Wednesday 9 May 2012

شفاعتِ رسول یا شکایتِ رسول

شفاعتِ رسول ﷺ یا شکایتِ رسول ﷺ:

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا [سورہ الفرقان:٣٠]
ترجمہ:
اور پیغمبر (روزِ قيامت) کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا.

توضیح :
اصل میں لفظ مھجور استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ اگر اسے ھَجْر سے مشتق مانا جائے تو معنی ہوں گے متروک ، یعنی ان لوگوں نے قرآن کو قابل التفات ہی نہ سمجھا، نہ اسے قبول کیا اور نہ اس سے کوئی اثر لیا ۔ اور اگر ھُجْر سے مشتق مانا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسے ہذیان اور بکواس سمجھا۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اسے اپنے ہذیان اور اپنی بکواس کا ہدف بنا لیا اور اس پر طرح طرح کی باتیں چھانٹتے رہے۔

And the Messenger, Muhammad (s), says, ‘O my Lord, lo! my people, the [tribe of] Quraysh, consider this  Qur’ān as something to be shunned’, to be disregarded.{25/30}

TAFSEER_IBN_ABBAAS: (And the messenger) Muhammad (pbuh) (saith: O my Lord! Lo! mine own folk make this Qur'an of no account) they speak ill of it, they do not believe in it and do not act upon its teachings.

TAFSEER_JALAALAIN: And the Messenger, Muhammad (s), says, ‘O my Lord, lo! my people, the [tribe of] Quraysh, consider this Qur’ān as something to be shunned’, to be disregarded.

-------------------------------

حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تمہارے نبی ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، ‌وَيَضَعُ ‌بِهِ ‌آخَرِينَ»
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعہ (اعلانیہ انکار کرنے والے کافر) لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعہ (ماننے والے مومن) لوگوں کو پست و ذلیل کرتا ہے۔
[صحیح مسلم: حدیث نمبر 817، فضائل قرآن کا بیان :قرآن مجید پر عمل کرنے والوں اور اسکے سکھانے والوں کی فضلیت کے بیان میں]


-------------------------------

قرآن پاک کے حقوق:

١) اس پر ایمان لانا

٢) تجوید و ترتیل سے پڑھنا سیکھنا

٣) (اس میں) تدبر و تفکر کرنا

٤) اس پر عمل کرے

٥) تبلیغ کرے (اس کے پیغام کو عام کرے)۔







قرآن کی فریاد

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں ، دھودھو کے پلایا جاتا ہوں

جزدان حریر وریشم کے ، اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے ، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں

جس طرح سے طوطے مینا کو ، کچھ بول سکھاے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں ، اس طرح سکھایا جاتا ہوں

جب قول وقسم لینے کے لیے ، تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ، ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں

دل سوز سے خالی رہتے ہیں ، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہے کو میں اک اک جلسہ میں ، پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں

نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے ، سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں ، سو بار رولا یا جاتا ہوں

یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے ، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مھجے رسوا کرتے ہیں ، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں

کس بزم میں مجھ کو بار نہیں ، کس عُرس میں میری دُھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں ، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں.





No comments:

Post a Comment