Tuesday, 8 May 2012

اسلامی تصوف - تزکیہ واحسان


عقیدہ:
دین مجموعہ ہے ایمان(عقائد)، السلام (اعمال) اور احسان کا۔

دلیل:
أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ»، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟» قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ»
ترجمہ:
حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے 
کہ اچانک ایک شخص سامنے سے نمودار ہوا ، جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے ۔ اور اُس شخص پر سفر کا کوئی اثر بھی معلوم نہیں ہوتا تھا ، (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی بیرونی شخص نہیں ہے) اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص اس نو وارد کو پہچانتا نہ تھا (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی باہری آدمی ہے ، تو یہ حاضرین کے حلقہ میں سے گزرتا ہوا آیا) یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ کر دو زانو اس طرح بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آنحضرت کے گھٹنوں سے ملا دئیے ، اور اپنے ہاتھ حضور کی رانوں پر رکھ دئیے اور کہا اے محمد! مجھے بتلائیے کہ “اسلام” کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: “اسلام” یہ ہے (یعنی اس کے 5 ارکان یہ ہیں کہ دل و زبان سے) تم یہ شہادت ادا کرو کہ “اللہ” کے سوا کوئی “اِلٰه” (کوئی ذات عبادت و پکار کے لائق) نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں ، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ، اور ماہِ رمضان کے روزے رکھو ، اور اگر حج بیتُ اللہ کی تم استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو۔ تو اس نو وارد سائل نے آپ کا یہ جواب سن کر کہا ، آپ نے سچ کہا ۔ راوئ حدیث حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا بھی اور پھر خود تصدیق و تصویب بھی کرتا جاتا ہے ، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا اب مجھے بتلائیے کہ “ایمان” کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اُس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور یومِ آخر یعنی روزِ قیامت کو حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق مانو۔(یہ سن کر بھی) اس نے کہا ، آپ نے سچ کہا ۔ اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا ، مجھے بتلائیے کہ احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو ، کیوں کہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو پر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے۔ پھر اُس شخص نے عرض کیا مجھے قیامت کی بابت بتلائیے (کہ وہ کب واقع ہو گی) آپ نے فرمایا کہ جس سے یہ سوال کیا جا رہا ہے وہ اس کو سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ پھر اس نے عرض کیا تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (اس کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ) لونڈی اپنی مالکہ اور آقا جو جنے گی ، (اور دوسری نشانی یہ ہے کہ) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں ہے ، اور جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے اور اس میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے. حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ یہ باتیں کر کے یہ نو وارد شخص چلا گیا ، پھر مجھے کچھ عرصہ گزر گیا ، تو حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے عمر! کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ سوال کرنے والا شخص کون تھا؟ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے ، تمہاری اس مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھادیں.
[مسند أحمد:367، مسلم:8 ابوداؤد:4695 نسائی:4990 (ترمذی:2610 ابن ماجہ:63)]



تشریح:

احسان (یعنی کیفیاتِ دل) پر ہی سارے تصوف کا مدار ہے۔ تصوف کی دین کے ساتھ نسبت اس طرح ہے جس طرح روح کی جسم کے ساتھ ۔
[ایقاظ الھمم]

و"الإحسان" هنا: ‌مراقبة اللَّه في العبادات، والإتيان بها مكملة الآداب۔
ترجمہ:
اور یہاں "احسان": عبادات میں اللہ کا مُراقَبَہ(دھیان) کرنا، اور ان کی تکمیل کے آداب کو انجام دینا۔
[اختصار صحيح البخاري وبيان غريبه-أبو العباس القرطبي (م656ھ) : جلد 1 / صفحہ 30]
يَرَاهُمْ أَيْقَظَهُمْ ذَلِكَ إِلَى ‌مُرَاقَبَةِ اللَّهِ
[فتح الباري شرح صحيح البخاري-ابن حجر العسقلاني (م852ھ) : ج2 / ص 226  ]









مراقبہ کیا ہے؟
مراقبہ یعنی دل سے خدا کا دھیان رکھنا (توجہ، یاد، تصور، فکر، اِسْتِحْضار، دلی لگانا، لُو لگانا، استغراق، محو ہونا) اور اس کا بیان(جس کی ضد غفلت ہے)، دل سے ہر وقت دھیان رکھے کہ اللہ تعالی کو میرے سب حالوں کی خبر ہے ظاہر کی بھی اور دل کی بھی اگر برا کام ہو گا یا برا خیال لایا جائے گا شاید اللہ تعالی دنیا میں یا آخرت میں سزا دیں دوسرے عبادت کے وقت یہ دھیان جما لے کہ وہ میری عبادت کو دیکھ رہے ہیں اچھی طرح بجا لانا چاہیے ، طریقہ اس کا یہی ہے کہ کثرت سے ہر وقت یہ سوچا کرے تھوڑے دنوں میں اس کا دھیان بندھ جائے گا پھر انشاء اللہ تعالی اس سے کوئی بات اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف نہ ہو گی۔
مراقبہ کی یہ حقیقت مشہور حدیث:
(كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ)
(دنیا میں اس طرح ہو جا جیسے تو مسافر-اجنبی ہو۔)
[صحيح البخاري:6416]
سے ثابت ہے۔

مراقبہ کی 3 اقسام معلوم ہوئیں:
(۱) مراقبہ رؤیت (۲) مراقبہ معیت (۳) مراقبہ فنائیت۔


(1)مراقبہ رؤیت:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت نبوی ﷺ روایت ہے کہ:
اللہ کی عبادت کر جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہو۔
[مسند احمد:6156، الغرباء،لآجری:32]
ورنہ(ایسے دھیان میں رکھ کہ)وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
[بخاری:50]

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صَلِّ صَلَاةَ مُوَدِّع، فَإِنَّكَ إِنْ كُنْتَ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
ترجمہ:
نماز اس طرح پڑھا کرو جیسے کہ (تم ابھی دنیا سے ) رخصت ہونے والے ہو، بےشک اگر تو اس(اللہ)کو نہیں دیکھ رہا وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔
[صحیح الترغیب و الترھیب:3350، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:1914]



(2)تزکیہ اور مراقبہ معِیَت:
حضرت عبادہ بن الصامتؓ نے فرمایا ، (کہ) فرمایا رسول الله  نے : (کہ) بیشک افضل ایمان انسان کا یہ ہے کہ وہ علم(یقین واحساس) رکھے کہ بےشک الله اس کے  ساتھ ہے، جہاں بھی وہ ہو.
[شعب الإيمان للبيهقي » الْحَادِي عَشَرَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ...، رقم الحديث: 740]
[ المعجم الأوسط للطبراني: حدیث#8796 ، تفسیر ابن کثیر (مترجم) : 5/317]

قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَزْكِيَةُ الْمَرْءِ نَفْسَهُ؟ قَالَ: «أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ مَعَهُ حَيْثُ كَانَ»۔
ترجمہ:
نبی ﷺ سے پوچھا گیا: آدمی کا اپنے نفس کا تزکیہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: انسان یہ یقین جان لے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔
[التاريخ الكبير للبخاري:54، الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:1162، السنن الكبرى للبيهقي:7275، المعجم الصغير:555، مسند الشاميين:1870، معجم الصحابة لابن قانع:2/102، معرفة الصحابة لأبي نعيم:4528، السلسلة الصحيحة:3/38]



(3)مراقبہ فنائیت:
۔۔۔اور ہوجا دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح۔
[بخاری:4614]
۔۔۔اور شمار کر اپنے نفس کو قبر والوں میں سے۔
[ترمذی:2333،ابنِ ماجہ:4114]
حضرت معاذ بن جبلؓ سے نبی ﷺ کی روایت ہے:
(1) اللہ کی عبادت کر جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہو اور (2) شمار کر اپنے نفس کو قبر والوں میں، اور (3) ذکر کر اللہ ہر پتھر اور درخت کے قریب بھی، اور (4) کوئی برائی ہوجائے تو عمل کر فوراؒؒ نیکی کا: خفیہ(گناہ پر)خفیہ اور اعلانیہ پر اعلانیہ۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:34325]


فکر و مراقبہ - Ponder & Meditation


تصوف کے متعلق احادیث کا ذخیرہ کتاب الزھد، کتاب الرقاق، کتاب الاخلاق میں ان ابواب کے تحت ملتی ہیں:

دل کے اعمال: کی دو اقسام ہیں:

(1)اچھے اخلاق:
(۱)ایمان، (۲)اخلاص، (۳)توکل، (۴)خوف، (۵)رضیٰ، (۶)قناعت، (۷)حیاء،(۸) تواضع ، (۹)خشوع، (۱۰)تقویٰ، (۱۱)حلم وبردباری، (۱۲)صدق وسچائی، (۱۳)صبر، (۱۴)شکر، (۱۵)رحم ونرمی، (۱۶)احسان، (۱۷)زھد، (۱۸)فراسۃ، (۱۹)سخاوت (۲۰)خیرخواہی وغیرہ

(2)برے اخلاق:
(۱)الغفلۃ(بےتوجہی وبےدھیانی)،
(۲)الریاء(دکھلاوا)،
(۳)الکبر(فخر وغرور)،
(۴)العجلۃ(بےصبری وجلدبازی)،
(۵)العجز(کمزوری وبےہمتی)،
(۶)الکسل(سستی)،
(۷)الجبن(بزدلی)،
(۸)البخل(کنجوسی)،
(۹)الکفر ونفاق،
(۱۰)الحرص(لالچ)،
(۱۱)سوء الظن(بدگمانی)،
(۱۲)الظلم(کسی کا حق نہ ماننا)،
(۱۳)البخل(کنجوسی)،
(۱۴)تقعر وتکلف،
(۱۵)حسد وغیرہ




قرآن وحدیث میں مؤمنین کو مخاطب کرنے کے لیے کئی الفاظ (باطنی صفات وخصوصیات) استعمال کئے گئے ہیں۔ مثلاً:
(1) ذاکرین (2) صابرین (3) خاشعین (4) صادقین (5) قانتین (6) موقنین (7) مخلصین (8) محسنین (9) خائفین (10) وجلین (11) عابدین (12) متوکلین (13) متقین (14) مقربین (15) ابرار (16) فقراء (17) عباد (18) اولیاء۔
[تفصیلی دلائل نیچے ملاحظہ فرمائیں]
امام حاکمؒ نے فرمایا: "رسول اللہ ﷺ نے اس گروہ کو اسی کے ساتھ بیان کیا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان صفات(خصوصیات) والے گروہوں میں سے مخصوص کیا ہے۔ لہٰذا جس میں یہ صفات پائی جائیں وہ اس نام تصوف کا مستحق ہے۔
حوالہ
قال الحاكم: «وقد وصف رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الطائفة بما خصهم الله تعالى به من بين الطوائف بصفات فمن وجدت فيه تلك الصفات استحق بها اسم ‌التصوف»
تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

لفظِ صوفی کی لغوی واصطلاحی تحقیق





احسان کی فضیلت:

القرآن: ۔۔۔بےشک الله پسند کرتا ہے احسان کرنے والوں کو۔
[سورۃ البقرۃ:105]المائدۃ:93

۔۔۔ اور وہ جو غصے کو دباتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ 
[سورۃ آل عمران:134]المائدۃ:13

۔۔۔ بےشک جو ڈرتا اور صبر کرتا ہے تو یقیناً الله ضایع نہیں کرتا اجر احسان کرنے والوں کا۔
[سورۃ یوسف:90]

یقین رکھو کہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان پر عمل پیرا ہیں۔
[سورۃ النحل:128]

کیا احسان کا بدلہ احسان نہیں ہے؟
[سورۃ الرحمٰن:60]









لفظِ تصوف کی طرح قرآن مجید میں نہ (علم)نحو اور (علم)صرف کا لفظ ہے اور نہ ہی علم الروایۃ، علم الدرایۃ یا علم الجرح والتعدیل کا لفظ ہے، جبکہ ان علوم کے بغیر تو قرآن وسنت کا ثبوت صحیح ثابت ہونا اور اس کا درست معنیٰ ومطلب سمجھتے غلط مفہوم سے بچنا ممکن نہیں۔ لہٰذا بدعت وہ نہیں جو دین ’’کیلئے‘‘ ہو، جیسے: صحابہ کا قرآن مجید کو کتابی صورت میں جمع کرنا، لوٹے کے بجائے نل(ٹونٹی) سے وضو کرنا، اوقاتِ نماز کیلئے سورج کے سایہ کے بجائے نقشہ اوقاتِ نماز پر ادائیگی کرنا، یا لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینا، حج کیلئے گدھوں کے بجائے جہاز کی سواری اختیار کرنا، جہاد کیلئے تِیر ومنجنیق کے بجائے بندوق وٹینک چلانا وغیرہ، بلکہ بدعت تو وہ ہے جو دین ’’میں‘‘ (نکالی گئی نئی بات) ہو۔



ائمہ فن کی اصطلاح میں ایمان(نظریاتِ نبوی) پر مشتمل مسائل ودلائل کی تفصیلی بحث کو "علمِ کلام" کہتے ہیں اور ان علماء کو ’’متکلمین‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح اسلام(عاداتِ نبوی) پر مشتمل مسائل ودلائل کی تفصیلی بحث کو "علمِ فقہ" کہتے ہیں اور ان کے علماء کو فقہاء کہتے ہیں۔ اور اسی طرح دل کے تزکیہ(پاکی) اور احسان(عمدگی) پر مشتمل(کیفیاتِ نبوی کی) بحث کو "علمِ تصوف" کہتے ہیں اور اس علم کے ماہرین کو ’’صوفیاء ومشائخ‘‘ کہتے ہیں۔

جیسے: عربی علوم ’’مروجہ‘‘ ناموں سے موجود نہ تھے:
علمِ نحو Science of Arabic Syntax،
علمِ صرف Science of Verbs،
علمِ ادب Science of Arabic Literature،
علمِ بیانScience of Statement ،
علمِ بدیع Science of Oratory،
علمِ معانی Science of Meaning وغیرہ۔
لیکن انہیں مطلقاً بدعت نہیں کہا جاتا، کیونکہ ان علوم کی اصل(حقیقت وحیثیت) قرآن مجید کا "عربی" (میں نازل) ہونا ہے، اور قرآن مجید سمجھنا جو لازم ہے، کیلئے عربی علوم سیکھنا بھی فرضِ(کفایہ)ہوئے۔ اگرچہ ان کے ظاہری نام یا اصطلاحات نئے ہوں لیکن ان کی باطنی حیثیت اور حکم ’’عربی زبان‘‘ ہی ہے۔

اسی طرح قرآن کی قرأۃ کے اندازِ نبوی کیلئے فنِ قرأت کی اصل بھی یہ آیات ہیں:
يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ
[سورۃ اٰل عمران:163 الجمعۃ:2]
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا
[المزمل:4]

اسی طرح اخبارِ نبوی کے الفاظ کی حفاظت کیلئے علم حدیث، اصول الحدیث والروایۃ، علمِ اصولِ اسماء الرجال۔۔۔علم الجرح والتعدیل ۔۔۔ یہ علوم بعد میں ایک فن کی حیثیت سے مروج ومدون ہوئے، لیکن ان کی اصل(حقیقت) قرآن وسنت میں موجود ہے۔ جن کے دلائل ان کی تفصیلی کتابوں میں جمع ہیں۔

اسی طرح تعلیماتِ نبوی کے معنی ومراد کی حفاظت کیلئے علم الفقہ والدرایۃ والاجتہاد والاستنباط میں علم تطبیق وترجیح مختلف الحدیث، علم الناسخ والمنسوخ اور اس کیلئے علم التاریخ والسیرۃ کی ضرورت تاکہ پہلے والے حکم کو منسوخ اور آخری حکم کو منسوخ ہونا معلوم کیا جاسکے، علم واصول الافتاء والمفتیین ۔۔۔ یہ سب بعد میں مروج ومدون ہوئے، لیکن ان کی اصل(حقیقت) قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔


اسی طرح کیفیاتِ نبوی کو نبوی صحبت میں بیٹھنے والے سچوں(صادقین)سے پھر ان کے صحبت یافتہ محسنین سے پھر ان کے صحبت یافتہ منیبین کی صحبت اٹھانے سے حاصل کرنا اور ان سے اپنے دل کا تزکیہ کرانا دین ہی کی تعلیم اور شرعی طریقہ ہے، جس کی اصل یہ ہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى
تحقیق وہ کامیاب ہوا جو پاک ہوا۔
[سورۃ الاعلیٰ:14]
وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ۔۔۔۔۔
اور چھوڑدو ظاہری گناہ بھی اور باطنی بھی۔
[سورۃ الانعام:120]


وَيُزَكِّيهِمْ ۔۔۔۔۔ اور وہ(نبی)پاک بھی کرتا ہے انہیں
[سورۃ اٰل عمران:163 الجمعۃ:2]
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (89)
جس دن نہ کام آئے کوئی مال اور نہ بیٹے. مگر جو کوئی آیا اللہ کے پاس لیکر دل چنگا۔
[سورۃ الشعراء:88+89]





اور جو آئے گا اس(اللہ)کے پاس مؤمن ہوکر جبکہ اس نے عمل بھی کئے ہوں نیک تو یہ انہی لوگوں کیلئے ہیں درجے بلند۔ (75) جنتیں ہمیشگی والی بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں وہ ہمیشہ رہیں ان میں، اور یہی ہے جزاء اس شخص کی جو پاک بنا۔
[سورۃ طه:75+76]






تصوف کیا ہے؟
ماہرینِ فن کی اصطلاح میں تصوف کہا جاتا ہے:
لَيْسَ التصوف رسوما وَلَا علوما وَلكنهَا أَخْلَاق۔
ترجمہ:
تصوف: رسوم اور علوم(کا نام)نہیں، وہ اخلاق(کا نام)ہیں۔
[طبقات الصوفية للسلمي (المتوفى: 412هـ) : ص 137]



علم الباطن - هو: معرفة أحوال القلب، والتخلية، ثم التحلية.
وهذا العلم: يعبر عنه بعلم الطريقة، والحقيقة أيضا.
واشتهر علم التصوف به، وسيأتي تمام تحقيقه فيه.
ترجمہ:
باطن کا علم - یہ ہے: دل کے حالات کو جاننا، اور تنہائی اختیار کرنا، پھر صاف کرنا۔
اس علم کو تعبیر کیا جاتا ہے طریقت(سلوک) کے علم سے، اور اسی طرح (علم)حقیقت سے۔
اور یہ تصوف کے علم سے مشہور ہوا، اور اس میں تمام حقیقت آ جائے گی۔
[كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون:1/218]





دوسرے نام:

علم السلوک ۔۔۔ علم الاخلاق ۔۔۔ علم الحقیقۃ ۔۔۔ علم الحقائق والمنازل والاحوال ۔۔۔ علم المعاملة والإخلاص في الطاعات والتوجّه إلى الله تعالى من جميع الجهات ۔۔۔ علم القلوب وعلم المعارف وعلم الأسرار ۔۔۔ ويقال له علم الإشارة.
نفس کی آفات اور اس کی پہچان اور ریاضت کا علم اور نفس کیلئے شیطانی چالبازیوں اور ان سے بچنے کا علم۔۔۔ اور علم الحکمۃ بھی کہا گیا۔









سَمِعت مَنْصُور بن عبد الله يَقُول سَمِعت أَبَا عَليّ الرُّوذَبَارِي وَسُئِلَ عَن التصوف يَقُول هَذَا مَذْهَب كُله جد فَلَا تخلطوه بِشَيْء من الْهزْل۔
میں نے سنا منصور بن عبداللہ سے کہتے، میں نے سنا ابوعلی روذباریؒ سے، ان سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے؟ فرمایا: یہ طریقہ ہے سارے بزرگوں کا لہٰذا نہ ملاؤ اسے مزاح ومسخری کی کسی چیز سے۔
[طبقات الصوفية للسلمي (المتوفى: 412هـ) : ص 271]



جَعْفَر الْخُلْدِيِّ يَقُول سَمِعت الْجُنَيْد وَسُئِلَ عَن التصوف يَقُول: الْعُلُوّ إِلَى كل خلق شرِيف والعدول عَن كل خلق دنيء.
جعفر خلدی کہتے ہیں کہ میں نے سنا جنیدؒ کو کہ پوچھا گیا ان سے تصوف کا تو فرمایا: سارے شریف اخلاق تک بلند ہونا اور سارے ادنیٰ اخلاق سے باز آنا۔
[طبقات الصوفية للسلمي (المتوفى: 412هـ) : ص 328]




وَسُئِلَ الْجُنَيْد عَن التصوف فَقَالَ تصفية الْقلب عَن مُوَافقَة الْبَريَّة ومفارقة الْأَخْلَاق الطبيعية وإخماد الصِّفَات البشرية ومجانبة الدَّوَاعِي النفسانية ومنازلة الصِّفَات الروحانية والتعلق بالعلوم الْحَقِيقِيَّة وَاسْتِعْمَال مَا هُوَ أولى على الأبدية والنصح لجَمِيع الْأمة وَالْوَفَاء لله على الْحَقِيقَة وَاتِّبَاع الرَّسُول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي الشَّرِيعَة
ترجمہ:
حضرت جنید بغدادیؒ (المتوفیٰ ۲۹۷ھ) سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: دل کو لوگوں کی مرضی کے کاموں سے دور رکھنا، طبیعت کی عام عادتوں سے الگ تھلگ رہنا، انسانی عادتوں کو ختم کرنا، نفسانی خواہشات سے دور رہنا، اپنے آپ میں روحانی خوبیاں پیدا کرنا، (اللہ کے ہاں کام آنے والے) حقیقی علوم سے تعلق رکھنا، ہمیشہ سراہے جانے والے کام(عبادت وخدمت)کرنا، اللہ کے سارے حکموں پر عمل کرنا اور شریعت میں رسول اللہ ﷺ کے حکموں کے مطابق چلنا تصوف ہے۔
[التعرف لمذهب أهل التصوف، للكلاباذي(المتوفى: 380هـ): ص25]
[طبقات الصوفية للسلمي (المتوفى: 412هـ) : ص 346]




جرح والتعدیل کے امام ذہبیؒ (م784ھ) لکھتے ہیں:
فإنما التصوف والتأله والسلوك والسير والمحبة ما جاء عن أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم - من الرضا عن الله، ولزوم تقوى الله، والجهاد في سبيل الله، والتأدب بآداب الشريعة من التلاوة بترتيل وتدبر، والقيام بخشية وخشوع، وصوم وقت، وإفطار وقت، وبذل المعروف، وكثرة الإيثار، وتعليم العوام، والتواضع للمؤمنين، والتعزز على الكافرين، ومع هذا فالله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم.
والعالم إذا عري من التصوف والتأله، فهو فارغ، كما ‌أن ‌الصوفي إذا عري من علم السنة، زل عن سواء السبيل.
ترجمہ:
تصوف تو بس پکار وعبادت، سلوک(عمل)، سیر اور وہ محبت ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے ملتی ہیں - اللہ کی رضا میں، اللہ سے ڈرنے کے لزوم، اللہ کی راہ میں جہاد، اور آداب کے ساتھ۔ شریعت کی تعلیمات جیسے: ٹھہر ٹھہر کر غور وفکر سے تلاوت کرنا، خوف و ادب کے ساتھ کھڑا ہونا، روزے کا وقت، افطاری کے وقت، اور بقدر استطاعت نیکی خرچ کرنا، ایثار وقربانی کی کثرت کرنا، عام لوگوں کی تعلیم دینا، مومنین کیلئے تواضع، اور کافروں پر غلبہ، اور اس (تصوف) کے ساتھ اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔
اور اگر عالم سے تصوف اور معرفت چھن جائے تو وہ فارغ(خالی) ہے، جس طرح صوفی سے علم سنت چھن جائے تو وہ راہِ راست سے ہٹ گیا۔
[سير أعلام النبلاء - ط الرسالة: 15/ 409]



«لا تتكلم قبل الفكر ولا تتعجب بشيء من حالاتك، فان الواهب غير متناهي القوة وعليك بتلاوة القرآن مع وجد وطرب، وفكر لطيف ما كثر الدعاء في أمر الآخرة، واقطع الخواطر الرديّة فان الخاطر الردي إذا قطعته أولا نجوت منه، واجمع هذه الخصال في نفسك - أعانك الله عليها - واعلم ‌أن ‌الصّوفي هو الذي تجتمع فيه هذه الكلمات الشريفة والتصوّف عبارة عن هذه»
ترجمہ:
سوچنے سے پہلے نہ بولو اور اپنی کسی بھی حالت سے حیران نہ ہو، کیونکہ عطا کرنے والا بے پناہ طاقت والا ہے، اور تمہیں قرآن کی تلاوت خوشی خوشی اور نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے، اور بہت باریکی سے سوچو کہ آخرت کے بارے میں کتنی دعائیں کیں۔ بےکار خیالات کو کاٹ دو، کیونکہ اگر تم ان کو پہلے کاٹ دو گے تو تم اس سے بچ جاؤ گے۔ اور یہ صفات اپنے اندر جمع کرو - اللہ تمہاری مدد کرے - اور جان لو کہ صوفی وہ ہے جس میں یہ شریفانہ باتیں جمع ہوں اور تصوف اسی سے عبارت ہے۔
[مجمع الآداب في معجم الألقاب-ابن الفوطي (م723ھ) : ج2 / ص 504]



وسمعت أبا القاسم النصراباذي يقول أصل التصوف ملازمة الكتاب والسنة وترك الأهواء والبدع وتعظيم حرمات المشايخ ورؤية أعذار الخلق وحسن صحبة الرفقاء والقيام بخدمتهم واستعمال الأخلاق الجميلة والمداومة على الأوراد وترك ارتكاب ‌الرخص ‌والتأويلات وما ضل أحد في هذا الطريق إلا بفساد الابتداء فإن فساد الابتداء يؤثر في الانتهاء۔
ترجمہ:
ابو القاسم النصرآبادی نے فرمایا: تصوف کی اصل کتاب و سنت پر عمل کرنا، خواہشات و بدعات کو ترک کرنا،مشائخ کی حرمات(کرامات) کی تعظیم کرنا، مخلوق کے عذر کو دیکھنا، رفقاء ساتھیوں کی اچھی صحبت رکھنا، ان کی خدمت میں رہنا، خوبصورت اخلاق کا استعمال، اوراد(اذکار) پر ہمیشگی، اور رخصتوں(یعنی دین میں گنجائشوں) اور تاویلات(یعنی ظاہر کے علاوہ معانی ومطالب لینے) کو ترک کرنا ہے۔ اور کوئی اس راہ میں نہیں بھٹکا سوائے ابتدائی فساد کے، کیونکہ ابتدائی خرابی انتہا کو متاثر کرتی ہے۔
[طبقات الصوفية للسلمي(م412ھ):84 (صفحہ365)، الرسالة القشيرية(م465ھ):1/ 145، الموفي بمعرفة التصوف والصوفي-كمال الدين الأدفوي(م748ھ): ص70، مدارج السالكين-ابن القيم(م751ھ) : 3/ 276، الاعتصام للشاطبي:1/ 131، طبقات الأولياء-ابن الملقن(م804ھ):ص11، مفتاح الجنة في الاحتجاج بالسنة-السيوطي:ص73]



ابو القاسم المقری(م378ھ) کہتے ہیں:
أوائل بركة الدخول في ‌التصوف، تصديق الصادقين في الإخبار عن أنفسهم، ومشايخهم بنعم الله عليهم، وإظهار كراماته عليهم۔
ترجمہ:
[الفتوة لأبي عبد الرحمن السلمي(م412ھ): صفحہ55]



امام سری ؒ (م251/253ھ) نے فرمایا:
التصوُّفُ اسمٌ لثلاثة معانٍ؛ أحدها‌، أنَّ ‌الصوفيَّ [هو] الَّذي لا يطفئُ نورُ معرفته نورَ ورعه، ولا يتكلَّم فِي علمٍ باطنٍ ينقضُه عليه ظاهرُ الكتاب، ولا تحملُه الكراماتُ على هتك أستار المحرَّمات۔
ترجمہ:
تصوف ایک ایسا نام ہے جس کے تین معنیٰ ہیں، بےشک صوفی وہ ہے (۱)جس کے علم کی روشنی اس کی تقویٰ کی روشنی کو بجھا نہ دے، (۲)جو کسی ایسے باطنی علم کی بات نہ کرے جو کتاب کے ظاہر سے متصادم ہو، (۳)اور جس کی کرامتیں نہیں اٹھاتی(اکساتی) ہیں حرام کردہ باتوں کے پردوں کی بے احترامی پر۔
[مرآة الزمان في تواريخ الأعيان-سبط ابن الجوزي (م654ھ) : ج15 / ص318]
[الرسالة القشيرية(م465ھ) : 1 /45]





اپنے نفس و باطن کا تصفیہ والے مومنوں کو، جو ان اچھی صفات وخصوصیات کے حامل ہوں، صوفی کہا جانے لگا۔
حوالہ
وَقَال بعَضُهُم: نِسْبةٌ إلى لِبْسِ الصوّف، وهذا صحَيحٌ من حَيْثُ اللَّغَة
ترجمہ:
اور ان میں سے بعض نے کہا: اُون (کا لباس) پہننے کی طرف نسبت میں (صوفی کہا جانے لگا)، اور یہ لغت کے لحاظ سے صحیح ہے۔
[الموفي بمعرفة التصوف والصوفي-كمال الدين الأدفوي (م748ھ) : صفحہ40]





صُوفیاء کے لفظِ صُوف(اُون)کی اصل:


حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور حسن بصریؒ سے رسول الله ﷺ کے متعلق فرماتے ہیں:
كان يركَبُ الحمارَ ، ويخصِفُ النعلَ ، ويرفَعُ القميصَ ، و يلبَسُ الصوفَ ، ويقولُ : من رغِبَ عن سنَّتِي فليسَ منِّي.
ترجمہ:
گدھے پر سواری کرتے، جوتا گانٹھ لیتے، قمیص کو پیوند لگاتے، اُون کا لباس پہنتے اور فرماتے: جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ میرا(امتی)نہیں۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:2130، صحيح الجامع الصغير:4946]

مریضوں کی عیادت فرماتے، جنازہ کے پیچھے چلتے اور غلاموں(مسکین نوکروں) تک کی دعوت قبول فرمالیتے تھے۔
[مسند ابن الجعد:848 ترمذی:1017 ابن ماجہ:4178]

اورارشاد فرماتے: اگر مجھے ایک دست گوشت کی طرف دعوت دی جائے تو اُسے بھی قبول کر لوں گا۔ اور اگر بکری کا ایک پایہ ہدیہ کیا جائے تو وہ بھی قبول کر لوں گا۔
[صحيح البخاري:2568، السنن الكبرى للنسائي:6574، شرح السنة للبغوي:3674]

بکریاں باندھتے، اور مہمانوں کیلئے مراعات لاتے۔
[حاکم:204 بیھقی:4188]
اور زمیں پر کھاتے اور فرماتے: میں تو بس ایک بندہ ہوں کھاتا ہوں جیسے بندہ کھاتا ہے۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك:995 الزهد لهناد بن السري:2/411]

حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ رسول ﷲ ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’رسول ﷲ ﷺ بھی انسانوں میں ایک انسان تھے، اپنے کپڑے میں خود جوں تلاش کر لیتے ( کہ کسی کے کپڑوں سے نہ آگئی ہو ) بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے، اپنا کپڑا سِی لیتے، اپنا کام خود کرتے، اپنا جوتا گانٹھ لیتے اور وہ تمام کام سر انجام دیتے جو مرد اپنے گھروں میں انجام دیتے ہیں او رگھر  والوں کی خدمت کرتے، جب مؤذن کی آواز سنتے تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔
[صحيح ابن حبان:5675+5677]
مسند أبي داود الطيالسي:1480، مسند إسحاق بن راهويه:1550، مسند أحمد:26048، الزهد لأحمد بن حنبل:8، مسند البزار:326، الزهد لهناد بن السري:2/408،  صحيح الأدب المفرد: ص203-204، صحيح صحيح البخاري+5363+6039، أخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني:121-123، المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة:18/185









علم کی اقسام:
ابْنُ نُمَيْرٍ , قال : حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْعِلْمُ عِلْمَانِ : عِلْمٌ فِي الْقَلْبِ فَذَاكَ الْعِلْمُ النَّافِعُ , وَعِلْمٌ عَلَى اللِّسَانِ فَتِلْكَ حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ " .
ترجمہ:
حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: علم کی دو(2)قسمیں ہیں: ایک وہ جو دل میں(اللہ کا ڈر پیدا کرتا)ہے، یہی علم نافع ہے۔ اور جو علم(مال، شہرت یا مقابلے کیلئے)زبان پر ہو، وہ تو اللہ کی حجت(الزامی دلیل)ہے اس کے بندوں پر۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك:1161، مصنف ابن ابی شیبہ:34361، دارمی:376، شعب الایمان للبیھقی:1686، جامع بيان العلم وفضله:1150، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:300، الإتحاف:23975، كنز العمال:28667+28947، جامع الأحاديث للسیوطی:14498، حکیم ترمذی:2/303، تفسیر الدر المنثور للسیوطی:7/21-تفسیر سورۃ فاطر:27]


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: " حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ: فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا البُلْعُوم۔

[بخاری:120]
میں نے رسول اللہ ﷺ سے علم کے دو برتن محفوظ کیے ہیں: جن میں سے ایک تو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا ایسا ہے کہ اگر میں اسے پھیلاؤں تو یہ شہ رگ کاٹ دی جائے۔تشریح:
باب: فہم وفقہ کے سوا کثرتِ حدیث کی مذمت کا بیان [جامع بيان العلم وفضله:1910]
نسبة إلى معرفة الربوبية. [شرح صحيح البخارى لابن بط
ال:1/152]




نبی ﷺ کی سنت:
نبی ﷺ نے حضرت انس سے فرمایا: اے میرے بیٹے! اگر تجھ سے ہوسکے تو اس حال میں صبح وشام کر کہ تیرے دل میں کسی کےلیے کھوٹ نہ ہو تو ایسا ہی کر. اے میرے بیٹے! یہ میری سنت(عادت)ہے، جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے گویا مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا.
[ترمذی:2678]المعجم الاوسط:5991



رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ۔
ترجمہ:
بےشک جسم میں ایک لوٹھڑا ہے، جن وہ درست ہوا تو سارا کا سارا جسم درست رہتا ہے، اور جب وہ بگڑا تو سارا کا سارا جسم بگڑجاتا ہے، خبردار! وہ دل ہے۔
[بخاری:52 مسلم:1599 ابن ماجۃ:3984]






پتھر(مردہ)دل کی علامات:

(1)اپنی برائی بری نہ لگنا۔[حوالہ الترمذي:2165]

بلکہ اچھی لگنا۔[حوالہ سورۃ الانعام:122]

(2)لوگوں سے بھی حیاء-جِھجَھک-کَھٹَک نہ رہنا[حوالہ الترمذي:2165]

نافرمانیاں اعلانیہ کرنا، اپنی نافرمانی میں دوسروں کے آرام کا لحاظ نہ رکھنا۔

(3)ذکر ونصیحت سے اور کرنے والوں سے وحشت اور چِڑ لگنا۔

(4)غفلت ۔۔۔ یعنی اہم اور فرض کاموں-باتوں سے دل چرانا۔۔۔بےفائدہ باتوں میں دل لگانا۔





حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ ، وَأَمْوَالِكُمْ ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ ، وَأَعْمَالِكُمْ .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھے گا بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھے گا۔
[صحيح مسلم:2564 - ‌‌كِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ - ‌‌بَابُ تَحْرِيمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ، وَخَذْلِهِ، وَاحْتِقَارِهِ، وَدَمِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَالِهِ]


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «كُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ، صَدُوقِ اللِّسَانِ» ، قَالُوا: صَدُوقُ اللِّسَانِ، نَعْرِفُهُ، فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ؟ قَالَ: «هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ، لَا إِثْمَ فِيهِ، وَلَا بَغْيَ، وَلَا غِلَّ، وَلَا حَسَدَ»
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون آدمی بہتر ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا " ہر وہ شخص جو مخموم دل اور زبان کا سچا ہو" یہ سن کر صحابہؓ نے عرض کیا کہ زبان کے سچے کو تم ہم جانتے ہیں  لیکن " مخموم دل" سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔" مخموم دل وہ شخص ہے جس کا دل پاک و صاف ہو، پرہیزگار ہو، اس میں کوئی گناہ نہ ہو، اس نے کوئی ظلم نہ کیا ہو، حد سے تجاوز نہ کیا ہو، اور اس میں کدورت و کینہ اور حسد کا مادہ نہ ہو۔
[سنن ابن ماجۃ:4216]




متقی کیلئے مفتی کی اجازت پر عمل کرنا ضروری نہیں۔

حضرت وابصہؓ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«اسْتَفْتِ قَلْبَكَ»
ترجمہ:
اپنے دل سے فتویٰ لو۔
[احمد:18006، دارمي:2575، صحیح الترغیب:1734]

حضرت ابو ثعلبہ الخشنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
 «وَإِنْ أَفْتَاكَ الْمُفْتُونَ»
ترجمہ:
اگرچہ مفتی بھی فتویٰ دے دیں۔
[مسند احمد:17742، مسند أبي يعلى:7492، صحيح الجامع: 2881]
یعنی
اپنے تقویٰ  واحتیاط کے معاملہ میں نیکی وپرہیزگاری ہی کو اختیار کرنا۔
یعنی
اپنے دین کے معاملہ میں احتیاط ہی کو اختیار کرنے والا متقی دل والے ہوتے ہیں۔ اور باطنی مفتی کے خلاف ظاہری مفتی کا قول نہ لیا جائے، بلکہ فتوے کے ساتھ اپنے دل کو دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے؟ ہاں! جہاں قلب شہادت دے دے وہاں بخوشی اجازت ہے ۔

قلب کا یہ قاعدہ ہے کہ اول وہلہ (پہلی بار میں اس کو جس قدر کراہت ونفرت ہوتی ہے دوسری مرتبہ میں ویسی نفرت نہیں ہوتی اور اس میں جو کھٹک اول وہلہ میں پیدا ہوتی ہے اگر اس پر عمل نہ کیا گیا بلکہ اس کو دبا دیا گیا تو پھر یہ کھٹک کمزور ہو جاتی ہے۔ اس لیے قلب کی اول ہی کھٹک پر عمل کرناچاہیے۔






إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةً، وَإِنَّ صِقَالَةَ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
ترجمہ:
ہر چیز کے صاف کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی چیز ضرور ہوتی ہے جس سے اُس کی گندگی اور زنگ دُور کیا جاتا ہے اور دلوں کی صفائی کے لیے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
[الدعوات الكبير للبيهقي:19، شعب الإيمان للبيهقي:519]

موت کا زیادہ دھیان رکھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔
( رواہ البیھقی فی شعب الایمان)



وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا (8)
ترجمہ:
اور ذکر کرتا جا نام اپنے رب کا اور چھوٹ کر(بےتعلق ہوکر) آ اسکی طرف سب سے الگ ہو کر۔

[سورۃ المزمل:8]





﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی ، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی، بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا ، وَالْآخِرَةُ خَیْْرٌ وَأَبْقَی، إِنَّ ہَذَا لَفِیْ الصُّحُفِ الْأُولَی، صُحُفِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی ﴾․
ترجمہ:
تحقیق فلاح اور حقیقی کام یابی حاصل کر لی اس شخص نے جس نے اپنے باطن کو، اندرون کو روح کو گندگیوں سے پاک کرلیا اور وہ الله کو یاد کرتا ہے، الله کا ذکر کرتا ہے اور الله کی بندگی، اس کی عبادت کرتا ہے۔
(سورة الأعلی، آیت:19-14)
حضرت معاذ بن جبل نے یہی سوال کیا کہ افضل ایمان کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے لیے محبت کرو اور اللہ ہی کے لیے بغض رکھواور اپنی زبان کو اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول رکھو۔
[مسند احمد:22130، شعب الایمان:574]
دوسری جگہ حضرت عبداللہ بن بسر سے منقول ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ حضور! اسلام کے احکام تو بہت ہیں مجھے ایک بات بتادیجئے جسے میں مضبوط پکڑلوں؟ تو آپ نے فرمایا: اپنی زبان کو اللہ تعالی کے ذکر سے تر رکھو۔
[ترمذی:3375 ابن ماجہ:3793]
حضرت معاذ بن جبلؓ سے نبی ﷺ کی روایت ہے:
(1) اللہ کی عبادت کر جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہو اور (2) شمار کر اپنے نفس کو قبر والوں میں، اور (3) ذکر کر اللہ ہر پتھر اور درخت کے قریب بھی، اور (4) کوئی برائی ہوجائے تو عمل کر فوراؒؒ نیکی کا: خفیہ(گناہ پر)خفیہ اور اعلانیہ پر اعلانیہ۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:34325]




امت کی اصلاح وفساد کا معیار:

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : اس امت کا پہلا سُدھار یقین اور زُھد(دنیا سے بے رغبتی) ہے اور اس کی پہلا بگاڑ بخل اور دنیا میں زیادہ رہنے کی آرزو ہے ۔
[شعب الایمان(امام)البیھقی:10350]




زاھدین علماءِ حکمت اور معالج ہوتے ہیں:
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا زَهِدَ عَبْدٌ فِي الدُّنْيَا إِلَّا أَثْبَتَ اللهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ ، وَأَنْطَقَ لَهَا لِسَانَهُ وَبَصَّرَهُ عَيْبَ الدُّنْيَا وَدَاءَهَا وَدَوَاءَهَا " . " وَأَخْرَجَهُ مِنْهَا سَالِمًا إِلَى دَارِ السَّلَامِ 
ترجمہ:
جو بندہ بھی زُھد اختیار کرے (یعنی دنیا کی رغبت و چاہت اپنے دل سے نکال دے ، اور اس کی خوش عیشی و خوش باشی کی طرف سے بے رُخی اختیار کرلے) تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے دل میں حکمت کو اگائے گا ، اور اس کی زبان پر بھی حکمت کو جاری کرے گا ، اور دنیا کے عیوب اور اس کی بیماریاں اور پھر اس کا علاج معالجہ بھی اس کو آنکھوں سے دکھا دے گا، اور دنیا سے اس کو سلامتی کے ساتھ نکال کر جنت میں پہنچا دے گا۔

[شعب الإيمان (إمام) البيهقي: 10050]




زاھد کون؟
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا رَأَيْتُمْ الرَّجُلَ قَدْ أُعْطِيَ زُهْدًا فِي الدُّنْيَا، وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ، فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ، فَإِنَّهُ يُلْقِي الْحِكْمَةَ۔
ترجمہ:
جب تم کسی بندہ کو اس حال میں دیکھو کہ اس کو زُھد(یعنی دنیا کی طرف سے بے رغبتی یعنی بےفائدہ اور فضول باتوں کو چھوڑنے کی خوبی) اللہ نے نصیب فرمائی ہے، تو اس کا قرب(صحبت)حاصل کرو ، کیوں کہ جس بندے کا یہ حال ہوتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمت کا القاء(دل میں ڈالا جانا)ہوتا ہے۔
[ابن ماجة:4101 طبراني:975 شعب الإيمان:10529]



خالق ومخلوق کا محبوب بنانے والا عمل:

نبی ﷺ نے فرمایا:
«ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ»
ترجمہ:
دنیا سے بےرغبت ہوجا اللہ تم سے محبت رکھے گا، اور لوگوں کے قبضے میں جو ہے اس بےرغبت ہوجا لوگ تجھ سے محبت کریں گے۔
[ابن ماجہ:4102، حاکم:7873، طبراني:5972]



شیخ شہاب الدین سہروردی (632ھ) نے اپنی کتاب "عوارف المعارف" میں اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عمر کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ:
ہر چیز کی ایک کنجی ہیں اور جنت کی کنجی مساکین اور فقراء کی محبت ہے. یہی لوگ اللہ تعالی کے جلیس ہیں قیامت میں۔
[من حدیث مالک بن انس،لأبی الحسن الأزدی(443ھ) :حدیث#69، الرسالۃ القشیریۃ:2/430،   الفرداحیاءمالدینی:4/199، مسند الفردوس،لامام الدیلمی(509ھ):4993] جامع الأحادیث، لامام السیوطی:(911ھ) : 45161







وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ ۔۔۔
ترجمہ:
اور روکے رکھ (اے نبی) اپنے آپ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام طالب ہیں اسکے منہ(دیدار) کے اور نہ دوڑیں تیری آنکھیں انکو چھوڑ کر۔۔۔

[سورۃ الکھف:28]




زاہدین کو بیوقوف کہنے والے جاہل ہوتے ہیں۔
دلیلِ قرآن:
۔۔۔خبردار یہی(بےوقوف کہنے والے)احمق ہیں لیکن علم نہیں رکھتے۔
[سورۃ البقرۃ:13]




عارفین(پہچاننے والے) کون؟

علم جس کا حال بن جائے۔

عَنْ زُبَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا حَارِثَ بْنَ مَالِكٍ؟ قَالَ: أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا , قَالَ: «إِنَّ لِكُلِّ قَوْلٍ حَقِيقَةً فَمَا حَقِيقَةُ ذَلِكَ؟» قَالَ: أَصْبَحْتُ عَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا وَأَسْهَرْتُ لَيْلِي وَأَظْمَأْتُ نَهَارِي ; وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى عَرْشِ رَبِّي قَدْ أُبْرِزَ لِلْحِسَابِ , وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُونَ فِي الْجَنَّةِ , وَكَأَنِّي أَسْمَعُ عُوَاءَ أَهْلِ النَّارِ , قَالَ: فَقَالَ لَهُ: «عَبْدٌ نُورُ الْإِيمَانِ فِي قَلْبِهِ , إِنْ عَرَفْتَ فَالْزَمْ»
[مصنف ابن أبي شيبة:30425]

حضرت زبیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے حارث بن مالکؓ! تم نے کس حال میں صبح کی ؟ عرض کیا : میں نے سچا مومن ہونے کی حالت میں صبح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یقینا ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ عرض کیا ! میں نے اس حال میں صبح کی کہ میرے نفس نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی، پس میں نے راتوں میں خود کو جگایا۔ اور دن میں خود کو پیاسا رکھا۔ گویا کہ میں اپنے رب کے عرش کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ حساب لینے کے لیے ظاہر ہوگیا۔ اور گویا کہ میں اہل جنت کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ جنت میں ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں اور گویا کہ میں اہل جہنم کی چیخ و پکار کی آواز سن رہا ہوں۔ راوی کہتے ہیں، پھر آپ ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا : یہ ایسا بندہ ہے کہ ایمان نے اس کے دل میں نور کو بھر دیا ہے۔ اگر تو نے اس کو پہچان لیا تو پھر اس کو لازم پکڑو۔



القرآن:
۔۔۔ تم ان کی آنکھوں کو دیکھو گے کہ آنسووؤں سے ابل رہی ہیں، اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے۔


نبی ﷺ نے تین بار حضرت حنظلہؓ سے فرمایا:
«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِي، وَفِي الذِّكْرِ، لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ، وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً»
[مسلم:2750، ترمذی:2452، ابن ماجہ:4239]
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم پر ہمیشہ وہی کیفیت طاری رہے جو میری صحبت اور حالت ذکر میں تم پر ہوتی ہے (یعنی تم ہر وقت صاف دل اور اللہ سے ڈرنے والے رہو تو یقینا فرشتے تم سے تمہارے بچھونوں پر اور تمہاری راہوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظہ! ایک ساعت(وقت) ہے اور ایک ساعت ہے.










عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَائِشَةُ إِيَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الْأَعْمَالِ، فَإِنَّ لَهَا مِنَ اللَّهِ طَالِبًا»
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایاؒ اے عائشہ! بچو ان بداعمالیوں سے بھی جنہیں معمولی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے ان پر بھی بازپرس ہونے والی ہے۔

[سنن ابن ماجہ: 4243، دارمی:2768، احمد:24415]








وَقَالَ ذُو النُّون رَأَيْت امْرَأَة بِبَعْض سواحل الشَّام فَقلت لَهَا من أَيْن اقبلت رَحِمك الله قَالَت من عِنْد أَقوام تَتَجَافَى جنُوبهم عَن الْمضَاجِع يدعونَ رَبهم خوافا وَطَمَعًا قلت وَأَيْنَ تريدين قَالَت إِلَى رجال لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَة وَلَا بيع عَن ذكر الله.
ترجمہ:
حضرت ذوالنونؒ (المتوفیٰ246ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے شام کے کسی ساحل پر ایک عورت دیکھی تو پوچھا: اللہ تم پر رحم کرے، کہاں سے آئی ہو؟ تو اس نے کہا کہ ان لوگوں کے ہاں سے آئی ہوں ۔۔۔ جن کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اور خوف ولالچ میں اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں(سورۃ السجدۃ:16)
میں نے پوچھا کہاؓ جا رہی ہو؟ تو اس نے کہا ان کے پاس ۔۔۔ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں رکھتے ۔۔۔ (سورۃ النور:37)
[التعرف لمذهب أهل التصوف، للكلاباذي(المتوفى: 380هـ): ص26]





مزید ایک روایت میں یہ بھی فرمایا:
کیا میں تجھے وہ چیز نہ بتاؤں جو تجھ سے زیادہ تجھ پر قابو رکھتی ہے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اے اللہ کے نبی۔ تو آپ نے فرمایا: یہ۔ اور آپ نے اپنی زبان کو کنارہ سے پکڑا۔۔۔اور فرمایا
نہیں گریں گے لوگ اپنے نتھنوں کے بل جھنم کی آگ میں مگر اسی(زبان)کی وجہ سے۔
[المسند الشاشی:1400، طبرانی:374] صَحِيح الْجَامِع: 1040 , الصَّحِيحَة: 1475 , 3320]



بدعتی راھب اور سنی زاھد میں فرق:
حضرت ابوذرغفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ وَلَا فِي إِضَاعَةِ الْمَالِ وَلَکِنْ الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا أَنْ لَا تَکُونَ بِمَا فِي يَدَيْکَ أَوْثَقَ مِنْکَ بِمَا فِي يَدِ اللَّهِ وَأَنْ تَکُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أُصِبْتَ بِهَا أَرْغَبَ مِنْکَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَکَ قَالَ هِشَامٌ کَانَ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ يَقُولُ مِثْلُ هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْأَحَادِيثِ کَمِثْلِ الْإِبْرِيزِ فِي الذَّهَبِ»
ترجمہ:
دنیا کا زہد یہ نہیں کہ آدمی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے اور نہ یہ ہے کہ اپنا مال تباہ کر دے لیکن زہد اور درویشی یہ ہے کہ آدمی کو اس مال پر جو اس کے ہاتھ میں ہے اس سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جتنا اس مال پر ہے جو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دنیا میں جب کوئی مصیبت آئے تو اس سے زیادہ خوش ہو بنسبت اس کے کہ مصیبت نہ آئے دنیا میں اور آخرت کے لیے اٹھا رکھی جائے۔
[ابن ماجہ:4100 ترمذی:2340]

تشریح:
بہت سے لوگ ناواقفیت سے زہد کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی دنیا کی ساری نعمتوں ، راحتوں اور لذتوں کو اپنے اوپر حرام کرلے ، نہ کبھی لذیذ کھانا کھائے ، نہ ٹھنڈا پانی پئیے ، نہ اچھا کپڑا پہنے ، نہ کبھی اچھے نرم بستر پر سوئے اور اگر کہیں سے کچھ آ جائے تو اس کو بھی اپنے پاس نہ رکھے ، خواہ جلدی سے کہیں پھینک ہی دے، دھوپ میں عبادت کرے وغیرہ، یہ رہبانیت عیسائیوں کی بدعت ہے۔[دلیلِ سورۃ الحدید:27] اور رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے [وَعَلَيْكَ بِالْجِهَادِ، فَإِنَّهُ رَهْبَانِيَّةُ الْإِسْلَامِ ۔۔۔ یعنی اور تم جہاد لازم کو لازم کرلو کہ یہی اسلامی رہبانیت ہے۔۔۔(احمد:11774)].
لہذا رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں جہاد کے علاؤہ بقیہ غلط خیالیوں کی اصلاح فرمائی ہے ، آپ کے ارشاد کا حاصل یہ ے کہ زہد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اپنی جن نعمتوں کا استعمال بندوں کے لئے حلال کیا ہے ، آدمی ان کو اپنے اوپر حرام کرلے ، اور اگر روپیہ پیسہ ہاتھ میں آئے تو اسے برباد کر دے ، بلکہ زہد کا اصل معیار اور تقاضا یہ ہے کہ جو اس دنیا میں اپنے پاس اور اپنے ہاتھ میں ہو اس کو فانی اور ناپائیدار یقین کرتے ہوئے اس پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرے ، اور اس کے مقابلہ میں اللہ کے غیر فانی غیبی خزانوں پر اور اس کے فضل پر زیادہ اعتماد اور بھروسہ کرے ، اور دوسرا معیار اور دوسری علامت زہد کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب کوئی تکلیف اور مصیبت بندہ کو پہنچ جائے تو اس کے اُخروی اجر و ثواب کی چاہت اور رغبت اس کے دل میں اس مصیبت اور تکلیف کے نہ پہنچنے کی آرزو سے زیادہ ہو یعنی بجائے اس کے کہ اس کا دل اس وقت یہ کہے کہ کاش یہ تکلیف مجھے نہ پہنچی ہوتی ، اس کے دل کا احساس یہ ہو کہ آخرت میں مجھے اس تکلیف کا جو اجر و ثواب ملے گا ، ان شاء اللہ وہ تکلیف نہ پہنچنے کے مقابلے میں میرے لیے ہزاروں درجہ بہتر ہو گا ۔ اور ظاہر ہے کہ آدمی کا یہ حال جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ اس کو عیش دنیا کے مقابلہ میں عیش آخرت کی زیادہ فکر ہو ، اور یہی زہد کی اصل و اساس ہے۔ 
اس حدیث سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ بندوں کو اس دنیا میں عافیت اور راحت کے بجائے تکلیف اور مصیبت کی تمنا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کرنی چاہئے ! دوسری حدیثوں میں اس سے صریح ممانعت آئی ہے اور صحیح روایات میں ہے کہ رسول الله ﷺ صحابہ کرامؓ کو ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت اور خیریت ہی کی دعا اور استدعا کیا کرو [سَلُوا اللَّهَ العَافِيَةَ(ترمذی:3594)] اور خود آپ کا معمول و دستور بھی یہی تھا ، پس حضرت ابوذرؓ کی مندرجہ بالا حدیث کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ بندہ اس دنیا میں مصائب اور تکالیف کی دعا یا تمنا کرے ، بلکہ اس کا مطلب و مدعا صرف یہ ہے کہ جب اللہ کے حکم سے کوئی مصیبت یا تکلیف بندہ کو پہنچ جائے تو پھر مومن کا مقام اور زہد کا تقاضا یہ ہے کہ اس مصیبت یا تکلیف کا جو اجر و ثواب آخرت میں ملنے ولا ہے وہ اس کو اس کے نہ پہنچنے سے زیادہ محبوب و مرغوب ہو ان دونوں باتوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔
برے اور جعلی و جھوٹے پیروں کی وجہ سے اچھے اور صحیح العقیدہ بزرگوں کا انکار نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ ہی ان بزرگوں کی وجہ سے ان جعلی لوگوں کی تعریف کی جائے گی.





جھوٹے پیروں پر امت کے ائمہ نے رد کیا ہے:

(۱) حضرت جنید بغدادیؒ ہمیشہ فرماتے رہتے:
عِلْمُنَا هَذَا مُقَيَّدٌ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ. فَمَنْ لَمْ يَحْفَظِ الْقُرْآنَ، وَيَكْتُبِ الْحَدِيثَ، وَلَمْ يَتَفَقَّهْ: لَا يُقْتَدَى بِهِ.
ہمارا یہ علم کتاب وسنت میں مقید ہے، لہٰذا جس نے قرآن حفظ نہیں کیا، اور احادیث نہیں لکھیں، اور ان کی فقہ(سمجھ)حاصل نہ کی ہو، تو وہ اس(علمِ تصوف)میں اس کی اقتدا(پیروی)نہیں کی جاتی۔




وَقَالَ غَيْرُهُ مِنَ الْعَارِفِينَ: كُلُّ حَقِيقَةٍ لَا تَتْبَعُهَا شَرِيعَةٌ فَهِيَ كُفْرٌ.
اور دیگر عارفین کا کہنا ہے: ہو وہ حقیقت(کا علم)جو شریعت کے پیچھے نہ چلے تو وہ کفر ہے۔
[مدارج السالکین(اما ابن قیم):3/136]



(۲) قَالَ الْإِمَامُ مَالِكٌ: مَنْ تَفَقَّهَ وَلَمْ يَتَصَوَّفْ فَقَدْ تَفَسَّقَ، وَمَنْ تَصَوَّفَ وَلَمْ يَتَفَقَّهْ فَقَدْ تَزَنْدَقَ، وَمَنْ جَمَعَ بَيْنَهُمَا فَقَدْ تَحَقَّقَ۔
[مرقاة المفاتيح:1/335]
امام مالکؒ نے فرمایا: جس نے (علم) فقہ حاصل کیا، مگر (علم) تصوف حاصل نہ کیا اس نے فسق(گناہ) کیا ۔ جس نے (علم) تصوف حاصل کیا، مگر (علم) فقہ حاصل نہ کیا وہ زندقہ(کفر)کیا۔ جس نے ان دونوں(علوم)کو جمع کیا پس وہ محقق ہوا۔


(۳) ان ائمہ میں علامہ ابن تیمیہؒ حنبلی (المتوقفیٰ784ھ) بھی شامل ہیں۔ وہ اگر ایک طرف جھوٹے و جعلی صوفیوں کی مذمت کرتے ہیں تو دوسری طرف صحیح و اصلی صوفیاء کرام کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں جن پر حضرت کی کئی کتب مثلاً: رسائل ابن تیمیہ، فتاویٰ ابن تیمیہ اور الفرق بین اولیاء الرحمان واولیاء الشیطٰن شاہد ہیں۔

چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
وَقَدْ انْتَسَبَ إلَيْهِمْ طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ وَالزَّنْدَقَةِ؛ وَلَكِنْ عِنْدَ الْمُحَقِّقِينَ مِنْ أَهْلِ التَّصَوُّفِ لَيْسُوا مِنْهُمْ۔
یعنی جعلی، جھوٹے اور زندیق بدعتی لوگ اپنے آپ کو صوفیاء کرام میں شمار کرتے ہیں لیکن محقق صوفیاء کے نزدیک وہ ان میں سے نہیں ہیں۔
[مجموع الفتاویٰ: 11/ 18 کتاب التصوف]

آگے مزید لکھتے ہیں:
الصُّوفِيَّةُ " ثَلَاثَةَ أَصْنَافٍ " صُوفِيَّةُ الْحَقَائِقِ وَصُوفِيَّةُ الْأَرْزَاقِ وَصُوفِيَّةُ الرَّسْمِ.
صوفیوں میں تین طرح کے لوگ ہیں پھر ان میں اصلی و محققین صوفیاء کی تعریف و توصیف کر کے باقی دو قسموں پر رد کرتے ہیں۔
[مجموع الفتاویٰ:11/ 19، کتاب التصوف]



صوفیاء کی مطلقاً برائی کرنے والا حدِ اعتدال سے باہر ہے:

امام ابن تیمیہؒ حنبلی (المتوقفیٰ784ھ) فرماتے ہیں:
فَطَائِفَةٌ ذَمَّتْ " الصُّوفِيَّةَ وَالتَّصَوُّفَ ". وَقَالُوا: إنَّهُمْ مُبْتَدِعُونَ خَارِجُونَ عَنْ السُّنَّةِ وَنُقِلَ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ فِي ذَلِكَ مِنْ الْكَلَامِ مَا هُوَ مَعْرُوفٌ وَتَبِعَهُمْ عَلَى ذَلِكَ طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْفِقْهِ وَالْكَلَامِ. وَطَائِفَةٌ غَلَتْ فِيهِمْ وَادَّعَوْا أَنَّهُمْ أَفْضَلُ الْخَلْقِ وَأَكْمَلُهُمْ بَعْدَ الْأَنْبِيَاءِ وَكِلَا طَرَفَيْ هَذِهِ الْأُمُورِ ذَمِيمٌ. وَ " الصَّوَابُ " أَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ فِي طَاعَةِ اللَّهِ كَمَا اجْتَهَدَ غَيْرُهُمْ مِنْ أَهْلِ طَاعَةِ اللَّهِ فَفِيهِمْ السَّابِقُ الْمُقَرَّبُ بِحَسَبِ اجْتِهَادِهِ وَفِيهِمْ الْمُقْتَصِدُ الَّذِي هُوَ مِنْ أَهْلِ الْيَمِينِ وَفِي كُلٍّ مِنْ الصِّنْفَيْنِ مَنْ قَدْ يَجْتَهِدُ فَيُخْطِئُ وَفِيهِمْ مَنْ يُذْنِبُ فَيَتُوبُ أَوْ لَا يَتُوبُ. وَمِنْ الْمُنْتَسِبِينَ إلَيْهِمْ مَنْ هُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ عَاصٍ لِرَبِّهِ.
ایک جماعت نے مطلق صوفیاء و تصوف کی برائی کی ہے، اور ان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ بدعتیوں کا طبقہ ہے جو اہل السنّت والجماعت سے خارج ہے. اور ایک جماعت نے صوفیاء کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے اور انبیاء کے بعد ان کو سب سے افضل  دیا ہے، اور یہ دونوں باتیں مذموم ہیں.
درست بات یہ ہے کہ صوفیاء الله کی طاعت کے مسئلہ میں مجتہد ہیں، جیسے دوسرے اہل طاعات اجتہاد کرنے والے ہوتے ہیں، اس لئے صوفیاء میں مقربین اور سابقین کا درجہ حاصل کرنے والے بھی ہیں اور ان میں مقتصدین کا بھی طبقہ ہے جو اہل یمین میں سے ہیں اور اس طبقہ میں سے بعض ظالم ہیں اور اپنے رب کے نافرمان بھی ہوتے ہیں۔
[مجموع الفتاویٰ، لابن تیمیہ:١١/١٨]

حقیقیت یہی ہے کہ آپ خود بھی محقق صوفی تھے اور سلسلہ قادریہ مبارکہ سے منسلک تھے بلکہ آپ کے صوفی اور قادری ہونے پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں مثلا:

1: موقف الامام ابن تیمیہ من التصوف والصوفیہ - از - ڈاکٹر احمد بن محمد البنانی

2: Ibn e Taymia Sufi of the Qadria Order.by: prof maqdasi

3: موقف الائمۃ الحرکۃ السلفیۃ من التصوف والصوفیہ - از - شیخ عبدالحفیظ مکی

4: آثار الاحسان - از - علامہ خالد محمود, پی ایچ ڈی لندن
نوٹ : آپ کی کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا کہ آپ حضرت سید الطائفہ سیدنا شیخ جنید بغدادی رحمہ اللہ اور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے بہت متاثر تھے۔



(۴) سید العارفین شیخ المشائخ حضرت عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ(م561ھ) اپنے مواعظ میں فر ما تے ہیں:
’’جس نے قرآن وحدیث کو چھوڑا وہ مرتد اورحد ِ اسلام سے خارج ہوا کہ اس کا انجا م آخرت میں دوزخ اور عذاب ہو گا اور دنیامیں غضب ِ الٰہی ۔شریعت کی پا بندی اور دروازہ ٔخداوندی پر جماؤ متحقق ہو جانے کے بعد عارف کے قلب کے لیے اس کے اور حق تعالیٰ کے درمیان (تعلق کا)ایک خاص مضمون ہو تا ہے کہ اسی کی وجہ سے وہ اس کامستحق ہو تا ہے کہ لوگ اس کی اتباع کریں اور اس کی باتیں سنیں اور اسی لیے ان لوگوں کے اتباع کی ممانعت ہے، جو شریعت کے پابند نہ ہوں؛ کیوں کہ پابندی ٔشریعت ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں اور وہی بنیاد ہے اس طریقت اور سلوک کی کہ جس نے عمل اور اخلاص سے اس کو مضبوط کیا اور مخلوق کو اس کی تعلیم دی، وہی حق تعالیٰ کے نزدیک باعظمت ہوا-- آگے فرماتے ہیں--میں اللہ کا تقرب حاصل کر نے کے لیے اللہ کے دین پر قائم ہو نے کے سوا اور کچھ نہیں جانتا ۔‘‘
[خطبات ِغوثیہ:۵۷۶، مجلس :۶۲]

اس کے ایک ایک حرف پر غور کر کے آج کل کے جاہل صوفیوں اور حقیقت اور طریقت کے مدعیوں کے احوال پر ان کو منطبق کر کے دیکھا جائے، تو واضح ہو جا ئے گا کہ یہ لوگ حقیقت سے کس قدر دور ہیں اور یہ کہ یا تو خود دھوکے میں پڑے ہو ئے ہیں یا دوسروں کودھو کہ دے رہے ہیں۔
نیز حضرت شیخ جیلانی رحمہ اللہ اپنی دوسری کتاب ’’فتوح الغیب ‘‘ میں بھی فرماتے ہیں :
’’پس مذکورہ رتبہ ٔ ولایت کو پا نے کے لیے اتباع ِنفس ،فسق و فجور اور لغویات سے پر ہیز کر تے ہو ئے تو حید ِخالص کے ساتھ شریعت کی پیروی کر اور یاد رکھ کہ جس حقیقت یا طریقت کی، شرع تائید وتوثیق نہ کرے اور اسے جائز نہ ٹھہرائے وہ صریحاً کفر والحاد ہے ۔‘‘
[فتوح الغیب: ۱۰۹]





(۵) مشہور صوفی بزرگ حضرت سید الاولیاء احمد کبیر رفاعی حسنی وحسینی رحمہ اللہ(م578ھ) نے فرمایا:
’’ جو خلافِ شریعت ہو راہ ِحق سے اس کا کوئی تعلق نہیں،اصل راستہ صرف شریعت ہے۔ یہ بات میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کے دلوں سے اہل ِمحو ، مجذوبین اور نظر انداز کیے ہوئے بھولے بھالے کی طرف سے حسن ِظن اور عقیدت نکال لوں ؛ کیوں کہ اولیا کے گروہ میں ایک ایسی قوم بھی ہے، جو اہل ِمحو اور جذب اور سادہ لوحی اور گمنامی کی زندگی گزارتی ہے ؛بل کہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مرتبہ ٔ ولایت کا کمال نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ِکریمہ کے کامل اختیارکا نام ہے اور فضل و خوبی اور فخر و مجد و بزرگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال پر عمل کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو عام کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے آراستہ ہو نے میں ہے ۔‘‘
[مجالس ِرفاعیہ: ۵۹ ]
اور لیجیے! آپ رحمہ اللہ ہی اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں :
’’ معروف کرخی ، داؤد طائی ، حسن بصری رحمہم اللہ اور ان صوفیانے جو ان حضرات کی صحبت سے فیض پا نے والے ہیں ،اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستوں کا خلاصہ دوجملوں میں بیان کیا ہے :(۱)شریعت پر مضبوطی کے ساتھ چلنا (۲)صرف اللہ تعالیٰ کا طا لب بننا ۔‘‘
[ارشادات ِحضرت رفاعی رحمہ اللہ : ۷۵]
نیز آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جو عمل او ر جو کوشش شریعت کے خلا ف کسی او ر طریق پر ہو، اس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ۔‘‘
[ارشادات ِحضرت رفاعی رحمہ اللہ : ۷۶]




(۶) اور حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمہ اللہ(م1034ھ) فرماتے ہیں:
’’اس نعمت ِعظمیٰ(ولایت)تک وصول سید الاولین والآخرین علیہ وعلی آلہ من الصلوات افضلہا ومن التحیات اکملہاکی اتباع سے وابستہ ہے، بندہ جب تک اپنے آپ کو پورے طور پر شریعت میں گم نہ کردے اور اوامر کی بجاآوری اور ممنوعات سے رکنے کے ساتھ مزین وآراستہ نہ کرے، اس د ولت ونعمت کی خوشبو بندے کی روح سونگھ نہیں سکتی ۔‘‘
[مکتوبات دفتر اول: مکتوب نمبر:۷۸]
یہ ساری عبارات ان اکابر صوفیا کی ہیں، جن کا لمحہ لمحہ یاد ِخدا و عشقِ رسول میں گزرتا تھا ، ان حضرات نے بتادیا کہ دین و شریعت کی اتباع کے بغیر کوئی شخص ولایت کا مقام کبھی اور کسی بھی صورت میں نہیں پا سکتا اورجو لوگ شریعت و دین کے خلاف رہتے ہوئے ولایت کا دعوی کرتے ہیں ، ان کی حقیقت حضرت سیداحمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ نے یوں کھول دی ہے ، وہ فرماتے ہیں:
’’ بر خوردار ! آج تم تصوف کے دعوے داروں کو دیکھ رہے ہو کہ ان کی اکثریت یا تو زندیقوں ،بے دینوں کی ہے یا بدعتیوں ، جدت پسندوں کی ہے یا پھر وہ آزاد منش ،لاپرواہ لوگ ہیں۔ یہ سبھی کے سبھی اول درجے کے جاہل اوراحمق لوگ ہیں، ہاں ! حیلہ تراشیوں میں ، دھوکہ دہی و مکاری اور یا وہ گوئی میں اور دوسروں کو مرعوب کر نے کے لیے کرتب بازی میں یہ لوگ بڑے تجربہ کار وماہر اورکہنہ مشق اور اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اہل ِحق سے حد درجہ بد ظن رہتے ہیں اور ان کے لیے بد ظنی پیدا کرتے ہیں ۔‘‘

[اللہ کے ساتھ اولیاء اللہ کا حال:۱۳۵]


مشہور صوفیاء کے نام:

حضرت علی بن حسین زین العابدینؒ (المتوفیٰ92/94ھ)، ان کے صاحبزادے محمد بن علی الباقرؒ(م 114 / 117 / 118ھ)، ان کے صاحبزادے جعفر بن محمد الصادق(م148ھ)،یہ حضرت علیؓ اور سیدنا حسنؓ وحسینؓ کے بعد ہوئے، اویس قرنیؒ، ھرم بن حیانؒ، حسن بن ابوالحسن بصریؒ(م110ھ)، ابوحازم سلمہ بن دینار مدینیؒ(م140ھ کے بعد)، مالک بن دینارؒ(م131ھ سے پہلے)، عبدالواحد بن زيد، عتبة الغلام، ابراهيم بن ادهم، فضيل بن عياض(م187ھ کی ابتدا میں)، ان کے لڑکے محمد بن فضیل، داؤد طائی(م165/166ھ)، سفیان بن سعید(م161ھ)، سفیان بن عیینہ، ابوسلیمان دارانی(م205 / 215ھ)، ان کے بیٹے سلیمان، احمد بن حواری دمشقی(م203ھ)، ابوالفیض ذوالنون بن ابراھیم مصریؒ(م246ھ)، ان کے بھائی ذوالکفل، سری سقطیؒ(م153 / 251ھ)، بشر بن حارث حافیؒ(م227ھ)، معروف کرخیؒ(م200ھ)، ابوحذیفہ مرعشی(م207ھ)، محمد بن مبارک صوری، یوسف بن اسباط رحمہم اللہ۔

[التعرف لمذهب أهل التصوف، للكلاباذي(المتوفى: 380هـ): ص27-28]




خراساں اور جبل کے صوفیاء:


أَبُو يزِيد طيفور بن عِيسَى البسطامي(م261ھ)، أَبُو حَفْص الْحداد النَّيْسَابُورِي (م264 /265 /267 /270ھ)، أحمد بن خضرويه الْبَلْخِي (م240ھ)، سَهل بن عبد الله التسترِي (م273ھ)، يوسف بن الْحُسَيْن الرَّازِيّ (م304ھ)، أَبُو بكر بن طَاهِر الْأَبْهَرِيّ (م300ھ)، علي بن سهل بن الْأَزْهَر الْأَصْفَهَانِي (م307ھ)، عَلى بن مُحَمَّد الْبَارِزِيّ، ابو بكر الْكِنَانِي الدينَوَرِي(م350ھ)، أَبُو مُحَمَّد بن الْحسن بن مُحَمَّد الرحاني، الْعَبَّاس بن الْفضل بن قُتَيْبَة ابْن مَنْصُور الدينَوَرِي، كهمس بن عَليّ الْهَمدَانِي، الْحسن بن عَليّ بن يزدانيار۔
[التعرف لمذهب أهل التصوف، للكلاباذي(المتوفى: 380هـ): ص29]






اہلِ سنت صوفیاء کی کتابیں:

۱۔ عقائدِ تصوف پر امام أبو بكر محمد بن أبي إسحاق بن إبراهيم بن يعقوب الكلاباذي البخاري الحنفي (المتوفى: 380هـ) نے کتاب ’’التعرف لمذهب أهل التصوف‘‘ ہے، اور انہی کی ’’ طَبَقَات الصُّوفِيَّة ‘‘ سلف صالحین اور متقدمین میں اکابر صوفیاء کے تعارف پر تصنیف فرمائی۔
http://ataunnabi.blogspot.com/2019/02/altaruf-attarruf-by.html?m=1



۲۔ امام محمد بن الحسين بن محمد بن موسى بن خالد بن سالم النيسابوري، أبو عبد الرحمن السلمي (المتوفى:412هـ) نے تصوف پر چالیس احادیث کو جمع فرمایا۔



۳۔امام أبو سعد أحمد بن محمد الأنصاري الهروي الماليني (المتوفى:412هـ) نے تصوف پر چہل حدیث ’’ كتاب الأربعين في شيوخ الصوفية ‘‘ جمع فرمائی۔



۴۔امام أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني (المتوفى:430هـ) نے تصوف پر چہل حدیث ’’الأربعون على مذهب المتحققين من الصوفية‘‘ لکھی، اور ’’حلية الأولياء وطبقات الأصفياء‘‘ کا اردو ترجمہ دیکھیں:
http://www.archive.org/stream/HilyatulAwliyaWaTabaqatulAsfiyaByShaykhAbuNuaymAhmadIsfahanir.a/HulyatulAwliyaWaTabaqatulAsfiyaByShaykhAbuNuaymAhmadIsfahanir.a#mode/1up



۵۔ جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي الجوزي (المتوفى:597هـ) کی کتاب ’’صفة الصفوة‘‘



شیخ ابو الليث نصر بن محمد السمرقندي (المتوفى:373هـ) نے 962  روایات پر مشتمل کتاب ’’تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين‘‘ لکھی۔
http://maarifulislam.com/?p=150



الحارث بن أسد المحاسبي، أبو عبد الله (المتوفى:243هـ) کی کتاب رسالة المسترشدين کا اردو ترجمہ تعمیرِ اخلاق دیکھیں:
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/2011/12/18/risala-al-mustarshidin-tameer-e-ikhlaq-by-shaykh-abu-abdullah-harith-muhasibir-a/



امام أبو طالب المكي (المتوفى:386هـ) کی کتاب قوت القلوب



امام عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك القشيري الشافعی (المتوفى: 465هـ) کی کتاب الرسالة القشيرية، نحو القلوب اور تفسیر میں لطائف الإشارات(تفسير القشيري)
https://besturdubooks.net/tasawwuf-ka-encyclopedia/



امام  أبو حامد محمد بن محمد الغزالي (المتوفى: 505هـ) نے کتاب إحياء علوم الدين لکھی ، جس میں سے امام عراقیؒ نے 4252 احادیث کی تخریج فرمائی ہیں۔
https://besturdubooks.net/ihya-uloom-ud-deen/



امام احمد بن علی الرفاعی الحسینی (512-578ھ) کی کتاب البنیان المشید کے اردو ترجمہ کیلئے دیکھیں:
https://besturdubooks.net/al-bunyan-ul-mushayyad/



سلسلہ قادریہ کے امام عبد القادر الجيلاني الحنبلی (المتوفى: 561 هـ) کی کتاب الغنية لطالبي طريق الحق اردو ترجہ غنیۃ الطالبین
 https://archive.org/details/Ghunya-Tut-Taalibeen
فتوح الغیب
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/2011/06/01/futooh-ul-ghaib-by-shaykh-abdul-qadir-jilani-r-a/
مواعظ
https://besturdubooks.net/mawaiz-e-shaykh-abdul-qadir-jilani/



امام أبو إسماعيل عبد الله بن محمد الهروي (المتوفى: 481هـ) کی منازل السائرین



سلسلہ سہروردیہ کے امام أبو حفص شهاب الدين السُّهْرَوَرْدي الشافعی (المتوفى: 632هـ) کی کتاب ’’ عوارف المعارف ‘‘ اور ’’ مشيخة السهروردي‘‘ میں اپنی سند سے 57  مستند احادیث کو جمع کیا ہے۔
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/2011/12/15/awarif-ul-maarif-by-shaykh-shahabuddeen-sohrwardi-r-a/



شیخ محیی الدین ابن العربیؒ (560-638ھ) کی ’’فصوص الحکم‘‘
https://archive.org/details/Fusoos-ul-hikamByIbnArabi-UrduTranslation
اس کی شرح ’’خصوص الکلم‘‘
https://archive.org/details/KhusoosUlKlalimFiFussoosIlHikam



امام ابن قيم الجوزية (691 - 751) کی کتاب ’’ مدارج السالكين‘‘ ، ’’إغاثة اللهفان في مصايد الشيطان‘‘ ، ’’کتاب الروح‘‘ اور ’’تلبیسِ ابلیس‘‘ مشہور ہیں۔
https://besturdubooks.net/talbees-e-iblees/



ابو محمد عفیف الدین الیافعی شافعی یمنی(698-768ھ) کی روض الریاحین کا اردو ترجمہ دیکھیں:
https://besturdubooks.net/karamat-e-aolia/



شیخ عبد الوھاب الشعرانی (898-973ھ) کی کتابیں:
https://besturdubooks.net/ahwal-us-sadeqeen/
آداب العبودیۃ کا اردو ترجمہ:
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/2013/03/11/adaab-e-bandagi-by-shaykh-abdul-wahhab-sherani-r-a-translated-by-shaykh-zafar-ahmad-usmani-r-a/
لطائف المنن کا اردو ترجمہ:
http://ataunnabi.blogspot.com/2019/03/jannat-e-adan-tarjma-lataif-e-manan-by.html?m=1


متاخرین ائمہ تصوف:

شیخ احمد سرہندی عرف مجدد الف ثانیؒ (المتوفیٰ 1034 ھ) 

شاہ ولي الله محدث دہلویؒ (1114 - 1176 هـ) کی فارسی کتاب "ہمعات" کا اردو ترجمہ دیکھیں:
https://besturdubooks.net/hamaat/
القول الجمیل کا اردو ترجمہ:
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/2011/09/17/al-qaul-al-jameel-by-shaykh-shah-waliullah-dehlvi-r-a/

شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (1159ھ — 1239ھ)

شاہ اسماعیل دہلوی شہید کی کتاب عبقات
https://besturdubooks.net/abqaat/

شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب اخبار الاخیار۔
https://besturdubooks.net/akhbar-ul-akhyar/







مسئلہ:
قرآن وسنت کے ظاہری معانی وتفاسیر کے ساتھ باطنی معانی وتفاسیر کو بھی ماننا جائز ہے۔
تشریح:
https://www.youtube.com/watch?v=WhxpmCdFL2E
علامہ نسفیؒ (المتوفیٰ 710ھ) نے اپنی کتاب عقائد میں لکھا ہے کہ: نصوص Statements کو ان کے ظاہر ہی کے موافق رکھا جائے اور ظاہری معانی سے صرف نظر کرتے ہوئے فرقہٴ باطنیہ کے بیان کردہ باطنی معانی ومفاہیم کی طرف جانا الحاد Crookness اور زندقہ heresy ہے۔ علامہ تفتازانیؒ (المتوفیٰ 793ھ) اس کی شرح میں فرماتے ہیں: ملاحدہ کو باطنیہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس بات کے دعوے دار ہیں کہ نصوص Statements اپنے ظاہری معانی کے مطابق نہیں ،بلکہ ان کے ایسے باطنی معانی ہیں جنہیں سوائے معلم خاص کے کوئی شخص نہیں جانتا۔ در حقیقت ان کا اصلی مقصد اس دعویٰ سے یہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ کی بالکلیہ نفی کردی جائے اور اسے معدوم ٹھہرا دیا جائے۔ پھر فرماتے ہیں کہ: اس کے بالمقابل بعض محققین کا یہ فرمان کہ نصوص اگرچہ اپنے ظاہری معانی کو ہی بتلاتی ہیں، لیکن ان ظاہری نصوص میں کچھ ایسے چھپے ہوئے باطنی اشارات ہوتے ہیں جو ایسے باریک اور لطیف امور کا پتہ دیتے ہیں جو اہلِ سلوک ومتصوفین(صوفیاء) پر واضح ہوتے ہیں۔ نیز ان دقائق اشارات اور ظاہری مرادی معانی میں باہم تطبیق(جوڑ) بھی ممکن ہوتی ہے، یہ بات ایمان کے کمال اور محض معرفت وبصیرت پر منحصر ہے۔ علامہ تاج الدین بن عطاء اللہ السکندری (المتوفیٰ 709ھ) اپنی کتاب ”لطائف المنن“ میں ارشاد فرماتے ہیں :جان لیجئے کہ ان متصوفین کرام سے اللہ اور رسول کے کلام کے بارے میں جو تفاسیر اور معانی غریبہ منقول ہیں یہ ظاہری معنی کو نص کے ظاہر سے پھیرنا نہیں کہلائے گا‘ بلکہ ظاہر آیت سے تو وہ معنی سمجھ آئے گا جس کے لئے آیت ذکر کی گئی ہے اور اہل زبان کا عرف جس کے مفہوم اور مطلب پر دلالت کرتا ہوگا، جبکہ آیت کے باطنی معنی سے مراد جو آیات قرآنی اور احادیث شریفہ کے باطنی اورمخفی حقائق واشارات کی طرف اس شخص کی رہبری ورہنمائی کرتے ہیں جس کے دل کو خدائے پاک نے منشرح فرمایا ہو اور حدیث شریف میں ہی اس مضمون کا باقاعدہ ذکر وارد ہوا ہے :
”لكل آية منها ظهر وبطن“ ۔۔۔ ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے
[مسند ابویعلیٰ:5149، شرح مشکل الآثار:3095، مسند البزار:2081، صحیح ابن حبان:75, طبرانی:10090]
چنانچہ تم کو ان کے اقوال سے مستفید ومستفیض ہونے سے صاحب جدل واعتراض کا یہ قول نہ روکے کہ: یہ تو اللہ اور اس کے رسول کے کلام میں تحریف ہے‘ یہ ہر گز تحریف نہیں ہے، تحریف تو اس وقت ہوتی جب یہ حضرات یوں دعویٰ فرماتے کہ: ”اس آیت کے یہی معنی ہیں اس کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں “ اور صوفیہٴ کرام تو یہ دعویٰ ہی نہیں کرتے ‘ بلکہ ظاہر کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے موضوع معانی کو مقصود جانتے ہو ے ان باتوں کا ادراک فرمالیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ ان کو سمجھاتے اور سکھاتے ہیں۔
[الإتقان في علوم القرآن:4/226، الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب]


اس مضمون کے متعلق کئی احادیث واررد ہوئی ہیں جو اس بیان کردہ مفہوم کی تائید کرتی ہیں، رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان عالیشان:
”وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ“ ۔۔۔ اور اس(قرآن)کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔
[ترمذی:2906, حاکم:2040]

وَلَا تَنْقَضِي عِبَرُهُ، وَلَا تَفْنَى عَجَائِبُهُ ۔۔۔ اور اس کے عبرت انگیز باتیں ختم نہیں ہوتیں، اور اس کے عجائبات فنا نہیں ہوں گے۔
[دارمی:3375]

اسی طرح یہ ارشاد پاک کہ
”فِيهِ نَبَأُ مَا قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ“ ... اس میں(غیبی)خبریں ہیں تم سے پہلے اور بعد والوں کی۔
[ترمذی:2906 دارمي:3374 بزار:836]

اور حضرت ابن عباسؓ کی یہ روایت کہ
”إِن الْقُرْآن ذُو شجون وفنون وَظُهُور وبطون ۔۔۔ (بےشک قرآن ذومعنیٰ اور کئی فنون والا اور اور اس کے ظاہری وباطنی علوم ہیں)

لَا تَنْقَضِي عجائبه وَلَا تبلغ غَايَته ۔۔۔ (اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی اس کی انتہاء کو پہنچ سکتا ہے)

فَمن أوغل فِيهِ بِرِفْق نجا وَمن أوغل فِيهِ بعنف غوى ۔۔۔ (جو اس میں نرمی سے داخل ہوا نجات پاگیا اور جو شخص اس میں سختی سے داخل ہوا وہ گمراہ ہوا)

أَخْبَار وأمثال وَحرَام وحلال وناسخ ومنسوخ ومحكم ومتشابه وَظهر وبطن ۔۔۔ (اس میں خبریں، مثالیں حرام وحلال، ناسخ ومنسوخ، محکم اور متشابہ اور ظاہر وباطن ہے)

فظهره التِّلَاوَة وبطنه التَّأْوِيل ۔۔۔ (سو اس کا ظاہر اس کی تسمجھ کر پڑھنا ہے اور اس کا باطن تاویل ہے)

فجالسوا بِهِ الْعلمَاء وجانبوا بِهِ السُّفَهَاء وَإِيَّاكُم وزلة الْعَالم“ ۔۔۔ (لہٰذا علماء کی مجلس میں بیٹھا کرو اور بیوقوفوں سے کنارہ کش رہو اور بچو تم عالم کی لغزش سے)۔
[تفسير الماتريدي:1/281, تفسیر الکرمانی:1/88، الدر المنثور:2/150 تفسیر سورۃ آل عمران:۷]



اور دیگر کئی مرفوع وموقوف روایات اس مضمون کی تائید کرتی ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان مقدس:
”أَوْ فَهْمٌ أُعْطِيَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ“ ... اور وہ فہم جو عطا ہوتا ہے مسلم شخص کو۔ [بخاری:101]
جسے امام بخاریؒ (المتوفیٰ 256ھ) نے” کتاب العلم“ میں نقل فرمایا ہے یہ اس باب میں واضح ترین حجت ہے اور امام شافعیؒ (المتوفیٰ 204ھ) کا قول ماقبل میں گذر چکا اور حضرت ابن عمرؓ نیز امام مجاہدؒ (المتوفیٰ 101ھ) اور دیگر حضرات کے فرامین بھی میں نے ماقبل میں ذکر کردیئے جن کو دوبارہ دیکھ لیا جائے۔ اور اگر قرآنی علوم ومعارف صرف اس کے ظاہری الفاظ کے حصار میں منحصر ہوتے اور دقائق ولطائف کے متعلق اہل حقائق کے لئے کچھ نہ ہوتا اور مخفی اشارات اور دلالات سے جن پر قرآنی مفہوم دلالت کرتا ہے اور قرآن کریم کی بلاغت ان کاپتہ دیتی ہے، قرآن کریم میں نہ پائے جاتے تو کسی عالم کو دوسرے عالم پر نہ کسی پیش رو کو پس رو پر اور بعض متأخرین کو بعض متقدمین پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہوتی اور حضرات ابن مسعودؓ کے اس ارشاد کا کہ: ”وأعمقهم علماً“ ۔۔۔ اور ان کا علم گہرا تھا۔ [أصول اعتقاد أهل السنة:ج۶۲ ص۵] کا کیا مقصد ہوتا؟ ان دلائل کے پیشِ نظر دعویٰ واضح طور پر ثابت ہے، معاملہ واضح اور ان ہر دو قسم کی تاویلات میں فرق منکشف ہوگیا اور باوجود اس کے کہ اہل حقائق ان لطائف ومعارف کو جن کو وہ باطنی مفاہیم سے سمجھتے بوجھتے ہیں ،کسی ایک کے بارے میں بھی یہ منقول نہیں کہ انہوں نے ظاہری معانی پر عمل اور اعتقاد چھوڑا ہو ،پھر صبح روشن کی فجر کے مانند یہ معاملہ کیونکر ان معترضین پر ملتبس ہوا؟ حالانکہ صوفیا کرام تو علم الٰہی میں رسوخ اور کمال رکھتے ہیں اور اعمال میں سچے اور مخلص ہوتے ہیں بخلاف ان ملحد فرقہٴ باطنیہ والوں کے جوشریعت اسلامیہ کے منکر،آیت کے ظاہری معانی سے تحریف کرنے والے، اپنے علم میں کج رو اور گمراہ اور اپنے عمل میں جھوٹے ہیں،ان اولیاء وصوفیاء کرام کی کیا شان اور ان باطنیوں کا کیسا گرا ہوا درجہ؟ ان میں ہرایک کو واضح علامات سے تم پہچان لوگے ۔اللہ رب العزت نے انہی باطنیہ گروہ والوں ہی کے متعلق ارشاد فرمایا:
فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۔۔۔
سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے۔
[سورۃ آل عمران:7]
تلاش حق اور فتنہ پروری میں کیا نسبت؟ اور حق طلبی کا مقابلہ باطل جوئی سے کیونکر ہو؟

أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ۔۔۔
کیا وہ شخص جو اپنے منہ اوندھا چلے وہ وہدایت یافتہ ہے یا وہ جو سیدھا چلتا ہے سیدھی راہ پر۔
[سورۃ الملک:22]
مزید تفصیلات کے لئے الاتحاف شرح الاحیاء جزء رابع کی طرف مراجعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہی حق کی طرف رہبری کرنے والے ہیں۔


کتبِ تفاسیر صوفیاء:
(۱)آلوسی نیشاپوری (المتوفیٰ 1270ھ)، تفسیر روح المعانی
(۲)سہل تستری(المتوفیٰ 273/283ھ)، تفسیر القرآن العظیم
(۳)ابوعبدالرحمان سلمی(المتوفیٰ 412ھ)، حقائق التفسیر
(۴)عبدالرزاق کاشانی(المتوفیٰ 730ھ)، تفسیر ابن عربی
(۵)ابو محمد روز بھان شیرازی(المولود 666ھ)، تفسیر عرائس البیان فی حقائق القرآن
(۶)نجم الدین دایہ(المتوفیٰ 654ھ)، تفسیر التاویلات النجمیہ (مخطوطہ)
(۷)شیخ کمال الدین کاشمی سمرقندی، تاویلات القرآن





الله عزوجل نے ارشاد فرمایا:
وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً [سورۃ الکھف:65] اور سکھایا ہم نے اسے اپنے پاس علم میں سے۔
یعنی غیبی خبریں جو بندے کو حاصل ہوتی ہیں الہام کے طریق سے۔
[تفسیر نسفی:2/310]

اور فرمایا: فَأَلهَمَها فُجورَها وَتَقوىٰها [سورۃ الشمس:8] پھر اس نے اِلہام کر دیا اس کو اس کی بدی اور پرہیزگاری کا.
لیکن یہ الہام(دل میں بات کا ڈالنا) یا کشف(کھلنا) کوئی شرعی دلائل سے نہیں کہ ان سے کوئی شرعی حکم ثابت ہوسکتا ہو، البتہ یہ شرعی احکام کے اسرار کا مظہر ہیں.

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ ، ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [سورة الحجر آية 75]۔
ڈرو مومن کی فراست(دل کی آگاہی) سے پس بےشک وہ دیکھتا ہے الله کی روشنی (نور) سے. پھر (نبی نے قرآن کی یہ آیت) قرأت فرمائی: "بےشک اس میں یقیناً نشیانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے.
[جامع الترمذي » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » رقم الحديث: 3071]

رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
«مَنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ وَرَّثَهُ اللَّهُ تَعَالَى عِلْمَ مَا لَمْ يَعْلَمْ»
جس نے عمل کیا علم پر، اللہ تعالیٰ اسے وہ علم بھی دےگا جو وہ نہیں جانتا۔
[بحر الفوائد المسمى بمعاني الأخبار للكلاباذي:ص99، رسالة المسترشدين:ص100، إحياء علوم الدين:1/71]
قرآنی شاہدی:
اور جنہوں نے ہمارے لیے "جدوجہد" کی ہم انھیں ضرور اپنی "راہیں" سمجھا دیں گے اور بیشک الله "محسنین" کے ساتھ ہے۔(سورۃ العنكبوت : آیت 69)
[التعرف لمذهب أهل التصوف:ص62]













مسئلہ:
صوفیاء کا کلام اکثر لطیف اشارات پر مبنی ہوتا ہے، جو ظاہر کے خلاف بھی ہوتا ہے۔

تشریح:
اکثر بزرگوں کی تقریر و تحریر میں بعض مضامین خلاف ظاہر پائے جاتے ہیں جن کی توجیہ مراد سننے کے بعد بلکل صحیح وہ مطابق الواقعہ ثابت ہوتے ہیں، کبھی اس کا سبب غلبۂ حال ہوتا ہے، کبھی قصداً عوام سے گہری باتیں چھپانا، کبھی طالب کی تشویب وترغیب مقصود ہوتی ہے۔ مگر بعد تفسیر معلوم ہوا کہ کلام سچے ہے بس عبارات مرحومہ دیکھ کر کسی صاحب کمال یا صاحب حال پر جراح قدح نہ کریں کہ یہ احترامِ مسلم واکابر کے خلاف ہے۔

امثال ونظائر:

(3)حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ بازار میں تشریف لائے اور لوگوں سے فرمایا کہ میں تم کو یہاں دیکھتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ کی میراث مسجد میں تقسیم ہو رہی ہے یہ سن کر لوگ ادھر چلے اور پھر لوٹ آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے تو کچھ تقسیم ہوتے نہیں دیکھا صرف ایک قوم کو دیکھا کہ قرآن پڑھنے میں لگ رہی ہے آپ نے فرمایا یہی تو میراث ہے تمہارے نبی کی۔

[المعجم الاوسط:1429،بسند حسن]




(2) حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری جن کا گھر مدینے میں بہت دور تھا مگر کوئی نماز ان کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ فوت نہ ہوتی۔ ہم لوگوں کو ان کے حال پر ترس آیا،میں نے ان سے کہا کہ میاں فلاں نے کتنا اچھا ہو اگر تم ایک درازگوش خرید لو کہ تم کو گرم کنکر اور پتھر سے بچائے اور زمینی کیڑوں سے بھی حفاظت رہے۔وہ شخص کہنے لگا یاد رکھو میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میرا گھر ان(نبی) کے دولت خانے سے متصل(جڑا ہوا) ہو۔ حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ اس کہنے کا مجھ پر عظیم بار ہوا حتیٰ کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوا اور سب قصہ بیان کیا۔ آپ نے ان کو بلایا، انہوں نے وہ صحیح جواب دیا اور یہ عرض کیا کہ میں اپنے قدم سے چلنے میں امید ثواب کی رکھتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم کو وہی ملے گا جس کا تم خیال رکھتے ہو۔


[مسلم:663،ابن ماجہ:783، احمد:21213]




(3)حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آکر رسول الله ﷺ سے سواری مانگی تو آپ نے فرمایا کہ میں تجھے اونٹنی کا بچہ دوں گا اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ مجھے سواری کے لئے چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا ہی بچہ ہوتا ہے۔

[ابوداؤد:4998، ترمذی:1991، احمد:13817]




(4)حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! دعا فرمادیجئے کہ اللہ مجھے جنت میں داخل فرما دے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت داخل نہی ہوگی وہ عورت روتی ہوئی لوٹنے لگی۔ تو آپ نے فرمایا کہ اسے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اللہ جل شانہٗ سب اہلِ جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنا دیں گے۔

الله نے فرمایا: ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے، یعنی ہم نے ان کو ایسا بنایا کہ وہ کنواریاں ہیں۔(سورۃ الواقعہ:35-36)

[ترمذی:236، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:2987]




(5)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن بعض لوگوں سے فرمائیں گے کہ میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی؟ وہ عرض کرے گا اے پروردگار میں تیری عادت کیسے کر سکتا ہوں؟ آپ تو (ہر عیب سے پاک)رب العالمین ہیں. ارشاد ہوگا کہ تجھ کو خبر نہیں ہمارا فلانا بندہ بیمار ہوا تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی تجھ کو خبر نہیں اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تم مجھ کو اس کے پاس پاتا۔۔۔

[صحیح مسلم:2569، مسند اسحاق بن راھویہ:28، صحیح ابن حبان:269]

پھر اسی طرح حدیث میں کھانا مانگنے کا اور پانی مانگنے کا ذکر آیا ہے (یعنی ارشاد ہوگا کہ ہم نے تجھ سے کھانا مانگا، پانی مانگا، وہ بندہ وہی عرض کرے گا اور وہی جواب ملے گا) اور ان دونوں میں جواب یہی ہے کہ تو مجھ کو اس کے پاس پاتا۔




ان میں اشارہ ہے کہ ایسی تعبیریں مجاز ہوا کرتی ہیں حقیقت پر محمول کرکے اپنے عقائد خراب نہ کیے جائیں، اور نہ ہی سنت کے پابند بزرگوں کی ایسی باتوں کا تعاقب کیا جائے۔




قرآن پاک میں تو اس قسم کی بہت سی آیتیں وارد ہوئی ہیں جن کی تعبیریں مجاز ہوا کرتی ہیں، حقیقت نہیں:

اَیَّتُھَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ[یوسف:70]
اے قافلے والو ! تم چور ہو۔

کَانَ وَرَآءَھُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا[الكهف:79]
ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین کر رکھ لیا کرتا تھا۔

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔[آل عمران:54]
اور مکر کیا ان(کافروں)نے اور مکر کیا اللہ نے اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے۔












مسئلہ:

بعض اہلِ حال سے غلبہ حال میں ایسے کلمات صادر ہوجاتے ہیں جو شریعت پر منطبق نہیں ہوتے۔ ’’بے اختیاری‘‘ کی حالت میں جو غلبہ وارد کی وجہ سے قواعدِ شریعت کے خلاف کوئی بات منہ سے نکل جائے وہ ’’شطح‘‘ ہے۔ اس شخص پر نہ گناہ ہے اور نہ ہی اس بات میں اس کی تقلید جائز ہے۔
تشریح:

اکابر(بزرگوں) کے کلام میں بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن پر ظاہر بیں کفر تک کا فتویٰ لگادیتے ہیں اس قسم کے الفاظ غلبہ شوق یا سکر کی حالت میں نکل جاتے ہین وہ نہ موجبِ کفر ہیں اورنہ موجبِ تقلید۔ 

حدیث میں آیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جیساکہ ایک آدمی سفر میں جارہا ہو اور اس کی اونٹی پر اس کا ساراسامان کھانے پینے ک اہے اورایسے جنگل میں جو بڑا خطرناک وہلاکت کا محل ہے تھوڑ دیر کو لیٹا, ذرا آنکھ لگی اور جب آنکھ کھلی تو اس کی اونٹنی کہیں بھاگ گئی۔ وہ ڈھونڈتا رہا اور گرمی اور پیاس کی شدت بڑھ گئی تو وہ اس نیت سے اسی جگہ آکر لیٹ گیا کہ مرجائوں گا اور ہاتھ پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر میں آنکھ کھلی تو اس کی اونٹنی پاس کھڑی تھی اس پر سارا سازوسامان کھانے پینے کا موجود تھا۔ اس وقت میں اس کی خوشی کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا اور خوشی میں کہنے لگا: اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ شدتِ فرح سے چوک گیا۔ یہ روایت بخاری(6309) ومسلم(2747) مین حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت انسؓ سے مختلف الفاظ سے نقل کی گئی ہے۔

مثلاً:

’’سب تیرا ہی ظل(سایہ) ہے‘‘ اس جملے کا واضح مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات کا وجود ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود سے ہے۔ موجودات کا اپنا مستقل ذاتی وجود نہیں بلکہ تمام موجودات اپنے وجود میں ذاتِ باری تعالیٰ کی محتاج ہیں اور اس کی قدرتِ کاملہ کا نتیجہ ہیں۔
’’میں ہوں وہ تو ہے، جو تو ہے وہ میں ہوں‘‘ یہ جملہ صوفیاء کی اصطلاح ’’عینیت‘‘ کی ایک تعبیر ہے جس کا مطلب صوفیاء کے یہاں عین ذاتِ باری تعالیٰ کا احتیاج ہے۔ یعنی جتنی مخلوقات اور اسبابِ ظاہریہ ہیں، ان کا وجود اور ان کی تاثیر ہیچ اور کالعدم نظر آنے لگے اور آدمی اپنے کو صرف عین ذاتِ باری تعالیٰ کا محتاج سمجھنے لگے۔ جس شخص کو اللہ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اس کائنات میں اللہ کے وجود کی معرفت حاصل کرتا ہے تو اسے تمام موجودات کالعدم اور ان کی تاثیرات ہیچ نظر آنے لگتی ہے، اور اسے اپنے ہر عمل کے پیچھے ذاتِ باری تعالیٰ کی وہ قدرت نظر آتی ہے جس کی مندرجہ آیت کریمہ میں نشاندہی کی گئی ہے:
فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۚ وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡہُ بَلَآءً حَسَنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۷﴾
ترجمہ:
سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور تو نے مٹھی نہیں پھینکی جب کہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی اور تاکہ ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان کرے بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے.
[سورۃ الانفال:17]

اور جس کو حدیثِ قدسی میں یوں بیان کیا گیا ہے:
وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا
ترجمہ:
...اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
[صحیح بخاری:6502، صحيح ابن حبان:347]

اس کی نظیر یوں سمجھئے: دن میں آسمان پر سوج موجود ہو تو ستارے نظر نہیں آتے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ستارے موجود ہی نہیں بلکہ ستارے یقینا موجود ہوتے ہیں لیکن سورج کا وجود ان پر اس طرح غالب ہوجاتا ہے کہ اس کے سامنے ان کا وجود نظر نہیں آتا، اسی طرح جس شخص کو اللہ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے وجود کی معرفت حاصل کرلیتا ہے تو تمام وجود اسے ہیچ اور کالعدم نظر آتے ہیں، وحدت الوجود کا صاف اور صحیح مطلب یہی ہے۔
[مستفاد از فتاویٰ عثمانی: ۱/۷۱، ۷۲]


اس حدیث کا مضمون عبارت کے مضمون سے کافی قریب ہے۔ پس ’’عینیت‘‘ اسی طرح ’’وحدة الوجود‘‘ کی اصطلاح کا صرف اتنا مطلب ہے کہ عارف کو ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود کی معرفت ہوجائے اوراس کو اس درجہ استغراق ہو کہ جملہ مخلوقات سے بے خبر ہوجائے۔ اور تمام مخلوقات سے بے نیاز ہوکر اپنے کو صرف اسی ایک ذات کا محتاج سمجھنے لگے۔ ’’وحدة الوجود‘‘ یا ’’عینیت‘‘ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمام موجودات اور باری تعالیٰ کا وجود متحد ہے، جیسا کہ ظاہراً سمجھ میں آتا ہے، بلکہ یہ کھلا ہوا شرک ہے۔



جبکہ امام غزالیؒ (المتوفى: 505هـ) فرماتے ہیں:
والرابعة أن لا يرى في الوجود إلا واحداً وهي مشاهدة الصديقين وتسمية الصوفية الفناء في التوحيد لأنه من حيث لا يرى إلا واحداً فلا يرى نفسه أيضاً وإذا لم ير نفسه لكونه مستغرقاً بالتوحيد كان فانياً عن نفسه في توحيده بمعنى أنه فني عن رؤية نفسه والخلق.
ترجمہ:
''توحید کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ بندہ صرف ذات باری ہی کو موجود دیکھے۔ یہی صدیقین کا مشاہدہ ہے اور صوفیاء اِسے ہی فنا فی التوحید کہتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس مرتبہ میں بندہ چونکہ وجود واحد کے سوا کچھ نہیں دیکھتا، چنانچہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا۔ اور جب وہ توحید میں اس استغراق(ڈوب جانے) کے باعث اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا تو اُس کی ذات اِس توحید میں فنا ہو جاتی ہے، یعنی اِس مرتبہ میں اُس کا نفس اور مخلوق، دونوں اُس کی نگاہوں کے لیے معدوم(غیرموجود) ہوجاتے ہیں۔''
[احياء علوم الدين:4/245]

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شاعر کی کہی سب سے سچی بات لبید شاعر کا یہ کلام ہے:
أَلَا کُلُّ شَیۡءٍ مَا خَلَا اللہَ، بَاطِلُ ۔۔۔
یعنی ۔۔۔ اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔
[بخٓاری:6147]


لہٰذا کسی صاحبِ فن پر اعتراض کرنے سے پہلے متعلق فن کی اصطلاحات اور تعبیرات کا جاننا ضروری ہے ، ورنہ پھر ایک صحیح العقیدہ کی طرف غلط اور کفریہ عقائد منسوب کرکے اس وعید کے مستحق ہوں گے جو حدیث پاک میں وارد ہوئی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ: كَافِرٌ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ، وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ».
ترجمہ:
جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پہ کفر آئے گا اگر وہ واقعی کافر ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا۔
[صحیح مسلم:60، صحیح ابن حبان:250]




امام غزالیؒ (المتوفى: 505هـ) نے لکھا ہے:
فاعلم ان هذه غاية علوم المکاشفات واسرار هذا العلم لا يجوز ان تسطر فی کتاب، فقد قالالعارفون: افشاء سر الربوبية کفر.
ترجمہ:
پس جاننا چاہیے کہ علوم مکاشفات کی اصل غایت یہی توحید ہے اور اِس علم کے اسرار کسی کتاب میں لکھے نہیں جا سکتے، اِس لیے کہ عارفین کا قول ہے کہ ربوبیت کے راز کو فاش کرنا کفر ہے۔
[احياء علوم الدين:4/246]

حضرت علیؓ نے فرمایا:
«حَدِّثُوا النَّاسَ، بِمَا يَعْرِفُونَ أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ، اللَّهُ وَرَسُولُهُ»
ترجمہ:
لوگوں کو ایسی حدیث(بات)کہو جو وہ سمجھ سکیں،کیا تم چاہتے ہو کہ الله اور اس کے رسول کو جھٹلایا جاۓ؟
[بخاری:127]

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے:
«مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ، إِلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً»
ترجمہ:
جب تم لوگوں سے ایسی حدیث(بات)کہو گے جو ان کی عقل نہ سمجھ سکے تو یہ ان کیلئے فتنہ کا باعث بن جائے گی۔

[مسلم:1/11 مقدمہ]




علمائے ظاہر سے علمائے باطن افضل ہیں۔

نبی کے صحابہ(حضرت جندب اور حذیفہ)فرماتے کہ ہم نے سیکھا ایمان قرآن(حفظ کرنے)سے پہلے.
[التاریخ الکبیر،امام بخاری:2/221]
اور عنقریب آۓگی ایک قوم آخر(بعد کے)زمانے میں جو قرآن سیکھیں گے ایمان سے پہلے.
[التمھید،امام ابن عبد البر:14/133]
یعنی
ہم نے علم سے پہلے سیکھا ادب، اخلاق، تقوی اور الله کیلئے اخلاص. پھر سیکھا ہم نے قرآن تو زیادہ ہوا ہمارا اس سے ایمان.
[شرح رسالۃ العبودیۃ:3/21]



حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ علم کثرتِ روایت کا نام نہیں، بلکہ علم تو خشیتِ الٰہی کا نام ہے۔
[کتاب الزھد(امام)احمد بن حنبل: 864، الزھد(امام)ابؤداود:172]



حضرت حسن سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
علم کی دو(2)قسمیں ہیں: ایک وہ جو دل میں(الله کا ڈر پیدا کرتا)ہے، یہی علم نافع ہے۔ اور جو علم زبان پر ہو، تو وہ اللہ کی حجت(الزامی دلیل)ہے اس کے بندوں پر۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك:1161، مصنف ابن ابی شیبہ:34361، دارمی:376، شعب الایمان للبیھقی:1686، جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر:1150]
... بس الله سے ڈرتے ہیں اس کے بندوں میں علماء ہی۔..
[تفسیر الدر المنثور للسیوطی:7/21-تفسیر سورۃ فاطر:27]

https://www.youtube.com/watch?v=zsxXZPm1ZEA

رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
جس نے علم حاصل کیا اس کی فضیلت مجھے اس شخص کی فضیلت سے زیادہ محبوب ہے جس نے عبادت کی، اور تمہارا "بہترین" دین وَرع(دل کا ڈر)ہے۔
[المستدرک(امام)حاکم: کتاب العلم، باب فضل العلم احب من فضل العبادۃ، حدیث#314]


حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک دعا یہ بھی ہے اے اللہ میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں علم غیر نافع سے، اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے ، اور اس دل سے جس میں خوف نہ اور ایسے نفس سے جو کبھی بھی سیر نہ ہو۔
[ابن ماجہ:250، ابوداؤد:1584]


حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ! جو علم آپ نے مجھے عطا فرمایا اس سے نفع بھی دیجئے اور مجھے ایسے علوم سے نواز دیجئے جو میرے لئے نافع اور مفید ہوں اور میرے علم میں خوب اضافہ فرما دیجئے اور ہر حال میں تمام تعریفیں آپ ہی کے لیے ہیں۔
[ترمذی:3599، ابن ماجہ:251]



 جس نے علم حاصل کیا تاکہ (1)علماء کا مقابلہ کرے یا (2)کم علم لوگوں سے جھگڑا(بحث)کرے یا (3)لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے۔۔۔۔۔
[ترمذي2654، ابن ماجة:253، طبراني:199، حاكم:293]


إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا۔
[ابوداود:5012]
بعض علوم جہالت ہیں۔



۔۔۔۔یہ(شعر، انساب اور عرب کی تاریخ کا) علم ہے جس کا جاننا فائدہ نہیں دیتا اور اس سے جہالت نقصاندہ نہیں۔
[جامع بیان العلم وفضلہ:531+1385]




حقیقی عالمِ دین کی پہچان:
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ:
«أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِالْفَقِيهِ حَقِّ الْفِقْهِ؟ مَنْ لَمْ يُقَنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ، وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُمْ فِي مَعَاصِي اللَّهِ، وَلَمْ يُؤَمِّنْهُمْ مَكَرَ اللَّهِ، وَلَمْ يَتْرُكِ الْقُرْآنَ إِلَى غَيْرِهِ. أَلَا لَا خَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لَيْسَ فِيهَا تَفَقُّهٌ، وَلَا خَيْرَ فِي فِقْهٍ لَيْسَ فِيهِ تَفَهُّمٌ، وَلَا خَيْرَ فِي قِرَاءَةٍ لَيْسَ فِيهَا تَدَبُّرٌ.» 
یعنی
کیا میں تمہیں نہ خبر دوں پورے سمجھ والے فقیہ(عالم)کی؟ (یہ وہ ہے) جو لوگوں کو نہ رحمتِ الٰہی سے مایوس کرتا ہے اور نہ اللہ کی نافرمانی کی اجازت دیتا ہے، اور نہ ہی انہیں اللہ کی تدبیر(ڈھیل ومنصوبہ بندی)سے نڈر کرتا ہے، اور نہ قرآن کو چھوڑکر کسی اور طرف جاتا ہے، یاد رکھو اس عبادت میں بھلائی نہیں جس میں فقہ نہ ہو اور اس فقہ میں بھلائی نہیں جس میں فہم نہ ہو اور اس قراۃ میں بھلائی نہیں جس میں تدبر(غور وفکر)نہ ہو۔
[الزهد لأبي داود:104، الإبانة الكبرى لابن بطة:1050، (سنن الدارمي:305)، جامع بيان العلم:1510]








مسئلہ:
رسول اللہ ﷺ کی زمانہ میں "مُروجہ" مجاہدات کی ضرورت نہیں تھی۔
تشریح:
کیونکہ آپ کی زیارت ہی درجۂ "اِحسان" تک پہنچانے کے لیے بہت کافی تھی، لیکن آپ کے بعد جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور نورانیت سے سے دوری ہوتی گئی، ظلمات کا اثر دلوں میں آتا رہا۔
حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہے کہ جس دن رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تھے مدینے کی ہر چیز روشن ہوگئی تھی،اور جس دن آپ کا انتقال ہوا ہر چیز پر اندھیرا چھا گیا،اور ہم نے آپ کے انتقال کے بعد قبر مبارک پر مٹی ڈال کر ہاتھ بھی نہیں جا رہے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں کی نورانیت میں فرق پایا.
[حوالہ=احمد:12234، ابویعلیٰ:3486، الأحادیث المختارۃ:1689]

حضرت حنظلہؓ کی روایت ہے کہ میں گھر سے نکلا تو حضرت ابوبکر سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا کہ مسئلہ کیا حال ہے؟ میں نے کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے سبحان اللہ کیا کہہ رہے ہو! میں نے کہا کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں ہوتے ہیں اور آپ جنت جہنم کا ذکر کرتے ہیں، تو دونوں چیزیں گویا ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں، لیکن جب آپ کی مجلس سے نکلتے ہیں اور بیوی بچوں، کاروبار میں گھل مل جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حضرت ابوبکر نے سن کر فرمایا کہ خدا کی قسم یہ حالت تو میری بھی ہے۔ تو میں اور ابوبکرؓ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے، اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہ کیا کہا۔ تو میں نے قصہ دہرایا۔ آپ نے فرمایا کہ قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر تم ہر وقت اس حال پر رہو جس حال میں میرے پاس ہوتے ہو اور اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول رہو تو فرشتے تم سے تمہارے بستروں پر اور تمہارے راستے میں مصافحہ کیا کریں، لیکن اے حنظلہ گھڑی گھڑی۔
[مسلم:2750 ترمذی:2514]

حضرت ابو طلحہ انصاریؓ اپنے ایک باغ میں نماز پڑھ رہے تھے،اتنی میں ایک دُبسی(یعنی جنگلی کبوتر) اڑا اور وہ چاروں طرف پھر میں لگا، نکلنے کا راستہ ڈھونڈتا تھا اور راستہ نہ ملتا تھا تھا، تو ابو طلحہ کو یہ بات نعت خوشنما معلوم ہوئی کہ میرا باغ ایسا گُنجان ہے کہ پرندے کو نکلنے میں تکلف ہوتا ہے، اور تھوڑی دیر تک ان کی نگاہ اس کے ساتھ ساتھ رہی، پھر اپنی نماز کی طرف متوجہ ہوگئے تو دیکھتی کیا ہے کہ یہ یاد نہیں رہا کہ کتنی نماز پڑھی،اپنے دل میں کہا کہ میرے اس مال کے سبب تو مجھ کو بڑا فتنہ پہنچا(کے نماز میں قلب حاضر نہ رہا)بس رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بیان کیا جو نماز میں ان کو پیش آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ باغ فی سبیل اللہ ہے جہاں چاہیں خرچ فرمائیے۔
[مؤطا مالک:(69)436، سنن الکبریٰ للبیھقی:3873]
اسی طرح حضرت عثمانؓ کے دور میں بھی ایک انصاری صحابیؓ سے ایسا معاملہ ہوا تو اس نے خلیفہ حضرت عثمان کی خدمت میں اپنے اس باغ کو صدقہ کردیا۔
[مؤطا مالک:(70)486، الزھد والرقائق لابن المبارک:527]

نوٹ:
(1) عادتاً مراقبہ قلب: صوفیاء کرام کے اعمال میں سے ہیں کہ ہر وقت قلب کی دیکھ بھال رکھتے ہیں کہ اس وقت کیا حالت ہے جب تغیر پاتے ہیں اس کی تلافی کرتے ہیں۔ ان صحابی کے فعل سے اور رسول اللہ ﷺ کہ اس کو جائز رکھنے سے اس محمودیت ظاہر ہے کیوں کہ ان کا یہ تنبہ(خبردار ہوجانا) اس مراقبہ کا اثر ہے۔

(2) حالِ غیرت: حق تعالیٰ سے غافل کرنے والے چیز سے نفرت ہو جانا یہ ایک حال محمود ہے جس کو غیرت کہتے ہیں، اس حدیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔
[التشرف بمعرفة احاديث التصوف: ص44]

(3) جو چیز اللہ تعالی سے غافل کر دے اس کو اپنے ملک سے نکال دینا: اکثر بزرگوں کی ایسی حکایتیں مشہور ہیں کہ طالب کے قلب کو جس چیز سے زیادہ وابستہ دیکھا اس کے جدا کر دینے کا حکم فرمادیا۔ اس معالجہ کی اصل اس حدیث سے نکلتی ہے کہ ان صحابی نے یہ علاج تجویز کیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو برقرار رکھا جس کو اصطلاح میں تقریر کہتے ہیں۔

علامہ ابو الولید الباجیؒ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام میں ایسے واقعات جو نماز میں دوسری طرف مصور کردی بہت کم پیش آتے تھے، اور جب پیش آتے تھے تو ان پر بہت بار ہوتا تھا، پھر ہم جیسوں کا کیا حال ہوگا جن کو کثرت سے اس قسم کے واقعات (وساوس) پیش آتے ہیں. اللہ تعالی ہماری غلطیوں کو معاف کرے۔
[اوجز المسالک شرح مؤطا مالک:1/314]

حضرت زبیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے حارث بن مالکؓ! تم نے کس حال میں صبح کی ؟ عرض کیا : میں نے سچا مومن ہونے کی حالت میں صبح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یقینا ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ عرض کیا ! میں نے اس حال میں صبح کی کہ میرے نفس نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی، پس میں نے راتوں میں خود کو جگایا۔ اور دن میں خود کو پیاسا رکھا۔ گویا کہ میں اپنے رب کے عرش کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ حساب لینے کے لیے ظاہر ہوگیا۔ اور گویا کہ میں اہل جنت کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ جنت میں ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں اور گویا کہ میں اہل جہنم کی چیخ و پکار کی آواز سن رہا ہوں۔ راوی کہتے ہیں، پھر آپ ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا : یہ ایسا بندہ ہے کہ ایمان نے اس کے دل میں نور کو بھر دیا ہے۔ اگر تو نے اس کو پہچان لیا تو پھر اس کو لازم پکڑو۔
[مصنف ابن أبي شيبة:30425]

حضرت جبیر بن مطعمؓ نے کہا کہ جب میں نے یہ آیت رسول اللہ ﷺ سے سنی تو گویا میرا دل اُڑ گیا خوف سے۔ ـــ  کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا انہوں نے خود کو خود ہی پیدا کرلیا ہے۔  یا انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ؟ نہیں بلکہ یہ یقین ہی نہیں رکھتے۔  کیا ان کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں یا یہ کہیں کے داروغہ ہیں۔  یا ان کے پاس سیڑھی ہے کہ جس پر چڑھ کر آسمان سے باتیں سن آتے ہیں ؟ تو جو سن آتا ہے وہ پکی سند دکھائے۔
[سنن ابن ماجہ:832]

صحابہ کرام کے واقعات اس قسم کے بیسیوں نہیں سینکڑوں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بلا مجاہدات و ریاضات ہی مرتبہ احسان حاصل ہو جاتا تھا۔


https://www.youtube.com/watch?v=__wexr4Mhtw




مسئلہ:
شیوخ اور صوفیاء کرام بہت گزرے ہیں؛ لیکن ان میں چار بزرگ زیادہ مشہور ہیں جن کے سلسلہ میں عام طور پر لوگ بیعت ہوتے ہیں: (۱)حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ جن کے سلسلہ کو قادریہ کہتے ہیں، (۲)حضرت شیخ معین الدین حسن چشتیؒ جن کے سلسلہ کو چشتیہ کہا جاتا ہے، (۳)حضرت شیخ محمد بہاء الدین نقشبندؒ جن کے سلسلہ کو نقشبندیہ کہاجاتا ہے، (۴)حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہر وردیؒ جن کے سلسلہ کو سہروردیہ کہا جاتا ہے۔

تشریح:
تصوف کے سلسلے:
جس طرح مسائل کے سلسلے میں چار بڑے امام (۱)ابوحنیفہؒ م۱۵۰ھ، (۲)مالکؒ م۱۷۹ھ، (۳)شافعیؒ م۲۰۴ھ اور (۴) احمد بن حنبلؒ م۲۴۱ھ ہیں، ان کی تقلید کی جاتی ہیں اسی طرح تصوف کے چار سلسلے ہیں۔ (۱) چشتی (۲) قادری (۳) نقشبندی (۴) سہروردی۔ یہ چار بڑے حضرات کی طرف منسوب ہیں اور ہمارے اطراف میں انھیں کی تقلید کی جاتی ہے۔ 

(۱) چشتی: خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ م۶۳۳ھ کی طرف منسوب ہے۔
(۲) قادری: سید عبدالقادر جیلانیؒ م۵۶۱ھ کی طرف منسوب ہے۔
(۳) نقشبندی: خواجہ بہاوٴالدین نقشبندیؒ م۷۰۱ھ کی طرف منسوب ہے۔
(۴) سہروردی: شیخ شہاب الدین سہروردیؒ م۶۳۲ھ کی طرف منسوب ہے۔

بڑے چاروں سلسلوں کے بارے میں تفصیلی معلومات کیلئے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتاب [القول الجمیل]، سید احمد شہیدؒ کی کتاب [صراط مستقیم]، اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی کتاب [ضیاء القلوب] وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

سلسلہٴ قادریہ یا سلسلہٴ سہروردیہ دونوں سلاسل کے کسی شیخ کے متعلق علم نہیں ہے، ہندوستان واطرافِ ہند میں سلسلہ چشتیہ کا رواج ہے اور ان کے شیوخ ہی زیادہ تر ملتے ہیں، اور ان میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جن کو چاروں سلاسل (چشتیہ، نقشبندیہ، قادریہ اور سہروردیہ) سے اجازت ملی ہوئی ہے؛ اس لیے اگر آپ اپنی اصلاح چاہتے ہیں تو قریب کے کسی متبع سنت بزرگ سے تعلق قائم کرلیں ان کی رہنمائی میں ان شاء اللہ سلوک کے منازل طے ہوجائیں گے، سلسلہ قادریہ یا سلسلہٴ سہروردیہ کے شیخ کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں۔


مزید چھوٹے سلسلہ شاذلیہ، سلسلہ بدویہ وغیرہ بھی ہے۔
سلسلہ شاذلیہ کے بانی ابوالحسن شاذلی بن عبد اﷲ شریف حسینی المغربی (م۶۵۶ھ)
سلسلہ بدویہ کو سلسلہ احمدیہ بھی کہتے ہیں جو منسوب ہے احمد بن علی بن يحيی (م۶۷۵ھ) کی طرف۔

راہِ سلوک طے کرنے اور نسبت احسان کرنے کے سلسلہ میں صوفیائے کرام اور بزرگأن عظام نے ذکر واشغال ریاضت ومجاہدات کے جو طریقے تجویز کیے ہیں انھیں کی طرف مذکورہ سلسلے منسوب ہیں، مشائخ طریقت کے چار سلسلے مشہور ہیں، چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ، قادریہ اصلاح نفس اور ذکر واذکارکے لیے لیے آدمی جس سلسلے کے شیخ سے تعلق قائم کرتا ہے انھیں کی طرف وہ اپنے کو منسوب کرتا ہے،مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اس سلسلہ کے فلاں بزرگ (شیخ) سے اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کی تعلیم حاصل کی ہے اور ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں یہ چاروں سلسلے اہل حق مشائخ کے ہیں جو اصلاح باطن اور نسبت احسان کی تحصیل کے طریقے بتاتے ہیں، بعض جاہل لوگ جو صوفی اور بزرگ ہونے کا ڈھونگ رچتے ہیں حالانکہ وہ نسبت احسان اور تزکیہ باطن کی انھیں ہَوا بھی نہیں لگی ہوتی، وہ اپنے کو نقشبندی یا سہروردی وغیرہ کی طرف منسوب کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، یہ تو غلط ہیں البتہ جن لوگوں نے کسی شخص کامل کی صحبت اور تربیت میں رہ کر اصلاح باطن ارو نسبت احسان کی تحصیل کی ہے ان کا ان بزرگوں کے سلسلے کی طرف انتساب کرنا درست ہے، لیکن بعض کم علم لوگوں نے جب ان سلسلوں کو تفریق امت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی اور ان کے متبعین نے یا باہم نزاع شروع کردیا، جس سے افضل اورغیر افضل کی بحث چھڑگئی یا لوگوں میں جماعتی تحزب پیدا ہوکر دوسرے لوگوں کے سلسلہ میں نفرت کے جذبات ظاہر ہونے لگے، تو اہل حق محققین مشائخ نے چاروں سلسلے میں بیعت لینے اور اجازت دینے کا سلسلہ شروع کردیا تاکہ جماعتی تحزب نہ پیدا ہو، چنانچہ مشائخ اہل حق کا معمول عرصہ سے یہی چلا آرہا ہے کہ چاروں سلسلے میں بیعت بھی لیتے ہیں اور چاروں سلسلے میں اجازت بھی دیتے ہیں، جو اس طرح کے کسی متبع شریعت وسنت شیخ سے وابستہ ہو اسے نسبت کا اظہار کرنے کی گنجائش ہے، تفاخر اور تفاضل کی نہیں۔

بیعت کا معنی، حکم، طریقہ، فوائد کے شرائط اور اقسام





مقصدِ تصوف یعنی رضائے الہٰی اور قربِ خداوندی کسی طریقہ میں آسانی اور جلدی سے حاصل ہوجاتا ہے اور کسی طریقہ میں ریاضت و مجاہدہ درکار ہوتا ہے، روحانیت کی ارتقاء میں اگرچہ ان طرق کے افکار و نظریات اور اصول ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر سب کا مطلوب و مقصود ایک ہی ہے اور وہ ہے باطن کا تزکیہ اور حق تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضاء حاصل کرنا۔
مجتہدین شریعت نے استنباط احکام ظاہر شریعت کے اصول ٹہرائے اور اولیاء طریقت نے باطنِ شریعت کی تحصیل کی جس کو طریقت کہتے ہیں اور اس کے قواعد مقرر فرمائے یے تو یہاں بدعت کا گمان سراسر غلط ہے۔

دلائل:
وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔
[سورۃ العنكبوت : آیت 69]
اور جنہوں نے ہمارے لیے "جدوجہد" کی ہم انھیں ضرور اپنی "راہیں" سمجھا دیں گے اور بیشک الله "محسنین" کے ساتھ ہے۔


 وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ 
[سورۃ لقمان : آیت 15]
۔۔۔۔ اور ان لوگوں کی راستے پر چل جو میری طرف رجوع ہوگئے(یعنی مُنِیبِیّین کے) ۔۔۔۔

۔۔۔ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ.
[سورۃ التوبہ : آیت 119]
۔۔۔ اور سچوں کے ساتھ رہو۔

حدیث کے مطابق زاھدین علماءِ حکمت اور معالج ہوتے ہیں۔
[شعب الإيمان (إمام) البيهقي:10050]
لہٰذا ہر مریض قلب کا علاج اور اس کا طریقہ بھی مختلف ہوسکتا ہے۔


اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے مختلف اصحاب کے حالات کے اعتبار سے مختلف احکام ارشاد فرمائے:
حضرت سفیان بن عبداللہ الثقفی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!مجھے اسلام میں کوئی اسی جامعع بات بتا دیجیے کہ پھر میں کسی سے نہ پوچھوں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آمنت باللہ کہہ اور اس پر پکّا رہ۔
[صحیح مسلم:38،۔مسند احمد:15417 مسند الدارمی:2752]
دوسری جگہ حضرت ابوامامہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب تیری نیکی تجھے خوش کرے اور تیری برائی تجھے رنجیدہ کرے تو تُو مومن ہے۔
[مسند احمد:22159، صحیح ابن حبان:176، المستدرک الحاکم:33]
اور حضرت عمرو بن عبسہ نے سوال کیا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ تو فرمایا: صبر اور سخاوت۔
[مسند احمد:2029 مسند ابویعلیٰ:1854]
اسی حدیث میں ہے کہ انہوں نے پوچھا کہ اکمل/افضل ایمان کیا ہے تو آپ نے فرمایا اچھی عادتیں۔
[جامع معمر بن راشد:20297 مصنف عبدالرافضل4843 مصنف ابن ابی شیبہ:30393]
اور حضرت معاذ بن جبل نے یہی سوال کیا کہ افضل ایمان کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے لیے محبت کرو اور اللہ ہی کے لیے بغض رکھواور اپنی زبان کو اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول رکھو۔
[مسند احمد:22130، شعب الایمان:574]
دوسری جگہ حضرت عبداللہ بن بسر سے منقول ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ حضور! اسلام کے احکام تو بہت ہیں مجھے ایک بات بتادیجئے جسے میں مضبوط پکڑلوں؟ تو آپ نے فرمایا: اپنی زبان کو اللہ تعالی کے ذکر سے تر رکھو۔
[ترمذی:3375 ابن ماجہ:3793]
حضرت ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ مجھے کوئی وصیت کیجئے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ غصہ مت کرنا، اس نے بار بار یہی سوال کیا اور آپ نے بار بار یہی جواب دیا ۔
[بخاری:6116، ترمذی:2020، احمد:8744]
حضرت ابو ایوب انصاری سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھے کوئی مختصر سی نصیحت فرما دیجئے تو آپ نے فرمایا کہ ایسی نماز پڑھو جیسے یہی آخری نماز ہو ، اور زبان سے ایسی بات نہ کر جس پر معذرت کرنی پڑے ، اور جو کچھ دوسروں کے پاس ہو اس پر امید مت باندھ۔
[ابن ماجہ:4171 مسند احمد:23498 معجم ابن الأعرابی:1279]




مرجع الطریق کلھا الی تحصیل ھیئۃ نفسانیۃ تسمی عندھم بالنسبۃ لانھا انتساب و ارتباط باللہ عز و جل بالسکینۃ و بالنور و حقیقتھا کیفیۃ حالۃ فی نفس الناطقۃ من باب التشبہ بالملائکۃ او التطلع الی الجبروت۔
[شفاء العلیل:۱۱۳]

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:
[شفاء العلیل ترجمہ قول الجمیل:۴۰۔ ہمعات:۱۵]

فقد بان لک ان سائر ائمۃ الصوفیۃ علی ھدی من ربھم کالائمۃ المجتھدین و انہ لا ینبغی لاحد ان ینکر علیھم کلامھم۔
[الیواقیت و الجواہر:۲؍۹۳]

ولا تظن ان النسبۃ لا تحصل الا بھذہ الاشغال بل ھذہ الطرق لتحصیلھا من غیر حصر فیما و غالب الرأی عندی ان الصحابۃ و التابعین کانوا یحصلون السکینۃ بطرق اخری فمنھا المواظبۃ علی الصلوات و التسبیحات فی الحلوۃ مع المحافظۃ علی شریطۃ الخشوع و الحضور۔
[شفاء العلیل:۱۱۵]




****************************************

عقیدہ:
پیری مریدی یعنی اللہ والوں کی صحبت(جوڑ وتعلق)سے چار قسم کا فیض(فائدہ)حاصل ہوتا ہے: (1) قرآن کی تلاوۃ سننے کی توفیق، (2) تزکیہ وتصفیہ کا حصول، (3) تعلیمِ کتاب اور (4) تعلیمِ حکمت۔

تشریح:

اس کے لئے یہ آتیں ہیں:
1۔ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۔ (سورۃ البقرۃ 2، آیت 129)
ترجمہ:
اے ہمارے رب! ان میں ایک ایسا رسول بھیج جو انہیں میں سے ہو ، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے ، انہیں  کتاب کی تعلیم دے ، اور حکمت کی تعلیم دے ، اور ان کو پاکیزہ بنائے، صرف تیری ہی ذات ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے ، جس کی حکمت بھی کامل ہے۔
اس آیت میں ہے کہ نبی ﷺ چار کام کے لئے مبعوث ہوئے۔


2 ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ۔ (سورۃ آل عمران 3، آیت 164)
ترجمہ:
یقینا اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ، جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے ، انہیں پاک صاف بنائے ، اور انہیں کتاب کی تعلیم دے ، اور حکمت کی تعلیم دے ، جب کہ یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔    

3۔ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ۔ (سورۃ البقرۃ 2، آیت 151)
ترجمہ:
جیسے ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں  سے ایک رسول بھیجا تھا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں  کی تلاوت کرتا ہے ، اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے ، اور تمہیں  کتاب کی تعلیم دیتا ہے ، اور تمہیں  حکمت کی تعلیم دیتا ہے ، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں  جانتے ہو ۔ 
آن آیتوں  سے پتہ چلا کہ استاذ یا پیر مخلص ہو ں  تو  ان سے یہ چار قسم کے فیض حاصل ہوتے ہیں  
[۱]  پیر صاحب مریدوں  کے  سامنے قرآن پڑھتے ہیں  اور ان کا قرآن درست کرواتے ہیں   ،
[۲] انکو قرآن کا معنی سکھلاتے ہیں ،  یعنی حلال و حرام کے جو احکامات ہیں ان کو سکھاتے ہیں ،
[۳] قرآن میں جو حکمت ہے ، یعنی سنت سکھلاتے ہیں(تفسیر امام شافعی:1/241) قرآنی مواعظ(تفسیر السمعانی:1/155) اور دین میں فقہ(تفسیر ابن عطیۃ:1/226)
[۴] اور دل کا تزکیہ کرتے ہیں ، یعنی اخلاص سکھلاتے ہیں(تفسیر ابن ابی حاتم:4465) ، گناہوں سے پاک کرتے ہیں(تفسیر ابن ابی حاتم:1393) کفر وشرک وغیرہ سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں(تفسير مقاتل بن سليمان:1/150 تفسیر لابن أبي زَمَنِين:1/188) اور زمانہ جاہلیت والے اعمال سے اور برے اخلاق سے(تفیسر القاسمی:1/432) ۔
[۵] اور وہ باتیں سکھلاتا ہے جو تم نہیں جاتے تھے، یعنی احکام سے شرائع اسلام سکھلاتے ہیں(تفسیر البغوی:102) دین ودنیا کا معاملہ(تفسیر العز بن عبد السلام:151) وہ باتیں ہیں کہ جن کی پہچان کا سوائے وحی کے کوئی راستہ نہ تھا۔ (تفسیر النسفی:1/143) تمہاری دنیاوی زندگی کی مصالحت اور حیاتِ اخروی کی سعادت میں سے(تفسیر المنار:1/205) پہلوں کے قصے اور غیبی قصے(تفسیر الثعالبی:1/334)

یہ پانچویں چیز تعلیم کتاب وحکمۃ میں شامل مانی گئی ہیں پہلی آیات میں اس پانچویں بات کا علیحدہ ذکر نہ ہونے کی وجہ سے۔

پیر اچھا ہو اور مرید بھی لگن سے فیض حاصل کرے تو مریدوں  کو یہ چار قسم کے فیض حاصل ہوتے ہیں ، قرآن میں  انہیں  کا تذکرہ ہے.


تنبیہ:
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ پیر صاحب کوئی خاص معنوی چیز مرید کو دے دیتے ہیں ، اور مرید اس کے حاصل کرنے کے لئے برسوں اعمال ومجاہدات کے بجائے بس پیر کی ہر طرح کی خدمت کرتا رہتا ہے، لیکن حدیث اور آیت سے ایسا معلوم نہیں ہوتا ، بلکہ وہی چار باتیں جو اوپر ذکر کی وہی حاصل ہوتی ہیں:




يُزَكِّيكُمْ کی تفسیر بالقرآن والحدیث والاثر:
یعنی شیطانی راستوں پر چلنے سے روکنا(خصوصا)بےحیائی اور اعلانیہ نافرمانیوں سے[دلیلِ سورۃ النور:21]
خصوصا:
بلااجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہونا[دلیلِ سورۃ النور:28]
نامحرم سے اپنی نظر اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنا[دلیل سورۃ النور:30]
اللہ سے ڈرنے(والی تعلیم سننا) اور نماز قائم کرنا[دلیل عبس:3 سورۃ فاطر:18]
بیوی کو طلاق دینے اور عدت گذرنے کے بعد انہیں نہ روکنا نکاح کرنے سے(پہلے)خاوندوں سے جب وہ راضی ہوں [سورۃ البقرۃ:232]
مالی صدقات وصول کرکے اور انہیں دعا دے کر پاک کرتے ہیں[دلائل سورۃ التوبۃ:103 الیل:18]

تزکیہ نفس (اور مراقبہ معِیَت) کیا ہے؟
قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَزْكِيَةُ الْمَرْءِ نَفْسَهُ؟ قَالَ: «أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ مَعَهُ حَيْثُ كَانَ»
ترجمہ:
نبی ﷺ سے پوچھا گیا: آدمی کا اپنے نفس کا تزکیہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: انسان یہ (یقین)جان لے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔ 
[التاريخ الكبير للبخاري:54، الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:1162، السنن الكبرى للبيهقي:7275، المعجم الصغير:555، مسند الشاميين:1870، معجم الصحابة لابن قانع:2/102، معرفة الصحابة لأبي نعيم:4528، السلسلة الصحيحة:3/38]

حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا:
يطهركم بِالتَّوْحِيدِ وَالزَّكَاة وَالصَّدَََقَة من الذُّنُوب ۔
ترجمہ: تم کو (1)توحید سکھلا کر ، (2)زکوۃ دلوا کر ، اور (3)صدقہ دلوا کر پاک کرتے ہیں۔
[تنوير المقباس من تفسير ابن عباس: ص21]
یعنی کہ شریعت میں  جو حلال اور حرام کے احکامات ہیں، پیر صاحب وہ بتاتے ہیں، جیسے استاد بتاتے ہیں۔



علماء کے بغیر کتاب اللہ کو بے فائدہ نہ سمجھنے والے فقہاء نہیں ہوتے:

حضرت ابودرداءُؓ سے بھی روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر فرمایا یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں سے علم کھینچا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں سے کوئی چیز ان کے قابو میں نہیں رہے گی۔ زیاد بن لبید انصاریؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سے کیسے علم سلب کیا جائے گا جب کہ ہم نے قرآن پڑھا ہے اور اللہ کی قسم ہم اسے خود بھی پڑھیں گے اور اپنی اولاد اور عورتوں کو بھی پڑھائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے اے زیاد ! میں تو تمہیں مدینہ کے فقہاء میں شمار کرتا تھا۔ کیا تورات اور انجیل یہود و نصاری کے پاس نہیں ہے۔ لیکن انہیں کیا فائدہ پہنچا؟
[صحيح الترمذي:2653، سنن الدارمی:296، حاکم:338]




پیر صاحب خدا ترس ہو تو اس کا اثرزیادہ ہوتا ہے:
پیر صاحب خدا ترس ہو ، اور لگن سے کام کرے ، اور مرید بھی لگن سے محنت کرے تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے، اس کے لئے یہ حدیث ہے:
1۔ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخِيَارِكُمْ؟» ، قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «خِيَارُكُمُ الَّذِينَ إِذَا رُءُوا، ذُكِرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ»۔
[سنن ابن ماجۃ : کتاب الزھد ، بَابُ مَنْ لَا يُؤْبَهُ لَهُ ، حدیث نمبر 4119]
ترجمہ:
حضرت اسماء فرماتی ہیں  کہ میں  نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا کہ ، تم میں سے اچھے کون ہیں اس کی خبر دوں؟ لوگوں  نے کہا ، ہاں یا رسول اللہ ! آپؐ نے فرمایا: تم میں  سے اچھے وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو دیکھو تو اللہ یاد آجائے۔
[مسند إسحاق بن راهويه:2306، مسند أحمد:27599، المنتخب من مسند عبد بن حميد:1580، الأدب المفرد للبخاري:323]

 وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ 
[سورۃ لقمان : آیت 15]
۔۔۔۔ اور پیچھے چل راستے پر اس کے جو(پہلے خود)لوٹتا رہتا ہو میری طرف ۔۔۔۔

یہ چاروں فائدے اس وقت ہوں گے جب پیر صاحب زندہ ہوں ، اور آپ ان سے بالمشافہ درس حاصل کریں۔ لیکن کسی کا انتقال ہو گیا ہے تو وہ یہ فیض نہیں دے سکتے ہیں ، کیونکہ مرنے کے بعد اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے ، حدیث میں یہی ہے ، اس لئے اب وہ یہ فیض نہیں دے سکتا۔




حضرت معاذ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
تھوڑی سا دکھلاوا(ریاء) بھی شرک ہے، اور جس نے (مخفی عمل کرنے والے ریاء سے پاک) اللہ والوں سے دشمنی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کو لڑائی کے لیے للکارا، اللہ تعالیٰ ان نیک اور پرہیزگاروں کو پسند کرتا ہے جو خفیہ طور پر عمل کرتے ہیں، جب وہ غائب ہوجائیں تو انھیں تلاش نہ کیا جائے، اور جب حاضر ہوں تو بلائے نہ جائے، اور نہ پہچانے جائیں، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر ظلمت و غبار سے نکل آتے ہیں۔
[سنن ابن ماجہ» کتاب الفتن» حدیث 3989]

یہ حدیث اپنے اعمال میں اخلاص اور عاجزی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، دکھاوے (ریا) کے خطرات سے خبردار کرتی ہے اور شہرت یا پہچان حاصل کرتی ہے۔ یہاں ایک تفصیلی وضاحت ہے:

- تھوڑا سا دکھاوا (ریا) شرک سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے دوسروں سے تعریف اور منظوری حاصل کرنا شامل ہے۔

- اللہ کے دوستوں (اولیاء) سے دشمنی ظاہر کرنا ایک سنگین جرم ہے، کیونکہ یہ اللہ کے اختیار اور حفاظت کو چیلنج کرتا ہے۔

- اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو مخفی عمل کرتے ہیں، شناخت یا شہرت کے بغیر، اخلاص اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

- ایسے پرہیزگار لوگوں کی غیر حاضری میں تلاش نہیں کی جاتی اور نہ ہی حاضر ہونے پر انہیں پہچانا یا دعوت دی جاتی ہے، یہ صرف اللہ کی رضا کے ساتھ اس کی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

- ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، دوسروں کے لیے راستہ روشن کر رہے ہیں، اور وہ ہر اندھیرے اور اندھیرے سے نکل کر اپنی روحانی ترقی اور روشن خیالی کی علامت ہیں۔

یہ حدیث اپنے عمل میں عاجزی، خلوص اور بے لوثی کی قدر پر زور دیتی ہے، مومنوں کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اللہ کی رضا کو انسانی پہچان پر ترجیح دیں۔





حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دن مسجد نبوی ﷺ میں آئے، وہاں انہوں نے معاذ بن جبل ؓ کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کے پاس بیٹھے رو رہے ہین، حضرت عمرؓ نے ان سے دریافت کیا، تمہارے اس رونے کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے کہا، کہ مجھے ایک بات رُلا رہی ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی میں نے آپ سے سنا تھا، آپ ﷺ فرماتے تھے، کہ تھوڑا سا دکھلاوا (ریاء) بھی شرک ہے، اور جس شخص نے اللہ کے کسی دوست سے دشمنی کی تو اس نے خود اللہ کو جنگ کی دعوت دی اور بے شک اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ان نیکو کار متقی بندوں سے جو ایسے چھپے ہوئے اور نامعروف ہوں کہ جب غائب ہوں تو کوئی ان کو تلاش نہ کرے، اور حاضر ہوں تو کوئی ان کو دعوت دے کر اپنے پاس نہ بُلائے، ان کے دل ہدایت کے روشن چراغ، نکل جاتے ہیں کالی آندھیوں میں سے۔ 

تشریح:
حضرت معاذؓ کی یہ حدیث جس کو یاد کر کے وہ رو رہے تھے، چند اجزاء پر مشتمل ہے۔ پہلی بات یہ تھی کہ حضور ﷺ نے فرمایا، کہ تھوڑا سا ریا بھی شرک ہے، درحقیقت تنہا یہی بات ان بندوں کو رلانے کے لیے کافی ہے جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہو، اور وہ شرک کی شناعت و قباحت کو بھی جانتے ہوں۔ کیوں کہ خفی اور باریک قسم کے ریا سے بچنا اُن بندوں کے لیے بھی بہت مشکل ہے جو اُس سے بچنے کی فکر اورکوشش بھی کرتے ہیں، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا بندہ اپنے عمل کو ریا وغیرہ سے پاک رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے، لیکن پھر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ ریا کی کچھ لگاوٹ آ ہی گئی، عارفین کا یہ عام حال ہے کہ وہ عمل کرتے ہیں اور بعد میں یہ محسوس کر کے روتے ہیں کہ جس اخلاص کے ساتھ عمل ہونا چاہئے وہ نصیب نہیں ہوا۔ غالباً حضرت معاذ کے اس رونے میں بھی بھی اس احساس کو دخل تھا۔ حضرت معاذ کا بیان ہے، کہ ریا کے متعلق اس انتباہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دوسری مرتبہ تنبیہ یہ فرمائی تھی کہ جن بندوں کا اللہ سے خاص تعلق ہو اُن کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہئے، جو کوئی اُن خاصانِ خدا سے دشمنی کرتا ہے وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کو جنگ کی دعوت دیتا ہے، اور اُس کے غضب اور عذاب سے کھیلنا چاہتا ہے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو وہ بندے محبوبانِ بارگاہ خداوندی ہیں جو نیکو کار اور تقویٰ شعار ہیں، لیکن اسبابِ شہرت سے بچنے کی وجہ سے کوئی اُن کے اس امتیاز کو جانتا بھی نہیں، وہ ایسے گمنام اور نامعروف ہیں کہ غائب ہوں تو کسی کو اُن کی فکر اور تلاش نہ ہو، اور موجود ہوں تو کوئی اُن کو مدعو نہ کرے، اُن کے دل روشن بلکہ دوسروں کو روشنی دینے والے چراغ ہیں، اور وہ اپنے دل کی اس روشنی کی وجہ سے فتنوں کی سخت سے سخت اندھیریوں میں سے اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ (۱) 
حضرت معاذ ؓ کے رونے میں غالباً ان کے اس احساس کو بھی دخل ہو گا کہ افسوس! ہم ایسے گمنام اور نامعروف نہیں رہے، اور ہماری زندگی ایسی غربت اور کسمپرسی کی نہیں رہی، اور ممکن ہے یہ بھی احساس ہو کہ اللہ کے کسی ایسے مستورالحال بندے کی مجھ سے کوئی حق تلفی نہ ہو گئی ہو، اور اُس کو میری ذات سے کوئی ایذا کبھی نہ پہنچ گئی ہو۔
[معارف الحدیث»حدیث نمبر: 239]




حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ۔

’’اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو پسند کرتا ہے جو پرہیزگار، غنی(مخلوق سے بےنیاز) اور (دنیا سے) پوشیدہ ہو۔‘‘
[صحیح مسلم، حدیث 2965(7432)، مسند احمد:1441، شعب الایمان:10370، مسند ابویعلیٰ:737]
اللہ تعالیٰ کی بندے کی وہ صفات(خوبیاں) جو اللہ کو پسند ہیں:

1. پرہیزگار: وہ جو نیک، پاکباز اور اپنے اعمال کا خیال رکھنے والا ہو۔

2. غنی(مخلوق سے بےنیاز): ضروری نہیں کہ مادی لحاظ سے غنی ہو، لیکن ایمان، علم اور روحانی وسائل سے مالا مال ہو۔

3. مخفی (گمنام): وہ جو شہرت، پہچان یا توجہ حاصل کرنے سے گریز کرتا ہے اور اس کے بجائے عاجزی کے ساتھ اللہ کی رضامندی سے مطمئن رہتا ہے۔

یہ حدیث مومنوں کو ان اوصاف(خوبیوں) کو پیدا کرنے کی ترغیب دیتی ہے، انسانی پہچان سے بڑھ کر اللہ کی محبت اور خوشنودی حاصل کرنا۔ یہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ حقیقی مالداری تو دنیاوی مال وشہرت کے بجائے ایمان، تقویٰ اور عاجزی میں مضمر ہے۔










عقیدہ:
قبروں اور مردوں سے بھی فیض(فائدہ)حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ (1) موت وآخرت یاد آتی ہے (2) غافل کرنے والی دنیا اور دنیاداروں سے زہد نصیب ہوتا ہے، اور (3) بڑے بڑے لوگوں سے عبرت اور انجام دکھائی دیتا ہے (4) دل(نیکی کیلئے) نرم ہوتا ہے (5) خیر وبھلائی میں زیادتی حاصل ہوتی ہے۔

تشریح:

ان احادیث میں  قبر کی زیارت کے فوائد بتائے گئے ہیں:

1۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَزُورُوهَا؛ فَإِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا، وَتُذَكِّرُ الْآخِرَةَ»۔
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں  تم لوگوں  کو قبر کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا ، اب اس کی زیارت کیا کرو ، اس لئے کہ اس سے دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے ، اور آخرت یاد آنے لگتی ہے۔
[سنن ابن ماجۃ : باب ما جاء فی زیارۃ القبور، حدیث نمبر 1571]



2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: زَارَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَبْرَ أُمِّهِ فَبَكَى وَأَبْكَى مَنْ حَوْلَهُ، فَقَالَ: "اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي فِي أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَهَا فَلَمْ يَأْذَنْ لِي، وَاسْتَأْذَنْتُ رَبِّي فِي أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأَذِنَ، فَزُورُوا الْقُبُورَ، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْمَوْتَ" .
[سنن ابن ماجۃ : باب ما جاء فی زیارۃ قبور المشرکین، حدیث نمبر 1572]
ترجمہ:
نبی ﷺ نے اپنی ماں  کی قبر کی زیارت کی ، خود بھی روئے اور اپنے قریب والوں  کو بھی رلائے ، پھر فرمایا کہ ، میں  نے اپنے رب سے اپنی ماں  کے استغفار کی اجازت مانگی ، تو مجھے اجازت نہیں ملی ،اور اپنے رب سے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھ کو اجازت مل گئی ، اس لئے قبر کی زیارت کیا کرو ، اس لئے کہ اس سے تم کو موت یاد آنے لگے گی۔
[ابوداؤد:3234، نسائی:2034، ابن ماجہ:1572]



3. فَإِنَّ فِيهَا عِبْرَةً
ترجمہ:
کہ بےشک اس میں عبرت ہے۔
[مسند أحمد:11329، المنتخب من مسند عبد بن حميد:985، المستدرك على الصحيحين للحاكم:1386 السنن الكبرى للبيهقي:7196]
یعنی
بڑے بڑے لوگوں کے انجام کا سبق دکھتا ہے۔



4. أَنَّهَا تُرِقُّ الْقُلُوبَ، وَتُدْمِعُ الْعَيْنَ
[مسند احمد:13615، مسند أبي يعلى الموصلي:3705]
بےشک اس(زیارۃ)سے دل(نیکی کرنے کیلئے) نرم ہوتے ہیں، آنکھیں آنسو بہاتی ہیں۔



5۔ وَلْتَزِدْكُمْ زِيَارَتُهَا خَيْرًا
[سنن النسائی: كِتَابُ الضَّحَايَا، باب الْإِذْنُ فِي ذَلِكَ ، حدیث نمبر 4429]
ترجمہ:
اور زیادہ کرے گی تم کو اس کی زیارت خیر وبھلائی۔
[نسائی:4429، صحیح ابن حبان:5390 بیھقی:7193]


اگر قبر پر جانے سے یہ فائدے حاصل ہوتے ہوں تو بہتر ہے ، لیکن اگر وہاں جانے سے آپ کی تفریح ہوتی ہے ، دنیا میں خود جی لگتا ہے ، اور آپ عیش کے لئے جاتے ہیں  تو یہ قبر کا فیض نہیں ہے ، یہ الٹا (شیطانی)اثر ہے ، اس لئے قبر کی زیارت کی رخصت نہیں ہے، لیکن کیا کیا جائے کچھ لوگوں نے پیسہ بٹورنے کے لئے اور اپنی شہرت کے لئے عجیب عجیب فیض کا ذکر کیا ہے ، کہ ولیوں سے یوں فیض ہوگا ، اور یہ حاجت پوری ہو جائے گی ۔ حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے۔

ہر جان کو موت کا مزا چکھنا ہے [3:185]




مستحب کام میں  تشدد:
اس دور میں  یہ بھی یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ایک چیز حدیث سے ثابت ہے ، لیکن اس کام کو نبی ﷺ نے کبھی کبھار کیا ہے، اس میں  کسی کو بلایا بھی نہیں ، بلکہ جو لوگ وہاں حاضر تھے انہوں نے ہی کر لیا:
مثلا: صحابہ کرام کبھی کبھار مل گئے اور اس میں  اللہ کا ذکر کر لیا ، تو یہ حدیث سے ثابت ہے ، اور اتنا سا کر لینا  جائز ہے ، لیکن اب بعض جگہ دیکھا گیا ہے [ الحمد للہ سب جگہ یہ بات نہیں  ہے] کہ ذکر کے نام پر مہینوں سے اشتہار دیا جاتا ہے، لوگوں کو بلایا جاتا ہے ، اس کے لئے خوب چندہ کیا جاتا ہے، اور بے پناہ خرچ کیا جاتا ہے، اور جھوم جھوم کر اس طرح ذکر کیا جاتا ہے ، کہ جیسے وہ ناچ رہے ہوں ، اور یہ ناچ گانے کی محفل ہو۔  اور اس کو کچھ کہو تو وہ حدیث کا حوالہ دیتے ہیں ، اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ کبھی کبھار تھا ، اور اچانک تھا ، اور آپ ذکر کے نام پر پورا ہنگامہ کر رہے ہیں  ، اور you tube یو ٹیوب پر اس کی تشہیر کر رہے ہیں۔

اور تحقیق کریں تو اندر خانے یہ محسوس ہوتا ہے کہ، [وہ بولتے تو یہی ہے کہ ہم ذکر کرتے ہیں  ، یا دین کی خدمت کر رہے ہیں]  لیکن اصل میں اس قسم کی حرکت کرنے والوں کو یہ تین چیزیں  چاہئیں:
[۱] عوام کے اندر اپنی شہرت حاصل کرنا، تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام جمع ہوں،
[۲] عوام کے اندر اپنا رعب جمانا،
[۳] اور اس بہانے سے اتنا روپیہ اکٹھا کر لے کہ، اس سے پورے سال کا خرچ چلے۔

اس لئے ایسے بہت سے ’’مستحبات سے بچنے‘‘ کی ضرورت ہے ، جس میں ’’تداعی‘‘ ہو ، یعنی لوگوں  کو بلا بلا کر جمع کیا ہو ، کیونکہ در مختار میں لکھا ہے کہ مستحب کام کے لئے تداعی ، یعنی لوگوں کو بلا بلا کر مستحب کام کرنا مکروہ(تحریمی یعنی حرام کے قریب) وناجائز ہے ، اور شریعت ایسی تداعی سے منع کرتی ہے ، اس لئے اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے۔











****************************************


تصوف کے بارے میں امام ابن تیمیهؒ حنبلی (المتوفیٰ) کی شهادت

سب سے پهلے صوفی کا نام ابو هاشم الکوفی کو حاصل هوا یه کوفه میں پیدا هوئے اور اپنی زیاده زندگی شام میں گزاری اور (160 هہ ) میں ان کی وفات هوئ اور سب سے پهلے تصوف کی نظریات کی تعریف وشرح ذوالنون المصری نے کی جو امام مالک کے شاگرد هیں اور سب سے پهلے جنید بغدادی نے تصوف کو جمع اور نشر کیا ۰

صوفی کی تعریف ابن تیمیه رح کے نزدیک

صوفی حقیقت میں صدیقین کی ایک قسم هے وه صدیق زهد وعبادت کے ساتهہ مشہور هو اس طریقه پر جس پر دیگر صوفیه نے عبادت وریاضت کی تو ایسے آدمی کو اهل طریق کے یهاں صدیق کها جائے گا جیسے کها جاتا هے صدیقوآلعلماء صدیقوآلاُمراء یعنی علماء میں صدیق اور امراء میں صدیق الخ. مجموع الفتاوى 11ـ 17

لفظ فقر اور تصوف کی تشریح

لفظ فقر اورتصوف میں جوالله ورسول کے پسندیده امور داخل هیں ان پرعمل کا حکم دیاجائے گا ، اگرچہ ان کانام فقر وتصوف هو،کیونکہ کتاب وسنت ان اعمال کے استحباب پر دلالت کرتے هیں لهذا یہ اعمال استحباب سے خارج نهیں هوں گے نام بدلنے کی وجہ سے۰ جیساکہ فقروتصوف میں اعمال قلوب یعنی باطنی اعمال توبہ صبر شکر رضا خوف رجاء محبت اور اخلاق محمودہ یعنی اچہے اخلاق بهی داخل هیں.
مجموع الفتاوى 11ــ 28 ـ 29

اولیاء الله کی تعریف
اولیاء الله وه مومنین متقین هیں چاهے کوئ ان کو فقیر یا صوفی یا فقیه یا عالم یا تاجر یا فوجی یا کاریگر یا امیر یا حاکم وغیرہ کهے ) مجموع الفتاوى جلد 5

اعمال قلوب کی تشریح

وه اعمال قلوب جن کا نام بعض صوفیہ احوال ومقامات یا منازل السائرین الی اللہ یا مقامات العارفین وغیره رکہتے هیں اس میں سب وہ اعمال هیں جن کو الله ورسول نے فرض کیئے هیں بعض وہ اعمال هیں جو فرض تو نهیں لیکن پسندیده هیں لهذا ان پر ایمان مستحب اور اول پر ایمان فرض جس نے فرض اعمال پر اکتفاء کیا وه اَبراریعنی نیک لوگوں میں سے اور اصحاب الیمین میں سے هے اور جس نے دونوں کو جمع کیا وه مقرّبین سابقین میں سے هے الخ. مجموع الفتاوى جلد 7 صفحه 190

ابن تیمیہ رح اور آئمه تصوف کی تعریف وتزکیہ

سالکین میں سے صراط مستقیم پرچلنے والے جیسے جمهورمشائخ سلف میں سے فُضیل بن عیاض اور ابراہیم اَدہم اور ابوسلیمان دارانی اور معروف کرخی اورسِرّی سقطی اورجنید بن محمد وغیرہم رحمہم اللہ هیں یہ سب بزرگ پہلے زمانے کے هیں اور ان کے بعد کے زمانے کے بزرگوں میں شیخ عبدالقادر جیلانی شیخ حماد شیخ ابی البیان وغیرہم هیں . یہ سب بزرگ سالک کیلئے یہ جائز نهیں سمجہتے تہے که وه امر ونهی سے باهر نکل جائے اگرچه سالک ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے بلکه سالک کیلئے مرتے دم تک مامورات پر عمل کرنا اور محظورات کو چہوڑنا فرض هے . اور یہی وه حق ہے جس پر قران وسنت اور اجماع سلف دلالت کرتے هیں اور اس طرح کی نصیحتیں ان بزرگوں کی کلام بہت زیادہ هیں .

[مجموع الفتاوى جلد 10 صفحه 516 ـ 517]



ابن تیمیهؒ کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور شیخ جنید بغدادیؒ تصوف کے امام ہیں:
آئمہ تصوف میں سے اور پہلے زمانے کے مشہور مشائخ میں سے جنید بغدادی اور ان کے پیروکارهیں اور شیخ عبد القادر جیلانی اور ان جیسے دیگر بزرگ یہ بزرگ امر ونہی کو سب سے زیاده لازم پکڑنے والے تہے اور لوگوں کو بهی اس کی وصیت کرتے تهے الخ مجموع الفتاوى جلد 8 ــ 369
ابن تیمیه رح فرماتےهیں که جنید بغدادی اور ان جیسے دیگر شیوخ آئمہ هدی هیں اور جو اس بارے میں ان کی مخالفت کرے وه گمراه هے ۰

مجموع الفتاوى جلد 5 صــ 321 . اور اپنی کتاب اَلفرقان میں بهی شیخ الاسلام نے جنید بغدادی کو ائمہ هدی میں کها (الفرقان صفحه 98

اورشیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں کها که وه اتباع شریعت میں اپنے زمانه کے سب بڑے شیخ تهے . مجموع الفتاوى جلد 10 صــ 884

اور فرمایاکه صوفیہ میں سے جو بہی شیخ جنید بغدادی کے مسلک پر چلے گا وه هدایت ونجات وسعادت پائے گا ) مجموع الفتاوى جلد 14 ص 355 ابن تیمیہ رح کے نزدیک علماء تصوف مشائخ اسلام اور ائمہ هدایت هیں ( مجموع الفتاوى جلد 2 ص 452ـ



فقیر افضل ہے یا صوفی ؟
شیخ الاسلام فرماتے هیں که اس بارے میں اختلاف هواهے که صوفی افضل هے یا فقیر ایک جماعت نے صوفی کو ترجیح دی جیسے ابوجعفر سهروردی وغیره نے اور ایک جماعت نے فقیر کو صوفی پر ترجیح دی اور تحقیقی بات یہ هے کہ جوان دونوں زیادہ متقی هے وه افضل ہے الخ

(مجموع الفتاوى جلد 11 ص 22 شیخ الاسلام فرماتے هیں صوفیہ کرام کے الفاظ و اصطلاحات ان کے علاوہ اور کوئ نہیں جانتا - مجموع الفتاوى جلد 5 ص 79

صوفیه کے کلام کی تشریح

صوفیه کے کلام کچہه عبارات ظاهری طور پر سمجهہ میں نهیں آتی بلکہ بعض مرتبہ تو بهت غلط عبارت نظر آتی هے لیکن اس کو صحیح معنی پر حمل کیا جا سکتا هے لهذا انصاف کا تقاضہ یہ هے که ان عبا رات سے صحیح معنی مراد لیا جائے جیسے فناء، شہود،اورکشف وغیرہ
مجموع الفتاوى جلد ص 337

ابن تیمیہ رح کے نزدیک فناء کے اقسام

فناء کی تین 3 قسمیں هیں ایک قسم کاملین کی هے انبیاء اور اولیاء میں سے دوسری قسم هے قاصدین کی اولیاء وصالحین میں سے اور تیسری قسم هے منافقین وملحدین کی الخ شیخ نےاس کے بعد ان تینوں اقسام کی تعریف وتفصیل ذکر کی دیکہئے . مجموع الفتاوى جلد 10 ص 219

صوفیہ کرام کی طرف لوگوں نے باطل عقائد بہی منسوب کئے هیں

شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ اهل معرفت صوفیہ میں سے کسی ایک کا بهی یہ عقیده نهیں هے کہ الله تعالی اس میں یا اس کے علاوه دیگر مخلوقات میں حلول واتحاد کر گیاهے ، اور اگر بالفرض اس طرح بات ان اکابر شیوخ کے بارے میں نقل کی جائے تو اکثر اس میں جہوٹ هوتاہے ، جس کو اتحاد وحلول کے قا ئل گمراہ لوگوں نے ان صو فیہ کرام کی طرف منسوب کیاہے ، صوفیہ کرام اس قسم کے باطل عقائد سے بری هیں .. مجموع الفتاوى جلد 11 ص 74 - 75

صوفیہ کرام عقیدہ حلول سے بری هیں

صوفیہ کرام جو امت کے نزدیک مشہور هیں وه اس امت سچے لوگ هیں وه حلول و اتحاد وغیرہ کا عقیده نهیں رکہتے بلکه لوگوں کو اس سے منع کرتے هیں اور اهل حلول کی رد میں صوفیہ کرام کا کلام موجودهے ، اور حلول کے عقیده کو ان نا فرمان یا فاسق یا کافر لوگوں نے اختیار کیا جنہوں نے صوفیہ کرام کے ساتهہ مشابہت اختیارکی اور ظاہری طور پر ولایت کے دعوے کیئے الخ مجموع الفتاوى جلد 15 ص 427

صوفیہ کرام کفر سے بری هیں

اگر ان لوگوں کی تکفیر کی جائے تو لازم آئے گا بهت سارے شافعی مالکی حنفی حنبلی اشعری اہل حدیث اهل تفسیر اور صوفیہ کی تکفیر حالانکہ باتفاق مسلمین یہ سب لوگ کافر نهیں تہے .. مجموع الفتاوى جلد 35 ص 101

شیخ الاسلام کے شاگرد رشید حافظ صوفی ابن القیم رح کا کلام تصو ف کے بارے میں
علم تصوف بندوں کے اشرف وافضل علوم میں سے ہے علم توحید کے بعد اس سے زیاده اشرف کوئ نہیں ہے اور یہ علم تصوف شریف نفوس کے ساتهہ هی مناسبت رکہتا ہے.. طريق الهجرتين ص 260-- 261

صوفیہ کے اقسام

صوفیہ کی تین 3 قسمیں هیں 1 صوفیہ اَرزاق ،2 صوفیہ رسوم ،3 اور صوفیہ حقائق ، پهلے دو2 فریق جوهیں سنت وفقہ کا علم رکهنے والے لوگ ان کی بدعات کو جانتے هیں ، اور جہاں تک تعلق صوفیہ حقائق کا تو صوفیہ حقائق وہ لوگ هیں جن کے سامنے فقهاء ومتکلمین کے سر جهکے هوئے هیں اور حقیقت میں صوفیہ حقائق هی علماء اور حکماء هیں .. شرح منازل السائرين ..

صوفیہ و فقراء کے اقسام صوفی ابن القیم رح کے نزدیک

پهر ان کی دو2 قسمیں هیں صوفیہ اور فقراء پهر اس میں اختلاف هے کہ صوفیہ کو فقراء پر ترجیح هے یافقراء کو صوفیہ پریا دونوں برابر هیں ، اس بارے میں تین 3 اقوال هیں . 1 ایک جماعت نے صوفی کو ترجیح دی اور یہ اکثر اهل عراق کا قول هے اور صاحب کتاب ، العوارف ، کابهی یہی قول هے ، اور انهوں نے کها کہ فقیر کی جهاں انتهاء هوتی هے وهاں سے صوفی کی ابتدا هوتی هے .. 2 ایک جماعت نے فقیر کو ترجیح دی ، اور فقر کو تصوف کا لُب لباب اور ثمره قرار دیا اور اکثر اهل خراسان کاقول هے ..3 اور ایک جماعت کی رائے یہ هے کہ فقر اور تصوف ایک هی چیز هے ، اور اهل شام کا قول هے .. مدارج السالكين ج 2 ص 368

عارف با الله کی تعریف

بعض سلف نے کها که عارف کی نیند بیداری ہوتی ہے ، اس کے سانس تسبیح هوتی هے ، اور عارف کی نیند غافل کی نماز سے افضل هے ،عارف کی نیند بیداری کیوں هوتی هے؟ اس لیئے که اس کا دل زنده اور بیدار هوتا هے اور اس کی آنکهیں سوئی هوتی هیں اور اس کی روح عرش کے نیچے اپنے رب اور خالق کے سامنے سجده ریز هوتی هے جسم اس کا فرش پر هوتا هے اور دل اس کا عرش کے ارد گرد هوتا هے..مدارج السالكين ج 3 ص 335

سبحا ن الله عا رف کی یہ حالت وتعریف زندگی میں پهلی مرتبہ صوفی ابن القیم رح کی کتا ب میں دیکهی ۰ فجزاه الله خیرالجزاء علی هذه الفوائد الرائعہ

صوفیہ کی عبارات و اصطلاحات کو جا ننا هر کس و نا کس کا کام نهیں

صوفی ابن القیم رح فرماتے هیں خوب جان لو کہ صوفیہ کرام کی زبان میں جو استعارات هوتے هیں اتنے کسی اور جماعت کی زبان میں نهیں هیں ، عام بول کر خاص مراد لینا، لفظ بول کر اس کا اشاره وکنایہ مراد لینا حقیقی معنی مراد نہ لینا وغیره، اس لیئے صو فیہ کرام فرماتے هیں کہ هم اصحاب اشاره هیں اصحاب عباره نهیں هیں ، لهذا ایک جماعت نے ان صوفیہ کرام کی ظاهری عبارات کو لیا اور ان کو بدعتی و گمراه قرار دیا ، اور ایک جماعت نے ان عبارات و اشارات کے اصل روح ومغز ومقاصد کو دیکها اور ان کو صحیح قرار دیا ۰ مدارج السالكين ج 3 ص 330

صوفیہ کرام نے مجمل ومتشابہ الفاظ بول کر صحیح معانی مراد
لیئے هیں لیکن جاهل لوگوں نے ان الفاظ کےسمجهنےمیں غلطی کی

خبردار هو کر خوب جان لو کہ صوفیہ کرام کی اصطلاح میں جو مجمل ومتشابہ الفاظ واقع هوئے هیں وه اصل آزمائش هے ، کم علم اور ضعیف معرفت والا آدمی جب وہ الفاظ سنتاهے، تو وه اس کو حلول اتحاد وشطحات سمجهہ لیتا هے ، حالانکہ صوفیہ عارفین نے اس قسم کے الفاظ بول کر فی نفسہ صحیح معانی مراد لیئے هیں، جاهل و ان پڑه لوگوں نے ان کی صحیح مطلب ومراد سمجهنے میں غلطی کی ، اور صوفیہ کرام کو ملحد و کا فر قرار دیا . مدارج السالكين ج 3 ص 151

صوفی ابن القیم رح کے نزدیک فناء کی تعریف

فناء کا لفظ جو صوفیہ کرام استعمال کرتےهیں ، اس کا مطلب یہ هے کہ بنده کی نظروں سے سب مخلوقات دور هو جائیں اور افق عدم میں غائب هو جائیں جیسا کہ پیدا هونے سے پهلے تهیں ، اور صرف حق تعالی کی ذات اس کی نظروں میں باقی رهے ،پهر تمام مشاهدات کی صورتیں بهی اس کی نظروں سے غائب هو جائیں ، پهر اس کا شهود بهی غائب هو جائے ،اور صرف حق تعالی کا مشاهده کرے . حقیقت اس کی یہ هے کہ هر وه چیز جو پهلے موجود نهیں تهی اس کی نظروں سے فناء هو جائے اور صرف حق تعالی عزوجل ولم یزل کی ذات عالی اس کی نظروں کے سامنے رهے ۰ اور خوب جان لو کہ اس فناء سے ان کی مراد یہ نهیں هے کہ الله تعالی کے سوا هر چیز کا وجود خارج میں حقیقتََا فناء هو جائے ،

بلکہ مطلب یہ هے کہ اس بنده کے حِس اورنظروں سے یہ سب چیزیں غائب هو جائیں فقط مدارج ج 1 ص

علم لَدُنّی کی تعریف

علم لدنی عبودیت ، اتباع ،صدق مع الله ،اخلاص ،علوم نبوت حاصل کرنے میں کو شش ،اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع کا ثمره هے ، ایسے بنده کیلیئے کتاب وسنت کی فهم کا خصوصی دروازه کهول دیا جاتاهے الخ مدارج السالكين ج 2 ص 457

فراست کی تعریف

فراست ایک نور هے جس کو الله تعالی بنده کے دل میں ڈالتا هے ، جس کے ذریعه سے بنده حق و باطل ، حالی و عاطل ، صادق و کاذب کے درمیان فرق کرتا هے الخ مدارج السالكين ج 2 ص 483
ابن تیمیہ رح تبرک کو جائز کهتےهیں اور اس کو امام احمد بن حنبل رح کی طرف منسو ب کرتے هیں
فرمایاکہ امام احمد وغیره نے منبر نبوی اور رُمّانہ نبوی صلی الله علیه وسلم سے تبرک کو جائز قرار دیا ۰ اقتضاء الصراط المستقيم ج 1 ص 367 ابن تیمیہ رح قرآن اور آثار النبی صلی الله علیہ وسلم کے ساتهہ تبرک کو جائز کهتے هیں

اگرکوئ آدمی کسی برتن یا تختی پر کچهہ قرآن یا ذکر لکهہ دے اور اس کو پانی وغیره سے مٹاکر پی لے ، تو اس میں کوئ حرج نهیں هے ، امام احمد وغیره نے بهی اس بات کی تصریح کی هے ، اور ابن عباس رضی الله عنهما سے منقول هے که وه قرآن و ذکر کے کلمات لکهتے تهے اور بیمار لوگوں کو پلانے کا حکم کرتے تهے ، اس میں دلیل هے برکت کی ،اور وه پانی بهی بابرکت هے جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم وضو فرمایا اور حضرت جابر رض پر چهڑک دیا کیوں کہ وه بیمار تهے ،اور سب صحابہ کرام رض اس سے تبرک حاصل کرتے تهے

مجموع الفتاوى ج 12 ص 599

ابن تیمیہ رح سُبحہ یعنی دانوں والی تسبیح استعمال کرنے کو جائز اور صحابہ رض کا عمل بتلاتے هیں
انگلیوں کے ساتهہ تسبیح شمار کرنا سنت هے ،اور کهجوروغیره کی گٹهلیوں اورکنکریوں وغیره کے ساتهہ بهی تسبیح پڑهنا جائزهے ،بعض صحابہ رض بهی اس طرح کرتے تهے ،اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُم المومنین کو کنکریوں کے ساتهہ تسبیح پڑهتے دیکها تو آپ نے اس کی تائید کی منع نهیں کیا ،اور حضرت ابو هریره رض کے بارے میں روایت هے کہ وه بهی اس کے ساتهہ تسبیح پڑهتے تهے ،اور وه تسبیح جو دهاگے میں دانے وغیره ڈال کر بنائ جاتی هے ، بعض نے اس کو مکروه کها هے اوربعض نے مکروه نهیں کها ،شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ اگر نیت اچهی هو تویہ تسبیح یعنی دهاگے میں دانے وغیره ڈال کر جو بنائ جاتی هے یہ جائزهے مکروه نهیں هے .. مجموع الفتاوى ج 22 ص 6
ابن تیمیہ رح نماز میں بهی سُبحہ یعنی تسبیح استعمال کرنے کو جائز کهتے هیں

سوال ۰ ایک آدمی نمازمیں قرآن پڑهتاهے اور تسبیح کے ساتهہ شمار کرتا هے کیا اس کی نماز باطل هو گی یا نهیں ؟
جواب ۰ اگر سوال سے مراد یہ هے که وه آیات شمار کرتاهے یا ایک هی سورت مثال کے طور قل هوالله احد کا تکرارشمار کرتاهے تسبیح کے ساتهہ تو یہ جائز هے اس میں کوئ حرج نهیں هے ، اور اگر سوال سے کچهہ اور چیز مراد هو تو اس کو بیان کردیں ۰ والله اعلم
مجموع الفتاوى ج 22 ص 625

میت کے لیئے ایصا ل ثواب جا ئز هے

سوال۰ اگر میت کو تسبیح تحمید تهلیل تکبیر کا ثواب هدیہ کر دیاجائے تواس کو ثواب پہنچتا هے یا نهیں ؟
جواب ۰ میت کو اگر اس کے اهل وعیال وغیره تسبیح تکبیر اور تمام اذکا ر کا ثواب هدیہ کردیں تو وه اس کو پہنچ جاتاهے والله اعلم ۰ مجموع الفتاوى ج 24 ص 324-321
میت کیلئے کلمہ طیبہ 70 هزار مرتبہ پڑهنا جائز هے

سوال۰ کیامیت کیلئے کلمہ طیبہ 70 هزار مرتبہ پڑهہ کر اس کو بخش دیا جائے تو اس کو جہنم سے براءت حاصل هو جائے گی یہ حدیث صحیح هے یا نهیں ؟

اور اگر اس کا ثواب میت کو بخش دے تو اس کو پہنچتا هے یا نهیں ؟

جواب ۰ اگر اس طرح 70 هزار دفعہ یا کم یا زیاده پڑهہ کر میت کو بخش دیا جئے تو اس کو ثواب پہنچتا هے اور الله تعالی میت کو اس سے نفع دیتے هیں ، باقی یہ حدیث نہ صحیح هے نہ ضعیف یعنی حدیث نهیں هے والله اعلم ۰ مجموع الفتاوى ج 24 ص 324

هر قسم کے نیک اعما ل کا ثواب میت کو پہنچتا هے

قرآن مجید کی تلاوت اور صدقہ وغیرها نیک اعمال کا جهاں تک تعلق هے تو علماء اهل سنت کا اس میں کوئ اختلاف نهیں کہ عبادات مالِیّہ جیسے صدقہ ، عتق وغیره کا ثواب اس کو پہنچتا هے ، جیسا کہ دعا اور استغفار اور نماز جنازه اور اس کے قبر کے پاس دعا کا ثواب بهی اس کو پہنچتاهے . هاں عبادات بدنِیّہ روزه نماز قراءت کی ثواب میں اختلاف هواهے ، لیکن صواب اور صحیح با ت یہ هے کہ تمام نیک اعما ل کا ثواب میت کو پہنچتا هے ، اور هر مسلمان کی طرف سے چاهے وه میت کا رشتہ دار هو یا غیر هو میت کو جو کچهہ بخشا جا تا هے میت کو اس سے نفع هو تا هے ، جیسا کہ اس پر نماز جنازه پڑهنے اور اس کے قبر کے پا س دعا کرنے سے اس کو نفع هوتا هے ۰۰
مجموع الفتاوى ج 24 ص 367-366

ابن تیمیہؒ اور با طنی علم
علم باطن قلوب کے ایمان و معارف واحوال کا علم هے اوروه علم هے با طنی ایمان کے حقائق کا اور یہ باطنی علم اسلام کے ظا هری اعمال سے افضل واشرف هے . ألفرقان ص 82

اور صوفیہ میں بعض حضرت علی رض کو علم با طنی میں فضیلت دیتے هیں جیسا شیخ حربی اوردیگر کا طریقہ هے اور یہ لوگ دعوی کرتے هیں کہ حضرت باطنی علوم کے سب سے بڑے عا لم هیں اور حضرت ابو بکر رض ظاهری علوم کے سب سے بڑے عالم هیں ، اِن لوگوں کی رائے محققین و ائمہ صوفیہ سے مختلف هے ، کیونکہ محققین صوفیہ کا اتفاق هے کہ باطنی علوم کے سب بڑے عالم ابوبکر صدیق رض هیں ، اور اهل سنت والجماعت کا اتفاق هے کہ ابوبکر صدیق رض امت میں ظاهری وباطنی علوم کے سب سے بڑ ے عالم هیں اور اس کے اوپر ایک سے زائد علماء نے اجماع نقل کیا هے ..
مجموع الفتاوى ج 13 ص 237

اولیاء کے کرامات و مکاشفات

فرماتے هیں کہ اهل سنت والجماعت کے اصول میں سے هے اولیاء الله کی کراما ت کی تصدیق کرنا اور جو کچهہ ان کے هاتهو ں پر خوارق عادات صادر هوتے هیں مختلف علوم ومکا شفات میں اور مختلف قدرت و تا ثیرات میں ان کی تصدیق کرنا الخ مجموع الفتاوى ج 3 ص 156
اولیاء کی ایک کرامت مردوں کو زنده کرنا هے

شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ کبهی مردوں کو زنده کرنا انبیاء کے متبعین یعنی اولیاء کے هاتهہ پر بهی هوتا هے ، جیسا کہ اِس امت کی ایک جماعت کی هاتهوں پر یہ کرامت صادر هوئ الخ كتا ب النبوات ص 298 اسی کتاب میں فرماتے هیں کہ مردوں کو زنده کرنا تو اس میں بهت سارے انبیاءوصلحاء شریک هیں كتا ب النبوات ص 218

ایک آدمی کا گدها راستے میں مر گیا اُس کے ساتهیوں نے اُس کو کها کہ آ جاوء هم اپنی سواریوں پر تیرا سامان رکهتے هیں اُس آدمی نے اپنے ساتهیوں کو کہا تهوری دیر کیلئے مجهے مهلت دو، پهر اُس آدمی نے اچهے طریقہ سے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑهی ، اور الله تعالی سے دعا کی تو الله نے اس کے گدهے کو زنده کر دیا پس اس آدمی نے اپنا سامان اس پر رکهہ دیا ۰ مجموع الفتاوى ج 11 ص 281

شیخ الاسلام اور سماع موتی

سوال۰ کیا میت قبر میں کلام کرتاهے؟
جواب ۰ جی هاں میت قبر میں کلام کرتاهے ، اور جو اس سے با ت کرے تو سنتا بهی هے جیسا که صحیح حدیث میں هے، انهم یسمعون قرع نعالهم ، اور صحیح حدیث میں هے کہ میت سے قبر میں سوال کیا جاتا هے اور اس سے کها جاتا هے مَن ربُّک ؟ وما دینُک ؟ ومَن نبیُّکَ ؟ الخ
مجموع الفتاوى ج 4 ص 273

کبهی میت کهڑا هوتا هے ، اور چلتا هے ، اور کلام بهی کرتا هے ،اور چیخ بهی مارتا هے ، اور کبهی مرده قبر سے با هر بهی دیکها جا تا هے الخ مجموع الفتاوى ج 5 ص 526

شیخ الاسلام کے شا گرد ابن مُفلِح فرماتے هیں کہ همارے شیخ یعنی ابن تیمیہ نے فرمایا کہ اس با رے میں بهت ساری احادیث آئ هیں کہ میت کے جو اهل وعیال و اصحاب دنیا میں هوتے هیں اُن کے احوال میت پر پیش هوتے هیں اور میت اس کو جانتا هے ،اور اس بارے میں بهی آثار آئ هیں کہ میت دیکهتا هے ، اور جو کچهہ میت کے پاس هوتا هے اس کو وه جانتا هے ، اگر اچها کام هو تو اس پر میت خوش هوتا هے اور اگر برا کا م هو تو میت کو اذیت هو تی هے ۰ كتا ب الفروع ج 2 ص 502
موت کے بعد خواب میں مشکل مسائل حل کر نا

ابن القیم رح فرماتے هیں کہ مجهے ایک سے زیاده لوگوں نے بیان کیا جو کہ شیخ الاسلام کی طرف مائل بهی نهیں تهے ، انهوں نے شیخ الاسلام کو موت کے بعد خواب میں دیکها اور فرائض وغیره کے مشکل مسائل کے بارے میں سوال کیا تو شیخ الاسلام نے ان کو درست و صحیح جواب دیا ، اور یہ ایسا معاملہ هے کہ اِس کا انکار وُهی آدمی کرے گا جو کہ اَرواح کے احکام واعمال سے لوگوں سب سے بڑا جاهل هو ۰ كتا ب الروح ص 69

تنبیه

کتاب الروح ، ابن القیم رح کی کتا ب هے اس کتا ب میں ارواح واموات کے جو حالات وواقعات بیان هوئے هیں کسی اور کتاب میں اتنی تفصیل آپ کو نهیں ملے گی ، اور اس کتاب وه سب کچهہ هے جس کی وجہ سے نام نهاد اهل حدیث اور سلفی دیگر علماءکو مشرک وبدعتی کهتے هیں ، اسی لیئے تو حید وسنت کے ان نام نهاد علمبرداروں نے جب اس کتاب کو دیکها تو اس کا انکار کر دیا اور کها کہ یہ سلفیہ کے امام ابن القیم رح کی کتاب نهیں هے بلکہ اُن کی طرف منسوب کی گئ هے ، حقائق کا انکارکرکے جاهل آدمی کو تو منوایا جا سکتا هے لیکن اهل علم کے نزدیک اس کی کوئ حیثیت نهیں هے ، یہ کتاب درحقیقت ابن القیم رح هی کی هے ،1 جتنے بهی کبار علماء مثلا حافظ ابن حجر وغیره نے ابن القیم کا ترجمہ وسیرت ذکر کی هے سب نے ان کی تا لیفات میں ،کتاب الروح، کابهی ذکر کیاهے اور کسی نے بهی اس اعتراض نهیں کیا ، 2 اورسب سے بڑهہ کر یہ کہ خود ابن القیم رح نے اپنی دیگر کتابوں میں ، کتاب الروح ، کا حوالہ دیا هے مثلا اپنی کتا ب ، جلاء الاَفهام ، باب نمبر چهہ ۶ میں حضرت ابوهریره رض کی حدیث ، اذا خَرجت روحُ المومن الخ پر کلام کرتے هوئے ابن القیم رح نے کها کہ میں نے اِس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث پر تفصیلی کلام اپنی ، کتاب الروح، میں کیاهے ،اب اس کا کیا جواب هو گا سلفیہ کے پاس ؟ 3 حافظ ابن حجر رح کے شاگرد علامہ بقاعی نے بهی یہ شهادت دی کہ یہ ابن القیم کی کتاب هے اور انهوں نے اس کا خلاصہ بهی لکهاهے ، سِرُّ الروح ، کے نام سے ، 4 ابن القیم رح کتاب الروح میں جا بجا اپنے شیخ ابن تیمیہ رح اقوال وتحقیقات بهی ذکر کرتے هیں جیسا کہ اپنی دیگر کتابوں میں ان کی یهی عادت مالوفہ هے ۰

\
ابن تیمیہ رح کا کشف اور لوح محفوظ پر اطلاع

ابن قیم رح شیخ الاسلام کی باطنی فراست کا تذکره کرتے هوئے فرماتے هیں کہ میں نے شیخ الاسلام کی فراست میں عجیب عجیب امور دیکهے اور جو میں نے مشا هده نهیں کیئے وه بهت بڑے هیں اور ان کی فراست کے واقعات کو جمع کرنے کیلئے ایک بڑا دفتر چا ئیے ،فرمایا کہ ابن تیمیہ رح نے ،،699 هجری ،، کے سال اپنے ساتهیوں کو خبر دی کہ ،ملک شام ، میں تاتاری داخل هوں گے اور مسلمانوں کے لشکرکو فتح ملے گی اور ، دِمَشق ، میں قتل عام اور قید وبند نهیں هو گا اور یہ خبر ابن تیمیہ رح نے تاتاریوں کی تحریک سے پهلے دی تهی

پهر ابن تیمیہ رح نے لوگوں کو خبر دی ،،702 هجری ،، میں جب تاتا ریوں کی تحریک شروع هوئ اور انهوں نے ملکِ شام میں داخل هونے کا اراده کیا تو شیخ الاسلام نے فرمایا کہ تاتاریوں کو شکست و هزیمت هو گی اور مسلمانوں کو فتح ونصرت ملے گی اور شیخ الاسلام نے یہ بات قسم اٹها کر کهی ، کسی نے کها ان شاء الله بهی بولیں تو فرما یا ان شاء الله یقیناََ ۰ ابن القیم رح فرماتے هیں کہ میں نے شیخ الاسلام سے سنا فرمایا کہ ، جب انهوں نے مجهہ پر بهت زیاده اصرار کیا تو میں نے کها کہ مجهہ پر زیاده اصرار نہ کرو الله تعالی نے ،،لوح محفوظ ،، پر لکهہ دیا هے کہ تاتاریوں کو اِس مرتبہ شکست هو گی اور فتح مسلمان لشکروں کی هو گی ، اور ایسا هی هوا الخ ابن القیم رح فرماتے هیں کہ مجهے کئ مرتبہ ابن تیمیہ رح نے ایسے با طنی امور کی خبر دی جو میرے سا تهہ تهی میں نے صرف اراده کیا تها زبان سے نهیں بولا تها ، اور مجهے بعض ایسے بڑے واقعات کی بهی خبر دی جو مستقبل میں هونے والے تهے ، ان میں سے بعض تو میں نے دیکهہ لیئے هیں باقی کا انتظار کر ها هوں ، اور جو کچهہ شیخ الا سلام کے بڑے اصحاب نے مشاهده کیا هے وه اُس سے ،دوگنا ، هے جو میں نے مشاهده کیا ۰۰مدارج السا لكين ج 2 ص 490-489

فائده

مدارج السالکین ، ابن القیم رح کی کتاب هے اور یہ کتاب شرح هے کتا ب ، مَنا زِلُ السا ئرین ،کی اور اس کتا ب کے مصنف کا نا م هے علامہ ابو اسما عیل عبدالله بن محمد الاَنصاری الهروی الحنبلی الصوفی اوران کی یہ کتاب علم تصوف اور مسائل تصوف پر مشتمل هے ،ابن القیم رح نے اس کتا ب کی شرح ۳ جلدوں میں لکهی اور اس صوفی بزرگ کی بڑی تعریف کی اور اس صوفی عالم کو شیخ الاسلام کا لقب دیا اور جنت میں اُس کے ساتهہ جمع هو نے کی دعا کی اور اپنے آپ کو اس کا مُرید کها الخ لهذا جو لوگ تصوف کو شرکت و بدعت اور صوفیہ کو مشرک کہتے هیں اُن کے اِن بکواسا ت سے ابن تیمیہ رح اور ابن القیم رح کیسے محفوظ هوں گے ؟ کیونکہ دونوں استاد شاگرد صوفی هیں اور شاگرد استاد سے بهی بڑا صوفی هے کما لا یخفی علی العلما ء

خواب میں الله تعالی کی زیا رت

شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ جس نے خواب میں الله تعالی کو دیکها تو دیکهنے والا اپنی حالت کے مطا بق الله تعالی کو کسی صورت میں دیکهے گا ، اگر وه آدمی نیک هے تو الله تعالی کو اچهی صورت میں دیکهے گا ، اسی لیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے الله تعالی کو خو بصورت اور بهترین صورت میں دیکها۰ مجموع الفتا وى ج 5 ص 251

شیخ الاسلام کا مخصوص وظیفہ مخصوص وقت میں

حافظ عمر بن علی اَلبَزّار شیخ الاسلام کے شاگرد هیں وه فرماتے هیں کہ میں نے شیخ الاسلام کی یہ عادت دیکهی کہ ، نماز فجر کے بعد بغیر ضرورت کوئ ان سے بات نهیں کرتا ذکر میں مشغول رهتے بعض دفعہ ان کے ساتهہ بیٹها هوا آدمی بهی اُن کا ذکر سنتا ، اور اس دوران کثرت سے آسمان کی طرف نظر پهیرتے تهے ، طلوع شمس تک ان کا یهی طریقہ هوتا تها ۰ اور میں جب ، دِمَشق ، میں مقیم تها تو دن و رات کا اکثر حصہ شیخ الاسلام کے ساتهہ گذرتا ، مجهے اپنے قریب بٹها تے تو اس وقت میں ان کا ذکر وتلاوت سنتا ، میں نے دیکها کہ وه تکرار کے ساتهہ سورت فاتحہ پڑهتے تهے اِس سارے وقت میں یعنی نمازفجر کے بعد سے لے کر طلوع شمس تک ۰ تومیں نے اس بات میں غور کیا کہ شیخ الاسلام نے صرف اسی سورت کا وظیفہ کیوں لازم پکڑاهے ؟ تو میرے اوپر ظاهر هوا والله اعلم کہ شیخ الاسلام کا اراده یہ تها اس کی تلاوت سے ان تمام فضائل کو جمع کرلے جو احادیث میں وارد هوئ هیں ، اوروه جو علماء نے ذکر کیاهے کہ ،کیا اس وقت میں مسنون اذکار کو تلاوت قرآن پر مقدم کرنا مستحب هے یا تلاوت کو اذکار پر ؟ تو شیخ الاسلام نے سورت فاتحہ کی تکرار کو اس وقت میں وظیفہ مقر ر کیا تاکہ دونوں اقوال کو جمع کرلیں اوریہ شیخ الاسلام کی کمال ذهانت اور پختہ بصیرت تهی ۰۰ ألأعلام العليه فى مناقب ابن تيمية ج 1 ص 38 تعليق , سوال ؟

یقینا شیخ الاسلام نے اس خاص وقت میں اپنے لیئے جو خاص وظیفہ مقر ر کیا تها وه اس طریقہ پر کسی حدیث سے ثا بت نهیں ، لهذا وه لوگ جو صوفیہ کرام کے اورد ووظائف کو بدعت و منکر کهتے هیں ، شیخ الاسلام کے اس وظیفہ کو کیا کهیں گے ؟؟؟

شیخ الاسلام کی کشف و کرامات

حافظ البزّار رح اپنی اسی کتاب میں شیخ الاسلام کی کشف وکرامات کابهی ذکرکرتے هیں ، فرمایا بعض وه کرامات جن کا میں نے مشاهده کیا ، ان میں سے ایک یه هے که ، بعض علماء کے ساتهہ چند مسائل میں میرا اختلاف هو گیا اور اُن مسائل میں بحث و مباحثہ طویل هو گیا ، تو هم نے فیصلہ کیا کہ شیخ الاسلام کے پاس جاتے هیں جس قول کو وه ترجیح دے دیں اسی پر فیصلہ کرتے هیں ، اتنے میں شیخ الاسلام حاضر هوئے تو هم نے شیخ الاسلام سے سوال کرنے کا اراده کر لیا ، لیکن شیخ الاسلام همارے بولنے سے پهلے هی هم پر سبقت کر گئے ، اور اکثر وه مسائل جن میں همارا بحث و مبا حثہ هوا تها ، شیخ الاسلام نے ایک ایک مسئلہ ذکر کرنا شروع کر دیا ، ساتهہ هی علماء کے اقوال بهی ذکر کرتے پهر هر مسئلہ کو دلیل کے ساتهہ تر جیح دیتے ، یهاں تک کہ آخری مسئلہ ذکر کیا جس میں همارا اختلاف هوا تها ،اور هم نے جو شیخ الاسلام سے سوال پوچهنے کا اراده کیا تها وه بهی بیان کیا ، لهذ ا میں اور میرا ساتهی اور جو لوگ همارے ساتهہ حاضر تهے سب حیران ره گئے ، کہ کیسے شیخ الاسلام کو کشف هو گیا اور همارے دلوں میں جو کچهہ تها الله تعا لی نے اُن پر ظا هر کر دیا ۰۰ ؟؟؟؟ مزید کرامات کی تفصیل کے لیئے دیکهئے= ألأعلام العلية ج1 ص 56

شیخ الاسلام ابن تیمیہ صوفیہ کے قبرستان میں مدفون هیں

علامہ ابن عبد الهادی اَلمَقدَسی اپنی کتا ب میں شیخ الاسلام کی وفا ت کا تذکره کرتے هوئے فرماتے هیں کہ ، لوگوں نے تبرک حاصل کرنے کیلئے شیخ الاسلام کے نعش پر اپنے رومال اور پگڑیاں ڈال دی تهیں ؟ اور جنازه شیخ الاسلام کے بهائ زین الدین عبد الرحمن نے پڑهایا ، اور شیخ الاسلام کو ،مَقبره صوفیہ ، میں اپنے بهائ شرف الدین عبد الله کے پہلو میں دفن کیا گیا ؟ العقودالدُرّیہ فی سیرت ابن تیمیہ ج 1 ص 486

تصوف اور اس سے متعلق چند اقوال میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح اور ابن القیم رح کی کتابوں سے مختصر طور پر با حوالہ ذکر کیئے هیں ، تا کہ وه لوگ جو ان دونوں بزرگوں کواپنا راهنما تسلیم کرتے هیں اور ان کی تعلیمات سے جاهل هیں ،ان کو نصیحت هو جائے اور اولیاء وصوفیہ کرام کو بُرا کهنے سے باز آ جائیں ، اور چند جاهل اور جهوٹے لوگوں کی پیروی میں اپنی آخر ت برباد نہ کریں ۰ اور اگر یہ لوگ اپنی اس غلط روش سے با ز نهیں آتے ، تو هماری درخواست هے کہ ، فضائل اعمال ، وغیره کتابوں کا اپریشن کے نا م سے چند جاهل لوگوں نے جو کتابیں لکهی هیں تو وه لو گ ایک کتا ب شیخ الاسلام کی ، مجموع الفتا وی ، اور ابن قیم کی کتاب ، مدارج السالکین ، کا اپریشن کے نا م سے ضرور لکهنے کی زحمت کریں ، کیونکہ جن امور کی وجہ سے ، فضائل اعمال ، وغیره کتابوں کا اپریشن کیا گیا هے وه سب کچهہ بلکہ اس سے بهی بهت زیاده شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم کی کتا بوں میں موجود هے ؟

تصوف قرآن وسنت کی روشنی میں
تصو ف کا مفہوم 
تصوف کا اصل مادہ صوف ہے ،جس کا معنی ہے اون ۔ اور تصوف کا لغوی معنی ہے اون کا لباس پہننا ،جیسے تقمص کامعنی ہے قمیص پہننا ۔ ( ہجویری ابو الحسن سید علی بن عثمان : کشف المحجوب، اردو ترجمہ عبد الرحمٰن طارق، لاہور، ادارہ اسلا میات ، طبع اول 2005ع، ص 416)

لیکن صوفیاء کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں: اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں ا وررذائلِ اخلاق سے پاک وصاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔(چشتی پروفیسر یوسف سلیم: تاریخ تصوف،لاہور، دارالکتاب،طبع اول 2009ع، ص 115)

اور صوفیاء ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اسی کی دعوت دیتے ہیں۔ اب لفظ صوفیاء، اپنے لغوی معنی ( اون کا لباس پہننے والے ) میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے اندرکے تزکیہ وتطہیر کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ اور اب یہ لفظ ایسے ہی لوگوں کے لیے لقب کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔لیکن چوں کہ ابتدا میں ایسے لوگوں کا اکثر لباس صوف (اون) ہی ہوتا تھا ،اس وجہ سے ان پر یہ نام پڑ گیا، اگرچہ بعد میں ان کا یہ لباس نہ رہا۔
(القشیری ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن : الرسالة القشیریہ، ترجمہ محمد عبد النصیر العلوی، لاہور مکتبہ رحمانیہ ص 416 )

تصوف کی اہمیت
حدیث کی کتابوں میں ایک حدیث ”حدیثِ جبرئیل“ کے نام سے مشہور ہے،اس میں ہے کہ ایک دن جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ سوالات کیے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ:احسان کیا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو ،بھلا اگر تم خدا کو دیکھ نہیں رہے، تو کم سے کم یہ یقین کرلو کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔(البخاری ابو عبد الله محمد بن اسمٰعیل : صحیح البخاری ، الریاض، دار السلام للنشر والتوزیع ،طبع دوم 1999ع، ص 12 حدیث 50 )

بندہ کے دل میں اسی احسان کی کیفیت پیدا کرنے کا صوفیاء کی زبان میں دوسرا نام تصوف یا سلوک ہے۔ تصوف در اصل بندہ کے دل میں یہی یقین اور اخلاص پیدا کرتا ہے۔ تصوف مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ مذہب کی روح ہے۔ جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش ہے، اسی طرح الله کی عبادت بغیر اخلاص کے بے قدر وقیمت ہے۔ تصوف بندہ کے دل میں الله تعالیٰ کی ذات کی محبت پیدا کرتا ہے۔ اور خدا کی محبت بندہ کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خلق ِخدا کے ساتھ محبت کرے، کیوں کہ صوفی کی نظر میں خلقِ خدا، خدا کا عیال ہے۔ اور کسی کے عیال کے ساتھ بھلائی عیال دار کے ساتھ بھلائی شمار ہوتی ہے خدا کی ذات کی محبت بندہ کو خدا کی نافرمانی سے روکتی ہے اور بندگانِ خدا کی محبت بندہ کو ان کے حقوق غصب کرنے سے روکتی ہے۔ اس لیے صوفیاء حضرات کی زندگی حقوق الله اور حقوق العباد کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے گذرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز انسان کو الله تعالیٰ کا فرماں بردار بنائے اور اس کے بندوں کا خیرخواہ بنائے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تصوف اور اہلِ تصوف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا: ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں سے چھ کروڑ (85 فیصد)مسلمان یقیناََ اہلِ تصوف کے فیوض وبرکات کا نتیجہ ہیں۔ (حافظ محمد موسیٰ بھٹو: تصوف و اہلِ تصوف، سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ حیدرآباد ، ص115 )






ہم اپنے اس مقالے میں تصوف کی ان باتوں کا قرآن وسنت کی روشنی میں تجزیہ کریں گے جو صوفیا حضرات کے ہاں متفق علیہ ہیں ۔

صوفیا حضرات جن باتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں وہ یہ ہیں :
1... اللہ تعالیٰ کی محبت
2... رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت
3... تزکیہ نفس ( اپنے نفس کو فضائلِ اخلاق سے آراستہ کرنا اور رذائلِ اخلاق سے پاک کرنا)
4... برداشت اور رواداری
5... خدمت ِخلق

اب ہم ہر ایک بات کا قرآن وسنت کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں :
اللہ تعالی کی محبت 
صوفیا حضرات اپنی تعلیمات میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیتے ہیں وہ عشق ومحبتِ خداوندی ہے ،کیوں کہ محبت ہی ایک ایسی چیزہے جو محب کو اپنے محبوب کی اطاعت پر مجبور کرتی ہے اور اس کی نا فرمانی سے روکتی ہے اور محب کے دل میں محبوب کی رضا کی خاطر ہر مصیبت و تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی قوت وصلاحیت پیدا کرتی ہے،اور محبت ہی وہ چیز ہے جو محب کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسا عمل کرے جس سے محبوب راضی ہو اور ہر اس عمل وکردارسے باز رہے جس سے محبوب ناراض ہو ، چناں چہ صوفیا حضرات اگر زہد، تقویٰ،عبادت،ریاضت اور مجاہدے کرتے ہیں تو ان کا مقصد صرف اورصرف خداکی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔وہ جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے خدائی بندگی نہیں کرتے، چناں چہ حضرت رابعہ بصریہ  اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں :”خدایا! اگر میں تیری بندگی جنت کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اس سے محروم رکھنا ،اگر میں جہنم کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے اس میں جھونک دینا ،لیکن اگر میں تیری بندگی تجھے پانے کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اپنے آپ سے محروم نہ رکھنا “۔( مرزا قلیچ بیگ:مقالات الاولیاء ،سندھ پرنٹنگ پریس ،نوشہری دروازہ، شکارپور 1927ع ،ص 15)

فراق و وصل چہ خواہی؟ رضائے دوست طلب کہ حیف باشدا زو غیرازیں تمنائے ۔ ” فراق وو صل کیا ڈھونڈتا ہے ؟محبوب کی رضا مندی ڈھونڈ کہ محبوب سے محبوب کے سوا کی تمنا ،افسوس کی بات ہے “ ( مولانا محمد زکریا: شریعت وطریقت کا تلازم ،طبع اول 1993ع ،ص102 )

شبلی تو یہاں تک فرماتے ہیں: ”الصوفی لا یریٰ فی الدارین مع اللہ غیراللہ․“ ( کشف المحجوب ص76)

” صوفی دونوں جہانوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کے علاوہ اور کسی چیز کو نہیں دیکھتا۔ “

امام ربانی فرماتے ہیں :” مقربین بارگاہ الہٰی ( یعنی صوفیا حضرات ) اگر بہشت چاہتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ ان کا مقصد نفس کی لذت ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ خدا کی رضا کی جگہ ہے ، اگر وہ دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ اس میں رنج والم ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ خدا کے ناراضگی کی جگہ ہے ، ورنہ ان کے لیے انعام اور رنج والم دونوں برابر ہیں۔ ان کا اصل مقصود رضائے الہٰی ہے۔ (امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی: مکتوبات امام ربانی، کراچی ،دار الاشاعت ،طبع اول 2006ع ، مکتوب 35 جلد اول ص 191)

شاہ بھٹائی  فرماتے ہیں:
                
بھٹائی شاہ عبد اللطیف : شاہ جو رسالو، مرتب کلیان آدوانی ،روشنی پبلیکیشن کنڈیارو، طبع اول، 1997ع سُر سریراگ ،داستان اول ص 114

” اے موتی جیسے انسان ! اپنے اندر میں خدا کی محبت کا الاؤ جلا دے ، یہ راہ اختیار کرو توآپ کا لین دین کام یاب ہو۔“
                
یعنی خدا سے عشق کرنے والے اسے کبھی نہیں بھلاتے، کبھی عشق ومحبت کی آہ بھرتے ہوئے ان کی روحیں پرواز ہو جا ئیں گی۔ ( شاہ جو رسالو، سر یمن کلیان داستان 7 ص 94)

اوریہی بات قرآن وسنت کی تعلیم ہے :
چناں چہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَد وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِّلّہ﴾․ (سورہ بقرہ: 165)
” اور جو لوگ موٴمن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں “ ۔

ایک اور آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿قُلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْن﴾․ ( توبہ :24)
” اے رسول(صلی الله علیہ وسلم ) !مسلمانوں سے کہ دیجیے کہ اگر تمہیں اپنے باپ دادا اور بیٹے اوربھائی اور بیویاں اور رشتے دار ا ور وہ تجارت، جس کے مندا پڑ جانے سے تم بہت ڈرتے ہو اور وہ مکانات، جنہیں تم بہت عزیز رکھتے ہو ، اگر ان میں سے کوئی چیز بھی تمہیں الله سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیاری ہے تو پھر انتظار کرو، یہاں تک کہ الله کا فیصلہ صادر ہو جائے اور یاد رکھو کہ الله فاسقوں کوہدایت نہیں دیا کرتا “۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”من احب لله وابغض لله، واعطٰی لله، ومنع لله فقد استکمل الایمان“․ ( الخطیب محمد بن عبدالله :” مشکوة المصابیح“ کراچی، قدیمی کتب خانہ ص 14)
” جس شخص کا یہ حال ہو کہ و ہ الله ہی کے لیے محبت کرے اور الله ہی کے لیے بغض رکھے اور الله ہی کے لیے دے اور کسی کو کچھ دینے سے الله ہی کے لیے ہاتھ روکے تو اس نے اپنے ایمان کو کا مل کر لیا “

آپ صلی الله علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے : ”اللٰھم، اجعل حبک احب الی من نفسی واھلی ومن الماء البارد،،․( ایضََا ص220)
” اے الله! مجھے ایسا کر دے کہ تیری محبت اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال سے اور پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہو۔“

اور صوفیا حضرات اسی محبت کو اپنے دل میں اور اپنے مریدین کے دل میں پیدا کرنے کے لیے مجاہدے اور ریاضت کرتے اور کراتے ہیں ․

رسو ل الله ﷺ کی اطاعت 
صوفیا حضرات کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی پیروی کیے بغیر معرفت ِخداوندی اور نجات کا حصول نا ممکن ہے۔ چناں چہ امام ربانی شیخ احمد سرہندی ایک مکتوب میں لکھتے ہیں : ”اس نعمت ِعظمیٰ یعنی معرفت خداوندی تک پہنچنا سیدالاولین والآخرین کی اتباع سے وابستہ ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کیے بغیر فلاح ونجات ناممکن ہے ۔ “
        محال است سعدی کہ راہ صفا
        تواں رفت جز درپئے مصطفٰے
( شیخ احمد سرہندی : مکتوبات ، مکتوب 78 ،ج اول ، ص279)
”اے سعدی!یہ ناممکن ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کیے بغیر خدائی معرفت اور تصفیہ قلب حاصل ہو سکے “ ۔

یہی بات قرآن مجید میں الله تعالی اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: ﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُم﴾․ ( آل عمران:31 )
” اے پیغمبر (صلی الله علیہ وسلم)! آپ ان کو بتا دیجیے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو ، نتیجے میں ا لله تعالی تم سے محبت کریں گے۔“

اس لیے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت خود خدا کی اطاعت ہے، چناں چہ ارشاد باری تعالی ٰ ہے : ﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ﴾․(النساء: 80)
”جس شخص نے خدا کے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔ “

کیوں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم جو کچھ بولتے ہیں وہ وحی الہٰی ہی ہوتا ہے ، چناں چہ ارشاد باری ہے: ﴿وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی ، إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی﴾ ․(النجم: 3،4)
” رسول الله صلی الله علیہ وسلم! اپنی خواہشات سے نہیں بولتے ، وہ (جو کچھ تمہیں دین کے بارے میں دے رہے ہیں ) وہ وحی الہی ہے، جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے ۔“

اس لیے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا : ﴿ مااٰ تاکم الرسول فخذ وہ وما نھا کم عنہ فانتھوا﴾․ (الحشر)
” جو کچھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تمھیں دیں وہ لے لو اور جس سے روکیں رک جاؤ۔“

آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد ات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا اس وقت تک ایمان کامل ہی نہیں ہو سکتا، جب تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہر چیزسے زیادہ محبت نہ کرے اور اپنی ساری خواہشات رسول صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے تابع نہ بنادے۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :﴿ لایوٴمن احدکم حتٰی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین﴾۔ (صحیح بخاری ، کتاب الایمان ص 6، حدیث 15 ،القشیری ابو الحسین مسلم بن حجاج : صحیح مسلم ، الریاض ،دار السلام للنشر والتوزیع ،طبع دوم ،2000ع ص ۴۱ حدیث 169)

” آپ میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک موٴمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے والدین اولاد اورسب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے۔ “

﴿لایوٴمن أحدکم حتٰی یکون ھواہ تبعََا لما جئت بہ﴾․ (مشکواة المصابیح ص 30)
” تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک موٴمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میرے لائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ ہوں “

تزکیہٴ نفس
صوفیا حضرات جتنے مجاہدے، ریاضات اور عبادات کرتے ہیں یا ان کا اپنے معتقدین کو درس دیتے ہیں ان کا اصل مقصد نفس کا تزکیہ اور تطہیر ہے ۔ چناں چہ سندھ کے سدا حیات اور آفاقی شاعر، شاہ عبداللطیف بھٹائی فرماتے ہیں:
                
( شاہ جو رسالو: سر یمن کلیان ص 90)

شاہ صاحب فرماتے ہیں: اے دوست! چاہے ایک حرف”الف“ ہی پڑھ لو، لیکن اپنے اندر کو پاک و صاف کرلو ، اگر اندر کا تزکیہ و تطہیر نہیں کرتے تو زیادہ پڑھنے اور ورق گردانی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنت کیا کہتے ہیں ؟

قرآن مجید اور تزکیہ نفس 
الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا نقل کی ہے : ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْہِمْ﴾․ ( بقرہ :129)
” اے ہمارے پروردگار !میری اولاد میں ان میں سے ہی ایک رسول بھیج ، جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے اندر کا تزکیہ کرے۔ “

ابراہیم علیہ ا لسلام کی دعا سے ظاہر ہے کہ کسی نبی کی بعثت ، تلاوت آیات اور تعلیم کتاب وحکمت کا اصل مقصد لوگوں کے اندر کا تزکیہ ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد بتاتے ہوئے الله تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ ﴾․ ( الجمعہ آیة: 2)
” الله تعالی ٰ وہ ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان میں سے ہی ایک رسول بھیجا ، جو انہیں خدائی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ،اگر چہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گم راہی میں پڑے ہوئے تھے۔ “

اس آیت سے ظاہر ہیکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو خدائی آیات سنائیں ، ان کا تزکیہ کرے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں۔ لیکن غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلمکی بعثت کا اصل مقصد تزکیہ ہی تھا ،کیوں کہ تلاوتِ آیات و تعلیمِ کتاب وحکمت کا اصل مقصد تو تزکیہ ہی ہے، کیوں کہ اگر تعلیم سے تزکیہ قلب و تطہیر نفس حاصل نہ ہو تو تعلیم و تعلم ، درس و تدریس سب فضول ہے ۔

جیسا کہ بھٹائی صاحب کے مذکورہ شعر سے واضح ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے : ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا ، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾․( الشمس: 9،10)
”بے شک وہ شخص کا م یاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور وہ نا کا م ونا مراد ہو گیا جس نے اپنے نفس کو مٹی آلود کر دیا“۔

تصوف جن رذائلِ اخلاق سے اپنے اندر کو پاک کرنے کی تعلیم دیتا ہے وہ یہ ہیں : بد نیتی ،نا شکری، جھوٹ ، وعدہ خلافی ، خیانت ، بددیا نتی ، غیبت وچغلی ، بہتان ، بد گوئی و بدگمانی ، خوشامد و چاپلوسی ، بخل و حرص ، ظلم ، فخر ، ریا و نمود و حرام خوری و غیرہ ۔

اور جن چیزوں سے اپنے اندر کوسنوارنے کی تعلیم دیتا ہے، وہ یہ ہیں:
اخلااصِ نیت، و رع و تقویٰ ، دیانت وامانت ، عفت و عصمت ، رحم وکرم ، عدل و انصاف ، عفو ودرگذر ، حلم و بردباری ،تواضع و خاکساری ، سخاوت و ایثار، خوش کلامی وخودداری ، استقامت و استغنا وغیرہ ۔(جیسا کہ ابو القاسم قشیری کی کتاب رسالہ قشیریہ اور علی ہجویری کی کتاب کشف المحجوب اور ابو نصر کی کتاب کتاب اللمع اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی کتاب شاہ جو رسالو سے ظاہر ہے)

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنت کا بیشترحصہ ان ہی رذائلِ اخلاق سے بچنے اور فضائلِ اخلاق سے اپنے آپ کو مزین کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔

فضائل اخلاق ورذائل اخلاق پر سید سلیمان ندوی نے سیرت النبی کی چھٹی جلد لکھی ہے، جو 413 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں انہوں نے سینکڑوں آیات و احادیث ذکر کی ہیں ۔ بلکہ اگر صرف ارکانِ اربعہ ( چار اہم عبادات ، نماز ، روزہ ، زکوٰة ، و حج ) پر غورکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن وسنت نے ان کا مقصد ہی تزکیہٴ نفس و تطہیرِ قلب بتایا ہے۔

نماز کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے ۔
﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَر﴾․(العنکبوت: 45)
” بے شک نماز بے حیائی اور برے اعمال سے روکتی ہے “ ۔

اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”من لم تنھہ صلواتہ عن الفحشاء و المنکر فلا صلواة لہ“․ ( ابن ابی حاتم )
” جس کی نماز اسے بے حیائی اور برے عمل سے نہ روکے اس کی نماز ، نماز ہی نہیں “ ۔

روزہ کے بارے میں الله تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ :﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون﴾․(بقرہ : 183)
” (تم پررو زے اس لیے فرض کیے گئے ہیں ) تا کہ تمہارے اندر تقویٰ و پرہیزگاری پیدا ہو “ ۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس لله حاجة بان یدع طعامہ وشرابہ“․ ( ابو عیسیٰ :جامع ترمذی ، دارالسلام للنشر والتوزیع ،الریا ض، طبع اول 1999ء حدیث 707)
” جس نے برے قول اور برے عمل کو نہ چھوڑا، اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی خدا کو کوئی ضرورت نہیں ۔“

زکوٰة کے بارے میں ا لله تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِم﴾․( توبہ: 103)
” ان کے اموال سے صدقہ ( زکوٰة ) وصول کیجیے، جس کے ذریعے ان کے اندر کی تطہیر اور تزکیہکیجیے۔ “

آپ صلی الله علیہ وسلم نے زکوٰة و صدقات کامقصد بتاتے ہوئے فرمایا : ”واتقوا الشح، فان الشح اھلک من کان قبلکم، حملھم علیٰ ان سفکوا دمائھم، واستحلوا محارمھم“․(صحیح مسلم بحوالہ مشکوة المصابیح ج اول ص 164)
”( زکواة و صدقات دیا کرو )اور نفس کی کنجوسی و بخل سے اپنے آپ کو بچاؤ،کیوں کہ بخل و کنجوسی ( نفس کا ایسارذیل خلق ہے جس ) نے تم سے پہلوں کو ہلا ک کر ڈالا کہ انہو ں نے خوں ریزیاں کیں اور حرام چیزوں کو حلال گردانا ۔“

اس سے صاف ظاہر ہے زکوٰة ، صدقات وانفاق فی سبیل الله کا اصل مقصد انسان کے اندر کا تزکیہ ہے ۔

حج کے بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَج﴾․ ( بقرہ:197)
” جو شخص حج کے مہینوں میں حج کی نیت کرے اسے چاہیے کہ عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے ، کسی نا فرمانی کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے اپنے آپ کو بچائے۔ “

﴿وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْْرَ الزَّادِ التَّقْوَی﴾․(بقرہ: 197)
” زاد راہ اپنے ساتھ لے لو ، کیوں کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے“۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”من حج لله فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ“․ (صحیح بخاری ،کتا ب الحج، حدیث 1521، صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث 3291 )
” جس نے خدا کی رضا کے لیے حج کیا اور اس میں اپنے آپ کو گناہ اور نا فرمانی سے بچایا وہ گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو کر لوٹا جیسے گویا اس کی ماں نے آج اسے جنم دیا ہے “۔

اس سے صاف ظاہر ہوا کہ ارکانِ اربعہ کا اصل مقصد تزکیہ و تطہیرِ قلب ہی ہے ، جس کا صوفیا درس دیتے ہیں ۔ (جاری)


برداشت اور رواداری 
صوفیائے کرام کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے اور پرائے، نیک اور بد ، موافق اور مخالف سب کے ساتھ برداشت، رواداری اور حسن سلوک کا رویہ رکھتے ہیں اور اپنے معتقدین کو بھی اسی چیزکا درس دیتے ہیں، چناں چہ حضرت بصری  کے بارے میں منقول ہے کہ : ” انہیں کچھ لوگوں نے بتایاکہ فلاں شخص آپ کی عیب جوئی کر رہا ہے ،تو آپ نے بجائے اس پر غصہ کرنے یا انتقام لینے کے بطور تحفہ اس کو تازہ کھجوریں بھیج دیں “۔
        بندہٴ عشق از خدا گیرد طریق
        می شود بر کافر وموٴمن شفیق
” جو بندہ عشقِ الٰہی میں سرشار ہوتا ہے وہ الہٰی راستے پر چلتاہے اور (برداشت اور رواداری سے کام لیتے ہوئے ) سب پر مہربان ہوتاہے“۔
        ما قصہٴ سکندر ودارا نہ خواندہ ایم،
        از ما بجز حکایتِ مہر ووفا مپرس
” ہم نے سکندر ودارا کے قصے نہیں پڑھے ، ہم سے محبت اور وفاداری کے سوا اور کوئی بات مت پوچھ “ ۔

اس سلسلے میں شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ  فرماتے ہیں :
        

” اے دوست ! اگر کوئی تمہیں برا بھلا کہے تو پلٹ کر اسے جواب نہ دو ( بلکہ برداشت سے کام لو)۔ ایسی باتوں میں جو پہل کرتا ہے وہی خطاکار ہوتاہے ، حسد اور کینہ اندر میں رکھنے والا کچھ حاصل نہیں کرپاتا“۔

شاہ صاحب کا یہ شعر صوفیانہ فلسفے اور رواداری کی کتنی بہترین عکاسی کرتا ہے!

اسی کو تو برداشت اور رواداری کہا جاتا ہے کہ دوسروں کی چڑ دلانے والی باتوں کو برداشت کیا جائے اور بجائے انتقام لینے کے عفو و درگذر سے کام لیا جائے ۔

اسی تعلیم کے بارے میں الله تعالی فرماتا ہے : ﴿والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس والله یحب المحسنین﴾․

” اور(جنت ایسے لوگوں کے لیے تیار ہے) جو غصے کو دباتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر تے ہیں ( اور لوگوں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرتے ہیں) اور خدا احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے “ ۔

جو لوگ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کرتے تھے اور جاہلانہ رویے سے پیش آتے تھے الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کے ساتھ نرمی کرنے ، درگذر کرنے ، رواداری اور برداشت سے پیش آنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿خذ العفووأ مر بالمعروف وأعرض عن الجاھلین﴾․

” عفو و درگذر سے کام لو ، اچھائی کا کہتے رہو اور ان کی جاہلانہ باتوں سے روگردانی کرتے رہو۔ “

آپ صلى الله عليه وسلم نے برداشت اور رواداری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ”لا تکونوا اِمَعةً ََتقولون: ان أحسن الناس أحسنَّا، وان ظلموا ظلمنا،ولٰکن وطنو ا أنفسکم، ان أحسن الناس أن تحسنوا، وان أساؤا فلا تظلموا “

” انتقام اور بدلہ لینے والا ذہن مت رکھو کہ یوں کہو کہ : اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھائی کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھائی کریں گے اور اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پرظلم کریں گے ،بلکہ یہ ذہن بناؤ کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ اچھائی کریں تو تم ان کے ساتھ اچھائی کرو، لیکن اگر وہ تمہارے ساتھ برائی کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم مت کرو ( بلکہ عدل و انصاف سے کام لو)“۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کا یہ نعرہ کتنا نا پسندیدہ اور بد بودار ہے جو کہتے ہیں :
        محبت کرو گے تو محبت کریں گے
        نفرت کرو گے تو نفرت کریں گے
        ہم بھی تم جیسے انسان ہیں
        جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے

قرآن وسنت اور صوفیاء کی تعلیم اس کے بالکل برخلاف ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرامؓ پر اہل مکہ کے مظالم اور ستم رسانیاں سب کو معلوم ہیں، لیکن فتح ِمکہ کے موقع پر ان پرقابو پانے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس بردباری اور رواداری کا ثبوت دیا انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیت الله کے سامنے کھڑے ہو کر عام معافی کا اعلان کرتے ہو ئے فرمایا :
”لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم الطلقاء “
” تم پر کچھ الزام نہیں، جاؤ! تم سب آزاد ہو۔“

اس سے صاف ظاہر ہے کہ صوفیا کا تحمل اور رواداری کو اپنانا یا اس کی تعلیم دینا سراسر قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔

خدمتِ خلق
اس وقت دنیا میں Give and take ”لو اور دو“ کا اصول عوام الناس کی فطرت کا لازمی حصہ بن چکا ہے ، کوئی شخص کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اسے بدلے میں کیا ملے گا ؟ جب تک یہ امید نہ ہو، اس وقت تک کوئی قدم نیکی کی طرف نہیں اٹھتا اور نہ کسی اور کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے ۔

خود غرضی اور نفس پرستی کے اس جذبے کے برعکس صوفیائے کرام عوام الناس میں یہ روح پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکرانسانیت کو فائدہ پہنچایا جائے۔ صوفیا کے ہاں خلقِ خدا کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نیکی کا عمل نہیں۔

چناں چہ شیخ سعدی  فرماتے ہیں:
        دل بدست آور کہ حج اکبر است
”لوگوں کو فائدہ پہنچا کر ان کادل خوش کرو کہ یہ حجِ اکبر ہے‘ ‘

        طریقت بجز خدمتِ خلق نیست
        بتسبیح وسجادہ ودلق نیست
”طریقت خدمتِ خلق کے علاوہ اور کسی چیز کا نام نہیں،تسبیح و جائے نماز اورگُدڑی کا نام نہیں“۔

سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں:
”قیامت کے بازار میں کوئی اسباب اس قدر قیمتی نہ ہوگا جس قدر دلوں کو راحت پہنچانا“۔

اور ان حضرات کے ہاں خلق آزاری سے بڑھ کر کوئی جرم کا عمل نہیں ،چناں چہ حافظ شیرازی فرماتے ہیں:
        مباش در پئے آزار وہرچہ خواہی کن
        کہ در طریقت ِ ما بیش ازیں گناہے نیست
”خدا کی مخلوق کی اذیت کے در پئے مت پڑو، باقی جو چاہو کرو ،کیوں کہ ہم صوفیا کے طریقے میں خلق آزاری سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں۔ “

اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خلقِ خدا کو خدا کا کنبہ سمجھتے ہیں ، اس لیے خلقِ خدا کی خدمت کو خدا کی خدمت اور خلق خدا کی اذیت کو خدا کو اذیت پہنچانے کے برابر سمجھتے ہیں۔ مولانا حالی کہتے ہیں :
        یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
        کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوفیا حضرات انسانیت سے کتنی محبت کرتے ہیں اور ان کی راحت رسانی کی کتنی فکر کرتے ہیں اور ان کے ہاں خلق آزاری کتنا بڑا جرم ہے!

اب ہم قرآن وسنت کی روشنی میں خدمت ِخلق کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں: قرآن مجید موٴمنین کی خصوصی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:﴿ ویوٴثرون علیٰ انفسہم ولوکان بھم خصاصة﴾

” وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ خود حاجت مند ہوتے ہیں“۔

دوسری جگہ پر ارشاد باری ہے :﴿ویطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینًا ویتیمًا و اسیرًا انما نطعمکم لو جہ الله لانرید منکم جزاءََ ا ولا شکورًا ﴾

”وہ خداکی محبت کی خاطرمسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلا تے ہیں ،( اور کہتے ہیں )ہم تو تم کو بس الله کی رضا کی خاطرکھانا کھلاتے ہیں، اورنہ تم سے اس کا عوض چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ۔“

مطلب کہ موٴمنین کسی کے ساتھ بھلائی کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں بدلے میں کیا ملے گا ، وہ تو صرف خدا کی رضا کی خاطر خدا کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔

آپ صلى الله عليه وسلم نے خلق ِخدا کی خدمت پر ابھارنے کے لیے مختلف طریقوں سے ترغیب دی ہے ، ایک موقعے پر فرمایا: ”الساعی علیٰ الارملة والمسکین کالساعی فی سبیل الله ، احسبہ قال: کالقائم لا یفتر، وکالصائم لایفطر “

” بیواؤں اوریتیموں کی مدد کرنے والا( خدا کے ہاں) ایسا ہے جیسے مجاھدفی سبیل لله اور یہ بھی فرمایاکہ اس کو وہ اجر ملے گا جو ساری رات جاگ کر عبادت کرتاہو اور جو ہمیشہ روزے رکھتا ہو۔“

ایک اور موقعے پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”تریٰ الموٴمنین فی تراحمھم وتوادہم وتعاطفھم کمثل الجسد، اذا اشتکیٰ عضو تداعیٰ لہ سائر الجسد بالسھر والحمیٰ“
” ایک دوسرے کے ساتھ رحم ، محبت اورنرمی کرنے کے لحاظ سے تم دیکھو گے کہ موٴمن ایک جسم کی طرح ہیں ،جسم کا جب کوئی ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔“

ایک اور روایت میں فرمایا:”والذی نفسی بیدہ لایوٴمن عبد حتیٰ یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ“
” اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ! کوئی بندہ اس وقت تک کامل موٴمن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ “

ظاہر ہے کہ ہر کوئی اپنے ساتھ اچھائی اور نیکی چاہتاہے اور اپنے ساتھ کبھی بھی برائی یا بدسلوکی پسند نہیں کرتا، اسی طرح ایک موٴمن سب کی بھلائی چاہتا ہے اور کسی کی برائی نہیں چاہتا ۔

مذکورہ بحث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تصوف اور صوفیا حضرات کی تعلیم در اصل قرآن و سنت کا نچوڑ اور اس کی عملی صورت ہے۔

خلاصہ/ نتائج
مذکورہ بالا بحث سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:
1... تصوف عشق اور محبتِ خداوندی کا درس دیتا ہے۔
2... تصوف اطاعتِ رسول صلی الله علیہ وسلم پر ابھارتا ہے اور تصوف کی نظر میں اطاعتِ رسول کے بغیر خدا کی رضا کا حصول ناممکن ہے۔
3... تصوف اپنے آپ کو فضائلِ اخلاق سے مزین کرنے اور رذائلِ اخلاق سے پاک کرنے کا درس دیتا ہے۔
4... تصوف خلقِ خدا کی محبت اور اس کی خدمت کی تلقین کرتا ہے اور مخلوق کی کمی کوتاہیوں کو درگذر کرنے اور ان سے حسنِ خلق رکھنے کا سبق دیتا ہے اور صوفیا کی نظر میں خلق آزاری سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔
5... تصوف دوست اور دشمن، اپنے اور پرائے کے فرق کے بغیر سب کے ساتھ روداری اور برداشت کا درس دیتا ہے۔
6... اسلامی تصوف در اصل قرآن وسنت کا نچوڑ اور اسلامی تعلیمات کی روح اور اس کی عملی صورت کا نام ہے۔








تصوّف اور مستشرقین



تحریک مستشرقین (Orientalism) کا آغاز اس دور میں ہوا تھا؛ جب کہ تیرہویں صدی عیسوی میں عیسائی دنیا، اسلام کے خلاف برپا کی گئی اپنی صلیبی جنگوں میں پے درپے ناکام ہونے لگی تو اس کے مفکرین اوراس دور کے نظریہ سازوں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ موجودہ حالات میں طاقت وقوت اور تشدد وجارحیت کے ذریعہ اسلام کو مذہبی اور سیاسی اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہیں ہے؛ چنانچہ اس مرحلہ پر غور وفکر کے بعد انھوں نے یہ لائحہ عمل طے کیا کہ سرِدست اپنی جارحانہ مہم اور جنگ جو پالیسی کو ختم یا کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کرکے علم وتحقیق کے عنوان سے اسلام کو نشانہٴ افکار باطلہ بنانا چاہیے اور تلوار کے بجائے قلم کے ذریعہ اسلام کی بیخ کنی کی جائے۔
          چنانچہ اس مقصد سے دشمنانِ اسلام مغربی مفکرین نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت اپنی فطری عیاری سے کام لیتے ہوئے یہودی ربّی اورعیسائی مبلغین (Missionary) کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اسلامیات کے منفی مطالعہ کے لیے یورپ میں تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور ان میں ”ریسرچ اسکالرس“ کے نام سے ذہین عیسائی عالم اور یہود ربی کارکن متعین کیے جائیں جو اسلام کے بنیادی سرچشموں یعنی قرآن واحادیث نبوی اور دیگر اسلامی لٹریچر کے معروضی مطالعہ کے بعد تعلیماتِ اسلامی کے خدوخال مسخ کرکے دنیاکے سامنے ”تحقیق“ (Research) کے نام سے مقالات اور کتابوں کی صورت میں پیش کریں اور ان میں اسے خود ساختہ ”شواہد“ مہیّا کریں جن سے یہودیت کی برتری اور دین مسیح کی حقانیت اور ترجیح خود بخود ثابت ہوجائے اور جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اپنے دین کی نسبت سے احساسِ کمتری (Inferiority Complex) اور اپنے مسلمان ہونے پر شرمندگی کا جذبہ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ مسیحیت کا تفوّق اور یہودی افکار ونظریات کی برتری کا تصور ان کے ذہنوں پر حاوی ہوجائے۔ پروفیسر آرنلڈ کی کتاب ”پریچنگ آف اسلام“ اس کی زندہ مثال اور واضح ثبوت ہے۔!
          مدت دراز سے یہ مستشرقین یورپ (Orientalists) قرآن واحادیث، سیرت نبوی، فقہ اسلامی اور اخلاق و تصوّف یا ”احسان اسلامی“ کا مطالعہ اسی مقصد سے کرتے رہے ہیں کہ ان میں خامیاں نکالی جائیں اور پھر انھیں اپنے سازشی مقصود کے مطابق اسلام کو سبوتاژ کرنے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ پہلے وہ اسلام کے خلاف ایک باطل نظریہٴ فکر اور شرانگیز بات اپنے ذہن میں طے کرلیتے ہیں اور پھر اس کے اثبات کے لیے تاریخ، حدیث، سیرتِ نبوی، فقہ اور اسلامی لٹریچر میں سے ہر طرح کی غیرمستند اور رطب ویابس باتیں اکٹھی کرلیتے ہیں اوراس مقصد کے لیے وہ افسانہ طرازی کرنے اور جھوٹ کا طومار باندھنے سے بھی نہیں شرماتے؛ غرض جہاں کہیں بھی ان کی مقصدبراری ہوتی ہو، خواہ علمی اصول کی رُوسے یا صحت واستناد کے اعتبار سے وہ بات کتنی ہی مشکوک وبے تکی کیوں نہ ہو وہ اس کو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اور پوری جسارت سے ”سائنٹفک“ بتاکر بڑی آب وتاب اور کرّوفر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن وحدیث، فن تفسیر، فقہ، کلام، سیرت صحابہ، تابعین کرام، ائمہ مجتہدین، اکابر محدثین، فقہاء امت، قضاة، رواة حدیث، اسماء الرجال، فن جرح و تعدیل، جمع قرآن، تدوین حدیث، حجیت حدیث اور مشائخ سلوک و تصوف وغیرہ غرض ہر موضوع پر ان مستشرقین کی تصانیف اور نام نہاد تحقیقاتی مقالوں میں اس قدر مواد پایا جاتاہے جو کہ ایک ذہین اور حساس تعلیم یافتہ انسان کو جو ان موضوعات پر وسیع اور گہری نظر نہ رکھتا ہو، اسلام کے بارے میں اس کے ذہن میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور سلف صالحین وعلماء راسخین کی شخصیتوں کو مجروح کردینے اور ان پر سے اعتماد ختم کردینے کے لیے کافی ہے۔ سطحی علم رکھنے والا اور کچے ذہن کے لوگ ان کے خیالات سے بآسانی مرعوب ہوجاتے ہیں، خصوصاً جدید تعلیم کے مراکز جیسے یونیورسٹی، کالج اور اسکول میں پڑھنے والے طالب علم یا مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے ان ”مستشرقین“ کے دام فریب میں بہت جلد پھنس جاتے ہیں۔
          مستشرقین یورپ نے - جن میں اکثریت یہودی اور درپردہ صہیونیت کے علم برداروں کی ہے - تصوّف پر- جو ”احسانِ اسلامی“ کا مظہر اور اس کی شبیہ ثانی ہے- جو نظر عنایت کی ہے اور اس کے خصوصی مطالعہ اور تحقیق وجستجوکے نام پر اس کی اقدار و نظریات کو سبوتاژ (Sabutage) کرنے کے لیے انھوں نے جس قدر محنت اور لگاتار کوششیں کی ہیں، ان کا اندازہ لگانے کے لیے ہم سطور ذیل میں ان کی تصوف کے موضوع پر تصنیف وتالیف اور تصوف کی قدیم امہات کتب کی یورپ کی سرزمین سے توزیع واشاعت کی بھرپور جدوجہد کا ایک مختصر سا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ انھوں نے محض ”اسلام کی خدمت“ کے جذبہ سے تو کیا نہیں ہے، اور نہ وہ حالت کفر میں رہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے لیے کبھی مخلص ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کی ان تمام مساعی اور تگ وتاز کا واحد مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اس طرح تصوف کے افکار ونظریات اوراسلامی معتقدات میں دراندازی اور ان کتب تصوف میں تدسیس کے ذریعہ اپنے اسلام دشمنی کے مشن کو پورا کرسکیں۔ تصوف کی نایاب یا کم یاب امہات کتب کے مسودوں کو تلاش کرکے اور زرکثیر صرف کرنے کے بعد ان کی اشاعت اور ان کے مندرجات کی تشہیر وتوضیح کی کوششیں مغرب کے ان مادہ پرست دشمنانِ اسلام کی کس ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں، اس کا جائزہ لینے کے لیے ہم سطور ذیل میں ان کتابوں کی ایک مختصر سی فہرست درج کررہے ہیں جو ان یورپین مستشرقین کی یا تو اپنی تالیفات ہیں، یا پھر انھوں نے تصوف کی قدیم امہات کتب میں سے کچھ مخصوص کتابوں کو خود Edit کرکے یورپ کے مختلف ملکوں سے شائع کیا ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں انگریزی زبان(English) میں ہیں- جو موجودہ دور میں ”بین الاقوامی زبان“ کا درجہ رکھتی ہے- اور کچھ کتابیں جرمن زبان (German Language) میں اور کچھ کتابیں فرانسیسی زبان (Franch Language) میں شائع کی گئی ہیں۔
نمبرشمار
نام کتاب
مصنف
مطبع/ سن طباعت
1
Preaching of Islam
(اسلام کا تعارف)
Thomas Arnold

Constable & Company Ltd. London (U.K.) 1913
2
Mystics of Islam
(صوفیان اسلام)
Rennold, a, Nicholson

Oxford Press
1914

3
Studies in Islamic Mysticism
(اسلامی تصوف کا مطالعہ)
Rennold, A, Nicholson

Oxford Press
1921

4
Mystical Demension of Islam
(اسلام کی صوفیانہ مجذوبیت)
Schimmel

Chapel Hill, North Carolin a University1975

5
Oriental Mysticism
(مشرقی تصوّف)
E. H. Palmer

London
1867

6
Sufism
(صوفی مذہب)
Arberry A. J.

Allen & Unwin, London 1950 Reprint Harper & Row, Newyork (USA) 1970
7
A, Historical Enquiry concerning the origin and development of Sufism
صوفی مذہب کے نقطئہ آغاز اور اس کی نشوونما کا ایک تاریخی جائزہ
A. J. Arberry

J. R. A. S.
1906

8
An Introduction of Sufi Doctrine
(صوفیانہ عقائد کا تعارف)
DM Metheson کی فرانسیسی کتاب کا انگلش ترجمہ
Burckhard
TITUS

London
1968
9
The Transcendental Unity of Religions
(مذاہب اور مسحوریت بے اختیاری کے نفسیاتی عمل) کا باہمی انجذاب
Schuon Frith jof
Eng. Translation by (Peter Town Send)
London
1953

10
A, Comparative study of the Philosophical Concepts of Sufism and Taoism
(صوفیانہ فلسفہ اور ماؤازم کا تقابلی مطالعہ)
ToshihukoIzutsu

Tokyo (Japan)
1966-67
11
Readings from the Mystics of Islam
(اسلامی تصوف کی تعلیمات)
Margret Smith

Luzac & Co,
London. 1972
12
Asiatic Researches
(ایشیائی تحقیقات)
W. Johnes

London
1803

13
Hindu & Muslim Mysticism
(ہندو اورمسلمانوں کا تصوّف)
R. C. Zaehner

New York (USA)
1969
14
The Passion of Al-Hallaj
(الحلّاج کا جذب دروں)
Herbert Mason

Princetion University Press. 1982 (4Vol)
15
Akhbar Al-Hallaj
(اخبار الحلاّج)

Paul Karaus

Paris
1936

16
Creative Imagination in the Sufism of Ibne Arabi
(تصوف میں ابن عربی کے تخلیقی تصورات)
Corbin Henry

Princetion University Press. 1969

17
Al-Muhasibi an Early Mystic of Baghdad
(المحاسبی- بغداد کا ابتدائی دور کا صوفی)
Margret Smithp

Philo Press
Amsterdam

18
Rabia, the Mystic and her fellowsaints in Islam
(رابعہ صوفیہ اوراس کے مسلم ہم خیال ساتھی)
Margret Smith

Philo Press Amsterdam
1928

19
Ibne Taymiah's Sharah on the Futuh-Al-Ghaib
(ابن تیمیہ کی فتوح الغیب کی شرح)
Michal Thomas

London

20
Ibne Taymia. A Sufi of the Qadiria Order
(ابن تیمیہ، قادری دور کا ایک صوفی)
George Makdisi

American Journal of Arabic Studies1973

21
Simnani on Wahdat-Al-Wujud in Collecter papers on Islamic Philosophy and Mysticism
(سمنانی کا نظریہٴ وحدة الوجود، اسلامی فلسفہ اور تصوف کے منتخب اوراق کے مطابق)
Hermann
Landolt

Tehran
1971

22
Shaykh Ahmad Sirhindi, an outline of his Thought and history of his Image in the Eyes of Prosperity
شیخ احمد سرہندی کے تخیلات اور تصورات کا فروغ تاریخ کے تناظر میں
Mc Gill

Cannada
1971

23
Studies in Islam in India before Shah Waliullah
(شاہ ولی اللہ سے پہلے ہندوستان میں اسلام کا مطالعہ)
Freeland, Abbot

New Delhi
(Vol I II)

24
Vorlesungen Uber des Islam
(فرنچ زبان میں)
Ignaz Goldziher

Paris
1925

25
Mysticque Musalmane
(فرنچ زبان میں)
Louis Gardet & G.C. Anawati

Paris
1968

26
Essai sur les origines du lexique technique de laMysticque Muslamane
(فرنچ زبان میں)
Louis Massigon

Paris
1968

27
Le Passion de Husayn ibn Mansur Hallaj
(فرنچ زبان میں)
Louis Massigon

Paris

28
CulturgescHichtliche strefz uge auf dem Gebietedes Islam
(فرنچ زبان میں)
Alfred
Von Kramer

Paris
1873

29
Sufismus sive theologia
(جرمن زبان میں)
Persica Pantheistics

Berlin
1921

30
Ideen and Gundlinier einer algemeine n geschichteder Mystic
(جرمن زبان میں)
Adalbert Merx.

Heidel Berg
1993

31
Sufism
A. J. Arberry
London 1950
32
Muslim Studies
Ignaz Goldziher
London 1971
33
The Sufi Orders in Islam
J. Spencer Trimingham

Oxford University
Press 1973
34
The Heritage of Iran
A. J. Arbery
London
35
Kitabul - Lamaa
(کتاب اللمع) عربی میں
(مولفہ شیخ ابو نصر سراج طوسی)
Edit by R. A Nicholson

Ledon (Holland)
1914

36
Encyclopaedia of Religion and Ethics


New York Vol. VIII
1955

          دیارِ مغرب کے رہنے والے ان دشمنانِ اسلام - یہود ونصاریٰ- نے امتِ مسلمہ کے تعلق باللہ قائم کرنے کے سب سے بڑے مظہر ”احسانِ اسلامی“ یا بعد کے دور میں ”تصوف“ کے نام سے شہرت اور فروغ پانے والے ”اسلامی نظریہ“ کی تفہیم و تبلیغ کی یہ ساری کوششیں ظاہر ہے کہ پورے خلوص اور ایمان داری سے محض ”خدمتِ اسلام“ کے جذبے کے تحت تو یقینا نہیں کی ہوں گی۔ ان دشمنانِ اسلام کا تصوف کی نادر ونایاب قدیم کتب کے ”مخطوطات“ کو مختلف ملکوں اور دور دراز مقامات سے تلاش کرکے اور زر کثیر صرف کرنے کے بعد یورپ سے شائع کرنے میں لامحالہ ان کی اپنی غرض اور مفاد شامل ہے، اتنی بات ہر پڑھالکھا اور باشعور انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ اسلام اور اکابرین امت کی صاف وشفاف شبیہ کو داغ دار کرنا اور ان سے منسوب کرکے غلط اور واہی تباہی باتیں ان کی لکھی ہوئی کتابوں میں شامل کردینا دشمنان اسلام یہود کا ہمیشہ سے مشغلہ اور نصب العین رہا ہے، جو لوگ قرآن مجید کی تفسیروں میں اسرائیلی روایات کا ایک بڑا ذخیرہ شامل کرسکتے ہیں اور تاریخ اسلام کی اہم شخصیات خصوصاً صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاکیزہ کرداروں کو مسخ کرکے تاریخ کے نام سے پیش کرسکتے ہیں، ان دشمنان اسلام سے یہ توقع رکھنا تو فضول ہوگا کہ انھوں نے ”تصوف“ کے اسلامی نظریات پر اپنی کرم فرمائی نہ کی ہوگی اور تصوف کو اس کی قدیم اور اصلی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کردیا ہوگا؟
          اسلامی لٹریچر خصوصاً تصوف کی اُمہات کتب کو یورپ کے مختلف ملکوں جیسے انگلینڈ اور امریکہ یا ہالینڈ وغیرہ سے شائع کرنے کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ان دشمنانِ اسلام نے ”صلیبی جنگوں“ میں اپنی مسلسل اور بدترین شکستوں کے بعد مسلمانوں سے انتقام لینے کی اپنی نئی ”حکمت عملی“ کے مطابق یورپ میں مختلف مقامات پر اسلام کے خلاف جو سازشی ادارے ”تحقیقات اسلامی“ (Islamic Research) کے نام سے قائم کیے تھے ، ان میں تعلیم وتربیت پانے والے نام نہاد طلبا اور مستشرقین کی اپنے خود ساختہ منصوبہ کے مطابق اسلام کے خلاف ذہن سازی کے لیے ایسا اسلامی لٹریچر وجود میں لایا جائے جس کو پڑھ کر اسلام کی شبیہ مکروہ اور قابل نفرت معلوم ہو اوراسلام دشمن نام نہاد ”مستشرقین“ ان تحریف شدہ کتابوں سے اپنے مقصد کے لیے ”تحقیقات اسلامی“ کے نام پر اسلام کے خلاف زہریلا مواد حاصل کرسکیں۔ اس طرح انھیں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اوراسلام کی حقانیت کو داغ دار کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل ہوگی۔
          اسلام دشمن مستشرقین مغرب، اسلامی نظریات کو مسخ اور داغ دار کرنے کے لیے کس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، اس کا اندازہ ان مستشرقین کی مرتب کردہ کتابوں کو پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر تصور میں شیخ محی الدین ابن عربی کا بدنام زمانہ نظریہ ”وحدة الوجود“ کی تشریح وتفہیم مشہور مستشرق نکلسن (Nicholson) نے اپنی کتاب "Studies In Islamic Mysticism" (Delhi-1876) (یعنی اسلامی تصوف کا مطالعہ) میں صفحہ ۷۷ تا صفحہ ۱۴۳ پر ایران کے صوفی عبدالکریم الجیلی کے حوالہ سے ابن عربی کے فلسفہ میں جو ترمیمات کی ہیں ظاہر ہے کہ اس کا مقصد راہ سلوک کے اس اہم ”ذہنی مرحلے“ پر شیخ محی الدین ابن عربی کے مخصوص مفہوم اور تاثرات کو غلط معنی پہناکر مسلمانوں کے ذہنوں پر ابن عربی کی غلط اور قابل نفرت شبیہ بٹھانا ہی ہے اور اس طرح تصوف کا ایک منفی تعارف کرانا ہی نکلسن کا مطمح نظر ہے اور کچھ نہیں۔ چنانچہ نکلسن اپنی اس کتابIslamic Mysticism کے صفحہ ۱۴۹ پر تصوف کا تعارف کراتے ہوئے لکھتا ہے:
”صوفی وہ ہے جو اپنی ذات میں فنا ہوجاتا ہے اور خدا میں زندہ رہتا ہے۔ اس معنوں میں فنا ہوجانا دراصل خدا کے ساتھ متحد ہوجانا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مسلم صوفیہ کی آخری غایت خدا بن جانا اورالوہیت میں شریک ہوجانا (Deification) ہی ہے“
          حالانکہ حقیقی ”اسلامی تصوف“ کا مقصد اسرار ورموز کائنات کی معرفت یا ذات باری تعالیٰ میں ادغام یا وصل ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی الوہیت یا صفات الٰہی میں انسان کی شرکت اس کی منتہا و مقصود ہے۔ بقول مجدد الف ثانی:
”فنا وبقا کے تجربہ کو الوہیت میں شرکت تصور کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ دوران مراقبہ صوفی جب خود کو فنا کرکے خدا کے ساتھ متحد ہوجانے کی کیفیت محسوس کرتا ہے تو یہ کیفیت بعینہ خواب کی طرح ہوتی ہے۔ یہ سب حقیقتاً نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر تم خواب میں دیکھو کہ بادشاہ بن گئے ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ تم حقیقت میں بادشاہ ہوگئے ہو۔ اسی طرح جب سالک دیکھتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ متحد ہوکر خود بھی ”خدا“ بن گیا ہے تو وہ سچ مچ خدا نہیں بن جاتا۔“ (مکتوبات امام ربانی ج۱، م۲۶۶، ص:۵۸۹)
          تصوف کے اس ”ذہنی مرحلہ“ کی کیفیت کی وضاحت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے زیادہ واضح الفاظ میں کی ہے۔ ان کے خیال کے مطابق ”سالک عشق الٰہی میں ہمہ تن غرق اور اپنی ہستی کو فنا کرکے بزعم خود اللہ تعالیٰ کی ذات میں اس طرح جذب ہوجاتاہے جس طرح لوہے کا ٹکڑا آگ میں تپ کر آگ ہی کی طرح سرخ اور شدید گرم ہوجاتا ہے، گویا وہ بھی آگ ہے؛ حالانکہ حقیقت میں وہ آگ نہیں؛ بلکہ لوہا ہی ہے۔ ٹھیک اسی طرح عشق الٰہی کی آگ میں تپ کر سالک بھی خود کو ذاتِ خدا وندی سے ہم آہنگ محسوس کرنے لگتا ہے۔ بہر نوع! یہ سب محض تصوراتی اور ”خیالی فلسفہ“ ہے، حقیقت میں نفس الامری نہیں ہے“۔ (ہمعات، ص:۳۶)
***








أُولٰئِكَ الَّذينَ يَعلَمُ اللَّهُ ما فى قُلوبِهِم فَأَعرِض عَنهُم وَعِظهُم وَقُل لَهُم فى أَنفُسِهِم قَولًا بَليغًا {4:63} 
ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اللہ اس کو خوب جانتا ہے تم ان (کی باتوں) کو کچھ خیال نہ کرو اور انہیں نصیحت کرو اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں 
اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان کی قسم اور ان کی معذرت سابقہ کی تکذیب فرمائی کہ منافقین جو کچھ زبانی باتیں بنائیں بنانے دو اللہ تعالیٰ کو ان کےدل کی باتیں خوب معلوم ہیں یعنی ان کے نفاق اور ان کے جھوٹ کو خوب جانتا ہے سو آپ بھی علم خداوندی پر بس کر کے منافقوں کی بات سے تغافل کیجئے اور ان کی بات کی پروا نہ کیجئے مگر ان کو نصیحت کرنے اور کام کی باتیں بتانے میں ہر گز کوتاہی نہ فرمائیں اور ان کی ہدایت سے مایوس نہ ہو جائیے۔ 




صوفیاء کی مطلقاً برائی کرنے والا حد اعتدال سے باہر ہے
امام ابن تیمیہؒ (٧٨٤ ھہ) فرماتے ہیں: ایک جماعت نے مطلق صوفیاء و تصوف کی برائی کی ہے، اور ان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ بدعتیوں کا طبقہ ہے جو اہل السنّت والجماعت سے خارج ہے. اور ایک جماعت نے صوفیاء کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے اور انبیاء کے بعد ان کو سب سے افضل  دیا۔ہے، اور یہ دونوں باتیں مذموم ہیں؛
درست بات یہ ہے کہ صوفیاء الله کی طاعت کے مسئلہ میں مجتہد ہیں، جیسے دوسرے اہل طاعات اجتہاد کرنے والے ہوتے ہیں، اس لئے صوفیاء میں مقربین اور سابقین کا درجہ حاصل کرنے والے بھی ہیں اور ان میں مقتصدین کا بھی طبقہ ہے جو اہل یمین میں سے ہیں اور اس طبقہ میں سے بعض ظالم ہیں اور اپنے رب کے نافرمان بھی ہوتے ہیں.
[مجموع الفتاویٰ، لابن تیمیہ:١١/١٨]؛

القرآن : وَلا يُحيطونَ بِشَيءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ [ البقرة:255]؛ 
 اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے 
وقال امام ابن تيمية (٧٨٤ ھہ) في مجموع الفتاوى ( 11 / 65 ) : وأما خواص الناس فقد يعلمون عواقب أقوام بما كشف الله لهم ...؛یعنی (الله کے) مخصوص بندے کچھ لوگوں کے انجام بذریعہ کشف معلوم کرلیتے.؛



تصرفاتِ ولی کا انکار ممکن نہیں
علامہ ابن تیمیہؒ (٧٨٤ ھہ) فرماتے ہیں کہ : بہت سے لوگ ولی اسے سمجھتے ہیں جس کے ہاتھ میں خوارقِ عادت چیزوں کا ظہور ہو، اور اس سے کشف کا ظہور ہو، اس سے بعض خارقِ عادت تصرفات کا ظہور ہو، مَثَلاً : وہ کسی کی طرف اشارہ کرے تو وہ مرجاۓ یا وہ ہوا میں اڑ کر مکہ یا دوسرے شہر پہنچ جاۓ یا وہ پانی پر چلے یا وہ ہوا سے لوٹا بھردے یا اس کے پاس کچھ نہیں مگر وہ غیب سے خرچ کرتا ہے، یا وہ نگاہوں سے غائب ہوجاتا ہے، یا جب کوئی اس سے مدد چاہتا ہے اور وہ اس کے پاس نہیں ہے، یا وہ اپنی قبر میں ہے تو وہ اس کے پاس آتا ہے اور وہ اس کی مدد کرتا ہے، یا چوری شدہ مال کی خبر دیتا ہے یا غائب آدمی کا حال بتلادیتا ہے، یا مریض کے احوال سے آگاہ کردیتا ہے .......... ان خوارق عادت باتوں کا صدور اگرچہ کبھی الله کے ولی سے ہوتا ہے مگر کبھی اس طرح کی باتیں الله کے دشمنوں سے بھی ظاہر ہوتی ہیں ............. بلکہ ولی الله ہونے کا اعتبار ان کی صفات، افعال اور احوال سے ہوگا کہ وہ کتاب الله اور سنّت کے مطابق ہیں؟  [مجموع الفتاوى : 11 / 214]؛





امام ابو حنیفہؒ اور تصوف
تصوف کی حقیقت اخلاق کی پاکیزگی اور باطن کی اصلاح، اپنا رشتہ اللہ تعالیٰ سے مضبوط کرنا، دنیا سے بے رغبتی، آخرت کی فکر کرنا ، اپنی زندگی کو زہدوتقویٰ سے آراستہ کرکے رذائل سے اپنے آپ کو پاک وصاف کرنا ہے، تمام عبادات میں صفات حسن پیداکرنا اور منکرات سے نفرت پیدا کرناہے، انہی پاکیزہ صفات سے اپنے آپ کو متصف کرنے کو احادیث میں احسان کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن متعارف تصوف اور اس کا نام قرن اول اور قرن ثانی میں نہیں ملتا ہے، حدیث اور آثار صحابہ میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے، تصوف کی اصطلاح کب رائج ہوئی اور کس طرح علم باطن اور تزکیہ نفس میں مشغول حضرات کو صوفیہ کہا جانے لگا؟اس سلسلے میں مشہور صوفی بزرگ ابو القاسم القشیری اپنی انتہائی مقبول کتاب ”الرسالة القشیریہ“ میں لکھتے ہیں:

جان لو، خدا تم پر رحم کرے کہ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی لیے ان کے زمانہ میں کوئی نام بڑی فضیلت والا سوائے صحبت رسول صلی الله علیہ وسلم کے نہیں رکھا گیا،کیوں کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور فضیلت نہیں،تب ان کو صحابہ کہا گیا اور جب دوسرے زمانے والوں نے ان کو پایا تو جن لوگوں نے صحابہ کی صحبت حاصل کی ان کا نام تابعین رکھا گیا اور ان کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی نام نہ تھا، پھر ان کے بعد والوں کو تبع تابعین کہا گیا، پھر مختلف قسم کے لوگ پیدا ہوئے اور ان کے مراتب میں فرق پڑ گیا،تب ان خواص لوگوں کو جنہیں دین کے کام میں زیادہ توجہ تھی زاہد، عابد کہا گیا، پھر بدعت ظاہر ہوگئی اور فرقوں کے مدعی پیدا ہوگئے، ہر ایک فریق نے دعویٰ کیا کہ ہم زاہد ہیں، تب اہل سنت کے خاص لوگوں نے جو خدا کے ساتھ اپنے نفسوں کی رعایت رکھنے والے اور اپنے دلوں کی غفلتوں سے حفاظت کرنے والے تھے اس نام کو چھوڑ کر اپنا نام اہل تصوف رکھا اور دوسری صدی ہجری کے ختم ہونے سے پہلے ہی ان بزرگوں کے لیے یہ نام شہرت پاگیا۔(روح تصوف، اردو ترجمہ الرسالة القشیریہ ص: 27)

تصوف کی اصطلاح کب رائج ہوئی؟
عہد صحابہ میں تصوف کی روح اور حقیقت، یعنی زہد وتقویٰ انابت الی اللہ، عاجزی وانکساری وغیرہ روحانی اور باطنی صفات تو پائے جاتے تھے، لیکن اس لفظ کا استعمال عہد صحابہ تک نہیں تھا، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے ابو الحسن بوشنجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ تصوف موجودہ زمانے میں صرف ایک نام ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور گذشتہ زمانے میں ایک حقیقت تھی جس کا کوئی (مخصوص) نام نہ تھا، یعنی صحابہ کرام اور سلف صالحین کے وقت میں لفظ صوفی تو بے شک نہیں تھا ؛لیکن اس کی حقیقی صفات ان میں سے ہر ایک میں موجود تھیں اور آج کل یہ نام تو موجود ہے ؛لیکن اس کے معنی موجود نہیں، اُس زمانے میں معاملات تصوف سے آگاہی کے باوجود لوگ اس کے مدعی نہ ہوتے تھے؛لیکن اب دعوی ہے، مگر معاملات تصوف سے آگاہی مفقود ہے۔(گنج مطلوب ترجمہ کشف المحجوب 74)

شیخ ہجویری کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تصوف کی حقیقت موجود تھی، لوگوں میں زہد وتقوی، خشوع وخضوع ، فکر آخرت اور خوف خدا جیسی صفات تھیں اور ان صفات کے متصف حضرات عابد اور زاہد کہلاتے تھے، لیکن تصوف کا لفظ اس وقت رائج نہیں ہوا تھا، مولانا جامی نے نفحات الانس میں لکھا ہے کہ پہلا شخص ،جو صوفی کہلایا ،ابو ہاشم تھا، جن کا انتقال 150ھ میں ہوا اور انہی کے رفقاء کے لیے فلسطین کے مقام رملہ میں ایک پہاڑی پر صوفیہ کی پہلی خانقاہ تعمیر ہوئی جو ایک زرتشتی آتش پرست امیر کی فیاضی کا نتیجہ تھی۔ (نفحات الانس 31)

علامہ ابن تیمیہ صوفیاء کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں مختلف اقوال کو ذکر کرتے ہوئے قول فیصل ذکر کرتے ہیں ،نیز زاہد کو صوفی کب سے کہنا شروع ہوا ؟اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
زاہد کو صوفی کہنا دوسری صدی کے درمیان سے ہے، اس لیے کہ موٹے موٹے کپڑے زاہدوں میں زیادہ مستعمل ہوتے تھے اور جس نے یہ کہا کہ یہ صفہ کی طرف منسوب ہے، جس کی طرف بہت سے صحابہ منسوب ہیں اور ان کو اہل صفہ کہا جاتا ہے یا یہ صفا یا صف اول یا صوفہ بن مروان بن اوبن کا طانجہ یا صوفة الصفا کی طرف منسوب ہے تو یہ سب اقوال ضعیف ہیں۔(جلاء العینین ص:62)

سب سے پہلے صوفی کا لفظ کن کے لیے استعمال ہوا اور تصوف کی تعریف وشرح کس نے کی اور معارف ِتصوف کو کس نے پھیلایا اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
سب سے پہلے صوفی کانام ابو ہاشم الکوفی کو حاصل ہوا، یہ کوفہ میں پیدا ہوئے ا ور اپنی زیادہ زندگی شام میں گزاری اور150ھ میں وفات ہوئی اور سب سے پہلے تصوف کے نظریات کی تعریف وشرح ذوالنون المصری نے کی، جو امام مالک کے شاگرد ہیں اورسب سے پہلے جنید بغدادی نے تصوف کوجمع اور نشر کیا۔

امام صاحب اور تصوف
جیسا کہ ماقبل میں اس کی وضاحت کی گئی کہ تصوف کی حقیقت عہد صحابہ میں موجود تھی؛لیکن یہ نام نہیں تھا اور پہلی مرتبہ یہ لفظ 150 ہجری میں ابو ہاشم کے لیے استعمال کیا گیا، اس لیے امام صاحب کے ساتھ تصوف اور صوفی کا لفظ تلاش کرناایک غیر ضروری اور عبث عمل کہلائے گا، البتہ امام صاحب کی زندگی تصوف کی حقیقت سے بھر پور تھی اور تصوف کی اصل، صفت ِاحسان امام صاحب کی زندگی میں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے،مفتی عزیز الرحمن بجنوری کے ایک مکتوب کے جواب میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب فرماتے ہیں:
متعارف سلوک تو صحابہ اور تابعین کے دور میں نہ تھا، ا لبتہ اصل ہرچیز کی وہاں ملتی ہے، ا س لیے امام صاحب کا سلوک بھی اسی نوع کا تھا جو نوع اس زمانے میں متعارف تھی، سلوک کے اہم اجزا ورع، خشوع، انابت الی اللہ، تجرد عن الخلق، تبتل الی اللہ، کثرت عبادت، کثرت ریاضت یہ سب ا جزاء امام صاحب کے سوانح میں بکثرت ملیں گے۔(مکتوب حضرت شیخ الحدیث بحوالہ امام اعظم ابو حنیفہ، مصنف مفتی عزیز الرحمن بجنوری ص:376)

حضرت شیخ الحدیث کی تحریر سے سلوک وتصوف کے اہم اجزا سامنے آگئے اور یہ کہ امام صاحب کی زندگی میں شریعت وطریقت کے صفات بوجو ہ اتم پائے جاتے تھے، ذیل میں ہم امام صاحب کے ورع وتقویٰ، خوف خدا، کثرت عبادت اور کثرت ریاضت کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں۔

کثرت عبادت
امام صاحب کے تذکرے میں ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں جن میں ا مام صاحب کی عبادت وریاضت کو بیان کیا گیا ہے، بعض واقعات اور معمولات کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے ،جو ہم سب کے لیے عبرت ونصیحت ہے۔

1...امام صاحب رمضان میں60 قرآن ختم کیا کرتے تھے، ایک دن میں، ایک رات میں۔(تاریخ بغداد 13/355)

2...امام زفر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے امام صاحب کو دیکھا کہ انہوں نے نماز میں صرف اس ایک آیت پر پوری رات گزاردی ﴿بل الساعة موعدہم والساعة أدہی وأمر﴾․(تاریخ بغداد13/356)

3...حضرت محارب بن دثار کہتے ہیں: میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ شب بیدار نہیں دیکھا۔

4...ابو عاصم نبیل کہتے ہیں :امام صاحب کو قیام صلاة اور کثرت عبادت کی وجہ سے میخ کہا جاتا تھا۔(تاریخ بغداد13/352)

5...سفیان بن عیینہ کہتے ہیں، ا یام حج میں مکہ معظمہ میں امام ابو حنیفہ سے زیادہ نماز پڑھنے والا نہیں آیا۔

6...اسد بن عمر کہتے ہیں، امام صاحب نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی، آپ اکثر ایک ہی رکعت میں قرآن مجید ختم کرتے تھے، ابن مبارک نے بھی اس روایت کی تائید کی ہے۔

7...ابو زایدہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے امام صاحب کے ساتھ ان کی مسجد میں عشاء کی نماز پڑھی، جب سب لوگ چلے گئے تو میں ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا تو امام صاحب نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہوگئے، جب آپ اس آیت پر پہنچے ﴿فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَینَا ووقانَا عذابَ السَّمُومِ﴾ تو اسی کی تکرار فرماتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔(تاریخ بغداد13/355)

8...ابو مطیع کہتے ہیں ہم مکہ میں تھے اور جب کبھی رات میں طواف کے لیے جاتے تو ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کو طواف میں دیکھتے۔(تاریخ بغداد 13/ 352)

زہد وتقوی
یحییٰ بن سعید قطان کہتے ہیں، ہم ابوحنیفہ کی مجلس میں بیٹھتے اور ان سے استفادہ کرتے اور جب بھی ہم ان کی طرف دیکھتے تو ہم ان کے چہرے سے سمجھ جاتے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں۔(تاریخ بغداد 13/351)

عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں، میں کوفہ آیا اور کوفہ و الوں سے پوچھا سب سے زیادہ ورع وتقویٰ والے کون ہیں؟ تو لوگوں نے کہا ا بو حنیفہ خود ابن مبارک کا بیان ہے کہ میں نے ا بو حنیفہ سے زیادہ زہد وتقویٰ کسی میں نہیں دیکھا، حالاں کہ ان کو کوڑوں اورمال وزر کے ذریعہ آزمایا گیا۔(تاریخ بغداد13/357-356)

مکی بن ابراہیم کہتے ہیں ،میں نے کوفیوں کی مجالست اختیار کی؛ لیکن میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ متقی کسی کو نہیں دیکھا۔ (تاریخ بغداد 13/356)

حفص بن عبد الرحمن کو امام صاحب نے کپڑے کے تھان کا ایک گٹھٹر بھیجا اور فرمایا کہ فلاں تھان میں عیب ہے ،جب اس کو فروخت کرو تو عیب کو بیان کردو۔ حفص بن عبد الرحمن نے وہ کپڑا فروخت کردیا اورعیب بیان کرنا بھول گئے، جب امام صاحب کو معلوم ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور پورے کپڑے کی قیمت کوصدقہ کردیا۔(تاریخ بغداد13/356)

بیعت وصحبت
تصوف کے باب میں صحبت کو بڑا دخل ہے، اگر یہ حاصل نہ ہو تو شاید کچھ بھی حاصل نہ ہو، اسی صحبت کی وجہ سے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ ورضوا عنہم کے اعزاز کے مستحق ہوئے اور یہی اعزاز حضرات تابعین کو ملا ، والذین اتبعوہم بإحسان، اسی صحبت کی بنا پر حضرت ابو بکر صدیق مقام صدیقیت پر فائز ہوئے اور اسی فیضِ صحبت وجہ سے حضرت ابوذر کو مقام جذب وفنا حاصل ہوا، غرضیکہ صحبت کو تبدیل احوال اور تربیت اخلاق میں بڑا دخل ہے۔

حضرت امام ابو حنیفہ اسی مبارک زمانہ (خیر القرون) 80ھ میں پیدا ہوئے اور اسی میں پلے بڑھے ،اسی دور میں وفات پائی اس لیے حضرات صحابہ کی صحبت اور ان کی ملاقات، اسی طرح جلیل القدر تابعین کی صحبتیں اور ان کی ملاقات سے آپ کو حظ وافرملا تھا، انہی قدسی صفات حضرات کی صحبتوں نے امام صاحب کی زندگی کو زہد وتقویٰ اور کثرت عبادت وریاضت سے معمور کردیا تھا۔

امام جعفر صادق کی صحبت میں
حضرت داتا گنج علی ہجویری فرماتے ہیں کہ امام صاحب طریقت میں ا مام جعفر صادق کے خلیفہ اورمجاز ہیں، حضرت امام اعظم نے سلوک وطریقت کے مراحل امام جعفرصادق سے دو سال میں طے کیے، پھر آپ نے فرمایا: لولا السنتان لہلک النعمان اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا، یعنی اگر میں دوسال تک امام جعفر صادق کی خدمت میں نہ رہتا تو اصلاح باطن سے محروم ہوجاتا، تحفہٴ حنفیہ کے مصنف نے لکھا ہے کہ جب امام صاحب کے والد ثابت نے اس دار فانی سے رحلت فرمائی اس وقت آپ بہت کم سن تھے، آپ کی والدہ ماجدہ نے امام جعفر صادق سے نکاح کرلیا ااس طرح ا مام صاحب کو جعفر صادق کی نگرانی میں پرورش پانے کا موقع نصیب ہوا اور آپ نے ان سے علوم ظاہری اور باطنی حاصل کیے۔(تحفہٴ حنفیہ ص: 271)

مفتی ابوالحسن شریف الکوثری نے اپنی کتاب ”امام ابو حنیفہ شہید اہل بیت“ میں لکھا ہے کہ مولانا ابوالوفاء افغانی کے ایک شاگرد نے ان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ طریقت میں امام جعفر صادق کے مجاز وخلیفہ ہیں اور پھر داوٴد طائی امام صاحب کے مجازو خلیفہ ہیں۔(امام ابو حنیفہ، شہید اہل بیت ص 86)

شیخ ہجویری نے اگر چہ امام صاحب کو امام جعفر کا خلیفہ ومجاز قرار دیا ہے؛ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ خلافت واجازت کی تصوفانہ اصطلاح بعد کی رائج شدہ ہے، امام صاحب کے عہد تک تصوف ایک فن کی حیثیت سے دیگر علوم اسلامی سے علیحدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے اس کی اصطلاحات بھی بعد کی پیداوار ہیں، لہٰذا خلافت واجازت سے نوازنااس عہدمیں نہیں تھا؛بلکہ شیخ کی صحبت میں رہ کر اصلاح باطن کی طرف توجہ دی جاتی تھی۔ (جاری)

تصوف میں امام صاحب کا مقام ومرتبہ
امام اعظم ابو حنیفہ بلند پایہ محدث بھی تھے اور فقہ کے امام اعظم بھی، اسی کے ساتھ آپ طریقت وتصوف کے عظیم مرد میدان بھی تھے، لیکن آپ نے روایت حدیث اور سلوک وطریقت کی ظاہری ترویج کے بجائے صرف فقہ کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا، آپ نے اپنی ساری زندگی امت مسلمہ کی بھلائی کی خاطر وقف کردی اور فقہ حنفی کی صورت میں امت کو اسلامی قانون کا مجموعہ عطا کیا، شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں ، میں نے عارف ربانی شیخ نصر اللہ شیرازی مہاجر مکی کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو معارف اور حقائق شیخ ابو یزید بسطامی اور حضرت جنید بغدادی کو حاصل تھے وہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کو بھی حاصل تھے، شریعت اور اس کے احکام کا علم اس کے علاوہ تھا، ان کا مقصد یہ تھا کہ فقہ کے ائمہ، فقہ اور تصوف دونوں کے ساتھ متصف تھے اور دونوں کے جامع تھے اور انصاف یہ ہے کہ ائمہ تصوف بھی دونوں کو جامع تھے، فرق غالب اور مغلوب کا تھا(یعنی ائمہ فقہ پر فقہ کا اور ائمہ تصوف پر تصوف کا غلبہ تھا)۔(سیدنا امام اعظم 125)

مفتی ابو الحسن شریف الکوثری نے لکھا ہے کہ
امام مناوی سمیت صوفیاء کے کئی سوانح نگارمصنفین نے امام صاحب کو تصوف وسلوک کے بڑے مشائخ میں شمار کیا ہے۔

شریک نخعی کا بیان ہے:
ابو حنیفہ کی طویل خاموشی، دائمی فکر اور لوگوں سے کم کلام کرنا یہ سب واضح علامت ہے علم باطن اور دین کے اہم امور میں مشغولی کی اور پھر یہ کہ جس کو خاموشی اور زہد دیا گیا اس کو کل کا کل علم دے دیا گیا۔(امام اعظم ابوحنیفہ، حالات ، کمالات، ملفوظات ص:94)

شیخ علی ہجویری اپنی کتاب کشف المحجوب میں لکھتے ہیں:
اور انہی بزرگوں میں امامِ جہاں،مقتدائے خلق، زینت وشرف فقہاء، باعث شان علماء، حضرت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الخزاز بھی شامل تھے، عبادت ومجاہدہ میں انتہائی ثابت قدم تھے اور اس طریقت کے اصولوں میں شان عظیم کے مالک تھے، ابتدائے حال میں گوشہ نشینی کا ارادہ رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ تمام مخلوق سے کنارہ کش رہیں، یوں کہ گویا ان کے درمیان میں ہیں ہی نہیں، کیوں کہ ان کا دل امارت وجاہ وحشم سے پاک ہوچکا تھا اور وہ اپنے آپ کو شائستہ درگاہ الہٰی بنا چکے تھے۔(گنج مطلوب، ترجمہ کشف المحجوب ص:149)

حضرت فریدالدین اولیاء نے تذکرة الاولیاء میں امام صاحب کے تصوف میں بلند مقام کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
عارف، عامل صوفی، فقیہ، محدث، عالم دنیا ابو حنیفہ کوفی کے ریاضات ومجاہدات اور ان کے مشاہدات کی انتہا نہ تھی، شریعت وطریقت میں نظر غائر رکھتے تھے، باطن میں صاحب بصیرت تھے، امام ہمام جعفر صادق کے مرید خاص اور فیض یاب تھے، ابو حنیفہ کے مرید فضیل بن عیاض بن ابراہیم، بشرحافی ،داوٴد طائی جیسے اقطاب تھے۔(تذکرة الاولیاء ص:18)

امام صاحب طریقت کے امام اعظم تھے
امام صاحب جس طرح حدیث اور فقہ میں امامت کے منصب جلیل پر فائز تھے اسی طرح طریقت وتصوف میں بھی آپ اپنے ہم عصروں میں امام اعظم تھے،امام صاحب کے بعض شاگردوں نے طریقت میں خوب شہرت حاصل کی تھی، پہلے بھی گزرچکا کہ داوٴد طائی نے شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت کا علم بھی امام صاحب سے حاصل کیا تھا اور وہ امام صاحب کے بھی خلیفہ ومجاز تھے، علامہ حصکفی نے در مختارمیں لکھا ہے:

استاذ ابو القاسم القشیری اپنے رسالہ میں، باوجود اپنے مذہب (شافعی) میں سخت ہونے کے اور طریقت میں پیش پیش ہونے کے، فرماتے ہیں: میں نے استاذ ابوعلی دقاق سے سنا فرماتے تھے، میں نے طریقت کو حضرت ابو القاسم نصرباذی سے حاصل کیا اور ا بو القاسم فرماتے تھے کہ میں نے حضرت شبلی سے حاصل کیا اور انہوں نے سری سقطی سے اخذ کیا تھااور انہوں نے معروف کرخی سے اور انہوں نے حضرت داوٴد طائی سے اور انہوں نے علم شریعت اورطریقت دونوں امام اعظم ابو حنیفہ سے حاصل کیا تھا۔(در مختار1/12 مکتبہ زکریا)

حضرت شبلی اور ان کے پیر حضرت سری سقطی کی بزرگی اور طریقت کا اعلیٰ ترین درجہ سب کو معلوم ہے تو جن حضرات سے ان کو یہ درجے حاصل ہوئے خیال کیجیے وہ کیا ہوں گے!! علامہ حصکفی لکھتے ہیں کہ امام صاحب علم ظاہر وباطن میں اعظم ترین تھے، بہت سے معروف اولیاء اللہ آپ کے متبع ہوئے ہیں، اگر ان حضرات اولیاء اللہ کو کسی بھی بات میں ذرا سا بھی شبہ پیش آتا تو وہ کبھی بھی ان کا اتباع نہ کرتے، نہ اقتدا کرتے، نہ موافقت کرتے۔

واقعہ یہ ہے کہ آپ کے اخلاص، صداقت ودیانت، عبادت وریاضت اور زہد وتقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ نے آپ کو تصوف وطریقت میں بلند درجہ عطا کیا اور امامت واجتہاد کے مقام پر فائز فرمایا، اس کی تائید حضرت شیخ علی ہجویر کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے خواب میں آقا ومولیٰ صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی اور دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم امام اعظم ابو حنیفہ کو اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تشریف لارہے ہیں، آپ لکھتے ہیں خواب سے ظاہر ہوگیا کہ امام ابوحنیفہ ان پاک لوگوں میں سے تھے جو اوصاف طبع میں فانی اور احکام شرع میں باقی ہیں، اس لیے کہ حضور آپ کو اٹھا کر لائے، یعنی آپ کے چلانے والے سید عالم ہیں، اگر آپ خود چل کر آتے تو باقی الصفت ہوتے، باقی الصفت لوگ منزل کو پابھی سکتے ہیں اور منزل سے بھٹک بھی سکتے ہیں، چوں کہ رسول اللہ نے آپ کو اٹھایا ہوا تھا، اس لیے یقینا آپ کی ذاتی صفات فنا ہوچکی تھیں اور وہ آقا کریم کی صفات کے ساتھ صاحب بقا تھے۔(کشف المحجوب 165)

امام صاحب کے صوفیاء تلامذہ
امام صاحب طریقت وتصوف میں اپنے ہم عصروں پر فوقیت رکھتے تھے اور فقہ وحدیث کی طرح وہ اس میدان کے بھی شہباز تھے اور اس میں انہوں نے بلندی ورفعت کے آسمان کو چھولیا تھا،اس فن میں امام صاحب کی عظمت شان کا اندازہ ان تلامذہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جنہوں نے اس میدان میں خوب شہرت حاصل کی ہے، امام صاحب کے ان صوفیاء تلامذہ کے مقام ومرتبہ اور لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت ومحبت، خدمت خلق میں ان کی جانفشانی کو دیکھ کر امام صاحب کی عظمت ورفعت کا اعتراف کیا جاسکتا ہے، چندمشہور تلامذہ کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے:

حضرت براہیم بن ا دھم:آپ بادشاہوں کی اولاد میں سے تھے ایک روز شکار کے لیے نکلے اور ایک لومڑی یا خرگوش کو ہنکایا ،آپ اس کا پیچھا کررہے تھے کہ غیب سے آواز آئی اے ابراہیم! کیا تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے، چناں چہ آپ اپنی سواری سے ا تر پڑے، ایک مویشی کا معمولی جبہ پہن لیا اور جنگل کی راہ لی، کچھ عرصے بعد مکہ مکرمہ پہنچے وہاں سفیان ثوری اور فضیل بن عیاض کی صحبت اختیار کی، حضرت خضر علیہ السلام کے مرید تھے اور بے شمار مشائخ متقدمین کی صحبت اٹھا چکے تھے،امام ابو حنیفہ سے ربط خاص تھا، انہی سے تحصیل بھی کی تھی، حقائق تصوف کے بیان میں ان کے نادر مقولے اور لطائف نفیس خاص مقام رکھتے ہیں، حضرت جنید بغدادی کہتے ہیں علوم طریقت کی کنجیاں ابراہیم بن ادھم کے پاس ہیں۔(گنج مطلوب ترجمہ کشف المحجوب 165)

ابراہیم بن ادھم تقویٰ وپرہیزگاری میں بلند مقام پر فائز تھے، ان سے منقول ہے کہ اپنی روزی کو پاکیزہ بنالو، پھر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم رات کو تہجد نہ پڑھو اور دن میں نفلی روزہ نہ رکھو، آپ عام طور پر یہ دعا کرتے تھے اے اللہ! مجھے اپنی معصیت کی ذلت سے اپنی طاعت کی عزت کی طرف پہنچادے۔ ابراہیم بن ادھم سے کہا گیا کہ گوشت مہنگا ہوگیا ہے تو آپ نے فرمایا: اسے سستا کردو یعنی اسے مت خریدو اور یہ شعر پڑھا: وإذا غلا شئ عليّ ترکتہ فیکون ارخص ما یکون إذا غلا اور جب کوئی چیز مہنگی ہوتی ہے تو میں اس کو ترک کردیتا ہوں اور اس طرح وہ باوجود مہنگی ہونے کے سب سے سستی ہوجاتی ہے۔

ایک مرتبہ طواف کے دوران انہوں نے ایک شخص سے فرمایا خوب سمجھ لو تمہیں صالحین کا درجہ نصیب نہیں ہوسکتا جب تک تم چھ گھاٹیاں طے نہ کرلو، اول یہ کہ اپنے اوپر عیش وعشرت کا دروازہ بند کرلو اور مشقت کا دروازہ کھول لو، دوسری یہ کہ عزت کا دروازہ بند کرلو اور ذلت کا دروازہ کھول لو، تیسری یہ کہ راحت کا دروازہ بند کرلو اور محنت کا دروازہ کھول لو، چوتھی یہ کہ نیند کا دروازہ بند کرلو اور شب بیداری کا دروازہ کھول لو، پانچویں یہ کہ غناء کا دروازہ بند کرلو اور فقر کا دروازہ کھول لو، چھٹی یہ کہ امیدوں کا دروازہ بند کرلو اور موت کی تیاری کا دروازہ کھول لو۔(روح تصوف ص:28)

داوٴد طائی:کبار مشائخ اور اہل تصوف کے سرداروں میں ان کا شمار ہوتا ہے، امام اعظم کے شاگرد اور ابراہیم بن ادھم اور فضیل بن عیاض کے ہم عصر تھے، شریعت وطریقت کا علم امام صاحب سے حاصل کیا تھا، جملہ علوم وفنون پربڑی دست رس رکھتے تھے، فقہ میں تو فقہاء کے استاذ اور رہنما تھے، گوشہ نشینی اختیار کرلی اور دنیاوی جاہ وحشم سے اعراض کرتے ہوئے طریق زہد وتقویٰ کو اختیار کرلیا تھا، معروف کرخی کہتے ہیں: میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو داوٴد طائی کی طرح دنیا کو بالکل بے وقعت اور بے قیمت تصور کرتا ہو، یہاں تک کہ تمام دنیا اور سارے دنیا دار ان کے نزدیک مچھر کے برابر بھی قدروقیمت نہ رکھتے تھے۔(گنج مطلوب173) محارب بن دثار جو مشہور محدث تھے، کہا کرتے تھے اگر داوٴد اگلے زمانہ میں ہوتے تو خدا قرآن مجید میں ان کا قصہ بیان کرتا،160ھ میں ان کا انتقال ہوا۔(رد المحتار1/154 )

فضیل بن عیاض:- ان کا شمار طریقت کے مشہور بزرگوں میں ہوتا ہے، سمر قند میں پیدا ہوئے اور مکہ میں 187ھ میں وفات پائی، شریک بن عبد اللہ کا قول ہے ، ہمیشہ ہر قوم کے لیے ان کے زمانہ میں کوئی حجت ہوا کرتا ہے ، فضیل بن عیاض اپنے زمانے والوں کے لیے حجت ہیں۔(تہذیب الکمال 23/208ڈیجیٹل لائبریری) عبد اللہ بن مبارک کا قول ہے کہ حجاز میں فضیل بن عیاض اور ان کے بیٹے علی بن فضیل کے علاوہ کوئی ابدال باقی نہیں رہا۔ (سیراعلام النبلاء، ترجمہ فضیل بن عیاض 7/395) اوائل عمر میں ٹھگ پیشہ تھے اور راہ زنی کیا کرتے تھے، لیکن اس حالت میں بھی طبیعت نیکی وصلاح کی طرف مائل تھی، یہاں تک کہ اگر کسی قافلہ میں کوئی عورت ہوتی تو اس کے قریب تک نہ جاتے اور اگر اس کے پاس سرمایہ قلیل ہوتا تو اس سے بھی ہرگزنہ چھینتے تھے، بلکہ ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ باقی رہنے دیتے ، ایک مرتبہ ایک سوداگر مرو سے روانہ ہوا تو لوگوں نے اسے کہا کہ حفاظتی دستہ ساتھ لیتے جاوٴ، کیوں کہ راستہ میں فضیل موجود ہے، اس نے کہا میں نے سنا ہے وہ ایک خدا ترس انسان ہے، لہٰذا مجھے اس کا خوف نہیں، اس نے ایک قاری کو ہم راہ کرلیا اور اسے اونٹ پر بٹھادیا، جہاں سے وہ شب وروز قرآن پڑھتا رہتا تھا، حتی کہ قافلہ اس جگہ پہنچ گیا جہاں فضیل گھات میں بیٹھا تھا، عین اس وقت قاری یہ آیت پڑھ رہا تھا ”کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت قریب نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے سامنے جھگ جائیں(سورة الحدید16) یہ سنتے ہی ان کے دل پر رقت طاری ہوگئی اور اس کا ر مذموم سے توبہ کرلی اور جن لوگوں کا مال لوٹ رکھا تھا ا نہیں خطوط لکھ لکھ کر مال واپس کردیا، پھر مکہ چلے گئے، کچھ مدت وہاں قیام رہا، بعض اولیاء اللہ سے ملاقات کی ،پھر وہاں سے کوفہ چلے گئے اور امام اعظم ابو حنیفہ سے جاملے اور ایک عرصہ تک ان کی خدمت میں رہ کر علم شریعت وطریقت حاصل کیا۔(گنج مطلوب ص: 156) تصوف کے باب میں ان کے اقوال کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ان کا قول ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے کوئی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے اور جو غیر اللہ سے ڈرے کوئی اس کو نفع نہیں پہنچا سکتا ہے۔(سیر اعلام النبلاء ترجمہ فضیل بن عیاض 7/395)

بشرحافی:بشر بن الحارث حافی کا شمار انہی بزرگوں میں ہوتا ہے جو مجاہدات میں نرالی شان کے مالک تھے، فضیل بن عیاض کی صحبت سے مستفیض تھے، تصوف کے متعدد مصنفین نے آپ کو امام صاحب کے تلامذہ میں شمار کیا ہے، آپ کا اصل وطن مروتھا،لیکن بغداد میں سکونت اختیار کی تھی اور وہیں 227ھ میں وفات پائی، آپ کی توبہ اور زہد وتقویٰ کا واقعہ یہ ہوا کہ ایک بار راستے میں آپ کو کاغذ کا ایک پرزہ ملا، جس پر بسم اللہ ا لرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا اور وہ پیروں کے نیچے پڑتا تھا، آپ نے اسے ا ٹھالیا اور آپ کے پاس ایک درہم تھا، اس سے عطر خریدا اور اس پرزے کو معطر کرکے ا یک دیوار کے شگاف میں رکھ دیا، اسی رات اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا ،جوا ن سے فرما رہا تھا اے بشر! تو نے مرے نام کو خوش بو دار کیا مجھے اپنے نام کی قسم! میں بھی دنیا اور آخرت میں تیرے نام کو خوش بودار کروں گا، اسی و قت تو بہ کی اور زہد کا راستہ اختیار کیا، ان کے زہدوتقویٰ کے حکایات اور بزرگی کا چرچا لوگوں میں بہت زیادہ تھا، شیخ ابو علی دقاق کا بیان ہے کہ بشرحافی کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا، آپ کو دیکھ کر وہ کہنے لگے یہ وہ شخص ہے جو ساری رات عبادت کرتا ہے اور تین تین دن پر افطار کرتا ہے۔ یہ سن کر بشر روپڑے، آپ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا مجھے یاد نہیں ہے کہ میں کبھی بھی پوری رات جاگا ہوں یا کسی دن بھی روزہ رکھا ہواور رات کو افطار نہ کیا ہو، لیکن بندہ جتنا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے لطف وکرم سے اس سے کہیں زیادہ لوگوں کے دل میں ڈال دیتا ہے۔(روح تصوف ترجمہ الرسالة القشیریة ص:38)

یہ حضرت امام ابو حنیفہ کے بعض تلامذہ ہیں، جنہوں نے آپ سے کسب فیض کیا ،آپ کے دامن تربیت میں رہ کر اصلاح ظاہر وباطن میں کمال حاصل کیا، یہ حضرات تصوف کے اساطین شمار کیے جاتے ہیں، ان کی باتوں کو ارباب تصوف کے یہاں کافی استناد حاصل ہے، ان کی زندگی نے نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیوں کے دھارے کو اعمال واخلاق کی طرف موڑ دیا، مشہور ہے کہ پھل کو درخت سے اور خوش بو کو پھول سے پہچانا جاتا ہے، ان حضرات کی زندگی اور تصوف کے مقام بلند کو دیکھ کر امام صاحب کے مقام ومرتبہ اور تصوف میں ان کی امامت کا کھلے دل سے اعتراف کیا جاسکتا ہے۔



تصوف میں مجدد الف ثانی کا تصور


          قرآن وحدیث کی زبان میں تصوف کا نام تزکیہ اور احسان ہے، مشہور حدیث جس کا نام ”حدیث جبرئیل“ ہے، اس میں ایمان اور اسلام کے بعد ایک مستقل سوال ”احسان“ کے متعلق ہے۔ حضرت جبرئیل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں:
          مَا الاحْسانُ: احسان کسے کہتے ہیں؟
          آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاجواب ہے:
          اَالاِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأنَّکَ تَراہُ: احسان کا اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ بندگیِ رب کے وقت ایسا محسوس ہو جیسے بس وہ سامنے ہی ہے۔
          اس سے کم مرتبہ یہ ہے:
          اِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ: وہ تو بہرحال تمہیں دیکھ ہی رہا ہے، نہ تم اس کے دائرہ علم سے باہر ہو اورنہ احاطہٴ گرفت سے۔
          اس لیے مجدد الف ثانی بجا طور پر ارشاد فرماتے ہیں کہ:
”شریعت جو احکامِ الٰہیہ کا نام ہے، اس کے تین جزو ہیں: علم، عمل، اخلاص۔ علم کے بغیر عمل نہیں اور عمل کے بغیر علم لاحاصل ہے اور اخلاص نہ ہوتو عمل بے فائدہ ہے، غرض علم، عمل اور اخلاص یہ تینوں جزومل کر شریعت بنتی ہے۔“
          عمل میں خلوص؛ یہ حاصل ہے تصوف، تزکیہٴ نفس اوراحسان کا۔ طریقت وحقیقت شریعت کے خادم ہیں اور شیرعت سے دین ودنیا کی تمام سعادتیں حاصل ہوتی ہیں۔
          طریقت و تصوف کے ذریعے عمل میں اخلاص پیداکیا جاتا ہے اور مقصد کمالِ شریعت ہے۔ اخلاص کے بغیر رضا کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ اتباعِ شریعت اور سنت کی پیروی پر رضائے الٰہی کا وعدہ قرآن سے ثابت ہے․․․․ ارشاد ہے:
          قُلْ انْ کُنْتُمْ یُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:۳۱)
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تمہیں دوست رکھے گا)
          امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ: اس فقیر کو پورے دس سال کے بعد یہ امر منکشف ہوا اور حقیقت الامر واضح ہوئی۔ (مکتوب ۳۶ جلد اوّل)
          حضرت مجدد الف ثانی سولہویں صدی عیسوی کی اُن بابرکت عظیم شخصیات میں سے ہیں، جنھوں نے نہ صرف پنجاب؛ بلکہ پورے ہندوستان میں تصوف کے چہرے کو نکھارا، اس کے نوک پلک درست کیے اور تصور کی حقیت سے آشنا کیا۔
          آپ کا پورا نام: ابوالبرکات احمد بدرالدین ہے، ”امام ربانی اور مجدد الف ثانی“ آپ کا لقب ہے۔ ۵/جون ۱۵۶۴/ آپ کی ولادت اور ۲۶/نومبر ۱۶۲۴/ تاریخِ وفات ہے۔ آپ کے چھٹے دادا سرہند (پنجاب) آکر آباد ہوئے۔ زندگی کی مختصر مدت میں حضرت مجدد نے جو کارنامے انجام دیے وہ ہندوستان کی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ان کے زمانے میں تصوف کے نام پر صوفی جو غیرصوفیانہ کام کررہے تھے، ان کی نقاب کشائی حضرت مجدد نے اپنی قیمتی مکتوبات اور تعلیمات کے ذریعے کی اور تصوف کوپاک وصاف کرکے، اس کی صحیح حقیقت سامنے رکھ دی۔ ان کی تعلیم کے کچھ گوشے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور مجدد صاحب کی عظمت کا اندازہ کریں۔
قیامِ سنت:
          فرماتے ہیں: مدتوں علوم ومعارف اوراحوال مقامات واردات ابرنیساں کے مثل مجھ پر وارد ہوئے اور جو کام کرتا تھا، اللہ کی پاک عنایت سے کیا۔ اب کوئی تمنا نہیں رہی، سوائے اس کے کہ کوئی سنت سُنَنِ مصطفی سے زندہ کی جائے اور جاری کی جائے۔ (مکتوبات۳۷ جلد اول)
سنت کی پیروی:
          حق تعالیٰ ظاہر وباطن کو متابعتِ سنت مصطفویہ علیٰ صاحبہ الصلوات والتحیات سے مزین ومشرف فرمادے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، محبوب رب العالمین ہیں، جو چیز بہتر ہے محبوب کے لیے ہے؛ اس لیے حق تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیم(سورہ قلم آیت۴) بے شک آپ خلقِ عظیم پر ہیں۔
          حق تعالیٰ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کو صراطِ مستقیم فرمایا۔ آپ نے فرمایا: اَدَّبَنِیْ رَبِّی فَأحْسَنَ تَأدِیْبِیْ (میرے رب نے مجھ کو اچھا ادب سکھایا)
          * قیامِ سنت کے ساتھ سنت کی پیروی پر حضرت مجدد کس طرح آمادہ فرمارہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تصوف کے مقامات قیامِ سنت اور پیرویِ سنت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ (مکتوب ۴۱ جلد اوّل)
شریعت اور طریقت میں منافات نہیں ہے:
          حضرت مجدد اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ شریعت اور طریقت میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے؛ بلکہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؛ چناں چہ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں ”زبان سے جھوٹ نہ بولنا شریعت ہے اور دل سے بھی وسوسہٴ کذب دور کرنا طریقت وحقیقت ہے۔ یعنی اگر یہ نفی بہ تکلف ہوتو شریعت ہے اور اگر بے تکلف میسر ہو تو حقیقت۔
          پس درحقیقت باطن جو طریقت سے عبارت ہے، ظاہر کا مکمل کرنے والا ہے، جو کہ شریعت ہے۔ (مکتوبات ۴۱ جلد اوّل)
وحی اور الہام کا فرق:
          وحی اور الہام میں فرق بتاتے ہوئے تحریر فرمایاکہ وحی قطعی ہے اور الہام ظنی ہے کہ وحی کا ذریعہ ملائکہ ہیں اور ملائکہ معصوم ہیں۔ احتمالِ خطا وہاں نہیں ہے، الہام میں خطا کا احتمال ہے۔ (دین کا تصور حضرت مجدد کی نگاہ سے، ص۲۸)
نفس کی صفات باقی رہنی چاہئیں:
          عام طور پر صوفیائے کرام کے یہاں ضبطِ نفس کے بجائے نفس کُشی کا تصور پایاجاتا ہے، حضرت مجدد یہ فرماتے ہیں کہ نفس کے اندر جو صفات ہیں، وہ باقی رہنی چاہئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر نفس نفسِ مطمئنہ بھی بن جائے، یعنی شریعت کا پابند ہوجائے اس کے باوجود بھی نفس کی دوسری صفات باقی رہنی چاہئیں؛ کیوں کہ ان صفات سے ترقی کا دروازہ کھلتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ روحانی ترقی نفس کی مخالفت کی وجہ سے ہے۔ اگر نفس کی مخالفت نہ ہوگی تو روحانی ترقی بھی نہ ہوگی، اس کے لیے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ جب آپ جہاد سے واپس ہوئے تو میدانِ جہاد سے واپسی پر ارشاد فرمایا:
          رَجَعْنَا مشنَ الْجِہَادِ الأصْغَرِ الیٰ الْجِہَادِ الأکْبَرِ
(ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں)
          یہاں نفس سے جہاد کو ”جہادِ اکبر“ فرمایا اور فرماتے ہیں کہ فرشتے روحانی ترقی نہیں کرسکتے؛ کیوں کہ ان میں نفس نہیں ہے، جو فرشتہ جس مقام پر ہے، اُسی مقام پر رہے گا۔
ایک فرض ہزار نفلوں سے بہتر:
          عام طور پر صوفیائے کرام کا رجحان نوافل ومستحبات کی طرف زیادہ رہتا ہے؛ لیکن حضرت مجدد فرماتے ہیں کہ ایک فرض کا مقررہ وقت پر ادا کرنا ہزار نوافل سے بہتر ہے، اور فرماتے ہیں کہ چاہے وہ نوافل اخلاص کے ساتھ ہوں تب بھی فرض کے مقابلے میں کچھ اعتبار نہیں۔ حضرت امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ صبح کی نماز باجماعت ادا فرماکر فارغ ہوئے، دیکھا کہ ایک شخص ان کے اصحاب میں سے جماعت میں موجود نہیں، دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ اکثر شب بیدار رہنے اور نوافل ادا کرنے کی وجہ سے اس وقت سوگئے۔ فرمایا کہ اگر تمام رات سوتے اور صبح کی نماز جماعت سے ادا کرتے، اس شب بیداری سے بہتر تھا۔
شریعت کے مطابق اعمال کی درستی:
          ناواقف صوفیائے کرام کے یہاں کرامتوں اور احوال کی بہت زیادہ اہمیت ہے؛ مگر مجدد صاحب اس بات کو صاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اعمال کی صحت علم کے بغیر نہیں ہوسکتی؛ چنانچہ مکتوب ۴۱ میں ارشاد فرمایا:
”واضح ہو کہ علومِ صوفیاء علومِ احوال ہیں اور احوال، نتیجہ وثمرہ اعمال کا ہیں۔ پس علوم احوال اُسی کے لیے مسلم ہیں جس نے اعمال کو درست کیا ہو اور پورا پورا حق اعمال کا ادا کیا ہو اور صحتِ اعمال اسی وقت ہوسکتی ہے کہ اعمال کو جانے اور ان کا علم حاصل کرے اور کیفیتِ اعمال کو سیکھے اور علم شریعت ہے کہ نماز وروزہ تمام فرائض ومعاملات نکاح وطلاق وبیوع وجمیع امور لازمہ کا علم اس سے حاصل ہوتا ہے اور یہ علم کسبی ہے سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے، کسی کو اس علم کے حاصل کیے بغیر چارہ نہیں۔“
          فرمایا:
”علم دو مجاہدوں کے درمیان ہے: ایک مجاہدہ طلبِ علم میں ہے، علم کے حاصل ہونے سے پہلے ، اور دوسرا مجاہدہ حصولِ علم کے بعد اس پر عمل کرنے میں۔“
توحیدِ وجودی اور توحید شہودی:
          تصوف کے نازک اور الجھے ہوئے مسائل کو حضرت مجدد نے کس خوبی سے حل کیا ہے، وہ ان کے مکتوبات میں دیکھنے کی چیز ہے، توحید وجودی اور توحید شہودی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
”بے شبہ توحیدِ وجودی کا مقام سالک کو پیش آتا ہے؛ لیکن یہ مرحلہٴ اول ہوتا ہے، انتہائے سفر نہیں ہے، اس مقام میں سالک نے محبت کا جام پیا ہے، جس نے اس کو مدہوش کردیا ہے، اس کو نہ اپنی خبر ہے نہ دوسروں کی۔ جب تک بے ہوش رہے گا اس کو محبوبِ حقیقی کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔ اس مقام کی مدہوشی اتنی پرکیف اور رنگین ہے کہ اس سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔
          اس مقام کے بعد کامل ہوش اور صحو کا مقام آتا ہے، اس کا نام مقامِ عبدیت ہے۔ یہ انکساری اور خاک ساری کا مقام ہے، اس مقام پر بندہ بندہ ہے اور خالق خالق۔“
          مجدد صاحب فرماتے ہیں: ”ہمہ اوست کہ معنی ”ہمہ از اوست“ کیے ہیں، یعنی ظہور وشہود جو کچھ ہے اسی سے ہے۔
          حضرت مجدد کی تعلیم اور ان کی فکرکے یہ چند نمونے سامنے رکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت والا نے کس بصیرت اور گہرائی کے ساتھ صحیح تصوف کو پیش کیا، وہ یقینا ایک مجدد وقت، ایک دانائے روزگار حکیم، ایک بلندپایہ عالم دین اور ایک بیدار قلب روحانی پیشوا تھے۔ انھوں نے ایک زبردست سماجی انقلاب کی آب یاری کی، ایک پورے عہد کو بدل ڈالا اور ایک نئے عہد اوراس کی لطافتوں اور امنگوں کو پیدا کیا۔ حضرت مجدد الف ثانی کا تصورِ تصوف آج بھی ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے، اس تصور کو عام کیا جائے تو محبتِ الٰہی کی خوشبو سے پورا سماج معطر ہوسکتا ہے۔
***





اصلاحِ باطن
نحمدہ ونستعینہ، ونستغفرہ، ونومن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور انفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھدأن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی ، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی، بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا ، وَالْآخِرَةُ خَیْْرٌ وَأَبْقَی، إِنَّ ہَذَا لَفِیْ الصُّحُفِ الْأُولَی، صُحُفِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی ﴾․ (سورة الأعلی، آیت:19-14)

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ألا إن فی الجسد مضغة، إذا صلحت صلح الجد کلہ، وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وھی القلب․ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الإیمان، باب فضل من استبر أ لدینہ، رقم الحدیث:52)

صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبی الکریم، ونحن علی ذلک لمن الشاھدین والشاکرین، والحمدلله رب العالمین․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو!

آپ حضرات کے سامنے قرآن کریم کی جو آیت تلاوت کی ہے، اس میں الله تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں:
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی﴾
تحقیق فلاح اور حقیقی کام یابی حاصل کر لی اس شخص نے جس نے اپنے باطن کو، اندرون کو روح کو گندگیوں سے پاک کرلیا اور وہ الله کو یاد کرتا ہے، الله کا ذکر کرتا ہے اور الله کی بندگی، اس کی عبادت کرتا ہے۔

یہ تین صفات اور خوبیاں جس آدمی میں ہیں، الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آدمی فلاح اور کام یابی حاصل کرنے والا ہے۔

کام یابی کا ایک مفہوم وہ ہے، جو ہمارے درمیان ہے کہ پیسے زیادہ ہوں تو آدمی کام یاب ہے، جائیداد زیادہ ہو، وہ آدمی کام یاب ہے، عزت اور منصب بڑا حاصل ہو، تو وہ آدمی کا م یاب ہے، شادی ہو جائے، بچے ہو جائیں تو وہ آدمی کام یاب ہے، فلاں ، فلاں… یہ سارے معیارات وہ ہیں جو ہم نے آپس میں قائم کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے معیارات ہم خود مشاہدہ کرتے ہیں، ہم خود صبح شام دیکھتے ہیں کہ وہ حقیقی کام یابی نہیں، پیسے کا زیادہ ہونا یہ کام یابی نہیں، قارون کے پاس بھی بہت مال تھا، آثارواحادیث میں ہے کہ ساٹھ خچروں پر اس کے خزانے کی چابیاں جاتی تھیں، تو خزانہ کتنا بڑا ہو گا؟ (تاریخ الطبری، تاریخ ماقبل الھجرة، ذکر أمرقارون263/1 البدایہ والنہایہ، ماقبل الھجرة النبوة، قصہ قارون مع موسی356/1)

لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ وہ نامراد ہوا، وہ نا کام ہوا۔ وہ نامراد تھا، وہ ناکام تھا۔عزت ومنصب میں کام یابی نہیں۔ نمرود بہت بڑا بادشاہ تھا۔ فرعون بہت بڑا بادشاہ تھا، لیکن اس کی بادشاہت اسے کام یاب نہ کر سکی۔ ان لوگوں کا منصب انہیں کا م یاب نہ کر سکا۔ہم اپنے ارد گرد دیکھیں کہ آج ایک آدمی کے پاس پیسہ ہے او رکل اس کے پاس نہیں۔ آج کام یاب ہے، کل ناکام ہے، آج عہدہ، منصب ہے اور کل وہ عہدہ اور منصب اس کے پاس نہیں، اسی طرح اور بہت سی مثالیں ہیں۔

یہ ساری چیزیں عارضی ہیں اور عارضی ہونے کے ساتھ ساتھ الله تعالیٰ نے ان میں چین، سکون اور اطمینان نہیں رکھا۔ دنیا میں ایک ادارہ ہے، جو دنیا میں معیار زندگی کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا ملک او رکہاں کے رہنے والے کی زندگی کا معیار سب سے اونچا ہے۔ کہاں کے رہنے والوں کی آمدنی سب سے زیادہ ہے، اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

چناں چہ”ناروے“کے بارے میں اس عالمی ادارے کا فیصلہ ہے کہ وہاں معیار زندگی سب سے بلند ہے، امریکا سے بھی بلند، برطانیہ سے بھی بلند، جاپان سے بھی بلند ہے․․․ اور وہاں کی آمدنی سب سے زیادہ ہے۔ انھیں کا ایک اور عالمی ادارہ بھی ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ سب سے زیادہ خودکشی بھی ناروے میں ہے۔ سب سے زیادہ پاگل اور مجنون بھی ناروے میں ہیں، سب سے زیادہ طلاق کی شرح بھی ناروے میں ہے۔

اگر معیار زندگی اتنا بلند ہے اور آمدنی اتنی زیادہ ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی مقابل نہیں، تو عقل کیا کہتی ہے؟ چین ہونا چاہیے، سکون ہونا چاہیے، راحت ہونی چاہیے، اطمینان ہونا چاہیے۔

لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ الله تعالیٰ نے ان چیزوں میں راحت ، چین، سکون نہیں رکھا۔

﴿وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی﴾ جو آدمی اپنے باطن کو گندگیوں سے پاک کرلیتا ہے او راس کے بعد وہ الله الله کہتا ہے تو اسی میں اطمینان ہے۔ لہٰذا، اطمینان الله تعالیٰ نے اپنے ذکر میں رکھا ہے۔ اطمینان الله تعالیٰ نے اپنی طرف رجوع، اپنی طرف انابت میں رکھا ہے۔ اطمینان اور فلاح الله تعالیٰ نے اپنے نام میں رکھی ہے۔ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن کریم میں اور احادیث میں جہاں ”فوز“ اور ”فلاح“ استعمال ہوا ہے، اس کا ترجمہ وہ نہیں جو ہمارے ہاں کام یابی کا لیا جاتا ہے، بلکہ اس کا ترجمہ ہے: ایسی کام یابی جس کے بعد پھر کبھی ناکامی نہ ہو۔ چنانچہ الله تعالیٰ کے ذکر میں اطمینان ہے۔ مال میں، دولت میں، اطمینان نہیں۔

الله تعالیٰ کا ذکر آپ کسی بھی حال میں کرسکتے ہیں، چلتے ہوئے، لیٹے ہوئے، بیٹھے ہوئے، گاڑ ی میں ، دکان میں، گھر میں ،مسجد میں، سب جگہ۔ الله کے ذکر میں آپ کو سکون اور اطمینان ملے گا، یقینا ملے گا، طے شدہ ہے۔ اگر محنت کرکے آدمی اپنے باطن کو پاک اور صاف کرلے تو یہ سکون مل جائے گا۔

آپ جانتے ہیں کہ اگر گندے برتن میں پانی پئیں تو پانی گندا ہو جائے گا، گندے برتن میں دودھ ڈالیں، گندے برتن میں آپ اور چیزیں ڈالیں، تو وہ سب چیزیں خراب ہو جائیں گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ برتن کو آپ بہت اچھی طرح صاف ، شفاف، پاک کرکے اس میں پانی پئیں۔ کئی مرتبہ آپ کو تجربہ بھی ہوا ہو گا کہ صاف شفاف برتن میں آپ پانی پیتے ہیں تو پیاس بجھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو اطمینان ہوتا ہے او راگر میلے کچیلے برتن میں پانی پیتے ہیں، تو پانی توپی لیتے ہیں، لیکن اطمینان نہیں ہوتا اور طبیعت میں تکدر اور طبیعت پر اُلجھن آتی ہے۔

اپنے اندر کو پاک کرنا، اس کا تزکیہ کرنا․․․ اس کے لیے باقاعدہ آدمی پہلے تو یہ جانے کہ اندر کی بیماری کیا ہے؟ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ آپ اس کو جانتے نہیں کہ باطن کی بیماری کیا ہے؟

چناں چہ ریا ایک بیماری ہے، جو اند رکی بیماری ہے، کِبر بیماری ہے، اندر کی بیماری ہے اور لوگوں سے اپنی تعریف سننے کی خواہش کرنا یعنی ”سُمعہ“ یہ بیماری ہے، عجب کی بیماری ہے کہ میرے اندر یہ جذبہ پیدا ہو کہ نماز کے بعد لوگ مجھ سے کہیں کہ واہ، مولانا واہ! آج آپ نے کیا بیان کیا ہے! یہ اندر کی بیماری ہے۔

ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ منبر پر بیان فرمارہے ہیں۔ بیان کے دوران اچانک منبر سے اتر گئے اور نیچے بیٹھ گئے۔ صحابہ نے پوچھا، اے امیر المومنین، عجیب بات ہے، آپ تو بیان فرمارہے تھے اور بیان کے دوران فوراً آپ نیچے آکے بیٹھ گئے۔ فرمایا کہ میرے دل میں تعلِّی پیدا ہوئی یعنی میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں ان سے بڑا ہوں، تو فوراً میں نے اس کی اصلاح کی کہ نہیں ،میں ان سے بڑا نہیں ہوں، میں ان کے برابر ہوں۔ چناں چہ فوراً اسی مجمع میں بیٹھ گئے۔ اب آپ بتائیے کہ کیا اس بیماری کو کوئی دیکھ سکتا ہے؟ یہ نظر آنے والی بیماری نہیں ہے۔

میں نماز پڑھ رہا ہوں کہ لوگ مجھے نمازی کہیں، میں دعا مانگ رہا ہوں اس جذبے سے کہ لوگ مجھے کہیں کہ ماشاء الله دعائیں مانگ رہا ہے۔ یہ سب ریا ہے۔

اسی طرح کبر ہے، غرور ہے۔ غرور اورکبر گناہ کبیرہ ہیں۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کبریائی صرف میرے لیے ہے۔ میرے سوا کسی اور کے لیے کبریائی نہیں ہے۔ کبریائی میری چادر ہے۔ اگر کوئی کبر کرتا ہے، تو وہ میری ردائے کبریائی کو پھاڑ رہا ہے، میں اس کو گوارہ نہیں کرتا۔

آپ جانتے ہیں کہ شیطان کا نام ”عزازیل“ ہے۔ یہ شیطان بننے سے پہلے الله تعالیٰ کا بہت مقرب تھا۔ یہ سارے فرشتوں کا سردار تھا۔ (الکشف والبیان، سورة الکہف،175/6) لیکن․․․ تکبر عزازیل را خاک کرد․․․ تکبر نے شیطان کو برباد کردیا۔ اس کی ساری خوبیاں ختم کردیں۔

اسی طرح سمعہ اندر کی بیماری ہے۔ اسی طرح بخل اندر کی بیماری ہے کہ آدمی کے پاس پیسہ ہے۔ پیسے، مال، دولت یہ جمع کرنے کی چیز نہیں، یہ تو خرچ کرنے کی چیز ہے۔ جتنا خرچ کروگے، الله تعالیٰ اتنا خوش ہوں گے اور جب الله تعالیٰ خوش ہوں گے تو پیسہ کم ہو گا یا زیادہ ہو گا؟

بہ بہت بڑی بھول ہے، بہت بڑی غلطی ہے کہ میں پیسہ خرچ کروں گا تو پیسہ کم ہو جائے گا۔ ایسا نہیں، بلکہ جتنا خرچ کرے گا، اتنا الله تعالیٰ اس کو اور عطا کرے گا، نیز انسان خرچ کرنے میں خود کو ریا سے، سمعہ سے بچائے۔ خاموشی سے خرچ کرے ۔

میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے جب یہ دنیا بنائی تو سب سے پہلے پانی پر ایک مٹی کا بلبلہ پیدا کیا اور اس کو کھینچا طولاً بھی او رعرضاً بھی۔ جب یہ زمین کی شکل میں پھیل گئی تو پانی کے اوپر ڈولنے لگی۔ اس کو حرکت سے روکنے کے لیے الله تعالیٰ نے اس پر پہاڑ کی کیلیں لگائیں۔ یہ پہاڑ کیلیں ہیں جو اس زمین کو توازن میں رکھے ہوئے ہیں۔

حدیث میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زمین کی حرکت روکنے کے لیے الله تعالیٰ نے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کیے۔ فرشتوں نے دیکھا تو عرض کیا کہ اے الله ! یہ تو ایسی مخلوق ہے کہ اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھی، تو کیا آپ کی مخلوقات میں اس سے بڑی بھی کوئی مخلوق ہے؟ فرمایا،ہاں، اس سے بڑی بھی مخلوق ہے، بہت بڑی، بہت زیادہ طاقت ور۔ فرشتوں نے پوچھا، وہ کیا ہے؟ فرمایا: وہ لوہا ہے۔ لوہا پہاڑوں کو کاٹ دیتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ملک، بیرون ملک، بڑے بڑے پہاڑوں کو لوہا اس طرح کاٹ دیتا ہے، جس طرح ہم کیک کاٹتے ہیں۔ اِدھربھی پہاڑ، اُدھر بھی پہاڑ․․․بیچ میں سے لوہے کے ذریعے کاٹ دیا جاتا ہے۔ سرنگیں بنائی جاتی ہیں۔ لوہے کے ذریعے اس کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ پھر پوچھا، اے الله! کیا لوہے سے بھی زیادہ طاقت ور آپ کی مخلوق ہے؟ فرمایا: ہاں! پوچھا، وہ کیا ہے؟ فرمایا، وہ آگ ہے اور وہ اتنی طاقت ور ہے کہ لوہا جتنا بھی بڑا اور سخت ہو، آگ اسے پگھلادیتی ہے۔ آپ نے لوہے کی بھٹیوں میں دیکھا ہوگا کہ لوہا وہاں آگ کے اوپر ڈالا جاتا ہے۔ پہلے تو وہ لال، سرخ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اور حرارت اور آگ بڑھاتے ہیں، تو وہ پانی بن جاتا ہے۔ آگ کے سامنے وہ لوہا پانی کی طرح بہتا ہے، حالاں کہ وہ لوہا پانی نہیں، لیکن اس آگ نے لوہے کو پانی بنا دیا۔

پھر فرشتوں نے پوچھا کہ اے الله! آگ سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پوچھا، وہ کیا ہے؟ فرمایا: وہ ہے پانی۔ کتنی بڑی آگ ہو، اس پر اگر پانی برس جائے، اس پر پانی ڈال دیا جائے، تو آگ بجھ جاتی ہے۔ پھر پوچھا کہ اے الله! پانی سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں۔ اس پانی سے زیادہ طاقت وَر ہوا ہے کہ کتنا ہی پانی ہو، آپ دیکھتے ہیں، اوپر بادل ہیں اور ان بادلوں میں بلکہ بدلیوں میں اتنا پانی ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی جگہ برسنا شروع کر دیں تو بعض دفعہ شہروں کے شہر ڈوب جاتے ہیں، سیلاب آجاتا ہے، علاقوں کے علاقے تباہ ہو جاتے ہیں۔

لیکن ہوا ان بادلوں کو اڑالے جاتی ہے۔ ان بادلوں کی ہوا کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ پھر پوچھا کہ اے الله تعالیٰ! اس ہوا سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں، اس ہوا سے زیادہ طاقت ور ایک مومن کا دائیں ہاتھ سے اس طرح صدقہ کرنا ہے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ یہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔

”عن أنس بن مالک رضی الله عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: لما خلق الله الأرض جعلت تمید، فخلق الجبال فعاد بھا علیھا فاستقرت، فعجبت الملائکة من شدة الجبال، قالوا: یارب ھل من خلقک شیء أشد من الجبال؟ قال: نعم، الحدید، قالوا: یارب، فھل من خلقک شیء أشد من الحدید؟ قال: نعم، النار، فقالوا: یارب، فھل من خلقک شيء أشد من النار؟ قال: نعم الماء، قالوا: یارب فھل من خلقک شیء أشد من الماء؟ قال: نعم، الریح، قالوا یارب، فھل من خلقک شیء أشد من الریح؟ قال: نعم، ابن آدم تصدق بصدقة یمینہ یخفیھا من شمالہ․“ (سنن الترمذی، أبواب تفسیر القرآن، رقم الحدیث:3369)

یہ وہی اخلاص ہے کہ الله کے لیے ہو۔ آپ الله کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں۔ آپ صدقہ دے رہے ہیں۔ آپ خیرات کر رہے ہیں، لیکن اس جذبے سے کہ الله تعالیٰ راضی ہو جائے، مخلوق کو پتہ نہ چلے، لوگوں کو پتہ نہ چلے، بالکل خاموشی ہے۔ اس کا اجر الله تعالیٰ کے ہاں بہت زیادہ ہے۔

یہ خیال کرنا کہ میں خرچ کروں گا تو میرے پیسے کم ہو جائیں گے! ایسا نہیں ہے، بلکہ آپ الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے تو الله تعالیٰ خوش ہوں گے او رجب الله تعالیٰ خوش ہوں گے تو سب سے پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے اندر بہت بڑی طمانینت پیدا ہوگئی ہے۔ آپ کے اندر اطمینان اور خوشی پیدا ہو گی۔

کسی غریب کو، کسی یتیم کو، کسی بیوہ کو، کسی ضرورت مند کو آپ جب اس پر خرچ کریں گے تو آپ کے اندر ایک طاقت آئے گی ،ایک قوت آئے گی اورآپ کے اندر خوشی پیدا ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ الله تعالیٰ جب راضی ہوں گے تو آپ کے لیے فتوحات کے دروازے کھول دیں گے، کبھی کم نہیں ہوں گے۔

میں عرض کر رہاتھا کہ یہ اندر کے معاملات ہیں، اندر کی چیزیں ہیں کہ جب ان کو آدمی ایک ایک نشان لگائے اور فکر کرے کہ کہیں میرے اندر کبر تو نہیں؟ اگر ہے تو اس کی اصلاح کی کوشش کرے، اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے، ریا تو نہیں ہے میرے اندر؟ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔

اور اسی طریقے سے سمعہ ہے، بخل ہے، بدنظری ہے، جبن اور بزدلی ہے۔ یہ سب اندر کی بیماریاں ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ اورجب الله تعالیٰ کی طرف رجوع کرکے اور الله تعالیٰ کی طرف انابت اختیارکرکے وہ اس کوشش میں لگتا ہے تو الله تعالیٰ اس کے لیے آسان فرماتا ہے ۔

اس کا سب سے مؤثر ذریعہ اچھی صحبت اختیار کرنا ہے۔ جب آدمی کی صحبت اچھی ہوتی ہے تو وہ اچھا ہو جاتا ہے او رجب آدمی کی صحبت خراب ہو گی تو وہ خراب ہو گا۔ یہ صحبت ہر ہر چیز کی ہے، یہ پتھر کی بھی ہے، یہ مٹی کی بھی ہے، یہ لکڑی کی بھی ہے، یہ سونے چاندی کی بھی ہے، یہ گھر کی بھی ہے، یہ بیوی بچوں کی بھی ہے، یہ دوستوں ، اچھے برے دوستوں کی بھی ہے۔

آج ہماری صحبت خراب ہے۔ ہم مسجد میں ہیں، الله کا گھر ہے، یہ صحبت ہے، ہم یہاں اس وقت بیٹھے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ الله کا گھر فرشتوں سے بھرا ہوا ہے تو ہمیں فرشتوں کی صحبت حاصل ہو رہی ہے یا نہیں؟

اب یہ صحبت جتنی بڑھے گی تو فرشتوں والی صفات ہمارے اندر آئیں گی۔ اس طرح بازار کی صحبت ہے، ایک آدمی بازار میں ہے، بعض لوگ تو کام سے بازار میں ہیں اور بعض لوگ بغیر کام کے بازار میں ہیں کوئی کام نہیں بیٹھے ہوئے ہیں، ہوٹل میں بیٹھے ہوئے ہیں ،راستے میں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ بتائیے کہ اس سے گناہ گارہوں گے ،نہیں ہوں گے؟ طے شدہ بات ہے۔

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہترین جگہیں روئے ارض پر الله کے گھر ہیں یعنی مساجد ہیں۔ اور سب سے بدترین جگہیں بازار ہیں۔(عن أبی ھریرة رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: أحب البلاد إلی الله مساجدھا، وأبغض البلاد إلی الله أسواقھا)(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد، رقم الحدیث:288)

بازار میں کان بھی خراب ہو گا ، آنکھ بھی خراب ہو گی ، زبان بھی خراب ہو گی، دل بھی خراب ہو گا، دماغ بھی خراب ہو گا، ہر چیز خراب ہو گی۔ جو لوگ ضرورت سے بازار میں بیٹھتے ہیں، مثلاً کسی کی دکان ہے، کسی کی تجارت ہے ،وہ بھی اپنی حفاظت کا اہتمام کریں۔ وہ بھی محفوظ رہیں۔ کوشش کریں کہ بدنظری سے بچیں۔ کوشش کریں کہ کانوں کو گندگی سے بچائیں۔ کوشش کریں کہ زبان کو بری باتوں سے بچائیں۔ کوشش کریں کہ دکان کے ماحول کو بری صحبتوں سے بچائیں۔ غلط لوگ اندر بیٹھیں گے تو غلط باتیں شروع ہوں گی۔

یہ فکر کا کام ہے۔ اور یہ کام ابھی سے، اپنی ذات سے شروع کریں۔ اپنے گھر میں اس کا اہتمام کریں۔ اپنے ساتھیوں میں اس کا اہتمام کریں۔ ہم اچھی صحبت میں رہیں۔ کتابوں کے ساتھ، قرآن کریم ساتھ، حدیث کے ساتھ، سب چیزوں کے ساتھ ان کا ارتباط ہو۔

آپ قرآن پڑھ رہے ہیں تو کس کی صحبت میں ہیں؟ قرآن کی صحبت میں۔ آپ حدیث پڑھ رہے ہیں تو کس کی صحبت میں ہیں؟ حدیث کی صحبت میں۔ فقہ کی کتابیں پڑھ رہے ہیں تو فقہ کی صحبت میں۔

لیکن ایک آدمی جو بازار میں ہے، محلے میں ہے، دکان میں ہے، دفتر میں ہے وہ بُری صحبت میں ہے۔

اسی طرح دعوت وتبلیغ کے نام سے جو کام ہو رہا ہے اس میں ہمیں اچھی صحبت مل رہی ہے۔چناں چہ تین دن ،دس دن، چالیس دن، چار مہینے، جب انسان اس راستے میں لگتا ہے تو ان تمام بری صحبتوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے او رہمیں ایک نیک اوربہترین صحبت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اب نماز پڑھنے کو جی چاہ رہا ہے، اب صحبت اچھی ہو گئی، قرآن پڑھنے کوجی چاہ رہا ہے۔ صحبت اچھی ہو گی تو ذکرکرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ صحبت اچھی ہو گی تو باتیں بھی منھ سے اچھی نکل رہی ہیں۔ بری باتیں نہیں نکلتیں۔

اس کا اہتمام کریں کہ ہم اپنی صحبت جتنی بہتر سے بہتر کر سکتے ہیں ، کریں اور اس کے لیے اہل الله کی صحبت میں جائیں ،علماء کی صحبت میں جائیں۔

ان علما وصلحا کے پا س تھوڑی دیر بیٹھنا فائدے سے خالی ہے ہی نہیں۔ چاہے کوئی بات نہ کریں۔ خاموش بیٹھے رہیں۔ آپ وہاں دس منٹ، آدھا گھنٹہ، گھنٹہ بیٹھ کے آجائیں گے۔ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے اندر ایک تبدیلی آئی ہے۔ آپ کے اندر ایک فرق آیا ہے۔ آپ کے اندر ایک بہتری آئی ہے، الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم، وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم، وصلی الله تعالی علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ اجمعین، برحمتک یا أرحم الراحمین․




اہل تصوّف کی دینی جدوجہد
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی


دنیا میں بہت سی چیزیں بعض خاص اسباب کی بنا پر بغیر علمی تنقید وتحقیق کے تسلیم کر لی جاتی ہیں اور ان کو ایسی شہرت ومقبولیت حاصل ہو جاتی ہے کہ اگرچہ ان کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوتی ، مگر خواص بھی ان کو زبان وقلم سے بے تکلف دہرانے لگتے ہیں ۔

انہیں مشہور اور بے اصل چیزوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ تصوف تعطل وبے عملی، حالات سے شکست خوردگی اور میدان جدوجہد سے فرار کا نام ہے۔ لیکن عقلی ونفسیاتی طور پر بھی اور عملی اور تاریخی حیثیت سے بھی ہمیں اس دعوے کے خلاف مسلسل طریقہ پر داخلی وخارجی شہادتیں ملتی ہیں۔

” سیرت سید احمد شہید  میں تزکیہ واصلاح باطن کے عنوان کے ماتحت خاکسار راقم نے حسب ذیل الفاظ لکھے تھے، جس میں آج بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور اس حقیقت پر پہلے سے زیادہ یقین پیدا ہو گیا ہے ۔

”یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سر فروشی، وجاں بازی ، جہاد وقربانی اورتجدید وانقلاب وفتح وتسخیر کے لیے جس روحانی وقلبی قوت، جس وجاہت وشخصیت، جس اخلاق وللٰہیت ، جس جذب وکشش اور جس حوصلہ وہمت کی ضرورت ہے ، وہ بسااوقات روحانی ترقی ، صفائی باطن ، تہذیب نفس ، ریاضت وعبادت کے بغیر نہیں پیدا ہوتی، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ جنہوں نے اسلام میں مجددانہ کارنامے انجام دیے ہیں ، ان میں سے اکثر افراد روحانی حیثیت سے بلند مقام رکھتے تھے ، ان آخری صدیوں پر نظر ڈالیے ، امیر عبدالقادر الجزائری، (مجاہد جزائر) ، محمد احمد السوڈانی ( مہدی سوڈانی)، سید احمد شریف السنوسی ( امام سنوسی) کو آپ اس میدان کا مرد پائیں گے ، حضرت سید احمد ایک مجاہد قائد کے علاوہ اور اس سے پہلے ایک عزیز القدرروحانی پیشوا اور بے مثل شیخ الطریقت تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ مجاہدات وریاضات ، تزکیہ نفس اور قرب الہیٰ سے عشق الہٰی اور جذب وشوق کا جو مرتبہ حاصل ہوتا ہے ، اس میں ہر رونگٹے سے یہی آواز آتی ہے #
ہمارے پاس ہے کیا جو فدا کریں تجھ پر
مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں
اس لیے روحانی ترقی او رکمال باطنی کا آخری لازمی نتیجہ شوق شہادت ہے او رمجاہدے کی تکمیل جہا دہے ۔ ( سیرت سید احمد شہید)

نفسیاتی پہلو سے غور کیجیے گا تو معلوم ہو گا کہ یقین اور محبت ہی وہ شہپر ہیں ، جن سے جہاد وجد وجہد کا شہباز پرواز کرتا ہے ، مرغوبات نفسانی، عادات ، مالوفات ، مادی مصالح ومنافع ، اغراض وخواہشات کی پستیوں سے وہی شخص بلند ہو سکتا ہے اور ﴿لکنہ أخلد إلی الارض واتبع ھواہ﴾ کے دام ہم رنگ زمین سے وہی شخص بچ سکتا ہے ، جس میں کسی حقیقت کے یقین اور کسی مقصد کے عشق نے پارہ کی ” تقدیر سیمابی“ اور بجلیوں کی بیتابی پیدا کر دی ہو۔

انسانی زندگی کا طویل ترین تجربہ ہے کہ محض معلومات وتحقیقات اورمجرد قوانین وضوابط اور صرف نظم وضبط سرفروشی وجانبازی بلکہ سہل ترایثاروقربانی کی طاقت وآمادگی پیدا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہے ، اس کے لیے اس سے کہیں زیادہ گہرے اور طاقتور تعلق اور ایک ایسی روحانی لالچ اور غیر مادی فائدے کے یقین کی ضرورت ہے کہ اس کے مقابلے میں زندگی باردوش معلوم ہونے لگے، کسی ایسے ہی موقع او رحال میں کہنے والے نے کہا تھا #
جان کی قیمت دیار عشق میں ہے کوئے دوست
اس نویدِ جاں فزا سے سر وبال دوش ہے
اس لیے کم سے کم اسلام کی تاریخ میں ہر مجاہدانہ تحریک کے سرے پر ایک ایسی شخصیت نظر آتی ہے جس نے اپنے حلقہ مجاہدین میں یقین ومحبت کی یہی روح پھونک دی تھی اور اپنے یقین ومحبت کو سیکڑوں اور ہزاروں انسانوں تک منتقل کرکے ان کے لیے تن آسانی اور راحت طلبی کی زندگی دشوار اور پامردی وشہادت کی موت آسان اور خوش گوار بنا دی تھی اور ان کے لیے جینا اتناہی مشکل ہو گیا تھا جتنا ، دوسروں کے لیے مرنا مشکل تھا یہی، سر حلقہ وہ امام وقت ہے جس کے متعلق اقبال مرحوم نے کہا ہے #
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے
موت کے آئینہ میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی اوربھی تیرے لیے دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
معمولی او رمعتدل حالات میں قوموں کی قیادت کرنے والے ، فتح ونصرت کی حالت میں لشکروں کو لڑانے والے ہر زمانے میں ہوتے ہیں ، اس کے لیے کسی غیر معمولی یقین وشخصیت کی ضرورت نہیں ، لیکن مایوس کن حالات اور قومی جان کنی کی کیفیات میں صرف وہی مرد میدان حالات سے کش مکش کی طاقت رکھتے ہیں جو اپنے خصوصی تعلق بالله اور قوت ایمانی وروحانی کی وجہ سے خاص یقین وکیفیت عشق کے مالک ہوں، چناں چہ جب مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے تاریک وقفے آئے کہ ظاہری علم وحواس وقوت مقابلہ نے جواب دے دیا اور حالات کی تبدیلی امر محال معلوم ہونے لگی تو کوئی صاحب یقین وصاحب عشق میدان میں آیا، جس نے اپنی ”جرات رندانہ“ اور ”کیفیت عاشقانہ “ سے زمانے کا بہتا ہوا دھارا بدل دیا اور الله تعالیٰ نے ﴿یخرج الحی من المیت﴾ اور ﴿یحیی الارض بعد موتھا﴾ کا منظر دکھایا۔

تاتاریوں نے جب تمام عالم اسلام کو پامال کرکے رکھ دیا، جلال الدین خوارزم شاہ کی واحد اسلامی سلطنت اور عباسی خلافت کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہوگیا ، تو تمام عالم اسلام پریاس ومردنی چھا گئی ، تاتاریوں کی شکست ناممکن الوقوع چیز سمجھی جانے لگے او ریہ مثال زبان وادب کا جزو بن گئی کہ ”اذا قیل لک ان التتر انھز موالاتصدق“ ( اگر تم سے کوئی کہے کہ تاتاریوں نے شکست کھائی تو کبھی یقین نہ کرنا) اس وقت کچھ صاحب یقین اور صاحب قلوب مردان خدا تھے ، جومایوس نہیں ہوئے او راپنے کام میں لگے رہے، یہاں تک کہ تاتاری سلاطین کو مسلمان کرکے صنم خانہ سے کعبہ کے لیے پاسباں مہیا کر دیے۔

ہندوستان میں اکبر کے دور میں ساری سلطنت کا رخ الحاد ولا دینیت کی طرف ہو گیا ، ہندوستان کا عظیم ترین بادشاہ ایک وسیع وطاقت ور سلطنت کے پورے وسائل وذخائر کے ساتھ اسلام کا امتیازی رنگ مٹانا چاہتا تھا ، اس کو اپنے وقت کے لائق ترین وذکی ترین افراد اس مقصد کی تکمیل کے لیے حاصل تھے ، سلطنت میں ضعف وپیرانہ سالی کے کوئی آثار ظاہر نہ تھے کہ کسی فوجی انقلاب کی امید کی جاسکے، علم وظاہری قیاسات کسی خوش گوار تبدیلی کے امکان کی تائید نہیں کرتے تھے ، اس وقت ایک درویش بے نوانے تن تنہا اس انقلاب کا بیڑا اٹھایا او راپنے یقین وایمان ، عزم وتوکل اور روحانیت وللہیت سے سلطنت کے اندر ایک ایسا اندرونی انقلاب شروع کیا کہ سلطنت مغلیہ کا ہر جانشین اپنے پیشرو سے بہتر ہونے لگا، یہاں تک کہ کہ اکبر کے تخت سلطنت پر بالآخر محی الدین اورنگ زیب نظر آیا، اس انقلاب کے بانی، امام طریقت حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی تھے۔

انیسویں صدی عیسوی میں جب عالم اسلام پر فرنگی” تاتاریوں“ یا مجاہدین صلیب کی یورش ہوئی تو ان کے مقابلہ میں عالم اسلام کے ہر گوشہ میں جو مردان کار سر سے کفن باندھ کر میدان میں آئے ، وہ اکثر وبیشتر شیوخ طریقت اور اصحاب سلسلہ بزرگ تھے ، جن کے تزکیہ نفس اور سلوک راہ نبوت نے ان میں دین کی حمیت ، کفر کی نفرت، دنیا کی حقارت اور شہادت کی موت کی قیمت دوسروں سے زیادہ پیدا کر دی تھی ، الجزائر (مغرب) میں امیر عبدالقادر نے فرانسیسیوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور 1832ء سے 1847ء تک نہ خود چین سے بیٹھے، نہ فرانسیسیوں کو چین سے بیٹھنے دیا، مغربی مؤرخین نے ان کی شجاعت، عدل وانصاف، نرمی ومہربانی اور علمی قابلیت کی تعریف کی ہے۔

یہ مجاہد عملاً وذوقاً صوفی وشیخ طریقت تھا او رامیر شکیب ارسلان نے ان الفاظ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ”وکان المرحوم الامیر عبدالقادر متضلعا من العلم والأدب، سامی الفکر، راسخ القدم فی التصوف لا یکتفی بہ نظرا احتی یمارسہ عمل،ا ولا یحن الیہ شوقاً، حتی یعرفہ ذوقا، ولہ فی التصوف کتاب سماہ (المواقف) فھو فی ھذا المشرب من الأفداد الأفذاذ، ربما لایوجد نظیرہ فی المتاخرین“․

امیر عبدالقادر پورے عالم وادیب، عالی دماغ اور بلند پایہ صوفی تھے ، صرف نظری طور پر نہیں، بلکہ عملاً اورذوقا بھی صوفی تھے، تصوف میں ان کی ایک کتاب ( المواقف) ہے، وہ اس سلسلہ کے یکتائے روز گار لوگوں میں تھے اور ممکن ہے کہ متاخرین میں ان کی نظیر دستیاب نہ ہو سکے۔

دمشق کے زمانہٴ قیام کے معمولات واوقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وکان کل یوم یقوم الفجر، ویصلی الصبح فی مسجد قریب من دارہ، فی محلة العمارة، لا یتخلف عن ذلک، إلا لمرض، وکان یتھجد اللیل، ویمارس فی رمضان الریاضة علی طریقة الصوفیة، ومازال مثالا للبر والتقوی والأخلاق الفاضلة الی ان توفی رحمہ الله“․

روزانہ فجر کو اٹھتے، صبح کی نماز اپنے گھر کے قریب کی مسجد میں، جو محلہ العمارہ میں واقع ہے، پڑھتے، سوائے بیماری کی حالت کے کبھی اس میں ناغہ نہ ہوتا، تہجد کے عادی تھے اور رمضان میں حضرات صوفیہ کے طریقہ پر ریاضت کرتے ، برابر سلوک وتقوی اور اخلاق فاضلانہ پر قائم رہتے ہوئے1883ء میں انتقال کیا۔

1813ء میں جب طاغستان پر روسیوں کا تسلط ہوا تو ان کا مقابلہ کرنے والے نقش بندی شیوخ تھے،جنہوں نے علم جہاد بلند کیا اور اس کا مطالبہ اور جدوجہد کی کہ معاملات ومقدمات شریعت کے مطابق فیصل ہوں اور قوم کی جاہلی عادات کو ترک کر دیا جائے۔ امیر شکیب ارسلان لکھتے ہیں:۔

” وتولی کبر الثورة علماؤھم، وشیوخ الطریقة النقشبندیة المنتشرة ھناک، وکانھم سبقوا سائر المسلمین الی معرفة کون ضررھم ھو من امرائھم الذین اکثرھم یبیعون حقوق الامة بلقب ملک أوأمیر، وتبؤکرسی وسریر، ورفع علم کاذب، ولذة فارغة باعطاء أوسمة ومراتب، فثاروا منذذلک الوقت علی الامراء، وعلی الروسیة حامیتھم، وطلبوا أن تکون المعاملات وفقا لاصول الشریعة، للعادات القدیمة الباقیة من جاھلیة أولئک الأقوام، وکان زعیم تلک الحرکة غازی محمد، الذی یلقبہ الروس بقاضی ملا، وکان من العلماء المتبحرین فی العلوم العربیة، ولہ تالیف فی وجوب نبذ تلک العادات القدیمة المخالفة للشرع، إسمہ اقامة البرھان علیٰ ارتداد عرفاء طاغستان)“․

اس جہاد کے علم بردار طاغستان کے علماء اور طریقہٴ نقش بندیہ کے (جوطاغستان میں پھیلاہو اہے) شیوخ تھے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس حقیقت کو عام مسلمانوں سے پہلے سمجھ لیا تھا کہ اصل نقصان حکام سے پہنچتا ہے ، جو خطابات ، عہد واقتدار، جھوٹی قیادت وسرداری، عیش ولذت اور تمغوں اور مرتبوں کی لالچ میں قوم فروشی کا ارتکاب کرتے ہیں ، یہ سمجھ کر انہوں نے ملکی حکام او ران کے حامی روسیو ں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اس کا مطالبہ کیا کہ معاملات کا فیصلہ شریعت مطہرہ کے مطابق ہو نہ کہ قوم کے قدیم جاہلی عادات کے، اس تحریک کے قائد غازی محمد تھے،جن کو روسی ”غازی ملا“ کے لقب سے یاد کرتے ہیں، وہ علوم عربیہ میں بلند پایہ رکھتے تھے، ان جاہلی عادات کے ترک کرنے کے بارے میں ان کی ایک تصنیف ”اقامة البرھان علی ارتداد عرفاء طاغستان“ ( طاغستان کے چوہدریوں اور برادری کے سرداروں کے ارتداد کا ثبوت) ہے۔

1832ء میں غازی محمد شہید ہوئے، ان کے جانشین حمزہ بے ہوئے ، اس کے بعد شیخ شامل نے مجاہدین کی قیادت سنبھالی، جو بقول امیر شکیب ” امیر عبدالقادر الجزائری کے طرز پر تھے اور مشیخت سے امارت ہاتھ میں لی تھی۔“

شیخ شامل نے 25 بر س تک روس سے مقابلہ جاری رکھا اور مختلف معرکوں میں ان پر زبردست فتح حاصل کی ، روسی ان کی شوکت اور شجاعت سے مرعوب تھے اور چند مقامات کو چھوڑ کر سارے ملک سے بے دخل ہو گئے تھے، 1843ء اور 1844ء میں شیخ نے ان کے سارے قلعے فتح کر لیے اور بڑا جنگی سامان مال غنیمت میں حاصل کیا، اس وقت حکومت روس نے اپنی پوری توجہ طاغستان کی طرف مبذول کی، طاغستان میں جنگ کرنے کے لیے باقاعدہ دعوت دی، شعراء نے نظمیں لکھیں اور پے درپے فوجیں روانہ کی گئیں، شیخ شامل نے اس کے باوجود بھی مزید دس برس تک جنگ جاری رکھی، بالآخر1859ء میں اس مجاہد عظیم نے ہتھیار ڈالے۔

تصوف وجہاد کی جامعیت کی درخشاں مثال سیدی احمد الشریف السنوسی کی ہے ،اطالویوں نے برقہ وطرابلس کی فتح لیے پندرہ دن کا اندازہ لگایا تھا، نو آبادیوں او رآبادیوں کی جنگ کا تجربہ رکھنے والے انگریز قائدین نے اس پر تنقید کی او رکہا کہ یہ اطالویوں کی ناتجربہ کاری ہے، اس مہم میں ممکن ہے ، تین مہینے لگ جائیں ، لیکن نہ پندرہ دن نہ تین مہینے ، اس جنگ میں پورے تیرہ برس لگ گئے اور اطالوی پھر بھی اس علاقہ کو مکمل طریقہ پر سر نہ کرسکے، یہ سنوسی درویشوں اور ان کے شیخ طریقت سید احمد الشریف السنوسی کی مجاہدانہ جدوجہد تھی، جس نے اٹلی کو پندرہ سال تک اس علاقے میں قدم جمانے نہیں دیا ،امیر شکیب ارسلان نے لکھا ہے کہ سنوسیوں کے کارنامہ نے ثابت کر دیا کہ طریقہ سنوسیہ ایک پوری حکومت کا نام ہے ، بلکہ بہت سی حکومتیں بھی ان جنگی وسائل کی مالک نہیں ہیں ، جو سنوسی رکھتے ہیں ، خود سیدی احمد الشریف کے متعلق ان کے الفاظ ہیں :

”وقد لحظت منہ صبراً قل أن یوجد فی غیرہ من الرجال، و عزما شدیدا تلوح سیماء ہ علی وجہہ، فبینما ھو فی تقواہ من الأبدال، اذا ھو فی شجاعتہ من الأبطال․“

مجھے سید سنوسی میں غیر معمولی صبر وثابت قدمی دکھائی دی، جو کم لوگوں میں دیکھی، اولو العزمی ان کی ناصیہٴ اقبال سے ہویدا ہے ، ایک طرف اپنے تقوی اور عبادت کے لحاظ سے اگر وہ اپنے زمانے کے ابدال میں شمار ہونے کے قابل ہیں تو دوسری طرف شجاعت کے لحاظ سے دلیران زمانہ کی صف میں شامل ہونے کے مستحق ہیں۔

امیر شکیب نے صحرائے اعظم افریقا کی سنوسی خانقاہ کی جو تصویر کھینچی ہے ، وہ بڑی دل آویزاور سبق آموز ہے، یہ خانقاہ ”واحة الکفرہ“ میں واقع تھی اور سید احمد الشریف کے چچا اور شیخ السید المہدی کے انتظام میں تھی اور افریقا کا سب سے بڑا روحانی مرکز اور جہاد کا دار التربیت تھی ، امیر مرحوم لکھتے ہیں:

” سید مہد ی صحابہ وتابعین کے نقش قدم پر تھے ، وہ عبادت کے ساتھ بڑے عملی آدمی تھے ، ان کومعلوم تھا کہ قرآنی احکام حکومت واقتدار کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتے، اس لیے وہ اپنے برادران طریقت او رمریدین کو ہمیشہ شہسواری، نشانہ بازی کی مشق کی تاکید کرتے رہتے ، ان میں غیرت اورمستعدی کی روح پھونکتے، ان کو گھوڑدوڑ او رسپہ گری کا شوق دلاتے رہتے او رجہاد کی فضیلت واہمیت کا نقش ان کے دل پر قائم کرتے ، ان کی یہ کوششیں بار آور ہوئی اور مختلف مواقع پر اس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ، خصوصاً جنگ طرابلس میں سنوسیوں نے ثابت کر دیا کہ ان کے پاس ایسی مادی قوت ہے ، جو بڑی بڑی حکومتوں کی طاقت سے ٹکر لے سکتی ہے او ربڑی باجبروت سلطنتوں کا مقابلہ کر سکتی ہے ، صرف جنگ طرابلس ہی میں سنوسیوں کا جوش وغضب ظاہر نہیں ہوا ، بلکہ علاقہٴ کانم اور وادی ( سوڈان) میں وہ 1319ھ سے 1332ھ تک فرانسیسیوں سے برسر جنگ رہے۔

سید احمد الشریف نے مجھے بتایا کہ ان کے چچا سید مہدی کے پاس پچاس ذاتی بندوقیں تھیں ،جن کو وہ بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے ہاتھ سے صاف کرتے تھے ، اگرچہ ان کے سیکڑوں کی تعداد میں مریدین تھے ، مگر وہ اس کے روادار نہیں تھے کہ یہ کام کوئی اور کرے ، تاکہ لوگ ان کی اقتدا کریں اور جہاد کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کے سامان وذخائر کا اہتمام کریں ، جمعہ کا دن جنگی مشقوں کے لیے مخصوص تھا، گھوڑوں کی ریس ہوتی، نشانہ کی مشق ہوتی وغیرہ وغیرہ، خود سید ایک بلند جگہ پر تشریف فرما ہوتے، شہسوار دو حصوں (پارٹیوں) میں تقسیم ہو جاتے اور دوڑ شروع ہوتی ، یہ سلسلہ دن چھپے تک جاری رہتا، کبھی کبھی نشانہ مقرر ہوتا اور نشانہ بازی شروع ہوتی، اس وقت علما اور مریدین کا نمبر نشانہ بازی میں بڑا ہوتا، کیوں کہ ان کے شیخ کی ان کے لیے خاص تاکید تھی، جو لوگ گھوڑ دوڑ میں پالا جیت لیتے یا نشانہ بازی میں بازی لے جاتے ، ان کو قیمتی انعامات ملتے، تاکہ جنگی کمالات کا شوق ہو ، جمعرات کا دن دست کاری او راپنے ہاتھ سے کام کرنے کے لیے مقرر تھا ،اس دن اسباق بند ہو جاتے ،مختلف پیشوں اور صنعتوں میں لوگ مشغول ہوتے، کہیں تعمیر کا کام ہو رہا ہوتا، کہیں نجار ی، کہیں لوہاری، کہیں پارچہ بافی، کہیں وراقی کا مشغلہ نظر آتا، اس دن جو شخص نظر آتا وہ اپنے ہاتھ سے کام کرتا دکھائی دیتا ، خود سید مہدی بھی پورے مشغول رہتے ، تاکہ لوگوں کو عمل کا شوق ہو ، سید مہدی اور ان سے پہلے ان کے والد ماجد کو زراعت او ردرخت لگانے کا بڑا اہتمام تھا ، اس کا ثبوت ان کی خانقا ہیں اور ان کے خانہ باغ ہیں ، کوئی سنوسی خانقاہ ایسی نہیں ملے گی جس کے ساتھ ایک یا چند باغات نہ ہوں ، وہ نئے نئے قسم کے درخت دو ر دراز مقامات سے اپنے شہروں میں منگواتے تھے ، انہوں نے کفرہ اورجغبو میں ایسی ایسی زراعتیں او ردرخت روشناس کیے ، جن کو وہاں کوئی جانتا بھی نہ تھا ، بعض طلبا سید محمد السنوسی (بانی سلسلہٴ سنوسیہ) سے کیمیا سکھانے کی درخواست کرتے تھے تو وہ فرماتے تھے کہ کیمیا ہل کے نیچے ہے او رکبھی فرماتے کیمیا کیا ہے ؟ ہاتھ کی محنت اور پیشانی کا پسینہ۔ وہ طلباء او رمریدین کو پیشوں اورصنعتوں کا شوق دلاتے اور ایسے جملے فرماتے جن سے ان کی ہمت افزائی ہوتی اور وہ اپنے پیشوں اور صنعتوں کو حقیر نہ سمجھتے اور نہ ان میں علماء کے مقابلہ میں احساس کمتری پیدا ہوتا ، چناں چہ فرماتے تھے کہ بس تم کو حسن نیت اور فرائض کی پابندی کا فی ہے، دوسرے تم سے افضل نہیں، کبھی کبھی اپنے کو بھی پیشہ وروں میں شامل کرکے اور ان کے ساتھ کام میں شرکت کرتے ہوئے فرماتے۔ ” کیا یہ کاغذوں والے ( علماء) اور تسبیحوں والے ( ذاکرین وصوفیہ) سمجھتے ہیں کہ وہ ہم پر الله تعالیٰ کے یہاں سبقت لے جائیں گے، نہیں خدا کی قسم !وہ ہم سے کبھی سبقت نہیں لے جاسکتے۔“

ہندوستان میں تصوف وجہاد کا ایسا عجیب امتزاج واجتماع ملتا ہے جس کی نظیر دور دور ملنی مشکل ہے ، اس سلسلہ میں حضرت سید احمد شہید  کا تذکرہ تحصیل حاصل ہے کہ ان کی یہ جامعیت مسلمات میں سے ہے او رحد تواتر کو پہنچ چکی ہے، ان کے رفقائے جہاد او ران کے تربیت یافتہ اشخاص کے جوش جہاد ، شوق شہادت، محبت دینی، بغض فی الله کے واقعات قرون اولی کی یاد تازہ کرتے ہیں ، جب کبھی ان کے مفصل واقعات سامنے آئیں گے تو اندازہ ہو گا کہ یہ قرن اول کا ایک بچا ہوا ایمانی جھونکا تھا، جو تیرھویں صدی میں چلا تھا اور جس نے دکھا دیا تھا کہ ایمان، توحید اور صحیح تعلق بالله اور راہ نبوت کی تربیت وسلوک میں کتنی قوت او رکیسی تاثیر ہے اور بغیر صحیح روحانیت او راصلاح کے پختہ جوش وجذبہ او رایثار وقربانی اور جاں سپاری کی امید غلط ہے۔

سید صاحب کے جانشینوں میں مولانا سید نصیر الدین او رمولانا ولایت علی عظیم آباد ی، سید صاحب  کے پرتوتھے، ان کے جانشینوں میں مولانا یحییٰ علی اور مولانا احمد الله صادق پوری بھی دونوں حیثیتوں کے جامع تھے، ایک طرف ان کے جہاد وابتلا او رامتحان کے واقعات امام احمد بن حنبل کی یاد تازہ کرتے ہیں اور وہ کبھی گھوڑے کی پیٹھ پر، کبھی انبالہ کے پھانسی گھر میں، کبھی جزیرہ انڈمان میں محبوس نظر آتے ہیں، دوسرے وقت وہ سلسلہٴ مجددیہ وسلسلہ محمدیہ ( سید صاحب کے خصوصی سلسلہ) میں لوگوں کی تربیت وتعلیم میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔
در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق
ہر ہوسناکے نداند جام وسندان باختن
ہندوستان کی پوری اسلامی تاریخ کی مجاہدانہ جدوجہد اور قربانیاں اگر ایک پلڑے میں رکھی جائیں او راہل صادق پور کی جدوجہد اور قربانیاں دوسرے پلڑے پر تو شاید یہی پلڑا بھاری رہے۔

ان حضرات کے بعد بھی ہم کو اہل سلسلہ اور اصحاب ارشاد ، دینی جدوجہد اور جہاد فی سبیل الله کے کام سے فارغ اور گوشہ گیر نہیں نظر آتے، شاملی کے میدان میں حضرت حاجی امداد الله ، حضرت حافظ ضامن ، مولانا محمد قاسم اورمولانا رشید احمد گنگورحمة الله علیہم، انگریزوں کے خلاف صف آرا نظر آتے ہیں ، حضرت حافظ ضامن وہیں شہید ہوتے ہیں ، حاجی صاحب کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑتی ہے ، مولانا نانوتوی اور مولانا گنگوہی کو عرصہ تک گوشہ نشین اور مستور رہنا پڑتا ہے۔

پھر مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ الله (جن کو ہندوستان کے مسلمانوں نے بجا طور پر شیخ الہند کے لقب سے یاد کیا) انگریزوں کے خلاف جہاد کی تیاری کرتے ہیں اور ہندوستان کو ان کے وجود سے پاک کرکے ایک ایسی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ، جس میں مسلمانوں کا اقتدار اعلیٰ اور ان کے ہاتھ میں ملک کا زمام کارہو ، ان کی بلند ہمتی ان کو ترکی سے تعلقات قائم کرنے اور ہندوستان وافغانستان وترکی کو ایک سلسلہٴ جہاد میں منسلک کرنے پر آمادہ کرتی ہے ، ریشمی خطوط او رانورپاشا کی ملاقات، مالٹا کی اسارت ان کی عالی ہمتی او رقوت عمل کا ثبوت ہے۔

﴿من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا الله علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا﴾․

ان مسلسل تاریخی شہادتوں کی موجودگی میں یہ کہنا کہاں تک صحیح ہو گا کہ تعطل وبے عملی حالات کے مقابلہ میں سپر اندازی اور پسپائی تصوف کے لوازم میں سے ہے، اگر اس دعوے کے ثبوت میں چند متصوفین او راصحاب طریقت کی مثالیں ہیں تو اس کے خلاف بڑی تعداد میں ان ائمہ فن اورشیوخ طریقت کی مثالیں ہیں، جو اپنے مقام اور رسوخ فی الطریقہ میں بھی اول الذکر اصحاب سے بڑھے ہوئے ہیں۔

اگر تصوف اپنی صحیح روح اور سلوک راہ نبوت کے مطابق ہو اور یقین ومحبت پیدا ہونے کا باعث ہو ( جو اس کے اہم ترین مقاصد ونتائج ہیں ) تو اس سے قوت عمل، جذبہ جہاد ، عالی ہمتی ، جفاکشی اور شوق شہادت پیدا ہونا لازمی ہے، جب محبت الہی کا چشمہ دل سے ابلے گا ، تو روئیں روئیں سے یہ صدا بلند ہو گی۔
اے آنکہ زنی دم از محبت
از ہستی خویشتن پرہیز
بر خیز وبہ تیغ تیز بنشین
یا از رہ راہ دوست برخیز


اصلاح واستفادہ سے کوئی مستغنی نہیں
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

الحمدلله رب العالمین، والصلوٰة والسلام علی سید المرسلین: محمد بن عبدالله الأمین، ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین․

جن لوگوں کو کسی مدرسہ میں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے، یا وہ کسی بزرگ کی خدمت میں استفادے او رتربیت کے لیے حاضر ہوئے ہیں ،ان کو اس کا بخوبی اندازہ ہو گا کہ زمانہ خواہ کتنا ہی گزر جائے ، اس طالب علم کے لیے اپنے مدرسہ میں کھڑے ہو کر کچھ بیان کرنا یا اس جگہ جہاں وہ استفادے کے لیے حاضر ہوا کرتا تھا کچھ عرض کرنا کتنا مشکل کام ہے۔

میری مثال بالکل ایسی ہے ، اس لیے کہ میں ہمیشہ اپنے بزرگوں کی خدمت میں اور خصوصاً آخری دور میں حضرت مولانا ( شاہ وصی الله صاحب  ) کی خدمت میں محض اس لیے آتا تھا کہ کوئی ایسی بات سننے میں آئے جس سے دل میں کچھ کیفیت پیدا ہو ، یقین میں اضافہ ہو اور اس میں ایمانی حلاوت نصیب ہو اور رسم وصورت میں حقیقت پیدا ہو۔

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ کچھ لکھ پڑھ جاتے ہیں یا ان کو کچھ تصنیف وتالیف کا اتفاق ہوتا ہے او ران کی طرف کچھ نگاہیں اٹھنے لگتی ہیں کہ ہم بھی کچھ جانتے بوجھتے ہیں تو پھر اب ان کو کچھ سننے کی او رکہیں جانے کی اور کسی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں تو ان کا یہ خیال بالکل صحیح نہیں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دور میں بھی اور کسی عمر میں بھی اور کسی حالت میں بھی استفادے سے بلکہ اصلاح سے مستغنی نہیں ہوتا۔

صحابہٴ کرام کو بھی اپنے ایمان کی فکر رہتی تھی
ہمہ شما کا تو خیر ذکر کیا ہے ؟ جن کو حضور صلی الله علیہ وسلم جیسی صحبت حاصل تھی ،جس کو کیمیا اثر کہنا بھی حقیقت میں اس کی کچھ تعریف نہ ہو گی ، بس یوں سمجھیے کہ ایسی پاک صحبت، جس کے بعد کسی صحبت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور کوئی صحبت اس سے بڑھ کر مؤثر نہیں ہو سکتی ، مگر پھر بھی صحابہ کرام کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد ہمیشہ اس بات کی فکر وطلب رہتی تھی کہ اپنے ایمان میں اضافہ کریں اورہمارے قلوب میں وہی سوز وگداز اور وہ کیفیات پیدا ہوں جو صحبت نبوی میں حاصل ہوا کرتی تھیں یا کم از کم اس کا اثر یا عکس ہی نصیب ہو جائے ، چناں چہ بخاری شریف میں ایک جلیل القدر صحابی کا یہ قول امام بخاری  نے نقل کیا ہے ”إجلس بنا نؤمن ساعة“ آؤ بھائی! تھوڑی دیر بیٹھ کر ذرا ایمان کی باتیں کر لیں اورایمان کا مزہ اٹھا لیں ، ایمان کے جھونکے آئیں اور ہم اس سے لطف اندوز ہوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ  کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی تو بعد والے کیوں کر اس سے مستغنی ہو سکتے ہیں ؟ بلکہ واقعہ یہ ہے اور جن لوگوں کو تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ کہنے سننے سے آدمی کے قلب میں ضرور ایک بے کیفی سی پیدا ہو جاتی ہے او راس میں کہنا سننے سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ، سننے سے اتنی بے کیفی قلب میں نہیں پیدا ہوتی ہے جتنی کہنے سے ہوتی ہے ، اس لیے ایسے لوگوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے کہ وہ کبھی سامع ہوں، قائل نہ ہوں اورکبھی صرف مستفید ہوں، مفید نہ ہوں او رکبھی مخاطَب ہوں مخاطِب نہ ہوں اورہمہ تن گوش ہو کر کسی الله والے کی باتیں سنیں، تاکہ قلب میں ایسا کیف پیدا ہو جس سے قلب کی زندگی ہے۔

اپنے کو ہمیشہ قابل اصلاح سمجھنا چاہیے
غرض جن لوگوں کو ذرا بھی تجربہ ہے ، ان کے قلوب مردہ نہیں ہو چکے ہیں وہ خود جانتے ہیں کہ ان کو دوسروں سے ہزار درجہ زیادہ اپنے ایمان کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے او رالله والوں کی بات ادب وتعظیم کے ساتھ سننے کی ضرورت ہے ، اگر وہ سمجھیں کہ ہم مستغنی ہیں یا ہم بھرے ہوئے ہیں، توان سے زیادہ محروم وبدقسمت کوئی نہیں، بزرگانِ دین نے اس کی ایسی مثال بیان فرمائی ہے کہ اگر کوئی فقیر اس طرح صدا لگائے کہ یوں تو میرے پاس سب کچھ ہے ، ہمارا کشکول بھی بھرا ہوا ہے، پھر بھی صدا لگاتا ہوں تو بڑے سے بڑے سخی کے اندر سخاوت کا جذبہ نہیں پیدا ہو گا ، اس کے لیے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے کو محتاج ظاہر کیا جائے ، یہی حال اب یہاں بھی ہونا چاہیے ، ( یعنی الله والوں کے ہاں) ان حضرات کے یہاں اس طرح سے حاضر ہونا چاہیے کہ ہم بالکل خالی ہیں ، مفلس ومحتاج بن کر آپ کی خدمت میں کچھ لینے کے لیے آئے ہیں۔

مجھے یہاں سے بہت فائدہ ہوا
واقعہ یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد مجھے اس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ میں ایسے حضرات کی خدمت میں حاضر ی دوں او رپھر ایسے دو رمیں او رہمارے جوار میں حضرت مولانا وصی الله صاحب  سے زیادہ شفقت کرنے والا نظر میں کوئی نہیں تھا او رمناسبت کی بات تو بالکل غیر اختیاری ہے ، اس کے لیے کوئی معلوم اور متعین اصول نہیں ہیں، کیوں ہو تی ہے ؟ کب ہوتی ہے ؟ کیسے ہوتی ہے ؟ اس کے اصول تو کسی بڑے سے بڑے حکیم نے بھی نہیں بتائے تو مناسبت منجانب الله ایک چیز ہے ، بہرحال حضرت کی صحبت سے مجھے فائدہ ہوتا تھا، حضرت کی شفقتوں سے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، وہ تو تمہارے دوستوں کو اور یہاں کے حاضر باش بزرگوں کو یاد ہوں گی ، باقی سب سے بڑا فائدہ یہاں کی حاضری میں مجھے یہ ہوتا تھا ( جس کی شاید آپ حضرات توقع نہ کریں گے ) وہ یہ کہ معلوم ہوتا تھا کہ ہم یہاں بالکل عامی ہیں اور گنوار ہیں، ہمیں ان چیزوں کی ہوا بھی نہیں لگی اور یہ کہ دین کی حقیقت ان ہی حضرات کے یہاں آکر معلوم ہوتی ، اگر کوئی اور فائدہ نہ ہوتا، سوائے اس اصول اور کلی فائدے کے تو سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ کہیں تو آدمی کو یہ معلوم ہو کہ وہ کچھ نہیں جانتا، کہیں تو آدمی کو معلوم ہو کہ وہ محتاج ہے ، تو سب سے بڑی چوٹ جو یہاں آکر دما غ پر لگی تھی وہ یہ تھی کہ ہم تو بالکل عامی اورجاہل ہیں ،ہمیں تو صرف نقوش آتے ہیں، باقی دین کی حقیقت سے ہم بہت دور نظر آتے ہیں ، اس کو علامہ اقبال  نے کسی کے متعلق کہا ہے #
        سرِ دیں مارا خبر او را نظر
        او درونِ خانہ ما بیرونِ در

یعنی ہمارے لیے دین کی حقیقت سنی سنائی چیز ہے اور ان کے لیے جانچی پرکھی ، دیکھی بھالی اور چکھی ہوئی چیز ہے ، وہ گھر کے اند رہیں او رہم گھر سے باہر ، غرض بزرگانِ دین کے یہاں جا کر آدمی کی سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے ، خاص کر پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں کہ ہمیں اپنی صورت میں حقیقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے او راپنے قالب میں روح پیدا کرنے کی حاجت ہے ، یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔

سید صاحب  کا مولانا تھانوی سے استفادہ
مجھے یاد ہے کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے جب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے رجوع کیا تو ان کے بہت سے غالی معتقدین کو ناگوار ہوا اور سید صاحب سے احتجاج کیا کہ ہماری جماعت کی ایک طرح کی سبکی ہوئی کہ ہم نے آپ کو بڑا بنایا تھا، گویا آپ شیخ الکل تھے اور ہر چیز میں آپ امام کا درجہ رکھتے تھے اور آپ نے دوسرے کا دامن پکڑ لیا تو اس سے ہماری خفت ہوئی ، اس پر ایک دن سید صاحب نے فرمایا کہ یہ عجیب لوگ ہیں ، ایک طرف تو میرے معتقد بنتے ہیں دوسری طرف مجھ ہی پر اعتماد نہیں کرتے ، یعنی میں اپنا فائدہ سمجھ کر وہاں گیا تو ان کو اس سے اختلاف ہے ، گویا میرے استاد بن کر مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کہاں چلے گئے؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میں ان سے پوچھ کر وہاں جاتا، میں تو اپنا فائدہ اس میں دیکھتا ہوں اور آپ کی خاطر وہاں نہ جاؤں، گویا اس دولت سے میں محروم رہوں۔

سب سے بڑی ذہانت روح کی ذہانت ہے
ان حضرات کے یہاں جوباتیں ملتی ہیں وہ صرف نکتے اور موشگافیاں نہیں ہیں، وہ تو ذہانت کا نتیجہ ہے ، در حقیقت ذہانت کے چار درجے ہیں اور ذہانت کا آخری درجہ ہے روح کی ذہانت ۔ یہ روح کی ذہانت ایسی لطیف ہے کہ اس کا بیان الفاظ میں مشکل ہے ، جہاں سرحدیں ختم ہوتی ہیں دماغ کی ذہانت کی ( جس سے پہلے زبان کی ذہانت کا درجہ تھا) وہاں سے قلب کی ذہانت شروع ہوتی ہے اور جہاں قلب کی ذہانت کی سرحد ختم ہوتی ہے وہاں سے روح کی ذہانت کی سرحد شروع ہوتی ہے اور وہ الله تعالیٰ کے ان مخلص اور مقبول بندوں کو حاصل ہوتی ہے جن سے الله تعالیٰ تربیت کا کام لیتے ہیں،اس میں سامنے ہو نا،نہ ہونا، مسافت کا قرب وبعد ، معرفت وعدم معرفت سب برابر ہے ، کوئی چیز اس کے لیے شرط نہیں ، ان حضرات کی روح اتنی براق ، اتنی سریع الادراک ہوتی ہے ، کہ بلاکسی شرط کے خیر وشر کی تمیزان کوحاصل ہو جاتی ہے ، خصوصی طور پر ان حضرات کے یہاں جو چیز مجھے محسوس ہوتی ہے وہ یہی ہے اور یہ بھی الله تعالیٰ کا مجھ پر بہت بڑا فضل ہے کہ بغیر کسی وجہ کے، جس کی وجہ مجھے خود نہیں معلوم ،الله تعالیٰ نے ایسے بندوں کے پاس مجھے پہنچا دیا ، حضرت مولانا محمد الیاس صاحب  کے یہاں ہم نے روح کی ذہانت کے کھلے نمونے دیکھے اور پھر حضرت ( شاہ وصی الله صاحب ) میں ، میں نے ان دونوں بزرگوں میں بہت زیادہ مشابہت دیکھی اگرچہ الله تعالیٰ نے ان دونوں بزرگوں سے الگ الگ کام لیا، ذوق بھی دونوں کا الگ الگ تھا، لیکن بہت سی چیزوں میں مشارکت تھی ، خصوصاً قلب کی ذہانت او رروح کی ذہانت میں۔

فوق کل ذی علم علیم
بہرکیف میں ان حضرات کے یہاں اس لیے آیا کرتا تھا کہ کبھی تو اس پُر رعونت اور فریب خوردہ کو یہ محسوس ہو کہ وہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی چیز خطرناک نہیں ہے کہ اس کو کبھی محسوس نہ ہو کہ کوئی کوچہ ایسا بھی ہے جس سے وہ واقف نہیں اور خاص طور سے دین کے متعلق اگر یہ ذہن میں آجائے کہ مجھے سب کچھ معلوم ہے اور اب مجھے کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ، تو اس سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہے ، ایسا آدمی جوبھی دعوی ٰ کر دے بعید نہیں ہے اور اسی طرح کے لوگوں نے دعویٰ کیا بھی ہے ۔ ان لوگوں نے دعویٰ نہیں کیا جوپہاڑ کے نیچے کھڑے تھے کہ جب سر اٹھاتے تو دیکھتے کے آسمان بھی بہت اونچا ہے ۔ بلکہ جو لوگ سمجھے کہ ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے ، انسان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز محافظ نہیں او راس پر یہ بڑا فضل ہے کہ اس کو یہ معلوم ہو کہ دین کی ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں جا کر دین کی وہ باتیں سننے میں آسکتی ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ ہمارا میدان نہیں اور یہاں ہمارا گزر نہیں۔

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
کوئی شخص اگر ایسا ہو کہ بولنے پر آئے تو بولتا جائے اور لکھنے پر آئے تو لکھتا جائے اور دنیا بھر کے لوگ مل کر اس کی تعریف کرنے لگیں تو اس سے کچھ نہیں ہوتا ، بلکہ ” سرّ دین“ جس کو علامہ اقبال نے کہا ہے اس کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے او روہ الله کے ان خاص بندوں ہی کے پاس ہوتا ہے ، یہی چیز تھی جس کی وجہ سے حضرت ملا نظام الدین بانی درس نظامیہ نے سید عبدالرزاق بانسوی کا دامن پکڑا ،جو بالکل ہمارے بارہ بنکی اور لکھنؤکے دیہات کی بولی بولتے تھے، جیسے آوت ہے ، جاوت ہے ۔ ( یعنی آتا ہے، جاتا ہے ) یہ ان کی زبان تھی، مگر ملا نظام الدین  کا حال یہ ہے کہ مناقب رزاقیہ میں د یکھتے چلے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو ان کے سامنے بالکل ہیچ سمجھ رہے ہیں اور آپ ہر دور میں اس کی مثال دیکھیں گے ، تیرہویں صدی میں مولانا عبدالحئی صاحب ، جن کو شاہ عبدالعزیز صاحب  خود شیخ الاسلام کا لقب دیتے ہیں اور مولانا اسماعیل شہید جن کو ( شاہ صاحب ) حجة الاسلام کے لقب سے یاد کرتے ہیں ، چناں چہ فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام مولانا عبدالحئی اور حجة الاسلام مولانا اسماعیل شہید  اگرچہ یہ دونوں میرے عزیز ہیں اور مجھ سے چھوٹے ہیں ، مگر اظہار حق واجب ہے، اس لیے کہتا ہوں کہ الله تعالیٰ نے ان لوگوں کو وہ مقام عنایت فرمایا ہے کہ جو کمتر کسی کو حاصل ہے ، نیز فرماتے ہیں کہ ان کو مجھ سے کم نہ سمجھو ۔ تو ان لوگوں کو دیکھیے کہ سید احمد شہید  سے رجوع ہوئے، جو کہ اُمی تو نہیں تھے، مگر محض فارسی داں تھے اورجو کوئی پاس سے گزرتا اس سے پوچھتے ارے بھائی! اس لفظ کے کیا معنیٰ ہیں ذرا بتاتے جائیے۔ ان کا یہ علم تھا او رمولانا عبدالحئی سے تو انہوں نے پڑھا بھی تھا ،اس کے باوجود ان دونوں حضرات نے سید صاحب کی رکاب جو تھامی ہے تو مرتے دم تک نہیں چھوڑی، جب کوئی پوچھتا کہ آپ لوگوں نے سید صاحب میں کیابات دیکھی جس کی وجہ سے ان کی طرف رجوع کیا، حالاں کہ وہ علم میں بھی آپ کے مقابلے میں کوئی مقام نہیں رکھتے؟ تو فرماتے: بھائی! ہم کو نماز پڑھنی بھی نہ آتی تھی، انہوں نے نماز پڑھنا سکھایا، روزہ رکھنا نہ آتا تھا انہوں نے روزہ رکھنا سکھایا، نیز فرمایاکہ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ جیسی او ربہت سی چیزیں ہیں ، یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی جگہ ایسی ہو جہاں پڑھے لکھوں کو بھی جا کر معلوم ہو کہ میں کچھ نہیں ہوں، اگر خوانخواستہ ایسی جگہیں ختم ہوگئیں اور ایسے الله کے بندے نہ رہے ، اگر صرف مدّ عیانِ علم رہ گئے او رہم جیسے لوگ رہ گئے جن کے متعلق لوگ معلوم نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں تو یہ بڑے خطرے کی بات ہے #
        عالم نشود ویراں تا میکدہ آباد است

الله کا بہت بڑا فضل ہے کہ کچھ ایسے حضرات موجود ہیں، جہاں نہ کسی خوش بیانی کی ضرورت ہے او رنہ کسی بڑے وسیع مطالعہ کی حاجت، یہ سب چیزیں تو ہر جگہ موجود ہیں۔

علم کتاب وعلم لدنّی میں فرق ہے
میں تو کہا بھی کرتا ہوں او راس میں تنہا نہیں ہوں کہ آج کل کے علما کے وعظ میں میرا جی نہیں لگتا۔ جلسے کی تحقیر اور علما کی تنقیص نہیں کرتا او را س کے فائدہ کا بھی انکار نہیں ، لیکن خدا جانے کیا بات ہے ؟ بیماری ہی سمجھ لیجیے کہ میرا جی نہیں لگتا ، ہمارا جی تو بس ایسے وعظ میں لگتا ہے جس میں خالص الله اور اس کے رسول کی بات پرانے انداز سے کہی جائے او رجنت اور دوزخ کا تذکرہ کیا جائے ، چناں چہ جب یہ حضرات تقریرکرتے ہیں تو صافمعلوم ہوتا ہے کہ نہ یہ کتابی علم ہے، نہ کتابوں کی باتیں ہیں ، بلکہ یہ علمی باتیں ہیں ، سیدھی سادی دین کی باتیں او رایسے انداز سے کہی جاتی ہیں کہ ہم کو بھی اس سے فائدہ ہوتا ہے۔

حضرت مولانا کی خدمت میں بھی ہم جب آتے تھے تو معلوم ہوتا کہ جو کچھ فرمارہے ہیں وہ حقیقت ہے او ران کے یہاں لب لباب ہے ، یہ نہیں کہ ایک چیر کو خوب پھیلا کر بیان کیا جارہا ہے ، یہ چیز تو ہم کو دوسری جگہ نہیں ملتی ، ہمارے یہاں کتب خانے ہیں اور دوسرے ذرائع ہیں جن سے ہم کسی بھی مضمون کو پھیلا سکتے ہیں ، لیکن ان حضرات کے یہاں جو حقائق ہیں ان کی نوعیت ہی کچھ اور ہے ۔

مولانا جامی صاحب نے ایک عالم کا جو مکالمہ سنایا کہ میں اور جگہوں پر گیا وہاں یہ چیز محسوس نہ ہوئی جو حضرت  کی خدمت میں آکر محسوس ہوئی ، اس کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ بزرگوں کے یہاں کوئی نیا دین ، کوئی نیا علم ، کوئینئی تحقیق ، کوئی نیا انکشاف نہیں ہے ، اس بارے میں بھی لوگ بہت غلط فہمی میں ہیں ، معلوم نہیں کیا سمجھتے ہیں کہ بزرگانِ دین کے یہاں جاکر کیسے کیسے دین کے اسرارنِکات او رعجیب عجیب تحقیقات سننے میں آئیں گی ، کہیں کہیں یہ بھی ہوتا ہے ، چناں چہ محی الدین ابن عربی کے یہاں، مجدد الف ثانی اور شیخ مخدوم یحییٰ بہاری کے یہاں توایسے ایسے نکات ہیں کہ بڑے بڑے فلسفی ان کے سننے کے بعد کان پکڑ لیں او رسمجھیں کہمجھے تو علم کی ہوا بھی نہیں لگی ، لیکن ان حضرات کے یہاں سے جوچیز لینے کی ہے وہ یہ کہ صورت اور رسم میں حقیقت پیدا کی جائے او رمیں سمجھتا ہوں کہ یہی خلاصہ بھی ہے تصوف کا، جس کا مطلب گویا بس اس کے سوا کچھ نہیں کہ نماز تو پڑھتے ہیں ، صحیح نماز پڑھنے لگیں اور دین کے سارے شعبوں میں حقیقت نہیں تھی ، نیت صحیح نہیں تھی، اخلاص صحیح نہیں تھا، حقیقت پیدا ہو جائے او رنیت درست ہو جائے، نیز ان کا ادب واحترام پیدا ہو جائے ، احکام شرعیہ کا اہتمام او رانتظام یہ دونوں ہی چیزیں ضروری ہیں۔

حضرت مولانا کی تصنیف” تصوف او رنسبتِ صوفیہ“ اس سلسلہ کی بہترین چیز ہے، میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا، پھر کہہ رہاہوں کہ یہ کتاب اس قابل ہے کہ دوسری زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ کیا جا ئے اور علما خاص طو رپر اس کو پڑھیں ، کیوں کہ تصوف کی اصطلاح نے ہی اس پر پردہ ڈال دیا ہے، لہٰذا بجائے تصوف کے، جیسا کہ حضرت مولانا کا معمول تھا، اس کو ” نسبتِ احسان“ یا ”حقیقت “سے تعبیر کیا جائے، اگر سب حضرات مل کر اس بات کو قبول کر لیں او رگویا یہ کام مشکل ہے لیکن اگر ہو جائے تو کیا خوب ہے کہ منکرین تصوف سے ہمارا آدھا اختلاف تو اسی سے ختم ہو جائے گا۔

اخلاص نیت واحتساب تصوف ہے
تصوف کا لب لباب او رخلاصہ یہی ہے کہ جو کچھ ہم صبح سے شام تک کرتے رہتے ہیں، بغیر نیت کے اور بغیر کسی احتساب کے، وہ ہم احتساب اور نیت کے ساتھ کرنے لگیں۔ ہمارے اندر اصلیت پیدا ہو جائے ، نیز اس کی اہمیت پیدا ہو جائے ، گویا نمک ہے، مگر اس میں نمکینی نہیں ہے ، شکر ہے، مگر اس میں مٹھاس نہیں ہے ، مٹھاس پیدا ہو جائے ، پانی ہے، مگر اس میں برودت اور تسلی دینے اور پیاس بجھانے کی صلاحیت نہیں ، وہ ایسا ہو جائے کہ اس سے ہمارا حلق تر ہو رہا ہو ، ہمارے جسم کا ایک ایک عضو تر ہو رہا ہو او رہماری زبان سے الله کا شکر ادا ہو ، ہمارے اور پانی کے درمیان جو رشتہ ہے حقیقت میں وہ ٹوٹ گیا ہے ۔ پانی بھی موجود ہے او رہم بھی ہیں، لیکن پانی سے جو فائدہ ہم کو پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچ رہا ہے ، اس میں پانی کا نقص کم او رہمارا نقص زیادہ ہے ، بس یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے او راس کے درمیان پل ٹوٹ گیا ہے، پل تعمیر کر لیجیے، تاکہ اپنا کام کرنے لگے ، الله کی نعمتیں بٹ رہی ہیں، الله کی دنیا بالکل اسی طریقے سے ہے جیسی تھی،لیکن اس سے استفادہ کے جو وسائل تھے وہ کمزور ہو گئے ہیں۔ بقول اکبر مرحوم #
        الله کی راہ اب تک ہے کھلی آثار ونشاں سب قائم ہیں
        الله کے بندوں نے لیکن اس راہ پر چلنا چھوڑ دیا

یہی حال دین کی نعمتوں کا ہے ، قرآن وہی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات وہی ، احکام شرعیہ سب وہی اور ان پر الله کے جو وعدے ہیں سب برحق ، لیکن ہمارے او ران کے درمیان جو رشتہ ہونا چاہیے تھا اعتقاد کا ، یقین کا ، بھروسے کا اور شوق کا، وہ ٹوٹ چکاہے ، اسی کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، بس یہی چیزیں ان حضرات سے لینے کی ضرورت ہے او راسی کے وہ امام تھے ۔ ان کی تحریریں او ران کے ملفلوظات او رارشادات ابھی بھی موجود ہیں اور ان میں وہی تاثیر ہے ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت نے جو گرامی نامہ میرے نام تحریر فرمایا تھا، اس میں خواجہ محمد معصوم کی ایک عبارت بھی نقل فرمائی تھی ، جس میں﴿ففروا الی الله﴾ تحریر تھا، میں نے جب حضرت کا وہ خط پڑھا تو مجھ پر کئی دن تک اس کا اثر رہا ، خواجہ معصوم  کا مضمون بالکل ایسا ہوا کہ ایک زندہ چیز ہے او رابھی کسی الله کے بندے نے لکھا ہے ۔ ایک تو حضرت خواجہ محمود معصوم  کی تحریر،پھر حضرت  کا اس کو نقل کرنا، ان دونوں باتوں کے امتزاج سے اس میں اثر ہی دوسرا تھا۔

خدا کا شکر ہے ” جائے بزرگان بجائے بزرگاں“ آج حضرت تو نہیں ہیں، مگر حضرت کے جو معمولات تھے او ران کی اصلاح وتربیت کا جوطریقہ تھا وہ آپ حضرات نے الله کے فضل او راس کی توفیق سے جاری رکھا ہے ، حضرت  کی یہ مقبولیت اور خصوصیت ہے، ورنہ بہت سی جگہ دیکھا کہ جب وہ بزرگ اٹھ گئے تو سب چیزیں ختم ہو گئیں او روہ جگہ خالی ہو گئی ، سوا اس کے کہ جاکر زیارت کر لیجیے، کوئی پیغام وہاں سے نہیں ملتا اور دل کی دوا وہاں نہیں ملتی۔



اصلاح نفس کے لئے عالم ربانی کی ضرورت
مولانا عبدالماجد دریا بادی
مولانا عبدالماجد دریا بادی نے اپنے رسالہ ” سچائی اور ”صدق“ اور ”صدق جدید“ کے ذریعہ مادیت پرستی کی عالم گیر تحریک کی ہر برائی کا جس ہمت، استقامت، بصیرت اورمستقل مزاجی سے مقابلہ کیا ہے ، اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔ ان کی تحریروں نے پچاس سال تک برصغیر ہند کے مسلمانوں کی بہتر راہ نمائی کی ہے۔ ان کی تفسیری خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں، قرآن مجید کی اردو اور انگریزی میں تفسیر ان کا اہم کارنامہ ہے۔ برصغیر ہند میں1925ء سے لے کر 74ء تک معاشرے کی سطح پر جو بھی فتنے اٹھے، موصوف نے اپنے رسالہ کے ذریعہ ان کے خلاف قلمی جہاد کیا۔ مولانا کا ذرج ذیل مضمون ”سچائی“ 1928ء کے شمارے سے ماخوذ ہے۔

ایک صاحب کاایک بہت طویل مراسلہ آیا ہے۔ مراسلہ کا زیادہ حصہ حسب ذیل ہے۔

”مدت سے ایک ضمیری الجھن میں مبتلا ہوں اورکوئی روحانی طبیب مجھے ملتا نہیں ۔ بحیثیت مسلمان، پیری مریدی سے متعلق آپ کے حقیقت آگیں خیالات سے مستفیض ہونا چاہتا ہوں۔ خوش نصیبی یا بدنصیبی سے میرے خاندان میں دونوں شغل ہوتے ہیں ۔ مجھے کسی الله والے سے نسبت ارادت حاصل نہیں ، بہت گناہ گار ہوں، مگر قلب وضمیر کی حالت بحمدالله بہت کچھ قابل اطمینان ہے…

اسلامی نقطہٴ نظر سے پیری مریدی کے اغراض ومقاصد کیا ہیں؟
ملت مرحوم کے لیے من حیث الاسلام یہ کہاں تک لازمی ہے ؟ کیا قرن اول میں جو یقینا اسلام کا عہد سعادت تھا، ایسی مثالیں ملتی ہیں ؟ عہد نبوت وعہد صحابہ کے بعد دورِتابعین میں بھی کیا پیری مریدی کی کثرت اور نا خوش آیند بہتات تھی؟ تمسک بالکتاب والسنةکے بعد کیا یہ بھی لازمی ہے کہ کسی رسمی پیر کی پیروی کی جائے ؟ ایک مسلمان امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا پابند ہے ، الله سے ڈرتا ،سچ بولتا، مشائخ کرام اور صلحائے امت کا ادب واحترام رکھتا ہے ، لیکن عرف عام میں مرید نہیں ، کیا عندا لله وہ اس کا ذمہ دار ہے؟ اگر بیعت کا مقصد دعوت الی الحق ، رشد وہدایت وغیرہ ہے ، تو آج کل پیروں کی جماعت عموماً یہ خدمات کہاں تک انجام دے رہی ہے ؟ پھر محترم علمائے امت کی موجودگی میں، اس جماعت کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ پھر صوفیہ کرام کی جماعت میں اگر کچھ صاحبان علم وعمل افراد ہیں بھی ، تو ان میں ایسوں کا تو بالکل پتہ نہیں ، جوبلا خوف لومة لائم اظہارِ حق میں بے باک ہوں…

صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اسوہٴ حسنہ محفوظ ہیں۔ کیا ان سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں ہونی چاہییں ، ایک دین کی راہ نمائی کے لیے اور دوسری دنیا کی ۔ یا یوں کہا جائے کہ ایک مسلمانوں کے قلب وضمیر کی اصلاح کرے اور دوسری شریعت کے ظاہری احکام کی طرف راہ نمائی ؟ پھر اگر کوئی مسلمان اپنی فطری صلاحیت سے اپنی اخلاقی اصلاح کرنا چاہے تو کیا یہ ممکن نہیں؟

جناب رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کے ارشادگرامی ”من مات لیس فی عنقہ بیعة مات میتة الجاھلیة“․ کا کیا مفہوم ہے ؟ امام سے مراد امیر امت، قائد عسکر ، مرشد طریقت، امام جماعت؟لیکن اول الذکر دو صورتوں میں ہندوستان کے سات کروڑ حلقہ بگوشان اسلام کے لیے صورت تشفی کیا ہے؟

مشائخ کرام، سورہ فتح کی آیتِ کریمہ﴿ان الذین یبایعونک﴾ سے استدلال فرماتے ہیں او ربیعت طریقت کو لازمی بتاتے ہیں ۔ کیا موجود بیعتوں کو کوئی نسبت اس بیعت سے ہے ؟ اسلام میں بیعت کی مختلف صورتیں ہیں، متداول بیعتیں کس شق میں داخل ہیں ؟ ایک بیعت اس خیال سے بھی کی جاتی ہے کہ چاہے تمام عمر کچھ بھی کرتے رہیں، لیکن اگر کسی سلسلہ میں داخل ہو گئے تو ہمارے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے … اب واقعی بیعت کی دو صورتیں رہ گئیں ۔ کسی مسلمان کا پنے گناہوں سے پشیمان ہونا اور کسی محترم شخصیت کے ہاتھ پر ترک گناہ کا عہد کرنا… مگر ظاہر ہے کہ آج کل یہ خیال سرے سے پیش نظر ہی نہیں ۔ اب رہی دوسری صورت اور وہی یقینا مبارک ہے، یعنی کسی مسلمان کو پورا پورا پابند شریعت او رمتبع سنت پائے او راس کے قدم بہ قدم چل کر اپنی دنیا وعاقبت سنوارے۔ لیکن جناب محترم مجھ سے کہیں زیادہ باخبر ہیں کہ آج مسلمان اس پر کہاں تک عامل ہیں … جامعہ عثمانیہ کے ایک ممتاز فاضل سے تبادلہ ٴ خیال کا اتفاق ہوا۔ ان کی تقریر کا ماحصل یہ نکلا کہ مسلمان ان معاملات میں بھی دوسری اقوام کے عقائد وخیالات سے متاثر ہوئے او رانہوں نے کئی تاریخی شہادتوں سے استناد کیا۔“

مراسلہ نویس کے دل میں جو خیالات اور سوالات پیدا ہوئے ہیں ، بہتوں کے ذہن انہیں الجھنوں میں مبتلا ہیں اور سچ یہ ہے کہ کس سے وہ جواب اور اپنی تشفی چاہتے ہیں ، وہ خود بھی نہ ابھی تک کسی کے مرید ہیں اور نہ ان الجھنوں سے آزاد ہو ہوئے ہیں ۔ بیمار کے علاج کے لیے ضرورت طبیب کی ہے، نہ کہ کسی دوسرے بیمار کی۔ تاہم بعض پرانے مریض طبیبوں کی باتیں سنتے سنتے خود بھی کچھ نیم طبیب سے ہو جاتے ہیں او رگوخود بدستور بیمار چلے جاتے ہیں ، لیکن اپنے ان تجربوں سے نئے مریضوں کی ایک گونہ ہمدردی ودل دہی کرسکتے ہیں۔

سب سے پہلے ایک اہم حقیقت کو پیش نظر کر لینا چاہیے ، جو اگرچہ بالکل صاف، واضح اور غیر اختلافی ہے ، لیکن اکثر ذہن سے نکل جاتی ہے اوراسی کے نظر انداز ہو جانے سے طرح طرح کی غلط فہمیاں اور الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ خالص دینی علوم بھی آج جن با آئین وباضابطہ صورتوں میں موجود ہیں اور جو مصطلحات ان میں رائج ہیں ، عہد رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم میں، ان میں سے کوئی شے بھی نہ تھی اور اس خاص لحاظ سے یہ سب ” بدعت“ ہی ہیں ۔ خود سنت رسول صلی الله علیہ وسلم ہی کو لیجیے۔ آج فن احادیث وسنن ایک مستقل ومخصوص فن ہے ، جس میں صدہا اصطلاحات ہیں ، جس کے اصول پر تصانیف کا ایک دفتر ہے ، جس کی مختلف شاخیں اور شعبے ہیں اور جس کے سیکھنے کے لیے برسوں کی محنت او راساتذہٴ کاملین کی ہدایت کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ عہد رسالت صلی الله علیہ وسلم میں یہ کچھ بھی نہ تھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معمولی سادہ گفتگو کا نام ”حدیث“ اور روزانہ زندگی کا نام سنت تھا۔ محدثین کرام کی کاوشوں کو کوئی شخص ” بدعت“ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا، یہی حال ائمہ تفسیر کی نکتہ سنجیاں اور ائمہ فقہ کے قیاس ، اجتہاد ، واستنباط کا ہے ۔ لغوی معنی کے لحاظ سے یہ سب کچھ بدعت ہی ہے ، لیکن اگر حقیقةً بخاری ومسلم ، ابوحنیفہ ومالک رحمہم الله کی جاں فشانیوں سے یکسر قطع نظر کر لی جائے ، تو شریعت اسلام کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ خود صحیفہٴ ربانی تک ، اس ہیئت وترتیب وتدوین کے ساتھ مکتوبی صورت میں ، عہد رسالت میں کہیں یک جا موجود نہ تھا۔

بات بالکل صاف اور موٹی ہے، لیکن ذہن انسانی کا خاصہ ہے کہ اکثر سامنے کی چیزوں کو بالکل بھلائے رکھتا ہے اور دور دور کی باریکیوں میں الجھنے لگتا ہے ۔غرض جو حال فقہ کا ہے ، تفسیر کا ہے ، حدیث کا ہے ، ٹھیک وہی حال تصوف وسلوک کا ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہ لفظ ”تصوف “ موجود تھا۔ نہ”لفظ“ صوفی اور نہ ” احوال“ و” مقامات“ ”اذکار“ و”اشغال“ کی وہ سینکڑوں دوسری اصطلاحیں، جن سے موجودہ تصوف بھرا پڑا ہے۔

”پیری“ و”مریدی“ کے الفاظ بھی اس زمانہ میں ناپید تھے۔ پس جہاں تک لفظ واصطلاح کا تعلق ہے ، یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ تصوف اور پیری مریدی بدعت ہے ۔ لیکن اس معنی میں خود فن حدیث بھی بدعت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہ کوئی فن ” اسماء الرجال“ تھا، نہ ”جرح“ و”تعدیل“ کے اصول وقواعد مدون تھے، نہ ”ضعیف“ و” موضوع“ کی اصطلاحیں وضع ہوئی تھیں اور نہ کوئی دماغ ”متواتر“ و” صحیح“ ” حسن“ و”غریب“ کی بحثوں سے آشنا ہوا تھا، لیکن لفظ واصطلاح کی بحث سے گزر کر، اگر اصل حقیقت تک پہنچنا مقصود ہے، تو جس طرح ہر صحابی ، بزم رسول صلی الله علیہ وسلم کا ہر صحبت یافتہ ، دربار رسول صلی الله علیہ وسلم کا ہر حاضر باش، مفسر تھا، محدث تھا اور فقیہ تھا، اسی طرح صوفی بھی تھا۔ اور بلا استثنا ہر صحابی مرید بھی تھا۔ سب کے پیر، مرشد کامل ، سرکار رسالت صلی الله علیہ وسلم تھے۔

کہا جاتا ہے کہ تمسک بالکتاب والسنة کے بعد، کسی رسمی پیر کے مرید ہونے کی ضرورت کیا رہتی ہے؟ سارا مغالطہ سوال کے لفظ ”رسمی“ میں میں موجود ہے۔ ”رسمی“ تو کسی شے کی بھی ضرورت نہیں۔ نہ رسمی اسلام کی ، نہ رسمی اتباع رسول صلی الله علیہ وسلم کی ، نہ رسمی تمسک بالکتاب کی۔ لیکن حقیقی اسلام، حقیقی ایمان، حقیقی تمسک بالکتاب والسنة ، بغیر کسی زندہ شخصیت کے توسط کے ممکن کیوں کر ہے ؟ اور اسی زندہ شخصیت کا اصطلاحی نام” پیر“ ہے ، ” مرشد“ ہے ، ” صاحب بیعت وارشاد“ ہے ۔ ابوبکر وعمر ، عثمان وعلی، حسن وحسین رضی الله عنہم اجمعین سے بہتر فطری صلاحیت واستعداد کس میں موجود ہو سکتی ہے ، پھر جب ان کے لیے ایک زندہ شخصیت صلی الله علیہ وسلم کا اتباع ناگزیر رہا تو اور کسی کو کب مفر ہو سکتا ہے ؟ حدیث کی جن کتابوں کو ہم سر چشمہٴ تقدیس سمجھ رہے ہیں ،ان کے نقوش وحروف، ان کے کاغذ کی سفیدی اور الفاظ کی سیاہی میں کیا رکھا ہوا ہے، ان میں جو کچھ تقدس ہے وہ سارے کا سارا اسی بنا پر تو ہے کہ ان کے اندر کسی زندہ شخصیت کی روح کس حد تک محفوظ ہے ، یہ روح مردہ کاغذ کے مردہ طومار میں تو محفوظ ہو جائے اور زندہ انسان کے زندہ قلب میں نہ محفوظ ہو سکے! یہ روح الماریوں کے سفینوں میں تو منتقل ہو جائے اورپاکوں اور پاکبازوں کے سینوں کو منور نہ کر سکے!

قرآن، رسول کا تو کلام نہیں، الله ہی کا کلام ہے اور بندوں کی ہدایت ہی کے لیے نازل ہوا ہے ۔ یہ بھی ہم سب کا ایمان ہے اور خود قرآن بار بار اس کا دعویٰ کرتا ہے کہ اس میں ساری ضروری ہدایات، تفصیل وتشریح کے ساتھ موجود ہیں۔ بایں ہمہ یہ نہ ہوا کہ قرآن براہ راست تمام بندوں کے پاس پہنچ جاتا۔ منکرین او رمومنین اسے آسمان سے اترتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ، کسی اونچے پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا مل جاتا ، یا ایک روز جب صبح ہوتی تو اس کا ایک ایک نسخہ ہر شخص کے سرہانے رکھا ہوا موجود ہوتا، اس طرح کی تو کوئی چیز بھی نہ ہوئی ۔ بلکہ الله نے اس کے بالکل برعکس طریقہ یہ اختیار کیا کہ پہلے ایک انتہائی بد کار قوم کے درمیان ایک پاک اور برگزیدہ ہستی پیدا کی ، چالیس بر س کی عمر تک اس شخصیت کو اس قوم کے درمیان ہر قسم کے سابقہ کے ساتھ رکھا اور اس کی طینت وسیرت کے ایک ایک جزئیہ کی جانچ اور پرکھ کا پورا موقع دیا۔ جب یہ سب مراتب طے ہوچکے، اس وقت کہیں جاکر پیام کا نزول شروع ہوا، لیکن اس وقت بھی ”پیام“ کے پیش کرانے سے قبل ”پیام بر“ کی شخصیت ہی کو پیش کرایا گیا اور جب قوم اس شخصیت کے صادق وامین ہونے کا اقرار کر چکی ، تب اس سچے کی زباں سے سچی باتیں کہلائی جانی شروع ہوئیں۔ اس پر بھی سارے پیام کویک بیک اور دفعةً نہیں پیش کر دیا گیا، بلکہ پیامبر کی شخصیت پر مختلف او رمتعدد دور حاوی کرکے …23 برس کی طویل مدت میں ، بہت ہی تدریج کے ساتھ اس پیام کو پہنچایا گیا۔ پس نظری اور ربانی طریقہ تو یہی ہے کہ پہلے پیام بر پھر پیام، پہلے طبیب، پھر نسخہ، پہلے ہادی پھر ہدایت۔ اب اگر ہم اس ترتیب کو الٹ دینا چاہیں، اگر ہادی سے بے نیاز ہو کر ہدایت تک اور شخصیتوں سے قطع نظر کرکے محض اصول وسائل تک پہنچ جانا چاہیں تو یہ ترتیب ربانی سے جنگ کرنا ٹھہری۔

یہ نہ خیال گزرے کہ یہ طریق ودعوت وہدایت صرف وحی الہیٰ کے ساتھ مخصوص تھا، بلکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد اپنے قصد وارادہ کے ساتھ یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔ آپ نے یہ نہ کیا کہ قرآن مجید کے نسخوں کی نقلیں کثرت سے کراکے محض انہیں اطراف ملک میں بھیج دیا ہوتا، یا اپنے اقوال وسنن کو ضبط تحریر میں لا کر ملک میں ان کے نسخوں کی اشاعت کر دی ہوتی، بلکہ آپ نے صحابیوں کی جماعت پیدا کی ، اشخاص پیدا کیے ، جو اپنی زندگیوں میں آپ کی تعلیم اور آپ کے عمل کے عملی نمونہ تھے اور دین کی روشنی آپ نے ان زندہ شخصوں کے ذریعہ سے پھیلائی ۔ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے یہ کبھی نہ کیا کہ کسی گوشہ میں تشریف فرماہو کر ، سکون وخاموشی کے ساتھ قلم وکاغذ لے کر تصنیف وتالیف میں مشغول ہو جاتے اورحسن عمل وحسن اخلاق پر مقالات تیار فرمانے لگتے، بلکہ آپ نے اپنی نورانیت سے قلوب کر منور کرنا شروع کیا او راپنی پاکیزگی کے عکس سے دوسروں کے سینوں کو پاک بنا دیا۔ رسول صلی الله علیہ وسلم نے کچھ تصنیفات اپنی یاد گار چھوڑیں؟ ہاں! بے شبہ چھوڑیں، لیکن وہ کاغذ کے طومار، اور سیاہی کے ڈھیر نہیں ، وہ وگوشت وپوست کے بنے ہوئے جسم اور تقویٰ وطہارت میں ڈھلی ہوئی روحیں تھیں۔ ان تصانیف کا شمار ہزار ہاتک پہنچتا ہے، چند مشہور ترین کے نام ابوبکر رضی الله عنہ وعمر رضی الله عنہ، عثمان رضی الله عنہ، علی رضی الله عنہ تھے، پھر یہ حضرات بھی کتابی تصنیف وتالیف پر ایک لمحے کے لیے متوجہ نہ ہوئے ۔ انہوں نے بھی زندہ ہستیوں کو اپنے نمونہ پر ڈھالنا شروع کیا اور اپنے شاگردوں کے جسموں میں اپنی روحیں پھونکنے کا عمل جاری رکھا۔ ” صحابہ“ تابعین“ اور ”تبع تابعین“ یہ سب کون تھے ؟ شاگردوں کی جماعت ،مریدوں کی جماعت، بیعت کرنے والوں کی جماعت، ارادت رکھنے والوں کی جماعت۔

مادی علوم میں آج کون سا علم اور دست کاری کے پیشوں میں آج کون سا پیشہ ایسا ہے ، جس میں استاد کی مدد لازمی نہیں ؟ پھر روحانیت کا علم ، جو ان تمام علوم سے زیادہ لطیف ، تزکیہ نفس کافن، جوان تمام فنون سے زیادہ دشوار، الله کی معرفت ، جوہر شے سے زیادہ نازک ہے ، ممکن ہے کہ اسی میں ” استاد“ کی ضرورت نہ پڑے ؟ اس سفر میں تو قدم قدم پر راہ نماناگزیر ہے ۔ اسی راہ نما یا ایسے استاد کااصطلاحی نام پیر ومرشد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علماء کے ہوتے ہوئے ، پیروں کی ضرورت کیا ہے ؟ لیکن یہ ” مولیوں“ اور”پیروں“ کی موجودہ تفریق بھی تو ہماری آپ کی قائم کی ہوئی ہے، اسلام اس کا ذمہ دار کب ہے ؟ اسلام تو ”صادقین“ ”متقین“ ”مومنین“”صالحین“” محسنین“ کی جو جماعت پیدا کرنا چاہتا ہے ، اس میں اس تفریق کا گزرہی نہیں ۔ وہ ہستیاں تو علم وعمل ، قول وفعل، فقہ وفقر، دونوں کی جامع ہوتی تھیں۔ یہ تفریق تو سینکڑوں دوسری تفریقوں کی طرح، دور انحطاط او رامت کی بدبختی وبداقبالی نے پیدا کر رکھی ہے اور وہی اس کی ذمے دار ہے۔

مریدی کا اصلی راز، پیر کی صحبت ہے۔ چناں چہ لفظ”صحابی“ بھی ”صحبت“ ہی کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے او رپیر کے مفہوم کی جانب بھی اشارہ ہو چکا ہے ، یعنی وہ شخص جس کے نفس کا تزکیہ اس حدتک ہو چکا ہے کہ وہ اپنی رفاقت سے دوسرے کے نفس کا بھی تزکیہ کر دے ، وہ کامل جو دوسروں کو بھی کامل بنا سکے ، مصلح جس کی ہم نشینی دوسروں کی فطری صلاحیتوں کو ابھار دے ۔ پس مرید ہونے کے معنی ، اس سے زائد کچھ نہیں کہ جس کے پاک وصالح ہونے پر بھروسا ہو ، جس کے تزکیہ نفس پر اعتماد ہو ، یا بہ اصطلاح صوفیہ اس سے قلب کو ارادت ہو ، اس کی خدمت میں اطاعت ونیاز مندی کے ساتھ حضوری کی جائے اور یہ مریدی، کلام مجید کے حکم ﴿وکونوا مع الصادقین﴾ کی عین تعمیل ہے … آیت کے الفاظ یہ ہیں ﴿یا ایھا الذین آمنوا، اتقوا الله وکونوا مع الصادقین﴾، محض ایمان کافی نہیں ۔ ایمان والوں سے ہی تو خطاب ہے۔ ایمان تو پہلے ہی قائم ہو چکا ہے ۔ اب اس کے بعد حکم ہوتا ہے کہ الله سے تقوی اختیار کرو ، صدق دل سے نمازیں پڑھو، روزے رکھو، ادائے حقوق کرو ، وغیرہ۔ لیکن یہ سارے اعمال بھی کافی نہیں، بلکہ دوسرا حکم یہ ملتا ہے کہ صادقوں کی معیت اختیار کرو، راست بازوں کی صحبت میں رہو ، پاکوں کی پیروی کرتے رہو اور یہ مریدی ہے۔

اتباع رسول کا نام لیا گیا ہے لیکن رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کی زندگی محض خارجی اعمال اور ظاہری اعمال کے مجموعہ کانام نہ تھا۔ پیکر خاک کے اندر نور پاک جلوہ گر تھا۔ اس نور کی تجلی ریزیاں ہر گھڑی اور ہر لمحہ ہوتی رہتی تھیں۔ تمام صحابہ رضی الله عنہم ہر حیثیت سے مساوی نہ تھے اپنا اپنا ظرف اوراپنی اپنی نظر تھی۔ حضرت خالد میدان جہاد کے کماندار ہوئے، حضرت بلال رضی الله عنہ کسی کی نگاہ ناز کے خود ہی گھائل ہوئے ، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ روایات حدیث کی اشاعت کرتے رہے، حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کی قسمت میں ترجمان القرآن بننے کی سعادت آئی، حضرت حسین بن علی رضی الله عنہما کو خاک کربلا میں تڑپنا او رخون میں نہانا نصیب ہوا۔ ہر صاحب کا مذاق طبیعت جدا گانہ تھا۔ قدرة ایک بڑی اطاعت کی توجہ امور خارجی پر زیادہ مبذول رہی ۔ اور اس کا بڑی تفصیل سے مطالعہ ہوتا رہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں ہاتھ سینے پر باندھا یا ناف پر ، آمین آہستہ فرمائی یا آواز سے ، لیکن ایک دوسری جماعت بھی برابر موجود رہی ، جس کی نظر ظاہر سے زیادہ باطن پر ، قال سے زیادہ حال پر رہی ، یہ خوش نصیب تھے ، جنہوں نے محض ”فتح مکہ“ کی جلوہ طرازیوں کا تماشا نہیں دیکھا، بلکہ ”غارِحرا“ کی خلوت آرائیوں کا مزہ بھی چکھا، جنہوں نے محض ﴿حرض المؤمنین علی القتال ﴾ہی کا پیام نہیں سنا، بلکہ﴿ سبحان الذی اسری﴾ کی حقیقت کو بھی پہچانا اور جن کی نگاہیں محض یہیں تک محدود نہیں رہیں کہ نماز کی کتنی رکعتیں پڑھی گئیں ، بلکہ یہاں تک بھی پہنچیں کہ نماز کس دل سے پڑھی گئی، کس ذوق شوق سے ادا کی گئی اور قلب کے اندر خضوع وخشوع کی کیا کیفیتیں رہیں۔ شجرہٴ تصوف وطریقت کے سر سلسلہ یہی بزرگان کرام ہوئے ہیں۔

اس نعمت کے حصہ دار کم وبیش تمام صحابیان کرام رضی الله عنہم تھے، لیکن خصوصیت کے ساتھ اس دولت سے مالا مال، حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت حذیفہ، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوعبیدہ، حضرت ابودرداء، حضرت ابوہریرہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت عمران بن حصین، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہم وغیرہم تھے۔ چناں چہ صوفیہ کے قدیم تذکرے انہیں حضرات سے شروع کیے گئے ہیں ۔ اور تصوف کی بعض قدیم ترین تصانیف میں تو حضرت عمر  اور حضرت عثمان کو بھی صراحت کے ساتھ اساطین تصوف میں شمار کیا ہے ۔

شریعت وطریقت کے درمیان کوئی تخالف یا تضاد مطلق نہیں، بلکہ اکابر طریقت کے حسب تصریح کمالِ شریعت ہی کا نام طریقت ہے ۔ اتباع رسول صلی الله علیہ وسلم جب تک محض ظواہر تک محدود ہے ، اس کا نام شریعت ہے او رجب قلب وباطن بھی نورانیت رسول صلی الله علیہ وسلم سے منور ہو گیا تو یہی طریقت ہے ۔ ایک شخص نے نماز حسب قواعد مندرجہ کتب پڑھ لی ، شریعت کی رو سے یہ نماز جائز ہو گئی ۔ طریقت اسے کافی نہ سمجھے گی ۔ وہ اس پر مصر ہو گی کہ جس طرح چہرہ کعبہ کی جانب متوجہ رہا، قلب بھی رب کعبہ کی جانب متوجہ رہے او رجس طرح جسم حالت نماز میں ظاہری نجاستوں سے پاک رہا ، روح بھی باطنی آلایشوں، پریشان خیالیوں سے پاک رہے ۔ یہ شریعت کی مخالفت ہوئی یا منشا شریعت کی عین تکمیل؟ حضرت اکبر نے اس مقام اور اس منزل کی توضیح اپنے مخصوص انداز میں کی ہے #
        شریعت در محفل مصطفی
        طریقت عروج دل مصطفی
        عبادت سے عزت شریعت میں ہے
        محبت کی لذت طریقت میں ہے
        شریعت میں ہے صورت ”فتح بدر“
        طریقت میں ہے معنی ”شق صدر“
        شریعت میں ہے قیل وقال حبیب
        طریقت میں حسن وجمال حبیب
        نبوت کے اندر ہیں دونوں ہی رنگ
        عبث ہے یہ ملا وصوفی کی جنگ

آخر یہ ارشاد بھی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہی کا ایک باخبر سائل کے جواب میں ہے ، کہ:

” قال: ما الاحسان؟ قال: ان تعبد الله کانک تراہ، فان لم تکن تراہ، فانہ یراک“․ (بخاری، کتاب الایمان)

”احسان نام اس کا ہے کہ تو الله کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔“

پوری حدیث میں ایمان کے معنی بعض عقائد کے بتائے گئے ہیں اور اسلام کے معنی بعض اعمال کے ارشاد ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ، احسان، کی یہ توضیح فرمائی گئی ہے۔ گویا عقیدہ وعمل کے بعد ایک تیسری منزل ، ان دونوں سے بلند تراحسان کی آتی ہے، جس کا تعلق محض جاننے اور کرنے سے نہیں ، بلکہ ”مشاہدہ“ و ”رویت“ سے ہے۔ یہی منزل، تصوف وطریقت کی منزل ہے۔ چناں چہ شاہ ولی الله نے”اہل تصوف“ کے بجائے ”اہل احسان“ ہی کی اصطلاح اختیار کی ہے ۔ اور شاید” اہل صدق“ و”صدیقین“ کی اصطلاحیں بھی یہی کام دے سکیں۔ لیکن یہ ساری بحثیں محض لفظی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ایمان کے اجزا اور اسلام کے ارکان تو کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوسکتے ہیں ، ایمان وعمل کے ظاہری اور خارجی پہلو تو کتابوں سے دریافت ہو سکتے ہیں ، لیکن قلب کو مرتبہ احسان تک پہنچا دینا، تزکیہٴ باطن، تجلیہ نفس، تطہیر اخلاق، بغیر ایک زندہ شخصیت ، بغیر ایک مرشد کامل کی وساطت کے کیوں کر ممکن ہے ؟ جو قانون اور ضابطے کتابوں میں درج کرنے والے تھے، حدیث وآثار وفقہ کی کتابوں میں مدون ہوتے رہے، لیکن جن چیزوں کا تعلق وجدانیات وکیفیات سے ہے ، وہ تحریر میں کیوں کر آسکتی تھیں، وہ تو ایک قلب سے دوسرے قلب پر اپنا عکس ڈال سکتی ہیں۔

یہ مرشد کوئی خودرو اور خود رائے ہستی نہیں ہوتی ، بلکہ جس طرح آپ قرآن کی ساری عبارت کو محض سند متصل کی بنا پر کلام الہیٰ مانتے چلے آتے ہیں ، جس طرح آپ بخاری کی کسی روایت کو محض اس لیے کلام رسول صلی الله علیہ وسلم تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ معتبر سند تسلسل کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت ہوئی ہے ، ٹھیک اسی طرح اس مرشد کا قلب بھی ، ایسے مضبوط واسطوں کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قلب مبارک سے ملا ہوا ہوتا ہے ۔ اس کا رابطہٴ روحانی بھی ، ایسی ہی زنجیر کی مضبوط کڑیوں کی طرح، سرچشمہ ٴ تقدس وروحانیت سے جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ جس طرح امام بخاری  اورامام مسلم ( الله ان کی تربتوں کو ٹھنڈارکھے) ”آثار رسول“ و”اخبار رسول “ کو اپنے ضخیم دفتروں میں ضبط وفراہم کرتے رہے ، اسی طرح حسن بصری وجنید ، ”اسرار رسول“ ”انوار رسول “ سے اپنے سینوں کو منور کرتے رہے ادھر رسول کا ”قال “ ایک سفینے سے دوسرے سفینے میں نقل ہوتا رہا ، ادھر رسول کا ”حال“ ایک سینے سے دوسرے سینے کو طور سینا بناتا رہا۔ دونوں شعبوں کی جامعیت ، عہد صحابہ ہی میں ، صرف تھوڑے سے خوش نصیبوں کے حصے میں آئی ، پھر آج چودھویں صدی میں اس کی تلاش پر کیوں اصرار ہے ؟ تاہم زمانہ اب بھی یکسر خالی نہیں ۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن او رمولانا شاہ بدرالدین  کی مبارک ہستیاں، اسی چودھویں صدی میں تھیں۔

سوال کیا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنی فطری صلاحیت سے اپنے اخلاق کی اصلاح کر لینا چاہے، تو کیا یہ ممکن نہیں؟ جواب میں ایک دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی عقل سلیم کی مدد سے خالق ومخلوق کے حقوق پوری طرح ادا کرنے لگے تو کیا یہ کافی نہیں ؟ نہیں اور یقینا نہیں۔ اگر محض عقل سلیم اور صلاحیت فطری ، خدا شناسی کے لیے کافی ہے ، تو کیا کتابوں کے نازل کرنے، انبیائے کرام کے بار بار بھیجنے او ران سے منکرین کے جدال وقتال کا سارا نظام، معاذ الله بے کاروعبث ہی ٹھہرتا ہے۔

یہ تنگی نہیں ، عین وسعت اورسختی نہیں ، عین رحمت ہے کہ دین اورمعرفت دین کی نزاکتوں کا بار، محض قوائے عقلی پر نہیں ڈال دیا گیا، بلکہ اس کے لیے تو اسے عقلی سے کہیں برتر وبلند ترقوت، وحی الہٰی سے امداد بہم پہنچائی گئی اور اس نعمت غیر مرئی کو اجسام انبیاء کرام کی شکل میں مرئی ومجسم کرکے پیش کیا گیا اور دنیا پر ان کی پیروی فرض کی گئی ۔ لفظ فرض اچھی طرح ذہن میں رہے۔ محض مستحب یا مستحن نہیں، انبیائے کرام خصوصاً سب سے آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیروی ،فرض اور قطعی فرض ہے ۔ اگر آج کوئی شخص محض عقلی دلائل سے یا اپنے باطن کی اشراقیت کو بیدار کرکے ، اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ صحیح عقیدہ، عقیدہٴ توحید ہے اور نماز اور روزہ وغیرہ میں بے شمار فوائد ہیں تو ایسے شخص کا شمار ہر گز مسلموں میں نہیں،کیاجاسکتا، اس لیے کہ اس نے ان مسائل کو صحیح راستہ سے، پیروی رسول صلی الله علیہ وسلم سے ، اتباع وحی سے نہیں حاصل کیا، مسلم بننے کے لیے رسول کے لائے ہوئے دین کی ، رسول صلی الله علیہ وسلم کے نمونے کی پیروی لازمی ہے۔ اور اسلام اور عدم اسلام کے درمیان یہی ایک شے فرق وامتیاز پیدا کرنے والی ہے۔

جب پیروی رسول ناگزیر ٹھہری تو سوال یہ ہے کہ پیروی رسول کے معنی کیا ہیں ؟ کیا محض الفاظ رسول کو قبول کر لینا مراد ہے ؟ کیا محض ہیئت عبادت رسول کا اقتدا مقصود ہے؟ کلام مجید میں ایک جگہ نہیں ، متعدد بار اور کنایہ، نہیں صراحتاً اتباع رسول کا حکم وارد ہوا ہے ۔ جہاں کہیں بھی یہ حکم آیا ہے اپنی مطلق وغیر مقید صورت میں آیا ہے ۔ یہ نہ کہیں ارشاد ہوا ہے، نہ کہیں سے یہ نکلتا ہے کہ امت کے لیے رسول صلی الله علیہ وسلم کے صرف ظاہر کی پیروی کافی ہے او رباطن کی پیروی غیر ضروری ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جس طرح ہمارے لیے اسوہٴ حسنہ کا حکم بلحاظ اپنی نماز کی تعداد رکعات کے ، رکوع وسجود کے ، قیام وقرات کے رکھتے ہیں، اسی طرح وہ نماز میں خشوع وخضوع کے لحاظ سے ، ذوق ووجد کے لحاظ سے، کیف واستغفراق کے لحاظ سے بھی ہمارے لیے اسوہٴ حسنہ کے حکم میں داخل ہیں۔ پس جب باطن رسول کی پیروی بھی ویسی ہی ضروری ٹھہری جیسی ظاہر رسول کی تواب ارشاد ہوا کہ اس پیروی باطن کی صورت کیا ہے ؟ رسالت کے لفظ اور ظاہر کی پیروی تو کتابوں کے ذریعہ سے ممکن ہے ، پر معنی او رباطن کی پیروی کا کیا ذریعہ ہے ؟ اخبار رسول تو مجلدات کے الٹ پلٹ سے ہاتھ آسکتے ہیں ، لیکن انوار رسول صلی الله علیہ وسلم کا عکس کس آئینہ میں نظر آئے؟

﴿بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوعلیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة﴾․

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے اصلی مقاصد کلام مجید میں ، امت پر تلاوت آیات کے بعد دوبتائے گئے ہیں، ایک تزکیہٴ نفوس، دوسرے تعلیم وتشریح ،کتاب وحکمت۔ تشریح کتاب وحکمت کا سامان تو امام بخاری اور امام مسلم کی وضاحت سے بحمدالله ہو گیا، لیکن اس سے بھی مقد م تر مقصد ”تزکیہ“ کی آخر کیا صورت ہے ؟ ” مرشد کی تلاش“ ایک زندہ نائب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معیت، انہی سوالات کا جواب ہے ؟

یہ مرشد، صحیح معنی میں ، مقلد ہوتا ہے، ”آئینہ“ کے پیچھے ” طوطی صفت“ رہ کر ” استاد ازل“ کے سبق کی تکرار کرتے رہنے سے ، اس کا کام زائد نہیں۔ کوئی نیا مجاہدہ، ایجاد واختراع کرنا، ہر گز اس کا کام نہیں ۔ لیکن ” اجتہاد“ ”استنباط“ کا دروازہ تو مقلدوں کے ائمہ فقہ اور غیر مقلدوں کے ائمہ حدیث کے لیے کھلا ہوا ہے ، پھر رحمت عام کا وہ دروازہ غریب صوفی ہی کے حق میں کیوں بند کر دیا جائے؟ وہ ایجاد واختراع کی بدعت سے یقینا بچے گا۔

جس طرح اہل ظاہر اپنے ” فہم“ و”قیاس“ و”استنباط“ کو معطل نہیں کر دیتے ، اپنے ”کشف“ اپنے ”وجدان“ اپنے”اشراق“ کو سرے سے معطل نہ کر دے گا۔ جب کبھی بھی لکھے گا، یقینا شفاخانہ نبوت ہی کے قرابا دین سے لکھے گا، لیکن وقت کے مزاج وخصوصیات، موسم کے حالات،آب وہوا کے اثرات وغیرہ کی رو سے اجزائے نسخہ کی ترکیب اس کی اپنی ہو گی ۔ یہ اس کی خودرائی نہیں، عین بدعت نہیں، عین پیروی سنت ہو گی۔

بڑی مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ دلیل کے مقدمات میں مثالیں ، بہروں او رجعلسازوں کی پیش نظر رہتی ہیں او رنتائج نکالتے وقت سرے سے حقیقت کا انکار کر دیا جاتا ہے ! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر پیتل کی دمک پر آپ کو کئی بار سونے کا دھوکا ہو چکا ہے تو اب آپ سرے سے سونے ہی کے وجود کے منکر ہو چلے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر بیعت کا مقصد دعوت الحق ہے تو پیروں کی جماعت آج کہاں تک اس فرض کو ادا کر رہی ہے؟ سوال معقول ہے ، لیکن تلاش کو یہیں ختم نہ ہو جانا چاہیے ، بلکہ مزید سوالات بھی پیش ہونے چاہئیں کہ آج علمائے ظاہر کہاں تک اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں؟ قومی راہ نماؤں میں سے کتنوں کے عمل ان کے دعووں کے موافق ہیں؟ ایڈیٹروں میں کس حدتک خلوص وصداقت ہے ؟ مسلمان تاجروں کو کہاں تک دیانت واکل حلال کا خیال ہے ؟ وقس علیٰ ہذا۔ ظاہر ہے کہ کوئی طبقہ بھی اپنے اصلی معیار پر قائم ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا ہی کیوں پڑتے؟! لیکن بَدوں کی اکثریت کی بنا پر نیکوں کی اقلیت سے منکر ہو جانا، ہر گز نہ حق کے مطابق ہے، نہ عقل کے۔ نفی حکمت کمسن ازبہردل عامے چند! سینکڑوں ہزاروں بدنام کرنے والوں کے ہجوم میں کچھ سچے صوفی تو اس وقت موجود ہیں۔

حضرت شاہ ولی الله القول الجمیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ رسم بیعت اور بیعت صرف بیعت خلافت تک محدود نہیں، بلکہ عہد نبوی میں بیعت کی کئی صورتیں رائج تھیں، مثلاً بیعت اسلام، بیعت ہجرت، بیعت جہاد وغیرہ۔ اور صوفیہ کی مروّجہ بیعت، بیعت تقویٰ کی قسم میں داخل ہے ۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں تو اس بیعت کی علیٰحدہ ضرورت ہی نہ تھی ، اس لیے کہ قلوب ونفوس، شرف صحبت رسول صلی الله علیہ وسلم سے خود ہی نورانی تھے، خلفائے راشدین کے بعد فتنہ کے خوف سے اور بیعت خلافت کے ساتھ اشتباہ والتباس سے یہ بیعت موقوف رہی اور صوفیہ اس بیعت کا قائم مقام خرقہ کو سمجھتے رہے ۔ جب ملوک وسلاطین کا دور آیا او ربیعت خلافت بند ہو گئی تو صوفیہ کرام نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر سنت بیعت کی از سر نوتجدید کی۔ آگے چل کر حضرت شاہ ولی الله دہلوی جہاں بیعت لینے والے مرشد کے اوصاف کو شمار کراتے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ فرماتے ہیں:

”والشرط الخامس ان یکون صحب المشایخ، وتادب بھم دھرا طویلا، واخذ منھم النورالباطن والسکینة، وھذا لان سنة الله بان الرجل لا یفلح الا اذا رای المصلحین کما ان الرجل لایتعلم بصحبة العلماء وعلی ھذا القیاس غیر ذلک من الصناعات علی ھذا القیاس“․

پانچویں شرط یہ ہے کہ مشائخ کی صحبت میں ان سے طویل عرصہ تک ادب حاصل کرے اور اس سے نور باطن واطمینان حاصل ہو اور یہ شرط اس لیے ہے کہ سنت الہٰی یوں جاری ہے کہ کسی انسان کو مراد نہیں ملتی، جب تک اس نے مراد پانے والوں کو نہ دیکھا ہو ، جس طرح علم نہیں حاصل ہوتا ، بغیر صحبت علماء کے اور دوسرے پیشے بغیر استاد کے…

مضمون یوں ہی بہت طویل ہو گیا ہے، اگر مزید طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو حضرت شاہ صاحب کے اس ارشاد کی کہ حصول فیض کے لیے کسی زندہ شخصیت کی صحبت لازمی ہے، کلام مجید سے تشریح کی جاتی اور مرشد کی ضرورت، نیز مرشد پر واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام سے استدلال کیا جاتا۔ نیز انسان کے آگے، جو حقیقةً خلیفة الله ہے، سر نہ جھکانے کی وعید پر واقعہ حضرت آدم وابلیس سے روشنی ڈالی جاتی ہے، وہیں رسوم صوفیہ اور خرقہ، ذکر وغیرہ۔ سوان کا لازمی تعلق تلاش مرشد ومقصد بیعت سے نہیں، تاہم اگر ان رسوم کی مسنونیت، سلاسل صوفیہ کی سند رسول کریم صلی الله علیہ وسلم تک معلوم کرنے سے دلچسپی ہو تو شیخ شماسی کی السمط المجید ملاحظہ کی جاسکتی ہے، جو دائرة المعارف، حیدر آباد دکن سے شائع ہو چکی ہے.





عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه أنه قال علمني رسول الله صلي الله عليه وسلم سبعين بابا من العلم لم يعلم ذلك أحدا غيري.[كتاب اللمع في التصوف؛ للطوسي : صفحه # ١٩]


Akaabir ka Sulook (اکابر کا سلوک و احسان)

مئی 22, 2009
Akr_Slkتصوف کے مقصد و حقیقت ایک متفق علیہ اور بدیہی حقیقت ہے لیکن اس کو وساءل کے بارے میں غلو اور افراط سے لینے اور دوسرے اصطلاح پر غیر ضروری حد تک زور دینا اور اس پر بیجا اصرار کرنے نے تصوف کی حقیقت و مقصدیت کو نقصان پہنچایا ہے۔پیش نظر رسالہ میں اپنے وقت کے ایک مصلح و مربی اور شیخ زمانہ نے ان ہی حقاءق کا اظہار اور ان ہی مقاصد کی پردہ کشاءی فرماءی ہے اور غلط فہمیوں کو دور کیا ہے جو اس راہ کے مبتدیوں اور کام کار صوفیوں کو پیش آتی ہیں اور کبھی مستقل ارشادات و ذاتی تجربات کے ضمن میں کبھی اپنے مشاءخ اور بزرگوں کی حکایات کے ضمن میں تصوف کا لب لباب بیان فرمایا ہے اور ان مغالطوں اور خود فریبیوں کا پردہ چاک کیا جن میں اچھے اچھے لوگ گرفتار نظر آتے ہیں۔نیز شیخ سے استفادہ کے ان آداب و شراءط کا ذکر کیا ہے جن کے بغیر طویل صحبت و زیادہ سے زیادہ اظہار عقیدت کے باوجود بھی حقیقی نفع نہیں پہنچتا۔اللہ سے دعا ہے کہ مرتب کی یہ مساعی مشکور اور ان کا یہ عمل مفید و مقبول ہو۔آمین

Baiat ki Sharai Hesiat (بیعت کی شرعی حیثیت)

مئی 22, 2009
Byt_Hqtصوفیاء کی بہت سی چیزوں پر لوگوں کو اعتراض ہے۔ حالانکہ بیعت صوفیاء کے یہاں لازم نہیں۔مگر اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے ہے۔حضرات صوفیاء کرام میں جو بیعت کا معمول ہے جس کا حاصل معاہدہ ہے التزام احکام و اہتمام اعمال ظاہری و باطنی کا جس کو ان کے عرف میں بیعت طریقت کہتے ہیں۔زیر نظر رسالہ اس سلسلے میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ کی تقریر ہے۔ جس میں بیعت کی حقیقت پر روشنی ڈالی گءی ہے۔ اللہ اس رسالہ کے مولف ؛ مرتب؛ اور اشاعت و ترویج میں مدد دینے والوں کو صراط مستقیم پر استقام اور دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق عطا فرماءے اور ان کی اس سعی کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرماءے۔ آمین

Tasawwuf kya h? (تصوف کیا ہے؟)

دسمبر 13, 2008
twf_kyhیہ مختصر کتاب جو دراصل چند مقالات کا مجموعہ ہے؛ اس کی اشاعت سے ہماری خاص غرض اور امید یہی ہے کہ دین کے اس تکمیلی شعبہ )سلوک و تصوف( کی جو واقعی نوعیت اور افادیت ہے اور دین میں اس کا جو حقیقی مقام ہے ؛ اللہ کے باتوفیق بندے اس سے واقف ہو کر اس خیر کثیر اور اس دولت عظمی کو حاصل کریں جو اس راستہ سے حاصل کی جاسکتی ہے اور لاکھوں بندگان خدانے حاصل کی ہے اور ا سکے بارے میں آجکل کے اکثر ذہنوں میں جو شکوک و شبہات اور الجھنیں حقیقت ناشناسی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے وہ صاف ہوں۔

Manazil-e-Sulook (منازل سلوک)

نومبر 11, 2008
mnz_slkزیر نظر رسالہ میں مولف نے تصوف کے بعض مساءل اور اہم مقامات سلوک کو قرآن پاک کی آیات سے مدلل فرمایا ہے کیوں کہ بعض اہل ظاہر تصوف کو شریعت اور سنت سے علیحدہ کوءی چیز قرار دیتے ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ تصوف کے بارے میں غلط فہمی رکھنے والے حضرات کیلیے مشعل راہ ثابت ہو۔آمین
In this era of less knowledge of Islam and weaker willingness to act upon the religion, few people take undue advantage of this approach and propagate their false approaches the true Islam in the name of Islam. One of the most important aspect of Islam is Tasawwuf and Sulook, which is also affected by this and they propagate the false meaning of the subject as two separate things. The author felt the necessity of the issue and explain in a plain language covering all the related issues. May Allah Bless us with the right path and understanding of the Truth. Ameen

Shariat-o-Tariqat ka Talazum (شریعت و طریقت کا تلازم)

نومبر 11, 2008
shr_tlz1دور حاضر میں یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ مخصوص گروہ اپنے مضموم مقاصد کی تکمیل کیلیے اور فہم دین کی کمی اور طباءع کی نزاکت کا فاءدہ اٹھاتے ہوءے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ شریعت الگ ہے اور طریقت الگ ہے۔ وقت کی اس اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوءے مولف کتاب نے اس نازک موضوع کی حقیقت حال کی وضاحت کا بیڑا اٹھا یا اور اپنی دیگر تصانیف کی طرح اس فرض کو خوب نبھایا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ سب کو حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرماءے اور مولف کتاب اور ہماری اس ناچیز کاوش کو اپنی بارگاہ میں مقبول فرماءے۔آمین
In this era of less knowledge of Islam and weaker willingness to act upon the religion, few people take undue advantage of this approach and propagate their false approaches the true Islam in the name of Islam. One of the most important aspect of Islam is Tasawwuf and Sulook, which is also affected by this and they propagate the false meaning of the subject as two separate things. The author felt the necessity of the issue and explain in a plain language covering all the related issues. May Allah Bless us with the right path and understanding of the Truth. Ameen

No comments:

Post a Comment