اب رہا یہ سوال کہ وہ آیات کہاں ہیں؟ تو گزارش ہے کہ مولانا ابواحمد نور محمد تونسوی نے پچاس کے قریب آیات اپنی تالیف ’’قبر کی زندگی‘‘ میں لکھ دی ہیں، مطالعہ کے شائقین اس کی طرف رجوع کریں، کیونکہ وہ کتاب عام اور متداول ہے۔ امید ہے کہ انہی آیات کے مطالعہ سے شرح صدر ہوجائے گا۔ اور جہاں تک تعلق ہے سنت رسول اللہ ﷺ کا تو عقیدہ حیات الانبیاء ؑ احادیثِ متواترہ(یعنی وہ مسلسل روایت جسے ایک بہت بڑی تعداد روایت کرے جن کا جھوٹ پر متفق و متحد ہونا ناممکن ہو ، یہ تعداد اپنے ہی جیسی تمام صفات کی حامل ایک بڑی جماعت سے روایت کرے، اور انہوں نے یہ خبر بذریعہ حس حاصل کی ہو۔) سے ثابت ہے، جن کا درجہ(باعتبار ثبوت کے) قرآن کے برابر ہے۔ کچھ تو وہ حدیثیں ہیں، جن میں حیات الانبیاء ؑکی تصریح ہے، مثلاً:
’’الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ‘‘
یعنی ’’انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
[مسند البزار:6888، مسند أبي يعلى:3425، فوائد تمام:58، حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي:1+2، سلسلة الأحاديث الصحيحة:621]
وغیرہ وغیرہ اور دوسری وہ حدیثیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ عالم قبر وبرزخ میں مردہ انسان سے سوال وجواب ہوتا ہے اور پھر جزاء وسزا ہوتی ہے تو یہ سب سینکڑوں حدیثیں حیاتِ قبر پر دلالت کرتی ہیں اور قبر کی یہ حدیثیں متواتر ہیں۔ مولانا نے سو سے زائد یہ حدیثیں ’’قبر کی زندگی‘‘ میں لکھ دی ہیں۔ اگر اہل علم تتبع کریں تو مزید حدیثیں بھی مل سکتی ہیں، نیز’’نظم المتناثر من الحدیث المتواتر‘‘ (حديث نمبر 115) میں لکھا ہے کہ:
’’إن من جملة ما تواتر عن النبيِّ ﷺ حياة الأنبياء في قبورهم۔‘‘
ترجمہ:
’’حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس سے جو حدیثیں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، ان میں سے ’’حیاۃ الأنبیاء فی قبورہم‘‘ کی حدیثیں بھی ہیں۔‘‘ [بحوالہ مجموعہ رسائل حیات الانبیاء للبیہقیؒ، للسبکیؒ، للسیوطیؒ، ص:۸]
تواتر یعنی کسی بات یا واقعہ کو بہت سے لوگوں کا مسلسل ہر زمانے میں نقل کرنا۔
اور امام جلال الدین سیوطیؒ(م911ھ) اپنے رسالہ’’أنباء الأذكياء فی حیاۃ الانبیاء ؑ ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’فَأَقُولُ: حَيَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَبْرِهِ هُوَ وَسَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ مَعْلُومَةٌ عِنْدَنَا عِلْمًا قَطْعِيًّا لِمَا قَامَ عِنْدَنَا مِنَ الْأَدِلَّةِ فِي ذَلِكَ وَتَوَاتَرَتْ [بِهِ] الْأَخْبَارُ، وَقَدْ أَلَّفَ الْبَيْهَقِيُّ جُزْءًا فِي حَيَاةِ الْأَنْبِيَاءِ فِي قُبُورِهِمْ۔‘‘
ترجمہ:
’’پس میں کہتا ہوں: حیاۃ النبی ﷺ اپنی قبر میں اور اسی طرح تمام انبیاء کرام ؑ ہمارے نزدیک علم قطعی کے ساتھ معلوم ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور حیات الانبیاء پر دلالت کرنے والی روایات درجۂ تواتر کو پہنچتی ہیں اور تحقیق امام بیہقیؒ(م458ھ) نے حیات الانبیاء کے عقیدہ میں ایک رسالہ بھی تالیف کیا ہے، جس میں انہوں نے حیاتِ قبر کو ثابت کیا ہے۔‘‘
[الحاوي للفتاوي-السيوطي:2/ 178، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد:12/ 355، نظم المتناثر-الكتاني:115، فتاوى دار الإفتاء المصرية:8/ 103أتاريخ النشر بالشاملة: ٨ ذو الحجة ١٤٣١، بحوالہ مجموعہ رسائل کتاب حیاۃ الانبیاء، ص:۴۵]
اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ لکھتے ہیں :
’’نزد احمد ونسائی ہر آئینہ خدای را فرشتگانند میر کنندگان در زمین می ر سانند مرا از اُمت من سلام را وبتواتر رسیدہ این معنی۔‘‘
ترجمہ:
’’ حضور اکرم ﷺ کی خدمتِ مقدس میں فرشتوں کا درود وسلام پہنچانا درجۂ تواتر رکھتا ہے۔‘‘
[فتویٰ عزیزیہ ج:۲، ص: ۲۷]
نیز شریعت کی اصطلاح میں عقیدہ عذابِ قبر مشہور ہے، لیکن قبروں میں صرف عذاب نہیں ہوتا، بلکہ راحت بھی ہوتی ہے، چونکہ اکثر مردوں کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے تو تغلیباً اس کو عذابِ قبر ہی کہا جاتا ہے، تو قبر کی یہ جزا وسزا حیات کو مستلزم ہے، کیونکہ اگر قبر میں جزاء وسزاء ہے اور عذاب وراحت ہے اور مردہ انسان کو اس کا ادراک اور شعور نہیں ہے تو عذاب اور راحت کا کیا فائدہ؟ چنانچہ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:
’’وعذاب وتنعیم بغیر ادراک وشعورنمی تواند شد۔‘‘
ترجمہ:
’’عذاب اور تنعیم قبر بغیر ادراک اور شعور کے نہیں ہوسکتے۔‘‘
[فتاویٰ عزیزی، ج:۱،ص: ۸۸]
جمہور علماء اسلام نے عذابِ قبر کی حدیثوں کو متواتر کہا ہے، تو جب ہر میت کی حیات پر دلالت کرنے والی حدیثیں متواتر ہیں تو حضرات انبیاء کرام ؑ کی حیاتِ قبر کی حدیثیں بطریق اولیٰ تواتر سے ثابت ہیں ۔ اور جہاں تک تعلق ہے اجماعِ امت کا تو بہت سے علماء نے اپنی کتابوں میں تصریح فرمائی ہے کہ حضرات انبیاء کرام ؑ کی حیاتِ قبر پر اجماعِ امت ہے اور بکثرت حوالہ جات میں سے چند ایک حوالے آپ کی خدمت میں پیش کیے جارہے ہیں، چنانچہ علامہ داؤد بن سلیمان البغدادیؒ لکھتے ہیں:
’’والحاصل أن حیاۃ الأنبیائؑ ثابتۃ بالإجماع۔‘‘
[المنحۃ الوہبیۃ، ص:۶، طبع استنبول، بحوالہ تسکین الصدور]
ترجمہ:
’’ حاصل یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام ؑ کی حیات باجماع ثابت ہے۔‘‘
اور شیخ عبد الحق دہلویؒ آنحضرت ﷺ کی حیات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’حیات متفق علیہ است، ہیچ کس را در وے خلافے نیست۔‘‘
ترجمہ:
’’ حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ قبر متفق علیہ ہے، کسی کا اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ ‘‘
[اشعۃ اللمعات، ج:۱، ص:۶۱۳]
نواب قطب الدین خان صاحبؒ شارح مشکوٰۃ لکھتے ہیں :
’’زندہ ہیں انبیاء ؑ قبروں میں، یہ مسئلہ متفق علیہ ہے، کسی کو اس میں خلاف نہیں۔‘‘
[مظاہر حق، ج:۱، ص:۴۴۵، بحوالہ تسکین الصدور]
اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ لکھتے ہیں :
’’انبیاءؑ کو اسی وجہ سے مستثنیٰ کیا کہ ان کے سماع میں کسی کو اختلاف نہیں۔‘‘
[فتاویٰ رشیدیہ، ملحق تالیفات رشیدیہ، ص:۲۳۴-۶۹]
اور جہاں تک تعلق ہے قیاسِ صحیح کا تو یہ عقیدہ اس سے بھی ثابت ہے، کیونکہ حضور اکرم ﷺ جب دنیا میں تشریف لائے تو آپ ﷺ کی روح اور جسدِ اطہر کا مجموعہ محمد ﷺ کے نام سے مشہور ہوا اور چالیس سال کے بعد آپ ﷺ نے جب اعلانِ نبوت فرمایا تو بحیثیت محمد رسول اللہ ﷺ متعارف ہوئے، پس جب ثابت ہوگیا کہ روح اور جسد کا مجموعہ اللہ کا رسول ہے اور روح اور جسد دونوں نے مل کر دینِ اسلام کی خوب خدمت کی، تبلیغ فرمائی، تبلیغی سفر کیے، آپ ﷺ غزوات میں شریک ہوئے، مکہ سے مدینہ منورہ تک ہجرت فرمائی، تین دن تک غارِ ثور میں رہے، جنگِ بدر، جنگِ احد میں شرکت فرمائی، آپ ﷺ کو معراج ہوئی، آپ ﷺ نے آسمانوں وغیرہ کی سیر فرمائی، آپ ﷺ نے نماز، روزہ، حج، عمرہ وغیرہ عبادات ادا فرمائیں تو مناسب امور میں آپ ﷺ کا جسدِ اطہر روح کے ساتھ شریک تھا، دین کا ہر کام روح اور جسد دونوں نے مل کر ادا کیا اور وفات کے بعد جب جزاء اور انعام کا وقت آیا تو انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ عالمِ قبر وبرزخ کی جزاء اور انعامات روح اور جسد کے مجموعہ کو دی جائیں۔ انصافِ خداوندی کا یہی تقاضا ہے کہ موت کے بعد حیات ملی ہے تو ان دونوں کو، اور جنت کا مقام ملا ہے تو ان دونوں کو، جنت کا رزق ملا ہے تو ان دونوں کو، الغرض جنت میں جتنی نعمتیں اللہ تعالیٰ روح کو عطا فرماتے ہیں، ان سب میں آپ ﷺ کا جسدِ اطہر شریک اور حاضرہے۔ عالمِ قبر وبرزخ کی سب نعمتیں روح کے ساتھ مختص کرکے آپ ﷺ کے جسد کو حیات اور جنت کی نعمتوں سے محروم کردینا انصافِ خداوندی سے کوسوں دور ہے، جس کا اللہ تبارک وتعالیٰ سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا قیاس صحیح سے بھی عقیدہ حیات الانبیاء ؑ ثابت ہوگیا۔ البتہ علماء فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی روحِ اقدس اپنے مقام پر ہے، اور اسی طرح جسدِ اطہر اپنے مقام میں ہے اور ان دونوں کے مابین ایک ایسا تعلق اور جوڑ ہے جس کی حقیقت اللہ ہی جانتے ہیں۔ پس عالمِ قبر وبرزخ میں آپ ﷺ کی روح اقدس پر جو انعامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں، اس سے آپ ﷺ کا جسدِ اطہر برابر محظوظ ہوتا ہے، جیساکہ خواب دیکھنے والا شخص خواب میں مختلف مقامات کو دیکھتا ہے اور مختلف حالات سے گزرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ خواب میں آدمی کی روح نکل جاتی ہے، لیکن خواب میں روح جسد کو اپنے ہمراہ محسوس کرتی ہے اور دُکھ اور سُکھ کے حالات جو روح پر طاری ہوتے ہیں، جسد بھی ان سے برابر متأثر ہوتا ہے۔
الحمد ﷲ! کہ عقیدہ حیات الانبیاء ؑ ادلہ اربعہ سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا، لیکن چند وضاحتیں آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں، تاکہ کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے: وضاحت نمبر:۱ جن دلائل سے عقیدہ حیات الانبیاء ؑ ثابت ہے، انہی دلائل سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ عالم قبر وبرزخ میں روح کے ساتھ دنیا والا جسدِ اطہر بھی تعلق کی وجہ سے ہر نعمت اور راحت میں شریک ہوتا ہے، اس کے لیے کسی دوسرے دلائل کی ضرورت قطعاً نہیں ہے۔ وضاحت نمبر:۲ ہمارے جن اکابر نے یہ لکھا ہے کہ :’’موت کے بعد انسان کو جسدِ مثالی دیا جاتا ہے‘‘ تو جسدِ مثالی کی تجویز کرنے والے یہ سب حضرات جسدِ مثالی کی تجویز کے باوجود جسدِ عنصری حقیقی اور اصل سے بھی روح کا تعلق مانتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایک ایسا عالم دین نہیں گزرا جس نے جسدِ عنصری کا انکار کرکے جسدِ مثالی کی تجویز کی ہو۔ جسدِ حقیقی کے تعلق کا کوئی منکر نہیں ہے اور ہمارا اختلاف صرف ان لوگوں سے ہے جو جسدِ حقیقی اصلی سے تعلق کا انکار کرتے ہیں۔ اگر کوئی عالم جسدِ حقیقی اصلی سے تعلق مان کر ایک نہیں‘ ہزار جسدِمثالی تجویز کرے، ہمارا اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ پس میں اپنے تمام طالب علم بھائیوں اور علماء کرام کو ہوشیار کرتا ہوں کہ ’’بعض لوگ‘‘ سادہ لوح عوام کو قائلینِ جسدِ مثالی کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں، لہٰذا ان کے دھوکہ سے بچئے اور ایمان کی حفاظت کیجیے، کیونکہ مذکورہ طریق پر جسدِ مثالی کے قائلین بھی ہمارے اکابر ہیں، بدعقیدہ لوگوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، صرف ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بندہ عاجز کا ایک مضمون جوکہ مجموعہ سوالات میں چھپا ہوا ہے، جس کا عنوان ’’قائلینِ جسدِ مثالی سے اسّی سوال‘‘ ہے، مطالعہ کے لائق ہے۔ وضاحت نمبر:۳ حیاتِ قبر اور حیاتِ برزخ کوئی دو متضاد چیزیں نہیں ہیں، کیونکہ قبر‘ مردہ انسان کے لیے ظرفِ مکان اور برزخ اس کے لیے ظرفِ زمان ہے۔ زمان اور مکان میں کوئی تضاد نہیں ہے، اطلاق کے اعتبار سے دونوں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ قرآن کے اِن ’’شیخوں‘‘ کو ظرفِ زمان اور ظرفِ مکان کا فرق کیوں نظر نہیں آتا اور یہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ قبر سے مراد برزخ اور برزخ سے مراد عِلِّیِّین اور سِجِّین ہے، حالانکہ عِلِّیِّین اور سِجِّین ظرفِ مکان ہیں۔ البتہ برزخ زمان ہے اور اپنے وسیع ترمفہوم کے اعتبار سے مردہ کے روح او رجسد کے ہر مقام کو شامل ہے۔ وضاحت نمبر:۴ آج کل عصرِ ہذا کے معتزلہ نے یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کررکھا ہے کہ اللہ کا قانون ہے اور قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ روح جب ایک دفعہ جسم سے نکل جاتی ہے تو دوبارہ بدن کی طرف نہیںآتی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ایسا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ قرآن میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ قرآن مجید میں جو قانونِ الٰہی لکھا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ جو انسان ایک دفعہ موت پاکر عالم قبر وبرزخ میں چلا جاتا ہے، وہ دوبارہ عالم دنیا میں واپس نہیں آتا اور یہی مطلب ہے :’’فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ ‘‘ کا ،یعنی مسئلہ ’’ عود ِ انسان الی الدنیا ‘‘ کاہے، یہی قانونِ الٰہی ہے اور یہی قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے کہ ایک دفعہ جو آدمی مرجاتا ہے تو وہ دوبارہ دنیا میں واپس نہیں آتا ،الا بخرق العادات ۔ تو اس قسم کی آیات کو ’’اعادۂ روح الیٰ البدن فی القبر‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں روح عالم قبر وبرزخ میں رہتے ہوئے جسم کی طرف واپس آتی ہے اور یہ عقیدہ تو قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ لیکن بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن کے مدعیوں نے اس آیت کا غلط مطلب نکال کر اللہ کے قرآن پر بہتان اور جھوٹ باندھا ہے۔ میں درخواست کروں گا اس دور کے علماء حق سے کہ آپ زندہ ہیں اور اللہ کی کتاب کی تحریف کی جارہی ہے اور غیر قرآن کو قرآن باور کرایا جارہا ہے، اگر آج آپ اُٹھ کر عوام الناس کی رہبری کرتے ہوئے اس دجل وفریب کا پردہ چاک نہیں کریںگے، قرآن پاک کا صحیح مطلب لوگوں کو نہیں بتائیں گے، تو بے چاری سادہ عوام گمراہ ہوتی چلی جائے گی۔
[مسند أحمد: 3742؛ المستدرك الحاکم: 3/57، 4332 ؛ دلائل النبوة للبيهقي:3102]
[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331 ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146 ؛ دلائل النبوة للبيهقي: 3101]
[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331 ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146 ؛ دلائل النبوة للبيهقي: 3101]
اس آیت کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فرمایا:
{وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوّاباً رَحِيماً}۔
"اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔" (سورۃ النساء:64)
[معارف القرآن ج2ص459،460]
یستدل بہ علی حیوۃ الانبیاء (مشکلات القرآن ص234)
حضرت ابو ہریرہؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ قران کی آیت میں جو فرمایا گیا ہے: ففذع من فی السموات و من فی الارض الا من شاء اللہ یعنی زمین و آسمان کے سب لوگ گھبرا اٹھیں گے لیکن جنہیں اللہ چاہے اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ شہید لوگ ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں روزیاں پاتے ہیں اور سب زندہ لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے لیکن اللہ تعلای انہیں پریشانی سے محفوظ رکھے گا یہ تو عذاب ہے جو وہ اپنی بدترین مخلوق پر بھیجے گا۔
اسرائیلی روایات: کبھی قرآن کے درجہ میں اور کبھی انکار کی زد میں
قارئین کرام! جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس آیت میں صاحبِ واقعہ متعین نہیں ہے‘ بلکہ مبہم ہے تو اس سے حضرات انبیاء کرام علیہ الصلاة والسلام کی حیات وسماع کی نفی کرنا خود بخود باطل ہے۔
بے ڈھنگی چال
اگر ان لوگوں میں انصاف کی رتی ہوتی تو یہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی نہ کہتے‘ کیونکہ انہی کی اپنی پسندیدہ روایات میں یہی لکھا ہے کہ وہ نبی نہیں بلکہ نیک صالح مرد تھا‘ لیکن ان کی بے ڈھنگی چال ملاحظہ فرمایئے کہ جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کرتے ہیں‘ انہیں روایات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔
برسبیل تنزل
اگر حضرت عزیر علیہ السلام اس عالم میں زندہ تھے تو وقت کا احساس کیوں نہ ہو سکا؟
جواباً عرض ہے کہ وقت کے صحیح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے عدم حیات پر استدلال بالکل باطل ہے‘ حضرت عزیر علیہ السلام تو اس وقت موت کی وجہ سے عالم قبر وبرزخ میں تھے اور اس عالم کی حیات ان کو حاصل تھی‘ لیکن بعض اوقات عالمِ دنیا میں زندہ رہنے والے انسانوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔
دیکھئے! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
عصر ہذا کے معتزلہ کے نزدیک روح نہیں مرتی‘ بلکہ وہ زندہ رہتی ہے۔ جب کسی کی روح نہیں مرتی تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح بھی نہیں مری ہوگی؟ظاہر ہے کہ اس وقت روح ان کے جسد میں آچکی تھی‘ اب ہمیں بتایا جائے کہ روح تو زندہ رہی اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ فرماکر پوچھا کہ تو کتنا ٹھہرا؟تو اسے وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟ اگر ان لوگوں کے استدلال کو درست تسلیم لیا جائے کہ وقت کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے حیات کی نفی ہوجاتی ہے تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح کی حیات کی بھی نفی ہوجائے گی‘ جبکہ یہ لوگ روح کو تو زندہ ہی مانتے ہیں اور اس کی موت کے قائل ہی نہیں۔
بندہٴ عاجز کا مطالبہ
بندہ ٴ عاجز نے اکابر علما ئے اسلام کی کتب کی روشنی میں پچاس سے زائد آیاتِ قرآنیہ اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے ثابت کیا ہے کہ مرنے کے بعد ہرمردے کو درجہ بدرجہ اور حسبِ حیثیت قبر وبرزخ میں ایک قسم کی حیات حاصل ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ انسان عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے۔ البتہ یہ حیات اللہ تعالیٰ نے ہماری نظروں سے مستور کررکھی ہے۔ تفصیل کے لئے بندہ عاجز کی کتاب قبر کی زندگی کا مطالعہ کیجئے‘ اگر ان لوگوں کے کشید کردہ مطلب کو درست مان لیا جائے تو ان کا یہ مطلب قرآنِ کریم کی ان پچاس سے زائد آیات کے خلاف ہوگا جن میں حیات کا ثبوت ہے‘ جبکہ مفسرین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا جو دوسری آیات سے متصادم ہو خود باطل اور غلط ہے ۔
اس واقعہ سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
م | طرف الحديث | الصحابي | اسم الكتاب | أفق | العزو | المصنف | سنة الوفاة |
1 | الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | البحر الزخار بمسند البزار 10-13 | 2393 | 6888 | أبو بكر البزار | 292 |
2 | الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | مسند أبي يعلى الموصلي | 3371 | 3425 | أبو يعلى الموصلي | 307 |
3 | الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر | 3567 | 3446 | ابن حجر العسقلاني | 852 |
4 | الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة | 6120 | 8802 | البوصيري | 840 |
5 | الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء | 1108 | 1239 | الهيثمي | 807 |
6 | الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | فوائد تمام الرازي | 55 | 58 | تمام بن محمد الرازي | 414 |
7 | الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي | 1 | 1 | البيهقي | 458 |
8 | الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي | 2 | 2 | البيهقي | 458 |
9 | الأنبياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | أخبار أصبهان لأبي نعيم | 1576 | 2 : 44 | أبو نعيم الأصبهاني | 430 |
10 | الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون | أنس بن مالك | تاريخ دمشق لابن عساكر | 12018 | 13 : 326 | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
[ صحيح مسلم » كِتَاب الْفَضَائِلِ » بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ, رقم الحديث: 4386(2377)]
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔
[زرقانی شارح مواحد: جلد 5ص436، خلاصة الوفا: ص48، مرقات: جلد2ص112، نیل الاوطار: جلد5 ص264، عون المعبود: جلد 1 ص405]۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الْمَنَاسِكِ » بَاب زِيَارَةِ الْقُبُورِ, رقم الحديث: 1749(2042), 2/179]
ترجمہ:
حضرت اوس ابن اوسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ، لوگوں نے پوچھا کہ ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا؟ آپ تو بوسیدہ ہو چکے ہوں گے [ شاید راوی نے أَرَمْتَ کی جگہ بَلِيتَ ، کہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کو حرام کر دیا کہ وہ کھائے ۔
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح
یعنی اس کی خبر بعض فرشتوں نے دی، کیونکہ آپ کی روح آپ کے محترم جسم کے ٹھکانے سے لگی ہوئی ہے، اور زمین پر انبیاء کے اجسام کا کھانا حرام ہے، اس لیے اس کی حالت سونے والے کی سی ہے-----امام ابن حجر نے (فتح الباری میں) فرمایا کہ اس(حدیث کے گواہوں) کا سلسلہ عمدہ ہے۔
|
المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء » كِتَابُ ذِكْرِ الأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ... رقم الحديث: 1109 ، سنده حسن
امام ذہبیؒ (تذکرہ الحفاظ : 3/306) میں امام ، شیخ الاسلام اور حافظ المغرب کے الفاظ سے حافظ (ابو عمر) ابن عبد البر المالکیؒ (المتوفی 463 ھ) کے علمی مقام کی تعریف فرماتے ہیں، انہوں نے "موطا امام مالک" کی مطول و مختصر شرح "التمہید" اور "الستذکار" میں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ (اور بعض دوسری روایات میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی) نبی ﷺ سے مروی ہیں کہ :
"مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ رَجُلٍ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا ، فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلا عَرَفَهُ وَرَدَّ عَلَيْهِ"
ترجمہ:
[کتاب الروح ، لابن القیم : ص 12؛ الستذکار: رقم الحديث: 55]
|
حافظ ابن تیمیہ الحنبلیؒ (المتوفی ٧٦٨ ھ) نے [اقتضاء الصراط المستقیم، طبع مصر : ص ١٥٧] میں اور [حقوق آل البيت - الصفحة أو الرقم: 60] میں ..... اور ان کے شاگرد حافظ ابن القیمؒ الحنبلی (المتوفی ٧٥١ ھ) نے اس روایت کی تائید میں فرمایا:
"قال ابن عبد البر: ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ..." الخ
ترجمہ :
امام محمد بن احمد عبد الہادی الحنبلیؒ فرماتے ہیں:
ترجمہ :
اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عند القبور سماع کا تو کہنا ہی کیا.....یہ تو عام مومنوں کے حق میں آیا ہے، جو شخص بھی کسی ایسے شخص کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے جس کو وہ دنیا میں پہچانتا تھا تو وہ جب بھی اس کو سلام کہتا ہے، الله تعالیٰ اس کی روح کو اس کی طرف لوٹادیتا ہیں. یھاں تک کہ وہ اس کے سلام کا جواب دیتا ہے.
المحدث: السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 7742 ، خلاصة حكم المحدث: صحيح
اس صحیح صریح حدیث کی روشنی میں حافظ ابن القیم رح فرماتے ہیں : یہ حدیث اس بات کی نص ہے کہ مردہ سلام کرنے والے کو بعینہ پہچانتا، اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے. (کتاب الروح : ص ٤)
اور یہی حافظ ابن القیم رح اپنے مشہور "قصيدة نونية " میں لکھتے یہں :
هَذَا وَرَدُّ نَبِيِّنَا لِسَلامِ مَنْ … يَأْتِي بِتَسْلِيمٍ مَعَ الإحْسَانِ
مَا ذَاكَ مُخْتَصًّا بِهِ أيْضًا كَمَا … قَدْ قَالَهُ المبعُوثُ بالفرقانِ
مَنْ زَارَ قَبْرَ أَخٍ لَهُ فَأَتَى بِتَسْـ … ـلِيمٍ عَلَيْهِ وَهْوَ ذُو إِيمَانِ
رَدَّ الإلهُ عَلَيْهِ حَقًّا رُوحَهُ … حَتَّى يَرُدَّ عَلَيْهِ رَدَّ بَيَانِ
حياة النبي عليه الصلاة و السلام في القبر في ضوء الكتاب والسنة و أقوال السلفحينما أرسل علماء العرب أسئلة عديدة الى مشائخنا الكرام وأكابرنا العظام طالبين منهم تبيين عقائدهم وتوضيح آرائهم. فأجابوا بأجوبة سديدة موافقة بالكتاب والسنة وما كان عليه السلف الصالح وقد طبعت هذه الأجوبة العالية بشكل كتابى .وأيدها جملة من كبارالعلماء من العرب والعجم وأسمائهم مذكورة فى آخرالكتاب مع آرائهم عن الكتاب .وقد كتب هذه الأجوبة القيمة سيدنا ومولانا العلامة الفهامة الفقيه المحدث المحقق الشيخ خليل أحمد ألسهارنفورى ثم المهاجر المكي أسكنه الله تعالى فى الفردوس الأعلى . وسماه بــــ = ألمهند على المفند = فرد به إفتراأت الكذابين والمتعصبين وكشف به زيغ المحرفين والماكرين فجاء الكتاب فى غاية من الروعة والإتقان وتستحق ان تكتب بماء الذهب لندرتها فى هذا الزمان ووقع الكتاب موقع الرضاء والقبول فى مشارق الأرض ومغاربها . وهذا نص السوال والجواب فى حياة الأنبياء كما فى الكتاب المهند على المفندالسؤال الخامس = ما قولكم في حياة النبيّ عليه الصلاة و السلام في قبره الشريف ؟ ذلك أمر مخصوص به أم مثل سائر المؤمنين - رحمة الله عليهم - حياته برزخية ؟الجواب = عندنا و عند مشايخنا حضرة الرسالة صلى الله عليه و سلم حيٌّ في قبره الشريف ، و حياته صلى الله عليه و سلم دُنْيَوِيّة من غير تكليف ، و هي مختصة به صلى الله عليه و سلم و لجميع الأنبياء صلوات الله عليهم و الشهداء لا برزخية كما هي حاصلة لسائر المؤمنين بل لجميع الناس كما نصّ عليه العلامة السيوطي في رسالة ‘الأنباء الأذكياء بحياة الأنبياء’ حيث قال : قال الشيخ تقيّ الدين السُبْكِيّ : " حياة الأنبياء و الشهداء في القبر كحياتهم في الدنيا و يشهد له صلاةُ موسى عليه السلام في قبره فإن الصلاة تستدعي جسداً حياً " إلى آخر ما قال فثبت بهذا أن حياته دنيوية برزخية لكونها في عالم البرزخ
و لشيخنا شمس الإسلام و الدين محمد قاسم العلوم على المستفيدين قدس الله سره العزيز في هذا المبحث رسالةٌ مستقلة دقيقة المأخذ بديعة المسلك لم يُرَ مثلُها قد طبعت و شاعت في الناس و اسمها ‘ آبِحَيَاتْ ’ أي ماء الحياةوفي ما يلي بعض الأدلة التي تنص على ذلكأولا: حياة الأنبياء في ضوء القران الكريمقال الله تعالى : {وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ} " سورة الزخرف "يقول صاحب زاد الميسر في هذه الآية:انه لما اسري به جمع الأنبياء فصلى بهم , ثم قال له جبريل سل من أرسلنا قبلك الآية. فقال: لا اسأل فقد اكتفيترواه عطاء عن ابن عباس وهذا قول سعيد بن جبير و الزهراني و ابن زيد) قالوا : جمع له الرسل ليلة أسرى به فلقيهم
و أمر أن يسألهم فما شك وسأل ( زاد الميسر في علم التفسير ج : 7 ص : 319 ). 2. قال الله تعالى : {وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ} " سورة السجدة "
يقول العلامة آلوسي - رحمه الله- في هذه الآية : و أراد بذلك لقائه صلى الله عليه وسلم إياه ليلة الإسراء كما ذكر في الصحيحين وغيرهما,
وروى نحو ذالك عن قتادة وجماعة من السلف) وكان المراد في قوله تعالى: }فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ على هذا وعده تعالى نبيه عليه السلام بلقاء موسى و تكون الآية نازلة قبل الإسراء’’ (روح المعاني ج : 21 ص :138).
ويقول صاحب زاد الميسر في هذه الآية :
والثاني من لقاء موسى عليه السلام ليلة الإسراء . ( قاله أبو العالية مجاهد قتادة و ابن السائب )’’ ( زاد الميسر ج : 6 ص : 43 ويقول صاحب تفسير بحر المحيطفي هذه الآية أي من لقائك موسى أي في ليلة الإسراء أي شاهدته حقيقة و هو النبي الذي أتي التوراة وقد وصفه الرسول فقال: طوال جعْد كأنه
من رجال شنؤة حين رآه ليلة الإسراء ( بحر المحيط ج : 7 ص : 205 ).3. قال الله تعالى : {وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ} " سورة البقرة
4. قال الله تعالى : { بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ } { فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ }." سورة آل عمران يقول الحافظ ابن حجر - رحمه الله - في هذه الآيتين :
وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فانه يقوه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القران و الأنبياء أفضل من الشهداء
فتح الباري ج : 6 ص : 379 ).5. قال الله تعالى : { فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ... } " سورة سبأ ‘نستطيع الدلالة على حياة الأنبياء عليهم السلام - من قوله تعالى :{ فلما خر}.لأن لفظ (خر) استعمل في القران الكريم للأحياء
أ. قال الله تعالى : ......... { وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا } " سورة يوسف "
ب. قال الله تعالى : { فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسَى صَعِقًا } " سورة الأعراف "
6. قال الله تعالى : { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا} " سورة النساء"
يقول القرطبي - رحمه الله - في هذه الآية :
عن علي - رضي الله عنه - قال قدم أعرابي بعد ما دفنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بثلاثة أيام فرمي بنفسه على قبر رسول الله
- صلى الله عليه وسلم - و حتى على رأسه من ترابه فقال: قلت يا رسول الله فسمعنا قولك ووعيت عن الله فوعينا عنك وكان فيما أنزل الله
عليك { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ } الآية وقد ظلمت نفسي وجئتك تستعفر لي , فنودي من القبر انه قد غفر لك
( تفسير قرطبي ج : 5 ص 622,625 ).
فالأنبياء أحياءٌ في قبورهم قطعًا، وهم أولى بذلك من الشّهداء الذين ورد فيهم النّص القرآني في قوله تعالى : { وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ } بل الحياة ثابتة لجميع من فارق الدنيا ولو كفارًا، كما يدل عليه حديث أهل القليب الذي في البخاري الصحيح للإمام البخاري (5/8) طبعة دار الفكر ، وله طرق أخرى.
، وجاء في الصحيح أيضًا : أن الميت بعد دفنه يسمع قرع نعال المشيعين
، وأن الروح تنادي حامل الجنازة، وأنّه يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان، ولو سمعه لصعق في صحيح البخاري "باب الميت يسمع خفق النعال" (2/92) وفي صحيح الإمام مسلم (8/161) طبعة دار الفكر ، وهناك روايات أخرى كثيرة أعرضنا عن ذكرها خشية الإطالة .
انظر صحيح البخاري (2/87،88،103) ومسند الإمام أحمد بن حنبل (3/41،58) طبعة دار صادر وسنن الإمام النسائي (4/41) طبعة دار الفكر .
وقد رأى في ليلة الإسراء والمعراج موسى عليه السلام يصلي في قبره، كما رآه في السماء السادسة وقد راجعه مرارًا في أمر الصّلاة للرواية أطراف كثيرة منها ما في صحيح البخاري (1/91) كتاب الصّلاة باب "كيف فرضت الصّلاة في الإسراء" ، وصحيح الإمام مسلم (1/101) .
وقد وضع الامام البيهقي رح رسالة في حياة الأنبياء، وللإمام السيوطي رح أيضًا رسالة تُسَمى: "إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء -أمَّا قوله تعالى : { إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ } [سورة الزمر : 30] فمعناه : أن روحك ستفارق بدنك وتدخل في عالم آخر، فلا تشتغل بتدبير الجسم، ولا تسري عليها أحكام هذا العالم ونواميسه، وإلا فقد ثبتت حياة الأموات كلهم فضلاً عن الأنبياء كما قلنا، فيكفيك فى الباب الآيات المتعددة في حياة الشهداء والإجماع على أن الأنبياء أرفع درجة من الشهداء . قال ابن حزم في "المحلى -طبعة دار الفكر (1/25)
بعد ذكره الآيات الواردة في حياة الشهداء ما نصه : "ولا خلاف بين المسلمين في أن الأنبياء -عليهم السلام- أرفع قدرًا ودرجة، وأتم فضيلة عند الله عزَّ وجل، وأعلى كرامة من كل من دونهم، ومن خالف في هذا فليس مسلمًا " اهـثانيا: حياة الأنبياء في ضوء السنة النبوية :وأما السنة : ففيها شيء كثير من الأدلة على حياتهم، فمن ذلك : الحديث (( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون )) رواه أبو يعلى في مسنده (6/147)والبيهقي من طرق متعددة من حديث أنس بن مالك، قال المناوي في شرح الجامع الصغير : "رجاله ثقات وصححه البيهقي" .اهـ . ومثل ذلك للحافظ السخاوي في القول البديع، ثم له طرق أخرى أخرجها البيهقي في "حياة الأنبياء ، وبها يصير من الصحيح المتفق عليه .
أنظر للتفصيل (مجمع الزوائد ج : 8 ص : 211 , لسان الميزان : حسن بن قتيبة ص : 246 , مسند أبو يعلى ج : 2 حديث 3425 , فتح الباري ج : 2 ص :
487 , المطالب العالية ج : 3 ص : 269 حديث : 3452 , , الجامع الصغير ص : 124 تكملة فتح الملهم
ج : 5 ص : 148 , بيهقي .حيات الأنبياء. ص : 3 , الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 , خصائص الكبرى ج : 2 ص : 281 , مسند بزار
ص : 256 ).
يقول العلامة جلال الدين السيوطي :
حيات النبي - صلى الله عليه وسلم - في قبره وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا , كما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت (به) الأخبار
الدالة على ذلك . ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 , ص : 147 , طبعة دار الكتب العلمية ).ويقول:
‘‘قال البيهقي في كتاب الاعتقاد : .الأنبياء بعد ما قبضوا ردت إليهم أرواحهم , فهم أحياء عند ربهم كالشهداء. , وقال القرطبي في التذكرة
في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض , انما هو انتقال من حال إلى حال ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 ص : 149 ).
ويقول:
قال المتكلمون المحققون من أصحابنا أن النبي - صلى الله عليه وسلم - حي بعد وفاته ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 ص : 149 ).
ويقول:
‘‘وقال الشيخ تقي الدين السبكي : حياة الأنبياء والشهداء في القبر كحياتهم في الدنيا , ويشهد على ذلك صلاة موسى في قبره فإن الصلاة تستدعي الجسد حيا ’’ ( الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 152) ويقول: ان من جملة ما تواتر عن النبي - صلى الله عليه وسلم - حياة الأنبياء في قبورهم ’’2. عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال :قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من صلى علي عند قبري سمعته , ومن صلى علي نائيا أبلغته ’’
( مشكاة , ص :87 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , كنز العمال ج : 1 ص :492 حديث 2165 ,ص : 498 حديث:2197, 2198, اتحاف السادة المتقين زبيدي ج : 3 ص : 281 , تفسير در منثور ج : 5 ص : 219 , فتح الباري ج :6 ص : 488 , الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 147 ).
3. عن اوس بن اوس - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال : ( إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق ادم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأكثروا علي من الصلاة فإن صلاتكم معروضة علي . قالو : يارسول الله ! كيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت ؟ قال : ان الله عز وجل قد حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء عليهم السلام
( سنن نسائي ج : 1 ص : 303 , 403 , مستدرك حاكم ج : 4 ص : 560 هذا الحديث صحيح بشرط الصحيحين ولم يخرجاه , ابوداود: ج1 ص214 باب الاستغفار , سنن الكبرى بيهقي ج : 3 ص :249 , دارمي ج : 1 ص : 7 باب فضل الجمعة , مسند أحمد ج : 4 ص : 8 , صحيح ابن خزيمة ج : 3 ص : 118 حديث 1733, ابن حبان باب ذكر وفاته ودفنه - صلى الله عليه وسلم - ص : 118 , الإحسان بترتيب ابن حبان ج : 3 ص : 78 حديث 907 , كتاب الروح ابن القيم ص : 63 , كنز العمال ج :8 ص :368 حديث 23301 ايضا ج : 7 ص : 708 حديث : 21037 , ابن أبي شيبة ج :2 ص : 512 , ابن ماجة ص : 72 , 118 )
4. عن ابي الدرداء رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : ( أكثروا الصلاة علي
يوم الجمعة فإنه مشهود تشهده الملائكة وان أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال قلت وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء فنبي الله حي يرزقابن ماجة ص : 118 ذكر وفاته ودفنه صلى الله عليه وسلم, ترغيب ج : 2 ص : 503 , نيل الأوطار ج : 3 ص : 304 , شرح الصدورص : 316 دار الكتب العلمية ببيروت ).5. عن ابي هريرة - رضي الله عنه - قال : سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : والذي نفسأبى القاسم بيده ! لينزلن عيسى ابن مريم ...... ثم لئن قام على قبري فقال يا محمد ! لأجبتههو فى الصحيح باختصار , ورواه أبو يعلى ورجاله رجال الصحيح".( مسند أبو يعلى حديث 4856 ج : 11 ص :462 , مجمع الزوائد ج : 8 ص : 211 , المطالب العالية ج : 4 ص : 23 , باب حياته في قبرهج :4 ص : 349 حديث : 4574 , الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , روح المعاني ج : 22 ص : 35 ).يقول العلامة آلوسي - رحمه الله- بعد هذا الحديث :انه عيسى علبه السلام ياخذ الأحكام من نبينا - صلى الله تعالى عليه وسلم- شفاها بعد نزوله وهو صلى الله عليه وسلم في قبرهوأيد بحديث ابو يعلى والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري فقال يا محمد ! لأجبته .’ ( روح المعاني ج :22 ص : 35 6. عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم - يقول : وصلوا عليفان صلاتكم تبلغني أينما كنتم ( مسند أحمد ج2 : ص 364 , أبو داود ج : 1 ص : 280) 7. عن انس بن مالك - رضي الله عنه - أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال : مررت على موسىليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر , وهو قائم يصلي في قبره ( صحيح مسلم ج : 2 ص : 268 طبعة رحيمية ديوبند , .مسند أحمد ج : 5 ص : 59 , 362 , 365 , . ج : 3 ص : 148 , 248 , سنن النسائيج : 1 ص : 242 , كنز العمال ج : 11 ص : 518 , حديث 32386 , الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان ج : 1 ص : 216 , طبعة المكتبةالأثرية بباكستان ). 8. عن ابن مسعود - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : إن لله ملائكة سياحينفي الأرض يبلغوني عن أمتي السلام(نسائي ج : 1 ص : 189 , مسند أحمد ج : 1 ص : 441 , ابن أبي شيبة ج : 2 ص : 517 , مشكاة ص : 86 , التداية والنهاية ج : 1 ص: 154 , الجامع الصغير ج : 1 ص : 93 ,خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , الإحسان بترتيب ابن حبان ج : 3 ص : 8 حديث 9 , 10 , ).9 . عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : وصلوا عليفان صلاتكم تبلغني حيث كنتم (مسند أحمد ج : 2 ص : 367 , أبو داود ج : 1 ص : 279 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , مشكاة ص : 84 ,فتح الباري ج : 6 ص : 488 ).ثالثا: آثار الصحابة في حياة الأنبياء1. وعن عائشة - رضي الله عنها - قالت : كنت ادخل بيتي الذي فيه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وانيواضع ثوبي وأقول إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر - رضي الله عنه - معهم فو الله ما دخلته الا وانا مشدودةعلى ثيابي حياء من عمرمشكاة ص : 154 ) قيل في هذا الحديث في حاشية المشكاة :حياء من عمر أوضح دليل على حياة الميت ’’ ( حاشية المشكاة ص : 154 يقول العلامة الطيبي شارح المشكاة في هذا الحديث :
قال الطيبي فيه أن احترام الميت كاحترامه حيا (شرح الطيبي ج : 3 ص : 418 طبعة إدارة القران
2. عن سعيد بن المسيب قال لم أزل اسمع الأذان والإقامة في قبر رسول الله - صلى الله عليه وسلم ايام
الحرة حتى عاد الناس
(خصائص كبرى ج : 2 ص : 281 الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 )
يقول العلامة شبير احمد عثماني في هذا الحديث :
أن النبي - صلى الله عليه وسلم - حي كما تقرر وانه يصلي في قبره بأذان وإقامة (فتح الملهم ج 3:
Last edited by Hafiz M Khan; 07-05-2010 at 02:08 PM.رابعا: المذاهب الأربعة وحياة النبي - صلى الله عليه وسلم - في القبر :* علماء الأحناف:1. يقول العلامة ابن همام المتوفى 681 هـ :‘‘ تستقبل القبر بوجهك , ثم تقول السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته ثم يسال النبي الشفاعة فيقول يا رسول الله ! أسألك الشفاعةيا رسول الله ! أسألك الشفاعة. وليكثر دعائه بذلك في الروضة الشريفة عقيب الصلاة وعند القبر ويجتهد في خروجالدمع فانه من أمارات القبول , وينبغي أن يتصدق بشيء على جيران النبي , ثم ينصرف متباكيا( فتح القدير ج : 2 ص : 336 , 337 , 339 , أواخر الحج )2. يقول العلامة عيني شارح البخاري الحنفي المتوفي 855هـ :ومذهب أهل السنة والجماعة أن في القبر حياة وموتا فلا بد من ذوق الموتتين لكل احد غير الأنبياء ’’عمدة القاري شرح البخاري ج : 7 ص : 601 ) ويقول : في تفسير الآية : { قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ ...{ . " سورة غافرأراد بالموتتين الموت في الدنيا والموت في القبر وهماالموتتان المعروفتان المشهورتان فلذالك ذكرهما بالتعريف وهما الموتتان الواقعتان لكل احد غير الأنبياء عليه السلام فإنهم لايموتونفي قبورهم بل هم أحياء , وأما سائر الخلق فإنهم يموتون ثم يحيون يوم القيامة (عمدة القاري شرح البخاري ج : 8 ص : 185 جزء : 16, باب فضيلة ابي بكر على سائر الصحابة طبعة دار الفكر ببيروت ).ويقول :من أنكر الحياة في القبر وهم المعتزلة ومن نحا نحوهم وأجاب أهل السنة عن ذلك( عمدة القاري شرح البخاري ج : 8 ص : 601 ).3. يقول العلامة ملا علي قاري المتوفي 1014هـ :‘‘ فمن المعتقد المعتمد أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره كسائر الأنبياء في قبورهم وهم أحياء عند ربهم وأن لأرواحهم تعلقابالعالم العلوي والسفلي كما كان في الحال الدنيوي فهم بحسب القلب عرشيون وباعتبار القالب فرشيون ويقول :"أن الأنبياء أحياء في قبورهم فيمكن لهم سماع صلاة من صلى عليهم"4. يقول العلامة شرنبلالي المتوفي 1069 هـ :‘‘ ومما هو مقرر عند المحققين انه - صلى الله عليه وسلم - حي يرزق متمتع بجميع الملاذ والعبادات غير انه احجب عن إبصارالقاصرين عن شريف المقامات ينبغي لمن قصد زيارة النبي صلى الله عليه وسلم ان يكثر الصلاة عليه فانه يسمعها وتبلغ اليهمراقي الفلاح ص: 405 طبع مير محمد كراجي ).5. يقول العلامة طحطاوي المتوفي 1233 هـ :فانه يسمعها) أي إذا كانت بالقرب منه - صلى الله عليه وسلم - ( وتبلغ إليه ) أي يبلغها الملك إذا كان المصلي بعيدا ( الطحطاوي ص : 405 طبع مير محمد كراجي ).6. يقول العلامة ابن عابدين الشامي المتوفي 1252 هـ :فقد أفاد في الدار المنتقي انه خلاف الإجماع قلت ما نسب إلى الإمام الأشعري إمام أهل السنة والجماعة من إنكار ثبوتها بعد الموتفهو افتراء وبهتان والمصرح به في كتبه وكتب أصحابه خلاف ما نسب إليه بعض أعدائه لان الأنبياء عليهم الصلاة و السلام أحياء فيقبورهم وقد أقام النكير على افتراء ذالك , الإمام العارف أبو القاسم القشيري (رد المختار ج : 4 باب المغنم ص : 151 طبعة فى كراتشي ).ويقول :‘‘ أن المنع هنا لانتفاء الشرط وهو إما عدم وجود الوارث بصفة الوراثية كما اقتضاه الحديث وأما عدم موت الوارث بناء على أنالأنبياء أحياء في قبورهم كما ورد في الحديث (رسائل بن عابدين ج :2 ص :202 طبعة سهيل اكيدمي لاهور ).ويقول الأنبياء أحياء في قبورهم كما ورد في الحديث7. العلامة محمد عابد السندي المتوفي 1257 هـ :أما هم ( أي الأنبياء ) فحياتهم لاشك فيها ولا خلاف لأحد من العلماء في ذالك فهو - صلى الله عليه وسلم - حي على الدوام ( رسالة مدنية ص : 418. الشيخ عبد الحق محدث دهلوي المتوفي 1052 هـ :يقول حياة الأنبياء متفق عليه آست ھیچ کس را دروى خلافي نيست ( أشعة اللمعات ج : 1 ص : 613 , طبعة نور كشورمعناه :‘‘ حياة الأنبياء مسألة متفق عليها , ولا يقول ( أحد من أهل العلم ) خلاف ذلك* علماء الحنابلة :* . ابن عقيل :قال ابن عقبل من الحنابلة : هو - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره ’’ ( الروضة البهية ص : 14علماء المالكيه1. إمام مالك المتوفي 179 هـنقل عن الإمام مالك انه كان يكره أن يقول رجل زرت قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - قال ابن رشيد من اتباعه أن الكراهية لغلبهالزيارة في الموتى وهو - صلى الله عليه وسلم - أحياه الله تعالى بعد موته حياة تامة واستمرت تلك الحياة وهي مستمرة في المستقبل وليسهذا خاصة به صلى الله عليه وسلم بل يشاركه الأنبياء عليهم السلام فهو حي بالحياة الكاملة مع الإستغناء عن الغذاء الحسى الدنيوي ( نور الإيمان بزيارة آثار حبيب الرحمن ص : 14 للشيخ عبد الحليم فرنكي محلي , وكذلك في وفاء الوفاء ج :4 ص : 1373 مصر2 . العلامة سمهدي المتوفي 911 هـلاشك في حياته - صلى الله عليه وسلم - بعد وفاته وكذا سائر الأنبياء - عليهم الصلاة والسلام - احياء في قبورهم اكمل من حياة الشهداء التياخبر الله تعالى بها في كتابه العزيز (وفاء الوفاء ج : 4 ص : 1352 طبعة دار الكتب العلمية ببيروت ويقول :وما أدلة حياة الأنبياء فمقتضاها حياة الأبدان كحالة الدنيا مع الإستغناء عن الغذاء ( وفاء الوفاء ج : 4 ص : 1355علماء الشافعية :1. العلامة تاج الدين السبكي المتوفي 777 هـ :‘‘ عن انس قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون , فإذا ثبت أن نبينا - صلى الله عليه وسلم - حيفالحي لابد من أن يكون إما عالما أو جاهلا ولا يجوز أن يكون النبي - صلى الله عليه وسلم - جاهلا ’’( طبقات الشافغية الكبرى ج : 3 ص : 411 طبعة دار الأحياء بقاهرة ).ويقول :لان عندنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حي يحس ويعلم وتعرض عليه اعمال الأمة ويبلغ الصلاة والسلام على ما بينا ’’(ج : 3 ص : 412 ).ويقول :ومن عقائدنا أن الأنبياء عليهم السلام احياء في قبورهم فأين الموت ؟ إلى أن قال: صنف البيهقي - رحمه الله - جزأ , سمعناه فيحياة الأنبياء عليهم السلام في قبورهم ’ واشتد نكير الإشاعرة على من نسب هذا القول الى الشيخ (طبقات ج : 3 ص : 384 , 385 ).ـ 2 ألحافظ ابن حجر المتوفي 852هـ :تمسك بهذا من انكر الحياة في القبر , اجيب عن أهل السنة والأحسن أن يقال أن حياته صلى الله عليه وسلم - في قبره لا يعقبها موتبل يستمر حيا والأنبياء أحياء في قبورهم( فتح الباري ج : 7 ص : 22 طبعة مصر ).ويقول :وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فانه يقوه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القرآن والأنبياء أفضل من الشهداء ( فتح الباري ج : 7 ص : 488 طبعة دار النشر الإسلامية لاهورخامسا: حياة الأنبياء والسلف الصالح :1. إمام عبد القادر البغدادي المتوفي 429 هـ : واجمعوا على أن الحياة شرط في العلم والقدرة والإرادة والرؤية والسمع , وأن من ليس بحي لا يصح أن يكون عالما قادرا مريدا سامعامبصرا , وهذا خلاف قول الصالحي وأتباعه من القدرية في دعواهم جواز وجود العلم والقدرة والإرادة والرؤية الإرادة في الميت( الفرق بين الفرق ص : 337 , طبعة مصر ).2. ألإمام البيهقى المتوفي 458 هـ : أن الله جل ثنائه رد إلى الأنبياء أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء( حياة الأنبياء ص : 14 , وفاء الوفاء ج : 2 ص : 1352 , شرح مواهب زرقاني ج : 5 ص : 332 ).3. إمام شمس الدين محمد السخاوي المتوفي 902 هـ :نحن نؤمن ونصدق بأنه صلى الله عليه وسلم - حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا ( القول البديع ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي
4. العلامة عبد الوهاب ألشعراني المتوفي 973 هـ :قد صحت الأحاديث انه - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره يصلي بأذان واقامة ( منح المنة ص : 92 , طبعة مصر5. عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب النجدي المتوفي 1206 هـ :والذي نعتقد ان رتبة نبينا - صلى الله عليه وسلم -أعلى مراتب المخلوقين على الإطلاق و انه حي في قبره حياة مستقرة ابلغ من حياةالشهداء المنصوص عليها في التنزيل إذ هو أفضل منهم بلا ريب , وانه يسمع من يسلم عليه( اتحاف النبلاء ص : 415 , طبعة كانبور ).6. العلامة قاضي الشوكاني المتوفي 1255 هـ :وقد ذهب جماعة من المحققين إلى أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حي بعد وفاته وانه يسر بطاعات أمته وان الأنبياء لا يبلونمع أن مطلق الإدراك كالعلم والسماع ثابت بسائر الموتى إلى أن قال وورد النص في كتاب الله فى حق الشهداء أنهم أحياء يرزقون وان الحياةفيهم متعلقة بالجسد فكيف بالأنبياء والمرسلين وقد ثبت في الحديث أن الأنبياء أحياء في قبورهم رواه المنذرى وصححه البيهقي وفي صحيحمسلم عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال مررت بموسى ليلة اسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره نيل الأوطار ج :3 ص : 305 طبعة دار الفكر ببيروتالإمام ابن تيمية يثبت حياة الأنبياء والصالحين في قبورهمقال الشيخ ابن تيمية كما في مجموع الفتاوى (1/330):"وكذلك الأنبياء والصالحون وان كانوا أحياء في قبورهم وان قدر انهم يدعون للأحياء وان وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك ولم يفعل ذلك أحد من السلف لأن ذلك ذريعة إلى الشرك بهم وعبادتهم من دون الله تعالى بخلاف الطلب من أحدهم في حياته فانه لا يفضى إلى الشرك"ا.هـوقال أيضا كما في مجموع الفتاوى (27/502):"فهذه نصوصه الصريحة-أي النبي صلى الله عليه وسلم- توجب تحريم إتخاذ قبورهم مساجد مع أنهم مدفونون فيها وهم أحياء في قبورهم ويستحب إتيان قبورهم للسلام عليهم ومع هذا يحرم إتيانها للصلاة عندها وإتخاذها مساجد"ا.هـوقد اثبت ابن تيمية رحمه الله ماهو اشد من هذا فقال :تلميذه ابن مفلح في كتاب الفروع (2/235):قال شيخنا - اي ابن تيمية- استفاضت الآثار بمعرفته-أي الميت- بأحوال أهله وأصحابه في الدنيا وأن ذلك يعرض عليه وجاءت الآثار بأنه يرى أيضا وبأنه يدري بما يفعل عنده ويسر بما كان حسنا ويتألم بما كان قبيحا اهـ وقد نص كثير من الأئمة والحفاظ كالقرطبي في " التذكرة " ، وابن القيم في كتاب الروح" والحافظ السيوطي في غير ما كتاب من كتبه، على أن أحاديث حياة الأنبياء في قبورهم متواترة - ذكر الإمام محمد بن جعفر الكتاني هذا الحديث -اى الحديث الإسراء ضمن الأحاديث المتواترة في كتابه "نظم المتناثر" برقم 115 وص(126) طبعة دار السلفية وص(135) طبعة دار الكتب العلمية .قال السيوطي في "مرقاة الصعود" : تواترت بها الأخبار، وقال في "إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء" ما نصه : حياة النبي في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علمًا قطعيًّا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت به الأخبار الدالة على ذلك". اهـوقال ابن القيم في كتاب " الروح " نقلاً عن أبي عبدالله القرطبي : صح عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الأرض لا تأكل أجسام الأنبياء، وأنه اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء، خصوصًا بموسى، وقد أخبره بأنه ما من مسلم يسلم عليه إلاَّ رَدَّ عليه السلام .. إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أنهم غيبوا عنا بحيث لا نراهم وإن كانوا موجودين أحياء، وذلك كالحال في الملائكة، فإنهم أحياءٌ موجودون ولا نراهم وقد نقل كلام القرطبي هذا أيضًا، وأقره الشيخ محمد السفاريني الحنبلي في شرحه لعقيدة أهل السنة، ونص عبارته : قال أبو عبدالله القرطبي، قال شيخنا أحمد بن عمر : إن الموت ليس بعدم محض و إنما هو انتقال من حال إلى حال، و يدل على ذلك أن الشهداء بعد موتهم وقتلهم أحياء عند ربهم يرزقون فرحين مستبشرين، وهذه صفة الأحياء في الدنيا، وإذا كان هذا في غير الأنبياء، كان الأنبياء بذلك أحق وأولى، مع أنه قد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم : أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء، وأنه اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء، وخصوصاً بموسى عليه وعليهم السلام، وقد أخبر نبينا صلى الله عليه وسلم : أنه ما من مسلم يسلم عليه إلاّ رَدَّ عليه السلام... إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أنهم غيبوا عنا بحيث لا ندركهم، وإن كانوا موجودين أحياء، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء و لا نراهم . اهـ.ويحقق ما ذكره هؤلاء الأئمة من تواتر الأحاديث الدالة على حياة الأنبياء أن حديث عرض الأعمال عليه واستغفاره لأمته، وسلامه على من يسلم عليه، ورد من نحو عشرين طريقًا، وحديث الإسراء، ورد من طريق خمسة وأربعين صحابيًّا، وقد نص الحاكم والحافظ السيوطي على أن حديث الإسراء متواتر .فنحن نؤمن أنه صلى الله عليه وسلم حي يرزق في قبره، وأن جسده الشريف لا تأكله الأرض، والإجماع على هذا، وزاد بعض العلماء "الشهداء والمؤذنين" . وقد صح أنه كشف عن غير واحد من العلماء والشهداء فوجدوا أنهم لم تتغير أجسامهم، والأنبياء أفضل من الشهداء .وفى هذاالقدر كفاية لمن أراد الهداية ـأللهم ارزقنا طاعتك وطاعة رسولك صلى الله عليه وسلم وعملا بكتابك++++++++++++++++++++++++++++++ماورد في حياة الانبياءبسم الله الرحمن الرحيم
أخبرنا الشيخ الإمام زين الإسلام أبو النصر عبدالرحيم بن عبدالكريم بن هوازن القيشيري رضي الله عنه في كتابه إلينا من نيسابور قال أخبرنا الشيخ الإمام أبوبكر أحمد بن الحسين البيقي رحمه الله قراءة عليه وأنا أسمع في ربيع الآخر سنة خمس وأربعين وأربعمائة.
وأخبرنا الشيخ الإمام الحافظ أبوبكر محمد بن عبدالله بن حبيب العامري أيده الله قال: أخبرنا شيخ القضاة أبو علي إسماعيل بن أحمد بن الحسين البيهقي فيما قرأت عليه قال: أخبرنا الإمام والدي شيخ السنّة رحمه الله قال: الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين وصلواته على محمد وآله أجمعين.
ذكر ما روي في حياة الأنبياء صلوات الله عليهم بعد وفاتهم أخبرنا أبو سعد أحمد بن محمد بن خليل الصوفي رحمه الله قال: أخبرنا أبو أحمد عبدالله بن عدي الحافظ قال: حدّثنا بن عبد الله الرومي قال: حدّثنا الحسن بن عرفة قال: حدّثني الحسن بن قتيبة المدائني قال: نا المستلم بن سعيد الثقفي عن الحجاج الأسود عن ثابت البناني عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذا حديث يعد في أفراد الحسن بن قتيبة المدائني وقد رُوِيَ عن يحيى بن أبي بكير عن المستلم بن سعيد وهو فيما.
أخبرنا الثِّقة من أهل العلم قال: ابنا أبو عمرون بن حمدان قالك ابنا أبو يعلى الموصلي ثنا أبو الجهم الأزرق بن علي ثنا يحيى بن أبي بكير ثنا المستلم بن سعيد عن الحجاج عن ثابت عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (الأنبياء أحياءٌ في قبورهم يصلّون).
وقد روي من وجه آخر عن أنس بن مالك موقوفًا.
أخبرناه أبو أبو عثمان الإمام رحمه الله ابنا زاهر بن أحمد ثنا أبو جعفر محمد بن معاذ المالينيى نا الحسين بن الحسن نا مؤمل ثنا عبيد الله بن أبي حميد الهذلي عن أبي المليح عن أنس بن مالك قال: (الأنبياء في قبورهم أحياءٌ يصلّون).
ورُوِيَ كما أخبرنا أبو عبد الله الحافظ نا أبو حامد أحمد بن علي الحسنوي إملاءً ثنا أبو عبد الله محمد بن العباس الحمصي (بحمص) ثنا أبو الربيع الزهراني ثنا إسماعيل بن طلحة بن يزيد عن محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن ثابت عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (الأنبياء لا يتركون في قبورهم بعد أربعين ليلة ولكنهم يصلّون بين يدي الله عز وجل حتى ينفح في الصور).
وهذا إن صح بهذا اللفظ فالمراد به والله أعلم لا يَتركون يصلّون إلا هذا المقدار ثم يكونون مصلّين فيها بين يدي الله عز وجل كما روينا في الحديث الاول.
وقد يحتمل أن يكون المراد به رفع أجسادهم مع أرواحهم.
فقد روي سفيان الثوري في الجامع فقال: قال شيخ لنا عن سعيد بن المصيب قال: ما مكث نبي في قبر أكثر من أربعين ليلة حتى يرفع.
فعلى هذا يصيرون كسائر الأحياء يكونون حيثُ ينزلهم الله عز وجل كما روينا في حديث المعراج وغيره أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى عليه السلام قائما يصلّى في قبره ثم رأه مع سائر الأنبياء عليهم السلام في بيت المقدس ثم رأهم في السموات والله تبارك وتعالى فعّال لما يريد.
ولحياة الأنبياء بعد موتهم صلوات اله عليهم شواهد من الأحاديث الصحيحة منها أخبرنا أبوالحسين عل بن محمد بن عبدالله بن بشران ببغداد ابنا إسماعيل بن محمد الصفار ثنا محمد بن عبدالملك الدقيقي نا يزيد بن هرون ثنا سليمان التيمى عن أنس بن مالك أن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم ليلة أسري به مرّ على وأخبرنا أبو الحسين بن بشران ابنا إسماعيل ثنا أحمد بن منصور بن سيار الرمادي ثنا يزيد بن أبي حكيم ثنا سفيان يعني الثوري ثنا سليمان التيمي عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (مررت على موسى وهو قائم يصلّي في قبره).
أخبرنا أبو عبدالله الحافظ ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا محمد بن عبيدالله بن المنادي ثنا يونس بن محمد المؤدّب ثنا حماد بن سلمة ثنا سليمان التيمي وثابت البناني عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (أتيت على موسى ليلة أُسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلّي في قبره).
أخرجه مسلم بن الحجاج النيسابوري رحمه الله من حديث حماد بن سلمة وأخرجه من حديث الثوري وعيسى بن يونس وجرير بن عبدالحميد التيميى.أخبرنا أحمد بن (الحسن بن علي) الحَرَشِي ابنا ابنا حاجب بن أحمد ثنا محمد بن يحيى ثنا أحمد بن خالد الوهبي ثنا عبدالعزيز بن أبي سلمة بن عبدالله بن الفضل الهاشمي عن أبي سلمة بن عبدالرحمن عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لقد رأيتني في الحِجْر وأنا أخبر قريشًا عن مَسراي فسألوني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها فكربت كربًا ما كربتُ مثله قطّ فرفعه الله لي أنظر إليه ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم به وقد رأيتني في جماعة من الأنبياء فإذا موسى قائم يصلّي فإذا رجل ضَربٌ جَعْدٌ كأنه من رجال شنوءَة وإذا عيسى ابن مريم قائم يصلّي أقرب الناس به شبهًا عروة بن مسعود الثقفي وإذا إبراهيم قائم يصلّي أشبه الناس به صاحبكم - يعني نفسه - فحانت الصلاد فأممتهم فلما فرغت من الصلاة قال لي قائل: يا محمد هذا مالك صاحب النار فسِلِّم عليه فالتفت إليه فبدأني بالسلام).أخرجه مسلم في الصحيح من حديث عبد العزيز.وفي حديث سعيد بن المسيب وغيره أنه لقيهم في مسجد بيت المقدس وفي حديث أبي ذر ومالك بن صعصعة في (قصة) المعراج أنه لقيهم في جماعة من الأنبياء في السماوات وكلّمهم وكلّموه وكل ذلك لا يخالف بعضه بعضًا فقد يرى موسى عليه السلام قائمًا يصلّي في قبره ثم يُسرى بموسى وغيره إلى بيت المقدس كما أُسري بنبيّنا صلى الله عليه وسلم فيراهم فيه ثم يُعرج بهم إلى السماوات كما عُرج بنبيّنا صلى الله عليه وسلم فيراهم فيها كما أخبر وحلولهم في أوقات بمواضع مختلفات جائر في العقل كما ورد في خبر الصادق وفي كل ذلك دلالة على حياتهم.ومما يدل على ذلك ما أخبرنا محمد بن عبدالله الحافظ ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا أبو جعفر أحمد بن عبدالحميد الحارثي ثنا الحسين بن علي الجعفي ثنا عبدالرحمن بن يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن الثقفي قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأكثروا عليَّ من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة عليَّ).قالوا وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت - يقولون بليت - فقال: (إن الله قد حرَّم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء عليهم السلام).أخرجه أبو داود السجستاني في كتاب السنن.وله شواهد منها ما أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ثنا أبوبكر بن إسحاق الفقيه ابنا أحمد بن علي الأبّار أحمد بن عبدالرحمن بن بكار الدمشقي ثنا الوليد بن مسلم ثني ابورافع عن سعيد المقبري عن أبي مسعود الأنصاري عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (أكثروا الصلاد عليَّ في يوم الجمعة فإنه ليس يصلّي عليَّ أحد يوم الجمعة إلا عرضت عليَّ صلاته).وأخبرنا عليّ بن أحمد بن عبدان الكاتب ثنا أحمد بن عبيد الصفار ثنا الحسن بن سعيد ثنا إبراهيم بن الحجاج ثنا حماد بن سلمة عن برد بن سنان عن مكحول الشامي عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أكثروا عليَّ من الصلاة في كل يوم جمعة فإن صلاة أمتي تعرض عليَّ في كل يوم جمعة فَمن كان أكثرهم عليّ صلاة كان أقربهم منّي منزلة).وأخبرنا أبو (الحسن) علي بن محمد بن علي السَّقا الإسفرايني قال: حدّثني والدي أبو علي ثنا أبو رافع أسامة بن علي بن سعيد الرازي بمصر ثنا محمد بن إسماعيل بن سلام الصائغ حدّثتنا حكّامة بنت عثمان بن دينار أخي مالك بن دينار قالت حدّثني أبي عثمان بن دينار عن أخيه مالك بن دينار عن أنس بن مالك خادم النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال النبيى صلى الله عليه وسلم:(إن أقربكم منّي يوم القيامة في كل موطن أكثركم عليَّ صلاة في الدينا مَن صلّى عليَّ في يوم الجمعة وليلة الجمعة قضى الله له مائة حاجة سبعين من حوائج الآخرة وثلاثين من حوائج الدينا ثم يوكل الله بذلك مَلَكًا يدخله في قبري كما تدخل عليكم الهديا يخبرني مَن صلّى عليَّ باسمه ونسبه إلى عشيرته فأثبته في صحيفة بيضاء).وفي هذا المعنى الحديث الذي أخبرنا أبو علي الحسين بن محمد الروذباري ابنا أبوبكر بن داسه ثنا أبو داود ثنا أحمد بن صالح قال: قرأت على عبدالله بن نافع قال: أخبرني ابن أبي ذئب عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لا تجعلوا بيوتكم قبورًا ولا تجعلوا قبري عيدًا وصلّوا عليَّ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم).وفي هذا المعنى الحديث الذي أخبرنا أبو محمد عبدالله بن يحيى بن عبدالجبار السكري ببغداد ثنا إسماعيل بن محمد الصفّار ثنا عباس بن عبدالله الترقفي ثنا أبو عبدالرحمن المقرئ ثنا حيوة بن شريح عن أبي صخر عن يزيد بن عبدالله بن قسيط عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (ما من أحد يسلِّم عليَّ إلا ردّ الله إليَّ روحي حتى أردّ عليه السلام).(وإنما أراد - والله أعلم - إلا وقد ردَّ الله إليَّ روحي حتى أردَّ عليه السلام).وفي هذا المعنى الحديث الذي أخبرنا أبو القاسم علي بن (الحسين) بن عليّ الطهماني (ثنا أبو الحسين) ثنا أبو الحسن محمد الكارزي ثنا علي بن عبدالعزيز ثنا أبو نعيم ثنا سفيان عن عبدالله بن السائب عن زاذان عن عبدالله بن مسعود قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن لله عز وجل ملائكة سيّاحين في الأرض يُيلِّقوني عن أمتي السلام).وأخبرنا أبو الحسين بن بشران وأبو القاسم عبدالرحمن بن عبيدالله الحرفي قالا أخبرنا حمزة بن محمد بن العباس ثنا أحمد بن الوليد ثنا (أبو) أحمد الزبيري ثنا إسرائيل عن أبي يحيى عن مجاهد عن ابن عباس قال: ليس أحد من أمة محمد صلى الله عليه وسلم إلا وهي تبلغه يقول الملك: فلان يصلّي عليك كذا وكذا صلاة.أخبرنا علي بن محمد بن بشران ابنا أبوجعفر الرزاز أنا عيسى بن عبدالله الطيالسي ثنا العلاء بن عمرو الحنفي ثنا أبو عبدالرحمن عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (مَن صلّى عليَّ عند قبري سمعته ومَن صلّى عليَّ نائِيًا منه أُبلغته).أبو عبدالرحمن هذا هو محمد بن مروان السُّدي فيما أرى وفيه ونظر وقد مضى ما يؤكده.وأخبرنا أبو عبدالله الحافظ أنا أبو عبدالله الصفّار ثنا أبوبكر بن أبي الدنيا حدّثني سويد بن سعيد حدّثني ابن أبي الرجال عن سليمان بن سحيم قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم فقلت: يا رسول الله هؤلاء الذين يأتونكم فيسلّمون عليكم أتفقه سلامهم قال: (نعم وأردُّ عليهم).ما أخبرنا محمد بن عبداله الحافظ أخبرني أبومحمد المزني ثنا عليّ بن محمد بن عيسى ثنا أبو اليمان أنا شعيب عن الزهري قال: أخبرني أبو سلمة بن عبدالرحمن وسعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال: إستبَّ رجل من المسلمين ورجل من اليهود فقال المسلم: والذي اصطفى محمدا على العالمين وأقسم بقَسَم.فقال اليهودي: والذي اصطفى موسى على العالمين فرفع المسلم عند ذلك يده فلطم اليهوديَّ فذهب اليهودي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره بالذي كان من أمره وأمر المسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (لا تُخيِّروني على موسى فإن الناس يُصعَقون فأكون أوّل مَن يُفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري كان ممّن صعق فأفاق قبلي أو كان ممّن استنثى الله عز وجل).رواه البخاري في الصحيح عن أبي اليمان.وفي الحديث الثابت عن الأعرج عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: )لا تٌفَضِّلوا بين الأنبياء فإنه ينفخ في الصور فيُصعق من في السماوات ومَن في الأرض إلا مَن شاء الله.ثم ينفح فيه أخرى فأكون أوّل مَن بعث أو في أول مَن بعث فإذا موسى آخذ بالعرض فلا أدري (أحُوسب بصعقة يوم الطور أم بعث قبلي).وهذا إنما يصحّ على أن الله جلّ ثناؤه ردّ (إلى) الأنبياء عليهم السلام أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء فإذا نفخن في الصور النفخة الأولى صعقوا فيمن صعق ثم لا يكون ذلك موتًا في جميع معانيه إلا في ذهاب الاستشعار فإن كان موسى عليه السلام فيمن استنثى الله عز وجل بقوله: (إلا مَن شاء الله) فإنه عزّ وجل يُذهب باستشعاره في تلك الحالة ويحاسبه بصعقة يوم الطور.ويقال إن الشهداء من جملة مَن استنثى الله عز وجل بقوله: (إلا مَن شاءَ اللَه).ورُوينا فيه خبرًا مرفوعًا وهو مذكور مع سائر ما قيل في كتاب البعث والنشور وبالله تعالى التوفيق.
No comments:
Post a Comment