مانند واضح ہوگئی کہ عرض اعمال جس طرح نبی کریم صلی ﷲعلیہ وسلم پر ہوتا ہے اس طرح ہر شخص کے والدین اور اقارب پر بھی ہوتاہے ۔

            فضائل درود شریف میں ان گنت حدیثیں ہیں، جو اس بات پر صریح دلیل ہیں کہ آپ صلی ﷲعلیہ وسلم پر عرض اعمال ہوتا ہے۔

19:       ’’أکثر وا من الصلاة عليّ في کلّ یوم جمعة؛ فإنّ صلاة أمّتي تعرض عليّ في کلّ یوم جمعة … (هب) عن أبي أمامة‘‘.
[کنزالعمّال في سنن الأقوال والأفعال، الکتاب الثاني، الباب السادس في الصلاة علیه وآله علیه الصلاة والسلام، (۱/۴۸۸) ط:مؤسّسة الرسالة، بیروت،۱۴۰۱ھ-۱۹۸۱م۔]

            20:      ’’ بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني‘‘ میں ہے :

’’عن أبي الدرداء رضي اﷲ عنه قال:قال رسول اﷲ ﷺ أکثروامن الصلاة عليّ یوم الجمعة، فإنّه مشهود تشهده الملائکة، وإنّ أحداً لن یصلي عليّ إلّا عرضت عليّ صلاته حتّٰی یفرغ منها، قال: قلت: وبعد الموت؟ قال:إنّ اﷲ حرّم علی الأرض أن تاکل أجساد الأنبیاء علیهم الصلاة والسلام. رواه ابن ماجه بسند جیّد‘‘.
[بلوغ الأماني من أسرارالفتح الرباني للإمام أحمدعبدالرحمٰن، أبواب صلاة الجمعة، فصل منه في الحثّ علی الإکثارمن الصلاة علی النبيّ ﷺ یوم الجمعة، (۶/۱۱) ط: دارالشهاب، القاهرة]

عرض اعمال کا ثبوت اور اس کے متعلق چند روایات کی توثیق ملاحظہ فرمائیں:

المواهب اللدنیة المطبوع مع شرحه للعلامة الزرقاني، الفصل الرابع، ما اختصّ به ﷺ من الفضائل والکرامات، (۷/۳۶۷)ط: دارالکتب العلمیة بیروت، ۱۴۱۷هـ - ۱۹۹۶م۔

پیر اور جمعرات کے دن خصوصیت سے آپ ﷺ پر اعمال پیش ہونے والی روایت کی تخریج:

حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے منقول ہے، اس کی تین اسانید ہیں:

پہلی سند :
’’عن أبي سعيد الحسن بن علي بن صالح بن زكريا بن يحيى بن صالح بن زفر العدوي، عن خراش، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ وَمَوْتِي خَيْرٌ لَكَمُ، أَمَّا حَيَاتِي فَأُحَدِّثُ لَكُمْ، وَأَمَّا مَوْتِي فَتُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ عَشِيَّةَ الاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَمَا كَانَ مِنْ عَمَلٍ صَالِحٍ حَمِدْتُ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَمَا كَانَ مِنْ عَمَلٍ سَيِّءٍ اسْتَغْفَرْتُ لكم‘‘.
تخریجه:
’’أخرجه ابن عدي في "الكامل" ( 3 /76 ترجمة خراش ) وأبو منصور الجرباذقاني في " الثالث من عروس الأجزاء "(ص78برقم82) ، وذكره السيوطي في "العُشاريات" (ص30).
حاله:  غیرمعتبرموضوع  ہے۔
سند میں حسن بن صالح عدوی متہم بالکذب ہے ، اور خراش مجہول ہے ۔
’’قال ابن عدي : " خِراش هذا مجهول ليس بمعروف، وما أعلم حدَّث عنه ثقة أو صدوق إلا الضعفاء ، ... والعدوي هذا كنا نتَّهمه بوضع الحديث، وهو ظاهرُ الأمر في الكذب‘‘.
ذہبی نے بھی (میزان الاعتدال1/651) میں اس روایت کو خراش کی منکر روایات میں شمار کیا ہے ، ووافقه ابن حجر في (لسان المیزان3/355)

دوسری سند : اس میں صرف جمعرات کے دن کا ذکر کے ہے ۔
’’عن يحيى بن خِذام :حدثنا محمد بن عبد الملك بن زياد أبو سلمة الأنصاري، حدثنا مالك بن دينار ، عن أنس مرفوعاً: " حَياتي خيرٌ لكم: ينزلُ عليَّ الوحيُّ مِن السماءِ فأُخبرُكم بمايَحِلُّ لكم وما يَحْرُمُ عليكم، ومَوتي خيرٌ لكم: تُعْرَضُ عليَّ أَعمالُكم كلَّ خميسٍ، فما كانَ مِن حسنٍ حمدتُّ اللهَ عليهِ ، وما كانَ مِن ذنبٍ استَوهبتُ لكم ذُنوبَكم‘‘.
تخریجه:
أخرجه أبو طاهر المخلص في " الثاني من العاشر من المخلصيات " (3/237) قال : حدثنا يحيى (يعني ابن محمد بن صاعد) به.
حاله:غیرمعتبرموضوع ہے۔
’’قال الألباني في "السلسلة الضعيفة"(2/ 406): قلت: وهذا موضوع، آفته الأنصاري هذا، قال العقيلي: " منكر الحديث"، وقال ابن حبان: " منكر الحديث جداً، يروي عن الثقات ما ليس من حديثهم، لايجوز الاحتجاج به". وقال ابن طاهر: " كذاب، وله طامات". وقال الحاكم أبو عبد الله: " يروي أحاديث موضوعة ".

تیسری سند :متن کا پہلا حصہ مذکور ہے
’’عن ابن النَّجَّار: كَتَبَ إِليَّ معمر بن محمَّد الأَصْبَهَانِي، أَنَّ أَبَا نَصرٍ محمَّد بن إِبراهيم الْيُونَارتي، أَخْبَرَهُ فِي "مُعْجَمِهِ" قَالَ: سَمِعْتُ الشَّرِيفَ وَاضِحَ بن أَبي تمام الزَّينَبي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَلِي بن تُومَةَ يَقُولُ: « اجْتَمَعَ قَوْمٌ مِنَ الْغُرَبَاءِ عِنْدَ أَبِي حَفْص بن شاهين فَسَأَلُوهُ أَنْ يُحَدّثَهُمْ أَعْلى حَدِيثٍ عِنْدَهُ، فَقَالَ: لأحَدثَنَّكُمْ حَدِيثَاً مِنْ عَوَالِي مَا عِنْدِي: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغَوي، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بن فروخ الأُبلي، حَدَّثَنَا نافع أَبُو هُرمز السِّجستاني قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ: « حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ، وَمَمَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ .. الْحَديث ".
 تخریجه:
’’أورده السيوطي في  "جامع الأحاديث"  رقم 13424 - ج19 ص11‘‘.
حاله: ضعیف منکر، وفیه مجاهيل .
سند میں نافع ابو ہرمز مجروح ہے ، امام احمد اور ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے ، ابن معین نے کذب کی تہمت لگائی ہے ، ابو حاتم نے متروک ، اور نسائی نے لیس بثقہ قرار دیا ہے ۔

خلاصہ:
یہ حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت نہیں ہے ، اس کی تمام اسانید غیر معتبر ہیں ، اس لیے ان روایات  میں عرضِ اعمال کو جو پیر یا جمعرات کے ساتھ مقید کیا ہے، اس کا بھی اعتبار نہیں ہے۔ مگر عرضِ اعمال کا اصل مضمون دیگر شواہد سے ثابت ہے ، جیسا کہ ماقبل میں اس کا ذکر ہوا۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر امت کے اعمال کی پیشی تعددِ روایات کی وجہ سے درجہ ثبوت کو پہنچتی ہے، خصوصاً جب کہ ان میں سے بہت سی روایات صحیح بھی ہیں۔  باقی خاص پیر اور جمعرات کے دن اعمال پیش ہونے والی روایات سند کے اعتبار سے ناقابلِ اعتبار ہیں، البتہ پیر اور جمعرات کو اللہ کی بارگارہ میں اعمال پیش ہونے والی احادیث صحیح ہیں۔
فقط واللہ اعلم



(6) قبرِ اطہر  پر پڑھا جانے والا درود آپ ﷺ خود سنتے ہیں:
وقال أبو الشيخ في الكتاب ((الصلاة على النبي)) : حدثنا عبد الرحمن ابن أحمد الأعرج ، حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا أبو معاوية ، حدثنا الأعمش ، عن أبي الصالح ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ، قَالَ : " مَنْ صَلَّى عَلِيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ ، وَمَنْ صَلَّى عَلِيَّ نَائِيًا عَنْهُ أَبْلَغْتُهُ " .
ترجمہ:
حافظ ابو الشیخ اصبہانیؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد الرحمن بن احمد العرجؒ نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے الحسن بن الصباحؒ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو معاویہؒ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اعمشؒ نے بیان کیا۔ وہ ابو صالحؒ سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔
حوالہ جات کتبِ متونِ حدیث:
[جلاء الأفهام-لابن قيم(م75ھ) : حديث نمبر 19 (صفحہ 54ت الأرنؤوط) (حدیث نمبر 33 ط عطاءات العلم)]
[صفة النبي وأجزاء أخرى جمع ضياء الدين المقدسي(م643ھ)حدیث نمبر 31]
[حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي(م458ھ):حدیث نمبر18، شُعَبِ الْاِیْمَانِ- ت زغلولحدیث نمبر1583]
[حديث أبي بكر بن خلاد النصيبي(م359ھ)حدیث نمبر 53]
[مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري(م339ھ): حدیث نمبر 735]

حوالہ جات کتبِ عقائد:
[الجلال السيوطي-شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور: صفحہ 236، الحبائك في أخبار الملائك:صفحہ 123]

حوالہ جات کتبِ شروحاتِ حدیث:
شرح المشكاة للطيبي:934، مرقاة المفاتيح-الملا على القاري:2/ 749
[شرح البخاري للسفيري:2/ 221]
أَي أخْبرت بِهِ على لِسَان بعض الْمَلَائِكَة لَان لروحه تعلقا بمقر بدنه الشريف وَحرَام على الارض ان تَأْكُل أجساد الانبياء فحاله كَحال النَّائِم-----قَالَ ابْن حجر اسناده جيد
ترجمہ:
یعنی اس کی خبر بعض فرشتوں نے دی، کیونکہ آپ کی روح آپ کے محترم جسم کے ٹھکانے سے لگی ہوئی ہے، اور زمین پر انبیاء کے اجسام کا کھانا حرام ہے، اس لیے اس کی حالت سونے والے کی سی ہے-----امام ابن حجر نے (فتح الباری میں) فرمایا کہ اس(حدیث کے گواہوں) کا سلسلہ عمدہ ہے۔
[التيسير بشرح الجامع الصغير-المناوي:2/ 428، فيض القدير-المناوي:8812]
[لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح-عبد الحق الدهلوي:3/ 71]
[دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين-ابن علان:3]

نوٹ:
انبیاء کی زندگی کا ثبوت اپنی اپنی قبروں میں ہے، ہر جگہ نہیں۔ اگر رسول الله ﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر یا دور سے ہر کسی کی پکار سنتے ہوتے تو درود فرشتوں کے ذریعہ پیش نہ کئے جاتے۔

[الدر المنثور في التفسير بالمأثور-السيوطي:6/ 654 سورة الأحزاب :56]
[التفسير المظهري:7/ 373، 10/ 225]

حوالہ جات کتبِ سیرت:
[كتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى: الجزء الثاني ، ص: 440 ]



تخريج الحديث:

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من صلى علي عند قبري سمعته من صلى علي نائيا عنه أبلغتهعبد الرحمن بن صخرالمنتقى من السادس عشر من حديث ابن البختري62735أبو جعفر بن البختري339
2من صلى علي عند قبري سمعته من صلى علي نائيا عن قبري أبلغتهعبد الرحمن بن صخرحديث أبي بكر بن خلاد النصيبي53---أبو بكر بن خلاد النصيبي510
3من صلى علي عند قبري وكل بها ملك يبلغني وكفي أمر دنياه وآخرته وكنت له يوم القيامة شفيعا أو شهيداعبد الرحمن بن صخرأمالي ابن سمعون الواعظ250255ابن سمعون الواعظ387
4من صلى علي عند قبري سمعته من صلى علي نائيا منه أبلغتهعبد الرحمن بن صخرحياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي1818البيهقي458
5من صلى علي عند قبري وكل بهما ملك يبلغني وكفي بهما أمر دنياه وآخرته وكنت له شهيدا أو شفعياعبد الرحمن بن صخرشعب الإيمان للبيهقي14781583البيهقي458
6من صلى علي عند قبريعبد الرحمن بن صخرتاريخ بغداد للخطيب البغدادي10904 : 468الخطيب البغدادي463
7من صلى علي عند قبري وكل الله به ملكا يبلغني وكفي أمر دنياه وآخرته وكنت شهيدا له وشفيعا له يوم القيامةعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر60396---ابن عساكر الدمشقي571
8من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغتهعبد الرحمن بن صخرطبقات الشافعية الكبرى93---السبكي771
9من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغتهعبد الرحمن بن صخرطبقات الشافعية الكبرى280---السبكي771
10من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا وكل الله بها ملكا يبلغني وكفي أمر دنياه وآخرته وكنت له شهيدا أو شفيعاعبد الرحمن بن صخرالفوائد المجموعة للشوكاني8381 : 268الشوكاني1255

حکمِ حدیث:
حافظ ابن حجر حدیث کی سند بطریق ابوالشیخ کے متعلق فرماتے ہیں: بسند جید (فتح الباری: جلد6 ص352)۔ علامہ سخاوی فرماتے ہیں: وسند جید (القول البدیع: ص116)۔ ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں: سند جید (مرقات: جلد2ص10)۔ مولانا شبیر احمد عثمانی بھی اس کو بسند جید فرماتے ہیں۔ (فتح الملھم: جلد 1ص330)۔ جمعیت اشاعت التوحید کے ماہنامہ رسالہ تعلیم القرآن میں بھی اس حدیث کی ابو الشیخ والی سند کو جید کہا ہے۔ "و رواہ ابو الشیخ باسناد جید"
(ماہنامہ تعلیم القران ص47، اکتوبر1967)



--------------------------------------------------
(7) نزول عیسیٰ کے بعد ان کا قبر نبوی پر سلام اور نبی ﷺ کا جواب:
أَخْبَرَنِي أَبُو الطَّيِّبِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْحِيرِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، ثنا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عَطَاءٍ مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : " لَيَهْبِطَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلا ، وَإِمَامًا مُقْسِطًا وَلَيَسْلُكَنَّ فَجًّا حَاجًّا ، أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيِّتِهِمَا وَلَيَأْتِيَنَّ قَبْرِي حَتَّى يُسَلِّمَ وَلأَرُدَّنَ عَلَيْهِ، يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ : أَيْ بَنِي أَخِي إِنْ رَأَيْتُمُوهُ ، فَقُولُوا : أَبُو هُرَيْرَةَ يُقْرِئُكَ السَّلامَ , هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ 
ترجمہ:
حضرت ابوہریرة فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ البتہ ضرور حضرت عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ منصف اور امام عادل ہوں گے اور البتہ ضرور وہ فج (ایک جگہ کا نام) کے راستہ پر حج یا عمرہ کےلئے چلیں گے۔  اور بلاشبہ وہ میری قبر پر آئیں گے حتی کہ وہ مجھ سے سلام کہیں گے اور بلاشبہ میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية » رقم الحديث: 4162]
 حکم حدیث:
امام حاکم اور علامہ ذہبیؒ ددنوں اس کو صحیح کہتے ہیں اور ایک روایت میں یوں ہے۔

‌ثُمَّ ‌لَئِنْ ‌قَامَ ‌عَلَى ‌قَبْرِي فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ لَأُجِيبَنَّهُ
پھر وہ میری قبر پر کھڑے ہوکر فرمائیں گے ۔یا محمدﷺ تو میں ضرور ان کو جواب دوں گا۔
[مسند أبي يعلى:6584 - حكم حسين سليم أسد : إسناده صحيح]
اس کو امام یعلی ؒ روایت کیا ہے اور اس کے راوی بخاری کے راوی ہیں۔
امام الهيثمي نے فرمایا:
وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ
[مجمع الزوائد:13813 جلد8ص211][سلسلة الأحاديث الصحيحة:]
یہاں کون سی قبر مراد ہے کہ جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے ۔ یہی مدینہ منورہ والی یا کوئی اعلی( علین والی؟ یہاں کون سی قبر مراد ہے کہ جس پر جلیل القدر صحابہ کرام ؓ حاضرہوتے تھے اور صلوة وسلام پڑھتے تھے؟ یہی مدینہ منورہ والی قبر یا کوئی اعلیٰ علیین والی؟
فاعتبر ویا اولی الابصار۔
[مسند ابی یعلی جلد6 ص101۔ درمنثور جلد2ص245۔ الجامع الصغیر جلد2ص140۔ مسند احمد جلد2ص290۔ ]


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ ، أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ ، لَيَنْزِلَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلا ، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ ، وَلَيُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَيْنِ ، وَلَيُذْهِبَنَّ الشَّحْنَاءَ ، وَلَيُعْرَضَنَّ عَلَيْهِ الْمَالُ فَلا يَقْبَلُهُ ، ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ لأُجِيبَنَّهُ " .
حکم_حدیث: 
المحدث: الهيثمي المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214 ، خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح
المحدث: الألباني المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 2733 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة » كِتَابُ عَلَامَاتِ النُّبُوَّةِ » بَابٌ مَا جَاءَ فِي عَدَدِ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ ... رقم الحديث: 6118 ، سنده حسن
المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء » كِتَابُ ذِكْرِ الأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ... رقم الحديث: 1109 ، سنده حسن



































(8) جاننے والے مدفون کا سلام کرنے والے کو پہچان کر جواب دینا:
امام ذہبیؒ (تذکرہ الحفاظ : 3/306) میں امام ، شیخ الاسلام اور حافظ المغرب کے الفاظ سے حافظ (ابو عمر) ابن عبد البر المالکیؒ (المتوفی 463 ھ) کے علمی مقام کی تعریف فرماتے ہیں، انہوں نے "موطا امام مالک" کی مطول و مختصر شرح "التمہید" اور "الستذکار" میں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ (اور بعض دوسری روایات میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی) نبی ﷺ سے مروی ہیں کہ :
"مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ رَجُلٍ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا ، فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلا عَرَفَهُ وَرَدَّ عَلَيْهِ"
ترجمہ:
جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے (مسلمان) کی قبر پر گذرتا ہے اور اس کو سلام کرتا ہے وہ میت اس (کے اندازِ سلام و کلام کے لب و لہجے) کو پہچان لیتی ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتی ہے۔

[کتاب الروح ، لابن القیم : ص 12؛ الستذکار: رقم الحديث: 55]
إسناده ‌صحيح
[الأحكام الصغرى-عبد الحق الإشبيلي1/ 345، كفاية النبيه في شرح التنبيه-ابن الرفعة:5/163، عمدة القاري شرح صحيح البخاري-بدر الدين العيني:8/69، عون المعبود وحاشية ابن القيم:3/261]
عن أبى هريرة وسنده ‌جيد
[جامع الأحاديث-السيوطي:20632، فتاوى نور على الدرب لابن باز بعناية الشويعر:14/477]

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ما من رجل يمر على قبر رجل كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه وردعبد الرحمن بن صخرمعجم الشيوخ لابن جميع الصيداوي334326ابن جميع الصيداوي402
2ما من رجل يمر بقبر رجل كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليهعبد الرحمن بن صخرفوائد تمام الرازي132139تمام بن محمد الرازي414
3ما من عبد يمر بقبر رجل كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه وردعبد الرحمن بن صخرجزء من حديث أبي العباس الأصم10---محمد بن يعقوب الأصم346
4ما من عبد يمر بقبر رجل كان يعرفه في الدنيا فسلم عليه إلا عرفه وردعبد الرحمن بن صخرالثالث من حديث أبي العباس الأصم43---محمد بن يعقوب الأصم346
5ما من عبد يمر بقبر رجل يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه وردعبد الرحمن بن صخرالثامن من الخلعيات71---علي بن الحسن الخلعي492
6ما من عبد يمر بقبر رجل كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه وردعبد الرحمن بن صخرتاريخ بغداد للخطيب البغدادي19917 : 58الخطيب البغدادي463
7ما من عبد يمر بقبر كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفهعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر862710 : 379ابن عساكر الدمشقي571
8ما من عبد يمر بقبر رجل كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه وردعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر862810 : 380ابن عساكر الدمشقي571
9ما من رجل يمر بقبر كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليهعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر27096---ابن عساكر الدمشقي571
10ما من رجل يمر على قبر رجل كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه وردعبد الرحمن بن صخرسير أعلام النبلاء الذهبي925---الذهبي748

حافظ ابن تیمیہ الحنبلیؒ (المتوفی ٧٦٨ ھ) نے [اقتضاء الصراط المستقیم، طبع مصر : ص ١٥٧] میں اور  [حقوق آل البيت - الصفحة أو الرقم: 60] میں ..... اور ان کے شاگرد حافظ ابن القیمؒ الحنبلی (المتوفی ٧٥١ ھ) نے اس روایت کی تائید میں فرمایا:
 "قال ابن عبد البر: ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ..." الخ 

ترجمہ :
امام ابن عبد البرؒ نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ روایت ثابت ہے...
[مجموعة الرسائل والمسائل لابن تيمية - رشيد رضا:1/ 23، الروح - ابن القيم - ط عطاءات العلم:1/ 5، تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال-الذهبي:6/ 310]

امام محمد بن احمد عبد الہادی الحنبلیؒ فرماتے ہیں:
وهو صحيح الاسناد
ترجمہ :
اس (حدیث) کی سند صحیح ہے.
[الصارم المنكي: ص ١٨٦، طبع مصر (ص224، الناشر: مؤسسة الريان، بيروت - لبنان.)]

اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عند القبور سماع کا تو کہنا ہی کیا.....یہ تو عام مومنوں کے حق میں آیا ہے، جو شخص بھی کسی ایسے شخص کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے جس کو وہ دنیا میں پہچانتا تھا تو وہ جب بھی اس کو سلام کہتا ہے، الله تعالیٰ اس کی روح کو اس کی طرف لوٹادیتا ہیں. یھاں تک کہ وہ اس کے سلام کا جواب دیتا ہے.
[الصارم المنكي : ص ٩٥ ، طبع مصر]

المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 7742 ، خلاصة حكم المحدث: صحيح

اس صحیح صریح حدیث کی روشنی میں حافظ ابن القیم رح فرماتے ہیں : یہ حدیث اس بات کی نص ہے کہ مردہ سلام کرنے والے کو بعینہ پہچانتا، اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے. (کتاب الروح : ص ٤)

اور یہی حافظ ابن القیم رح اپنے مشہور "قصيدة نونية " میں لکھتے یہں : 
هَذَا وَرَدُّ نَبِيِّنَا لِسَلامِ مَنْ … يَأْتِي بِتَسْلِيمٍ مَعَ الإحْسَانِ
مَا ذَاكَ مُخْتَصًّا بِهِ أيْضًا كَمَا … قَدْ قَالَهُ المبعُوثُ بالفرقانِ
مَنْ زَارَ قَبْرَ أَخٍ لَهُ فَأَتَى بِتَسْـ … ـلِيمٍ عَلَيْهِ وَهْوَ ذُو إِيمَانِ
رَدَّ الإلهُ عَلَيْهِ حَقًّا رُوحَهُ … حَتَّى يَرُدَّ عَلَيْهِ رَدَّ بَيَانِ
ترجمہ :
اور یہ امر (بات) کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم ہر اس شخص کے سلام کا جواب عنایات فرماتے یہں جو عمدہ طریقہ سے سلام کہتے ہے، یہ صرف آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جیسا کہ خود اس ذات نے فرمایا جس کو قرآن سے کر بھیجا گیا ہے، کہ جس شخص نے اپنے مومن بھائی کے قبر کی زیارت کی اور اسے سلام کہا، تو پروردگار یقینی طور پر اس پر اس کی روح لوٹادیتا ہے حتیٰ کہ وہ اس کے سلام کا واضح بیان سے جواب دیتا ہے.
[نونية :1/183 ، فصل: في الكلام في حياة الأنبياء في قبورهم]
[نونية ابن القيم الكافية الشافية - ط عطاءات العلم: 2/ 662]


****************************************
صحابہ کرامؓ کا عقیدہ حیات النبی ﷺ
حضرت ابوبکرصدیق کا فرمان ہے۔ بابی انت وامی طبت حیا ومیتا الذی نفسی بیدہ لا یذیقک الله الموتتین ابدا (بخاری شریف جلد1ص517) ترجمہ: میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان۔ آپ ﷺ حیات اور موت دونوں کیفیتوں میں جیسے پاکیزہ ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ یا اﷲتعالیٰ آپﷺ کو دو موتوں کا ذائقہ کبھی نہ چکھائے گا۔ امام الموتة التی کتب اﷲ علیک فقد متھا۔( بخاری شریف کتاب الجنائز ص146) ترجمہ : جو موت اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کےلئے لکھی تھی وہ آپﷺ پر وراد ہو چکی۔شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی مردا اس کلمہ سے لا یذیقک اﷲ الموتترین ابدا سے یہ تھی کہ دوسرے لوگوں کی طرح آپﷺ پر قبر میں دوسری موت کا ذائقہ بالکل نہ چکھیں گے۔ دوسر ے عام لوگوں کو قبر میں سوال وجواب کےلئے زندہ کیا جاتا ہے۔ اور پھر ان پر دوبارہ وردو موت ہوتا ہے آنحضرتﷺ پر یہ دوسری موت کبھی نہیں آئے گی۔ اس ارشاد عالی میں حضرت ابوبکرؓ کا ارشاد مسئلہ حیات النبی ﷺ ہی کی طرف تھا (مدارج النبوة جلد 2ص890)۔ اسی طرح شیخ الاسلام علامہ عینی ؒ نے عینی شرح بخاری میں جلد 2ص600۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے (فتح الباری جلد7ص42میں)، شیخ الاسلام علامہ نور الحق محدث دہلوی نے( تسیر القاری شرح صحیح البخاری جلد3ص445) اور مولانا احمدعلی محدث سہارنپوری نے صحیح بخاری کے حاشیہ پر یہی مضمون لکھا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے“ مقام حیات”
حضرت عمر فاروق ؓ جب کسی مہم سے واپس مدینہ منورہ آتے تو سب سے پہلے جو کام آپ ؓ کرتے وہ آنحضرت ﷺ کے حضور میں سلام عرض کرنا ہوتا تھا اور اس کی آپؓ دوسروی کو تلقین فرماتے۔ (جذب القلوب ص200)
حضرت معاويہ نے جب شام واپسی کا ارادہ فرمایا اور حضرت عثمانؓ نے انہیں الوداع کیا تو انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے تجویز رکھی کہ آپﷺ بھی ان کے ساتھ شام چلے آئیں۔ وہاں کے لوگ اپنے امراءکے بہت تابع فرمان ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا لا اختار بجوار رسول اﷲ ﷺ سواہ میں حضور اکرم ﷺ کے جوار (ہمسائیگی) پر اور کسی چیز کو ترجیح نہیں دیتا۔ (البدايہ و لنہایہ جلد7ص149،تاریخ ابن خلدون جلد2ص1040)
حضرت علی فرماتے ہیں من ذار رسول اﷲﷺ کان فی جوار رسول اﷲﷺ جو حضور اکرم ﷺ کے روضہ اطہر کے پاس حاضر ہو وہ اس وقت حضور اکرم ﷺ کی ہمسائیگی میں ہوتا ہے۔ زرقانی جلد 8ص304، جذب القلوب ص180)
اگر حضور اکرم ﷺ کی روح اقدس آپﷺ کے جسد اطہر سے مفارق اور بے تعلق ہوتی تو سیدنا علی ؓ اس خصوصیت کے ساتھ قرب روضہ مطہرہ کو ہمسائیگی رسول اﷲﷺ ہرگز قرار نہ دیتے۔ آپؓ کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بھی حضرت عثمان کی طرح حضور اکرم ﷺ کو اپنے روضہ اطہر میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ علما ء اکرام حضرت علی ؓ کے اس عمل علت اس حقیقت کو قرار دیا۔ اذہو حی فی قبر يصلی فیہ ( زرقانی جلد 8ص304، شفا السقام ص173)

2. أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ : " لَمَّا كَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا ، وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ الْمَسْجِدِ ، وَكَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلَّا بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ " ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
ترجمہ:
سعید بن عبدالعزیزؒ بیان کرتے ہیں کہ جب واقعہ "حرہ" کا زمانہ تھا تو نبی ﷺ کی مسجد میں تین دن تک نہ اذان کہی گئی اور نہ اقامت ہوئی اور سعید بن مسیبؒ مسجد میں ہی رہے اور نماز کا وقت ایک گنگناہٹ سے پہچانتے تھے جو نبی ﷺ کی قبر سے سنائی دیتی تھی.
[خصائص كبرى ج : 2 ص : 281 الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148]


سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی سفر سے واپس آتے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آکر یہ الفاظ کہا کرتے تھے:

''السلام علیک یا رسول اللہ۔ السلام علیک یا ابا بکر۔ السلام علیک یا ابتاہ''

[فضل الصلاۃ علی النبی للقاضی اسماعیل بن اسحاق (199-282)۔صفحہ نمبر۔84۔ وسندہ صحیح۔ نیز دیکھئے السنن الکبریٰ للبیھقی: جلد۔5۔ صفحہ۔245]

Add caption




============================================
مذاہب_اربعہ اور حیات النبویہ (صلے الله علیہ وسلم):

علماء الأحناف: 
يقول العلامة شرنبلالي المتوفي 1069 هـ :
‘‘ ومما هو مقرر عند المحققين انه - صلى الله عليه وسلم - حي يرزق متمتع بجميع الملاذ والعبادات غير انه احجب عن إبصار
(نور الایضاح، ح١٧٧)
القاصرين عن شريف المقامات ينبغي لمن قصد زيارة النبي صلى الله عليه وسلم ان يكثر الصلاة عليه فانه يسمعها وتبلغ اليه 
(مراقي الفلاح ص: 405 طبع مير محمد كراجي ).
ترجمہ:
علامہ شرنبلالیؒ "نور الایضاح، ح١٧٧"(یہ کتاب دارالعلوم دیوبند کے نصب میں شامل ہے) میں فرماتے ہیں کہ "محققین کے نزدیک یہ طے شدہ ہے کہ حضور انور زندہ ہیں اور آپ کو رزق بھی ملتا ہے اور عبادت سے لذت بھی اٹھاتے ہیں. ہاں اتنی بات ہے کہ وہ  ان نگاہوں سے پردے میں ہیں جو ان مقامات تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں.
(نور الایضاح، ح١٧٧) 

يقول العلامة طحطاوي المتوفي 1233 هـ :

فانه يسمعها) أي إذا كانت بالقرب منه - صلى الله عليه وسلم - ( وتبلغ إليه ) أي يبلغها الملك إذا كان المصلي بعيدا ( الطحطاوي ص : 405 طبع مير محمد كراجي ). 
ترجمہ:
علامہ طحطاویؒ نے فرمایا: آپ صلے الله علیہ وسلم صلاة و سلام کو اس وقت خود سنتے ہیں جب قریب سے عرض کیا جارہا ہو اور فرشتے اس وقت پہنچاتے ہے جب یہ دور سے پڑھا جارہا ہو.



علماء مالکیہ:

1. إمام مالك المتوفي 179 هـ

نقل عن الإمام مالك انه كان يكره أن يقول رجل زرت قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - قال ابن رشيد من اتباعه أن الكراهية لغلبه 

الزيارة في الموتى وهو - صلى الله عليه وسلم - أحياه الله تعالى بعد موته حياة تامة واستمرت تلك الحياة وهي مستمرة في المستقبل وليس 

هذا خاصة به صلى الله عليه وسلم بل يشاركه الأنبياء عليهم السلام فهو حي بالحياة الكاملة مع الإستغناء عن الغذاء الحسى الدنيوي ( نور الإيمان بزيارة آثار حبيب الرحمن ص : 14 للشيخ عبد الحليم فرنكي محلي , وكذلك في وفاء الوفاء ج :4 ص : 1373 مصر  
ترجمہ :
ابن_رشد امام مالکؒ کے مقلدین میں سے ہیں کہ امام مالکؒ کی ناپسندیدگی (کہ میں نے حضور کی "قبر" کی زیارت کی) وجہ یہ ہے کہ زیارت قبر کا لفظ عام طور پر موتى (مردہ) کے متعلق استمعال ہوتا ہے اور حضور وفات_شریفہ کے بعد اب حیات تامہ سے زندہ ہیں اور یہ حیات آئندہ بھی اسی طرح رہے گی. یہ صرف آپ ہی کا خاصہ نہیں بلکہ تمام انبیاء اس وصف میں آپ کے ساتھ شریک ہیں. پس آپ دنیوی حسی غذا سے استغناء (بے-پرواہی) کے باوجود حیات کاملہ سے زندہ ہیں.
[علماۓ مالکیہ سے امام قرطبی: ٥/٢٦٥، امام ابو حیات اندلسی رح - بحر المحیط : ١/٢٨٣، علامہ ابن الحاج، علامہ ابن_رشد اندلسی اور ابن_ابی-جمرہ وغیرہ]


علماء الشافعية :
1. العلامة تاج الدين السبكي المتوفي 777 هـ :
لان عندنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حي يحس ويعلم وتعرض عليه اعمال الأمة ويبلغ الصلاة والسلام على ما بينا ’’
(طبقات الشافغية الكبرى ج : 3 ص : 412 طبعة دار الأحياء بقاهرة )
ترجمہ: ہم شافعیہ کے نزدیک حضور زندہ ہیں اور آپ میں احساس و شعور موجود ہے، آپ پر اعمالِ امت بھی پیش ہوتے ہیں اور صلوة و سلام بھی پہچایا جاتا ہے.

* علماء الحنابلة : 
* . ابن عقيل :
قال ابن عقبل من الحنابلة : هو - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره ’’ ( الروضة البهية ص : 14 
ترجمہ: حنابلہ کے مشہور بزرگ حضرت ابن_عقیلؒ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں.

شیخ عبد القادر جیلانی (حنبلی) رح اور حیات النبی و دعاۓ وسیلہ

آدابِ زیارت بیان کرتے روضہ نبوی پر دعا میں صرف الله کو پکارتے قرآنی حکم (النساء:٦٤) کے مطابق بخشش مانگتے ہوۓ شیخ جیلانی رح فرماتے ہیں : اے الله ! میں تیرے نبی کے پاس آیا ہوں، اپنے گناہوں کی تجھ سے معافی مانگتا ہوں.


اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي

ترجمہ:
اے الله! میں تیری طرف تیرے نبی کے ذریعہ متوجہ ہوتا ہوں جو رہنت والے نبی ہیں. اے الله کے رسول! میں آپ کے ذریعہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میرا رب میرے گناہ بخش دے. 



======================================



حياة النبي عليه الصلاة و السلام في القبر في ضوء الكتاب والسنة و أقوال السلف

حينما أرسل علماء العرب أسئلة عديدة الى مشائخنا الكرام وأكابرنا العظام طالبين منهم تبيين عقائدهم وتوضيح آرائهم. فأجابوا بأجوبة سديدة موافقة بالكتاب والسنة وما كان عليه السلف الصالح وقد طبعت هذه الأجوبة العالية بشكل كتابى .وأيدها جملة من كبارالعلماء من العرب والعجم وأسمائهم مذكورة فى آخرالكتاب مع آرائهم عن الكتاب .وقد كتب هذه الأجوبة القيمة سيدنا ومولانا العلامة الفهامة الفقيه المحدث المحقق الشيخ خليل أحمد ألسهارنفورى ثم المهاجر المكي أسكنه الله تعالى فى الفردوس الأعلى . وسماه بــــ = ألمهند على المفند = فرد به إفتراأت الكذابين والمتعصبين وكشف به زيغ المحرفين والماكرين فجاء الكتاب فى غاية من الروعة والإتقان وتستحق ان تكتب بماء الذهب لندرتها فى هذا الزمان ووقع الكتاب موقع الرضاء والقبول فى مشارق الأرض ومغاربها . وهذا نص السوال والجواب فى حياة الأنبياء كما فى الكتاب المهند على المفند


السؤال الخامس = ما قولكم في حياة النبيّ عليه الصلاة و السلام في قبره الشريف ؟ ذلك أمر مخصوص به أم مثل سائر المؤمنين - رحمة الله عليهم - حياته برزخية ؟

الجواب = عندنا و عند مشايخنا حضرة الرسالة صلى الله عليه و سلم حيٌّ في قبره الشريف ، و حياته صلى الله عليه و سلم دُنْيَوِيّة من غير تكليف ، و هي مختصة به صلى الله عليه و سلم و لجميع الأنبياء صلوات الله عليهم و الشهداء لا برزخية كما هي حاصلة لسائر المؤمنين بل لجميع الناس كما نصّ عليه العلامة السيوطي في رسالة ‘الأنباء الأذكياء بحياة الأنبياء’ حيث قال : قال الشيخ تقيّ الدين السُبْكِيّ : " حياة الأنبياء و الشهداء في القبر كحياتهم في الدنيا و يشهد له صلاةُ موسى عليه السلام في قبره فإن الصلاة تستدعي جسداً حياً " إلى آخر ما قال فثبت بهذا أن حياته دنيوية برزخية لكونها في عالم البرزخ 

و لشيخنا شمس الإسلام و الدين محمد قاسم العلوم على المستفيدين قدس الله سره العزيز في هذا المبحث رسالةٌ مستقلة دقيقة المأخذ بديعة المسلك لم يُرَ مثلُها قد طبعت و شاعت في الناس و اسمها ‘ آبِحَيَاتْ ’ أي ماء الحياة

وفي ما يلي بعض الأدلة التي تنص على ذلك
أولا: حياة الأنبياء في ضوء القران الكريم
قال الله تعالى : {وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ} " سورة الزخرف "

يقول صاحب زاد الميسر في هذه الآية:انه لما اسري به جمع الأنبياء فصلى بهم , ثم قال له جبريل سل من أرسلنا قبلك الآية. فقال: لا اسأل فقد اكتفيت 

رواه عطاء عن ابن عباس وهذا قول سعيد بن جبير و الزهراني و ابن زيد) قالوا : جمع له الرسل ليلة أسرى به فلقيهم

و أمر أن يسألهم فما شك وسأل ( زاد الميسر في علم التفسير ج : 7 ص : 319 ). 2. قال الله تعالى : {وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ} " سورة السجدة "

يقول العلامة آلوسي - رحمه الله- في هذه الآية : و أراد بذلك لقائه صلى الله عليه وسلم إياه ليلة الإسراء كما ذكر في الصحيحين وغيرهما, 

وروى نحو ذالك عن قتادة وجماعة من السلف) وكان المراد في قوله تعالى: }فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ على هذا وعده تعالى نبيه عليه السلام بلقاء موسى و تكون الآية نازلة قبل الإسراء’’ (روح المعاني ج : 21 ص :138).

ويقول صاحب زاد الميسر في هذه الآية :

والثاني من لقاء موسى عليه السلام ليلة الإسراء . ( قاله أبو العالية مجاهد قتادة و ابن السائب )’’ ( زاد الميسر ج : 6 ص : 43 ويقول صاحب تفسير بحر المحيطفي هذه الآية أي من لقائك موسى أي في ليلة الإسراء أي شاهدته حقيقة و هو النبي الذي أتي التوراة وقد وصفه الرسول فقال: طوال جعْد كأنه 

من رجال شنؤة حين رآه ليلة الإسراء ( بحر المحيط ج : 7 ص : 205 ).3. قال الله تعالى : {وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ} " سورة البقرة 

4. قال الله تعالى : { بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ } { فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ }." سورة آل عمران يقول الحافظ ابن حجر - رحمه الله - في هذه الآيتين :

وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فانه يقوه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القران و الأنبياء أفضل من الشهداء 

فتح الباري ج : 6 ص : 379 ).5. قال الله تعالى : { فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ... } " سورة سبأ ‘نستطيع الدلالة على حياة الأنبياء عليهم السلام - من قوله تعالى :{ فلما خر}.لأن لفظ (خر) استعمل في القران الكريم للأحياء 

أ. قال الله تعالى : ......... { وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا } " سورة يوسف "

ب. قال الله تعالى : { فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسَى صَعِقًا } " سورة الأعراف "

6. قال الله تعالى : { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا} " سورة النساء" 

يقول القرطبي - رحمه الله - في هذه الآية :

عن علي - رضي الله عنه - قال قدم أعرابي بعد ما دفنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بثلاثة أيام فرمي بنفسه على قبر رسول الله 

- صلى الله عليه وسلم - و حتى على رأسه من ترابه فقال: قلت يا رسول الله فسمعنا قولك ووعيت عن الله فوعينا عنك وكان فيما أنزل الله

عليك { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ } الآية وقد ظلمت نفسي وجئتك تستعفر لي , فنودي من القبر انه قد غفر لك 

( تفسير قرطبي ج : 5 ص 622,625 ).

فالأنبياء أحياءٌ في قبورهم قطعًا، وهم أولى بذلك من الشّهداء الذين ورد فيهم النّص القرآني في قوله تعالى : { وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ } بل الحياة ثابتة لجميع من فارق الدنيا ولو كفارًا، كما يدل عليه حديث أهل القليب الذي في البخاري الصحيح للإمام البخاري (5/8) طبعة دار الفكر ، وله طرق أخرى. 

، وجاء في الصحيح أيضًا : أن الميت بعد دفنه يسمع قرع نعال المشيعين 

، وأن الروح تنادي حامل الجنازة، وأنّه يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان، ولو سمعه لصعق في صحيح البخاري "باب الميت يسمع خفق النعال" (2/92) وفي صحيح الإمام مسلم (8/161) طبعة دار الفكر ، وهناك روايات أخرى كثيرة أعرضنا عن ذكرها خشية الإطالة .

انظر صحيح البخاري (2/87،88،103) ومسند الإمام أحمد بن حنبل (3/41،58) طبعة دار صادر وسنن الإمام النسائي (4/41) طبعة دار الفكر .

وقد رأى في ليلة الإسراء والمعراج موسى عليه السلام يصلي في قبره، كما رآه في السماء السادسة وقد راجعه مرارًا في أمر الصّلاة للرواية أطراف كثيرة منها ما في صحيح البخاري (1/91) كتاب الصّلاة باب "كيف فرضت الصّلاة في الإسراء" ، وصحيح الإمام مسلم (1/101) .

وقد وضع الامام البيهقي رح رسالة في حياة الأنبياء، وللإمام السيوطي رح أيضًا رسالة تُسَمى: "إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء -أمَّا قوله تعالى : { إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ } [سورة الزمر : 30] فمعناه : أن روحك ستفارق بدنك وتدخل في عالم آخر، فلا تشتغل بتدبير الجسم، ولا تسري عليها أحكام هذا العالم ونواميسه، وإلا فقد ثبتت حياة الأموات كلهم فضلاً عن الأنبياء كما قلنا، فيكفيك فى الباب الآيات المتعددة في حياة الشهداء والإجماع على أن الأنبياء أرفع درجة من الشهداء . قال ابن حزم في "المحلى -طبعة دار الفكر (1/25)

بعد ذكره الآيات الواردة في حياة الشهداء ما نصه : "ولا خلاف بين المسلمين في أن الأنبياء -عليهم السلام- أرفع قدرًا ودرجة، وأتم فضيلة عند الله عزَّ وجل، وأعلى كرامة من كل من دونهم، ومن خالف في هذا فليس مسلمًا " اهـ
ثانيا: حياة الأنبياء في ضوء السنة النبوية :

وأما السنة : ففيها شيء كثير من الأدلة على حياتهم، فمن ذلك : الحديث (( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون )) رواه أبو يعلى في مسنده (6/147)

والبيهقي من طرق متعددة من حديث أنس بن مالك، قال المناوي في شرح الجامع الصغير "رجاله ثقات وصححه البيهقي" .اهـ . ومثل ذلك للحافظ السخاوي في القول البديع، ثم له طرق أخرى أخرجها البيهقي في "حياة الأنبياء ، وبها يصير من الصحيح المتفق عليه . 

أنظر للتفصيل (مجمع الزوائد ج : 8 ص : 211 , لسان الميزان : حسن بن قتيبة ص : 246 , مسند أبو يعلى ج : 2 حديث 3425 , فتح الباري ج : 2 ص :

487 , المطالب العالية ج : 3 ص : 269 حديث : 3452 , , الجامع الصغير ص : 124 تكملة فتح الملهم

ج : 5 ص : 148 , بيهقي .حيات الأنبياء. ص : 3 , الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 , خصائص الكبرى ج : 2 ص : 281 , مسند بزار 

ص : 256 ).

يقول العلامة جلال الدين السيوطي :

حيات النبي - صلى الله عليه وسلم - في قبره وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا , كما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت (به) الأخبار

الدالة على ذلك . ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 , ص : 147 , طبعة دار الكتب العلمية ).ويقول:

‘‘قال البيهقي في كتاب الاعتقاد : .الأنبياء بعد ما قبضوا ردت إليهم أرواحهم , فهم أحياء عند ربهم كالشهداء. , وقال القرطبي في التذكرة 

في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض , انما هو انتقال من حال إلى حال ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 ص : 149 ). 

ويقول:

قال المتكلمون المحققون من أصحابنا أن النبي - صلى الله عليه وسلم - حي بعد وفاته ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 ص : 149 ).

ويقول: 

‘‘وقال الشيخ تقي الدين السبكي : حياة الأنبياء والشهداء في القبر كحياتهم في الدنيا , ويشهد على ذلك صلاة موسى في قبره فإن الصلاة تستدعي الجسد حيا ’’ ( الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 152) ويقول: ان من جملة ما تواتر عن النبي - صلى الله عليه وسلم - حياة الأنبياء في قبورهم ’’2. عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال :قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من صلى علي عند قبري سمعته , ومن صلى علي نائيا أبلغته ’’ 

( مشكاة , ص :87 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , كنز العمال ج : 1 ص :492 حديث 2165 ,ص : 498 حديث:2197, 2198, اتحاف السادة المتقين زبيدي ج : 3 ص : 281 , تفسير در منثور ج : 5 ص : 219 , فتح الباري ج :6 ص : 488 , الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 147 ).


3. عن اوس بن اوس - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال : ( إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق ادم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأكثروا علي من الصلاة فإن صلاتكم معروضة علي . قالو : يارسول الله ! كيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت ؟ قال : ان الله عز وجل قد حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء عليهم السلام

( سنن نسائي ج : 1 ص : 303 , 403 , مستدرك حاكم ج : 4 ص : 560 هذا الحديث صحيح بشرط الصحيحين ولم يخرجاه , ابوداود: ج1 ص214 باب الاستغفار , سنن الكبرى بيهقي ج : 3 ص :249 , دارمي ج : 1 ص : 7 باب فضل الجمعة , مسند أحمد ج : 4 ص : 8 , صحيح ابن خزيمة ج : 3 ص : 118 حديث 1733, ابن حبان باب ذكر وفاته ودفنه - صلى الله عليه وسلم - ص : 118 , الإحسان بترتيب  ابن حبان ج : 3 ص : 78 حديث 907 , كتاب الروح ابن القيم ص : 63 , كنز العمال ج :8 ص :368 حديث 23301 ايضا ج : 7 ص : 708 حديث : 21037 , ابن أبي شيبة ج :2 ص : 512 , ابن ماجة ص : 72 , 118 )


4. عن ابي الدرداء رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : ( أكثروا الصلاة علي

يوم الجمعة فإنه مشهود تشهده الملائكة وان أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال قلت وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء فنبي الله حي يرزق 
ابن ماجة ص : 118 ذكر وفاته ودفنه صلى الله عليه وسلم, ترغيب ج : 2 ص : 503 , نيل الأوطار ج : 3 ص : 304 , شرح الصدور 
ص : 316 دار الكتب العلمية ببيروت ).
5. عن ابي هريرة - رضي الله عنه - قال : سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : والذي نفس 
أبى القاسم بيده ! لينزلن عيسى ابن مريم ...... ثم لئن قام على قبري فقال يا محمد ! لأجبته 
هو فى الصحيح باختصار , ورواه أبو يعلى ورجاله رجال الصحيح".
مسند أبو يعلى حديث 4856 ج : 11 ص :462 , مجمع الزوائد ج : 8 ص : 211 , المطالب العالية ج : 4 ص : 23 , باب حياته في قبره
ج :4 ص : 349 حديث : 4574 , الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , روح المعاني ج : 22 ص : 35 ).
يقول العلامة آلوسي - رحمه الله- بعد هذا الحديث :
انه عيسى علبه السلام ياخذ الأحكام من نبينا - صلى الله تعالى عليه وسلم- شفاها بعد نزوله وهو صلى الله عليه وسلم في قبره 
وأيد بحديث ابو يعلى والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري فقال يا محمد ! لأجبته .’ ( روح المعاني ج :22 ص : 35 6. عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم - يقول : وصلوا علي
فان صلاتكم تبلغني أينما كنتم ( مسند أحمد ج2 : ص 364 , أبو داود ج : 1 ص : 280) 7. عن انس بن مالك - رضي الله عنه - أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال : مررت على موسى 
ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر , وهو قائم يصلي في قبره ( صحيح مسلم ج : 2 ص : 268 طبعة رحيمية ديوبند , .مسند أحمد ج : 5 ص : 59 , 362 , 365 , . ج : 3 ص : 148 , 248 , سنن النسائي
ج : 1 ص : 242 , كنز العمال ج : 11 ص : 518 , حديث 32386 , الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان ج : 1 ص : 216 , طبعة المكتبة
الأثرية بباكستان ). 8. عن ابن مسعود - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : إن لله ملائكة سياحين 
في الأرض يبلغوني عن أمتي السلام 
(نسائي ج : 1 ص : 189 , مسند أحمد ج : 1 ص : 441 , ابن أبي شيبة ج : 2 ص : 517 , مشكاة ص : 86 , التداية والنهاية ج : 1 ص 
: 154 , الجامع الصغير ج : 1 ص : 93 ,خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , الإحسان بترتيب ابن حبان ج : 3 ص : 8 حديث 9 , 10 , ).
9 . عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : وصلوا علي 
فان صلاتكم تبلغني حيث كنتم (مسند أحمد ج : 2 ص : 367 , أبو داود ج : 1 ص : 279 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , مشكاة ص : 84 , 
فتح الباري ج : 6 ص : 488 ).

ثالثا: آثار الصحابة في حياة الأنبياء
1. وعن عائشة - رضي الله عنها - قالت : كنت ادخل بيتي الذي فيه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - واني
واضع ثوبي وأقول إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر - رضي الله عنه - معهم فو الله ما دخلته الا وانا مشدودة 
على ثيابي حياء من عمر 

مشكاة ص : 154 ) قيل في هذا الحديث في حاشية المشكاة :

حياء من عمر أوضح دليل على حياة الميت ’’ ( حاشية المشكاة ص : 154 يقول العلامة الطيبي شارح المشكاة في هذا الحديث :

قال الطيبي فيه أن احترام الميت كاحترامه حيا (شرح الطيبي ج : 3 ص : 418 طبعة إدارة القران

2. عن سعيد بن المسيب قال لم أزل اسمع الأذان والإقامة في قبر رسول الله - صلى الله عليه وسلم ايام 

الحرة حتى عاد الناس 

(خصائص كبرى ج : 2 ص : 281 الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 )

يقول العلامة شبير احمد عثماني في هذا الحديث :

أن النبي - صلى الله عليه وسلم - حي كما تقرر وانه يصلي في قبره بأذان وإقامة (فتح الملهم ج 3:
Last edited by Hafiz M Khan; 07-05-2010 at 02:08 PM.

رابعا: المذاهب الأربعة وحياة النبي - صلى الله عليه وسلم - في القبر :

* علماء الأحناف:
1. يقول العلامة ابن همام المتوفى 681 هـ :‘‘ تستقبل القبر بوجهك , ثم تقول السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته ثم يسال النبي الشفاعة فيقول يا رسول الله ! أسألك الشفاعة

يا رسول الله ! أسألك الشفاعة. وليكثر دعائه بذلك في الروضة الشريفة عقيب الصلاة وعند القبر ويجتهد في خروج
الدمع فانه من أمارات القبول , وينبغي أن يتصدق بشيء على جيران النبي , ثم ينصرف متباكيا 
( فتح القدير ج : 2 ص : 336 , 337 , 339 , أواخر الحج )
2. يقول العلامة عيني شارح البخاري الحنفي المتوفي 855هـ :
ومذهب أهل السنة والجماعة أن في القبر حياة وموتا فلا بد من ذوق الموتتين لكل احد غير الأنبياء ’’ 
عمدة القاري شرح البخاري ج : 7 ص : 601 ) ويقول : في تفسير الآية : { قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ ...{ . " سورة غافر 
أراد بالموتتين الموت في الدنيا والموت في القبر وهما 
الموتتان المعروفتان المشهورتان فلذالك ذكرهما بالتعريف وهما الموتتان الواقعتان لكل احد غير الأنبياء عليه السلام فإنهم لايموتون 
في قبورهم بل هم أحياء , وأما سائر الخلق فإنهم يموتون ثم يحيون يوم القيامة (عمدة القاري شرح البخاري ج : 8 ص : 185 جزء : 16, باب فضيلة ابي بكر على سائر الصحابة طبعة دار الفكر ببيروت ).ويقول :
من أنكر الحياة في القبر وهم المعتزلة ومن نحا نحوهم وأجاب أهل السنة عن ذلك 
( عمدة القاري شرح البخاري ج : 8 ص : 601 ).
3. يقول العلامة ملا علي قاري المتوفي 1014هـ :
‘‘ فمن المعتقد المعتمد أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره كسائر الأنبياء في قبورهم وهم أحياء عند ربهم وأن لأرواحهم تعلقا 
بالعالم العلوي والسفلي كما كان في الحال الدنيوي فهم بحسب القلب عرشيون وباعتبار القالب فرشيون ويقول :
"أن الأنبياء أحياء في قبورهم فيمكن لهم سماع صلاة من صلى عليهم"
4. يقول العلامة شرنبلالي المتوفي 1069 هـ :
‘‘ ومما هو مقرر عند المحققين انه - صلى الله عليه وسلم - حي يرزق متمتع بجميع الملاذ والعبادات غير انه احجب عن إبصار 
القاصرين عن شريف المقامات ينبغي لمن قصد زيارة النبي صلى الله عليه وسلم ان يكثر الصلاة عليه فانه يسمعها وتبلغ اليه 
مراقي الفلاح ص: 405 طبع مير محمد كراجي ).5. يقول العلامة طحطاوي المتوفي 1233 هـ :

فانه يسمعها) أي إذا كانت بالقرب منه - صلى الله عليه وسلم - ( وتبلغ إليه ) أي يبلغها الملك إذا كان المصلي بعيدا ( الطحطاوي ص : 405 طبع مير محمد كراجي ).6. يقول العلامة ابن عابدين الشامي المتوفي 1252 هـ :
فقد أفاد في الدار المنتقي انه خلاف الإجماع قلت ما نسب إلى الإمام الأشعري إمام أهل السنة والجماعة من إنكار ثبوتها بعد الموت 
فهو افتراء وبهتان والمصرح به في كتبه وكتب أصحابه خلاف ما نسب إليه بعض أعدائه لان الأنبياء عليهم الصلاة و السلام أحياء في 
قبورهم وقد أقام النكير على افتراء ذالك , الإمام العارف أبو القاسم القشيري (رد المختار ج : 4 باب المغنم ص : 151 طبعة فى كراتشي ).ويقول :
‘‘ أن المنع هنا لانتفاء الشرط وهو إما عدم وجود الوارث بصفة الوراثية كما اقتضاه الحديث وأما عدم موت الوارث بناء على أن 
الأنبياء أحياء في قبورهم كما ورد في الحديث (رسائل بن عابدين ج :2 ص :202 طبعة سهيل اكيدمي لاهور ).ويقول الأنبياء أحياء في قبورهم كما ورد في الحديث7. العلامة محمد عابد السندي المتوفي 1257 هـ :
أما هم ( أي الأنبياء ) فحياتهم لاشك فيها ولا خلاف لأحد من العلماء في ذالك فهو - صلى الله عليه وسلم - حي على الدوام ( رسالة مدنية ص : 41
8. الشيخ عبد الحق محدث دهلوي المتوفي 1052 هـ :
يقول حياة الأنبياء متفق عليه آست ھیچ کس را دروى خلافي نيست ( أشعة اللمعات ج : 1 ص : 613 , طبعة نور كشور 
معناه :
‘‘ حياة الأنبياء مسألة متفق عليها , ولا يقول ( أحد من أهل العلم ) خلاف ذلك
* علماء الحنابلة : 
* . ابن عقيل :
قال ابن عقبل من الحنابلة : هو - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره ’’ ( الروضة البهية ص : 14 
علماء المالكيه
1. إمام مالك المتوفي 179 هـ

نقل عن الإمام مالك انه كان يكره أن يقول رجل زرت قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - قال ابن رشيد من اتباعه أن الكراهية لغلبه 
الزيارة في الموتى وهو - صلى الله عليه وسلم - أحياه الله تعالى بعد موته حياة تامة واستمرت تلك الحياة وهي مستمرة في المستقبل وليس 
هذا خاصة به صلى الله عليه وسلم بل يشاركه الأنبياء عليهم السلام فهو حي بالحياة الكاملة مع الإستغناء عن الغذاء الحسى الدنيوي ( نور الإيمان بزيارة آثار حبيب الرحمن ص : 14 للشيخ عبد الحليم فرنكي محلي , وكذلك في وفاء الوفاء ج :4 ص : 1373 مصر 
2 . العلامة سمهدي المتوفي 911 هـ 
لاشك في حياته - صلى الله عليه وسلم - بعد وفاته وكذا سائر الأنبياء - عليهم الصلاة والسلام - احياء في قبورهم اكمل من حياة الشهداء التي 
اخبر الله تعالى بها في كتابه العزيز (وفاء الوفاء ج : 4 ص : 1352 طبعة دار الكتب العلمية ببيروت ويقول :
وما أدلة حياة الأنبياء فمقتضاها حياة الأبدان كحالة الدنيا مع الإستغناء عن الغذاء ( وفاء الوفاء ج : 4 ص : 1355 
علماء الشافعية :
1. العلامة تاج الدين السبكي المتوفي 777 هـ :

‘‘ عن انس قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون , فإذا ثبت أن نبينا - صلى الله عليه وسلم - حي 
فالحي لابد من أن يكون إما عالما أو جاهلا ولا يجوز أن يكون النبي - صلى الله عليه وسلم - جاهلا ’’
( طبقات الشافغية الكبرى ج : 3 ص : 411 طبعة دار الأحياء بقاهرة ).
ويقول :
لان عندنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حي يحس ويعلم وتعرض عليه اعمال الأمة ويبلغ الصلاة والسلام على ما بينا ’’
(ج : 3 ص : 412 ).
ويقول :
ومن عقائدنا أن الأنبياء عليهم السلام احياء في قبورهم فأين الموت ؟ إلى أن قال: صنف البيهقي - رحمه الله - جزأ , سمعناه في
حياة الأنبياء عليهم السلام في قبورهم ’ واشتد نكير الإشاعرة على من نسب هذا القول الى الشيخ (طبقات ج : 3 ص : 384 , 385 ). 
ـ 2 ألحافظ ابن حجر المتوفي 852هـ :
تمسك بهذا من انكر الحياة في القبر , اجيب عن أهل السنة والأحسن أن يقال أن حياته صلى الله عليه وسلم - في قبره لا يعقبها موت 
بل يستمر حيا والأنبياء أحياء في قبورهم 
( فتح الباري ج : 7 ص : 22 طبعة مصر ).
ويقول : 
وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فانه يقوه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القرآن والأنبياء أفضل من الشهداء ( فتح الباري ج : 7 ص : 488 طبعة دار النشر الإسلامية لاهور

خامسا: حياة الأنبياء والسلف الصالح :


1. إمام عبد القادر البغدادي المتوفي 429 هـ : واجمعوا على أن الحياة شرط في العلم والقدرة والإرادة والرؤية والسمع , وأن من ليس بحي لا يصح أن يكون عالما قادرا مريدا سامعا
مبصرا , وهذا خلاف قول الصالحي وأتباعه من القدرية في دعواهم جواز وجود العلم والقدرة والإرادة والرؤية الإرادة في الميت 
( الفرق بين الفرق ص : 337 , طبعة مصر ).
2. ألإمام البيهقى المتوفي 458 هـ : أن الله جل ثنائه رد إلى الأنبياء أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء 
( حياة الأنبياء ص : 14 , وفاء الوفاء ج : 2 ص : 1352 , شرح مواهب زرقاني ج : 5 ص : 332 ).
3. إمام شمس الدين محمد السخاوي المتوفي 902 هـ :
نحن نؤمن ونصدق بأنه صلى الله عليه وسلم - حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا ( القول البديع ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي
ترجمہ : علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ ہم یقین رکھتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں ، آپ کو رزق دیا جاتا ہیں اور آپ کے جسد شریف کو زمین نے نہیں کھایا اور اس پر اجماع ہے ۔‘‘
(القول البدیع ،علامہ سخاوی ص 335 )

4. العلامة عبد الوهاب ألشعراني المتوفي 973 هـ : 
قد صحت الأحاديث انه - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره يصلي بأذان واقامة ( منح المنة ص : 92 , طبعة مصر 
5. عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب النجدي المتوفي 1206 هـ :
والذي نعتقد ان رتبة نبينا - صلى الله عليه وسلم -أعلى مراتب المخلوقين على الإطلاق و انه حي في قبره حياة مستقرة ابلغ من حياة
الشهداء المنصوص عليها في التنزيل إذ هو أفضل منهم بلا ريب , وانه يسمع من يسلم عليه 
( اتحاف النبلاء ص : 415 , طبعة كانبور ).
6. العلامة قاضي الشوكاني المتوفي 1255 هـ :
وقد ذهب جماعة من المحققين إلى أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حي بعد وفاته وانه يسر بطاعات أمته وان الأنبياء لا يبلون 
مع أن مطلق الإدراك كالعلم والسماع ثابت بسائر الموتى إلى أن قال وورد النص في كتاب الله فى حق الشهداء أنهم أحياء يرزقون وان الحياة 
فيهم متعلقة بالجسد فكيف بالأنبياء والمرسلين وقد ثبت في الحديث أن الأنبياء أحياء في قبورهم رواه المنذرى وصححه البيهقي وفي صحيح 
مسلم عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال مررت بموسى ليلة اسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره نيل الأوطار ج :3 ص : 305 طبعة دار الفكر ببيروت
الإمام ابن تيمية يثبت حياة الأنبياء والصالحين في قبورهم
قال الشيخ ابن تيمية كما في مجموع الفتاوى (1/330):
"وكذلك الأنبياء والصالحون وان كانوا أحياء في قبورهم وان قدر انهم يدعون للأحياء وان وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك ولم يفعل ذلك أحد من السلف لأن ذلك ذريعة إلى الشرك بهم وعبادتهم من دون الله تعالى بخلاف الطلب من أحدهم في حياته فانه لا يفضى إلى الشرك"ا.هـ
وقال أيضا كما في مجموع الفتاوى (27/502):
"فهذه نصوصه الصريحة-أي النبي صلى الله عليه وسلم- توجب تحريم إتخاذ قبورهم مساجد مع أنهم مدفونون فيها وهم أحياء في قبورهم ويستحب إتيان قبورهم للسلام عليهم ومع هذا يحرم إتيانها للصلاة عندها وإتخاذها مساجد"ا.هـ
وقد اثبت ابن تيمية رحمه الله ماهو اشد من هذا فقال :
تلميذه ابن مفلح في كتاب الفروع (2/235):
قال شيخنا - اي ابن تيمية- استفاضت الآثار بمعرفته-أي الميت- بأحوال أهله وأصحابه في الدنيا وأن ذلك يعرض عليه وجاءت الآثار بأنه يرى أيضا وبأنه يدري بما يفعل عنده ويسر بما كان حسنا ويتألم بما كان قبيحا اهـ وقد نص كثير من الأئمة والحفاظ كالقرطبي في " التذكرة " ، وابن القيم في كتاب الروح" والحافظ السيوطي في غير ما كتاب من كتبه، على أن أحاديث حياة الأنبياء في قبورهم متواترة - ذكر الإمام محمد بن جعفر الكتاني هذا الحديث -اى الحديث الإسراء ضمن الأحاديث المتواترة في كتابه "نظم المتناثر" برقم 115 وص(126) طبعة دار السلفية وص(135) طبعة دار الكتب العلمية . 
قال السيوطي في "مرقاة الصعود" : تواترت بها الأخبار، وقال في "إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء" ما نصه : حياة النبي في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علمًا قطعيًّا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت به الأخبار الدالة على ذلك". اهـ
وقال ابن القيم في كتاب " الروح " نقلاً عن أبي عبدالله القرطبي : صح عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الأرض لا تأكل أجسام الأنبياء، وأنه اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء، خصوصًا بموسى، وقد أخبره بأنه ما من مسلم يسلم عليه إلاَّ رَدَّ عليه السلام .. إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أنهم غيبوا عنا بحيث لا نراهم وإن كانوا موجودين أحياء، وذلك كالحال في الملائكة، فإنهم أحياءٌ موجودون ولا نراهم وقد نقل كلام القرطبي هذا أيضًا، وأقره الشيخ محمد السفاريني الحنبلي في شرحه لعقيدة أهل السنة، ونص عبارته : قال أبو عبدالله القرطبي، قال شيخنا أحمد بن عمر : إن الموت ليس بعدم محض و إنما هو انتقال من حال إلى حال، و يدل على ذلك أن الشهداء بعد موتهم وقتلهم أحياء عند ربهم يرزقون فرحين مستبشرين، وهذه صفة الأحياء في الدنيا، وإذا كان هذا في غير الأنبياء، كان الأنبياء بذلك أحق وأولى، مع أنه قد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم : أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء، وأنه اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء، وخصوصاً بموسى عليه وعليهم السلام، وقد أخبر نبينا صلى الله عليه وسلم : أنه ما من مسلم يسلم عليه إلاّ رَدَّ عليه السلام... إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أنهم غيبوا عنا بحيث لا ندركهم، وإن كانوا موجودين أحياء، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء و لا نراهم . اهـ. 
ويحقق ما ذكره هؤلاء الأئمة من تواتر الأحاديث الدالة على حياة الأنبياء أن حديث عرض الأعمال عليه واستغفاره لأمته، وسلامه على من يسلم عليه، ورد من نحو عشرين طريقًا، وحديث الإسراء، ورد من طريق خمسة وأربعين صحابيًّا، وقد نص الحاكم والحافظ السيوطي على أن حديث الإسراء متواتر .
فنحن نؤمن أنه صلى الله عليه وسلم حي يرزق في قبره، وأن جسده الشريف لا تأكله الأرض، والإجماع على هذا، وزاد بعض العلماء "الشهداء والمؤذنين" . وقد صح أنه كشف عن غير واحد من العلماء والشهداء فوجدوا أنهم لم تتغير أجسامهم، والأنبياء أفضل من الشهداء . 

وفى هذاالقدر كفاية لمن أراد الهداية ـ 
أللهم ارزقنا طاعتك وطاعة رسولك صلى الله عليه وسلم وعملا بكتابك
++++++++++++++++++++++++++++++

ماورد في حياة الانبياء 


بسم الله الرحمن الرحيم



أخبرنا الشيخ الإمام زين الإسلام أبو النصر عبدالرحيم بن عبدالكريم بن هوازن القيشيري رضي الله عنه في كتابه إلينا من نيسابور قال أخبرنا الشيخ الإمام أبوبكر أحمد بن الحسين البيقي رحمه الله قراءة عليه وأنا أسمع في ربيع الآخر سنة خمس وأربعين وأربعمائة‏.‏



وأخبرنا الشيخ الإمام الحافظ أبوبكر محمد بن عبدالله بن حبيب العامري أيده الله قال‏:‏ أخبرنا شيخ القضاة أبو علي إسماعيل بن أحمد بن الحسين البيهقي فيما قرأت عليه قال‏:‏ أخبرنا الإمام والدي شيخ السنّة رحمه الله قال‏:‏ الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين وصلواته على محمد وآله أجمعين‏.‏



ذكر ما روي في حياة الأنبياء صلوات الله عليهم بعد وفاتهم أخبرنا أبو سعد أحمد بن محمد بن خليل الصوفي رحمه الله قال‏:‏ أخبرنا أبو أحمد عبدالله بن عدي الحافظ قال‏:‏ حدّثنا بن عبد الله الرومي قال‏:‏ حدّثنا الحسن بن عرفة قال‏:‏ حدّثني الحسن بن قتيبة المدائني قال‏:‏ نا المستلم بن سعيد الثقفي عن الحجاج الأسود عن ثابت البناني عن أنس قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ هذا حديث يعد في أفراد الحسن بن قتيبة المدائني وقد رُوِيَ عن يحيى بن أبي بكير عن المستلم بن سعيد وهو فيما‏.‏



أخبرنا الثِّقة من أهل العلم قال‏:‏ ابنا أبو عمرون بن حمدان قالك ابنا أبو يعلى الموصلي ثنا أبو الجهم الأزرق بن علي ثنا يحيى بن أبي بكير ثنا المستلم بن سعيد عن الحجاج عن ثابت عن أنس بن مالك قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏(‏الأنبياء أحياءٌ في قبورهم يصلّون‏)‏‏.‏



وقد روي من وجه آخر عن أنس بن مالك موقوفًا‏.‏



أخبرناه أبو أبو عثمان الإمام رحمه الله ابنا زاهر بن أحمد ثنا أبو جعفر محمد بن معاذ المالينيى نا الحسين بن الحسن نا مؤمل ثنا عبيد الله بن أبي حميد الهذلي عن أبي المليح عن أنس بن مالك قال‏:‏ ‏(‏الأنبياء في قبورهم أحياءٌ يصلّون‏)‏‏.‏



ورُوِيَ كما أخبرنا أبو عبد الله الحافظ نا أبو حامد أحمد بن علي الحسنوي إملاءً ثنا أبو عبد الله محمد بن العباس الحمصي ‏(‏بحمص‏)‏ ثنا أبو الربيع الزهراني ثنا إسماعيل بن طلحة بن يزيد عن محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن ثابت عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ‏(‏الأنبياء لا يتركون في قبورهم بعد أربعين ليلة ولكنهم يصلّون بين يدي الله عز وجل حتى ينفح في الصور‏)‏‏.‏



وهذا إن صح بهذا اللفظ فالمراد به والله أعلم لا يَتركون يصلّون إلا هذا المقدار ثم يكونون مصلّين فيها بين يدي الله عز وجل كما روينا في الحديث الاول‏.‏



وقد يحتمل أن يكون المراد به رفع أجسادهم مع أرواحهم‏.‏



فقد روي سفيان الثوري في الجامع فقال‏:‏ قال شيخ لنا عن سعيد بن المصيب قال‏:‏ ما مكث نبي في قبر أكثر من أربعين ليلة حتى يرفع‏.‏



فعلى هذا يصيرون كسائر الأحياء يكونون حيثُ ينزلهم الله عز وجل كما روينا في حديث المعراج وغيره أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى عليه السلام قائما يصلّى في قبره ثم رأه مع سائر الأنبياء عليهم السلام في بيت المقدس ثم رأهم في السموات والله تبارك وتعالى فعّال لما يريد‏.‏



ولحياة الأنبياء بعد موتهم صلوات اله عليهم شواهد من الأحاديث الصحيحة منها أخبرنا أبوالحسين عل بن محمد بن عبدالله بن بشران ببغداد ابنا إسماعيل بن محمد الصفار ثنا محمد بن عبدالملك الدقيقي نا يزيد بن هرون ثنا سليمان التيمى عن أنس بن مالك أن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم ليلة أسري به مرّ على وأخبرنا أبو الحسين بن بشران ابنا إسماعيل ثنا أحمد بن منصور بن سيار الرمادي ثنا يزيد بن أبي حكيم ثنا سفيان يعني الثوري ثنا سليمان التيمي عن أنس بن مالك قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏(‏مررت على موسى وهو قائم يصلّي في قبره‏)‏‏.‏



أخبرنا أبو عبدالله الحافظ ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا محمد بن عبيدالله بن المنادي ثنا يونس بن محمد المؤدّب ثنا حماد بن سلمة ثنا سليمان التيمي وثابت البناني عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ‏(‏أتيت على موسى ليلة أُسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلّي في قبره‏)‏‏.‏


أخرجه مسلم بن الحجاج النيسابوري رحمه الله من حديث حماد بن سلمة وأخرجه من حديث الثوري وعيسى بن يونس وجرير بن عبدالحميد التيميى‏.‏

أخبرنا أحمد بن ‏(‏الحسن بن علي‏)‏ الحَرَشِي ابنا ابنا حاجب بن أحمد ثنا محمد بن يحيى ثنا أحمد بن خالد الوهبي ثنا عبدالعزيز بن أبي سلمة بن عبدالله بن الفضل الهاشمي عن أبي سلمة بن عبدالرحمن عن أبي هريرة قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏(‏لقد رأيتني في الحِجْر وأنا أخبر قريشًا عن مَسراي فسألوني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها فكربت كربًا ما كربتُ مثله قطّ فرفعه الله لي أنظر إليه ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم به وقد رأيتني في جماعة من الأنبياء فإذا موسى قائم يصلّي فإذا رجل ضَربٌ جَعْدٌ كأنه من رجال شنوءَة وإذا عيسى ابن مريم قائم يصلّي أقرب الناس به شبهًا عروة بن مسعود الثقفي وإذا إبراهيم قائم يصلّي أشبه الناس به صاحبكم - يعني نفسه - فحانت الصلاد فأممتهم فلما فرغت من الصلاة قال لي قائل‏:‏ يا محمد هذا مالك صاحب النار فسِلِّم عليه فالتفت إليه فبدأني بالسلام‏)‏‏.‏

أخرجه مسلم في الصحيح من حديث عبد العزيز‏.‏

وفي حديث سعيد بن المسيب وغيره أنه لقيهم في مسجد بيت المقدس وفي حديث أبي ذر ومالك بن صعصعة في ‏(‏قصة‏)‏ المعراج أنه لقيهم في جماعة من الأنبياء في السماوات وكلّمهم وكلّموه وكل ذلك لا يخالف بعضه بعضًا فقد يرى موسى عليه السلام قائمًا يصلّي في قبره ثم يُسرى بموسى وغيره إلى بيت المقدس كما أُسري بنبيّنا صلى الله عليه وسلم فيراهم فيه ثم يُعرج بهم إلى السماوات كما عُرج بنبيّنا صلى الله عليه وسلم فيراهم فيها كما أخبر وحلولهم في أوقات بمواضع مختلفات جائر في العقل كما ورد في خبر الصادق وفي كل ذلك دلالة على حياتهم‏.‏

ومما يدل على ذلك ما أخبرنا محمد بن عبدالله الحافظ ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا أبو جعفر أحمد بن عبدالحميد الحارثي ثنا الحسين بن علي الجعفي ثنا عبدالرحمن بن يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن الثقفي قال‏:‏ قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏(‏أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأكثروا عليَّ من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة عليَّ‏)‏‏.‏

قالوا وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت - يقولون بليت - فقال‏:‏ ‏(‏إن الله قد حرَّم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء عليهم السلام‏)‏‏.‏

أخرجه أبو داود السجستاني في كتاب السنن‏.‏

وله شواهد منها ما أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ثنا أبوبكر بن إسحاق الفقيه ابنا أحمد بن علي الأبّار أحمد بن عبدالرحمن بن بكار الدمشقي ثنا الوليد بن مسلم ثني ابورافع عن سعيد المقبري عن أبي مسعود الأنصاري عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال‏:‏ ‏(‏أكثروا الصلاد عليَّ في يوم الجمعة فإنه ليس يصلّي عليَّ أحد يوم الجمعة إلا عرضت عليَّ صلاته‏)‏‏.‏

وأخبرنا عليّ بن أحمد بن عبدان الكاتب ثنا أحمد بن عبيد الصفار ثنا الحسن بن سعيد ثنا إبراهيم بن الحجاج ثنا حماد بن سلمة عن برد بن سنان عن مكحول الشامي عن أبي أمامة قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏(‏أكثروا عليَّ من الصلاة في كل يوم جمعة فإن صلاة أمتي تعرض عليَّ في كل يوم جمعة فَمن كان أكثرهم عليّ صلاة كان أقربهم منّي منزلة‏)‏‏.‏

وأخبرنا أبو ‏(‏الحسن‏)‏ علي بن محمد بن علي السَّقا الإسفرايني قال‏:‏ حدّثني والدي أبو علي ثنا أبو رافع أسامة بن علي بن سعيد الرازي بمصر ثنا محمد بن إسماعيل بن سلام الصائغ حدّثتنا حكّامة بنت عثمان بن دينار أخي مالك بن دينار قالت حدّثني أبي عثمان بن دينار عن أخيه مالك بن دينار عن أنس بن مالك خادم النبي صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ قال النبيى صلى الله عليه وسلم‏:‏‏(‏إن أقربكم منّي يوم القيامة في كل موطن أكثركم عليَّ صلاة في الدينا مَن صلّى عليَّ في يوم الجمعة وليلة الجمعة قضى الله له مائة حاجة سبعين من حوائج الآخرة وثلاثين من حوائج الدينا ثم يوكل الله بذلك مَلَكًا يدخله في قبري كما تدخل عليكم الهديا يخبرني مَن صلّى عليَّ باسمه ونسبه إلى عشيرته فأثبته في صحيفة بيضاء‏)‏‏.‏

وفي هذا المعنى الحديث الذي أخبرنا أبو علي الحسين بن محمد الروذباري ابنا أبوبكر بن داسه ثنا أبو داود ثنا أحمد بن صالح قال‏:‏ قرأت على عبدالله بن نافع قال‏:‏ أخبرني ابن أبي ذئب عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏(‏لا تجعلوا بيوتكم قبورًا ولا تجعلوا قبري عيدًا وصلّوا عليَّ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم‏)‏‏.‏

وفي هذا المعنى الحديث الذي أخبرنا أبو محمد عبدالله بن يحيى بن عبدالجبار السكري ببغداد ثنا إسماعيل بن محمد الصفّار ثنا عباس بن عبدالله الترقفي ثنا أبو عبدالرحمن المقرئ ثنا حيوة بن شريح عن أبي صخر عن يزيد بن عبدالله بن قسيط عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ‏(‏ما من أحد يسلِّم عليَّ إلا ردّ الله إليَّ روحي حتى أردّ عليه السلام‏)‏‏.‏

‏(‏وإنما أراد - والله أعلم - إلا وقد ردَّ الله إليَّ روحي حتى أردَّ عليه السلام‏)‏‏.‏

وفي هذا المعنى الحديث الذي أخبرنا أبو القاسم علي بن ‏(‏الحسين‏)‏ بن عليّ الطهماني ‏(‏ثنا أبو الحسين‏)‏ ثنا أبو الحسن محمد الكارزي ثنا علي بن عبدالعزيز ثنا أبو نعيم ثنا سفيان عن عبدالله بن السائب عن زاذان عن عبدالله بن مسعود قال‏:‏ رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏(‏إن لله عز وجل ملائكة سيّاحين في الأرض يُيلِّقوني عن أمتي السلام‏)‏‏.‏

وأخبرنا أبو الحسين بن بشران وأبو القاسم عبدالرحمن بن عبيدالله الحرفي قالا أخبرنا حمزة بن محمد بن العباس ثنا أحمد بن الوليد ثنا ‏(‏أبو‏)‏ أحمد الزبيري ثنا إسرائيل عن أبي يحيى عن مجاهد عن ابن عباس قال‏:‏ ليس أحد من أمة محمد صلى الله عليه وسلم إلا وهي تبلغه يقول الملك‏:‏ فلان يصلّي عليك كذا وكذا صلاة‏.‏

أخبرنا علي بن محمد بن بشران ابنا أبوجعفر الرزاز أنا عيسى بن عبدالله الطيالسي ثنا العلاء بن عمرو الحنفي ثنا أبو عبدالرحمن عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ‏(‏مَن صلّى عليَّ عند قبري سمعته ومَن صلّى عليَّ نائِيًا منه أُبلغته‏)‏‏.‏

أبو عبدالرحمن هذا هو محمد بن مروان السُّدي فيما أرى وفيه ونظر وقد مضى ما يؤكده‏.‏

وأخبرنا أبو عبدالله الحافظ أنا أبو عبدالله الصفّار ثنا أبوبكر بن أبي الدنيا حدّثني سويد بن سعيد حدّثني ابن أبي الرجال عن سليمان بن سحيم قال‏:‏ رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم فقلت‏:‏ يا رسول الله هؤلاء الذين يأتونكم فيسلّمون عليكم أتفقه سلامهم قال‏:‏ ‏(‏نعم وأردُّ عليهم‏)‏‏.‏

ما أخبرنا محمد بن عبداله الحافظ أخبرني أبومحمد المزني ثنا عليّ بن محمد بن عيسى ثنا أبو اليمان أنا شعيب عن الزهري قال‏:‏ أخبرني أبو سلمة بن عبدالرحمن وسعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال‏:‏ إستبَّ رجل من المسلمين ورجل من اليهود فقال المسلم‏:‏ والذي اصطفى محمدا على العالمين وأقسم بقَسَم‏.‏

فقال اليهودي‏:‏ والذي اصطفى موسى على العالمين فرفع المسلم عند ذلك يده فلطم اليهوديَّ فذهب اليهودي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره بالذي كان من أمره وأمر المسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏(‏لا تُخيِّروني على موسى فإن الناس يُصعَقون فأكون أوّل مَن يُفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري كان ممّن صعق فأفاق قبلي أو كان ممّن استنثى الله عز وجل‏)‏‏.‏

رواه البخاري في الصحيح عن أبي اليمان‏.‏

وفي الحديث الثابت عن الأعرج عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال‏:‏ ‏)‏لا تٌفَضِّلوا بين الأنبياء فإنه ينفخ في الصور فيُصعق من في السماوات ومَن في الأرض إلا مَن شاء الله‏.‏

ثم ينفح فيه أخرى فأكون أوّل مَن بعث أو في أول مَن بعث فإذا موسى آخذ بالعرض فلا أدري ‏(‏أحُوسب بصعقة يوم الطور أم بعث قبلي‏)‏‏.‏

وهذا إنما يصحّ على أن الله جلّ ثناؤه ردّ ‏(‏إلى‏)‏ الأنبياء عليهم السلام أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء فإذا نفخن في الصور النفخة الأولى صعقوا فيمن صعق ثم لا يكون ذلك موتًا في جميع معانيه إلا في ذهاب الاستشعار فإن كان موسى عليه السلام فيمن استنثى الله عز وجل بقوله‏:‏ ‏(‏إلا مَن شاء الله‏)‏ فإنه عزّ وجل يُذهب باستشعاره في تلك الحالة ويحاسبه بصعقة يوم الطور‏.‏

ويقال إن الشهداء من جملة مَن استنثى الله عز وجل بقوله‏:‏ ‏(‏إلا مَن شاءَ اللَه‏)‏‏.‏

ورُوينا فيه خبرًا مرفوعًا وهو مذكور مع سائر ما قيل في كتاب البعث والنشور وبالله تعالى التوفيق‏.‏


اعتراض : مسند احمد، سنن ابو داود اور شعب الایمان للبیہقی کی حدیث میں ہے کہ : جب کوئی مجھ پر سلام بھیجے گا، الله تعالیٰ میری روح کو میرے جسم کی طرف لوٹادے گا ، یہاں تک کہ میں اس حال میں اس کے سلام کا جواب دوں گا.

امام سیوطی یہ جواب دیتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ بظاہر اس حدیث میں یہ پایا جاتا ہے کہ آپ کی روح اقدس بعض اوقات جسم  اطہر سے مفارقت کرتی ہے اور یہ مضمون احادیث مندرجہ بالا کے خلاف ہوتا ہے لیکن میں نے اس میں غور و فکر کی تو مجھے اس کے کی جواب سوجھے جو حسب ذیل ہیں :
(َ١) سب سے ضعیف یہ ہے راوی کو حدیث کے کسی لفظ میں وہم ہوگیا ہے جس سے یہ اشکال پیدا ہوا ہے چنانچہ علماء نے بہت سی حدیثوں میں ایسا ہی دو کیا ہے لیکن چونکہ اصل اس کے خلاف ہے اس لئے یہ دعوا قابل اعتماد نہیں ہو سکتا.
(٢) سب سے قوی جواب جس کو صرف وہ شخص جان سکتا ہے جس کو عربیت میں کامل دستگاہ ہو کہ جملہ "رد الله" جملہ حالیہ ہے اور قاعدہ عربیت یہ ہے کہ جب فعل ماضی حال واقع ہوتا ہے تو اس میں لفظ "قد" مقدر مانا جاتا ہے، جیسے آیت :  أَو جاءوكُم حَصِرَت صُدورُهُم {4:90} میں مقدر مانا گیا ہے یعنی "قد حَصِرَت" ، پس اسی طرح حدیث کے اس جملہ میں بھی "قد" مقدر مانا جاۓ گا یعنی "قد رد الله" اور چونکہ جملہ ماضی ہے اس لئے اس سلام کا وقوع اس سلیم سے مقدم ہوگا جو ہر شخص سے صادر ہوتا ہے اور لفظ "حتیٰ" اس حدیث میں تعليليه نہیں ہے، بلکہ مجرد حرف عطف ہے واؤ کے معنی میں. پس اس تقدیم پر حدیث مذکور کا مفھوم یہ ہوا کہ : "ہر ایک شخص کا مجھ پر سلیم بھیجنا اس حالت میں ہوگا کہ اس کے قبل الله تعالیٰ کی طرف سے میری روح میرے جسم میں واپس آچکی ہوگی اور میں اس کے سلام کا جواب دوں گا".
ہماری اس تقریر سے اشکال کا بالکلیہ استیصال ہوجاتا ہے کیونکہ اشکال مذکور صرف اس خیال سے پیدا ہوا تھا کہ جملہ "رد الله" حال یا استقبال کے معنی میں لیا گیا ہے ، اور لفظ "حتیٰ" تعلیلیہ مانا گیا ، اور جب ان دونوں نظموں میں تاویل کردی گئی ہے تو صحیح معنی نکل آیا.
ہماری تقریر کی تائید اس معنوی حیثیت سے بھی ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر لفظ "رد" حال یا استقبال کے معنی میں لیا جاۓ تو سلام کی تکرار سے "رد" کی تکرار سے مفارقت روح کی تکرار لازم آۓ گی اور تکرار مفارقت سے کی محذور لازم آئیں گے.
اول : یہ کہ روح کے بار بار نکلنے سے جسد اطہر کو اذیت ہوگی تو ایک قسم کی ایسی بات پائی جاۓ گی جو تعظیم و تکریم کے خلاف ہے.
دوم : یہ امر شہداء وغیرہ کی شان کی خلاف ہے کیونکہ ان میں سے کسی کے لئے یہ ثابت نہیں ہوا کہ اس کی روح عالم برزخ میں بار بار نکلتی اور عود (لوٹنا) کرتی ہے تو پھر جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جن کا رتبہ سب سے اعلیٰ ہے بدرجہ اولیٰ اس کی سزاوار (لائق) ہے کہ آپ کی روح اقدس ہمیشہ جسد اطہر میں باقی رہے.
سوم : یہ کہ یہ بات قرآن مجید کے خلاف ہے اس لئے کہ قرآن سے صرف دو موت اور دو حیات کا پتہ چلتا ہے [أَمَتَّنَا اثنَتَينِ وَأَحيَيتَنَا اثنَتَينِ {40:11}] ، اور تکرار بہت سی موت اور حیات کو مستلزم ہے اور یہ باطل ہے.
چہارم : یہ کہ یہ امر احادیث متواترہ مذکورہ بالا کے خلاف ہے  اور جو امر قرآن مجید اور متواتر حدیث کے خلاف ہو اس کی تاویل (تطبیق) واجب ہے اور اگر اس میں تاویل کی صلاحیت نہ ہو تو وہ باطل ہے. لہذا واجب ہوا کہ حدیث مذکورہ میں وہ تاویل کی جاۓ جو ہم نے اوپر ذکر کی.
(٣) لفظ "رد" بعض اوقات مفارقت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ كناية اس سے مطلق حیرورت مراد ہوتی ہے، جیسے اس آیت میں جو حضرت شعیب علیہ السلام کا مقولہ ہے : قَدِ افتَرَينا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِن عُدنا فى مِلَّتِكُم {7:89} یعنی بیشک ہم نے بہتان باندھا اللہ پر جھوٹا اگر لوٹ آئیں تمہارے دین میں...
کہا گیا ہے کہ اس میں لفظ "عود" سے مطلق حیرورت مراد ہے نہ منتقل ہونے کے بعد عود (لوٹنا) کرنا ، اس لئے کہ شعیب علیہ السلام کبھی ان کی ملت میں نہیں داخل ہوۓ تھے.
(٤) سب سے زیادہ قوی جواب یہ ہے کہ رد روح سے یہ مراد نہیں ہے کہ روح بدن سے مفارقت کرنے کے بعد پھر اس میں واپس کی جاتی ہے بلکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم برزخ میں احوال ملکوت میں مشغول اور مشاہدہ ربانی میں مستغرق ہیں جیسے آپ کی حالت دنیا میں وحی کے وقت اور دوسرے اوقات میں تھی. پس آپ کا افاقہ رد روح سے تعبیر کیا گیا اور یہی قول علماء کا اس قول میں ہے جو معراج کے بعض احادیث میں واقع ہوا اور وہ یہ ہے : "فاستيقظت وإذا أنا بالمسجد الحرام" یعنی میں بیدار ہوتے ہی مسجد حرام میں تھا.
یہاں "استيقاظ" سے مراد نیند سے بیدار ہونا نہیں ہے ، اس لئے کہ معراج خواب میں نہیں ہوئی، بلکہ (اس سے مراد) عجائبات ملکوت کی غفلت و غشی سے افاقہ میں آنا مراد ہے.




No comments:

Post a Comment